تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 213
مشاہدے: 53113
ڈاؤنلوڈ: 2751


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53113 / ڈاؤنلوڈ: 2751
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد 3

مؤلف:
اردو

ام المومنين عائشه مسئلہ رضاعت ميں تمام ازواج رسول(ص) كى مورد انتقاد بنى رہيں پھربھى اپنے نرالے فتوے پر عمل كرتى رہيں _

عائشه كى زندگى كے چند گوشے

عائشه اپنى سارى زندگى تاريك و بھيانك ماحول اور مشكلات ميں گذارنے كے باوجود اپنى ذہانت و فطانت سے مزاج كلام اور طنز كو خوب سمجھتى تھيں ، اس سلسلہ ميں تاريخ كے دامن ميں ان كے واقعات يادگارى حيثيت سے اج بھى موجود ہيں _

ابن عبد ربہ اپنى مشہور كتاب عقد الفريد ميں لكھتے ہيں :

ايك روز حسن (ع) بن على (ع) معاويہ كے پاس گئے عبد اللہ بن زبير اور ابو سعيد بن عقيل پہلے ہى سے وہاں بيٹھے ہوئے تھے ، جيسے ہى امام حسن (ع) تشريف فرما ہوئے معاويہ نے پوچھا ، اے ابا محمد (ص) على (ع) و زبير ميں كون بڑا تھا _

امام (ع) نے جواب ديا ، سن كے اعتبار سے دونوں برابر تھے ليكن عظمت و منزلت كے اعتبار سے على (ع) بڑے تھے _

عبد اللہ بن زبير نے كہا ، خدا زبير پر اپنى رحمت نازل كرے_، امام عليہ السلام اس بات پر مسكرائے اور اس كے پس منظر ميں معاويہ كى سياست كو بھانپ ليا ، ليكن ابو سعيد بن عقيل غصے ميں اكر كہنے لگے كہ ، على (ع) و زبير كى باتوں كو چھوڑو ، على (ع) نے لوگوں كو اس امر كى طرف دعوت دى جسكے خود امام و پيشوا تھے ليكن زبير نے لوگوں كو اس طرف بلايا جس كى رياست و پيشوائي كا عہدہ ايك عورت كى گردن پر تھا ؟

جس گھڑى دونوں لشكروں ميں گھمسان كى جنگ ہوئي تو زبير نے جنگ سے فرار اختيار كيا اور قبل اسكے كہ حق كى پيروى كرتے ايك شخص نے ان كو مار ڈالا اگر زبير كا مقابلہ ان كے قاتل سے كيا جائے تو بھى وہ اس سے ايك بالشت چھوٹے ہى نظر ائيں گے ، قاتل نے ان كے سر كو تن سے جدا كيا پھر امام (ع) ( على (ع) ) كى خدمت ميں تحفةََ پيش كيا ، مگر امام (ع) كا كردار جس طرح لشكر رسول (ص) ميں تھا اسى طرح اس دن بھى تھا پس خدا على (ع) پر رحمت نازل كرے نہ كہ زبير پر ؟

عبد اللہ بن زبير نے كہا ، خدا كى قسم ، اگر تمھارے علاوہ كوئي اور ہوتا تو ميں اس كو بتا ديتا ، ابو سعيد نے كہا ، امام حسن نے تمھارا خيال صرف اس لئے كيا كيونكہ تم سن ميں بڑے ہو اور يہى وجہ ہے كہ انھوں نے تم كو جواب نہيں ديا لہذا ميں مجبور ہوا كہ تمھارا جواب دوں _

۱۶۱

اس قضيہ كى خبر عائشه تك پہونچى ، ايك روز ابو سعيد كا گذر ان كے گھر كى طرف سے ہوا ، انھوں نے ہانك لگائي ، اے احول _ اے خبيث _ آيا تم وہى ہو جس نے ميرے بھانجے كو برا بھلا كہا ہے _

ابو سعيد نے اس آواز پر چاروں طرف نگاہ دوڑائي مگر جب كسى كو نہيں پايا ، تو انہوں نے بآواز بلند كہا كہ ، شيطان تمھيں ديكھ رہا ہے مگر تم اسكو ديكھنے كى قدرت نہيں ركھتے ہو _

چونكہ آواز عائشه نے دى تھى لہذا اس جواب پر خوب ہنسيں اور كہنے لگيں ، خدا تمہارى مغفرت كرے ، تيرى زبان كتنى تيز و تند ہے(۴۳)

اگر اپ نے مذكورہ واقعہ پر غور كيا ہوگا تو معلوم ہوا ہوگا كہ معاويہ كى چال يہ تھى كہ امام حسن (ع) كو زبير كے بيٹے سے ٹكرا كر بغض و كينہ كى اگ لگا دے ، اور اسكى ہميشہ يہى سياست رہى كہ ايك سردار كو دوسرے كے خلاف بھڑكا دے ، اور ايسا ہى اس واقعہ ميں ہوا كہ عبد اللہ بن زبير معاويہ كے دام فريب ميں اگئے تھے ، ليكن امام (ع) معاويہ كى كامل شناخت ركھتے تھے ، لہذا اسكے جال ميں نہيں آئے ، اور اسى واقعہ ميں اپ نے عائشه كا كردار بھى ملاحظہ فرمايا اگر عائشه كى سارى زندگى كے واقعات كو ايك جملہ ميں سميٹا جائے تو يہ ہوگا كہ ، اپنوں سے دوستى اور دشمن كے مقابلہ ميں دشمنى ، عائشه كى زندگى ميں ايسے واقعات نہ جانے كتنى مرتبہ پيش آئے ہيں ، جنھيں خود احمد بن حنبل نے اپنى مسند ميں نقل كيا ہے وہ لكھتے ہيں :

عمار ياسر كے ساتھ مالك اشتر عائشه كے گھر گئے ، جب گھر ميں داخل ہوئے تو عمار ياسر نے ام المومنين كہہ كر خطاب كيا ، عائشه نے كہا ، ميں تمہارى ماں نہيں ہوں ، عمار نے پوچھا ، اپ ہمارى ماں كيوں نہيں ہيں اور اس سے كڑا ہتى كيوں ہيں _

عائشه نے سوال كيا كہ يہ تمہارے ساتھ كون ہے ، عمار نے كہا ، مالك اشتر ہيں

عائشه نے مالك اشتر سے كہا كہ ، تم وہى مالك اشتر ہو جو ميرے بھانجے كو قتل كرنا چاہتے تھے _

مالك اشتر نے كہا _ جى ہاں _ وہ مجھے قتل كرنا چاہتا تھا لہذا ميں بھى ايسا ہى كرنا چاہتا تھا _

عائشه نے كہا _ اگر تم اسكو مار ڈالتے تو ہر گز نيك و صالح نہ ہوتے كيونكہ ميں نے پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے كہ اپ (ص) نے

____________________

۴۳_مسند احمد ج۶ ص ۲۰۵

۱۶۲

فرمايا: تين صورتوں ميں مسلمان كو قتل كرنا جائز ہے ، اگر كوئي قتل كرے تو ا س كو قتل كرنا جائز ہے يا كوئي شخص بيوى ركھنے كے باوجود زنا كرے تو خون بہانا جائز ہے يا مسلمان ہونے كے بعد مرتد ہو جائے تو اسكو مار دينا چاہيئے(۴۴)

يہاں پر بہتر ہے كہ ہم عائشه سے سوال كريں كہ ، اے ام المومنين ، اپ نے اس قول رسول(ص) كو اپنے بھانجے كے سلسلہ ميں كيوں نہيں ياد ركھا كہ جس نے مالك اشتر جيسے نيك انسان كو قتل كرنا چاہا ؟

كيا مسلمان كے قتل كى حرمت صرف عبد اللہ بن زبير سے مخصوص تھى ، اور جو ہزاروں بے گناہ مسلمان خواہشات نفسانى كے تحت جنگ ميں مارے گئے كيا اس حكم ميں شامل نہيں تھے ، يا انكے خون خدا و اسلام كى نظر ميں بے وقعت تھے _

عائشه كى زندگى كا ايك اور واقعہ جو ابھى تك تاريخ ميں موجود ہے جس كو ابن عبد ربہ نے عقد الفريد ميں يوں نقل كيا ہے_

جنگ جمل كے بعد ايك دن عبد القيس كے قبيلے كى عورت ام اوفى عبديہ جسكے قبيلہ كے ہزاروں مشہور افراد جيسے حكيم بن جبلہ اسى جنگ ميں مارے گئے تھے ، عائشه كے پاس گئي اور ان سے كہا ، اے ام المومنين اس ماں كے بارے ميں اپكا كيا خيال ہے جس نے اپنے چھوٹے بچوں كو قتل كر ديا ہو _

عائشه نے كہا ، اس پر جہنم كى اگ واجب ہے

ام اوفى نے كہا ، اپ اس ماں كے سلسلے ميں كيا فرماتى ہيں جس نے اپنے بيسوں ھزار چھوٹے بڑے لوگوں كو خاك و خون ميں غلطاں كر ديا ہو_

عائشه يہ سنكر چيخنے لگيں اور كہا ، اس دشمن خدا كو گھر سے نكالو _(۴۵)

جيسا كہ ہم نے بيان كيا كہ جنگ جمل كے تمام ہولناك واقعات عائشه كے دل و دماغ پر مثل پہاڑ كے بوجھ بنے ہوئے تھے اور وہ انكى زندگى ميں كبھى ختم نہيں ہوئے جو انكى ندامت و پشيمانى كى علامت ہے ، نيز اسكے بعد جو باتيں پيش كروں گا شايد اسى سے مربوط ہوں گى _

جنگ جمل كے واقعات ايك طرف عائشه كے لئے كبيدہ خاطر ہو رہے تھے تو دوسرى طرف امويوں كے لئے مسرت و خوشحالى كے باعث بن رہے تھے اور يہ لوگ ہر دن كسى نہ كسى بہانے سے ضرور ياد كرتے تھے نيز جنگ جمل كے

____________________

۴۴_عقد الفريد ، عيون اخبار ج۱ ص ۲۰۲

۴۵_عقد الفريد ج۲ ص ۴۵۵

۱۶۳

واقعات كو ہوا دينے كے لئے مدد بھى كرتے تھے _

ابن عبد ربہ كا بيان ہے كہ بصرہ سے يزيد بن منيہ معاويہ كے پاس گيا ، يہ يعلى بن منيہ كا بھائي اور رئيس بصرہ نيز جنگ جمل كا ايك سردار تھا اور جس اونٹ پر عائشه بيٹھ كر جنگ كى سربراہى كر رہى تھيں اسكى مہار اسى نے پكڑى تھى ، پھر يعلى كى معاويہ سے رشتہ دارى يوں تھى كہ اسكى بيٹى معاويہ كے بھائي عتبہ بن ابو سفيان سے بياہى تھى _

جب يزيد بن منيہ نے اپنى مشكلات كو معاويہ سے بيان كيا تو اس نے كعب سے كہا كہ اسكو بيس ہزار دينار ديدو ، جب وہ رقم ليكر جانے لگا تو معاويہ نے پھر دستور ديا كہ چونكہ جنگ جمل ميں شريك ہوا تھا لہذا تيس ہزار دينار اور ديدو(۴۶)

ايك روز عمر و عاص نے عائشه سے كہا كہ ، كتنا اچھا ہوتا كہ اپ جنگ جمل ميں مارڈالى گئي ہوتيں ، عائشه نے كہا _ اے يتم كيوں ؟

عمرو عاص نے جواب ديا ، اگر اپ مر گئي ہوتيں تو ہم لوگوں كو لشكر علوى (ع) سے ٹكڑانے كا اچھا بہانہ مل جاتا(۴۷)

عائشه اور عمر و عاص كے ما بين دوسرى جھڑپ كو تاريخ يوں بيان كرتى ہے _

ايك روز عائشه كے گھر امير المومنين (ع) كے ہاتھوں ذوالثديہ كے مارے جانے كا تذكرہ چھڑا ، راوى كہتا ہے كہ ام المومنين نے مجھ سے كہا كہ اگر تم كوفے جانا تو ہمارے لئے ان گواہوں كو ليتے انا جنھوں نے اسكو مارتے ہوئے ديكھا تھا ، ميں كوفہ پہونچا اور شہر كے ہر گروہ سے دس افراد كو ليا اور عائشه كى خدمت ميں پہونچا ديا ، جب انھوں نے ان گواہوں كو ديكھا تو كہا ، عمر و عاص پر خدا كى لعنت ہو ، اس نے يہ كہا تھا كہ ميں نے چھاتى والے انسان كو مصر ميں مارا ہے(۴۸)

____________________

۴۶_ تاريخ كامل ج۱ ص ۱۵۱

۴۷_ مستدرك ج۴ ص ۱۳، سير اعلام ج۲ ص ۱۴۱

۴۸_ابن كثير ج۸ ص ۳۰۳

۱۶۴

ابن كثير اس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد لكھتا ہے كہ عائشه نے سر جھكا كر خوب گريہ كيا ، جب گريہ ختم ہوا تو كہنے لگيں ، خدا على (ع) پر رحمت نازل كرے كيونكہ وہ ايك لمحہ بھى حق سے جدا نہيں ہوا ہمارے اور ان كے درميان جو چپقلش اور درارپڑى تھى وہ ايسى ہى تھى جيسے ايك بياہى عورت كى سسرال والوں سے ہوتى ہے _

سوچنے كى بات يہ ہيكہ اخر عمر و عاص نے ايسا جھوٹا دعوا كيوں كيا اور اپنے كو ذو الثديہ كا قاتل كيوں بتايا _

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب رسول(ص) كى حديثوں كو ملاحظہ كيا جائے جن كو محدثين اور مورخين نے ذوالثديہ كى مذمت اور اسكے قاتل كى مدح و ستائشے ميں نقل كى ہيں ، ان حديثوں كى وجہ سے عمر و عاص ذوالثديہ كے قتل كا سہرا اپنے سرپر باندھنا چاہتا تھا _

عائشه كى زندگى كے واقعات كى جانچ پڑتال ختم كرنے كے بعد ميں چاہتا ہوں كہ معاويہ كے حالات زندگى كى كريد كى جائے تاكہ جعل حديث كے اسباب سامنے ائيں نيز اس بحث ميں عائشه كا اہم كردار بھى سامنے آئے گا _

ہمارى يہى كوشش ہے كہ وہ تمام جھوٹى حديثيں جو اسلام كى سر نگونى كى علامت بن گئيں ہيں ان پر تنقيد كى جائے تاكہ اسلام كا اصل چہرہ سامنے اجائے _

۱۶۵

فصل ششم

معاويہ كى زندگى پر ايك طائرانہ نظر

دور جاہليت ميں اميہ اور بنى اميہ، ہاشم اور بنى ہاشم كى رياست و بزرگى پر بہت حسد كرتے تھے اس حسد سے نہ جانے كتنے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے ليكن اسلام سے پہلے امويوں كى بنى ہاشم سے اتنى سخت گہماگہمى نہيں تھى ، جيسے ہى زمانے نے كروٹ ليا اور عبد المطلب بن ہاشم كے پوتے نے دنيا ئے انسانيت كو اسلام كے نام سے ايك دين تحفہ ميں ديا ، اسى وقت سے اميہ كا پوتا ابو سفيان نے قريش و اسلام كے خلاف جنگ كرنے كا بيڑا اٹھا ليا ، اكثر مقامات پر اسلام كے خلاف مشركين مكہ كى رياست و سربراہى كرتے ہوئے ابو سفيان نے اپنى تمامتر قوتوں كے ساتھ كمزور و ضعيف مسلمانوں كو اذيتوں اور شكنجوں ميں مبتلا كيا ، اور جہاں تك ممكن تھا ان لوگوں كو ايذا ء پہيونچائي _

ليكن حالات ہميشہ يكساں نہيں رہتے اخر خدا وند عالم نے اپنے رسول (ص) كى مدد و نصرت كر كے مكہ كو فتح كرو آيا اور رسول اسلام (ص) نيز مجاہدين اسلام كے لئے مكہ ميں انے جانے كا راستہ ہميشہ كے لئے كھول ديا _

فتح مكہ كے بعد قريش كے علاوہ كوئي دوسرا قبيلہ نہ تھا جس نے اپنے دامن پر تا ابد ازاد شدگان كا ذليل و حقير كا ٹائيٹل ليا ہو ، ابو سفيان كى رياست بت عرب كى طرح چور چور ہوگئي اور عصر جاہليت كے ضعيف و ناتواں ، عمار ، ابوذر ، بلال ، جيسے افراد سياسى و معاشرتى حقوق كے علمبردار بن گئے ، ايك روز ابو سفيان كا ان لوگوں كى طرف سے گذر ہوا انھوں نے اس كو ديكھ كر كہا كہ خدا كى تلوار اس دشمن خدا پر نہ پڑ سكى _

ابو سفيان نے اتنى عمر پائي كہ خلافت ابو بكر كا زمانہ ديكھا اس دور ميں اسكى خليفہ وقت سے مڈ بھيڑ ہو گئي تو خليفہ كے باپ ( قحافہ ) تعجب ميں پڑ گئے ، خليفہ نے اپنے باپ سے يوں استدلال كيا ، اے پدر بزرگوار ، خدا نے ہمارے خاندان كو اسلام كى خاطر سر بلند فرمايا ہے اور اسكے خاندان كو پستى ميں ڈالديا ہے _

ابو سفيان نے عمر بن خطاب كا دور ديكھا اس زمانہ ميں ايك روز خليفہ وقت عمر نے شہر مكہ ميں اسكو اس بات پر مجبور كر ديا كہ وہ اپنے كاندھوں پر اٹھا كر اينٹوں كو ركھے _

دوسرى مرتبہ خليفہ وقت نے ابو سفيان كے سر پر تازيانہ مارا ، جب اسكى خبر بيوى تك پہونچى تو بہت ناراض ہوئي اور

۱۶۶

خليفہ سے غصے ميں كہا ، خدا كى قسم ، اگر دور جاہليت ميں اسكو چھڑ ى مارتے تو تمھارے پائوں سے زمين نكل جاتى _ خليفہ نے جواب ديا ، تم سچ كہتى ہو ، مگر كيا كيا جائے خدا وند عالم نے ايك گروہ كو اسلام كى وجہ سے عزيز و بلند اور دوسرے گروہ كو اسلام نے ذليل و پست كر ديا _

زمانہ گذرتا رہا ، يہاں تك كہ خليفہ عثمان بن گئے ، اس دور ميں بار ديگر اموى اقتدار ميں اگئے اور بچوں كى طرح حكومت سے كھيلنے لگے ، اور تمام شہروں پر بنى اميہ كى ايك ايك فرد حكومت كرنے لگى ، اور وہ اپنے تاج و تخت پر بہت ناز كرنے لگے ، يہى وہ زمانہ ہے جس ميں متقى و صالح اصحاب رسول (ص) بار ديگر كمزور اور اذيتوں ميں مبتلا ہوگئے ، اور عمار جيسے نيك و صالح پر ظلم و ستم كا پہاڑ توڑ ا جانے لگا اور ابو ذر و مالك اشتر جيسوں كو چٹيل ميدان ميں جلا وطن كيا جانے لگا _

امويوں كے دل و دماغ غرور و نخوت سے اتنے بھر گئے تھے كہ ايك اموى نے كہا كہ عراق كى سر سبز و شاداب زمين قريش كے باغوں ميں سے ايك باغ ہے ، ان تمام ظلم و ستم اور غرور و تكبر نے بلاد اسلامى كو ايسا گھيرا اور فتنہ و اشوب كے طوفان نے ايسا چكر ميں ليا كہ اموى خليفہ اپنے گھر ہى ميں مار ڈالے گئے ، اس سخت تجربے اور پئے در پئے نا كاميوں كے بعد مسلمانوں نے مہار خلافت كو امويوں سے چھين كر بنى ہاشم كے ہاتھوں ميں ديديا تاكہ عدالت علوى كى حكومت قائم ہو جائے ، جيسے ہى مسلمانوں نے اس كام كو انجام ديا دوبارہ مدينہ كے اندر امويوں نے طوق ذلت اور قريش كے سامنے سر تسليم خم كر ديا _ ليكن سر تسليم خم كرنے كے بعد بھى سكون سے نہيں بيٹھے بلكہ ہر روز كسى نہ كسى بہانے سے حكومت علوى (ع) كے خلاف محاذ ارائي كرتے رہے تاكہ خلافت عثمان كے زمانے ميں دل حكومت كرنے كى جو چٹكياں لے رہا تھا اس كى اميد بندھ جائے امام(ع) كى حكومت كے خلاف رفتہ رفتہ اتش جنگ اتنى بھڑك اٹھى كہ بصرہ خون ميں ڈوب گيا پھر بھى انكو كوئي فائدہ نہ ہو سكا _

ان تمام ادوار ميں معاويہ جو عمر كے زمانے سے شام كى امارت كو سنبھالے ہوئے تھا ہر دن اپنى حكومت كو وسيع و عريض كرنے كى تاك ميں لگا رہتا تھا _

اسى لئے معاويہ نے امام (ع) كو خط لكھ بھيجا اور اس ميں حكومت مصر و شام كا مطالبہ كيا ، جب انحضرت (ع) نے نا مساعد جواب ديا تو خون عثمان كے نام پر ہزاروں لوگوں كو اكٹھا كر كے امام عليہ السلام سے جنگ كرلى جب جنگ سے كاميابى نہيں ملى تو معاملہ حكميت پر جا كر روكا حكميت كے بعد شام واپس آيا تو لٹيروں كو مسلسل بلاد اسلامى ميں بھيجتا رہا تاكہ بے گناہ مسلمانوں كى

۱۶۷

عورتوں كو اسير بنائيں اور چھوٹے بڑے كو قتل كر كے گھروں ميں اگ لگا ديں ، ان لٹيروں نے تقريباً تيس ہزار مسلمانوں كو تہ تيغ كيا اور ديگر مامورين نے بھى اپنے ہاتھوں سے بے گناہوں كو موت كے گھاٹ اتارا _

حضرت على (ع) كى شہادت كے بعد معاويہ نے امام حسن (ع) كى بيعت نہيں كى اور ايك بڑے لشكر كے ساتھ عراق اگيا اور امام (ع) كے محافظ و اصحاب كو سكّوں كى لالچ ديكر خريد نا شروع كر ديا اور انكو خريد كر امام (ع) پر حملہ كروايا _

جب امام (ع) نے اپنے سپاہيوں كى جنگ سے كنارہ كشى كو ديكھا اور خود اپنے كو بھى بہت زخمى پايا تو معاويہ سے صلح كر لى اور اس صلحنامہ ميں بہت سارى شرطيں ركھيں مگر اس نے ايك شرط پر بھى عمل نہ كيا ، جب كوفہ آيا تو اپنى تقرير ميں ان باتوں كو پيش كيا كہ خدا كى قسم ، اے لوگو ، ہم نے تم لوگوں سے نہ نماز كى خاطر جنگ كى تھى اور نہ ہى روزہ كيوجہ سے، ان امور كو تو تم لوگ انجام ديتے ہى ہو ، ہم نے صرف اس لئے تم لوگوں سے جنگ كى تاكہ تمھارے اوپر حكومت كروں ، اور جن شرائط پر حسن (ع) سے صلح ہوئي تھى ان سبكو اپنے قدموں تلے ركھتا ہوں _

معاويہ مجبور تھا كہ اپنى حكومت كى سياسى بنياد چاپلوسى پر ركھے اور اس نے اپنى حكومت كے پہلے ہى سال امپراطور روم سے مصالحت كر كے خراج ديا ، اور دمشق كے اطراف و اكناف ميں سكوں كى تھيلياں بھيجنے لگا ، سردار قبائل اور عرب كے مكاروں كو دولت و مقام نيز رشتہ دارى كے ذريعہ دھوكہ ديا تاكہ ان لوگوں كى مدد سے اپنى حكومت كو ٹھوس اور ظلم و ستم كے ذريعے دولت كى جمع اورى كر سكے ، يہى وہ زمانہ ہے جس ميں معاويہ نے اپنى سياست كو بدلا ، اور ايك ظالم و جابر بادشاہ كى ياد تازہ كر دى _

ايك طرف سونے اور چاندى كى بوچھار ہونے لگى تو دوسرى طرف تمام بلاد اسلامى كى پيداوار كو اپنے خونين پنجے ميں كر ليا اور تمام باشندوں كو حكم ديا كہ جس طرح عجم كے بادشاہوں كو عيد نوروز كے موقع پر تحفہ ديتے تھے اب مجھے بھى دو ، اس طرح بالكل روم و ايران كا امپرا طور بن گيا تھا_

زمانہ معاويہ ميں حديث سازياں

حكومت معاويہ كے اتے ہى اصحاب رسول (ص) نے جو حكومت علوى (ع) كے زمانے ميں امير المومنين (ع) كے ساتھ تھے ، بلاد

۱۶۸

اسلامى ميں گوشہ نشينى اختيار كر لى ، كيونكہ امام حسن (ع) كى صلح كے بعد عوام نے ساتھ چھوڑ ديا تھا لہذا بار ديگر كمزور ہو گئے اسى وجہ سے ممالك اسلامى كے مختلف شہروں ميں پھيل گئے اور جو ميں نے يہ كہا كہ اصحاب رسول (ع) اچھى خاصى تعداد ميں حضرت على (ع) كے ساتھ اور جنگ جمل وصفين ميں شريك ہوئے تھے ، اسكو خود معتبر مورخوں نے بيان كيا ہے اور معاويہ كے ساتھ صرف تين افراد كا نام تحرير كيا ہے _

تاريخ اسلام ميں ذہبى لكھتے ہيں :

جنگ جمل ميں انصار سے اٹھ سو افراد على (ع) كے ہمراہ تھے اور سات سو وہ لوگ تھے جنھوں نے بيعت رضوان ميں شركت كى تھى نيز ايك سو بيس افراد وہ تھے جو پيامبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ بدر ميں شريك ہوئے تھے(۴۹)

ابن خياط اپنى كتاب ميں لكھتا ہے :

'' اٹھ سو وہ افراد جنھوں نے رسول(ص) اسلام كے ہاتھوں پر مقام رضوان ميں زير درخت عہد و پيمان كيا تھا ، حضرت على (ع) كے ساتھ جنگ صفين ميں شريك ہوئے تھے(۵۰)

وقعة صفين ميں نصر بن مزاحم لكھتے ہيں :

جنگ صفين ميں قيس بن سعد بن عبادہ نے ايك روز نعمان بن بشير سے كہا _ اے نعمان ذرا اس بات پر غور كرنا كہ معاويہ كے ساتھ غلام اور بيوقوف عربوں يا جنگل يمنيو ں كے علاوہ كوئي اور ہے ؟

ذرا اس پر بھى سوچ بچار كر ناكہ وہ متقى مہاجر و انصار اور تابعين كس كے لشكر ميں ہيں جن سے خدا راضى ہے ؟

پھر اس پر بھى غور كرنا كہ آيا تمھارے اور تمہارے دوست كے علاوہ كوئي اور معاويہ كے لشكر ميں ہے ؟ درانحاليكہ تمہارا نہ بدر كے مجاہدوں ميں شمار ہوتا ہے اور نہ ہى تم بيعت عقبہ ميں شريك ہوئے اور نہ كوئي آيت تمھارى مدح ميں نازل ہوئي ہے اور نہ ہى تم نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت كى ہے _ اپنى جان كى قسم _ اگر ا ج كے دن تم ہم سے اور ہمارے لشكر سے ٹكرائے تو كوئي نئي بات نہيں ہے كيونكہ تمھارا باپ اس سے پہلے ٹكرا چكا ہے(۵۱)

____________________

۴۹_تاريخ ذہبى ج۲ ص ۱۴۹

۵۰_ابن خياط ج۱ ص ۱۸۰ مطبوعہ نجف

۵۱_وقعة صفين ص ۴۴۹

۱۶۹

قيس كى مراد بيعت عقبہ سے يہ تھى كہ انصار كے كچھ افراد نے ہجرت سے پہلے رسول(ص) اكرم كے دست مبارك پر عہد و پيمان كر كے اسلام كو قبول كيا تھا _

پدر نعمان كے مخالفت سے قيس كى مراد يہ تھى كہ اسكا باپ سقيفہ ميں ابو بكر كى بيعت لينے ميں بہت اگے اگے تھا ، اور نعمان كے باپ ہى كى بدولت ابو بكر تخت خلافت پر آئے تھے ، ہم نے اپكى خدمت ميں قديم و معتبر مورخوں كى عبارتوں كو پيش كيا جن سے اپ نے اس بات كو ملاحظہ فرمايا ہو گا كہ اصحاب رسول اور مجاہدين سارے كے سارے حكومت علوى (ع) كے زمانے ميں لشكر على (ع) ميں تھے ،ليكن معاويہ كے لشكر ميں سوائے دو صحابيوں كے كوئي اور نہيں تھا _

وہ بھى ايسے تھے جو نہ اسلام ميں سبقت ركھتے تھے اور نہ ہى كوئي كارنامہ دكھايا تھا اور نہ ان كا كو ئي خاص مقام تھا _

جب حضرت امير المومنين (ع) كى شہادت ہو گئي تو ان تما م اصحاب نے اسلامى سر زمين كے مختلف شہروں ميں گوشہ نشينى اختيار كر لى اور جہاں بھى رہے ہوں گے عقيدتمند مسلمان ان كے ارد گرد ضرور اٹھتے بيٹھتے رہے ہوں گے پھر ان لوگوں نے حديث رسول (ص) كو بيان كيا ہوگا تو مومنين نے ضرور سنا ہوگا يا لكھ كر لئے گئے ہونگے تاكہ ان حديثوں سے احكام الہى كى شناخت كر سكيں _

البتہ يہ بھى تصور كيا جا سكتا ہے كہ جب صفين و جمل اور عثمان كے زمانے كا تذكرہ ہوا ہوگا تو اس زمانے كى گرما گرم باتيں ضرور بيان كى ہونگى ، پھر اس ميں امويوں كے عيوب و نقائص اور سياہكارى و جنايتكارى كا ضرور تذكرہ كيا ہو گا ،_ كبھى خليفہ اول و دوم كے دور كى باتيں چھيڑى ہوں گى اور زمانے كى فتوحات كا ذكر كيا ہو گا تو اس ميں بھى بنى اميہ كا كوئي اہم كردار نظر نہيں آيا ہوگا _

كبھى عصر رسول (ص) كى جنگوں اور كفار قريش نے جو مسلمانوں كو اذيتيں پہونچائي تھيں ان كو بيان كيا ہوگا تو ان تذكروں نے سامعين كے قلوب كو ان سے متنفر كر ديا ہو گا اور بنى ہاشم كے كارنامے اور فضائل كو سنكر ان كے قلوب ان سے كھنچ گئے ہوں گے _

ان تمام باتوں ميں اكثر بنى اميہ كے اخلاق و كردار كى مذمت كے علاوہ كوئي دوسرى بات نہيں رہى ہو گى _

ان اصحاب كرام نے جب بدر كى داستان كو بيان كيا ہوگا تو ضرور كہا ہو گا كہ معاويہ كا دادا اور ماموں نيز بھائي اور خاندان والے اسى جنگ ميں مارے گئے اور ستر افراد قريش كے اور معاويہ كے خاندان كے اسير بنائے گئے تھے _

جب جنگ احد كا تذكرہ چھڑا ہوگا تو ان لوگوں نے ضرور بتايا ہوگا كہ معاويہ كا باپ ابو سفيان نے اس جنگ كا بيڑا اٹھا ركھا تھا _

۱۷۰

اور معاويہ كى ماں ہندہ نے رسول كے دلير چچا حمزہ كے سينے كو چاك كر كے انكے جگر كو چبايا تھا پھر يہ بھى بيان كيا ہو گا كہ ايك دن ابو سفيان نے چيخ ماركر كہا تھا كہ ، شاباش ہبل ، جس وقت حسان كا شعر جو ہندہ كى مذمت ميں كہا تھا اسكو پڑھا ہو گا تو معاويہ كى نا پاك ولادت كى تشريح كى ہو گى _

ايك روز فتح مكہ كا چرچا كيا ہوگا تو اس ميں ابو سفيان و معاويہ كے ظاہرى اسلام كى دليل يہ دى ہو گى كہ رسول اكرم (ص) نے ان دونوں كو جنگ حنين كے مال غنيمت سے مولفة القلوب ميں شمار كرتے ہوئے بہت سارے اموال ديئے تھے _

ليكن رسول (ص) اسلام كى نظر عنايت ان دونوں پر كار فرمانہ ہو سكى اور ابو سفيان نے مسلمان ہونے كے بعد كہا ، كاش ميں قدرت ركھتا تو لوگوں كو اس شخص ( محمد ) كے خلاف بھڑ كا ديتا_

جنگ صفين ميں مسلمانوں نے ناگہانى حملے كى تاب نہ لا كر جب پيٹھ دكھائي تو اس ( ابو سفيان ) نے اپنے دوستوں سے كہا كہ ابھى كيا ہے يہ لوگ شكست كھا كر دريا ئے سرخ تك بھاگيں گے وفات رسول(ص) كے بعد جنگ ير موك ميں جب مسلمان شكست كے قريب تھے تو اس ( ابو سفيان) نے ہانك لگائي تھى ، روميوں زندہ باد ، پھر تھوڑى دير بعد نہايت افسوس كے ساتھ اس شعر كو پڑھا ، كيا روم كے بادشاہوں ميں سے كوئي بھى اس مقام پر نہيں ہے ؟

يہ تمام باتيں معاويہ جيسے ظالم و جابر كى حكومت كے زمانے ميں ہوتى رہى ہونگى تو معاويہ نے بھى اپنے دادا اور باپ كى شجاعتوں كا تذكرہ كيا ہو گا _ كيونكہ عرب ان تذكروں كو سننا بہت پسند كرتے تھے لہذا اس راہ ميں جو ہاتھ آيا اس كو انجام ديا اور جو كچھ معاويہ نے اسلام كے خلاف محاذ ارائي كى تھى اس سے دستبردار نہيں ہوا ، ليكن اسكے افكار جاہلى كو ان ہى چند اصحاب نے چكنا چور كر ديا تھا ، ان باتوں سے صاف واضح ہو جاتا ہے كہ معاويہ ان اصحاب رسول(ص) كى طرح نہيں تھا اور جو كچھ اس نے مدينہ ميں تھوڑى بہت زندگى گذارى تھى ان لوگوں كے عادات و اطوار كو نہ سكيھ سكا _ ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا جو معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں رائج ہوئيں _

معاويہ نے اپنى حكومت ميں ربا خوارى كو عام كيا شراب كے مشكيزے اسكے گھر ميں لائے گئے نيز مسلمانوں كے بيت المال سے خواہشات نفسانى كى اگ بجھائي شہر كے خطيبوں نے اسى كے سامنے تعريف كى اور عصر جاہليت كے طور

۱۷۱

طريقے پر فخر و مباہات كى محفليں قائم كى پھر اپنے حاشيہ نشينوں سے تكبرانہ لہجے ميں كہا ، قريش كو يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ ان ميں سب سے بافضيلت ابو سفيان و معاويہ ہيں اگرچہ رسول(ص) خدا كو خدا وند عالم نے نبوت ديكر با عظمت بنا ديا تھا ، ميں سمجھتا ہوں كہ اگر تمام لوگ فرزند ابو سفيان ہوتے تو سب كے سب صاحب عقل و تدبر ہوتے _(۵۲)

اس سے بڑھ كر فخر اور كيا ہو سكتا ہے كہ اگر ابو سفيان تمام لوگوں كا باپ ہوتا تو سارے كے سارے صاحب علم و دانش ہوتے _

معاويہ اپنے زعم ناقص ميں يہ سمجھا كہ اسكا باپ بلند ترين فرد ہے اور قريش ميں سب سے بڑا خود ہے ، اور رسول(ص) كے علاوہ سبھى اس سے پست ہيں ، اگر كوئي شخص اس زمانہ ميں چاہتا تو اسكے فخر و مباہات كے مقابلے ميں صرف اتنا كہہ ديتا كہ_ جى ہاں _ معاويہ اپنى حكومت كے بل بوتے پر دوسروں پر اپنى فوقيت جتا رہا ہے نہ كہ اپنے ذاتى كمالات پر _

معاويہ اور بنى اميہ كے بارے ميں بزرگوں كا فيصلہ

معاويہ اپنى حكومت كے زمانے ميں حد سے زيادہ بڑھ گيا تھا اور غرور و تكبر اس ميں اتنا اگيا تھا كہ اس نے اپنى حكومت ميں سوائے اپنے قوم و قبيلہ كو بڑھانے كے كچھ نہ سوچا ، وہ اس كے پس منظر ميں اپنى حكومت كو بادشاہت ميں تبديل كرنا چاہتا تھا ، مگر اپنى خواہشات كو كس طرح عملى جامہ پہنائے ، كيونكہ مسلمانوں كے درميان صحابي امام اور دلير شخص صعصہ بن صوحان موجود ہيں ، جو يہ كہہ دينگے كہ تم اور تمہارا باپ اسى گروہ ميں تھا جو پيغمبر اكرم (ص) سے لڑنے آيا تھا ، اور تو ايك ازاد كردہ كا ازاد كيا ہوا بيٹا ہے جن پر رسول (ص) خدا نے احسان كر كے ازاد كيا ہے پھر كس طرح ممكن ہے كہ خلافت كى باگ ڈور ايك ازاد كردہ كے ہاتھوں ميں رہے(۵۳) يا يہ كہ جب ابو ہريرہ اور ابو دردا معاويہ كے نمائندے بنكر امام (ع) كے پاس آئے تھے تو اس وقت عبد الرحمن بن غنم اشعرى نے يہ كہا تھا كہ ، اخر معاويہ كيسے خليفہ بننا چاہ رہا ہے جبكہ وہ ان لوگوں ميں ہے جن كے لئے خلافت كرنا با الكل جائز نہيں ہے اور معاويہ كا باپ ( ابو سفيان ) اس گروہ كا سردار تھا جو

____________________

۵۲_تاريخ طبرى ج۵ ص ۸۹ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۵۹

۱۷۲

اسلام كے خلاف جنگ كرنے آيا تھا(۵۴)

پھر معاويہ كيسے خليفہ ہو سكتا ہے جبكہ عمر نے اپنى حكومت كے زمانے ميں يہ كہا تھا كہ خلافت ازاد كردہ يا انكے فرزندوں نيز فتح مكہ كے بعد مسلمان ہونے والوں كا حق نہيں ہے اور يہ لوگ اس مقام تك پہونچنے كے لئے ايڑى چوٹى كا زور نہ لگائيں(۵۵)

جب حضرت على (ع) نے خطبہ ديا تو لوگوں كو يا دہانى كراتے ہوئے فرمايا كہ ، معاويہ ان ميں سے ہے جسكو خداوند عالم نے نہ دين ميں سبقت عطا كى اور نہ ہى كوئي فضيلت ركھتا ہے وہ ايك ازاد كردہ كا فرزند ہے كہ جس نے اسلام كے خلاف تمام جنگوں ميں شركت كى تھى اور اسكا باپ ( ابو سفيان ) ہميشہ دشمن خدا و رسول (ص) رہا ہے اور جب ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كر ليا تب بھى اس سے كڑھتا رہا(۵۶) ايك مرتبہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ ، اے معاويہ تجھے معلوم ہونا چاہيئے كہ تو ايك ازاد شدگان ميں سے ہے جن كے لئے خلافت كرنا جائز نہيں ہے اور تجھے تو مسلمانوں كے امورميں ٹانگ لڑانے كا حق بھى نہيں ہے(۵۷)

جنگ صفين ميں علوى (ع) لشكر كے ايك سردار عبد اللہ بن بديل نے معاويہ كے بارے ميں كہا تھا كہ ، وہ اس چيز كا دعوا كر رہا ہے جو خود اسكى نہيں ہے اور اس شخص (على (ع) ) سے جھگڑا كر رہا ہے جسكو خلافت كرنے كا حق ہے ، پس اس گروہ سے جنگ كرو جو خلافت كو ہتھيانے ميں لگا ہے اور ہم نے پيامبر اكرم (ص) كے ساتھ ان لوگوں سے جنگ كى تھى پس خدا كے واسطے اپنے اور دشمن خدا سے لڑنے كے لئے امادہ ہو جائو خدا تم لوگوں پر اپنى رحمت نازل كرے گا(۵۸)

امام عليہ السلام كے وفادار صحابى عمار ياسر نے جنگ صفين ميں معاويہ كے سلسلے ميں بآواز بلند يوں كہا كہ ، اے مسلمانو ، كيا تم لوگ اس شخص ( معاويہ ) كو ديكھنا چاہتے ہو جس نے خدا و رسول (ص) سے دشمنى و عداوت ميں ان سے جنگيں لڑيں ، مسلمانوں كے خلاف بغاوت و سر كشى كو ہوا دى اور مشركين كى پشت پناہى كى ، جب اس نے ديكھا كہ اللہ نے اپنے دين

____________________

۵۳_مروج الذھب ج۳ ص ۵۰

۵۴_استيعاب ج۲ ص ۴۱۷، اسد الغابہ ج۳ ص ۳۱۸

۵۵_ اسد الغابہ ج۴ ص ۳۸۷ ، طبقات الكبرى ج۳ ص ۲۴۸ مطبوعہ ليدن

۵۶_وقعة صفين ص ۲۲۷ ، طبرى ج۶ ص ۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۲۵

۵۷_عقد الفريد ج۲ ص ۲۸۴ ،شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵

۵۸_ وقعة صفين ص ۲۶۳ ، طبرى ج۶ ص ۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۲۸ ، استيعاب ج۱ ص ۳۴۰

۱۷۳

كو مستحكم كر كے اپنے رسول (ص) كو غلبہ حاصل كرا ديا تو پيامبر اكرم (ص) كے پاس آيا پھر مسلمان ہوا جبكہ خدا اسكے دل كو خوب جانتا تھا كہ اس نے صدق دل سے اسلام كو قبول نہيں كيا ہے بلكہ خوف جان اور طمع مال كى وجہ سے مسلمان ہوا ہے ، اور جب رسول اكرم (ص) اس دنيا سے چلے گئے تو خدا كى قسم يہ ( معاويہ ) مسلمانوں كا دشمن اور كافروں كا دوست بن گيا ، اگاہ ہو جائو يہ شخص معاويہ بن ابو سفيان ہے اس پر لعنت بھيجو كيونكہ خدا اس پر لعنت بھيجتا ہے اور اس سے جنگ و قتال كرو اس لئے كہ يہ چاہتا ہے كہ نور خدا كو گل كر كے ظلمت و تار يكى پھيلائے(۵۹)

اسود بن يزيد نے معاويہ كے سلسلے ميں ام المومنين عائشه سے كہا :

اے ام المومنين آيا اپ كو اس بات پر حيرت نہيں ہوتى ہے كہ وہ شخص جو ازاد كردہ ہے اور صحابى رسول(ص) سے خلافت كے سلسلے ميں جھگڑا كر رہا ہے _

عائشه نے جواب ديا ، اس ميں تعجب كى كيا بات ہے يہ حكومت ہے خدا جسے چاہے عطا كر دے اس ميں نيك و بد كى قيد نہيں ہے جس طرح فرعون الوہيت كا دعوا كرنے كے با وجود سالہا سال مصر ميں حكومت كى اور اسكے علاوہ دوسرے بھى اس عہدے پر پہونچے ہيں(۶۰)

امام حسن (ع) نے معاويہ كو خط لكھا كہ ، اے معاويہ بڑى حيرت كى بات ہے كہ تم اج اس عہدے پر برا جمان ہو گئے جس پر كسى صورت ميں برا جمان ہونے كے لائق نہ تھے كيونكہ تم نہ دين ميں كوئي منزلت ركھتے ہو اور نہ ہى اسلام لانے ميں سبقت كى پھر تم اسكے فرزند ہو جس نے اسلام كے خلاف محاذ ارائوں كى سر براہى كى تھى اور وہ اسلام و قران اور رسول (ص) كا سخت ترين دشمن تھا(۶۱)

شعبہ بن عريض نے معاويہ سے كہا تھا كہ ، تم نے دور جاہليت ميں بھى اور اسلام لانے كے بعد بھى حق كو كچلا ، دور جاہليت ميں رسول (ص) و وحى الہى كے خلاف اتنى جنگ كى كہ خدا وند عالم نے اسلام ہى كو پيروز وكامياب بنا كر تمھارے برے نقشے كو مليا ميٹ كر ديا تھا اور مسلمان ہونے كے بعد تم نے يہ كيا كہ جب فرزند رسول (ص) تخت خلافت پر پہونچا تو تم

____________________

۵۹_ صفين ص ۲۴۰ ، طبرى ج۶ ص ۷ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۲۶

۶۰_ در منثور ج۶ ص ۹ ابدايہ و النہايہ ج۸ ص ۱۳۱

۶۱_ مقاتل الطالبين ص ۲۲ شرح نہج البلاغہ ج۴ ص ۱۲

۱۷۴

اسكى حكومت كو گرانے كے چكر ميں لگ گئے ، اے معاويہ تمہيں خلافت سے كيا سروكار ہے تم تو ازاد كردہ كے ازاد كئے ہوئے فرزند ہو(۶۲)

ان تمام ذلتوں اور رسوا ئيوں كا حامل اور فضيلت و منزلت سے كوسوں دور رہنے والا معاويہ كيسے حكومت كو خاندانى بنائے اور يہ تمام باتيں جو اسلام كى مشھور شخصيتوں نيز معاويہ كے ہم عصروں نے كہى ہيں اور اسكى سياہكارى اس حد تك پہونچى ہوئي تھى تو كيسے عائشه معاويہ كى صفائي پيش كر رہى ہيں كہ يہ حكومت ہے خدا جسے چاہے ديدے اگر چہ براہى كيوں نہ ہو ، جى ہاں ، اگر اس طرح كا بيان نہ ديتيں تو پھر اسلامى حكومت كا لباس معاويہ كے نا موزوں جسم پر كيسے اتا _

پھر اس حكومت كو معاويہ كيسے خاندانى بنائے كيونكہ اسلام معاشرے ميں صاحب عظمت و فضيلت افراد موجود ہيں اور ہم نے بيان بھى كيا ہے كہ اما حسن (ع) و حسين (ع) عليھما السلام جيسى شخصيتيں جو خاندان بنى ہاشم كى تمام بزرگيوں اور فضيلتوں كے وارث اور نواسئہ رسول (ص) نيز لوگوں ميں كافى محبوب تھے _

لہذا معاويہ نے يہ كام كيا كہ ايك طرف اپنى حكومت كے ستون كو مستحكم كيا ، دوسرى طرف اس حكومت كو موروثى بنانے كے لئے لوگوں كو خاندان رسول (ص) و ال على (ع) سے دور ركھا تاكہ لوگ اس سے اور اسكے خاندان كى طرف مائل ہونے لگيں ، اسى بناء پر معاويہ نے خاندان على (ع) و اصحاب رسول (ص) سے اتنى ہولناك جنگ لڑى جس كے خوف سے بچے بوڑھے ہو گئے اور مسلمانوں كے خون سے زمينيں رنگين ہو گئيں پھر انكى عورتوں كو اسير كر كے بازاروں ميں بيچا گيا _

معاويہ نے اس ہدف تك پہونچنے ميں كسى چيز سے دريغ نہيں كيا دولت ، ثروت، حيلہ سب كو اسى طرح استعمال كيا جس طرح اپنى حكومت كے سلسلہ ميں استعمال كيا تھا ، اور جسكے ذريعہ سادہ لوح افراد كو اپنى طرف كھينچا تھا وہ حيلہ قصاص خون عثمان كا تھا ، جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھايا تھا _

____________________

۶۲_ اغانى ج۳ ص ۲۵ ، اصابہ ج۲ ص ۴۱

۱۷۵

اپنے كرتوت پر جعلى حديثوں كا غلاف

معاويہ كے اس پرو پيگنڈے كے پيچھے دو اہداف پوشيدہ تھے _۱_ اس پروپيگنڈہ سے لوگوں كے ذہن و دماغ كو حقائق سے دور كر كے مسلمانوں كى تہذيب و تمدن كو چھين لے _۲_اپنى فكر كو جو عرب كى جہالت اور شام كے عيسائي تہذيب سے بھرى ہوئي تھى بيوقوف اور سادہ لوح مسلمانوں كے ذہن ميں بھر دے _

اس بحث ميں اپ ديكھيں گے كہ اس نے اپنى سياست كو كامياب بنانے كے لئے كن كن وسائل كا سہارا ليا تھا ، اور خاندان رسول (ص) محافظ اسلام و قران خاص طور سے حضرت على (ع) جو بے نظير فضائل و كمالات كے مالك تھے اور ان فضائل و كمالات كى وجہ سے لوگوں كے قلوب كو محو كئے تھے كس طرح داغدار كيا تھا اور جہاں تك ممكن ہوا ان كے فضائل و كمالات كو تحريف كيا ، پھر ان تحريف كئے ہوئے مطالب و مفاہيم كو مسلسل پروپيگنڈہ كے ذريعہ لوگوں كے دلوں ميں بٹھايا ، تاكہ سادہ لوح افراد اسلام و قران كے چشمہ زلال جو بعد رسول (ص) اہلبيت عليھم السلام تھے سے متنفر ہو جائيں _

طبر ى لكھتے ہيں :

معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو كوفہ جانے سے پہلے اپنى خدمت ميں بلوايا اور اس سے كہا ، ميں چاہتا ہوں كہ تم سے كچھ باتيں كروں ليكن چونكہ تم كافى ذہين ہو لہذا اس بات كو چھوڑ ديتا ہوں ، مگر ايك بات جو تم سے كہنا بہت ضرورى ہے وہ يہ ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہنے سے كبھى نہ چوكنا اور ہميشہ عثمان كى اچھائيوں كو بيان كرنا ، دوسرى بات يہ ہے كہ شيعيان على (ع) كى عيب جوئي نيز ان لوگوں كو اذيت و تكليف دينے ميں كسى قسم كى رعايت نہ كرنا ، اور عثمان كے چاہنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا _

مغيرہ نے كہا ، ہم اپنى ذات سے غافل نہيں ہيں اور اس سلسلہ ميں ميرا كافى تجربہ ہے اور بہت سارے امور كو انجام دے چكا ہوں ، اب تم ( معاويہ ) بھى مجھے ازما لو اگر ميرا كام پسند آيا تو ميرى تعريف كرنا ورنہ اس كام سے معزول كر دينا _

معاويہ نے كہا ، نہيں انشاء اللہ تمہارى تعريف ہى كروں گا(۶۳)

كتاب احداث ميں مدائنى نقل كرتے ہيں :

جب معاويہ تخت خلافت پر اگيا تو اپنے تمام حكمرانوں كو لكھا كہ جو بھى ابو تراب(ع) اور خاندان على (ع) كے فضائل كو بيان كرتا نظر آئے اسكو جان سے مار ڈالو اور اسكے مال و اسباب كو لوٹ لو _

____________________

۶۳_ طبرى ج۶ ص ۱۰۸ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۲

۱۷۶

اس دور ميں اہل كوفہ نيز شيعيان على (ع) زيادہ اذيت و تكليف ميں گرفتار ہوئے _

دوسرى مرتبہ امير شام معاويہ نے تمام شہر كے واليوں كو حكم ديا كہ ، محبان على (ع) اور انكے خاندان والوں كى كوئي گواہى قبول نہ كى جائے _

اور جو لوگ عثمان كے فضائل كو بيان كر رہے ہوں اور وہ لوگ تم لوگوں كى حكمرانى ميں زندگى گذار رہے ہوں انكو خوب اچھى طرح پہچان لو اور انكے ساتھ احترام و اكرام سے پيش ائو اور ان لوگوں كو اپنے نزديك جگہ دو نيز ان كے باپ اور خاندان كا نام لكھ كر ہمارے پاس روانہ كرو ، جيسے ہى يہ فرمان جارى ہوا تو ضمير فروش اور دنيا پرست لوگ حديثيں گڑھنے لگے اور عثمان كے فضائل اتنے گڑھے كہ ايك حديث كا انبار ہو گيا ، كيونكہ معاويہ نے دولت و ثروت اور فاخرہ لباس نيز جو كچھ ہاتھ ميں تھا ان سب كو اس راہ ميں بے دريغ خرچ كيا تھا _

نتيجہ يہ ہوا كہ جو بھى ضمير فروش معاويہ كے حكمرانوں كے پاس گيا عثمان كى مدح ميں ايك حديث بيان كردى تو ان كا مورد توجہ بن گيا اور اسكا نام لكھ ليا اسكے بعد حكومت كے كسى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، معاويہ نے ايك مدت كے بعد اپنے حكمرانوں كو دوسرا دستور ديا كہ ، اب عثمان كے فضائل بہت زيادہ ہو گئے ہيں اور ان فضائل كا تمام شہروں ميں كافى پرچار بھى ہو گيا ہے ، لہذا تم لوگ خلفاء ثلاثہ اور فضائل صحابہ كے بارے ميں لوگوں سے اسى طرح حديثيں گڑھو ائو جس طرح ابو تراب كى فضيلت كے سلسلے ميں حديثيں ہيں _

ميرى نظر ميں يہ كام بہت اچھا رہے گا اور مجھے اس كام سے بہت تقويت ملے گى ، كيونكہ ابو تراب(ع) اور ان كے چاہنے والوں كے دلائل و براہين كى كاٹ كرنے كے لئے اس سے زيادہ بہتر كوئي اسلحہ نہيں رہے گا ، اور ان كے چاہنے والوں كو چڑہانے كے لئے فضائل عثمان ميں نقل كى گئيں حديثيں زيادہ مناسب رہيں گى _

معاويہ كا حكم لوگوں كو سنايا گيا جسكے نتيجہ ميں بہت سارى جھوٹى حديثيں معرض وجود ميں ائيں جس كا حقيقت سے كوئي واسطہ نہيں ہے _

اہستہ اہستہ ان احاديث كو بيوقوفوں نے منبروں سے بيان كرنا شروع كر ديا پھرمعلم مكتب نے بچوں كے حوالے كيا

۱۷۷

انھوں نے ان حديثوں كو يا د كيا پھر ان بچوں سے نوجوانوں نے ليا اور اس طرح قران كريم كى طرح ان جھوٹى حديثوں كى تلاوت اور حفظ كيا جانے لگا ، پھر مردوں كى بزم سے ہوتى ہوئي عورتوں كے مكاتب و معاشرے ميں پہونچيں ، انھوں نے ان احاديث كو مسلمان لڑكيوں ميں پہونچايا اور ان لوگوں نے اپنے غلام و خادم كى خدمت ميں بيان كيا اسى طرح ايك مدت تك يہ حديثيں اسلامى معاشرے ميں گھومتى رہيں _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ يہ جھوٹى حديثيں انے والى نسلوں كے لئے درد سر بن گئيں اور جس عالم و مفتى اور قاضى و حاكم نے ان جھوٹى حديثوں كو ديكھا اس پر يقين كر ليا(۶۴)

محدث بزرگ و مشہور عالم حديث ابن عرفہ نے اپنى تاريخ ميں ان مطالب كو ذكر كيا ہے جو مدائنى كے قول كى تصديق كرتى ہے ،يہ لكھتے ہيں :

اكثر جھوٹى حديثيں جو فضائل صحابہ كو بيان كرتى ہيں بنى اميہ كے زمانے ميں گڑھى گئي ہيں كيونكہ حديث سازوں نے اسكے ذريعہ خلافت كى مشينروں سے تقرب حاصل كرنے كے لئے ايسا كيا تھا اور امويوں نے ان جھوٹى حديثوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات كى كوشش كى تھى كہ بنى ہاشم كے سر كو عالم اسلام ميں جھكا كر ركھ ديں(۶۵)

البتہ معاويہ نے صرف اپنى حكومت كے زمانے ميں حديث گڑھنے كا كارخانہ نہيں كھولا تھا ، بلكہ اس سے پہلے بھى اس كام كو انجام دے چكا تھا _

طبرى بيان كرتے ہيں :

جب امام (ع) كے صحابى اور حاكم مصر قيس بن سعد نے معاويہ كى پيشكش كو ٹھكرا ديا اور انكى طرف سے با لكل مايوس ہو گيا تو بہت پريشان ہوا لہذا معاويہ نے ايك حيلہ تيار كر كے اہل شام كو بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ قيس بن سعد نے ہمارى پيشنہادوں كو مان ليا ہے اور انھوں نے ہمارى مدد كرنے پر اپنى كمر باندھ لى ہے لہذا تم لوگ انكو دعائے خير دو ، پھر اپنى جيب سے ايك جھوٹا خط ا ن كى طرف سے نكالا اور اسكو لوگوں كے سامنے پڑھا جس ميں يہ تھا كہ _

بسم اللہ الرحمن الرحيم _ يہ خط ہے امير شام معاويہ بن ابو سفيان كے نام قيس بن سعد كى طرف سے ، اپ پر سلامتى ہو ،

____________________

۶۴_ شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۱۶

۶۵_ شرح نہج البلاغہ ص ۱۵ ، فجر الاسلام ص ۲۱۳

۱۷۸

عثمان كا قتل عالم اسلام ميں بہت بڑا حادثہ ہے ميں نے بہت غور و فكر كيا تو اس نتيجے تك پہونچا كہ امام (ع) ( على (ع) ) كے متقى و پرہيز گار گروہ كے ساتھ جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ہے نہيں رہونگا ، اور اپنے گذشتہ گناہ كى معافى و تلافى اپنے خدا كى بارگاہ ميں كرونگا ، خدا سے ميرى بس يہ دعا ہے كہ ميرے دين و ايمان كو سالم ركھے اگاہ ہو جائو كہ ہم ( قيس ) اج كے بعد تمھارے ( معاويہ ) كے ساتھ ہيں اور قتل عثمان كے سلسلہ ميں جنگ كرنے كے لئے تيار ہيں كيونكہ وہ خليفہ امت تھا جسكو موت كے گھاٹ اتار ديا گيا _

پس جتنا تمھيں دولت و ثروت نيز سپاہيوں كى ضرورت ہے اسكو ميرے پاس لكھ كر بھيجو ہم تمھارى ہر طريقے سے مدد و نصرت كرنے كے لئے امادہ ہيں ، امير ( معاويہ ) پر ہميشہ خدا كى نظر و كرم رہے(۶۶)

جى ہاں _ معاويہ ذرہ برابر جھوٹ بولنے سے خوف نہيں كھاتا تھا اور اپنى سياست كو كامياب بنانے كے لئے اس نے ان ہى چيزوں كا سہارا ليا ليكن جسوقت حكومت پر قبضہ كر ليا اور تمام سر زمين اسلامى كا حاكم بن گيا تو جعلى حديثوں كى زيادہ ضرورت محسوس ہوئي لہذا مجبور ہوا كہ ان ضمير فروشوں سے حديث بنوائے ، يہ جنگ سرد تھى مگر پروپيگنڈے كى جنگ تھى ، اسى لئے ہر ادمى بازى لے جانے كى فكر ميں تھا اگر چہ ايك گروہ كا جہاں فائدہ ہو رہا تھا اسى جگہ دوسرے گروہ كا بڑا نقصان ہو رہا تھا _

اس دور ميں كچھ ضمير فروش صحابہ كا گروہ جن ميں مغيرہ بن شعبہ ، عمر وعاص ، سمرة بن جندب ، اور ابو ہريرہ جيسے افراد جو ہميشہ مقام ودولت كے بھوكے تھے مگر دين و منزلت كے اعتبار سے كوئي خاص اہميت كے حامل نہ تھے ، معايہ سے جا ملے _

مشہور عالم اہلسنت ابن ابى الحديد معتزلى اپنے استاد ابو جعفر اسكافى سے نقل كرتا ہے معاويہ نے بعض صحابہ و تابعين كو خريدا تاكہ وہ على (ع) كو برا بھلا كہہ كر انكے دامن كو داغدار كريں ، اور لوگ ان سے متنفر ہو جائيں ، ان لوگوں كو معاويہ اچھى خاصى تنخواہيں ديتا تھا تاكہ يہ لوگ اپنے كاموں ميں تساہلى نہ برتيں ، ان لوگوں نے معاويہ كے كہنے پر حديثيں گڑھيں ، جن ميں صحابہ سے ابو ھريرہ ، عمر و عاص ، اور مغيرہ بن شعبہ جيسے افراد تھے اور تابعين سے عروہ بن زبير تھا _

زھرى بيان كرتے ہيں :

عروہ بن زبير نے معاويہ كے كہنے پر عائشه سے ايك حديث نقل كى كہ اپ ( عائشه ) نے كہا كہ ميں رسول (ص) كے ساتھ بيٹھى ہوئي تھى كہ _ عباس و على (ع) اتے ہوئے نظر آئے رسول(ص) خدا نے فرمايا اے عا ئشےہ يہ دونوں كافر مريں گے _

عبد الرزاق، معمر سے نقل كرتا ہے كہ زہرى كے پاس دو حديثيں تھيں جو عروہ نے عائشه سے بيان كى تھيں يہ دونوں حديثيں على (ع) كے بارے ميں ہيں _

____________________

۶۶_طبرى ج۵ ص ۲۳۰ ، نجوم الزاہرة ج۱ ص ۱۰۱

۱۷۹

معمر كہتا ہے كہ ميں نے ايك روز زہرى سے ان حديثوں كے بارے ميں معلوم كيا تو اس نے جواب ديا كہ تمھيں ان حديثوں سے كيا كام ہے ، خدا بہتر جانتا ہے يہ دونوں حديثيں ہيں يا بنى ہاشم پر بہتان و الزام ہے _

ميں نے پہلى حديث عروہ سے اوپر بيان كى تھى اب دوسرى حديث ملاحظہ فرمايئے _

عروہ عائشه سے نقل كرتا ہے كہ ، ميں رسول (ص) كے پاس بيٹھى ہوئي تھى تو على (ع) و عباس اتے ہوئے نظر آئے رسول خدا (ص) نے فرمايا : اے عائشه _ اگر دو جھنمى كو ديكھنا چاہتى ہو تو ديكھ لو ، ميں نے كيا ديكھا كہ على (ع) و عباس ہيں(۶۷)

اسى قسم كى حديثيں جو عمر و عاص نے گڑھيں ہيں ، اسكو بخارى و مسلم نے اپنى كتابوں ميں نقل كيا ہے _

عمر و عاص كہتا ہے كہ ميں نے پيغمبر اكرم (ص) كو بآواز كہتے ہوئے سنا كہ ، ال ابو طالب ہمارے محبوں ميں نھيں ہيں ، بلكہ ہمارے اور خدا كے محب مومن و متقى لوگ ہيں(۶۸)

بخارى نے دوسرى روايت ميں مزيد يوں بيان كيا ہے: پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا _ ال ابو طالب ہمارے رشتہ داروں ميں سے ہيں اسى بناء پر ان سے صلہ رحم كرتا ہوں ، ليكن جو حديثيں ابوہريرہ نے معاويہ كے كہنے پر گڑھى ہيں اسكو اعمش نقل كرتا ہے _

جب صلح امام حسن (ع) كے بعد ابو ہريرہ معاويہ كے ہمراہ عراق آيا تو استقبال كرنے والوں كى بھيڑ ديكھى تو جا كر مسجد كوفہ ميں دو زانو ہو كر بيٹھ گيا ، پھر كئي مرتبہ اپنے چند ياپر ہاتھ پھيرا اور عرض كيا ، اے كوفے والو ، آيا تم لوگ چاہتے ہو كہ خدا و رسول پر بہتان لگا كر جھنم كا ايندھن بنوں _

خدا كى قسم ، ہم نے رسول(ص) خدا كو فرماتے ہوئے سنا ہے كہ ، ہر رسول (ص) كا ايك حرم ہے اور ميرا حرم مدينہ ميں كوہ عير اور كوہ ثور كے درميان ميں ہے _ جو بھى اس حرم ميں نا گوار واقعات پيدا كرے گا تو خدا اور ملائكہ اور تمام انسانوں كى اس شخص پر لعنت ہو گى _ پھر اضافہ كرتا ہے كہ _ ميں قسم كھاتا ہوں كہ اس سر زمين مقدس پر على (ع) نے فتنہ و اشوب بر پا كيا ، اس حديث كى خبر معاويہ تك پہونچى اس نے اس حديث كے گڑھنے كے اوپر مغيرہ كا خوب احترام كيا اور اسكے نتيجہ ميں اسكو واليء مدينہ بنا ديا _

مگر سمرہ بن جندب كے واقعے كو ابن ابى الحديد نے اپنے استاد ابو جعفر اسكافى سے يوں نقل كيا ہے :

معاويہ نے سمرہ بن جندب كے پاس ايك لاكھ درہم بھيجوايا تاكہ آيت'' و من الناس من يعجبك قوله من الحياة الد نيا و يشهد على ما قلبه وهو الد الخصام ''سورہ بقرہ آيت ۲۰۴

____________________

۶۷_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۸

۶۸_ صحيح بخارى ج۳ ص ۳۴

۱۸۰