تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63740 / ڈاؤنلوڈ: 4180
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خدمت میں عرض کیا تھا کہ فاطمہ (ع) اللہ کی اطاعت میں میری بہترین مددگار اور یاور ہے _(۱)

بچوں کی تعلیم و تربیت

جناب زہرا ء کی ذمہ داریوں میں سے سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_ آپ کے پانچ بچے ہوئے، جناب امام حسن(ع) اور امام حسین (ع) اور جناب زینب خاتوں اور جناب ام کلثوم اور پانچوں فرزند کا نام محسن تھا جو ساقط کردیا گیا، آپ کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ ہیں آپ کی اولاد عام لوگوں کی اولاد کی طرح نہ تھی بلکہ یوں ہی مقدر ہوچکا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی نسل مبارک جناب فاطمہ (ع) سے چلے_

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے باقی پیغمبروں کی ذریت ان کے صلب سے ہے لیکن میری نسل علی (ع) کے صلب سے مقرر ہوئی ہے میں فاطمہ (ع) کی اولاد کا باپ ہوں_(۲)

خدا نے مقرر فرمایا ہے کہ دین کے پیشوا اور رسول خدا(ص) کے خلفاء جناب زہرا(ع) کی پاک نسل سے ہوں لہذا جناب زہرا(ع) کی سب سے زیادہ سخت ذمہ داری اولاد کی تربیت تھی_

تربیت اولاد ایک مختصر جملہ ہے لیکن یہ لفظ بہت مہم اور وسیع المعنی ہے شاید کسی کے ذہن میں آئے کہ اولاد کی تربیت صرف اور صرف باپ کا ان کے لئے لوازم زندگی

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۱۱۷_

۲) مناقب ابن شہر آشوب، ج ۳ص ۲۸۷_

۸۱

فراہم کرنا ہی نہیں اور ماں ان کے لئے خشک و ترسے غذا مہیا کردے اور لباس دھو دے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی بھی ذمہ داری اولاد کی ان پر عائد نہیں ہوتی لیکن معلوم ہونا چاہیئےہ اسلام اسی حد تک اولاد کی تربیت میں اکتفا نہیں کرتا بلکہ ماں باپ کو ان کے بہت بڑے وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے_

اسلام بچے کی بعد میں بننے والی شخصیت کو ماں باپ کی پرورش او رتربیت اور ان کی نگہداری کے مرہون منت سمجھتا ہے ماں باپ کے تمام حرکات او رسکنات اور افعال و کردار بچے کی لطیف اور حساس روح پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہر بچہ ماں باپ کے رفتار اور سلوک کی کیفیت کا نمائندہ ہوتا ہے_ ماں باپ کا وظیفہ ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے بچے کے مستقبل کے مراقب او رمواظب ہوں تا کہ بے گناہ بچہ کہ جس کی نہاد اچھائی خلق ہوئی ہے فاسد اور بدبخت نہ ہوجائے_

جناب زہرا(ع) نے خود دامن وحی میں تربیت پائی تھی او راسلامی تربیت سے نا آشنا او رغافل نہ تھیں_ یہ جانتی تھیں کہ کس طرح ماں کا دودھ اور اس کے معصوم بچے کے لبوں پر بوسے لے کر اس کے تمام حرکات اور سکنات اعمال اور گفتار اس کی حساس روح پر اثرانداز ہوا کرتے ہیں_ جانتی تھیں کہ مجھے امام کی تربیت کرتا ہے اور معاشرہ اسلامی کو ایک ایسا نمونہ دینا ہے جو روح اسلام کا آئینہ دار اور حقیقت کا معرف ہوگا، معارف اور حقائق ان کے وجود میں جلوہ گر ہوں اور یہ کام کوئی آسانی کا م نہ تھا_

جناب فاطمہ (ع) جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین (ع) کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کر کے فداکر سکے اور اپنے عزیزوں کے پاک خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کردے_ جانتی تھیں کہ انھیں ایسی لڑکیاں زینب او رام کلثوم تربیت

۸۲

کرنی ہیں جو اپنے پر جوش خطبوں اور تقریروں سے بنی امیہ کی ظلم و ستم کی حکومت کو رسوا اور مفتضح کردیں اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنادے_ فاطمہ (ع) زہرا گھریلو یونیورسٹی میں زینب کو فداکاری اور شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا دس دے رہی تھیں تا کہ اپنی شعلہ بیانی سے دوست اور دشمن کو رلائے اور اپنے بھائی کی مظلومیت اور بنو امیہ کی بیدادگی اور ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہی تھیں، جانتی تھیں کہ ایک متحمل مزاج فرزند امام حسن جیسا تربیت کرنا ہے تا کہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کے منافع اور اساسی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ساکت رہے اور شام کے حاکم سے صلح کر کے عالم کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو صلح کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے اور اس طرح کر کے حاکم شام کی عوام فریبی اور دغل بازی کو ظاہر کردے، غیر معمولی نمونے جو اس اعجازآمیز مکتب سے نکلے ہیں وہ حضرت زہرا (ع) کی غیر معمولی طاقت اور عظمت روحی کے ظاہر کر نے کے لئے کافی ہیں_

جی ہاں حضرت زہرا (ع) کوتاہ فکر عورتوں سے نہ تھیں کہ جو گھر کے ماحول اور محیط کو معمولی شمار کرتے ہوئے بلند پرواز کرتی ہیں_ حضرت زہرا(ع) کے گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس خیال کرتی تھیں اسے انسان سازی کا ایک بہت بڑا کارخانہ اور فوجی تمرین اور فداکاری کی ایک اہم یونیورسٹی شمار کرتی تھیں اور جانتی تھیں کہ اس درسگاہ کے تربیت شدہ کو جو درس دیا جائے گا وہ نہیں معاشرہ کے بہت بڑے میدان میں ظاہر کرنا ہوگا، جو یہاں ٹریننگ لیں گے اس پر انہیں مستقبل میں عمل کرنا ہوگا، جناب زہرا (ع) عورت ہونے میں احساس کمتری میں مبتلا نہ تھیں اور عورت کے مقام اور مرتبے کو اہم اور اعلی جانتی تھیں اور اس قسم کی بھاری

۸۳

استعداد اپنے میں دیکھ رہی تھیں کہ کارخانہ خلقت نے ان پر اس قسم کی بھاری اور مہم ذمہ داری ڈال دی ہے اور اس قسم کی اہم مسئولیت اس کے سپرد کردی ہے_

تربیت کی اعلی درسگاہ

حضرت زہرا(ع) کے گھر میں بچوں کی ایک اسلامی تربیت اور اعلی درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی یہ درسگاہ اسلام کی دوسری شخصیت اور اسلام کی خاتون اول کی مدد سے یعنی علی (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) کی مدد سے چلائی جارہی تھی اور اسلام کی پہلی شخصیت یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیرنگرانی چل رہی تھی_اس میں تربیت کے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہان کی طرف سے نازل ہوتے تھے، تربیت کے بہترین پروگرام اس میںجاری کئے جاتے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دی گئی تھی میں یہاں اس مطلب کے اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ اس عالی پروگرام کے جزئیات ہمارے لئے بیان نہیں کئے گئے، کیوں کہ اول تو اس زمانے کے مسلمان اتنی فکری رشد نہیں رکھتے تھے کہ وہ تربیتی امور کی اہمیت کے قائل ہوں اور اس کی قدر کریں اور پیغمبر اور علی (ع) اور فاطمہ علیہم السلام کی گفتار اور رفتار کو جو وہ بجالائے تھے محفوظ کر لیتے اور دوسروں کے لئے روایت کرتے دوسرے بچوں کی تربیت کا اکثر لائحہ عمل گھر کے اندر جاری کیا جاتا تھا کہ جو دوسروں سے اندرونی اوضاع غالباً پوشیدہ رہتے تھے_

لیکن اس کے باوجود اجمالی طور سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تربیت کا لائحہ عمل وہی تھا جو قرآن کریم اور احادیث پیغمبر(ص) اور احادیث آئمہ اطہار میں وارد ہوا ہے اور پھر جو تھوڑی بہت جزئیات نقل کی گئی ہیں اس سے ایک حد تک ان کی تربیت

۸۴

کی طرف راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے_

یہ بھی واضح رہے کہ میں نہیں چاہتا ہوں کہ مفصول طور پر اصول تربیت پر بحث کروں کیوں کہ یہاں اس بحث کے لئے گنجائشے نہیں ہے_ لیکن ان میں سے کچھ اصول تربیت کو جو حضرت زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں استعمال کئے گئے ہیں اور ہمارے لئے نقل ہوئے ہیں اختصار کے طور پر یہاں بیان کرتا ہوں_

پہلا درس

محبت

شاید اکثر لوگ یہ خیال کریں کے بچے کی تربیت کا آغاز اس وقت سے ہونا چاہیئے جب اچھائی اور برائی کو بچہ درک کرنے لگے اور اس سے پہلے بچے کی تربیت کرنا موثر نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے پہلے بچہ خارجی عوامل سے متاثر نہیں ہوتا لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ فن تربیت کے دانشمندوں کی تصدیق کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت کا آغاز اس کی پیدائشے سے ہی شروع کردینا چاہیئے، دودھ پلانے کی کیفیت اور ماں باپ کے واقعات اور رفتار نو مولود کی پرورش میں ایک حد تک موثر واقع ہوتے ہیں اور اس کی مستقبل کی شخصیت اسی وقت سے شروع جاتی ہے_

فن تربیت اور نفسیات کے ماہرین کے نزدیک یہ مطلب یا یہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بچے بچپن کے زمانے سے ہی محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں_ بچہ چاہتا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے حد سے زیادہ دوست رکھیں

۸۵

اور اس کے ساتھ شفقت کا اظہار کریں بچے کو اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ قصر میں زندگی گزار رہا ہے یا خیمے میں اس کا لباس بہت اعلی اور نفیس ہے یا نہیں، لیکن اسے اس موضوع سے زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جاتی ہے یا نہیں، بچے کے اس اندورنی احساس کو سوائے محبت کے اظہار اور شفقت کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی، بچے کی مستقبل کی شخصیت اور اخلاق کا سرچشمہ اس سے محبت کا اظہار ہے یہی ماں کی گرم گود اور باپ کی مخلصانہ نوازش بچے میں بشر دوستی کی حس اور ہم جنس سے علاقہ مندی پیدا کرتی ہے_ یہی بچے سے بے ریاء نوازش بچے کو تنہائی کے خوف اور ضعف سے نجات دیتی ہے اور اسے زندگی کا امیدوار بناتی ہے، یہی خالص پیار و محبت بچے کی روح میں اچھی اخلاق اور حسن ظن کی آمیرش کرتی ہے اور اسے اجتماعی زندگی اور ایک دوسرے سے تعاون و ہمکاری کی طرف ہدایت کرتی ہے اور گوشہ نشینی اور گمنامی سے نجات دیتی ہے انہیں نوازشات کے واسطے سے بچے میں اپنی شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو دوستی کے لائق سمجھتا ہے_

جس بچے میں محبت کی کمی کا احساس ہو وہ عام طور سے ڈرپوک، شرمیلا ضعیف، بدگمان، گوشہ نشین، بے علاقہ، پمردہ اور مریض ہوا کرتا ہے، اور کبھی ممکن ہے کہ اس کے رد عمل کے اظہار کے لئے اور اپنی بے نیازی کو بتلانے کے لئے مجرمانہ افعال کے بجالانے میں ہاتھ ڈال دے جیسے جنایت، چوری، قتل و غیرہ تا کہ اس وسیلہ سے اس معاشرہ سے انتقام لے سکے جو اسے دوست نہیں رکھتا اور اس سے بے نیازی کا مظاہرہ کرسکے_

پس بچے سے محبت اور شفقت اس کی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں اور اس

۸۶

کی پرورش میں محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے_

اس چیز کا درس حضرت زہرا(ع) کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتا تھا اور پیغمبر اکرم(ص) یہ جناب فاطمہ (ع) کو یاد دلاتے تھے_

روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسن (ع) متولد ہوئے تو آپ کو زرد کپڑے میں لپیٹ کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ نو مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسن (ع) کے زرد کپڑے کو اتار پھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لپیٹا اور بغل میں لیا او رانہیں بوسہ دینا شروع کیا، یہی کام آپ نے امام حسین علیہ السلام کی پیدائشے وقت بھی انجام دیا_(۱)

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جماعت میں مشغول تھے آپ جب سجدے میں جاتے تو امام حسین (ع) آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے اور پاؤں کو حرکت دینے اور جب سجد سے سر اٹھاتے تو امام حسین علیہ السلام کو پشت سے ہٹاکر زمین پر بٹھا دیتے اور جب آپ دوبارہ سجدے میں جاتے تو امام حسین علیہ و آلہ و سلم انہیں ہٹا دیتے، پیغمبر اکرم(ص) نے اسی کیفیت سے نماز پوری کی، ایک یہودی جو یہ کیفیت دیکھ رہا تھا اس نے عرض کی کہ بچوں کے ساتھ آپ کا جو برتاؤ ہے اس کو ہم پسند نہیں کرتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ اگر تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوتے تو تم بھی بچوں کے ساتھ ایسی ہی نرمی سے پیش آتے وہ یہودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

____________________

۱) بحارالانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۰_

۸۷

کے اس رویہ کی وجہ سے مسلمان ہوگیا_(۱)

ایک دن پیغمبر(ص) جناب امام حسن (ع) کو بوسہ اور پیار کر رہے تھے کہ اقرع بن حابس نے عرض کی کہ میرے دس فرزند ہیں لیکن میں نے ابھی تک کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا_ پیغمبر (ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے لیا ہے تو میں کیا میں کیا کروں؟ جو شخص بھی بچوں پر ترحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے _(۲)

ایک دن جناب رسول خدا(ص) کا جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزر ہوا آپ نے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی آپ نے جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حسین (ع) کو رونا مجھے اذیت دیتا ہے_(۳)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے کندھے پر سوار کیا تھا راستے میں کبھی امام حسن علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا، ایک آدمی نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) آپ ان دو بچوں کو دوست رکھتے ہیں آپ نے فرمایا_ ہاں، جو شخص حسن (ع) اور حسین (ع) کو دوست رکھے وہ میرا دوست ہے اور جو شخص ان سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے _(۴)

پیغمبر اسلام(ص) کبھی جناب فاطمہ (ع) سے فرماتے تھے، حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۶_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۲_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ص ۲۹۵_

۴) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۱_

۸۸

اور جب آپ ان کو حضور کی خدمتم یں لے جاتیں تو رسول اکرم(ص) ان کو سینے سے لگاتے اورپھول کی طرح ان کو سونگھتے _(۱)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حسن(ع) اور حسین(ع) کے لبوں کو اس طرح چوستے دیکھا ہے جیسے خرما کو چوسا جاتا ہے_(۲)

دوسرا درس

شخصیت

نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت کرنے والے کو بچے کی شخصیت کی پرورش کرنی چاہیئے اور بچے کو خود اعتماد کا درس دینا چاہیئے_ یعنی اس میں اعتماد نفس اجاگر کیا جائے تا کہ اسے بڑی شخصیت اور بڑا آدمی بنایا جاسکے_

اگر بچے کی تربیت کرتے والا بچے کا احترام نہ کرے اور اسے حقیر شمار کرے اور اس کی شخصیت کو ٹھیس پہنچاتا رہے تو خودبخود وہ بچہ ڈرپوک اور احساس کمری کا شکار ہوجائے گا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے گا_ اور جب جوان ہوگا تو اپنے آپ کو اس لائق ہی نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے_ اس قسم کا آدمی معاشرہ میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانی سے پست کاموں کے لئے حاضر کردے گا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۹_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۴_

۸۹

بخلاف اگر اپنے آپ کو صاحب شخصیت اور با وقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست کاموں کے لئے تیار نہ ہوگا اورذلت وخواری کے زیر بار نہ ہوگا_ اس قسم کی نفسیاتی کیفیت ایک حد تک ماں باپ کی روحی کیفیت اور خاندانی تربیت سے وابستہ ہوا کرتی ہے_

نفسیات کے ماہر بچے کی تربیت کے لئے تربیت کرنے والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ مطالب ہیں_

اول: بچے سے محبت اور نوازش کااظہار کرتا ہم اسے پہلے درس میں بیان کرچکے ہیں اور ہم نے ذکر کیا تھا کہ جناب امام حسن(ع) اور جناب امام حسین(ع) ماں باپ اور حضرات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہت زیادہ محبت سے بہرہ ور تھے_

دوم: بچے کی اچھی صفات کا ذکر کیا جائے اور اس کی اپنے دوستوں کے سامنے تعریف اورتوصیف کی جائے اور اسے نفس کی بزرگی کا درس دیا جائے_

جناب رسول خدا(ص) نے کئی دفعہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے بہترین افراد سے ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے_(۱)

پیغمبر اکرم(ص) نے امام حسین اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا کہ تم خدا کے ریحان ہو_(۲)

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳_ ص ۲۶۴_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ج_ ص۲۸۱_

۹۰

جناب ابوبکر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تشریف فرماتھے اور جناب امام حسن (ع) آپ کے پہلوں میں بیٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی جناب امام حسن علیہ السلام کی طرف اور فرماتے تھے کہ حسن (ع) سید وسردار ہے_ شاید اس کی برکت سے میری امت میں صلح واقع ہو_(۱)

جابر کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پشت پر سوار ہیں اور آپ گھٹنوں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تمہاری سواری بہترین ہے اورتم بہترین سوار ہو_(۲)

یعلی عامری کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ بڑھائے تا کہ آپ کو پکڑلیں جناب امام حسین علیہ السلام اس طرف اور اس طرف بھاگتے تھے_ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہنستے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بغل میں لے لیا اور اس وقت اپنا ایک ہاتھ امام حسین علیہ السلام کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ گردن کے پیچھے رکھا اور اپنے دہن مبارک کو امام حسین(ع) کے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیا اور فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں_ جو شخص اسے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہے_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۰۵_

۲) بحار الانوار،ج ۴۳_ ص ۲۸۵_

۹۱

حسین (ع) میری بیٹی کا فرزند ہے_(۱)

حضرت علی بن ابی طالب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرمایا کرتے تھے کہ تم، لوگوں کے پیشوا اور جوانان جنت کے سردار ہو اور معصوم ہو خدا اس پر لعنت کرے جو تم سے دشمنی کرے_(۲)

جناب فاطمہ (ع) ایک دن امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت میں لائیںاور عرض کی یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) اور حسین آپ کے فرزند ہیں ان کو کچھ عطا فرمایئےرسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی سیادت و ہیبت حسن کو بخشی، اور اپنی شجاعت اور سخاوت حسین (ع) کو دی_

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میںنے امام حسین (ع) کو دیکھا کہ آپ پیغمبر(ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ ان کو بوسہ دے رہیں اور فرماتے ہیں کہ تم سردار اورسردار زادہ ہو امام اور امام کے فرزند اور ماموں کے باپ ہو تم حجت ہو اور حجت کے فرزند اور نوحجتوں کے باپ ہو کہ آخری حجت امام مہدی قائم ہوں گے_(۳)

جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب زہرا(ع) کی اولاد کی تربیت میں کوشش کرتے تھے جناب زہراء اور حضرت علی بھی اسی لائحہ عمل پرآپ کی متابعت کرتے تھے کبھی بھی انہوں نے بچوں کو حقیر نہیں سمجھا اور ان کی شخصیت کو دوسروں کے

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۷۱_

۲) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۶۵_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۹۵_

۹۲

سامنے ہلکاپھلکا بنا کر پیش نہیں کیا، اور ان کے روح اور نفس پر اس قسم کی ضرب نہیں لگائی یہی وجہ تھی کہ آپ کے یہاں سید و سردار نے تربیت پائی_

روایت میںآیا ہے کہ ایک آدمی نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا کہ جس کی اسے سزا ملنی تھی اس نے اپنے آپ کو جناب رسول خدا(ص) سے مخفی رکھا یہاں تک کہ ایک دن راستے میں امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) سے اس کی ملاقات ہوگئی ان دونوں کو کندھے پر بیٹھایا اور جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں حسن (ع) اور حسین (ع) کو شفیع اورواسطہ قرار دیتا ہوں پیغمبر اکرم(ص) ہنس دیئے اورفرمایا میںنے تمہیں معاف کردیا اس کے بعد امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے فرمایا کہ میں نے تمہاری سفارش اور شفاعت قبول کرلی ہے _(۱)

یہی عظمت نفس اور بزرگی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اپنی مختصر فوج سے یزید کے بے شمار لشکر کے سامنے ڈٹ گئے اور مردانہ وار جنگ کی لیکن ذلت اور خواری کو برداشت نہ کیا آپ فرماتے تھے میں غلاموں کی طرح بھاگوں گا نہیں اور ذلت اور خواری کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا _(۲)

اسی تربیت کی برکت تھی کہ زینب کبری ان تمام مصائب کے باوجود یزید کے ظلم و ستم کے سامنے حواس باختہ نہ ہوئیں اور اس سے مرعوب نہ ہوئیں اور پرجوش خطابت سے کوفہ اور شام کو منقلب کر گئیں اور یزید کی ظالم اور خونخوار حکوت کو ذلیل اور خوار کر کے رکھ دیا_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۱۸_

۲) مقتل ابن مختف، ص ۴۶_

۹۳

تیسرا درس

ایمان اورتقوی

نفسیات کے ماہرین کے درمیان یہ بحث ہے کہ بچوں کے لئے دینی تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کی جائے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بچہ جب تک بالغ اوررشید نہ ہو وہ عقائد اورافکار دینی کو سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور بالغ ہوتے تک اسے دینی امور کی تربیت نہیں دینی چاہیئے_ لیکن ایک دوسرے گروہ کاعقیدہ یہ ہے کہ بچے بھی اس کی استعداد رکھتے ہیں اور انہیں دینی تربیت دی جانی چاہیئےربیت کرنے والے دینی مطالب اور مذہبی موضوعات کو سادہ اور آسان کر کے انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں اور انہیں دینی امور اور اعمال کو جو آسان ہیں بجالانے پر تشویق دلائیں تا کہ ان کے کان ان دینی مطالب سے آشنا ہوں اور وہ دینی اعمال اورافکار پرنشو و نما پاسکیں_ اسلام اسی دوسرے نظریئے کی تائید کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کریں _(۱)

پیغمبر اسلام(ص) نے دینی امور کی تلقین حضرت زہرا(ع) کے گھر بچپن اور رضایت کے زمانے سے جاری کردی تھی_ جب امام حسن علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہیں رسول خدا(ص) کی خدمت میں لے گئے تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اوردائیں کان میں

____________________

۱) شافی ج ۲ ص ۱۴۹_

۹۴

اذان اور بائیں کان میں اقامت اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پربھی یہی عمل انجام دیا(۱) _

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام بھی آپ کے پہلو میں کھڑے ہوگئے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی توجناب امام حسین علیہ السلام نہ کہہ سکے رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے سات مرتبہ تکبیرکی تکرار کی یہاں تک کہ امام حسین (ع) نے بھی تکبیر کہہ دی _(۲)

جناب رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دینی تلقین کو اس طرح موثر جانتے تھے کہ تولد کے آغاز سے ہی آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے کانوں میں اذان اور اقامت کہی تا کہ اولاد کی تربیت کرنے والوں کے لئے درس ہوجائے یہی وجہ تھی کہ جناب فاطمہ (ع) جب امام حسن (ع) کو کھلایا کرتیں اورانہیں ہاتھوں پرا ٹھا کر اوپر اور نیچے کرتیں تو اس وقت یہ جملے پڑھتیں اے حسن(ع) تو باپ کی طرح ہوتا حق سے دفاع کرنا اور اللہ کی عبادتکرنا اوران افراد سے جو کینہ پرور اور دشمن ہوں دوستی نہ کرنا_(۳)

جناب فاطمہ زہرا، بچوں کے ساتھ کھیل میں بھی انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہی کا درس دیتی تھیں اور انہیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبہ بچے کویاد دلا رہی ہیں، یعنی باپ کی طرح بہادر بننا اوراللہ کی عبادت کرنا اور

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۴۱_

۲) بحار الانوار ، ج ۴۳ ص ۲۰۷_

۳) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۶_

۹۵

حق سے دفاع کرنااوران اشخاص سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالی تقوی اورناپاک غذا کے موارد میں اپنی اسخت مراقبت فرماتے تھے کہ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں کچھ خرما کی مقدار زکوة کے مال سے موجود تھی آپ نے اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جب آپ تقسیم سے فارغ ہوئے اور امام حسن (ع) کو کندھے پر بیٹھا کر چلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ خرما کا ایک دانہ امام حسن(ع) کے منھ میں ہے_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے منھ میں ڈال کر فرمایا طخ طخ بیٹا حسن (ع) کیا تمہیں علم نہیں کہ آل محمد(ص) صدقہ نہیں کھاتے _(۱)

حالانکہ امام حسن (ع) بچے اور نابالغ تھے کہ جس پرکوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی چونکہ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ ناپاک غذا بچے کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اسے نکال دینے کا حکم فرمای قاعدتاً بچے کو بچپن سے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کھانے کے معاملہ میں مطلقاً آزاد نہیں ہے بلکہ وہ حرام اور، حلال کا پابند ہے اس کے علاوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن علیہ السلام کی شخصیت اور بزرگی منش ہونے کی تقویت کی اور فرمایا زکوة بیچاروں کا حق ہے اور تمہارے لئے سزاوار نہیں کہ ایسے مال سے استفادہ کرو، حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی اولاد میں شرافت، طبع اور ذاتی لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا کہ جناب ام کلثوم نے ویسے ہی کوفہ میں عمل کر دکھایا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے جد نے انجام دیا تھا_

مسلم نے کہا کہ جس دن امام حسین علیہ السلام کے اہلبیت قید ہوکر کوفہ میں

____________________

۱) ینابیع المودہ ص ۴۷_ بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۳۰۵_

۹۶

لائے گئے تھے تو لوگوں میںاہلبیت کے بچوں پرترحم اوررقت طاری ہوئی اور انہوں نے روٹیاں، خرمے، اخروٹ بطور صدقہ ان پر ڈالنی شروع کیں اور ان سے کہتے تھے کہ دعا کرنا ہمارے بچے تمہاری طرح نہ ہوں_

جناب زہرا(ع) کی باغیرت دختر اور آغوش وحی کی تربیت یافتہ جناب ام کلثوم روٹیاں اور خرمے اور اخروٹ بچوں کے ہاتھوں اور منھ سے لے کر دور پھینک دیتیں اور بلند آواز سے فرماتیں ہم اہلبیت پرصدقہ حرام ہے _(۱)

اگر چہ امام حسین (ع) کے بچے مکلف نہ تھے لیکن شرافت طبع اور بزرگواری کا اقتضا یہ تھا کہ اس قسم کی غذا سے حتی کہ اس موقع پربھی اس سے اجتناب کیا جائے تا کہ بزرگی نفس اور شرافت اور پاکدامنی سے تربیت دیئے جائیں_

چوتھا درس

نظم اوردوسروں کے حقوق کی مراعات

ایک اہم مطلب جو ماں باپاور دوسرے بچوں کی تربیت کرنے والوں کے لئے مورد توجہ ہونا چاہیئےہ یہ ہے کہ وہ بچے پرنگاہ رکھیں کہ وہ اپنے حق سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حق کا احترام کرے بچے کو منظم اور با ضبط ہونا چاہیئے زندگی میں نظم اور ضبط کا برقرار رکھنا اسے سمجھایا جائے اس کی اس طرح تربیت کی

____________________

۱) مقتل ابی مختف، ص ۹۰_

۹۷

جائے کہ اپنے حق کے لینے سے عاجز نہ ہو اوردوسروں کے حق کو پا مال نہ کرے، البتہ اس صفت کی بنیاد گھر اور ماں باپ کو رکھنی ہوگی، ماں باپ کو اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیئے کسی ایک کو دوسرے پر مقدم نہ کریں، لڑکے اور لڑکی کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، خوبصورت اور بدصورت کے درمیان، ذہین او رکم ذہن کے درمیان فرق نہ کریں یہاں تک کہ محبت کے ظاہر کرنے کے وقت بھی ایک جیسا سلوک کریں تا کہ ان میں حسد اور کینہ کی حس پیدا نہ ہو اور مراکش اور متجاوز نہ نکل آئیں_

اگر بچہ دیکھے کہ گھر میں تمام افراد کے درمیان حقوق کی پوری طرح رعایت کی جاتی ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ جامعہ اور معاشرہ میں بھی ایک دوسرے کے حقوق کی پوری طرح رعایت نہ ہوئی تو اس میںسرکشی اور تجاوز کی عادت تقویت پکڑے گی اگر کوئی بچہ کسی تربیت وار چیز کے خرید نے یا کسی جگہ با تربیت سوار ہونے میں یا کلاس کے کمرے میں باترتیب جانے یا نکلنے میں اس ترتیب اور نظم کا خیال نہ کرے اور دوسروں کے حق کو پا مال کرے اور اس کے ماں باپ اور تربیت کرنے والے افراد اس کے اس عمل میںتشویق کریں تو انہوں نے اس معصوم بچے کے حق میں خیانت کی کیونکہ وہ بچپن سے یہی سمجھے گا کہ دوسروں پر تعدی اور تجاوز بلا وجہ تقدم ایک قسم کی چالاکی اور ہنر ہے_ یہی بچہ جوان ہو کر جب معاشرہ میں وارد ہوگا یا کسی کام کی بجا آوری کا ذمہ دار بنا جائے گا تو اس کی ساری کوشش دوسروں کے حقوق کو تلف اور پائمال کرنا ہوگی اور اپنے ذاتی منافع کے علاوہ اس کا کوئی ہدف نہ ہوگا اس صفت کا درس حضرت زہرا کے گھر میں کامل طور ''اتنی وقت کے ساتھ کہ معمولی سے معمولی ضابطہ کی بھی مراعات کی جات تھی'' دیا جاتا تھا_

مثال کے طور پر حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

۹۸

ہمارے گھر آرام کر رہے تھے، امام حسن (ع) نے پانی مانگا جناب رسول خدا(ص) اٹھے تھوڑا دودھ برتن میں دودہ کر جناب امام حسن (ع) کو دیا کہ اتنے میں امام حسین علیہ السلام بھی اٹھے اور چاہا کہ دودھ کا برتن امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ سے لیں لیکن پیغمبر(ص) نے امام حسین علیہ السلام کو اس کے لینے سے روک دیا، جناب فاطمہ زہرا یہ منظر دیکھ رہی تھیں، عرض کیا یا رسول اللہ(ص) گویا آپ امام حسن (ع) کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ آپ(ص) نے جواب دیا کہ بات یہ نہیںہے بلکہ اس کے روکنے کی وجہ یہ ہے کہ امام حسن (ع) کو تقدم حاصل ہے اس نے حسین (ع) سے پہلے پانی مانگا تھا لہذا نوبت کی مراعات ہونی چاہیئے _(۱)

پانچواں درس

ورزش اور کھیل کود

تربیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کہ کھیل کود کی اس کی مرضی کے مطابق آزادی دینی چاہیئے بلکہ اس کے لئے کھیل کود اور سیر و سیاحت کے پورے اسباب فراہم کرنے ہیں آج کل متمدن معاشرے میں یہ موضوع قابل توجہ قرار دیا جاتا ہے اور پرائمری، ہڈل اور ہائی اسکول اور کالجوں میں کھیل اور تفریح کے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں کی عمر کے مطابق فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں مل کرکھیلنے اور ورزش کرنے کی تشویق دلاتے ہیں،

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۸۳_

۹۹

گویا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کھیلنا جیسے بدن کے رشد کرنے کے لئے ضروری ہے ویسے ہی یہ ان کی روح کی تربیت کے لئے بھی بہت تاثیر رکھتا ہے_

بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کی طرح زندگی گزاریں اوراپنے لئے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں طفلانہ کھیل گود سے روکے رکھیں اور اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اوراگر چپ چاپ سر جھکائے اورکھیل گود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشی دیتے ہیں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہیں_ لیکن نفسیات کے ماہر اس عقیدے کوغلط اور بے جا قرار دیتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہیئے_ اور اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمی اور روحی بیمار ہونے کی علامت ہے_ البتہ ماں باپ کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ بچہ وہ کھیل کود انجام نہ دے جو اس کے لئے ضرر کا موجب ہو اور دوسروں کے لئے مسرت کے اسباب فراہم کرتا ہو_

ماں باپ صرف بچہ کو کھیل کودکے لئے آزادی ہی نہ دیں بلکہ خود بھی بیکاری کے وقت بچے کے ساتھ کھیلیں، کیوں کہ ماں باپ کا یہ عمل بچے کے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت کی علامت قرار دیتا ہے_

رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کھیلتے تھے_ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خد ا (ص) کو دیکھا کہ وہ حسن (ع) اور حسین (ع) کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) کے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسین (ع) اوپر چڑھتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں آپ

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہ تم لوگ بھى ہمارى طرح اسى جگہ پر اپنى رائے كو پيش كرو تاكہ بغير رائے كے اس كام كو انجام نہ ديا جائے ، حاضرين نے متفق الرائے ہو كر كہا كہ ہم لوگ عبد الرحمن بن خالد كى حكومت و خلافت سے راضى ہيں _

اس رائے نے معاويہ كو چكرا ديا كيونكہ اس نے سوچا تھا كہ لوگ ضرور يزيد كو اس كام كے لئے منتخب كريں گے ، اس نے اپنى موجودگى ميں ديكھ ليا كہ لوگوں نے يزيد كى طرف بالكل توجہ نہيں دى _

معاويہ اس پر اگ بگولا تو ہو گيا تھا ليكن لوگوں پر اظہار نہيں كيا ، كيونكہ اہل شام چاليس سال سے اس كى حكومت و سلطنت كے سائے ميں زندگى گزار رہے تھے اور ہميشہ خطرناك موقع پر اس كا ساتھ بھى ديئے تھے اسى بنا پر اپنے غصے كو پى گيا _

اب صرف فكر يہ تھى كہ اس كانٹے كو كيسے صاف كيا جائے ، جب عبد الرحمن بن خالد مريض ہوا تومعاويہ نے اپنے يہودى طبيب كو اس كى عيادت و علاج كرنے كے لئے بھيجا _ يہ طبيب معاويہ كا راز دار بھى سمجھا جاتا تھا لہذا معاويہ نے اسكو حكم ديا تھا كہ كسى حيلہ و بہانہ كے ذريعہ سے عبد الرحمن كو زہر ديدے _

ضمير فروش طبيب نے حكم معاويہ كے مطابق عبد الرحمن بن خالد كو مسموم كر ديا زہر اتنا خطرناك تھا كہ عبد الرحمن كا شكم چاك ہو گيا اور اس طرح دنيا سے چلا گيا(۲۹)

طبرى و ابن اثير اس واقعہ كو يوں نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے اپنے عيسائي طبيب جس كا نام ابن اثال تھا اسكو حكم ديا كہ جسطرح بھى ممكن ہو عبد الرحمن كو قتل كر دے ، اور اسكے بدلے ميں تمام عمر كا ٹيكس معاف ہو جائے گا نيز شہر حمص كا ٹيكس وصول كرے گا ، اس جنايت كار طبيب نے عبد الرحمن كو زہر ديكر معاويہ كى دلى مراد پورى كر دى _

معاويہ نے اس خدمت كے عوض ميں اپنا وعدہ ، وفا كيا(۳۰)

ابن عبد البر مزيد لكھتے ہيں كہ ، عبد الرحمن كى موت كے بعد اسكا بھائي جو دوسرى جگہ رہتا تھا خفيہ طور پر دمشق آيا اور اپنے

____________________

۲۹_ صحيح بخارى ج۳ ص ۱۲۶

۳۰_ ابن اثير ج۳ ص ۱۹۹ ، اغانى ج ۱۶ ص ۹۱ ، مستدرك ج۴ ص ۴۸۱ ، ابن كثير ج۸ ص۸۹ ، تہذيب ابن عساكر ج۴ ص ۲۲۶

۱۲۱

غلام كے ساتھ يہودى طبيب كے كمين ميں بيٹھ گيا _

جب طبيب شب كے سناٹے ميں معاويہ كے يہاں سے جانے لگا تو اس پر حملہ كر ديا جو اسكے ساتھى تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے لہذا اسكو وہيں پر مار ڈالا _

ابن عبد البراس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد لكھتا ہے كہ يہ واقعہ دانشوروں كے درميان بہت مشہور و معروف ہے _

يزيد كى بيعت مدينہ ميں

كتاب امامہ والسياسة ميں ابن قتيبہ نے يوں لكھا ہے :

'' معاويہ نے حاكم مدينہ مروان بن حكم كو خط ميں لكھا كہ اہل مدينہ سے يزيد كى بيعت كا مطالبہ كرو ، يہ بات مروان پر گراں گذرى تو تھى ہي، دوسرى طرف مدينہ كے سردار قريش كسى صورت ميں يزيد كى بيعت نہيں كر سكتے تھے ، لہذا مروان نے معاويہ كے پاس ايك خط روانہ كيا اور اس ميں يہ لكھا كہ تمہارے رشتہ دار يزيد كى بيعت سے كترا رہے ہيں لہذا تم اپنى رائے كو ميرے پاس لكھ كر بھيجو _

معاويہ مروان كے منفى جواب سے بہت غضبناك ہوا اور اسكو حاكم مدينہ كے عہدہ سے معزول كر ديا _ اور اسكى جگہ حاكم مدينہ سعيد بن عاص كو بنا ڈالا _

مروان بنى اميہ كے چند افراد كے ساتھ شام آيا اور غصے كے عالم ميں معاويہ سے ملاقات كى اور خوب معاويہ كو برا بھلا كہا ، ليكن سياستمدار معاويہ نے نہايت ٹھنڈے اور نرم لہجے ميں مروان سے گفتگو كى اور اس كى تنخواہ مزيد بڑھا كے راضى كيا اور واپس مدينہ بھيجديا(۳۱) _

معاويہ نے اس واقعے كے بعد ،يزيد كو بطور وليعہدبنانے كى نئي چال چلى كہ ، تمام سرداران بنى اميہ كے درميان پھوٹ ڈالديا ، ايك خط حاكم مدينہ سعيد بن عاص كو بھيجا اور اس ميں دستور ديا كہ مروان كے گھر كو مسمار كر ديا جائے اور تمام

___________________

۳۱_ استيعاب ج۲ ص ۳۷۳، اسد الغابہ ج۳ ص ۳۰۶ ، اصابہ ج۲ ص ۴۰۰

۱۲۲

اموال منجملہ باغ فدك بھى لے ليا جائے _

ابن اثير لكھتا ہے :

امير شام معاويہ نے ۴۵ھ ميں سعيد بن عاص كو حكومت مدينہ سے برخاست كر كے بار ديگر مروان بن حكم كو حاكم مدينہ بنا ديا ، سعيد بن عاص كو حاكم مدينہ كے عہدے سے معزول كرنے كى علت يہ تھى كہ معاويہ نے اس كو خط لكھا تھا ، كہ مروان كے گھر كو منہدم كر دے اور اسكى تمام جائيداد حتى فدك كو بھى چھين لے ، ليكن سعيد بن عاص نے معاويہ كے حكم سے سر پيچى كى ، دوسرى بار لكھا پھر بھى سعيد نے نہيں سنا ، اور ان دونوں خطوط كو اپنے پاس محفوظ كر ليا ، جب حكومت مدينہ سے معزول ہو گيا اور اسكى جگہ مروان حاكم بن گيا تو معاويہ نے اس كو خط لكھا كہ سعيد بن عاص كے گھر مسمار كر دے اور تمام جائيداد كو چھين لے _

مروان اپنے چند ساتھيوں سميت سعيد كے گھر كو ڈھانے كے لئے چل ديا _ سعيد اپنے گھر سے نكلا اورمروان سے پوچھا اے فرزند عبد الملك _ تم ہمارے گھر كو ڈھانے كے لئے آئے ہو ؟

مروان نے كہا _ جى ہاں _ امير المومنين معاويہ نے ايسا ايسا خط لكھا ہے اور اس ميں اس طرح كا حكم ديا ہے اگر وہ تم كو اس طرح كا حكم ديتا تو تم بھى ضرور اس كام كو انجام ديتے ؟

سعيد نے كہا _ ہم نے تو ايسا نہيں كيا ؟

مروان نے كہا _ جى نہيں _ خدا كى قسم اگر تمہيں معاويہ اس كام كو انجام دينے كے لئے لكھتا تو تم ضرور اس كا م كو انجام ديتے ؟

سعيد نے كہا ، ہم ہرگز ايسا نہيں كرتے ، پھر معاويہ كے ان دونوں خطوں كو اسے دكھلايا اور كہا _ معاويہ چاہتا ہے كہ ہمارے درميان اختلاف كى ديوار كھڑى كر دے _

جب مروان نے سعيد كے سلوك كو اس طرح پايا تو كہا ، خدا كى قسم تم ہم سے بہتر ہو ؟

اس واقعے كے بعد سعيد بن عاص نے ايك خط معاويہ كو يوں لكھا كہ بڑى تعجب كى بات ہے كہ تم اپنے رشتہ داروں كے ساتھ ايسا سلوك كر رہے ہو ، تم نے مصمم ارادہ كر ليا ہے كہ ہمارے درميان ايك دوسرے كے خلاف بغض و كينہ كى ديوار كھڑى كر كے دشمن بنا دو _ امير المومنين ( معاويہ ) تم نے ان تمام بر د بارى و صبر كے باوجود غصہ و عجلت سے كام ليا ہے

۱۲۳

_ بجائے عفو و بخشش كے اپنے رشتہ داروں ميں پھوٹ ڈالنے كى كو شش كى ہے تاكہ اس كينے كو ہمارے فرزند ميراث ميں بانٹ ليں _ ٹھيك ہے ہم ايك خليفہ زادے نہيں ہيں اور نہ كوئي قريبى رشتہ دارى ہے البتہ ہم نے قصاص خون عثمان ميں تمھارى نصرت كى ہے لہذا بہتر تھا كہ تم ہمارے ان حقوق كى رعايت كرتے جو تمھارى گردن پر تھے _

امير شام معاويہ كا جب يہ نقشہ ناكام ہو گيا تو بہت شرمندہ و پشيمان ہوا لہذا دكھانے كے لئے ايك خط سعيد كے پاس لكھا اور اس سے معافى مانگى(۳۲)

يزيد كى بيعت بليدان چاہتى ہے

معاويہ يزيد كو اپنا جانشين بنانے كے سلسلے ميں بہت پريشان ہو رہا تھا اسكو اس راہ ميں روكاوٹيں پيش ارہى تھيں جن كا حل بہت مشكل تھا ، لہذا ان موانع دور كرنے كى فكر ميں لگ گيا ايك طرف اس وقت امام و پيشوا ء سبط رسول (ص) حضرت امام حسن (ع) تھے ، دوسرى طرف عمر بن خطاب كى چھہ ركنى كميٹى كا ايك ممبر اور بڑا سردار سعد بن ابى وقاص موجو د تھا جسكو بعض لوگ اہميت كى نگاہ سے ديكھتے تھے _

مشہور مورخ ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :

معاويہ اپنے فرزند ( يزيد ) كى بيعت كا بہت خواہاں تھا ، ليكن اس راہ ميں سب سے بڑى اڑچن حضرت امام مجتبى (ع) اور سعد بن ابى وقاص تھے ، اس نے ان دونوں كو ہٹانے كے لئے خفيہ طور پر ان لوگوں كو زہر دلوايا اور يہ دونوں زہر كى بناء پر اس دار فانى سے رخصت ہو گئے(۳۳) امام حسن (ع) اور سعد بن ابى وقاص جو معاويہ كے ہدف ميں ركاوٹ بنے ہوئے تھے اسكى علت يہ تھى كہ سعد بن ابى وقاص عمر كى اس چھہ ركنى كميٹى كا اخرى ايك ممبر تھا ، جو خليفہ كے تعين كے لئے وجود ميں ائي تھى ، اسكے بعد ان لوگوں كا دماغ اتنا اونچا ہو گيا تھا كہ گويا خلافت و حكومت كے چلانے كى تمام صلاحتيں انھيں لوگوں ميں منحصر تھيں _

____________________

۳۲_ استيعاب ج۲ ص ۳۷۳

۳۳_طبرى ج۵ ص ۱۱

۱۲۴

ليكن امام حسن (ع) جو اپنى گذشتہ فضيلت و عظمت كے خاص مالك تھے انھوں نے معاويہ سے صلح كرتے وقت شرط ركھى تھى كہ امير شام معاويہ اپنے بعد كسى كو خليفہ نامزد نہيں كر سكتا ہے اور اسكو حق نہيں ہے كہ كسى دوسرے كو اپنا وليعہد بنائے(۳۴)

مورخين نے سعد بن ابى وقاص كے مارے جانے كى وضاحت نہيں كى ہے ، بس اتنا لكھا كہ انكو معاويہ نے زہر دلوايا ہے _ ليكن سبط رسول (ص) امام حسن (ع) كى شہادت كے سلسلے ميں چند دليليں پائي جاتى ہيں ، جو اس سانحے كى كسى حد تك وضاحت كرتى ہے _

مسعودى لكھتا ہے :

'' امير شام '' معاويہ نے خفيہ طور پر جعدہ بنت اشعث بن قيس كندى كے پاس زہر بھيجا تاكہ امام (ع) كو مسموم كر دے اور ساتھ ميں كچھ پيغامات بھى ارسال كئے كہ اگر تم نے امام حسن (ع) كوزہرديديا تو ايك لاكھ درہم ،مزيد اپنے بيٹے يزيد كے ساتھ شادى كر دوں گا ، يہى وہ دو باتيں تھيں جو جعدہ بنت اشعث كے لئے باعث ذلت بنيں اور اس نے اس كام كو انجام ديا ،جب امام عليہ السلام كو زہر ديديا تو معاويہ نے بعض وعدے پورے كئے جس ميں ايك لاكھ درہم شامل تھا ، اور جعدہ كے پاس پيغام بھيجوايا كہ ہم يزيد كى زندگى چاہتے ہيں _

لہذا دوسرا وعدہ جو تم سے شادى كرنے كا تھا اس سے معذور ہيں _ يعنى تم نے جس طرح اپنے شوہر كو وعدہ پر مسموم كر ديا ہے ممكن ہے اسى طرح ميرے بيٹے كو بھى زہر ديدو _ لہذا انھيں اسباب كى بنا ء پر ہم اپنے وعدے كو پورا نہيں كر سكتے ہيں(۳۵) معاويہ كى جنايتكار سياست نے حضرت مجتبى (ع) اور سعدبن ابى وقاص كو درميان سے صاف كر ديا تاكہ خلافت يزيد كى راہ ہموار ہو جائے اور جس طرح عبد الرحمن بن خالد كو نابود كيا تھا اسى طرح ان دونوں كو صفحہ ہستى سے مٹايا ،ہم سمجھتے ہيں كہ عبد الرحمن بن خالد اسى راہ ميں مارے گئے ہيں جسكى تفصيل ائندہ بيان ہو گى _

____________________

۳۴_ اسد الغابہ ج۳ ص ۲۸۴ ، طبقات ابن سعد ج۵ ص ۱ ، صحيح بخارى ج۳ ص ۱۱

۳۵_ بلاغات النساء ص ۸ ، تذكرة الخواص

۱۲۵

يزيد كى تاج پوشي

معاويہ نے بڑى جدو جہد كر كے مملكت كے گوشہ و كنار سے سرداروں اور بزرگان قبائل نيز با رسوخ افراد كو دمشق بلوايا اور يزيد كى زبر دستى بيعت لى _

مخالفين كو ڈرا دھمكا كر، تو كبھى منھ مانگى رقم ديكر، تو كبھى رياست كى لالچ ديكر لوگوں كو بيعت يزيد پر راضى كيا ، چند سال تك ايسا ہى ہوتا رہا _

مملكت اسلامى كے اكثر اہم علاقے امويوں كے اشارے پر چلنے لگے ليكن اس وقت دو اہم شہر مكہ و مدينہ كے لوگ اس اشارے پر نہيں چل رہے تھے اور يزيد كى بيعت تسليم نہيں كر رہے تھے _

امير شام معاويہ نے اپنے ساتھيوں كے ہمراہ حجاز كا سفر كيا تاكہ ان لوگوں سے يزيد كى بيعت لے ، اہل مكہ و مدينہ نے يزيد كى بيعت اس لئے نہيں كى كہ يہ لوگ اسلام سے اچھى طرح واقف تھے دوسرى طرف حسين بن على (ع) ، عبد اللہ بن زبير ، عبد اللہ بن عمر ، اور عبد الرحمن بن ابو بكر جيسے با رسوخ افراد اس شہر ميں موجود تھے _

ابن اثير لكھتا ہيں :

'' معاويہ نے يزيد كى بيعت لينے كے لئے لوگوں كو منھ مانگى رقم ديكر راضى كيا اور مخالفين سے خاطر و مدارات كر كے يزيد كى بيعت كروائي ، وہ اپنى سياست ميں يوں كا مياب رہا كہ لوگوں نے اپنے سرداروں پر بھروسہ كر كے يزيد كى بيعت كر لى _

جب اہل شام و عراق نے يزيد كى بيعت تسليم كر ليا تو معاويہ نے ہزاروں سواروں كے ساتھ حجاز كا سفر كيا ، مدينہ ميں سب سے پہلے حضرت امام حسين (ع) سے ملاقات ہوئي _

ابن اثير مزيد لكھتا ہے :

حضرت امام حسين (ع) كے علاوہ تين دوسرے افراد جو روساء شہر تھے انكى معاويہ سے تلخ كلامى ہوئي تو ان لوگوں نے اسكو منھ توڑ جواب ديا _

اس كے بعد ابن اثير لكھتا ہے كہ ، معاويہ نے ان چاروں افراد سے مدينہ ميں بيعت نہيں لى جب عائشه سے ملنے گيا تو

۱۲۶

انكو اس مڈ بھيڑ كى خبر معلوم ہو گئي تھى ، لہذا ام المومنين عائشه نے معاويہ سے كہا :

يہ لوگ كسى صورت ميں يزيد كى بيعت نہيں كرينگے ، معاويہ نے ان لوگوں كى شكايت عائشه سے كى تو انھوں نے اسكو خوب سمجھايا بجھايا ؟

ابن اثير نے معاويہ كے سفر مكہ كى داستان يوں نقل كيا ہے :

معاويہ جب مكہ انے والا تھا تو اہل مكہ كے ساتھ وہ چاروں افراد بھى استقبال كرنے كے لئے گئے معاويہ ان لوگوں سے كافى مہربانى سے پيش آيا اور ان لوگوں سے بار ديگر بيعت كا مطالبہ كيا عبد اللہ بن زبير نے كہا ، ہم تم كو تين پيشنھاد كرتے ہيں ان ميں سے ايك قبول كر لو_

۱_ جس طرح رسول اكرم (ص) نے اپنا جانشين نہيں بنايا اسى طرح تم بھى مت بنائو_

۲_ جس طرح ابو بكر نے قريش كے ايك فرد كو خلافت كے لئے چن ليا اور اپنے خاندان كے كسى فرد كو خليفہ نہيں بنايا _

۳_ عمر بن خطاب كى طرح كرو كہ انھوں نے خلافت كى كميٹى تشكيل ديدى تھى ليكن اس ميں اپنے فرزند كو نہيں ركھا تھا ،معاويہ نے عبد اللہ بن زبير سے كہا كہ اسكے علاوہ كوئي اور پيشكش نہيں ہے _

زبير نے جواب ديا ، نہيں _

معاويہ نے كہا ، ہم تم كو با خبر كر رہے ہيں كہ اگر تم نے كسى دوسرے كو اس رائے سے اگاہ كيا تو ياد دكھو كہ ہم تم كو معذور كرديں گے _

ابھى تقرير كرنے جا رہا ہوں خدا كى قسم _ اگر تم ميں سے كسى نے ہم پر اعتراض كيا تو قبل اسكے كہ تمھارا كلام ختم ہو سر تن سے جدا ہو جائے گا ، لہذا بہتر يہى ہے كہ تم لوگ اپنى اپنى حفاظت كرو ، پھر اپنے سپاہيوں كو حكم ديا كہ ہر ايك ادمى پر دو شمشير باز مسلط رہيں كہ اگر ايك حرف بھى اعتراض كا زبان سے نكلے فورا قتل كر ديا جائے _

۱۲۷

ان لوگوں كو اسى حالت ميں مسجد الحرام لايا گيا ، معاويہ منبر پر گيا حمد الہى كے بعد اپنى تقرير شروع كى ، ابتدا ئے تقرير ميں يوں كہا كہ ، يہ لوگ سردار و بزرگان اسلام نيز با عظمت افراد ہيں كسى بھى وقت انكى رائے كے خلاف كام انجام دينا نہيں چاہيئے ، اور ان لوگوں نے يزيد كى بيعت كر لى ہے ، اب تم لوگ خدا كے نام پر كھڑے ہو جاو اور يزيد كى بيعت كرو ، يہ كہنا تھا كہ چاروں طرف سے مجمع ٹوٹ پڑا اوريزيد كى بيعت ہو گى _

بيعت جيسے ہى تمام ہوئي فورا حكم ديا كہ سواريوں كو امادہ كرو پھر سوار ہو كر مدينہ كى طرف چل ديا ، اہل مدينہ سے بھى مكہ والوں كى طرح بيعت لى پھر شام پلٹ گيا _

مگر حضرت امام حسين (ع) اور انكے دوسرے ساتھيوں كى جھوٹى بيعت كا راز فاش ہو گيا ، لوگوں نے جب ان لوگوں سے سوال كيا كہ تم لوگوں نے تو يہ فيصلہ كيا تھا كہ ہرگز بيعت نہيں كريں گے پھر كيوں بڑى سادگى كے ساتھ يزيد كى بيعت كر لي_

ان لوگوں نے معاويہ كى مكارانہ چال كو بيان كيا اور ان لوگوں كوجو جان لينے كى دھمكى دى تھى اسكو بيان كيا(۳۶)

ہم نے معاويہ كى زندگى ميں انے والے حوادث كا بہت غور سے جائزہ ليا تو ہم اس نتيجہ تك پہونچے كہ معاويہ كے دور ميں جھوٹى حديثوں كے گڑھنے كى وجہ كو سمجھنے كے لئے اسكے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے كہ

۱_ معاويہ كى پيچيدہ شخصيت كو پھر سے جانچا جائے

۲_ معاويہ كى ام المومنين عائشه سے دانٹ كا ٹى دوستى كن وجوہات كى بناء پر ہوئي ، يہ وہ مباحث ہيں جو ہم ائندہ پيش كريں گے _

___________________

۳۶_ ابن اثير ج۳ ص ۲۱۸ ، عقد الفريد ج۳ ص ۱۳۱

۱۲۸

فصل چہارم

عائشه اور امويوں ميں دوستى كے اسباب

اپ نے پہلے ديكھا كہ معاويہ نے حضرت على (ع) سے دشمنى و عناد ركھنے كى وجہ سے كتنا ان سے ٹكر ليا اور انكى حكومت كے زمانے ميں كس قدر جنگ اور مقابلہ كيا _

ليكن جب حضرت امير المومنين (ع) (على (ع) ) نے مسجد كو فہ ميں جام شہادت نوش فرماليا تو اپنى مقاومت كو جنگ سرد ميں تبديل كر كے ايك لمحہ بھى امام عليہ السلام كو بر ا بھلا كہنے سے باز نہ آيا _

نيز اپ نے يہ بھى ديكھا ہو گا كہ عائشه نے امير المومنين (ع) سے كتنى بھيانك جنگ لڑى ، اور جب امام (ع) ابن ملجم كے ہا تھوں شھيد ہو گئے اور اسكى خبر عائشه كو معلوم ہوئي تو خوشى كے مارے سجدہء شكر ادا كيا(۳۷) پھر اس شعر كو پڑھا كہ جس كا ترجمہ يہ ہے _

على (ع) گزر گئے اور اب انكى واپسى نہيں ہو گى مجھے انكى موت سے اپنے دل كو اتنى خوشى ہو رہى ہے جيسے خاندان كا كوئي مسافر اپنا عزيزتر رشتہ دار گھر واپس انے سے خوش ہوتا ہے _ ہاں _ على (ع) كى موت سے ميرى انكھيں ٹھنڈى ہو گئيں _

فالقت عصا ها و استقر بها النوى كما قر عينا بالاياب المسافر

خاندان علوى (ع) سے عائشه كى عداوت اتش اتنى بھڑ كى ہوئي تھى كہ حتى شوہر كے نواسے سے پردہ كر ليا اور ان سے ملاقات نہيں كى(۳۸)

جو كچھ يعقوبى اور ابو الفرج اصفہانى نے اس زمانے كے واقعات بيان كئے ہيں اگر اس پر غور كيا جائے تو معلوم ہوگا كہ عائشه كى دشمنى خاندان علوي(ع) سے اسى طرح باقى رہى اور اس ميں ذرا برابر كمى نہيں ائي يہى وجہ تھى جو عائشه اور بنى اميہ كے درميان بطور عموم اور خاص طور پر معاويہ سے گٹھ بندھن رہا _

____________________

۳۷_ طبرى ج۶ ص ۱۶۰ _ ۱۵۵

۳۸_ طبقات الكبرى ج۸ ص ۷۳

۱۲۹

يعقوبى لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) نے وقت احتضار اپنے بھائي امام حسين (ع) سے كچھ وصيتيں كيں ، ان ميں ايك يہ تھى كہ اگر ميں اس دنيا سے چلا جائوں تو مجھے جدّ بزرگوار رسول اكرم (ص) كے پہلو ميں دفن كرنا كيونكہ مجھ سے زيادہ كوئي حقدار نہيں ہے ، ليكن اگر كوئي ممانعت پيش آئے اور ميرى اخرى ارزو پورى نہ ہو سكے تو اس وقت حتى الامكان كو شش كرنا كہ ايك قطرہ خون زمين پر نہ گرنے پائے ، جب امام عليہ السلام كى شہادت ہو گئي اور تجہيز و تكفين كے بعد اہل خاندان جسد مبارك كو ليكر قبر رسول (ص) كى طرف جانے لگے تو بقول مقاتل الطالبين ام المومنين عائشه خچر پر سوار ہوئيں اور انكے ساتھ بنى اميہ جنھوں نے اپنے گناہ كو انكے كاندھے پر ڈالديا تھا جسد مبارك اور جو لوگ جنازہ ميں شريك تھے انكو قبر رسول (ص) كى جانب جانے سے روك ديا اس فعل نا شائستہ پر ايك مشہور شعر كہا گيا _

ايك دن خچر پر تو ايك روز اونٹ پر سوار ہوئيں ،فيوماََعلى بغل و يوماََعلى جمل (۳۹) _

يعقوبى لكھتا ہے:

مروان بن حكم اور سعيد بن عاص سوار ہوئے اور فرزند رسول (ص) كے جنازہ كو جد بزرگوار كے پہلو ميں دفن كرنے سے منع كيا ، عائشه خچر پر سوار ہو كر مجمع عام ميں ائيں اور وا ويلا مچانا شروع كر ديا كہ يہ گھر ميرا ہے اور اس ميں كسى كو دفن كرنے كى اجازت نہيں ديتى ہوں _

ابو بكر كا پوتا قاسم نے جواب ديا ، اے پھوپھى _ ہمارے سر ابھى تك جنگ جمل كے خون سے صاف نہيں ہوئے ہيں آيا اپ چاہتى ہيں كہ انے والا دن خچر كا دن كہلائے _

ليكن لشكر علوى (ع) بھى خاموش نہيں بيٹھا بلكہ بعض لوگ حضرت امام حسين (ع) كے پاس گئے اور عرض كيا اقا ہم لوگوں كو ال مروان سے نپٹنے كے لئے جانے ديجئے خدا كى قسم _ يہ لوگ ہمارى نظروں ميں ايك لقمہ سے زيادہ نہيں ہيں _

امام عليہ السلام نے فرمايا _ ميرے بھائي نے وصيت كى ہے كہ ميرے جنازے كى خاطر ايك قطرہ بھى خون كانہ بہانا ، اسكے بعد امام حسن (ع) كا جنازہ قبر ستان بقيع ليجايا گيا اور دادى فاطمہ بنت اسد جو حضرت امير المومنين (ع) (على (ع) ) كى ماں تھيں

____________________

۳۹_ مقاتل الطالبين ص ۷۵ ، يعقوبى ج۲ ص ۲۰۰

۱۳۰

كے پہلو ميں دفن كيا گيا(۴۰)

ام المومنين عائشه كى يہ تمام كار كردگى اہلبيت (ع) سے كينہ و دشمنى كى علامت تھى يہى وجہ تھى جو عائشه اور بنى اميہ خاص طور سے معاويہ كے درميان دانت كاٹى دوستى كى باعث بنى _ معاويہ اور اس كے حكمرانوں نے خوب تعظيم و تكريم كى اور اپ (عائشه ) كو ہديہ و تحفے بھيج كر مالى تعاون كيا _

معاويہ كے تحفے

جس گھڑى محقق، معتبر تاريخ كے متون كو بغور ديكھتا ہے تو عائشه اور حكومت اموى كے درميان گہرى دوستى كى شگفت اميز علامت پاتا ہے _

جبكہ يہ دونوں گروہ پہلے اپس ميں ايك دوسرے كے بہت مخالف تھے ، اور قتل عثمان كے مسئلہ ميں ايك دوسرے سے نوك جھونك بھى ہوئي تھى ، ليكن مصلحت وقت نے ايك دوسرے كو كافى نزديك كر ديا تھا اور وہ ايك لشكر كى شكل ميں ہو گئے تھے _

حكومت اموى كى مراعات مالى نے عائشه سے زيادہ قريب كر ديا اور متعدد بار اموال كثير نيز قيمتى تحفے معاويہ كى طرف سے اور دوسرے روساء حكومت اموى نے انكى خدمت ميں بھيجے ، ہم نے ان تمام دليلوں كو معتبر تاريخ سے جمع كيا ہے اور اپنے مدعى كو ثابت كرنے كے لئے اپكى خدمت ميں چند نمونے پيش كرتے ہيں _

ابو نعيم اصفہانى حلية اولياء ميں عبد الرحمن بن قاسم سے نقل كرتے ہيں

ايك مرتبہ معاويہ نے عائشه كى خدمت ميں مختلف تحفے بھيجے جن ميں لباس و پيسے نيز قيمتى چيزيں بھى تھيں(۴۱)

يہى ابو نعيم اصفہانى عروہ بن زبير سے نقل كرتا ہے _

معاويہ نے دوسرى مرتبہ ايك لاكھ درہم نقد عائشه كے پاس بھيجا(۴۲)

____________________

۴۰_ يعقوبى ج۲ ص ۲۰۰ كے بعد

۴۱_ حلية الاولياء ج۲ ص ۴۸

۴۲_ حلية الاولياء ج۲ ص ۴۷

۱۳۱

اٹھويں صدى كا مشہور مورخ ابن كثير عطاء سے روايت كرتا ہے _

معاويہ نے مكہ سے عائشه كے پاس ايك قيمتى ہار بطور ہديہ بھيجا جسكى قيمت ايك لاكھ درہم تھى اور اس تحفہ كو ام المومنين عائشه نے قبول كيا(۴۳)

طبقات الكبرى ميں يوں آيا ہے كہ ، منكدر بن عبد اللہ ام المومنين عائشه كے يہاں گيا تھوڑى دير گفتگو كے بعد عائشه نے پوچھا ، آيا فرزند ركھتے ہو ؟

منكدر بن عبد اللہ نے جواب ديا كہ ، نہيں _

عائشه نے كہا _ اگرہم اس وقت دس ہزار درہم كے مالك ہوتے تو تمھيں دے ديتى تاكہ اس سے كنيز خريد ليتے اور اس سے صاحب اولاد ہوتے ، يہ ملاقات تمام ہو گئي اتفاق سے اسى روز غروب كے وقت معاويہ كى طرف سے كافى مقدار ميں رقم اگئي _

عائشه نے كہا _ كتنى جلدى اپنى مراد تك پہونچ گئي

پھر ہميں ا پنے يہاں بلايا اور دس ہزار درہم ديئے ميں نے اس رقم سے ايك كنيز خريد لى(۴۴)

ايك دوسرا واقعہ ابن كثير سعد بن عزيز سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے ايك بار عائشه كا اٹھارہ ہزار دينار قرض چكايا جو انھوں نے لوگوں سے لے ركھا تھا(۴۵)

اپ حضرات نے يہاں تك معاويہ كى عائشه كى نسبت مراعات مالى كا نمونہ ملاحظہ فرمايا _ يہ صرف معاويہ نے ايسا نہيں كيا بلكہ اموى روساء بھى اسى راہ پر گامزن رہے اور كبھى كبھار انكى خدمت ميں تحائف بھيجتے رہتے تھے ، جن ميں ايك حاكم بصرہ عبد اللہ بن عامر ہے كہ جس نے ايك مرتبہ عائشه كے پاس پيسے اور لباس كى شكل ميں تحفے بھيجے _(۴۶)

صدياں گذرنے كے بعد جب مورخين نے حكومت اموى كى طرف سے عائشه كى مالى مدد كا اس مقدار ميں تذكرہ كيا ہے تو يقينا اسكى مقدار اس سے كہيں زيادہ رہى ہو گى اور حكومت جو عائشه كا احترام كرتى تھى وہ صرف دنيا وى مصالح اور

____________________

۴۳_ ابن كثير ج۷ ص ۱۳۷ ، سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۱

۴۴_ طبقات الكبرى ج۵ ص ۱۸

۴۵_ ابن كثير ج۸ ص ۱۳۶

۴۶_ مسند احمد ج۶ ص ۷۷

۱۳۲

مفاد پرستى كيو جہ سے تھا اور وہ بھى جو كچھ احترام كرتى تھيں وہ اپنے مفاد كى خاطر تھا _

ان مفاد پرستى كيوجہ سے اسلام و مسلمين كو جو نقصانات پہونچے ہيں انھيں ائندہ بيان كروں گا _

* * *

اموى حكومت ميں ، عائشه كا رسوخ

قارئين كرام جو كچھ ہم نے عائشه كى زندگى اور انكى سياسى و اجتماعى كارنامے كو بيان كيا ہے اگر اپ حضرات اس پر غور كريں گے تو ان كى سياسى سوجھ بوجھ پہچاننے ميں كوئي دشوارى نہيں ہو گى عائشه سياست اور معاشراتى نفوذ كے لحاظ سے ان صفات كى حامل تھيں جو ايك سياستدان كے لئے بہت ضرورى ہے وہ اپنے زمانے ميں سب پر حاوى تھيں _ اس بات كو ہم بعد كے صفحات ميں بھى مختلف طريقوں سے پيش كرينگے _

ان كى پہلى خاصيت يہ تھى كہ انكى بات سب كے دل ميں اتر جاتى تھي

صاحب طبقات كبرى لكھتے ہيں _مرہ بن ابى عثمان جو عبد الرحمن بن ابو بكر كا ازاد كردہ تھا ، ايك روز عبد الرحمن كے پاس آيا اور ان سے درخواست كى كہ ايك خط زياد كو لكھديں تاكہ حاجت پورى ہو جائے _

عبد الرحمن نے خط يوں لكھا كہ زياد كو بجائے ابو سفيان كا بيٹا قرار دينے كہ اسكو عبيد كا فرزند لكھ ديا _ جب مروہ بن عثمان نے خط كو ديكھا تو عبد الرحمن سے كہا كہ ہم اس خط كو زياد كے پاس لے كر نہيں جائيں گے كيونكہ ہمارى حاجت اس خط سے پورى نہيں ہو سكتى پھر وہ عائشه كے پاس آيا اور ان سے وہى درخواست كى _ ام المومنين عائشه نے اس طرح زياد كو خط لكھا _

يہ خط ام المومنين عائشه كى طرف سے ہے زياد بن ابو سفيان _ مرہ خط ليكر زياد كے يہاں گيا ، اس نے خط پڑھنے كے بعد كہا ، تم ابھى چلے جائو اور كل صبح سويرے ميرے پاس انا تو ہم تمہارى حاجت كو پورا كر دينگے _

مرہ بن ابى عثمان دوسرے روز زياد كے يہاں گيا تو كيا ديكھا كہ حاضرين كى ايك بڑى تعداد ہے زياد نے اپنے غلام سے خط پڑھنے كو كہا ، اس نے عائشه كے خط كو پڑھا يہ خط ہے ام المومنين كى طرف سے زياد بن ابو سفيان كو _ خط كے تمام

۱۳۳

ہونے كے بعد زياد نے مرہ بن عثمان كى حاجت پورى كر ديا(۴۷)

ياقوت حموى اسى داستان كو ( نہر مرّہ ) كے مادہ ميں اپنى جغرافيائي انسائيكلوپيڈيا ميں لكھتے ہيں _

زياد عائشه كے خط سے اتنا خوش ہوا كہ اس نے مرہ كا خوب اكرام كيا اور خط تمام ہونے كے بعد اس نے لوگوں سے كہا : يہ خط ام المومنين عائشه نے ميرے نام لكھا ہے ، پھر حكم ديا كہ مرّہ بن عثمان كو سو (۱۰۰)ايكڑ زمين نہر ابلہ كے كنارے ديديا جائے اور اس ميں زمين كى ابيارى كرنے كے لئے ايك كنواں كھودا جائے ، يہى وہ نہر ہے جو ( مرّہ ) كے نام سے مشہور ہوئي _

اس واقعہ سے جو نتيجہ نكلتا ہے وہ يہ ہے كہ زياد نے نوشتہ عائشه اور رسوخ كلام سے اپنا فائدہ اٹھايا ، كيونكہ ام المومنين نے اسكو ابو سفيان كا بيٹا تسليم كيا ، اور اپنے خط ميں اسى عنوان سے مخاطب كيا ، يہى وجہ تھى كہ بہت خوش ہوا اور حكم ديا كہ انكے خط كو مجمع عام ميں پڑھا جائے تاكہ دوسرے لوگ بھى اس بات كو جان ليں كہ دور حاضر كى بزرگ شخصيت عائشه بھى اسكے نسب اعلى كو پہچانتى ہيں ، اور سابق رئيس قريش ابو سفيان كا بيٹا اور خليفہ وقت كابھائي جانتى ہيں _

عائشه نے ديگر مواقع پر بھى زياد كو خط لكھا اور اس ميں لوگوں كى رعايت مالى كا خيال ركھنے كى تاكيد كى جسكے جواب ميں زياد نے خط بھيجا كہ مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ جيسے ہم اپنے ماں باپ كے سايہ عاطفت ميں زندگى بسر كر رہے ہيں(۴۸) _

عائشه اور معاويہ كا ايك دوسرے پر چوٹ

عداوت على ميں اگر چہ عائشه كى معاويہ سے ايك دانت كاٹى دوستى ہو گئي تھى _ ليكن بعد ميں ايسے اسباب پيدا ہو گئے جنكى وجہ سے ان دونوں ميں دورى ہو گئي _ اور رفتہ رفتہ ايك جنگ سرد ميں تبديل ہو گئي تھى _

معاويہ نے شب و روز كى تگ و دو كے بعد زمام حكومت كو ہاتھ ميں لے ليا مگر وہ اس پر بھى خوش نہيں تھا بلكہ اسكى خواہش يہ تھى كہ اپنى حكومت و سلطنت كو مورو ثى بنا ڈالے يہ مسئلہ اسوقت اور بھيانك ہو گيا جب اسكے قديم دوست جو مختلف گروہوں ميں بٹے تھے حكومت كو خاندانى بنانے ميں كسى طرح راضى نہيں ہوئے لہذا معاويہ نے اپنے بھيانك

____________________

۴۷_ طبقات ج۷ ص ۹۹

۴۸_ عقد الفريد ج۴ ص ۲۱۷

۱۳۴

چہرے كو ظاہر كر ديا _

ام المومنين عائشه ان حالات ميں معاويہ كے مخالف گروہ سے جا مليں اور معاويہ سے اپنى دوستى تو ڑ ڈالى _

عائشه اور معاويہ كے درميان پہلا اختلاف اس بات پر ہوا كہ اس نے شير كو فہ محب على حجر بن عدى كو قتل كر ديا _

ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :

عائشه نے اپنا نمائندہ عبد الرحمن بن حرث كو شام بھيجا تاكہ معاويہ سے حجر اور ان كے ساتھيوں كے لئے سفارش كرے مگر عبد الرحمن اسوقت دمشق پہونچا كہ معاويہ نے ان لوگوں كو شھيد كر ڈالا تھا _ فرستادہ عائشه مايوس و نا اميد ہو كر واپس چلا آيا اور اس نے پورى داستان بيان كى ، جب عائشه نے ان باتوں كو سنا تو بہت ناراض ہوئيں اور كہنے لگيں كہ ،اگر ہم كو اس كا خوف لاحق نہ ہوتا كہ ہم ہى ہر بار اوضاع كو خراب كرتے ہيں تو اسكو بتا ديتى اور يہ نا گوار حادثہ پيش نہ اتا ، ليكن اس بار ميں اس كو نہيں چھوڑ ں گى اور حجر كا انتقام ضرور لونگى ، خدا كى قسم ، حجر مومن اور مجاہد فى سبيل اللہ تھا(۴۹)

عائشه كا يہ كہنا كہ اگر ہم كو اس بات كا خوف نہ ہوتا كہ ہر بار ہميں انقلاب بر پا كرتے ہيں اور حالات كو دگر گوں بناتے ہيں تو اسكے امور كٹھنائي ميں پڑ جاتے ، وہ يہ ہے كہ _ عثمان كے خلاف لوگوں كو ورغلانے كى باگ ڈور اپ ہى كے ہاتھوں ميں تھى ، اور جو انكى نظر ميں امور سخت ہو گئے اسكى وجہ يہ ہے كہ حضرت امير المومنين (ع) تخت خلافت پر بيٹھ گئے ، يہ مسئلہ ام المومنين عائشه پر اسقدر گراں گذرا تھا كہ اپ دعا مانگتى تھيں كہ اسمان زمين پر پھٹ پڑے تاكہ سب نابود ہو جائيں _

ليكن خوش نصيبى يہ رہى كہ انكى ارزو نقش بر اب ہو كر رہ گئي اور امام عليہ السلام نے مسند خلافت كو زينت بخشى ،_ لہذا كمر ہمت باندھى تاكہ انقلاب بر پا كر كے خلافت كو امام (ع) كے چنگل سے چھيڑا ليں اسى بناء پر خونين جنگ جمل برپا كر دى اوراس ميں بھى كامياب نہ ہو پائيں اور نتيجہ ميں اپنے چچا زاد بھائي طلحہ اور انكے فرزند نيز بہنوئي زبير كو ہاتھوں سے كھو ڈالا اس حادثہ نے انكو رنج و غم كا تحفہ پيش كيا لہذا انكو ڈر تھا كہ كہيں معاويہ كے خلاف محاذ ارائي كى توشايد نا گوار حادثات پيش ائيں اور پہلے كى طرح پھر محنت پر پانى پھر جائے _

يہى وجہ تھى جو اپنے غصے كو پى گئيں اور معاويہ كے مقابلہ ميں سكوت اختيار كر ليا _

____________________

۴۹_ طبرى ج۴ ص ۱۹۲ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۰

۱۳۵

قتل حجر كے سلسلے ميں عائشه كى دوسرى باتيں تاريخ كى كتابوں ميں ياد گارى حيثيت سے موجود ہيں جو انكى سياسى گہرائي كى نشاندہى كرتى ہيں _

عائشه نے كہا _ خدا كى قسم _ اگر معاويہ نے اہل كو فہ كى بزدلى كا احساس نہ كيا ہوتا تو ہرگز جرا،ت و جسارت نہ كرتا كہ حجر اور انكے ساتھيوں كو قيد كر كے قتل كرتا _، ليكن فرزند جگر خوار نے عرب كى غيرت و حميت كو بھانپ ليا ہے كہ يہ لوگ اپنى غيرت و حميت كو كھو بيٹھے ہيں _

خدا كى قسم _ حجر اور انكے ساتھى شجاعت و حميت ميں بہت بلند تھے _

لبيد شاعر نے كتنا اچھا شعر كہا ہے :

ذهب الذ ين يعاش فى اكنافهم

و بقيت فى خلف كجلد الاجرب

لا ينفعون ولا يرجى خيرهم

ويعاب قائلهم و ان لم يشعب

ترجمہ : وہ لوگ چلے گئے جنكے بل بوتے پر زندگى گزارتے تھے اور ہم انكے بعد اسى طرح ہيں جيسے جذام شخص كى كھال كہ جو نہ نفع بخش ہے اور نہ ہى خير كى اميد ہے ، انكے بارے ميں كچھ كہنا گويا عيب ہے جبكہ ان لوگوں نے كوئي برائي بھى نہيں پھيلائي ہے(۵۰) _

قتل محمد بن ابى بكر

عائشه اور معاويہ كے درميان اختلاف كا دوسرا سبب جو بنا،وہ ان كے بھائي محمد بن بكر كا قتل ہے ابن عبد البر اور ابن اثير نقل كرتے ہيں _

جس سال معاويہ حج كرنے گيا تو زيارت قبر رسول (ص) كے نام پر مدينہ آيا _ قيام كے دوران ايك دن عائشه سے ملاقات كرنے گيا تو اپ نے سب سے پہلے جس بات كو چھيڑا وہ حجر بن عدى كا قتل تھا _

اس سلسلے ميں عائشه نے معاويہ كو بہت كچھ سنايا اس پر معاويہ نے كہا :

اے ام المومنين مجھے اور حجر كو ھنگام حشر تك چھوڑ ديجئے(۵۱)

____________________

۵۰_ اسد الغابہ ج۴ ص ۲۶۱ ، اغانى ج ۱۴ ص ۲۱۱

۵۱_اسد الغابة ، استيعاب حجر كے شرح حال ميں

۱۳۶

بعض مورخوں نے اس ملاقات كى داستان كو تفصيل سے لكھا ہے كہ معاويہ جيسے ہى بيٹھا تو عائشه نے كہا _ اے معاويہ تم كيسے اطمينان كے ساتھ ميرے گھر ميں اگئے ، تم نے خوف نہيں كھايا كہ كہيں ہم تم سے اپنے بھائي ( محمد بن بكر ) كے قتل كا بدلہ نہ لے ليں _

معاويہ نے جواب ديا ، ميں اپكے گھر ميں امان كے ساتھ وارد ہوا ہوں _

عائشه نے كہا ، اے معاويہ آيا حجر اور انكے ساتھيوں كو قتل كرنے ميں خدا سے خوف نہ كھايا معاويہ نے كہا ، حققيقت تو يہ ہے كہ جن لوگوں نے ان لوگوں كے خلاف شہادت دى تھى ان ہى نے انھيں مارا ہے(۱)

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں لكھتے ہيں :

عائشه نے جب يہ كہا كہ اے معاويہ تم كيسے ہمارے گھر ميں اگئے تو معاويہ نے جواب ديا اپ ہرگز ہم كو قتل نہيں كر سكتى ہيں كيونكہ گھر خانہ امن ہے اور ہم نے پيغمبر اسلام (ص) سے سنا ہے كہ خدا پر ايمان ركھنے والا ہرگز گھر ميں قتل نہيں كر سكتا _

معاويہ نے عائشه سے كہا _ اچھا يہ بتايئے كہ ہمارا برتائو اپ كے ساتھ كيسا ہے اور اپكى حاجت ابھى تك پورى ہوئي يا نہيں ؟

عائشه نے كہا _ بہت اچھا ہے

معاويہ نے كہا _ پھر مجھكو چھوڑ ديجئے اب ہم دونوں ايك دوسرے سے بارگاہ خدا وندى ميں ملاقات كرلينگے(۲)

جيساكہ كتب تاريخ ميں ہے كہ عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر ۳۷ھ ميں اور حجر بن عدى ۵۰ھ ميں قتل كئے گئے ، مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ ام المومنين عائشه كيوں اور كيسے تيرہ برس تك خاموش بيٹھى رہيں ، اور اپنے بھائي كے خون كا بدلہ لينے كے لئے ايك كلمہ بھى زبان پر نہ لائيں ، اور جب حجر اور انكے ساتھى مارے گئے تب اپنے بھائي كا درد ناك قتل ياد آيا ، ہم تو يہى سمجھتے ہيں كہ يہ مسئلہ اسوقت پيش آيا ہو گا جب ان دونوں كے روابط خراب ہو گئے ہو نگے ، اور جيسا كہ اپ نے

____________________

۱_استيعاب حجر كے شرح حال ميں

۲_مسند احمد ج۴ ص ۹۲

۱۳۷

ملاحظہ فرمايا كہ عائشه نے عبد الرحمن بن حرث كو مدينہ سے شام بھيجا تاكہ حجر اور انكے ساتھيوں كو معاويہ كے ہاتھوں چھوڑا لائيں اور اسكى خبر تمام بلاد اسلامى كے گوشہ و كنار تك پھيل گئي تھى ، اور اموى حكومت ميں عائشه كے نفوذ و رسوخ كا پہلے ہى سے لوگوں ميں ڈھونڈھورا پٹا ہوا تھا _، اور لوگ كافى اميد لگائے بيٹھے تھے كہ انكى سفارش حكومت اموى رد نہ كرے گى ، معاويہ انكو مايوس نہيں كرے گا چند دن نہيں گذرے تھے كہ اچانك نمايندہ نا اميد ہو كر واپس چلا آيا اور پہلى مرتبہ عائشه كو اپنے منھ كى كھانى پڑى _

اس واقعے نے تمام بلاد اسلامى ميں عائشه كى شخصيت كو كافى مجروح كيا كيونكہ خلفاء ثلاثہ كے زمانہ ميں بھى اپ كافى با رسوخ تھيں اور خلافت كى مشينرياں ( سوائے حكومت علوى كے ) ہميشہ انكى رائے كو احترام كى نگاہ سے ديكھتى تھيں _

مگر يہ پہلا موقع تھا كہ انكى سفارش ردّى كى ٹوكرى ميں ڈال دى گئي

جب اپ نے انكى تمام مقام و منزلت كو پہچان ليا تو اس واقعہ نے ضرور انكے اوپركوہ گراں كا كام كيا ہو گا اور خشم و كينہ نے انكو اتش فشاں پہاڑ بنا ڈالا ہو گا ، آيا يہى اسباب و عوامل باعث نہيں تھے كہ سالہا سال معاويہ سے گہرى دوستى اور ان تمام مراعات مالى كے باوجود معاويہ سے جھگڑنے لگيں ، اور اسكے برے افعال سے نقاب كشائي كرنے لگيں _

نيز اپنے بھائي كے خون ناحق كو باوجوديكہ تيرہ برس گذر چكا تھا ياد كرنے لگيں _

مكار سياستداں معاويہ نے بھى بھترى اسى ميں ديكھى كہ عائشه كے غصے كے سامنے ٹھنڈا رہے اور اپنى قديم دوستى كو ياد دلائے نيز جو محبت اور تحفے انكى خدمت ميں بھيجے تھے ان كو گوش گذار كرے _

ليكن جيسا كہ اس سے قبل اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ _ عائشه كوئي معمولى عورت نہ تھيں بلكہ ايك طاقتور ذہين عورت تھيں ابھى غصے سے ٹھنڈى بھى نہيں ہوئيں تھيں كہ معاويہ نے اسى وقت بجائے زخم پر مرہم كے انكے دل پر نمك چھڑك ديا كہ ، بيعت يزيد كى خاطر اس نے انكے بھائي كو مروايا ہے ، اچانك عبد الرحمن بن ابى بكر كى خبر مرگ كى وجہ سے عائشه اور معاويہ كے درميان پھر سے غيظ و غضب كے تازے شعلے بھڑ كنے لگے _

۱۳۸

عبد الرحمن بن ابى بكر كو زہر ديا گيا

عائشه اور معاويہ كے درميان تيسرا سبب جو اختلاف كا سمجھ ميں اتا ہے وہ انكے بھائي عبد الرحمن بن بكر كى ناگہانى موت ہے _

اپ نے اس سے پہلے ديكھا كہ جب معاويہ مسلمانوں كو بيعت يزيد كے لئے امادہ كر رہا تھا تو ايك دن حاكم مدينہ مروان بن حكم نے خطبے ميں يزيد كا نام لے ليا اور اسكو وليعہد بتانے لگا اس وقت عبد الرحمن كھڑے ہو گئے اور مروان كو خوب بر ا بھلا كہا :

مروان نے عبد الرحمن كو برا بھلا كہتے ہوئے ان جملوں كو استعمال كيا تھا كہ _ يہ وہى ادمى تو ہے جس كے بارے ميں قران ميں اس طرح آيا ہے كہ جس نے اپنے ماں باپ سے يہ كہا تھا كہ تمہارے لئے حيف ہے كہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو '' وَالَّذى قَالَ لولد َيہ اُف لّكُمَا أتعد أنني ''_ سورہ احقاف اية ۱۷

عائشه گھر ہى كے اندر سے چيخنے لگيں كہ خدا وند عالم نے ہمارے خاندان كے سلسلے ميں كوئي چيز نازل نہيں كى ہے _ ہاں _ اگر نازل كيا ہے تو ہمارى بے گناہى كو واقعہ افك ميں بيان كيا ہے(۳)

مشہور مورخ ابن اثير اس واقعہ كو يوں نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے يزيد كى بيعت لينے كے لئے اپنے والى و حاكم مروان كو خط بھيجا ، اس نے حسب دستور اپنے خطبے ميں كہا كہ _ امير المومنين معاويہ نے اپنا ايك وليعہد معين كر كے تم لوگوں پر احسان كيا ہے اور اس نيك كام ميں كوتا ہى نہيں كى اس عہدے پر اپنے فرزند يزيد كو نامزد كياہے عبد الرحمن نے جيسے ہى سنا فورا كھڑے ہو گئے اور كہنے لگے _

اے مروان _ معاويہ بھى جھوٹ كہتا ہے اور تم بھى جھوٹ بولتے ہو ، تم لوگوں نے عوام كى خير و صلاح كو مد نظر نہيں ركھا ہے بلكہ تم لوگ خلافت كو بادشاہت ميں تبديل كرنا چاہتے ہو _ جس طرح قيصر و كسرى كے بادشاہوں نے كيا كہ ايك مرا تو دوسرا بادشاہ اسكا جا نشين ہو گيا اور تم لوگ بھى ايسا ہى كرنا چاہتے ہو _

مروان نے كہا _ اے لوگو _ يہ وہى شخص ہے جس كے بارے ميں قران نے كہا كہ جس نے اپنے والدين سے يہ كہا كہ تمھارے لئے حيف ہے كہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو _

____________________

۳_ صحيح بخارى ج۳ ص ۱۲۶

۱۳۹

اس بات كو عائشه نے پس پردہ سن ليا تو اسى مقام سے فرياد بلند كرنے لگيں _

اے مروان _ اے مروان _ تمام لوگ خاموش ہو گئے مروان نے بحالت مجبورى انكى طرف رخ كيا _

عائشه نے كہا ، آيا تم وہى ہو كہ جس نے عبد الرحمن كے بارے ميں يہ كہا كہ اسكى قر ان ميں مذمت ائي ہے ، تم ايك نمبر كے جھوٹے ہو _

خدا كى قسم _ وہ اس آيت كا مخاطب نہيں ہے بلكہ كوئي دوسرا شخص ہے ، ليكن تم تو پہلے ہى سے ملعون خدا ہو(۴)

دوسرى روايت ميں يوں آيا ہے كہ تم جھوٹ بولتے ہو ، خدا كى قسم ، جو كچھ تم نے عبد الرحمن كى نسبت كہا ہے ان ميں سے وہ نہيں ہے البتہ رسول اكرم (ص) نے تمہارے باپ پر اس وقت نفرين كى جب تم اس كے صلب ميں تھے ، اور اس طرح تم پر پہلے ہى سے خدا كى پھٹكا ر ہے _

يہى وجہ تھى كہ مروان بن حكم نے بار ديگر بيعت يزيد كا بيڑا نہيں اٹھايا اور اس سے كنارہ كشى اختيار كر لي_

معاويہ نے ايك مدت كے بعد لوگوں كو دكھانے كے لئے حج كا سفر كيا پھر مدينہ آيا جس كو ہم نے مدينہ ميں وارد ہونے كے بعد جو واقعات پيش آئے ا س كو مختصر طور پر بيان كيا ہے

ليكن اس وقت دوسرے نكتے كى طرف توجہ مبذول كرانى ہے _

صاحب استيعاب ابن عبد البر لكھتے ہيں :

معاويہ مسجد نبوى كے منبر پر بيٹھا رہا اور لوگوں كو بيعت يزيد كى دعوت دى جس پر حضرت امام حسين، (ع) عبد اللہ بن زبير ، اور عبد الرحمن بن ابى بكر نے اس پر اعتراض كيا _ اور ان لوگوں كے درميان كافى تو تو ميں ميں ہوئي _

عبد الرحمن نے كہا _ اے معاويہ _ آيا خلافت بادشاہت ميں تبديل ہو گئي ہے كہ ايك بادشاہ دنيا سے گيا كہ اسكى جگہ دوسرا بادشاہ اگيا _

كسى طرح لوگوں كى رضايت كا خيال نہيں ہے ہم ہرگز بيعت نہيں كريں گے _

اسى رات معاويہ نے عبد الرحمن كے پاس ايك لاكھ درہم بھيجو آيا تاكہ بيعت يزيد پر راضى ہو جائيں _ ليكن انھوں نے اس رقم كو

____________________

۴_ ابن اثير ج۳ ص ۱۹۹

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213