تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 30%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79133 / ڈاؤنلوڈ: 5341
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

صلحنامہ كا متن ان پانچ دفعات پر مشتمل تھا

يہ وہ عہد و پيمان ہے كہ جو عثمان ابن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے طلحہ و زبير اور ان كے حمآیتيوں كے ساتھ طئے پايا ہے ہر دو طرف كے لوگ اپنے كو اس عہد نامہ كا پابند سمجھتے ہيں كہ اس صلحنامہ كے مطابق عمل كرينگے اور ان كے دفعات كا احترام كر كے اسے نافذ كرينگے _

۱_ طرفين كے كسى شخص كو بھى دوسرے سے چھيڑ چھاڑ كا حق نہ ہوگا اور اسائشے كے وسيلے سلب نہ كريگا نہ ايك دوسرے كو تكليف ديگا _

۲_ طرفين حق ركھتے ہيں كہ ازادانہ طريقے سے فطرى اور معاشرتى خصوصيات سے بہر ہ مند ہوں اور سبھى يكساں طريقے سے بغير دو سرے كى مزاحمت كے نہروں و چراگاہوں اور شاہراوں اور بازاروں سے استفادہ كر سكيں گے اور ايك دوسرے كى ضرورت كو پورا كريں گے _

۳_ شہرى انتظامات اور حكومت اور قصر كى حكمرانى ( مسجد اور پيشنمازى كے حالات ) اور بيت المال كے اختيارات سابق كيطرح عثمان ابن حنيف كے قبضے ميں رہيں گے _

۴_ طلحہ و زبير اور ان كے ساتھ بصرہ ميں ازادى سے رہيں گے وہ بغير ركاوٹ كے تمام جگہوں پر اپنى چھائونى بنا سكتے ہيں اور شھر كے تمام حصوں پر ازادانہ رہ سكتے ہيں _

۵_ يہ عہد نامہ آج كى تاريخ سے اس وقت تك نافذ رہے گا جبتك حضرت على بصرہ ميں اجائيں ، اور حضرت على كے تشريف لانے كے بعد طلحہ و زبير ازاد ہيں كہ وہ سابق كى اپنى بيعت على كے وفادار رہيں يا ہر ايك صلح و جنگ كا انتخاب كرے _

صلحنامہ كے اخر ميں اس جملے كا بھى اضافہ كيا گيا كہ طرفين اس صلحنامہ كے دفعات پر اسى طرح عمل كرينگے جيسے خدا اور انبياء كے عہد و ميثاق ميں برتا جاتا ہے ، اور اس وسيلے سے ان لوگوں نے مضبوط پيمان باندھا (على الفريقين بما كتبو ا عهد الله و ميثاقه )

صلح نامہ پر طرفين كے دستخط ہو گئے اور صلح و صفائي ہوگئي ، عثمان ابن حنيف اپنے لشكر كے ساتھ دار الرزق سے دار الامارہ كيطرف وآپس چلے گئے اور اپنے ساتھيوں كو حكم ديا كہ جنگى ہتھيار اتار ڈالو اور اپنے گھروں كو وآپس جائو ارام كے ساتھ زخميوں كا اعلاج و معالجہ كرو _

۸۱

دوسرى جنگ

طلحہ و زبير نے دوسرى بار پيمان شكنى كي

لشكر بصرہ نے صلحنامہ كے دفعات پر بھر پور عمل كيا اور اس كے مفاد كے مطابق صلح كيا ، شھر بصرہ ميں جنگ سے پہلے كا امن وآپس اگيا ،تمام حالات معمول پر اگئے ، ليكن طلحہ و زبير نے جس طرح علىعليه‌السلام كى بيعت توڑى تھى دير نہيں گذرى كہ اس صلح اور عہد كو توڑ نے كى فكر ميں لگ گئے ، وہ سوچ رہے تھے كہ اگر كچھ دن بعد حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں اجائينگے تو ہم يہ تھوڑے سے فوجى اور معمولى سامان جنگ سے كس طرح مقابلہ كر سكيں گے ، وہ بہترين فوجى ساز وسامان سے اراستہ ہونگے(۶)

يہى بات تھى كہ طلحہ اور زبير كى بے چينى بڑھ گئي اور ان كى انكھوں سے نيند اڑ گئي تھى ، وہ اس سلسلے ميں رات دن تبادلہء خيال كرتے رہتے تھے _

اخر كا رانہوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ اس عہد كو بھى بيعت علىعليه‌السلام كى طرح توڑ ديں اور مخفى طور سے قبائل عرب كے رئيسوں اور بصرہ كے بزرگوں سے مدد طلب كريں اور انھيں اپنى حمآیت كى دعوت ديں _

طلحہ و زبير نے اس منصوبے كے ماتحت قبيلوں كے بزرگوں كو خط لكھے اور انھيں انتقام خون عثمان كى دعوت دى اور على كى بيعت توڑنے اور بصرہ كے گورنر كى اطاعت سے باہر ہونے پر امادہ كيا _

قبيلہ اذد ، ضبہ ، اور قيس عيلان ان تين قبائل نے ان كى دعوت كا مثبت جواب ديكر ان لوگوں كى بيعت كر لى ، انھون نے وعدہ كيا كہ ہر طرح كى كمك اور حمآیت كيلئے وہ تيار ہيں ، صرف يہى انگليوں پر گنے جانے والے تين قبيلے تھے جنھوں نے چھپے چورى ان كى موافقت كا عہد كيا _

____________________

۶_ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ پہلے صلح كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ليكن جب انھوں نے ديكھا كہ گورنر بصرہ سے مقابلہ كرنے كى طاقت نہيں ہے تو ظاہرى طور سے صلح كا ہاتھ بڑھا ديا تاكہ ان لوگوں كى غفلت سے فائدہ اٹھا كر اپنے بد ترين مقاصد حاصل كر ليں

۸۲

طلحہ و زبير نے ايك دوسرا خط ہلال ابن و كيع كو لكھا جو قبيلہ بنى تيم كا سردار تھا ، ان لوگوں نے خط ميں اپنى حمآیت كى دعوت دى ليكن ہلال نے ان كا كوئي جواب نہيں ديا نہ توجہ كى ، اور ان سے ملاقات بھى نہيں كى _

طلحہ و زبير مجبور ہو كر خود ہى ہلال سے ملاقات كيلئے ان كے گھر گئے انھوں نے اپنے گھر ميں بھى ان سے ملاقات نہيں كى اور اپنے كو چھپاليا ، ليكن انكى ماں نے سرزنش كرتے ہوئے كہا :

اے ہلال ، تمھارى جيسى شخصيت كيلئے شرم كى بات ہے كہ اپنے كو مہمانوں سے چھپائو اور قريش كے دو بزرگوں كى ملاقات سے انكار كر دو _

ہلال كى ماں نے اپنى بات اتنى بار كہى كہ فرزند كے دل پر اثر ہوا اور ہلال نے طلحہ و زبير كيلئے اپنا دروازہ كھولا ، ان سے ملاقات اور گفتگو كا نتيجہ يہ نكلا كہ وہ بھى طلحہ و زبير سے متاثر ہو گئے اور ان دونوں كى بيعت كرلى ، حمآیت اور نصرت كا وعدہ بھى كيا _

قبيلہ تميم كے دو بڑے خاندان ، عمرو اور ہنزلہ كا خا ندان بھى ہلال كى پيروى كرتے ہوئے طلحہ و زبير كى بيعت پر امادہ ہو گيا _

قبيلہ تميم ميں صرف ايك خاندان ير بوع تھا جو حضرت علىعليه‌السلام سے وابستہ تھا آپ كا خالص شيعہ اور وفادار تھا اسى نے ان دونوں كى بيعت سے انحراف كيا اسى طرح خاندان دارم بھى جو بنى تميم ہى كى شاخ تھا ، اسنے بھى ان دونوں كى بيعت سے انكار كيا _

اس طرح طلحہ اور زبير نے بصرہ كے اكثر قبيلوں كو اپنى طرف مائل كر كے انھيں اپنى حمآیت و نصرت پر امادہ كر ليا _

دوسرى جنگ شروع ہوئي

جب لشكر عائشه كے سرداروں نے اپنے كو ہر طرح سے طاقتور ديكھ ليا تو ايك اندھيرى رات ميں ، جب سخت سردى تھى اور باد و باراں كا زور تھا ، اپنے كپڑوں ميں اسلحے چھپا كر جامع مسجد كى طرف چلے ،اور ٹھيك نماز صبح كے وقت مسجد ميں پہنچ گئے _

يہ وقت تھا كہ عثمان ابن حنيف محراب ميں تھے اور وہ لوگوں كو نماز پڑھانے كيلئے كھڑے ہو گئے تھے ، طلحہ و زبير كے ساتھيوں نے سامنے اكر انھيں محراب سے كھينچ ليا اور زبير كو ان كى جگہ پر كھڑا كر ديا ، اس موقع پر بيت المال كے محافظوں نے مسجد كے حالات كى خبر پاكر عثمان ابن حنيف كى نصرت ميں دوڑے اور زبير كو محراب سے كھيچ كر عثمان

۸۳

ابن حينف كو پھر وہيں كھڑا كيا ، زبير كے ساتھيوں نے بھى دوسرى بار عثمان كو علحدہ كيا اور زبير كو ان كى جگہ پر بيٹھا يا ليكن پھر محافظوں نے سخت جد وجہد كى اور زبير كو پيچھے ہٹا كر عثمان كو محراب ميں پہنچا ديا _

يہ نزاع و كشمكش اور امام جماعت كى تبديلى اتنى دير تك جارى رہى كہ قريب تھا كہ سورج نكل ائے اور نماز صبح كا وقت ختم ہو جائے_

جو لوگ مسجد ميں تھے وہ چلانے لگے كہ اے مسلمانوں خدا سے ڈرو كہ نماز كا وقت جارہا ہے _

اخر كار اس اختلاف اور كشمكش كا نتيجہ يہ نكلا كہ زبير نے اخرى مر حلے ميں عثمان ابن حنيف پر كاميابى حاصل كر لى اور محراب پر قبضہ كر كے لوگوں كو نماز صبح پڑھائي كيونكہ ان كے ساتھى زيادہ تيار اور منصوبہ ميں پختہ تھے ، نماز پڑھانے كے بعد فوراً زبير نے حكم ديا كہ عثمان كو پكڑو اور گرفتار كر لو _

جيسے ہى يہ فرمان صادر ہوا زبير كے ساتھيوں نے اپنے كپڑوں سے تلواريں نكال ليں اورعثمان كے ساتھيوں پر حملہ كر ديا ، تھوڑى سى ردو كد مروان اور عثمان كے درميان واقع ہوئي ، عثمان ابن حنيف اور بيت المال كے محافظوں كى تعداد ستر تھى انھيں زبير كے ساتھيوں نے گرفتار كر ليا اور عثمان كو سخت اذيتيں دى ، اس قدر مار پيٹ كى كہ قريب تھا كہ وہيںان كى موت ہو جائے _

انہوں نے اسى پر بس نہيں كيا ان كى بھئوں اور سر اور چہرے كے بال كو قابل رحم حالت پر چھيل ڈالا _

اس طرح عائشه كا لشكر صلح كے باوجود اس جنگ ميں فتحمند ہوا اور شھر بصرہ پر قبضہ كر ليا _

جنگى قيديوں كى سر گذشت

ابو مخنف كا بيان ہے كہ :عائشه كے فوجيوں نے معاہدہ صلح كے بر خلاف گورنر ہائوس اور مسلمانوں كے بيت المال پر حملہ كر كے گورنر اور بيت المال كے محافظوں كو قيدى بنا ليا _

پھر انھيں عائشه كے سامنے پيش كيا گيا تاكہ ان لوگوں كے بارے ميں كوئي فيصلہ كريں وہ جيسا بھى حكم چاہيں ان لوگوں كے بارے مين حكم صادر كر ديں _

عائشه نے بھى ہر ايك كے بارے ميں الگ الگ فيصلہ سنايا _

۸۴

محافظوں كى سر گذشت

عائشه نے بيت المال كے محافظوں كے بارے ميں اسطرح فيصلہ سنايا كہ زبير كو اپنے سامنے بلا كر كہا :

اے زبير انھيں لوگوں نے تم پر شمشير كھينچى تھى اور عثمان ابن حنيف اور بيت المال كا دفاع كيا تھا ، ان لوگوں كا قتل ،ميں تمھارے ذمہ قرار ديتى ہوں كہ ان كا سر تن سے جدا كر كے تلوار كا پانى پلائو _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ يہ حكم پاتے ہى زبير نے اپنے فرزند عبداللہ كى مدد سے ان سب كے سر بھيڑ بكريوں كى طرح تن سے جدا كر ديا _

اس كا بيان ہے كہ :بيت المال كے محافظوں ميں ان ستر افراد كے علاوہ بھى كچھ ايسے تھے جو بيت المال كى حفاظت كيلئے بيت المال ميں موجود تھے اور طلحہ و زبير كو قبضہ نہيں كر نے دے رہے تھے ، زبير نے راتوں رات ان پر چڑھائي كر كے پراكندہ كر ديا اور بيت المال پر اپنا قبضہ جما ليا ، ان ميں پچاس ادميوں كو قيد كر كے تمام لوگوں كے سامنے بے رحمى سے گردن مار دى اور سب كى لاشيں ان ستر كے پہلو ميں ڈال ديں _

ابو مخنف لكھتا ہے كہ سقعب ابن زبير كے بيان كے مطابق اس دن قتل ہونے والے محافظوں كى تعداد چار سو تھى _

وہ مزيد كہتا ہے كہ :سب سے پہلا غدر اور حيلہ اسلام ميں يہى تھا جو طلحہ و زبير كے ذريعہ عثمان ابن حنيف كى بابت انجام پايا اور اسلام ميں مسلمانوں كا يہ پہلا گروہ تھا جو نہتّامظلومى كے عالم ميں تمام لوگوں كے سامنے انتہائي دردناك حالت ميں قتل كيا گيا ، يہ وہى بيت المال كے محافظوں كا گروہ تھا _

يہ تھى بيت المال كے محافظوں كى سر گذشت

پھر ابو مخنف لكھتا ہے كہ: طلحہ و زبير كا لشكر بيت المال كے محافظوں كو پراكند ہ كر نے اور قيد كرنے كے بعد بيت المال ميں داخل ہوئے ، جس وقت انكى نظر سونے چاندى اور بے شمار دولت پر پڑى تو مارے خوشى كے زبير نے يہ آیت پڑھى جو كفار سے جنگ كے بعد مال غنيمت حاصل ہونے سے متعلق ہے _

''وعدكم الله مغانم كثير ة تاخذو نها '' ( سورہ فتح آیت ۲۰)

اللہ نے تم سے وعدہ كيا ہے كہ بے شمار مال غنيمت اور بہت بڑى دولت تمھارے حصہ ميں قرار ديگا ، خدا نے بہت جلد اپنا وعدہ پورا كيا اور يہ بے شمار دولت تمھارے قبضے ميں ديدى اب ان سے فائدہ اٹھائو _

۸۵

يہ آیت پڑھنے كے بعد زبير نے كہا :

ميں اس دولت و ثروت كا بصرے والوں سے زيادہ حقدار ہوں _

اس كے بعد ان كے سپاہيوں نے لوٹ مار شروع كر دى جو كچھ بيت المال ميں تھا سب كو ہڑپ ليا ، ليكن جس دن امير المومنين نے ان لوگوں پر كاميابى حاصل كى تو اس تمام دولت كو وآپس ليكر مسلمانوں كے درميان تقسيم كر ديا_

گورنر بصرہ كى سر گذشت

ابو مخنف نے عثمان ابن حنيف كا حال اسطرح لكھا ہے كہ :

انھيں عائشه كے سامنے پيش كيا گيا ، عائشه نے عثمان ابن عفان كے بيٹے ابان كو اپنے سامنے بلايا اور حكم ديا كہ اپنے بآپ كے انتقام مين عثمان كو قتل كر دو _

اور اپنے اس فرمان كى يہ توجيہ بيان كى كہ عثمان ابن حنيف اگر چہ قاتل عثمان نہيں ہيں ليكن قاتلوں كے مددگار ہيں ،اور مدد گار بھى قتل عثمان ميں شريك ہيں اس وجہ سے ہر اس شخص كا قتل جائز ہے جو مددگار ہو اور اس سے عثمان ابن عفان كا قصاص ليا جاسكتا ہے _

عثمان ابن حنيف نے جب اپنے كو خطرے ميں ديكھا تو عائشه اور ان كے ساتھيوں سے خطاب فرمايا :

سمجھ لو كہ ميرے بھائي سہل ابن حنيف مدينے كے گورنر ہيں ، اگر تم نے مجھے قتل كيا تو خدا كى قسم وہ چين سے نہيں بيٹھيں گے ،ا ور تمھارے خاندان كے تمام افراد كو ميرے انتقام ميں قتل كر ڈاليں گے ، كسى كو زندہ نہيں چھوڑيں گے ، خدا سے ڈرو اور اپنے خاندان كى ذلت اور بد بختى كے بارے ميں سوچو ، ميرے قتل كے خطرناك نتائج سے ڈرو _

عثمان ابن حنيف كى بات كا ان لوگوں پر برا اثر ہوا اور اس ڈر سے كہ كہيں مدينے ميں سھل اپنے بھائي كے انتقام ميں ہمارے رشتہ داروں كو نہ پكڑ ليں ، ان كے قتل سے باز ائے

ابو مخنف كا بيان ہے كہ: جب لشكر عائشه كے سرداروں نے عثمان ابن حنيف كے قتل كا ارادہ بدل ديا تو انھيں قيد خانے سے بھى ازاد كر ديا اور انھيںپيشكش كى كہ تمھيں اختيار ہے كہ بصرہ ميں رہو يا حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں اپنے كو پہنچا دو ، عثمان دوسرى بات اختيار كر كے بصرہ سے نكل گئے اور راستے ميں امام كے لشكر سے مل گئے ، جيسے ہى عثمان نے

۸۶

امام كو ديكھا ان كى انكھوں سے انسو ئوں كى جھڑى لگ گئي اور كہا :

اے امير المومنين ميں جس دن آپ كے پاس سے چلا تھا ايك بوڑھا اور صاحب ريش تھا ، سفيد چہرہ تھا ، اور آج ميرى ہيئت ايسے جوان كى ہے كہ جس كے چہرے پر كوئي بال نہ ہو ميں اسى حالت ميں وآپس ہوا ہوں _

امير المومنين اس حادثہ و جرم سے جو عثمان كے ساتھ پيش ايا تھا اتنے غمگين اور متاثر ہوئے كہ بے اختيار فرمايا ، انا للہ وانا اليہ راجعون ، آپ نے مصيبت كے موقعہ پر دہرايا جانے والا يہ فقرہ تين بار دہرايا _

تيسرى جنگ

پہلے دن جب عائشه كا لشكربصرہ ميں داخل ہوا تھا عثمان ابن حنيف سے گھمسان كى جنگ ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان لقمہ اجل ہوئے تھے اور اس جنگ كے بعد ايك صلحنامہ پر معاملہ ختم ہوا تھا _

ليكن طلحہ و زبير نے معاہدہ توڑ ديا اور مسجد و بيت المال پر حملہ كر كے دوسرى جنگ چھيڑ دى تھى ، يہ جنگ اس بات پر ختم ہوئي تھى كہ حضرت على كے گورنر كو نكال ديا گيا اور نگہبانوں كو قتل كيا گيا ، ليكن اسى كے بعد تيسرى جنگ بھى شروع ہو گئي جس كى تفصيل يہ ہے _

عثما ن ابن حنيف كے قيد اور جلا وطنى اور نگہبانوں كے قتل ہونے كى خبر حكيم ابن جبلہ كو ہوئي تو اپنے قبيلے كے تين سو افراد كے ساتھ جنگ كيلئے تيار ہو كر عائشه كے لشكر كى طرف بڑھے ، ان لوگوں نے بھى عائشه كو اونٹ پر سوار كيا اور حكيم كے لشكر كا مقابلہ كرنے پر تيار كر ديا دونوں لشكر كے درميان ايسى گھمسان كى جنگ ہوئي كہ مورخين نے اس كو چھوٹى جنگ جمل كا نام ديا اور امير المومنين كى جنگ كو بڑى جنگ جمل كہا ہے _

اخر كا ر اثنائے جنگ ميں قبيلہ ازد كا ايك شخص حكيم ابن جبلہ پر حملہ اور ہوا اس نے پائوں پر تلوار چلا كر بدن سے جدا كر ديا _

حكيم ابن جبلہ نے اپنے كٹے پائوں كو اٹھا كر بڑى شدت سے اس شخص پر كھينچ كر مارا كہ وہ زمين پر ڈھير ہوگيا پھر اپنے كو كشاں كشاںجاكر اس پر ڈال ديا ، وہ مرد ازدى حكيم ابن جبلہ كے بھارى بوجھ سے ايسا بے بس ہوا كہ ٹھنڈا ہو گيا ، حكيم ابن جبلہ بھى اس كے بے جان بدن پر اخر تك بيٹھے رہے ، ايك راھگير نے يہ منظر ديكھ كر ان سے پوچھا_

۸۷

اے حكيم كس نے آپ كو يہ برا دن دكھايا _

حكيم نے كہا ، يہى شخص جو ميرے نيچے ہے _

اس راہ گير نے غور سے ديكھا تو ايك ازدى شخص ان كے بدن كے نيچے تھا _

حكيم ابن جبلہ اپنى بہادرى ميں مشھور تھے وہ اس طرح حق اور حقيقت كى طرفدارى ميں قتل كئے گئے اور شھادت سے سرفراز ہوگئے _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ اس جنگ ميںوہ تمام تين سو افراد اور حكيم ابن جبلہ كے تين بھائي بھى قتل كر دئے گئے _

اس طرح تيسرى جنگ بھى لشكر عائشه كے حق ميں گئي اور پورا بصرہ شھر ان كے قبضے ميں اگيا ، اس تاريخ سے بصرہ كے تمام افراد يہاں تك كہ عائشه كے مخالف فوجيوں نے بھى لشكر عائشه كے سامنے ہتھيار ڈال ديئے اور ان سے مل گئے _

داخلى اختلافات

جب عثمان ابن حنيف بصرہ سے نكال ديئے گئے اور حكيم ابن جبلہ اپنے ساتھيوں كے ساتھ قتل كر ديئے گئے اور پورا بصرہ شھر بغير كسى ركاوٹ اور مزاحمت كے طلحہ اور زبير كے قبضے ميں اگيا تو اب كوئي اختلاف اور تصادم كى گنجائشے نہيں تھى ليكن اس بار داخلى كشمكش اور اختلاف شروع ہوگيا _

كيو نكہ طلحہ اور زبير دونوں ہى اس كوشش ميں تھے كہ پيش نماز ى انھيں حاصل ہو اور دونوں ايك دوسرے كے پيچھے نماز پڑھنے سے انكار كررہے تھے كيو نكہ ان كے خيال ميں يہ اقتداء ان كى اولويت كو ماننے كے مترادف تھى _

ان دونوں كا اختلاف بڑھتا گيا اور خطر ناك صورت اختيار كر گيا يہاں تك كہ خود عائشه نے اس معاملے ميں مداخلت كى انھوں نے اختلاف اس طرح ختم كيا كہ طلحہ وزبير عارضى طور سے پيش نمازى كے اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائيں اور ان دونوں كے بجائے ان كے بيٹے بارى بارى لوگوں كو نماز پڑھائيں ، ايك دن محمد ابن طلحہ لوگوں كو نماز پرھائيں اور دوسرے دن عبداللہ ابن زبير _

ليكن ابن ابى الحديد كہتا ہے كہ عائشه نے طلحہ و زبير كا اختلاف ختم كرنے كيلئے حكم ديا كہ عبداللہ ابن زبير

۸۸

عارضى طور سے نماز پڑھائے جبتك كہ عائشه كو اخرى فتح حاصل نہ ہوجائے ، اس كے بعد وہ اپنا فيصلہ سنائيں گى كہ ان دونوں ميں سے كون مستقل خليفہ بنايا جائے _

ايك دوسرا اختلاف

پھر ايك دوسرا اختلاف بھى طلحہ و زبير كے درميان پيدا ہو گيا وہ يہ كہ ان دونوں ميں سے كس كو امير كہہ كے خطاب كيا جائے اور امير كہہ كے سلام كيا جائے _

اس بارے ميں ابو مخنف كہتا ہے كہ طلحہ اور زبير كو سلام كرنے كى نوعيت كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف ہے ، بعض تاريخوں ميں ہے كہ جب عائشه نے زبير كو سردار لشكر معين كيا تھا تو صرف انھيں كو خطاب كرتے ہوئے السلام عليك ايھا الامير كہا جاتا تھا _

ليكن دوسرے مورخين لكھتے ہيں كہ طلحہ اور زبير دونوں ہى كو امير كہہ كے خطاب كيا جاتا تھا ، اور سلام كے موقعہ پر دونوں ہى كو اس لقب سے سرفراز كيا جاتا تھا(۱) _

خطوط و پيغامات

طبرى كا بيان ہے كہ :حضرت علىعليه‌السلام ابن ابى طالب نے جب لشكر عائشه كے حالات سنے تو اپنے لشكر كے ساتھ مدينے سے زاويہ اور وہاں سے بصرہ كى طرف نكل پڑے _

لشكر عائشه كو بھى حضرت علىعليه‌السلام كے امد كى اطلاع ہوگئي اور بصرہ سے ان كے لشكر كى طرف بڑھا ، يہ دونوں لشكر اس جگہ ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے جسے بعد ميں قصر عبيداللہ بن زياد كے نام سے پكارا جانے لگا _

ليكن تين روز تك دونوں لشكر كى طرف سے كسى قسم كى جنگ يا جھڑپ نہيں ہوئي ، ان تين دنوں ميں اكيلے

____________________

۱_ ان تمام مطالب ابن ابى الحديد نے ابو مخنف كے حوالے سے نقل كيا ہے

۸۹

حضرت علىعليه‌السلام بطور اتمام حجت لشكر عائشه كے سرداروں كو بار بار خطوط لكھتے رہے يا كچھ لوگوں كو سفير بنا كر انكى جانب بھيجتے رہے ، كبھى كبھى خود بھى ان لوگوں سے براہ راست ملاقات فرماتے _ آپ كى كوشش تھى كہ كسى طرح بھى ہو يہ جنگ اور خونريزى نہ ہو ، اور آپ ان لوگوں كو فتنہ و فساد سے باز ركھ سكيں _

طلحہ و زبير كو خط

طبرى نے اس موقع پر اتنے ہى پر اكتفا كى ہے ، اور گفتگو يا اتمام حجت اور خطوط كا متن نہيں لكھا ہے ، ليكن كچھ گفتگو اور خطوط كو ابن قتيبہ ، ابن اعثم اور سيد رضى نے نقل كيا ہے انھيں ميں ايك خط حضرت على نے طلحہ و زبير كو لكھا تھا اسے آپ عمران بن حصين كے ذريعے انھيں بھيجا ، خط كا متن يہ ہے _

بعد حمد خدا اور صلواة بر رسول (ص) اے طلحہ اور اے زبير تم لوگ اچھى طرح جانتے ہو حالانكہ چھپا رہے ہو ، كہ ميں نے لوگوں كو نہيں بلايا تھا اور نہ اپنى بيعت كى خواہش كى تھى ، بلكہ لوگ خود ہى ميرى طرف بڑھے تھے اور ميرى بيعت كى خواہش كى تھى ، ميں نے بيعت كا ہاتھ انكى طرف نہيں بڑھايا تھا ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے خود اپنى بيعت كا ہاتھ ميرى طرف بڑھايا ، اور تم دونوں نے بھى بغير اسكے كہ ميں تمھيں دعوت دوں ميرى طرف ائے تھے ، اور تم نے خود ہى ميرى بيعت كى تھى اور عہد و پيمان باندھا تھا _

ميرے پاس قدرت و توانائي نہيں تھى كہ لوگ ميرى بيعت كرتے ، ميرے پاس مال و دولت بھى نہيں تھا كہ اسكى لالچ ميں ميرى طرف اتے بلكہ انھوں نے اپنى خواہش اور اختيار سے ميرى بيعت كے لئے بڑھے اور مجھے اس عہدے كے لئے منتخب كيا _

تم نے بھى اگر اپنے اختيار سے ميرى بيعت كى اور عہد كيا ، تو اب جتنى جلدى ہو سكے وآپس ائو اور بيعت شكنى سے ، جو بد ترين عمل ہے ، نادم و پشيمان ہو كر اپنے جرم سے توبہ كرو _

اور اگر تم نے بغير ميلان اور رغبت كے بيعت كى تھى اور دل ميں نا فرمانى اور گناہ كى نيت ركھتے تھے تو اپنے عمل سے خود ہى تم نے اعتراض كے دروازے كھولے ، كيونكہ بغير كسى زور زبردستى كے جس پر ايمان نہيں ركھتے تھے اسكا مظاہرہ كر كے نفاق كى ڈگر اپنائي ، اور اب جو تقيہ كى بات كر رہے ہو تو خداكى قسم يہ لچر بہانے كے سوا كچھ بھى نہيں ، كيونكہ

۹۰

جو لوگ تم سے كمزور اور طاقت و حيثيت كے اعتبار سے كمتر تھے ، وہ خوف و تقيہ كے زيادہ سزاوار تھے ، انھوں نے نہ تقيہ كى بات كى اور نہ اپنى بيعت كو خوف و تقيہ پر بنا ء كيا _

اگر تم دونوں نے پہلے دن ميرى بيعت نہ كى ہوتى ، عہد و پيمان نہ باندھا ہوتا تو تمھارے لئے اس سے بہتر تھا كہ آج بيعت توڑدى تمھارى اس بيعت شكنى اور جنگ و خونريزى كا بہانہ يہ ہے كہ تم نے قتل عثمان كا الزام ميرے اوپر تھوپا ہے اور اپنے كو اس جرم سے برى قرار دے رہے ہو _

اس حقيقت كو واضح كرنے كيلئے كيا ہى بہتر ہوتا كہ ميرے اور تمھارے بارے ميں سوال كيا جائے كہ كون اس سے علحدہ تھا اور ايك تيسرا شخص بغير جانبدارى كے اس بات كى تحقيق كرے اور جسے بھى قتل عثمان ميں شريك پائے ، يا جتنى مقدار ميں خون عثمان اسكى گردن پر ہو وہ اپنے مقدار جرم كے مطابق سزا پائے _

پس اے طلحہ اور اے زبير اے بوڑھو اس فاسد خيال اور خطرناك ارادے سے باز ائو ، بات بنانے اور بہانے كرنے كا سلسلہ ختم كرو ، جنگ و خونريزى سے پر ہيز كرو _

اے طلحہ و زبير ، آج تم صرف عار و ننگ سے ڈر رہے ہو ليكن اگر تم نے ميرى نصيحت پر عمل نہ كيا تو كل قيامت كے دن اتش جہنم ميں جھونك ديئے جائو گے(۲)

زبير كو پيغام

امير المومنين نے طلحہ و زبير كو يہ خط لكھا ، اس خط كے علاوہ بھى خاص طور سے اپنے چچيرے بھائي ابن عباس كو زبير كے پاس بھيجا اور انھيں يہ حكم ديا _

اے ابن عباس جس وقت تم ميرا يہ پيغام زبير كو پہونچائو تو وہاں پر طلحہ موجود نہ ہو ، كيونكہ وہ شخص نہآیت متكبر اور خود پسند ہے ، اسكے اندر ذرا بھى لوچ نہيں ، وہ انتہائي فتنہ انگيز اور ہنگامہ پر ور ہے ، وہ اپنا مطلب بر لانے كيلئے ہر ذليل حركت پر امادہ ہو سكتا ہے ، اپنى جہالت ونادانى سے سخت اور خطر ناك كاموں كو اسان و ہموار بتاتا ہے _

اے عبداللہ ، تم اكيلے زبير ہى سے ملاقات كرنا كيونكہ وہ بڑى حد تك نرم اور ملائم مزاج كا ادمى ہے _

____________________

۲- ( شرح نہج البلاغہ ، الامامة و السياسة ، ابن اعثم )

۹۱

اے عبداللہ ، زبير سے ملاقات كر كے كہنا كہ تمھارى خالہ كا بيٹا على كہتا ہے كہ اخر كيا بات ہوئي كہ تم نے حجاز ميں مجھے پہچان ليا ، ميرى بيعت كر لى ليكن اب عراق ميں مجھے فراموش كر ديا ہے اور غيريت برت رہے ہو ؟

اے زبير تم نے كيسے اپنا مزاج بدل ديا ، مجھ سے جو مہر و محبت كا برتائو عہد شكنى اور نفرت وعناد ميں بدل ديا (فما عدا مما بدا )(۳)

اس موقع پر ابن عساكر نے كچھ اضافہ كيا ہے ، وہ لكھتے ہيں كہ حضرت علىعليه‌السلام نے زبير كو پيغام بھيجا كہ اے زبير كيا تم نے اس دن اپنى خوشى خاطر سے ميرى بيعت نہيں كى تھى ؟اج كيا ہوا كہ ميرا خون بہانے پر امادہ ہو ، مجھ سے جنگ كرنے كو اپنى لازمى ذمہ دارى سمجھ رہے ہو ؟

ابن عباس كا بيان ہے كہ مجھے جو ذمہ دارى سونپى گئي تھى اسے بجالايا ، حضرت على كى بات زبير تك پہونچا دى ليكن زبير نے اس ايك بے سر وپير كے جملے كے سوا كچھ نہ كہا كہ ہم خوف و ہراس كى حالت ميں ہيں ليكن اسى حالت ميں دل كے اندر خلافت كى ارزو بھى ركھتے ہيں_(۴)

ابن عباس مزيد كہتے ہيں كہ ہمارى گفتگو ميں عبداللہ بن زبير بھى شريك تھا ، اس سے پہلے كہ زبير كچھ كہيں اس نے جھٹ مجھ سے كہا :

اے ابن عباس على سے كہہ دو كہ ہمارے تمھارے درميان كچھ اختلافات ہيں _

ہم خون عثمان كا مطالبہ كر رہے ہيں ، ہم چاہتے ہيں كہ تم بھى خليفہ دوم كى طرح خلافت كو شورى كے حوالے كر دو اور خود كنارہ كش ہو جائو

ہمارا نظريہ ہے كہ خليفہ دوم نے شورى كے جن دو اركان طلحہ و زبير كو معين كيا تھا وہ متفق الرائے ہيں _ ليكن تم اكيلے ہو اور اقليت ميں ہو مسلمانوں كى رائے كے علاوہ ام المومنين عائشه كى رائے بھى ان دونوں كے

____________________

۳_ يہ مثل عرب ميںاس وقت بولى جاتى ہے كہ اخر كيا بات ہوئي كہ ايسا ہو گيا ؟ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص۷۲ ، عقد الفريد ج۲ ص۳۱۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۲۷ ، تاريخ دمشق ج۵ ص۳۶۳ _۳۶۵

۴_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۱۶۵ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۲۶

۹۲

موافق ہے ، ان دليلوں كى بنياد پر خلافت ميں تمھارا ذرہ برابر بھى حصہ نہيں ہے(۵)

ابن عباس جيسے نكتہ سنج اور دانشمند كى رائے اس بارے ميں يہ ہے كہ ميں نے عبداللہ بن زبير كے اس جواب سے سمجھ ليا كہ يہ لوگ مصالحت كى رائے نہيں ركھتے ، ان كا مقصد سوائے جنگ و خونريزى كے كچھ نہيں ، وہاں سے ميں نے حضرت على كى خدمت ميں اكر تمام باتيں بيان كر ديں

عائشه كو پيغام

حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ ابن عباس كو بلايا اور انھيں حكم ديا كہ زيد بن صوحان كے ساتھ عائشه كے پاس جا كر كہو كہ اے عائشه تمہارے لئے پروردگار كا حكم يہ ہے كہ مرتے دم تك اپنے گھر ميں رہو ، اپنے گھر سے باہر نہ نكلو ليكن ميں كيا كروں ؟ كچھ لوگوں نے تمھيں فريب ديكر خانہ بدر كر ديا ہے ، اور اپنا الّو سيدھا كر نے اور مقصد حاصل كرنے كيلئے تمھيں اپنا ہم خيال بنا ليا ہے اور كچھ مسلمانوں نے تمہارى ہم اہنگى سے ان لوگوں كے بارے ميں دھوكہ كھايا ہے ، اور اپنے كو موت و ہلاكت ميں جھونك ديا ہے ، ا س طرح بد بختى كو اپنا مقدر بنا ليا ہے _

اے عائشه تمھيں اپنے گھر وآپس چلا جانا چاہيئے ، اور مسلمانوں ميںجنگ و خونريزى برپا كرنے سے پرہيز كرنا چاہيئے _

اے عائشه ، ہوش ميں اجا ، اگر تو اپنے گھر ميں وآپس نہ ہو گى تو جس اختلاف كى اگ بھڑكا ئي ہے وہ واقع ہو كر رہے گى اور بہت سے لوگوں كو اپنا لقمہ بنا ليگى _

اے عائشه تيرى ذمہ دارى سنگين ہے خدا كے غضب سے ڈر ، اس عظيم گناہ سے توبہ كر خدا تيرى توبہ قبول كرنے والا ،اور گناہوں سے صرف نظر كرنے والا ہے _

اے عائشه تجھے طلحہ كى رشتہ دارى اور عبداللہ بن زبير كى محبت اتش جہنم كى طرف نہ كھينچ لے جائے اور

____________________

۵_ اس جواب كو ابن عبد ربہ نے عقد الفريد ج۴ ص ۳۱۴ ميں خود زبير سے منسوب كيا ہے ،ليكن ابن ابى الحديد اور ابن عسا كر نے ابن زبير سے منسوب كيا ہے ، جواب كا لہجہ بھى بتا رہا ہے كہ يہ زبير كے بجائے ابن زبير ہى كا جواب ہو سكتا ہے _

۹۳

عذاب جہنم ميں نہ گرفتار كر دے(۶)

يہ حضرت علىعليه‌السلام كے خطوط اور پيغامات كے نمونے تھے جنھيں آپ نے جنگ روكنے كے سلسلہ ميں اتمام حجت اورہر قسم كے بہانوں كى راہ بند كرنے كيلئے لشكر عائشه كے سرداروں كے پاس بھيجے

طلحہ و عائشه كا جواب

حضرت على نے جن لوگوں كو مامور فرمايا تھا انھوں نے عائشه كے پاس آپ كا پيغام پہونچا ديا

عائشه نے جواب ميں كہا كہ ميں على سے بات نہيں كرونگى نہ انكى بات كا جواب دونگى ، كيو نكہ مجھے على كى طاقت لسانى اور حسن بيان كا مقابلہ كرنے كى تاب نہيں ، حضرت على كے پيغام بروں نے عائشه كے پاس سے وآپس جاكر انكى بات حضرت علىعليه‌السلام سے بيان كر دى(۷)

بعض تاريخ نگاروں نے لكھا ہے كہ طلحہ نے اپنے ساتھيوں سے كہا :

اے لوگو على كے لشكر پر چڑھ دوڑو اور ان كے ايلچيوں كى بات پر كان نہ دھرو ، كيونكہ على كى طاقت لسانى اور حسن بيان كے مقابلے ميں اپنے نظر يئے كى حفاظت نہ كر سكو گے انكى باتوں كى وجہ سے متاثر ہو جائو گے اور اپنے عقيدے سے ہاتھ دھو بيٹھو گے(۸)

اس طرح طلحہ نے آپ كى منطقى باتوں كا جواب مغالطہ بازى سے ديا _

____________________

۶_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵

۷_ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵

۸_ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵

۹۴

ہيجان انگيز تقريريں

عبداللہ بن زبير كى تقرير

جيسا كہ پہلے اشارہ كيا گيا ان تين دنوں ميں جبكہ حضرت علىعليه‌السلام اور عائشه كا لشكر امنے سامنے تھا اور بالكل تيار كھڑا تھا حضرت علىعليه‌السلام نے وہ تمام ممكنہ وسيلہ اختيار كيا جس سے جنگ كى اگ ٹھنڈى ہو جائے اور فتنہ ختم ہو جائے _

ليكن لشكر عائشه حضرت امير المومنين كے بر خلاف جنگ كى اگ بھڑ كانے كيلئے برابر گرم اور ہيجان انگيزتقريريں كرتا رہا اور اپنى اتشيں باتوں سے لوگوں كو ابھارتارہا انہى ہيجان تقريروں ميں ايك عبداللہ ابن زبير كى اتشيں تقرير ہے جو فوجيوں كو ابھارنے كيلئے كى گئي ، وہ يہ تھى _

اے لوگو ہوش ميں اجائو ، على ابن ابى طالب نے خليفہ بر حق عثمان كو قتل كيا ، آج وہ ايك لشكر جرار ليكر تمھارے محاذ پر كھڑے ہيں وہ چاہتے ہيں كہ تم لوگوں پر مسلط ہو جائيں اور تمام اختيارات اور معاملات اپنے ہاتھ ميں لے ليں ، تمہارے شہر پر قبضہ كر ليں ، تمھيں چاہيئے كہ اپنى تمام قوتوں اور توانائيوں كو اكٹھا كر كے مردانہ وار اٹھ كھڑے ہو ، اپنى بود و باش اور اب و ہوا كو على كے ظالمانہ ہاتھوں سے محفوظ كرو ، اپنے استقلال و شرافت اور اپنى عورتوں اور بچوں كا دفاع كرو_

اے بصرہ والو تم كيسے اس ذلت و خوارى پر راضى ہو جائو گے كہ كوفے والے تمھارى سر زمين پر چڑھ دوڑيں اور تمھيں اپنے شہر و ديار سے نكال باہر كرديں _

اے لوگو اٹھ كھڑے ہو ، تم ان پر غضبناك ہو جائو ،كيونكہ وہ تم سے غضبناك ہيں ، تم ان سے جنگ كرو كيو نكہ وہ تم سے جنگ پر امادہ ہيں _

اے لوگو على اپنے سوا كسى كو اس خلافت كا لائق و سزوار نہيں سمجھتے ،خدا كى قسم اگر وہ تم پر كامياب ہوگئے تو تمھارى دين و دنيا كو تباہ كر دينگے _

عبداللہ ابن زبير نے لوگوں كو ابھارنے كيلئے ايسے ہى لچر داراور لوچ مطالب پر مشتمل بہت زيادہ باتيں كہہ ڈاليں_

امام حسنعليه‌السلام نے جواب ديا

عبداللہ بن زبير كى باتيں جب امام كے كانوں ميں پڑيں تو آپ نے بھى اپنے فرزند امام حسن سے فرمايا :

بيٹے تم بھى اٹھ كر عبداللہ ابن زبير كا جواب دو ، امام حسن كھڑے ہوئے اور حمد و ثنا ئے الہى كے بعد لوگوں سے كہا ، اے لوگو جو باتيں عبداللہ بن زبيرنے ميرے بابا حضرت على كے بارے ميں كہيں ، ہم نے اسے سنا ، اس نے ميرے بابا پر

۹۵

قتل عثمان كا الزام لگايا ہے ، اس كے علاوہ بھى مہمل اور بيكار باتيں زبان پر جارى كى ہيں ، حالانكہ تمھارا ہر شخص جانتا ہے كہ اس كا بآپ زبير عثمان كے بارے ميں كيا كيا بد گوئياں كرتا ہے ؟ اور كيسے كيسے برے القاب سے نوازتا رہا كيا كيا تہمتيں اور جھوٹى باتيںعثمان كے خلاف گڑھتا رہا ؟ سب كو ياد ہے كہ عثمان كى حيات و خلافت كے زمانے ميں طلحہ نے اتنى جرائت پيدا كر لى تھى كہ بيت المال كے كوٹھے پر ايك دن پرچم لہرا كر عملاً اپنى مخالفت كا اعلان كر ديا تھا ، ايسے بد ترين ماضى كے ساتھ جو انھوں نے عثمان سے برتا آج وہ ميرے بابا پر قتل كا الزام كيسے لگا رہے ہيں ، اور كس منھ سے برائي كر رہے ہيں ؟ اگر ميں بھى چاہوں تو ان دونوں كے بارے ميں اس سے زيادہ باتيں كہہ سكتا ہوں اور اس سے بہت زيادہ حقائق روشن كر سكتا ہوں _

ليكن اس نے جو يہ بات كہى ہے كہ حضرت على لوگوں كى مرضى كے خلاف غاصبانہ طريقے سے ان پر حكومت كر رہے ہيں ، اس نا مناسب اور جھوٹے اعتراض كے مقابل ،ميں بھى اس كے بآپ پر اعتراض كرتا ہوں كہ زبير نے بغير كسى جواز كے ميرے بآپ كى بيعت توڑ دى اور اس نامناسب عمل كى ، يہ توجيہ كررہے ہيں كہ ان كى بيعت مرضى اور رغبت سے نہيں تھى _

يہ بات نہ تنہا ان كے عمل كو جائز نہيں ٹھہراتى بلكہ ان كے عصيان اور مخالفت كو بھى اشكار كرتى ہے كيونكہ وہ اپنى اس بات سے اپنى بيعت كا اعتراف تو كر رہے ہيں اور اپنے عہد كا برملا اظہار بھى كر رہے ہيں اس طرح وہ اپنى شخصيت كو بيعت شكن كى حيثيت سے متعارف كرا رہے ہيں _

يہ جو عبداللہ نے بات كہى ہے كہ كوفيوں كا لشكر بصرہ والوں پر مسلط ہو جائيگا يہ انتہائي مضحكہ خيز ہے كيو نكہ باطل پر حق كا تسلط اور باطل كو خاك چٹانا تعجب خيز بات نہيں ، يہ فطرى بات ہے كہ جب حق ميدان ميں اترتا ہے تو باطل اپنا بوريہ بستر باندھ كر جگہ خالى كر ديتا ہے_

اس نے عثمان كے مددگاروں كے بارے ميں بھى بات كہى ہے كہ جو واقعى مغالطہ سے بھر پور ہے كيو نكہ ہم عثمان كے ساتھيوں سے كوئي اختلاف نہيں ركھتے نہ ان سے جنگ كر رہے ہيں ، ہمارا مقصد صرف يہ ہے كہ يہ شتر سوارعورت اور اس كے ساتھيوں سے جنگ كى جائے ، يہ لوگ بھى واقعے ميں عثمان اور اس كے ساتھيوں سے كوئي ارتباط نہيں ركھتے(۹)

____________________

۹_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۴ ، تاريخ جمل تاليف شيخ مفيد ص ۱۵۹ _ ۱۵۸

۹۶

حضرت علىعليه‌السلام كى اخرى تقرير

امير المومنين نے ان تين دنوں ميں صلح و صفائي كى بہت كوشش كى اور اس راہ ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر ڈاليں ليكن افسوس كى بات يہ ہے كہ كوئي نتيجہ بر امد نہ ہوا اور آپ كے ايلچى لشكر عائشه سے نا اميد وآپس ائے اور امير المومنين كو بتا ديا كہ طلحہ و زبير جنگ كا مصمم ارادہ كئے ہوئے ہيں _

اس وقت حضرت علىعليه‌السلام اپنے لشكر كے درميان كھڑے ہوئے اور اخرى بار آپ نے يہ تقرير فرمائي :

حمد و ثنائے الہى اور پيغمبر پر صلوات كے بعد ارشاد فرمايا :

ميرے ساتھيو ميں نے ان لوگوں كو تين دن مہلت دى اور اس مدت ميں انھيں بيعت شكنى سے باز ركھنے كى كوشش كى ان كے طغيان و سر كشى كو ثابت كيا تاكہ شايد اپنے جاہلانہ ارادے سے باز اجائيں ، ليكن انھيں شرم نہيں ائي اور اپنے ارادے سے باز نہيں ائے اور اب انھوں نے ميرے پاس پيغام بھيجا ہے كہ امادئہ جنگ ہو جائوں اور ان كے نيزہ و شمشير كو اپنے اوپر قبول كروں _

وہ لوگ كہتے ہيں كہ على كو باطل ارزوئوں نے مغرور بنا ديا ہے خواہشات نفسانى نے فريب ديا ہے ، ان كى باتوں پر افسوس ہے ، ان كى مائيں ان كے سوگ ميں بيٹھيں ، كيونكہ وہ باطل كى راہ پر چل پڑے ہيں ، مجھے جنگ كى پرواہ نہيں كہ مجھے جنگ (تلوار اور نيزے ) سے ڈرا يا جائے ، ہاں ، جو مجھے نيزہ و تلوار كى دعوت ديتا ہے وہ انصاف سے دور نہيں جارہا ہے ، كيونكہ ميں اول روز سے نيزہ و تلوار سے اشنائي ركھتا ہوں ''و لقد انصف القاره من راماها ''(۱۰) ان لوگوں نے ميرے جنگ اور عملوں كو ديكھا ہے اور ميرى ضرب كو اپنى انكھوں سے مشاہدہ كيا ہے ، انھيں ميرى تلوار كا سامنا كرنے كيلئے تيار ہو جانا چاہيئے نہ كہ مجھے جس كو امادہ ہونے كى كوئي ضرورت نہيں ہے ، كيو نكہ ميں وہى فرزند ابو طالب ہوں جس نے مشركوں كى مضبوط صفيں توڑيں ہيں اور ان كى جميعت كو پراكندہ

____________________

۱۰_ قارہ قريش كے قبيلے تھے جو تير اندازى ميں مشہور تھے اسى وجہ سے ان لوگوں كو بطور ضرب المثل كہا جاتا تھا كہ جو شخص قبيلہ قارہ كو تير اندازى كى دعوت دے اس نے انصاف كيا _

۹۷

كيا ہے ، آج بھى ميں وہى مضبوط بازو اور دل كے ساتھ ان پر حملہ كروں گا اور ان كى صفيں درہم برہم كروں گا _

اے لوگو ميں اپنے مقصد پر ايمان ركھتا ہوں اور حق و عدالت پر گامزن ہوں اسى وجہ سے يقين ركھتا ہوں كہ اللہ ميرى نصرت و مدد فرمائيگا اور مجھے كاميابى عطا كريگا _

اے لوگو سمجھ لو كہ موت انسان كى اخرى سر نوشت ہے وہ سب كو اپنے گھيرے ميں لے لے گى اور كسى كو اس كے چنگل سے نجات نہيں اگر كوئي شخص ميدان جنگ ميں بھى قتل نہ ہو تو انپى طبعى موت سے مرے گا ،پس كيا اچھا ہے كہ يہ انسان خدا كى راہ ميں اور اس كى رضا و خوشنودى كيلئے جان دے اور اللہ كى راہ ميں اپنا خون قربان كر دے _

على كے خداكى قسم اگر ہزار مرتبہ بھى ميدان جنگ ميں قتل كيا جائوں تو يہ ميرے لئے اس سے كہيں زيادہ پسند يدہ ہے كہ ميں نرم بستر پر اپنى موت مروں _

اس تقرير كے بعد امير المومنين نے اپنا رخ اسمان كى طرف كر كے كہا خدايا طلحہ نے ميرى بيعت توڑى اور مجھ سے جو عہد كيا تھا روند ڈالا ، اس نے لوگوں كو عثمان كے خلاف بھڑكايايہاں تك كہ وہ قتل كئے گئے پھر ميرے اوپر اس قتل كا الزام لگا ديا _

پرور دگارا تو اس بات پہ اسے مہلت نہ دے _

اے مہر بان خدا زبير نے ميرے ساتھ قطع رحم كيا ، ميرى بيعت توڑى ، ميرے دشمنوں كى مدد كى ، خدايا ، اپنى ہر راہ سے مجھے اس كے شر سے محفوظ ركھ

حضرت على نے يہى پر اپنى تقرير ختم كى اس كے بعد ابن اعثم كے بيان كے مطابق دونوں لشكر ايك دوسرے كى طرف بڑھنے لگے اور ايك دوسرے سے نزديك ہو گئے

اس موقعہ پر حضرت على كے لشكر كى تعداد بيس ہزار تك پہنچ گئي تھى ، طلحہ و زبير كے لشكر كى تعداد تيس ہزار تھى(۱۱) _

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے جنگى پروگرام كا اعلان فرمايا

طبرى كا بيان ہے كہ حضرت على اور عائشه كے لشكر نے بروز پنجشنبہ ۱۵ جمادى الثانيہ ۳۶ھ امنے سامنے

____________________

۱۱_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص ۱۷۵ ، ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۰۱

۹۸

صف ارائي كى(۱۲) تين دن تك تيار حالات ميں كھڑے رہے ، حملہ يا كوئي جنگ ان كے درميان واقع نہيں ہوئي ، ان تين دنوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كى كوشش رہى كہ معاملہ صلح و صفائي پر انجام پا جائے ، ليكن اپنى كو شش كا كوئي نتيجہ نہ ديكھا ، آپ صلح سے قطعى مايوس ہو گئے ، آپ نے جب ملاحظہ فرمايا كہ جنگ بہر حال ہو كر رہے گى تو اپنے لشكر كى تنظيم كيلئے عمومى پروگرام كا اعلان فرمايا ، مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے جنگى پروگرام كو تفصيل سے بيان كيا ہے _

حاكم نے مستدرك ميں اور ملا على متقى نے كنزالعمال ميں يحيى بن سعيد كے چچا كا بيان نقل كيا ہے _

جنگ جمل كے دن حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے لشكر والوں كے سامنے بلند اواز سے اعلان فرمايا :

اے لوگو تم دشمن كى طرف تير اندازى نہ كرو ، كسى پر تلوار يا نيزے سے حملہ نہ كرو ، جنگ و خونريزى ميں سبقت نہ كرو ، ان سے نرمى اور ملائمت سے بات كرو_

اے لوگو اگر كوئي شخص اس خطرناك موقعہ پر ہدآیت كى راہ پالے تو قيامت كے دن بھى ہدآیت يافتہ رہيگا _

اس پروگرام كو نقل كرنے والے ايك شخص كا بيان ہے كہ ہم ظہر تك اسى حالت انتظار ميں رہے اور حضرت على كے فرمان كے مطابق جنگ ميں پہل نہيں كى ليكن عائشه كے لشكر سے اوازيں اور فرياديں بلند ہوتى رہيں ، يا لثارات عثمان ، اے عثمان كا انتقام لينے والو اٹھو يہ اواز پورے صحرا ميں گونجتى رہى _

محمدبن حنفيہ ہاتھ ميں علم ليكر اپنے والد كے اگے ايك ٹيلے پر كھڑے تھے وہ دشمن كے لشكر كو اچھى طرح ديكھ سكتے تھے اور ان كى اوازيں پورے طور پر سن سكتے تھے امام نے انھيں پاس بلا كر پوچھا ، اے محمد يہ لوگ كيا كہہ رہے ہيں ؟ اور ان كى اوازيں كيو ں بلند ہے ؟

محمد نے كہا بابا جان ، يہ جنگى شعار بلند كر رہے ہيں ، يالثارات عثمان ، اس طرح وہ اپنے ساتھيوں كو انتقام خون عثمان پر ابھار كر جنگ كيلئے امادہ كر رہے ہيں _

اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے ہاتھ بلند كر كے دعا كي اے خدا آج تو قاتلان عثمان كو ذلت كى خاك چٹا دے اور انھيں نا كام كر دے ،(۱۳) دوسرے مورخين نے لكھا ہے كہ اس دن دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے تو حضرت على نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا :

____________________

۱۲_ طبرى ج۵ ص ۱۹۹ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۲۶

۱۳_ مستدرك ج۳ ص ۳۷۱، كنز ل العمال ج ۶ ص ۸۵ حديث ۱۳۱۱

۹۹

جب تك دشمن جنگ شروع نہ كرے تم جنگ ميں پہل نہ كرنااور ان پر سبقت نہ كرنا ، پھر فرمايا : خدا كا شكر ہے كہ حق ہمارے ساتھ ہے اور جنگ ميں پہل نہ كرنا بھى ہمارى حقانيت كى دليل ہو گى اس كے بعد فرمايا :

جنگ شروع ہونے كے بعدجو نيزے سے زخمى ہو جائے اسے قتل نہ كرنا ، كاميابى كے بعد بھاگنے والوں كآپيچھا نہ كرنا ، مقتولوں كو عرياں نہ كرنا ، اور ان كے جسم كا مثلہ نہ كرنا ، اگر دشمن كے گھروں پر پہنچنا تو بے پردگى نہ كرنا ، ان كى عورتوں پر زيادتى نہ كرنا ، گھر كے اندرونى حصے ميں داخل نہ ہونا اور نہ ان كا مال و دولت لوٹنا _(۱۴)

اس موقعہ پر مسعودى نے اضافہ كيا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں سے كہا كہ دشمن كى جو دولت ميدان جنگ ميں مل جائے اسے مال غنيمت كى طرح مت لوٹنا ،ان كى عورتوں كو تكليف نہ پہچانا چاہے وہ تمھيں گالياں بھى ديں اور تمھارے بزرگوں كو برا بھلا بھى كہيں كيونكہ ان كى عقل ناقص ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى اذيت سے منع كيا ہے چاہے وہ كافر ہى ہوں ، بالاخر معمولى زيادتى بھى يہاں تك كہ عورتوں كو سرزنش بھى ممنوع ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے قرآن كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا

حضرت على نے صلح و صفائي كى اپنى كو شش كا كوئي نتيجہ نہ ديكھا تو قران سے تمسك اختيار كيا كہ دشمن پر اس سے اتمام حجت كيا جائے _

آپ نے قران ہاتھ ميں ليكر بلند اواز سے فرمايا :

تم ميں كون ہے ، كہ اس قران كو ہاتھ ميں ليكر دشمن كو اس كى طرف دعوت دے يہاں تك كہ وہ اس راہ ميں جان سے ہاتھ دھو بيٹھے گا اور شھادت سے سرفراز ہو گا _

اس وقت ايك جوان سفيد لباس ميں ملبوس پڑا ہوا ، اس نے كہا اے علي ميں اس موت كى راہ كو عاشقانہ طريقے پر اپنے لئے خريدتا ہوں _

حضرت علىعليه‌السلام نے دوسرى بار لوگوں سے فرمايا :

كون ہے جو اكيلے اس لشكر كے سامنے كھڑا ہو اور انھيں قران كى دعوت دے ، اس راہ ميں حتمى موت سے نہ ڈرے _

وہ جوان دوسرى بار بھى كہنے لگا يا امير المومنين ميرى جان آپ پر فدا ، ميں اس ذمہ دارى كيلئے نيزہ و شمشير سے ہراساں نہيں ہوں اور نہ مجھے موت كى پرواہ ہے _

____________________

۱۴_ يعقوبى ج ۲ ص ۱۵۷ _ ۱۶۰ ، مروج الذھب ج۵ ص ۱۸۸ ، ترجمہ تاريخ ابن اعثم ، اغانى ج ۶ ۱ ص ۱۲۷ ، شرح نہج البلاغہ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸