تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 36%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63737 / ڈاؤنلوڈ: 4179
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

( فصل دوم)

معاويہ رسول اسلام(ص) كے زمانے ميں

معاويہ نے كفر واسلام كے درميان ٹكراو ميں كليدى كردار اداكيا اور ايك لمحے كے لئے بھى سرداران كفّار سے دورى اختيار نہيں كى ،يہاں تك كہ اس دن بھى جب اسكے باپ (ابوسفيان) نے ظاہرى اسلام قبول كيا تب ا س نے مذمت اميز اشعار ميں اسكو مخاطب كيا

اے صحر _اسلام قبول مت كرناكيونكہ ہم لوگ رسوائي اور ذلت سے دوچار ہو جائينگے _

حالانكہ ہمارے رشتہ دار جنگ بدر ميں ٹكڑے ٹكڑے ہو گئے _

ہمارے ماموں چچا اور بھائي تينوں مارے گئے ،اپنے بھائي حنظلہ كى موت پر تو ہمارى راتوں كى نينداچاٹ ہو گئي _

ايك لمحے كے لئے بھى اسلام كو قبول نہ كرناكيونكہ ہم ذليل ہو جائينگے

ا ن اونٹوں كى قسم جو راہ مكہ ميں رواں دواں ہے

موت اسان ہے دشمنوں كى ملامت سے

جويہ كہيں كہ حرب كے بيٹے ابوسفيان نے خوف ووحشت سے عزى بت سے منھ موڑ لياہے(۴۲)

معاويہ فتح مكہ كے بعد اپنے تمام لوگوں كے ساتھ جنھوں نے بظاہر اسلام قبول كيا تھا مولفة القلوب كے حصہ ميں جنگ حنين كے مال غنيمت سے _۱۰۰ _اونٹ اور كافى مقدار ميں چاندى حاصل كى تھى اسى سال كے اواخر ميں پيغمبر اسلام(ص) نے اپنى اعلى ظرفى كامظاہر ہ كركے اسے كاتبوں كى فہرست ميں شامل كر ديا(۴۳)

ايك دن اسى كتابت كى غرض سے عباس كو بلانے كے لئے بھيجا اور حكم دياكہ رسول(ص) اكرم تمھيں خط لكھنے كے لئے بلا رہے ہيں ،عباس نے د يكھا كہ كھاناكھا رہاہے تو واپس جاكر رسول(ص) خداكو اگاہ كر ديا دوسرى مرتبہ رسول (ص) خدانے

____________________

۴۲_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۱۰۲ ، تذكرة الخواص ص ۱۱۵ ، جميرة الخطب ج۲ ص ۱۲

۴۳_ تنبيہ الاشراف ص ۲۸۳

۴۱

عباس كے فرزند كو بلانے كے لئے بھيجا ا س مرتبہ بھى وہ كھاناكھانے كى وجہ سے نہيں آيا ،اپ نے تيسرى مرتبہ بھيجاليكن معاويہ مسلسل كھاناكھاتے جارہاتھا تيسرى بار بھى ابن عباس نے جب كھانے كى وجہ سے حكم رسول(ص) كو نظر انداز كرتے ديكھا تو ابن عباس كابيان ہے كہ رسول(ص) اسلام نے ا س پر لعنت فرمائي _ اور فرمايا :ميں اميدوار ہوں كہ اللہ اسكا كبھى پيٹ نہ بھرے(۴۴)

ا س كے بعد تو معاويہ اكثر كہتا تھا كہ دعائے رسول (ص) نے مجھے اپنى گرفت ميں لے لياہے اور ميرے حق ميں لعنت قبول ہو گئي، ا س لئے وہ روزانہ متعدد بار كھاناكھاتا تھا اور بہت زيادہ مقدار ميں كھاناكھاتا تھا پھربھى وہ بھوكھاہى رہ جاتاتھا ،يہاں تك كہ معاويہ كى پر خورى ضرب المثل بن گئي تھى ،جوشخص بھى زيادہ كھاناكھاتاتھا تو لوگ اسے كہتے تھے كان فى احشائہ معاويہ ا س كاپيٹ تو معاويہ كاخندق ہو گيا ہے _

اس مسئلہ سے صرف نظر كرتے ہوئے كہ كاتب رسول (ص) ہونے كااكثر نے انكار كياہو، معاويہ سابق قريش مكہ كارئيس تھا ،ابوسفيان كى بيوى سے سيادت ختم ہو گئي تھى وہ اسلامى معاشرے ميں كوئي وقعت نہيں ركھتا تھا اور نہ كوئي اسكى طرف توجہ ديتاتھا،كيونكہ اولاً عوامل احترام جيسے علم وتقوى سے وہ خالى تھااور دوسرے مادى اور مالى لحاظ سے بھى وہ تہى دست تھاجولوگوں كى انكھيں خيرہ كرتى ہيں _

ايك دن كسى مہاجر عورت نے بارگاہ رسول خدا(ص) ميں معاويہ ياكسى دوسرے شخص سے شادى كى گزارش كي، رسول(ص) اكرم نے فرمايا :معاويہ مفلس ہے اسكے پاس دولت و ثروت نہيں(۴۵)

ائندہ جواس سے گناہ سر زد ہونے والے تھے وہ رسول(ص) اسلا م كى نگاہ سے كيسے پوشيدہ رہ سكتے تھے اس لئے اپ نے مختلف موقعوں پر مسلمانوں كو اسكى مدداور نصرت سے روكا _

مندرجہ ذيل تاريخى نمو نوں كو ديكھا جاسكتا ہے ،ايك دن رسول خدا (ص) مدينہ سے نكل كر كسى سفر پر جارہے تھے_

اپ نے سماعت فرماياكہ دو ادمى چلّارہے ہيں اور دونوں ايك دوسرے كے ساتھ يہ شعر پڑھ

____________________

۴۴_ انساب الاشراف ص ۵۳۲ ، صحيح مسلم ج۸ ص ۲۷ ، شرح نہج البلاغہ ، مسند طيالسى ، ابن كثير ج ۸ ص ۱۱۹

۴۵_صحيح مسلم ج۴ ص ۱۹۵ ، مسند طيالسى ، مسند ابن داو د، سنن ابن ماجہ

۴۲

رہے ہيں كہ ہمارے ہمراہيوں اور دوستوں كى ہڈياں اتنى ظاہر ہو چكى ہيں جنگ انكے دفن ہونے اور چھپ جانے سے مانع ہے _

رسول(ص) نے فرماياكہ تلاش كرو اور ديكھوكہ يہ كون لوگ ہيں

لوگوں نے اكر بتاياكہ معاويہ اور عمر و عاص ہيں

رسول(ص) اكرم نے دونوں ہاتھ بلند كر كے فرمايا :خدايا،ان دونوں كو فتنہ ميں ڈال د ے اور اتش جہنم ميں جھونك دے(۴۶)

ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ رسول اسلام (ص) نے ان دونوں كو جنگ تبوك سے علحدہ ديكھا كہ اپس ميں باتيں كرتے ہوئے جارہے ہيں ،اپ نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو كر فرماياكہ جب بھى ان دونوں كو ايك دوسرے كے ساتھ ديكھو تو انھيں علحدہ كر دو كيونكہ يہ دونوں (معاويہ وعمروعاص) كبھى خير وصلاح پر متّفق نہيں ہونگے(۴۷)

تيسرى حديث ميں ہے كہ انحضرت(ص) نے ا ن دونوں كو اكٹھا ديكھاتو بہت تيز و تند نگاہ ڈالي، دوسرے اور تيسرے روز بھى ايساہى اتفاق آيا روزانہ رسول(ص) اكرم كافى دير تك ان پر تيز و تند نگاہ ڈالتے رہے ،تيسرے د ن فر ماياكہ جب بھى د يكھو كہ معاويہ اور عمرو عاص ايك ساتھ ہيں تو انھيں علحدہ كر دو كيونكہ ان دونوں كى رفاقت كبھى خير وصلاح پر نہيں ہو سكتى ہے(۴۸)

ايك روز ابوسفيان سوارى سے جارہاتھااور اسكے دونوں فرزند يزيد و معاويہ ہمراہ چل رہے تھے ايك نے لجام تھام ركھى تھى اور دوسراپيچھے سے ہنكارہاتھا _

رسول اسلام(ص) نے جب اس حال ميں ديكھاتو فرمايا

خدايا _ اپنى لعنت اس سوار پرفرما ،اور اسكے ہانكنے والے پر بھى لعنت فرما اور اسكے كھيچنے والے پر بھى ان سبكو

____________________

۴۶_ مسند احمد ج۴ ص ۴۲۱ ، صفين ، نصر بن مزاحم ، النصائح الكافيہ

۴۷_ عقد الفريد

۴۸_ صفين _ نصر بن مزاحم

۴۳

اپنى رحمت سے دور ركھ(۴۹) _

يہ حوادث اور ا س طرح كے ارشادات رسول(ص) اكرم كتابوں ميں موجود ہيں ،اگر چہ ہم نے ان سب كاتذكرہ نہيں كياہے ،ان تمام بے شمار نمونوں كو كتب تاريخ و حديث سے ملاحظہ كرنے كے بعد معاويہ اور اسكے خاندان كى صحيح تصوير سمجھى جاسكتى ہے _

معاويہ خلفاء كے زمانے ميں

وفات رسول (ص) كے بعد جب ابو بكر تخت خلافت پر آئے تو سب سے پہلے جس نے مخالفت كى وہ ذات ابوسفيان كى تھى ،وہ اس بات كو برداشت نہيں كر سكتا تھاكہ پست خاندان كے لوگ قريش كے سرداروں پر حكومت كريں ،قريش كے اہم قبيلہ بنى ہاشم اور بنى اميہ جودونوں ايك نسل اور عبد مناف كے فرزند تھے اور چچيرے بھائي تھے اس تخت خلافت سے كيوں دور رہيں ،يہى وجہ تھى كہ ابوسفيان پہلى فرصت ميں حضرت امير المومنين(ع) كى خدمت ميں اكر بولا _

اے ابولحسن _اپ اپناہاتھ بڑھايئےاكہ اپكى بيعت كروں _

حضرت اميرالمومنين(ع) _وہ اپنے ہر اقدام پر اپنے اسى قول كے سلسلے ميں تيار تھاكہ ميں اس فضا كو غبار الود ديكھ رہاہوں كہ سوائے خون كے كوئي چيز نہيں بٹھاسكتى ہے(۵۰)

ارباب سقيفہ، ابوسفيان اور اسكى قدرت سے بخوبى اشناتو تھے ہى لہذاانھوں نے اسے لالچ كے جال ميں جكڑ كر خاموش كر ديا _

عمر نے ابو بكر سے كہا :جوصدقات رسول(ص) كے زمانے ميں ا س كے قبضہ ميں ہيں اسى كے پاس رہنے دياجائے تاكہ ا س كے شر سے محفوظ رہيں(۵۱)

____________________

۴۹_ صفين _ طبرى _ شرح نہج البلاغہ _تذكرة الخواص

۵۰_ طبرى ج۲ ص ۴۴۹

۵۱_ عقد الفريد ج۳ ص ۶۳ ، طبرى ج۲ ص ۴۴۹

۴۴

اس پر عمل ہو ا اور ابوسفيان نے بيعت كر كے انكى رياست و حكومت كو استحكام بخشا _

كيونكہ ايك طرف تو اسے حكومت و رياست كى اميد نہيں تھى اور دوسرى طرف اميرالمومنين(ع) نے اسكى ہونكارى بھى نہيں بھرى اور ايساكرتے بھى نہيں لہذاتيسرے راستہ كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا كہ اپنے كو ارباب حكومت كے حوالے كر دے ،ا س طرح ابوسفيان بھى سقيفہ كے مددگاروں ميں شامل ہو گيا ،وہ اور ا س كا خاندان سقيفہ كاحمايتى بن گيا _

ابو بكر نے بھى ابوسفيان كو خاموش كرنے اور اسكاتعاون حاصل كرنے كے لئے ،اسكے بيٹے يزيد كو شام كے علاقے فتح كرنے كے لئے بھيجے جانے والى فوج كاسردار معين كر ديا ،يہ حادثہ ہجرت كے تيسرے سال پيش آيا ،معاويہ بھى بھائي كے ساتھ فوج ميں شامل تھا ،شام فتح ہونے كے بعد ابو بكر كے حكم سے يزيد ابن ابوسفيان حكومت دمشق پر فائز ہو گيا، وہاں وہ فوج كا سپہہ سالار بھى تھا اور دمشق كاحاكم بھى _

خلافت عمر كے زمانے ميں جس وقت يزيد ابن ابوسفيان طاعون كے مرض ميں گرفتار ہوا تو اسنے اپنے بھائي معاويہ كو اپنى جگہ معين كرنے كے لئے، خليفہ كو خط لكھا خليفہ دوم نے اسكى بات مان كر حكومت معاويہ كے حوالے كردى(۵۲)

شام پر معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں عمر نے مصر كاسفر كيا ،جس دن وہ دمشق ميں پہنچے تو معاويہ نے ا ن كا شاندار استقبال كيا ،عمر نے جب معاويہ كاجاہ وجلال ديكھاتو كہا ،يہ شخص عرب كاكسرى ہے _

جب معاويہ اسكے قريب آيا تو اس سے كہا كہ ،تم اتنے جاہ وجلال كے مالك ہو گئے ؟

معاويہ نے جواب ديا _جى ہاں اميرالمومنين

عمر نے پوچھا ،ايسا كيوں كرتے ہو ؟

معاويہ نے كہا :اخر ہم ايك ايسى سر زمين پر رہتے ہيں جہاں دشمن (روميوں ) كے جاسوس زيادہ ہيں لہذا ضرورى ہے كہ ہم سطوت وشكوہ كامظاہرہ كركے ان پر اپنا رعب و دبدبہ قائم ركھيں تاكہ يہ لوگ ہم سے خوف كھائيں(۵۳)

عمر كازمانہ حكومت ختم ہو گيا ،اور تخت خلافت پر عثمان براجمان ہوئے تو انھوں نے دمشق كے ساتھ تمام

____________________

۵۲_ طبرى ج۴ ص ۲۰۲ سير اعلام النبلہ ج۱ ص ۲۳۸

۵۳_ استيعاب ج۱ ص ۲۵۲ ،اصابہ ج۳ ص ۴۱۳ ، ابن كثير ج۸ ص ۱۲۰

۴۵

شامى علاقہ معاويہ كے حوالے كر ديا جو اج شام ،فلسطين ،اردن ،اور لبنان كاعلاقہ ہے _

معاويہ اپنے امور ميں پو رى طرح ازاد ہو گيا، معاويہ نے اپنى عادت كے مطابق جو انھيں جاہلى انداز كى تر بيت ہوئي تھى حكومت كو بھى جاہلى انداز پر ڈھالنا شروع كيا ،انھيں انكى منحوس خواہشوں پر بندش عائد كرنے والاكوئي نہيں تھا _

ان كى مطلق العنانى كے كچھ نمونے يہ ہيں جوبزر گ خزرجى صحابى رسول (ص) عبادہ ابن صامت كے ساتھ پيش آئے ،عبادہ ان بارہ افراد ميں تھے جنھوں نے بيعت عقبى ميں شركت كى تھى اور نفساء كے افتخار اميز لقب كى ايك فرد تھے ،يہ مدينہ كے اولين مسلمانوں ميں شامل تھے يہ ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے رسول اكرم (ص) كے زمانے ميں قران جمع كياتھا

عمر ابن خطاب نے اس عظيم صحابى كو يزيد ابن ابوسفيان كے زمانے ميں شام والوں كو قران كى تعليم دينے كے لئے بھيجا ،وہ يزيد كى موت تك شہر حمص ميں رہے ،يزيد كے مرنے كے بعد جب معاويہ ا ن كا جانشين ہو ا تو ان كى سر كردگى ميں رومى علاقوں سے جنگ كے لئے فوج بھيجى گئي ، اہلسنت كے مشہور اور عظيم محدث اپنى كتاب، صحيح مسلم ميں نقل كرتے ہيں كہ ،ايك اسلامى جنگ ميں معاويہ اور عبادہ دونوں شريك تھے ،جنگ فتح ہوئي اور ڈھير سارامال غنيمت ہاتھ آيا اس مال غنيمت ميں سونے اور چاندى كے بہت سے ظروف بھى تھے، معاويہ نے حكم دياكہ ان ظروف كو بيچ كر اسكى قيمت مسلمانوں ميں تقسيم كردى جائے ،لوگ برتنوں كوخريدنے كے لئے جمع ہوئے اورا نھيں ظروف كے مقدار ميں مساويانہ حيثيت سے قيمت معين ہوئي ،جب اس حادثہ كى خبر عبادہ كو پہنچى تو اپنى جگہ سے اٹھ كر اعلان كرنے لگے كہ ميں نے رسول خدا(ص) سے سناہے كہ سونے كے بدلے سونااور چاندى كے بدلے ميں چاندى مساويانہ حيثيت كے علاوہ كسى دوسرى طرح خريدنے پرمنع فرماياہے جوزيادہ قيمت دے گا وہ سود ميں گرفتار ہوگا _

اس حديث كو سننے كے بعد لوگوں نے اپنى اضافى قيمت واپس لے لى _

جب معاويہ كو معلوم ہو ا تو سخت غصہ كى حالت ميں تقرير كى _

لوگوں كو كيا ہو گيا ہے كہ حديث رسول بيان كرنے لگے ہيں ،ہم بھى انحضرت(ص) كے ساتھ رہے اور انھيں ديكھا ہم نے كبھى ايسى حديث نہيں سنى _

يہ سن كر عبادہ نے اپنى بات كو دوبارہ كہا پھر اضافہ كيا كہ ہم نے جو كچھ حديث رسول(ص) سنى تھى وہ تم لوگوں كو سنادى چاہے معاويہ اس سے ناخوش ہوں ياراضى نہ ہوں _

۴۶

ايك دوسرى روايت كے مطابق انھوں نے كہا كہ چاہے معاويہ اس سے ناخوش ہى ہوں مجھے اسكى پرواہ نہيں ہے كہ ايك رات بھى معاويہ مجھے اپنے لشكر ميں قبول نہ كرے(۲)

احمدبن حنبل اور نسائي كى روايت كے مطابق عبادہ نے كہا كہ خداكى قسم ہم نہ كسى سے متاثر ہوئے ہيں اور نہ ہى ہونگے ،ہم اس سر زمين پر ايك شب بھى نہيں رہينگے جہاں معاويہ رہے گا(۳)

صاحب اسد الغابہ اور سير اعلام النبلاء نے عبادہ كے حالات لكھتے ہوئے اس مسئلے كو يوں بيان كيا ہے كہ عبادہ نے معاويہ كے كچھ امور سے سر پيچى كى اور ان امور كو قوانين اسلامى كى صريحى خلاف ورزى بتايا ، پھر كہا كہ ميں اورتم ايك سر زمين پر ہر گز نہ رہيں گے ، پھر وہ شام سے كوچ كر كے مدينہ اگئے عمر ا س وقت تك خليفہ تھے ،پوچھا كہ مدينہ كيوں واپس اگئے ؟عبادہ نے معاويہ كى نا شائستہ حركتوں كو بيان كيا گيا ، عمرنے كہا اپنى جگہ واپس جائو ، خدا و ند عالم اس زمين كو غارت كر ے جہاں تم اور تمھارے جيسے لوگ نہ رہيں ، اسكو ، تم پر حكمرانى كرنے كا حق نہيں ہے(۴)

ذہبى سير اعلام النبلاء ميں بيان كرتا ہے كہ ايك دن عبادہ بن صامت اور معاويہ مسجد ميں پہنچے ، اذان ہونے كے بعد خطيب منبر پر پہنچا ، اس نے خطبہ ميں معاويہ كى خوب تعريف كى عبادہ اپنى جگہ سے كھڑے ہوئے اور ايك مٹھى خاك خطيب كے منھ ميں ڈال دى ، معاويہ كو اس پر بہت غصہ آيا عبادہ نے معاويہ كى طرف رخ كر كے كہا ، كہ تو ا س وقت جبكہ ہم سر زمين عقبى پر رسول اكرم (ص) كے ہاتھوں پر اس بات كيلئے عہد و پيمان كر رہے تھے كہ جہاں بھى رہينگے حق قائم كر كے رہينگے ، تو ہمارے ساتھ نہيں تھا ہم نے يہ عہد كيا ہے كہ خدا كى راہ ميں كسى ملامت كى پرواہ نہ كرينگے ، رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جب كسى كو ديكھو كہ رو در رو كسى كى مدح كر رہا ہے تو اسكے منھ ميں دھول جھونك دو(۵)

____________________

۲_ صحيح مسلم ج۵ ص ۴۶ ، تہذيب ابن عساكر ج۷ ص ۲۱۲

۳_ مسند احمد ج ۵ ص ۳۱۹ ، سنن نسائي ج۲ ص ۲۲۲

۴_ اسد الغابہ ج۳ ص ۱۰۶ ، اعلام النبلاء ج۲ ص ۲

۵_ سير اعلام ج۲ ص ۲ ، تہذيب ابن عساكر

۴۷

ايك دوسرے دن معاويہ نے اپنى تقرير ميں مرض طاعون سے فرار كے سلسلے ميں كچھ باتيں كہيں ، عبادہ وہاں موجود تھے ، انھوں نے كہا كہ تيرى ماں ھندہ تجھ سے زيادہ دانا تر تھى ، معاويہ نے خطبہ تمام كيا پھر نماز پڑھى اور اپنے قصر ميں واپس جا كر عبادہ كو بلانے كے لئے ادمى بھيجا ، كچھ انصارى افراد شام ميں تھے جو عبادہ كے ساتھ ہو گئے ليكن حكومتى افراد نے ان لوگوں كو قصر ميں داخل ہونے سے روكا ، عبادہ اكيلے ہى معاويہ كے پاس پہونچے معاويہ نے ان سے كہا ، كيا تمھيں خوف خدا نہيں ہے اور اپنے امام سے شرم و حيا نہيں كرتے ، معاويہ نے امام سے خود، اپنے كو مراد ليا تھا _

عبادہ نے جواب ديا كيا تم نہيں جانتے كہ ميں نے شب عقبى رسول(ص) خدا سے عہد ليا تھا كہ اللہ كى راہ ميں ہم كسى سر زمين سے خوف نہ كھائينگے _

معاويہ اس دن نماز عصر كے لئے آيا نماز ختم كرنے كے بعد منبر تھام كر بولا ، اے لوگو ، ميں تم سے حديث بيان كرتا ہوں اور اپنے گھر واپس چلا جاتا ہوں ، پھر مجھے ايسى چيز ملتى ہے كہ عبادہ نے اسے دوسرى طرح سے بيان كيا ہے ان كى بات صحيح ہے تم لوگ انھيں كى پيروى كرو كيونكہ وہ مجھ سے زيادہ جانتے ہيں _

ان سارے حوادث ميں جن سے معاويہ كى نرمى كا اندازہ ہوتا ہے خلافت عمر كے زمانہ تك رہى كيونكہ وہ عمر كى سختى اور طاقت سے بہت ڈرتے تھے ، انكى تند مزاجى حد سے اگے بڑھنے كى اجازت نہيں ديتى تھى _

معاويہ و عثمان

معاويہ كى حالت عثمان كے زمانے ميں وہ نہيں تھى جو قبل كے دونوں خليفہ كے زمانے ميں تھى _

معاويہ، عثمان كے زمانے ميں پورى طرح مطلق العنان ہو كر تمام قانون و اخلاق كو بالائے طاق ركھ چكا تھا _

ثروت و اقتدار نے انھيں تما م اسلامى مسائل اور انسانى تقاضوں كو فراموش كر ديا تھا _

ابن عساكر اور ذہبى نقل كرتے ہيں كہ ، ايك دن عبادہ بن صامت دمشق كى سڑكوں سے گذر رہے تھے ، انھوں نے اونٹوں كى قطار يں ديكھيں جن پر شراب تھى ، پوچھا ، يہ كيا ہے؟ كيا روغن زيتون ہے ؟

۴۸

لوگوں نے كہا _ نہيں _ يہ شراب ہے _ معاويہ نے اسے خريدا ہے ، انہيں كے لئے لے جائي جارہى ہے ، عبادہ بے دھڑك بازار سے ايك تلوار لائے اور شراب كى تمام مشكوں كو پھاڑ ڈالا _

ابو ھريرہ اس زمانے ميں شام ميں ہى تھے ، وہ رسول خدا (ص) كے زمانے ميں تو كسى گنتى ميں نہيں تھے ليكن بعد رسول (ص) خلافتوں كى پشت پناہى كيوجہ سے لائق صد احترام ہو گئے تھے ، معاويہ نے ايك شخص كو ابو ھريرہ كے پاس بلانے كے لئے بھيجا ،اور كہا كہ اپنے بھائي عبادہ كو كيوں نہيں روكتے ، وہ صبح صبح بازار ميں پہونچكر ذميوں كى اجيرن كر رہے ہيں ، راتوں كو مسجد ميں بيٹھ كر سوائے اسكے اور كوئي كام نہيں كہ ميرى چھتاڑ مچائيں _

ابو ھريرہ معاويہ كے كہنے سے عبادہ كے پاس جانے كے لئے گھر سے نكلے ، جس وقت ان سے ملاقات ہوئي تو بولے اے عبادہ ، تمھيں معاويہ سے كيا مطلب ، انھيں ان كے حال پر چھوڑ دو ان كے كاموں ميں مداخلت كيوں كر رہے ہو ، عبادہ نے كہا اے ابوہريرہ جس وقت ہم نے رسول(ص) خدا سے عہد و پيمان كيا تھا كہ اپكى باتوں پر توجہ ديں گے _

اور اپنى طاقت بھر امر بالمعروف اور نہى از منكر كرينگے ، تم تو اسوقت ہمارے ساتھ نہيں تھے ، ابو ھريرہ كو خاموشى كے سوا كچھ بس نہ چلا ، مجبور ہو كر معاويہ نے عثمان كو خط لكھا كہ عبادہ اہل شام كو خراب اور فاسد كر رہے ہيں يا تو اپ انھيں اپنے پاس بلايئےور انھيں انكے اقدامات سے روكئے يا پھر ميں ہى شام كو انكے اختيار ميں ديدوں عثمان نے انھيں لكھا كہ عبادہ كو شہر سے نكال دوتا كہ اپنے وطن مدينہ واپس اجائيں _

مورخين كا بيان ہے كہ جس وقت عبادہ مدينہ آئے اور عثمان كے پاس گئے تو عثمان اپنے گھر پر بيٹھے تھے ، اچانك انھوں نے سراٹھايا تو عبادہ كو اپنے سامنے كھڑا پايا ان سے بولے ، تمھيں ہم لوگوں سے كيا مطلب ، تم ہمارے امور ميں كيوں ٹانگ لڑا رہے ہو ؟

عبادہ وہيں لوگوں كے سامنے كھڑے ہو كر كہنے لگے ، ميں نے رسول اسلام كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے كہ ميرے بعد ايسے لوگ حكومت كرينگے جو اپنے عمل سے تمھيں منكرات اور نا شائستہ حركتوں كا رسيا بنا دينگے ، اور اچھائيوں كى تمہارى عادت ہو گى ، اسكو چھين لينگے ، ايسى صورت ميں ايسے پاپيوں كى اطاعت تمھارے لئے مناسب نہيں ، ديكھو ہو شيار خدا كى راہ و روش سے اپنے كو گمراہ نہ كرنا _

ابن عساكر كى روايت كے مطابق ، ا س كے بعد مزيد كہا كہ اس خدا كى قسم جس كے قبضہ قدرت ميں عبادہ

۴۹

كى جان ہے ، معاويہ اس گروہ كا ايك فرد ہے _

عبادہ كى باتيں سنكر عثمان نے پھر كچھ نہ كہا ، اورنہ كوئي اعتراض كيا(۶)

معاويہ كى شراب خوارى اور اصحاب رسول (ص) سے نوك جھونك يا لڑائي جھگڑے كى داستان صرف عبادہ ہى تك منحصر نہيں ہے ، مورخين كا بيان ہے كہ :

عبد الرحمن بن سھل بن زيد انصارى جہاد ميں شريك ہونے كى غرض سے شام و دمشق گئے ہوئے تھے ، اس زمانے ميں جيسا ہم جانتے ہيں كہ معاويہ كى حكومت شام پر تھى ايك دن وہ راستے سے گذر رہے تھے كہ كچھ شراب كى مشكوں كو لے جاتے ديكھا _

اپنے نيزے سے تمام مشكيزوں كو پھاڑ ڈالا ، مشك كے ہمراہ جو غلام تھے ان سے ہاتھا پائي كرنے لگے ، يہاں تك كہ معاويہ كے پاس خبر پہونچى ، معاويہ نے اپنے كارندوں سے كہا ، انھيں چھوڑ دو ا ن كى عقل زائل ہو گئي ہے _

معاويہ كى بات عبد الرحمن سے بيان كى گئي تو بولے خدا كى قسم ميرى عقل نہيں مارى گئي ہے _ليكن رسول خدا (ص) نے ہميں حكم فرمايا ہے كہ شراب اپنے گھروں ميں ہرگز نہ لے جائيں ،ميں قسم كھاتا ہوں كہ اگر ميں اس سر زمين پر رہونگا اور معاويہ كو وہ باتيں كرتا ہوا ديكھوں گا جن سے رسول خدا نے منع فرمايا ہے تو اسكا پيٹ پھاڑ دونگا، يا پھر اس راہ ميں جان ديدونگا(۷)

مسند احمد بن حنبل ميں عبد اللہ بن بريدہ سے منقول ہے كہ :

ميں اپنے والد كے ہمراہ معاويہ كے يہاں گيا ، ہميں فرش پر بيٹھا يا گيا اور كھانے كے بعد شراب پيش كى گئي ، معاويہ نے اسكو نوش كيا ، پھر ايك شراب كا جام ميرے والد كو ديا ليكن ميرے والد نے انكار كرتے ہوئے كہا ، جب سے رسول اكرم (ص) نے شراب كو حرام كيا ہے اس دن سے ميں نے منھ كو نہيں لگايا ہے ()

معاويہ كى شراب نوشى كى اسكے علاوہ بھى ڈھير سارى داستانيں ہيں جنھيں ابن عساكر نے نقل كيا ہے(۸) ، جنھيں اس سے زيادہ كى طلب ہو تو اسكى معتبر كتابوں كى طرف رجوع كريں _

____________________

۶_ تہذيب ابن عساكر ج۸ ص ۲۱۲ ، اعلام النبلاء ج۲ ص ۴ ، مسند احمد ج ۵ص ۳۲۵

۷_ اصابہ ج۲ ص ۳۹۴ ، استيعاب ص ۴۰۰ ، اسد الغابہ ج۳ ص ۲۹۹ ۳_مسند احمد بن حنبل ج۵ ص ۳۴۷

۸_ ابن عساكر ج ۷ ص ۲۱۳ _ ۳۴۸ ، اصابہ ج۲ ص ۲۸۲

۵۰

ابوذر معاويہ كے مقابل

انہيں عثمان كے زمانے ميں معاويہ سے مشہور اور بزرگ جرى صحابى رسول حضرت ابوذر كى سخت محاذ ارائي ہوئي ، اسكى تفصيل تو طوالت چاہتى ہے ليكن ہم نا گزير طور سے ا س كا مختصر تذكرہ كر رہے ہيں ، مورخين كا بيان ہے كہ ابوذر ان پاكباز مسلمانوں ميں ہيں جو زمانہ جاہليت ميں بھى توحيد پرست تھے وہ خدا كو يكتا مانتے تھے جاہلى عہد ميں وہ بت پرستى سے متنفر رہے(۹)

جب انھيں خبر ملى كہ مكے ميں پيغمبر اخر كا ظہور ہوا ہے تو لپك كر مكہ پہونچے وہ پانچويں يا چوتھے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول كيا _

انہوں نے مسلمان ہونے كے دوسرے دن مسجد الحرام ميں جاكر مشرك قريش كے سامنے بلند آواز سے اپنے اسلام كا اظہار فرمايا ، ان پر قريش نے چاروں طرف سے حملہ كيا اور ا س قدر زد و كوب كيا كہ لہو لہان ہو كر بيہوش ہو گئے ، اگر رسول اكرم (ص) كے چچا عباس مدد كو نہ پہونچتے تو ممكن تھا كہ لوگوں كى اذيت سے مر جاتے ، كچھ دير بعد زخمى حالت ميں تھكے تھكے اپنى جگہ سے اٹھے ايك كونے ميں گئے تاكہ زخموں كو دھوئيں اور اذيت و تكليف كم كر سكيں _

دوسرے دن بھى ابوذر مسجد الحرام ميں آئے اور بلند آواز سے خدا كى يكتائي اور محمد (ص) كى رسالت كا اعلان كيا ، انھيں حق كى راہ ميں كسى قسم كا خوف و ہراس نہيں تھا ، دوسرى بار بھى لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور پہلے دن كى طرح زد و كوب كر كے لہو لہان كر ديا _

ا س كے دوسرے دن بعد اپ حكم رسول (ص) سے اپنے وطن واپس چلے گئے تاكہ وطن والوں پر اپنے اسلام كا اظہار كر كے

____________________

۹_ طبقات كبرى ج۴ ص ۲۲۳، سير اعلام ج۲ ص ۳۸ ، اسد الغابہ ج۱ ص ۳۰۱

۵۱

تبليغ كر سكيں ، ابوذر اپنے قبيلہ غفار ميں پلٹ گئے اور انھيں قبول اسلام پر امادہ كرنے كى بہت كوشش كى اسى طرح كئي سال گذر گئے يہاں تك كہ انھوں نے خبر سنى كہ رسول(ص) اسلام مدينہ ہجرت كر گئے ہيں اور وہاں شان و شوكت بڑھ گئي ہے ، انھوں نے دوبارہ رخت سفر باندھا اور اپنے كاشانہ كو خير اباد كر كے اپنے خليل كے جوار ميں جانے كا قصد كيا تاكہ انھيں كے زير سايہ سكون پائيں ، ا پ كى ہجرت جنگ خندق كے بعد ہوئي ہے ، ا س كے بعد تو انھوں نے ايك لمحے كے لئے بھى رسول اكرم (ص) كا ساتھ نہيں چھوڑا اپنى صلاحيت بھر انھوں نے انحضرت(ص) سے علم و روحانيت كے خرمن سے كسب فيض كيا ، انھوں نے ا س قدر خلوص كا مظاہرہ كيا ، اس قدر عبادت و رياضت كى اس قدر ذكر و فكر ميں اپنا سر كھپايا كہ محبوب ترين اصحاب رسول (ص) ميں شمار كئے جانے لگے _

پيامبر اكرم (ص) نے بہت سى احاديث صحيح ميں اپكى ستائشے فرمائي ہے

۱_ وما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء من ذى لہجة اصدق من ابى ذر _ ترجمہ : نہ نيلگوں اسمان نے سايہ كيا اور نہ زمين نے بوجھ اٹھايابوذر ايسے سچے انسان كا _

۲_ جنگ تبوك ميں ابوذر لشكر اسلام سے پيچھے رہ گئے تھے ، كيونكہ اپكا اونٹ بہت ہى كمزور تھا لہذا اس نے اپكا ساتھ نہيں ديا ، ناچار ،وہ سوارى سے اتر پڑے اور ايسے ا س كے حال پر چھوڑ كر اپنا سامان پشت پرلادا ، اور پيادہ ہى لشكر اسلام سے ملحق ہو نے كے لئے چل پڑے ، صحراء تپ رہا تھا ،ريگ زاروں ميں سوزش تھى اس لئے چلنے ميں بڑى تكليف ہو رہى تھى ، ليكن ابوذر كے سچے عشق و ايمان نے يہ كام بھى سہل و اسان بنا ديا تھا ، بڑى محنت اور كوشش كے بعد اپ نے اپنے كو لشكر اسلام تك پہونچايا ، جس وقت رسول (ص) نے اپ كو ديكھا كہ اكيلے ہى مجاہدان اسلام كى طرف چلے ارہے ہيں تو فرمايا :'' رحم الله ابا ذر، يمشى وحده و يموت وحده و يبعث وحده ''

ترجمہ : خدابوذر پر رحمت نازل كرے وہ اكيلے چليں گے ، اكيلے مرينگے ، اور اكيلے ہى مبعوث ہو نگے_(۱۰)

____________________

۱۰_ سيرہ ابن ھشام ج۴ ص ۱۷۹ ، طبرى ج۳ ص ۴۵

۵۲

جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے تو جب تك انھوں نے اپنے رشتہ داروں كى منھ بھرائي نہيں كى ، چند سال تك اسى طرح حكومت كرتے رہے جيسے ابو بكراور عمر كى حكومت تھى _

قريش كے معزز لوگ ان سے راضى تھے ليكن جس روز سے بنى اميہ كے لوگ حكومت ميں نفوذ پيدا كرنے لگے تو تمام سرداران قريش طلحہ ، زبير ، عمر وعاص اور ان كے ہم خيال افراد عليحدہ ہو گئے ،معاشرتى حالت منقلب ہو گئي ، اپنے داماد مردان كو بہت بڑا تحفہ افريقہ كى تمام امدنى دے ڈالى اپنے دوسرے چچيرے بھائي جنكا نام حارث بن حكم تھا بيس ھزار درہم بخش ديا ، اپنے ايك ہواہ خواہ زيد بن ثابت انصارى كو ايك لاكھ درہم ديديا ، اس زمانے ميں ابوذر نے اپنى عظيم ذمہ دارى كا احساس كيا كہ عام مسلمانوں كا مال خطر سے دو چار ہے ، ابوسفيان كى تمنائوں كے مطابق جاہلى حكومت واپس ارہى ہے ، انھوں نے قران كے فراموش شدہ احكام ياد دلا كر مسلمانوں كو غفلت سے چونكا يا ، انھيں احساسات كى بناء پر اپ نے اس آيت كو اپنا شعار قرار ديا ،'' الذ ين يكنزون الذ ھب و الفضة ولا ينفقونھا فى سبيل اللہ فبشرھم بعذاب اليم ''سورہ توبہ آيت۳۴

ترجمہ : جو لوگ سونے و چاندى كو ذخيرہ كرتے ہيں اور اسے راہ خدا ميں خرچ نہيں كرتے پيغمبر اپ انھيں دردناك عذاب كى بشارت ديديں _

اپ كا روئے سخن بنى اميہ كى طرف تھا ، جو مسلمانوں كے بيت المال كو ذاتى جا گير سمجھ بيٹھے تھے اور بڑے اطمينان سے استفادہ كر رہے تھے جسے چاہے ديديتے، محل كى تعمير كر رہے تھے نيز بخشش و اسراف كر رہے تھے ، ابوذر كى باتيں ناگزير طور پر اموى خلافت كے متضاد تھيں ، ابوذر اور عثمان كے درميان تلخ كلامى بڑھنے لگى ، عثمان نے ديكھا كہ ابوذر جيسے سچے اور خدا ترس مجاہد اسلام سے چھٹكارا پانا مشكل ہے وہ كسى حالت ميں بھى جاہلى رسموں كو اسلام كے زير سايہ پروان چڑھتے برداشت نہيں كرينگے ، كبھى اسكى تائيد نہ كرينگے ، عثمان نے ابوذر كو حكم ديا كہ شام چلے جائيں وہاں مسلمانوں سے روميوں كى جنگ ہو رہى تھى ، شايد ابوذر وہاں جا كر جنگ ميں الجھ جائيں اور خلافت كو اس سے نجات مل سكے ، ليكن شام ميں كون حكومت كر رہا تھا معاويہ ، جو بنى اميہ كى فرد تھا گھنگھور جاہليت كا نمائندہ ، پكا منافق جو اسلام كا لبادہ اوڑھے ہوا تھا ، نا چار وہاں بھى ابوذر امر بالمعروف اور نہى از منكر سے باز نہيں آئے ، معاويہ جيسا كہ بيان كيا گيا ، جاہليت كا ركن بزرگ تھا جو عثمان كى مدد سے ايك وسيع و عريض مملكت اسلامى پر حكومت كر رہاتھا ، وہاں بھى جھڑپ نا گزير تھا ، ابوذر نے وہاں معاويہ كى غير اسلامى حركتوں ، مطلق العنانى اور كافرانہ حركتوں پر ٹوكا اور منع كيا _

۵۳

ايك دن معاويہ نے ان كے پاس تين سو دينار بھيجے ، ابوذر نے معاويہ كے فرستادے كو ديكھا جو سونے كے تين سو دينار لايا تھا ، اس سے فرمايا ، اگر يہ رقم بيت المال سے سالانہ وظيفہ ہے جس سے سال گذشتہ محروم ركھا گيا تو اسكو قبول كرتا ہوں ، ليكن يہ ہديہ اور تحفہ ہے تو مجھے اس كى ضرورت نہيں ہے _

جس گھڑى معاويہ اپنا عالى شان محل بنوا رہا تھا ، وہ قصر بہت عظيم اور سنہرا ،پتھروں سے تعمير ہو رہا تھا ، ا س وقت تك اسلام ميں ايسا كوئي قصر نہيں تھا ، وہ اسلامى عہد ميں جاہلى ہوا پرستى كا نمونہ تھا ، ابوذر صدائے فرياد بلند كرنے لگے ، انھوں نے معاويہ كو مخاطب كر كے فرمايا اے معاويہ ، اگر اس قصر كو بيت المال سے تعمير كروا رہا ہے تو قطعى طور پر تم نے خيانت كى ہے ، كيونكہ ايسے اموال كو مسلمانوں اور اسلام كى فلاح و بہبودى ميں خرچ ہونا چاہئے ، يہ كسى كى مخصوص ملكيت نہيں ہے ، ليكن اگر يہ خود كا مال ہے تو اسراف و زيادتى كيا ہے، ارے ايك شخص اپنے رہنے كے لئے اتنا بڑا قصر بلا وجہ بنو ارہا ہے ، معاويہ كى بولتى بند تھى ، ابوذر ہميشہ مضبوط منطقى بنيادوں پر خطابت فرماتے تھے _

ابوذر نے بارہا فرمايا ، خدا كى قسم ، تو ايسى حركات كا مرتكب ہو رہا ہے جسكا نمونہ نہ تو اسلامى معاشرے ميں ہم نے ديكھا، نہ سنا _

قسم خدا كى _ يہ حركتيں نہ تو قران كے مطابق ہيں اور نہ ہى سنت كے مطابق ، خدا كى قسم ، ميں حق كو ديكھ رہا ہوں ،كہ بجھ رہا ہے ، باطل زندہ ہوتے ديكھ رہا ہوں سچوں كى تكذيب كى جا رہى ہے ، نالائقوں اور اواروں كو سر بلندى مل رہى ہے ، امير المومنين (ع) جسيے صالح اور نيك كردار كو خانہ نشينى پر مجبور كيا جا رہا ہے(۱۱)

لوگ اس بوڑھے خير خواہ كے گرد خدا و مخلوقات كى رضا كے لئے جمع ہو گئے ، تاكہ اسكى دل سے نكلى باتيں جو خدا و اسلام كے دفاع سے ميں ان سے فائدہ اٹھا سكيں ، ليكن كيا معاويہ جيسا طاغوت اسكى اجازت دے سكتا تھا ، اس نے اعلان كرا ديا كہ ، اے لوگو كوئي شخص ابوذر سے ملاقات نہ كرے نہ انكى صحبت ميں بيٹھے _

كيونكہ وہ اسلام كے معدودے چند مخلصوں ميں تھے جو شام كى سر زمين پر زندگى گذار رہے تھے اسلام نہ تو جاہليت سے سمجھوتہ كر سكتا ہے نہ جاہليت اسلام سے

_____________________

۱۱_ مروج الذھب ، ابن اثير ج۵ ص ۱۶۳_ ۱۶۱

۵۴

ايك مورخ لكھتا ہے: معاويہ نے شب كے سناٹے ميں ايك ہزار دينار ابوذر كے پاس بھيجا ، انھوں نے اسى رات تمام ديناروں كو فقراء ميں تقسيم كر ديا ، كيونكہ روح زاہدانہ اور تربيت اسلامى اس كى متقاضى نہيں تھى كہ مال دنيا كو دوست ركھے ، صبح سويرے جب معاويہ نماز كے لئے آيا تو اس نے اس فرستادے كو بلايا كہ تيزى سے جائو اور ابوذر سے كہو كہ مجھے معاويہ كے عذاب و شكنجہ سے نجات ديجئے ، ميں نے غلطى سے گذشتہ شب دوسرے كا پيسہ اپ كى خدمت ميں پيش كر ديا تھا ، ميں چاہتاہوں كہ اپ اسكو مجھے واپس كر ديں تاكہ اصلى جگہ پر پہونچا سكوں اور معاويہ كى سزا سے بچ سكوں _

ابوذر نے فرمايا ، اس سے كہو كہ ابوذر نے كہا ہے كہ خدا كى قسم اس صبح كے اجالے تك اسميں كا ايك پيسہ بھى باقى نہيں بچا ہے تم مجھے تين دن كى مہلت دو تاكہ فقراء سے وہ پيسہ واپس لے سكوں معاويہ نے سمجھ ليا كہ يہ شخص صرف كہتا ہى نہيں ہے بلكہ پہلے ہى مرحلے ميں اقدام كر بيٹھتا ہے ، اسكى گفتار عمل سے ہم اھنگ ہے _

يہى وجہ تھى كہ معاويہ ابوذر سے خوف كھانے لگا ، اكيلے ابوذر معاويہ كو لرزہ بر اندام كر رہے تھے _

كيونكہ وہ اسلام شناس اور اس پر عمل بھى كرتے تھے _

اس وقت معاويہ نے مجبور ہو كر اپنے رہبر سے پناہ مانگى اور اس نے عثمان كو لكھا كہ ، اگر تمہيں شام اور اسكے باشندوں كو بچانا ہے تو ابوذر كو اپنے پاس بلا ليجئے كيونكہ انھوں نے لوگوں كے سينے كينے سے بھر ديئے ہيں(۱۲)

بقول بلاذرى كے، كہ عثمان نے جواب خط ميں لكھا ، ابوذر كو ايك سخت و سر كش سوارى سے مدينہ بھيج دو ، وہ بوڑھے صحابى ايك سر كش سوارى پر زبر دستى سوا ر كئے گئے ، رات دن بغير كہيں دم لئے مدينہ كى طرف ليجائے گئے راستہ بہت طويل اور تھكا دينے والا تھا ، صحراء خشك اور ريگ زاروں سے بھرا ہوا ، كارندے ہر قسم كے انسانى جذبات رحم سے عارى تھے(۱۳)

يعقوبى نے مزيد تفصيل لكھى ہے كہ ، عثمان كا يہ سخت فرمان اس بندہ خاص پر نافذ كيا گيا ، نتيجہ يہ ہوا كہ جس وقت وہ مدينہ پہونچے تو ران كا گوشت اڑ چكا تھا(۱۴)

____________________

۱۲_ سير اعلام النبلاء ج۲ ص ۵۰

۱۳_ انساب الاشراف ج۵ ص ۵۳

۱۴_ يعقوبى ج۲ ص ۱۲۲

۵۵

مسعودى لكھتا ہے كہ :اپكو اس شتر پر سوار كيا گيا جس پر صرف ايك سوكھى لكڑى تھى پانچ سنگ دل ادمى صقالبہ سے ان كے ساتھ ہوئے جو سوارى كو بڑى تيزى سے ہنكا رہے تھے ، اسى طرح انھيں مدينہ تك لے جايا گيا اپ كى ران سخت زخمى ہو چكى تھى ، گوشت اڑ چكا تھا ، نتيجہ يہ كہ اپ پر يہ چنددن ايسے گذرے كہ بالكل مردہ حالت ميں ہو گئے تھے _

ليكن يہ دلير ايسا نہ تھا كہ ان ہوائوں سے لرز جائے نہ اپنے بارے ميں قران و اہلبيت كى ذمہ داريوں كو فرموش كر جائے ، وہ پہاڑ كى طرح ڈٹے رہے جسے كوئي حادثہ اسكى جگہ سے ٹس سے مس نہ كر سكا اسى طرح وہ مدينہ تك گئے ، وہ چلانے لگے عثمان نے جاہلى عہد پلٹا ديا ہے وہ كہہ رہے تھے چھو كروں كو حكومت ديدى گئي ہے حكومت كى جا گير يں اپنى خاص ملكيت بنا لى ہيں ، فتح مكہ كے طلقاء كى عزت افزائي كى جا رہى ہے انكو حكومت ميں خاص تقرب حاصل ہے _

اس مرد خدا كى يہى سزا تھى كہ ربذہ جلا وطن كر ديا جائے ، وہ سخت اور خشك صحراء نہ اب و گياہ نہ چارہ ، وہيں پر ابوذر نے اسلام سے قبل زندگى گذارى تھى ، انھيں ربذہ سے سخت نفرت تھى _

اس كے بعد ابوذر كى تمام زندگى ربذہ ميں گذرى وہ اخرى سانسوں تك اسى ہولناك بيابان ميں رہے ، اخر كار اپنى زوجہ اور فرزند ذر كى موت كے بعد بھوك اور بيمارى كيوجہ سے موت كے منھ ميں پہونچ گئے ، موت كے وقت انكے سرہانے صرف انكى بيٹى تھى مورخين كے بيان كے مطابق ابوذر نے ايك سال شام ميں گذارے ، وہ ۲۹ھ ميں شام سے جلا وطن كئے گئے ۳۰ھ ميں معاويہ نے عثمان سے شكايت كى پھر انھيں اس اندوہ ناك طريقے سے جسكو اوپر بيان كيا گيا ، مدينہ روانہ كيا گيا ، پھر وہ اسى سال ربذہ تبعيد كر ديئے گئے ، وہيں ربذہ ميں انھوں نے ۳۱ھ يا ۳۲ ھ ميں وفات پائي _

۵۶

تاريخ اسلام كا ايك افسانہ

جو كچھ ہم نے گذشتہ صفحات ميں حضرت ابوذر كى زندگى اور انكى مدينے سے شام اور شام سے مدينہ اور مدينہ سے ربذہ كى جلا وطنى بيان كيا يہ سب اصل ميں صحيح ترين روايات كا خلاصہ تھا جسے مورخوں نے ہمارے حوالے كيا _

ليكن جو كچھ طبرى اور انكے پير و كاروں ، ابن اثير ، ابن كثير ، ابن خلدوں ، ابوالفداء ، وغيرہ نے اس بارے ميں جو كچھ روايات كو سيف بن عمر كوفى سے حاصل كيا ہے جو تاريخ كا سب سے بڑا مكار اور جھوٹى روايتيں گڑھنے والا ہے _

طبرى اور دوسرے مورخين نے اس سال كے تاريخى حوادث كو سيف ہى كے بناوٹى ذہن سے حاصل كيا ہے اور اپنى تاريخوں ميں اس جھوٹ كو بھر ديا ہے _

طبرى اپنى تاريخ ميں لكھتا ہے اس سال يعنى ۳۰ھ ميں ابوذر كا واقعہ پيش آيا كہ انھيں معاويہ نے شام سے مدينہ جلا وطن كيا ، اس جلا وطنى كا سبب راويوں نے مختلف انداز سے بيان كيا ہے جنھيں بيان كرنا ميں مناسب نہيں سمجھتا _

ليكن جن افراد نے معاويہ كى صفائي ديتے ہوئے داستانى عذر تراشا ہے اسكى روايت سيف سے لى گئي ہے اور اس نے يزيد فقعسى سے روايت كى ہے ، فقعسى يہاں كہتا ہے كہ جس وقت ابن سوداء شام ميں وارد ہوا تو اسكى ابوذر سے ملاقات ہوئي اس نے كہا ، اے ابوذر كيا اپكو معاويہ كى حركتوں پر تعجب نہيں ہے كہ جو يہ كہتا پھررہا ہے كہ مال، اللہ كا مال ہے حالانكہ ہر چيز خدا كى ملكيت ہے _

پھر وہ اضافہ كرتا ہے گويامعاويہ چاہتا ہے كہ تمام عوامى مال اور بيت المال كى امدنيوں كو ہڑپ لے اور مسلمانوں كو اس سے محروم ركھے(۱۵)

يہاں طبرى نے تاريخ اسلام كے ہيرو عبد اللہ بن سبا كو ابن سوداء كے لقب سے ياد كيا ہے جس كى بناوٹى و جعلى

____________________

۱۵_ طبرى ج۵ ص ۶۶

۵۷

افسانوں كو ميں نے اپنى دو جلدوں پر مشتمل كتاب عبداللہ بن سبا ميں بيان كيا ہے ، اگر قارئين كرام جذبہ ء مطالعہ ركھتے ہيں تو اس كتاب كى طرف رجوع كريں _

طبرى كے بعد جتنے بھى مورخين آئے ہيں كم و بيش سب نے اس كى پيروى كرتے ہوئے اس خيالى شخص كے بارے ميں اسى سے نقل كيا ہے مثلا ابن اثير جو ساتويں صدى ہجرى كے مشہور مورخ ہيں اپنى كتاب ميں رقمطراز ہيں كہ ، اسى سال ۳۰ھ ميں ابوذر كى جلا وطنى كا حادثہ جو معاويہ كے ہاتھوں پيش آيا ، انھوں نے انھيں شام سے مدينہ جلا وطن كيا اس بارے ميں اور اسكى وجوہات كے سلسلے ميں بہت سى باتيں كہى گئيں ہيں ،ان ميں يہ ہے كہ معاويہ نے ابوذر كو بہت زيادہ برا بھلا كہا اور ڈرايا دھمكايا ، معاويہ نے انھيں بے كجاوہ او نٹ پر سوار كر كے مدينہ بھيجا وہ مدينہ اس ناگوار حالت ميں پہونچے جس كا بيان كرنا مناسب نہيں

اگر يہ تمام واقعات صحيح ہيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ عثمان كے لئے عذر تراشى كى جائے مثلا يہ كہ امام و پيشوا كو اپنى رعيت كى تاديب كرنى چاہيئے يا اسى طرح كا كوئي عذر تراشا جائے _

نہ يہ كہ اس طرح كے واقعات كو بيان كر كے عثمان پر لعن و طعن و تنقيد كى جائے ، اس قسم كے واقعات كا بيان كرنا ميں مناسب نہيں سمجھتا ليكن معاويہ كى صفائي دينے والوں نے اس بارے ميں بہت سى صفائي دى ہے اور وہ كہتے ہيں كہ(۱۶)

اس كے بعد وہ جھوٹے اور خيالى ہيرو عبد اللہ بن سبا كى داستان سيف بن عمر كى زبانى طبرى سے نقل كرتے ہيں ، يہ وہى حركت ہے جو ابن كثير و ابن خلدون اور دوسرے لوگوں نے كى ہے _

ليكن جب ہم طبرى كى باتوں پر رجوع كرتے ہيں تو ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ ابوذر كے ساتھ پيش انے والے بے شمار حوادث كو غلط اور جعلى ہونے كيوجہ سے نہيں چھوڑا ہے، بلكہ صرف اس وجہ سے بيان كرنا پسند نہيں كرتا كہ وہ نہيں چاہتا ہے كہ اصحاب رسول (ص) ميں عثمان و معاويہ جيسے افراد كا كہيں دامن، داغدار نہ ہو جائے _

اسى لئے وہ عذر تراشى كرنے اور صفائي دينے والوں كے سراغ ميں جاتا ہے اور اپنى تاريخ كى بڑى كتاب كو

____________________

۱۶_ تاريخ كامل ج۳ ص ۴۳

۵۸

جھوٹى خبروں اور افسانوں سے بھر ڈالتا ہے ، ان روايتوں كو اس نے خود بنام قصہ ياد كيا ہے اس طرح انے والى نسل كے لئے حقيقت كا دروازہ بند كر ديتا ہے اور ابوذر جيسے پاك نفس صحابى رسول كو اندھيرے ميں ڈال ديتا ہے _

قرن وسطى كا بزرگ مورخ ابن اثير بھى اسى كى ڈگر پر چلا اور اس نے اس عظيم جنايت اور تاريخ كى دلسوز حقيقت كو طبرى كے حوالے سے لكھ مارتا ہے ، ابن اثير نے بہت سى باتيں لكھنے كے بعد اسكے اسناد اور حوالوں كى تضعيف نہيں كى ہے ، انھيں بہت تفصيل سے لكھ مارا ہے ، كيونكہ وہ سمجھتا ہے كہ اس قسم كى باتوں كا بيان كرنا مناسب نہيں كيونكہ انھيں نقل كرنے سے خلفاء اور اموى حكمرانوں كا دامن داغدار ہوتا ہے _

ليكن ہم اج نہ تو عيب جوئي كے پيچھے پڑے ہيں نہ بلاوجہ كسى كى صفائي پر تلے ہيں بلكہ صرف حوادث تاريخ كى واقفيت اور اسكى جستجو ميں ہيں تاكہ علم و دانش كى خدمت كر سكيں ، ليكن ہم ان تاريخ اسلام كے حقاےق كو چھپانے والے مورخين كو ہرگز معاف نہيں كر سكتے كيونكہ ان لوگوں نے اپنى اس حركت سے صرف خوشنودى خلفاء اور اموى حكمرانوں كى خدمت ہى كى ہے _

ابوذر كا واقعہ جيسا كہ ہم نے ملاحظہ كيا طبرى نے سيف سے نقل كيا ہے دوسرے تمام مورخين نے بھى يا تو سيف سے نقل كيا ہے يا طبرى كے واسطے سے نقل كيا ہے ، يہ داستان خود عبد اللہ بن سبا كے افسانہ كا جز ہے جو سيف ابن عمر كے فكر كى ساختہ و پرداختہ ہے ، ہم نے اس كتاب كى دوسرى جلد ميں افسانہ عبد اللہ بن سبا كا سند و اصل كے ذريعہ چھان بين كى ہے ، يہاں صرف اتنا اضافہ كرنا مناسب سمجھتے ہيں كہ ابوذر كا واقعہ زيادہ تر عبد اللہ بن سبا كے واقعہ ميں سيف پر انحصار كرتے ہوئے لكھا گيا ہے اور اس نے سارا ماجرا يزيد فقعسى سے نقل كيا ہے _

اب ہميں جاننا چاہيئے كہ يزيد فقعسى كون ہے ؟ اور اسكى روايت كيا ہے ؟

ہم نے اس شخص كو پہچاننے كے لئے تمام موجودہ كتب رجال و حديث و تاريخ و سيرت و انساب اور ادبيات اسلام كو كھنگال مارا ، اصولا اسكے بارے ميں كوئي چھوٹى سى روايت يا نام نہيں پايا ، سوائے ان روايتوں كے جنھيں طبرى و ذہبى نے سيف سے نقل كيا ہے اور وہ بھى چھ روايتيں ہيں پانچ تو طبرى كى ہيں اور ايك ذہبى كى تاريخ اسلام ميں ديكھى جا سكتى ہے ، اس سے زيادہ كچھ نہيں _

سيف متذكرہ روايات ميں داستان عبد اللہ بن سبا كو يزيد فقعسى سے نقل كيا ہے اس ميں ايك روايت ابوذر

۵۹

كے واقعہ سے مخصوص قرار ديا ہے اس روايت ميں سيف نے عظيم صحابى اور پيغمبر كے دانائے راز ابوذر كو اتنا پست دكھايا ہے كہ وہ عبد اللہ بن سبا جيسے ايك مجہول يہودى كے زير اثر اگئے ، اور معاويہ اور دوسرے اموى حكمرانوں كے خلاف بغاوت پر امادہ ہو گئے اس طرح انھوں نے تمام مملكت اسلامى كوفتنوں ميں جھونك ديا _

ان روايات سے واضح ہوتا ہے كہ ان تمام ہنگاموں ميں امويوں كى كوئي ذرہ برابر غلطى نہيں ہے نہ معاويہ كى نہ عثمان كى اور نہ دوسرے حكمرانوں كى ، ان سب كا دامن برگ گل كى طرح پاك و صاف ہے _

ہم مدتوں تحقيق كے بعد داستان ابوذر اور عبد اللہ بن سبا كى سند سے اس نتيجہ تك پہونچے كہ ان سارى داستانوں كو مورخوں نے سيف بن عمر سے روايت كى ہے اور سيف اول درجے كا جھوٹا اور جعل ساز تھا ، اس نے اپنے ذہن سے ايك واقعاتى روايت گڑھ لى اور اس نے راوى كا يزيد فقعسى جيسے جھوٹے راوى كو بھى اختراع كر ليا ، كہ جعلى راوى فقعس كے قبيلے كا فرد ہے جو قبيلہ اسد كى شاخ تھى ،ليكن سيف نے اپنى تمام روايات ميں قبيلہ كا نام تو لكھا ہے ليكن اس كے باپ كا نام نہيں لكھا ہے جيسےاس كا كوئي باپ ہى نہيں تھا ، سچى بات تو يہ ہے كہ اس راوى كا باپ اور تمام ساختہ و پر داختہ صحابہ و راويان كے باپ جو داستان سيف كے پيرو ہيں يہ صرف سيف بن عمر تميمى كى اختراع ہيں اكيلے سيف كى اختراع وحدہ لا شريك لہ _

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ تاريخ كے بزرگ علماء جيسے طبرى ، ابن اثير ، ابن عساكر ، ابن خلدون ، ابن عبد اللہ ،اور ابن حجر كے علاوہ دوسرے سب كے سب اپنى تاريخوں ميں سيف بن عمر كى جعلى روايتوں كو جو ايك نمبر كا جھوٹا مكار تھا اس سے ليكر بہت سے مسلمانوں كے عقائد كو اصحاب رسول (ص) كے بارے ميں گندہ كر ديا ہے _

اج ان افسانوں كى حيثيت ہو گئي ہے اور لوگ دين اسلام كو اسى راہ سے پہچان رہے ہيں ، كيا اج بارہ صدياں گذرنے كے بعد اجازت ہے كہ ہم ان افسانوں كو حديث اور تاريخ كى كتابوں سے نكال ديں ، تاكہ لوگوں كے لئے اصل اسلام كى پہچان اسان ہو سكے _

كوفے كے قارى شام ميں

معاويہ كى نوك جھونك صرف ابوذر غفارى و عبادہ جيسے افراد سے نہيں ہوئي تھى بلكہ اسكى خاص عادت يہ تھى كہ جو

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213