تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 36%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63717 / ڈاؤنلوڈ: 4179
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

قبول نہيں كيا اور كہا _ ہم ہرگز اپنے دين كو دُنيا سے نہيں بيچيں گے ، اس كے بعد مدينہ سے مكہ كى طرف چل ديئے ، ليكن قبل اس كے كہ يزيد كى بيعت مرحلہ اختتام تك پہونچے دنيا سے چل بسے(۵)

ابن عبد البر مزيد لكھتا ہے :

عبد الرحمن مكہ كے اطراف ميں مقام ( حبشى ) پر نا گہانى موت سے مرے جو مكہ سے دس ميل كے فاصلہ پر ہے اور اسى جگہ دفن بھى ہوئے _

نيز كہتے ہيں كہ _ انھوں نے حالت خواب ميں جان دى ، ليكن جس وقت عائشه انكى خبر مرگ سے مطلع ہوئيں تو انھوں نے مكہ كا سفر كيا ، جب مقام حبشہ پر پہونچيں تو قبر برادر پر گئيں اور خوب گريہ كيا ، اور ان اشعار ميں بين و نوحہ كيا _ جس كا ترجمہ يہ ہے كہ :

ہم دونوں ايك طويل مدت تك بادشاہ حيرہ ( جذيمہ ) كے دو نديم كى طرح تھے جو دونوں ايك دوسرے سے بہت محبت كرتے تھے اور ہميشہ ساتھ رہتے تھے ، يہاں تك كہ لوگوں نے كہنا شروع كر ديا كہ ان دونوں ميں كبھى جدائي نہيں ہو سكتى ہے ، ليكن ميرے بھائي كى موت نے اسوقت ہم دونوں كو ايك دوسرے سے عليحدہ كر ديا ہے ، ان تمام الفتوں و محبتوں كے باوجود ايسا لگتا ہے كہ گويا ايك رات بھى ساتھ ميں نہيں تھے(۶)

پھر روتے ہوئے كہا _ خدا كى قسم _ اگر تمھارے دفن كے وقت موجود ہوتى تو تمھارے ساتھ دفن ہو جاتى تاكہ تمھارے حال پر گريہ كناں نہ رہتى _

ہاں _ اس طرح عائشه اور بنى اميہ كے درميان اختلاف كو نئي قوت مل گئي اور جنگ كے شعلے مزيد بھڑكنے لگے ، ليكن عائشه نے ايسے حالات ميں اپنے بھائي كو كھو ديا _

عبد الرحمن كو نا گہانى موت نہيں ائي تھى بلكہ اسكے اسباب و علل غور طلب ہيں _

اس كى شناخت اسى طرح ہو گى جس طرح مالك اشتر مصر كے راستے ميں مار ڈالے گئے

عبد الرحمن بن ابى بكر اور سعد بن وقاص كى موت بھى اسى طرح ہوئي ، يہ تمام مشہور شخصيتيں يزيد كى بيعت نہ كرنے كى وجہ

____________________

۵_استيعاب ج۲ ص ۳۷۳ ، اسد الغابة ج۳ ص ۳۰۶ ، اصابة ج۲ ص ۴۰۰

۶_ استيعاب ج۲ ص ۳۷۳

۱۴۱

سے مارى گئيں _

يہى وہ مقامات ہيں جہاں سے عائشه اور حكومت اموى كے درميان اختلاف كى اگ بھڑكى كيونكہ انھوں نے اس راہ ميں اپنے عزيز بھائيوں كو كھو ديا تھا ، اس پر ظلم يہ ہوا كہ كس كے بل بوتے پر بنى اميہ سے جنگ كرتيں كيونكہ اب نہ طلحہ نہ زبير و عبد الرحمن اور نہ ہى دوسرے مددگار ،

عائشه نے ان دو بيتوں كے سہارے اپنے دلى كوائف كو يوں بيان كيا ہے

ذهب الذ ين يعاش اكنافهم

و بقيت فى خلف كجلد الاجرب

لا ينفعون ولا يرجى خيرهم

و يعاب قائلم و ان لم يشعب

ترجمہ _ وہ لوگ چلے گئے جن كے سايہ رحمت ميں زندگى گزارتے تھے اور ہم انكے بعد اسى طرح ہيں جيسے جذام شخص كى كھال كہ نہ نفع بخش ہے اور نہ ہى خيركى اميد ہے _ ان كے بارے ميں كچھ كہنا گويا عيب ہے جبكہ ان لوگوں نے كوئي برائي بھى نہيں پھيلائي ہے _

دوسرى بات يہ تھى كہ عائشه كا پہلے كى طرح وہ سن بھى نہيں رہا كہ مركب پر سوار ہو كر جنگل و بيابان كى خاك چھانيں ، اور بنى اميہ كے خلاف اتش جنگ كو بھڑكائيں يہى وجہ تھى كہ انھوں نے اپنے كينے اور دشمنى كو دوسرى شكل ميں ظاہر كيا _

اور اپ نے پہلے ديكھا كہ حاكم مدينہ ( مروان ) جيسے ہى ان ( عائشه ) كى چنگل ميں آيا تو انھوں نے قول رسول (ص) كو جو كہ اسكے باپ كے سلسلے ميں تھا كہ تم تو پہلے ہى سے ملعون خدا ہو اسكو بيان كر ڈالا ، اور مدتوں اسى ڈگر پر چلتى رہيں _

ميں سمجھتا ہو ں كہ عائشه نے بنى اميہ كى مذمت ميں جو احاديث رسول (ص) بيان كى ہے يہ سب اسى دور كى ہيں _ اور اسى پر اكتفا نہيں كيا بلكہ جو كچھ اہلبيت رسول (ص) اور انكے اصحاب كے فضائل و احاديث سنيں تھى اسكو بيان كيا ، كيونكہ معاويہ و بنى اميہ كو اس دور ميں چڑھانے كے لئے سوائے فضائل اہلبيت عليھم السلام كو بيان كرنے كے كوئي چارہ نہ تھا ، اس عمل نے ان لوگوں كو سخت متحير اور انكے دماغ كو چكرا ڈالا تھا _

اس دور ميں حضرت امام حسين (ع) سے كافى محبت سے پيش انے لگيں لہذا جو بھى حديثيں ان لوگوں كے سلسلہ ميں عائشه سے نقل ہوئي ہيں اور كتب احاديث ميں جو فضائل امير المومنين (ع) اور صديقہ طاہرہ نيز انكى والدہ گرامى خديجہ كبرى (ع) كے

۱۴۲

سلسلہ ميں بيان ہوئي ہيں ضرور بالضرور اسى دور كے ہيں _

ميں سمجھتا ہوں كہ جو كلمات ندامت و شرمندگى كے عائشه نے جنگ جمل كے بارے ميں كہے ہيں اسى زمانہ كے ابتدائي دور كے ہيں اور مرتے دم تك اسى كا رونا روتى رہيں جسكى تفصيل ائندہ آئے گى _

جنگ جمل سے عائشه كى شرمندگي

ابو جندب كوفى نے عائشه سے اپنى ملاقات كى داستان يوں بيان كيا ہے

جب ہم عائشه كے گھر گئے تو انھوں نے پوچھا ، تم كون ہو ؟ ميں نے كہا ،ميں قبيلہ ازد سے جو كہ كوفہ ميں رہتا ہوں _

عائشه نے پوچھا ، آيا تم نے جنگ جمل ميں شركت كى تھى ؟

جندب كوفى نے كہا جى ہاں

عائشه نے كہا ،ايا ہمارے مخالف تھے يا موافق ؟

جندب نے جواب ديا _ ہم اپكے مخالف لشكر ميں تھے _

عائشه نے كہا _ آيا وہ كون شخص تھا كہ جس نے اپنے رجز ميں يہ كہا تھا كہ اے ام المومنين ہم اپكو جانتے ہيں ليكن اپ ہم كو نہيں پہچانتى ہيں ؟

۱۴۳

جندب نے كہا _ہاں _ وہ ميرا چچا زاد بھائي تھا _

اسكے بعد اتنا روئيں كہ ميں سمجھا كہ انكو گريہ سے ہرگز افاقہ نہيں ہو گا(۷)

ابن اثير لكھتے ہيں :

ايك روز عائشه كے يہاں گفتگو كے درميان جنگ جمل كا تذكرہ اگيا تو عائشه نے پوچھا لوگ ابھى تك اس جنگ كو ياد كئے ہوئے ہيں ؟

حاضرين نے كہا _ ہاں _

عائشه نے كہا _ اے كاش اس جنگ ميں شركت نہ كئے ہوتى اور ديگر ازواج رسول (ص) كى طرح اپنے گھر ميں رہتى ہمارے دس قيمتى فرزند رسول (ص) عبد اللہ بن زبير، عبد الرحمن ، بن حارث جيسے افراد نہ مارے جاتے(۸)

مورخين و مفسرين نے مسروق نامى شخص سے نقل كيا ہے _

عائشه جس گھڑى سورہ احزاب كى اس آيت كو پڑھتى تھيں جسميں ازواج رسول (ص) كو گھر ميں رہنے كا حكم ديا گيا تھا تو اپ اتنا روتى تھيں كہ اوڑھنى انسو سے تر ہو جاتى تھى(۹)

''عائشه مرنے سے پہلے ''

صاحب كتاب طبقات الكبرى محمد بن سعد نقل كرتے ہيں :

ايك روز ابن عباس عائشه كے مرنے سے پہلے انكو ديكھنے گئے ، تو انھوں نے انكى خوب تعريف و تحسين كى _ جب ابن عباس چلے گئے تو عائشه نے عبد اللہ بن زبير سے كہا ، ابن عباس نے ميرى تعريف كى ہے _ اب مجھے ذرہ برابر اچھا نہيں لگتا ہے كہ كوئي ہم كو اچھے نام سے ياد كرے _، ميں چاہتى ہوں كہ لوگ ہميں اس طرح سے بھلا ديں گويا دنيا ميں قدم ہى نہيں ركھا تھا(۱۰)

____________________

۷_ طبرى ج۵ ص ۱۱ حوادث جنگ جمل

۸_اسد الغابة ج۳ ص ۲۸۴ ، طبقات ابن سعد ج۵ ص ۱

۹_ طبقات ج۸ ص ۵۶

۱۴۴

كتاب بلاغات النساء ميں آيا ہے كہ _ جس وقت عائشه پر حالت احتضار كى كيفيت طارى ہوئي تو اپ بہت مضطرب و پريشان تھيں ، حاضرين نے ان سے كہا اپ اتنا پريشان كيوں ہيں اپ تو ابو بكر صديق كى بيٹى اور ام المومنين ہيں ؟

عائشه نے جواب ديا _ ميں سچ كہتى ہوں كہ جنگ جمل ميرے گلے كى ہڈى بن گئي ہے _

اے كاش اس دن سے پہلے مر كھپ گئي ہوتى يافعان ہو جاتى(۱۱)

ايك مرتبہ كہا تھا كہ _خدا كى قسم _ اچھا ہوتا كہ ميں درخت ہوتى _ قسم خدا كى _ بھتر تھا كہ اينٹ پتھر ہوتى _ خدا كى قسم _ اچھا ہوتا كہ خدا ہميں پيدا ہى نہ كرتا _

كہتے ہيں كہ _ عائشه مرتے وقت بہت حسرت و ياس سے كہتى تھيں كہ ہم نے بعد رسول(ص) حوادث ناگوار پيدا كئے ليكن اب اس دنيا سے جا رہى ہوں لہذا ہميں ازواج رسول (ص) كے پہلو ميں دفن كرنا _

عالم اہلسنت ذہبى لكھتا ہے :

حادثہ سے عائشه كى مراد جنگ جمل ہو سكتى ہے جسكو بھڑكا نے ميں انہوں نے اہم كردار ادا كيا تھا _

يہى ذہبى لكھتا ہے كہ: عائشه نے ۱۷ رمضان المبارك ۵۸ھ ميں نماز صبح كے بعد وفات پائي اور چونكہ انھوں نے وصيت كى تھى كہ مجھے رات ميں دفن كرنا لہذا مہاجرين و انصار كى اچھى خاصى جمعيت جنازے ميں شريك ہوئي لوگ خرما كى لكڑى كو روشن كئے ہوئے جنازہ كے ساتھ تھے تاكہ راستہ چلنے ميں كوئي پريشانى نہ ہو ، راوى كہتا ہے كہ _ مدينہ كى عورتيں قبرستان بقيع ميں اس طرح تھيں جيسے معلوم ہو رہا تھا كہ عيد كا دن ہے _

ابوہريرہ نے نماز جنازہ پڑھائي كيونكہ مروان كى نمائندگى ميں شہر مدينہ پر حكومت كر رہے تھے _

جس وقت عائشه كا انتقال ہوا تو انكى عمر ۶۳ سال كچھ مہينے كى تھى(۱۲)

ہم نے عائشه كى زندگى كو زوجيت رسول (ص) سے ليكر انكے مرتے دم تك ، پيش كيا تاكہ انكى شخصيت اور وہ تمام گوشے جو سياسى و اجتماعى لحاظ سے تھے اجاگر ہو جائيں ، ليكن ائندہ كے صفحات ميں مزيد انكى زندگى كے بارے ميں ہم بيان كرينگے _

____________________

۱۰_ طبقات ج۸ ص۴۶۲

۱۱_ شرح نووى ج۴ ص ۱۷۰

۱۲_عقد الفريد ج۴ ص ۱۵ شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۷

۱۴۵

فصل پنجم

عائشه كى سخاوت

سخاوت اگر چہ اچھى چيز ہے مگر شرط يہ ھيكہ راہ خدا ميں كى جائے ، يعنى انسان خدا و خوشنودى خدا كى خاطر اپنى محبوب چيزوں كو ، چاہے مال كى صورت ميں ہو يا كسى دوسرى صورت ميں ، خدا سے اجر و ثواب لينے كے لئے انفاق كرے _

حقيقت ميں ايسے افراد خداوند عالم كے نزديك عظيم اجر و ثواب كے مستحق ہيں اور اخرت ميں رضاء الہى سے بہرہ مند ہوں گے _

ليكن ايك انسان جو صرف دكھاوے اور شہرت كى خاطر اپنے مال و اسباب كو لٹائے اگر چہ اس نے ايك اچھا كا م انجام ديا ہے ، مگر اخرت ميں اسكو كوئي ثواب نہيں ملے گا ، كيونكہ اس نے فقط مسائل دنيا كو نظر ميں ركھتے ہوئے مال كو خرچ كيا ہے _

عرب كے درميان يہ قديم رسم چلى ارہى تھى كہ جو لوگ ثروتمند اور رئيس قبيلہ ہوتے تھے وہ ان امور كو انجام دينے ميں مجبور تھے اور كبھى كھبار اپنے ہاتھوں سے مال و اسباب كو تقسيم كرتے تھے ، كيونكہ اگر كوئي شخص ان كے دروازے پر اكر خالى ہاتھ واپس چلا گيا تو يہ چيز انكے لئے باعث ذلت و ننگ شمار ہوتى تھى _

ظہور اسلام كے بعد بھى لوگوں نے بذل و بخشش سے ہاتھ نہيں كھينچا بلكہ يہ لوگ دو گروہ ميں بٹ گئے _

۱_ ايك گروہ اسلامى فكر كى بنياد پر راہ خدا ميں مال كو انفاق كرتا تھا _

۲_ دوسرا گروہ رسم جاہليت و عادت عرب كى پيروى كرتے ہوئے انفاق كرتا تھا _

اس قسم كى بذل و بخشش قبيلہ بنى تميم كے دو قدرتمند سرداروں نے حكومت على (ع) كے زمانے ميں كوفہ كے اطراف ميں كى تھى ، ان ميں ايك صعصہ دارمى اور دوسرا سحيم بن وثيل رياحى تھے

ان دونوں نے اپنے كو ثروتمند دكھانے كے لئے اپس ميں مقابلہ ارائي كى اور رسم جاہليت كے مطابق اونٹ ذبح كرنے كى شرط ركھى ، ہر ادمى ايك دوسرے پر سبقت ليجانے كے لئے كوشش كر رہا تھا ، اور نام و نمود كى دوڑ ميں تھا ، مقابلہ ايك اونٹ سے شروع ہوا يہاں تك كہ سو اونٹ سے زيادہ بڑھ گيا ، يہ اخرى مرتبہ حكومت علوى (ع) كے زمانہ ميں ہوا جس ميں كئي سو اونٹ ذبح ہوئے ، جب اہل كوفہ كو اسكى خبر پہونچى تو برتنوں كو ليكر گوشت لينے كے لئے دوڑے جب امام عليہ السلام كو

۱۴۶

اسكى خبر معلوم ہوئي تو اپ نے فرمايا ، ان اونٹوں كے گوشت كو نہ كھانا كيونكہ غير خدا كے نام پر ذبح ہوئے ہيں _'' لا تاكلوا منہ اھل الغير اللہ''

يعنى فخر و مباہات و رسوم جاہليت كے طور طريقہ پر قتل كئے گئے ہيں _

امام عليہ السلام كا اشار ہ قران كريم كى اس آيت كى طرف ہے كہ ،'' انما حرّم عليكم الميتة والدم لحم الخنزير وما اھل بہ لغير اللہ ''

اہل كوفہ امام كے كہنے پر رك گئے ، سارا گوشت ويسا ہى پڑا رہا اخر كار ان تمام گوشتوں كو مزبلہ پر ڈال ديا گيا تاكہ جانور وغيرہ كھا ڈاليں(۱۳)

ہمارى نظر ميں ام المومنين عائشه كاا سى گروہ ميں شمار ہونا چاہيئےيونكہ اپ نام و نمود اور شہرت كى بہت بھوكى تھيں ، اور جو شہرت خلفاء ثلاثہ كے زمانے ميں كمائي تھى اسكو اسانى سے كھونا نہيں چاہتى تھيں ، لہذا اس كو بچانے كے لئے سب سے بہترين راستہ سخاوت و بذل و بخشش تھا _

اپ ملاحظہ فرمائيں گے ، كہ سختيوں اور تكليفوں كے باوجود انھوں نے حتى الامكان مال خرچ كيا ، دوسرى طرف سخاوت كرنے كے لئے معاويہ جيسے جبار كے پاس رقم لينے كے لئے گئيں ، ہمارا دعوا بغير دليل كے نہيں ہے _ بلكہ اپ ديكھيں گے كہ عائشه نے ان اموال كو خرچ كيا جو معاويہ اور اسكے حكمرانوں نے بيت المال سے لوٹ كے انكے پاس مال و اسباب بھيجے تاكہ اپ جو دوسخاوت كا مظاہرہ كريں _

ايا ايسے اموال جو ظلم و ستم كر كے لوٹے گئے ہوں اس سے سخاوت كر كے خشنودى خدا نصيب ہو سكتى ہے ، در انحاليكہ ام المومنين كا ايسى صورت ميں سب سے پہلے شرعى فريضہ يہ تھاكہ معاويہ كى تمام چيزوں سے دور رہتيں _

ام ذرّہ نقل كرتى ہيں كہ _ ميں كبھى كھبى عائشه كے گھر آيا جايا كرتى تھى ايك روز عائشه كے يہاں دو كيسہ سامان ديكھا _

ام المومنين نے مجھ سے كہا كہ ، ميں سمجھتى ہوں كہ اس كيسہ ميں تقريبا اسى ہزار يا ايك لاكھ درہم ضرور ہوگا ، پھر ايك طشت ہم سے مانگا ميں نے انكو ديديا جبكہ ميں اس دن روزے سے تھى ، ميں نے تمام درہموں كو گھر گھر تقسيم كر ديا اور

____________________

۱۳_ اصابہ ج۲ ص ۱۰۹ ، اغانى ج ۱۹ ص ۶ ، الكنى و القاب ج۳ ص ۱۸

۱۴۷

ايك درہم بھى ام المومنين عائشه نے اپنے گھر ميں نہيں ركھا تھا_

جب غروب كا وقت ہو گيا تو عائشه نے اپنى كنيز سے ميرے لئے افطار لانے كو كہا ، كنيز نے ايك روٹى كا ٹكڑا اور زيتون كا تيل ميرے سامنے لاكر ركھا _

ميں نے كہا _ اے ام المومنين اپ نے تو سارى رقم لوگوں ميں تقسيم كردى اگر تھوڑى سى ہوتى تو ميرے لئے اس سے گوشت منگوا ديتيں تاكہ اس سے ميں افطار كرتى _

عائشه نے كہا _ اگر پہلے كہتى تو ہم ضرور اس كا انتظام كر ديتے ليكن اب كہہ رہى ہو مجھے تمھارى خواہش پورى نہ كرنے كا رنج ہے(۱۴)

عائشه كا بھانجا عروہ بن زبير كہتا ہے :

ہم نے ايك روز اپنى خالہ عائشه كو پھٹے لباس ميں ستر ہزار درہم تقسيم كرتے ہوئے ديكھا يہ بخشش مجھ پر بہت گراں گذرى كيونكہ ميں نہيں چاہتا تھا كہ ميرى خالہ اس مقدار ميں اپنے مال سے سخاوت كا مظاہرہ كريں _

ابو نعيم لكھتے ہيں :

جب عائشه نے اپنے اونٹوں كو بيچنے كى خاطر بازار ميں بھيجوايا تو عبد اللہ بن زبير نے كہا ، ہم سب سے كہہ دينگے كہ عائشه اپنا ذہنى تو ازن كھو بيٹھى ہيں تاكہ كوئي انكے اونٹوں كو نہ خريدے ، جب عائشه نے ان باتوں كو سنا تو كہا ، ميں قسم كھاتى ہوں كہ جب تك زندہ رہونگى اس سے كلام نہيں كرونگى _ چنانچہ عبد اللہ بن زبير سے پردہ بھى كر ليا ، بات چيت كافى دنوں تك بند رہى _

ايك روز مسور بن محترمہ اور عبد الرحمن بن اسود كے ساتھ عبد اللہ بن زبير چادر اوڑھ كر عائشه كے گھر گئے ، اذن دخول كے بعد تينوں گھر ميں داخل ہوئے جيسے ہى عبد اللہ بن زبير نے عائشه كو ديكھا فورا انكى گردن ميں اپنى باہيں ڈالديں اور خوب گريہ كيا ، يہاں تك كہ عبد اللہ بن زبير نے اپنى رشتہ دارى وغيرہ كى دہائي دى ، تب جا كر ام المومنين نے اس سے باتيں كيں(۱۵)

____________________

۱۴_سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۱

۱۵_حلية اولياء ج۲ ص ۴۹ ، سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۲۹

۱۴۸

ہم نے معاويہ كى مراعات مالى كو عائشه كى نسبت بيان كيا ان ميں سے بعض واقعات انشاء اللہ ائندہ بيان كروں گا _

اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ہر سخاوت و بخشش رضاء الہى كے لئے نہيں ہوتى ہے ، كيونكہ خشنودى خدا اسى وقت محقق ہو سكتى ہے جب خلوص نيت سے انفاق كيا جائے ، اور انفاق ہونے والا مال راہ حلال سے كسب ہوا ہو نہ كہ معاويہ جيسے ظالم و جابر كا مال جس نے مسلمانوں كے بيت المال سے لوٹ كھسوٹ كر كے عائشه ، ابو ھريرہ ، مغيرہ بن شعبہ ، اور عمرو بن عاص جيسے انسان كو سستى شہرت كمانے كے لئے ديا ہو _

تاكہ اسلام اور حضرت على (ع) سے مقابلہ كريں اور اپنى سياست كامياب ہو اور گڑھى ہوئي حديثيں منظر عام پر ائيں _

خاندانى تعصب

ام المومنين عائشه اپنے خاندان كے سلسلے ميں بہت متعصب تھيں ، اور اس چيز كو عبادت كى حد تك مانتى تھيں ،وہ اس راہ ميں اتنى اگے بڑھ گئي تھيں كہ تمام حدود اسلامى و مقررات شرعى كو كچل كر ركھ ديا تھا ، جب كہ تاريخى حقائق سے ظاہر ہے كہ دشمنى كے باوجود تمام تلخياں انكى گہرى دوستى ميں بدل گئيں _

ہم نے اس سے پہلے بہت سارے واقعات زندگاني عائشه كے بيان كئے اور اس ادعى پر بہت سارى دليليں بھى دى تھيں جسكو قارئين كرام نے بغير شك و ترديد كے قبول بھى كيا ہو گا ; ليكن اس مقام پر صرف ايك واقعہ جو انكى خاندانى تعصب كو ثابت كرتا ہے اور وہ انكے بھائي محمد بن ابى بكر كے ساتھ پيش آيا تھا _

يہ دونوں بھائي بہن ابتداء ميں جب عثمان كے خلاف مسلمانوں نے ہنگامہ كھڑا كيا تھا شانہ بشانہ تھے ، اور ان دونوں نے اہم كردار ادا كيا تھا ، ليكن قتل عثمان كے بعد اپنے اپ پانسہ پلٹ گيا اور دونوں ايك دوسرے كے دشمن بن گئے _

محمد بن ابى بكر نے لشكر علوى (ع) ميں اكر عائشه كے خلاف تلوار اٹھا لى اور جنگ كے تمام ہونے تك ان كے مقابلہ ميں ڈٹے رہے_

جب كہ ميں سمجھتا ہوں كہ بصرہ يا جنگ جمل ميں جب عائشه كے سردار لشكركو مار ڈالا گيا اور انكى شكست فاش ہو گئي تو اسوقت امام عليہ السلام نے محمد بن ابى بكر كو بہن كے پاس بھيجا تاكہ انكى احوال پرسى كر ليں اور جانے كے سلسلے ميں ان سے پوچھيں _

جب محمد نے اپنى بہن كے محمل ميں سر ڈالا تو عائشه چيخنے لگيں ، وائے ہو تم پرتم كون ہو ؟

۱۴۹

محمد بن ابى بكر نے كہا ، ميں ہوں جس كو اپ اپنے خاندان ميں زيادہ دشمن ركھتى ہيں _

عائشه نے كہا _ اچھا تم زن خثعمى كے بيٹے ہو _

محمد نے جواب ديا _ جى ہاں

عائشه نے كہا _ خدا كا شكر ہے كہ تم كو صحيح وسالم ديكھ رہى ہوں(۱۶)

زيادہ دن نہيں گذرا تھا كہ محمد بن ابى بكر مصر ميں مار ڈالے گئے اور انكے سر كو تن سے جدا كر كے گدھے كى كھال ميں بھر كر جلا ديا گيا _

اس ناگوار حادثے كے خبر جب عائشه كو معلوم ہوئي تو تمام خلش كے با وجود بھائي كى موت پر خوب گريہ كيا _

ليكن جس وقت خواہر معاويہ اور رسول كى زوجہ ( ام حبيبہ ) كو اسكى اطلاع ملى تو انھوں نے ايك بھنا ہوا بكرا عائشه كے دل كو جلانے كے لئے بھيج ديا _ اس سے اشارہ يہ تھا كہ ديكھو جس طرح تم دونوں نے عثمان كو مارا تھا اسى طرح ہم نے تمہارے بھائي محمد سے بدلہ لے ليا ہے _

جيسے ہى عائشه نے اس بھنے بكرے كو ديكھا تو چيخنے لگيں اور كہا _ خدا، زانى عورت (ھند ) كى بيٹى كو مار ڈالے _

خدا كى قسم _ ہم ہرگز بھنا ہوا بكرا نہيں كھائينگے _

پھر اپنے بھائي كے اہل و عيال كو اپنے يہاں لے ائيں(۱۷)

قاسم بن محمد بن ابى بكر كا بيان ہے :

جب حكومت اموى كے مامورين معاويہ بن خديج كندى اور عمرو بن عاص نے ميرے باپ كو مصر ميں مار ڈالا تو ہمارے چچا عبد الرحمن بن ابى بكر گھر آئے اور ہم بھائي بہنوں كو مدينہ لے جانے لگے ، مدينہ پہونچنے سے پہلے عائشه نے اپنا ايك نمائندہ بھيجديا تھا تاكہ عبد الرحمن اپنے گھر نہ لے جا سكيں ، ہم لوگ اپنى پھوپھى ( عائشه ) كے گھر اگئے انھوں نے ہمارے ساتھ وہى سلوك كيا جو اولاد كے ساتھ والدين كيا كرتے ہيں اور ہميشہ اپنے زانو پر بيٹھا كر شفقت و

____________________

۱۶_طبرى ج۵ ص ۲۰۴ ، عقد الفريد ج۴ ص ۳۲۸ ، يعقوبى ج۲

۱۷_تذكرة الخواص ص ۱۱۴ ، تمہيد و البيان ص ۲۰۹

۱۵۰

محبت كيا كرتى تھيں ، كافى دنوں تك ايسا ہى چلتا رہا _

ايك دن عائشه نے اپنے بھائي عبد الرحمن كى رفتار كو بدلا ديكھا تو انہوں نے احساس كيا كہ كہيں ا ن كو برا تو نہيں لگ گيا ہے كہ ہم اپنے گھر ميں لے ائيں ،

لہذا ايك شخص كو عبد الرحمن كے پاس بھيجا ، جب وہ آئے تو عائشه نے كہا اے عبد الرحمن ، جب سے محمد كے فرزندوں كو اپنے يہاں ليكر اگئي ہوں ہم كو احساس ہوتا ہے كہ تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو ، ليكن خدا كى قسم ، ہم نے ان دونوں كو تم سے نہيں چھڑايا ہے اور نہ ہى تم سے كوئي بد گمانى ہے ، بلكہ اسكى وجہ صرف يہ ہے كہ تمھارى كئي بيوياں ہيں اور يہ ابھى كمسن ہيں ، لہذا ميں ڈرتى ہوں كہ كہيں يہ شرارت كرديں تو تمھارى بيوياں ان سے نفرت كرنے لگيں ، اور ميں ان لوگوں سے زيادہ مہربان ہو سكتى ہوں اور ايسے بہت واقعات پيش آئے ہيں ، مجھ سے بہتر كون ان كى سر پرستى كر سكتا ہے _ ہاں _ جب يہ دونوں بڑے ہو جائيں اور اپنا پورا خيال كرنے لگيں تو ميں ان دونوں كو تمھارى كفالت ميں ديدونگى _ تم ا ن كى محافظت حجية بن مضروب كے بھائي كى طرح كرنا ، اسكے بعد پورى داستان بيان كى كہ قبيلہ كندہ كا ايك ادمى تھا جب اسكا بھائي مر گيا تو اسكے چھوٹے بچوں كو اسكا بھائي اپنے گھر لے آيا اور اپنے بچوں سے زيادہ ان سے محبت كرتا تھا ، ايك مرتبہ اسكے بھائي كو اچانك سفر در پيش ہوا تو جاتے وقت اپنى بيوى سے كہا كہ بھائي كے يتيم بچوں پر كافى دھيان دينا,

۱۵۱

ليكن جب سفر سے واپس آيا تو كيا ديكھا كہ بھائي كے بچے كافى نحيف و لاغر ہو گئے ہيں ، اپنى زوجہ سے كہا كہ لگتا ہے تم نے ان بچوں كى ديكھ بھال صحيح سے نہيں كى تھى اخر وجہ كيا ہے كہ ہمارے بچے صحت مند ہيں اور بھائي كے بچے كمزور و لاغر _ بيوى نے كہا _ ہم نے بچوں كے درميان كوئي فرق نہيں ركھا تھا ان بچوں نے كھيل و شرارت كى بناء پر اپنى حالت ايسى كر ركھى ہے ، حجية بن مضروب اتنا ناراض ہوا كہ جيسے ہى اسكے اونٹ چرانے والے صحراء سے لوٹے تو اس نے ان لوگوں سے كہا يہ تمام اونٹ اور تم لوگ ہمارے بھائي كے بچوں كى ملكيت ميں چلے گئے ہو(۱۸)

جب ام المومنين عائشه نے محمد بن بكر كے بچوں كو عبد الرحمن كے حوالے كيا تھا تو ان سے سفارش كى تھى كہ ان كا خيال حجية بن مضروب كى طرح ركھنا اور ان سے اچھا برتائو كرنا نيز ايك لمحے كے لئے بھى ان سے غافل نہ رہنا _

دوسرى علامت عائشه كى خاندانى تعصب كى يہ ہے كہ ، جب عبد اللہ بن زبير مالك اشتر كے چنگل سے جنگ جمل ميں فرار كر گئے تھے تو عائشه كو ايك نے جا كر اسكى خبر دى تو انھوں نے اسكو دس ہزار درہم ديئے(۱۹)

اس طرح كے نہ جانے كتنے واقعات عائشه كى زندگى ميں پيش آئے جو سارے كے سارے انكى خاندانى تعصب كى بووخو كو ظاہر كرتے ہيں ، اور انھوں نے اس راہ ميں كافى مصيبتوں كا سامنا بھى كيا ہے _ عائشه كے خطبے جو باپ كى مدح ميں ہيں پھر چچا زاد بھائي ( طلحہ ) كو تخت خلافت پر لانے كى كوشش جسكو ہم نے پہلے تفصيل سے بيان كيا ہے پھر رسول اكرم (ص) سے حديثيں منسوب كر كے اپنے باپ اور انكے جگرى دوست عمر نيز ديگر ارباب سقيفہ جيسے ابو عبيد ہ جراح كے متعلق بيان كيں ہيں يہ سارى كى سارى ام المومنين عائشه كى اس خصلت كى نا خواستہ پذير دليل ہے جو ہم نے ان روايتوں كو اس كتاب كے باب روايت ميں خوب جانچ پڑتال كى ہے _

عائشه كى خطابت

ايك رہبر و ليڈر كے لئے سب سے اہم چيز يہ ھيكہ معاشرے ميں كس طرح بات كى جائے تاكہ انكے دلوں ميں بيٹھ جائے ، اس طرح كے افراد اگر كلام كى نزاكت كو جان جائيں تو معاشرہ ميں كافى اچھا اثر ڈال سكتا ہے ، اور ساتھ ميں يہ بھى بتا دوں كہ اس ميں مومن ہونا شرط نہيں ہے بلكہ اگر ايك كافر و منافق شخص فن خطابت سے واقف ہے تو معاشرے ميں اپنا اچھا اثر ڈال سكتا ہے _

____________________

۱۸_اغانہ ج ۲۱ ص ۱۰ ، اشتقاق ص ۳۷۱

۱۹_ عقد الفريد ج۳ ص ۱۰۲

۱۵۲

عائشه اجتماعى اور سياسى شخصيت كے علاوہ فن خطابت ميں بھى كافى مہارت ركھتى تھيں _ جب معاويہ اپنے غلام ذكوان كے ساتھ عائشه كے گھر جا رہا تھا تو اس نے كہا : خدا كى قسم _ ميں نے رسول(ص) اسلام كے بعد عائشه سے زيادہ كسى كو فصيح و بليغ نہيں پايا(۲۰) اخنف بن قيس كہتا ہے : ميں نے ابو بكر اور ديگر خلفاء كى تقريريں سنيں مگر عائشه سے اچھى كسى كى تقرير نہيں لگى(۲۱)

ايك دن معاويہ نے زياد سے پوچھا كہ يہ بتائو كہ لوگوں ميں سب سے اچھا مقرر كون ہے _

زياد نے كہا _ امير المومنين اپ ہيں _

معاويہ نے كہا _ پھر قسم كھائو

زياد نے جواب ديا _ چونكہ بات قسم پر اگئي ہے لہذا مجبور ہوں كہ يہ كہوں كہ عائشه سب سے اچھى خطيب ہيں _

معاويہ نے كہا _ عائشه نے جس دروازے كو بند كر ديا اس كو كوئي كھول نہ سكا اور جس كوكھول ديا اس كو كوئي بند نہ كر سكا _

جو كچھ معاويہ اور اخنف بن قيس اور ديگر حضرات نے عائشه كے فن خطابت كے سلسلہ ميں كہا ہے _ ہم اس سے اتفاق نہيں كرتے ہيں ان لوگوں نے مبالغہ سے كام ليا ہے ، كيونكہ ايك طرف يہ لوگ اپس ميں ايك دوسرے كے دوست اور ہم نوالہ و ہم پيالہ تھے ، دوسرى طرف ان لوگوں نے ہميشہ فضائل اہلبيت (ع) كو چھپانے كى كوشش كى ہے_

ليكن جو كچھ اوپر كى عبارتوں سے نتيجہ نكلتا ہے وہ يہ ہے كہ عائشه ايك اچھى خطيب تھيں اور كلام عرب نيز اشعار سے واقفيت ركھتى تھى ، اور اكثر مقامات پر اپنى تقريروں ميں دور جاہليت كا مشہور و معروف لبيد كے اشعار سے استدلال كرتى تھيں _

عائشه خود كہتى ہيں كہ ، ميں نے لبيد كے ايك ھزار بيت ياد كئے تھے جسكو پڑھا كرتى تھى(۲۲) مورخين كہتے ہيں : ايك مرتبہ عائشه نے ايك قصيدہ زبانى پڑھا جو ساٹھ يا ستر بيتوں پر مشتمل تھا(۲۳) ،يہ خود انكى قوت حافظہ كى بہترين دليل ہے _ وہ اس زمانہ ميں جبكہ علم محدود تھا علم طب سے اشنا تھيں ، عروہ بن زبير جو عائشه كا بھانجا ہے اس نے اپنى خالہ كى تعريف كرتے ہوئے كہا ، اگر چہ يہ مبالغہ ارائي ہے مگر عائشه كى استعداد ذہنى كو ضرور ثابت كرتا ہے ، وہ كہتا ہے ميں نے علم طب ميں

____________________

۲۰_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۲۲۹

۲۱_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۴

۲۲_سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۸

۲۳_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۶

۱۵۳

اپنى خالہ ( عائشه ) سے زيادہ كسى كو ماہر نہيں ديكھا ، ايك دن ميں نے سوال كيا

اے خالہ _ اپ نے كس سے حكمت سيكھى ہے_

انھوں نے كہا _ ميں نے ہميشہ لوگوں كى باتوں كو غور سے سنا اور جو كچھ ان لوگوں نے كہا اسكو اپنے دماغ ميں محفوظ كر ليا(۲۴)

مورخين لكھتے ہيں

عائشه پڑھ تو ليتى تھيں ليكن لكھنے سے كوئي واسطہ نہ تھا _(۲۵)

اخر ميں بڑے افسوس كے ساتھ كہنا پڑ رہا ہے كہ ام المومنين عائشه نے ان تمام خداد اد صلاحيتوں كو حديث گڑھنے اور حضرت على (ع) اور انكے اصحاب كو شكست دينے نيز اپنے باپ كى پارٹى ( سقيفہ ) كو فروغ اور حكومت معاويہ كى مشيزيوں كى طرفدارى ميں خرچ كيا ، وہ اس فن ميں اتنى ماہر تھيں كہ جو حديثيں جذبات اور احساسات كى خاطر انھوں نے پيغمبر(ص) اسلام سے منسوب كر كے يادگارى چھوڑى ہيں وہ ابوہريرہ اور ديگر حديث پردازوں كى طرح بد ذائقہ نہيں ہيں ، بلكہ الفاظ فصيح و بليغ اور چٹ پٹے ہيں ، لہذا انكى گڑھى ہوئي حديثوں كى شناخت كرنا بہت مشكل ہے _

برادران اہلسنت پيامبر(ص) اكرم كى سيرت كو عائشه كى ہى روايتوں سے ليتے ہيں جو پا پڑ بيلنے كے مترادف ہے ، كيونكہ جھوٹ اور سچ اور خرافات اپس ميں اسقدر مل گئے ہيں كہ اس ميں طويل مدت تك چھان بين كرنے كے بعد انسان حقيقت تك نہيں پہونچ سكتا ہے _

عائشه كى زندگى ميں فاخرہ لباسي

ظہور اسلام سے پہلے عرب كا سارا معاشرہ مفلوك الحال تھا شہر مكہ ، مدينہ ، اور طائف كے چند بڑے تاجر تھے جو شان و شوكت اور رفاہ و اسائشے كے مالك تھے _

____________________

۲۴_سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۲

۲۵_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۱۳۲ ، طبقات

۱۵۴

جب اسلام كا سورج اپنى تمام جلالت و عظمت كے ساتھ طلوع ہوا تو اس نے سب سے پہلے اپنى كرنوں كو مردہ و بے حس عربوں پر ڈالا تاكہ انكى روح اور حس بيدار ہو جائے پھر انكے رہن سہن كو بدلے ، نہ كہ ايك معاشرے كو زرق و برق اور اسرافى بنائے _

اس ميں كہا جا سكتا ہے كہ ايك بے دين طبقہ تھا جو اسلام سے مقابلہ كر رہا تھا تاكہ ان لوگوں كو خراب كر دے _

ادھر پيغمبر(ص) اسلام كى انكھ بند ہوئي اور كچھ لوگوں نے تخت خلافت پر قبضہ كر ليا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ لوگوں نے خود كو بدل ڈالا _

جب عثمان كا زمانہ آيا تو تمام مسائل فراموش ہو گئے اور روم كى پرانى تہذيب اسلامى معاشرے ميں پروان چڑھنے لگى ، اور بزرگان قوم كے گھر مزين نيز لباس فاخرہ كا رواج اور دولت كى جمع اورى ہونے لگى _

اسلام نے جو معاشرے كو مساوات كا درس ديا تھا اور خدائے وحدہ لا شريك نے جو قانون بتايا تھا وہ سارى ناپيد ہو گئي اور خواہشات نفسانى كا رواج عام ہونے لگا ، اس كتاب ميں بحث كى محور عائشه كى شخصيت ہے جو بعد وفات رسول (ص) اس راہ پر چليں ، اور جس طرح ممكن ہوا جاہ طلبى كے لئے پيش پيش رہيں تاكہ لوگ انكو ثروتمند سمجھيں ، اور ہم نے جو كچھ انكى گڑ ھى ہوئي حديثيں نقل كيں ہيں نيز اركان خلافت سے جو رابطہ تھا يہ تمام كے تمام عائشه كى اسى صفت كى جلوہ نمائي كرتى ہيں ، اب دوسرے نمونے جو انكى دولت كے ہيں اسكو بيان كرتا ہوں _

۱۵۵

عائشه اس زمانے ميں بھى جب مسلمانوں كى عورتيں نيز ازواج رسول (ص) سادگى كے ساتھ رہتى تھيں ، زرق و برق لباس پہنا كرتى تھيں ، اور رنگ برنگ كے زيور ات پہنتى تھيں ، حتى اپ نے آيا م حج ميں بھى قيمتى زيورات كو نہيں اتارا كہ جہاں پر انسان اس عبادت كو انجام دينے ميں تمام مادى چيزوں كو بھلا بيٹھتا ہے _ ام المومنين عائشه كے قيمتى اور رنگ برنگ لباس پہننے كے سلسلے ميں اپنے دعوے پر دليليں پيش كروں گا _ صاحب طبقات عائشه كے بھتيجے قاسم سے نقل كرتے ہيں _ ميرى پھوپھى ( عائشه ) زرد رنگ كا لباس نيز سونے كى انگوٹھياں پہنتى تھيں _ عائشه كا بھانجا عروہ كہتا ہے :

ميرى خالہ ( عائشه ) كے پاس ايك ريشمى اوڑھنى تھى جسكو كبھى كھبار اوڑھا كرتى تھيں يہ اوڑھنى عبد اللہ بن زبير نے دى تھى _(۲۶) ايك مسلمان عورت شمسيہ نام سے روايت كرتى ہے كہ ، ايك روز عائشه كے يہاں ميں گئي تو كيا ديكھا كہ اپ زرد رنگ كا پيراہن نيز اسى رنگ كى اوڑھنى زيب تن كئے ہوئي ہيں _(۲۷) _ محمد بن اشعث جو قبيلہ كندہ كا سردار تھا اس نے عائشه كے پاس ايك شال تحفے ميں بھيجى جس كوسردى ميں اوڑھا كرتى تھيں _ امينہ كا بيان ہے كہ ايك روز ميں نے عائشه كو سرخ رنگ كى چادر اور سياہ رنگ كا مقنعہ پہنے ہوئے ديكھا تھا _(۲۸) معاذ قبيلہ عدى كى عورت نقل كرتى ہے كہ _ ميں نے عائشه كو ايك روز پيلے رنگ كا برقع اوڑھے ديكھا تھا(۲۹) بكرہ بنت عقبہ كہتى ہے ، ايك دن عائشه كو مضرج رنگ كا جمپر پہنے ديكھا ، لوگوں نے پوچھا مضرج كيا ہے اس نے جواب ديا ، ارے وہى تو ہے جس كو تم لوگ پھول كا رنگ كہتے ہو(۳۰) قاسم بن محمد بن ابى بكر نقل كرتا ہے : عائشه نے زرد رنگ كے لباس سے احرام باندھا نيز سونے اور رنگين كپڑے پہن كر اعمال حج كو انجام ديا تھا(۳۱) عبد الرحمن بن قاسم اپنى والدہ سے نقل كرتا ہے كہ ميرى ماں نے عائشه كو شوخ سرخ رنگ كے لباس ميں ديكھا در انحاليكہ وہ حالت احرام ميں تھيں(۳۲) عطا ء كہتا ہے كہ ہم عبيد ہ بن عمير كے ہمراہ عائشه كے يہاں گئے ، يہ كوہ ثبير كے مسجد كى اس وقت مجاورى كرتى تھيں ، لہذا

____________________

۲۶_ طبقات ج۲ ص ۷۳

۲۷_ طبقات ج۲ ص ۶۹

۲۸_طبقات الكبرى ج۸ ص ۷۳_۶۹

۲۹_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص۱۳۲

۳۰_طبقات ، سير اعلام النبلائ

۳۱_طبقات ، سير اعلام النبلاء

۳۲_طبقات الكبرى عائشےہ كے شرح حال ميں

۱۵۶

ان كے لئے ايك خيمہ نصب كر ديا گيا تھا ، چونكہ ميں اس وقت بہت چھوٹا تھا لہذا ام المومنين عائشه نے صرف ايك چادر اوپر سے اوڑھ لى تھى ، ہم نے انكو سرخ رنگ كے لباس پہنے ہوئے ديكھا تھا(۳۳)

بخارى تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ مزيد بيان كرتے ہيں :

لوگوں نے عطاء سے پوچھا كہ عائشه كيا پہنے ہوئے تھيں ، اس نے كہا ، وہ تركى خيمہ ميں تھيں اور صرف چادر اوڑھ ركھى تھى ہمارے اور انكے درميان صرف چادر كا فاصلہ تھا ميں نے عائشه كو سرخ رنگ كے لباس ميں ديكھا تھا(۳۴) _

مسئلہ رضاعت ميں ، عائشه كا نرالا فتوا

عائشه اپنے باپ كے زمانے سے ليكر عصرمعاويہ تك سوائے حكومت علوى (ع) كے مذہبى مسائل ميں مرجع وقت تھيں _ اور خلفاء ان سے مختلف مسائل ميں انكى رائے كو معلوم كرتے تھے جس كى وجہ سے وہ ديگر ازواج رسول (ص) سے زيادہ مورد توجہ تھيں ، اور انكے گھر ميں سوال كرنے والوں كا تانتا بندھا رہتا تھا ، پھر اپ نے پہلے يہ بھى ملاحظہ فرمايا كہ ديگر ازواج مطہرات ميں وہ تنھا تھيں جنھوں نے اپنى سارى زندگى كو زمانے كى سياست ميں گذارا تھا ، اور وہ تمام خونريزياں جو اپ نے ملاحظہ فرمائيں وہ ديگر ازواج رسول (ص) نے نہيں كى تھيں _

شايد يہى وہ باتيں تھيں جنكى وجہ سے اپ نے حديث رسول (ص) كى تاويل كرتے ہوئے ايك فتوا ٹھونك ديا جس پر ديگر ازواج رسول (ص) نے اعتراض كيا _

مسند احمد ميں حديث يوں بيان ہوئي ہے

عائشه فرماتى ہيں كہ سہيلہ بنت سہيل بن عمر نے جو ابو حذيفہ كى بيوى تھى رسول (ص) اكرم سے سوال كيا كہ ابو حذيفہ كا ازاد كردہ غلام سالم ہمارے گھر ميں اتا ہے اور ميں اس سے پردہ نہيں كرتى ہوں ، كيونكہ ابو حذيفہ نے اسكو اپنا منھ بولا فرزند بنا ليا ہے ، جس طرح رسول (ص) نے زيد كو اپنا فرزند بنا ليا تھا ، جس پر يہ آيت نازل ہوئي تھى'' ادعوهم لابائهم هوا قسط عند الله '' سورہ احزاب ايہ ۵

____________________

۳۳_طبقات الكبرى عائشےہ كے شرح حال ميں

۳۴_ بخارى باب طواف النساء ميں باب حج ج۱ ص ۱۸۰

۱۵۷

ترجمہ آيت : ( ان بچوں كو انكے باپ كے نام سے پكارو كہ يہى خدا كى نظر ميں انصاف سے قريب تر ہے )

پيغمبر اسلام (ص) نے سہيلہ سے فرمايا :

تم ازاد كردہ غلام اور منھ بولے فرزند كو پانچ مرتبہ شير ديدو تاكہ وہ تمھارا فرزند رضاعى اور تمھارا محرم ہو جائے _

عائشه نے اس روايت سے ( جسكى راوى بھى خود ہيں ) استدلال كيا اور اپنى بہنوں اور بھانجيوں كو حكم ديا كہ تم لوگ اپنا دودھ پلائو چاہے جوان ہى كيوں نہ ہو ، تاكہ جو لوگ ( عائشه ) سے ملنے كے مشتاق ہوں دودھ پلانے كى وجہ سے محرم ہو جائيں ، اور اطمينان كے ساتھ انكے گھر ميں امد و رفت كريں ، مگر ام سلمى اور ديگر ازواج رسول (ص) نے اپنى بہنوں كو اس كام سے منع كيا اور ان لوگوں نے كہا كہ ، مسئلہ رضاعت كا تعلق كمسنى سے ہے اور عائشه نے اپنى طرف سے فتوا گڑھا ہے ، اور رسول خدا (ص) نے جو حكم ديا تھا شايد وہ صرف ابو حذيفہ كے غلام كے لئے ہوگا نہ كہ تمام لوگوں كے لئے(۳۵) _

صحيح مسلم ميں اس واقعے كى چھہ طريقوں سے روايت ہوئي ہے اخرى روايت كے الفاظ يوں ہيں ، ازواج رسول نے عائشه سے كہا ، خدا كى قسم ، رسول(ص) خدا نے جو سالم كو اجازت دى تھى اسكے سلسلے ميں ہم لوگ جانتے ہيں اور يہ حكم صرف اسى سے مخصوص تھا لہذا ہم لوگ دودھ پلا كر كسى كو اپنا محرم نہيں بنائيں گے(۳۶)

سالم بن عبد اللہ بن عمر ، ان ميں سے ہے جس نے عالم جوانى ميں كئي مرتبہ دودھ پيا عائشه كے يہاں امد و رفت كرنے لگا _

صاحب طبقات لكھتے ہيں :

ام المومنين عائشه نے سالم كو اپنى بہن ام كلثوم جو عبد اللہ بن ربيعہ كى بيوى تھى كے پاس بھيجا تاكہ پہلے ان كا دودھ پئے پھر عائشه كے پاس اكر حديث سنے(۳۷)

صحيح مسلم نے جو حديث بيان كى ہے وہ تمام ديگر ازواج رسول (ص) اور ام سلمى كى مسئلہ رضاعت ميں تائيد كرتى ہے _

عائشه كہتى ہيں كہ ، ايك دن رسول(ص) اسلام گھر ميں آئے تو ميرے پاس ايك شخص كو بيٹھا ديكھا رسول اكرم (ص) بہت ناراض

____________________

۳۵_مسند احمد ج۱ ص ۱۹۵

۳۶_ مسند احمد ج۶ ص ۲۷۱

۳۷_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۷۰ ، سنن ابن ماجہ حديث نمبر ۱۹۵۷

۱۵۸

ہوئے اور اپكا چہرہ غصے سے سرخ ہو گيا ، ميں نے عرض كى يا رسول اللہ يہ ميرا رضاعى بھائي ہے ، رسول خدا نے كہا ،''انظر اخوتكن من الرضاعة ، فانما الرضاعة من المجاعة ''(۳۸)

صحيح مسلم كے شارح نووى اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں :

''انظر اخوتكن'' اس سلسلے ميں تمھيں غور كرنا چاہيئے كہ يہ رضاعت قانون اسلام كے تحت انجام دى گئي ہے يا نہيں ؟

كيونكہ شير خوارگى كا تعلق كمسنى سے ہے ، اور اسى طرح ضرورى ہے كہ المجاعة ، كے معنى بھوك كے لئے جائيں ، يعنى ، يہ رضاعت باعث حرمت ازدواج اس صورت ميں ہو گا كہ بچہ اتنا كمسن ہو كہ اس دودھ كے ذريعہ اسكى بھوك ختم ہو گئي ہو اور ديگر غذائوں كى احتياج نہ ہو ، درانحاليكہ ايك جوان خالى دودھ سے سير نہيں ہو سكتا ہے اور نہ اسكى بھوك ختم ہو سكتى ہے بلكہ اسكو روٹى وغيرہ كى ضرورت ہوتى ہے _ لہذا اگر ايك جوان ايك عورت كا دودھ پى لے تو اسكا فرزند رضاعى اور برادر رضاعى نہيں ہو سكتا ہے ، بلكہ صرف كمسنى ( دو سال ) ميں دودھ پينے سے محرميت پيدا ہوتى ہے _

سنن ترمذى ميں يہ عبارت نقل ہوئي ہے كہ '' لا يحرم من الرضاع الّا ما فتق الامعاء '' يعنى رضاعت اسوقت موجب حرمت ازدواج ہو گى جب بچپنے ميں عورت كا دودھ غذا كى جگہ ہو ، يا دوسرے لفظوں ميں شير خوار گى اس وقت حرمت كى باعث بنے گى جب طبق معمول دودھ پلايا جائے ، پھر نووى مزيد لكھتے ہيں ، يہ مسئلہ فقہى كتابوں ميں بہت مشہور ہے البتہ اس ميں اختلافات بہت پائے جاتے ہيں(۳۹)

ہم نے اخرى روايت كو جو نووى نے شرح صحيح مسلم ميں اور سنن ترمذى نے ام سلمى سے نقل كيا ہے اسكا تتمہ يہ ہے'' الّا ما فتق الامعاء فى الثدى و كان قبل العظام ''(۴۰)

ترمذى مزيد لكھتے ہيں :

يہ حديث صحيح ہے اور اكثر اصحاب كرام اور علمائے عظام اور ديگر حضرات نے اسى قول رسول(ص) كى روشنى ميں عمل كيا ہے

____________________

۳۸_ طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۴۶۲ ، بخارى ج۳ ص ۱۶۲ ، الموطا ء ج۳ ص ۱۱۴

۳۹_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۷۰ ، مسند احمد ج۶ ص ۱۷۶ ، ابن ماجہ حديث نمبر ۱۹۴۵

۴۰_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۷۰

۱۵۹

اور ان لوگوں كا حكم رسول (ص) كے مطابق نظريہ يہ ہے كہ ، اگر بچے كے ابتدائي دو سال ميں كوئي دودھ پلائے تو وہ بچہ محرم ہو جائے گا ، ليكن اگر دو سال كے بعد كوئي دودھ پلائے تو حرمت پيدا نہ ہو گى ، يہ حديثيں عائشه كے نظريہ كو رد كرتى ہيں ، يہى وجہ ہے كہ انھوں نے ديگر ازواج رسول (ص) نيز دوسرى حديثوں سے ٹكر لينے كے بجائے اپنى مشكلات كى عقدہ كشائي كے لئے قران سے ايك آيت ڈھو نڈھ نكالى اور اسكے ذريعہ اپنے اكلوتے فتوے كو پروان چڑہاتى رہيں _

عائشه كہتى ہيں ، ايك آيت رضاعت كے سلسلے ميں نازل ہوئي تھى ، جس ميں محرميت كے لئے دس مرتبہ دودھ پينے كو كافى جانا ہے اور يہ آيت حيات رسول(ص) ميں ايك پتّہ پر لكھ كر تخت كے نيچے ڈالدى تھى ،جب رسول(ص) اسلام بيمار ہو گئے اور ہم لوگ انكى تيمار دارى ميں مشغول تھے تو اچانك ايك بكرى گھر ميں گھس گئي اور لكھے ہوئے پتے كو جس پر يہ آيت لكھى تھى كھا گئي(۴۱)

دوسرى روايت جو عائشه سے مسلم نے نقل كى ہے :

عائشه فرماتى ہيں ، قران ميں يہ آيت ( عشر رضعات معلومات يحرمن ) موجود تھى ، پھر يہ آيت ( خمس معلومات ) سے منسوخ ہو گئي ، پھر بھى اس آيت كى بعد وفات رسول (ص) تلاوت ہوتى رہى _

عالم اہلسنت اور صحيح مسلم كے شارح نووى كہتے ہيں :

اس روايت كا مطلب يہ ہے كہ عشر رضعات خمس معلومات سے منسوخ ہوئي ، جو رسول اكرم (ص) كى اخرى زندگى ميں نازل ہوئي تھى ، اور بعض لوگ ( عشر رضعات كو ) قران كى آيت سمجھ كر تلاوت كرتے رہے اور انكو معلوم نہ ہو سكا كہ يہ آيت منسوخ ہو گئي ہے _

اس كے بعد نووى ،شافعى اور مالكى فقہى نظريہ كے اختلاف كو بيان كرنے كے بعد قول مالكى كو بيان كرتے ہيں كہ ايك ادمى كے كہنے سے الفاظ و آيا ت قرانى ثابت ہو جائے گى _

پھر قاضى عياض كى بات كو نقل كيا ہے كہ ،جوانوں نے جو دودھ پيا ہوگا وہ اس طريقے سے كہ عورتوں نے اپنے شير كو پيالے ميں نچوڑ كر انكو پلايا ہوگا نہ كہ پستان ميں منھ لگا كر(۴۲)

____________________

۴۱_صحيح مسلم ج۱۰ ص ۳۰ _ ۲۹

۴۲_عقد الفريد ج۴ ص ۱۵ ، شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۷

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213