تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 27%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63708 / ڈاؤنلوڈ: 4176
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار دوران معاويہ

مو لف : سيد مرتضى عسكرى

مترجم : سيد كرار حسين رضوى گوپالپوري

۳

گفتار مترجم

اسلامى متن كو جا ننے كے لئے تاريخ اسلام كى شناخت اور مشہوروموثرشخصيتو ں كى شناخت بہت ضرورى ہے يہاں تك كہ جرا ت كے ساتھ يہ دعوى كيا جا سكتا ہے كہ تاريخ اسلام كى گہرائي اوردقّت سے واقفيت حاصل كئے بغيراس كے ائين،حقائق اور واقعات كوسمجھا نہيں جاسكتا ،كيوں كہ ايك طرف تو بزرگ شخصيتوں كى پہچان اور ان كے مثبت اسلامى افكارواعمال خود دينى متن كاايك حصّہ ہيں جسے سنّت كے نام سے جاناجاتا ہے، ظاہر ہے كہ يہ اس كے زبان و مكان ،اداب و رسوم اور اخلاق كو سمجھے بغير اس كى واقفيت ممكن نہيں ہے اور دوسرى طرف منفى شخصيتوں كو پہچاننا بھى صحيح اسلام كو سمجھنے كيلئے ضرورى ہے كيوں كہ اس طرح اسلامى جنگ وجہاد كى نوعيت اور انكے رہبروں كے اقدامات كوسياہ كار افرادہى كے اقدامات سمجھنے سے سمجھا جاسكتا ہے _

اس بنياد پر توجہ كرتے ہوئے ايك قيمتى تاريخ صحيح كى ہميں تلاش كرنى چاہيئے،تاكہ يہ واضح ہو سكے كہ حقائق تاريخى حاصل كرنے كے لئے اپنے دين كى واقفيت كے حصول ميں كس قدر مددگار ہے ،اور كس حد تك ہم طلوع اسلام كے بعدصدياں بيتنے كے باوجودہم صحيح اسلام كو حاصل كر سكتے ہيں اور اس چشمہ صافى سے نزديك ہو سكتے ہيں _

ہم ايندہ صفحات ميں ديكھيں گے كہ اسلام ميں تاريخ و حديث كو كس طرح خواہش پرستى كانشانہ بنايا گيااور جھوٹ و تحريف كس حد تك اسميں جگہ پاگئي ہے،احاديث و تواريخ كى كتابوں پران عياروں نے حكومت اموى كے اشاروں سے ،خاص طور سے معاويہ كے اشارے پر كس حد تك تقويت دى گئي اسلام كى زندگى پر ہر دن ايك تازہ جھوٹ اور بناوٹ كاپلندہ بڑھاديا جاتا تھا دين خدا كا درخشاں سورج اہستہ اہستہ ان تمام جھوٹ اور جعل كے دھند ميں دفن ہو گيا،يہيں ہميں ائمہ اہلبيت كى جانبازى وثبات كوافرين كہنا پڑتا ہے كہ ان بزرگواروں اور پاكباز شيعوں نے سچے اسلام كى حمايت كے لئے اقدام كيااور اپنے خون سے جھاد كى ايك ايسى فضا تيار كى كہ ان جھوٹے اور جعل سازوں كى ہمت پست ہو گئي_

دوسرى طرف جاہليت كے محافظوں ، اموى وعباسى خلفاء كى يہ كوشش جارى رہى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں جو جھوٹ گڑھ دئے گئے ہيں ان كى حفاظت كى جائے اور جہاں تك ہو وسيع بنيادوں پر انكى اشاعت كى جائے

۴

كيونكہ انكے خلافت كى بنياد اسى جھوٹ پراستوار تھى ،حق باطل كى يہ محاذارائي گروہ خدا اور گروہ شياطين كے درميان ہميشہ جارى رہے گى اس سے كوئي زمانہ خالى نہيں رہا ہے_

ہمارے عہد ميں ايك دوررس محقق اپنى شاندار ذہانت سے اس سچ اور جھوٹ كو ايك دوسرے سے الگ كرنے كيلئے عظيم اقدام كيا ہے اور سيكڑوں جھوٹ اور تحريف كوميدان تاريخ اسلام سے الگ كيا ہے علامہ مرتضى عسكرى نے تاريخ وحديث كے متون كو چاليس سال تك اپنى سخت كاوش سے حقائق كى رونمائي كى ہے جو دراسات فى الحديث والتاريخ كے نام سے سلسلہ وار شايع ہو چكى ہے رات و دن كى محنتوں _ دقت نظر اور فكر صحيح كے ذريعہ تاريخ اسلام كے بے شمار مسائل اور واقعات كوجعليات كے اندھيروں سے نكال كر حقائق كے متلاشى حضرات كے حوالہ كيا_

سچى بات تو يہ ہے كہ صحيح تاريخ اسلام اور اسكى عظيم ركاو ٹوں كاسب سے پہلا متن مشہور تاريخ طبرى ہے يہ تاريخ نگاروں كاپيشوا ہے بغير ا س كا مطالعہ كئے اور اس پر تحقيقى نظر ڈالے اسے مستند نہيں قرار ديا جا سكتا اسى طرح صحيح بخارى صحيح مسلم اور ابن اثير وغيرہ پر بھى ہوش مندى كے ساتھ تحقيقى نگاہ ڈالنا ضرورى ہےچنانچہ ازاد اور مشہور مصرى دانشور،محمود ابو ريہ فرماتے ہيں كہ:

جس شخص كو بھى ارزوہے كہ تاريخ اسلام كے حقائق كو اوائل سے بيعت يزيد كے زمانہ تك اچھى طرح سمجھے اس پر لازم ہے كہ وہ دو قيمتى تحقيقى كتابوں كا مطالعہ كر ے ايك تو عبداللہ بن سبا اور دوسرے احاديث ام المومنين عائشه _

* * *

مو لف كتاب علامہ سيد مرتضى عسكرى ايرانى ناد دانشور ہيں انكے اباء و اجداد صديوں تك ساوہ اور سبزوارميں علمى اور تبليغى مرجعيت سے سرفرازتھے اپ كى ولادت سامرہ شہر ميں ہوئي اور علمى گھرانے ميں پرورش پائي ان كے بڑے ا بّاايةاللہ مرزا محمد سامرائي نے انكى تربيت ميں بہت ہاتھ بٹايااپ اس شھر كے بزرگ اور پرہيزگار عالم تھے علامہ عسكرى نے ابتدائي دينى تعليم( اور ثانوى حد تك) سامرہ ميں حاصل كى اس كے بعد اپ نے قم كا سفر كيااور يہاں پانچ سال تك حوزہ علميہ ميں تكميل علم كے مراحل طے كئے اس كے بعد اپ عراق اپنے بزرگ ومقدس اجداد كى پا بوسى كے لئے چلے آئے اپ كے تحصيلات علمى كااخرى دورہ عراق كے مذہبى شہروں ميں ہوااس كے بعد اپ تھوڑى دير بھى ارام و سكون سے نہ بيٹھے اور ان آيا م ميں بھى اپنى زندگى كو علمى تحقيقات اورتبليغى ومعاشرتى فعاليت

۵

ميں صرف كياپندرہ شيعى ادارے قائم كئے ان ميں ثانوى مدارس كالج اسپتال اور امور خير كے صندوق شھر بغداد ميں قائم كئے_

علامہ عسكرى كے علمى كارناموں كى چندخصوصيتيں ہيں ان صفحات ميں ان كے علمى نگارش كاكچھ تذكرہ كيا جاتاہے تاكہ اس كتاب كے سمجھنے ميں معاون ہو _

اپ كى تمام كتابوں كى پہلى خصوصيت يہ ہے كہ تعصب اور جانبدارى سے قطعى پاك ہوتى ہے،چنانچہ ہم اسى كتاب ميں اس حقيقت كامشاہدہ كريں گے اپ نے صرف حق وحقائق كى پاسدارى كے لئے شخصيت كے كمزورپہلوو ں سے بحث كى ہے اور ام المومنين كے امتيازات كى تشريح كے لئے بے شمار صفحات لكھ ڈالے ہيں _

دوسرى خصوصيت و امتياز يہ ہے كہ اپ نے متقدمين كے مصادر و متون كى طرف رجوع كيا ہے ، يہاں تك كہ اپ نے اپنے ابتدائي مباحث ميں پانچويں صدى بعد كى كسى كتاب پر بھروسہ نہيں كيا ہے اور ضمنى حيثيت سے اپ نے كوشش كى ہے كہ انھيں متقدمين كے متون كى طرف متوجہ كيا جائے تاكہ تمام امت كے افراد پورى طرح مان ليں جيسا كہ عصر حاضر كے بعض دانشور حضرات نے كچھ تاريخى كتابوں ميں تشكيك پيدا كى ہے علامہ نے اپنى كتاب عبداللہ بن سبا ميں صرف انھيں كو اپنا ماخذ نہيں بنايا ہے ،ڈاكٹر حفنى داو داستاد دانشكدہ ادبيات مصر نے عراقى رسالہ ميں كتاب عبداللہ بن سبا كے بارے ميں اپنى رائے لكھى ہے كہ اس محقق اور ماہر تاريخ نے اپنے علمى تحقيقات و مباحث ميں بے شمار كتابوں كے حوالے دئے ہيں اور ہر ايك ميدان تاريخ ميں قدم ڈال كر فراموش شدہ حقيقت كو حاصل كيا ہے يہ استاد محقق ہميشہ اس كوشش ميں رہے كہ اپنى تمام كتابوں كے دلائل مخالفين شيعہ سے حاصل كئے جائيں اور انھيں سے اپنا مطلب ثابت كيا جائے اس طرح وہ قريب ترين راستہ اختيار كرتے ہيں تاكہ دشمنان شيعہ كو اپنے مدلل باتوں سے مغلوب كر سكيں _

تيسرى امتيازى صفت جو استاد عسكرى كى تمام كتابوں ميں پائي جاتى ہے كہ وہ حوالے بہت زيادہ ديتے ہيں چنانچہ اسى كتاب كے فصل اول ميں بہت زيادہ مصادر و ما خذموجود ہيں حالانكہ فارسى ميں چاليس صفحہ اور عربى متن ميں بيس صفحہ سے زيادہ نہيں ہيں ،يہ خصوصيت كتاب عبداللہ بن سباكے متن عربى ميں اور اس موجودہ كتاب ميں ہرجگہ ديكھى جاتى ہے يہاں تك كہ كبھى ادھے صفحہ ميں حواشى حوالہ جات بھرے ہوئے ہيں _اور كہيں تو ان سے بھى زيادہ

۶

حوالوں كو لكھ ڈالا ہے _

اخرى اہم ترين خصوصيت ايسى ہے كہ جو مشرق و مغرب كے تمام دانشوروں ميں كم ہى ديكھى جاتى ہے وہ يہ كہ انھوں نے قديم ما خذ ومصادر پر پورے طور سے اعتماد نہيں كيا ہے چاہے وہ طبرى ہوں يا ابن ھشام يا ابن اثير انھوں نے كسى پر بھى پورا بھروسہ نہيں كيا ہے چاہے وہ كتنے ہى مشہور ہوں خواہ دوسروں نے اس پر اعماد بھى كيا ہو ليكن علامہ عسكرى كى تحقيق ميں لائق قبول نہيں ہيں وہ پہلے مرحلے ميں تاريخى روايات كے اسنادپر بحث كر كے اسكى قدر و قيمت تعين كرتے ہيں اس صورت حال ميں وہ راويوں كى حيثيت كا تحقيقى تجزيہ كرتے ہيں اسكے بعد وہ مورد بحث كے متن كا اسطرح تجزيہ كرتے ہيں كہ تمام روايات كى اس طرح تطبيق ہو جائے كہ صحيح و سقم جدا ہو سكيں ؟

اس بات كا تذكرہ ضرورى ہے كہ مغربى محققين عام طور سے يا زيادہ تر اپنى توجہ متن پر مركوز ركھتے ہيں اور انكى كوشش ہوتى ہے كہ حوادث كے متن كاصحت وسقم متعين كيا جائے وہ راويوں پر كم توجہ ديتے ہيں جديدمستشرقين جنھوں نے مغرب اور يورپ سے علم حاصل كيا ہے وہ زيادہ تر انھيں اساتذہ كى ہاں ميں ہاں ملاتے ہيں انكى زيادہ تر تحقيق يورپى انداز فكرسے الگ نہيں ہے اور وہ زيادہ مو لف كتاب پر بھروسہ كرتے ہيں اسلئے زيادہ تر خرافاتى مطلب كو مان ليتے ہيں كہ اسے مشہور دانشور نے نقل كيا ہے اور اسى كو لكھ مارتے ہيں _

ليكن اسلامى محدثين نے ان دونوں روش ميں دقيق ترين راہ كا انتخاب كيا ہے وہ پورے طور سے راويان اخبار كو ديكھتے ہيں اورانكى روايت كا تجزيہ كرتے ہيں اور اس حوالے سے وہ تمام ما خذ پر غور كرتے ہيں ان تمام تحقيقات كے اندازكى روشنى ميں وہ اپنا نقطہ نظر پيش كرتے ہيں علامہ عسكرى كى عمدہ ترين تحقيقات كاانداز يہى ہے ، وہ تاريخ اسلام كے حوادث ومسائل كے سلسلہ ميں جديد نظريات واراء كو اسى بنياد پر پيش كرتے ہيں جن لوگوں نے كتاب عبداللہ بن سبااور دوسرى كتاب( خمسون ومائة صحابى مختلق) (ڈيڑھ سومصنوعى صحابي)كوملاحظہ كيا ہے وہ ہمارے اس نقطہ نظر كى تصديق كرينگے_

كلاسگو يونيورسٹى كے پروفيسرجيمس ربسن نے علامہ كو خط لكھتے ہوئے اسى حقيقت كى طرف اشارہ كيا ہے كہ اپ نے (سيف) راوى كى روايتوں كا جوتجزيہ كيا ہے وہ بہت دلكش ہے وہ اس طرح ، پہلے كہ اپ نے سيف كى روايتوں كا تجزيہ كياپھر انكادوسرى روايتوں سے تقابل كيااور اس دقيق تقابل نے سيف كى روايت كا پول كھول ديا يہ بھى كہ ان روايتوں كى سند سے پتہ چلتا ہے كہ سيف نے غالباً مجہول راويوں سے روايت نقل كى ہيں پھر يہ بھى سوال

۷

اٹھتا ہے كہ اخر دوسرے مو لفين نے ان روايتوں كو اپنى كتابوں ميں جگہ كيوں نہ دى لہذا قارى اس نتيجہ پر پہنچتا ہے كہ سيف نے خود ان راويوں كو گڑھ ليا ہے يہ الزام سيف پر ايك منطقى نتيجہ كے طور پر سيف اور دوسرے راويوں كے تقابل سے حاصل ہوتا ہے ، ميں بہت زيادہ متشكر اور خوش بھى ہوں كہ اس بحث كے مطالعے ميں اپنا وقت صرف كروں اور مطمئن ہوں كہ جو لوگ بھى اس كتاب كو سمجھكر پڑھيں گے وہ اس شاندار بحث كى ستائشے كرينگے_

اب يہ بھى ضرورى ہے كہ علامہ عسكرى كى علمى اور تحقيقاتى كتابوں كابھى تذكرہ كر ديا جائے_

۱_ '' عبداللہ بن سبا و اساطير اخرى ''يہ كتاب نجف، قاھرہ، بيروت، اورتھران، ميں طبع ہوئي اور فارسى ،تركي، اور انگريزى ميں ترجمہ كيا گيا_

۲_''خمسون وما تہ صحابى مختلق ''يہ كتاب بيروت،بغداد،اور پھر كئي باربيروت ميں طبع ہوئي اس ميں ايك سو پچاس اصحاب رسول كابيان ہے جو جھوٹے بھى ہيں اور خيالى ہيں جو اج تك پيدانہيں ہوئے _

۳_''احاديث ام المومنين عائشه ادوارمن حياتھا ''يہ كتاب فارسى ميں تھران ميں ۳جلدوں ميں چھپى اور پاكستان ميں اسكا اردوترجمہ شايع ہوا _

۴_''رواةمختلقون ''اسميں جھوٹے راويوں كا پول كھولاگيا ہے جنہوں نے روايتيں گڑھ كے تاريخ ميں بھردى ہيں يہ كتاب منطقى لحاظ سے خمسون وما ة صحابى مختلق كا نتيجہ ہے _

۵_''من تاريخ الحديث '' يہ بہت ہى اچھى تحقيقى كتاب ہے _

۶_'' ا لسقيفہ ''تاريخ اسلام كے اس عظيم حادثے كا ۳۰۰/صفحات ميں تجزيہ كياگياہے _

۷_''مصطحات اسلاميہ'' اسميں اسلامى اصطلاحات كى تعريف ہے _

۸_'' مع الدكتورالوردى فى كتابہ وعاظ السلاطين '' بادشاہوں كے واعظوں پرعلمى تنقيدڈاكٹرعلى الوردى نے كى ہے ا س پر علامہ نے علمى تنقيد لكھى ہے _

۹_''كيف تعلم الد ين '' دو جلدو ں ميں بچوں كو دينى مسائل سمجھائے گئے ہيں _

۸

۱۰_'' مقدمہ اى بر مرا ةالعقول '' علامہ مجلسى نے اصول كافى كى شرح مرا ة العقول كے نام سے لكھى ہے ،علامہ نے اس پر ايك طولانى مقدمہ لكھا ہے _

۱۱_ ''مقدمہ بر كتاب على و السنة'' گيارہويں صدى كے عظيم دانشور سيد ہاشم بحرانى كى تاليف على و السنة پر مقدمہ لكھا ہے _

۱۲_ ''مقدمہ و تحقيق در كتاب طب الرضا ''

۱۳_ ''مقدمہ بر كتاب الاجازات العلميہ عندالمسلمين '' ڈاكٹرعبداللہ فياض كى كتاب پر مقدمہ ہے _

۱۴_ '' مقدمہ بر كتاب اصل الشيعہ و اصولھا ''علامہ كاشف الغطاء كى كتاب پر تبصرہ كيا ہے _

۱۵_ '' محمد صادق نجمى كى مطالعہ صحيحين پر مقدمہ لكھا ہے '' ان كے علاوہ بھى علامہ عسكرى نے عربى كے علمى رسالوں جيسے رسالة الاسلام المجتمع الاسلامى اورالاضواء اور الايمان اور العرفان ميں بہت سے مقالے لكھے ہيں _

* * *

موجودہ كتاب احاديث ام المومنين عائشه ادوار من حياتہا كى اخرى جلد ہے جو معاويہ كے زمانے سے متعلق ہے اس سے پہلے دو جلديں نقش عائشه در اسلام اور عائشه در دوران على شايع ہو چكى ہيں ،كيونكہ عربى متن عربى زبان كے محققين كے لئے لكھا گيا تھااس لئے مباحث ميں ايجاز وا ختصار تھافارسى ترجمہ كے وقت اس بحث كو پھيلانا ہمارے لئے ناگزير تھا ،ليكن چونكہ پورا ترجمہ علامہ كى نظر سے گزرا ہے اسلئے مترجم كى يہ كوشش موصوف كى نئي كتاب سمجھى جانى چاہيئے مزيد يہ كہ كچھ خاص جگہوں پر علامہ نے چند صفحات كا خود ہى اضافہ كيا ہے اس بنا پر يہ كتاب ترجمہ بھى ہے اور تاليف بھى ہے _

اخر ميں ہم يہ تذكرہ كرنا ضرورى سمجھتے ہيں كہ جن علماء نے اس كتاب كا مطالعہ كر كے اپنى مفيد رائے دى ہے يا اسكے شكوك بر طرف كئے ہيں ہم ان كا شكريہ ادا كر تے ہيں ، نيز اقائے نورالدين عسكرى كا بھى شكريہ ادا كرتے ہيں جنہوں نے ما خذ كى فہرست مرتب كى ان كے علاوہ بھى ان تمام دوستوں كا بھى شكريہ ادا كرتے ہيں جنھوں نے بڑ ى تو جہ سے اغلاط نامہ ميں ميرى مدد كى _

ميں قارئين كرام سے اميدوار ہوں كہ اگر وہ كوئي اشتباہ يالغزش ملاحظہ فرمائيں يا اصلاح كى نظر ڈاليں تو حقير كو اس سے مطلع فرما ديں ،ميں ان كا بہت ممنون ہوں گا _

م ۰ ع ۰ جاوداں

۹

پيش گفتار

معاويہ كا زمانہ زمانہ، اسلام ميں خاص امتياز كا حامل كيونكہ اسميں ہر جانب سے اسلامى احكام واثاركى تحريف كى گئي ہے اموى دور خلافت ميں حديث سازى پرتمام توانائياں صرف كى گئيں اوراور حديث سازى كابہت زيادہ كارخانہ صحابہ وتابعين جيسے نمك خواروں كے سہارے قائم كيا _

اس دوران جتنى زيادہ حديثيں گڑھى گئيں كہ انھوں نے اسلامى اثار كو پورى طرح اپنى گرفت ميں لے ليااور تمام علوم كى كتابوں ميں انھيں بھر دياا س كا عميق اور ديرپا اثراسلام كے فكرى اعتقادى اور عملى مكتب پرہمہ جانبہ پڑا ،يہاں تك كہ جيسے جيسے زمانہ گزرتا گياان مكاتب كى بنياد اسى مصنوعى احاديث پر استوار ہوتى ہوگى _

اس سبب سے ہمارے لئے ناگزير ہے كہ اموى دور خلافت كے ارباب حكومت اور مشاہير كا تحليل وتجزيہ كريں تاكہ ان جعلى احاديث كے سلسلہ ميں ام المومنين عائشه نے جو تعاون كيا ہے انھيں ہم اچھى طرح سمجھ سكيں _

اغاز بحث ميں معاويہ كا حسب و نسب اور ان كے خاندان كے حالات بيان كرينگے ان كے بعد انكى حكومت وخلافت كے مسائل كاتذكرہ كرينگے جو ان سے متعلق ہيں پھر ہم عائشه كامعاويہ سے تعلق اور اس عہد كے تمام اركان حكومت كو متعارف كرائيں گے اخر ميں ہم ام المومنين عائشه كى زندگى كا تجزيہ پيش كرينگے جو اسى عہد معاويہ ميں اختتام كو پہنچى _

يہ تذكرہ ضرورى ہے كہ اس زمانہ كے شرمناك حالات كابيان بھى ناگزير ہے جو معاويہ كے خانوادہ سے وقوع پذير ہوااور جنھيں ماہرين انساب نے بيان كيا ہے ہم انھيں بھى بيان كرينگے كيونكہ معاويہ كى ان روحانى گرہوں كو پہچاننے ميں بہت معاون ہوں گى ،جو خاصان خدااور پاك نفس افراد كى دشمنى پر ابھارتى تھيں _

جى ہاں _معاويہ كى بد نفسى كو اس زمانہ كى حديث سازى ميں بڑادخل ہے ان پر سے پردہ اٹھاكر ہى اسلام كے درخشاں چہرے كو پہچاناجا سكتا ہے ،ا س وجہ سے ہم اس ضرورت كو كراہيت كے ساتھ اختيار كرنے پر مجبور ہوئے

ہيں كہ معاويہ كا خاندان جيسا كہ ہے ان كى نشاندہى كى جائے ،ہم اس علم و تحقيق كى اشاعت پر خاص اللہ كے لئے اور اسى كى توفيق سے اس بحث كو ختم كرينگے _

سيدمرتضى عسكرى

۱۰

(فصل اول)

معاويہ كى زندگى پر ايك نظر

معاويہ ابوسفيان اور ھند كا بيٹا تھا _اسكى كنيت ابو عبد الرحمن تھي مشہور ترين تاريخى روايات كے مطابق وہ فتح مكہ كے بعد بظاہر اسلام لايا اور ۱۲ھميں جبكہ ابو بكر نے ابو سفيان كے دوسرے بيٹے يزيد كى سركردگى ميں روميوں سے جنگ كرنے كے لئے لشكر بھيجا تو يہ يزيد كا بھائي اورا س كا علمدار تھا _

ابو سفيان كا فرزند يزيد ۱۸ ہجرى ميں فلسطين كے ايك شہر عمواس ميں مرض طاعو ن ميں مر گيااور فوج كى قيادت اپنے بھائي معاويہ كو سونپ دى ،خليفہ عمر نے بھى اس كى تقررى كو منظور كر ليا خلافت عثمان كے زمانہ ميں جو خود بنى اميہ كى فرد اور معاويہ كے چچا زادبھائي تھے اپنى سلطنت كو كافى وسعت دى كيونكہ عثمان نے پورا شا م ان كے حوالے كر ديا تھاجس ميں لبنان،شام،فلسطين اور اردن كا علاقہ بھى اتا تھا _

ا س طرح معاويہ نے ۱۹سال تك اطمينان كے ساتھ شام پر حكومت كى ليكن جب حضرت على بن ابى طالب تخت خلافت پر بيٹھے تو معاويہ نے بغاوت كر دى اور انكا حكم ماننے سے انكار كر ديا ، معاويہ نے انتقام خون عثمان كے بہانے حضرت على (ع) سے ايك بڑى فوج كے ساتھ صفين ميں جنگ كى حضرت على (ع) اسكى سر كوبى كے لئے مہاجرين وانصار كے ساتھ سر زمين صفين پر پہنچ گئے _

دونو ں لشكروالے ذى الحجہ ۳۶ہجرى ميں امنے سامنے ہوئے ايك سو دس دن تك دونوں ميں جنگ ہوتى رہى ،اخر ميں جبكہ امام كو حتمى كاميابى ملنے والى تھى عمروعاص كى عيارى سے قران نيزوں پر بلند كئے گئے اور لشكر شام نے امام كے فوجيوں كو حكمت قران كى دعوت دى اس عيارى سے سادہ لوح مسلمان دھوكہ كھا گئے اور انھوں نے امام كو مجبور كيا كہ جنگ سے ہاتھ روك ليں _

ا س طرح جنگ ختم ہو گئي اسكے بعد امام كى رائے كے خلاف كوفيوں نے اپنى جانب سے ابو موسى كو حكم منتخب كيا معاويہ نے بھى اپنى جانب سے عمروعاص كو نامزد كيا ،يہ دونوں حكم ماہ رمضان ۳۸ہجرى ميں دومتہ الجندل كے مقام پر اپنا فيصلہ سنانے كے لئے جمع ہوئے ،عمر وعاص نے ابو موسى كو فريب ديتے ہوئے يہ پيش كش كى كہ ہم دونوں ادمى على اور معاويہ كو

۱۱

خلافت سے معزول كر ديں تاكہ تمام مسلمان جسے بھى چاہيں شورى كے ذريعہ خليفہ منتخب كر ليں _

ابو موسى نے يہ بات مان لى ،عمر و عاص نے پہلے انھيں كو ممبر پر بھيجاانھوں نے ممبر پر جاكر اميرالمومنين حضرت على (ع) اور معاويہ كو خلافت سے معزول كر ديا ،ان كے بعد عمر و عاص ممبر پر پہنچااور معاہدے كے خلاف حضرت على (ع) كو خلافت سے معزول كر كے اس نے معاويہ كے خليفہ ہونے كا اعلان كر ديا ،ابو موسى كو عمر وعاص كے اس فعل پر بہت غصّہ آيا وہ وہيں عمر وعاص كو گالياں دينے لگاعيّار عمر وعاص نے تركى بہ تر كى ا س كو جواب ديا ا س طرح پہلى بار خليفہ كى حيثيت سے معاويہ كا نام ليا گيا _

۴۰ہجرى ماہ رمضان ميں عبدالرحمان ابن ملجم كى تلوار امام كے فرق مبارك پر پڑى ،امام تين روز كے بعد شہيد ہو گئے شاميوں كے علاوہ تمام مہاجرين و انصار اور مسلمانون نے امام حسن كى بيعت كر لى ،ليكن اخر كار معاويہ كے سامنے لوگوں نے امام حسن كاساتھ نہيں ديا ،ايسى سستى دكھائي كہ معاويہ كى تمام منحوس ارزوئيں پورى ہو گئيں _

معاو يہ نے اس سال كا نام عام الجماعت ركھااور وہ تخت خلافت پر براجمان ہو گيا اس طرح وہ انيس سال تين مہينے اور كچھ دن تمام مسلمانوں پر حكمرانى كرتا رہا وہ ماہ رجب ۶۰ ہجرى ميں مر گيا اور دمشق ميں دفن كيا گيا_

ابو سفيان اور ھند

معاويہ كا باپ ابو سفيان صخرابن حرب ابن اميہ ابن عبدشمس تھا ،اسكى ماں كا نام ھند تھاجوعتبہ ابن ربيعہ ابن عبد شمس كى بيٹى تھى ،معاويہ كى ماں ھند نے پہلے توفاكہ ابن مغيرہ سے شادى كى جو قبيلہ بنى مخزوم سے تھايہ شخص سر زمين غميصاء(۱) ميں مارا گيا _

فاكہ كے مرنے كے بعد ھند نے مغيرہ كے دوسرے فرزند حفص سے شادى كى كچھ دن كے بعد وہ بھى مر گيا ،ھند نے اخرى با ر ابو سفيان سے شادى كى(۲) ، بعض تاريخوں ميں اس شادى كو بہت تفصيل سے بيان كيا گيا ہے ،وہ يہ كہ

____________________

۱_ غميصامكہ كے پاس ايك جگہ ہے اس زمانے ميں بنى جذيمہ كا قبيلہ وہاں ساكن تھا يہ قبيلہ اور فاكہ كے علاوہ كچھ دوسرے قريش كے لوگ جاہليت كے زمانہ ميں قتل كئے گئے ، اسلام كے زمانے ميں خالد بن وليد كو وہاں فتح مكہ كے بعد بھيجا گياكہ وہاں قبائل عرب كو اسلام كى دعوت ديں اس قبيلے نے اپنے خون كا معاوضہ طلب كيا رسول اكرم (ص) نے ان كے اس مطالبے پر سخت برھمى كا مظاہرہ كيا اور مقتولوں كا خونبہا بيت المال سے ادا كر ديا

۲_ المحبر ص ۴۳۷ ،طبقات ابن سعد ج ۸ص۲۳۵

۱۲

ھند كا پہلا شوہر فاكہ اپنى زوجہ پر زنا كا الزام لگاتا تھا اس لئے اسكو علاحدہ كر ديا كيونكہ وہ اس بدنامى كو اپنے سر نہيں ڈھونا چاہتاتھا(۳) _

دوسرے مورخين كا خيال ہے كہ بنيادى طور سے ھند زناكارى كے سلسلے ميں مكہ ميں ہر جگہ شہرت ركھتى تھى ،ھند كى ابو سفيان سے شادى كے واقعات ا س طرح بيان كئے گئے ہيں كہ مسافر بن عمر و،يہ ھند پر برى طرح فريفتہ تھا يہ شخص بنى اميہ كى فرد تھاا س كے ھند سے روابط عام طور سے لو گوں كے زباں زد تھے ،ھند اس سے حاملہ ہوئي جس وقت ا س كا حمل ظاہر ہونے كے قريب تھا ،مسافر بن عمر و مكہ سے بھا گ كر حيرہ كے بادشاہ نعمان ابن منذركے پاس چلا گيا تاكہ اس سے مدد مل سكے ا س كى غيبت ميں ابوسفيان سے ھند نے شادى كر لى(۴)

ہشام ابن محمد كلبى مشہور ماہر انساب اپنى كتاب مثالب ميں اور مشہور اديب اصمعى يہ دونوں كہتے ہيں كہ معاويہ جاہليت كے زمانہ ميں چارافراد كى طرف منسوب تھاجن كے نام اس طرح ہيں

۱_بنى مخزوم كا عمارہ ابن وليد

۲_ بنى اميہ كا مسافر ابن عمر و

۳_بنى اميہ كا ابو سفيان

۴_ بنى ہاشم كے عباس ابن عبد المطلب(۵)

ان چاروں ميں بہت دوستى تھى اور ان چاروں كا ھند سے ناجائز تعلق ہونا مشہور تھا _

۱_عمارہ بن وليد قريش كا بہت خوبصورت جوان تھا يہ وہى شخص ہے جو عمر و عاص كے ساتھ مسلمانوں كو حبشہ سے واپس لانے كےلئے نجاشى بادشاہ كے پاس گيا تھا اسنے عمر و عاص كى زوجہ سے تعلقات پيدا كر لئے تھے ا س لئے عمر و عاص كو انتقام لينے كى فكر ہوئي عمر و عاص نے كچھ ثبوت فراہم كر كے نجاشى بادشاہ سے اسكى چغلى كى بادشاہ حبشہ بہت برہم ہوااور ا س نے جادو گروں كو حكم ديا كہ اس كوپا گل بنا ديں اور يہ صحراميں مارا مارا پھرے اور ا س طرح وہ وہاں درندوں كا شكار ہو جائے(۶)

____________________

۳_ العقد الفريد ج۶ص۸۷ ،الاغانى ج ۹ص۵۳

۴_ الا غانى ج ۹ ص ۵۳_ ۵۰

۵_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۱۱۶

۶_ الاغانى ج ۹ ص ۵۸_ ۵۵

۱۳

۲_ مسافر ابن عمر و مشہور ماہرا نساب كلبى ا س كے بارے ميں لكھتا ہے كہ جاہليت كے زمانے ميں سبھى كا يہ خيال تھا كہ معاويہ اسى كا فرزند ہے كيونكہ ان چاروں اشناو ں ميں سب سے زيادہ اسى كو تعلق تھا ،جب ھند حاملہ ہوئي تو مسافر بدنامى كے خوف سے حيرہ كے بادشاہ كے پاس بھاگ گيا اور وہيں رہنے لگا كچھ دن كے بعد ابو سفيان حيرہ گيا تو وہاں اسكے ديرينہ دوست مسافر سے ملاقات ہوئي اس زمانہ ميں مسافر اپنى معشوقہ كے ہجر ميں سخت بيمار تھاابو سفيان نے گفتگو كے درميان مكہ والوں كے حا لات بيان كئے اور اخر ميں كہا كہ ميں نے تمہارے وہاں سے فرار كرنے كے بعد ھند سے شادى كر لى ہے _ ابو سفيان كى اس گفتگو نے مسافر كے سينے پر ايك تير سا لگايا ا س كے بعد وہ بہت زيادہ بيمار ہو گيا ہر روز ضعف و نقاہت بڑھتا گيا يہاں تك كہ لاعلاج ہو گيا اور اسكى زندگى كا خاتمہ ہو گيا(۷) بعض مورخين كا خيا ل ہے كہ مسافر جاہليت كے زمانے ميں اسكا عاشق زار سمجھا جاتا تھا _(۸)

مشہور دانشور اور مفسّرزمخشرى اپنى كتاب ربيع الابرارميں ان چاروں افراد كے بارے ميں جن سے معاويہ منسوب تھا يوں لكھتے ہيں كہ مسافر ابن عمر وعمارہ ابن وليد عباس ابن عبدالمطلب اور اخر ميں عمارہ كا ازاد كردہ غلام صباح كى طرف منسوب ہے _(۹)

زمخشرى كا بيان ہے كہ: ابو سفيان پستہ قد اور بد شكل تھا صباح ابو سفيان كا ملازم تھاجو شاداب جوانى ركھتا تھا ،ھند نے ا س جوان كو خريدارى كى نيت سے ديكھا نتيجہ ميں وہ اپنے كو سنبھال نہ سكى اور اپنى طرف دعوت دى اس طرح دونو ں ميں پوشيدہ طريقہ سے تعلقات قائم ہوگئے ،اور يہ ناجائز تعلق اتنى شہرت پا گئے كہ بعض مورخين كا خيال ہے كہ معاويہ كے علاوہ ابو سفيان كا دوسرا بيٹا عتبہ بھى اسى صباح سے ہے ،بعض مورخين يہ بھى كہتے ہيں كہ ھند اپنے گھر ميں اس بچّے كى پيدائشے سے خوش نہيں تھى ، اسلئے صحرا ميں بھاگ گئي اور اسنے عتبہ كو وہيں اكيلے جنم ديا _ عظيم شاعر اسلام حسان ابن ثابت نے فتح مكہ سے پہلے مسلمانوں اور مشركوں كے درميان جب شعرى نوك جھوك ہو رہى تھى تو اس حادثہ كو اپنے دو شعروں ميں ھند كى اس فحش حركت كا ذكر كيا ہے _

اخر يہ بچہ كس كا ہے جو بطحا كے ريگزاروں ميں پھينك ديا ہے ،وہ بچہ جو خاك پر پڑ ا ہوا ہے جھولے سے بہت دور ہے اسكو ايك خوب صورت جوان عو رت نے جنم ديا ہے جو بنى اميہ كے خاندان سے ہے ،ھشام ابن محمد كلبى نے اپنى كتاب مثالب ميں يوں لكھا ہے _ ھندہ ان عورتوں ميں تھى جو سياہ فام مردوں پر بہت فريفتہ تھى جب بھى اسكى كو كھ سے كوئي سياہ فام بچہ پيدا ہوتاتھاوہ اسكو قتل كر ڈالتى تھى پھر وہ اگے كہتے ہيں _

____________________

۷_ تذكرة الخواص ص ۱۱۶

۸_ الاغانى ج۹ ص ۵۳

۹_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۳۶

۱۴

ايك دن يزيد ابن معاويہ اور اسحاق ابن طابہ كے در ميان معاويہ كے سامنے نوك جھوك ہو گئي اس نے كنايةً كہا كہ يہ تمہارے حق ميں مفيد ہے كہ حرب كے تمام بيٹے بہشت ميں داخل ہو جائيں يعنى حقيقت ميں تم اس خاندان كے ناجائز فرزند ہو اور اپنے باپ سے نہيں ہو اسكا اشارہ تھاكہ اسحاق كى ماں بنى اميہ كے افراد سے ناجائز تعلقات ركھتى تھي_ اسحاق نے بھى كنايةً جواب ديا اے يزيد يہ تمھارے حق ميں مفيد ہوگا كہ بنى عباس كے تمام افراد بہشت ميں جائيں يزيد نے اسحاق كى طنزيہ گفتگو كو نہيں سمجھا ليكن اسكے باپ معاويہ نے مطلب سمجھ ليا اسلئے جب اسحاق مجلس سے اٹھكر چلا گياتو معاويہ نے يزيد سے كہا كيوں دوسروں پر دشنام كى زبان كھولتے ہوحالانكہ تم دوسروں كى باتوں كو سمجھتے نہيں ہو كہ وہ كيا كہہ رہے ہيں ،يزيد نے كہا ميرا مقصد تھا كہ اسحاق كے عيوب كو ظاہر كيا جا ئے ،معاويہ نے جوا ب ديا كہ اسنے بھى تم پر اسى لحاظ سے چوٹ كى تھى ،يزيد نے پوچھا وہ كيسے معاويہ نے جواب ديا ،كيا تم نہيں جانتے كہ قريش كے اكثر افراد جاہليت كے زمانہ ميں مجھے ابو سفيان كا نہيں عباس كا بيٹا جانتے تھے ،اس وقت يزيد كے سمجھ ميں آيا كہ مجھكو كتنا برا بھلا كہا گيا ہے _

جى ہاں _ھند كى اوارگى اتنى قطعى اور مسلّم تھى كہ پيغمبر اسلام (ص) نے فتح مكہ كے دن اس بات كى طرف اشارہ كيا تھا جس وقت ھند بيعت كے لئے انحضرت(ص) كے سامنے حاضر ہوئي پيغمبر اسلام(ص) نے ھند كے پچھلے خونخوار كرتوتوں كى وجہ سے اسكے قتل كا اعلان كر ديا تھا ليكن اسے بخش ديا اور اسكى بيعت قبول كر لى ،اپ نے اسكے تمام كالے كر توتوں كو نظر انداز فرمايا،(۱۰)

اسنے انحضرت (ص) كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميں كس بات پر اپ كى بيعت كروں _

رسول (ص) نے فرمايا: تو زنا نہ كر

ھند نے كہا: كيا ازاد عورتيں بھى زنا كرتى ہيں ا س طرح اسنے اپنے كو پاك دامن ظاہر كيا _

پيغمبر اسلام (ص) ھند كو اچھى طرح پہچانتے تھے ليكن اپ نے كچھ نہ كہا صرف تبسم فرماتے ہوئے عمر كى طرف ديكھا(۱۱)

____________________

۱۰-ايك عرب شاعر نے كہا ہے ملكنافكان العفومنا سجيّةً ملكتم فسال منا بالدم ابطح ترجمہ : ہم فاتح ہوئے تو ہم نے عام معافى كا رويہ اپنا ياكيونكہ يہى ہمارى اخلاقى عادت ہے ليكن جب تم كامياب ہوئے تو تم نے ہمارے خون سے صحراو ں كو بھر ديا

۱۱-معاويہ كے نسب كے بارے ميں بيان كيا جاتا ہے كہ صرف يہ چيز اسى سے مخصوص نہيں ہے بلكہ عمرو عاص كى ماں نابغہ اور زياد كى ماں سميہ اور سعد ابن ابى وقاص اور مروان ابن حكم جيسے اكثر بزرگان جاہليت كے بارے ميں علماء انساب كى يہى رائے ہے اصل ميں اس وقت شھر مكہ جنسى راہ روى ميں ايسا نہيں تھا جيسا كہ اجكل فرانس كا پيرس شہر ہے _رسول اكرم (ص) ايسے فاسد معاشرے كى اصلاح كيلئے مبعوث كئے گئے تھے _ تذكرة الخواص ص ۲۰۳ چاپ نجف ۱۹۶۴

۱۵

اموى خاندان جاہليت كے زمانے ميں

جيسا كہ بيان كياگيا معاويہ كى ماں ھند اموى خاندان ميں سمجھى جاتى ہے اسكے باپ كانام عتبہ اور چچا كانام شيبہ مشہور تھا يہ دونوں قريش كے بزرگ ،جاہلى زمانہ ميں معززسمجھے جاتے تھے عتبہ اور شيبہ نے ظہور اسلام كے بعد اسلام سے اعلانيہ اپنى دشمنى ظاہر كى اور يہ دونوں جنگ بدر ميں تمام قريش كے ساتھ موجود تھے يہى دونوں جنگ بدر ميں سب سے پہلے ميدان ميں اكر اپنا مقابل طلب كر رہے تھے ا س وقت مجاہدين اسلام كى طرف سے اميرالمومنين على (ع) اور حمزہ نكلے اور تھوڑى سى جھڑپ كے بعد يہ دونوں ڈھير ہو گئے ،(۱۲) معاويہ كا باپ ابو سفيان كوتاہ قد اور بہت عيار تھا چونكہ اسكے ايك بيٹے كا نام حنظلہ تھا اسلئے اسكى كنيّت ابو حنظلہ پڑ گئي يہ حنظلہ وہى ہے جو بدر كے دن حضرت اميرالمومنين(ع) كے ہاتھوں قتل ہوا تھا(۱۳)

ابو سفيان ،جاہلى زمانہ ميں بزرگ قريش سمجھاجا تاتھا وہ جنگ بدر كے بعد تمام مكہ اورقبيلہ قريش كاسردارمانا جانے لگاكيونكہ جنگ بدر ميں تمام سردا ر ان قريش قتل ہو گئے تھے اسكے بعد تو اس نے تمام جنگوں ميں قريش كى قيادت كى ،يہودى قبيلوں كو اسلام كے خلاف بھڑ كا كر محاذ پر كھڑا كيا جنگ احد اور جنگ خندق اسى كى سردارى ميں ہوئي _

عظيم مورخ محمد ابن حبيب ،ابو سفيان كو اٹھ ضنادقئہ قريش كى ايك فرد سمجھتے ہيں ،(۱۴) محمد ابن ھشام كا خيال ہے كہ ابو سفيان زمانہ پيغمبر(ص) اسلام ميں تما م دشمنان اسلام كاسردارتھااس نے اسلام كے خلاف محاذ ارائي ميں سخت كوشش كى يہ وہى شخص ہے كہ جو ابو طالب سے پيغمبر اسلام (ص) كى حمايت ختم كرنے ميں كوشاں تھا ،(۱۵) يہى وہ ہے كہ جو قبيلہ قريش كى شورى ميں جو دارالندوہ ميں منعقد ہوئي تھى بہت جوش كے ساتھ حاضر تھا كہ پيغمبر(ص) اسلام كو قتل كيا جاسكے اس نے مجلس برخاست ہونے كے بعد بہت جوشيلے انداز ميں رسول(ص) اسلام كے قتل پر لوگوں كو ابھارا _(۱۶)

____________________

۱۲_ انساب الاشراف ج۱ ص ۲۹۷

۱۳_ انساب الاشراف ج۱ ص ۲۹۷

۱۴_ المحبر ص ۱۶۱_ چاپ ھند

۱۵_ سيرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۱۷

۱۶_سيرہ ابن ہشام ج۲ ص ۹۵ _ ۹۲ ، طبرى ج۲ ص ۳۷۰ چاپ دار المعارف مصر

۱۶

رفتہ رفتہ قريش كے سرداروں ابوجہل، ابو سفيان، اور ابو لہب جيسوں نے مكہ كے مسلمانوں پرا س قدر سختياں كيں كہ ان پر زندگى وبال ہو گئي اور پيغمبر(ص) اسلام نے انھيں مدينہ ہجرت كرنے كا حكم دے ديا مسلمانوں نے اہستہ اہستہ اپنا گھر بار چھوڑ ديا اور اپنے مال ودولت عزيز واقارب كو چھوڑ كر حكم خدا كے مطابق ان ظالموں كے ہاتھ سے چھٹكارا حاصل كيا اور مدينہ پہنچ گئے حالت يہ ہو گئي كہ مكہ ميں چند مسلمانوں اور پيغمبر اسلام(ص) كے علاوہ كوئي نہ رہ گيا ان ا خرى سالوں ميں پيغمبر اسلام (ص) پر مكہ كى زمين اتنى تنگ ہو گئي تھى اور ايسى گھٹن تھى كہ پيغمبر(ص) اسلام نے مكہ ميں عمومى تبليغ چھوڑ دى تھى اور اپ صرف حج كے زمانے ہى ميں عرب قبيلوں كو توحيد كى دعوت ديتے تھے ليكن چونكہ ان آيا م ميں جنگ وخونريزى ممنوع تھى اس لئے سرداران قريش اپ كو اذيت نہيں پہنچا سكتے تھے ، اس وقت انكى يہى كوشش ہوتى تھى كہ اپ كى تبليغات كو ناكارہ كر ديں اسى وجہ سے ابو لہب اپ كے پيچھے پيچھے چلتا تھا اور لوگوں كو اپ سے گفتگو كرنے سے روكتا تھا اپ كو برابھلا كہتا تھا ، الزام لگاتا تھا تاكہ كسى طرح اپ كو تبليغ سے باز ركھ سكے اخر خدا نے اپ كو وحى كے ذريعہ حكم ديا كہ ہجرت فرمائيں اور اس طرح اپ كو قريش كے چنگل سے رہائي ملى ،اپ نے حضرت اميرالمومنين (ع) كو اپنے بستر پر سلا كر مكہ سے ہجرت فرمائي اس شہر ميں تھوڑے سے قيدى مسلمانوں كے سوا كوئي نہيں رہ گيا تھا اس زمانہ ميں ابو سفيان نے مسلمانوں كے خالى گھروں كو غصب كر كے بيچ ڈالا _

ابو سفيان جنگ بدر ميں

جس دن سے مسلمان مدينہ ميں آئے انھيں قريشى ياپيوں كے چنگل سے نجات ملى ليكن يہاں موت سے زيادہ خوفناك فقر كا سامنا كرنا پڑا ، كيونكہ مہاجرين اپنى تمام دولت ،گھر اور اپنے خاندان كو چھوڑ كر اس شہر اسلام ميں پناہ لينے آئے تھے حالانكہ مدينہ كے انصار نے اپنے امكان بھر ان پاك نفسوں كى ضيافت كى ليكن چونكہ اس زمانہ تك مسلمانوں كى مالى حالت اتنى اچھى نہيں تھى كہ اسائشے كے ساتھ زندگى بسر كر سكيں خاص طور سے كچھ لوگ تو ايسے تھے كہ ا ن كے پاس نہ تو جگہ تھى نہ مكان تھا نہ انكا كوئي سہارا تھا ليكن ان تمام ركاوٹوں كے باوجود اسلام قبو ل كرنے والوں كى تعدادبڑھتى ہى گئي وہ اتنے طاقت ور ہو گئے كہ انہوں نے جزيرة العرب ميں اپنى شناخت بنا لى اور اپنى طاقت كا مظاہرہ كرنے لگے_

۱۷

ہجرت كے دوسرے سال ايسا حادثہ پيش آيا كہ اسلام كى سب سے بڑى پہلى جنگ پيش ائي قريش سالہاسال سے اپنے تجارتى مال كو دوسرے شھر ميں لے جاتے تھے وہ سال ميں ايك بار يمن اور ايك بار شام كى طرف جاتے تھے ہجرت كے دوسرے سال اپنى رسم كے مطابق ايك بڑا قافلہ معاويہ كے باپ ابو سفيان كى سر كر دگى ميں شام گيا ہوا تھا جب وہ تجارتى قافلہ واپس ہوا تو رسول اكرم (ص) نے مسلمانوں كے ضايع اموال كے بدلے تقريباتين سو افراد كے ساتھ اس تجارتى قافلے كے سر را ہ پہنچ گئے _

ابو سفيان كو جب يہ خبر معلوم ہوئي تو اس نے مكہ والوں سے مددطلب كى اس كے بعد اسنے كوشش كى كہ ايك دوسرے راستے سے بغير كوئي خطرہ مول لئے منزل پر پہنچ جائيں قريش نے ابو سفيان كى مدد ميں ايك ہزار كا لشكر تيار كر كے لشكر اسلام كے مقابلہ كے لئے بھيج ديا ،نتيجے ميں بدر كے مقام پر ايك بڑى جنگ بدر ہوئي غيبى امداد اور اسلامى مجاہدوں كى جانبازى سے مسلمانوں كو فتح حاصل ہوئي اور لشكر مخالف كے لگ بھگ ستّر مقتول ڈھير تھے اور ۷۰ ستّر افراد قيد كئے گئے _

عبد شمس اور اموى خاندان كے اس جنگ ميں اٹھ ادمى قتل ہوئے ان ميں ابو سفيان كا فرزند حنظلہ ،عتبہ وربيع ھند كے باپ اور چچااور وليد ابن عتبہ مقتول ہوئے خليفوں كے چھ ادمى بھى ان ميں قتل ہوئے اسير وں ميں بھى اموى كے سات ادمى تھے كہ ان ميں ابو سفيان كا دوسرا بيٹاعمرو تھاابو سفيان نے اپنے فرزند كے قيد ہونے كے بدلے

ميں ايك معزز انصارى كو ناحق قيد كر ليا جو حج عمرہ كے لئے مكہ گئے ہوئے تھے حالانكہ اس سے پہلے قريش نے كبھى اس واقعہ سے پيش تر كسى حاجى سے تعرض نہيں كياتھا ،اسى لئے تمام مسلمان مجبور ہو گئے كہ ان جنگى قيديوں كو ازاد كر ديں _

جنگ بدر كے بعد چونكہ تمام سرداران قريش قتل ہو چكے تھے اس لئے ابو سفيان قريش كا سب سے بڑا سردار بن گيااسے قريش مكہ كى جنگ وصلح كا بھى اختيار مل گيا اسى حال ميں اسنے منّت مانى تھى كہ اپنا سر نہيں دھوئے گا جب تك پيغمبر اسلام (ص) سے جنگ بدر كى ہار كا بدلہ نہ لے لے _

۱۸

كچھ دن بعد ابو سفيان نے اپنى مكروہ منّت پورى كر نے كے لئے (۲۰۰)دوسو سواروں كے ساتھ مدينہ كى طرف آيا اور وہاں بنى نضير كے يہوديوں كے يہاں قيام پزير ہوا اسكے بعد وہ شہر مدينہ كے حالات كى جستجو ميں لگ ليا پھر اسنے اپنے كچھ ادميوں كو بھيجاتاكہ مدينہ والوں كے درخت خرما ميں اگ لگا ديں _ان لوگوں نے اپنا كا م كرنے كے بعدمدينہ كے دو باشندوں كو بھى بے گناہ قتل كر ديا ابو سفيان كے اس چھوٹے سے لشكر نے اپنا يہ كا م انجام ديكر مكہ واپسى اختيار كى _

معاويہ كى ماں ھندہ ،جنگ بدر كے بعد سخت غم و غصّہ ميں بھرى ہوئي تھى كيونكہ اسكے باپ چچااور دوسرے رشتہ دار قتل ہوئے تھے ا س كا زيادہ تر وقت ان لوگوں كى ماتم پرسى ميں صرف ہوتا تھا ، اس طرح وہ ہر لمحہ اس كوشش ميں رہتى تھى كہ قريش كو انتقام پر ابھا رے _

جنگ بدر اور ا سميں ستّر افراد كے قتل اور ستّر كى اسيرى كے بعد قريش اس جنگ سے سخت پريشان اور بد حال تھے شام سے جو تجارتى منافع ہوا تھا اس ميں سے ايك ہزار اونٹ اور لگ بھگ پچاس ہزار دينا ر اس غرض سے نكال ليا كہ مسلمانوں كے خلاف نئي جنگ لڑ سكيں انہيں كے بارے ميں سر زنش سے بھر پور يہ آيت نازل ہوتى ہے _

ان الذين كفروا ينفقون اموالهم _ _ _ _الخ_ _ (سورہ انفال ۳۶ )

تر جمہ : جن لوگوں نے حق كو ماننے سے انكار كيا ہے وہ اپنے مال خدا كے راستے سے روكنے كےلئے صرف كر رہے ہيں اور ابھى اس سے زيادہ خرچ كرتے رہيں گے مگر اخر كار يہى كوششيں ان كے پچھتاوے كا سبب بن جائيں گى پھر وہ مغلوب ہوں گے پھر يہ كافر جہنم كى طرف گھير كر لائے جائيں گے _

۱۹

ابوسفيان جنگ احد ميں

ابو سفيان نے جو اقدامات كئے تھے اور قريش نے جو كچھ جنگ كے لئے دولت جمع كى تھى اس كے سہارے تمام قريش رسول اكرم(ص) سے جنگ پر امادہ ہو گئے ، ابو سفيان نے اس جنگ كى قيادت سنبھال لى ،ا س كى بيوى ھندہ اور دوسرى قريش كى عورتيں بھى ساتھ ساتھ تھيں مكہ اور مدينہ كے درميان جب بھى ھندہ كى ملاقات جبير ابن مطعم كے غلام وحشى سے ہوتى تھى تو وہ كہتى تھى ،كہ ہاں اے وحشى ميرے سينہ ميں جو پرانہ كينہ دفن ہے اس داغ سے مجھے شفاء دےدے ميں تجھے غلامى سے ازاد كرا دوں گى _

اس طرح معاويہ كے ماں اورباپ ابو سفيان اور ھندہ احد كى حسرتوں سے بھر پور جنگ احد كے لئے تيار ہو گئے اسميں اسلام كے بہت سے سچے مجاہد قتل كئے گئے جنگ كے دن علمدار فوج ابو سفيان نے بنى عبد الدار كے قبيلہ والوں كو مخاطب كر كے كہا :

اے فرزندان عبد الدار تم جنگ بدر ميں ہمارى فوج كے علمدار تھے ہم نے اس جنگ ميں بہت سے مصائب جھيلے يہ جنگى پرچم كا مسئلہ اتنا اہم ہے كہ ہر لشكر وہاں شكست يا فتح كا سامنا كرے گايا تو پرچم كى حفاظت كرو يا اس پرچم سے دستبر دار ہو جاو تاكہ ہم خود اس ذمہ دارى كو سنبھاليں _

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اپنا علم تمہارے حوالے كر ديں ؟ ايسا ہر گز ممكن نہيں كل جب جنگ كے شعلے بھڑك جائيں گے تو تم ديكھ لو گے كہ ہم نے كيسى جانبازى دكھائي ہے يہ تھى ابو سفيان كى دلى ارزو كہ اسلام شكست كھا جائے اور رسول(ص) اكرم كى زندگى كا خاتمہ ہو جائے _

جب دوسرادن آيا اور افتاب بلند ہو ا تو دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے اور جنگ شروع ہو گئي ھندہ اپنى تمام عورتوں كے ساتھ سپاہيوں كو جنگ پر ابھارنے كے لئے لشكر كے ہمراہ تھى وہ خيمہ سے باہر اكر دف بجاتى ہوئي يہ گيت گاكر قريش كو جنگ پر ابھا ر رہى تھى _

اے عبد الدار كے بيٹو اگے بڑھو اے محافظوں بھر پور كوشش كرو اپنى تيز تلواريں خوب چلاو ہم ستارہ صبح كى بيٹياں ہيں اگر تم فاتحانہ اگے بڑھو گے تو ہم اپنى اغوش پھيلا دينگے اور تمھارے لئے بستر بچھائيں گے اور اگر ميدان جنگ سے بھا گے اور تمہيں ہار ہو گئي تو ہم بھى تم سے اپنا منھ پھير لينگے اور تم سے علحدہ ہو جائيں گے

۲۰

دوسرى جگہ فرمايا :

''جہاں تك ہوسكے اور جيسے بھى بن پڑي' پاك و پاكيزہ رہو كيونكہ اللہ تعالى نے اسلام كى بنياد صفائي پر ركھى ہي' اور جنت ميں سوائے صاف ستھرے شخص كے كوئي اور نہيں جا سكے گا''(۱)

امام رضا _ فرماتے ہيں:

''پاكيزگى كا شمار انبياء (ع) كے اخلا ق ميںہوتا ہي''(۲)

ب:___ سنوارنا:

سر' بدن ' لباس اور جوتوں وغيرہ كو آراستہ اور صاف ركھنا' اسلام كا ايك اخلاقى دستور ہے _ اس كا تعلق ايك پكّے اور سچے مومن كى نجى زندگى كے نظم وضبط سے ہي_

اسلامى تعليمات كى رو سے ايك مسلمان كو اپنى وضع و قطع ميں پاكيزگى كا خيال ركھنے كے علاوہ اپنے لباس اور جسمانى وضع و قطع كو بھى سنوارنا چاہئي_ بالوں ميں كنگھى ' دانتوں كى صفائي ' اور وقار اور ادب سے چلنا چاہئے _

ايك دن حضور سرور كائنات (ص) نے ايك بكھرے بالوں والے شخص كو ديكھا تو فرمايا :

''تمہيں كوئي چيز نہيں ملتى تھى كہ بالوں كوسنوار ليتي''(۳)

عباد بن كثير نے ' جو ايك ريا كار زاہد تھا اور كھردرا لباس پہنا كرتا تھا ' ايك دن

____________________

۱_ ميزان الحكمة ، ج ۱۰، ص ۹۲

۲_ بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۳۳۵

۳_ ميزان الحكمة، ج ۱۰، ص ۹۲

۲۱

اس نے حضرت امام جعفر صادق عليه السلام پر اعتراض كيا كہ :

''آپ (ع) كے دو جد امجد ''حضرت رسول خدا (ص) اور اميرالمومنين عليه السلام '' تو كھردرا لباس پہنا كرتے تھي''_

تو امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

'' وائے ہو تم پر كيا تم نے قرآن مجيد كى وہ آيت نہيں پڑھى جس ميں خداوند عالم نے اپنے پيغمبر (ص) كو حكم ديا ہے كہ :

( قُل مَن حَرَمَ زينة الله التى اخرج لعباده والطيّبات من الرزق'' ) (۱)

''اے پيغمبر (ص) ان لوگوں سے پوچھئے كہ خدا كى زينت اور حلال رزق وروزى كو كہ جو اس نے اپنے بندوں كے واسطے بنايا ہے ' كس نے حرام كرديا ہي؟''_

وہ شخص اپنے اس فضول اعتراض پر نادم ہوا او رسرجھكا كر چلاگيا(۲)

آيت :( خُذوا زينتكم عند كلّ مسجد'' ) _''ہر سجدہ كرنے كے وقت زينت كرليا كرو''،اس آيت كى تفسير ميں حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے فرمايا :

''ان زينتوں ميں سے ايك زينت ' نماز كے وقت بالوں ميںكنگھى كرنا ہي''_(۳)

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام دانتوں كى صفائي كے بارے ميں فرماتے ہيں:

''من اخلاق الانبياء (عليهم السلام)السَّواك ''(۴)

____________________

۱_سورہ اعراف ، آيت ۳۲

۲ _ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۴۴ سے مفہوم حديث

۳_ فروع كافي، ج ۶، ص ۴۸۹

۴_ اصول كافى ج۶ ص ۴۵۹

۲۲

''مسواك كرنا اخلاق انبياء ميں شامل ہي''_

حضرت على عليه السلام نے مناسب جوتا پہننے كے بارے ميں فرمايا :

''اچھا جوتا پہننا اور بدن كى حفاظت و طہارت نماز كے لئے مددگار ہونے كا ايك ذريعہ ہي''(۱)

رسول خدا (ص) جب بھى گھر سے مسجد يا مسلمانوں كے اجتماع ميں تشريف لے جانا چاہتے تھے تو آئينہ ديكھتي' ريش اور بالوں كو سنوارتي' لباس كو ٹھيك كرتے اور عطر لگايا كرتے تھي' اور فرمايا كرتے تھے :

''خداوند عالم اس بات كو پسند فرماتا ہے كہ جب اس كا كوئي بندہ اپنے دينى بھائيوں كى ملاقات كے لئے گھر سے باہر نكلے تو خود كو بناسنوار كر باہر نكلي''(۲)

لہذا اگر اس حساب سے ديكھاجائے تو پريشان حالت' آلودگى اور بدنظمى دين اسلام كى مقدس نگاہوں ميں نہايت ہى قابل مذمت او رموجب نفرت ہے ' اور رسول خدا (ص) كے ايك پيروكار مسلمان سے يہى توقع ركھى جانى چاہئے كہ وہ ہميشہ بن سنور كر رہے گا اور خود كو معطر اور پاك وپاكيزہ ركھے گا_

۳_ معاشرتى زندگى ميں اس كى اہميت:

سماجى امور اور دوسرے لوگوں كے ساتھ تعلقات قائم ركھنے كے لئے انسان كى كاميابى كا راز اس بات ميںمضمر ہے كہ وہ ايك مقرَّرہ ومرتَّبہ پروگرام كے تحت وقت

____________________

۱_ فروع كافي، ج ۶ _ ص ۴۶۲

۲ _ مكارم اخلاق ، ص ۳۵_

۲۳

سے صحيح فائدہ اٹھائے ' چاہے اس پروگرام كا تعلق اس كے كاموں سے ہو' جيسے مطالعہ كرنا اور كسى جگہ آنا جانا يا كسى سے ملاقات كيلئے جانا، بدنظمى اور بے ترتيبى سے وقت ضائع ہوتا ہے جبكہ ترتيب ونظم وضبط سے انسانى كوششوں كا اچھا نتيجہ نكلتا ہي_

امور زندگى اور كاروبار ميں نظم وضبط كى اس قدر اہميت ہے كہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام نے اپنى آخرى وصيت ميں كہ جو بستر شہادت پر ارشاد فرمائي ' اس بات پر زور ديا اور حسنين (ع) سے مخاطب ہوكر فرمايا :

''اُوصيكما وجميع ا هلى وَ ولدى ومَن بَلَغَهُ كتابى بتقوى الله ونظم امركم ''(۱)

''ميں تم دونوں كو اور تمام افراد خاندان كو اور اپنى تمام اولاد كو اور جن لوگوں تك ميرى تحرير پہنچي' سب كو خدا كے تقوى اور امور ميں نظم وضبط كى وصيت كرتا ہوں''_

حضرت امام موسى كاظم عليه السلام فرماتے ہيں كہ اپنے دن رات كے اوقات كو چار حصوں ميں تقسيم كرو:

۱_ايك حصہ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ راز و نيازكے لئي_

۲_ايك حصہ ذاتى كاموں اور ضروريات زندگى كے پورا كرنے كے لئي_

۳_ايك حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں كے ساتھ ملنے جلنے اور ملاقات كے لئے _

۴_اور ايك حصہ آرام و تفريح اور گھر ميں اہل خانہ كے ساتھ رہنے كے لئي(۲)

____________________

۱_ نہج البلاغہ (فيض الاسلام) خطبہ ۱۵۷_ ص ۹۷۷_

۲ _ تحف العقول ص۴۸۱_

۲۴

۴_عہدوپيمان ميں اس كى اہميت:

وہ امور كہ جہاں سختى كے ساتھ نظم وضبط كى رعايت كرنا چاہئي' عہدوپيمان اور اقرار ناموں كى پابندى ہي_ مثلاً قرض دينے ' قرض لينے اور دوسرے لين دين ميں تحريرى سند كا ہونا ضرورى ہي_ تاكہ بعد ميں كسى قسم كى كوئي مشكل پيدا نہ ہونے پائے اور ايسا كرنے سے مشكلات كا راستہ بند اور اختلاف كى راہيں مسدود ہوجائيں_ يہ عہدوپيمان اور لين دين كے بارے ميں ايك طرح كا نظم وضبط ہي_

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوا ہے :

''ايے ايمان لانے والو جب تم ايك مقررہ مدت كے لئے قرضہ ليتے يا ديتے ہو تو اسے لكھ ليا كرو' اور يہ تحرير ايك عادل شخص تمہارے لئے لكھي' اور اگر تم سفر كى حالت ميں ہو اور تمہيں كوئي لكھنے والا نہ ملے تو اسے گروى كى صورت لے ليا كرو ''(۱)

ايك اور آيت ميں ارشاد ہوتا ہے :

( اَوفوا بالعَهد انَّ العَهد كانَ مسئولاً'' ) (۲)

''عہد كو پورا كرو 'كيونكہ عہد كے بارے ميں تم سے پوچھا جائے گا''_

پيغمبر اسلام (ص) نے وعدہ كى پابندى كو قيامت كے اوپر عقيدہ ركھنے سے تعبير فرمايا ہي_ چنانچہ ارشاد ہي:

____________________

۱_ سورہ بقرہ آيت ۲۸۲_ ۲۸۳

۲ _ سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۳۴

۲۵

''مَن كان يؤمن بالله واليوم الآخرة فليف إذا وَعَدَ'' (۱)

''جو شخص خدا اور قيامت پر ايمان ركھتا ہے اسے اپنا وعدہ پورا كرنا چاہئي''_

ايك واضح پيمان مقررّ كرنے سے بہت سے اختلافات كا سدّ باب ہوسكتا ہي_ اور اس پر صحيح طريقہ سے عملدرآمد لوگوں كى محبت اور اعتماد حاصل كرنے كا موجب بن جاتا ہے _ چنانچہ روايت ہے كہ ايك دن حضرت امام على ابن موسى الرضا عليه السلام نے ديكھا كہ آپ (ع) كے ملازمين ميں ايك اجنبى شخص كام كر رہا ہي' جب آپ (ع) نے اس كے بارے ميں دريافت كيا تو بتا يا گيا كہ اسے اس لئے لے آئے ہيں تاكہ ہمارا ہاتھ بٹاسكي_ امام (ع) نے پوچھا: كيا تم نے اس كى اجرت بھى طے كى تھي؟ كہا گيا كہ نہيں_ امام (ع) سخت ناراض ہوئے اور ان كے اس عمل كو ناپسند فرماتے ہوئے كہا :

''ميں نے بارہا كہا ہے كہ جب تم كسى كو مزدورى كے لئے لاتے ہو تو پہلے اس سے اجرت طے كرليا كرو' ورنہ آخر ميں تم اسے جس قدر بھى مزدورى دوگے وہ خيال كرے گا كہ اسے حق سے كم ملا ہي' ليكن اگر طے كرلوگے اور آخر ميںطے شدہ اجرت سے جتنا بھى زيادہ دوگے خوش ہوجائے گا اور سمجھے گا كہ تم نے اس كے ساتھ محبت كى ہي''(۲)

بات پر قائم رہنا اور وعدہ وفائي انبياء اور اولياء خدا كا شيوہ ہي، ان كے پيروكاروں كو اس سلسلے ميں ان كى اقتدا كرنى چاہئي_

____________________

۱_ كافي_ ج ۲_ ص ۳۶۴

۲_ بحارالانوار _ ج ۴۹_ ص ۱۰۶

۲۶

۵_عبادت ميں اس كى اہميت:

عبادت ميں بھى نظم وضبط كا اہتمام كرنا چاہئے اور وہ يوں كہ ہر عبادت كو بروقت اور بموقع بجالائيں' نماز كو اس كے اول وقت ميں اور جماعت كے ساتھ ادا كريں' ماہ رمضان ميں روزے ركھيں' اگر سفر يا بيمارى كى وجہ سے كوئي روزہ قضا ہوجائے تو اس كى قضا كريں ' خمس وزكوة ادا كريں' اور عبادت ميں افراط وتفريط سے اجتناب كريں بلكہعبادت ميں اعتدال كو ملحوظ ركھنا چاہئي' كيونكہ اعتدال پسندى عبادت ميں مفيد ہي_

عبادت اور مستحب امور ميں افراط سے كام لينے سے بسا اوقات انسان اكتا جاتا ہي' جس كى وجہ سے بعض اوقات وہ اجتماعى سرگرميوں سے محروم رہتا ہے بلكہ كبھى تو اس كا يہ عمل بجائے باعث ثواب كے عذاب كا باعث بن جاتا ہے ' جيسے دعا يا نوحہ خوانى كرنا يا كوئي اور مستحب عمل كہ رات گئے تك لائوڈ اسپيكر پر پڑھتا رہے 'ظاہر ہے اس سے ہمسايوں يا بيماروں كو تكليف ہوتى ہي_

مستحب عبادت اس وقت مفيد اور كار آمد ہوتى ہے جب وہ رضا ورغبت اور شوق و محبت كے ساتھ انجام دى جائے _ اُس مسلمان كى داستان مشہور ہے كہ جس نے اپنے غير مسلم ہمسائے كو اسلام قبول كرنے كى دعوت دى تھى ' جب اس كا وہ ہمسايہ مسلمان ہوگيا تو وہ اسے مسجد لے گيا اور صبح سے ليكر مغرب تك مسجد ميں نماز ودعائيں پڑھتا رہا ' قران كى تلاوت كرتا رہا ، غرض اسے صبح سے شام تك ان امور ميں مصروف ركھا_

۲۷

چنانچہ جب وہ دوسرے دن اس كے پاس گيا كہ اسے عبادت كے لئے اپنے ہمراہ مسجد لے چلے تو اس نے ساتھ چلنے سے صاف انكار كرديا اور كہا :

''ميرے يہاں بيوى بچے بھى ہيں' ان كے اخراجات كے لئے بھى كچھ كرنا ہي' مجھے ايسا دين قبول نہيں جائو اپنى راہ لو_،،

۶_ اخراجات ميںاس كى اہميّت:

روٹي' كپڑے اور زندگى كے دوسرے اخراجات' جو كہ بيت المال يا ديگر اموال سے پورے ہوتے ہيں ان ميں اعتدال سے كام لينا چاہئے نہ افراط سے كام لياجائے اور نہ ہى بخل و مشكلات ميں پڑنا چاہئي_

اخراجات ميں نظم وضبط كا مطلب يہ ہے كہ آمد وخرچ ميں ماشہ، گرام كا حساب ركھاجائي، پيداوار اور اخراجات ميں توازن ركھاجائے اور اخراجات ميں اسراف اور فضول خرچى بد نظمى ہے كہ اس سے انسان مفلس اور نادار ہوجاتا ہي_

قرآن مجيد فضول خرچى اور بے حساب خرچ كرنے كى مذمت كرتا ہے اور فضول خرچ انسان كو شيطان كا بھائي قرار ديتاہے( ان المبذرين كانوا اخوان الشياطين'' ) (۱)

فردى اور نجى زندگى ميں بھى اخراجات ميں تعادل ركھنا چاہئے ،اسى طرح حكومت اور مسلمانوں كے بيت المال ميں بھى ميانہ روى اختيار كرنا چاہئي، معاشرہ ميں وہى حكومت كامياب ہوتى ہے كہ جس كے مال و منصوبے نظم وضبط پر مبنى ہوتے ہيں_ اخراجات ميں اعتدال ، يعنى بجلى ، پانى ، پھل ، لباس اور كھانے پينے كى چيزوں كو

____________________

۱_سورہ بنى اسرائيل _ آيت ۲۷

۲۸

بے مقصد صرف كرنے سے اجتناب كرنا ، تاكہ انسان اپنے آپ اور معاشرہ كو خود كفيل بنا دے اور دوسرں سے بے نياز ہو جائے _

حضرت امير المومنين على ابن ابى طالب (ع) بيت المال سے خرچ كرنے كے بارے ميں اپنے كاركنوں كو ہدايت كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

''قلم كى نوك كو باريك اور سطروں كے فاصلے كو كم كرو اضافى آداب والقاب كو حذف كرو ، اپنے مطالب كو خلاصہ كو طور پر تحرير كيا كرو اور فضول خرچى سے دور رہو كہ مسلمانوں كا بيت المال اس قسم كے اخرجات كا متحمل نہيں ہو سكتا _،،(۱)

۷_محاذ جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كى اہميّت :

خاص طور پر جنگ ، جنگى آپريشن ، ميدان جنگ اور عسكرى امور ميں نظم وضبط كو ملحوظ ركھنا خصوصى اہميّت كا حاصل ہے _

واضح رہے ، جنگ ميں مجاہدين كى كاميابى كا دار ومدار اپنے كمانڈروں كى حكمت عملى اور جنگى تدابير پر پختہ يقين اور راستح عقيدہ كے بعد ان كى اطاعت اور عسكرى امور كے نظم وضبط پر ہے _

خدا وند عالم ،قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

( انَّ الله يحبّ: الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص ) ،،(۲)

____________________

۱_ بحارالانوار _ ج ۴۱_ ص ۱۰۵

۲_ سورہ وصف _ آيت ۴

۲۹

''يقينا خداوند عالم ان لوگوں كو دوست ركھتا ہے جو اس كى راہ ميں يوں منظم طريقہ سے صف باندھ كر لڑتے ہيں جيسے سيسہ پلائي ہوئي ديوار ہوتى ہے _،،

جنگ كے دوران ، حملہ كے وقت ، پيچھے ہٹنے كے موقع پر اور آرام كے وقت نظم وضبط كا مظاہرہ فتح اور كاميابى كى علامت ہے _ جب كہ گربڑ ، سر كشى اور بدنظمى بعض اوقات جيتى ہوئي جنگ كو شكست ميںتبديل كر ديتى ہے _

حضرت رسو ل اكرم (ص) حملہ كا حكم دينے سے پہلے تمام فوجيوں كى صفيں درست كرتے تھے ، ہر شخص كا فريضہ مقرر فرماتے تھے اور نافرمانى پر تنبيہ اور سرزنش فرماتے تھے(۱)

جنگ ميں كمانڈر كى اطاعت اور عسكرى قوانين كى پابندى زبردست اہميّت اور حسّاس ذمہ دارى كى حامل ہوتى ہے _كمانڈر كے احكام كا احترام ،اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا ، خودرائي اور جذباقى طرز فكر سے اجتناب ، كاميابى كا ضامن ہوتا ہے _

تاريخ ميں بہت سے ايسے واقعات بھى ملتے ہيں كہ بدنظمي، بے ضابطگى اور قوانين كى خلاف ورزى كى وجہ سے جيتى ہوئي جنگيں شكست ميں تبديل ہوئي ہيں اور دشمن كے غالب آجانے كا سبب بن گئيں ہيں _ چنانچہ جنگ اُحُد ميںنبى (ص) نے كچھ مسلمان جنگجووًں كو عبداللہ ابن جبُير كى سر كردگى ميں ايك پہا ڑى درّے پر متعين فرمايا،

جنگ كے شروع ہو جانے كے بعد سپاہ اسلام كى سرفروشانہ جنگ سے دشمن كے پاوّں اكھڑ گئے اور لشكر اسلام آخرى كاميابى كى حدود تك پہنچ گيا اور دشمنان اسلام

____________________

۱_تاريخ پيامبر اسلام (ص) _ ص ۲۳۹(مولف ڈاكٹر آيتي)

۳۰

شكست كھا كر بھاگنے لگے تو درّے پر متعين افراد نے كاميابى كى صورت حال ديكھ كر رسول خدا (ص) كے فرمان كو فراموش كر ديا اوراپنے مورچوں كو چھوڑ كر نيچے اتر آئے اور مال غنيمت جمع كرنے لگے ، اس بدنظمى اور رسول خدا(ص) كے عسكرى فرمان كى خلاف ورزى كى وجہ سے دشمن كے شكست خوردہ لشكر نے مسلمانوں كى غفلت سے فائدہ اٹھايا اور پہاڑ كے حسّاس درّے كو خالى پاكر سپاہ اسلام پر حملہ ور ہو گيا، آخر ميں اس بد نظمى اور كمانڈر كے حكم كى خلاف ورزى كے سبب مسلمانوں كو زبردست شكست كا منہ ديكھنا پڑا اور سنگين جانى نقصان بھى اٹھانا پڑا(۱)

محاذ جنگ ذمّہ دار افسران كے احكام كى پابندے نہايت ضرورى ہے :

محاذ جنگ پر كسى ڈيوٹى پر متعين ہونے ، كسى يونٹ ميں منتقل ہونے ، چھٹى پر جانے ، كسى پروگرام ميں پرجوش شركت ، غرض تمام امور ميں ذمہ دار افسران كے احكام وآرا ء كى پابندى ضرورى ہوتى ہے _

خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے :

'' مومن وہ لوگ ہيں جو خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان لائے اور جب كسى اہم اور جامع كام( جنگ)ميں پيغمبر اكرم(ص) كے ہمراہ ہوتے ہيں تو ان كى اجازت كے بغير كہيں نہيں جاتے ،اجازت حاصل كرنے والے ہى صيحح معنوں ميں خدا اور اس كے رسول(ص) پر ايمان ركھتے ہيں ، پس جب بھى وہ اپنے بعض كاموں كے لئے آپ(ع) سے اجازت طلب كريں ، تو آپ(ع) جسے

____________________

۱_مزيد تفصيل كے لئے كتاب فروغ ابديت _ ج ۲_ ص ۴۶۶ كا مطالعہ كياجائے_

۳۱

چاہيں اجازت عطا فرمائيں ،،(۱) اس سے يہ بات سامنے آتى ہے كہ چھٹى پر جانا بھى پيغمبر(ع) كى اجازت پر موقوف ہے _

ہمارى دعا ہے كہ راہ خدا ميں مسلسل جّدوجہد كرنے والے اور فى سبيل اللہ جہاد كرنے والے مجاہدين اسلام ايك محكم و مضبوط صف ميں اور مستحكم نظم و ضبط كے تحت متحّدو متّفق ہو كر دشمنان حق اور پيروان شيطان پر غالب آجائيں _آمين،،

____________________

۱_سورہ نور _ آيت ۶۲

۳۲

تيسرا سبق :

سچ اور جھوٹ

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں؟

۲) .........سچائي انبيائ(ص) كے مقاصد ميں سے ايك ہي

۳) .........جھوٹ كى وجوہات

۴) .........جھوٹ كيوں بولاجاتا ہے ؟

۵) جھوٹ كا علاج

۳۳

۱) .........سچ اور جھوٹ كيا ہيں ؟

'' سچ ،،ايك نہايت بہترين اور قابل تعريف صفت ہے كہ جس سے مو من كو آراستہ ہونا چاہئے _ راست گوئي انسان كے عظيم شخصيت ہونے كى علامت ہے _

جب كہ '' جھوٹ بولنا،، اس كے پست ، ذليل اور حقير ہونے كى نشانى ہے ، جس سے ہر مو من كو پرہيز كرنا چاہئے _

احاديث ميں '' سچ ،، اور ''جھوٹ ،،كو كسى انسان كے پہچاننے كا معيار قرار ديا گيا ہے _ حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں :

'' كسى انسان كے اچھّے يا برے ہونے كى پہچان اس كے ركوع اور سجود كو طول دينے سے نہيں ہوتى ، اور نہ ہى تم اس كے ركوع اور سجود كے طولانى ہونے كو ديكھو ،كيونكہ ممكن ہے ايسا كرنا اس كى عادت بن چكا ہو كہ جسكے چھوڑنے سے اسے وحشت ہوتى ہے ، بلكہ تم اس كے سچ بولنے اور امانتوں

۳۴

كے ادا كرنے كو ديكھو ،،(۱) سچّے انسان كا ظاہر پر سكون اور باطن مطمئن ہوتا ہي، جب كہ جھوٹا آدمى ہميشہ ظاہرى طور پرپريشان اور باطنى طور پراضطراب و تشويش ميں مبتلا رہتا ہي_ حضرت اميرالمومنين (ع) فرماتے ہيں :

'' كوئي شخص بھى اپنے دل ميں كوئي راز نہيں چھپاتا ، مگر يہ كہ وہ اس كى بے ربط باتوں اور چہرے كے رنگ سے ظاہر ہو جاتا ہے (جيسے چہرے كى زردى خوف كے علامت اور سرخى شرمندگى كى نشانى ہے ) ،،(۲)

ايك شخص بہت سامان ليكر چند ساتھيوں سے ساتھ سفر پر گيا ہوا تھا ، اس كے ساتھيوں نے اسے قتل كر كے اس كے مال پر قبضہ كر ليا ، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے كہ وہ سفر كے دوران فوت ہو گيا ،انہوں نے آپس ميں يہ طے كر ليا تھا كہ اگر كوئي ان سے اس كى موت كا سبب پوچھے تو سب يہى كہيں گے كہ وہ بيمار ہو گيا تھا اور اس بيمارى ميں وہ فوت ہو گيا _

اس شخص كے ورثاء نے حضرت على عليہ السلّام كى خدمت ميں يہ واقعہ ذكر كيا تو حضرت على عليه السلام نے تفتيش كے دوران سے دريافت فرمايا كہ تمہارے ساتھى كى موت كس دن اور كس وقت واقع ہوئي ؟ ،اسے كس نے غسل ديا ؟ ،كس نے پہنايا؟اور كس نے نماز جنازہ پڑھائي ؟ _ ہر ايك سے بطور جدا گانہ سوالات كئے ، اور ہر ايك نے ايك دوسرے كے برعكس جواب ديا _

____________________

۱_ سفينة البحار_ ج ۲_ ص۱۸

۲_ نہج البلاغہ _ حكمت ۲۵

۳۵

امام _ نے بلند آواز سے تكبير كہى اور تفتيش كو مكمل كر ليا ، اس طرح سے اُن كے جھوٹ كا پردہ فاش ہو گيا اور معلوم ہو گيا كہ ساتھيوں ہى نے اسے قتل كياتھا اور اس كے مال پر قبضہ كر ليا تھا(۱)

۲) ...سچّائي انبياء (ع) كے مقاصد ميں سے ايك ہے :

لوگوں كو سچّائي اور امانت دارى كے راستوں پر ہدايت كرنا، اور جھوٹ اور خيانت سے ان كو باز ركھنا تمام انبياء (ع) الہى كى بعثت كے مقاصد ميں سے ايك مقصد رہا ہے _ جيسا كہ حضرت امام جعفر صاد ق(ع) فرماتے ہيں :

''ان الله لم يبعث نبيا الا بصدق الحد يث وَاَدَائ الاَمَانة ،،(۲) '' خداوند عالم نے كسى نبى كو نہيں بھيجا مگر دو نيك اور پسنديدہ اخلاق كے ساتھ ، ايك تو سچ بولنا اور دوسرے امانتوں كى ادائيگى ہے _،،

حضرت على عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''لايجدُ عبد حقيقة الايمان حتّى يدع الكذبَ جدَّه وهزله'' (۳) ''كوئي بندہ ايمان كى حقيقت كو اس وقت تك نہيں پاسكتا ، جب تك كہ وہ جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے ، چاہے وہ واقعاً جھوٹ ہو يا مذاق سے جھوٹ ہو_،،

____________________

۱_قضاوتہاى حضرت على عليه السلام

۲ _ سفينة البحار_ ج ۶_ ص ۲۱۸

۳_سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۶

۳) جھوٹ كے اثرات :

الف: جھوٹ ، انسان كى شرافت اور اس كى شخصيت كے منافى ہے ،

يہ انسان كو ذليل كر ديتا ہے ، جناب اميرالمؤمنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''الكذبُ وَالخيانة ليسا من اخلاق الكرام _،،(۱)

ترجمعہ :'' جھوٹ اور خيانت شريف لوگوں كا شيوہ نہيں ہے _،،

::: ب: جھوٹ ، ايمان كو برباد كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليہ السلّام فرماتے ہے :

''انَّ الكذب هوخراب الايمان ،،(۲) ''جھوٹ ايمان كى تباہى كا موجب بنتا ہے _ ،،

ج: جھوٹ دوسرے گناہوں كا سبب بنتا ہے

_ جبكہ سچّائي بہت سے گناہوں ميں ركاوٹ بنتى ہے _ جھوٹ بولنے والا كسى گناہ كے ارتكاب سے نہيں ہچكتا ، اور ہر قسم كى قيد و بند كو توڑ ڈالتا ہے اور جھوٹ سے ان تمام گناہوں كا انكار كر ديتا ہے _

حضرت امام محمد باقر عليه السلام فرماتے ہيں :

'' خداوند عالم نے تمام برائيوں كو ايك جگہ قرار ديا ہے اور اس كى چابى شراب ہے _ ليكن جھوٹ شراب سے بھى بدتر ہے _،،(۳)

____________________

۱_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ص ۳۴۳

۲_ اصول كافى _ (مترجم)_ ج ۲_ ص ۳۳۹

۳_ سفينة البحار _ ج ۲_ ص ۴۷۳

۳۷

د: جھوٹ ، كفر سے قريب ہے _

ايك شخص نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر سوال كيا كہ جہنّمى كون سے جرم كى وجہ سے زيادہ جہنّم ميں جائيں گے ؟ ، حضور(ص) نے ارشاد فرمايا :

'' جھوٹ كى وجہ سے ، كيونكہ جھوٹ انسان كو فسق و فجور اور ہتك حرمت كى طرف لے جاتا ہے ، فسق و فجور كفر كى طرف اور كفر جہنّم كى طرف لے جاتا ہے _ ،،(۱)

ھ: ......جھوٹ بولنے والے پر كوئي اعتماد نہيں كرتا ،

جھوٹ بولنے سے انسان كى شخصيّت كا اعتبار ختم ہو جاتا ہے ، اور دروغگوئي كى صفت اس كے بے آبرو ہو جانے كا سبب بن جاتى ہے _ جھوٹے چروا ہے كى داستان آپ نے كتابوں ميں پڑھى ہو گى كہ جس نے دروغ گوئي سے شير آيا ، شير آيا،،چلا چلاكر اپنا اعتماد كھو ديا تھا ، چنانچہ ايك دن وہ ايك واقعى شير كا شكار ہو گيا _

حضرت امير المومنين عليہ السلّام فرماتے ہيں :

''جو شخص جھوٹا مشہور ہو جائے لوگوں كا اعتماد اس سے اٹھ جاتا ہے _،،(۲)

'' جو جس قدر زيادہ جھوٹا ہو گا ، اسى قدر زيادہ ناقابل اعتماد ہو گا _،،(۳)

ي: '' دروغ گورا حاقطہ نباشد ،، والى ضرب المثل صحيح ہے ،كيونكہ وہ ہميشہ حقيقت كے خلاف بات كرتا ہي، متعدد نشستوں ميں مختلف قسم كے جھوٹ بولتا ہي، جو ايك دوسرے كے برعكس ہوتے ہيں _

____________________

۱_ مستدرك الوسائل ج۲ ص ۱۰۱

۲_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۲۴۵

۳_ اصول كافى (مترجم ) _ ج ۴ _ ص ۳۸

۳۸

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلّام فرماتے ہيں :

'' نسيان اور بھول چوك ايك ايسى چيز ہے كہ جو خدا جھوٹوں كے دامن ميں ڈال ديتا ہے _،،(۱)

۴) ......جھوٹ كى وجوہات :

ہر ايك گناہ اور برا كام ان اسباب وعلل كى وجہ سے سر زد ہوتا ہے جو كہ انسان كے اندر ہى اندر پروان چڑھتے رہتے ہيں ، لہذا گناہوں كا مقابلہ كر كے ان اسباب و علل كا خاتمہ كر دينا چاہئے _ جھوٹ ايك ايسى برى عادت ہے كہ جس كے كئي اسباب بتائے گئے ہيں ، جنہيں ہم ذيل ميں اختصار كے ساتھ ذكر كر رہے ہيں :

الف: احساس كمتري:

بعض لوگ چونكہ اپنے آپ ميں اپنى اہميت يا كوئي خاص ہنر نہيں پاتي، لہذا كچھ جھوٹى اور بے سروپا باتوں كو جوڑ كر لوگوں كے سامنے اپنى اس كمى كى تلافى كرتے ہيں اور اپنے آپ كومعاشرہ كى ايك اعلى شخصيت ظاہر كرنے كى كوشش كرتے ہيں، يہى وجہ ہے كہ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''جھوٹا شخص ' احساس كمترى كى وجہ سے ہى جھوٹ بولتا ہي''_

ب: سزا اور جرمانہ سے بچنے كيلئے :

كچھ لوگ سزا كے خوف سے جھوٹ كا سہارا ليتے ہيں اور اس طرح وہ يا تو سرے ہى سے جرم كا انكار كرديتے ہيں يا پھر اپنے جرم كى توجيہہ ميں غلط بيانى كرتے ہيں اور اپنے جرم كا اقرار كرنے پر قطعاً آمادہ نہيں ہوتے اور جرم كى سزا بھگتنے يا جرمانہ ادا

۳۹

كرنے كے لئے تيار نہيں ہوتي_

ج: منافقت اور دوغلى پاليسي_

منافق اور دوغلے لوگ خوشامد اور چاپلوسى كے پردے ميں جھوٹ بول بول كر ايسى حركتوں كے مرتكب ہوجاتے ہيں جن كے ذريعے وہ معاشرے كے افراد كى توجہ اپنى طرف مبذول كركے اپنے ناپاك عزائم كو پورا كرليتے ہيں_

خداوند عالم نے سورہ بقرہ كے اوائل ميں اس طريقہ كار كو منافقين كى صفت قرار ديا ہے اور فرمايا ہي:

( واذ القو الذين امنوا قالوا امنا واذا خلوا إلى شياطينهم قالو انا معكم انما نحن مستهزئون'' ) (۱)

''جب منافقين' مومنين سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لائے ہيں' اور جب اپنے شيطان صفت لوگوں سے تنہائي ميں ملاقات كرتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم تو تمہارے ساتھ ہيں' ہم تو (مومنين كے ساتھ ) ٹھٹھا مذاق كرتے ہيں''_

د: ايمان كا فقدان:

قران مجيد اور روايات سے پتہ چلتا ہے كہ دروغگوئي كى ايك بنيادى وجہ ايمان كا كلى طور پر فقدان يا ايمان كى كمزورى ہي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہي:

( انما يفترى الكذب الذين لا يومنون بايات الله و اولئك هم الكاذبون'' ) (۱)

____________________

۱_ سورہ بقرہ_ آيت ۱۴

۲_ سورہ نحل _آيت ۱۰۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213