تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 20%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79010 / ڈاؤنلوڈ: 5338
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار عهد امير المومنينعليه‌السلام

مو لف : سيد مرتضى عسكرى

مترجم : سيد على اختر رضوى گوپالپوري طاب ثراہ

۳

مقدمہ مترجم

محترم قارئين كے پيش نظر موجودہ كتاب ''احاديث ام المومنين عائشه '' كا ترجمہ ہے ، كتاب كا متن مشہور محدث علامہ مرتضى عسكرى نے لكھا ہے_

مو لف كتاب كے مذہبى ، معاشرتى و علمى خدمات اس قدر ہيں كہ دوست اور دشمن سبھى تحسين و ستائشے كرتے ہيں ، جنكى تفصيل كيلئے مستقل كتاب كى ضرورت ہے _

انہيں جناب كى علمى و ثقافتى خدمات كا ايك نمونہ ، احاديث ام المومنين عائشه ہے ، دانشور مو لف نے اس كتاب ميں عائشه كے انكار و عقايد اور اوصاف و اخلاق كو بھر پور طريقے سے واضح كر كے ان كى نفسيات قارئين كے سامنے مجسم كردى ہيں عائشه كے واقعى چہرے سے انھيں واقفيت ہو جاتى ہے _

عائشه كى حيات و زندگى پر مشتمل يہ كتاب ان كے زمانے ميں پيش انے والے اہم واقعات و حوادث كا تجزيہ پيش كرتى ہے _

ليكن محترم مو لف كا اس كتاب لكھنے سے اصل مقصد يہ نہيں كہ عائشه كے حالات زندگى لكھے جائيں ، بلكہ بلند تر اور وسيع تر مقصد پيش نظر ہے ، وہ چاہتے كہ وہ احاديث جو عائشه سے مروى ہيں انكا تحليل و تجزيہ كيا جائے ، انكا صحت و سقم اور وقعت و اعتبار كى حديں واضح كى جائيں _

اس عميق اور وسيع الذيل بحث سے قبل اس كتاب ميں مقدمہ كے عنوان سے بعض ان تاريخى حوادث كا تذكرہ كيا گيا ہے جن ميں عائشه نے مداخلت كى ، مو لف نے ان كا تحليل و تجزيہ كر كے اخلاقى حالت شخصيت اور جس راوى نے اسے بيان كيا ہے اسكا واقعى قيافہ پيش كيا ہے جس سے روايات كى قدر و قيمت اور عيار و ميزان واضح ہوتا ہے _

مولف محترم نے انھيں وقائع سے بھر پور حيات عائشه كے تجزيے كو مقصد قرار ديتے ہوئے يہ كتاب لكھى ہے ، اور انھيں متعدد فصلوں پر تقسيم كيا ، ان ميں حساس ترين مندرجہ ذيل تين قسميں ہيں _

۱_ عائشه ، عثمان كے زمانے ميں

۲_ عائشه، حكومت على كے زمانے ميں

۳_ عائشه ، حكومت معاويہ كے زمانے ميں

۴

حصّہ اوّل كا ترجمہ ، فاضل ارجمند جناب اقاى سردار نيا كے قلم سے ہوا ہے ، اور نقش عائشه در تاريخ اسلام كے نام سے شائع ہوا ، حصّہ دوم بھى مولف محترم كے حكم سے ترجمہ كيا گيا ہے ، جو موجود ہ كتاب كى شكل ميں ، قارئين كے پيش نظر ہے ، اسكا تيسرا حصّہ بھى خدا كى مددسے جلد ہى شائع كيا جائے گا _

اخر ميں چند باتوں كى ياد دہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے _

۱_ چونكہ اصل كتاب عربى ميں ہے ، فارسى داں حضرات ميں چند ہى اس سے استفادہ كر سكتے تھے ، فارسى زبان ميں ترجمہ ہونے سے اسكى افاديت عام ہوگئي ، اسكا مقصد ہى يہى ہے كہ تمام لوگ اس سے بہرہ مند ہوسكيں ، اس لئے جہاں اصل مطلب ميں ضرورت سمجھى گئي ، توضيحى حواشى كا اضافہ كيا گيا ، تاكہ وہ تمام لوگ بھى استفادہ كر سكيں جنھيں تاريخى اصطلاحات سے پورى اشنائي نہيں ركھتے _

۲_ مندرجہ بالا مقصد كے پيش نظر ترجمہ ء كتاب كے سلسلے ميں ازاد اسلوب اختيار كيا گيا ہے _

۳_ ممكن حد تك مو لف كے مقصد كا تحفظ كرتے ہوئے مطالب كو ايك دوسرے سے علحدہ كر ديا گيا ہے ، كہيں كہيں اصل كتاب كے مطالب ميں اضافہ بھى كيا گيا ہے تاكہ قارئين كو تھكن كا احساس نہ ہو

۴_ اگر قارئين كرام درميان مطالب تاريخى فقروں ميں تكرار كا مشاہدہ كريں تو اسے عيب اور نقص نہ سمجھيں ، كيونكہ اس كتاب كے محترم مو لف نے محض ايك تاريخى تسلسل كے بيان پر اكتفا نہيں كيا ہے ، بلكہ وہ چاہتے ہيں كہ حوادث تاريخى كو واضح انداز ميںبيان كر كے حقائق كو روشن اور نماياں كريں، اس بلند مقصد كيلئے نا گريز تھا كہ حادثات و واقعات كے تسلسل كو تھوڑے فرق كے ساتھ مختلف اسناد كے پيش نظر متعدد كتابوں كے حوالے سے درج كئے جائيں ، تاكہ تمام جزئيات سامنے اجائيں _

اسى وجہ سے اس كتاب ميں بعض واقعات تاريخى كے مدارك و ما خذ كے اختلاف كى وجہ سے تكرار پيدا ہو گئي ہے ، ظاہر ہے كہ يہ تكرار نقص يا عيب نہيں سمجھى جا سكتى بلكہ اس قسم كے اسلوب تحرير كوخوبى واعتبار كے حساب ميں ركھا جاتا ہے تاكہ جن حقائق كو پيش كيا جارہاہے وہ زيادہ سے زيادہ واضح ہو سكيں _

''واللہ ولى التوفيق و ھو يھدى السبيل ''

محمد صادق نجمى _ ھاشم ہريسي

قم المقدسہ ۱۳۹۳ھ

۵

مقدمہ مولف

ہمارے پيش نظر جو تحقيق و تجزيہ ہے اسكا مقصد نہ تو علم كلام كے درپئے ہونا ہے نہ فقہى يا تاريخى اور دوسرا كوئي مقصد واضح لفظوں ميں كہا جائے كہ ہم نہيںچاہتے كہ كسى گروہ كے عقائد وافكار كى تنقيد كريں ، يا كسى دوسرے گروہ كے عقائد كے بارے ميں صفائي ديں يا اسكى طرفدارى كريں ، ہم يہ بھى نہيں چاہتے كہ كسى كى ستائشے و تعريف اور دوسرے كى مذمت و بد گوئي كريں _

پھر ہم يہ بھى نہيں چاہتے كہ كوئي فقہى بحث چھيڑ كے حكم قتل اسلامي اسلامى فقہ كے اعتبار سے تحليل و تجزيہ كريں ، يہاں تك كہ ہمارا مقصد تاريخ نويسى بھى نہيں ہے كہ ہميں اس بات كى ضرورت ہو كہ تمام تاريخى حوادث كو تفصيل سے نقل كريں _

بلكہ ہمارا مقصد يہ ہے كہ بعض تاريخى حوادث كو مدارك اصلى و اولين كو معتبر كتب تاريخ سے نقل كر كے قارئين كرام كے حوالے كرديں تاكہ ان كا مطالعہ كركے عائشه كى شخصيت اور واقعى قيافہ پہچان سكيں ، ان كے افكار و عقائد اور روحانى علامتوں كو سمجھ سكيں ،نتيجے ميں ائندہ زير بحث انے والى انكى روايات و احاديث كى قدر و قيمت اور اعتبار واضح ہو سكے گا ، اس طرح انكى احاديث كے تحقيق و تجزيے كى راہ ہموار ہوگى _

يہى وجہ ہے كہ ہم نے اس كتاب ميں ان حوادث كو نظر انداز كيا ہے جو ہمارى بحث و تحقيق سے ربط نہيںركھتے تھے ، صرف انھيں وقائع و حوادث تاريخى كو نقل كيا ہے جو ميرے مقصد سے مربوط ہيں ، كيونكہ اس قسم كى واقعات نقل كرنے سے عائشه كى عجيب اور پيچدار شخصيت اور انكا سياسى و فكرى تدبر نماياں ہوتا ہے ، كہ وہ لوگوں كے افكار اپنى طرف مائل كرنے كى كسقدر مہارت ركھتى تھيں ، كسطرح دو خلفاء كے پائے حكومت كو متزلزل كر ڈالا ، ان ميں سے ايك (عثمان )كو قتل كرنے كا فتوى صادر كيا اور اپنا فتوى موثر بنانے كى راہ ہموار كى ، كيونكہ اگر انھوں نے فتوى نہيںديا ہوتا تو عثمان قتل نہ ہوتے ، خليفہ كا خون بہانے اور مرتبہء خلافت كى ھتك و حرمت برباد كرنے كى جرائت نہ ہوتى _

پھر يہ كہ انہوں نے كس طرح اپنى سياسى سوجھ بوجھ سے عثمان كے قتل ہونے كے بعد تيزى كے ساتھ ، بڑى اسانى سے ، ان سے اپنى سابقہ دشمنى و عداوت كے لباس كو بدل كر ، ان كے خون كا بدلہ لينے اور طرفدارى كرنے كا مظاہرہ كيا _ جى ہاں _ عائشه ايسى ہى زيرك اور ماہر تھيں كہ انہوں نے واقعى قاتل سے اپنى بيزارى ظاہر كى اور اپنے كو

۶

ان كا طرفدار، اور قصاص لينے والا ، متعارف كرايا انتہائي تعجب كى بات تو يہ ہے كہ انہوں نے عثمان كے قاتلوں اور دشمنوں كو ان كے دوستو ں اور فرزندوں كے ساتھ ايك ہى لشكر مين ايك ہى صف ميں كھڑا كر ديا ، اسطرح عثمان كى خونخواہى كا لشكر ترتيب ديديا _

واقعى وہ بڑى مہارت ركھتى تھيں ، كہ حضرت علىعليه‌السلام قتل عثمان ميں ذرہ برابر بھى شريك نہيں تھے ، انھيں پر قتل كا الزام تھوپ ديا اور انھيں كو قاتل كى حيثيت سے متعارف كرايا ، انكى وہ سابقہ عظمت و بزرگى جو انھيں اسلامى معاشرے ميں حاصل تھى ، انھيں يكسر حرف غلط بنا كر عوام كو ان كے خلاف بغاوت پر امادہ كر ديا _

جى ہاں ، يہ بے نظير سياسى صلاحيت اور عجيب و غريب توانائي عائشه ہى سے مخصوص ہے ، جنكا نام تاريخ ميں مشھور ہ ہوگيا ، اور بر جستہ شخصيت تاريخى حيثيت سے پيش كيا جاتا ہے _

افسوس كى بات يہ ہے كہ آج تك عائشه كے بارے ميں ان كے كردار كا صحيح طريقے سے تحليل و تجزيہ نہيں كيا گيا ہے ، نہ انكا واقعى قيافہ نماياں كياگيا ہے ، اس بارے ميں بہت سے حقائق سے پردہ نہيں اٹھا يا جا سكا _

اب ميں خدا ئے تعالى سے دعا كرتا ہوں كہ ہمارى اس راہ ميں مدد فرمائے ، كہ ميں اس تاريك گوشے كو واضح كر سكوں ، ان حقائق سے پردہ اٹھا سكوں ، عائشه كى شخصيت جيسى كہ ہے ، اسكى نشاندہى كرسكوں ،تاكہ اس طرح انكى احاديث كى قدر و قيمت اور حدود و اعتبار معلوم ہوسكے_

سيد مرتضى عسكري

۷

بيعت كے بعد

حساس ترين فراز

جس وقت عثمان قتل كر دئے گئے ، اورمسلمانوں كے تمام معاشرتى و سياسى امور ان كے ہاتھوں ميں وآپس اگئے ، خليفہ كى بيعت ہونے كى وجہ سے انكى گردنيں محدود اور دوسرا منتخب كرنے كى راہ مسدود تھى ، جب وہ اس سے رہائي پاگئے تو سب نے باہم حضرت علىعليه‌السلام كى طرف رخ كيا آپ كے گرد ہجوم كرليا كہ آپ كى بيعت كر كے آپكو خليفہ منتخب كر ليں _

طبرى نے اس واقعے كو يوں لكھا ہے كہ :

رسول خدا (ص) كے اصحاب حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے اكر عرض كرنے لگے كہ يا علي مسلمانوں كے خليفہ عثمان قتل كر دئے گئے ، اور آج بھى تمام مسلمان ايك امام اور سر پرست كيلئے مجبور و ناچار ہيں ، اور انكى سرپرستى كے لئے آپ سے زيادہ موزوں اور لائق تر ہم كسى كو نہيں جانتے ، كيونكہ اسلام ميں آپ كى سابقہ زندگى سب سے زيادہ مفيد اور رسول خدا (ص) سے قرابت بھى سب سے زيادہ ہے _

اميرالمومنين نے انھيں جواب ديا :

نہيں ، تم لوگ ہميں يہ پيشكش ہر گز نہ كرو ، خلافت مير ے گلے مت منڈھو ، كيونكہ ميرے لئے خليفہ كا مشير اور وزير ، ہونا اس سے كہيں بہتر ہے كہ ميں كرسى خلافت پر ٹيك لگائوں _

اصحاب نے كہا : نہيں ، خدا كى قسم ، ہم آپ سے دستبردار نہيں ہونگے جب تك آپ ہمارى قبول نہ كرليں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا: اب جبكہ ميرے لئے تمھارى بيعت قبول كر لينے كے سوا چارہ نہيں ، تو ہونا يہ چاہيئے كہ مراسم بيعت مسجد ميں تمام مسلمانوں كى رضا و رغبت سے ظاہر بظاہر ہو _

اس كے بعد طبرى نقل كرتا ہے :

تمام مسلمانوں نے ، جن ميں طلحہ و زبير بھى تھے ، حضرت على كے اس ہجوم كى شكل ميں ائے اور يوں كہا :

يا على ہم آپ كے پاس اسلئے ائے ہيں كہ آپ كى بيعت كريں ، اور آپ كو خلافت و امامت كے لئے چن ليں _

۸

امير المومنين نے ان لوگوں كے جواب ميں فرمايا :

مجھ سے باز ائو ، مجھے ميرے حال پر چھوڑ دو ، كيونكہ مجھے خلافت و حكومت كى ضرورت نہيں ہے ، ميں بھى تمھارى ہى طرح ايك مسلمان ہوں ، جسے بھى اس عہدے كيلئے مناسب ديكھو اسكے ہاتھ پر بيعت كر لو ، خدا كى قسم ميں بھى اس پر راضى ہو جائوں گا ، اور تمھارے اس اقدام پر كسى قسم كا اعتراض نہيں كروں گا _

ليكن وہ حضرت علىعليه‌السلام كے ارشاد پر راضى نہ ہوئے ، انھوں نے بڑى سختى كے ساتھ زور ديتے ہوئے كہا :

يا على ، خداكى قسم ، ہم آپ كے سوا كسى كو بھى مسلمانوں كى رہبرى و پيشوائي كے لئے منتخب نہ كريں گے _

اس كے بعد طبرى لكھتا ہے :

عثمان كے قتل ہونے كے بعد عوام جتھ بنا كر اجتماعى شكل ميں كئي مرتبہ حضرت على كے پاس ائے ، اور ان سے تقاضہ كيا كہ مرتبہ خلافت كو قبول كر كے مسلمانوں كى حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليں ، ليكن امير المومنين نے ا ن لوگوں كے تقاضوں كا اثبات ميں جواب نہيں ديا ، انكى خواہش پورى نہيں كى ، مسلمانوں نے اخرى بار ان كے پاس اكر كہا كہ ، ياعلى ، اگر خليفہ كے انتخاب و تعين كا معاملہ اس سے زيادہ طول پكڑے گا تو مسلمانوں كے انتظامى معاملات چوپٹ ہو جائيں گے ، اس صورتحال ميں آپ جيسے لائق سر پرست كيلئے لازم ہو جا تا ہے كہ مسلمانوں كے امور كى اصلاح فرمائيں ، انكى اجتماعيت كى طوفان زدہ كشتى كو نجات و رہبرى كے ساحل پر لگائيں ، اب يہاں پر حضرت على نے لوگوں كو مثبت اور كار گر جواب ديا آپ نے فرمايا :

تم لوگوں نے حد سے زيادہ ميرے اوپر دبائو ڈالا ، حد سے زيادہ اصرار كيا ، ميرے سوا كسى كو قبول كرنے پر امادہ نہيں ہو ، تو اب ميرى بھى ايك پيشكش ہے ، اگر تم لوگوں نے اسے قبول كيا تو ميں بھى تم لوگوں كى بيعت قبول كرنے پر امادہ ہوں ، ورنہ كبھى تم لوگوں كى بيعت قبول نہ كروں گا ، نہ خلافت كا سنگين بوجھ كاندھے پر لونگا _

انہوں نے كہا: يا على ، آپ جو فرمائيں ہميں جان و دل سے قبول ہے ، پھر سارے عوام مسجد كى طرف چلے ، وہاں مجمع ہوا ، حضرت على بھى مسجد ميں تشريف لائے ، منبر پر جاكر اسطرح گفتگو شروع كى _

اے لوگو ميں نہيں چاہتا كہ كرسى خلافت پر بيٹھوں اور تم پر حكومت كروں ، ليكن اخر كيا كروں ؟ تم لوگ مجھے

۹

نہيں چھوڑ تے ميرے كاندھے پر يہ سنگين بوجھ ڈالنا ہى چاہتے ہو _

ميںپہلے سے تم لوگوں كے سامنے يہ خاص بات ركھ دينا چاہتا ہوں اور تم سے اس پر عہد لينا چاہتا ہوں كہ ميرى خلافت كے دوران يہ دو باتيں سختى سے عملى جامہ پہن لينگى كہ :

۱_ طبقاتى امتياز ات ختم ہو جائيں گے _

۲_ تمام مسلمانوں كے درميان مساوات كا سختى سے نفاذ ہو گا ، ہاں ، ميرى خلافت كے زمانے ميں اس قانون كو عام ہونا چاہيے ، يہاں تك كہ ميں بھى ، جو تمھارا حاكم ہوں ، تمھارا بيت المال اور دولت كے تمام اختيارات ميرے قبضے ميں ہيں ، ميں بھى حق نہيں ركھتا كہ دوسرے لوگوں كے حقوق سے ايك درہم زيادہ لے لوں ، پھر امام نے مزيد فرمايا ، اپنى حرص وطمع كے دانت كند كرلو ، كسى قسم كے معاشرتى امتياز كى توقع نہ ركھو ، مجھ سے اضافى حقوق نہيں لے سكو گے ، كيا تم لوگ ان متذكرہ شرائط پر ميرى خلافت سے راضى ہو ؟ سب نے ايك زبان ہو كر كہا ، ہاں ، ياعلي

اس وقت امير المومنين نے دعا كى ، خدايا تو اس عہد پر گواہ رہنا ، اسكے بعد مسلمانوں كے ہاتھ بيعت كيلئے بڑھنے لگے اور مراسم بيعت شروع ہوئے(۱)

بلاذرى كہتا ہے: گروہ در گروہ مسلمان تيزى اور كامل اشتياق كے ساتھ حضرت علىعليه‌السلام كى طرف بڑھنے لگے ، وہ يہ بھى نعرے لگا رہے تھے ، ہمارے على امير المومنين ہيں ہمارے على امير المومنين ہيں ، ہمارے على امير المومنين ہيں _

يہ نعرے لگاتے ہوئے علىعليه‌السلام كے گھر ميں داخل ہوئے اور كہا :

يا على ، آپ خود بہتر جانتے ہيں كہ مسلمانوں كے لئے حاكم ہونا ضرورى ہے ، ہم نے بھى آپ كو اپنا پيشوا ، امام بناياہے اب ہم ائے ہيں تاكہ آپ كى بيعت كريں اور اسلامى خلافت كے معاملات و حالات آپ كے حوالے كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے ان كے جواب ميں فرمايا :

خليفہ اور امام كا انتخاب صرف تمھارے اجتماع سے انجام پذير نہيں ہو سكتا ، بلكہ ان لوگوں كو بھى شريك ہونا چاہيئے

____________________

۱_ طبرى ج۵ ص ۱۵۲ ، كنز ل العمال ج۳ ص ۱۶۱ ، ترجمہ فتوح ابن اعثم ج۲ ص ۲۴۳

۱۰

جو جنگ بدر ميں شامل تھے ، يا جنھيں سبقت اسلامى كا شرف حاصل ہے ، انھيں كى رائے اور مشورے سے خليفہ متعين ہو تا ہے _

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كى بات بدرى صحا بہ كے كانوں ميں پڑى وہ تمام لوگ بھى آپ كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہنے لگے _

يا على ہم نے آپ كو منتخب كيا ، ہاں ، آپ ہى كو _

كيونكہ آپ كے ہوتے كسى كے لئے خلافت سزا وار نہيں ، اور اس جگہ كے لئے آپ سے زيادہ بہتر اور موزوں دوسرا كوئي شخص نہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب انكى بات سنى اور انكى رائے حاصل كر لى تو منبر پر تشريف لے گئے ، اور لوگوں كو خبر دار كيا كہ ميں نے خلافت قبول كر لى ہے ، مسلمانوں كے ہاتھ حضرت علىعليه‌السلام كى طرف بڑھنے لگے اور مراسم بيعت كا اغاز ہو گيا ، طلحہ پہلے شخص تھے جنھوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كى ، اتفاق سے ان كا ہاتھ شل تھا ، كہتے ہيں كہ اس عيب پر حضرت علىعليه‌السلام نے بدشگونى سمجھى اور فرمايا ، دير نہيں گذرے گى كہ يہ اپنا عہد توڑ ڈالے گا(۲)

ليكن طبرى نقل كرتا ہے كہ ،جس وقت طلحہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كى حبيب بن ذ ويب نے ديكھ كر كہا ،يہ بيعت پورى نہ ہو گى كيونكہ پہلا ہاتھ جو بيعت كيلئے بڑھا ہے ناقص اور معيوب ہے(۳) ليكن جو بھى صورت ہو ، مدينے والے اس بيعت كو طلحہ كے مشلول ہاتھ كى وجہ سے بدشگونى سجھ رہے ہوں ليكن عائشه نے اس كو نيك شگونى خيال كيا ، اور خوشحال ہو كر كہا كہ اب مدينے والے طلحہ كے اس ناقص ہاتھ پر بيعت كر كے انھيں كو خليفہ منتخب كريں _

____________________

۲_ انساب الاشراف ج۱ ص ۷۰ ، حاكم ج۳ ص ۱۱۴

۳_ طبرى ج۱ ص ۱۵۳

۱۱

جب فرمان قتل ، انتقام ميں بدل گيا

خلافت عثمان كے اخرى ايام ميں عائشه حالات خلافت سے سخت كبيدہ خاطر ہو گئي تھيں ، كيونكہ دو خلافتوں كے زمانے ميں وہ جن حالات سے بہرہ مند تھيں ، ان سے قطعى محروم ہو چكى تھيں ، يہى وجہ تھى كہ عائشه نے مخالفت عثمان كا پرچم بلند كيا تھا ، اس مہم ميں جٹ گئيں ، شہروں شہروں خطوط لكھے تاكہ عثمان كے روش سے مسلمانوں ميں جو برہمى

ہے وہ شورش اور انقلاب كا روپ دھار لے جب اتش فتنہ مشتعل اور اپنے كو كامياب ديكھا تو مكّہ كى راہ لى وہيں سكونت پذير ہو گئيں اور ہر لمحہ قتل عثمان اور بيعت طلحہ كا انتظار كرنے لگيں _

اس سلسلے ميں طبرى لكھتا ہے :

ايك دن اخضر نام كا شخص مدينے سے مكّہ گيا ، عائشه نے اسے ديكھ كر پوچھا مدينے كا كيا حال ہے ؟

اخضر نے جواب ديا ، عثمان نے مصر والوں كو قتل كر ڈالا

عائشه چلّائيں ،انالله وانا اليه راجعون ، واقعى اب عثمان نے اپنى سركشى اس حد كو پہونچا دى ہے كہ جو لوگ ، اپنے حق كے لئے ظلم كے خلاف كھڑے ہوئے ہيں انھيں قتل كر ڈالتا ہے ؟ خدا كى قسم ميں اس ظلم و زيادتى پر كبھى راضى نہيں ہو ں گى ؟

اس كے بعد ايك دوسرا شخص ايا ، عائشه نے اس سے بھى پوچھا تم نے مدينے كے كيا حالات ديكھے ؟

اس نے جواب ديا ، مصر والوں نے عثمان كو قتل كر ڈالا ، عائشه نے كہا ، كتنى حيرت كى بات ہے كہ اخضر نے قاتل كو مقتول سمجھ ليا تھا ، اسى تاريخ سے عربى زبان ميں يہ كہا وت بنگئي كہ فلاں شخص تو اخضر سے بھى زيادہ جھوٹا ہے _

بلا ذرى لكھتا ہے :

جس وقت قتل عثمان كى خبر مكے ميں عائشه كو ملى تو حكم ديا كہ مسجدالحرام ميں ضميہ لگا يا جائے ، انھوں نے خيمے ميں جا كر يہ خطبہ ديا _

اے لوگو ، سمجھ لو كہ ميں عثمان كى روش كى وجہ سے پيش گوئي كرتى ہوں كہ وہ ايك دن اپنى قوم اور مسلمانوں كے ہاتھوں بد بختى كا شكار ہو گا ، جسطرح ابو سفيان جنگ بدر ميں اپنى قوم كے ہاتھوں بد بختى كا شكار ہو ا _(۴)

____________________

۴_ انساب ج۵ ص ۹۱ ، كنز العمال ج۳ ص ۱۶۱

۱۲

اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ جس وقت عثمان كى خبر مكے ميں عائشه كو ملى تو كہا ، عثمان رجعت خدا سے دور ہو ، وہ اپنے كالے كرتوتوں كى وجہ سے تباہى گھاٹ لگا ، كيونكہ خدا تو كسى پر بھى ظلم نہيں كرتا _

كبھى كہتيں ، خدايا اسے اپنى رحمت سے دور كر دے اسكے گناہوں كى وجہ سے ورطئہ ہلاكت ميں جھونك

دے ، اسطرح وہ اپنے كيفر كردار كو پہونچ گيا، اے لوگو ، قتل عثمان كى وجہ سے تم ہرگز غمگين نہ ہو ، قوم ثمود كا احمر جس نے ناقہء صالح پئے كيا تھا اور قوم ثمود كو ہلاكت ميں ڈالا تھا ، عثمان بھى اسى طرح تمھارے درميان باعث فساد و اختلاف نہ بن جائے

اگر عثمان قتل ہو گيا تو يہ لو ،يہ طلحہ موجود ہے ، يہ تمام لوگوں ميں سب سے لائق اور بہتر شخص ہے ، اسى كى بيعت كرلو اور اختلاف و تفرقہ سے بچو _

عائشه ان باتوں كے بعد جس قدر جلد ممكن ہوا تيزى سے مدينے كى طرف چليں ، راستے بھر مدينے كے اوضاع و حالات كا پتہ لگاتى رہيں ، ليكن طلحہ كے خليفہ ہونے ميں ان كو ذرا بھى شك وشبہ نہ تھا(۵)

عائشه نے مدينے كى راہ تيزى سے طئے كى وہ اس فكر ميں غلطاں تھيں ، وہ بدبداتى رہيں_

(عثمان وہى يہودى شخص ، عثمان ا پنى عياريوں اور حماقتوں كا مجموعہ ، رحمت خدا سے دور ہو عثامن كو الگ كرو_ مجھ سے طلحہ كى بات كرو ، وہى جو ميدان جنگ كا شير ہے ، ميرے چچيرے بھائي طلحہ كى بات مجھ سے كرو ، اے طلحہ كيا كہنا تمھارے بآپ كا جس نے تمھارے جيسا فرزند پيدا كيا لوگوں نے بڑا اچھا انتخاب كيا ہے ، انھوں نے صرف طلحہ كو خلافت كيلئے مناسب سمجھا ، اسى كو خلافت كے لئے منتخب كيا ، ہاں صرف وہى اسكے لائق بھى ہے ، گو يا دور سے ميرى انكھيں ديكھ رہى ہيں كہ لوگ بڑھكر اسكى بيعت كررہے ہيں ، ميرى سوارى تيز ھنكائو ، تيز ھانكو تاكہ ميں اسكے پاس پہونچ جائوں )

عائشه اسى غوطے ميں تھيں ، مدينے كى راہ طئے كر رہى تھيں كہ اثنائے راہ عبيد بن ام كلاب(۶) كا سامنا ہوا ، وہ مدينے سے ارہا تھا ، اس سے پوچھا ، اے عبيد مدينے كى كيا خبر ہے ؟

____________________

۵_ كيونكہ طلحہ خليفہ اول كے چچيرے بھائي تھے ، اس خاندان كے ہونے كى وجہ سے خلافت سے قربت حاصل تھى ، ليكن عا ئشہ نے رسول (ص) كے چچيرے بھائي كے بارے ميں يہ رائے ظاہر نہيں كى

۶_ عبيد قبيلہ ليث كى فرد تھا، اسكا عا ئشہ سے مكالمہ اكثر مورخوں نے لكھا ہے ، جيسے طبرى ج۵ ص۱۷۲ ، ابن اثير ج۳ ص۸۰ ، طبقات بن سعد ج۴ ص۸۸ ، كنز العمال ج۳ ص۱۶

۱۳

عبيد نے جواب ديا ،لوگوں نے عثمان كو قتل كر ڈالا ، اور اٹھ دن بغير سر پرست رہے _

عائشه نے جھٹ سے پوچھا ، اسكے بعد كيا ہوا ؟

x عبيد نے كہا خدا كا شكر كہ بخير و خوبى كام انجام پا گيا ، مسلمانوں نے پورى د ل جمعى اور ايك دل و زبان ہو كر على بن ابى طالب كى بيعت كرلى ، انھيں كو امام منتخب كر ليا _

عائشه نے كہا ، خدا كى قسم ، اگر خلافت كا معاملہ على كے حق ميں تمام ہوا ہے تو اسمان پھٹ پڑے ، اے عبيد تجھ پر افسوس ہے ، ذرا غور تو كر، تو كيا كہہ رہا ہے ؟

عبيد نے كہا : اے عائشه ، اطمينان ركھيئے ، واقعہ ايسا ہى ہے ، جيسا ميں نے بيان كيا _

عبيد كى بات سنتے ہى عائشه نے صدائے فرياد بلند كى ، وہ زور زور سے چلانے لگيں ، ہائے واويلا كرنے لگيں عبيد نے كہا ، اے عائشه تم على كى بيعت سے نالاں اور خفا كيوں ہو ،خلافت على سے خوش كيوں نہيں ہو ، على تو خلافت كيلئے سب سے زيادہ سزاوار اور لائق ہيں ، على ہى ميں جن كے فضائل و مناقب كا كوئي پا سنگ نہيں

ابھى عبيد كى بات يہيں تك تھى كہ عائشه نے چلاكر كہا ، مجھے وآپس لے چلو ، جتنى جلدى ہو سكے مجھے وآپس لے چلو ، اسطرح وہ مكہ وآپس چلى گئيں ، ليكن اپنا پہلا نعرہ جن ميں قتل عثمان كا فرمان صادر كيا تھا ، اب بدل ديا تھا ، اب وہ كہہ رہى تھيں ، خدا كى قسم عثمان بے گناہ اور مظلوم قتل كئے گئے ہيں ، مجھے ان كے انتقام كيلئے اٹھنا چاہيئے ، قيام كرنا چاہيئے_

عبيد نے كہا: اے عائشه ، مجھے سخت حيرت ہے كہ آپ كل تك عثمان كے كفر كا فتوى صادر كرتى تھيں ، قتل كا حكم ديتى تھيں ، اسكا نام بڈھا يہودى ركھ چھوڑا تھا ، كتنى جلدى آپ اپنى بات سے پلٹ گئيں كہ آج عثمان كو مظلوم اور بے گناہ كى حيثيت سے متعارف كرارہى ہيں ؟

عائشه نے كہا ، ہاں عثمان ايسے ہى تھے ، ليكن انھوں نے خود توبہ كر لى تھى ، يہ عوام تھے جنھوںنے ان كى توبہ پر توجہ نہ كى انھيں بے گناہ قتل كر ديا ، جانے دو ابھى بھى ان باتوں كو ، تمھيں ميرى گذشتہ باتوں سے كيا سروكار ؟جو كچھ ميں آج كہہ رہى ہوں اسے مانو ، آج كى ميرى بات كل سے بہتر ہے _

۱۴

عبيد نے عائشه كى بات پر يہ چند اشعار كہے :

فمنك البداء و منك الغير

ومنك الرياح و منك المطر

وانت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عند نامن امر

ولم يقسط السقف من فوقنا

ولم تنكسف شمسناوالقمر

وقد بايع الناس تد راء

بذ يل الشباو يقيم الصعر

ويلبس للحرب اثوابها

ومامن وفى مثل من قدغد ر

۱۵

اے عائشه ، ان تمام اختلافات و انقلابات كا سرچشمہ تمہيں ہو ، تمام لرزہ خيز طوفانوں اور فتنوں كو تمہيں نے پيدا كيا _ تمہيں نے قتل عثمان كا فرمان صادر كيا ، تمھيں نے كہا كہ وہ كافر ہو گياہے ، اگرچہ ہم نے تمھارے حكم سے عثمان كو قتل كيا ليكن در اصل عثمان كى قاتل تم ہو ،كہ تم نے قتل كا حكم ديا _

اے عائشه ،نہ تو اسمان پھٹ پڑا نہ چاند سورج گہنائے بلكہ لوگوں نے ايك عظيم انسان كى بيعت كر لى ، وہ بہادر مرد جو جنگى لباس زيب تن كرتا ہے ، اور سركش اور خود پسند لوگوں كى گردن اينٹھتا ہے ، كيا وہ شخص كہ جو وفادار ہو ، وہ اس كے مانند ہو سكتا ہے جو غدار ہو ؟

اسكے بعد عائشه مكہ وآپس چلى گئيں اور مسجدالحرام ميں اپنا اونٹ بيٹھايا اور اپنے كو چھپا كر حجرالاسود كى طرف بڑھيں ، اسى ھنگام لوگوں نے چاروں طرف سے ان كو گھير ے ميں لے ليا _ جب عائشه نے اپنے گرد بڑا مجمع ديكھا تو انھيں مخاطب كر كے كہا :

اے لوگو مظلوم عثمان كو قتل كر ديا گيا ، مجھے بھى انكى مظلوميت پر رونا چاہيئے ، خدا كى قسم ،ان كے خون كا انتقام ضرور لوں گى _

كبھى كہتى تھيں :

اے قبيلئہ قريش على نے عثمان كو قتل كراديا ، عثمان وہ تھے جنكى ايك رات على كى تمام زندگى سے بہتر تھى ابو مخنف نے بھى اس روآیت كو نقل كر كے كہا ہے :

جب عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے على كى بيعت كرلى تو صدائے فرياد بلند كى ، ناس جائے ان لوگوں كا خلافت كو قبيلئہ تيم(۷) ميں وآپس نہيں كررہے ہيں ؟(۸) _

____________________

۷_ تيم عا ئشہ اور ان كے خاندانى ادمى طلحہ كا قبيلہ

۸_ شرح نہج البلاغہ

۱۶

بيعت توڑ نے والے

عام طور سے تمام مسلمانوں نے جان و دل سے حضرت علىعليه‌السلام كو خلافت كے لئے چن ليا ، ان كى بيعت بھى كر لى ، سوائے چند نفر كے ، جو انگليوں پر گنے جاسكتے ہيں ، جيسے عبداللہ بن عمر ، محمدبن مسلم ، اسامہ بن زيد ، حسان بن ثابت اور سعدبن ابى وقاص _

حضرت علىعليه‌السلام كے دوستوں ميں سے دو افراد عمار ياسر اور مالك اشتر نے ان سے اس بارے ميں گفتگو كى _

عمار نے كہا : اے اميرالمومنين ،عام مسلمانوں نے تو آپكى بيعت كرلى سوائے ان لوگوں كے جو انگليوں پر گنے جاسكتے ہيں ، آپ خود انھيں بيعت كرنے كيلئے بلايئے شايد آپ كى بات مان ليں ،اور صحابہ كى روش اور مہاجر و انصار كے رويّے سے روگردانى نہ كريں ، مسلمانوں كے اجتماع سے الگ نہ ہوں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : اے عمار جو شخص ميرى پھيلى ہوئي اغوش ميں نہ اے اور دل و جان سے ميرى بيعت نہ كرے مجھے اسكى ضرورت بھى نہيں _

مالك اشتر نے عرض كى ، يا امير المومنين ،ان ميں سے بعض سر پھرے اگر چہ سبقت اسلامى بھى ركھتے ہيں ، ليكن صرف سابق الاسلام ہونا بيعت سے روگردانى كو جائز نہيں بنا سكتا ، خليفہ معين كرنا تو انتہائي حسّاس موضوع ہے ، بڑا اہم ہے ، اسكى مخالفت اجتماعيت سے انحراف ہے ، انھيں بھى دوسروں كى طرح بيعت كرنى چاہيئے اور مسلمانوں ميں تفرقہ و اختلاف نہيں پيدا كرنا چاہيئے _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : اے اشتر ، ميں ان لوگوں كے خيالات كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتاہوں ، اگر انھيں كے حال پر چھوڑ دوں تو يہ اس سے كہيں بہتر ہے كہ بيعت كے لئے مجبور كروں ، انھيں منحرفين ميں سعد بن ابى وقاص بھى تھا ، اس نے حضرت على كى خدمت ميں اكر كہا :

يا على ، خدا كى قسم مجھے اس بارے ميں ذرا بھى شك و شبہ نہيں كہ آپ مرتبہ خلافت كے سب سے زيادہ لائق اور موزوں ہيں ، ليكن كيا كروں ، مجھے بھر پور يقين ہے كہ دير نہيں گذرے گى كہ كچھ لوگ اسى خلافت كے لئے جسے آپ كے حوالے كيا ہے آپ سے شديد نزاع واختلاف كريں گے ، بات خونريزى تك پہونچے گى _

ميں آپ كى اس شرط پر بيعت كر سكتا ہوں كہ زبان كى تلوار آپ ميرے اختيار ميں ديديں تاكہ جو بھى قتل كا

۱۷

سزاوار ہو مجھے متعارف كرادے _

اميرالمومنينعليه‌السلام نے اسكے جواب ميں فرمايا: اے سعد

مسلمانوں نے ميرے باتوں پر اس شرط سے بيعت كى ہے كہ ميں كتاب خدا اور سنت رسول كے مطابق عمل كروں ، كيا ميں نے ان دونوں كى مخالفت كى ہے كہ تم ميرى مخالفت كررہے ہو ؟

تم بھى ازاد و مختار ہو كہ اسى شرط كے مطابق ميرى بيعت نہ كرو اور اجتماعيت سے الگ رہو(۹) ان متذكرہ افراد كے علاوہ كچھ بنى اميہ كے لوگوں نے بھى على كى بيعت نہيں كى _

مشہور مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ان چند منحرفين ميں سے كچھ كے نام يہ ہيں _

مروان بن حكم ، سعيد بن عاص ، وليد بن عقبہ يہ لوگ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں ائے ،ان ميں تيز طرار وليد تھا اس نے حضرت على سے عرض كيا _

يا على ، آپ نے ہم سب كو اچھى طرح كوٹ ڈالا ، ہمارى كمريں توڑ ڈاليں ، ميں ہى ہوں كہ بڑے افسوس كے ساتھ كہتا ہوں كہ آپ نے ميرے بآپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا _

سعيد كے بآپ كو بھى آپ نے قتل كيا جو قريش كا با اثر تھا ، اسكے قتل سے آپ نے قبيلہء قريش كى كمر توڑى _ اور يہ جو مروان ہے ، اسكے بآپ كى بھى مذمت كى ، ہميں اور اسكے بآپ كى برائي بيان كر كے ہمارے كليجے چھلنى كئے ، جس دن عثمان نے اس پر احسان اور صلئہ رحمى كا برتائو كيا ، اسكے حقوق ميں اضافہ كيا تو آپ نے اس پر عثمان كى لے دے مچائي ، ان پر سخت نكتہ چينى كى ، ان تمام گر ہوں اور خفگيوں كے باوجود ہم آپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں ، ليكن شرط يہ ہے كہ جو كچھ ہم لوگوں سے خلافت عثمان كے زمانے ميں غلطياں ہوئي ہيں ، ان كو نظر انداز فرمايئے ، ہم نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم كئے ہيں انھيں بھول جايئے ،ہم نے مسلمانوںكے مال و دولت كو لوٹا ہے انھيں وآپس نہ ليجئے _ دوسرے يہ كہ قاتلان عثمان كو سزا كے طو رپر قتل كيجئے _

يہ تھا خلاصہ بنى اميہ كے تيز طرار شخص كى بات كا _

____________________

۹_ ترجمہ فتوح اعثم ص ۱۶۳

۱۸

حضرت علىعليه‌السلام ان كى باتيں سنكر غضبناك ہوئے ، آپ كے چہرے پر اثار غضب صاف ديكھے جاسكتے تھے ، آپ نے فرمايا ، تم نے يہ جو كہا كہ ميں نے تمھارے بآپ اور بزرگوں كو قتل كيا ہے تو انھيں ميں نے نہيں قتل كيا ہے ، بلكہ انكى حق سے مخالفت اور دشمنى نے قتل كيا ہے ، شرك و بت پرستى كى طرفدارى نے قتل كيا ہے _

تم نے جو مجھے پيشكش كى ہے كہ ہم نے بيت المال سے بہت بڑى دولت لے لى ہے ، بے حساب مال لوٹا ہے ، تم سے نہيں لوں تو سن لو كہ اس بارے ميں بھى ہمارا عدالت و انصاف ہى كا ر فرما ہوگا ، عدالت كا جو بھى تقاضہ ہو گا ميں اسى كے مطابق برتائو كروں گا ، تم نے دوسرى پيشكش كى ہے كہ عثمان كے قاتلوں كو قتل كروں اگر ميں آج انھيں قتل كردوں تو ايك بہت بڑى داخلى جنگ مسلمانوں كے درميان چھڑ جائے گى _

امير المومنين نے مزيد فرمايا: يہ بہانہ ختم كرو ، جو كہتا ہوں اس پر كان دھر و ، يہى تمھارے حق ميں مفيد ہے ، ميں تمھيں كتاب خدا اور سنت رسول كى طرف بلا رہا ہوں ، حق كو قبول كرو اور باطل سے دور ہوجائو ، كيونكہ اگر كسى كى زندگى سايہ حق و عدالت ميں اسكے لئے تلخ ہو اور باطل كے سائے ميں تو اور بھى تلخ ہوگى ، يہى ہے ميرى اخرى بات ، دل چاہے مانو ، اور دل چاہے تو اپنے خيالات كى پيروى كرو ، جہاں جى چاہے چلے جائو _

مروان نے كہا :

ہم آپ كى بيعت كرتے ہيں ، آپ كے ساتھ ہيں تاكہ اسكے بعد كيا گذرتى ہے(۱۰)

طلحہ و زبير نے بيعت توڑي

طلحہ اور زبير كافى عرصے تك ايك افت اور دنيائے اسلام پر حكومت كرنے كى ارزو دل ميں ركھتے تھے ليكن سب كا خيال على كى طرف تھا اورلوگ صرف انھيں كو اس مرتبے كے لا ئق سمجھتے تھے انھيں كو خليفہ بنانا چاہتے تھے يہى وجہ تھى كہ يہ دونوں خلافت كى ارزو سے منھ موڑ كر حضرت على كى بيعت كرنے پر امادہ ہوئے ، آپ كى بيعت كرنے ميں بظاہر سب پر سبقت كى كيونكہ وہ چاہتے تھے كہ بيعت كر كے خليفہ كى توجہ اپنى طرف مائل كر ليں

____________________

۱۰_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۲۵ ، مسعودى فصل بيعت على ترجمہ فتوح بن اعثم ص ۱۹۳ _ ۱۹۴

۱۹

تاكہ اسى راستے حساس عہدے ان كے ہاتھ اسكيں اور حكومت ميں زيادہ سے زيادہ حصہ بٹور سكيں ليكن جب خلاف توقع حضرت على نے ان لوگوں كو بھى سارے مسلمان افراد كيطرح يكساں اور برابر قرار ديا ، ان كے لئے ذرہ برابر بھى امتياز نہيں برتا تو ان كى سارى اميد وں پر پانى پھر گيا اور ان كا تير نشانہ پر نہيں لگ سكا _

طلحہ اور زبير كى بے جا توقع كو يعقوبى نے اس طرح لكھا ہے :

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں اكر بولے ، يا على ہم لوگ رسول (ص) خدا كے بعد ہر عہد ے اور مرتبے سے محروم ركھے گئے ، ہميں كوئي حصہ نہيں ديا گيا ، اب جبكہ خلافت آپ كے اختيار ميں ائي ہے تو ہميں اميد ہے كہ ہم دونوں كو بھى خلافت كے معاملات ميں شريك و سہيم قرار دينگے اور كوئي حكومت كا حساس عہدہ ہمارے اختيار ميں ديدينگے _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا كہ تم اس پيش كش سے باز ائو ، كيونكہ اس سے بالاتر مرتبہ كيا چاہتے ہو كہ ميرى حكومت و توانائي كو سختيوں اور مصائب ميں ميرا سہارا ہو اس حكومت كے استحكام تمھارے رويّے ميں منحصر ہے كيا اس سے بھى بالا تر اور بہتر مرتبہ كسى اور مسلمان كيلئے ممكن ہے ؟(۱۱)

مورخين نے نقل كيا ہے كہ حضرت على نے يمن كى حكومت طلحہ كو دى اور يمامہ اور بحرين كى حكومت پر زبير كو مامور كيا ، جس وقت آپ نے حكومت كا منشور اور عہد نامہ انھيں دينا چاہا تو ان دونوں نے كہا :

اے امير المومنين آپ نے ہمارے ساتھ صلہ رحم فرمايا اور رشتہ دارى كا حق ادا كرديا _ حضرت علىعليه‌السلام نے فوراََ وہ عہد نامہ ان سے لے ليااور فرمايا كہ ميں ہرگز صلہ رحم كے طور پر يا رشتہ دارى كا حق ادا كرنے كيلئے مسلمانوں كے اختيار ات كسى كو نہيں ديتا ہو ں _

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كے اس سلوك سے غصّہ ہو گئے ، انھوں نے كہا يا على دوسروں كو ہم پر ترجيح ديتے ہيں اور ان كے مقابلہ ميں ہميں ذليل كرتے ہيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :كہ تم لوگ رياست و حكومت كيلئے حد سے زيادہ والہانہ پن كا مظاہر ہ كر رہے ہو ، ميرے خيال ميں حريص اور رياست طلب افراد اس كام كيلئے ہرگز موزوں نہيں ہيں كہ مسلمانوں پر حكومت كريں اور

____________________

۱۱_ يعقوبى فصل بيعت على ص ۱۲۶

۲۰

ان كے اختيارات حوالے كيلئے جائيں(۱۲)

طبرى اس سلسلے ميں يوں لكھتا ہے :

طلحہ و زبير نے حضرت علىعليه‌السلام سے مطالبہ كيا كہ كوفہ اور بصرہ كى حكومت انھيں ديديں ، حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں جواب ديا كہ اگر تم دونوں ميرے پاس رہو اور خلافت و حكومت كو رونق بخشو تو اس سے كہيں زيادہ بہتر ہے كہ دور دراز علاقوں ميں جائو اور مجھ سے جدار ہو ، كيونكہ ميں تم لوگوں كے فراق سے احساس تنہائي اور دكھ محسوس كرونگا(۱۳)

جيسا كہ كہا گيا حضرت على نے طلحہ و زبير كى خواہش كے مطابق عہدہ و منصب ان كے حوالہ نہيں كيا اور معاملہ خلافت ميں اپنے ساتھ حصّہ دار اور شريك بھى قرارنہيں ديا ، يہ پہلى وجہ تھى كہ طلحہ و زبير خلافت سے ناراض ہو گئے اور اسى بات نے انھيں حكومت سے رنجيدہ بنايا كہ نتيجہ ميں انھوں نے بيعت توڑ دى اور اخرى جنگ جمل واقع ہوتى _

دوسرى وجہ جو طلحہ و زبير كے بيعت توڑنے كى باعث ہوئي اور انھيں ميدان جنگ ميں كھينچ لائي ، يہ تھى كہ حضرت علىعليه‌السلام بيت المال كو تمام مسلمانوں كے درميان مساويانہ تقسيم كرتے تھے ، اور كسى شخص كے بھى خصوصى امتياز كے قائل نہيں تھے يہاں تك كہ طلحہ و زبير بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، ليكن يہ مساوات كى روح اور عادلانہ رويّہ ان دونوں كو ہضم نہ ہوسكا اور يہ لوگ بات كو برداشت نہ كرسكے ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام پر شدّت كے ساتھ اعتراضات كئے اور مساوات كے خلاف ريشہ دوانيوں پر امادہ كيا _

_ابن الحديد كہتا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے بيت المال كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اور ہر شخص كو تين دينار عطا كيا ، زمانہ خلافت عمر اور عثمان كے بر خلاف حضرت علىعليه‌السلام نے تمام عرب و عجم كے مسلمانوں كو برابر و يكساں قرار ديا _

_طلحہ و زبير نے حضرت علىعليه‌السلام كى اس مساوات پر اعتراض كرتے ہوئے اس عادلانہ بٹوارے كى مخالفت كى ، اور اپنا حصہ نہيں ليا _

_حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں اپنے پاس بلايا بلاكر پوچھا اللہ كو حاضر و ناظر جان كر بتائو كہ تم ہى لوگ ميرے پاس

____________________

۱۲_ رسول اللہ نے بھى حريص اور رياست طلب افراد كو كوئي منصب اور عہدہ حوالہ نہيں كيا ، صحيح بخارى ج۴ ص ۱۵۶ ، صحيح مسلم ج۵ ص ۶

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۱۵۳ ، تاريخ ابن كثير ج۷ ص ۱۲۷ _ ۱۲۸

۲۱

نہيں ائے تھے اور مجھ سے مطالبہ نہيں كيا تھا كہ خلافت كى باگ دوڑ اپنے ہاتھ ميں لے ليجئے حالانكہ ميں اسے قبول كرنے سے انكار كر رہا تھا اور ميں نے سخت نا پسند يدگى كا مظاہرہ كيا _

_جى ہاں

_كيا تم لوگوں نے بغير زور زبر دستى كے خود اپنے ہى اختيار سے ميرى بيعت نہيں كى تھى اور خلافت و حكومت كے معاملات ميرے حوالے نہيں كئے تھے

_جى ہاں

_پھر اخر كون سى ميرے اندر نا پسنديدہ بات تم نے ديكھى كہ ميرے اوپر اعتراض كر رہے ہو اور ميرى مخالفت كررہے ہو

_يا على آپ خود بہتر جانتے ہيں كہ ميں تمام مسلمانوں كے مقابلے ميں سابق الاسلام ہوں اور صاحب فضيلت ہوں ، ہم نے اس اميد پر آپ كى بيعت كى تھى كہ ميرے مشورہ كے بغير معاملات حكومت كے اہم كام نہيں كيجئے گا ليكن اب ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ ہمارے مشورہ كے بغير اہم كام كررہے ہيں اور بغير ہمارى اطلاع كے بيت المال مساويانہ تقسيم كر رہے ہيں

_اے طلحہ و زبير ؟ تم چھوٹى چھوٹى باتوں پر اعتراض كررہے ہو اور اہم امور و مصالح سے چشم پوشى كررہے ہو ، اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو شايد اللہ تمھارى توبہ قبول كر لے _

_اے طلحہ و زبير مجھے بتائو تو كہ كيا ميں نے جو تمھارا واجبى حق ہے ، اس سے محروم ركھا ہے ، تم پر ظلم و ستم روا ركھا ہے _

_معاذاللہ آپ سے كوئي ظلم نہيں ہوا ہے _

_ كيا بيت المال كى يہ دولت ميں نے اپنے لئے مخصوص كر لى ہے _

_كيا دوسروں سے زيادہ حق لے ليا ہے _

_نہيں ، خدا كى قسم ايسا كام آپ سے نہيں ہوا ہے _

_كيا كسى مسلمان كے بارے ميں تمھيں ايسى بات معلوم ہوئي ہے كہ جو ميں نہيں چاہتا ہوں يا اسے نافذ

۲۲

كرنے ميں سستى اور كمزورى دكھائي ہے _

_نہيں خدا كى قسم

_پھر تم نے ميرى حكومت ميں كيا بات ديكھى كہ مخالفت كررہے ہو اور اپنے كو مسلمانوں كے معاشرے سے الگ تھلگ كررہے ہو _

_ايك ہى چيز نے ہميں آپ سے رنجيدہ خاطر كيا ، اور حكومت سے بد ظن بنايا ہے كہ آپ نے خليفہ ء دوم عمر بن خطاب كى روش كى مخالفت كى ہے ، وہ بيت المال كى تقسيم كے وقت سابق الاسلام افراد اور صاحبان فضيلت لوگوں كا خيال ركھتے تھے ، اور ہر شخص كو اس كے مرتبہ و مقام كے لحاظ سے حصہ ديتے تھے _

ليكن آپ ہيں كہ تمام مسلمانوں كو مساوى قرار ديديا ہے اور ہمارے امتياز كو نظر انداز كيا ہے ، حالانكہ يہ مال و دولت ہمارى ہى تلواروں سے اور ہمارى ہى كوششوں اور جانبازيوں سے حاصل ہوا ہے ، كيسے جائز ہو گا كہ جن لوگوں نے ہمارى تلواروں كے خوف سے اسلام قبول كيا وہ ہمارے برابر ہو جائيں ؟

_تم نے معاملات خلافت ميں مشورے كى بات كہى توسن لو كہ مجھے خلافت سے ذرا بھى رغبت نہيں تمہيں نے مجھے اس كى طرف بلايا اور مجھے زبردستى مسند خلافت پر بيٹھا يا ميں نے بھى مسلمانوں كے اختلاف اور بكھرائو كے ڈر سے اس ذمہ دارى كو قبول كيا ، جس وقت ہم يہ ذمہ دارى قبول كررہے تھے تو عہد كيا تھا كہ كتاب خدا (قران ) اور سنت رسول ہى پر عمل كرونگا ہر مسئلہ كا حكم انھيں دونوں سے حاصل كرونگا مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت نہيں ہے تاكہ تمھارے خيالات سے امور خلافت ميںمدد حاصل كروں اسى قران و سنت نے مجھے دوسرے لوگوں كے استنداد سے بے نياز بنا ديا ہے ، ہاں ، اگر كسى دن كوئي اہم معاملہ پيش ائيگا كہ جس كے بارے ميں كوئي حكم قران و سنت ميں نہ ہو ، اور اپنے مشورے كا محتاج سمجھوں گا، تو تم سے مشورہ كرونگا ، اب رہى بيت المال كے مساويانہ تقسيم كى بات ، تو يہ بھى ميرى خاص روش نہيں ہے ميں پہلا شخص نہيں ہو ں كہ يہ رويّہ اپنايا ہو ، ميں اور تم رسول خدا كے زمانے ميں تھے ہم نے ان كا رويّہ ديكھا كہ ہميشہ بيت المال كو مساويانہ تقسيم كرتے تھے اور كسى شخص كے لئے ذرہ برابر امتياز كے قائل نہيں تھے _

۲۳

اس كے علاوہ اس مسئلہ كا حكم قران ميں بھى ايا ہے كہ ہم مساوات اور برابر كا برتائو كريں اور مہمل امتيازات كوٹھكرا ديں ، يہ قران تمھارے درميان ہے ، اس كے احكام ابدى ہيں اس ميں ذرہ برابر بھى باطل اور نا روابات شامل نہيں ہوئي ہے _

تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ يہ بيت المال تمھارى تلواروں سے حاصل ہوا اس طرح تمھارے امتياز كا لحاظ كيا جائے ، پچھلے زمانہ ميں ايسے لوگ تھے كہ جنھوں نے اپنے جان و مال سے اسلام كى مدد كى انھوں نے مال غنيمت حاصل كيا ، اس كے باوجود رسول خدا(ص) نے بيت المال كى تقسيم ميں ان كے لئے كوئي امتياز نہيں برتا ، ان كى سبقت اسلامى اور سخت جدوجہد اس كا باعث نہيں ہوتى كہ انھيں زيادہ حصہ ديديا جائے ، ہاں ، يہ جانبازى حتمى طور سے ان لوگوں كو اللہ كى بارگاہ ميں لائق توجہ قرار ديتى ہے وہ قيامت كے دن اپنے اس عمل كى جزا پائيں گے ، خدا جانتا ہے كہ ميں اس بارے ميں تمھارے اور تمام مسلمانوں كيلئے اتنا ہى جانتا ہوں ، خدا وند عالم ہم سب كو راہ راست كى ھدآیت كرے ، ہميں صبر عطا كرے ہمارى مددو نصرت كرے ، خدا وند عالم ان لوگوں پر رحمت نازل كرے جو حق كى حمآیت كرتے ہيں ظلم و ستم سے پر ہيز كرتے ہيں اور اس كيلئے برابر كو شاں ہيں _(۱)

طبرى نے بھى اس سلسلہ ميں لكھا ہے :

جب طلحہ تمام قسم كے امتياز سے مايوس ہو گئے تو يہ مشہور كہاوت زبان پر جارى كى _

مالنا من هذا الامر الا كلحسة الكلب انفه (ہميں تو اس كام ميں بس اتنا ہى فائدہ حاصل ہوا جتنا كتّا اپنى زبان سے چاٹنے ميں فائدہ محسوس كرتا ہے )(۲) ہاں ، ہم على كى خلافت سے نہ تو پيٹ بھر سكے اور نہ كوئي منصب پا سكے _

طلحہ و زبير حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت كرنے كے بعد كسى منصب اور عہدہ كے منتظر تھے انھوں نے چار مہينے تك اس كا انتظار كيا وہ اس عرصے ميں حضرت على كى روش ديكھتے رہے كہ شايد وہ اپنا رويّہ بدل ديں ليكن انھوں نے كسى قسم كى نرمى يا اس رويّہ سے انحراف محسوس نہيں كيا كوئي تبديلى نہيں پائي اس طرح وہ عہدے اور منصب كے حصول سے قطعى مايوس ہوگئے ، ادھر انھيں اطلاع ملى كہ عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت كا پرچم مكّہ ميں لہرا ديا ہے تو انھوں نے پكا ارادہ كر ليا كہ عائشه كى مدد كرنے كيلئے مكہ جائيں ، وہ دل ميں يہى خيال لئے ہوئے حضرت امير المومنين كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور زيارت خانہء كعبہ كيلئے سفر كى اجازت چاہى حضرت علىعليه‌السلام نے بھى بظاہر ان سے اتفاق كيا اور سفر كى اجازت تو ديدى ليكن اپنے دوستوں سے فرمايا ، خدا كى قسم ان لوگوں كے

____________________

۱_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۷ ص ۳۹

۲_ طبرى ج۵ ص ۵۳

۲۴

سفر كا مقصد خانہ كعبہ كى زيارت نہيں ہے بلكہ انھوں نے زيارت كو بہانہ بنايا ہے بلكہ ان كا مقصد صرف بيعت توڑنا (غدارى اور بے وفائي كرنا ہے )

بہر صورت جب حضرت علىعليه‌السلام نے ان لوگوں كو سفر كى اجازت ديدى تو انھوں نے دوبارہ بيعت كى ، اور مكہ كى طرف جانے لگے وہاں مكہ ميں پہونچ كر حضرت كے مخالف گروہ عائشه كے لشكر ميں مل گئے(۳) _

لشكر كى تيّاري

جب مدينہ كے راستے ميں عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے حضرت على كى بيعت كر لى ہے تو وہ مخالفت كا پكا ارادہ كر كے مكہ وآپس چلى گئيں اور وہاں مخالفت على كا پرچم لہرايا ، كھلم كھلا لوگوں كو آپ كى مخالفت پر ابھارا جب حضرت علىعليه‌السلام كى مخا لف پارٹيوں كو اس كى اطلاع ملى تو چاروں طرف سے عائشه كى طرف پہچنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير جو حضرت علىعليه‌السلام كى مساوات كے سخت مخالف تھے ، جيسا كہ گذشتہ فصل ميں بيان كيا گيا ، حضرت علىعليه‌السلام سے بيعت توڑ كر اور ان كى صحبت چھوڑ كر مكہ چل پڑے پھر وہ عائشه كے لشكر ميں شامل ہوگئے(۴)

ادھر بنى اميہ كو حضرت علىعليه‌السلام سے پرانى دشمنى تھى وہ اس موقعے كے انتظار ميں تھے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بغاوت كريں جب انھيں مخالفت عائشه كى خبر ملى تو وہ بھى مدينے سے مكہ گئے اور اس پرچم كے سايہ ميں پہنچ گئے جسے عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كى مخالفت كيلئے لہرايا تھا _

ادھر ان گورنروں اور عاملوں كى ٹولى تھى جو عثمان كے زمانہ ميں عہدہ پائے ہوئے تھے ، ان سب كو حضرت علىعليه‌السلام نے ايك كے بعد ايك معزول كيا اور معزول كر كے عہدوں سے ہٹا ديا يہ بھى مختلف شہروں سے بڑى بڑى دولت ليكر جو مسلمانوں كے بيت المال سے حاصل كى گئي تھى ، عائشه كے لشكر ميں جمع ہونے لگے ، اخر كا ر يہ تمام مختلف الخيال گروہ جن كے دماغ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف ايك مخصوص مقصد تھا چاروں طرف سے عائشه كے لشكر ميں شامل ہونے لگے _

____________________

۳_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۲۷ ، تاريخ ابن اعثم ص ۱۶۶ _ ۱۶۷

۴_ يہ دونوں عا ئشہ كے رشتہ دار تھے كيونكہ طلحہ ان كے خاندانى تھے اور زبير ان كى بہن كے شوہر تھے

۲۵

طبرى نے زہرى كا بيان نقل كيا ہے كہ :

طلحہ و زبير عثمان كے قتل ہونے كے چار مہينہ كے بعد مكہ ائے اور عبداللہ ابن عامر(۱) بھى ايا جو عثمان كى طرف سے بصرہ كا گورنر تھا اورحضرت علىعليه‌السلام نے اس كو معزول كر ديا تھا وہ ايك بہت بڑى دولت ليكر مكہ ايا ، ادھريعلى بن اميہ(۲) وہ بے حساب دولت ليكر چار سو اونٹوں كے ساتھ مكہ ميں وارد ہوا عبداللہ بن عامر نے بھى لشكر كى تيارى ميں چار لاكھ دينار زبير كو ديئے سپاہيوں كے ہتھيار كا انتظام كيا اور وہ مشہور اونٹ جس كو عسكر كہا جاتا ہے ، اور جسے اسّى دينار يا بقول مسعودى دو سو دينار ميں خريدا تھا ، عائشه كو ديا تاكہ جنگ ميں وہ اس پر سوار ہوں_

عائشه كا ھودج اسى اونٹ پر باندھا گيا ، عائشه كو اس پر بٹھايا گيا اس طرح على كى مخالفوں كى ٹولى مكہ ميں جمع ہوئي اور ايك زبر دست لشكر تيار ہوگيا اور لڑنے كيلئے چلا _

عراق كى طرف

طبرى كا بيان ہے كہ: عائشه نے حضرت علىعليه‌السلام كے مخالف گروہ كو مكہ ميں اپنے گرد جمع كر ليا اور اس طرح ايك بہت بڑا اور وسائل سے اراستہ لشكر بنا ليا اس كے بعد سرداران لشكر بھى جمع ہو كر گہار مچانے لگے _

ان ميں سے كچھ لوگوں نے كہا كہ ہميں سيدھے مدينے كيطرف چلنا چاہيئے اور اپنى اس طاقت اور لشكر سے على كے

____________________

۱_ عثمان كا خالہ زاد بھائي

۲_يعلى بن اميہ كى كنيت ابو صفوان اور ابو خالد تھى ، فتح مكہ ميں اسلام لايا جنگ حنين طائف اور تبوك ميں شركت كى عمر نے اس كو يمن كے ايك شہر كا حاكم بنا ديا تھا يعلى نے ايك چراگاہ وہا ں اپنے لئے مخصوص كر لى تھى عمر نے اس جرم كى باز پرس كيلئے مدينہ طلب كيا ليكن مدينہ پہونچنے سے پہلے ہى عمر قتل ہو گئے ، پھر عثمان نے اس كو صنعاء كا حكمراں بنايا اور حساس عہدہ حوالہ كيا اس طرح اس نے اس سے شديدوابستگى ظاہر كى جب مسلمانوں نے عثمان سے بغاوت كى تو وہ يہ مدد كرنے كيلئے صنعاء سے چلا راستہ ميں اپنى سوارى سے گرا اور اس كا گھٹنا ٹوٹ گيا ، عثمان كے قتل كے بعد وہ مكہ پہونچا اور اعلان كيا كہ جو بھى عثمان كے انتقام ميں اٹھے گا ميں اس كے ہتھيار اور اخراجات كا ذمہ دار بنوں گا اسى عہد كے مطابق اس نے چار ہزار درہم زبير كو ديئے اور قريش كے ستر سپاہيوں كو مسلح كيا مسلح كركے گھوڑے اور اونٹ ديئے اسى نے عا ئشہ كو وہ اونٹ حوالہ كيا تھا كہ جس پر وہ جنگ جمل ميں سوار ہوئي تھيں ، يعلى نے جنگ جمل سے ان اخراجات كے علاوہ خود بھى شركت كى ليكن جنگ كے بعد توبہ كر كے حضرت على كے صف ميں شامل ہو گيا وہ جنگ صفين ميں حضرت على كے لشكر ميں تھا ، يہ مطلب ہے اسكے ابن الوقت ہونے كا

۲۶

خلاف جنگ كرنا چاہيئے _

كچھ دوسروں نے رائے دى كہ ہم اس كمزور طاقت اور كم افراد كے ساتھ حضرت على كے لشكر كا مقابلہ نہيں كر سكتے اور نہ مركز اور اسلامى راجدھانى پر حملہ كر كے حكومت وقت سے جنگ كر سكتے ہيں (ہميں چاہيئے كہ پہلے شام كى طرف چليں اور معاويہ سے مدد طلب كريں ان سے فوجى كمك اور جنگى سازوسامان حاصل كريں اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كريں )

كچھ دوسروں نے يہ پيش كش كى كہ ہميں پہلے عراق كى طرف كوچ كرنا چاہيئے اور دو عراق كے بڑے شہروں كوفہ اور بصرہ كى طاقت جمع كرنى چاہيئے ، جہاں طلحہ اور زبير كے حمآیتى ہيں اس طرح ہم وسائل جنگى سے زيادہ تيار ہو جائينگے اس كے بعد ہم لوگوں كو مدينہ چل كر على سے جنگ كرنى چاہيئے _

سبھى اركان شورى نے اس رائے كو پسند كر كے تائيد كى ، اسى پر عائشه نے امادگى ظاہر كر كے اپنے فوجيوں كو تيار ہونے كا حكم ديا اور وہ سات سو جنگى سپاہيوں كے ساتھ مكہ سے عراق كيطرف چليں ، ليكن اثنائے راہ ميں چاروں طرف سے لوگ ان كے گرد جمع ہو كر ان كے لشكر ميں شامل ہونے لگے اخر كار اس فوج كى تعداد تين ھزار تك پہونچ گئي(۵)

ام سلمہ نے عائشه كو سمجھايا

ابن طيفوركا بيان ہے :

جس دن عائشه نے اپنے لشكر كے ساتھ بصرہ كى طرف حركت كى ام سلمى نے ان سے ملاقات كر كے كہا :

اے عائشه اللہ نے تمھيں پابند بنايا ہے اس كے حكم سے سرتابى نہ كرو اللہ نے اپنے پيغمبر(ص) اور تمھارے درميان اور لوگوں كے درميان حجاب كا احترام قرار ديا ہے ، وہ پردہ پھاڑ كر رسول(ص) كا احترام مت برباد كرو ، اللہ نے تمھيں گھر ميں بيٹھنے كا حكم ديا ہے اسے صحرا نوردى ميں مت بدل دو _

اے عائشه رسول(ص) خدا تمھيں بہت اچھى طرح پہچانتے تھے _

____________________

۵_طبرى ج۵ ص ۱۶۷

۲۷

تمھارى حيثيت سے بھر پور واقفيت ركھتے تھے اگر ايسے معاملات ميں تمہارى مداخلت بہتر ہوتى تو لازمى طور سے تمھيں كوئي حكم ديتے اور تم سے كوئي معاھدہ كرتے ،ليكن صورت حال يہ ہے كہ صرف يہى نہيں كہ انھوں نے اس بارے ميں تم كو كوئي حكم نہيں ديا ہے بلكہ ايسے اقدامات سے تمھيں منع كيا ہے _

اے عائشه اگر رسول خدا (ص) تمھيں اس طرح سفر كى حالت ميں ديكھيں تو انھيں تم كيا جواب دوگى ؟ خدا سے ڈرو ، اور خدا كے رسول سے حيا كرو كيونكہ خداوند عالم تمھارى اس روش كو ديكھ رہا ہے وہ تمھارے سارے اعمال كا نگراں ہے اور تمھارا چھوٹا سا عمل بھى رسول خدا(ص) سے پوشيدہ نہيں ہے _

اے عائشه تم نے جو راستہ اپنايا ہے يہ انسانيت سے گرا ہوا راستہ ہے كہ اگر ميں تمھارى جگہ پر ہوتى اور مجھے حكم ديا گيا ہوتا كہ جنت ميں جائوں تو مجھے شرم اتى كہ وہاں ميں رسول خدا(ص) سے ملاقات كروں گى ، تم بھى اپنى شرم و حيا ختم نہ كرو اور مرتے دم تك ايك گھر كے كونے ميں بيٹھى رہو تاكہ رسول اللہ تم سے راضى رہيں _

بعض مورخين كے بيان كے مطابق ام سلمى نے اخرميں يہ فرمايا كہ:

اے عائشه تمہارے بارے ميں جو كچھ ميں نے رسول اللہ سے سنا ہے ، اگر انھيں دہرائوں تو تم اس طرح تڑپنے لگوگى جيسے سانپ كا كاٹا تڑپتا ہے ، اور تم صدائے فرياد بلند كرنے لگوگى _

عائشه نے ام سلمى كا جواب ديا اے ام سلمى اگر چہ ميں نے ہميشہ تمھارى نصيحت مانى ہے ليكن ميں اس معاملہ ميں تمھارى بات نہيں مان سكتى ، كيونكہ يہ بہت مبارك سفر ہے جس كا ميں نے ارادہ كيا ہے ، ديكھو مسلمانوں كى دو پارٹيوں ميں اختلاف ہے اب ان ميں صلح و صفائي ہو جايئگى ، ميں ان اختلافات كو ختم كركے دم لونگى ،

نعم المطلع مطلعاًاصلحت فيه بين فئتين متناجزتين (۶) _

راستے كى باتيں

عائشه نے اپنے اس لشكر كو كوچ كا حكم ديا كہ جو حضرت علىعليه‌السلام كے مخالف گروہوں او ر پارٹيوں سے تشكيل پايا تھا اور عراق كى طرف چليں اس طويل راستے ميں بصرہ پہچنے تك ايسے واقعات و حوادث پيش ائے جنھيں يہاں پيش كيا جاتا ہے _

____________________

۶_ فائق زمخشرى ج۱ ص ۲۹۰ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۷۹ ، عقد الفريد ج۳ ص ۶۹ ، تاريخ يعقوبي

۲۸

پيش نمازى پر اختلاف

طبرى لكھتاہے :

جس وقت عائشه كا لشكر مكہ سے چلا شھركے باہر مروان نے نماز كيلئے اذان دى ، اس كے بعد طلحہ و زبير كے سامنے اكر بولا _

ميں تم دونوں ميں سے كس كو امير سمجھوں كہ جسے لوگوں كے سامنے پيش نمازى كيلئے متعارف كرائوں چونكہ طلحہ و زبير اپنے نظريہ كو ايك دوسرے كے سامنے واضح طور سے بيان نہيں كر سكتے تھے كہ اپنے كو اس مقام كيلئے پيش كريں ، ان دونوں كے بيٹوں نے اپنى رائے ظاہر كى ہر ايك اپنے بآپ كو پيش كرنے لگا عبداللہ نے اپنے بآپ زبير كو اور محمد نے بھى اپنے بآپ طلحہ كو پيش كيا ، اس طرح دونوں كے درميان اختلاف پيدا ہوگيا جب عائشه كو اس واقعہ كى اطلاع ملى تو وہ سمجھ گئيں كہ پيش نمازى كے بہانے سے نفاق اور اختلاف كا بيج لشكر كے درميان بويا جارہا ہے انھوں نے مروان كو اپنے پاس بلاكر كہا اے مروان تو كيا چاہتا ہے ؟اپنى اس حركت سے لشكر ميں اختلاف كيوں پيدا كررہا ہے نماز ميرے بھائي كا بيٹا عبداللہ ابن زبير پڑھائيگا عائشه كے فرمان كے مطابق جب تك لشكر بصرہ پہنچے عبداللہ نماز پڑھاتے رہے اور تمام لوگ انھيں كے پيچھے نماز پڑھتے رہے _

معاذ ابن عبداللہ نے جب پيش نمازى كے مسئلے ميں طلحہ و زبير كے درميان اختلاف ديكھا تو كہا :

خدا كى قسم ، اگر فتح اور كاميابى ہمارے حصہ ميں ائي تو مسئلہ خلافت ميں ہم لوگ سخت اختلاف كا شكار ہو جائيں گے

كيونكہ نہ تو زبير اس منصب سے دستبردار ہونگے كہ وہ طلحہ كو ديديں اور نہ طلحہ يہ منصب زبير كو دينگے(۷) _

انتظامى معاملات كا اختلاف

طبرى كا بيان ہے كہ جب عائشه كا لشكر ذات عرق پر پہنچا تو سعيدابن عاص(۸) جو بنى اميہ كے اشراف قريش ميں تھا اور عائشه كے لشكر كا فوجى تھا اس نے مروان اور اس كے ساتھيوں سے كہا كہ اگر واقعى تم خون عثمان كا انتقام لينا چاہتے ہو تو كہاں جارہے ہو ؟چونكہ عثمان كے قاتل تو اسى لشكر ميں موجود ہيں(۹)

____________________

۷_طبرى ص۱۶۸

۸_ سعيد ابن عاص يہ شخص بنى اميہ كا تيز طرار ادمى سمجھا جاتا تھا اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس كے بآپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا تھا ، يہ عثمان كا منشى تھا اور عثمان كى طرف سے كوفے كا حكمراں تھا علىعليه‌السلام نے اس كو معزول كر ديا تھا

۹_ اس كا مطلب طلحہ زبير اور عا ئشہ سے تھا

۲۹

انھيں كو قتل كردو اور اپنے گھروں كو وآپس چلو ، حضرت علىعليه‌السلام سے جنگ كر كے اپنے كو موت كے منھ ميں كيوں جھونكا جائے ؟

مروان اور اسكے ساتھيوں نے جواب ديا ، ہم اس لئے جا رہے ہيں كہ طاقت حاصل كر سكيں اس طرح ہم عثمان كے تمام قاتلوں كو قتل كر سكيں گے _

اس كے بعد سعيد نے طلحہ و زبير سے ملاقات كى اور كہا ميرے ساتھ سچائي كے ساتھ ائو صحيح صحيح بات كہو كہ اگر اس جنگ ميں تمھيں فتح ملى تو حكومت و خلافت كو كس شخص كے حوالے كرو گے ؟

انھوں نے كہا ہم دونوں ميں سے جس كو بھى عوام چن ليں _

سعيد نے كہا :سچ ، اگر تم خون عثمان كے انتقام ميں اٹھے ہو تو كيا اچھا ہوتا كہ اس خلافت كو بھى انھيں كے بيٹوں كے حوالے كردو _

ان لوگوں نے جواب ديا ہم مہاجر ين كے بوڑھوں اور بزرگوں كو الگ كر ديں اور نا تجربہ كار جوانوں كو اس كام ميں لگا ديں ؟

سعيد نے كہا : ہم بھى نہيں چاہتے كہ خلافت خاندان عبد مناف سے ليكر دوسروں كے اختيار ميں ديديں(۱۰) يہ كہكر

وہاں سے چلا ايا _

عبداللہ ابن خالد اسيد بھى بنى اميہ سے تھا وہ لشكر سے الگ ہوگيا ، مغيرہ ابن شعبہ جو قبيلہ سقيف سے تھا ، جب اس نے اس حادثہ كا مشاہدہ كيا تو اپنے قبيلہ كے افراد سے پكار كر كہا جو بھى قبيلہ ثقيف كا ہے وہ وآپس ہو جائے ، وہ لوگ بھى جو راستے ميں ائے تھے وآپس ہوگئے(۱۱) اور بقيہ لشكر اگے بڑھتا رہا _

تيسرا اختلاف

طبرى اپنى بات اگے بڑھاتے ہوئے لكھتا ہے كہ امارت كے اس اختلاف كے بعد اور چند افرادكى وآپسى كے بعد عثمان كے دونوں فرزند وليد اور ابان بھى عائشه كے لشكر ميں تھے منزل ذات سے اگے بڑھے _

____________________

۱۰_ خاندان عبد مناف كى فرد ميں بنى ہاشم اور بنى اميہ شامل ہيں اس وقت علىعليه‌السلام خليفہ تھے اس لئے بنى اميہ كى فرد سعيد اس بات پر راضى نہيں تھا كہ خلافت بنى ہاشم سے نكل كر خاندان تيم ميں پہنچے اور طلحہ كو حاصل ہو يا زبير كو ملے كہ جو بنى اسد كے خاندان سے تھا

۱۱_ طبرى ج۵ ص۱۶۸ _ طبقات ج۵ ص۲۳

۳۰

ليكن لشكر ميں تيسرى بار بھى اختلاف پيدا ہو گيا كہ كچھ لوگ كہنے لگے كہ ہميں شام كيطرف چلنا چاہيئے اور كچھ لوگ عراق كى رائے دے رہے تھے اس بارے ميں زبير نے اپنے بيٹے عبداللہ اور طلحہ نے اپنے بيٹے علقمہ كو مجلس شورى ميں نامزد كيا ان دونوں نے اس بات پر اتفاق رائے كيا كہ ہم لوگوں كو عراق كى جانب چلنا چاہيئے ، اس طرح نظر ياتى اختلاف اور فوجى كشا كش ختم ہوئي(۱۲)

حوا ب كا واقعہ

چوتھا بھى پيش ايا ، جب عراق كے راستے ميں عائشه كا لشكر تھا اسى وقت اثنائے رائے ميں طلحہ و زبير كو معلوم ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام مدينہ سے چل چكيں ہيں اور وہ منزل ذيقار ميں پہنچ گئے ہيں ، اور كوفے كا راستہ ان پر بند ہو چكا ہے ،طلحہ و زبير نے كوفہ جانے كا خيال بدل ديا اور بے راہہ سے استفادہ كرتے ہوئے بصرے كى طرف چلنے لگے يہاں تك كہ وہ اس جگہ پہچے جس كا نام حوا ب تھا ، وہاں عائشه كے كانوںميں كتّوں كے بھونكنے كى اواز پہنچى _ انھوں نے پوچھا اس جگہ كا كيا نام ہے _

____________________

۱۲_ طبرى ج۵ ص ۱۶۸ ، طبقات ج۵ ص ۲۳

۳۱

لوگوں نے جواب ديا ، حوا ب

فوراً عائشه كو حضرت رسول (ص) اللہ كى حديث ياد اگئي كہ آپ نے اپنى ازواج سے كہا تھا كہ تم ميںسے ايك كو حوا ب كے كتّے بھونكيں گے اور ان ازواج كو منع كيا تھا _

عائشه كو اس حادثہ نے بے چين كر ديا كيونكہ انھيں حديث رسول ياد تھى وہ گھبراہٹ ميں كہنے لگيں انا للہ و انااليہ راجعون ، ہائے ميں وہى عورت ہوں كہ جس كى رسول خدا(ص) نے خبر دى تھى _

عائشه اس خيال كے اتے ہى اس سفر سے پلٹنے لگيں انھوں نے پكّا ارادہ كر ليا كہ ميں وآپس جائوں گى _

جب عبداللہ ابن زبير كو عائشه كے وآپسى كى اطلاع ہوئي تو ان كے پاس اكر حوا ب كے بارے ميں گفتگو كى اور يہ ظاہر كيا كہ جن لوگوں نے آپ كو بتايا ہے انھيں دھوكا ہوا ہے ، اس جگہ كا نام حوا ب نہيں ہے _

عبداللہ ابن زبير اس واقعے كے بعد ہميشہ عائشه كى نگرانى كرتے رہے كہ مبادا دوبارہ بھى كوئي شخص ان سے ملكر اس سفر سے موڑدے _

جى ہاں ، فرزند زبير نے حوا ب كے بعد سے عائشه كے ھودج كے پاس سائے كيطرح چلتے رہے يہاں تك كہ بصرہ وارد ہو گئے(۱۳) _

سرداران لشكر كى وضاحت

طبرى كا بيان ہے كہ :

عائشه كا لشكر مكے سے چل كر بصرہ كے نزديك پہنچا اور وہاں ايك مقام جس كا نام حفر ابو موسى تھا اتر پڑا عثمان ابن حنيف انصارى حضرت علىعليه‌السلام كى طرف سے بصرہ كے گورنر تھے جب انھيں واقعہ كى اطلاع ملى تو ابوالاسود دئيلى كو مامور كيا كہ لشكر عائشه ميں جاكر ان كے سرداروں سے ملاقات كريں اور ان كى خواہش و مقصد كى تحقيق كريں _

ابو الاسود نے اپنے كو عائشه كے لشكر ميں پہونچايا ، پہلے انھوں نے خود عائشه سے ملاقات كى اور پوچھا _

اے عائشه بصرہ انے كا مقصد كيا ہے _

عائشه نے جواب ديا عثمان كے خون كا ان كے قاتلوں سے انتقام لينے يہاں ائي ہوں

____________________

۱۳_ طبرى ج۵ ص۱۷۸ ، عبد اللہ بن سبا ج۱ ص ۱۰۰

۳۲

ابوالاسود نے كہا اے عائشه بصرہ ميں كوئي بھى عثمان كا قاتل نہيں ہے كہ آپ ان سے انتقام ليں _

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود تم ٹھيك كہتے ہو ، عثمان كے قاتل بصرے ميں نہيں ہيں اور ہم بھى يہاں اس لئے نہيں ا ئے ہيں كہ قاتلوں كو بصرہ ميں تلاش كريں بلكہ اس لئے ائے ہيں كہ اس شہر كے لوگوں سے مدد طلب كريں اور ان لوگوں كى مدد و حمآیت سے مدينہ كے قاتلان عثمان سے انتقام ليں جوحضرت علىعليه‌السلام كے ارد گرد ہيں _

اے ابو الاسود جس دن عثمان نے تمہيں تازيانے سے اذيت دى تھى تو مجھے دكھ ہوا تھا اور ميں نے صاف طور سے ان كے اوپر سخت اعتراض كيا ليكن تم لوگوں نے تو انھيں تلواروں سے قتل كيا يہ كيسے مناسب ہے كہ ميں خاموش رہ جائوں اور ان كى مظلوميت پر فرياد نہ كروں ، ان كا انتقام نہ لوں ؟

اے ابوالاسود نہيں ، ميں ہرگز خاموش نہيں رہونگى _

_ ابوالاسود نے كہا :اے عائشه آپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار آپ تو رسول(ص) خدا كے حكم كے مطابق پردہ نشين ہيں آپ كى صرف يہى تكليف ہے كہ اپنے گھر ميں بيٹھى رہيں قران كى تلاوت كريں ، اور پروردگار كى عبادت بجالائيں ، اے عائشه اسلام ميں عورتوں پر جھاد نہيں ہے ، اس كے علاوہ خون عثمان كا انتقام تو تمھارا حق بھى نہيں ، حضرت على خون عثمان كے انتقام كا زيادہ حق ركھتے ہيں كيونكہ وہ رشتہ كے لحاظ سے تم سے زيادہ عثمان كے قريب ہيں كيونكہ دونوں ہى خاندان عبد مناف سے ہيں ، ليكن تم قبيلہ تيم سے ہو _

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ميں اپنا ارادہ بدلوں گى نہيں ، اب اس راہ سے وآپس نہيں جائوں گى جب تك اپنا مقصد نہ حاصل كر لوں اور اپنے قيام كے نتيجہ تك نہ پہونچ جائوں _

اے ابوالاسود تم نے كہا عوتوں پر جنگ و جھاد نہيں ، كون سى جنگ ؟ اور كيسا جھاد ؟ كيا اس معاملے ميں جنگ و جھاد كى بھى بات ہے ، ميرى جو حيثيت ہے (كيا كسى كو جرائت ہو سكتى ہے كہ مجھ سے جنگ كرے )

ابوالاسود نے كہا: اے عائشه آپ كو دھوكا تو يہيں ہوا ہے كيونكہ آپ سے ايسى جنگ ہوگى كہ اس كا اسان ترين ميدان شعلوں سے بھرا ہوا اور كمر شكن ہوگا _

ابوالاسود نے يہيں بات ختم كردى ، پھر انھوں نے زبير سے ملاقات كى اور كہا:

۳۳

اے زبير وہ دن بھولا نہيں ہے جب لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى تھى ، اور آپ قبضہ شمشير پر ہاتھ ركھ كر نعرہ لگا رہے تھے _

( كوئي شخص خلافت كيلئے على سے بہتر اور لائق نہيں ہے ، خلافت كا لباس صرف على كيلئے موزوں ہے ان كے علاوہ كسى كو زيب نہيں ديتا ، ليكن آج وہى شمشير آپ نے ہاتھ ميں ليكر انھيں على كے خلاف قيام كيا ہے _

اے زبير كہاں وہ دلسوزى اور طرفدارى ، اور كہاں يہ عداوت و مخالفت ؟

زبير نے ابوالاسود كے جواب ميں قتل عثمان كا مسئلہ پيش كيا _

_ابو الاسود نے كہا :ہم نے تو جيسا كہ سنا ہے قتل عثمان ميں آپ ہى لوگ شريك ہيں ، حضرت علىعليه‌السلام كو ذرہ برابر بھى اس كے قتل ميں دخل نہيں زبير نے كہا اے ابوالاسود ذرا طلحہ كے پاس جائو ، ديكھو وہ كيا كہتے ہيں _

ابوالاسود كا بيان ہے: كہ ميں طلحہ كے پاس گيا ليكن وہ بہت تند مزاج اور فتنہ انگيز تھے ، وہ بہت زيادہ جنگ كى باتيں كرتے رہے ميرى تمام نصيحتيں اور باتيں بے اثر رہيں(۱۴)

دوسرى روآیت كے مطابق ابوالاسود كا بيان ہے كہ ميں اور عمران ابن حصين بصرہ كے گورنر عثمان ابن حنيف كى طرف سے عائشه كے پاس گئے اور ان سے يہ وضاحت چاہى كہ _

اے عائشه كيا وجہ ہوئي كہ آپ يہاں تك پہنچ گئيں ، كيا آپ كے اس قيام اور سفر كے بارے ميں رسول(ص) خدا كا فرمان ہے يا آپ نے اپنى ذاتى رائے سے يہ اقدام كيا ہے _

عائشه نے كہا: اس بارے ميں ميرے پاس رسول(ص) خدا كا كوئي فرمان يا حكم نہيں ہے بلكہ جس دن سے عثمان قتل كئے گئے ميں نے ذاتى طور سے ان كے خون كا انتقام لينے كى ٹھان لى ، كيونكہ ہم عثمان كے زمانے ميں واضح طور سے ان پر اعتراض كيا كرتے تھے كہ مسلمانوں پر كيوں ظلم ڈھا رہے ہو ، انھيں تازيانے كيوں لگا رہے ہو ، عام زمينوں اور چرا گاہوں كو اپنے اور خاندان والوں كے مويشيوں كيلئے كيوں مخصوص كر لى ہے ، اس سفّاك اور ظالم وليد كو

____________________

۱۴_ الامامة و السياسة ج۱ ص ۵۷ ، شرح نہج البلاغہ ابى الحديد ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۱۷۸

۳۴

جسے رسول(ص) خدا نے جلا وطن كيا تھا اور قران نے فاسق كا نام ديا(۱۵) ايسے شخص كو مسلمانوں كا حكمراں بنا ديا ، ہاں ، ہم نے يہ تمام باتيں اس كے كان ميں ڈاليں اس نے ميرى تمام باتيں مان ليں اپنے كارندوں كى حركات پر شر مندہ بھى ہوا ، اور اپنے توبہ سے اپنے كو پاك كر كے غلطيوں كى تلافى كى _

ليكن تم لوگوں نے اس كے توبہ كو ذرہ برابربھى اہميت نہيں دى ، تلواريں كھينچے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كے گھر ميںاسے مظلوم اور بے گناہ قتل كرديا ، تم لوگ اسلامى سر زمين مدينہ كى عظمت اور خلافت كى شان و شوكت ، ماہ ذى الحجہ كى حرمت ان تمام چيزوں كو اسلام نے محترم قرار ديا ہے تم نے ان سبكو روند ڈالا ، كيسے اور كيوں ميں اس ظلم و ستم كے مقابلہ ميں خاموش رہوںاور اس سركشى اور زيادتى كے مقابلے ميںچپ بيٹھ جائوں_

ابو الاسود نے كہا: اے عائشه آپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار ؟ كيا رسو ل (ص) خدا نے آپ كو ايسے معاملات ميں مداخلت سے منع نہيں كيا تھا ؟

انھوں نے آپ كے لئے گھر كى كوٹھى پسند نہيں كى تھى آپ اپنے شوہر كے حكم كے خلاف اپنے گھر سے باہر كيوں نكل ائيں اور مسلمانوں كے درميان فتنہ و ہنگامہ كھڑا كيا ؟

عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ، كون سا فتنہ و فساد ؟كيا كوئي ايسا بھى ہے جو مجھ سے جنگ كرے ؟ يا ميرے خلاف زبان كھولے كہ فتنہ و فساد پيدا ہو ؟ ہرگز ايسا واقعہ پيش نہيں ائيگا ميرے مقابلہ ميں ايسى حركت كى كسى كو جرائت نہيں ہو گى _

ابوالاسود نے كہا: اے عائشه اگر يہ مخالفت اور ہنگامہ ارائي اگے بڑھتى رہى تو لوگ آپ سے جنگ كرينگے اور ايك عظيم فتنہ برپا ہو جائيگا _

عائشه نے كہا: اے ابو الاسود ، اے قبيلہ عامر كے پست فطرت ، اے بنى عامر كے چھو كر ے بات كم كر ، كون شخص ہے جو زوجہ رسول سے جنگ كر سكے(۱۶)

____________________

۱۵_ سورہ حجرات آیت ۶

۱۶_ بلاغات النساء ص ۹ ، عقد الفريد ج۳ ص ۹۸ ، البيان والتبيين جاحظ ج۲ ص ۲۰۹

۳۵

ابو الاسود اور عائشه سے يہيں پر بات ختم ہو گئي ، ليكن عائشه نے ابو الاسود كى بات كا ذرا بھى اثر نہيں ليا ، اپنا ارادہ نہيں بدلا ، انھوں نے اپنے لشكر والوں كے ساتھ حفر ابو موسى سے اگے بڑھكر بصرہ كے نزديك ايك جگہ پڑا ئو ڈال ديا _

سردار ان لشكر نے تقريريں كيں

لشكر عائشه بصرہ پہنچ گيا اور شہر كے وسيع ميدان --''مربد''كو اپنى چھائونى بنايا _

عثمان ابن حنيف انصارى جوحضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ كے حكمراں تھے ، دوبارہ كچھ لوگوں كو مربدبھيجا ، تاكہ لشكر عائشه كا انتہائي مقصد دريافت كريں _

عائشه نے جب اپنى فوج ميں ايك بڑا اجتماع ديكھا اور بصرے والوں كو بھى ايك جگہ ديكھا تو موقعہ غينمت خيال كركے ان كے سامنے اس طرح تقرير كى _

اے لوگو امير المومنين عثمان اگر چہ حق و عدالت كے راستے سے منحرف ہوگئے تھے ، انھوں نے رسو ل خد(ص) ا كے اصحاب كو اذيت دى ، ناتجربہ كار اور فاسد جوانوں كو حكومت ديدى ، ايسے لوگوں كى حمآیت كى جن پر رسول خدا (ص) غضبناك تھے اور انھوں نے مسلمانوں كى ابادى سے جلا وطن كيا تھا ، عمومى چراگاہوں كو اپنے لئے اور بنى اميہ كيلئے خاص كر ليا تھا ليكن ان تمام باتوں كے با وجود جب لوگوں نے ان پر اعتراض كيا اور اس كے انجام گوش زد كئے تو انھوں نے لوگوں كى نصيحتوں سے سبق ليا اپنے خراب كرتوتوں سے پشيمانى كا اظہار كيا اور اپنے دامن الودہ كو اب توبہ سے دھو ڈالا ، اپنے كو گناہوں سے پاك كر ليا _

ليكن كچھ لوگوں نے ان كے توبہ كو وقعت نہيں دى ان كى پشيمانى پر اعتنا نہيں كيا اور انھيں قتل كر ڈالااور اس پاكيزہ شخص اور بے گناہ شخص كا خون بہا ڈالا اسے قتل كر كے بہت سے بڑے گناہوں سے اپنے كو الودہ كيا كيونكہ وہ خلافت كا مقدس لباس پہنے ہوئے تھے ، جس مہينے ميں جنگ اور خونريزى حرام ہے اسى ماہ ذى الحجہ ميں ، اور اس شہر ميں كہ جس كا احترام اسلام نے لازم قرار ديا ہے ، اسى شہر ميں قربانى كے اونٹ كى طرح انھيں قتل كر ڈالا ان كا خون زمين پر بہا ديا _

اے لوگو جان لو كہ قريش قتل عثمان كے اصل مجرم ہيں انھيں قتل كر كے خود اپنے تيروں كا نشانہ بنا ليا ہے اور اپنے مكّے خود اپنے منھ پر مارے ہيں قتل عثمان سے وہ اپنا مقصد نہ پائيں ان كى حالت كو كوئي فائدہ نہ ہو ، خدا كى قسم ان

۳۶

لوگوں كو افت گھير لے گى جو انھيں نيست و نابود كر ديگى انگاروں سے بھر پور افت ، انھيں جڑ سے اكھاڑنے والى ، ايسى افت كہ سوئے لوگوں كو جگا ديگى اور بيٹھے لوگوں كو اٹھا ديگى _

ہاں ، خدا ئے عادل اس بے حد ظلم كے مقابلے ميں ايسے لوگوں كو ان پر مسلط كر ديگا كہ ان پر ذرا بھى رحم نہ كرينگے اور انھيں بد ترين اور سخت عذابوں سے انھيں اذيت ديگا _

اے لوگو عثمان كا گناہ ايسا نہيں تھا جو ان كے قتل كو جائز بنادے پھر يہ كہ تم لوگوں نے ان سے توبہ كرنے كو كہا اس كے بعد ان كى توبہ كو وقعت ديئے بغير (ٹوٹ پڑے اور بے گناہ ان كا خون بہا ڈالا اس كے بعدتم نے لوگوں كے مشورہ كئے بغير على كى بيعت كر لى اور غاصبانہ طريقے سے انھيں كر سى خلافت پربٹھاديا ) تم لوگ سونچو كہ ميں تمھيں لوگوں كے فائدہ كيلئے عثمان كے حق ميں تمہارى ان شمشيروں سے جوان پر برسائي گئيں غضبناك نہيں ہو جائوں اور خاموش رہوں ؟

اے لوگو ہوش ميں ائو كيونكہ عثمان كو مظلوم اور بے گناہ قتل كيا گيا اب تم لوگ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو ،جہاں بھى ان پر قابو پائو انھيں قتل كر ڈالو ، اس كے بعد ان لوگوں ميں سے جنھيںعمر نے خلافت كيلئے نامزد كيا تھا شورى كے ذريعے سے خليفہ منتخب كر لو ، ليكن ايسا نہيں ہونا چاہيئے كہ جس شخص نے عثمان كو قتل كيا(۱۷) وہ خلافت كے بارے ميں يا شورى ميں خليفہ معين كرنے كيلئے شامل ہو اور ذرا بھى مداخلت كرے(۱۸) زھرى كا بيان ہے كہ عائشه كى تقرير ختم ہوتے ہى طلحہ و زبيرنے بھى اٹھ كر لوگوں كے سامنے يہ تقرير كى _

اے لوگوں ، ہر گناہ كى توبہ ہے اور ہر گنہگار پشيمان ہونے كے بعد وہ پلٹتا ہے جس كے اثر سے وہ پاك اور مغفور ہو جاتا ہے ، عثمان بھى اگر چہ گنہگار تھے ليكن انكا گناہ توبہ اور امرزش كے قابل تھا ہم بھى كسى حيثيت سے ان كے قتل كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ہم صرف يہ چاہتے تھے كہ ان كى سرزنش كريں اور اس طرح انھيں توبہ پر مجبور كريں ، ليكن كچھ نادان اور ھنگامہ پسند ادميوں نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا اور ہمارے جيسے صلح و پسند (ملائم اور حليم لوگوں پر حاوى ہو گئے اور نتيجہ ميں انھيں قتل كر ڈالا )ابھى طلحہ و زبير كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ بصرہ والے چاروں طرف

____________________

۱۷_قاتل عثمان سے ان كى مراد حضرت على ہيں

۱۸_ الامامة و السياسة ج۱ ص ۵۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۴۹۹

۳۷

سے اعتراض كرنے لگے اور چلانے لگے _ اے طلحہ تمھارا خط ہمارے پاس پہنچا تھا ، اس كا لہجہ بہت سخت تھا ، آج كى تمھارى بات سے اور اس خط كے مضمون سے كوئي مناسبت اور ميل نہيں ہے ،اس موقعہ پر زبير نے لوگوں كو مطمئن اور خاموش كرنے كيلئے كھڑے ہو كر تقرير شروع كر دى ، اور كہا اے لوگو :

ميں نے عثمان كے بارے ميں تمھيں كوئي خط نہيں لكھا اگر تمھارے پاس اس بارے ميں كوئي خط پہنچا ہے تو وہ دوسروں نے لكھا ہو گا _

اپنى پہلى بات كو زيادہ اب و تاب سے بيان كرنے لگے اور عثمان كى مظلوميت لوگوں كے سامنے زيادہ وضاحت سے بيان كى اس ضمن ميں حضرت على اور ان كے ماننے والوں كى شدت كے ساتھ تنقيد اور مذمت كى _(۱۹) _

__________________

۱۹_ طبرى ج۲ ص ۱۷۸

۳۸

مقرروں پر اعتراض

عائشه اور ان كے سرداران لشكر كى اتشيں تقريروں كے بعد جو مربد ميں ہوئي تھيں كچھ سامعين كھڑے ہو گئے اور انھوں نے واضح لفظوں ميں اعتراضات كئے _

طبرى نے ان تقريروں كو نقل كرنے كے بعد لكھا ہے كہ اسى موقعہ پر خاندان عبدالقيس كا ايك شخص كھڑا ہو كر بولا ، اے زبير خاموش ہو جا ، ميں بھى كچھ كہنا چاہتا ہوں اور جو كچھ لازم ہے وہ لوگوں تك پہونچانا چاہتا ہوں _

عبداللہ ابن زبير اس پر بپھر كر بولے ، اے مرد عبدى تيرى كيا حيثيت كہ بات كرے ليكن اس شخص نے ابن زبير كى سرزنش پر كوئي توجہ نہيں كى اور عائشه كے لشكر والوں سے كہنے لگا تم مہاجر ين كے گروہ ميںہو تم نے زندگى ميں عظيم فضيلت و افتخار حاصل كيا كيونكہ تم ہى تھے جنھوں نے رسول اكرم (ص) كى پہلى اواز پر لبيك كہى ، اور تمام لوگ تمھارے بعد تمھارى پيروى ميں اسلام سے وابستہ ہوئے ، اسے جان و دل سے قبول كيا اور جس وقت رسول(ص) خدا لقائے الہى سے جا ملے تمھيں لوگ تھے جنھوں نے آپنوں ميں سے ايك كا انتخاب كيا اور اسكى بيعت كى ، باوجود اس كے كہ تم نے اس انتخاب ميںہم سے مشورہ نہيں كيا اور ہمارى اطلاع كے بغيريہ اقدام كر ڈالا ، پھر بھى ہم نے تمھارى

۳۹

مخالفت نہيں كى ، تم جس بات كو پسند كرتے تھے ہم اس پر راضى رہے ان كى زندگى ختم ہوئي اور كسى شخص كو تمھارے درميان سے خلافت كيلئے چن ليا گيا تم لوگوں نے ہميں اطلاع ديئے بغير اس كى بيعت كرلى ہم نے بھى اسے مان ليا ، اور تمھارى خوشنودى خاطر كيلئے ہم نے اسكى بيعت كرلى ، اس نے بھى جب دنيا سے رخت سفر باندھا تو امارت و خلافت كو چھہ ادميوں كے درميان ڈال كر معاملہ شورى كے حولے كر ديا ، ان چھہ افراد ميں سے عثمان كو منتخب كر كے تم نے بيعت كر لى ليكن دير نہيں گذرى كہ تم نے اسكى روش كو نآپسند كيا ، اس كے كرتوتوں پر اعتراض كيا ، يہاں تك كہ تم نے اس كے خون سے اپنا ہاتھ رنگين كيا حالانكہ تم نے نہ اسكى خلافت ميں ہم سے مشورہ كيا تھا اور نہ قتل ميں ، وہيں تم لوگ على كے گھر پر چڑھ دوڑے ان سے حد سے زيادہ اصرار كيا يہاں تك كہ انكو زبردستى اس كام پر امادہ كيا اور انكى بيعت كرلى ، پيمان خلافت باندھ ليا ، يہ تمام باتيں تو ا ن لوگوں نے ہمارى اطلاع كے بغير اور ہمارے مشورے كے بغير انجام ديا ليكن اب ہم نہيں جانتے كہ كس دليل سے اسكے خلاف تم نے فتنہ ابھارا ہے اور ان سے امادہء جنگ ہو گئے ہو ؟

كيا حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كے مال و دولت ميں خيانت اور زيادتى كى ہے يا خلاف حق كوئي كام كيا ہے يا تم لوگوں كى پسند كے خلاف كسى عمل كے مرتكب ہوئے ہيں _

نہيں ، ہر گز نہيں ، حضرت علىعليه‌السلام كا دامن ان تمام باتوں سے پاك ہے _

پھر ہم لوگ ان پر كيا اعتراض كريں ؟ اور كيوں ان سے جنگ كريں ؟

ابھى اس شخص كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ لشكر عائشه سے كچھ لوگ اسكى حق گوئي پر بھڑك اٹھے اور اسكے قتل كا ارادہ كيا اس شخص كے خاندان كے لوگ اور رشتہ دار اسكى مدد ميں كھڑے ہو گئے ، اسكى طرف سے دفاع كرنے لگے ، يہاں تك كہ وہ اپنى جان بچا كر لشكر كے درميان سے بھاگ گيا _

ليكن حادثہ يہيں پر ختم نہيں ہو گيا ، اور دوسرے دن عائشه كے لشكر اور اس شخص كے قبيلہ كے درميان جنگ ہوگئي اس شخص كے قبيلے كے ستر ادميوں كو ان لوگوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كر ديا(۲۰)

جس وقت يہ واقعہ امام نے سنا توبہت زيادہ غمگين ہوئے آپ نے ان لوگوں كى تعزيت ميں شعر اس مضمون

____________________

۲۰_ طبرى ج۵ ص ۱۷۸

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198