تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 40%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79142 / ڈاؤنلوڈ: 5341
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تالیف: محمد رے شہری

۲

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

۳

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة علیٰ عبده المصطفیٰ محمد وآله الطاهرین و خیارصحابته اجمعین

ہم کتاب ''علم و حکمت قرآن و حدیث کی روشنی میں ' کے مقدمہ میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے مباحث کی تکمیل کے لئے کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں '' کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب ہے جو خدا کے فضل سے پہلی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شائع ہو رہی ہے ۔

یہ کتاب آیات و روایات کی مدد سے معرفت کے موضوع پر نئے نکات پیش کرتی ہے امید ہے کہ ارباب علم و حکمت کے نزدیک مقبولیت کا درجہ حاصل کر ے گی ۔

اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس کتاب کا پہلا حصہ حجۃ الاسلام جناب شیخ رضا برنجکار کے تعاون سے اور دوسرا حصہ حجۃ الاسلام جناب عبد الھادی مسعودی کی مدد سے مکمل ہوا۔لہذاہم ان دونوں اور ان تمام حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہیںکہ جنہوںنے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ، صحیح روایات ڈھونڈ نے اور اس سے متعلق دیگر امور میں ہمارا تعاون کیا ہے،اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا انہیں آثار اہلبیت کو مزید نشر کرنے کی توفیق عطا کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔

آخر میں اختصار کے ساتھ اپنی تحقیق کا اسلوب بیان کرتے ہیں:

1۔ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک موضوع سے مربوط شیعی اور سنی روایات کو جدید وسائل تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے جامع ترین ، موثق ترین اور قدیم ترین مصادر سے اخذ کیا جائے۔

۴

2۔ کوشش کی گئی ہے کہ درج ذیل حالات کے علاوہ تکرار روایات سے اجتناب کیا جائے:

الف: روایت کے مصادر مختلف ہوں اور روایات میں واضح فرق ہو۔

ب: الفاظ اور اصطلاحات کے اختلاف میں کوئی خاص نکتہ مخفی ہو۔

ج: شیعہ اور سنی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

د: متن روایت ایک سطر سے زیادہ نہ ہو لیکن دو بابوں سے مربوط ہو۔

3۔ اور جہاں ایک موضوع سے متعلق چند نصوص ہیں جن میں سے ایک نبی (ص) سے منقول ہو اور باقی ائمہ٪ سے تو اس صورت میں حدیث نبی (ص)کو متن میں اور بقیہ معصومین کی روایات کو حاشہ پر ذکر کیاہے ۔

4۔ہر موضوع سے متعلق آیات کے ذکر کے بعد معصومین(ع) کی روایات کو رسول خدا(ص) سے امام زمانہ (عج) تک بالترتیب نقل کیا جائیگا۔ مگر ان روایات کو جو آیات کی تفسیر کے لئے وارد ہوئی ہیں تمام روایات پر مقدم کیا گیا ہے اور بعض حالات میں مذکورہ ترتیب کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔

5۔ روایات کے شروع میں صرف معصوم (ص) کا نام ذکر کیا جائیگا لیکن اگر راوی نے فعلِ معلوم کو نقل کیا ہے یا ان سے مکالمہ کیا ہے یا راوی نے متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے جو معصوم (ع) سے مروی نہیںہے اس میں معصوم کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

6۔ حاشیہ پر متعدد روایات کے مصادر کواعتبارکے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے ۔

۵

7۔ اگر بنیادی منابع تک دسترسی ہو تو حدیث بلا واسطہ انہیں منابع سے نقل کی جاتی ہے ''بہار الانوار'' اور ''کنزالعمال'' اور اس لحاظ سے کہ یہ دونوں احادیث کا جامع منبع ہیں لہذا منابع کے آخر میں انکا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔

8۔ منابع کے ذکر کے بعد کہیں پر بعض دوسرے منابع کی طرف ''ملاحظہ کریں'' کے ذریعہ اشارہ کیا ہے ان موارد میں نقل شدہ متن اس متن سے جسکا حوالہ دیا گیا ہے کافی مختلف ہے ۔

9 ۔ اس کتاب میں دوسرے ابواب کا حوالہ اس وقت دیا گیا ہے جہاں روایات میں مناسبت ہے ۔

10۔ کتاب کا مقدمہ اور بعض فصول و ابواب کے آخر میں بیان ہونے والے توضیحات و نتائج اس کتاب یا اس باب کی روایات کا ایک کلی جائزہ ہے اور بعض روایات میں جو دشواریاں ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔

11۔ اہمترین نکتہ یہ ہے کہ ہم نے حتی الامکان ہر باب میں معصوم سے صادر ہونے والی حدیث کی توثیق کےلئے عقلی و نقلی قرائن کا سہارا لیا ہے ۔

محمد رے شہری

8 صفر 1419ق ھ

۶

پیش لفظ

تفکر و تعقل اسلام کا ستون ہے اور عقائد و اخلاق اور اعمال میں اس کا مرکز ہے لیکن یہ آسمانی شریعت انسان کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جس کو عقل صحیح نہیں سمجھتی اور نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کا اذن دیتی ہے جس کو عقل برا جانتی ہے۔ اور نہ ان اعمال کو بجالانے کا حق دیتی ہے کہ جن کو عقل اچھا نہیںسمجھتی ہے ۔

لہذا آیات قرآن ، احادیث رسول اور احادیث اہلبیت(ع) غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات 779 بار، ذکر 274 بار، عقل 49 بار ، فقہ 20 بار ، فکر 18 بار، خرد 61 بار اور تدبر 4 بار آیا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اسکی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پر کھنے کی کسوٹی ، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے ۔

عقل انسان کے لئے گرانقدر ہدیہئ الٰہی ، اسلام کی پہلی بنیاد ، زندگی کا اساسی نقطہ اور انسان کا بہترین زیور ہے ۔

عقل بے بہا ثروت ، بہترین دوست و راہنمااور اہل ایمان کا بہترین مرکز ہے اسلام کے نقطئہ نظر سے علم عقل کا محتاج ہے لہذا علم عقل کے بغیر مضر ہے ۔ چنانچہ جسکا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے اس کےلئے وبال جان ہو جاتا ہے ۔

۷

مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں مادی و معنوی ارتقائ، زندگانی ئدنیا و آخرت کی تعمیر، بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے لہذا دنیا میں قیامت کے بعد باطل عقائد کے حامل افراد حساب کے وقت اپنے برے اعمال اور برے اخلاق کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوںگے تو کہیں گے :

وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر، فاعترفوا بذنبهم فسحقا لاصحاب السعیر

اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے؛ تو انہوںنے خود اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو اب جہنم والوںکے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے ۔

عقل کے لغوی معنی

لغت میں عقل کے معنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جانہ سکے ، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے لہذا رسول خدا)ص( فرماتے ہیں:

العقل عقال من الجهل

عقل جہالت سے باز رکھتی ہے ۔

۸

عقل اسلامی روایات میں

محدث کبیر شیخ حر عاملیؒ بابِ ''وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجہل'' کے آخر میں معانی عقل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں:

1۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امورکے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے ۔

2۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے ۔

3۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔واللہ اعلم۔

جن موارد میں کلمئہ عقل اور اس کے مترادف کلمات اسلامی نصوص میں استعمال ہوئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی انسان کے سرچشمئہ ادراکات اور کبھی اس کے ادراکات سے حاصل شدہ نتیجہ میں استعمال ہوتا ہے اورکبھی دونوں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ

1۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ

جن احادیث جن میں حقیقتِ عقل کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے یا نور کو وجود عقل کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے یا عقل کو الہی ہدیہ اور انسان کی اصل قرار دیا گیا ہے ،وہ انہیں معنی کیطرف اشارہ کرتی ہیں۔

۹

ان احادیث کے مطابق انسان اپنے وجود میں ایک نورانی طاقت رکھتا ہے جو اسکی روح کی حیات ہے اگر یہ طاقت نشو ونما پائے اور سنور جائے تو انسان اسکی روشنی میں وجود کے حقائق کا ادراک، محسوس وغیر محسوس حقائق میں تمیز، حق و باطل میں امتیاز، خیر و شر اور اچھے و برے میں فرق قائم کر سکتا ہے ۔

اگر اس نورانی طاقت اور باطنی شعور کی تقویت کی جائے تو انسان کسبی ادراکات سے بلند ہو کر سوچے گا یہاں تک کہ تمام غیب کو غیبی بصیرت سے دیکھیگا اورہ رغیب اس کے لئے شہود ہو جائیگا۔ اسلامی نصوص میں اس رتبئہ عقل کو یقین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

2۔ فکر کا سرچشمہ

اسلامی متون میں عقل کو فکر و نظر کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان موارد میں عقل ہوشیاری، فہم اور حفظ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے جس کا مرکز دماغ ہے ۔

وہ آیات و احادیث جن میں انسان کو تعقل اور غور و فکر کی طرف ابھارا گیا ہے اسی طرح وہ احادیث جن میں عقل تجربی اور عقل تعلمی کو فطری و موہوبی عقل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ایسے نمونے ہیںجن میں لفظ عقل منبعِ فکر میں استعمال ہوا ہے ۔

3۔الہام کا سرچشمہ

اخلاقی وجدان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے باطن میں اخلاقی فضائل کی طرف دعوت اور رذائل سے روکتا ہے بعبارت دیگر اخلاقی فضائل کی طرف فطری کشش اور رذائل کی طرف سے فطری نفرت کا احساس ہے ۔

اگر انسان خود کو تمام عقائد و سنن اور مذہبی و اجتماعی آداب سے جدا فرض کرکے مفہوم عدل و ظلم، خیر و شر، صدق و کذب، وفا ئے عہد اور عہد شکنی کے بارے میں غور کریگا تو اسکی فطرت یہ فیصلہ کریگی کہ عدل، خیر ، صدق اور وفائے عہد اچھی چیز ہے جبکہ ظلم ، شر ، جھوٹ اور عہد شکنی بری بات ہے ۔

۱۰

فضائل کی طرف میلان اور رذائل کی طرف سے نفرت کے احساس کو قرآن نے الہی الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا۔

یہ احساس اور یہ الہام انسان کےلئے خدا کی معرفت کا سنگ بنیاد ہے اسکا سرچشمہ یعنی نہفتہ احساس جو انسان کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرتا ہے اسی منبع اسلام کو اسلامی متون میں عقل کہا گیا ہے اور تمام اخلاقی فضائل کوعقل کا لشکر اور تمام رذائل کو جہالت کا لشکر کہا گیا ہے ۔

نکتہ

بعض فلسفہ کی کتابوں میں اما م علی (ع) سے عقل کی تفسیر کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کی تطبیق فلسفہ میں معانی عقل میں سے کسی ایک معنی پر کی جاتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

قال السائل: یا مولای وما العقل؟ قالں: العقل جوهر درّاک، محیط بالاشیاء من جمیع جهاتها عارف بالشی قبل کونه فهو علة الموجودات ونهایة المطالب

سائل نے کہا: مولا! عقل کیاہے؟ فرمایا: عقل درک کرنے والا جوہر ہے جو حقائق پر تمام جہات سے محیط ہے۔ اشیاء کو انکی خلقت سے قبل پہچان لیتا ہے یہ جوہر سبب موجودات اور امیدوں کی انتہا ہے ۔

حدیث کے مصادر میں تلاشِ بسیار کے باوجود مذکورہ حدیث کا کوئی مدرک نہیں مل سکا۔

۱۱

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات

حقائق کی شناخت

لفظ عقل مدرِک کے ادراکات کے شعور میں تو استعمال ہوتا ہی ہے۔ مزید بر آن اسلامی متون میں عقلی مدرکات اور مبدا و معاد سے متعلق حقائق کی معرفت میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور اسکی بہترین مثال وہ احادیث ہیںجو عقل کو انبیاء کا ہم پلہ اور خدا کی باطنی حجت قرار دیتی ہیں اسی طرح وہ احادیث جو عقل کو تہذیب وتربیت کے قابل سمجھتی ہیں اور اسی کو فضائلِ انسان کا معیار قرار دیتی ہیں کہ جس کے ذریعہ اعمال کی سزا و جزا دی جائیگی۔ یا عقل کو ''فطری''، ''تجربی''، ''مطبوع'' اور''مسموع'' میں تقسیم کرتی ہیں۔ عقل سے مراد شناخت و آگاہی ہے۔

عقل کے مطابق عمل

کبھی لفظ عقل کا استعمال قوت عاقلہ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ عقل کی تعریب کے بارے میں رسول خدا)ص( سے مروی ہے'' العمل بطاعة اﷲ و ان العمال بطاعة اﷲ هم العقلاء'' عقل خدا کے احکام کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں یقینا عاقل وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔

یا حضرت علی (ع) سے مروی ہے:'' العقل ان تقول ما تعرف و تعمل بما تنطق به'' عقل یہ ہے کہ جس کے بارے میں جانتے ہو وہ کہو اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

لفظ جہل کا استعمال بھی لفظ عقل کے استعمال کی مانند طبیعت جہل کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ دعا میں وارد ہو اہے'' وکل جہل عملتہ...''اور ہر جہالت کو انجام دیا......

۱۲

عقل کی حیات

عقل روح کی حیات ہے لیکن اسلامی نصوص کے مطابق اسکی بھی موت و حیات ہوتی ہے ، انسان کا مادی و معنوی تکامل اسی کی حیات کا رہینِ منت ہے ۔ بشر کی حیاتِ عقلی کا اصلی راز قوت عاقلہ (جو کہ اخلاقی وجدان ہے ) کا زندہ ہونا ہے الہی انبیاء کی بعثت کے اغراض میں سے ایک اساسی غرض یہ بھی ہے۔

حضرت علی -نے اپنے اس جملہ ''هو یثیر والهم وفائن العقول'' (اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں) کے ذریعہ بعثت انبیاء کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسرار کائنات کو کشف کرنے کےلئے فکر کو زندہ کرنا انسان کےلئے ممکن ہے ؛ لیکن کمال مطلق کی معرفت کےلئے عقل کو زندہ کرنا اور اعلیٰ مقصد انسانیت پر چلنے کےلئے منصوبہ سازی صرف خدا کے انبیاء ہی کےلئے ممکن ہے۔

قرآن و حدیث میں جو کچھ عقل و جہل اور عقل کے صفات و خصائص اور اس کے آثار و احکام کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ سب ہی عقل کے اسی معنی سے مخصوص ہے ۔

جب انسان انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں حیات عقلی کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی نورانیت و معرفت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں نہ فقط یہ کہ عقل خطا سے دو چار نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کےلئے مدد گار بھی ہے ۔

چنانچہ علی - فرماتے ہیں:

ایسے شخص نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے ، اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیا تھا۔ اسکا جسم باریک ہو گیا ہے اور اس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضو فشاں نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کر کے اسی پر چلا دیا ہے ۔ تمام در وازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیا ہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن و راحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

۱۳

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

۱۴

دوسرا نظریہ ، یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے ، یعنی ان دونوں کے سرچشمہئ ادراک میں فرق ہے ، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارے کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے ۔

سب سے پہلے جس نے اس نظریہ کو مشہور کے مقابل میں اختیار کیا ہے وہ ابن سینا ہیں ان کے بعد صاحب محاکمات قطب الدین رازی اور آخر میں صاحب جامع السعادات محقق نراقی ہیں۔

پہلا نظریہ، لفظ عقل کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے اور اس سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عقل عملی کی مبدا ادراک و تحریک سے تفسیر کی جائے کیونکہ جو شعور اخلاقی اور عملی اقدار کو مقصد قرار دیتا ہے وہ مبدا ادراک بھی اور عین اسی وقت مبدا تحریک بھی ہے اور یہ قوت ادراک وہی چیز ہے کہ جس کو پہلے وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جا چکا ہے ۔ اور نصوص اسلامی میںجسے عقل فطری کا نام دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔

۱۵

عقل فطری اور عقل تجربی

اسلامی نصوص میں عقل کی عملی و نظری تقسیم کے بجائے دوسری بھی تقسیم ہے اور وہ عقل فطری اور عقل تجربی یا عقل مطبوع اور عقل مسموع ہے ، امام علی - فرماتے ہیں:

العقل عقلان: عقل الطبع و عقل التجربہ، و کلاھما یؤدی المنفعۃ۔

عقل کی دو قسمیںہیں: فطری اور تجربی اور یہ دونوں منفعت بخش ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:

رأیت العقل عقلین

فمطبوع و مسموع

ولا ینفع مسموع

اذا لم یک مطبوع

کما تنفع الشمس

و ضوء العین ممنوع

میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں۔ فطری اور اکتسابی، اگر عقل فطری نہ ہو تو عقل اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا کہ آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ملحوظ خاطر رہے کہ علم کی بھی یہی تقسیم آپ سے منقول ہے:

العلم علمان: مطبوع و مسموع ولا ینفع المسموع اذا لم یکن المطبوع

۱۶

علم کی دو قسمیں ہیں: فطری اور اکتسابی ، اگر فطری علم نہ ہو تو اکتسابی علم فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ فطری عقل و علم کیا ہیں اور اکتسابی عقل و علم میں کیا فرق ہے ؟ اور فطری عقل و علم نہ ہونے کی صورت میں عقل تجربی اور علم اکتسابی فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر فطری عقل و علم سے مقصود ایسے معارف ہیںکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکی فطرت میں ودیعت کیا ہے تاکہ اپنی راہ کمال پا سکیںاور اپنی غرض خلقت کی انتہا کو پہنچ سکیں۔ قرآن نے اس فطری معارف کو فسق و فجور اور تقویٰ کے الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها و تقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا ہے۔

اسی کو دور حاضر میں وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل فطری یا وجدان اخلاقی ادراک کا سر چشمہ اور تحریک عمل کا منبع بھی ہے۔

اور اگر اسے انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد پر زندہ کیا جائے اور رشد دیا جائے تو انسان وہ تمام معارف جو کسب و تجربہ کے راستوں سے حاصل کرتا ہے ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور اسے انسانیت کی پاکیزہ زندگی میسر آجائےگی۔اگر عقل فطری خواہشات نفسانی کی پیروی اور شیطانی وسوسوں کے سبب مردہ ہو جائے تو انسان کو کوئی بھی معرفت اسکی مطلوب ومقصود زندگی تک نہیںپہنچا سکتی اور نہ ہی اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے؛جیسا کہ امیر المومنین (ع) کے حسین کلام میں موجود ہے کہ: عقل فطری کی مثال آنکھ کی سی ہے اور عقل تجربی کی مثال سورج کی سی ہے ، جیسا کہ سورج کی روشنی نابینا کو پھسلنے سے نہیں روک سکتی اسی طرح عقل تجربی بھی پھسلنے اور انحطاط سے ان لوگوں کو نہیں روک سکتی کہ جنکی عقل فطری اور وجدان اخلاقی مردہ ہو چکے ہیں۔

۱۷

عاقل و عالم کا فرق

ہم کتاب'' علم و حکمت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے پیش گفتار میں وضاحت کر چکے ہیں کہ لفظ علم اسلامی نصوص میں دو معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ایک جوہر و حقیقت علم اور دوسرے سطحی و ظاہری علم، پہلے معنیٰ میں عقل اور علم میں تلازم پایا جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:

العقل و العلم مقروناِ فی قرن لا یفترقان ولا یتباینان

عقل اور علم دونوں ایک ساتھ ہیںجو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔

اس بنیاد پر عالم و عاقل مینکوئی فرق نہیں ہے ۔ عاقل ہی عالم ہے اور عالم ہی عاقل ہے نیز ارشاد پروردگار ہے :

تلک الامثال نضربها للناس وما یعقلها الا العالمون

یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے؛ عاقل اور عالم میں فرق ہے ، علم کو عقل کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی عالم ہو لیکن عاقل نہ ہو۔ اگر علم ، عقل کے ساتھ ہو تو عالم اور کائنات دونوںکےلئے مفید ہے اور اگر علم ، عقل کے بغیر ہو تو نہ فقط یہ کہ مفید نہیںہے بلکہ مضر اور خطرناک ہے۔

۱۸

عقل کے بغیر علم کا خطرہ

امام علی (ع) کا ارشاد ہے العقل لم یجن علیٰ صاحبہ قط و العلم من غیر عقل یجنی علیٰ صاحبہ'' عقل، صاحب عقل کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتی لیکن عقل کے بغیر علم، صاحب علم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔

دورحاضر میں علم کافی ترقی کر چکا ہے لیکن عقل کم ہو گئی ہے ، آج کا معاشرہ مولائے کائنات کے اس قول کا مصداق بنا ہوا ہے :

من زاد علمه علیٰ عقله کان وبالا علیه

جس شخص کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو تا ہے وہ اس کےلئے وبال ہو جاتا ہے ۔

نیز اس شعر کا مصداق ہے ۔

اذا کنت ذاعلم و لم تک عاقلا

فانت کذی نعل لیس له رجل

اگر تم عالم ہو اور عاقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس نعلین تو ہے لیکن پیر نہیں ہے۔

آج علم ، عقل سے جدا ہونے کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ کو مادی و معنوی تکامل اور آرام و آسائش عطا کرنے کے بجائے انسان کے لئے بد امنی، اضطراب، فساد اور مادی و معنوی انحطاط کا باعث ہوا ہے ۔

آج کی دنیا میں علم، عیش طلب افراد، مستکبرین اور بے عقلوں کے لئے سیاسی ، اقتصادی اور مادی لذتوں کے حصول کا وسیلہ بنا ہو ا ہے کہ اس اسی سے دوسرے زمانوں سے زیادہ لوگوں کو انحراف و پستی کی طرف لے جارہے ہےں۔

۱۹

جب تک عقل کے ساتھ علم نہ ہو علم صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا اور انسانی معاشرہ کو آرام و سکون نصیب نہیں ہو سکتا، جیسا کہ امام علی (ع) کا ارشاد ہے :

افضل ما منّ اﷲ سبحانه به علیٰ عباده علم وعقل وملک وعدل

بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم، عقل ، بادشاہت اور عدل ہے ۔

مختصر یہ کہ دور حاضر میں علم دوسرے زمانوں سے زیادہ عقل کا محتاج ہے اور کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں''جو آپ کے ہاتھوں میں ہے،اسکی ضرورت فرہنگی، اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے دوسرے زمانوں سے کہیں زیادہ ہے ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

صلحنامہ كا متن ان پانچ دفعات پر مشتمل تھا

يہ وہ عہد و پيمان ہے كہ جو عثمان ابن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے طلحہ و زبير اور ان كے حمآیتيوں كے ساتھ طئے پايا ہے ہر دو طرف كے لوگ اپنے كو اس عہد نامہ كا پابند سمجھتے ہيں كہ اس صلحنامہ كے مطابق عمل كرينگے اور ان كے دفعات كا احترام كر كے اسے نافذ كرينگے _

۱_ طرفين كے كسى شخص كو بھى دوسرے سے چھيڑ چھاڑ كا حق نہ ہوگا اور اسائشے كے وسيلے سلب نہ كريگا نہ ايك دوسرے كو تكليف ديگا _

۲_ طرفين حق ركھتے ہيں كہ ازادانہ طريقے سے فطرى اور معاشرتى خصوصيات سے بہر ہ مند ہوں اور سبھى يكساں طريقے سے بغير دو سرے كى مزاحمت كے نہروں و چراگاہوں اور شاہراوں اور بازاروں سے استفادہ كر سكيں گے اور ايك دوسرے كى ضرورت كو پورا كريں گے _

۳_ شہرى انتظامات اور حكومت اور قصر كى حكمرانى ( مسجد اور پيشنمازى كے حالات ) اور بيت المال كے اختيارات سابق كيطرح عثمان ابن حنيف كے قبضے ميں رہيں گے _

۴_ طلحہ و زبير اور ان كے ساتھ بصرہ ميں ازادى سے رہيں گے وہ بغير ركاوٹ كے تمام جگہوں پر اپنى چھائونى بنا سكتے ہيں اور شھر كے تمام حصوں پر ازادانہ رہ سكتے ہيں _

۵_ يہ عہد نامہ آج كى تاريخ سے اس وقت تك نافذ رہے گا جبتك حضرت على بصرہ ميں اجائيں ، اور حضرت على كے تشريف لانے كے بعد طلحہ و زبير ازاد ہيں كہ وہ سابق كى اپنى بيعت على كے وفادار رہيں يا ہر ايك صلح و جنگ كا انتخاب كرے _

صلحنامہ كے اخر ميں اس جملے كا بھى اضافہ كيا گيا كہ طرفين اس صلحنامہ كے دفعات پر اسى طرح عمل كرينگے جيسے خدا اور انبياء كے عہد و ميثاق ميں برتا جاتا ہے ، اور اس وسيلے سے ان لوگوں نے مضبوط پيمان باندھا (على الفريقين بما كتبو ا عهد الله و ميثاقه )

صلح نامہ پر طرفين كے دستخط ہو گئے اور صلح و صفائي ہوگئي ، عثمان ابن حنيف اپنے لشكر كے ساتھ دار الرزق سے دار الامارہ كيطرف وآپس چلے گئے اور اپنے ساتھيوں كو حكم ديا كہ جنگى ہتھيار اتار ڈالو اور اپنے گھروں كو وآپس جائو ارام كے ساتھ زخميوں كا اعلاج و معالجہ كرو _

۸۱

دوسرى جنگ

طلحہ و زبير نے دوسرى بار پيمان شكنى كي

لشكر بصرہ نے صلحنامہ كے دفعات پر بھر پور عمل كيا اور اس كے مفاد كے مطابق صلح كيا ، شھر بصرہ ميں جنگ سے پہلے كا امن وآپس اگيا ،تمام حالات معمول پر اگئے ، ليكن طلحہ و زبير نے جس طرح علىعليه‌السلام كى بيعت توڑى تھى دير نہيں گذرى كہ اس صلح اور عہد كو توڑ نے كى فكر ميں لگ گئے ، وہ سوچ رہے تھے كہ اگر كچھ دن بعد حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں اجائينگے تو ہم يہ تھوڑے سے فوجى اور معمولى سامان جنگ سے كس طرح مقابلہ كر سكيں گے ، وہ بہترين فوجى ساز وسامان سے اراستہ ہونگے(۶)

يہى بات تھى كہ طلحہ اور زبير كى بے چينى بڑھ گئي اور ان كى انكھوں سے نيند اڑ گئي تھى ، وہ اس سلسلے ميں رات دن تبادلہء خيال كرتے رہتے تھے _

اخر كا رانہوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ اس عہد كو بھى بيعت علىعليه‌السلام كى طرح توڑ ديں اور مخفى طور سے قبائل عرب كے رئيسوں اور بصرہ كے بزرگوں سے مدد طلب كريں اور انھيں اپنى حمآیت كى دعوت ديں _

طلحہ و زبير نے اس منصوبے كے ماتحت قبيلوں كے بزرگوں كو خط لكھے اور انھيں انتقام خون عثمان كى دعوت دى اور على كى بيعت توڑنے اور بصرہ كے گورنر كى اطاعت سے باہر ہونے پر امادہ كيا _

قبيلہ اذد ، ضبہ ، اور قيس عيلان ان تين قبائل نے ان كى دعوت كا مثبت جواب ديكر ان لوگوں كى بيعت كر لى ، انھون نے وعدہ كيا كہ ہر طرح كى كمك اور حمآیت كيلئے وہ تيار ہيں ، صرف يہى انگليوں پر گنے جانے والے تين قبيلے تھے جنھوں نے چھپے چورى ان كى موافقت كا عہد كيا _

____________________

۶_ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ پہلے صلح كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ليكن جب انھوں نے ديكھا كہ گورنر بصرہ سے مقابلہ كرنے كى طاقت نہيں ہے تو ظاہرى طور سے صلح كا ہاتھ بڑھا ديا تاكہ ان لوگوں كى غفلت سے فائدہ اٹھا كر اپنے بد ترين مقاصد حاصل كر ليں

۸۲

طلحہ و زبير نے ايك دوسرا خط ہلال ابن و كيع كو لكھا جو قبيلہ بنى تيم كا سردار تھا ، ان لوگوں نے خط ميں اپنى حمآیت كى دعوت دى ليكن ہلال نے ان كا كوئي جواب نہيں ديا نہ توجہ كى ، اور ان سے ملاقات بھى نہيں كى _

طلحہ و زبير مجبور ہو كر خود ہى ہلال سے ملاقات كيلئے ان كے گھر گئے انھوں نے اپنے گھر ميں بھى ان سے ملاقات نہيں كى اور اپنے كو چھپاليا ، ليكن انكى ماں نے سرزنش كرتے ہوئے كہا :

اے ہلال ، تمھارى جيسى شخصيت كيلئے شرم كى بات ہے كہ اپنے كو مہمانوں سے چھپائو اور قريش كے دو بزرگوں كى ملاقات سے انكار كر دو _

ہلال كى ماں نے اپنى بات اتنى بار كہى كہ فرزند كے دل پر اثر ہوا اور ہلال نے طلحہ و زبير كيلئے اپنا دروازہ كھولا ، ان سے ملاقات اور گفتگو كا نتيجہ يہ نكلا كہ وہ بھى طلحہ و زبير سے متاثر ہو گئے اور ان دونوں كى بيعت كرلى ، حمآیت اور نصرت كا وعدہ بھى كيا _

قبيلہ تميم كے دو بڑے خاندان ، عمرو اور ہنزلہ كا خا ندان بھى ہلال كى پيروى كرتے ہوئے طلحہ و زبير كى بيعت پر امادہ ہو گيا _

قبيلہ تميم ميں صرف ايك خاندان ير بوع تھا جو حضرت علىعليه‌السلام سے وابستہ تھا آپ كا خالص شيعہ اور وفادار تھا اسى نے ان دونوں كى بيعت سے انحراف كيا اسى طرح خاندان دارم بھى جو بنى تميم ہى كى شاخ تھا ، اسنے بھى ان دونوں كى بيعت سے انكار كيا _

اس طرح طلحہ اور زبير نے بصرہ كے اكثر قبيلوں كو اپنى طرف مائل كر كے انھيں اپنى حمآیت و نصرت پر امادہ كر ليا _

دوسرى جنگ شروع ہوئي

جب لشكر عائشه كے سرداروں نے اپنے كو ہر طرح سے طاقتور ديكھ ليا تو ايك اندھيرى رات ميں ، جب سخت سردى تھى اور باد و باراں كا زور تھا ، اپنے كپڑوں ميں اسلحے چھپا كر جامع مسجد كى طرف چلے ،اور ٹھيك نماز صبح كے وقت مسجد ميں پہنچ گئے _

يہ وقت تھا كہ عثمان ابن حنيف محراب ميں تھے اور وہ لوگوں كو نماز پڑھانے كيلئے كھڑے ہو گئے تھے ، طلحہ و زبير كے ساتھيوں نے سامنے اكر انھيں محراب سے كھينچ ليا اور زبير كو ان كى جگہ پر كھڑا كر ديا ، اس موقع پر بيت المال كے محافظوں نے مسجد كے حالات كى خبر پاكر عثمان ابن حنيف كى نصرت ميں دوڑے اور زبير كو محراب سے كھيچ كر عثمان

۸۳

ابن حينف كو پھر وہيں كھڑا كيا ، زبير كے ساتھيوں نے بھى دوسرى بار عثمان كو علحدہ كيا اور زبير كو ان كى جگہ پر بيٹھا يا ليكن پھر محافظوں نے سخت جد وجہد كى اور زبير كو پيچھے ہٹا كر عثمان كو محراب ميں پہنچا ديا _

يہ نزاع و كشمكش اور امام جماعت كى تبديلى اتنى دير تك جارى رہى كہ قريب تھا كہ سورج نكل ائے اور نماز صبح كا وقت ختم ہو جائے_

جو لوگ مسجد ميں تھے وہ چلانے لگے كہ اے مسلمانوں خدا سے ڈرو كہ نماز كا وقت جارہا ہے _

اخر كار اس اختلاف اور كشمكش كا نتيجہ يہ نكلا كہ زبير نے اخرى مر حلے ميں عثمان ابن حنيف پر كاميابى حاصل كر لى اور محراب پر قبضہ كر كے لوگوں كو نماز صبح پڑھائي كيونكہ ان كے ساتھى زيادہ تيار اور منصوبہ ميں پختہ تھے ، نماز پڑھانے كے بعد فوراً زبير نے حكم ديا كہ عثمان كو پكڑو اور گرفتار كر لو _

جيسے ہى يہ فرمان صادر ہوا زبير كے ساتھيوں نے اپنے كپڑوں سے تلواريں نكال ليں اورعثمان كے ساتھيوں پر حملہ كر ديا ، تھوڑى سى ردو كد مروان اور عثمان كے درميان واقع ہوئي ، عثمان ابن حنيف اور بيت المال كے محافظوں كى تعداد ستر تھى انھيں زبير كے ساتھيوں نے گرفتار كر ليا اور عثمان كو سخت اذيتيں دى ، اس قدر مار پيٹ كى كہ قريب تھا كہ وہيںان كى موت ہو جائے _

انہوں نے اسى پر بس نہيں كيا ان كى بھئوں اور سر اور چہرے كے بال كو قابل رحم حالت پر چھيل ڈالا _

اس طرح عائشه كا لشكر صلح كے باوجود اس جنگ ميں فتحمند ہوا اور شھر بصرہ پر قبضہ كر ليا _

جنگى قيديوں كى سر گذشت

ابو مخنف كا بيان ہے كہ :عائشه كے فوجيوں نے معاہدہ صلح كے بر خلاف گورنر ہائوس اور مسلمانوں كے بيت المال پر حملہ كر كے گورنر اور بيت المال كے محافظوں كو قيدى بنا ليا _

پھر انھيں عائشه كے سامنے پيش كيا گيا تاكہ ان لوگوں كے بارے ميں كوئي فيصلہ كريں وہ جيسا بھى حكم چاہيں ان لوگوں كے بارے مين حكم صادر كر ديں _

عائشه نے بھى ہر ايك كے بارے ميں الگ الگ فيصلہ سنايا _

۸۴

محافظوں كى سر گذشت

عائشه نے بيت المال كے محافظوں كے بارے ميں اسطرح فيصلہ سنايا كہ زبير كو اپنے سامنے بلا كر كہا :

اے زبير انھيں لوگوں نے تم پر شمشير كھينچى تھى اور عثمان ابن حنيف اور بيت المال كا دفاع كيا تھا ، ان لوگوں كا قتل ،ميں تمھارے ذمہ قرار ديتى ہوں كہ ان كا سر تن سے جدا كر كے تلوار كا پانى پلائو _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ يہ حكم پاتے ہى زبير نے اپنے فرزند عبداللہ كى مدد سے ان سب كے سر بھيڑ بكريوں كى طرح تن سے جدا كر ديا _

اس كا بيان ہے كہ :بيت المال كے محافظوں ميں ان ستر افراد كے علاوہ بھى كچھ ايسے تھے جو بيت المال كى حفاظت كيلئے بيت المال ميں موجود تھے اور طلحہ و زبير كو قبضہ نہيں كر نے دے رہے تھے ، زبير نے راتوں رات ان پر چڑھائي كر كے پراكندہ كر ديا اور بيت المال پر اپنا قبضہ جما ليا ، ان ميں پچاس ادميوں كو قيد كر كے تمام لوگوں كے سامنے بے رحمى سے گردن مار دى اور سب كى لاشيں ان ستر كے پہلو ميں ڈال ديں _

ابو مخنف لكھتا ہے كہ سقعب ابن زبير كے بيان كے مطابق اس دن قتل ہونے والے محافظوں كى تعداد چار سو تھى _

وہ مزيد كہتا ہے كہ :سب سے پہلا غدر اور حيلہ اسلام ميں يہى تھا جو طلحہ و زبير كے ذريعہ عثمان ابن حنيف كى بابت انجام پايا اور اسلام ميں مسلمانوں كا يہ پہلا گروہ تھا جو نہتّامظلومى كے عالم ميں تمام لوگوں كے سامنے انتہائي دردناك حالت ميں قتل كيا گيا ، يہ وہى بيت المال كے محافظوں كا گروہ تھا _

يہ تھى بيت المال كے محافظوں كى سر گذشت

پھر ابو مخنف لكھتا ہے كہ: طلحہ و زبير كا لشكر بيت المال كے محافظوں كو پراكند ہ كر نے اور قيد كرنے كے بعد بيت المال ميں داخل ہوئے ، جس وقت انكى نظر سونے چاندى اور بے شمار دولت پر پڑى تو مارے خوشى كے زبير نے يہ آیت پڑھى جو كفار سے جنگ كے بعد مال غنيمت حاصل ہونے سے متعلق ہے _

''وعدكم الله مغانم كثير ة تاخذو نها '' ( سورہ فتح آیت ۲۰)

اللہ نے تم سے وعدہ كيا ہے كہ بے شمار مال غنيمت اور بہت بڑى دولت تمھارے حصہ ميں قرار ديگا ، خدا نے بہت جلد اپنا وعدہ پورا كيا اور يہ بے شمار دولت تمھارے قبضے ميں ديدى اب ان سے فائدہ اٹھائو _

۸۵

يہ آیت پڑھنے كے بعد زبير نے كہا :

ميں اس دولت و ثروت كا بصرے والوں سے زيادہ حقدار ہوں _

اس كے بعد ان كے سپاہيوں نے لوٹ مار شروع كر دى جو كچھ بيت المال ميں تھا سب كو ہڑپ ليا ، ليكن جس دن امير المومنين نے ان لوگوں پر كاميابى حاصل كى تو اس تمام دولت كو وآپس ليكر مسلمانوں كے درميان تقسيم كر ديا_

گورنر بصرہ كى سر گذشت

ابو مخنف نے عثمان ابن حنيف كا حال اسطرح لكھا ہے كہ :

انھيں عائشه كے سامنے پيش كيا گيا ، عائشه نے عثمان ابن عفان كے بيٹے ابان كو اپنے سامنے بلايا اور حكم ديا كہ اپنے بآپ كے انتقام مين عثمان كو قتل كر دو _

اور اپنے اس فرمان كى يہ توجيہ بيان كى كہ عثمان ابن حنيف اگر چہ قاتل عثمان نہيں ہيں ليكن قاتلوں كے مددگار ہيں ،اور مدد گار بھى قتل عثمان ميں شريك ہيں اس وجہ سے ہر اس شخص كا قتل جائز ہے جو مددگار ہو اور اس سے عثمان ابن عفان كا قصاص ليا جاسكتا ہے _

عثمان ابن حنيف نے جب اپنے كو خطرے ميں ديكھا تو عائشه اور ان كے ساتھيوں سے خطاب فرمايا :

سمجھ لو كہ ميرے بھائي سہل ابن حنيف مدينے كے گورنر ہيں ، اگر تم نے مجھے قتل كيا تو خدا كى قسم وہ چين سے نہيں بيٹھيں گے ،ا ور تمھارے خاندان كے تمام افراد كو ميرے انتقام ميں قتل كر ڈاليں گے ، كسى كو زندہ نہيں چھوڑيں گے ، خدا سے ڈرو اور اپنے خاندان كى ذلت اور بد بختى كے بارے ميں سوچو ، ميرے قتل كے خطرناك نتائج سے ڈرو _

عثمان ابن حنيف كى بات كا ان لوگوں پر برا اثر ہوا اور اس ڈر سے كہ كہيں مدينے ميں سھل اپنے بھائي كے انتقام ميں ہمارے رشتہ داروں كو نہ پكڑ ليں ، ان كے قتل سے باز ائے

ابو مخنف كا بيان ہے كہ: جب لشكر عائشه كے سرداروں نے عثمان ابن حنيف كے قتل كا ارادہ بدل ديا تو انھيں قيد خانے سے بھى ازاد كر ديا اور انھيںپيشكش كى كہ تمھيں اختيار ہے كہ بصرہ ميں رہو يا حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں اپنے كو پہنچا دو ، عثمان دوسرى بات اختيار كر كے بصرہ سے نكل گئے اور راستے ميں امام كے لشكر سے مل گئے ، جيسے ہى عثمان نے

۸۶

امام كو ديكھا ان كى انكھوں سے انسو ئوں كى جھڑى لگ گئي اور كہا :

اے امير المومنين ميں جس دن آپ كے پاس سے چلا تھا ايك بوڑھا اور صاحب ريش تھا ، سفيد چہرہ تھا ، اور آج ميرى ہيئت ايسے جوان كى ہے كہ جس كے چہرے پر كوئي بال نہ ہو ميں اسى حالت ميں وآپس ہوا ہوں _

امير المومنين اس حادثہ و جرم سے جو عثمان كے ساتھ پيش ايا تھا اتنے غمگين اور متاثر ہوئے كہ بے اختيار فرمايا ، انا للہ وانا اليہ راجعون ، آپ نے مصيبت كے موقعہ پر دہرايا جانے والا يہ فقرہ تين بار دہرايا _

تيسرى جنگ

پہلے دن جب عائشه كا لشكربصرہ ميں داخل ہوا تھا عثمان ابن حنيف سے گھمسان كى جنگ ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان لقمہ اجل ہوئے تھے اور اس جنگ كے بعد ايك صلحنامہ پر معاملہ ختم ہوا تھا _

ليكن طلحہ و زبير نے معاہدہ توڑ ديا اور مسجد و بيت المال پر حملہ كر كے دوسرى جنگ چھيڑ دى تھى ، يہ جنگ اس بات پر ختم ہوئي تھى كہ حضرت على كے گورنر كو نكال ديا گيا اور نگہبانوں كو قتل كيا گيا ، ليكن اسى كے بعد تيسرى جنگ بھى شروع ہو گئي جس كى تفصيل يہ ہے _

عثما ن ابن حنيف كے قيد اور جلا وطنى اور نگہبانوں كے قتل ہونے كى خبر حكيم ابن جبلہ كو ہوئي تو اپنے قبيلے كے تين سو افراد كے ساتھ جنگ كيلئے تيار ہو كر عائشه كے لشكر كى طرف بڑھے ، ان لوگوں نے بھى عائشه كو اونٹ پر سوار كيا اور حكيم كے لشكر كا مقابلہ كرنے پر تيار كر ديا دونوں لشكر كے درميان ايسى گھمسان كى جنگ ہوئي كہ مورخين نے اس كو چھوٹى جنگ جمل كا نام ديا اور امير المومنين كى جنگ كو بڑى جنگ جمل كہا ہے _

اخر كا ر اثنائے جنگ ميں قبيلہ ازد كا ايك شخص حكيم ابن جبلہ پر حملہ اور ہوا اس نے پائوں پر تلوار چلا كر بدن سے جدا كر ديا _

حكيم ابن جبلہ نے اپنے كٹے پائوں كو اٹھا كر بڑى شدت سے اس شخص پر كھينچ كر مارا كہ وہ زمين پر ڈھير ہوگيا پھر اپنے كو كشاں كشاںجاكر اس پر ڈال ديا ، وہ مرد ازدى حكيم ابن جبلہ كے بھارى بوجھ سے ايسا بے بس ہوا كہ ٹھنڈا ہو گيا ، حكيم ابن جبلہ بھى اس كے بے جان بدن پر اخر تك بيٹھے رہے ، ايك راھگير نے يہ منظر ديكھ كر ان سے پوچھا_

۸۷

اے حكيم كس نے آپ كو يہ برا دن دكھايا _

حكيم نے كہا ، يہى شخص جو ميرے نيچے ہے _

اس راہ گير نے غور سے ديكھا تو ايك ازدى شخص ان كے بدن كے نيچے تھا _

حكيم ابن جبلہ اپنى بہادرى ميں مشھور تھے وہ اس طرح حق اور حقيقت كى طرفدارى ميں قتل كئے گئے اور شھادت سے سرفراز ہوگئے _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ اس جنگ ميںوہ تمام تين سو افراد اور حكيم ابن جبلہ كے تين بھائي بھى قتل كر دئے گئے _

اس طرح تيسرى جنگ بھى لشكر عائشه كے حق ميں گئي اور پورا بصرہ شھر ان كے قبضے ميں اگيا ، اس تاريخ سے بصرہ كے تمام افراد يہاں تك كہ عائشه كے مخالف فوجيوں نے بھى لشكر عائشه كے سامنے ہتھيار ڈال ديئے اور ان سے مل گئے _

داخلى اختلافات

جب عثمان ابن حنيف بصرہ سے نكال ديئے گئے اور حكيم ابن جبلہ اپنے ساتھيوں كے ساتھ قتل كر ديئے گئے اور پورا بصرہ شھر بغير كسى ركاوٹ اور مزاحمت كے طلحہ اور زبير كے قبضے ميں اگيا تو اب كوئي اختلاف اور تصادم كى گنجائشے نہيں تھى ليكن اس بار داخلى كشمكش اور اختلاف شروع ہوگيا _

كيو نكہ طلحہ اور زبير دونوں ہى اس كوشش ميں تھے كہ پيش نماز ى انھيں حاصل ہو اور دونوں ايك دوسرے كے پيچھے نماز پڑھنے سے انكار كررہے تھے كيو نكہ ان كے خيال ميں يہ اقتداء ان كى اولويت كو ماننے كے مترادف تھى _

ان دونوں كا اختلاف بڑھتا گيا اور خطر ناك صورت اختيار كر گيا يہاں تك كہ خود عائشه نے اس معاملے ميں مداخلت كى انھوں نے اختلاف اس طرح ختم كيا كہ طلحہ وزبير عارضى طور سے پيش نمازى كے اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائيں اور ان دونوں كے بجائے ان كے بيٹے بارى بارى لوگوں كو نماز پڑھائيں ، ايك دن محمد ابن طلحہ لوگوں كو نماز پرھائيں اور دوسرے دن عبداللہ ابن زبير _

ليكن ابن ابى الحديد كہتا ہے كہ عائشه نے طلحہ و زبير كا اختلاف ختم كرنے كيلئے حكم ديا كہ عبداللہ ابن زبير

۸۸

عارضى طور سے نماز پڑھائے جبتك كہ عائشه كو اخرى فتح حاصل نہ ہوجائے ، اس كے بعد وہ اپنا فيصلہ سنائيں گى كہ ان دونوں ميں سے كون مستقل خليفہ بنايا جائے _

ايك دوسرا اختلاف

پھر ايك دوسرا اختلاف بھى طلحہ و زبير كے درميان پيدا ہو گيا وہ يہ كہ ان دونوں ميں سے كس كو امير كہہ كے خطاب كيا جائے اور امير كہہ كے سلام كيا جائے _

اس بارے ميں ابو مخنف كہتا ہے كہ طلحہ اور زبير كو سلام كرنے كى نوعيت كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف ہے ، بعض تاريخوں ميں ہے كہ جب عائشه نے زبير كو سردار لشكر معين كيا تھا تو صرف انھيں كو خطاب كرتے ہوئے السلام عليك ايھا الامير كہا جاتا تھا _

ليكن دوسرے مورخين لكھتے ہيں كہ طلحہ اور زبير دونوں ہى كو امير كہہ كے خطاب كيا جاتا تھا ، اور سلام كے موقعہ پر دونوں ہى كو اس لقب سے سرفراز كيا جاتا تھا(۱) _

خطوط و پيغامات

طبرى كا بيان ہے كہ :حضرت علىعليه‌السلام ابن ابى طالب نے جب لشكر عائشه كے حالات سنے تو اپنے لشكر كے ساتھ مدينے سے زاويہ اور وہاں سے بصرہ كى طرف نكل پڑے _

لشكر عائشه كو بھى حضرت علىعليه‌السلام كے امد كى اطلاع ہوگئي اور بصرہ سے ان كے لشكر كى طرف بڑھا ، يہ دونوں لشكر اس جگہ ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے جسے بعد ميں قصر عبيداللہ بن زياد كے نام سے پكارا جانے لگا _

ليكن تين روز تك دونوں لشكر كى طرف سے كسى قسم كى جنگ يا جھڑپ نہيں ہوئي ، ان تين دنوں ميں اكيلے

____________________

۱_ ان تمام مطالب ابن ابى الحديد نے ابو مخنف كے حوالے سے نقل كيا ہے

۸۹

حضرت علىعليه‌السلام بطور اتمام حجت لشكر عائشه كے سرداروں كو بار بار خطوط لكھتے رہے يا كچھ لوگوں كو سفير بنا كر انكى جانب بھيجتے رہے ، كبھى كبھى خود بھى ان لوگوں سے براہ راست ملاقات فرماتے _ آپ كى كوشش تھى كہ كسى طرح بھى ہو يہ جنگ اور خونريزى نہ ہو ، اور آپ ان لوگوں كو فتنہ و فساد سے باز ركھ سكيں _

طلحہ و زبير كو خط

طبرى نے اس موقع پر اتنے ہى پر اكتفا كى ہے ، اور گفتگو يا اتمام حجت اور خطوط كا متن نہيں لكھا ہے ، ليكن كچھ گفتگو اور خطوط كو ابن قتيبہ ، ابن اعثم اور سيد رضى نے نقل كيا ہے انھيں ميں ايك خط حضرت على نے طلحہ و زبير كو لكھا تھا اسے آپ عمران بن حصين كے ذريعے انھيں بھيجا ، خط كا متن يہ ہے _

بعد حمد خدا اور صلواة بر رسول (ص) اے طلحہ اور اے زبير تم لوگ اچھى طرح جانتے ہو حالانكہ چھپا رہے ہو ، كہ ميں نے لوگوں كو نہيں بلايا تھا اور نہ اپنى بيعت كى خواہش كى تھى ، بلكہ لوگ خود ہى ميرى طرف بڑھے تھے اور ميرى بيعت كى خواہش كى تھى ، ميں نے بيعت كا ہاتھ انكى طرف نہيں بڑھايا تھا ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے خود اپنى بيعت كا ہاتھ ميرى طرف بڑھايا ، اور تم دونوں نے بھى بغير اسكے كہ ميں تمھيں دعوت دوں ميرى طرف ائے تھے ، اور تم نے خود ہى ميرى بيعت كى تھى اور عہد و پيمان باندھا تھا _

ميرے پاس قدرت و توانائي نہيں تھى كہ لوگ ميرى بيعت كرتے ، ميرے پاس مال و دولت بھى نہيں تھا كہ اسكى لالچ ميں ميرى طرف اتے بلكہ انھوں نے اپنى خواہش اور اختيار سے ميرى بيعت كے لئے بڑھے اور مجھے اس عہدے كے لئے منتخب كيا _

تم نے بھى اگر اپنے اختيار سے ميرى بيعت كى اور عہد كيا ، تو اب جتنى جلدى ہو سكے وآپس ائو اور بيعت شكنى سے ، جو بد ترين عمل ہے ، نادم و پشيمان ہو كر اپنے جرم سے توبہ كرو _

اور اگر تم نے بغير ميلان اور رغبت كے بيعت كى تھى اور دل ميں نا فرمانى اور گناہ كى نيت ركھتے تھے تو اپنے عمل سے خود ہى تم نے اعتراض كے دروازے كھولے ، كيونكہ بغير كسى زور زبردستى كے جس پر ايمان نہيں ركھتے تھے اسكا مظاہرہ كر كے نفاق كى ڈگر اپنائي ، اور اب جو تقيہ كى بات كر رہے ہو تو خداكى قسم يہ لچر بہانے كے سوا كچھ بھى نہيں ، كيونكہ

۹۰

جو لوگ تم سے كمزور اور طاقت و حيثيت كے اعتبار سے كمتر تھے ، وہ خوف و تقيہ كے زيادہ سزاوار تھے ، انھوں نے نہ تقيہ كى بات كى اور نہ اپنى بيعت كو خوف و تقيہ پر بنا ء كيا _

اگر تم دونوں نے پہلے دن ميرى بيعت نہ كى ہوتى ، عہد و پيمان نہ باندھا ہوتا تو تمھارے لئے اس سے بہتر تھا كہ آج بيعت توڑدى تمھارى اس بيعت شكنى اور جنگ و خونريزى كا بہانہ يہ ہے كہ تم نے قتل عثمان كا الزام ميرے اوپر تھوپا ہے اور اپنے كو اس جرم سے برى قرار دے رہے ہو _

اس حقيقت كو واضح كرنے كيلئے كيا ہى بہتر ہوتا كہ ميرے اور تمھارے بارے ميں سوال كيا جائے كہ كون اس سے علحدہ تھا اور ايك تيسرا شخص بغير جانبدارى كے اس بات كى تحقيق كرے اور جسے بھى قتل عثمان ميں شريك پائے ، يا جتنى مقدار ميں خون عثمان اسكى گردن پر ہو وہ اپنے مقدار جرم كے مطابق سزا پائے _

پس اے طلحہ اور اے زبير اے بوڑھو اس فاسد خيال اور خطرناك ارادے سے باز ائو ، بات بنانے اور بہانے كرنے كا سلسلہ ختم كرو ، جنگ و خونريزى سے پر ہيز كرو _

اے طلحہ و زبير ، آج تم صرف عار و ننگ سے ڈر رہے ہو ليكن اگر تم نے ميرى نصيحت پر عمل نہ كيا تو كل قيامت كے دن اتش جہنم ميں جھونك ديئے جائو گے(۲)

زبير كو پيغام

امير المومنين نے طلحہ و زبير كو يہ خط لكھا ، اس خط كے علاوہ بھى خاص طور سے اپنے چچيرے بھائي ابن عباس كو زبير كے پاس بھيجا اور انھيں يہ حكم ديا _

اے ابن عباس جس وقت تم ميرا يہ پيغام زبير كو پہونچائو تو وہاں پر طلحہ موجود نہ ہو ، كيونكہ وہ شخص نہآیت متكبر اور خود پسند ہے ، اسكے اندر ذرا بھى لوچ نہيں ، وہ انتہائي فتنہ انگيز اور ہنگامہ پر ور ہے ، وہ اپنا مطلب بر لانے كيلئے ہر ذليل حركت پر امادہ ہو سكتا ہے ، اپنى جہالت ونادانى سے سخت اور خطر ناك كاموں كو اسان و ہموار بتاتا ہے _

اے عبداللہ ، تم اكيلے زبير ہى سے ملاقات كرنا كيونكہ وہ بڑى حد تك نرم اور ملائم مزاج كا ادمى ہے _

____________________

۲- ( شرح نہج البلاغہ ، الامامة و السياسة ، ابن اعثم )

۹۱

اے عبداللہ ، زبير سے ملاقات كر كے كہنا كہ تمھارى خالہ كا بيٹا على كہتا ہے كہ اخر كيا بات ہوئي كہ تم نے حجاز ميں مجھے پہچان ليا ، ميرى بيعت كر لى ليكن اب عراق ميں مجھے فراموش كر ديا ہے اور غيريت برت رہے ہو ؟

اے زبير تم نے كيسے اپنا مزاج بدل ديا ، مجھ سے جو مہر و محبت كا برتائو عہد شكنى اور نفرت وعناد ميں بدل ديا (فما عدا مما بدا )(۳)

اس موقع پر ابن عساكر نے كچھ اضافہ كيا ہے ، وہ لكھتے ہيں كہ حضرت علىعليه‌السلام نے زبير كو پيغام بھيجا كہ اے زبير كيا تم نے اس دن اپنى خوشى خاطر سے ميرى بيعت نہيں كى تھى ؟اج كيا ہوا كہ ميرا خون بہانے پر امادہ ہو ، مجھ سے جنگ كرنے كو اپنى لازمى ذمہ دارى سمجھ رہے ہو ؟

ابن عباس كا بيان ہے كہ مجھے جو ذمہ دارى سونپى گئي تھى اسے بجالايا ، حضرت على كى بات زبير تك پہونچا دى ليكن زبير نے اس ايك بے سر وپير كے جملے كے سوا كچھ نہ كہا كہ ہم خوف و ہراس كى حالت ميں ہيں ليكن اسى حالت ميں دل كے اندر خلافت كى ارزو بھى ركھتے ہيں_(۴)

ابن عباس مزيد كہتے ہيں كہ ہمارى گفتگو ميں عبداللہ بن زبير بھى شريك تھا ، اس سے پہلے كہ زبير كچھ كہيں اس نے جھٹ مجھ سے كہا :

اے ابن عباس على سے كہہ دو كہ ہمارے تمھارے درميان كچھ اختلافات ہيں _

ہم خون عثمان كا مطالبہ كر رہے ہيں ، ہم چاہتے ہيں كہ تم بھى خليفہ دوم كى طرح خلافت كو شورى كے حوالے كر دو اور خود كنارہ كش ہو جائو

ہمارا نظريہ ہے كہ خليفہ دوم نے شورى كے جن دو اركان طلحہ و زبير كو معين كيا تھا وہ متفق الرائے ہيں _ ليكن تم اكيلے ہو اور اقليت ميں ہو مسلمانوں كى رائے كے علاوہ ام المومنين عائشه كى رائے بھى ان دونوں كے

____________________

۳_ يہ مثل عرب ميںاس وقت بولى جاتى ہے كہ اخر كيا بات ہوئي كہ ايسا ہو گيا ؟ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص۷۲ ، عقد الفريد ج۲ ص۳۱۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۲۷ ، تاريخ دمشق ج۵ ص۳۶۳ _۳۶۵

۴_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۶۵ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۲۶

۹۲

موافق ہے ، ان دليلوں كى بنياد پر خلافت ميں تمھارا ذرہ برابر بھى حصہ نہيں ہے(۵)

ابن عباس جيسے نكتہ سنج اور دانشمند كى رائے اس بارے ميں يہ ہے كہ ميں نے عبداللہ بن زبير كے اس جواب سے سمجھ ليا كہ يہ لوگ مصالحت كى رائے نہيں ركھتے ، ان كا مقصد سوائے جنگ و خونريزى كے كچھ نہيں ، وہاں سے ميں نے حضرت على كى خدمت ميں اكر تمام باتيں بيان كر ديں

عائشه كو پيغام

حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ ابن عباس كو بلايا اور انھيں حكم ديا كہ زيد بن صوحان كے ساتھ عائشه كے پاس جا كر كہو كہ اے عائشه تمہارے لئے پروردگار كا حكم يہ ہے كہ مرتے دم تك اپنے گھر ميں رہو ، اپنے گھر سے باہر نہ نكلو ليكن ميں كيا كروں ؟ كچھ لوگوں نے تمھيں فريب ديكر خانہ بدر كر ديا ہے ، اور اپنا الّو سيدھا كر نے اور مقصد حاصل كرنے كيلئے تمھيں اپنا ہم خيال بنا ليا ہے اور كچھ مسلمانوں نے تمہارى ہم اہنگى سے ان لوگوں كے بارے ميں دھوكہ كھايا ہے ، اور اپنے كو موت و ہلاكت ميں جھونك ديا ہے ، ا س طرح بد بختى كو اپنا مقدر بنا ليا ہے _

اے عائشه تمھيں اپنے گھر وآپس چلا جانا چاہيئے ، اور مسلمانوں ميںجنگ و خونريزى برپا كرنے سے پرہيز كرنا چاہيئے _

اے عائشه ، ہوش ميں اجا ، اگر تو اپنے گھر ميں وآپس نہ ہو گى تو جس اختلاف كى اگ بھڑكا ئي ہے وہ واقع ہو كر رہے گى اور بہت سے لوگوں كو اپنا لقمہ بنا ليگى _

اے عائشه تيرى ذمہ دارى سنگين ہے خدا كے غضب سے ڈر ، اس عظيم گناہ سے توبہ كر خدا تيرى توبہ قبول كرنے والا ،اور گناہوں سے صرف نظر كرنے والا ہے _

اے عائشه تجھے طلحہ كى رشتہ دارى اور عبداللہ بن زبير كى محبت اتش جہنم كى طرف نہ كھينچ لے جائے اور

____________________

۵_ اس جواب كو ابن عبد ربہ نے عقد الفريد ج۴ ص ۳۱۴ ميں خود زبير سے منسوب كيا ہے ،ليكن ابن ابى الحديد اور ابن عسا كر نے ابن زبير سے منسوب كيا ہے ، جواب كا لہجہ بھى بتا رہا ہے كہ يہ زبير كے بجائے ابن زبير ہى كا جواب ہو سكتا ہے _

۹۳

عذاب جہنم ميں نہ گرفتار كر دے(۶)

يہ حضرت علىعليه‌السلام كے خطوط اور پيغامات كے نمونے تھے جنھيں آپ نے جنگ روكنے كے سلسلہ ميں اتمام حجت اورہر قسم كے بہانوں كى راہ بند كرنے كيلئے لشكر عائشه كے سرداروں كے پاس بھيجے

طلحہ و عائشه كا جواب

حضرت على نے جن لوگوں كو مامور فرمايا تھا انھوں نے عائشه كے پاس آپ كا پيغام پہونچا ديا

عائشه نے جواب ميں كہا كہ ميں على سے بات نہيں كرونگى نہ انكى بات كا جواب دونگى ، كيو نكہ مجھے على كى طاقت لسانى اور حسن بيان كا مقابلہ كرنے كى تاب نہيں ، حضرت على كے پيغام بروں نے عائشه كے پاس سے وآپس جاكر انكى بات حضرت علىعليه‌السلام سے بيان كر دى(۷)

بعض تاريخ نگاروں نے لكھا ہے كہ طلحہ نے اپنے ساتھيوں سے كہا :

اے لوگو على كے لشكر پر چڑھ دوڑو اور ان كے ايلچيوں كى بات پر كان نہ دھرو ، كيونكہ على كى طاقت لسانى اور حسن بيان كے مقابلے ميں اپنے نظر يئے كى حفاظت نہ كر سكو گے انكى باتوں كى وجہ سے متاثر ہو جائو گے اور اپنے عقيدے سے ہاتھ دھو بيٹھو گے(۸)

اس طرح طلحہ نے آپ كى منطقى باتوں كا جواب مغالطہ بازى سے ديا _

____________________

۶_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵

۷_ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵

۸_ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵

۹۴

ہيجان انگيز تقريريں

عبداللہ بن زبير كى تقرير

جيسا كہ پہلے اشارہ كيا گيا ان تين دنوں ميں جبكہ حضرت علىعليه‌السلام اور عائشه كا لشكر امنے سامنے تھا اور بالكل تيار كھڑا تھا حضرت علىعليه‌السلام نے وہ تمام ممكنہ وسيلہ اختيار كيا جس سے جنگ كى اگ ٹھنڈى ہو جائے اور فتنہ ختم ہو جائے _

ليكن لشكر عائشه حضرت امير المومنين كے بر خلاف جنگ كى اگ بھڑ كانے كيلئے برابر گرم اور ہيجان انگيزتقريريں كرتا رہا اور اپنى اتشيں باتوں سے لوگوں كو ابھارتارہا انہى ہيجان تقريروں ميں ايك عبداللہ ابن زبير كى اتشيں تقرير ہے جو فوجيوں كو ابھارنے كيلئے كى گئي ، وہ يہ تھى _

اے لوگو ہوش ميں اجائو ، على ابن ابى طالب نے خليفہ بر حق عثمان كو قتل كيا ، آج وہ ايك لشكر جرار ليكر تمھارے محاذ پر كھڑے ہيں وہ چاہتے ہيں كہ تم لوگوں پر مسلط ہو جائيں اور تمام اختيارات اور معاملات اپنے ہاتھ ميں لے ليں ، تمہارے شہر پر قبضہ كر ليں ، تمھيں چاہيئے كہ اپنى تمام قوتوں اور توانائيوں كو اكٹھا كر كے مردانہ وار اٹھ كھڑے ہو ، اپنى بود و باش اور اب و ہوا كو على كے ظالمانہ ہاتھوں سے محفوظ كرو ، اپنے استقلال و شرافت اور اپنى عورتوں اور بچوں كا دفاع كرو_

اے بصرہ والو تم كيسے اس ذلت و خوارى پر راضى ہو جائو گے كہ كوفے والے تمھارى سر زمين پر چڑھ دوڑيں اور تمھيں اپنے شہر و ديار سے نكال باہر كرديں _

اے لوگو اٹھ كھڑے ہو ، تم ان پر غضبناك ہو جائو ،كيونكہ وہ تم سے غضبناك ہيں ، تم ان سے جنگ كرو كيو نكہ وہ تم سے جنگ پر امادہ ہيں _

اے لوگو على اپنے سوا كسى كو اس خلافت كا لائق و سزوار نہيں سمجھتے ،خدا كى قسم اگر وہ تم پر كامياب ہوگئے تو تمھارى دين و دنيا كو تباہ كر دينگے _

عبداللہ ابن زبير نے لوگوں كو ابھارنے كيلئے ايسے ہى لچر داراور لوچ مطالب پر مشتمل بہت زيادہ باتيں كہہ ڈاليں_

امام حسنعليه‌السلام نے جواب ديا

عبداللہ بن زبير كى باتيں جب امام كے كانوں ميں پڑيں تو آپ نے بھى اپنے فرزند امام حسن سے فرمايا :

بيٹے تم بھى اٹھ كر عبداللہ ابن زبير كا جواب دو ، امام حسن كھڑے ہوئے اور حمد و ثنا ئے الہى كے بعد لوگوں سے كہا ، اے لوگو جو باتيں عبداللہ بن زبيرنے ميرے بابا حضرت على كے بارے ميں كہيں ، ہم نے اسے سنا ، اس نے ميرے بابا پر

۹۵

قتل عثمان كا الزام لگايا ہے ، اس كے علاوہ بھى مہمل اور بيكار باتيں زبان پر جارى كى ہيں ، حالانكہ تمھارا ہر شخص جانتا ہے كہ اس كا بآپ زبير عثمان كے بارے ميں كيا كيا بد گوئياں كرتا ہے ؟ اور كيسے كيسے برے القاب سے نوازتا رہا كيا كيا تہمتيں اور جھوٹى باتيںعثمان كے خلاف گڑھتا رہا ؟ سب كو ياد ہے كہ عثمان كى حيات و خلافت كے زمانے ميں طلحہ نے اتنى جرائت پيدا كر لى تھى كہ بيت المال كے كوٹھے پر ايك دن پرچم لہرا كر عملاً اپنى مخالفت كا اعلان كر ديا تھا ، ايسے بد ترين ماضى كے ساتھ جو انھوں نے عثمان سے برتا آج وہ ميرے بابا پر قتل كا الزام كيسے لگا رہے ہيں ، اور كس منھ سے برائي كر رہے ہيں ؟ اگر ميں بھى چاہوں تو ان دونوں كے بارے ميں اس سے زيادہ باتيں كہہ سكتا ہوں اور اس سے بہت زيادہ حقائق روشن كر سكتا ہوں _

ليكن اس نے جو يہ بات كہى ہے كہ حضرت على لوگوں كى مرضى كے خلاف غاصبانہ طريقے سے ان پر حكومت كر رہے ہيں ، اس نا مناسب اور جھوٹے اعتراض كے مقابل ،ميں بھى اس كے بآپ پر اعتراض كرتا ہوں كہ زبير نے بغير كسى جواز كے ميرے بآپ كى بيعت توڑ دى اور اس نامناسب عمل كى ، يہ توجيہ كررہے ہيں كہ ان كى بيعت مرضى اور رغبت سے نہيں تھى _

يہ بات نہ تنہا ان كے عمل كو جائز نہيں ٹھہراتى بلكہ ان كے عصيان اور مخالفت كو بھى اشكار كرتى ہے كيونكہ وہ اپنى اس بات سے اپنى بيعت كا اعتراف تو كر رہے ہيں اور اپنے عہد كا برملا اظہار بھى كر رہے ہيں اس طرح وہ اپنى شخصيت كو بيعت شكن كى حيثيت سے متعارف كرا رہے ہيں _

يہ جو عبداللہ نے بات كہى ہے كہ كوفيوں كا لشكر بصرہ والوں پر مسلط ہو جائيگا يہ انتہائي مضحكہ خيز ہے كيو نكہ باطل پر حق كا تسلط اور باطل كو خاك چٹانا تعجب خيز بات نہيں ، يہ فطرى بات ہے كہ جب حق ميدان ميں اترتا ہے تو باطل اپنا بوريہ بستر باندھ كر جگہ خالى كر ديتا ہے_

اس نے عثمان كے مددگاروں كے بارے ميں بھى بات كہى ہے كہ جو واقعى مغالطہ سے بھر پور ہے كيو نكہ ہم عثمان كے ساتھيوں سے كوئي اختلاف نہيں ركھتے نہ ان سے جنگ كر رہے ہيں ، ہمارا مقصد صرف يہ ہے كہ يہ شتر سوارعورت اور اس كے ساتھيوں سے جنگ كى جائے ، يہ لوگ بھى واقعے ميں عثمان اور اس كے ساتھيوں سے كوئي ارتباط نہيں ركھتے(۹)

____________________

۹_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۴ ، تاريخ جمل تاليف شيخ مفيد ص ۱۵۹ _ ۱۵۸

۹۶

حضرت علىعليه‌السلام كى اخرى تقرير

امير المومنين نے ان تين دنوں ميں صلح و صفائي كى بہت كوشش كى اور اس راہ ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر ڈاليں ليكن افسوس كى بات يہ ہے كہ كوئي نتيجہ بر امد نہ ہوا اور آپ كے ايلچى لشكر عائشه سے نا اميد وآپس ائے اور امير المومنين كو بتا ديا كہ طلحہ و زبير جنگ كا مصمم ارادہ كئے ہوئے ہيں _

اس وقت حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر كے درميان كھڑے ہوئے اور اخرى بار آپ نے يہ تقرير فرمائي :

حمد و ثنائے الہى اور پيغمبر پر صلوات كے بعد ارشاد فرمايا :

ميرے ساتھيو ميں نے ان لوگوں كو تين دن مہلت دى اور اس مدت ميں انھيں بيعت شكنى سے باز ركھنے كى كوشش كى ان كے طغيان و سر كشى كو ثابت كيا تاكہ شايد اپنے جاہلانہ ارادے سے باز اجائيں ، ليكن انھيں شرم نہيں ائي اور اپنے ارادے سے باز نہيں ائے اور اب انھوں نے ميرے پاس پيغام بھيجا ہے كہ امادئہ جنگ ہو جائوں اور ان كے نيزہ و شمشير كو اپنے اوپر قبول كروں _

وہ لوگ كہتے ہيں كہ على كو باطل ارزوئوں نے مغرور بنا ديا ہے خواہشات نفسانى نے فريب ديا ہے ، ان كى باتوں پر افسوس ہے ، ان كى مائيں ان كے سوگ ميں بيٹھيں ، كيونكہ وہ باطل كى راہ پر چل پڑے ہيں ، مجھے جنگ كى پرواہ نہيں كہ مجھے جنگ (تلوار اور نيزے ) سے ڈرا يا جائے ، ہاں ، جو مجھے نيزہ و تلوار كى دعوت ديتا ہے وہ انصاف سے دور نہيں جارہا ہے ، كيونكہ ميں اول روز سے نيزہ و تلوار سے اشنائي ركھتا ہوں ''و لقد انصف القاره من راماها ''(۱۰) ان لوگوں نے ميرے جنگ اور عملوں كو ديكھا ہے اور ميرى ضرب كو اپنى انكھوں سے مشاہدہ كيا ہے ، انھيں ميرى تلوار كا سامنا كرنے كيلئے تيار ہو جانا چاہيئے نہ كہ مجھے جس كو امادہ ہونے كى كوئي ضرورت نہيں ہے ، كيو نكہ ميں وہى فرزند ابو طالب ہوں جس نے مشركوں كى مضبوط صفيں توڑيں ہيں اور ان كى جميعت كو پراكندہ

____________________

۱۰_ قارہ قريش كے قبيلے تھے جو تير اندازى ميں مشہور تھے اسى وجہ سے ان لوگوں كو بطور ضرب المثل كہا جاتا تھا كہ جو شخص قبيلہ قارہ كو تير اندازى كى دعوت دے اس نے انصاف كيا _

۹۷

كيا ہے ، آج بھى ميں وہى مضبوط بازو اور دل كے ساتھ ان پر حملہ كروں گا اور ان كى صفيں درہم برہم كروں گا _

اے لوگو ميں اپنے مقصد پر ايمان ركھتا ہوں اور حق و عدالت پر گامزن ہوں اسى وجہ سے يقين ركھتا ہوں كہ اللہ ميرى نصرت و مدد فرمائيگا اور مجھے كاميابى عطا كريگا _

اے لوگو سمجھ لو كہ موت انسان كى اخرى سر نوشت ہے وہ سب كو اپنے گھيرے ميں لے لے گى اور كسى كو اس كے چنگل سے نجات نہيں اگر كوئي شخص ميدان جنگ ميں بھى قتل نہ ہو تو انپى طبعى موت سے مرے گا ،پس كيا اچھا ہے كہ يہ انسان خدا كى راہ ميں اور اس كى رضا و خوشنودى كيلئے جان دے اور اللہ كى راہ ميں اپنا خون قربان كر دے _

على كے خداكى قسم اگر ہزار مرتبہ بھى ميدان جنگ ميں قتل كيا جائوں تو يہ ميرے لئے اس سے كہيں زيادہ پسند يدہ ہے كہ ميں نرم بستر پر اپنى موت مروں _

اس تقرير كے بعد امير المومنين نے اپنا رخ اسمان كى طرف كر كے كہا خدايا طلحہ نے ميرى بيعت توڑى اور مجھ سے جو عہد كيا تھا روند ڈالا ، اس نے لوگوں كو عثمان كے خلاف بھڑكايايہاں تك كہ وہ قتل كئے گئے پھر ميرے اوپر اس قتل كا الزام لگا ديا _

پرور دگارا تو اس بات پہ اسے مہلت نہ دے _

اے مہر بان خدا زبير نے ميرے ساتھ قطع رحم كيا ، ميرى بيعت توڑى ، ميرے دشمنوں كى مدد كى ، خدايا ، اپنى ہر راہ سے مجھے اس كے شر سے محفوظ ركھ

حضرت على نے يہى پر اپنى تقرير ختم كى اس كے بعد ابن اعثم كے بيان كے مطابق دونوں لشكر ايك دوسرے كى طرف بڑھنے لگے اور ايك دوسرے سے نزديك ہو گئے

اس موقعہ پر حضرت على كے لشكر كى تعداد بيس ہزار تك پہنچ گئي تھى ، طلحہ و زبير كے لشكر كى تعداد تيس ہزار تھى(۱۱) _

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے جنگى پروگرام كا اعلان فرمايا

طبرى كا بيان ہے كہ حضرت على اور عائشه كے لشكر نے بروز پنجشنبہ ۱۵ جمادى الثانيہ ۳۶ھ امنے سامنے

____________________

۱۱_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵ ، ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۰۱

۹۸

صف ارائي كى(۱۲) تين دن تك تيار حالات ميں كھڑے رہے ، حملہ يا كوئي جنگ ان كے درميان واقع نہيں ہوئي ، ان تين دنوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كى كوشش رہى كہ معاملہ صلح و صفائي پر انجام پا جائے ، ليكن اپنى كو شش كا كوئي نتيجہ نہ ديكھا ، آپ صلح سے قطعى مايوس ہو گئے ، آپ نے جب ملاحظہ فرمايا كہ جنگ بہر حال ہو كر رہے گى تو اپنے لشكر كى تنظيم كيلئے عمومى پروگرام كا اعلان فرمايا ، مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے جنگى پروگرام كو تفصيل سے بيان كيا ہے _

حاكم نے مستدرك ميں اور ملا على متقى نے كنزالعمال ميں يحيى بن سعيد كے چچا كا بيان نقل كيا ہے _

جنگ جمل كے دن حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر والوں كے سامنے بلند اواز سے اعلان فرمايا :

اے لوگو تم دشمن كى طرف تير اندازى نہ كرو ، كسى پر تلوار يا نيزے سے حملہ نہ كرو ، جنگ و خونريزى ميں سبقت نہ كرو ، ان سے نرمى اور ملائمت سے بات كرو_

اے لوگو اگر كوئي شخص اس خطرناك موقعہ پر ہدآیت كى راہ پالے تو قيامت كے دن بھى ہدآیت يافتہ رہيگا _

اس پروگرام كو نقل كرنے والے ايك شخص كا بيان ہے كہ ہم ظہر تك اسى حالت انتظار ميں رہے اور حضرت على كے فرمان كے مطابق جنگ ميں پہل نہيں كى ليكن عائشه كے لشكر سے اوازيں اور فرياديں بلند ہوتى رہيں ، يا لثارات عثمان ، اے عثمان كا انتقام لينے والو اٹھو يہ اواز پورے صحرا ميں گونجتى رہى _

محمدبن حنفيہ ہاتھ ميں علم ليكر اپنے والد كے اگے ايك ٹيلے پر كھڑے تھے وہ دشمن كے لشكر كو اچھى طرح ديكھ سكتے تھے اور ان كى اوازيں پورے طور پر سن سكتے تھے امام نے انھيں پاس بلا كر پوچھا ، اے محمد يہ لوگ كيا كہہ رہے ہيں ؟ اور ان كى اوازيں كيو ں بلند ہے ؟

محمد نے كہا بابا جان ، يہ جنگى شعار بلند كر رہے ہيں ، يالثارات عثمان ، اس طرح وہ اپنے ساتھيوں كو انتقام خون عثمان پر ابھار كر جنگ كيلئے امادہ كر رہے ہيں _

اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے ہاتھ بلند كر كے دعا كي اے خدا آج تو قاتلان عثمان كو ذلت كى خاك چٹا دے اور انھيں نا كام كر دے ،(۱۳) دوسرے مورخين نے لكھا ہے كہ اس دن دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے تو حضرت على نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا :

____________________

۱۲_ طبرى ج۵ ص ۱۹۹ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۲۶

۱۳_ مستدرك ج۳ ص ۳۷۱، كنز ل العمال ج ۶ ص ۸۵ حديث ۱۳۱۱

۹۹

جب تك دشمن جنگ شروع نہ كرے تم جنگ ميں پہل نہ كرنااور ان پر سبقت نہ كرنا ، پھر فرمايا : خدا كا شكر ہے كہ حق ہمارے ساتھ ہے اور جنگ ميں پہل نہ كرنا بھى ہمارى حقانيت كى دليل ہو گى اس كے بعد فرمايا :

جنگ شروع ہونے كے بعدجو نيزے سے زخمى ہو جائے اسے قتل نہ كرنا ، كاميابى كے بعد بھاگنے والوں كآپيچھا نہ كرنا ، مقتولوں كو عرياں نہ كرنا ، اور ان كے جسم كا مثلہ نہ كرنا ، اگر دشمن كے گھروں پر پہنچنا تو بے پردگى نہ كرنا ، ان كى عورتوں پر زيادتى نہ كرنا ، گھر كے اندرونى حصے ميں داخل نہ ہونا اور نہ ان كا مال و دولت لوٹنا _(۱۴)

اس موقعہ پر مسعودى نے اضافہ كيا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں سے كہا كہ دشمن كى جو دولت ميدان جنگ ميں مل جائے اسے مال غنيمت كى طرح مت لوٹنا ،ان كى عورتوں كو تكليف نہ پہچانا چاہے وہ تمھيں گالياں بھى ديں اور تمھارے بزرگوں كو برا بھلا بھى كہيں كيونكہ ان كى عقل ناقص ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى اذيت سے منع كيا ہے چاہے وہ كافر ہى ہوں ، بالاخر معمولى زيادتى بھى يہاں تك كہ عورتوں كو سرزنش بھى ممنوع ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے قرآن كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا

حضرت على نے صلح و صفائي كى اپنى كو شش كا كوئي نتيجہ نہ ديكھا تو قران سے تمسك اختيار كيا كہ دشمن پر اس سے اتمام حجت كيا جائے _

آپ نے قران ہاتھ ميں ليكر بلند اواز سے فرمايا :

تم ميں كون ہے ، كہ اس قران كو ہاتھ ميں ليكر دشمن كو اس كى طرف دعوت دے يہاں تك كہ وہ اس راہ ميں جان سے ہاتھ دھو بيٹھے گا اور شھادت سے سرفراز ہو گا _

اس وقت ايك جوان سفيد لباس ميں ملبوس پڑا ہوا ، اس نے كہا اے علي ميں اس موت كى راہ كو عاشقانہ طريقے پر اپنے لئے خريدتا ہوں _

حضرت علىعليه‌السلام نے دوسرى بار لوگوں سے فرمايا :

كون ہے جو اكيلے اس لشكر كے سامنے كھڑا ہو اور انھيں قران كى دعوت دے ، اس راہ ميں حتمى موت سے نہ ڈرے _

وہ جوان دوسرى بار بھى كہنے لگا يا امير المومنين ميرى جان آپ پر فدا ، ميں اس ذمہ دارى كيلئے نيزہ و شمشير سے ہراساں نہيں ہوں اور نہ مجھے موت كى پرواہ ہے _

____________________

۱۴_ يعقوبى ج ۲ ص ۱۵۷ _ ۱۶۰ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۸۸ ، ترجمہ تاريخ ابن اعثم ، اغانى ج ۶ ۱ ص ۱۲۷ ، شرح نہج البلاغہ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198