تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 213
مشاہدے: 53198
ڈاؤنلوڈ: 2756


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53198 / ڈاؤنلوڈ: 2756
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد 3

مؤلف:
اردو

۵_ صحيح مسلم ميں دوسرى روايت يوں نقل ہوئي ہے _

عائشه كہتى ہيں ، جيسے ہى ميں نے رسول خدا (ص) سے پوچھا تو اپ (ص) نے فرمايا : اے عائشه ، ميں عثمان سے حيا كيوں نہ كروں اور اسكا احترام كيوں نہ بجالائوں ، خدا كى قسم _ عثمان كے شرم كے اگے فرشتوں كے سر جھك جاتے ہيں _

عائشه نے رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے حكومت عثمان كى خوب حمايت كى ليكن زيادہ دن نہيں گذرا كہ اسى زوجيت رسول كے ذريعہ انكو شكست دينے كى ٹھان لى تھى ، اور حكومت عثمان كا تختہ الٹنے كے لئے رسول(ص) كا كرتہ ليكر مسجد ميں چلى ائيں اور انكے خلاف تقرير كى _

اے مسلمانو يہ پيراہن رسول (ص) ہے ابھى كہنہ نہيں ہوا ہے ليكن عثمان نے انكى سنت كو بدل كرفرسودہ بنا ڈالا ہے _

ايك مرتبہ حكومت عثمان كو الٹنے كے لئے پيغمبر(ص) اسلام كى نعلين مبارك ليكر مسجد ميں اگئيں _ اور تيسرى مرتبہ رسول (ص) كي داڑھى كے بال كو لوگوں كى خدمت ميں پيش كيا ، ان واقعات سے اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ عائشه نے عثمان كے خلاف كبھى رسول(ص) كى نعلين مبارك تو كبھى داڑھى كے بال تو كبھى پيراہن رسول (ص) كے ذريعہ انكى حكومت كو گرانے كى كوشش كى تھى ، اور ان تمام چيزوں سے لوگوں كے جذبات و احساسات سے كھيلنا چاہا ، كيونكہ روابط خراب ہونے كے بعد عائشه كے اغراض و مقاصد دوسرے تھے جو زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنى چال چل رہى تھيں _

۲۰۱

قتل عثمان كے بعد تاريخ كے صفحات پلٹے تو ان پرانى باتوں كو بالكل بھول گئيں اور بار ديگر انكے فضائل كو بيان كرنے ميں جٹ گئيں اور زوجيت رسول (ص) سے اس ميدان ميں بھى خوب فائدہ اٹھايا كيونكہ اس وقت انكے اغراض و مقاصد اور سياست دوسرى تھى _

۶_ جب معاويہ نے تمام حكمرانوں كو يہ حكم ديديا تھا كہ عثمان كى تعريف كى جائے اور انكے فضائل و كمال كو بيان كرنے كے لئے جھوٹى حديث كا كار خانہ كھول ديا جائے تو اس وقت عائشه فرستادہ معاويہ سے عثمان كے سلسلہ ميں ايك شگفت اميز حديث نقل كرتى ہيں كہ رسول (ص) نے ايك مصاحب كى خواہش كى تو ميں نے اپنے باپ ( ابو بكر ) كو پيش كيا حفصہ نے اپنے باپ ( عمر ) كو بڑھايا ، ليكن پيغمبر(ص) اسلام نے ہم دونوں كى پيشنہادوں كو ٹھكرا ديا ، پھر ايك شخص كو بلايا اور اہستہ سے كچھ اس كے كان ميں كہا ، تھوڑى دير بعد عثمان گھر ميں اگئے تو رسول(ص) خدا نے ان سے خوب باتيں كيں اور ميں نے خود سنا ہے كہ اپ(ص) نے فرمايا تھا ، اے عثمان خدا وند عالم عنقريب تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے ، اگر لوگ اس پيراہن كو اتارنے كى كوشش كريں تو تم ہرگز نہ اتارنا _

۷_ عائشه نے مسئلہ رضاعت ميں اپنى خاص رائے پيش كى اور كہنے لگيں ، پانچ مرتبہ دودھ پلانے سے رضاعى محرميت پيدا ہو جاتى ہے اور اپنى بہنوں اور عورتوں كو اس كا حكم ديا تھا ، اور اس اكلوتے فتوے سے فائدہ يہ اٹھانا چاہتى تھيں كہ جو

۲۰۲

لوگ معاشرے ميں با رسوخ ہيں وہ انكے پاس ائيں جائيں اسى بنا پر اس شرعى بہانے كو تلاش كيا تاكہ لوگ ان پر كوئي انگلى نہ اٹھا سكيں ، مگر ديگر ازواج رسول (ص) نے ان پر اعتراض كر ديا اور كہنے لگيں رضاعت اس وقت محقق ہو گى جب طبق معمول انجام دى جائے نہ كہ پانچ يا دس بار دودھ دينے سے پيدا ہو گى _

عائشه نے كہا ، جب ايہ الكبير عشرا رسول پر نازل ہوئي كہ دس بار دودھ پلانے سے پردہ ساقط ہو جاتا ہے تو اسكو ايك پتے پر لكھ كر تخت كے نيچے ركھ ديا تھا ليكن جب رسول (ص) بيمار ہو گئے اور ہم لوگ انكى تيمار دارى ميں لگے ہوئے تھے تو ايك بكرى گھس گئي اور وہ پتے كو كھا گئي(۲۶)

صحيح مسلم ميں جو دوسرى روايت عائشه سے نقل ہوئي ہے وہ يہ ھيكہ ، قران ميں يہ آيت ( عشر رضعات يحرمن ) رسول كے زمانے ميں موجودتھى پھر يہ آيت ( خمسون معلومات ) سے منسوخ كر دى گئي ، پھر عائشه تعليقہ لگاتى ہيں كہ ، جب رسول (ص) اس دنيا سے چلے گئے تو يہ قران ميں تھى اور لوگ اسكى تلاوت بھى كرتے تھے(۲۷)

ام المومنين عائشه كے كہنے كا مطلب يہ ہے كہ پانچ مرتبہ دودھ پلانے سے محرميت پيدا ہو جائے گى ، اور ميرے فتوے كى دليل قران كى آيت تھى اور اس آيت كى رسول (ص) كے زمانے ميں تلاوت بھى ہوئي ليكن اس كے بعد اس آيت كو بھلا ديا گيا(۲۸)

اپ نے چند حديثيں ملاحظہ فرمائيں يہ سارى كى سارى نمونہ تھيں جو عائشه نے زوجيت رسول(ص) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گڑھى تھيں اور معاشرے كو تحفے ميں پيش كى تھيں اگر اپ ان كى حديثوں كى چھان بين كريں گے تو ديكھيں گے كہ ازواج پيغمبر(ص) ميں سے كسى اور نے ان كى روايت نہيں كى ہے اور انھيں كى جعلى حديثوں كى وجہ سے اج پيغمبر(ص) اسلام كا چمكتا ہوا چہرہ دھندلا نظر ارہا ہے ، اور ان ہى حديثوں نے انحضرت(ص) كو ايك معمولى انسان بنا ديا ہے _

تعجب كى بات تو يہ ہے كہ اس زمانے سے ليكر اج تك تمام مسلمان ( سوائے شيعوں كے ) رسول اكرم (ص) كى سيرت و

_____________________

۲۶_مسند احمد ص ۲۶۹ ، سنن ابن ماجہ كتاب نكاح حديث نمبر ۱۹۴۴

۲۷_ صحيح مسلم كتاب رضاع ص۱۰۷۵

۲۸_ تعجب كى بات يہ ھيكہ عائشےہ كى دس مرتبہ دودھ پلانے والى آيت بكرى كھا گئي ليكن پانچ مرتبہ والى آيت كے سلسلے ميں كچھ نہيں كہا آيا اسكو بھى جانور نے كھا ليا تھا يا كوئي اور مصيبت ٹوٹ پڑى تھى ؟انا لله و انا اليه راجعون

۲۰۳

حيات كو عائشه ہى كى روايتوں ميں تلاش كرتے ہيں _

يہ مسئلہ غور طلب ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام كى واقعى شخصيت ايك مسلمان سے ڈھكى چھپى رہے كيونكہ حاكمان وقت كى يہى كوشش تھى كہ اگر رسول (ص) كى معرفت ہو تو ام المومنين عائشه كى حديثوں سے ہواور اس ميں كسى دوسرے كا دخل نہ ہو _

جبكہ اپ حضرات نے ديكھا كہ ان جھوٹى حديثوں نے كس طرح رسول (ص) اسلام كى حقيقى شخصيت كو مجروح كر كے بالكل نيست و نابود كر ديا ہے _

ان تمام باتوں كے كہنے كا مطلب يہ ہے كہ اگر رسول(ص) اسلام كى ذات كو پہچاننا ہے تو سب سے پہلے ضرورت اس بات كى ہے عائشه كى حديثوں كو كھنگالا جائے تب جا كر رسول(ص) كے چہرے سے تاريك و تحريف كے ضخيم پردے خود بخود اٹھ جائينگے ، اور يہ بھى جان ليجئے كہ اسلام حقيقى كى شناخت موقوف ہے رسول (ص) اسلام كى واقعى ذات پر _

اسى لئے ميں نے اس كتاب ميں عائشه كى زندگى كو تاريخ كے ائينے سے پيش كيا ہے اور انشا اللہ پھر انكى حديثوں كى چھان بين كروں گا _

اس تحقيق كى راہ ميں تمام عائشه كے چاہنے والوں سے معافى مانگتے ہيں اور مجھے اميد ہے كہ وہ لوگ مجھے معاف بھى كر ديں گے كيونكہ ميرا ہدف صرف اتنا تھا كہ رسول(ص) خدا، دين اور قوانين الہى كى صحيح معرفت ہو جائے اسى لئے ہم نے اس خارداروادى ميں قدم ركھا ہے ، تاكہ اسكے ذريعے دين كى كوئي خدمت ہو جائے _

ہم نے اس كتاب ميں پہلى فصل ميں زندگانى عائشه كى جانچ پڑتال كى ہے اور فصل دوم ميں انكى احاديث كو ملاحظہ فرمائيں گے ، بس خدا سے يہ دعا ہے كہ وہ ميرى اس خدمت كو قبول كرلے _

۲۰۴

ايك حديث كے سلسلے ميں علماء اہلسنت كى توجيہيں :

اس بحث كے اخر ميں بہتر يہ ہے كہ تھوڑا سا اس حديث كے سلسلے ميں جس كا ميں نے پہلے وعدہ بھى كيا تھا چھان بين كر ليا جائے ، اور جو علماء اہلسنت نے اس حديث كے سلسلے ميں تاويليں كر كے اس سے مطابقت كرنے كى ايڑى چوٹى كا زور لگايا ہے اس كو ملاحظہ فرما ليجئے _

ايك حديث صحيح مسلم كے اندر يوں نقل ہوئي ہے

رسول اسلام (ص) نے فرمايا : ميرا حرم مدينہ ميں كوہ ثور سے ليكر كوہ عيريا عاير تك ہے(۲۹)

اس كے ذريعہ راويوں نے زور لگاكر مكہ كى طرح مدينہ ميں بھى حرم و حدود حرم كو بيان كيا ہے ، ليكن اس كام كو كر كے بہت بڑى غلطى كى ہے ، كيونكہ ايك حرم كى حد كوہ ثور كو بنايا ، درانحاليكہ كوہ ثور مكہ ميں ہے جس ميں پيغمبر(ص) اسلام ہجرت كرتے وقت اسى پہاڑ كے غار ميں چھپے تھے(۳۰) اور مدينہ كے اندر اس نام كا كوئي پہاڑ نہيں ہے ، جيسا كہ بزرگ دانشوروں نے اسكى وضاحت بھى كى ہے جن ميں چند يہ ہيں _

۱_ مصيب زبيرى جو مدينہ كے رہنے والے تھے اور وہاں كے بہت بڑے عالم دين تھے انھوں نے ۳۶ھ ميں وفات پائي ، وہ اس حديث كے ذيل ميں كہتے ہيں كہ كوہ ثور مدينہ ميں نہيں ہے(۳۱)

۲_ علامہ شہير ابو عبيد قاسم بن سلام متوفى ۲۲۴ھ لكھتے ہيں كہ ، يہ روايت اہل عراق كى ہے اور مدينہ والے ثور نام كے پہاڑ كو نہيں جانتے ہيں كوہ ثور مكہ ميں ہے ، ميرا گمان يہ ھيكہ اس حديث ميں در اصل كوہ احد تھا ، جو غلطى سے كوہ ثور لكھديا گيا ہے(۳۲)

ابو عبيد كے كہنے كا مقصد يہ ہے كہ يہ روايت اہل عراق نے نقل كيا ہے ، جنكو يہ بھى نہيں معلوم تھا كہ كوہ ثور مكہ ميں ہے يا مدينہ ميں _

____________________

۲۹_صحيح مسلم باب فضل المدينہ حديث نمبر ۹۹۵۰_ ۴۶۷

۳۰_طبرى ج۲ ص ۳۷۸ ، ہشام ج۱ ص ۴۸۵ ، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۶۰ ، ابن اثير ج۲ ص ۷۳

۳۱_فتح البارى ج۴ ص ۴۵۳

۳۲_فتح البارى ج۴ ص ۴۵۲

۲۰۵

۳_ قاضى عياض متوفي۵۴۴ ھ جنھوں نے صحيح مسلم كى شرح كى ہے

۴_ صاحب معجم ما استعجم بكرى متوفى ۴۷۸ھ جو بہت بڑے جغرافيہ دان تھے

۵_ حافظ ابوبكر محمد بن موسى حازمى ۵۴۸ھ جو علم حديث ميں ماہر تھے(۳۳)

۶_ صاحب نہاية اللغة علامہ ابن اثير جزرى متوفى ۶۰۶ھ ()

۷_ ياقوت حموى جنھوں نے ۶۲۶ھ ميں وفات پائي ہے(۳۴)

ان تمام دانشوروں نے صراحتاََ لكھا ہے كہ مدينہ ميں ثور نام كا كوئي پہاڑ نہيں تھا _

لہذا علماء اہلسنت نے اس حديث كى توجيہ و تاويل كرنے ميں خرافات كى باتيں تحرير كى ہيں جن ميں علماء حديث كے رہبر و پيشوا ، بخارى متوفى ۲۵۶ھ ميں جنھوں نے اپنى صحيح كے اندر ايك حديث لكھى ليكن اس ميں كوہ ثور كے نام كے بجائے اس عبارت كو پيش كيا كہ '' المد ينة حرم ما بين عائرالى كذا ''(۳۵) يعنى مدينہ كا حرم كوہ عائر سے ليكر فلاں مقام تك ہے ، درانحاليكہ اسى حديث كے سلسلے ميں صحيح مسلم نے ( كذا ) كى جگہ لفظ ثور كو استعمال كيا ہے _

اس حديث كے سلسلے ميں بخارى كو چھوڑ كر اور دانشوروں نے بھى نا درست توجيہ و تفسير كى ہے ايك دانشور كہتا ہے : شايد پيغمبر(ص) اسلام نے مدينہ كے كسى دو پہاڑوں كا نام ركھا ہو گا دوسرا لكھتا ہے ، شايد پيغمبر(ص) اسلام كا مقصد مدينہ كے حدود حرم كو معين كرنا تھا اسى لئے اپ نے مكہ كے دو پہاڑوں كے فاصلے سے تشبيہ دى ، كيونكہ كوہ ثور مكہ ميں ہے نہ كہ مدينہ ميں _

تيسرا كہتا ہے ، راوى نے غلطى سے كوہ ثور كہديا ہے كيونكہ مدينہ ميں كوہ احد ہے نہ كہ كوہ ثور _

____________________

۳۳_صحيح مسلم باب فضل المدينہ ج۹ ص ۱۴۳ ۶_نہاية اللغة ج۱ ص ۲۲۹

۳۴_معجم البلدان ج۲ ص ۸۶ مطبوعہ بيروت

۳۵_صحيح بخارى كتاب الحج باب حرم مدينہ

۲۰۶

چوتھے نے روايت كے اندر پہاڑ كا نام ہى نہيں لكھا تاكہ كوئي اعتراض نہ كرے اور ان كے علاوہ دوسروں نے اس حديث كى توجيہ و تاويل دوسرے ہى انداز ميں كى ہے ، اور يہ تاويل كا سلسلہ تقريبا سات صدى تك وسيع پيمانے پر چلتا رہا ، چنانچہ محدث حنبلى عبد السلام بن محمد بن مزروع بصرى متوفى ۶۶۹ھ نے اس حديث كا زبر دست حل نكالا ، اور مدينہ ميں كوہ احد كے نزديك ايك كوہ ثور كو پيدا كر ديا پھر اعتراض كے خوف سے يہ لكھديا كہ اہل مدينہ اس پہاڑ كو جانتے ہيں ،پھر عبد اللہ مطرى متوفى ۷۶۵ھ نے اپنے والد بزگوار محمد مطرى سے انھيں مطالب كو يوں نقل كيا كہ ، اہل مدينہ پشت در پشت كوہ احد كے بغل ميں ثور نام پہاڑ كو جانتے ہيں اور يہ پہاڑ سرخ رنگ كا اور بہت چھوٹا ہے _

گويا سب سے پہلے مدينہ ميں كوہ ثور كو ابن مزروع نے كشف كيا پھر اسكے بعد عبد اللہ مطرى نے اسكے انكشاف سے اپنى نئي تحقيق پيش كى ليكن حافظ اور عالم علم الحديث يحى نووى متوفى ۶۷۶ھ نے اپنى مشھور شرح ميں اس قسم كى كوئي بات نہيں لكھى ، جبكہ ان كے پہلے والے بزرگ عالموں نے اس حديث كى توجيہ و تاويل كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور لگايا

۲۰۷

تھا جسكو اپ نے پہلے ملاحظہ فرما ليا ہے ، پھر عالم لغت علامہ ابن منظور متوفى ۷۱۱ھ نے اپنى كتاب لسان العرب ميں لفظ ثور ميں مدينہ كے پہاڑ كا تذكرہ نہيں كيا ، جبكہ يہ دونوں ايك بڑے عالم اور ماہر علم حديث و لغت تھے _

يا يہ كہا جائے كہ يہ دونوں اس جغرافيائي انكشاف سے باخبر نہ ہو سكے يا انھوں نے ان لوگوں پر اعتماد نہيں كيا _

البتہ اپ يہ بھى جان ليں كہ يہ دونوں عالم زمانے كے اعتبار سے ابن مزروع كے بعد تھے ، اگر ان دونوں نے اپنى كتابوں ميں ان كے انكشاف و اختراع كو جگہ نہيں دى تو پھر اوروں نے كيسے اپنى كتابوں ،ميں لكھ مارا _ جيسے

۱_ محب الدين طبرى متوفى ۶۹۴ھ نے كتاب الاحكام ميں

۲_ فيروز ابادى متوفى ۸۱۷ ھ نے كتاب قاموس ميں

۳_ ابن حجر عسقلانى متوفى ۸۵۲ھ نے فتح البارى ميں

۴_ زبيدى متوفى ۱۲۰۵ھ نے تاج العروس ميں ابن مزروع كى چھوڑى ہوئي پھلجھڑى كو لكھا ہے ليكن ہمارے زمانے كے علماء كى غيرت اس حديث كى توجيہ و تفسير كرنے ميں گذشتہ عالموں سے زيادہ بڑھ گئي ہے ، اور اس پر اتنا زور ازمائي كى كہ كوہ ثور كى حقيقت كو جاننے كے با وجود اس كو مدينہ كے جغرافيائي نقشے ميں لاكر گھسيڑ ديا ، جيسے مولف كتاب اثار المدينہ استاد عبد القدوس نے صفحہ ۱۳۹ ميں كوہ ثور كو مدينہ كے نقشہ ميں پيش كيا ہے ، اور ان سے ڈاكٹر محمدھيكل نے كتاب منزل الوحى كے صفحہ ۵۱۲ ميں اسى نقشے كو چھاپا ہے ، پھر كتاب كے صفحہ ۴۴۰ پر لكھتے ہيں كہ ميں نے اس نقشے كو كتاب اثار المدينہ سے حاصل كيا ہے(۳۶)

مختصر يہ ہے كہ سب سے پہلے ساتويں صدى ميں كوہ ثور كو مدينہ ميں پيش كيا گيا اور چودہويں صدى ميں پہلى مرتبہ جغرافيائي نقشے ميں كوہ ثور داخل كر ديا گيا _

والله على ما نقول وكيل

سيد مرتضى عسكري

____________________

۳۶_شرح صحيح مسلم تحقيق محمد فواد عبد الباقى مطبوعہ لبنان ص ۹۹۸_ ۹۹۵

۲۰۸

فہرست

گفتار مترجم ۴

پيش گفتار ۱۰

(فصل اول) ۱۱

معاويہ كى زندگى پر ايك نظر ۱۱

ابو سفيان اور ھند ۱۲

اموى خاندان جاہليت كے زمانے ميں ۱۶

ابو سفيان جنگ بدر ميں ۱۷

ابوسفيان جنگ احد ميں ۲۰

ھندہ جنگ احد ميں ۲۳

جنگ خندق ميں ابو سفيان كى قيادت ۲۶

كمزورى كااحساس اور صلح كى پيش كش ۲۸

مكہ فتح ہو گيا ۲۹

ابو سفيان اسلامى معاشرے ميں ۳۳

ابوسفيان شيخين كے زمانے ميں ۳۷

ابوسفيان عثمان كے زمانے مي ۳۹

( فصل دوم) ۴۱

معاويہ رسول اسلام(ص) كے زمانے ميں ۴۱

معاويہ خلفاء كے زمانے ميں ۴۴

معاويہ و عثمان ۴۸

۲۰۹

ابوذر معاويہ كے مقابل ۵۱

تاريخ اسلام كا ايك افسانہ ۵۷

كوفے كے قارى شام ميں ۶۰

معاويہ عثمان كے بعد ۶۳

صفين معركہ حق و باطل ۶۷

معاويہ كى چالاكي ۶۹

ابو موسى اور عمر و عاص ۷۳

شام كے ليٹرے ۷۶

۱_ نعمان بن بشير ۷۷

۲_ سفيان بن عوف ۷۸

۳_ عبد اللہ بن مسعدہ ۸۰

۴- ضحاك بن قيس ۸۰

۵- بسر بن ارطاة ۸۲

لشكر علوى (ع) كا ايك سپاہى جاريہ بن قدامہ ۸۸

دو متضاد سياستيں ۸۹

دوسرا واقعہ ۹۰

( ۱ ) ۹۱

سياست امير المومنين (ع) ۹۱

( ۲ ) ۹۱

سياست معاويہ ۹۱

۲۱۰

تجزيہ و تحليل ۹۱

معاويہ امام حسن (ع) كے زمانے ميں ۹۴

صلح كے اسباب و علل ۹۹

فصل سوم ۱۰۳

دشمنوں كے ساتھ نرمي ۱۰۳

عرب كے مكار معاويہ كے جال ميں ۱۰۵

سنگين ٹيكس ۱۱۰

شيعہ شكنجہ و ازار ميں ۱۱۳

حكومت خاندانى ہوتى ہے ۱۱۷

يزيد كى بيعت بصرہ ميں ۱۱۹

شام ميں يزيد كى بيعت ۱۲۰

يزيد كى بيعت مدينہ ميں ۱۲۲

يزيد كى بيعت بليدان چاہتى ہے ۱۲۴

يزيد كى تاج پوشي ۱۲۶

فصل چہارم ۱۲۹

عائشه اور امويوں ميں دوستى كے اسباب ۱۲۹

معاويہ كے تحفے ۱۳۱

اموى حكومت ميں ، عائشه كا رسوخ ۱۳۳

عائشه اور معاويہ كا ايك دوسرے پر چوٹ ۱۳۴

قتل محمد بن ابى بكر ۱۳۶

۲۱۱

عبد الرحمن بن ابى بكر كو زہر ديا گيا ۱۳۹

جنگ جمل سے عائشه كى شرمندگي ۱۴۳

''عائشه مرنے سے پہلے '' ۱۴۴

فصل پنجم ۱۴۶

عائشه كى سخاوت ۱۴۶

خاندانى تعصب ۱۴۹

عائشه كى خطابت ۱۵۲

عائشه كى زندگى ميں فاخرہ لباسي ۱۵۴

مسئلہ رضاعت ميں ، عائشه كا نرالا فتوا ۱۵۷

عائشه كى زندگى كے چند گوشے ۱۶۱

فصل ششم ۱۶۶

معاويہ كى زندگى پر ايك طائرانہ نظر ۱۶۶

زمانہ معاويہ ميں حديث سازياں ۱۶۸

معاويہ اور بنى اميہ كے بارے ميں بزرگوں كا فيصلہ ۱۷۲

اپنے كرتوت پر جعلى حديثوں كا غلاف ۱۷۶

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار ۱۸۱

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين ۱۸۵

معاويہ كا اخرى ہدف ۱۹۲

عائشه كى ايك حديث ۱۹۵

تحقيق اور نتيجہ ۱۹۷

۲۱۲

ايك حديث كے سلسلے ميں علماء اہلسنت كى توجيہيں : ۲۰۵

۲۱۳