تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 30%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78932 / ڈاؤنلوڈ: 5338
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار عهد امير المومنينعليه‌السلام

مو لف : سيد مرتضى عسكرى

مترجم : سيد على اختر رضوى گوپالپوري طاب ثراہ

۳

مقدمہ مترجم

محترم قارئين كے پيش نظر موجودہ كتاب ''احاديث ام المومنين عائشه '' كا ترجمہ ہے ، كتاب كا متن مشہور محدث علامہ مرتضى عسكرى نے لكھا ہے_

مو لف كتاب كے مذہبى ، معاشرتى و علمى خدمات اس قدر ہيں كہ دوست اور دشمن سبھى تحسين و ستائشے كرتے ہيں ، جنكى تفصيل كيلئے مستقل كتاب كى ضرورت ہے _

انہيں جناب كى علمى و ثقافتى خدمات كا ايك نمونہ ، احاديث ام المومنين عائشه ہے ، دانشور مو لف نے اس كتاب ميں عائشه كے انكار و عقايد اور اوصاف و اخلاق كو بھر پور طريقے سے واضح كر كے ان كى نفسيات قارئين كے سامنے مجسم كردى ہيں عائشه كے واقعى چہرے سے انھيں واقفيت ہو جاتى ہے _

عائشه كى حيات و زندگى پر مشتمل يہ كتاب ان كے زمانے ميں پيش انے والے اہم واقعات و حوادث كا تجزيہ پيش كرتى ہے _

ليكن محترم مو لف كا اس كتاب لكھنے سے اصل مقصد يہ نہيں كہ عائشه كے حالات زندگى لكھے جائيں ، بلكہ بلند تر اور وسيع تر مقصد پيش نظر ہے ، وہ چاہتے كہ وہ احاديث جو عائشه سے مروى ہيں انكا تحليل و تجزيہ كيا جائے ، انكا صحت و سقم اور وقعت و اعتبار كى حديں واضح كى جائيں _

اس عميق اور وسيع الذيل بحث سے قبل اس كتاب ميں مقدمہ كے عنوان سے بعض ان تاريخى حوادث كا تذكرہ كيا گيا ہے جن ميں عائشه نے مداخلت كى ، مو لف نے ان كا تحليل و تجزيہ كر كے اخلاقى حالت شخصيت اور جس راوى نے اسے بيان كيا ہے اسكا واقعى قيافہ پيش كيا ہے جس سے روايات كى قدر و قيمت اور عيار و ميزان واضح ہوتا ہے _

مولف محترم نے انھيں وقائع سے بھر پور حيات عائشه كے تجزيے كو مقصد قرار ديتے ہوئے يہ كتاب لكھى ہے ، اور انھيں متعدد فصلوں پر تقسيم كيا ، ان ميں حساس ترين مندرجہ ذيل تين قسميں ہيں _

۱_ عائشه ، عثمان كے زمانے ميں

۲_ عائشه، حكومت على كے زمانے ميں

۳_ عائشه ، حكومت معاويہ كے زمانے ميں

۴

حصّہ اوّل كا ترجمہ ، فاضل ارجمند جناب اقاى سردار نيا كے قلم سے ہوا ہے ، اور نقش عائشه در تاريخ اسلام كے نام سے شائع ہوا ، حصّہ دوم بھى مولف محترم كے حكم سے ترجمہ كيا گيا ہے ، جو موجود ہ كتاب كى شكل ميں ، قارئين كے پيش نظر ہے ، اسكا تيسرا حصّہ بھى خدا كى مددسے جلد ہى شائع كيا جائے گا _

اخر ميں چند باتوں كى ياد دہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے _

۱_ چونكہ اصل كتاب عربى ميں ہے ، فارسى داں حضرات ميں چند ہى اس سے استفادہ كر سكتے تھے ، فارسى زبان ميں ترجمہ ہونے سے اسكى افاديت عام ہوگئي ، اسكا مقصد ہى يہى ہے كہ تمام لوگ اس سے بہرہ مند ہوسكيں ، اس لئے جہاں اصل مطلب ميں ضرورت سمجھى گئي ، توضيحى حواشى كا اضافہ كيا گيا ، تاكہ وہ تمام لوگ بھى استفادہ كر سكيں جنھيں تاريخى اصطلاحات سے پورى اشنائي نہيں ركھتے _

۲_ مندرجہ بالا مقصد كے پيش نظر ترجمہ ء كتاب كے سلسلے ميں ازاد اسلوب اختيار كيا گيا ہے _

۳_ ممكن حد تك مو لف كے مقصد كا تحفظ كرتے ہوئے مطالب كو ايك دوسرے سے علحدہ كر ديا گيا ہے ، كہيں كہيں اصل كتاب كے مطالب ميں اضافہ بھى كيا گيا ہے تاكہ قارئين كو تھكن كا احساس نہ ہو

۴_ اگر قارئين كرام درميان مطالب تاريخى فقروں ميں تكرار كا مشاہدہ كريں تو اسے عيب اور نقص نہ سمجھيں ، كيونكہ اس كتاب كے محترم مو لف نے محض ايك تاريخى تسلسل كے بيان پر اكتفا نہيں كيا ہے ، بلكہ وہ چاہتے ہيں كہ حوادث تاريخى كو واضح انداز ميںبيان كر كے حقائق كو روشن اور نماياں كريں، اس بلند مقصد كيلئے نا گريز تھا كہ حادثات و واقعات كے تسلسل كو تھوڑے فرق كے ساتھ مختلف اسناد كے پيش نظر متعدد كتابوں كے حوالے سے درج كئے جائيں ، تاكہ تمام جزئيات سامنے اجائيں _

اسى وجہ سے اس كتاب ميں بعض واقعات تاريخى كے مدارك و ما خذ كے اختلاف كى وجہ سے تكرار پيدا ہو گئي ہے ، ظاہر ہے كہ يہ تكرار نقص يا عيب نہيں سمجھى جا سكتى بلكہ اس قسم كے اسلوب تحرير كوخوبى واعتبار كے حساب ميں ركھا جاتا ہے تاكہ جن حقائق كو پيش كيا جارہاہے وہ زيادہ سے زيادہ واضح ہو سكيں _

''واللہ ولى التوفيق و ھو يھدى السبيل ''

محمد صادق نجمى _ ھاشم ہريسي

قم المقدسہ ۱۳۹۳ھ

۵

مقدمہ مولف

ہمارے پيش نظر جو تحقيق و تجزيہ ہے اسكا مقصد نہ تو علم كلام كے درپئے ہونا ہے نہ فقہى يا تاريخى اور دوسرا كوئي مقصد واضح لفظوں ميں كہا جائے كہ ہم نہيںچاہتے كہ كسى گروہ كے عقائد وافكار كى تنقيد كريں ، يا كسى دوسرے گروہ كے عقائد كے بارے ميں صفائي ديں يا اسكى طرفدارى كريں ، ہم يہ بھى نہيں چاہتے كہ كسى كى ستائشے و تعريف اور دوسرے كى مذمت و بد گوئي كريں _

پھر ہم يہ بھى نہيں چاہتے كہ كوئي فقہى بحث چھيڑ كے حكم قتل اسلامي اسلامى فقہ كے اعتبار سے تحليل و تجزيہ كريں ، يہاں تك كہ ہمارا مقصد تاريخ نويسى بھى نہيں ہے كہ ہميں اس بات كى ضرورت ہو كہ تمام تاريخى حوادث كو تفصيل سے نقل كريں _

بلكہ ہمارا مقصد يہ ہے كہ بعض تاريخى حوادث كو مدارك اصلى و اولين كو معتبر كتب تاريخ سے نقل كر كے قارئين كرام كے حوالے كرديں تاكہ ان كا مطالعہ كركے عائشه كى شخصيت اور واقعى قيافہ پہچان سكيں ، ان كے افكار و عقائد اور روحانى علامتوں كو سمجھ سكيں ،نتيجے ميں ائندہ زير بحث انے والى انكى روايات و احاديث كى قدر و قيمت اور اعتبار واضح ہو سكے گا ، اس طرح انكى احاديث كے تحقيق و تجزيے كى راہ ہموار ہوگى _

يہى وجہ ہے كہ ہم نے اس كتاب ميں ان حوادث كو نظر انداز كيا ہے جو ہمارى بحث و تحقيق سے ربط نہيںركھتے تھے ، صرف انھيں وقائع و حوادث تاريخى كو نقل كيا ہے جو ميرے مقصد سے مربوط ہيں ، كيونكہ اس قسم كى واقعات نقل كرنے سے عائشه كى عجيب اور پيچدار شخصيت اور انكا سياسى و فكرى تدبر نماياں ہوتا ہے ، كہ وہ لوگوں كے افكار اپنى طرف مائل كرنے كى كسقدر مہارت ركھتى تھيں ، كسطرح دو خلفاء كے پائے حكومت كو متزلزل كر ڈالا ، ان ميں سے ايك (عثمان )كو قتل كرنے كا فتوى صادر كيا اور اپنا فتوى موثر بنانے كى راہ ہموار كى ، كيونكہ اگر انھوں نے فتوى نہيںديا ہوتا تو عثمان قتل نہ ہوتے ، خليفہ كا خون بہانے اور مرتبہء خلافت كى ھتك و حرمت برباد كرنے كى جرائت نہ ہوتى _

پھر يہ كہ انہوں نے كس طرح اپنى سياسى سوجھ بوجھ سے عثمان كے قتل ہونے كے بعد تيزى كے ساتھ ، بڑى اسانى سے ، ان سے اپنى سابقہ دشمنى و عداوت كے لباس كو بدل كر ، ان كے خون كا بدلہ لينے اور طرفدارى كرنے كا مظاہرہ كيا _ جى ہاں _ عائشه ايسى ہى زيرك اور ماہر تھيں كہ انہوں نے واقعى قاتل سے اپنى بيزارى ظاہر كى اور اپنے كو

۶

ان كا طرفدار، اور قصاص لينے والا ، متعارف كرايا انتہائي تعجب كى بات تو يہ ہے كہ انہوں نے عثمان كے قاتلوں اور دشمنوں كو ان كے دوستو ں اور فرزندوں كے ساتھ ايك ہى لشكر مين ايك ہى صف ميں كھڑا كر ديا ، اسطرح عثمان كى خونخواہى كا لشكر ترتيب ديديا _

واقعى وہ بڑى مہارت ركھتى تھيں ، كہ حضرت علىعليه‌السلام قتل عثمان ميں ذرہ برابر بھى شريك نہيں تھے ، انھيں پر قتل كا الزام تھوپ ديا اور انھيں كو قاتل كى حيثيت سے متعارف كرايا ، انكى وہ سابقہ عظمت و بزرگى جو انھيں اسلامى معاشرے ميں حاصل تھى ، انھيں يكسر حرف غلط بنا كر عوام كو ان كے خلاف بغاوت پر امادہ كر ديا _

جى ہاں ، يہ بے نظير سياسى صلاحيت اور عجيب و غريب توانائي عائشه ہى سے مخصوص ہے ، جنكا نام تاريخ ميں مشھور ہ ہوگيا ، اور بر جستہ شخصيت تاريخى حيثيت سے پيش كيا جاتا ہے _

افسوس كى بات يہ ہے كہ آج تك عائشه كے بارے ميں ان كے كردار كا صحيح طريقے سے تحليل و تجزيہ نہيں كيا گيا ہے ، نہ انكا واقعى قيافہ نماياں كياگيا ہے ، اس بارے ميں بہت سے حقائق سے پردہ نہيں اٹھا يا جا سكا _

اب ميں خدا ئے تعالى سے دعا كرتا ہوں كہ ہمارى اس راہ ميں مدد فرمائے ، كہ ميں اس تاريك گوشے كو واضح كر سكوں ، ان حقائق سے پردہ اٹھا سكوں ، عائشه كى شخصيت جيسى كہ ہے ، اسكى نشاندہى كرسكوں ،تاكہ اس طرح انكى احاديث كى قدر و قيمت اور حدود و اعتبار معلوم ہوسكے_

سيد مرتضى عسكري

۷

بيعت كے بعد

حساس ترين فراز

جس وقت عثمان قتل كر دئے گئے ، اورمسلمانوں كے تمام معاشرتى و سياسى امور ان كے ہاتھوں ميں وآپس اگئے ، خليفہ كى بيعت ہونے كى وجہ سے انكى گردنيں محدود اور دوسرا منتخب كرنے كى راہ مسدود تھى ، جب وہ اس سے رہائي پاگئے تو سب نے باہم حضرت علىعليه‌السلام كى طرف رخ كيا آپ كے گرد ہجوم كرليا كہ آپ كى بيعت كر كے آپكو خليفہ منتخب كر ليں _

طبرى نے اس واقعے كو يوں لكھا ہے كہ :

رسول خدا (ص) كے اصحاب حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے اكر عرض كرنے لگے كہ يا علي مسلمانوں كے خليفہ عثمان قتل كر دئے گئے ، اور آج بھى تمام مسلمان ايك امام اور سر پرست كيلئے مجبور و ناچار ہيں ، اور انكى سرپرستى كے لئے آپ سے زيادہ موزوں اور لائق تر ہم كسى كو نہيں جانتے ، كيونكہ اسلام ميں آپ كى سابقہ زندگى سب سے زيادہ مفيد اور رسول خدا (ص) سے قرابت بھى سب سے زيادہ ہے _

اميرالمومنين نے انھيں جواب ديا :

نہيں ، تم لوگ ہميں يہ پيشكش ہر گز نہ كرو ، خلافت مير ے گلے مت منڈھو ، كيونكہ ميرے لئے خليفہ كا مشير اور وزير ، ہونا اس سے كہيں بہتر ہے كہ ميں كرسى خلافت پر ٹيك لگائوں _

اصحاب نے كہا : نہيں ، خدا كى قسم ، ہم آپ سے دستبردار نہيں ہونگے جب تك آپ ہمارى قبول نہ كرليں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا: اب جبكہ ميرے لئے تمھارى بيعت قبول كر لينے كے سوا چارہ نہيں ، تو ہونا يہ چاہيئے كہ مراسم بيعت مسجد ميں تمام مسلمانوں كى رضا و رغبت سے ظاہر بظاہر ہو _

اس كے بعد طبرى نقل كرتا ہے :

تمام مسلمانوں نے ، جن ميں طلحہ و زبير بھى تھے ، حضرت على كے اس ہجوم كى شكل ميں ائے اور يوں كہا :

يا على ہم آپ كے پاس اسلئے ائے ہيں كہ آپ كى بيعت كريں ، اور آپ كو خلافت و امامت كے لئے چن ليں _

۸

امير المومنين نے ان لوگوں كے جواب ميں فرمايا :

مجھ سے باز ائو ، مجھے ميرے حال پر چھوڑ دو ، كيونكہ مجھے خلافت و حكومت كى ضرورت نہيں ہے ، ميں بھى تمھارى ہى طرح ايك مسلمان ہوں ، جسے بھى اس عہدے كيلئے مناسب ديكھو اسكے ہاتھ پر بيعت كر لو ، خدا كى قسم ميں بھى اس پر راضى ہو جائوں گا ، اور تمھارے اس اقدام پر كسى قسم كا اعتراض نہيں كروں گا _

ليكن وہ حضرت علىعليه‌السلام كے ارشاد پر راضى نہ ہوئے ، انھوں نے بڑى سختى كے ساتھ زور ديتے ہوئے كہا :

يا على ، خداكى قسم ، ہم آپ كے سوا كسى كو بھى مسلمانوں كى رہبرى و پيشوائي كے لئے منتخب نہ كريں گے _

اس كے بعد طبرى لكھتا ہے :

عثمان كے قتل ہونے كے بعد عوام جتھ بنا كر اجتماعى شكل ميں كئي مرتبہ حضرت على كے پاس ائے ، اور ان سے تقاضہ كيا كہ مرتبہ خلافت كو قبول كر كے مسلمانوں كى حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليں ، ليكن امير المومنين نے ا ن لوگوں كے تقاضوں كا اثبات ميں جواب نہيں ديا ، انكى خواہش پورى نہيں كى ، مسلمانوں نے اخرى بار ان كے پاس اكر كہا كہ ، ياعلى ، اگر خليفہ كے انتخاب و تعين كا معاملہ اس سے زيادہ طول پكڑے گا تو مسلمانوں كے انتظامى معاملات چوپٹ ہو جائيں گے ، اس صورتحال ميں آپ جيسے لائق سر پرست كيلئے لازم ہو جا تا ہے كہ مسلمانوں كے امور كى اصلاح فرمائيں ، انكى اجتماعيت كى طوفان زدہ كشتى كو نجات و رہبرى كے ساحل پر لگائيں ، اب يہاں پر حضرت على نے لوگوں كو مثبت اور كار گر جواب ديا آپ نے فرمايا :

تم لوگوں نے حد سے زيادہ ميرے اوپر دبائو ڈالا ، حد سے زيادہ اصرار كيا ، ميرے سوا كسى كو قبول كرنے پر امادہ نہيں ہو ، تو اب ميرى بھى ايك پيشكش ہے ، اگر تم لوگوں نے اسے قبول كيا تو ميں بھى تم لوگوں كى بيعت قبول كرنے پر امادہ ہوں ، ورنہ كبھى تم لوگوں كى بيعت قبول نہ كروں گا ، نہ خلافت كا سنگين بوجھ كاندھے پر لونگا _

انہوں نے كہا: يا على ، آپ جو فرمائيں ہميں جان و دل سے قبول ہے ، پھر سارے عوام مسجد كى طرف چلے ، وہاں مجمع ہوا ، حضرت على بھى مسجد ميں تشريف لائے ، منبر پر جاكر اسطرح گفتگو شروع كى _

اے لوگو ميں نہيں چاہتا كہ كرسى خلافت پر بيٹھوں اور تم پر حكومت كروں ، ليكن اخر كيا كروں ؟ تم لوگ مجھے

۹

نہيں چھوڑ تے ميرے كاندھے پر يہ سنگين بوجھ ڈالنا ہى چاہتے ہو _

ميںپہلے سے تم لوگوں كے سامنے يہ خاص بات ركھ دينا چاہتا ہوں اور تم سے اس پر عہد لينا چاہتا ہوں كہ ميرى خلافت كے دوران يہ دو باتيں سختى سے عملى جامہ پہن لينگى كہ :

۱_ طبقاتى امتياز ات ختم ہو جائيں گے _

۲_ تمام مسلمانوں كے درميان مساوات كا سختى سے نفاذ ہو گا ، ہاں ، ميرى خلافت كے زمانے ميں اس قانون كو عام ہونا چاہيے ، يہاں تك كہ ميں بھى ، جو تمھارا حاكم ہوں ، تمھارا بيت المال اور دولت كے تمام اختيارات ميرے قبضے ميں ہيں ، ميں بھى حق نہيں ركھتا كہ دوسرے لوگوں كے حقوق سے ايك درہم زيادہ لے لوں ، پھر امام نے مزيد فرمايا ، اپنى حرص وطمع كے دانت كند كرلو ، كسى قسم كے معاشرتى امتياز كى توقع نہ ركھو ، مجھ سے اضافى حقوق نہيں لے سكو گے ، كيا تم لوگ ان متذكرہ شرائط پر ميرى خلافت سے راضى ہو ؟ سب نے ايك زبان ہو كر كہا ، ہاں ، ياعلي

اس وقت امير المومنين نے دعا كى ، خدايا تو اس عہد پر گواہ رہنا ، اسكے بعد مسلمانوں كے ہاتھ بيعت كيلئے بڑھنے لگے اور مراسم بيعت شروع ہوئے(۱)

بلاذرى كہتا ہے: گروہ در گروہ مسلمان تيزى اور كامل اشتياق كے ساتھ حضرت علىعليه‌السلام كى طرف بڑھنے لگے ، وہ يہ بھى نعرے لگا رہے تھے ، ہمارے على امير المومنين ہيں ہمارے على امير المومنين ہيں ، ہمارے على امير المومنين ہيں _

يہ نعرے لگاتے ہوئے علىعليه‌السلام كے گھر ميں داخل ہوئے اور كہا :

يا على ، آپ خود بہتر جانتے ہيں كہ مسلمانوں كے لئے حاكم ہونا ضرورى ہے ، ہم نے بھى آپ كو اپنا پيشوا ، امام بناياہے اب ہم ائے ہيں تاكہ آپ كى بيعت كريں اور اسلامى خلافت كے معاملات و حالات آپ كے حوالے كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے جواب ميں فرمايا :

خليفہ اور امام كا انتخاب صرف تمھارے اجتماع سے انجام پذير نہيں ہو سكتا ، بلكہ ان لوگوں كو بھى شريك ہونا چاہيئے

____________________

۱_ طبرى ج۵ ص ۱۵۲ ، كنز ل العمال ج۳ ص ۱۶۱ ، ترجمہ فتوح ابن اعثم ج۲ ص ۲۴۳

۱۰

جو جنگ بدر ميں شامل تھے ، يا جنھيں سبقت اسلامى كا شرف حاصل ہے ، انھيں كى رائے اور مشورے سے خليفہ متعين ہو تا ہے _

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كى بات بدرى صحا بہ كے كانوں ميں پڑى وہ تمام لوگ بھى آپ كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہنے لگے _

يا على ہم نے آپ كو منتخب كيا ، ہاں ، آپ ہى كو _

كيونكہ آپ كے ہوتے كسى كے لئے خلافت سزا وار نہيں ، اور اس جگہ كے لئے آپ سے زيادہ بہتر اور موزوں دوسرا كوئي شخص نہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب انكى بات سنى اور انكى رائے حاصل كر لى تو منبر پر تشريف لے گئے ، اور لوگوں كو خبر دار كيا كہ ميں نے خلافت قبول كر لى ہے ، مسلمانوں كے ہاتھ حضرت علىعليه‌السلام كى طرف بڑھنے لگے اور مراسم بيعت كا اغاز ہو گيا ، طلحہ پہلے شخص تھے جنھوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كى ، اتفاق سے ان كا ہاتھ شل تھا ، كہتے ہيں كہ اس عيب پر حضرت علىعليه‌السلام نے بدشگونى سمجھى اور فرمايا ، دير نہيں گذرے گى كہ يہ اپنا عہد توڑ ڈالے گا(۲)

ليكن طبرى نقل كرتا ہے كہ ،جس وقت طلحہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كى حبيب بن ذ ويب نے ديكھ كر كہا ،يہ بيعت پورى نہ ہو گى كيونكہ پہلا ہاتھ جو بيعت كيلئے بڑھا ہے ناقص اور معيوب ہے(۳) ليكن جو بھى صورت ہو ، مدينے والے اس بيعت كو طلحہ كے مشلول ہاتھ كى وجہ سے بدشگونى سجھ رہے ہوں ليكن عائشه نے اس كو نيك شگونى خيال كيا ، اور خوشحال ہو كر كہا كہ اب مدينے والے طلحہ كے اس ناقص ہاتھ پر بيعت كر كے انھيں كو خليفہ منتخب كريں _

____________________

۲_ انساب الاشراف ج۱ ص ۷۰ ، حاكم ج۳ ص ۱۱۴

۳_ طبرى ج۱ ص ۱۵۳

۱۱

جب فرمان قتل ، انتقام ميں بدل گيا

خلافت عثمان كے اخرى ايام ميں عائشه حالات خلافت سے سخت كبيدہ خاطر ہو گئي تھيں ، كيونكہ دو خلافتوں كے زمانے ميں وہ جن حالات سے بہرہ مند تھيں ، ان سے قطعى محروم ہو چكى تھيں ، يہى وجہ تھى كہ عائشه نے مخالفت عثمان كا پرچم بلند كيا تھا ، اس مہم ميں جٹ گئيں ، شہروں شہروں خطوط لكھے تاكہ عثمان كے روش سے مسلمانوں ميں جو برہمى

ہے وہ شورش اور انقلاب كا روپ دھار لے جب اتش فتنہ مشتعل اور اپنے كو كامياب ديكھا تو مكّہ كى راہ لى وہيں سكونت پذير ہو گئيں اور ہر لمحہ قتل عثمان اور بيعت طلحہ كا انتظار كرنے لگيں _

اس سلسلے ميں طبرى لكھتا ہے :

ايك دن اخضر نام كا شخص مدينے سے مكّہ گيا ، عائشه نے اسے ديكھ كر پوچھا مدينے كا كيا حال ہے ؟

اخضر نے جواب ديا ، عثمان نے مصر والوں كو قتل كر ڈالا

عائشه چلّائيں ،انالله وانا اليه راجعون ، واقعى اب عثمان نے اپنى سركشى اس حد كو پہونچا دى ہے كہ جو لوگ ، اپنے حق كے لئے ظلم كے خلاف كھڑے ہوئے ہيں انھيں قتل كر ڈالتا ہے ؟ خدا كى قسم ميں اس ظلم و زيادتى پر كبھى راضى نہيں ہو ں گى ؟

اس كے بعد ايك دوسرا شخص ايا ، عائشه نے اس سے بھى پوچھا تم نے مدينے كے كيا حالات ديكھے ؟

اس نے جواب ديا ، مصر والوں نے عثمان كو قتل كر ڈالا ، عائشه نے كہا ، كتنى حيرت كى بات ہے كہ اخضر نے قاتل كو مقتول سمجھ ليا تھا ، اسى تاريخ سے عربى زبان ميں يہ كہا وت بنگئي كہ فلاں شخص تو اخضر سے بھى زيادہ جھوٹا ہے _

بلا ذرى لكھتا ہے :

جس وقت قتل عثمان كى خبر مكے ميں عائشه كو ملى تو حكم ديا كہ مسجدالحرام ميں ضميہ لگا يا جائے ، انھوں نے خيمے ميں جا كر يہ خطبہ ديا _

اے لوگو ، سمجھ لو كہ ميں عثمان كى روش كى وجہ سے پيش گوئي كرتى ہوں كہ وہ ايك دن اپنى قوم اور مسلمانوں كے ہاتھوں بد بختى كا شكار ہو گا ، جسطرح ابو سفيان جنگ بدر ميں اپنى قوم كے ہاتھوں بد بختى كا شكار ہو ا _(۴)

____________________

۴_ انساب ج۵ ص ۹۱ ، كنز العمال ج۳ ص ۱۶۱

۱۲

اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ جس وقت عثمان كى خبر مكے ميں عائشه كو ملى تو كہا ، عثمان رجعت خدا سے دور ہو ، وہ اپنے كالے كرتوتوں كى وجہ سے تباہى گھاٹ لگا ، كيونكہ خدا تو كسى پر بھى ظلم نہيں كرتا _

كبھى كہتيں ، خدايا اسے اپنى رحمت سے دور كر دے اسكے گناہوں كى وجہ سے ورطئہ ہلاكت ميں جھونك

دے ، اسطرح وہ اپنے كيفر كردار كو پہونچ گيا، اے لوگو ، قتل عثمان كى وجہ سے تم ہرگز غمگين نہ ہو ، قوم ثمود كا احمر جس نے ناقہء صالح پئے كيا تھا اور قوم ثمود كو ہلاكت ميں ڈالا تھا ، عثمان بھى اسى طرح تمھارے درميان باعث فساد و اختلاف نہ بن جائے

اگر عثمان قتل ہو گيا تو يہ لو ،يہ طلحہ موجود ہے ، يہ تمام لوگوں ميں سب سے لائق اور بہتر شخص ہے ، اسى كى بيعت كرلو اور اختلاف و تفرقہ سے بچو _

عائشه ان باتوں كے بعد جس قدر جلد ممكن ہوا تيزى سے مدينے كى طرف چليں ، راستے بھر مدينے كے اوضاع و حالات كا پتہ لگاتى رہيں ، ليكن طلحہ كے خليفہ ہونے ميں ان كو ذرا بھى شك وشبہ نہ تھا(۵)

عائشه نے مدينے كى راہ تيزى سے طئے كى وہ اس فكر ميں غلطاں تھيں ، وہ بدبداتى رہيں_

(عثمان وہى يہودى شخص ، عثمان ا پنى عياريوں اور حماقتوں كا مجموعہ ، رحمت خدا سے دور ہو عثامن كو الگ كرو_ مجھ سے طلحہ كى بات كرو ، وہى جو ميدان جنگ كا شير ہے ، ميرے چچيرے بھائي طلحہ كى بات مجھ سے كرو ، اے طلحہ كيا كہنا تمھارے بآپ كا جس نے تمھارے جيسا فرزند پيدا كيا لوگوں نے بڑا اچھا انتخاب كيا ہے ، انھوں نے صرف طلحہ كو خلافت كيلئے مناسب سمجھا ، اسى كو خلافت كے لئے منتخب كيا ، ہاں صرف وہى اسكے لائق بھى ہے ، گو يا دور سے ميرى انكھيں ديكھ رہى ہيں كہ لوگ بڑھكر اسكى بيعت كررہے ہيں ، ميرى سوارى تيز ھنكائو ، تيز ھانكو تاكہ ميں اسكے پاس پہونچ جائوں )

عائشه اسى غوطے ميں تھيں ، مدينے كى راہ طئے كر رہى تھيں كہ اثنائے راہ عبيد بن ام كلاب(۶) كا سامنا ہوا ، وہ مدينے سے ارہا تھا ، اس سے پوچھا ، اے عبيد مدينے كى كيا خبر ہے ؟

____________________

۵_ كيونكہ طلحہ خليفہ اول كے چچيرے بھائي تھے ، اس خاندان كے ہونے كى وجہ سے خلافت سے قربت حاصل تھى ، ليكن عا ئشہ نے رسول (ص) كے چچيرے بھائي كے بارے ميں يہ رائے ظاہر نہيں كى

۶_ عبيد قبيلہ ليث كى فرد تھا، اسكا عا ئشہ سے مكالمہ اكثر مورخوں نے لكھا ہے ، جيسے طبرى ج۵ ص۱۷۲ ، ابن اثير ج۳ ص۸۰ ، طبقات بن سعد ج۴ ص۸۸ ، كنز العمال ج۳ ص۱۶

۱۳

عبيد نے جواب ديا ،لوگوں نے عثمان كو قتل كر ڈالا ، اور اٹھ دن بغير سر پرست رہے _

عائشه نے جھٹ سے پوچھا ، اسكے بعد كيا ہوا ؟

x عبيد نے كہا خدا كا شكر كہ بخير و خوبى كام انجام پا گيا ، مسلمانوں نے پورى د ل جمعى اور ايك دل و زبان ہو كر على بن ابى طالب كى بيعت كرلى ، انھيں كو امام منتخب كر ليا _

عائشه نے كہا ، خدا كى قسم ، اگر خلافت كا معاملہ على كے حق ميں تمام ہوا ہے تو اسمان پھٹ پڑے ، اے عبيد تجھ پر افسوس ہے ، ذرا غور تو كر، تو كيا كہہ رہا ہے ؟

عبيد نے كہا : اے عائشه ، اطمينان ركھيئے ، واقعہ ايسا ہى ہے ، جيسا ميں نے بيان كيا _

عبيد كى بات سنتے ہى عائشه نے صدائے فرياد بلند كى ، وہ زور زور سے چلانے لگيں ، ہائے واويلا كرنے لگيں عبيد نے كہا ، اے عائشه تم على كى بيعت سے نالاں اور خفا كيوں ہو ،خلافت على سے خوش كيوں نہيں ہو ، على تو خلافت كيلئے سب سے زيادہ سزاوار اور لائق ہيں ، على ہى ميں جن كے فضائل و مناقب كا كوئي پا سنگ نہيں

ابھى عبيد كى بات يہيں تك تھى كہ عائشه نے چلاكر كہا ، مجھے وآپس لے چلو ، جتنى جلدى ہو سكے مجھے وآپس لے چلو ، اسطرح وہ مكہ وآپس چلى گئيں ، ليكن اپنا پہلا نعرہ جن ميں قتل عثمان كا فرمان صادر كيا تھا ، اب بدل ديا تھا ، اب وہ كہہ رہى تھيں ، خدا كى قسم عثمان بے گناہ اور مظلوم قتل كئے گئے ہيں ، مجھے ان كے انتقام كيلئے اٹھنا چاہيئے ، قيام كرنا چاہيئے_

عبيد نے كہا: اے عائشه ، مجھے سخت حيرت ہے كہ آپ كل تك عثمان كے كفر كا فتوى صادر كرتى تھيں ، قتل كا حكم ديتى تھيں ، اسكا نام بڈھا يہودى ركھ چھوڑا تھا ، كتنى جلدى آپ اپنى بات سے پلٹ گئيں كہ آج عثمان كو مظلوم اور بے گناہ كى حيثيت سے متعارف كرارہى ہيں ؟

عائشه نے كہا ، ہاں عثمان ايسے ہى تھے ، ليكن انھوں نے خود توبہ كر لى تھى ، يہ عوام تھے جنھوںنے ان كى توبہ پر توجہ نہ كى انھيں بے گناہ قتل كر ديا ، جانے دو ابھى بھى ان باتوں كو ، تمھيں ميرى گذشتہ باتوں سے كيا سروكار ؟جو كچھ ميں آج كہہ رہى ہوں اسے مانو ، آج كى ميرى بات كل سے بہتر ہے _

۱۴

عبيد نے عائشه كى بات پر يہ چند اشعار كہے :

فمنك البداء و منك الغير

ومنك الرياح و منك المطر

وانت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عند نامن امر

ولم يقسط السقف من فوقنا

ولم تنكسف شمسناوالقمر

وقد بايع الناس تد راء

بذ يل الشباو يقيم الصعر

ويلبس للحرب اثوابها

ومامن وفى مثل من قدغد ر

۱۵

اے عائشه ، ان تمام اختلافات و انقلابات كا سرچشمہ تمہيں ہو ، تمام لرزہ خيز طوفانوں اور فتنوں كو تمہيں نے پيدا كيا _ تمہيں نے قتل عثمان كا فرمان صادر كيا ، تمھيں نے كہا كہ وہ كافر ہو گياہے ، اگرچہ ہم نے تمھارے حكم سے عثمان كو قتل كيا ليكن در اصل عثمان كى قاتل تم ہو ،كہ تم نے قتل كا حكم ديا _

اے عائشه ،نہ تو اسمان پھٹ پڑا نہ چاند سورج گہنائے بلكہ لوگوں نے ايك عظيم انسان كى بيعت كر لى ، وہ بہادر مرد جو جنگى لباس زيب تن كرتا ہے ، اور سركش اور خود پسند لوگوں كى گردن اينٹھتا ہے ، كيا وہ شخص كہ جو وفادار ہو ، وہ اس كے مانند ہو سكتا ہے جو غدار ہو ؟

اسكے بعد عائشه مكہ وآپس چلى گئيں اور مسجدالحرام ميں اپنا اونٹ بيٹھايا اور اپنے كو چھپا كر حجرالاسود كى طرف بڑھيں ، اسى ھنگام لوگوں نے چاروں طرف سے ان كو گھير ے ميں لے ليا _ جب عائشه نے اپنے گرد بڑا مجمع ديكھا تو انھيں مخاطب كر كے كہا :

اے لوگو مظلوم عثمان كو قتل كر ديا گيا ، مجھے بھى انكى مظلوميت پر رونا چاہيئے ، خدا كى قسم ،ان كے خون كا انتقام ضرور لوں گى _

كبھى كہتى تھيں :

اے قبيلئہ قريش على نے عثمان كو قتل كراديا ، عثمان وہ تھے جنكى ايك رات على كى تمام زندگى سے بہتر تھى ابو مخنف نے بھى اس روآیت كو نقل كر كے كہا ہے :

جب عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے على كى بيعت كرلى تو صدائے فرياد بلند كى ، ناس جائے ان لوگوں كا خلافت كو قبيلئہ تيم(۷) ميں وآپس نہيں كررہے ہيں ؟(۸) _

____________________

۷_ تيم عا ئشہ اور ان كے خاندانى ادمى طلحہ كا قبيلہ

۸_ شرح نہج البلاغہ

۱۶

بيعت توڑ نے والے

عام طور سے تمام مسلمانوں نے جان و دل سے حضرت علىعليه‌السلام كو خلافت كے لئے چن ليا ، ان كى بيعت بھى كر لى ، سوائے چند نفر كے ، جو انگليوں پر گنے جاسكتے ہيں ، جيسے عبداللہ بن عمر ، محمدبن مسلم ، اسامہ بن زيد ، حسان بن ثابت اور سعدبن ابى وقاص _

حضرت علىعليه‌السلام كے دوستوں ميں سے دو افراد عمار ياسر اور مالك اشتر نے ان سے اس بارے ميں گفتگو كى _

عمار نے كہا : اے اميرالمومنين ،عام مسلمانوں نے تو آپكى بيعت كرلى سوائے ان لوگوں كے جو انگليوں پر گنے جاسكتے ہيں ، آپ خود انھيں بيعت كرنے كيلئے بلايئے شايد آپ كى بات مان ليں ،اور صحابہ كى روش اور مہاجر و انصار كے رويّے سے روگردانى نہ كريں ، مسلمانوں كے اجتماع سے الگ نہ ہوں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : اے عمار جو شخص ميرى پھيلى ہوئي اغوش ميں نہ اے اور دل و جان سے ميرى بيعت نہ كرے مجھے اسكى ضرورت بھى نہيں _

مالك اشتر نے عرض كى ، يا امير المومنين ،ان ميں سے بعض سر پھرے اگر چہ سبقت اسلامى بھى ركھتے ہيں ، ليكن صرف سابق الاسلام ہونا بيعت سے روگردانى كو جائز نہيں بنا سكتا ، خليفہ معين كرنا تو انتہائي حسّاس موضوع ہے ، بڑا اہم ہے ، اسكى مخالفت اجتماعيت سے انحراف ہے ، انھيں بھى دوسروں كى طرح بيعت كرنى چاہيئے اور مسلمانوں ميں تفرقہ و اختلاف نہيں پيدا كرنا چاہيئے _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : اے اشتر ، ميں ان لوگوں كے خيالات كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتاہوں ، اگر انھيں كے حال پر چھوڑ دوں تو يہ اس سے كہيں بہتر ہے كہ بيعت كے لئے مجبور كروں ، انھيں منحرفين ميں سعد بن ابى وقاص بھى تھا ، اس نے حضرت على كى خدمت ميں اكر كہا :

يا على ، خدا كى قسم مجھے اس بارے ميں ذرا بھى شك و شبہ نہيں كہ آپ مرتبہ خلافت كے سب سے زيادہ لائق اور موزوں ہيں ، ليكن كيا كروں ، مجھے بھر پور يقين ہے كہ دير نہيں گذرے گى كہ كچھ لوگ اسى خلافت كے لئے جسے آپ كے حوالے كيا ہے آپ سے شديد نزاع واختلاف كريں گے ، بات خونريزى تك پہونچے گى _

ميں آپ كى اس شرط پر بيعت كر سكتا ہوں كہ زبان كى تلوار آپ ميرے اختيار ميں ديديں تاكہ جو بھى قتل كا

۱۷

سزاوار ہو مجھے متعارف كرادے _

اميرالمومنينعليه‌السلام نے اسكے جواب ميں فرمايا: اے سعد

مسلمانوں نے ميرے باتوں پر اس شرط سے بيعت كى ہے كہ ميں كتاب خدا اور سنت رسول كے مطابق عمل كروں ، كيا ميں نے ان دونوں كى مخالفت كى ہے كہ تم ميرى مخالفت كررہے ہو ؟

تم بھى ازاد و مختار ہو كہ اسى شرط كے مطابق ميرى بيعت نہ كرو اور اجتماعيت سے الگ رہو(۹) ان متذكرہ افراد كے علاوہ كچھ بنى اميہ كے لوگوں نے بھى على كى بيعت نہيں كى _

مشہور مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ان چند منحرفين ميں سے كچھ كے نام يہ ہيں _

مروان بن حكم ، سعيد بن عاص ، وليد بن عقبہ يہ لوگ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں ائے ،ان ميں تيز طرار وليد تھا اس نے حضرت على سے عرض كيا _

يا على ، آپ نے ہم سب كو اچھى طرح كوٹ ڈالا ، ہمارى كمريں توڑ ڈاليں ، ميں ہى ہوں كہ بڑے افسوس كے ساتھ كہتا ہوں كہ آپ نے ميرے بآپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا _

سعيد كے بآپ كو بھى آپ نے قتل كيا جو قريش كا با اثر تھا ، اسكے قتل سے آپ نے قبيلہء قريش كى كمر توڑى _ اور يہ جو مروان ہے ، اسكے بآپ كى بھى مذمت كى ، ہميں اور اسكے بآپ كى برائي بيان كر كے ہمارے كليجے چھلنى كئے ، جس دن عثمان نے اس پر احسان اور صلئہ رحمى كا برتائو كيا ، اسكے حقوق ميں اضافہ كيا تو آپ نے اس پر عثمان كى لے دے مچائي ، ان پر سخت نكتہ چينى كى ، ان تمام گر ہوں اور خفگيوں كے باوجود ہم آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں ، ليكن شرط يہ ہے كہ جو كچھ ہم لوگوں سے خلافت عثمان كے زمانے ميں غلطياں ہوئي ہيں ، ان كو نظر انداز فرمايئے ، ہم نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم كئے ہيں انھيں بھول جايئے ،ہم نے مسلمانوںكے مال و دولت كو لوٹا ہے انھيں وآپس نہ ليجئے _ دوسرے يہ كہ قاتلان عثمان كو سزا كے طو رپر قتل كيجئے _

يہ تھا خلاصہ بنى اميہ كے تيز طرار شخص كى بات كا _

____________________

۹_ ترجمہ فتوح اعثم ص ۱۶۳

۱۸

حضرت علىعليه‌السلام ان كى باتيں سنكر غضبناك ہوئے ، آپ كے چہرے پر اثار غضب صاف ديكھے جاسكتے تھے ، آپ نے فرمايا ، تم نے يہ جو كہا كہ ميں نے تمھارے بآپ اور بزرگوں كو قتل كيا ہے تو انھيں ميں نے نہيں قتل كيا ہے ، بلكہ انكى حق سے مخالفت اور دشمنى نے قتل كيا ہے ، شرك و بت پرستى كى طرفدارى نے قتل كيا ہے _

تم نے جو مجھے پيشكش كى ہے كہ ہم نے بيت المال سے بہت بڑى دولت لے لى ہے ، بے حساب مال لوٹا ہے ، تم سے نہيں لوں تو سن لو كہ اس بارے ميں بھى ہمارا عدالت و انصاف ہى كا ر فرما ہوگا ، عدالت كا جو بھى تقاضہ ہو گا ميں اسى كے مطابق برتائو كروں گا ، تم نے دوسرى پيشكش كى ہے كہ عثمان كے قاتلوں كو قتل كروں اگر ميں آج انھيں قتل كردوں تو ايك بہت بڑى داخلى جنگ مسلمانوں كے درميان چھڑ جائے گى _

امير المومنين نے مزيد فرمايا: يہ بہانہ ختم كرو ، جو كہتا ہوں اس پر كان دھر و ، يہى تمھارے حق ميں مفيد ہے ، ميں تمھيں كتاب خدا اور سنت رسول كى طرف بلا رہا ہوں ، حق كو قبول كرو اور باطل سے دور ہوجائو ، كيونكہ اگر كسى كى زندگى سايہ حق و عدالت ميں اسكے لئے تلخ ہو اور باطل كے سائے ميں تو اور بھى تلخ ہوگى ، يہى ہے ميرى اخرى بات ، دل چاہے مانو ، اور دل چاہے تو اپنے خيالات كى پيروى كرو ، جہاں جى چاہے چلے جائو _

مروان نے كہا :

ہم آپ كى بيعت كرتے ہيں ، آپ كے ساتھ ہيں تاكہ اسكے بعد كيا گذرتى ہے(۱۰)

طلحہ و زبير نے بيعت توڑي

طلحہ اور زبير كافى عرصے تك ايك افت اور دنيائے اسلام پر حكومت كرنے كى ارزو دل ميں ركھتے تھے ليكن سب كا خيال على كى طرف تھا اورلوگ صرف انھيں كو اس مرتبے كے لا ئق سمجھتے تھے انھيں كو خليفہ بنانا چاہتے تھے يہى وجہ تھى كہ يہ دونوں خلافت كى ارزو سے منھ موڑ كر حضرت على كى بيعت كرنے پر امادہ ہوئے ، آپ كى بيعت كرنے ميں بظاہر سب پر سبقت كى كيونكہ وہ چاہتے تھے كہ بيعت كر كے خليفہ كى توجہ اپنى طرف مائل كر ليں

____________________

۱۰_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۲۵ ، مسعودى فصل بيعت على ترجمہ فتوح بن اعثم ص ۱۹۳ _ ۱۹۴

۱۹

تاكہ اسى راستے حساس عہدے ان كے ہاتھ اسكيں اور حكومت ميں زيادہ سے زيادہ حصہ بٹور سكيں ليكن جب خلاف توقع حضرت على نے ان لوگوں كو بھى سارے مسلمان افراد كيطرح يكساں اور برابر قرار ديا ، ان كے لئے ذرہ برابر بھى امتياز نہيں برتا تو ان كى سارى اميد وں پر پانى پھر گيا اور ان كا تير نشانہ پر نہيں لگ سكا _

طلحہ اور زبير كى بے جا توقع كو يعقوبى نے اس طرح لكھا ہے :

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں اكر بولے ، يا على ہم لوگ رسول (ص) خدا كے بعد ہر عہد ے اور مرتبے سے محروم ركھے گئے ، ہميں كوئي حصہ نہيں ديا گيا ، اب جبكہ خلافت آپ كے اختيار ميں ائي ہے تو ہميں اميد ہے كہ ہم دونوں كو بھى خلافت كے معاملات ميں شريك و سہيم قرار دينگے اور كوئي حكومت كا حساس عہدہ ہمارے اختيار ميں ديدينگے _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا كہ تم اس پيش كش سے باز ائو ، كيونكہ اس سے بالاتر مرتبہ كيا چاہتے ہو كہ ميرى حكومت و توانائي كو سختيوں اور مصائب ميں ميرا سہارا ہو اس حكومت كے استحكام تمھارے رويّے ميں منحصر ہے كيا اس سے بھى بالا تر اور بہتر مرتبہ كسى اور مسلمان كيلئے ممكن ہے ؟(۱۱)

مورخين نے نقل كيا ہے كہ حضرت على نے يمن كى حكومت طلحہ كو دى اور يمامہ اور بحرين كى حكومت پر زبير كو مامور كيا ، جس وقت آپ نے حكومت كا منشور اور عہد نامہ انھيں دينا چاہا تو ان دونوں نے كہا :

اے امير المومنين آپ نے ہمارے ساتھ صلہ رحم فرمايا اور رشتہ دارى كا حق ادا كرديا _ حضرت علىعليه‌السلام نے فوراََ وہ عہد نامہ ان سے لے ليااور فرمايا كہ ميں ہرگز صلہ رحم كے طور پر يا رشتہ دارى كا حق ادا كرنے كيلئے مسلمانوں كے اختيار ات كسى كو نہيں ديتا ہو ں _

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كے اس سلوك سے غصّہ ہو گئے ، انھوں نے كہا يا على دوسروں كو ہم پر ترجيح ديتے ہيں اور ان كے مقابلہ ميں ہميں ذليل كرتے ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :كہ تم لوگ رياست و حكومت كيلئے حد سے زيادہ والہانہ پن كا مظاہر ہ كر رہے ہو ، ميرے خيال ميں حريص اور رياست طلب افراد اس كام كيلئے ہرگز موزوں نہيں ہيں كہ مسلمانوں پر حكومت كريں اور

____________________

۱۱_ يعقوبى فصل بيعت على ص ۱۲۶

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

مسئلہ ١١٢١ اگر کوئی شخص ایک ایسی چيز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس چيز کو بجالائے جو اس کے بعد ہو اور وہ بھی رکن نہ ہو مثلاً الحمدبھول جائے اور سورہ پڑھ لے، تو ضروری ہے کہ جو چيز بھول گيا ہو اسے بجا لائے اور اس کے بعد وہ چيزجو بھول کر پهلے پڑھ لی ہو دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٢٢ اگر کوئی شخص پهلا سجدہ اس خيال سے بجالائے کہ دوسرا سجدہ ہے یا دوسرا سجدہ اس خيال سے بجالائے کہ پهلا سجدہ ہے تو اس کی نماز صحيح ہے اور اس کا پهلا کيا ہو سجدہ،پهلا اور بعدميں کيا ہو اسجدہ، دوسرا سجدہ شمار ہو گا۔

موالات

مسئلہ ١١٢٣ ضروری ہے کہ انسان نماز موالات کے ساته پڑھے یعنی نماز کے افعال مثلا رکوع،سجود او رتشهد تسلسل کے ساته انجام دے اور ان کے درميان اتنا فاصلہ نہ ڈالے کہ نماز کی شکل ختم ہو جائے، اسی طرح جو چيز بھی نماز ميں پڑھے معمول کے مطابق تسلسل سے پڑھے اور اگر ان کے درميان اتنا فاصلہ ڈالے کہ اسے نماز پڑھنا نہ کها جائے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٢ ۴ اگر کوئی شخص نماز ميں جان بوجه کر حروف یا الفاظ کے درميان اتنا فاصلہ دے کہ لفظ کی شکل یا الفاظ کی جملہ بندی ہی ختم ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے ،مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور فاصلہ اس قدر ہو کہ نماز کی شکل ختم نہ ہو اور تکبيرةالاحرام ميں بھی نہ ہو۔

اور اگر بھولے سے حروف یا الفاظ کے درميان فاصلہ دے اور فاصلہ اتنا نہ ہو کہ نماز کی شکل ختم ہوجائے اور تکبيرةالاحرام ميں بھی نہ ہو تو چنانچہ اگر وہ بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ ان حروف یا الفاظ کو معمول کے مطابق دوبارہ پڑھے اور اگر ان کے بعد کوئی چيز پڑھ

چکا تھا تو اسے دوبارہ پڑھے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکاہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر حروف یا جملوں کے بعد کوئی رکن نہ ہو جيسے کہ آخری رکعت کا تشهد،تو سلا م سے پهلے متوجہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس حصے اور اس کے بعد والی چيز کو دوبارہ پڑھے اور سلام کے بعد متوجہ ہو نے کی صورت ميں اس کی نماز صحيح ہے ۔

اور اگر سلام کے حروف یا الفاظ ميں اس قدر فاصلہ دے کہ موالات ختم ہو جائے تو اس کا حکم وهی ہے جو سلام بھول جانے کے سلسلے ميں مسئلہ نمبر” ١١١ ۵ “ اور” ١١١ ۶ “ ميں بيا ن کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١١٢ ۵ رکوع وسجود کو طول دینا اور بڑی سورتيں پڑھنا موالات کو نہيں توڑتا۔

۱۸۱

قنوت

مسئلہ ١١٢ ۶ تمام واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت ميں قرائت کے بعد اور رکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب ہے اور نمازِشفع ميں احوط یہ ہے کہ اسے”رجاء مطلوبيت“ کی نيت سے پڑھے اور نماز وتر کے ایک رکعت ہونے کے باوجودرکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب ہے ۔

نماز جمعہ کی ہر رکعت ميں ایک قنوت، نماز آیات ميں ۵ قنوت، نماز عيد فطر وقربان کی پهلی رکعت ميں ۵ اور دوسری رکعت ميں ۴ قنوت ہيں اور احتياط واجب یہ ہے کہ عيدالفطر وقربان کی نماز وں ميں قنوت ترک نہ کيا جائے۔

مسئلہ ١١٢٧ مستحب ہے کہ قنوت پڑھتے وقت ہاتھ چھرے کے سامنے اور ہتھيلياں ایک دوسرے کے ساته ملا کر آسمان کی طرف رکھے، انگوٹہوں کے علاوہ باقی انگليوں کو آپس ميں ملائے اور نگاہ ہتھيليوں پر رکھے۔

مسئلہ ١١٢٨ قنوت ميں جو ذکر،دعا یا مناجات بھی انسان کی زبان پر آجائے چاہے ایک” سُبْحَان اللّٰہِ “ ہی ہو تو کافی ہے اور بہتر ہے کہ یہ کهے :

لاَاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِیْمُ لاَاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْعَلِیُّ الْعَظِيْمُ سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ اْلاَرَضِيْن السَّبْعِ وَ مَا فِيْهِنَّ وَ مَا بَيْنَهُنَّ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

مسئلہ ١١٢٩ مستحب ہے کہ انسان قنوت بلند آواز سے پڑھے، ليکن جو شخص جماعت کے ساته نماز پڑھ رہا ہو اور امام جماعت اس کی آواز سن رہا ہو، اس کا بلند آواز سے قنوت پڑھنا مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١١٣٠ اگر کوئی شخص عمداًقنوت نہ پڑھے تو اس کی قضا نہيں ہے اور اگر بھول جائے اور رکوع کی حد تک جھکنے سے پهلے اسے یاد آجائے تو مستحب ہے کہ کهڑا ہو جائے اور قنوت پڑھے او راگرکوع ميں یاد آئے تو مستحب ہے کہ رکوع کے بعد قضا کرے اور اگر سجدے ميں یا د آئے تو مستحب ہے کہ سلام کے بعد اس کی قضا کرے۔

۱۸۲

نماز کا ترجمہ

١۔سورہ حمد کا ترجمہ( بِسْمِ اللّٰه ) شروع کرتا ہو ں اس ذات کے نام سے جس ميں تمام کمالات یکجا ہيں ، جو ہر قسم کے عيب ونقص سے منزّہ ہے اور عقل جس ميں متحيّر ہے ۔

( اَلرَّحْمٰن ) جس کی رحمت وسيع او ر بے انتها ہے ، جواس دنيا ميں صاحبان ایمان اور کفار دونوں کے لئے ہے ۔

ا( َلرَّحِيْم ) جس کی رحمت ذاتی، ازلی اور ابدی ہے ،جوآخرت ميں صرف صاحبان ایمان کے لئے ہے ۔

( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن ) تعریف صرف الله کے لئے ہے جو عالمين کا پالنے والاہے۔

( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ) (اس کا ترجمہ کيا جا چکا ہے )

( مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ) جو روزِ جزا کا مالک وحاکم ہے ۔

( اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِيْن ) ہم صرف تيری ہی عبادت کرتے ہيں اور صرف تجه ہی سے مددکے طلبگار ہيں ۔

( اهدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْم ) ہميں راہِ راست کی جانب هدایت فرما۔

( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم ) ان لوگوں کے راستے کی جانب جنہيں تو نے نعمت عطا کی ہے (جو انبياء،ان کے جانشين، شهداء،صدیقين اور خدا کے شایستہ بندے ہيں )۔

( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّيْن ) نہ ان لوگوں کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ ان کا راستہ جو گمراہ ہيں ۔

٢۔سورہ اخلاص کا ترجمہ

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ) اس کا ترجمہ کيا جا چکا ہے ۔

( قُلْ هو اللّٰهُ اَحَد ) اے محمد ((ص)) آپ کہہ دیجئے کہ وہ خدا یکتا ہے ۔

( اَللّٰهُ الصَّمَد ) وہ خدا جو تمام موجودات سے بے نياز ہے اور تمام موجودات اس کے محتاج ہيں ۔

( لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَد ) نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے ۔

( وَلَمْ یَکُنْ لَّه کُفُوًا اَحَد ) کوئی بھی اس کی برابری کرنے والا نہيں ۔

۱۸۳

٣۔رکوع، سجود اور ديگر اذکار کا ترجمہ

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ وَبِحَمْدِه ميرا عظيم پر وردگار ہر عيب ونقص سے پاک ومنزہ ہے اور ميں اس کی ستائش ميں مشغول ہوں۔

سُبْحَانَ رَبِّیَ اْلا عَْٔلیٰ وَبِحَمْدِه ميرا پروردگار تمام موجودات سے بالاتر ہے اور ہر عيب ونقص سے پاک ومنزہ ہے اور ميں اس کی ستائش ميں مشغول ہوں۔

سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه خدا ہر حمدوثنا کرنے والے کی ستائش کو سنے اور قبول کرے۔

اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّیْ وَا تَُٔوْبُ اِلَيْه ميں اس خدا سے معافی کا طلب گار ہوں جو ميرا پالنے والا ہے اور جس کی طرف مجھے لوٹنا ہے ۔

بِحَوْلِ اللّٰهِ وَ قُوَّتِه ا قَُٔوْمُ وَا قَْٔعُد ميں الله تعالیٰ کی مدد اور قوت سے اٹھ تا اور بيٹھتا ہوں۔

۴ ۔قنوت کا ترجمہ

لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْحَلِيْمُ الْکَرِیْم کوئی خدا نہيں سوائے الله کے جو صاحب حلم وکرم ہے ۔

لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ الْعَلِیُّ الْعَظِيْم کوئی خدا نہيں سوائے الله کے جو بلند مرتبہ وبزرگ ہے ۔

سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَ رَبِّ اْلاَرَضِيْنَ السَّبْع پاک ومنزہ ہے وہ خدا جو سات آسمانوں اور سات زمينوں کا پروردگار ہے ۔

وَمَا فِيْهِنَّ وَمَا بَيْنَهُنَّ وَ رَبِِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْم وہ ہر اس چيزکا پروردگار ہے جو آسمانوں اور زمينوں ميں اور ان کے مابين موجودهے،وہ عرش عظيم کا پروردگار ہے ۔

وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن حمد وثنا اس الله کے لئے مخصوص ہے جو تمام جهانوں کا پالنے والا ہے ۔

۵ ۔تسبيحات اربعہ کا ترجمہ

سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَر الله

پاک ومنزہ ہے اور حمد وثنا اسی کے لئے ہے اور الله کے سوا کوئی معبود نہيں اوروہ اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی توصيف کی جائے۔

۱۸۴

۶ ۔تشهد اور سلام کا ترجمہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَشْهَدُ ا نَْٔ لاَ إِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ له حمدوثنا صرف الله کے لئے ہے اور ميں گواہی دیتا ہو ں کہ الله کے سوا کوئی معبود وخدا نہيں جو یکتا اورلا شریک ہے ۔

وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْله ميں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ((ص))الله کے بندے اور اس کے رسول ہيں ۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد اے الله! محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما۔

وَتَقَبَّلْ شَفَاعَتَه وَارْفَعْ دَرَجَتَه پيغمبر کی شفاعت قبول فرما اور ان کا درجہ بلند فرما۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ ا یَُّٔهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکَاتُه اے پيغمبر آپ پر درود وسلام ہو اور آپ پر الله کی رحمتيں اور برکتيں نازل ہوں۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْن الله کی طرف سے ہم نماز پڑھنے والوں او ر اس کے تمام صالح بندوں پر سلامتی ہو۔

اَلسَّلاَمُ عَلَيْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه تم پر خدا کی طرف سے درودوسلام اور رحمت و برکت ہو۔(اور یهاں”تم“سے مراد اس لفظ کے حقيقی معنی ہيں اگرچہ بعض روایات کے مطابق اس سے مراد دائيں بائيں جانب کے فرشتے اور مومنين ہيں )

تعقيباتِ نماز

مسئلہ ١١٣١ مستحب ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد انسان کچھ دیر کے لئے تعقيبات یعنی ذکر، دعا اور قرآن مجيد پڑھنے ميں مشغول رہے اوربہتر یہ ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کرنے اور وضو، غسل یا تيمم باطل ہونے سے پهلے، روبہ قبلہ ہو کر تعقيبات پڑھے۔تعقيبات کا عربی ميں پڑھنا ضروری نہيں ليکن بہتر ہے کہ دعاؤں کی کتب ميں بتلائی گئی دعاؤں کو پڑھے۔

تسبيح حضرت فاطمہ زهرا سلام الله عليها ان تعقيبات ميں سے ہے جن کی بہت زیادہ تاکيد کی گئی ہے ۔ یہ تسبيح اس ترتيب سے پڑھنی چاہيے: ٣ ۴ مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اس کے بعد ٣٣ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور اس کے بعد ٣٣ مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ۔

مسئلہ ١١٣٢ انسان کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے بعد سجدہ شکر بجالائے اور اتنا کافی ہے کہ شکر کی نيت سے پيشانی زمين پر رکھے، ليکن بہتر ہے کہ سومرتبہ،تين مرتبہ یا ایک مرتبہ شُکْرًالِلّٰہِ یا عَفْوًا کهے اور یہ بھی مستحب ہے کہ جب بھی انسان کو کوئی نعمت ملے یا مصيبت ٹل جائے سجدہ شکر بجالائے۔

۱۸۵

پيغمبر اکرم(ص) پر صلوات

مسئلہ ١١٣٣ جب بھی انسان حضرت رسول اکرم(ص) کا اسم مبارک مثلاًمحمد(ص) اور احمد(ص)یا آنحضرت کا لقب وکنيت مثلاًمصطفی(ص)اور ابوالقاسم(ص)زبان سے ادا کرے یا سنے تو خواہ وہ نماز ميں ہی کيوں نہ ہو مستحب ہے کہ صلوات بھيجے۔

مسئلہ ١١٣ ۴ حضرت رسول اکرم(ص) کا اسم مبارک لکھتے وقت مستحب ہے کہ انسان صلوات بھی لکھے اور بہتر ہے کہ جب بھی آنحضرت(ص) کو یاد کرے تو صلوات بھيجے۔

مبطلات نماز

مسئلہ ١١٣ ۵ بارہ چيزیں نماز کو باطل کر دیتی ہيں اور انہيں مبطلات نمازکہتے ہيں :

١) نماز کے دوران نماز کے شرائط ميں سے کوئی شرط ختم ہو جائے مثلاًنماز پڑھتے وقت اسے معلوم ہو جائے کہ جس کپڑے سے اس نے شرمگاہ کو چھپا رکھا ہے وہ غصبی ہے ۔

٢) انسان نماز کے دوران عمداًیا سهواً یا مجبوری سے کسی ایسی چيز سے دو چار ہو جو وضو یا غسل کو باطل کر دیتی ہے مثلاًاس کا پيشاب خارج ہو جائے۔البتہ جو شخص اپنے آپ کو پيشاب یا پاخانہ خارج ہونے سے محفوظ نہ رکھ سکتا ہو اور حالت نماز ميں اس سے پيشاب یا پاخانہ خارج ہو جائے تو اگر اس نے احکام وضوميں بيان شدہ طریقے پر عمل کيا ہو تو اس کی نماز باطل نہيں ہوتی اسی طرح اگر حالت نماز ميں مستحاضہ عورت کو خون آجائے تو اگر وہ مستحاضہ کے لئے معين شدہ طریقے کے مطابق عمل کرتی رہی ہے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٣ ۶ جس شخص کو بے اختيار نيند آجائے اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ نيند حالت نماز ميں آگئی تھی یا اس کے بعد تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٣٧ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ وہ اپنی مرضی سے سویا تھا ليکن شک کرے کہ نماز کے بعد سویا تھا یا نماز کی حالت ميں یہ بھول گيا تھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور سو گيا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٣٨ اگر کوئی شخص حالت سجدہ ميں نيند سے بيدار ہو اور شک کرے کہ یہ آخری سجدہ ہے یا سجدہ شکر تو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔

٣) انسان نماز کا حصہ سمجھتے ہوئے ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھے مگر یہ کہ جاہل قاصر ہو۔اسی طرح اگر بندگی کی نيت سے ہاتھ باندهے تب بھی احتياط واجب کی بنا پر نماز باطل ہے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو۔

۱۸۶

مسئلہ ١١٣٩ اگر کوئی شخص بھول کر، مجبوری سے،تقيہ کی وجہ سے یا کسی اور کام کے لئے مثلاًہاتھ کو کهجانے کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو کوئی حرج نہيں ۔

۴) الحمد پڑھنے کے بعد دعا کے ارادے کے بغير یا نماز کا حصہ سمجھتے ہوئے آمين کهے بلکہ دعا کے ارادے سے بھی آمين کهنا محلِ اشکال ہے ، ليکن اگر جاہل قاصر ہو یا غلطی یا تقيہ کی وجہ سے آمين کهے تو کوئی حرج نہيں ۔

۵) جان بوجه کر قبلہ کی طرف پشت کر لے یا قبلے کی دائيں یا بائيں جانب گهوم جائے بلکہ اگر جان بوجه کر اتنی مقدار ميں گهومے کہ لوگ اسے روبہ قبلہ نہ کہيں خواہ وہ داہنی یا بائيں سمت تک نہ بھی پهنچا ہو، اس کی نماز باطل ہے ۔

جهاں تک بھول چوک کا تعلق ہے تو اگر داہنی یا بائيں سمت تک نہ پهنچا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے اور اگر پهنچ جائے اور اسے یاد آجائے تو اس صورت ميں کہ نماز کا وقت خواہ ایک رکعت کے برابر ہی سهی، باقی ہوتو ضروری ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے اور اگر اتنا وقت باقی نہ ہو یا نماز کا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا نہيں ہے ۔ البتہ اگر پشت قبلہ کی جانب ہو گئی ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز قضا کرے۔

مسئلہ ١١ ۴ ٠ اگر کوئی شخص جان بوجه کر اپنا سر اتنا گهمائے کہ وہ قبلہ کی دائيں یا بائيں طرف یا اس سے زیادہ مڑ جائے تو اس کی نماز باطل ہے ، ليکن اگر اتنا گهمائے کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ قبلہ سے مڑگيا ہے تو اس کی نماز باطل نہيں ہے اور اگر اتنا گهمائے کہ لوگ یہ کہيں کہ قبلہ سے منحرف ہو گيا ہے ليکن دائيں یا بائيں طرف نہ پهنچا ہو تو اگر ایسا کرنا جان بوجه کر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر بھول کر ہو تو نماز صحيح ہے ۔

اور اگر بھول کر سر اتنا گهمائے کہ دائيں یا بائيں طرف پهنچ جائے اور اسے یاد آجائے تو اگر نماز کا وقت خواہ ایک رکعت کے برابر ہی سهی، باقی ہو تو احتيا ط واجب کی بنا پر نماز دوبارہ پڑھے اور اگر اتنا وقت باقی نہ ہو یا نماز کا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا نہيں ہے اور اگر بھولے سے سر کو پشت بقبلہ کر ليا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز قضا کرے۔

۶) عمداً دو یا دو سے زیادہ حروف پر مشتمل کوئی ایسی بات کرے جس کے کوئی معنی ہوں چاہے اس معنی کا ارادہ بھی کيا ہو یا نہيں ، مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر اگر دو یا دو سے زیادہ حروف پر مشتمل کوئی ایسی بات کرے جس کے کوئی معنی نہ ہوں تو بھی نمازباطل ہے ۔هاں، ان تمام صورتوں ميں بھول کر بات کرنے ميں کوئی حرج نہيں ،ليکن ضروری ہے کہ دو سجدہ سهو بجا لائے۔

مسئلہ ١١ ۴ ١ اگر کوئی شخص ایسا لفظ کهے جس ميں ایک ہی حرف ہو چنانچہ اگر وہ لفظ معنی رکھتا ہو مثلاً”قِ“ کہ جس کے عربی زبان ميں ”حفاظت کرو“ کے معنی ہيں تو اس صورت ميں کہ وہ اس معنی کا قصد بھی رکھتا ہو،اس کی نماز باطل ہے ۔

۱۸۷

اسی طرح اگر اس لفظ کے معنی جانتا ہو چاہے اس معنی کا قصد نہ رکھتا ہو یا اس کے کوئی معنی ہی نہ ہوں تو احتياط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴ ٢ نماز کی حالت ميں کهانسنے او رڈکار لينے ميں کوئی حرج نہيں ہے اور نماز کی حالت ميں جان بوجه کر آہ وزاری کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو۔

مسئلہ ١١ ۴ ٣ اگر ایک شخص کوئی لفظ ذکر کے قصد سے کهے مثلاًذکر کے قصد سے اللّٰہ اکبر کهے اور اسے کہتے وقت آواز بلند کرے تاکہ دوسرے کو کسی چيز کی طرف متوجہ کرے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ليکن اگر کسی کو کوئی چيز سمجھانے کی نيت سے کهے یا سمجھانے اور ذکر دونوں کی نيت سے کهے تو اس کی نمازباطل ہے ، مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور وہ ذکر تکبيرة ا لاحرام نہ ہو۔هاں، اگر کوئی لفظ ذکر کے قصد سے کهے ليکن یہ قصد کوئی بات کسی کو سمجھانے کی وجہ سے کيا ہو تو اس کی نماز باطل نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴۴ نماز ميں ان چار آیتوں کے علاوہ جن ميں سجدہ واجب ہے قرآن کی نيت سے،نہ کہ نمازکا حصہ ہونے کی نيت سے،قرآن پڑھنے ميں کوئی حرج نہيں ۔نيز نماز کی حالت ميں دعا کرنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان ميں دعا نہ کرے۔

مسئلہ ١١ ۴۵ اگر کوئی شخص نماز کا جز ہونے کی نيت کے بغير جا ن بوجه کر یا احتياط کے طور پر الحمد، سورہ یا اذکار نماز کے کسی حصے کی تکرار کرے تو کوئی حرج نہيں ليکن وسوسہ کی وجہ سے چند دفعہ تکرار کرے حر ام تو ہے ليکن اس کی وجہ سے نمازکا باطل ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴۶ انسان کے لئے ضروری ہے کہ نماز کی حالت ميں کسی کو سلام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو ضروری ہے کہ اسے اسی طریقے سے جواب دے مثلاًاگر وہ ”سلام عليکم“کهے تو جواب ميں یہ شخص بهی”سلام عليکم“ کهے مگر”عليکم السلام“کے جواب ميں احتيا ط واجب یہ ہے کہ”سلام عليکم“ ہی کهے۔

مسئلہ ١١ ۴ ٧ انسان کے لئے ضروری ہے کہ خواہ وہ نمازکی حالت ميں ہو یا نہ ہو سلام کا جواب فورا اس طرح دے کہ عرفاً اسے جواب سلام کها جائے اور اگر جان بوجه کر یا بھولے سے جواب دینے ميں اتنی دیر کرے کہ اسے جواب سلام نہ سمجھا جائے تو اگر وہ نماز کی حالت ميں ہو تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اور اگر حالت نمازميں نہ ہو تو جواب دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١١ ۴ ٨ سلام کا جواب اس طرح دینا ضروری ہے کہ سلام کرنے والا سن لے، ليکن اگر سلام کرنے والا بهرا ہو یا سلام کرتا ہو ا تيزی سے گزر جائے تو عام طریقے سے اس کا جواب دینا کافی ہے ۔

مسئلہ ١١ ۴ ٩ ضروری ہے کہ نمازی سلام کے جواب کو احترا م کی نيت سے کهے،اگر چہ دعا کا قصد کر لينے ميں بھی کوئی حرج نہيں ۔

۱۸۸

مسئلہ ١١ ۵ ٠ اگر نامحرم عورت یامرد یا مميز بچہ یعنی وہ بچہ جو اچھے برے کی تميز کر سکتا ہو، نماز ی کو سلام کرے تو ضروری ہے کہ نمازی اس سلام کا جواب دے او راگر عورت”سلام عليک“کہہ کر سلام کرے تو احتيا ط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نمازی”سلام عليک“ کهے اور”کاف “کو زیر یا زبر نہ دے۔

مسئلہ ١١ ۵ ١ اگر نمازی سلام کا جواب نہ دے تو اگرچہ اس نے گناہ کيا ہے ليکن اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١ ۵ ٢ اگر کوئی شخص نماز ی کو اس طرح غلط سلام کرے کہ اسے سلام سمجھا جائے تو اس کا جواب دینا واجب ہے اور احتيا ط واجب یہ ہے کہ اس سلام کا جواب صحيح دیا جائے ليکن اگر وہ سلام ہی نہ سمجھا جائے تو اس کا جواب دینا جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١ ۵ ٣ کسی ایسے شخص کے سلام کا جواب دینا جو مذاق اور تمسخر کے طور پر سلام کرے واجب نہيں ۔جب کہ احتياط واجب کی بنا پر غير مسلم مرد اور عورت کے سلام کا جواب دینا ضروری ہے اور ان کے جواب ميں انسان لفظ”سلام“ یا لفظ ”عليک“پر اکتفا کرے اگرچہ احوط یہ ہے کہ جواب ميں فقط لفظ ”عليک“کهے۔

مسئلہ ١١ ۵۴ اگر کوئی شخص چند افراد کو سلام کرے تو ان سب پر سلام کا جواب دینا واجب ہے ليکن اگر ان ميں سے ایک شخص بھی جواب دے دے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ١١ ۵۵ اگر کوئی شخص چند افراد کو سلام کرے ليکن جسے سلام کرنے کا ارادہ نہ ہو وہ جواب دے دے تو باقی افراد کی ذمہ داری ختم نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١١ ۵۶ اگر کوئی شخص چند افراد کو سلام کرے اور ان ميں سے جو شخص نماز ميں مشغول ہو وہ شک کرے کہ سلام کرے والے کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا یا نہيں تو ضروری ہے کہ جواب نہ دے اور اگر نمازپڑھنے والے کویقين ہو کہ اس شخص کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا ليکن کوئی شخص سلام کا جواب دے دے تو اس صورت ميں بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر نماز پڑھنے والے کو معلوم ہو کہ سلام کرنے والے کا ارادہ اسے بھی سلام کرنے کا تھا اور کوئی دوسرا جواب نہ دے تو ضرور ی ہے کہ وہ نمازی سلام کا جواب دے۔

مسئلہ ١١ ۵ ٧ سلام کرنا مستحب ہے اور روایات ميں تاکيد کی گئی ہے کہ سوار پيدل کو،کهڑا ہو ا شخص بيٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔

مسئلہ ١١ ۵ ٨ اگر دو شخص آپس ميں ایک دوسرے کو سلام کریں تو احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک دوسرے کے سلام کا جواب دے۔

مسئلہ ١١ ۵ ٩ نماز کی حالت کے علاوہ مستحب ہے کہ انسان سلام کا جواب اس سے بہتر الفاظ ميں دے مثلاً اگر کوئی شخص”سلام عليکم“کهے تو جواب ميں ”سلام عليکم ورحمةاللّٰہ“کهے۔

۱۸۹

٧) آواز کے ساته جان بوجه کر هنسے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور اگر جان بوجه کر بغير آواز سے یا سهو ا آواز کے ساته هنسے تو اس کی نماز ميں کوئيحرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶ ٠ اگر هنسی کی آواز روکنے کی وجہ سے کسی شخص کی حالت بدل جائے مثلاًاس کا رنگ سرخ ہو جائے تو نماز کو دهرانا ضروری نہيں مگر یہ کہ کوئی اور مانع پيش آجائے مثلاًنماز کی شکل ہی ختم ہو جائے۔

٨) احتياط واجب کی بنا پر دنياوی کاموں کے لئے گریہ کرنا مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو اور اگر خوف خدا یا آخرت کے لئے روئے تو یہ بہترین اعمال ميں سے ہے ۔

٩) کوئی بھی ایسا کام کرنا جس سے نماز کی شکل اس طرح تبدیل ہو جائے کہ پھر عرفاً اسے نماز پڑھنا نہ کها جاسکےمثلاًاچھلنا،کودنا وغير ہ چاہے عمداہویا بھولے سے، ليکن اس کام ميں کوئی حرج نہيں جس سے نماز کی شکل تبدیل نہ ہو تی ہو مثلاًہاتھ سے اشارہ کرنا۔

مسئلہ ١١ ۶ ١ اگر کوئی شخص نماز کے دوران اتنی دیر خاموش ہو جائے کہ اسے نماز پڑھنا نہ کها جاسکے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶ ٢ اگر کوئی شخص نمازکے دوران کوئی کام کرے یا کچھ دیر خاموش رہے او ر شک کرے کہ اس کی نماز ٹوٹ گئی یا نہيں تو ضروری ہے کہ نماز کو دهرائے،اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ نماز پوری کرے اور پھر دوبارہ پڑھے۔

١٠ ) کھانا اور پينا پس اگر کوئی شخص نماز کے دوران اس طرح کها ئے یاپيئے کہ لوگ اسے نمازپڑھنا نہ کہيں تو خواہ جان بوجه کر ہو یا بھولے سے اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے ، ليکن اگر اس طرح سے کھائے یا پيئے کہ اسے نماز پڑھنا کها جائے تو اگر یہ کام جان بوجه کر ہو تو احتياط کی بنا پر نماز باطل ہے ليکن اگر جاہل قاصر ہو یا بھولے سے اس طرح کھائے پيئے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

اور جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہو اگر وہ صبح کی اذان سے پهلے نماز وتر پڑھ رہا ہو اور پياسا ہو اور اسے ڈر ہو کہ نماز کو پورا کرتے ہوئے صبح ہو جائے گی تو اگر پانی اس کے سامنے دو تين قدم کے فاصلے پر ہو تو وہ پانی پی سکتا ہے ليکن ضروری ہے کہ کوئی ایسا کام جو نماز کو باطل کر تا ہے مثلاًقبلے سے منہ پهيرنا،انجام نہ دے۔

مسئلہ ١١ ۶ ٣ اگر کوئی شخص نماز کے دوران منہ یا دانتوں کے درميان ميں رہ جانے والی غذا نگل لے تو اس کی نماز باطل نہيں ہوتی۔ اسی طرح اگر مصری،چينی یا ان ہی جيسی کوئی چيز منہ ميں رہ گئی ہو اور نماز کی حالت ميں آهستہ آهستہ گهل کر پيٹ ميں چلی جائے تو کوئی حرج نہيں ۔

١١ ) نماز ی دو رکعتی مثلاًصبح و مسافر کی نماز یا تين رکعتی نماز کی رکعتوں یا چار رکعتی نمازوں کی پهلی دو رکعتوں کے بارے ميں شک کرے جب کہ نماز پڑھنے والا شک کی حالت پر باقی بھی رہے۔

۱۹۰

١٢ ) جان بوجه کر یا بھولے سے نماز کے واجبات رکنی ميں سے کسی کو کم کر دے یا جان بوجه کر کسی واجب غير رکنی کو کم یا زیادہ کر دے مگر یہ کہ وہ جاہل قاصر ہو۔اسی طرح اگر رکوع یا ایک ہی رکعت کے دو سجدے عمداًیا سهواًزیادہ کردے تو اس کی نماز باطل ہے ليکن تکبيرةالاحرام کو بھول کر زیادہ کرنا نماز کو باطل نہيں کرتا۔ بلکہ اگر جاہل قاصر جان بوجه کر تکبيرةالاحرام زیادہ کر دے تو بھی اس کی نماز کا باطل ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶۴ اگر نماز کے بعد شک کرے کہ دوران نماز اس نے نمازکو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا تھا یا نہيں تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

وہ چيزيں جو نماز ميں مکروہ ہيں

مسئلہ ١١ ۶۵ نماز ميں اپنا چہرہ دائيں یا بائيں جانب اتنا موڑنا کہ لوگ یہ نہ کہيں کہ اس نے اپنا منہ قبلہ سے موڑ ليا ہے مکروہ ہے ، ورنہ جيسا کہ بيان ہو چکا ہے اس کی نماز باطل ہے ۔

یہ بھی مکروہ ہے کہ کوئی شخص نماز ميں اپنی آنکہيں بند کر ے یا دائيں اور بائيں طرف گهمائے،اپنی داڑھی اور ہاتھوں سے کھيلے،انگلياں ایک دوسرے ميں داخل کرے،تهوکے یا قرآن مجيد یا کسی اور کتاب یاانگوٹھی کی تحریر کو دیکھے ۔

یہ بھی مکروہ ہے کہ الحمد،سورہ اور ذکر پڑھتے وقت کسی کی بات سننے کے لئے خاموش ہو جائے بلکہ ہر وہ کام جو خضوع و خشوع کوختم کر دے مکروہ ہے ۔

مسئلہ ١١ ۶۶ جب انسان کو نيند آرہی ہو یا جب اس نے پيشاب یا پاخانہ روک رکھا ہو نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ اسی طرح نماز کی حالت ميں ایسا تنگ موزہ پهننا بھی مکروہ ہے جو پاؤں کو دبا ے۔ان کے علاوہ دوسرے مکروہات بھی ہيں جو تفصيلی کتابوں ميں بيان کئے گئے ہيں ۔

وہ صورتيں جن ميں واجب نماز توڑ ی جا سکتیہے

مسئلہ ١١ ۶ ٧ اختياری حالت ميں واجب نماز کو توڑنا حرام ہے ، ليکن مال کی حفاظت اور مالی یا جسمانی ضرر سے بچنے کے لئے نماز توڑنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٨ اگر انسا ن کی اپنی جان کی حفاظت یا جس کی جان کی حفاظت واجب ہے یا ایسے مال کی حفاظت جس کی نگهداشت واجب ہے ،نماز توڑے بغير ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑدے۔

مسئلہ ١٠ ۶ ٩ اگر کوئی شخص وسيع وقت ميں نماز پڑھنے لگے اور قرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کرے اور وہ اس کا قرضہ نماز کے دوران اد ا کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت ميں اس کا قرضہ ادا کر دے اور اگر بغير نماز توڑے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ کر اس کا قرضہ ادا کرے اور بعد ميں نماز پڑھے۔

۱۹۱

مسئلہ ١١٧٠ اگر نماز کے دوران معلوم ہو کہ مسجد نجس ہے ، چنانچہ اگر وقت تنگ ہو تو ضرور ی ہے کہ نمازکوتمام کرے اور اگر وقت وسيع ہو اور مسجد پاک کرنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے دوران اسے پاک کرے اور باقی نماز بعد ميں پڑھے اور اگر نماز ٹوٹ جاتی ہو اور نماز کے بعد مسجد کو پاک کرنا ممکن ہو تو نماز توڑنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر مسجد کا نجس رہنا مسجد کی بے حرمتی کا باعث ہو یا نماز کے بعد مسجد پاک کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور مسجد کو پاک کرنے کے بعد نماز پڑھے۔

مسئلہ ١١٧١ جس شخص کے لئے نماز کا توڑنا ضروری ہو اگر وہ نماز مکمل کرے تو گنهگار ہونے کے باوجود اس کی نماز صحيح ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ١١٧٢ اگر کسی شخص کو رکوع کی حد تک جھکنے سے پهلے یاد آجائے کہ وہ،اذان اور اقامت کهنا بھول گيا ہے اور نماز کا وقت وسيع ہو تو مستحب ہے کہ انہيں کهنے کے لئے نماز توڑدے۔

اسی طرح اگر اسے قرائت سے پهلے یاد آجائے کہ اقامت کهنا بھول گيا ہے ۔

شکياتِ نماز

شکياتِ نمازکی ٢٣ قسميں ہيں ۔ ان ميں سے آٹھ قسميں نماز کو باطل کر دیتی ہيں ، اگرچہ ان ميں سے بعض ميں نماز کا باطل ہو نا احتياط کی بنا پر ہے اور چھ اس قسم کے شک ہيں جن کی پرواہ نہيں کرنی چاہيے اور باقی نو قسم کے شک صحيح ہيں ۔

وہ شک جو نماز کو باطل کر ديتے ہيں

مسئلہ ١١٧٣ نماز کو باطل کرنے والے شک یہ ہيں :

١) دو رکعتی واجب نماز مثلاًصبح اور مسافر کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں شک۔ البتہ مستحب نماز اور نمازِاحتيا ط کی رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں شک نماز کو باطل نہيں کرتا۔

٢) تين رکعتی نماز کی رکعت کی تعداد کے بارے ميں شک۔

٣) چار رکعتی نماز ميں یہ شک کہ آیا ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ۔

۴) چار رکعتی نماز ميں دوسرے سجدے کا ذکر مکمل ہونے سے پهلے یہ شک کہ دو رکعتيں پڑھی ہيں یا زیادہ۔

۵) نماز کی رکعتوں ميں یہ شک کہ معلوم ہی نہ ہو کہ کتنی رکعتيں پڑھی ہيں ۔

۶) دو اور پانچ یا دو اور پانچ سے زیادہ رکعتوں کے درميان شک،ليکن اس شک ميں احتياط واجب یہ ہے کہ دو رکعت سمجھ کر نماز مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

۱۹۲

٧) تين اور چھ یا تين اور چھ سے زیادہ رکعتوں کے درميان شک،ليکن اس شک ميں احتياط واجب یہ ہے تين رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

٨) چار اور چھ یا چار اور چھ سے زیادہ رکعتوں کے درميان شک، ليکن اس صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ چار رکعت پر بنا رکھ کر نماز مکمل کر کے دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٧ ۴ اگر انسان کو نماز باطل کرنے والے شکوک ميں سے کوئی شک پيش آئے تو ضروری ہے کہ جب تک اس کا شک پکا نہ ہوجائے غوروفکر کرے اور اس کے بعد اس کو اختيار ہے کہ نماز کو توڑ دے، مگر بہتر ہے کہ جب تک نمازکی صورت ختم نہ ہو جائے غورو فکر کرتا رہے۔

وہ شک جن کی پروا نهيں کرنی چاہئے

مسئلہ ١١٧ ۵ جن شکوک کی پروا نہيں کرنی چاہيے وہ یہ ہيں :

١) اس چيز ميں شک جس کے بجالانے کا وقت گزر گيا ہو مثلاًانسان رکوع ميں شک کرے کہ اس نے الحمد پڑھی ہے یا نہيں ۔

٢) سلامِ نماز کے بعد شک۔

٣) نماز کا وقت گزر جانے کے بعد کا شک۔

۴) کثيرالشک کا شک یعنی اس شخص کا شک جو بہت زیادہ شک کرتا ہو۔

۵) رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں امام جماعت کا شک جب کہ ماموم ان کی تعداد جانتا ہو اور اسی طرح ماموم کا شک جب کہ امامِ جماعت نماز کی رکعتوں کی تعداد جانتا ہو۔

۶) مستحب نمازوں اور نمازِاحتياط ميں شک۔

١۔جس فعل کا موقع گزر گيا ہو اس ميں شک کرنا

مسئلہ ١١٧ ۶ اگر نماز کے دوران کوئی شک کرے کہ نماز کے واجب افعال ميں سے کوئی فعل انجام دیا ہے یا نہيں مثلاًالحمد پڑھی ہے یا نہيں اور اس کے بعد والے کام ميں مشغول نہيں ہو اہو تو ضروری ہے کہ جس کے بجا لانے ميں شک ہے اسے بجا لائے اور اگر اس کے بعد والے کام ميں مشغول ہو چکا ہو مثلاًسورہ پڑھتے وقت شک کرے کہ الحمد پڑھی تھی یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٧٧ اگر نماز ی کوئی آیت پڑھتے وقت شک کرے کہ اس سے پهلے والی آیت پڑھی ہے یا نہيں یا جس وقت آیت کا آخری حصہ پڑھ رہا ہو شک کرے کہ اس کا پهلا حصہ پڑھا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۳

مسئلہ ١١٧٨ اگر نمازی رکوع یا سجود کے بعد شک کرے کہ ان کے واجب افعال مثلاًذکر پڑھنا اور اپنے بدن کو سکون کی حالت ميں رکھنا،اس نے انجام دئے ہيں یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٧٩ اگر کوئی شخص سجدے ميں جاتے ہوئے شک کرے کہ رکوع کيا یانہيں تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے ضروری ہے کہ واپس پلٹے او رکھڑ ا ہونے کے بعد رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرے، نيز نماز کا اعادہ بھی کرے،ليکن اگر شک یہ ہو کہ رکوع کے بعد کهڑا ہو ا تھا یا نہيں تو ضروری ہے کہ واپس پلٹ کر کهڑا ہو جائے اور اس کے بعدسجدے ميں جائے اور نماز مکمل کرے۔

مسئلہ ١١٨٠ اگر نمازی کهڑا ہوتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشهد بجا لایا یا نہيں تو ضروری ہے کہ واپس پلٹے اور سجدہ یا تشهد بجا لائے۔

مسئلہ ١١٨١ جو شخص بيٹھ کر یا ليٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر الحمد یا تسبيحات پڑھتے وقت شک کرے کہ سجدہ یا تشهد بجا لایا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر الحمد یا تسبيحات ميں مشغول ہونے سے پهلے شک کرے کہ سجدہ یا تشهد بجا لایا ہے یا نہيں تو چنانچہ وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس کی حالت مثلاً ”بيٹھنا “آیا قيا م کے بدلے ميں ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ واپس پلٹے اور جس چيز کے بارے ميں شک تھا اسے بجا لائے او ر اگر یہ جانتا ہو کہ یہ ”بيٹھنا “قيام کے بدلے ميں ہے تو اگر شک تشهد کے بارے ميں تھا تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ قربت مطلقہ، یعنی وجوب یا استحباب کے قصد کے بغير بجالائے اور اس کی نماز صحيح ہے اور اگر شک سجدے کے بارے ميں ہو تو احتياط واجب کی بنا پر نماز کو مکمل کرے اور دوبارہ بجالائے۔

مسئلہ ١١٨٢ اگر نمازی شک کرے کہ نماز کا کوئی واجب رکن انجام دیا یا نہيں اور اس کے بعد والے فعل ميں مشغول نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے مثلاًاگرتشهد پڑھنے سے پهلے شک کرے کہ دو سجدے بجا لایا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ بجا لائے اور اگر بعد ميں اسے یاد آجائے کہ وہ اس رکن کو انجا م دے چکا تھا تو اگر وہ رکن،رکوع یا دو سجدے ہوں تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٨٣ اگر نمازی شک کرے کہ وہ اس عمل کو جو نماز کا رکن نہيں ہے بجا لایا ہے یا نہيں او راس کے بعد آنے والے فعل ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے مثلاًاگر سورہ پڑھنے سے پهلے شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اوراگر اسے انجام دینے کے بعد یاد آجائے کہ اسے پهلے ہی انجام دے چکا تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٨ ۴ اگر نمازی شک کرے کہ رکن بجا لایا ہے یا نہيں اور بعد والے فعل ميں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے مثلاًتشهد پڑھتے وقت یہ شک کرے کہ دو سجدے بجا لایا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔اب اگر بعد ميں اسے یاد آئے کہ اس رکن کو انجام نہيں دیا تھا

۱۹۴

تو اگر وہ رکن تکبيرة الاحرام ہو تو اس کی نماز باطل ہے خواہ وہ بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور اگر تکبيرة الاحرام کے علاوہ کوئی رکن ہو تو اگر وہ بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بجا لائے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو تو ا س کی نماز باطل ہے مثلاًاگر اسے اگلی رکعت کے رکوع سے پهلے یاد آجائے کہ دو سجدے بجا نہيں لایا ہے تو ضروری ہے کہ بجا لائے ااور اگر رکوع ميں یا اس کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٨ ۵ اگر نمازی شک کرے کہ ایک غير رکنی عمل بجا لایا ہے یا نہيں اور اس کے بعد والے عمل ميں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے مثلاًجس وقت سورہ پڑھ رہا ہو شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر اسے کچھ دیر ميں یاد آجائے کہ اس عمل کو انجام نہيں دیا تھا اور ابهی بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اس عمل کو بجا لائے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ۔اس بنا پر مثلاًاسے قنوت ميں یاد آجائے کہ اس نے الحمد نہيں پڑھی تھی تو ضروری ہے کہ پڑھے اور اگر یہ بات اسے رکوع ميں یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١١٨ ۶ اگر نمازی شک کرے کہ اس نے نماز کا سلام پڑھا ہے یا نہيں تو اگر وہ دوسری نماز پڑھنے ميں مشغول ہو چکا ہو یا کوئی ایسا کام انجام دینے کی وجہ سے جو نماز کی صورت ہی ختم کر دیتا ہے ،حالت نماز سے خارج ہو گيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے اور اگر ان صورتوں سے پهلے شک کرے تو ضروری ہے کہ سلام نماز پڑھے خواہ وہ تعقيبات نماز ميں مشغول ہو چکا ہو۔هاں، اگر شک یہ ہو کہ سلا م صحيح پڑھا ہے یا نہيں تو کسی بھی صورت ميں اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

٢۔سلام کے بعد شک کرنا

مسئلہ ١١٨٧ اگر نمازی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ اس کی نمازصحيح تھی یا نہيں مثلا وہ شک کرے کہ آیا اس نے رکوع کيا تھا یا نہيں یا چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے کہ آیا چار رکعت پڑھی ہے یا پانچ رکعت،تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مشهور علما نے فرمایاہے : ”اگرنماز ی کے شک کی دونوں صورتيں صحيح نہ ہو ں مثلاًسلام کے بعد نمازی شک کرے کہ آیا تين رکعت پڑھی ہے یا پانچ رکعت،تو اس کی نمازباطل ہے “۔ليکن یہ حکم اشکال سے خالی نہيں اور احتيا ط واجب یہ ہے کہ اس صورت ميں ایک رکعت کا اضافہ کرے او ر نماز کے سلام کے بعد دو سجدہ سهو بجا لائے اور نماز دوبارہ پڑھے۔

۱۹۵

٣۔ وقت کے بعد شک کرنا

مسئلہ ١١٨٨ اگر کوئی شخص نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز پڑھی ہے یا نہيں یا اسے گمان ہو کہ نہيں پڑھی تو اس نماز کا پڑھنا ضروری نہيں ، ليکن اگر وقت گزرنے سے پهلے شک کرے کہ نماز پڑھی ہے یا نہيں تو خواہ گمان کرے کہ پڑھ چکا ہے پھر بھی ضروری ہے کہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ١١٨٩ اگر کوئی شخص وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز صحيح پڑھی ہے یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٩٠ اگر نماز ظہر وع-صر کا وقت گزر جانے کے بعد نماز ی جانتا ہو کہ اس نے چار رکعت نمازتو پڑھی ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ ظہر کی نيت سے پڑھی ہے یا عصر کی نيت سے تو ضروری ہے کہ چار رکعت قضانماز اس نماز کی نيت سے پڑھے جو اس پر واجب ہے ۔

مسئلہ ١١٩١ اگر مغرب اور عشا کی نمازکا وقت گزر جانے کے بعد نماز ی جانتا ہوکہ اس نے ایک نماز پڑھی ہے ليکن وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس نے تين رکعت پڑھی ہے یا چار رکعت تو ضروری ہے کہ وہ مغرب اور عشا دونوں نمازوں کی قضاکرے۔

۴ ۔کثيرالشک کا شک کرنا

مسئلہ ١١٩٢ کثير الشک وہ شخص ہے جسے عرفاً زیادہ شک کرنے والا کها جائے اور جس شخص کی حالت یہ ہو کہ ہر تين پے در پے نمازوں ميں کم از کم ایک مرتبہ شک کرتا ہو تو یہ شخص کثيرالشک ہے اور اگر زیادہ شک کرنا غصے،خوف یا پریشانی کی وجہ سے نہ ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٩٣ اگر کثير الشک نماز کے اجزاء یا شرائط ميں سے کسی چيز کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ وہ یهی سمجھے کہ اسے انجام دے چکا ہے مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کيا ہے یا نہيں تو سمجھے کہ رکوع کرچکا ہے اور اگر کسی ایسی چيز کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے جو مبطل نماز ہے مثلاًشک کرے کہ صبح کی نمازدو رکعت پڑھی ہے یا تين رکعت تو یهی سمجھے کہ نماز صحيح پڑھی ہے ۔

مسئلہ ١١٩ ۴ جو شخص نماز کی کسی خاص چيز ميں زیادہ شک کرتا ہو،اگر اس کے علاوہ کسی دوسری چيز ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ اس چيز ميں شک کے احکام پر عمل کرے مثلاًجس شخص کو زیادہ تر شک یہ ہو تا ہو کہ سجدے کئے ہيں یا نہيں ،اگر وہ رکوع بجا لانے ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ اس شک کے احکام پر عمل کرے یعنی اگر ابهی سجدے ميں نہ گيا ہو تو رکوع کرے اور اگر سجدے ميں چلا گيا ہو تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۶

مسئلہ ١١٩ ۵ جو شخص کسی مخصوص نماز مثلاً ظہر کی نماز ميں زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ عصر کی نمازميں شک کرے تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔

مسئلہ ١١٩ ۶ جو شخص کسی مخصوص جگہ پر نماز پڑھتے وقت زیادہ شک کرتا ہو اگر وہ کسی دوسری جگہ نماز پڑھے اور اسے شک پيدا ہو تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے۔

مسئلہ ١١٩٧ اگر کسی شخص کو اس بارے ميں شک ہو کہ وہ کثير الشک ہو گيا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ شک کے احکام پر عمل کرے اور کثير الشک کو جب تک یقين نہ ہو جائے کہ وہ عام لوگوں کی حالت پر لوٹ آیا ہے ،اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١١٩٨ اگر کثير الشک شک کرے کہ ایک رکن بجا لایا ہے یا نہيں اور وہ اس کی پروا نہ کرے او ر بعد ميں اسے یاد آجائے کہ وہ رکن بجا نہيں لایا اور وہ رکن تکبيرة الاحرام ہو تو نماز باطل ہے خواہ بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو یا نہيں اور اگر تکبيرةالاحرام کے علاوہ کوئی رکن ہو تو اور اگر وہ بعد والے رکن ميں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ اس رکن کو بجا لائے اور اگر بعد والے رکن ميں مشغول ہو تو اس کی نمازباطل ہے ۔مثلاً اگر شک کرے کہ رکوع کيا ہے یا نہيں اور پروا نہ کرے تو اگر دوسرے سجدے سے پهلے یا د آجائے تو ضروری ہے کہ وہ واپس پلٹے اور رکوع کرے اور اگر دوسرے سجدے ميں یاد آئے تو اس کی نماز باطل ہے ۔

مسئلہ ١١٩٩ اگر کثيرالشک کسی ایسے عمل کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے جو رکن نہيں اور اس شک کی پروا نہ کرے اور بعد ميں اسے یا د آئے کہ وہ عمل انجام نہيں دیا تھا اور اسے انجام دینے کے مقام سے ابهی نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اسے انجا م دے او ر اگر اس مقام سے گزر گيا ہو تو اس کی نمازصحيح ہے مثلاًاگر شک کرے کہ الحمد پڑھی ہے یا نہيں اور شک کی پروا نہ کرے مگر قنوت پڑھتے وقت اسے یاد آجائے کہ الحمد نہيں پڑھی تو ضروری ہے کہ الحمد پڑھے اور اگر رکوع ميں یاد آئے تو اس کی نماز صحيح ہے ۔

۵ ۔پيش نماز اور مقتدی کا شک

مسئلہ ١٢٠٠ اگر امام جماعت نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے ميں شک کرے مثلاً شک کرے کہ تين رکعتيں پڑھی ہيں یا چار رکعتيں او ر مقتدی کو یقين یا گمان ہو کہ مثلاًچار رکعتيں پڑھی ہيں اور وہ یہ بات امام جماعت کے علم ميں لے آئے تو امام کے لئے ضروری ہے کہ نماز کو تما م کرے او رنماز احتياط کا پڑھنا ضروری نہيں اور اگر امام کو یقين یا گمان ہو کہ کتنی رکعتيں پڑھی ہيں او ر مقتدی نماز کی رکعتوں کے بارے ميں شک کرے تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۷

۶ ۔مستحب نمازميں شک

مسئلہ ١٢٠١ اگر کوئی شخص مستحب نماز کی رکعتوں کی تعداد ميں شک کرے تو اگر شک کی زیادتی والی طرف نماز کو باطل کرتی ہو تو ضرور ی ہے کہ کم والی طرف پر بنا رکھے مثلاً اگر صبح کی نافلہ ميں شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا تين تو ضروری ہے کہ دو پر بنا رکھے اور اگر شک کی زیادتی والی طرف نماز کو باطل نہيں کرتی ہو مثلاًشک کرے کہ دو رکعتيں پڑھی ہے یا ایک رکعت تو شک کی جس طرف عمل کرے اس کی نماز صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٢٠٢ رکن کی کمی مستحب نمازوں کو باطل کر دیتی ہے ليکن رکن کا اضافہ اسے باطل نہيں کرتا،لہٰذا اگر مستحب نماز کے افعال ميں سے کوئی فعل بھول جائے اور یہ بات اسے اس وقت یاد آئے جب وہ اس کے بعد والے رکن ميں مشغول ہو چکا ہو تو ضروری ہے کہ اس فعل کو انجام دے اور دوبارہ اس رکن کو انجام دے مثلاًاگر رکوع کے دوران اسے یاد آئے کہ الحمد نہيں پڑھی تو ضروری ہے کہ واپس لوٹے اور الحمد پڑھے اور دوبارہ رکوع ميں جائے۔

مسئلہ ١٢٠٣ اگر کوئی شخص مستحبی نماز کے افعال ميں کسی فعل کی انجام دهی کے بارے ميں شک کرے خواہ وہ فعل رکنی ہو یا غير رکنی چنانچہ اس کا موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اسے انجام دے اور اگر موقع گزر گيا ہو تو اس کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ١٢٠ ۴ اگر کسی شخص کو دو رکعتی مستحب نماز ميں تين یا تين سے زیادہ رکعت کے پڑھ لينے کا گمان ہو تو اس کی نماز صحيح ہے ليکن اگر دو یا اس سے کم رکعت کا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اسی گمان پر عمل کرے مثلاًاگر اسے گمان ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے تو ضروری ہے کہ ایک رکعت اور پڑھے۔

مسئلہ ١٢٠ ۵ اگر کوئی شخص مستحب نماز ميں کوئی ایسا کام کرے جس کے لئے واجب نماز ميں سجدہ سهو واجب ہو جاتا ہے یا ایک سجدہ یا تشهد بھول جائے اور نماز کے سلام کے بعد اسے یاد آئے تو اس کے لئے سجدہ سهو یا قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢٠ ۶ اگر کوئی شخص شک کرے کہ مستحب نماز پڑھی ہے یا نہيں اور اس کا کوئی وقت مقرر نہ ہو جيسے حضرت جعفرِ طيار عليہ السلام کی نماز، تو وہ یهی سمجھے کہ وہ نماز نہيں پڑھی اور اگر اس نماز کا وقت مقررہ ہو جيسے روزانہ کی نمازوں کے نوافل اور وقت گزرنے سے پهلے شک کرے کہ اسے انجام دیا ہے یا نہيں تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ وہ نماز پڑھی ہے یا نہيں تو اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

۱۹۸