تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 18%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63729 / ڈاؤنلوڈ: 4179
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہ تم لوگ بھى ہمارى طرح اسى جگہ پر اپنى رائے كو پيش كرو تاكہ بغير رائے كے اس كام كو انجام نہ ديا جائے ، حاضرين نے متفق الرائے ہو كر كہا كہ ہم لوگ عبد الرحمن بن خالد كى حكومت و خلافت سے راضى ہيں _

اس رائے نے معاويہ كو چكرا ديا كيونكہ اس نے سوچا تھا كہ لوگ ضرور يزيد كو اس كام كے لئے منتخب كريں گے ، اس نے اپنى موجودگى ميں ديكھ ليا كہ لوگوں نے يزيد كى طرف بالكل توجہ نہيں دى _

معاويہ اس پر اگ بگولا تو ہو گيا تھا ليكن لوگوں پر اظہار نہيں كيا ، كيونكہ اہل شام چاليس سال سے اس كى حكومت و سلطنت كے سائے ميں زندگى گزار رہے تھے اور ہميشہ خطرناك موقع پر اس كا ساتھ بھى ديئے تھے اسى بنا پر اپنے غصے كو پى گيا _

اب صرف فكر يہ تھى كہ اس كانٹے كو كيسے صاف كيا جائے ، جب عبد الرحمن بن خالد مريض ہوا تومعاويہ نے اپنے يہودى طبيب كو اس كى عيادت و علاج كرنے كے لئے بھيجا _ يہ طبيب معاويہ كا راز دار بھى سمجھا جاتا تھا لہذا معاويہ نے اسكو حكم ديا تھا كہ كسى حيلہ و بہانہ كے ذريعہ سے عبد الرحمن كو زہر ديدے _

ضمير فروش طبيب نے حكم معاويہ كے مطابق عبد الرحمن بن خالد كو مسموم كر ديا زہر اتنا خطرناك تھا كہ عبد الرحمن كا شكم چاك ہو گيا اور اس طرح دنيا سے چلا گيا(۲۹)

طبرى و ابن اثير اس واقعہ كو يوں نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے اپنے عيسائي طبيب جس كا نام ابن اثال تھا اسكو حكم ديا كہ جسطرح بھى ممكن ہو عبد الرحمن كو قتل كر دے ، اور اسكے بدلے ميں تمام عمر كا ٹيكس معاف ہو جائے گا نيز شہر حمص كا ٹيكس وصول كرے گا ، اس جنايت كار طبيب نے عبد الرحمن كو زہر ديكر معاويہ كى دلى مراد پورى كر دى _

معاويہ نے اس خدمت كے عوض ميں اپنا وعدہ ، وفا كيا(۳۰)

ابن عبد البر مزيد لكھتے ہيں كہ ، عبد الرحمن كى موت كے بعد اسكا بھائي جو دوسرى جگہ رہتا تھا خفيہ طور پر دمشق آيا اور اپنے

____________________

۲۹_ صحيح بخارى ج۳ ص ۱۲۶

۳۰_ ابن اثير ج۳ ص ۱۹۹ ، اغانى ج ۱۶ ص ۹۱ ، مستدرك ج۴ ص ۴۸۱ ، ابن كثير ج۸ ص۸۹ ، تہذيب ابن عساكر ج۴ ص ۲۲۶

۱۲۱

غلام كے ساتھ يہودى طبيب كے كمين ميں بيٹھ گيا _

جب طبيب شب كے سناٹے ميں معاويہ كے يہاں سے جانے لگا تو اس پر حملہ كر ديا جو اسكے ساتھى تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے لہذا اسكو وہيں پر مار ڈالا _

ابن عبد البراس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد لكھتا ہے كہ يہ واقعہ دانشوروں كے درميان بہت مشہور و معروف ہے _

يزيد كى بيعت مدينہ ميں

كتاب امامہ والسياسة ميں ابن قتيبہ نے يوں لكھا ہے :

'' معاويہ نے حاكم مدينہ مروان بن حكم كو خط ميں لكھا كہ اہل مدينہ سے يزيد كى بيعت كا مطالبہ كرو ، يہ بات مروان پر گراں گذرى تو تھى ہي، دوسرى طرف مدينہ كے سردار قريش كسى صورت ميں يزيد كى بيعت نہيں كر سكتے تھے ، لہذا مروان نے معاويہ كے پاس ايك خط روانہ كيا اور اس ميں يہ لكھا كہ تمہارے رشتہ دار يزيد كى بيعت سے كترا رہے ہيں لہذا تم اپنى رائے كو ميرے پاس لكھ كر بھيجو _

معاويہ مروان كے منفى جواب سے بہت غضبناك ہوا اور اسكو حاكم مدينہ كے عہدہ سے معزول كر ديا _ اور اسكى جگہ حاكم مدينہ سعيد بن عاص كو بنا ڈالا _

مروان بنى اميہ كے چند افراد كے ساتھ شام آيا اور غصے كے عالم ميں معاويہ سے ملاقات كى اور خوب معاويہ كو برا بھلا كہا ، ليكن سياستمدار معاويہ نے نہايت ٹھنڈے اور نرم لہجے ميں مروان سے گفتگو كى اور اس كى تنخواہ مزيد بڑھا كے راضى كيا اور واپس مدينہ بھيجديا(۳۱) _

معاويہ نے اس واقعے كے بعد ،يزيد كو بطور وليعہدبنانے كى نئي چال چلى كہ ، تمام سرداران بنى اميہ كے درميان پھوٹ ڈالديا ، ايك خط حاكم مدينہ سعيد بن عاص كو بھيجا اور اس ميں دستور ديا كہ مروان كے گھر كو مسمار كر ديا جائے اور تمام

___________________

۳۱_ استيعاب ج۲ ص ۳۷۳، اسد الغابہ ج۳ ص ۳۰۶ ، اصابہ ج۲ ص ۴۰۰

۱۲۲

اموال منجملہ باغ فدك بھى لے ليا جائے _

ابن اثير لكھتا ہے :

امير شام معاويہ نے ۴۵ھ ميں سعيد بن عاص كو حكومت مدينہ سے برخاست كر كے بار ديگر مروان بن حكم كو حاكم مدينہ بنا ديا ، سعيد بن عاص كو حاكم مدينہ كے عہدے سے معزول كرنے كى علت يہ تھى كہ معاويہ نے اس كو خط لكھا تھا ، كہ مروان كے گھر كو منہدم كر دے اور اسكى تمام جائيداد حتى فدك كو بھى چھين لے ، ليكن سعيد بن عاص نے معاويہ كے حكم سے سر پيچى كى ، دوسرى بار لكھا پھر بھى سعيد نے نہيں سنا ، اور ان دونوں خطوط كو اپنے پاس محفوظ كر ليا ، جب حكومت مدينہ سے معزول ہو گيا اور اسكى جگہ مروان حاكم بن گيا تو معاويہ نے اس كو خط لكھا كہ سعيد بن عاص كے گھر مسمار كر دے اور تمام جائيداد كو چھين لے _

مروان اپنے چند ساتھيوں سميت سعيد كے گھر كو ڈھانے كے لئے چل ديا _ سعيد اپنے گھر سے نكلا اورمروان سے پوچھا اے فرزند عبد الملك _ تم ہمارے گھر كو ڈھانے كے لئے آئے ہو ؟

مروان نے كہا _ جى ہاں _ امير المومنين معاويہ نے ايسا ايسا خط لكھا ہے اور اس ميں اس طرح كا حكم ديا ہے اگر وہ تم كو اس طرح كا حكم ديتا تو تم بھى ضرور اس كام كو انجام ديتے ؟

سعيد نے كہا _ ہم نے تو ايسا نہيں كيا ؟

مروان نے كہا _ جى نہيں _ خدا كى قسم اگر تمہيں معاويہ اس كام كو انجام دينے كے لئے لكھتا تو تم ضرور اس كا م كو انجام ديتے ؟

سعيد نے كہا ، ہم ہرگز ايسا نہيں كرتے ، پھر معاويہ كے ان دونوں خطوں كو اسے دكھلايا اور كہا _ معاويہ چاہتا ہے كہ ہمارے درميان اختلاف كى ديوار كھڑى كر دے _

جب مروان نے سعيد كے سلوك كو اس طرح پايا تو كہا ، خدا كى قسم تم ہم سے بہتر ہو ؟

اس واقعے كے بعد سعيد بن عاص نے ايك خط معاويہ كو يوں لكھا كہ بڑى تعجب كى بات ہے كہ تم اپنے رشتہ داروں كے ساتھ ايسا سلوك كر رہے ہو ، تم نے مصمم ارادہ كر ليا ہے كہ ہمارے درميان ايك دوسرے كے خلاف بغض و كينہ كى ديوار كھڑى كر كے دشمن بنا دو _ امير المومنين ( معاويہ ) تم نے ان تمام بر د بارى و صبر كے باوجود غصہ و عجلت سے كام ليا ہے

۱۲۳

_ بجائے عفو و بخشش كے اپنے رشتہ داروں ميں پھوٹ ڈالنے كى كو شش كى ہے تاكہ اس كينے كو ہمارے فرزند ميراث ميں بانٹ ليں _ ٹھيك ہے ہم ايك خليفہ زادے نہيں ہيں اور نہ كوئي قريبى رشتہ دارى ہے البتہ ہم نے قصاص خون عثمان ميں تمھارى نصرت كى ہے لہذا بہتر تھا كہ تم ہمارے ان حقوق كى رعايت كرتے جو تمھارى گردن پر تھے _

امير شام معاويہ كا جب يہ نقشہ ناكام ہو گيا تو بہت شرمندہ و پشيمان ہوا لہذا دكھانے كے لئے ايك خط سعيد كے پاس لكھا اور اس سے معافى مانگى(۳۲)

يزيد كى بيعت بليدان چاہتى ہے

معاويہ يزيد كو اپنا جانشين بنانے كے سلسلے ميں بہت پريشان ہو رہا تھا اسكو اس راہ ميں روكاوٹيں پيش ارہى تھيں جن كا حل بہت مشكل تھا ، لہذا ان موانع دور كرنے كى فكر ميں لگ گيا ايك طرف اس وقت امام و پيشوا ء سبط رسول (ص) حضرت امام حسن (ع) تھے ، دوسرى طرف عمر بن خطاب كى چھہ ركنى كميٹى كا ايك ممبر اور بڑا سردار سعد بن ابى وقاص موجو د تھا جسكو بعض لوگ اہميت كى نگاہ سے ديكھتے تھے _

مشہور مورخ ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :

معاويہ اپنے فرزند ( يزيد ) كى بيعت كا بہت خواہاں تھا ، ليكن اس راہ ميں سب سے بڑى اڑچن حضرت امام مجتبى (ع) اور سعد بن ابى وقاص تھے ، اس نے ان دونوں كو ہٹانے كے لئے خفيہ طور پر ان لوگوں كو زہر دلوايا اور يہ دونوں زہر كى بناء پر اس دار فانى سے رخصت ہو گئے(۳۳) امام حسن (ع) اور سعد بن ابى وقاص جو معاويہ كے ہدف ميں ركاوٹ بنے ہوئے تھے اسكى علت يہ تھى كہ سعد بن ابى وقاص عمر كى اس چھہ ركنى كميٹى كا اخرى ايك ممبر تھا ، جو خليفہ كے تعين كے لئے وجود ميں ائي تھى ، اسكے بعد ان لوگوں كا دماغ اتنا اونچا ہو گيا تھا كہ گويا خلافت و حكومت كے چلانے كى تمام صلاحتيں انھيں لوگوں ميں منحصر تھيں _

____________________

۳۲_ استيعاب ج۲ ص ۳۷۳

۳۳_طبرى ج۵ ص ۱۱

۱۲۴

ليكن امام حسن (ع) جو اپنى گذشتہ فضيلت و عظمت كے خاص مالك تھے انھوں نے معاويہ سے صلح كرتے وقت شرط ركھى تھى كہ امير شام معاويہ اپنے بعد كسى كو خليفہ نامزد نہيں كر سكتا ہے اور اسكو حق نہيں ہے كہ كسى دوسرے كو اپنا وليعہد بنائے(۳۴)

مورخين نے سعد بن ابى وقاص كے مارے جانے كى وضاحت نہيں كى ہے ، بس اتنا لكھا كہ انكو معاويہ نے زہر دلوايا ہے _ ليكن سبط رسول (ص) امام حسن (ع) كى شہادت كے سلسلے ميں چند دليليں پائي جاتى ہيں ، جو اس سانحے كى كسى حد تك وضاحت كرتى ہے _

مسعودى لكھتا ہے :

'' امير شام '' معاويہ نے خفيہ طور پر جعدہ بنت اشعث بن قيس كندى كے پاس زہر بھيجا تاكہ امام (ع) كو مسموم كر دے اور ساتھ ميں كچھ پيغامات بھى ارسال كئے كہ اگر تم نے امام حسن (ع) كوزہرديديا تو ايك لاكھ درہم ،مزيد اپنے بيٹے يزيد كے ساتھ شادى كر دوں گا ، يہى وہ دو باتيں تھيں جو جعدہ بنت اشعث كے لئے باعث ذلت بنيں اور اس نے اس كام كو انجام ديا ،جب امام عليہ السلام كو زہر ديديا تو معاويہ نے بعض وعدے پورے كئے جس ميں ايك لاكھ درہم شامل تھا ، اور جعدہ كے پاس پيغام بھيجوايا كہ ہم يزيد كى زندگى چاہتے ہيں _

لہذا دوسرا وعدہ جو تم سے شادى كرنے كا تھا اس سے معذور ہيں _ يعنى تم نے جس طرح اپنے شوہر كو وعدہ پر مسموم كر ديا ہے ممكن ہے اسى طرح ميرے بيٹے كو بھى زہر ديدو _ لہذا انھيں اسباب كى بنا ء پر ہم اپنے وعدے كو پورا نہيں كر سكتے ہيں(۳۵) معاويہ كى جنايتكار سياست نے حضرت مجتبى (ع) اور سعدبن ابى وقاص كو درميان سے صاف كر ديا تاكہ خلافت يزيد كى راہ ہموار ہو جائے اور جس طرح عبد الرحمن بن خالد كو نابود كيا تھا اسى طرح ان دونوں كو صفحہ ہستى سے مٹايا ،ہم سمجھتے ہيں كہ عبد الرحمن بن خالد اسى راہ ميں مارے گئے ہيں جسكى تفصيل ائندہ بيان ہو گى _

____________________

۳۴_ اسد الغابہ ج۳ ص ۲۸۴ ، طبقات ابن سعد ج۵ ص ۱ ، صحيح بخارى ج۳ ص ۱۱

۳۵_ بلاغات النساء ص ۸ ، تذكرة الخواص

۱۲۵

يزيد كى تاج پوشي

معاويہ نے بڑى جدو جہد كر كے مملكت كے گوشہ و كنار سے سرداروں اور بزرگان قبائل نيز با رسوخ افراد كو دمشق بلوايا اور يزيد كى زبر دستى بيعت لى _

مخالفين كو ڈرا دھمكا كر، تو كبھى منھ مانگى رقم ديكر، تو كبھى رياست كى لالچ ديكر لوگوں كو بيعت يزيد پر راضى كيا ، چند سال تك ايسا ہى ہوتا رہا _

مملكت اسلامى كے اكثر اہم علاقے امويوں كے اشارے پر چلنے لگے ليكن اس وقت دو اہم شہر مكہ و مدينہ كے لوگ اس اشارے پر نہيں چل رہے تھے اور يزيد كى بيعت تسليم نہيں كر رہے تھے _

امير شام معاويہ نے اپنے ساتھيوں كے ہمراہ حجاز كا سفر كيا تاكہ ان لوگوں سے يزيد كى بيعت لے ، اہل مكہ و مدينہ نے يزيد كى بيعت اس لئے نہيں كى كہ يہ لوگ اسلام سے اچھى طرح واقف تھے دوسرى طرف حسين بن على (ع) ، عبد اللہ بن زبير ، عبد اللہ بن عمر ، اور عبد الرحمن بن ابو بكر جيسے با رسوخ افراد اس شہر ميں موجود تھے _

ابن اثير لكھتا ہيں :

'' معاويہ نے يزيد كى بيعت لينے كے لئے لوگوں كو منھ مانگى رقم ديكر راضى كيا اور مخالفين سے خاطر و مدارات كر كے يزيد كى بيعت كروائي ، وہ اپنى سياست ميں يوں كا مياب رہا كہ لوگوں نے اپنے سرداروں پر بھروسہ كر كے يزيد كى بيعت كر لى _

جب اہل شام و عراق نے يزيد كى بيعت تسليم كر ليا تو معاويہ نے ہزاروں سواروں كے ساتھ حجاز كا سفر كيا ، مدينہ ميں سب سے پہلے حضرت امام حسين (ع) سے ملاقات ہوئي _

ابن اثير مزيد لكھتا ہے :

حضرت امام حسين (ع) كے علاوہ تين دوسرے افراد جو روساء شہر تھے انكى معاويہ سے تلخ كلامى ہوئي تو ان لوگوں نے اسكو منھ توڑ جواب ديا _

اس كے بعد ابن اثير لكھتا ہے كہ ، معاويہ نے ان چاروں افراد سے مدينہ ميں بيعت نہيں لى جب عائشه سے ملنے گيا تو

۱۲۶

انكو اس مڈ بھيڑ كى خبر معلوم ہو گئي تھى ، لہذا ام المومنين عائشه نے معاويہ سے كہا :

يہ لوگ كسى صورت ميں يزيد كى بيعت نہيں كرينگے ، معاويہ نے ان لوگوں كى شكايت عائشه سے كى تو انھوں نے اسكو خوب سمجھايا بجھايا ؟

ابن اثير نے معاويہ كے سفر مكہ كى داستان يوں نقل كيا ہے :

معاويہ جب مكہ انے والا تھا تو اہل مكہ كے ساتھ وہ چاروں افراد بھى استقبال كرنے كے لئے گئے معاويہ ان لوگوں سے كافى مہربانى سے پيش آيا اور ان لوگوں سے بار ديگر بيعت كا مطالبہ كيا عبد اللہ بن زبير نے كہا ، ہم تم كو تين پيشنھاد كرتے ہيں ان ميں سے ايك قبول كر لو_

۱_ جس طرح رسول اكرم (ص) نے اپنا جانشين نہيں بنايا اسى طرح تم بھى مت بنائو_

۲_ جس طرح ابو بكر نے قريش كے ايك فرد كو خلافت كے لئے چن ليا اور اپنے خاندان كے كسى فرد كو خليفہ نہيں بنايا _

۳_ عمر بن خطاب كى طرح كرو كہ انھوں نے خلافت كى كميٹى تشكيل ديدى تھى ليكن اس ميں اپنے فرزند كو نہيں ركھا تھا ،معاويہ نے عبد اللہ بن زبير سے كہا كہ اسكے علاوہ كوئي اور پيشكش نہيں ہے _

زبير نے جواب ديا ، نہيں _

معاويہ نے كہا ، ہم تم كو با خبر كر رہے ہيں كہ اگر تم نے كسى دوسرے كو اس رائے سے اگاہ كيا تو ياد دكھو كہ ہم تم كو معذور كرديں گے _

ابھى تقرير كرنے جا رہا ہوں خدا كى قسم _ اگر تم ميں سے كسى نے ہم پر اعتراض كيا تو قبل اسكے كہ تمھارا كلام ختم ہو سر تن سے جدا ہو جائے گا ، لہذا بہتر يہى ہے كہ تم لوگ اپنى اپنى حفاظت كرو ، پھر اپنے سپاہيوں كو حكم ديا كہ ہر ايك ادمى پر دو شمشير باز مسلط رہيں كہ اگر ايك حرف بھى اعتراض كا زبان سے نكلے فورا قتل كر ديا جائے _

۱۲۷

ان لوگوں كو اسى حالت ميں مسجد الحرام لايا گيا ، معاويہ منبر پر گيا حمد الہى كے بعد اپنى تقرير شروع كى ، ابتدا ئے تقرير ميں يوں كہا كہ ، يہ لوگ سردار و بزرگان اسلام نيز با عظمت افراد ہيں كسى بھى وقت انكى رائے كے خلاف كام انجام دينا نہيں چاہيئے ، اور ان لوگوں نے يزيد كى بيعت كر لى ہے ، اب تم لوگ خدا كے نام پر كھڑے ہو جاو اور يزيد كى بيعت كرو ، يہ كہنا تھا كہ چاروں طرف سے مجمع ٹوٹ پڑا اوريزيد كى بيعت ہو گى _

بيعت جيسے ہى تمام ہوئي فورا حكم ديا كہ سواريوں كو امادہ كرو پھر سوار ہو كر مدينہ كى طرف چل ديا ، اہل مدينہ سے بھى مكہ والوں كى طرح بيعت لى پھر شام پلٹ گيا _

مگر حضرت امام حسين (ع) اور انكے دوسرے ساتھيوں كى جھوٹى بيعت كا راز فاش ہو گيا ، لوگوں نے جب ان لوگوں سے سوال كيا كہ تم لوگوں نے تو يہ فيصلہ كيا تھا كہ ہرگز بيعت نہيں كريں گے پھر كيوں بڑى سادگى كے ساتھ يزيد كى بيعت كر لي_

ان لوگوں نے معاويہ كى مكارانہ چال كو بيان كيا اور ان لوگوں كوجو جان لينے كى دھمكى دى تھى اسكو بيان كيا(۳۶)

ہم نے معاويہ كى زندگى ميں انے والے حوادث كا بہت غور سے جائزہ ليا تو ہم اس نتيجہ تك پہونچے كہ معاويہ كے دور ميں جھوٹى حديثوں كے گڑھنے كى وجہ كو سمجھنے كے لئے اسكے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے كہ

۱_ معاويہ كى پيچيدہ شخصيت كو پھر سے جانچا جائے

۲_ معاويہ كى ام المومنين عائشه سے دانٹ كا ٹى دوستى كن وجوہات كى بناء پر ہوئي ، يہ وہ مباحث ہيں جو ہم ائندہ پيش كريں گے _

___________________

۳۶_ ابن اثير ج۳ ص ۲۱۸ ، عقد الفريد ج۳ ص ۱۳۱

۱۲۸

فصل چہارم

عائشه اور امويوں ميں دوستى كے اسباب

اپ نے پہلے ديكھا كہ معاويہ نے حضرت على (ع) سے دشمنى و عناد ركھنے كى وجہ سے كتنا ان سے ٹكر ليا اور انكى حكومت كے زمانے ميں كس قدر جنگ اور مقابلہ كيا _

ليكن جب حضرت امير المومنين (ع) (على (ع) ) نے مسجد كو فہ ميں جام شہادت نوش فرماليا تو اپنى مقاومت كو جنگ سرد ميں تبديل كر كے ايك لمحہ بھى امام عليہ السلام كو بر ا بھلا كہنے سے باز نہ آيا _

نيز اپ نے يہ بھى ديكھا ہو گا كہ عائشه نے امير المومنين (ع) سے كتنى بھيانك جنگ لڑى ، اور جب امام (ع) ابن ملجم كے ہا تھوں شھيد ہو گئے اور اسكى خبر عائشه كو معلوم ہوئي تو خوشى كے مارے سجدہء شكر ادا كيا(۳۷) پھر اس شعر كو پڑھا كہ جس كا ترجمہ يہ ہے _

على (ع) گزر گئے اور اب انكى واپسى نہيں ہو گى مجھے انكى موت سے اپنے دل كو اتنى خوشى ہو رہى ہے جيسے خاندان كا كوئي مسافر اپنا عزيزتر رشتہ دار گھر واپس انے سے خوش ہوتا ہے _ ہاں _ على (ع) كى موت سے ميرى انكھيں ٹھنڈى ہو گئيں _

فالقت عصا ها و استقر بها النوى كما قر عينا بالاياب المسافر

خاندان علوى (ع) سے عائشه كى عداوت اتش اتنى بھڑ كى ہوئي تھى كہ حتى شوہر كے نواسے سے پردہ كر ليا اور ان سے ملاقات نہيں كى(۳۸)

جو كچھ يعقوبى اور ابو الفرج اصفہانى نے اس زمانے كے واقعات بيان كئے ہيں اگر اس پر غور كيا جائے تو معلوم ہوگا كہ عائشه كى دشمنى خاندان علوي(ع) سے اسى طرح باقى رہى اور اس ميں ذرا برابر كمى نہيں ائي يہى وجہ تھى جو عائشه اور بنى اميہ كے درميان بطور عموم اور خاص طور پر معاويہ سے گٹھ بندھن رہا _

____________________

۳۷_ طبرى ج۶ ص ۱۶۰ _ ۱۵۵

۳۸_ طبقات الكبرى ج۸ ص ۷۳

۱۲۹

يعقوبى لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) نے وقت احتضار اپنے بھائي امام حسين (ع) سے كچھ وصيتيں كيں ، ان ميں ايك يہ تھى كہ اگر ميں اس دنيا سے چلا جائوں تو مجھے جدّ بزرگوار رسول اكرم (ص) كے پہلو ميں دفن كرنا كيونكہ مجھ سے زيادہ كوئي حقدار نہيں ہے ، ليكن اگر كوئي ممانعت پيش آئے اور ميرى اخرى ارزو پورى نہ ہو سكے تو اس وقت حتى الامكان كو شش كرنا كہ ايك قطرہ خون زمين پر نہ گرنے پائے ، جب امام عليہ السلام كى شہادت ہو گئي اور تجہيز و تكفين كے بعد اہل خاندان جسد مبارك كو ليكر قبر رسول (ص) كى طرف جانے لگے تو بقول مقاتل الطالبين ام المومنين عائشه خچر پر سوار ہوئيں اور انكے ساتھ بنى اميہ جنھوں نے اپنے گناہ كو انكے كاندھے پر ڈالديا تھا جسد مبارك اور جو لوگ جنازہ ميں شريك تھے انكو قبر رسول (ص) كى جانب جانے سے روك ديا اس فعل نا شائستہ پر ايك مشہور شعر كہا گيا _

ايك دن خچر پر تو ايك روز اونٹ پر سوار ہوئيں ،فيوماََعلى بغل و يوماََعلى جمل (۳۹) _

يعقوبى لكھتا ہے:

مروان بن حكم اور سعيد بن عاص سوار ہوئے اور فرزند رسول (ص) كے جنازہ كو جد بزرگوار كے پہلو ميں دفن كرنے سے منع كيا ، عائشه خچر پر سوار ہو كر مجمع عام ميں ائيں اور وا ويلا مچانا شروع كر ديا كہ يہ گھر ميرا ہے اور اس ميں كسى كو دفن كرنے كى اجازت نہيں ديتى ہوں _

ابو بكر كا پوتا قاسم نے جواب ديا ، اے پھوپھى _ ہمارے سر ابھى تك جنگ جمل كے خون سے صاف نہيں ہوئے ہيں آيا اپ چاہتى ہيں كہ انے والا دن خچر كا دن كہلائے _

ليكن لشكر علوى (ع) بھى خاموش نہيں بيٹھا بلكہ بعض لوگ حضرت امام حسين (ع) كے پاس گئے اور عرض كيا اقا ہم لوگوں كو ال مروان سے نپٹنے كے لئے جانے ديجئے خدا كى قسم _ يہ لوگ ہمارى نظروں ميں ايك لقمہ سے زيادہ نہيں ہيں _

امام عليہ السلام نے فرمايا _ ميرے بھائي نے وصيت كى ہے كہ ميرے جنازے كى خاطر ايك قطرہ بھى خون كانہ بہانا ، اسكے بعد امام حسن (ع) كا جنازہ قبر ستان بقيع ليجايا گيا اور دادى فاطمہ بنت اسد جو حضرت امير المومنين (ع) (على (ع) ) كى ماں تھيں

____________________

۳۹_ مقاتل الطالبين ص ۷۵ ، يعقوبى ج۲ ص ۲۰۰

۱۳۰

كے پہلو ميں دفن كيا گيا(۴۰)

ام المومنين عائشه كى يہ تمام كار كردگى اہلبيت (ع) سے كينہ و دشمنى كى علامت تھى يہى وجہ تھى جو عائشه اور بنى اميہ خاص طور سے معاويہ كے درميان دانت كاٹى دوستى كى باعث بنى _ معاويہ اور اس كے حكمرانوں نے خوب تعظيم و تكريم كى اور اپ (عائشه ) كو ہديہ و تحفے بھيج كر مالى تعاون كيا _

معاويہ كے تحفے

جس گھڑى محقق، معتبر تاريخ كے متون كو بغور ديكھتا ہے تو عائشه اور حكومت اموى كے درميان گہرى دوستى كى شگفت اميز علامت پاتا ہے _

جبكہ يہ دونوں گروہ پہلے اپس ميں ايك دوسرے كے بہت مخالف تھے ، اور قتل عثمان كے مسئلہ ميں ايك دوسرے سے نوك جھونك بھى ہوئي تھى ، ليكن مصلحت وقت نے ايك دوسرے كو كافى نزديك كر ديا تھا اور وہ ايك لشكر كى شكل ميں ہو گئے تھے _

حكومت اموى كى مراعات مالى نے عائشه سے زيادہ قريب كر ديا اور متعدد بار اموال كثير نيز قيمتى تحفے معاويہ كى طرف سے اور دوسرے روساء حكومت اموى نے انكى خدمت ميں بھيجے ، ہم نے ان تمام دليلوں كو معتبر تاريخ سے جمع كيا ہے اور اپنے مدعى كو ثابت كرنے كے لئے اپكى خدمت ميں چند نمونے پيش كرتے ہيں _

ابو نعيم اصفہانى حلية اولياء ميں عبد الرحمن بن قاسم سے نقل كرتے ہيں

ايك مرتبہ معاويہ نے عائشه كى خدمت ميں مختلف تحفے بھيجے جن ميں لباس و پيسے نيز قيمتى چيزيں بھى تھيں(۴۱)

يہى ابو نعيم اصفہانى عروہ بن زبير سے نقل كرتا ہے _

معاويہ نے دوسرى مرتبہ ايك لاكھ درہم نقد عائشه كے پاس بھيجا(۴۲)

____________________

۴۰_ يعقوبى ج۲ ص ۲۰۰ كے بعد

۴۱_ حلية الاولياء ج۲ ص ۴۸

۴۲_ حلية الاولياء ج۲ ص ۴۷

۱۳۱

اٹھويں صدى كا مشہور مورخ ابن كثير عطاء سے روايت كرتا ہے _

معاويہ نے مكہ سے عائشه كے پاس ايك قيمتى ہار بطور ہديہ بھيجا جسكى قيمت ايك لاكھ درہم تھى اور اس تحفہ كو ام المومنين عائشه نے قبول كيا(۴۳)

طبقات الكبرى ميں يوں آيا ہے كہ ، منكدر بن عبد اللہ ام المومنين عائشه كے يہاں گيا تھوڑى دير گفتگو كے بعد عائشه نے پوچھا ، آيا فرزند ركھتے ہو ؟

منكدر بن عبد اللہ نے جواب ديا كہ ، نہيں _

عائشه نے كہا _ اگرہم اس وقت دس ہزار درہم كے مالك ہوتے تو تمھيں دے ديتى تاكہ اس سے كنيز خريد ليتے اور اس سے صاحب اولاد ہوتے ، يہ ملاقات تمام ہو گئي اتفاق سے اسى روز غروب كے وقت معاويہ كى طرف سے كافى مقدار ميں رقم اگئي _

عائشه نے كہا _ كتنى جلدى اپنى مراد تك پہونچ گئي

پھر ہميں ا پنے يہاں بلايا اور دس ہزار درہم ديئے ميں نے اس رقم سے ايك كنيز خريد لى(۴۴)

ايك دوسرا واقعہ ابن كثير سعد بن عزيز سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے ايك بار عائشه كا اٹھارہ ہزار دينار قرض چكايا جو انھوں نے لوگوں سے لے ركھا تھا(۴۵)

اپ حضرات نے يہاں تك معاويہ كى عائشه كى نسبت مراعات مالى كا نمونہ ملاحظہ فرمايا _ يہ صرف معاويہ نے ايسا نہيں كيا بلكہ اموى روساء بھى اسى راہ پر گامزن رہے اور كبھى كبھار انكى خدمت ميں تحائف بھيجتے رہتے تھے ، جن ميں ايك حاكم بصرہ عبد اللہ بن عامر ہے كہ جس نے ايك مرتبہ عائشه كے پاس پيسے اور لباس كى شكل ميں تحفے بھيجے _(۴۶)

صدياں گذرنے كے بعد جب مورخين نے حكومت اموى كى طرف سے عائشه كى مالى مدد كا اس مقدار ميں تذكرہ كيا ہے تو يقينا اسكى مقدار اس سے كہيں زيادہ رہى ہو گى اور حكومت جو عائشه كا احترام كرتى تھى وہ صرف دنيا وى مصالح اور

____________________

۴۳_ ابن كثير ج۷ ص ۱۳۷ ، سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۱

۴۴_ طبقات الكبرى ج۵ ص ۱۸

۴۵_ ابن كثير ج۸ ص ۱۳۶

۴۶_ مسند احمد ج۶ ص ۷۷

۱۳۲

مفاد پرستى كيو جہ سے تھا اور وہ بھى جو كچھ احترام كرتى تھيں وہ اپنے مفاد كى خاطر تھا _

ان مفاد پرستى كيوجہ سے اسلام و مسلمين كو جو نقصانات پہونچے ہيں انھيں ائندہ بيان كروں گا _

* * *

اموى حكومت ميں ، عائشه كا رسوخ

قارئين كرام جو كچھ ہم نے عائشه كى زندگى اور انكى سياسى و اجتماعى كارنامے كو بيان كيا ہے اگر اپ حضرات اس پر غور كريں گے تو ان كى سياسى سوجھ بوجھ پہچاننے ميں كوئي دشوارى نہيں ہو گى عائشه سياست اور معاشراتى نفوذ كے لحاظ سے ان صفات كى حامل تھيں جو ايك سياستدان كے لئے بہت ضرورى ہے وہ اپنے زمانے ميں سب پر حاوى تھيں _ اس بات كو ہم بعد كے صفحات ميں بھى مختلف طريقوں سے پيش كرينگے _

ان كى پہلى خاصيت يہ تھى كہ انكى بات سب كے دل ميں اتر جاتى تھي

صاحب طبقات كبرى لكھتے ہيں _مرہ بن ابى عثمان جو عبد الرحمن بن ابو بكر كا ازاد كردہ تھا ، ايك روز عبد الرحمن كے پاس آيا اور ان سے درخواست كى كہ ايك خط زياد كو لكھديں تاكہ حاجت پورى ہو جائے _

عبد الرحمن نے خط يوں لكھا كہ زياد كو بجائے ابو سفيان كا بيٹا قرار دينے كہ اسكو عبيد كا فرزند لكھ ديا _ جب مروہ بن عثمان نے خط كو ديكھا تو عبد الرحمن سے كہا كہ ہم اس خط كو زياد كے پاس لے كر نہيں جائيں گے كيونكہ ہمارى حاجت اس خط سے پورى نہيں ہو سكتى پھر وہ عائشه كے پاس آيا اور ان سے وہى درخواست كى _ ام المومنين عائشه نے اس طرح زياد كو خط لكھا _

يہ خط ام المومنين عائشه كى طرف سے ہے زياد بن ابو سفيان _ مرہ خط ليكر زياد كے يہاں گيا ، اس نے خط پڑھنے كے بعد كہا ، تم ابھى چلے جائو اور كل صبح سويرے ميرے پاس انا تو ہم تمہارى حاجت كو پورا كر دينگے _

مرہ بن ابى عثمان دوسرے روز زياد كے يہاں گيا تو كيا ديكھا كہ حاضرين كى ايك بڑى تعداد ہے زياد نے اپنے غلام سے خط پڑھنے كو كہا ، اس نے عائشه كے خط كو پڑھا يہ خط ہے ام المومنين كى طرف سے زياد بن ابو سفيان كو _ خط كے تمام

۱۳۳

ہونے كے بعد زياد نے مرہ بن عثمان كى حاجت پورى كر ديا(۴۷)

ياقوت حموى اسى داستان كو ( نہر مرّہ ) كے مادہ ميں اپنى جغرافيائي انسائيكلوپيڈيا ميں لكھتے ہيں _

زياد عائشه كے خط سے اتنا خوش ہوا كہ اس نے مرہ كا خوب اكرام كيا اور خط تمام ہونے كے بعد اس نے لوگوں سے كہا : يہ خط ام المومنين عائشه نے ميرے نام لكھا ہے ، پھر حكم ديا كہ مرّہ بن عثمان كو سو (۱۰۰)ايكڑ زمين نہر ابلہ كے كنارے ديديا جائے اور اس ميں زمين كى ابيارى كرنے كے لئے ايك كنواں كھودا جائے ، يہى وہ نہر ہے جو ( مرّہ ) كے نام سے مشہور ہوئي _

اس واقعہ سے جو نتيجہ نكلتا ہے وہ يہ ہے كہ زياد نے نوشتہ عائشه اور رسوخ كلام سے اپنا فائدہ اٹھايا ، كيونكہ ام المومنين نے اسكو ابو سفيان كا بيٹا تسليم كيا ، اور اپنے خط ميں اسى عنوان سے مخاطب كيا ، يہى وجہ تھى كہ بہت خوش ہوا اور حكم ديا كہ انكے خط كو مجمع عام ميں پڑھا جائے تاكہ دوسرے لوگ بھى اس بات كو جان ليں كہ دور حاضر كى بزرگ شخصيت عائشه بھى اسكے نسب اعلى كو پہچانتى ہيں ، اور سابق رئيس قريش ابو سفيان كا بيٹا اور خليفہ وقت كابھائي جانتى ہيں _

عائشه نے ديگر مواقع پر بھى زياد كو خط لكھا اور اس ميں لوگوں كى رعايت مالى كا خيال ركھنے كى تاكيد كى جسكے جواب ميں زياد نے خط بھيجا كہ مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ جيسے ہم اپنے ماں باپ كے سايہ عاطفت ميں زندگى بسر كر رہے ہيں(۴۸) _

عائشه اور معاويہ كا ايك دوسرے پر چوٹ

عداوت على ميں اگر چہ عائشه كى معاويہ سے ايك دانت كاٹى دوستى ہو گئي تھى _ ليكن بعد ميں ايسے اسباب پيدا ہو گئے جنكى وجہ سے ان دونوں ميں دورى ہو گئي _ اور رفتہ رفتہ ايك جنگ سرد ميں تبديل ہو گئي تھى _

معاويہ نے شب و روز كى تگ و دو كے بعد زمام حكومت كو ہاتھ ميں لے ليا مگر وہ اس پر بھى خوش نہيں تھا بلكہ اسكى خواہش يہ تھى كہ اپنى حكومت و سلطنت كو مورو ثى بنا ڈالے يہ مسئلہ اسوقت اور بھيانك ہو گيا جب اسكے قديم دوست جو مختلف گروہوں ميں بٹے تھے حكومت كو خاندانى بنانے ميں كسى طرح راضى نہيں ہوئے لہذا معاويہ نے اپنے بھيانك

____________________

۴۷_ طبقات ج۷ ص ۹۹

۴۸_ عقد الفريد ج۴ ص ۲۱۷

۱۳۴

چہرے كو ظاہر كر ديا _

ام المومنين عائشه ان حالات ميں معاويہ كے مخالف گروہ سے جا مليں اور معاويہ سے اپنى دوستى تو ڑ ڈالى _

عائشه اور معاويہ كے درميان پہلا اختلاف اس بات پر ہوا كہ اس نے شير كو فہ محب على حجر بن عدى كو قتل كر ديا _

ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :

عائشه نے اپنا نمائندہ عبد الرحمن بن حرث كو شام بھيجا تاكہ معاويہ سے حجر اور ان كے ساتھيوں كے لئے سفارش كرے مگر عبد الرحمن اسوقت دمشق پہونچا كہ معاويہ نے ان لوگوں كو شھيد كر ڈالا تھا _ فرستادہ عائشه مايوس و نا اميد ہو كر واپس چلا آيا اور اس نے پورى داستان بيان كى ، جب عائشه نے ان باتوں كو سنا تو بہت ناراض ہوئيں اور كہنے لگيں كہ ،اگر ہم كو اس كا خوف لاحق نہ ہوتا كہ ہم ہى ہر بار اوضاع كو خراب كرتے ہيں تو اسكو بتا ديتى اور يہ نا گوار حادثہ پيش نہ اتا ، ليكن اس بار ميں اس كو نہيں چھوڑ ں گى اور حجر كا انتقام ضرور لونگى ، خدا كى قسم ، حجر مومن اور مجاہد فى سبيل اللہ تھا(۴۹)

عائشه كا يہ كہنا كہ اگر ہم كو اس بات كا خوف نہ ہوتا كہ ہر بار ہميں انقلاب بر پا كرتے ہيں اور حالات كو دگر گوں بناتے ہيں تو اسكے امور كٹھنائي ميں پڑ جاتے ، وہ يہ ہے كہ _ عثمان كے خلاف لوگوں كو ورغلانے كى باگ ڈور اپ ہى كے ہاتھوں ميں تھى ، اور جو انكى نظر ميں امور سخت ہو گئے اسكى وجہ يہ ہے كہ حضرت امير المومنين (ع) تخت خلافت پر بيٹھ گئے ، يہ مسئلہ ام المومنين عائشه پر اسقدر گراں گذرا تھا كہ اپ دعا مانگتى تھيں كہ اسمان زمين پر پھٹ پڑے تاكہ سب نابود ہو جائيں _

ليكن خوش نصيبى يہ رہى كہ انكى ارزو نقش بر اب ہو كر رہ گئي اور امام عليہ السلام نے مسند خلافت كو زينت بخشى ،_ لہذا كمر ہمت باندھى تاكہ انقلاب بر پا كر كے خلافت كو امام (ع) كے چنگل سے چھيڑا ليں اسى بناء پر خونين جنگ جمل برپا كر دى اوراس ميں بھى كامياب نہ ہو پائيں اور نتيجہ ميں اپنے چچا زاد بھائي طلحہ اور انكے فرزند نيز بہنوئي زبير كو ہاتھوں سے كھو ڈالا اس حادثہ نے انكو رنج و غم كا تحفہ پيش كيا لہذا انكو ڈر تھا كہ كہيں معاويہ كے خلاف محاذ ارائي كى توشايد نا گوار حادثات پيش ائيں اور پہلے كى طرح پھر محنت پر پانى پھر جائے _

يہى وجہ تھى جو اپنے غصے كو پى گئيں اور معاويہ كے مقابلہ ميں سكوت اختيار كر ليا _

____________________

۴۹_ طبرى ج۴ ص ۱۹۲ ، اغانى ج ۱۶ ص ۱۰

۱۳۵

قتل حجر كے سلسلے ميں عائشه كى دوسرى باتيں تاريخ كى كتابوں ميں ياد گارى حيثيت سے موجود ہيں جو انكى سياسى گہرائي كى نشاندہى كرتى ہيں _

عائشه نے كہا _ خدا كى قسم _ اگر معاويہ نے اہل كو فہ كى بزدلى كا احساس نہ كيا ہوتا تو ہرگز جرا،ت و جسارت نہ كرتا كہ حجر اور انكے ساتھيوں كو قيد كر كے قتل كرتا _، ليكن فرزند جگر خوار نے عرب كى غيرت و حميت كو بھانپ ليا ہے كہ يہ لوگ اپنى غيرت و حميت كو كھو بيٹھے ہيں _

خدا كى قسم _ حجر اور انكے ساتھى شجاعت و حميت ميں بہت بلند تھے _

لبيد شاعر نے كتنا اچھا شعر كہا ہے :

ذهب الذ ين يعاش فى اكنافهم

و بقيت فى خلف كجلد الاجرب

لا ينفعون ولا يرجى خيرهم

ويعاب قائلهم و ان لم يشعب

ترجمہ : وہ لوگ چلے گئے جنكے بل بوتے پر زندگى گزارتے تھے اور ہم انكے بعد اسى طرح ہيں جيسے جذام شخص كى كھال كہ جو نہ نفع بخش ہے اور نہ ہى خير كى اميد ہے ، انكے بارے ميں كچھ كہنا گويا عيب ہے جبكہ ان لوگوں نے كوئي برائي بھى نہيں پھيلائي ہے(۵۰) _

قتل محمد بن ابى بكر

عائشه اور معاويہ كے درميان اختلاف كا دوسرا سبب جو بنا،وہ ان كے بھائي محمد بن بكر كا قتل ہے ابن عبد البر اور ابن اثير نقل كرتے ہيں _

جس سال معاويہ حج كرنے گيا تو زيارت قبر رسول (ص) كے نام پر مدينہ آيا _ قيام كے دوران ايك دن عائشه سے ملاقات كرنے گيا تو اپ نے سب سے پہلے جس بات كو چھيڑا وہ حجر بن عدى كا قتل تھا _

اس سلسلے ميں عائشه نے معاويہ كو بہت كچھ سنايا اس پر معاويہ نے كہا :

اے ام المومنين مجھے اور حجر كو ھنگام حشر تك چھوڑ ديجئے(۵۱)

____________________

۵۰_ اسد الغابہ ج۴ ص ۲۶۱ ، اغانى ج ۱۴ ص ۲۱۱

۵۱_اسد الغابة ، استيعاب حجر كے شرح حال ميں

۱۳۶

بعض مورخوں نے اس ملاقات كى داستان كو تفصيل سے لكھا ہے كہ معاويہ جيسے ہى بيٹھا تو عائشه نے كہا _ اے معاويہ تم كيسے اطمينان كے ساتھ ميرے گھر ميں اگئے ، تم نے خوف نہيں كھايا كہ كہيں ہم تم سے اپنے بھائي ( محمد بن بكر ) كے قتل كا بدلہ نہ لے ليں _

معاويہ نے جواب ديا ، ميں اپكے گھر ميں امان كے ساتھ وارد ہوا ہوں _

عائشه نے كہا ، اے معاويہ آيا حجر اور انكے ساتھيوں كو قتل كرنے ميں خدا سے خوف نہ كھايا معاويہ نے كہا ، حققيقت تو يہ ہے كہ جن لوگوں نے ان لوگوں كے خلاف شہادت دى تھى ان ہى نے انھيں مارا ہے(۱)

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں لكھتے ہيں :

عائشه نے جب يہ كہا كہ اے معاويہ تم كيسے ہمارے گھر ميں اگئے تو معاويہ نے جواب ديا اپ ہرگز ہم كو قتل نہيں كر سكتى ہيں كيونكہ گھر خانہ امن ہے اور ہم نے پيغمبر اسلام (ص) سے سنا ہے كہ خدا پر ايمان ركھنے والا ہرگز گھر ميں قتل نہيں كر سكتا _

معاويہ نے عائشه سے كہا _ اچھا يہ بتايئے كہ ہمارا برتائو اپ كے ساتھ كيسا ہے اور اپكى حاجت ابھى تك پورى ہوئي يا نہيں ؟

عائشه نے كہا _ بہت اچھا ہے

معاويہ نے كہا _ پھر مجھكو چھوڑ ديجئے اب ہم دونوں ايك دوسرے سے بارگاہ خدا وندى ميں ملاقات كرلينگے(۲)

جيساكہ كتب تاريخ ميں ہے كہ عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر ۳۷ھ ميں اور حجر بن عدى ۵۰ھ ميں قتل كئے گئے ، مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ ام المومنين عائشه كيوں اور كيسے تيرہ برس تك خاموش بيٹھى رہيں ، اور اپنے بھائي كے خون كا بدلہ لينے كے لئے ايك كلمہ بھى زبان پر نہ لائيں ، اور جب حجر اور انكے ساتھى مارے گئے تب اپنے بھائي كا درد ناك قتل ياد آيا ، ہم تو يہى سمجھتے ہيں كہ يہ مسئلہ اسوقت پيش آيا ہو گا جب ان دونوں كے روابط خراب ہو گئے ہو نگے ، اور جيسا كہ اپ نے

____________________

۱_استيعاب حجر كے شرح حال ميں

۲_مسند احمد ج۴ ص ۹۲

۱۳۷

ملاحظہ فرمايا كہ عائشه نے عبد الرحمن بن حرث كو مدينہ سے شام بھيجا تاكہ حجر اور انكے ساتھيوں كو معاويہ كے ہاتھوں چھوڑا لائيں اور اسكى خبر تمام بلاد اسلامى كے گوشہ و كنار تك پھيل گئي تھى ، اور اموى حكومت ميں عائشه كے نفوذ و رسوخ كا پہلے ہى سے لوگوں ميں ڈھونڈھورا پٹا ہوا تھا _، اور لوگ كافى اميد لگائے بيٹھے تھے كہ انكى سفارش حكومت اموى رد نہ كرے گى ، معاويہ انكو مايوس نہيں كرے گا چند دن نہيں گذرے تھے كہ اچانك نمايندہ نا اميد ہو كر واپس چلا آيا اور پہلى مرتبہ عائشه كو اپنے منھ كى كھانى پڑى _

اس واقعے نے تمام بلاد اسلامى ميں عائشه كى شخصيت كو كافى مجروح كيا كيونكہ خلفاء ثلاثہ كے زمانہ ميں بھى اپ كافى با رسوخ تھيں اور خلافت كى مشينرياں ( سوائے حكومت علوى كے ) ہميشہ انكى رائے كو احترام كى نگاہ سے ديكھتى تھيں _

مگر يہ پہلا موقع تھا كہ انكى سفارش ردّى كى ٹوكرى ميں ڈال دى گئي

جب اپ نے انكى تمام مقام و منزلت كو پہچان ليا تو اس واقعہ نے ضرور انكے اوپركوہ گراں كا كام كيا ہو گا اور خشم و كينہ نے انكو اتش فشاں پہاڑ بنا ڈالا ہو گا ، آيا يہى اسباب و عوامل باعث نہيں تھے كہ سالہا سال معاويہ سے گہرى دوستى اور ان تمام مراعات مالى كے باوجود معاويہ سے جھگڑنے لگيں ، اور اسكے برے افعال سے نقاب كشائي كرنے لگيں _

نيز اپنے بھائي كے خون ناحق كو باوجوديكہ تيرہ برس گذر چكا تھا ياد كرنے لگيں _

مكار سياستداں معاويہ نے بھى بھترى اسى ميں ديكھى كہ عائشه كے غصے كے سامنے ٹھنڈا رہے اور اپنى قديم دوستى كو ياد دلائے نيز جو محبت اور تحفے انكى خدمت ميں بھيجے تھے ان كو گوش گذار كرے _

ليكن جيسا كہ اس سے قبل اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ _ عائشه كوئي معمولى عورت نہ تھيں بلكہ ايك طاقتور ذہين عورت تھيں ابھى غصے سے ٹھنڈى بھى نہيں ہوئيں تھيں كہ معاويہ نے اسى وقت بجائے زخم پر مرہم كے انكے دل پر نمك چھڑك ديا كہ ، بيعت يزيد كى خاطر اس نے انكے بھائي كو مروايا ہے ، اچانك عبد الرحمن بن ابى بكر كى خبر مرگ كى وجہ سے عائشه اور معاويہ كے درميان پھر سے غيظ و غضب كے تازے شعلے بھڑ كنے لگے _

۱۳۸

عبد الرحمن بن ابى بكر كو زہر ديا گيا

عائشه اور معاويہ كے درميان تيسرا سبب جو اختلاف كا سمجھ ميں اتا ہے وہ انكے بھائي عبد الرحمن بن بكر كى ناگہانى موت ہے _

اپ نے اس سے پہلے ديكھا كہ جب معاويہ مسلمانوں كو بيعت يزيد كے لئے امادہ كر رہا تھا تو ايك دن حاكم مدينہ مروان بن حكم نے خطبے ميں يزيد كا نام لے ليا اور اسكو وليعہد بتانے لگا اس وقت عبد الرحمن كھڑے ہو گئے اور مروان كو خوب بر ا بھلا كہا :

مروان نے عبد الرحمن كو برا بھلا كہتے ہوئے ان جملوں كو استعمال كيا تھا كہ _ يہ وہى ادمى تو ہے جس كے بارے ميں قران ميں اس طرح آيا ہے كہ جس نے اپنے ماں باپ سے يہ كہا تھا كہ تمہارے لئے حيف ہے كہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو '' وَالَّذى قَالَ لولد َيہ اُف لّكُمَا أتعد أنني ''_ سورہ احقاف اية ۱۷

عائشه گھر ہى كے اندر سے چيخنے لگيں كہ خدا وند عالم نے ہمارے خاندان كے سلسلے ميں كوئي چيز نازل نہيں كى ہے _ ہاں _ اگر نازل كيا ہے تو ہمارى بے گناہى كو واقعہ افك ميں بيان كيا ہے(۳)

مشہور مورخ ابن اثير اس واقعہ كو يوں نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے يزيد كى بيعت لينے كے لئے اپنے والى و حاكم مروان كو خط بھيجا ، اس نے حسب دستور اپنے خطبے ميں كہا كہ _ امير المومنين معاويہ نے اپنا ايك وليعہد معين كر كے تم لوگوں پر احسان كيا ہے اور اس نيك كام ميں كوتا ہى نہيں كى اس عہدے پر اپنے فرزند يزيد كو نامزد كياہے عبد الرحمن نے جيسے ہى سنا فورا كھڑے ہو گئے اور كہنے لگے _

اے مروان _ معاويہ بھى جھوٹ كہتا ہے اور تم بھى جھوٹ بولتے ہو ، تم لوگوں نے عوام كى خير و صلاح كو مد نظر نہيں ركھا ہے بلكہ تم لوگ خلافت كو بادشاہت ميں تبديل كرنا چاہتے ہو _ جس طرح قيصر و كسرى كے بادشاہوں نے كيا كہ ايك مرا تو دوسرا بادشاہ اسكا جا نشين ہو گيا اور تم لوگ بھى ايسا ہى كرنا چاہتے ہو _

مروان نے كہا _ اے لوگو _ يہ وہى شخص ہے جس كے بارے ميں قران نے كہا كہ جس نے اپنے والدين سے يہ كہا كہ تمھارے لئے حيف ہے كہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو _

____________________

۳_ صحيح بخارى ج۳ ص ۱۲۶

۱۳۹

اس بات كو عائشه نے پس پردہ سن ليا تو اسى مقام سے فرياد بلند كرنے لگيں _

اے مروان _ اے مروان _ تمام لوگ خاموش ہو گئے مروان نے بحالت مجبورى انكى طرف رخ كيا _

عائشه نے كہا ، آيا تم وہى ہو كہ جس نے عبد الرحمن كے بارے ميں يہ كہا كہ اسكى قر ان ميں مذمت ائي ہے ، تم ايك نمبر كے جھوٹے ہو _

خدا كى قسم _ وہ اس آيت كا مخاطب نہيں ہے بلكہ كوئي دوسرا شخص ہے ، ليكن تم تو پہلے ہى سے ملعون خدا ہو(۴)

دوسرى روايت ميں يوں آيا ہے كہ تم جھوٹ بولتے ہو ، خدا كى قسم ، جو كچھ تم نے عبد الرحمن كى نسبت كہا ہے ان ميں سے وہ نہيں ہے البتہ رسول اكرم (ص) نے تمہارے باپ پر اس وقت نفرين كى جب تم اس كے صلب ميں تھے ، اور اس طرح تم پر پہلے ہى سے خدا كى پھٹكا ر ہے _

يہى وجہ تھى كہ مروان بن حكم نے بار ديگر بيعت يزيد كا بيڑا نہيں اٹھايا اور اس سے كنارہ كشى اختيار كر لي_

معاويہ نے ايك مدت كے بعد لوگوں كو دكھانے كے لئے حج كا سفر كيا پھر مدينہ آيا جس كو ہم نے مدينہ ميں وارد ہونے كے بعد جو واقعات پيش آئے ا س كو مختصر طور پر بيان كيا ہے

ليكن اس وقت دوسرے نكتے كى طرف توجہ مبذول كرانى ہے _

صاحب استيعاب ابن عبد البر لكھتے ہيں :

معاويہ مسجد نبوى كے منبر پر بيٹھا رہا اور لوگوں كو بيعت يزيد كى دعوت دى جس پر حضرت امام حسين، (ع) عبد اللہ بن زبير ، اور عبد الرحمن بن ابى بكر نے اس پر اعتراض كيا _ اور ان لوگوں كے درميان كافى تو تو ميں ميں ہوئي _

عبد الرحمن نے كہا _ اے معاويہ _ آيا خلافت بادشاہت ميں تبديل ہو گئي ہے كہ ايك بادشاہ دنيا سے گيا كہ اسكى جگہ دوسرا بادشاہ اگيا _

كسى طرح لوگوں كى رضايت كا خيال نہيں ہے ہم ہرگز بيعت نہيں كريں گے _

اسى رات معاويہ نے عبد الرحمن كے پاس ايك لاكھ درہم بھيجو آيا تاكہ بيعت يزيد پر راضى ہو جائيں _ ليكن انھوں نے اس رقم كو

____________________

۴_ ابن اثير ج۳ ص ۱۹۹

۱۴۰

قبول نہيں كيا اور كہا _ ہم ہرگز اپنے دين كو دُنيا سے نہيں بيچيں گے ، اس كے بعد مدينہ سے مكہ كى طرف چل ديئے ، ليكن قبل اس كے كہ يزيد كى بيعت مرحلہ اختتام تك پہونچے دنيا سے چل بسے(۵)

ابن عبد البر مزيد لكھتا ہے :

عبد الرحمن مكہ كے اطراف ميں مقام ( حبشى ) پر نا گہانى موت سے مرے جو مكہ سے دس ميل كے فاصلہ پر ہے اور اسى جگہ دفن بھى ہوئے _

نيز كہتے ہيں كہ _ انھوں نے حالت خواب ميں جان دى ، ليكن جس وقت عائشه انكى خبر مرگ سے مطلع ہوئيں تو انھوں نے مكہ كا سفر كيا ، جب مقام حبشہ پر پہونچيں تو قبر برادر پر گئيں اور خوب گريہ كيا ، اور ان اشعار ميں بين و نوحہ كيا _ جس كا ترجمہ يہ ہے كہ :

ہم دونوں ايك طويل مدت تك بادشاہ حيرہ ( جذيمہ ) كے دو نديم كى طرح تھے جو دونوں ايك دوسرے سے بہت محبت كرتے تھے اور ہميشہ ساتھ رہتے تھے ، يہاں تك كہ لوگوں نے كہنا شروع كر ديا كہ ان دونوں ميں كبھى جدائي نہيں ہو سكتى ہے ، ليكن ميرے بھائي كى موت نے اسوقت ہم دونوں كو ايك دوسرے سے عليحدہ كر ديا ہے ، ان تمام الفتوں و محبتوں كے باوجود ايسا لگتا ہے كہ گويا ايك رات بھى ساتھ ميں نہيں تھے(۶)

پھر روتے ہوئے كہا _ خدا كى قسم _ اگر تمھارے دفن كے وقت موجود ہوتى تو تمھارے ساتھ دفن ہو جاتى تاكہ تمھارے حال پر گريہ كناں نہ رہتى _

ہاں _ اس طرح عائشه اور بنى اميہ كے درميان اختلاف كو نئي قوت مل گئي اور جنگ كے شعلے مزيد بھڑكنے لگے ، ليكن عائشه نے ايسے حالات ميں اپنے بھائي كو كھو ديا _

عبد الرحمن كو نا گہانى موت نہيں ائي تھى بلكہ اسكے اسباب و علل غور طلب ہيں _

اس كى شناخت اسى طرح ہو گى جس طرح مالك اشتر مصر كے راستے ميں مار ڈالے گئے

عبد الرحمن بن ابى بكر اور سعد بن وقاص كى موت بھى اسى طرح ہوئي ، يہ تمام مشہور شخصيتيں يزيد كى بيعت نہ كرنے كى وجہ

____________________

۵_استيعاب ج۲ ص ۳۷۳ ، اسد الغابة ج۳ ص ۳۰۶ ، اصابة ج۲ ص ۴۰۰

۶_ استيعاب ج۲ ص ۳۷۳

۱۴۱

سے مارى گئيں _

يہى وہ مقامات ہيں جہاں سے عائشه اور حكومت اموى كے درميان اختلاف كى اگ بھڑكى كيونكہ انھوں نے اس راہ ميں اپنے عزيز بھائيوں كو كھو ديا تھا ، اس پر ظلم يہ ہوا كہ كس كے بل بوتے پر بنى اميہ سے جنگ كرتيں كيونكہ اب نہ طلحہ نہ زبير و عبد الرحمن اور نہ ہى دوسرے مددگار ،

عائشه نے ان دو بيتوں كے سہارے اپنے دلى كوائف كو يوں بيان كيا ہے

ذهب الذ ين يعاش اكنافهم

و بقيت فى خلف كجلد الاجرب

لا ينفعون ولا يرجى خيرهم

و يعاب قائلم و ان لم يشعب

ترجمہ _ وہ لوگ چلے گئے جن كے سايہ رحمت ميں زندگى گزارتے تھے اور ہم انكے بعد اسى طرح ہيں جيسے جذام شخص كى كھال كہ نہ نفع بخش ہے اور نہ ہى خيركى اميد ہے _ ان كے بارے ميں كچھ كہنا گويا عيب ہے جبكہ ان لوگوں نے كوئي برائي بھى نہيں پھيلائي ہے _

دوسرى بات يہ تھى كہ عائشه كا پہلے كى طرح وہ سن بھى نہيں رہا كہ مركب پر سوار ہو كر جنگل و بيابان كى خاك چھانيں ، اور بنى اميہ كے خلاف اتش جنگ كو بھڑكائيں يہى وجہ تھى كہ انھوں نے اپنے كينے اور دشمنى كو دوسرى شكل ميں ظاہر كيا _

اور اپ نے پہلے ديكھا كہ حاكم مدينہ ( مروان ) جيسے ہى ان ( عائشه ) كى چنگل ميں آيا تو انھوں نے قول رسول (ص) كو جو كہ اسكے باپ كے سلسلے ميں تھا كہ تم تو پہلے ہى سے ملعون خدا ہو اسكو بيان كر ڈالا ، اور مدتوں اسى ڈگر پر چلتى رہيں _

ميں سمجھتا ہو ں كہ عائشه نے بنى اميہ كى مذمت ميں جو احاديث رسول (ص) بيان كى ہے يہ سب اسى دور كى ہيں _ اور اسى پر اكتفا نہيں كيا بلكہ جو كچھ اہلبيت رسول (ص) اور انكے اصحاب كے فضائل و احاديث سنيں تھى اسكو بيان كيا ، كيونكہ معاويہ و بنى اميہ كو اس دور ميں چڑھانے كے لئے سوائے فضائل اہلبيت عليھم السلام كو بيان كرنے كے كوئي چارہ نہ تھا ، اس عمل نے ان لوگوں كو سخت متحير اور انكے دماغ كو چكرا ڈالا تھا _

اس دور ميں حضرت امام حسين (ع) سے كافى محبت سے پيش انے لگيں لہذا جو بھى حديثيں ان لوگوں كے سلسلہ ميں عائشه سے نقل ہوئي ہيں اور كتب احاديث ميں جو فضائل امير المومنين (ع) اور صديقہ طاہرہ نيز انكى والدہ گرامى خديجہ كبرى (ع) كے

۱۴۲

سلسلہ ميں بيان ہوئي ہيں ضرور بالضرور اسى دور كے ہيں _

ميں سمجھتا ہوں كہ جو كلمات ندامت و شرمندگى كے عائشه نے جنگ جمل كے بارے ميں كہے ہيں اسى زمانہ كے ابتدائي دور كے ہيں اور مرتے دم تك اسى كا رونا روتى رہيں جسكى تفصيل ائندہ آئے گى _

جنگ جمل سے عائشه كى شرمندگي

ابو جندب كوفى نے عائشه سے اپنى ملاقات كى داستان يوں بيان كيا ہے

جب ہم عائشه كے گھر گئے تو انھوں نے پوچھا ، تم كون ہو ؟ ميں نے كہا ،ميں قبيلہ ازد سے جو كہ كوفہ ميں رہتا ہوں _

عائشه نے پوچھا ، آيا تم نے جنگ جمل ميں شركت كى تھى ؟

جندب كوفى نے كہا جى ہاں

عائشه نے كہا ،ايا ہمارے مخالف تھے يا موافق ؟

جندب نے جواب ديا _ ہم اپكے مخالف لشكر ميں تھے _

عائشه نے كہا _ آيا وہ كون شخص تھا كہ جس نے اپنے رجز ميں يہ كہا تھا كہ اے ام المومنين ہم اپكو جانتے ہيں ليكن اپ ہم كو نہيں پہچانتى ہيں ؟

۱۴۳

جندب نے كہا _ہاں _ وہ ميرا چچا زاد بھائي تھا _

اسكے بعد اتنا روئيں كہ ميں سمجھا كہ انكو گريہ سے ہرگز افاقہ نہيں ہو گا(۷)

ابن اثير لكھتے ہيں :

ايك روز عائشه كے يہاں گفتگو كے درميان جنگ جمل كا تذكرہ اگيا تو عائشه نے پوچھا لوگ ابھى تك اس جنگ كو ياد كئے ہوئے ہيں ؟

حاضرين نے كہا _ ہاں _

عائشه نے كہا _ اے كاش اس جنگ ميں شركت نہ كئے ہوتى اور ديگر ازواج رسول (ص) كى طرح اپنے گھر ميں رہتى ہمارے دس قيمتى فرزند رسول (ص) عبد اللہ بن زبير، عبد الرحمن ، بن حارث جيسے افراد نہ مارے جاتے(۸)

مورخين و مفسرين نے مسروق نامى شخص سے نقل كيا ہے _

عائشه جس گھڑى سورہ احزاب كى اس آيت كو پڑھتى تھيں جسميں ازواج رسول (ص) كو گھر ميں رہنے كا حكم ديا گيا تھا تو اپ اتنا روتى تھيں كہ اوڑھنى انسو سے تر ہو جاتى تھى(۹)

''عائشه مرنے سے پہلے ''

صاحب كتاب طبقات الكبرى محمد بن سعد نقل كرتے ہيں :

ايك روز ابن عباس عائشه كے مرنے سے پہلے انكو ديكھنے گئے ، تو انھوں نے انكى خوب تعريف و تحسين كى _ جب ابن عباس چلے گئے تو عائشه نے عبد اللہ بن زبير سے كہا ، ابن عباس نے ميرى تعريف كى ہے _ اب مجھے ذرہ برابر اچھا نہيں لگتا ہے كہ كوئي ہم كو اچھے نام سے ياد كرے _، ميں چاہتى ہوں كہ لوگ ہميں اس طرح سے بھلا ديں گويا دنيا ميں قدم ہى نہيں ركھا تھا(۱۰)

____________________

۷_ طبرى ج۵ ص ۱۱ حوادث جنگ جمل

۸_اسد الغابة ج۳ ص ۲۸۴ ، طبقات ابن سعد ج۵ ص ۱

۹_ طبقات ج۸ ص ۵۶

۱۴۴

كتاب بلاغات النساء ميں آيا ہے كہ _ جس وقت عائشه پر حالت احتضار كى كيفيت طارى ہوئي تو اپ بہت مضطرب و پريشان تھيں ، حاضرين نے ان سے كہا اپ اتنا پريشان كيوں ہيں اپ تو ابو بكر صديق كى بيٹى اور ام المومنين ہيں ؟

عائشه نے جواب ديا _ ميں سچ كہتى ہوں كہ جنگ جمل ميرے گلے كى ہڈى بن گئي ہے _

اے كاش اس دن سے پہلے مر كھپ گئي ہوتى يافعان ہو جاتى(۱۱)

ايك مرتبہ كہا تھا كہ _خدا كى قسم _ اچھا ہوتا كہ ميں درخت ہوتى _ قسم خدا كى _ بھتر تھا كہ اينٹ پتھر ہوتى _ خدا كى قسم _ اچھا ہوتا كہ خدا ہميں پيدا ہى نہ كرتا _

كہتے ہيں كہ _ عائشه مرتے وقت بہت حسرت و ياس سے كہتى تھيں كہ ہم نے بعد رسول(ص) حوادث ناگوار پيدا كئے ليكن اب اس دنيا سے جا رہى ہوں لہذا ہميں ازواج رسول (ص) كے پہلو ميں دفن كرنا _

عالم اہلسنت ذہبى لكھتا ہے :

حادثہ سے عائشه كى مراد جنگ جمل ہو سكتى ہے جسكو بھڑكا نے ميں انہوں نے اہم كردار ادا كيا تھا _

يہى ذہبى لكھتا ہے كہ: عائشه نے ۱۷ رمضان المبارك ۵۸ھ ميں نماز صبح كے بعد وفات پائي اور چونكہ انھوں نے وصيت كى تھى كہ مجھے رات ميں دفن كرنا لہذا مہاجرين و انصار كى اچھى خاصى جمعيت جنازے ميں شريك ہوئي لوگ خرما كى لكڑى كو روشن كئے ہوئے جنازہ كے ساتھ تھے تاكہ راستہ چلنے ميں كوئي پريشانى نہ ہو ، راوى كہتا ہے كہ _ مدينہ كى عورتيں قبرستان بقيع ميں اس طرح تھيں جيسے معلوم ہو رہا تھا كہ عيد كا دن ہے _

ابوہريرہ نے نماز جنازہ پڑھائي كيونكہ مروان كى نمائندگى ميں شہر مدينہ پر حكومت كر رہے تھے _

جس وقت عائشه كا انتقال ہوا تو انكى عمر ۶۳ سال كچھ مہينے كى تھى(۱۲)

ہم نے عائشه كى زندگى كو زوجيت رسول (ص) سے ليكر انكے مرتے دم تك ، پيش كيا تاكہ انكى شخصيت اور وہ تمام گوشے جو سياسى و اجتماعى لحاظ سے تھے اجاگر ہو جائيں ، ليكن ائندہ كے صفحات ميں مزيد انكى زندگى كے بارے ميں ہم بيان كرينگے _

____________________

۱۰_ طبقات ج۸ ص۴۶۲

۱۱_ شرح نووى ج۴ ص ۱۷۰

۱۲_عقد الفريد ج۴ ص ۱۵ شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۷

۱۴۵

فصل پنجم

عائشه كى سخاوت

سخاوت اگر چہ اچھى چيز ہے مگر شرط يہ ھيكہ راہ خدا ميں كى جائے ، يعنى انسان خدا و خوشنودى خدا كى خاطر اپنى محبوب چيزوں كو ، چاہے مال كى صورت ميں ہو يا كسى دوسرى صورت ميں ، خدا سے اجر و ثواب لينے كے لئے انفاق كرے _

حقيقت ميں ايسے افراد خداوند عالم كے نزديك عظيم اجر و ثواب كے مستحق ہيں اور اخرت ميں رضاء الہى سے بہرہ مند ہوں گے _

ليكن ايك انسان جو صرف دكھاوے اور شہرت كى خاطر اپنے مال و اسباب كو لٹائے اگر چہ اس نے ايك اچھا كا م انجام ديا ہے ، مگر اخرت ميں اسكو كوئي ثواب نہيں ملے گا ، كيونكہ اس نے فقط مسائل دنيا كو نظر ميں ركھتے ہوئے مال كو خرچ كيا ہے _

عرب كے درميان يہ قديم رسم چلى ارہى تھى كہ جو لوگ ثروتمند اور رئيس قبيلہ ہوتے تھے وہ ان امور كو انجام دينے ميں مجبور تھے اور كبھى كھبار اپنے ہاتھوں سے مال و اسباب كو تقسيم كرتے تھے ، كيونكہ اگر كوئي شخص ان كے دروازے پر اكر خالى ہاتھ واپس چلا گيا تو يہ چيز انكے لئے باعث ذلت و ننگ شمار ہوتى تھى _

ظہور اسلام كے بعد بھى لوگوں نے بذل و بخشش سے ہاتھ نہيں كھينچا بلكہ يہ لوگ دو گروہ ميں بٹ گئے _

۱_ ايك گروہ اسلامى فكر كى بنياد پر راہ خدا ميں مال كو انفاق كرتا تھا _

۲_ دوسرا گروہ رسم جاہليت و عادت عرب كى پيروى كرتے ہوئے انفاق كرتا تھا _

اس قسم كى بذل و بخشش قبيلہ بنى تميم كے دو قدرتمند سرداروں نے حكومت على (ع) كے زمانے ميں كوفہ كے اطراف ميں كى تھى ، ان ميں ايك صعصہ دارمى اور دوسرا سحيم بن وثيل رياحى تھے

ان دونوں نے اپنے كو ثروتمند دكھانے كے لئے اپس ميں مقابلہ ارائي كى اور رسم جاہليت كے مطابق اونٹ ذبح كرنے كى شرط ركھى ، ہر ادمى ايك دوسرے پر سبقت ليجانے كے لئے كوشش كر رہا تھا ، اور نام و نمود كى دوڑ ميں تھا ، مقابلہ ايك اونٹ سے شروع ہوا يہاں تك كہ سو اونٹ سے زيادہ بڑھ گيا ، يہ اخرى مرتبہ حكومت علوى (ع) كے زمانہ ميں ہوا جس ميں كئي سو اونٹ ذبح ہوئے ، جب اہل كوفہ كو اسكى خبر پہونچى تو برتنوں كو ليكر گوشت لينے كے لئے دوڑے جب امام عليہ السلام كو

۱۴۶

اسكى خبر معلوم ہوئي تو اپ نے فرمايا ، ان اونٹوں كے گوشت كو نہ كھانا كيونكہ غير خدا كے نام پر ذبح ہوئے ہيں _'' لا تاكلوا منہ اھل الغير اللہ''

يعنى فخر و مباہات و رسوم جاہليت كے طور طريقہ پر قتل كئے گئے ہيں _

امام عليہ السلام كا اشار ہ قران كريم كى اس آيت كى طرف ہے كہ ،'' انما حرّم عليكم الميتة والدم لحم الخنزير وما اھل بہ لغير اللہ ''

اہل كوفہ امام كے كہنے پر رك گئے ، سارا گوشت ويسا ہى پڑا رہا اخر كار ان تمام گوشتوں كو مزبلہ پر ڈال ديا گيا تاكہ جانور وغيرہ كھا ڈاليں(۱۳)

ہمارى نظر ميں ام المومنين عائشه كاا سى گروہ ميں شمار ہونا چاہيئےيونكہ اپ نام و نمود اور شہرت كى بہت بھوكى تھيں ، اور جو شہرت خلفاء ثلاثہ كے زمانے ميں كمائي تھى اسكو اسانى سے كھونا نہيں چاہتى تھيں ، لہذا اس كو بچانے كے لئے سب سے بہترين راستہ سخاوت و بذل و بخشش تھا _

اپ ملاحظہ فرمائيں گے ، كہ سختيوں اور تكليفوں كے باوجود انھوں نے حتى الامكان مال خرچ كيا ، دوسرى طرف سخاوت كرنے كے لئے معاويہ جيسے جبار كے پاس رقم لينے كے لئے گئيں ، ہمارا دعوا بغير دليل كے نہيں ہے _ بلكہ اپ ديكھيں گے كہ عائشه نے ان اموال كو خرچ كيا جو معاويہ اور اسكے حكمرانوں نے بيت المال سے لوٹ كے انكے پاس مال و اسباب بھيجے تاكہ اپ جو دوسخاوت كا مظاہرہ كريں _

ايا ايسے اموال جو ظلم و ستم كر كے لوٹے گئے ہوں اس سے سخاوت كر كے خشنودى خدا نصيب ہو سكتى ہے ، در انحاليكہ ام المومنين كا ايسى صورت ميں سب سے پہلے شرعى فريضہ يہ تھاكہ معاويہ كى تمام چيزوں سے دور رہتيں _

ام ذرّہ نقل كرتى ہيں كہ _ ميں كبھى كھبى عائشه كے گھر آيا جايا كرتى تھى ايك روز عائشه كے يہاں دو كيسہ سامان ديكھا _

ام المومنين نے مجھ سے كہا كہ ، ميں سمجھتى ہوں كہ اس كيسہ ميں تقريبا اسى ہزار يا ايك لاكھ درہم ضرور ہوگا ، پھر ايك طشت ہم سے مانگا ميں نے انكو ديديا جبكہ ميں اس دن روزے سے تھى ، ميں نے تمام درہموں كو گھر گھر تقسيم كر ديا اور

____________________

۱۳_ اصابہ ج۲ ص ۱۰۹ ، اغانى ج ۱۹ ص ۶ ، الكنى و القاب ج۳ ص ۱۸

۱۴۷

ايك درہم بھى ام المومنين عائشه نے اپنے گھر ميں نہيں ركھا تھا_

جب غروب كا وقت ہو گيا تو عائشه نے اپنى كنيز سے ميرے لئے افطار لانے كو كہا ، كنيز نے ايك روٹى كا ٹكڑا اور زيتون كا تيل ميرے سامنے لاكر ركھا _

ميں نے كہا _ اے ام المومنين اپ نے تو سارى رقم لوگوں ميں تقسيم كردى اگر تھوڑى سى ہوتى تو ميرے لئے اس سے گوشت منگوا ديتيں تاكہ اس سے ميں افطار كرتى _

عائشه نے كہا _ اگر پہلے كہتى تو ہم ضرور اس كا انتظام كر ديتے ليكن اب كہہ رہى ہو مجھے تمھارى خواہش پورى نہ كرنے كا رنج ہے(۱۴)

عائشه كا بھانجا عروہ بن زبير كہتا ہے :

ہم نے ايك روز اپنى خالہ عائشه كو پھٹے لباس ميں ستر ہزار درہم تقسيم كرتے ہوئے ديكھا يہ بخشش مجھ پر بہت گراں گذرى كيونكہ ميں نہيں چاہتا تھا كہ ميرى خالہ اس مقدار ميں اپنے مال سے سخاوت كا مظاہرہ كريں _

ابو نعيم لكھتے ہيں :

جب عائشه نے اپنے اونٹوں كو بيچنے كى خاطر بازار ميں بھيجوايا تو عبد اللہ بن زبير نے كہا ، ہم سب سے كہہ دينگے كہ عائشه اپنا ذہنى تو ازن كھو بيٹھى ہيں تاكہ كوئي انكے اونٹوں كو نہ خريدے ، جب عائشه نے ان باتوں كو سنا تو كہا ، ميں قسم كھاتى ہوں كہ جب تك زندہ رہونگى اس سے كلام نہيں كرونگى _ چنانچہ عبد اللہ بن زبير سے پردہ بھى كر ليا ، بات چيت كافى دنوں تك بند رہى _

ايك روز مسور بن محترمہ اور عبد الرحمن بن اسود كے ساتھ عبد اللہ بن زبير چادر اوڑھ كر عائشه كے گھر گئے ، اذن دخول كے بعد تينوں گھر ميں داخل ہوئے جيسے ہى عبد اللہ بن زبير نے عائشه كو ديكھا فورا انكى گردن ميں اپنى باہيں ڈالديں اور خوب گريہ كيا ، يہاں تك كہ عبد اللہ بن زبير نے اپنى رشتہ دارى وغيرہ كى دہائي دى ، تب جا كر ام المومنين نے اس سے باتيں كيں(۱۵)

____________________

۱۴_سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۱

۱۵_حلية اولياء ج۲ ص ۴۹ ، سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۲۹

۱۴۸

ہم نے معاويہ كى مراعات مالى كو عائشه كى نسبت بيان كيا ان ميں سے بعض واقعات انشاء اللہ ائندہ بيان كروں گا _

اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ہر سخاوت و بخشش رضاء الہى كے لئے نہيں ہوتى ہے ، كيونكہ خشنودى خدا اسى وقت محقق ہو سكتى ہے جب خلوص نيت سے انفاق كيا جائے ، اور انفاق ہونے والا مال راہ حلال سے كسب ہوا ہو نہ كہ معاويہ جيسے ظالم و جابر كا مال جس نے مسلمانوں كے بيت المال سے لوٹ كھسوٹ كر كے عائشه ، ابو ھريرہ ، مغيرہ بن شعبہ ، اور عمرو بن عاص جيسے انسان كو سستى شہرت كمانے كے لئے ديا ہو _

تاكہ اسلام اور حضرت على (ع) سے مقابلہ كريں اور اپنى سياست كامياب ہو اور گڑھى ہوئي حديثيں منظر عام پر ائيں _

خاندانى تعصب

ام المومنين عائشه اپنے خاندان كے سلسلے ميں بہت متعصب تھيں ، اور اس چيز كو عبادت كى حد تك مانتى تھيں ،وہ اس راہ ميں اتنى اگے بڑھ گئي تھيں كہ تمام حدود اسلامى و مقررات شرعى كو كچل كر ركھ ديا تھا ، جب كہ تاريخى حقائق سے ظاہر ہے كہ دشمنى كے باوجود تمام تلخياں انكى گہرى دوستى ميں بدل گئيں _

ہم نے اس سے پہلے بہت سارے واقعات زندگاني عائشه كے بيان كئے اور اس ادعى پر بہت سارى دليليں بھى دى تھيں جسكو قارئين كرام نے بغير شك و ترديد كے قبول بھى كيا ہو گا ; ليكن اس مقام پر صرف ايك واقعہ جو انكى خاندانى تعصب كو ثابت كرتا ہے اور وہ انكے بھائي محمد بن ابى بكر كے ساتھ پيش آيا تھا _

يہ دونوں بھائي بہن ابتداء ميں جب عثمان كے خلاف مسلمانوں نے ہنگامہ كھڑا كيا تھا شانہ بشانہ تھے ، اور ان دونوں نے اہم كردار ادا كيا تھا ، ليكن قتل عثمان كے بعد اپنے اپ پانسہ پلٹ گيا اور دونوں ايك دوسرے كے دشمن بن گئے _

محمد بن ابى بكر نے لشكر علوى (ع) ميں اكر عائشه كے خلاف تلوار اٹھا لى اور جنگ كے تمام ہونے تك ان كے مقابلہ ميں ڈٹے رہے_

جب كہ ميں سمجھتا ہوں كہ بصرہ يا جنگ جمل ميں جب عائشه كے سردار لشكركو مار ڈالا گيا اور انكى شكست فاش ہو گئي تو اسوقت امام عليہ السلام نے محمد بن ابى بكر كو بہن كے پاس بھيجا تاكہ انكى احوال پرسى كر ليں اور جانے كے سلسلے ميں ان سے پوچھيں _

جب محمد نے اپنى بہن كے محمل ميں سر ڈالا تو عائشه چيخنے لگيں ، وائے ہو تم پرتم كون ہو ؟

۱۴۹

محمد بن ابى بكر نے كہا ، ميں ہوں جس كو اپ اپنے خاندان ميں زيادہ دشمن ركھتى ہيں _

عائشه نے كہا _ اچھا تم زن خثعمى كے بيٹے ہو _

محمد نے جواب ديا _ جى ہاں

عائشه نے كہا _ خدا كا شكر ہے كہ تم كو صحيح وسالم ديكھ رہى ہوں(۱۶)

زيادہ دن نہيں گذرا تھا كہ محمد بن ابى بكر مصر ميں مار ڈالے گئے اور انكے سر كو تن سے جدا كر كے گدھے كى كھال ميں بھر كر جلا ديا گيا _

اس ناگوار حادثے كے خبر جب عائشه كو معلوم ہوئي تو تمام خلش كے با وجود بھائي كى موت پر خوب گريہ كيا _

ليكن جس وقت خواہر معاويہ اور رسول كى زوجہ ( ام حبيبہ ) كو اسكى اطلاع ملى تو انھوں نے ايك بھنا ہوا بكرا عائشه كے دل كو جلانے كے لئے بھيج ديا _ اس سے اشارہ يہ تھا كہ ديكھو جس طرح تم دونوں نے عثمان كو مارا تھا اسى طرح ہم نے تمہارے بھائي محمد سے بدلہ لے ليا ہے _

جيسے ہى عائشه نے اس بھنے بكرے كو ديكھا تو چيخنے لگيں اور كہا _ خدا، زانى عورت (ھند ) كى بيٹى كو مار ڈالے _

خدا كى قسم _ ہم ہرگز بھنا ہوا بكرا نہيں كھائينگے _

پھر اپنے بھائي كے اہل و عيال كو اپنے يہاں لے ائيں(۱۷)

قاسم بن محمد بن ابى بكر كا بيان ہے :

جب حكومت اموى كے مامورين معاويہ بن خديج كندى اور عمرو بن عاص نے ميرے باپ كو مصر ميں مار ڈالا تو ہمارے چچا عبد الرحمن بن ابى بكر گھر آئے اور ہم بھائي بہنوں كو مدينہ لے جانے لگے ، مدينہ پہونچنے سے پہلے عائشه نے اپنا ايك نمائندہ بھيجديا تھا تاكہ عبد الرحمن اپنے گھر نہ لے جا سكيں ، ہم لوگ اپنى پھوپھى ( عائشه ) كے گھر اگئے انھوں نے ہمارے ساتھ وہى سلوك كيا جو اولاد كے ساتھ والدين كيا كرتے ہيں اور ہميشہ اپنے زانو پر بيٹھا كر شفقت و

____________________

۱۶_طبرى ج۵ ص ۲۰۴ ، عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، يعقوبى ج۲

۱۷_تذكرة الخواص ص ۱۱۴ ، تمہيد و البيان ص ۲۰۹

۱۵۰

محبت كيا كرتى تھيں ، كافى دنوں تك ايسا ہى چلتا رہا _

ايك دن عائشه نے اپنے بھائي عبد الرحمن كى رفتار كو بدلا ديكھا تو انہوں نے احساس كيا كہ كہيں ا ن كو برا تو نہيں لگ گيا ہے كہ ہم اپنے گھر ميں لے ائيں ،

لہذا ايك شخص كو عبد الرحمن كے پاس بھيجا ، جب وہ آئے تو عائشه نے كہا اے عبد الرحمن ، جب سے محمد كے فرزندوں كو اپنے يہاں ليكر اگئي ہوں ہم كو احساس ہوتا ہے كہ تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو ، ليكن خدا كى قسم ، ہم نے ان دونوں كو تم سے نہيں چھڑايا ہے اور نہ ہى تم سے كوئي بد گمانى ہے ، بلكہ اسكى وجہ صرف يہ ہے كہ تمھارى كئي بيوياں ہيں اور يہ ابھى كمسن ہيں ، لہذا ميں ڈرتى ہوں كہ كہيں يہ شرارت كرديں تو تمھارى بيوياں ان سے نفرت كرنے لگيں ، اور ميں ان لوگوں سے زيادہ مہربان ہو سكتى ہوں اور ايسے بہت واقعات پيش آئے ہيں ، مجھ سے بہتر كون ان كى سر پرستى كر سكتا ہے _ ہاں _ جب يہ دونوں بڑے ہو جائيں اور اپنا پورا خيال كرنے لگيں تو ميں ان دونوں كو تمھارى كفالت ميں ديدونگى _ تم ا ن كى محافظت حجية بن مضروب كے بھائي كى طرح كرنا ، اسكے بعد پورى داستان بيان كى كہ قبيلہ كندہ كا ايك ادمى تھا جب اسكا بھائي مر گيا تو اسكے چھوٹے بچوں كو اسكا بھائي اپنے گھر لے آيا اور اپنے بچوں سے زيادہ ان سے محبت كرتا تھا ، ايك مرتبہ اسكے بھائي كو اچانك سفر در پيش ہوا تو جاتے وقت اپنى بيوى سے كہا كہ بھائي كے يتيم بچوں پر كافى دھيان دينا,

۱۵۱

ليكن جب سفر سے واپس آيا تو كيا ديكھا كہ بھائي كے بچے كافى نحيف و لاغر ہو گئے ہيں ، اپنى زوجہ سے كہا كہ لگتا ہے تم نے ان بچوں كى ديكھ بھال صحيح سے نہيں كى تھى اخر وجہ كيا ہے كہ ہمارے بچے صحت مند ہيں اور بھائي كے بچے كمزور و لاغر _ بيوى نے كہا _ ہم نے بچوں كے درميان كوئي فرق نہيں ركھا تھا ان بچوں نے كھيل و شرارت كى بناء پر اپنى حالت ايسى كر ركھى ہے ، حجية بن مضروب اتنا ناراض ہوا كہ جيسے ہى اسكے اونٹ چرانے والے صحراء سے لوٹے تو اس نے ان لوگوں سے كہا يہ تمام اونٹ اور تم لوگ ہمارے بھائي كے بچوں كى ملكيت ميں چلے گئے ہو(۱۸)

جب ام المومنين عائشه نے محمد بن بكر كے بچوں كو عبد الرحمن كے حوالے كيا تھا تو ان سے سفارش كى تھى كہ ان كا خيال حجية بن مضروب كى طرح ركھنا اور ان سے اچھا برتائو كرنا نيز ايك لمحے كے لئے بھى ان سے غافل نہ رہنا _

دوسرى علامت عائشه كى خاندانى تعصب كى يہ ہے كہ ، جب عبد اللہ بن زبير مالك اشتر كے چنگل سے جنگ جمل ميں فرار كر گئے تھے تو عائشه كو ايك نے جا كر اسكى خبر دى تو انھوں نے اسكو دس ہزار درہم ديئے(۱۹)

اس طرح كے نہ جانے كتنے واقعات عائشه كى زندگى ميں پيش آئے جو سارے كے سارے انكى خاندانى تعصب كى بووخو كو ظاہر كرتے ہيں ، اور انھوں نے اس راہ ميں كافى مصيبتوں كا سامنا بھى كيا ہے _ عائشه كے خطبے جو باپ كى مدح ميں ہيں پھر چچا زاد بھائي ( طلحہ ) كو تخت خلافت پر لانے كى كوشش جسكو ہم نے پہلے تفصيل سے بيان كيا ہے پھر رسول اكرم (ص) سے حديثيں منسوب كر كے اپنے باپ اور انكے جگرى دوست عمر نيز ديگر ارباب سقيفہ جيسے ابو عبيد ہ جراح كے متعلق بيان كيں ہيں يہ سارى كى سارى ام المومنين عائشه كى اس خصلت كى نا خواستہ پذير دليل ہے جو ہم نے ان روايتوں كو اس كتاب كے باب روايت ميں خوب جانچ پڑتال كى ہے _

عائشه كى خطابت

ايك رہبر و ليڈر كے لئے سب سے اہم چيز يہ ھيكہ معاشرے ميں كس طرح بات كى جائے تاكہ انكے دلوں ميں بيٹھ جائے ، اس طرح كے افراد اگر كلام كى نزاكت كو جان جائيں تو معاشرہ ميں كافى اچھا اثر ڈال سكتا ہے ، اور ساتھ ميں يہ بھى بتا دوں كہ اس ميں مومن ہونا شرط نہيں ہے بلكہ اگر ايك كافر و منافق شخص فن خطابت سے واقف ہے تو معاشرے ميں اپنا اچھا اثر ڈال سكتا ہے _

____________________

۱۸_اغانہ ج ۲۱ ص ۱۰ ، اشتقاق ص ۳۷۱

۱۹_ عقد الفريد ج۳ ص ۱۰۲

۱۵۲

عائشه اجتماعى اور سياسى شخصيت كے علاوہ فن خطابت ميں بھى كافى مہارت ركھتى تھيں _ جب معاويہ اپنے غلام ذكوان كے ساتھ عائشه كے گھر جا رہا تھا تو اس نے كہا : خدا كى قسم _ ميں نے رسول(ص) اسلام كے بعد عائشه سے زيادہ كسى كو فصيح و بليغ نہيں پايا(۲۰) اخنف بن قيس كہتا ہے : ميں نے ابو بكر اور ديگر خلفاء كى تقريريں سنيں مگر عائشه سے اچھى كسى كى تقرير نہيں لگى(۲۱)

ايك دن معاويہ نے زياد سے پوچھا كہ يہ بتائو كہ لوگوں ميں سب سے اچھا مقرر كون ہے _

زياد نے كہا _ امير المومنين اپ ہيں _

معاويہ نے كہا _ پھر قسم كھائو

زياد نے جواب ديا _ چونكہ بات قسم پر اگئي ہے لہذا مجبور ہوں كہ يہ كہوں كہ عائشه سب سے اچھى خطيب ہيں _

معاويہ نے كہا _ عائشه نے جس دروازے كو بند كر ديا اس كو كوئي كھول نہ سكا اور جس كوكھول ديا اس كو كوئي بند نہ كر سكا _

جو كچھ معاويہ اور اخنف بن قيس اور ديگر حضرات نے عائشه كے فن خطابت كے سلسلہ ميں كہا ہے _ ہم اس سے اتفاق نہيں كرتے ہيں ان لوگوں نے مبالغہ سے كام ليا ہے ، كيونكہ ايك طرف يہ لوگ اپس ميں ايك دوسرے كے دوست اور ہم نوالہ و ہم پيالہ تھے ، دوسرى طرف ان لوگوں نے ہميشہ فضائل اہلبيت (ع) كو چھپانے كى كوشش كى ہے_

ليكن جو كچھ اوپر كى عبارتوں سے نتيجہ نكلتا ہے وہ يہ ہے كہ عائشه ايك اچھى خطيب تھيں اور كلام عرب نيز اشعار سے واقفيت ركھتى تھى ، اور اكثر مقامات پر اپنى تقريروں ميں دور جاہليت كا مشہور و معروف لبيد كے اشعار سے استدلال كرتى تھيں _

عائشه خود كہتى ہيں كہ ، ميں نے لبيد كے ايك ھزار بيت ياد كئے تھے جسكو پڑھا كرتى تھى(۲۲) مورخين كہتے ہيں : ايك مرتبہ عائشه نے ايك قصيدہ زبانى پڑھا جو ساٹھ يا ستر بيتوں پر مشتمل تھا(۲۳) ،يہ خود انكى قوت حافظہ كى بہترين دليل ہے _ وہ اس زمانہ ميں جبكہ علم محدود تھا علم طب سے اشنا تھيں ، عروہ بن زبير جو عائشه كا بھانجا ہے اس نے اپنى خالہ كى تعريف كرتے ہوئے كہا ، اگر چہ يہ مبالغہ ارائي ہے مگر عائشه كى استعداد ذہنى كو ضرور ثابت كرتا ہے ، وہ كہتا ہے ميں نے علم طب ميں

____________________

۲۰_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۲۲۹

۲۱_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۴

۲۲_سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۸

۲۳_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۶

۱۵۳

اپنى خالہ ( عائشه ) سے زيادہ كسى كو ماہر نہيں ديكھا ، ايك دن ميں نے سوال كيا

اے خالہ _ اپ نے كس سے حكمت سيكھى ہے_

انھوں نے كہا _ ميں نے ہميشہ لوگوں كى باتوں كو غور سے سنا اور جو كچھ ان لوگوں نے كہا اسكو اپنے دماغ ميں محفوظ كر ليا(۲۴)

مورخين لكھتے ہيں

عائشه پڑھ تو ليتى تھيں ليكن لكھنے سے كوئي واسطہ نہ تھا _(۲۵)

اخر ميں بڑے افسوس كے ساتھ كہنا پڑ رہا ہے كہ ام المومنين عائشه نے ان تمام خداد اد صلاحيتوں كو حديث گڑھنے اور حضرت على (ع) اور انكے اصحاب كو شكست دينے نيز اپنے باپ كى پارٹى ( سقيفہ ) كو فروغ اور حكومت معاويہ كى مشيزيوں كى طرفدارى ميں خرچ كيا ، وہ اس فن ميں اتنى ماہر تھيں كہ جو حديثيں جذبات اور احساسات كى خاطر انھوں نے پيغمبر(ص) اسلام سے منسوب كر كے يادگارى چھوڑى ہيں وہ ابوہريرہ اور ديگر حديث پردازوں كى طرح بد ذائقہ نہيں ہيں ، بلكہ الفاظ فصيح و بليغ اور چٹ پٹے ہيں ، لہذا انكى گڑھى ہوئي حديثوں كى شناخت كرنا بہت مشكل ہے _

برادران اہلسنت پيامبر(ص) اكرم كى سيرت كو عائشه كى ہى روايتوں سے ليتے ہيں جو پا پڑ بيلنے كے مترادف ہے ، كيونكہ جھوٹ اور سچ اور خرافات اپس ميں اسقدر مل گئے ہيں كہ اس ميں طويل مدت تك چھان بين كرنے كے بعد انسان حقيقت تك نہيں پہونچ سكتا ہے _

عائشه كى زندگى ميں فاخرہ لباسي

ظہور اسلام سے پہلے عرب كا سارا معاشرہ مفلوك الحال تھا شہر مكہ ، مدينہ ، اور طائف كے چند بڑے تاجر تھے جو شان و شوكت اور رفاہ و اسائشے كے مالك تھے _

____________________

۲۴_سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۲

۲۵_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۲ ، طبقات

۱۵۴

جب اسلام كا سورج اپنى تمام جلالت و عظمت كے ساتھ طلوع ہوا تو اس نے سب سے پہلے اپنى كرنوں كو مردہ و بے حس عربوں پر ڈالا تاكہ انكى روح اور حس بيدار ہو جائے پھر انكے رہن سہن كو بدلے ، نہ كہ ايك معاشرے كو زرق و برق اور اسرافى بنائے _

اس ميں كہا جا سكتا ہے كہ ايك بے دين طبقہ تھا جو اسلام سے مقابلہ كر رہا تھا تاكہ ان لوگوں كو خراب كر دے _

ادھر پيغمبر(ص) اسلام كى انكھ بند ہوئي اور كچھ لوگوں نے تخت خلافت پر قبضہ كر ليا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ لوگوں نے خود كو بدل ڈالا _

جب عثمان كا زمانہ آيا تو تمام مسائل فراموش ہو گئے اور روم كى پرانى تہذيب اسلامى معاشرے ميں پروان چڑھنے لگى ، اور بزرگان قوم كے گھر مزين نيز لباس فاخرہ كا رواج اور دولت كى جمع اورى ہونے لگى _

اسلام نے جو معاشرے كو مساوات كا درس ديا تھا اور خدائے وحدہ لا شريك نے جو قانون بتايا تھا وہ سارى ناپيد ہو گئي اور خواہشات نفسانى كا رواج عام ہونے لگا ، اس كتاب ميں بحث كى محور عائشه كى شخصيت ہے جو بعد وفات رسول (ص) اس راہ پر چليں ، اور جس طرح ممكن ہوا جاہ طلبى كے لئے پيش پيش رہيں تاكہ لوگ انكو ثروتمند سمجھيں ، اور ہم نے جو كچھ انكى گڑ ھى ہوئي حديثيں نقل كيں ہيں نيز اركان خلافت سے جو رابطہ تھا يہ تمام كے تمام عائشه كى اسى صفت كى جلوہ نمائي كرتى ہيں ، اب دوسرے نمونے جو انكى دولت كے ہيں اسكو بيان كرتا ہوں _

۱۵۵

عائشه اس زمانے ميں بھى جب مسلمانوں كى عورتيں نيز ازواج رسول (ص) سادگى كے ساتھ رہتى تھيں ، زرق و برق لباس پہنا كرتى تھيں ، اور رنگ برنگ كے زيور ات پہنتى تھيں ، حتى اپ نے آيا م حج ميں بھى قيمتى زيورات كو نہيں اتارا كہ جہاں پر انسان اس عبادت كو انجام دينے ميں تمام مادى چيزوں كو بھلا بيٹھتا ہے _ ام المومنين عائشه كے قيمتى اور رنگ برنگ لباس پہننے كے سلسلے ميں اپنے دعوے پر دليليں پيش كروں گا _ صاحب طبقات عائشه كے بھتيجے قاسم سے نقل كرتے ہيں _ ميرى پھوپھى ( عائشه ) زرد رنگ كا لباس نيز سونے كى انگوٹھياں پہنتى تھيں _ عائشه كا بھانجا عروہ كہتا ہے :

ميرى خالہ ( عائشه ) كے پاس ايك ريشمى اوڑھنى تھى جسكو كبھى كھبار اوڑھا كرتى تھيں يہ اوڑھنى عبد اللہ بن زبير نے دى تھى _(۲۶) ايك مسلمان عورت شمسيہ نام سے روايت كرتى ہے كہ ، ايك روز عائشه كے يہاں ميں گئي تو كيا ديكھا كہ اپ زرد رنگ كا پيراہن نيز اسى رنگ كى اوڑھنى زيب تن كئے ہوئي ہيں _(۲۷) _ محمد بن اشعث جو قبيلہ كندہ كا سردار تھا اس نے عائشه كے پاس ايك شال تحفے ميں بھيجى جس كوسردى ميں اوڑھا كرتى تھيں _ امينہ كا بيان ہے كہ ايك روز ميں نے عائشه كو سرخ رنگ كى چادر اور سياہ رنگ كا مقنعہ پہنے ہوئے ديكھا تھا _(۲۸) معاذ قبيلہ عدى كى عورت نقل كرتى ہے كہ _ ميں نے عائشه كو ايك روز پيلے رنگ كا برقع اوڑھے ديكھا تھا(۲۹) بكرہ بنت عقبہ كہتى ہے ، ايك دن عائشه كو مضرج رنگ كا جمپر پہنے ديكھا ، لوگوں نے پوچھا مضرج كيا ہے اس نے جواب ديا ، ارے وہى تو ہے جس كو تم لوگ پھول كا رنگ كہتے ہو(۳۰) قاسم بن محمد بن ابى بكر نقل كرتا ہے : عائشه نے زرد رنگ كے لباس سے احرام باندھا نيز سونے اور رنگين كپڑے پہن كر اعمال حج كو انجام ديا تھا(۳۱) عبد الرحمن بن قاسم اپنى والدہ سے نقل كرتا ہے كہ ميرى ماں نے عائشه كو شوخ سرخ رنگ كے لباس ميں ديكھا در انحاليكہ وہ حالت احرام ميں تھيں(۳۲) عطا ء كہتا ہے كہ ہم عبيد ہ بن عمير كے ہمراہ عائشه كے يہاں گئے ، يہ كوہ ثبير كے مسجد كى اس وقت مجاورى كرتى تھيں ، لہذا

____________________

۲۶_ طبقات ج۲ ص ۷۳

۲۷_ طبقات ج۲ ص ۶۹

۲۸_طبقات الكبرى ج۸ ص ۷۳_۶۹

۲۹_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص۱۳۲

۳۰_طبقات ، سير اعلام النبلائ

۳۱_طبقات ، سير اعلام النبلاء

۳۲_طبقات الكبرى عائشےہ كے شرح حال ميں

۱۵۶

ان كے لئے ايك خيمہ نصب كر ديا گيا تھا ، چونكہ ميں اس وقت بہت چھوٹا تھا لہذا ام المومنين عائشه نے صرف ايك چادر اوپر سے اوڑھ لى تھى ، ہم نے انكو سرخ رنگ كے لباس پہنے ہوئے ديكھا تھا(۳۳)

بخارى تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ مزيد بيان كرتے ہيں :

لوگوں نے عطاء سے پوچھا كہ عائشه كيا پہنے ہوئے تھيں ، اس نے كہا ، وہ تركى خيمہ ميں تھيں اور صرف چادر اوڑھ ركھى تھى ہمارے اور انكے درميان صرف چادر كا فاصلہ تھا ميں نے عائشه كو سرخ رنگ كے لباس ميں ديكھا تھا(۳۴) _

مسئلہ رضاعت ميں ، عائشه كا نرالا فتوا

عائشه اپنے باپ كے زمانے سے ليكر عصرمعاويہ تك سوائے حكومت علوى (ع) كے مذہبى مسائل ميں مرجع وقت تھيں _ اور خلفاء ان سے مختلف مسائل ميں انكى رائے كو معلوم كرتے تھے جس كى وجہ سے وہ ديگر ازواج رسول (ص) سے زيادہ مورد توجہ تھيں ، اور انكے گھر ميں سوال كرنے والوں كا تانتا بندھا رہتا تھا ، پھر اپ نے پہلے يہ بھى ملاحظہ فرمايا كہ ديگر ازواج مطہرات ميں وہ تنھا تھيں جنھوں نے اپنى سارى زندگى كو زمانے كى سياست ميں گذارا تھا ، اور وہ تمام خونريزياں جو اپ نے ملاحظہ فرمائيں وہ ديگر ازواج رسول (ص) نے نہيں كى تھيں _

شايد يہى وہ باتيں تھيں جنكى وجہ سے اپ نے حديث رسول (ص) كى تاويل كرتے ہوئے ايك فتوا ٹھونك ديا جس پر ديگر ازواج رسول (ص) نے اعتراض كيا _

مسند احمد ميں حديث يوں بيان ہوئي ہے

عائشه فرماتى ہيں كہ سہيلہ بنت سہيل بن عمر نے جو ابو حذيفہ كى بيوى تھى رسول (ص) اكرم سے سوال كيا كہ ابو حذيفہ كا ازاد كردہ غلام سالم ہمارے گھر ميں اتا ہے اور ميں اس سے پردہ نہيں كرتى ہوں ، كيونكہ ابو حذيفہ نے اسكو اپنا منھ بولا فرزند بنا ليا ہے ، جس طرح رسول (ص) نے زيد كو اپنا فرزند بنا ليا تھا ، جس پر يہ آيت نازل ہوئي تھى'' ادعوهم لابائهم هوا قسط عند الله '' سورہ احزاب ايہ ۵

____________________

۳۳_طبقات الكبرى عائشےہ كے شرح حال ميں

۳۴_ بخارى باب طواف النساء ميں باب حج ج۱ ص ۱۸۰

۱۵۷

ترجمہ آيت : ( ان بچوں كو انكے باپ كے نام سے پكارو كہ يہى خدا كى نظر ميں انصاف سے قريب تر ہے )

پيغمبر اسلام (ص) نے سہيلہ سے فرمايا :

تم ازاد كردہ غلام اور منھ بولے فرزند كو پانچ مرتبہ شير ديدو تاكہ وہ تمھارا فرزند رضاعى اور تمھارا محرم ہو جائے _

عائشه نے اس روايت سے ( جسكى راوى بھى خود ہيں ) استدلال كيا اور اپنى بہنوں اور بھانجيوں كو حكم ديا كہ تم لوگ اپنا دودھ پلائو چاہے جوان ہى كيوں نہ ہو ، تاكہ جو لوگ ( عائشه ) سے ملنے كے مشتاق ہوں دودھ پلانے كى وجہ سے محرم ہو جائيں ، اور اطمينان كے ساتھ انكے گھر ميں امد و رفت كريں ، مگر ام سلمى اور ديگر ازواج رسول (ص) نے اپنى بہنوں كو اس كام سے منع كيا اور ان لوگوں نے كہا كہ ، مسئلہ رضاعت كا تعلق كمسنى سے ہے اور عائشه نے اپنى طرف سے فتوا گڑھا ہے ، اور رسول خدا (ص) نے جو حكم ديا تھا شايد وہ صرف ابو حذيفہ كے غلام كے لئے ہوگا نہ كہ تمام لوگوں كے لئے(۳۵) _

صحيح مسلم ميں اس واقعے كى چھہ طريقوں سے روايت ہوئي ہے اخرى روايت كے الفاظ يوں ہيں ، ازواج رسول نے عائشه سے كہا ، خدا كى قسم ، رسول(ص) خدا نے جو سالم كو اجازت دى تھى اسكے سلسلے ميں ہم لوگ جانتے ہيں اور يہ حكم صرف اسى سے مخصوص تھا لہذا ہم لوگ دودھ پلا كر كسى كو اپنا محرم نہيں بنائيں گے(۳۶)

سالم بن عبد اللہ بن عمر ، ان ميں سے ہے جس نے عالم جوانى ميں كئي مرتبہ دودھ پيا عائشه كے يہاں امد و رفت كرنے لگا _

صاحب طبقات لكھتے ہيں :

ام المومنين عائشه نے سالم كو اپنى بہن ام كلثوم جو عبد اللہ بن ربيعہ كى بيوى تھى كے پاس بھيجا تاكہ پہلے ان كا دودھ پئے پھر عائشه كے پاس اكر حديث سنے(۳۷)

صحيح مسلم نے جو حديث بيان كى ہے وہ تمام ديگر ازواج رسول (ص) اور ام سلمى كى مسئلہ رضاعت ميں تائيد كرتى ہے _

عائشه كہتى ہيں كہ ، ايك دن رسول(ص) اسلام گھر ميں آئے تو ميرے پاس ايك شخص كو بيٹھا ديكھا رسول اكرم (ص) بہت ناراض

____________________

۳۵_مسند احمد ج۱ ص ۱۹۵

۳۶_ مسند احمد ج۶ ص ۲۷۱

۳۷_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۷۰ ، سنن ابن ماجہ حديث نمبر ۱۹۵۷

۱۵۸

ہوئے اور اپكا چہرہ غصے سے سرخ ہو گيا ، ميں نے عرض كى يا رسول اللہ يہ ميرا رضاعى بھائي ہے ، رسول خدا نے كہا ،''انظر اخوتكن من الرضاعة ، فانما الرضاعة من المجاعة ''(۳۸)

صحيح مسلم كے شارح نووى اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں :

''انظر اخوتكن'' اس سلسلے ميں تمھيں غور كرنا چاہيئے كہ يہ رضاعت قانون اسلام كے تحت انجام دى گئي ہے يا نہيں ؟

كيونكہ شير خوارگى كا تعلق كمسنى سے ہے ، اور اسى طرح ضرورى ہے كہ المجاعة ، كے معنى بھوك كے لئے جائيں ، يعنى ، يہ رضاعت باعث حرمت ازدواج اس صورت ميں ہو گا كہ بچہ اتنا كمسن ہو كہ اس دودھ كے ذريعہ اسكى بھوك ختم ہو گئي ہو اور ديگر غذائوں كى احتياج نہ ہو ، درانحاليكہ ايك جوان خالى دودھ سے سير نہيں ہو سكتا ہے اور نہ اسكى بھوك ختم ہو سكتى ہے بلكہ اسكو روٹى وغيرہ كى ضرورت ہوتى ہے _ لہذا اگر ايك جوان ايك عورت كا دودھ پى لے تو اسكا فرزند رضاعى اور برادر رضاعى نہيں ہو سكتا ہے ، بلكہ صرف كمسنى ( دو سال ) ميں دودھ پينے سے محرميت پيدا ہوتى ہے _

سنن ترمذى ميں يہ عبارت نقل ہوئي ہے كہ '' لا يحرم من الرضاع الّا ما فتق الامعاء '' يعنى رضاعت اسوقت موجب حرمت ازدواج ہو گى جب بچپنے ميں عورت كا دودھ غذا كى جگہ ہو ، يا دوسرے لفظوں ميں شير خوار گى اس وقت حرمت كى باعث بنے گى جب طبق معمول دودھ پلايا جائے ، پھر نووى مزيد لكھتے ہيں ، يہ مسئلہ فقہى كتابوں ميں بہت مشہور ہے البتہ اس ميں اختلافات بہت پائے جاتے ہيں(۳۹)

ہم نے اخرى روايت كو جو نووى نے شرح صحيح مسلم ميں اور سنن ترمذى نے ام سلمى سے نقل كيا ہے اسكا تتمہ يہ ہے'' الّا ما فتق الامعاء فى الثدى و كان قبل العظام ''(۴۰)

ترمذى مزيد لكھتے ہيں :

يہ حديث صحيح ہے اور اكثر اصحاب كرام اور علمائے عظام اور ديگر حضرات نے اسى قول رسول(ص) كى روشنى ميں عمل كيا ہے

____________________

۳۸_ طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۴۶۲ ، بخارى ج۳ ص ۱۶۲ ، الموطا ء ج۳ ص ۱۱۴

۳۹_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۷۰ ، مسند احمد ج۶ ص ۱۷۶ ، ابن ماجہ حديث نمبر ۱۹۴۵

۴۰_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۷۰

۱۵۹

اور ان لوگوں كا حكم رسول (ص) كے مطابق نظريہ يہ ہے كہ ، اگر بچے كے ابتدائي دو سال ميں كوئي دودھ پلائے تو وہ بچہ محرم ہو جائے گا ، ليكن اگر دو سال كے بعد كوئي دودھ پلائے تو حرمت پيدا نہ ہو گى ، يہ حديثيں عائشه كے نظريہ كو رد كرتى ہيں ، يہى وجہ ہے كہ انھوں نے ديگر ازواج رسول (ص) نيز دوسرى حديثوں سے ٹكر لينے كے بجائے اپنى مشكلات كى عقدہ كشائي كے لئے قران سے ايك آيت ڈھو نڈھ نكالى اور اسكے ذريعہ اپنے اكلوتے فتوے كو پروان چڑہاتى رہيں _

عائشه كہتى ہيں ، ايك آيت رضاعت كے سلسلے ميں نازل ہوئي تھى ، جس ميں محرميت كے لئے دس مرتبہ دودھ پينے كو كافى جانا ہے اور يہ آيت حيات رسول(ص) ميں ايك پتّہ پر لكھ كر تخت كے نيچے ڈالدى تھى ،جب رسول(ص) اسلام بيمار ہو گئے اور ہم لوگ انكى تيمار دارى ميں مشغول تھے تو اچانك ايك بكرى گھر ميں گھس گئي اور لكھے ہوئے پتے كو جس پر يہ آيت لكھى تھى كھا گئي(۴۱)

دوسرى روايت جو عائشه سے مسلم نے نقل كى ہے :

عائشه فرماتى ہيں ، قران ميں يہ آيت ( عشر رضعات معلومات يحرمن ) موجود تھى ، پھر يہ آيت ( خمس معلومات ) سے منسوخ ہو گئي ، پھر بھى اس آيت كى بعد وفات رسول (ص) تلاوت ہوتى رہى _

عالم اہلسنت اور صحيح مسلم كے شارح نووى كہتے ہيں :

اس روايت كا مطلب يہ ہے كہ عشر رضعات خمس معلومات سے منسوخ ہوئي ، جو رسول اكرم (ص) كى اخرى زندگى ميں نازل ہوئي تھى ، اور بعض لوگ ( عشر رضعات كو ) قران كى آيت سمجھ كر تلاوت كرتے رہے اور انكو معلوم نہ ہو سكا كہ يہ آيت منسوخ ہو گئي ہے _

اس كے بعد نووى ،شافعى اور مالكى فقہى نظريہ كے اختلاف كو بيان كرنے كے بعد قول مالكى كو بيان كرتے ہيں كہ ايك ادمى كے كہنے سے الفاظ و آيا ت قرانى ثابت ہو جائے گى _

پھر قاضى عياض كى بات كو نقل كيا ہے كہ ،جوانوں نے جو دودھ پيا ہوگا وہ اس طريقے سے كہ عورتوں نے اپنے شير كو پيالے ميں نچوڑ كر انكو پلايا ہوگا نہ كہ پستان ميں منھ لگا كر(۴۲)

____________________

۴۱_صحيح مسلم ج۱۰ ص ۳۰ _ ۲۹

۴۲_عقد الفريد ج۴ ص ۱۵ ، شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۷

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213