تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 18%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63749 / ڈاؤنلوڈ: 4182
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ام المومنين عائشه مسئلہ رضاعت ميں تمام ازواج رسول(ص) كى مورد انتقاد بنى رہيں پھربھى اپنے نرالے فتوے پر عمل كرتى رہيں _

عائشه كى زندگى كے چند گوشے

عائشه اپنى سارى زندگى تاريك و بھيانك ماحول اور مشكلات ميں گذارنے كے باوجود اپنى ذہانت و فطانت سے مزاج كلام اور طنز كو خوب سمجھتى تھيں ، اس سلسلہ ميں تاريخ كے دامن ميں ان كے واقعات يادگارى حيثيت سے اج بھى موجود ہيں _

ابن عبد ربہ اپنى مشہور كتاب عقد الفريد ميں لكھتے ہيں :

ايك روز حسن (ع) بن على (ع) معاويہ كے پاس گئے عبد اللہ بن زبير اور ابو سعيد بن عقيل پہلے ہى سے وہاں بيٹھے ہوئے تھے ، جيسے ہى امام حسن (ع) تشريف فرما ہوئے معاويہ نے پوچھا ، اے ابا محمد (ص) على (ع) و زبير ميں كون بڑا تھا _

امام (ع) نے جواب ديا ، سن كے اعتبار سے دونوں برابر تھے ليكن عظمت و منزلت كے اعتبار سے على (ع) بڑے تھے _

عبد اللہ بن زبير نے كہا ، خدا زبير پر اپنى رحمت نازل كرے_، امام عليہ السلام اس بات پر مسكرائے اور اس كے پس منظر ميں معاويہ كى سياست كو بھانپ ليا ، ليكن ابو سعيد بن عقيل غصے ميں اكر كہنے لگے كہ ، على (ع) و زبير كى باتوں كو چھوڑو ، على (ع) نے لوگوں كو اس امر كى طرف دعوت دى جسكے خود امام و پيشوا تھے ليكن زبير نے لوگوں كو اس طرف بلايا جس كى رياست و پيشوائي كا عہدہ ايك عورت كى گردن پر تھا ؟

جس گھڑى دونوں لشكروں ميں گھمسان كى جنگ ہوئي تو زبير نے جنگ سے فرار اختيار كيا اور قبل اسكے كہ حق كى پيروى كرتے ايك شخص نے ان كو مار ڈالا اگر زبير كا مقابلہ ان كے قاتل سے كيا جائے تو بھى وہ اس سے ايك بالشت چھوٹے ہى نظر ائيں گے ، قاتل نے ان كے سر كو تن سے جدا كيا پھر امام (ع) ( على (ع) ) كى خدمت ميں تحفةََ پيش كيا ، مگر امام (ع) كا كردار جس طرح لشكر رسول (ص) ميں تھا اسى طرح اس دن بھى تھا پس خدا على (ع) پر رحمت نازل كرے نہ كہ زبير پر ؟

عبد اللہ بن زبير نے كہا ، خدا كى قسم ، اگر تمھارے علاوہ كوئي اور ہوتا تو ميں اس كو بتا ديتا ، ابو سعيد نے كہا ، امام حسن نے تمھارا خيال صرف اس لئے كيا كيونكہ تم سن ميں بڑے ہو اور يہى وجہ ہے كہ انھوں نے تم كو جواب نہيں ديا لہذا ميں مجبور ہوا كہ تمھارا جواب دوں _

۱۶۱

اس قضيہ كى خبر عائشه تك پہونچى ، ايك روز ابو سعيد كا گذر ان كے گھر كى طرف سے ہوا ، انھوں نے ہانك لگائي ، اے احول _ اے خبيث _ آيا تم وہى ہو جس نے ميرے بھانجے كو برا بھلا كہا ہے _

ابو سعيد نے اس آواز پر چاروں طرف نگاہ دوڑائي مگر جب كسى كو نہيں پايا ، تو انہوں نے بآواز بلند كہا كہ ، شيطان تمھيں ديكھ رہا ہے مگر تم اسكو ديكھنے كى قدرت نہيں ركھتے ہو _

چونكہ آواز عائشه نے دى تھى لہذا اس جواب پر خوب ہنسيں اور كہنے لگيں ، خدا تمہارى مغفرت كرے ، تيرى زبان كتنى تيز و تند ہے(۴۳)

اگر اپ نے مذكورہ واقعہ پر غور كيا ہوگا تو معلوم ہوا ہوگا كہ معاويہ كى چال يہ تھى كہ امام حسن (ع) كو زبير كے بيٹے سے ٹكرا كر بغض و كينہ كى اگ لگا دے ، اور اسكى ہميشہ يہى سياست رہى كہ ايك سردار كو دوسرے كے خلاف بھڑكا دے ، اور ايسا ہى اس واقعہ ميں ہوا كہ عبد اللہ بن زبير معاويہ كے دام فريب ميں اگئے تھے ، ليكن امام (ع) معاويہ كى كامل شناخت ركھتے تھے ، لہذا اسكے جال ميں نہيں آئے ، اور اسى واقعہ ميں اپ نے عائشه كا كردار بھى ملاحظہ فرمايا اگر عائشه كى سارى زندگى كے واقعات كو ايك جملہ ميں سميٹا جائے تو يہ ہوگا كہ ، اپنوں سے دوستى اور دشمن كے مقابلہ ميں دشمنى ، عائشه كى زندگى ميں ايسے واقعات نہ جانے كتنى مرتبہ پيش آئے ہيں ، جنھيں خود احمد بن حنبل نے اپنى مسند ميں نقل كيا ہے وہ لكھتے ہيں :

عمار ياسر كے ساتھ مالك اشتر عائشه كے گھر گئے ، جب گھر ميں داخل ہوئے تو عمار ياسر نے ام المومنين كہہ كر خطاب كيا ، عائشه نے كہا ، ميں تمہارى ماں نہيں ہوں ، عمار نے پوچھا ، اپ ہمارى ماں كيوں نہيں ہيں اور اس سے كڑا ہتى كيوں ہيں _

عائشه نے سوال كيا كہ يہ تمہارے ساتھ كون ہے ، عمار نے كہا ، مالك اشتر ہيں

عائشه نے مالك اشتر سے كہا كہ ، تم وہى مالك اشتر ہو جو ميرے بھانجے كو قتل كرنا چاہتے تھے _

مالك اشتر نے كہا _ جى ہاں _ وہ مجھے قتل كرنا چاہتا تھا لہذا ميں بھى ايسا ہى كرنا چاہتا تھا _

عائشه نے كہا _ اگر تم اسكو مار ڈالتے تو ہر گز نيك و صالح نہ ہوتے كيونكہ ميں نے پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے كہ اپ (ص) نے

____________________

۴۳_مسند احمد ج۶ ص ۲۰۵

۱۶۲

فرمايا: تين صورتوں ميں مسلمان كو قتل كرنا جائز ہے ، اگر كوئي قتل كرے تو ا س كو قتل كرنا جائز ہے يا كوئي شخص بيوى ركھنے كے باوجود زنا كرے تو خون بہانا جائز ہے يا مسلمان ہونے كے بعد مرتد ہو جائے تو اسكو مار دينا چاہيئے(۴۴)

يہاں پر بہتر ہے كہ ہم عائشه سے سوال كريں كہ ، اے ام المومنين ، اپ نے اس قول رسول(ص) كو اپنے بھانجے كے سلسلہ ميں كيوں نہيں ياد ركھا كہ جس نے مالك اشتر جيسے نيك انسان كو قتل كرنا چاہا ؟

كيا مسلمان كے قتل كى حرمت صرف عبد اللہ بن زبير سے مخصوص تھى ، اور جو ہزاروں بے گناہ مسلمان خواہشات نفسانى كے تحت جنگ ميں مارے گئے كيا اس حكم ميں شامل نہيں تھے ، يا انكے خون خدا و اسلام كى نظر ميں بے وقعت تھے _

عائشه كى زندگى كا ايك اور واقعہ جو ابھى تك تاريخ ميں موجود ہے جس كو ابن عبد ربہ نے عقد الفريد ميں يوں نقل كيا ہے_

جنگ جمل كے بعد ايك دن عبد القيس كے قبيلے كى عورت ام اوفى عبديہ جسكے قبيلہ كے ہزاروں مشہور افراد جيسے حكيم بن جبلہ اسى جنگ ميں مارے گئے تھے ، عائشه كے پاس گئي اور ان سے كہا ، اے ام المومنين اس ماں كے بارے ميں اپكا كيا خيال ہے جس نے اپنے چھوٹے بچوں كو قتل كر ديا ہو _

عائشه نے كہا ، اس پر جہنم كى اگ واجب ہے

ام اوفى نے كہا ، اپ اس ماں كے سلسلے ميں كيا فرماتى ہيں جس نے اپنے بيسوں ھزار چھوٹے بڑے لوگوں كو خاك و خون ميں غلطاں كر ديا ہو_

عائشه يہ سنكر چيخنے لگيں اور كہا ، اس دشمن خدا كو گھر سے نكالو _(۴۵)

جيسا كہ ہم نے بيان كيا كہ جنگ جمل كے تمام ہولناك واقعات عائشه كے دل و دماغ پر مثل پہاڑ كے بوجھ بنے ہوئے تھے اور وہ انكى زندگى ميں كبھى ختم نہيں ہوئے جو انكى ندامت و پشيمانى كى علامت ہے ، نيز اسكے بعد جو باتيں پيش كروں گا شايد اسى سے مربوط ہوں گى _

جنگ جمل كے واقعات ايك طرف عائشه كے لئے كبيدہ خاطر ہو رہے تھے تو دوسرى طرف امويوں كے لئے مسرت و خوشحالى كے باعث بن رہے تھے اور يہ لوگ ہر دن كسى نہ كسى بہانے سے ضرور ياد كرتے تھے نيز جنگ جمل كے

____________________

۴۴_عقد الفريد ، عيون اخبار ج۱ ص ۲۰۲

۴۵_عقد الفريد ج۲ ص ۴۵۵

۱۶۳

واقعات كو ہوا دينے كے لئے مدد بھى كرتے تھے _

ابن عبد ربہ كا بيان ہے كہ بصرہ سے يزيد بن منيہ معاويہ كے پاس گيا ، يہ يعلى بن منيہ كا بھائي اور رئيس بصرہ نيز جنگ جمل كا ايك سردار تھا اور جس اونٹ پر عائشه بيٹھ كر جنگ كى سربراہى كر رہى تھيں اسكى مہار اسى نے پكڑى تھى ، پھر يعلى كى معاويہ سے رشتہ دارى يوں تھى كہ اسكى بيٹى معاويہ كے بھائي عتبہ بن ابو سفيان سے بياہى تھى _

جب يزيد بن منيہ نے اپنى مشكلات كو معاويہ سے بيان كيا تو اس نے كعب سے كہا كہ اسكو بيس ہزار دينار ديدو ، جب وہ رقم ليكر جانے لگا تو معاويہ نے پھر دستور ديا كہ چونكہ جنگ جمل ميں شريك ہوا تھا لہذا تيس ہزار دينار اور ديدو(۴۶)

ايك روز عمر و عاص نے عائشه سے كہا كہ ، كتنا اچھا ہوتا كہ اپ جنگ جمل ميں مارڈالى گئي ہوتيں ، عائشه نے كہا _ اے يتم كيوں ؟

عمرو عاص نے جواب ديا ، اگر اپ مر گئي ہوتيں تو ہم لوگوں كو لشكر علوى (ع) سے ٹكڑانے كا اچھا بہانہ مل جاتا(۴۷)

عائشه اور عمر و عاص كے ما بين دوسرى جھڑپ كو تاريخ يوں بيان كرتى ہے _

ايك روز عائشه كے گھر امير المومنين (ع) كے ہاتھوں ذوالثديہ كے مارے جانے كا تذكرہ چھڑا ، راوى كہتا ہے كہ ام المومنين نے مجھ سے كہا كہ اگر تم كوفے جانا تو ہمارے لئے ان گواہوں كو ليتے انا جنھوں نے اسكو مارتے ہوئے ديكھا تھا ، ميں كوفہ پہونچا اور شہر كے ہر گروہ سے دس افراد كو ليا اور عائشه كى خدمت ميں پہونچا ديا ، جب انھوں نے ان گواہوں كو ديكھا تو كہا ، عمر و عاص پر خدا كى لعنت ہو ، اس نے يہ كہا تھا كہ ميں نے چھاتى والے انسان كو مصر ميں مارا ہے(۴۸)

____________________

۴۶_ تاريخ كامل ج۱ ص ۱۵۱

۴۷_ مستدرك ج۴ ص ۱۳، سير اعلام ج۲ ص ۱۴۱

۴۸_ابن كثير ج۸ ص ۳۰۳

۱۶۴

ابن كثير اس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد لكھتا ہے كہ عائشه نے سر جھكا كر خوب گريہ كيا ، جب گريہ ختم ہوا تو كہنے لگيں ، خدا على (ع) پر رحمت نازل كرے كيونكہ وہ ايك لمحہ بھى حق سے جدا نہيں ہوا ہمارے اور ان كے درميان جو چپقلش اور درارپڑى تھى وہ ايسى ہى تھى جيسے ايك بياہى عورت كى سسرال والوں سے ہوتى ہے _

سوچنے كى بات يہ ہيكہ اخر عمر و عاص نے ايسا جھوٹا دعوا كيوں كيا اور اپنے كو ذو الثديہ كا قاتل كيوں بتايا _

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب رسول(ص) كى حديثوں كو ملاحظہ كيا جائے جن كو محدثين اور مورخين نے ذوالثديہ كى مذمت اور اسكے قاتل كى مدح و ستائشے ميں نقل كى ہيں ، ان حديثوں كى وجہ سے عمر و عاص ذوالثديہ كے قتل كا سہرا اپنے سرپر باندھنا چاہتا تھا _

عائشه كى زندگى كے واقعات كى جانچ پڑتال ختم كرنے كے بعد ميں چاہتا ہوں كہ معاويہ كے حالات زندگى كى كريد كى جائے تاكہ جعل حديث كے اسباب سامنے ائيں نيز اس بحث ميں عائشه كا اہم كردار بھى سامنے آئے گا _

ہمارى يہى كوشش ہے كہ وہ تمام جھوٹى حديثيں جو اسلام كى سر نگونى كى علامت بن گئيں ہيں ان پر تنقيد كى جائے تاكہ اسلام كا اصل چہرہ سامنے اجائے _

۱۶۵

فصل ششم

معاويہ كى زندگى پر ايك طائرانہ نظر

دور جاہليت ميں اميہ اور بنى اميہ، ہاشم اور بنى ہاشم كى رياست و بزرگى پر بہت حسد كرتے تھے اس حسد سے نہ جانے كتنے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے ليكن اسلام سے پہلے امويوں كى بنى ہاشم سے اتنى سخت گہماگہمى نہيں تھى ، جيسے ہى زمانے نے كروٹ ليا اور عبد المطلب بن ہاشم كے پوتے نے دنيا ئے انسانيت كو اسلام كے نام سے ايك دين تحفہ ميں ديا ، اسى وقت سے اميہ كا پوتا ابو سفيان نے قريش و اسلام كے خلاف جنگ كرنے كا بيڑا اٹھا ليا ، اكثر مقامات پر اسلام كے خلاف مشركين مكہ كى رياست و سربراہى كرتے ہوئے ابو سفيان نے اپنى تمامتر قوتوں كے ساتھ كمزور و ضعيف مسلمانوں كو اذيتوں اور شكنجوں ميں مبتلا كيا ، اور جہاں تك ممكن تھا ان لوگوں كو ايذا ء پہيونچائي _

ليكن حالات ہميشہ يكساں نہيں رہتے اخر خدا وند عالم نے اپنے رسول (ص) كى مدد و نصرت كر كے مكہ كو فتح كرو آيا اور رسول اسلام (ص) نيز مجاہدين اسلام كے لئے مكہ ميں انے جانے كا راستہ ہميشہ كے لئے كھول ديا _

فتح مكہ كے بعد قريش كے علاوہ كوئي دوسرا قبيلہ نہ تھا جس نے اپنے دامن پر تا ابد ازاد شدگان كا ذليل و حقير كا ٹائيٹل ليا ہو ، ابو سفيان كى رياست بت عرب كى طرح چور چور ہوگئي اور عصر جاہليت كے ضعيف و ناتواں ، عمار ، ابوذر ، بلال ، جيسے افراد سياسى و معاشرتى حقوق كے علمبردار بن گئے ، ايك روز ابو سفيان كا ان لوگوں كى طرف سے گذر ہوا انھوں نے اس كو ديكھ كر كہا كہ خدا كى تلوار اس دشمن خدا پر نہ پڑ سكى _

ابو سفيان نے اتنى عمر پائي كہ خلافت ابو بكر كا زمانہ ديكھا اس دور ميں اسكى خليفہ وقت سے مڈ بھيڑ ہو گئي تو خليفہ كے باپ ( قحافہ ) تعجب ميں پڑ گئے ، خليفہ نے اپنے باپ سے يوں استدلال كيا ، اے پدر بزرگوار ، خدا نے ہمارے خاندان كو اسلام كى خاطر سر بلند فرمايا ہے اور اسكے خاندان كو پستى ميں ڈالديا ہے _

ابو سفيان نے عمر بن خطاب كا دور ديكھا اس زمانہ ميں ايك روز خليفہ وقت عمر نے شہر مكہ ميں اسكو اس بات پر مجبور كر ديا كہ وہ اپنے كاندھوں پر اٹھا كر اينٹوں كو ركھے _

دوسرى مرتبہ خليفہ وقت نے ابو سفيان كے سر پر تازيانہ مارا ، جب اسكى خبر بيوى تك پہونچى تو بہت ناراض ہوئي اور

۱۶۶

خليفہ سے غصے ميں كہا ، خدا كى قسم ، اگر دور جاہليت ميں اسكو چھڑ ى مارتے تو تمھارے پائوں سے زمين نكل جاتى _ خليفہ نے جواب ديا ، تم سچ كہتى ہو ، مگر كيا كيا جائے خدا وند عالم نے ايك گروہ كو اسلام كى وجہ سے عزيز و بلند اور دوسرے گروہ كو اسلام نے ذليل و پست كر ديا _

زمانہ گذرتا رہا ، يہاں تك كہ خليفہ عثمان بن گئے ، اس دور ميں بار ديگر اموى اقتدار ميں اگئے اور بچوں كى طرح حكومت سے كھيلنے لگے ، اور تمام شہروں پر بنى اميہ كى ايك ايك فرد حكومت كرنے لگى ، اور وہ اپنے تاج و تخت پر بہت ناز كرنے لگے ، يہى وہ زمانہ ہے جس ميں متقى و صالح اصحاب رسول (ص) بار ديگر كمزور اور اذيتوں ميں مبتلا ہوگئے ، اور عمار جيسے نيك و صالح پر ظلم و ستم كا پہاڑ توڑ ا جانے لگا اور ابو ذر و مالك اشتر جيسوں كو چٹيل ميدان ميں جلا وطن كيا جانے لگا _

امويوں كے دل و دماغ غرور و نخوت سے اتنے بھر گئے تھے كہ ايك اموى نے كہا كہ عراق كى سر سبز و شاداب زمين قريش كے باغوں ميں سے ايك باغ ہے ، ان تمام ظلم و ستم اور غرور و تكبر نے بلاد اسلامى كو ايسا گھيرا اور فتنہ و اشوب كے طوفان نے ايسا چكر ميں ليا كہ اموى خليفہ اپنے گھر ہى ميں مار ڈالے گئے ، اس سخت تجربے اور پئے در پئے نا كاميوں كے بعد مسلمانوں نے مہار خلافت كو امويوں سے چھين كر بنى ہاشم كے ہاتھوں ميں ديديا تاكہ عدالت علوى كى حكومت قائم ہو جائے ، جيسے ہى مسلمانوں نے اس كام كو انجام ديا دوبارہ مدينہ كے اندر امويوں نے طوق ذلت اور قريش كے سامنے سر تسليم خم كر ديا _ ليكن سر تسليم خم كرنے كے بعد بھى سكون سے نہيں بيٹھے بلكہ ہر روز كسى نہ كسى بہانے سے حكومت علوى (ع) كے خلاف محاذ ارائي كرتے رہے تاكہ خلافت عثمان كے زمانے ميں دل حكومت كرنے كى جو چٹكياں لے رہا تھا اس كى اميد بندھ جائے امام(ع) كى حكومت كے خلاف رفتہ رفتہ اتش جنگ اتنى بھڑك اٹھى كہ بصرہ خون ميں ڈوب گيا پھر بھى انكو كوئي فائدہ نہ ہو سكا _

ان تمام ادوار ميں معاويہ جو عمر كے زمانے سے شام كى امارت كو سنبھالے ہوئے تھا ہر دن اپنى حكومت كو وسيع و عريض كرنے كى تاك ميں لگا رہتا تھا _

اسى لئے معاويہ نے امام (ع) كو خط لكھ بھيجا اور اس ميں حكومت مصر و شام كا مطالبہ كيا ، جب انحضرت (ع) نے نا مساعد جواب ديا تو خون عثمان كے نام پر ہزاروں لوگوں كو اكٹھا كر كے امام عليہ السلام سے جنگ كرلى جب جنگ سے كاميابى نہيں ملى تو معاملہ حكميت پر جا كر روكا حكميت كے بعد شام واپس آيا تو لٹيروں كو مسلسل بلاد اسلامى ميں بھيجتا رہا تاكہ بے گناہ مسلمانوں كى

۱۶۷

عورتوں كو اسير بنائيں اور چھوٹے بڑے كو قتل كر كے گھروں ميں اگ لگا ديں ، ان لٹيروں نے تقريباً تيس ہزار مسلمانوں كو تہ تيغ كيا اور ديگر مامورين نے بھى اپنے ہاتھوں سے بے گناہوں كو موت كے گھاٹ اتارا _

حضرت على (ع) كى شہادت كے بعد معاويہ نے امام حسن (ع) كى بيعت نہيں كى اور ايك بڑے لشكر كے ساتھ عراق اگيا اور امام (ع) كے محافظ و اصحاب كو سكّوں كى لالچ ديكر خريد نا شروع كر ديا اور انكو خريد كر امام (ع) پر حملہ كروايا _

جب امام (ع) نے اپنے سپاہيوں كى جنگ سے كنارہ كشى كو ديكھا اور خود اپنے كو بھى بہت زخمى پايا تو معاويہ سے صلح كر لى اور اس صلحنامہ ميں بہت سارى شرطيں ركھيں مگر اس نے ايك شرط پر بھى عمل نہ كيا ، جب كوفہ آيا تو اپنى تقرير ميں ان باتوں كو پيش كيا كہ خدا كى قسم ، اے لوگو ، ہم نے تم لوگوں سے نہ نماز كى خاطر جنگ كى تھى اور نہ ہى روزہ كيوجہ سے، ان امور كو تو تم لوگ انجام ديتے ہى ہو ، ہم نے صرف اس لئے تم لوگوں سے جنگ كى تاكہ تمھارے اوپر حكومت كروں ، اور جن شرائط پر حسن (ع) سے صلح ہوئي تھى ان سبكو اپنے قدموں تلے ركھتا ہوں _

معاويہ مجبور تھا كہ اپنى حكومت كى سياسى بنياد چاپلوسى پر ركھے اور اس نے اپنى حكومت كے پہلے ہى سال امپراطور روم سے مصالحت كر كے خراج ديا ، اور دمشق كے اطراف و اكناف ميں سكوں كى تھيلياں بھيجنے لگا ، سردار قبائل اور عرب كے مكاروں كو دولت و مقام نيز رشتہ دارى كے ذريعہ دھوكہ ديا تاكہ ان لوگوں كى مدد سے اپنى حكومت كو ٹھوس اور ظلم و ستم كے ذريعے دولت كى جمع اورى كر سكے ، يہى وہ زمانہ ہے جس ميں معاويہ نے اپنى سياست كو بدلا ، اور ايك ظالم و جابر بادشاہ كى ياد تازہ كر دى _

ايك طرف سونے اور چاندى كى بوچھار ہونے لگى تو دوسرى طرف تمام بلاد اسلامى كى پيداوار كو اپنے خونين پنجے ميں كر ليا اور تمام باشندوں كو حكم ديا كہ جس طرح عجم كے بادشاہوں كو عيد نوروز كے موقع پر تحفہ ديتے تھے اب مجھے بھى دو ، اس طرح بالكل روم و ايران كا امپرا طور بن گيا تھا_

زمانہ معاويہ ميں حديث سازياں

حكومت معاويہ كے اتے ہى اصحاب رسول (ص) نے جو حكومت علوى (ع) كے زمانے ميں امير المومنين (ع) كے ساتھ تھے ، بلاد

۱۶۸

اسلامى ميں گوشہ نشينى اختيار كر لى ، كيونكہ امام حسن (ع) كى صلح كے بعد عوام نے ساتھ چھوڑ ديا تھا لہذا بار ديگر كمزور ہو گئے اسى وجہ سے ممالك اسلامى كے مختلف شہروں ميں پھيل گئے اور جو ميں نے يہ كہا كہ اصحاب رسول (ع) اچھى خاصى تعداد ميں حضرت على (ع) كے ساتھ اور جنگ جمل وصفين ميں شريك ہوئے تھے ، اسكو خود معتبر مورخوں نے بيان كيا ہے اور معاويہ كے ساتھ صرف تين افراد كا نام تحرير كيا ہے _

تاريخ اسلام ميں ذہبى لكھتے ہيں :

جنگ جمل ميں انصار سے اٹھ سو افراد على (ع) كے ہمراہ تھے اور سات سو وہ لوگ تھے جنھوں نے بيعت رضوان ميں شركت كى تھى نيز ايك سو بيس افراد وہ تھے جو پيامبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ بدر ميں شريك ہوئے تھے(۴۹)

ابن خياط اپنى كتاب ميں لكھتا ہے :

'' اٹھ سو وہ افراد جنھوں نے رسول(ص) اسلام كے ہاتھوں پر مقام رضوان ميں زير درخت عہد و پيمان كيا تھا ، حضرت على (ع) كے ساتھ جنگ صفين ميں شريك ہوئے تھے(۵۰)

وقعة صفين ميں نصر بن مزاحم لكھتے ہيں :

جنگ صفين ميں قيس بن سعد بن عبادہ نے ايك روز نعمان بن بشير سے كہا _ اے نعمان ذرا اس بات پر غور كرنا كہ معاويہ كے ساتھ غلام اور بيوقوف عربوں يا جنگل يمنيو ں كے علاوہ كوئي اور ہے ؟

ذرا اس پر بھى سوچ بچار كر ناكہ وہ متقى مہاجر و انصار اور تابعين كس كے لشكر ميں ہيں جن سے خدا راضى ہے ؟

پھر اس پر بھى غور كرنا كہ آيا تمھارے اور تمہارے دوست كے علاوہ كوئي اور معاويہ كے لشكر ميں ہے ؟ درانحاليكہ تمہارا نہ بدر كے مجاہدوں ميں شمار ہوتا ہے اور نہ ہى تم بيعت عقبہ ميں شريك ہوئے اور نہ كوئي آيت تمھارى مدح ميں نازل ہوئي ہے اور نہ ہى تم نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت كى ہے _ اپنى جان كى قسم _ اگر ا ج كے دن تم ہم سے اور ہمارے لشكر سے ٹكرائے تو كوئي نئي بات نہيں ہے كيونكہ تمھارا باپ اس سے پہلے ٹكرا چكا ہے(۵۱)

____________________

۴۹_تاريخ ذہبى ج۲ ص ۱۴۹

۵۰_ابن خياط ج۱ ص ۱۸۰ مطبوعہ نجف

۵۱_وقعة صفين ص ۴۴۹

۱۶۹

قيس كى مراد بيعت عقبہ سے يہ تھى كہ انصار كے كچھ افراد نے ہجرت سے پہلے رسول(ص) اكرم كے دست مبارك پر عہد و پيمان كر كے اسلام كو قبول كيا تھا _

پدر نعمان كے مخالفت سے قيس كى مراد يہ تھى كہ اسكا باپ سقيفہ ميں ابو بكر كى بيعت لينے ميں بہت اگے اگے تھا ، اور نعمان كے باپ ہى كى بدولت ابو بكر تخت خلافت پر آئے تھے ، ہم نے اپكى خدمت ميں قديم و معتبر مورخوں كى عبارتوں كو پيش كيا جن سے اپ نے اس بات كو ملاحظہ فرمايا ہو گا كہ اصحاب رسول اور مجاہدين سارے كے سارے حكومت علوى (ع) كے زمانے ميں لشكر على (ع) ميں تھے ،ليكن معاويہ كے لشكر ميں سوائے دو صحابيوں كے كوئي اور نہيں تھا _

وہ بھى ايسے تھے جو نہ اسلام ميں سبقت ركھتے تھے اور نہ ہى كوئي كارنامہ دكھايا تھا اور نہ ان كا كو ئي خاص مقام تھا _

جب حضرت امير المومنين (ع) كى شہادت ہو گئي تو ان تما م اصحاب نے اسلامى سر زمين كے مختلف شہروں ميں گوشہ نشينى اختيار كر لى اور جہاں بھى رہے ہوں گے عقيدتمند مسلمان ان كے ارد گرد ضرور اٹھتے بيٹھتے رہے ہوں گے پھر ان لوگوں نے حديث رسول (ص) كو بيان كيا ہوگا تو مومنين نے ضرور سنا ہوگا يا لكھ كر لئے گئے ہونگے تاكہ ان حديثوں سے احكام الہى كى شناخت كر سكيں _

البتہ يہ بھى تصور كيا جا سكتا ہے كہ جب صفين و جمل اور عثمان كے زمانے كا تذكرہ ہوا ہوگا تو اس زمانے كى گرما گرم باتيں ضرور بيان كى ہونگى ، پھر اس ميں امويوں كے عيوب و نقائص اور سياہكارى و جنايتكارى كا ضرور تذكرہ كيا ہو گا ،_ كبھى خليفہ اول و دوم كے دور كى باتيں چھيڑى ہوں گى اور زمانے كى فتوحات كا ذكر كيا ہو گا تو اس ميں بھى بنى اميہ كا كوئي اہم كردار نظر نہيں آيا ہوگا _

كبھى عصر رسول (ص) كى جنگوں اور كفار قريش نے جو مسلمانوں كو اذيتيں پہونچائي تھيں ان كو بيان كيا ہوگا تو ان تذكروں نے سامعين كے قلوب كو ان سے متنفر كر ديا ہو گا اور بنى ہاشم كے كارنامے اور فضائل كو سنكر ان كے قلوب ان سے كھنچ گئے ہوں گے _

ان تمام باتوں ميں اكثر بنى اميہ كے اخلاق و كردار كى مذمت كے علاوہ كوئي دوسرى بات نہيں رہى ہو گى _

ان اصحاب كرام نے جب بدر كى داستان كو بيان كيا ہوگا تو ضرور كہا ہو گا كہ معاويہ كا دادا اور ماموں نيز بھائي اور خاندان والے اسى جنگ ميں مارے گئے اور ستر افراد قريش كے اور معاويہ كے خاندان كے اسير بنائے گئے تھے _

جب جنگ احد كا تذكرہ چھڑا ہوگا تو ان لوگوں نے ضرور بتايا ہوگا كہ معاويہ كا باپ ابو سفيان نے اس جنگ كا بيڑا اٹھا ركھا تھا _

۱۷۰

اور معاويہ كى ماں ہندہ نے رسول كے دلير چچا حمزہ كے سينے كو چاك كر كے انكے جگر كو چبايا تھا پھر يہ بھى بيان كيا ہو گا كہ ايك دن ابو سفيان نے چيخ ماركر كہا تھا كہ ، شاباش ہبل ، جس وقت حسان كا شعر جو ہندہ كى مذمت ميں كہا تھا اسكو پڑھا ہو گا تو معاويہ كى نا پاك ولادت كى تشريح كى ہو گى _

ايك روز فتح مكہ كا چرچا كيا ہوگا تو اس ميں ابو سفيان و معاويہ كے ظاہرى اسلام كى دليل يہ دى ہو گى كہ رسول اكرم (ص) نے ان دونوں كو جنگ حنين كے مال غنيمت سے مولفة القلوب ميں شمار كرتے ہوئے بہت سارے اموال ديئے تھے _

ليكن رسول (ص) اسلام كى نظر عنايت ان دونوں پر كار فرمانہ ہو سكى اور ابو سفيان نے مسلمان ہونے كے بعد كہا ، كاش ميں قدرت ركھتا تو لوگوں كو اس شخص ( محمد ) كے خلاف بھڑ كا ديتا_

جنگ صفين ميں مسلمانوں نے ناگہانى حملے كى تاب نہ لا كر جب پيٹھ دكھائي تو اس ( ابو سفيان ) نے اپنے دوستوں سے كہا كہ ابھى كيا ہے يہ لوگ شكست كھا كر دريا ئے سرخ تك بھاگيں گے وفات رسول(ص) كے بعد جنگ ير موك ميں جب مسلمان شكست كے قريب تھے تو اس ( ابو سفيان) نے ہانك لگائي تھى ، روميوں زندہ باد ، پھر تھوڑى دير بعد نہايت افسوس كے ساتھ اس شعر كو پڑھا ، كيا روم كے بادشاہوں ميں سے كوئي بھى اس مقام پر نہيں ہے ؟

يہ تمام باتيں معاويہ جيسے ظالم و جابر كى حكومت كے زمانے ميں ہوتى رہى ہونگى تو معاويہ نے بھى اپنے دادا اور باپ كى شجاعتوں كا تذكرہ كيا ہو گا _ كيونكہ عرب ان تذكروں كو سننا بہت پسند كرتے تھے لہذا اس راہ ميں جو ہاتھ آيا اس كو انجام ديا اور جو كچھ معاويہ نے اسلام كے خلاف محاذ ارائي كى تھى اس سے دستبردار نہيں ہوا ، ليكن اسكے افكار جاہلى كو ان ہى چند اصحاب نے چكنا چور كر ديا تھا ، ان باتوں سے صاف واضح ہو جاتا ہے كہ معاويہ ان اصحاب رسول(ص) كى طرح نہيں تھا اور جو كچھ اس نے مدينہ ميں تھوڑى بہت زندگى گذارى تھى ان لوگوں كے عادات و اطوار كو نہ سكيھ سكا _ ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا جو معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں رائج ہوئيں _

معاويہ نے اپنى حكومت ميں ربا خوارى كو عام كيا شراب كے مشكيزے اسكے گھر ميں لائے گئے نيز مسلمانوں كے بيت المال سے خواہشات نفسانى كى اگ بجھائي شہر كے خطيبوں نے اسى كے سامنے تعريف كى اور عصر جاہليت كے طور

۱۷۱

طريقے پر فخر و مباہات كى محفليں قائم كى پھر اپنے حاشيہ نشينوں سے تكبرانہ لہجے ميں كہا ، قريش كو يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ ان ميں سب سے بافضيلت ابو سفيان و معاويہ ہيں اگرچہ رسول(ص) خدا كو خدا وند عالم نے نبوت ديكر با عظمت بنا ديا تھا ، ميں سمجھتا ہوں كہ اگر تمام لوگ فرزند ابو سفيان ہوتے تو سب كے سب صاحب عقل و تدبر ہوتے _(۵۲)

اس سے بڑھ كر فخر اور كيا ہو سكتا ہے كہ اگر ابو سفيان تمام لوگوں كا باپ ہوتا تو سارے كے سارے صاحب علم و دانش ہوتے _

معاويہ اپنے زعم ناقص ميں يہ سمجھا كہ اسكا باپ بلند ترين فرد ہے اور قريش ميں سب سے بڑا خود ہے ، اور رسول(ص) كے علاوہ سبھى اس سے پست ہيں ، اگر كوئي شخص اس زمانہ ميں چاہتا تو اسكے فخر و مباہات كے مقابلے ميں صرف اتنا كہہ ديتا كہ_ جى ہاں _ معاويہ اپنى حكومت كے بل بوتے پر دوسروں پر اپنى فوقيت جتا رہا ہے نہ كہ اپنے ذاتى كمالات پر _

معاويہ اور بنى اميہ كے بارے ميں بزرگوں كا فيصلہ

معاويہ اپنى حكومت كے زمانے ميں حد سے زيادہ بڑھ گيا تھا اور غرور و تكبر اس ميں اتنا اگيا تھا كہ اس نے اپنى حكومت ميں سوائے اپنے قوم و قبيلہ كو بڑھانے كے كچھ نہ سوچا ، وہ اس كے پس منظر ميں اپنى حكومت كو بادشاہت ميں تبديل كرنا چاہتا تھا ، مگر اپنى خواہشات كو كس طرح عملى جامہ پہنائے ، كيونكہ مسلمانوں كے درميان صحابي امام اور دلير شخص صعصہ بن صوحان موجود ہيں ، جو يہ كہہ دينگے كہ تم اور تمہارا باپ اسى گروہ ميں تھا جو پيغمبر اكرم (ص) سے لڑنے آيا تھا ، اور تو ايك ازاد كردہ كا ازاد كيا ہوا بيٹا ہے جن پر رسول (ص) خدا نے احسان كر كے ازاد كيا ہے پھر كس طرح ممكن ہے كہ خلافت كى باگ ڈور ايك ازاد كردہ كے ہاتھوں ميں رہے(۵۳) يا يہ كہ جب ابو ہريرہ اور ابو دردا معاويہ كے نمائندے بنكر امام (ع) كے پاس آئے تھے تو اس وقت عبد الرحمن بن غنم اشعرى نے يہ كہا تھا كہ ، اخر معاويہ كيسے خليفہ بننا چاہ رہا ہے جبكہ وہ ان لوگوں ميں ہے جن كے لئے خلافت كرنا با الكل جائز نہيں ہے اور معاويہ كا باپ ( ابو سفيان ) اس گروہ كا سردار تھا جو

____________________

۵۲_تاريخ طبرى ج۵ ص ۸۹ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۵۹

۱۷۲

اسلام كے خلاف جنگ كرنے آيا تھا(۵۴)

پھر معاويہ كيسے خليفہ ہو سكتا ہے جبكہ عمر نے اپنى حكومت كے زمانے ميں يہ كہا تھا كہ خلافت ازاد كردہ يا انكے فرزندوں نيز فتح مكہ كے بعد مسلمان ہونے والوں كا حق نہيں ہے اور يہ لوگ اس مقام تك پہونچنے كے لئے ايڑى چوٹى كا زور نہ لگائيں(۵۵)

جب حضرت على (ع) نے خطبہ ديا تو لوگوں كو يا دہانى كراتے ہوئے فرمايا كہ ، معاويہ ان ميں سے ہے جسكو خداوند عالم نے نہ دين ميں سبقت عطا كى اور نہ ہى كوئي فضيلت ركھتا ہے وہ ايك ازاد كردہ كا فرزند ہے كہ جس نے اسلام كے خلاف تمام جنگوں ميں شركت كى تھى اور اسكا باپ ( ابو سفيان ) ہميشہ دشمن خدا و رسول (ص) رہا ہے اور جب ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كر ليا تب بھى اس سے كڑھتا رہا(۵۶) ايك مرتبہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ ، اے معاويہ تجھے معلوم ہونا چاہيئے كہ تو ايك ازاد شدگان ميں سے ہے جن كے لئے خلافت كرنا جائز نہيں ہے اور تجھے تو مسلمانوں كے امورميں ٹانگ لڑانے كا حق بھى نہيں ہے(۵۷)

جنگ صفين ميں علوى (ع) لشكر كے ايك سردار عبد اللہ بن بديل نے معاويہ كے بارے ميں كہا تھا كہ ، وہ اس چيز كا دعوا كر رہا ہے جو خود اسكى نہيں ہے اور اس شخص (على (ع) ) سے جھگڑا كر رہا ہے جسكو خلافت كرنے كا حق ہے ، پس اس گروہ سے جنگ كرو جو خلافت كو ہتھيانے ميں لگا ہے اور ہم نے پيامبر اكرم (ص) كے ساتھ ان لوگوں سے جنگ كى تھى پس خدا كے واسطے اپنے اور دشمن خدا سے لڑنے كے لئے امادہ ہو جائو خدا تم لوگوں پر اپنى رحمت نازل كرے گا(۵۸)

امام عليہ السلام كے وفادار صحابى عمار ياسر نے جنگ صفين ميں معاويہ كے سلسلے ميں بآواز بلند يوں كہا كہ ، اے مسلمانو ، كيا تم لوگ اس شخص ( معاويہ ) كو ديكھنا چاہتے ہو جس نے خدا و رسول (ص) سے دشمنى و عداوت ميں ان سے جنگيں لڑيں ، مسلمانوں كے خلاف بغاوت و سر كشى كو ہوا دى اور مشركين كى پشت پناہى كى ، جب اس نے ديكھا كہ اللہ نے اپنے دين

____________________

۵۳_مروج الذھب ج۳ ص ۵۰

۵۴_استيعاب ج۲ ص ۴۱۷، اسد الغابہ ج۳ ص ۳۱۸

۵۵_ اسد الغابہ ج۴ ص ۳۸۷ ، طبقات الكبرى ج۳ ص ۲۴۸ مطبوعہ ليدن

۵۶_وقعة صفين ص ۲۲۷ ، طبرى ج۶ ص ۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۲۵

۵۷_عقد الفريد ج۲ ص ۲۸۴ ،شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵

۵۸_ وقعة صفين ص ۲۶۳ ، طبرى ج۶ ص ۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۲۸ ، استيعاب ج۱ ص ۳۴۰

۱۷۳

كو مستحكم كر كے اپنے رسول (ص) كو غلبہ حاصل كرا ديا تو پيامبر اكرم (ص) كے پاس آيا پھر مسلمان ہوا جبكہ خدا اسكے دل كو خوب جانتا تھا كہ اس نے صدق دل سے اسلام كو قبول نہيں كيا ہے بلكہ خوف جان اور طمع مال كى وجہ سے مسلمان ہوا ہے ، اور جب رسول اكرم (ص) اس دنيا سے چلے گئے تو خدا كى قسم يہ ( معاويہ ) مسلمانوں كا دشمن اور كافروں كا دوست بن گيا ، اگاہ ہو جائو يہ شخص معاويہ بن ابو سفيان ہے اس پر لعنت بھيجو كيونكہ خدا اس پر لعنت بھيجتا ہے اور اس سے جنگ و قتال كرو اس لئے كہ يہ چاہتا ہے كہ نور خدا كو گل كر كے ظلمت و تار يكى پھيلائے(۵۹)

اسود بن يزيد نے معاويہ كے سلسلے ميں ام المومنين عائشه سے كہا :

اے ام المومنين آيا اپ كو اس بات پر حيرت نہيں ہوتى ہے كہ وہ شخص جو ازاد كردہ ہے اور صحابى رسول(ص) سے خلافت كے سلسلے ميں جھگڑا كر رہا ہے _

عائشه نے جواب ديا ، اس ميں تعجب كى كيا بات ہے يہ حكومت ہے خدا جسے چاہے عطا كر دے اس ميں نيك و بد كى قيد نہيں ہے جس طرح فرعون الوہيت كا دعوا كرنے كے با وجود سالہا سال مصر ميں حكومت كى اور اسكے علاوہ دوسرے بھى اس عہدے پر پہونچے ہيں(۶۰)

امام حسن (ع) نے معاويہ كو خط لكھا كہ ، اے معاويہ بڑى حيرت كى بات ہے كہ تم اج اس عہدے پر برا جمان ہو گئے جس پر كسى صورت ميں برا جمان ہونے كے لائق نہ تھے كيونكہ تم نہ دين ميں كوئي منزلت ركھتے ہو اور نہ ہى اسلام لانے ميں سبقت كى پھر تم اسكے فرزند ہو جس نے اسلام كے خلاف محاذ ارائوں كى سر براہى كى تھى اور وہ اسلام و قران اور رسول (ص) كا سخت ترين دشمن تھا(۶۱)

شعبہ بن عريض نے معاويہ سے كہا تھا كہ ، تم نے دور جاہليت ميں بھى اور اسلام لانے كے بعد بھى حق كو كچلا ، دور جاہليت ميں رسول (ص) و وحى الہى كے خلاف اتنى جنگ كى كہ خدا وند عالم نے اسلام ہى كو پيروز وكامياب بنا كر تمھارے برے نقشے كو مليا ميٹ كر ديا تھا اور مسلمان ہونے كے بعد تم نے يہ كيا كہ جب فرزند رسول (ص) تخت خلافت پر پہونچا تو تم

____________________

۵۹_ صفين ص ۲۴۰ ، طبرى ج۶ ص ۷ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۲۶

۶۰_ در منثور ج۶ ص ۹ ابدايہ و النہايہ ج۸ ص ۱۳۱

۶۱_ مقاتل الطالبين ص ۲۲ شرح نہج البلاغہ ج۴ ص ۱۲

۱۷۴

اسكى حكومت كو گرانے كے چكر ميں لگ گئے ، اے معاويہ تمہيں خلافت سے كيا سروكار ہے تم تو ازاد كردہ كے ازاد كئے ہوئے فرزند ہو(۶۲)

ان تمام ذلتوں اور رسوا ئيوں كا حامل اور فضيلت و منزلت سے كوسوں دور رہنے والا معاويہ كيسے حكومت كو خاندانى بنائے اور يہ تمام باتيں جو اسلام كى مشھور شخصيتوں نيز معاويہ كے ہم عصروں نے كہى ہيں اور اسكى سياہكارى اس حد تك پہونچى ہوئي تھى تو كيسے عائشه معاويہ كى صفائي پيش كر رہى ہيں كہ يہ حكومت ہے خدا جسے چاہے ديدے اگر چہ براہى كيوں نہ ہو ، جى ہاں ، اگر اس طرح كا بيان نہ ديتيں تو پھر اسلامى حكومت كا لباس معاويہ كے نا موزوں جسم پر كيسے اتا _

پھر اس حكومت كو معاويہ كيسے خاندانى بنائے كيونكہ اسلام معاشرے ميں صاحب عظمت و فضيلت افراد موجود ہيں اور ہم نے بيان بھى كيا ہے كہ اما حسن (ع) و حسين (ع) عليھما السلام جيسى شخصيتيں جو خاندان بنى ہاشم كى تمام بزرگيوں اور فضيلتوں كے وارث اور نواسئہ رسول (ص) نيز لوگوں ميں كافى محبوب تھے _

لہذا معاويہ نے يہ كام كيا كہ ايك طرف اپنى حكومت كے ستون كو مستحكم كيا ، دوسرى طرف اس حكومت كو موروثى بنانے كے لئے لوگوں كو خاندان رسول (ص) و ال على (ع) سے دور ركھا تاكہ لوگ اس سے اور اسكے خاندان كى طرف مائل ہونے لگيں ، اسى بناء پر معاويہ نے خاندان على (ع) و اصحاب رسول (ص) سے اتنى ہولناك جنگ لڑى جس كے خوف سے بچے بوڑھے ہو گئے اور مسلمانوں كے خون سے زمينيں رنگين ہو گئيں پھر انكى عورتوں كو اسير كر كے بازاروں ميں بيچا گيا _

معاويہ نے اس ہدف تك پہونچنے ميں كسى چيز سے دريغ نہيں كيا دولت ، ثروت، حيلہ سب كو اسى طرح استعمال كيا جس طرح اپنى حكومت كے سلسلہ ميں استعمال كيا تھا ، اور جسكے ذريعہ سادہ لوح افراد كو اپنى طرف كھينچا تھا وہ حيلہ قصاص خون عثمان كا تھا ، جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھايا تھا _

____________________

۶۲_ اغانى ج۳ ص ۲۵ ، اصابہ ج۲ ص ۴۱

۱۷۵

اپنے كرتوت پر جعلى حديثوں كا غلاف

معاويہ كے اس پرو پيگنڈے كے پيچھے دو اہداف پوشيدہ تھے _۱_ اس پروپيگنڈہ سے لوگوں كے ذہن و دماغ كو حقائق سے دور كر كے مسلمانوں كى تہذيب و تمدن كو چھين لے _۲_اپنى فكر كو جو عرب كى جہالت اور شام كے عيسائي تہذيب سے بھرى ہوئي تھى بيوقوف اور سادہ لوح مسلمانوں كے ذہن ميں بھر دے _

اس بحث ميں اپ ديكھيں گے كہ اس نے اپنى سياست كو كامياب بنانے كے لئے كن كن وسائل كا سہارا ليا تھا ، اور خاندان رسول (ص) محافظ اسلام و قران خاص طور سے حضرت على (ع) جو بے نظير فضائل و كمالات كے مالك تھے اور ان فضائل و كمالات كى وجہ سے لوگوں كے قلوب كو محو كئے تھے كس طرح داغدار كيا تھا اور جہاں تك ممكن ہوا ان كے فضائل و كمالات كو تحريف كيا ، پھر ان تحريف كئے ہوئے مطالب و مفاہيم كو مسلسل پروپيگنڈہ كے ذريعہ لوگوں كے دلوں ميں بٹھايا ، تاكہ سادہ لوح افراد اسلام و قران كے چشمہ زلال جو بعد رسول (ص) اہلبيت عليھم السلام تھے سے متنفر ہو جائيں _

طبر ى لكھتے ہيں :

معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو كوفہ جانے سے پہلے اپنى خدمت ميں بلوايا اور اس سے كہا ، ميں چاہتا ہوں كہ تم سے كچھ باتيں كروں ليكن چونكہ تم كافى ذہين ہو لہذا اس بات كو چھوڑ ديتا ہوں ، مگر ايك بات جو تم سے كہنا بہت ضرورى ہے وہ يہ ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہنے سے كبھى نہ چوكنا اور ہميشہ عثمان كى اچھائيوں كو بيان كرنا ، دوسرى بات يہ ہے كہ شيعيان على (ع) كى عيب جوئي نيز ان لوگوں كو اذيت و تكليف دينے ميں كسى قسم كى رعايت نہ كرنا ، اور عثمان كے چاہنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا _

مغيرہ نے كہا ، ہم اپنى ذات سے غافل نہيں ہيں اور اس سلسلہ ميں ميرا كافى تجربہ ہے اور بہت سارے امور كو انجام دے چكا ہوں ، اب تم ( معاويہ ) بھى مجھے ازما لو اگر ميرا كام پسند آيا تو ميرى تعريف كرنا ورنہ اس كام سے معزول كر دينا _

معاويہ نے كہا ، نہيں انشاء اللہ تمہارى تعريف ہى كروں گا(۶۳)

كتاب احداث ميں مدائنى نقل كرتے ہيں :

جب معاويہ تخت خلافت پر اگيا تو اپنے تمام حكمرانوں كو لكھا كہ جو بھى ابو تراب(ع) اور خاندان على (ع) كے فضائل كو بيان كرتا نظر آئے اسكو جان سے مار ڈالو اور اسكے مال و اسباب كو لوٹ لو _

____________________

۶۳_ طبرى ج۶ ص ۱۰۸ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۲

۱۷۶

اس دور ميں اہل كوفہ نيز شيعيان على (ع) زيادہ اذيت و تكليف ميں گرفتار ہوئے _

دوسرى مرتبہ امير شام معاويہ نے تمام شہر كے واليوں كو حكم ديا كہ ، محبان على (ع) اور انكے خاندان والوں كى كوئي گواہى قبول نہ كى جائے _

اور جو لوگ عثمان كے فضائل كو بيان كر رہے ہوں اور وہ لوگ تم لوگوں كى حكمرانى ميں زندگى گذار رہے ہوں انكو خوب اچھى طرح پہچان لو اور انكے ساتھ احترام و اكرام سے پيش ائو اور ان لوگوں كو اپنے نزديك جگہ دو نيز ان كے باپ اور خاندان كا نام لكھ كر ہمارے پاس روانہ كرو ، جيسے ہى يہ فرمان جارى ہوا تو ضمير فروش اور دنيا پرست لوگ حديثيں گڑھنے لگے اور عثمان كے فضائل اتنے گڑھے كہ ايك حديث كا انبار ہو گيا ، كيونكہ معاويہ نے دولت و ثروت اور فاخرہ لباس نيز جو كچھ ہاتھ ميں تھا ان سب كو اس راہ ميں بے دريغ خرچ كيا تھا _

نتيجہ يہ ہوا كہ جو بھى ضمير فروش معاويہ كے حكمرانوں كے پاس گيا عثمان كى مدح ميں ايك حديث بيان كردى تو ان كا مورد توجہ بن گيا اور اسكا نام لكھ ليا اسكے بعد حكومت كے كسى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، معاويہ نے ايك مدت كے بعد اپنے حكمرانوں كو دوسرا دستور ديا كہ ، اب عثمان كے فضائل بہت زيادہ ہو گئے ہيں اور ان فضائل كا تمام شہروں ميں كافى پرچار بھى ہو گيا ہے ، لہذا تم لوگ خلفاء ثلاثہ اور فضائل صحابہ كے بارے ميں لوگوں سے اسى طرح حديثيں گڑھو ائو جس طرح ابو تراب كى فضيلت كے سلسلے ميں حديثيں ہيں _

ميرى نظر ميں يہ كام بہت اچھا رہے گا اور مجھے اس كام سے بہت تقويت ملے گى ، كيونكہ ابو تراب(ع) اور ان كے چاہنے والوں كے دلائل و براہين كى كاٹ كرنے كے لئے اس سے زيادہ بہتر كوئي اسلحہ نہيں رہے گا ، اور ان كے چاہنے والوں كو چڑہانے كے لئے فضائل عثمان ميں نقل كى گئيں حديثيں زيادہ مناسب رہيں گى _

معاويہ كا حكم لوگوں كو سنايا گيا جسكے نتيجہ ميں بہت سارى جھوٹى حديثيں معرض وجود ميں ائيں جس كا حقيقت سے كوئي واسطہ نہيں ہے _

اہستہ اہستہ ان احاديث كو بيوقوفوں نے منبروں سے بيان كرنا شروع كر ديا پھرمعلم مكتب نے بچوں كے حوالے كيا

۱۷۷

انھوں نے ان حديثوں كو يا د كيا پھر ان بچوں سے نوجوانوں نے ليا اور اس طرح قران كريم كى طرح ان جھوٹى حديثوں كى تلاوت اور حفظ كيا جانے لگا ، پھر مردوں كى بزم سے ہوتى ہوئي عورتوں كے مكاتب و معاشرے ميں پہونچيں ، انھوں نے ان احاديث كو مسلمان لڑكيوں ميں پہونچايا اور ان لوگوں نے اپنے غلام و خادم كى خدمت ميں بيان كيا اسى طرح ايك مدت تك يہ حديثيں اسلامى معاشرے ميں گھومتى رہيں _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ يہ جھوٹى حديثيں انے والى نسلوں كے لئے درد سر بن گئيں اور جس عالم و مفتى اور قاضى و حاكم نے ان جھوٹى حديثوں كو ديكھا اس پر يقين كر ليا(۶۴)

محدث بزرگ و مشہور عالم حديث ابن عرفہ نے اپنى تاريخ ميں ان مطالب كو ذكر كيا ہے جو مدائنى كے قول كى تصديق كرتى ہے ،يہ لكھتے ہيں :

اكثر جھوٹى حديثيں جو فضائل صحابہ كو بيان كرتى ہيں بنى اميہ كے زمانے ميں گڑھى گئي ہيں كيونكہ حديث سازوں نے اسكے ذريعہ خلافت كى مشينروں سے تقرب حاصل كرنے كے لئے ايسا كيا تھا اور امويوں نے ان جھوٹى حديثوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات كى كوشش كى تھى كہ بنى ہاشم كے سر كو عالم اسلام ميں جھكا كر ركھ ديں(۶۵)

البتہ معاويہ نے صرف اپنى حكومت كے زمانے ميں حديث گڑھنے كا كارخانہ نہيں كھولا تھا ، بلكہ اس سے پہلے بھى اس كام كو انجام دے چكا تھا _

طبرى بيان كرتے ہيں :

جب امام (ع) كے صحابى اور حاكم مصر قيس بن سعد نے معاويہ كى پيشكش كو ٹھكرا ديا اور انكى طرف سے با لكل مايوس ہو گيا تو بہت پريشان ہوا لہذا معاويہ نے ايك حيلہ تيار كر كے اہل شام كو بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ قيس بن سعد نے ہمارى پيشنہادوں كو مان ليا ہے اور انھوں نے ہمارى مدد كرنے پر اپنى كمر باندھ لى ہے لہذا تم لوگ انكو دعائے خير دو ، پھر اپنى جيب سے ايك جھوٹا خط ا ن كى طرف سے نكالا اور اسكو لوگوں كے سامنے پڑھا جس ميں يہ تھا كہ _

بسم اللہ الرحمن الرحيم _ يہ خط ہے امير شام معاويہ بن ابو سفيان كے نام قيس بن سعد كى طرف سے ، اپ پر سلامتى ہو ،

____________________

۶۴_ شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۱۶

۶۵_ شرح نہج البلاغہ ص ۱۵ ، فجر الاسلام ص ۲۱۳

۱۷۸

عثمان كا قتل عالم اسلام ميں بہت بڑا حادثہ ہے ميں نے بہت غور و فكر كيا تو اس نتيجے تك پہونچا كہ امام (ع) ( على (ع) ) كے متقى و پرہيز گار گروہ كے ساتھ جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ہے نہيں رہونگا ، اور اپنے گذشتہ گناہ كى معافى و تلافى اپنے خدا كى بارگاہ ميں كرونگا ، خدا سے ميرى بس يہ دعا ہے كہ ميرے دين و ايمان كو سالم ركھے اگاہ ہو جائو كہ ہم ( قيس ) اج كے بعد تمھارے ( معاويہ ) كے ساتھ ہيں اور قتل عثمان كے سلسلہ ميں جنگ كرنے كے لئے تيار ہيں كيونكہ وہ خليفہ امت تھا جسكو موت كے گھاٹ اتار ديا گيا _

پس جتنا تمھيں دولت و ثروت نيز سپاہيوں كى ضرورت ہے اسكو ميرے پاس لكھ كر بھيجو ہم تمھارى ہر طريقے سے مدد و نصرت كرنے كے لئے امادہ ہيں ، امير ( معاويہ ) پر ہميشہ خدا كى نظر و كرم رہے(۶۶)

جى ہاں _ معاويہ ذرہ برابر جھوٹ بولنے سے خوف نہيں كھاتا تھا اور اپنى سياست كو كامياب بنانے كے لئے اس نے ان ہى چيزوں كا سہارا ليا ليكن جسوقت حكومت پر قبضہ كر ليا اور تمام سر زمين اسلامى كا حاكم بن گيا تو جعلى حديثوں كى زيادہ ضرورت محسوس ہوئي لہذا مجبور ہوا كہ ان ضمير فروشوں سے حديث بنوائے ، يہ جنگ سرد تھى مگر پروپيگنڈے كى جنگ تھى ، اسى لئے ہر ادمى بازى لے جانے كى فكر ميں تھا اگر چہ ايك گروہ كا جہاں فائدہ ہو رہا تھا اسى جگہ دوسرے گروہ كا بڑا نقصان ہو رہا تھا _

اس دور ميں كچھ ضمير فروش صحابہ كا گروہ جن ميں مغيرہ بن شعبہ ، عمر وعاص ، سمرة بن جندب ، اور ابو ہريرہ جيسے افراد جو ہميشہ مقام ودولت كے بھوكے تھے مگر دين و منزلت كے اعتبار سے كوئي خاص اہميت كے حامل نہ تھے ، معايہ سے جا ملے _

مشہور عالم اہلسنت ابن ابى الحديد معتزلى اپنے استاد ابو جعفر اسكافى سے نقل كرتا ہے معاويہ نے بعض صحابہ و تابعين كو خريدا تاكہ وہ على (ع) كو برا بھلا كہہ كر انكے دامن كو داغدار كريں ، اور لوگ ان سے متنفر ہو جائيں ، ان لوگوں كو معاويہ اچھى خاصى تنخواہيں ديتا تھا تاكہ يہ لوگ اپنے كاموں ميں تساہلى نہ برتيں ، ان لوگوں نے معاويہ كے كہنے پر حديثيں گڑھيں ، جن ميں صحابہ سے ابو ھريرہ ، عمر و عاص ، اور مغيرہ بن شعبہ جيسے افراد تھے اور تابعين سے عروہ بن زبير تھا _

زھرى بيان كرتے ہيں :

عروہ بن زبير نے معاويہ كے كہنے پر عائشه سے ايك حديث نقل كى كہ اپ ( عائشه ) نے كہا كہ ميں رسول (ص) كے ساتھ بيٹھى ہوئي تھى كہ _ عباس و على (ع) اتے ہوئے نظر آئے رسول(ص) خدا نے فرمايا اے عا ئشےہ يہ دونوں كافر مريں گے _

عبد الرزاق، معمر سے نقل كرتا ہے كہ زہرى كے پاس دو حديثيں تھيں جو عروہ نے عائشه سے بيان كى تھيں يہ دونوں حديثيں على (ع) كے بارے ميں ہيں _

____________________

۶۶_طبرى ج۵ ص ۲۳۰ ، نجوم الزاہرة ج۱ ص ۱۰۱

۱۷۹

معمر كہتا ہے كہ ميں نے ايك روز زہرى سے ان حديثوں كے بارے ميں معلوم كيا تو اس نے جواب ديا كہ تمھيں ان حديثوں سے كيا كام ہے ، خدا بہتر جانتا ہے يہ دونوں حديثيں ہيں يا بنى ہاشم پر بہتان و الزام ہے _

ميں نے پہلى حديث عروہ سے اوپر بيان كى تھى اب دوسرى حديث ملاحظہ فرمايئے _

عروہ عائشه سے نقل كرتا ہے كہ ، ميں رسول (ص) كے پاس بيٹھى ہوئي تھى تو على (ع) و عباس اتے ہوئے نظر آئے رسول خدا (ص) نے فرمايا : اے عائشه _ اگر دو جھنمى كو ديكھنا چاہتى ہو تو ديكھ لو ، ميں نے كيا ديكھا كہ على (ع) و عباس ہيں(۶۷)

اسى قسم كى حديثيں جو عمر و عاص نے گڑھيں ہيں ، اسكو بخارى و مسلم نے اپنى كتابوں ميں نقل كيا ہے _

عمر و عاص كہتا ہے كہ ميں نے پيغمبر اكرم (ص) كو بآواز كہتے ہوئے سنا كہ ، ال ابو طالب ہمارے محبوں ميں نھيں ہيں ، بلكہ ہمارے اور خدا كے محب مومن و متقى لوگ ہيں(۶۸)

بخارى نے دوسرى روايت ميں مزيد يوں بيان كيا ہے: پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا _ ال ابو طالب ہمارے رشتہ داروں ميں سے ہيں اسى بناء پر ان سے صلہ رحم كرتا ہوں ، ليكن جو حديثيں ابوہريرہ نے معاويہ كے كہنے پر گڑھى ہيں اسكو اعمش نقل كرتا ہے _

جب صلح امام حسن (ع) كے بعد ابو ہريرہ معاويہ كے ہمراہ عراق آيا تو استقبال كرنے والوں كى بھيڑ ديكھى تو جا كر مسجد كوفہ ميں دو زانو ہو كر بيٹھ گيا ، پھر كئي مرتبہ اپنے چند ياپر ہاتھ پھيرا اور عرض كيا ، اے كوفے والو ، آيا تم لوگ چاہتے ہو كہ خدا و رسول پر بہتان لگا كر جھنم كا ايندھن بنوں _

خدا كى قسم ، ہم نے رسول(ص) خدا كو فرماتے ہوئے سنا ہے كہ ، ہر رسول (ص) كا ايك حرم ہے اور ميرا حرم مدينہ ميں كوہ عير اور كوہ ثور كے درميان ميں ہے _ جو بھى اس حرم ميں نا گوار واقعات پيدا كرے گا تو خدا اور ملائكہ اور تمام انسانوں كى اس شخص پر لعنت ہو گى _ پھر اضافہ كرتا ہے كہ _ ميں قسم كھاتا ہوں كہ اس سر زمين مقدس پر على (ع) نے فتنہ و اشوب بر پا كيا ، اس حديث كى خبر معاويہ تك پہونچى اس نے اس حديث كے گڑھنے كے اوپر مغيرہ كا خوب احترام كيا اور اسكے نتيجہ ميں اسكو واليء مدينہ بنا ديا _

مگر سمرہ بن جندب كے واقعے كو ابن ابى الحديد نے اپنے استاد ابو جعفر اسكافى سے يوں نقل كيا ہے :

معاويہ نے سمرہ بن جندب كے پاس ايك لاكھ درہم بھيجوايا تاكہ آيت'' و من الناس من يعجبك قوله من الحياة الد نيا و يشهد على ما قلبه وهو الد الخصام ''سورہ بقرہ آيت ۲۰۴

____________________

۶۷_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۸

۶۸_ صحيح بخارى ج۳ ص ۳۴

۱۸۰

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213