تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 213
مشاہدے: 52341
ڈاؤنلوڈ: 2699


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52341 / ڈاؤنلوڈ: 2699
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد 3

مؤلف:
اردو

بھى تھوڑا سا اسلام كى معلومات ركھتا تھا اس سے اختلاف كر بيٹھتا تھا اسى لئے اس نے كوفے كے ان قاريوں سے جو شام جلا وطن كر ديئے گئے تھے سخت جھگڑا كر ليا عظيم مورخ بلاذرى اپنى كتاب انساب الاشراف ميں لكھتے ہيں _

جب حكومت كوفہ سے عثمان نے وليد كو معزول كر ديا تو اسكى جگہ سعيد بن عاص كو منصوب كر ديا عثمان نے سعيد بن عاص سے كہا كہ كوفہ والوں سے اچھے انداز ميں پيش انا اور انكى خاطر و مدارات كرتے رہنا اور وليد كى طرح اہل كوفہ سے اختلاف كر، نہ بيٹھنا ، انہيں وجوہات كى بناء پر سعيد بن عاص بزرگان شہر اور قاريوں كے ساتھ ہر شب اٹھتا بيٹھتا تھا اور ان لوگوں سے گفتگو كيا كرتا تھا _

ايك دن سعيد بن عاص كے گھر سواد و جبل پر بحث چھڑى ، حاضرين نے سواد كى پيداوار كو جبل عامل پر ترجيح ديكر كہا كہ سواد ميں جبل ( لبنان ) كى تمام پيداوار كے علاوہ اس ميں خرما كے درخت بھى پائے جاتے ہيں _

دار وغہ شہر نے كہا ، اے كاش ان پيداواروں كا تعلق امير ( سعيد ) سے ہوتا كيونكہ امير ان زراعات و باغات كے ديكھ بھال كى صلاحيت بھى ركھتے ہيں _

مالك اشتر نے جواب ديا ، اگر امير كے لئے ارزو كرتے ہو تو ارزو كرو كہ انھيں اس سے بہتر باغات و زراعات نصيب ہو ليكن ہمارے اموال كو ان كے لئے ارزو نہ كرنا اور ا س كو اس كى حالت پر چھوڑ دو _

شہر كے داروغہ نے كہا ، انھيں اس ارزو نے كيا نقصان پہونچاديا كہ اس طرح كى تلخ كلامى كر رہے ہيں ، خدا كى قسم ،اگر امير نے ٹھان ليا تو ان تمام باغوں پر قبضہ كر سكتے ہيں _

مالك اشتر نے جواب ديا ، خدا كى قسم اگر ان باغات كو لينے كا ارادہ كر بھى ليں تو اس كو نہيں لے سكتے ہيں سعيد ابن عاص ان باتوں سے بہت غضبناك ہوا اور حاضرين سے مخاطب ہو كر كہا :

سواد كے باغات صرف قريشيوں ( قريش سے مراد بزرگان بنى اميہ و قبيلہ بنى تيم اور عدى نيز اسكے مانند جو مكہ ميں تھے بر خلاف انصار كے در اصل اہل يمن سے ہونگے ، اور مالك اشتر نيز اہل كوفہ اسى قبيلوں سے تھے ) كا مال ہے _

مالك اشتر نے غصے ميں كہا كہ ، تم چاہتے ہو كہ ہمارى جنگوں كے ثمرات اور جو كچھ خدا وند عالم نے ہميں نصيب فرمايا ہے اس كو اپنے خاندان اور اپنے قبيلوں ميں تقسيم كردو ، خدا كى قسم اگر كسى نے ان زمينوں كى طرف ترچھى

۶۱

نگاہ سے بھى ديكھا تو اسكو ايسا مزہ چكھائوں گا كہ ڈر كے مارے بھاگ جائے گا(۱۷)

اس بات كے بعد مالك اشتر داروغہ پر حملہ اور ہوئے ليكن اطرافيوں نے انكو پكڑ ليا _

سعيد بن عاص نے اس واقعہ كو عثمان كے يہاں خط لكھ كر تاكيد كيا كہ جب تك مالك اشتر اور انكے ساتھى ( جو قاريان كوفہ كے نام سے جانے جاتے ہيں كچھ نہيں جانتے اور ان كے پاس عقل بھى نہيں ہے ) اس شہر ميں رہينگے تو ہمارى كوئي ذمہ دارى نہيں رہے گى _

عثمان نے جواب ميں لكھا كہ ، ان تمام لوگوں كو شام بھيج دو ، قاريان كوفہ جنھوں نے سعيد سے جھگڑا كر ليا تھا كوفہ سے جلا وطن كر كے دمشق بھيج ديئے گئے _

معاويہ جو بہت چالاك تھا اس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے يہ كام كيا كہ ان قاريوں كا خير مقدم كر كے ان لوگوں كو اپنے قريب كر ليا ليكن حالات ہميشہ يكساں نہيں رہ سكتے تھے مالك اشتر اور ان كے دلير ساتھى دين شناس تھے جبكہ معاويہ مكار اور بے دين تھا اس صورت ميں ان سب كا ايك ساتھ رہنا ممكن نہيں تھا ، سر انجام جس دن كاانتظار تھا وہ دن اگيا ، مالك اشتر اور معاويہ كے درميان سخت كلامى ہوئي جسكى وجہ سے مالك اشتر كو رسى ميں جكڑ كے زندان ميں ڈال ديا گيا ، وہاں وہ طويل زمانے تك رہے مگر چھوٹنے كے بعد حالات نے اپنے اپ كروٹ لے لى كيونكہ مالك اشتر اور انكے ساتھى جو حاكم شام معاويہ سے دور ہو گئے تھے انھوں نے اہل دمشق كے ساتھ اٹھنا بيٹھنا شروع كر ديا ، اس كى خبر عثمان كو دى گئي كہ جو لوگ ہمارے يہاں آئے ہيں انھيں نہ عقل و شعور سے واسطہ ہے اور نہ ہى دين و مذہب سے لگائو ہے ان كا مقصد صرف فتنہ پرورى ہے ، مجھے انديشہ ہے كہ كہيں يہ لوگ يہاں رہ گئے تو فتنہ و فساد كو پھيلا دينگے ، اہل شام كو بغاوت پر امادہ كر دينگے ،ان لوگوں سے ان باتوں كو سيكھ لينگے جو ابھى تك نہيں جانتے ہيں ، شام والے بھى اہل كوفہ كى طرح فاسد اور اپنى اعتدال فكر كو كھو بيٹھيں گے _

عثمان نے سوچا كہ مالك اشتر اور ا ن كے ساتھيوں كو ايك دور افتادہ شہر كى طرف بھيجديا جائے تاكہ ان لوگوں كى چھاپ نہ پڑ سكے ، معاويہ نے ان تمام لوگوں كو شہر حمص بھيج كر عثمان كے حكم كى تعميل كى(۱۸)

پہلى صدى كا مشھور مورخ مدائنى نقل كرتے ہيں :

ان لوگوں كى شام ميں معاويہ كے ساتھ نشست ہوئي تھى اس نشست ميں ايك دوسرے كو برا بھلا كہتے تھے _ منجملہ

____________________

۱۷_ انساب الاشراف ج۵ ص ۴۰

۱۸_ انساب الاشراف ج۵ ص ۴۳

۶۲

ايك روز معاويہ نے يہ كہديا كہ ،قريش سے يہ بات ڈھكى چھپى نہيں ہے كہ ميرا باپ ابوسفيان قريش ميں سب سے زيادہ معزز اور با وقار تھا ، ليكن رسول (ص) كو نبوت مل گئي جو كسى اوركو نصيب نہ ہو سكى اگر تمام لوگ ابوسفيان كى اولاد ہوتے تو سب كے سب حليم و بردبار ہوتے _

صعصہ بن صوحان نے فورا جواب ميں كہا :

اے معاويہ تو جھوٹ بولتا ہے ، حضرت ادم ابوسفيان سے بہر حال بہتر تھے جو اللہ نے اپنے دست قدرت سے پيدا كيا ان ميں اپنى روح پھونكى فرشتوں كو سجدہ پر مامور فرمايا ، انكى اولاد ميں عقلمند بھى ہيں اور بيوقوف بھى اچھے بھى ہيں اور برے بھى پائے جاتے ہيں تمام ايك شكل كے نہيں ہيں(۱۹)

جيسا كہ اپ نے ملاحظہ فرمايا ، معاويہ جس طرح ابوذر غفارى اور عبادہ جيسے صحابى رسول كے شام ميں رہنے سے كڑھتا تھاا سى طرح نہيں چاہتا تھا كہ تابعين اور قاريان قران اور نيك و صالح افراد اس شہر ميں رہيں ، اس مسئلے نے معاويہ كو اس قدر حيران و پريشان كيا كہ فورا خليفہ سوم سے شكوہ و شكايت كيا ، معاويہ كو اس بات كا خوف تھا كہ كہيں يہ لوگ حقائق اسلام كو جو لوگوں سے پنہاں كر ركھا ہے ان سے بيان نہ كر ڈاليں ، اگر يہ لوگ احكام خدا كو جان گئے تو پھر ہمارى قيصر و كسرى كى شان و شوكت اور خواہشات نفسانى خاك ميں مل جائے گى _

معاويہ عثمان كے بعد

جيسا كہ پہلے ملاحظہ كيا گيا كہ _ دولت كى جمع اورى اور عثمان كے رشتہ دار جو تمام اسلامى سر زمين پر قبضہ كئے ہوئے تھے ان كے جرائم نے تمام بڑے بلاد اسلامى كو فتنہ و اشوب كے سيلاب ميں گھير ليا تھا ، اور ناراض مسلمانوں نے مدينہ كے اندر عثمان پر عرصہ حيات كو تنگ كر ڈالا تو جس طرح خليفہ سوم نے تمام حكمرانوں اور واليان شہر كو خط لكھا اور ان

____________________

۱۹_ طبرى ج۵ ص ۹۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۶۰

۶۳

لوگوں سے مدد مانگى تھي، اسى طرح معاويہ كو بھى خط بھيجا اور اس سے مدد و نصرت طلب كى _

عثمان نے معاويہ كو اس طرح خط لكھا :

اہل مدينہ نے كفر اختيار كر ليا ہے اور اطاعت و پيروى كا قلادہ گردن سے اتار كر اپنى بيعت كو توڑ ڈالا ہے ، لہذا جتنا بھى ممكن ہو سپاہ شام كو ہمارى نصرت كے لئے جلد بھيج دو ، خط معاويہ كو ملا اس نے اچھے طريقہ سے حالات كو پڑھ ليا ، شايد اس انتظار ميں تھا كہ عثمان كے مرتے ہى تخت خلافت پر قبضہ ہو جائے گا ، اسى بناء پر عثمان كے تمام حقوق كے باوجود جو اسكى گردن پر تھے مدد پہونچا نے ميں كسى قسم كى جلدى نہيں دكھائي ، اور اپنى كوتاہيوں كى اس طرح توجيہ و تاويل كى كہ _ ہم مسلمين اور اصحاب رسول (ص) كى مخالفت سے راضى نہيں ہيں ، جب عثمان نے اپنے خط كے سلسلے ميں پہلو تہى ديكھى تو اہل شام كو خط لكھا اور ان سے درخواست كى كہ _ تم لوگ ہمارى نصرت كے لئے شہر سے نكلو _

بلاذرى لكھتے ہيں

جب عثمان نے معاويہ كو خط بھيجا اور اس سے مدد مانگى تو معاويہ نے يزيدابن اسد قسرى كى سر براہى ميں چھوٹى سى فوج مدينہ كى جانب روانہ كى ، اور يزيد بن اسد قسرى كو كہا كہ جس وقت تم سر زمين ذا خشب پر پہونچنا تو اسى مقام پر پڑائو ڈالدينا اور اسكے اگے نہ بڑھنا ، كبھى اپنے ذہن ميں بھى نہ لانا كہ ہم پائے تخت اسلامى كے حوادث و واقعات سے باخبر نہيں ہيں اور معاويہ كى عدم موجودگى ميں تمام چيزيں ڈھكى چھپى ہيں ، درانحاليكہ ہم با خبر بھى ہيں اور موجود بھى ؟ لشكر اپنے سربراہ كے ساتھ مدينہ كى طرف روانہ ہوا ، جب مقام ذاحشب پر پہونچا تو يہيں پر ٹھر گيا ، اور اس قدر دير لگائي كہ عثمان لوگوں كے ہاتھوں سے مار ڈالے گئے ، جب پانى نيزے سے اتر گيا اور فتنہ و اشوب فرو ہوگئے تو معاويہ نے يزيد بن اسد كو لشكر كے ہمراہ واپس بلواليا _

تيسرى صدى كا معتبر مورخ بلاذرى كا كہنا ہے كہ ، معاويہ نے بغير سوچے سمجھے ايسا نہيں كيا تھا وہ چاہتا تھا كہ عثمان اس حادثہ ميں مار ڈالے جائيں ، پھر اسكے بعد اپنے كو بھتيجے كى حيثيت سے خلافت و حكومت كا حقدار ثابت كر دے(۲۰)

____________________

۲۰_ شرح النہج ص ۵۸

۶۴

ليكن جب كہ اپ جانتے ہيں كہ ايسا نہيں ہوا اور لوگ امير المومنين (ع) كے گرد جمع ہو گئے اور ان كو خليفہ تسليم كر ليا ، جب حضرت على (ع) كے ہاتھوں پر بيعت ہو گئي تو معاويہ جس نے عثمان كى مدد كرنے ميں كوتاہياں كى تھيں بہت شرمندہ ہوا ، كيونكہ اب تخت خلافت بہت دور نظر انے لگا ، لہذا ايك نئي چال چلى كہ طلحہ و زبير كو مخفيانہ طور پر خط لكھا اور اس خط ميں كچھ ايسى باتيں تحرير كيں تاكہ ان دونوں كے دل خلافت كى چٹكياں لينے لگيں ، كيونكہ يہ دونوں ہوا پرست اور خلافت عثمان كے زمانے ميں دولت و ثروت كى چاشنى بھى چكھے ہوئے تھے ، اسى بناء پر يہ دونوں معاويہ كے دام فريب ميں اگئے(۲۱) _

معاويہ كا نقشہ يہ تھا كہ ان دونوں كو جوان دنوں صاحب نفوذ و رسوخ سمجھے جاتے تھے ، حضرت امير المومنين سے جنگ كرنے پر ابھاردے ، البتہ خليفہ مظلوم اور قصاص خون عثمان ان دونوں كے لئے اچھا بہانہ تھا ، طلحہ و زبير نے معاويہ كى مكارانہ چال ميں اكر خونبار جنگ جمل برپا كر دى _

جيسا كہ پہلے بيان كيا گيا ہے كہ اغاز جنگ ميں طلحہ مار ڈالے گئے اور زبير نے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھى اور مرد تميمى كے ہاتھوں بے رحمانہ قتل كر ديئے گئے(۲۲)

اس طرح معاويہ كے دو طاقتور رقيب خلافت كے سلسلے ميں ميدان سے خارج ہو گئے جى ہاں جب كوئي مارا جاتا تھا تو معاويہ كى خلافت قريب الوقوع نظر انے لگتى تھى _

جب امير المومنين (ع) تخت خلافت پر آئے تو جرير كو پيغام ديكر معاويہ كے يہاں بھيجا ، اور اس سے بيعت طلب كى _

معاويہ نے جرير سے كہا _ اپنے رفيق كو لكھ دو كہ ہم دو شرط كے ساتھ بيعت كرنے پر حاضر ہيں _

۱_ شام اور مصر كو ہمارے حوالے كر ديں نيز ان دونوں سر زمين كا خراج ہمارا ہو گا

۲_ مرتے وقت كسى كى بيعت كا قلادہ ہمارى گردن ميں نہ ڈاليں

اس عبارت سے بخوبى واضح ہو جاتا ہے كہ خلافت سے معاويہ كا اشتياق كس قدر ہے معاويہ جانتا تھا كہ

____________________

۱۲_ مروج الذھب ج۲ ص ۳۳۳

۲۲_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵۸۱

۶۵

حضرت امير المومنين (ع) سے رقابت نہيں ہو سكتى ، كيونكہ جو فضيلتيں امام (ع) ميں پائي جا رہى تھيں مجھ ميں نہيں ہے _

اسى وجہ سے خليفہ وقت كے خلاف بھڑكانے كى جرائت و جسارت نہيں ہو رہى تھى ، اسى لئے وہ چاہتا تھا كہ پہلے عائشه طلحہ و زبير اس خطرناك راستے كو طے كريں ، اسكے بعد وہ اس راستہ كو طے كرے ، لہذا بہتريہى ہے كہ امام (ع) سے جنگ كرنے كے بجائے ان سے مصر اور دوسرے بڑے شہروں كى مانگ كر كے اپنى حكومت كو وسيع كرے تاكہ امام (ع) كے مرتے ہى بڑے اطمينان كے ساتھ تخت خلافت پر براجمان ہو جائے ، جرير نے معاويہ سے كہا كہ تمھيں جو كچھ لكھنا ہے لكھو ہم خط نہيں لكھيں گے _

معاويہ نے اپنى رائے كو امام (ع) كے پاس لكھ كر بھيجا ، امام (ع) نے جرير كے ذريعہ معاويہ كو جواب ديا كہ تو نے حتمى فيصلہ كر ليا ہے كہ ميرى بيعت نہيں كرے گا اور جو كچھ دوست ركھتا ہے اسكو انجام ديگا ، وہ چاہتا ہے كہ تم كو اتنا سر گردان و معطل ركھے تاكہ لوگوں كى توجہات كو مبذول كرلے _

جب ہم مدينہ ميں تھے تو مغيرہ بن شعبہ نے اس طرح كا اشارہ كيا تھا كہ معاويہ كو شام كى حكومت پر رہنے ديجيئے ليكن ہم اس كام كو ضرور انجام دينگے ، اس لئے كہ ہم نہيں چاہتے ہيں كہ خدا وند عالم معاويہ جيسے بدكردار و گمراہ كے ذريعہ ہمارى مدد و نصرت كرے ، اگر اس نے ميرى بيعت قبول كر لى تب تو ٹھيك ہے ورنہ فورا ہمارى طرف پلٹ ائو(۲۳)

اٹھويں صدى كا مورخ ابن كثير اپنى تاريخ البدايہ و النہايہ ميں لكھتے ہيں :

عقبہ بن ابى معيط نے جب يہ سنا كہ معاويہ نے حضرت على (ع) سے مصر اور شام كى حكومت كا مطالبہ كيا ہے تو اس نے معاويہ كو ايك خط لكھا اور اس خط ميں اسكى خوب مذمت كى نيز اس ميں چند اشعار لكھكر روانہ كئے جس كا ترجمہ يہ ہے كہ ، معاويہ شام كى حكومت كو ہاتھ سے نہ جانے دينا ذرا دشمن سے ہوشيار رہنا كيونكہ يہ دشمن ادہے كى مانند ہے لہذا اسكو چھوڑ نہ دينا ، على (ع) اسكے منتظر ہيں ، كہ تم كيا جواب ديتے ہو، اسكے خلاف جنگ كے شعلے ايسے بھڑكا دے كہ جوانوں كے سياہ بال سفيد ہو جائيں ، شام سے شمشير اور نيزوں كى حمايت كر اور ہاتھ پر ہاتھ ركھكر نہ بيٹھنا اور نہ اس سلسلہ ميں تساہلى كرنا اور اگر ايسا نہيں كرنا ہے تو سر تسليم كو خم كر دے _

____________________

۲۳_ نصر بن مزاحم كى صفين ص ۵۸ ، شرح النہج ج۱ ص ۲۵۰

۶۶

تاكہ جو لوگ امن پسند اور جنگ كے خواہاں نہيں ہيں وہ اطمينان و ارام كے ساتھ زندگى گذار سكيں اور يہ بات كسى سے ڈھكى چھپى نہيں ہے _

اے حرب كے بيٹے ، تم نے طمع و حرص ميں اكر جو اسكو خط لكھديا ہے اس كام كو انجام ديكر اپنے سر پر بہت بڑى مصيبت مول لى ہے _

معاويہ ،حضرت على (ع) سے جو تم نے خواہش ظاہر كى ہے وہ ہرگز پورى نہيں ہو سكتى ، اور اگر اپنى مراد تك پہونچ بھى گئے تو سوائے چند دنوں كے زيادہ پايدار بھى نہيں ہے _

اخرتيرے دل ميں اس قدر تمنائيں كروٹ لے رہى ہيں جو ايك نہ ايك دن ہلاكت كى باعث ضرور بنيں گي، لہذا بہتر يہى ہے كہ اپنے دماغ سے ان امنگوں كو نكال دے ،كيونكہ على (ع) جيسے تمہارے دام فريب ميں نہيں اسكتے ہيں ، اور اس سے تم نے اچھے طريقہ سے ان كى ازمائشے بھى كى ہے جو تم نے خراب كيا اسكو على نے بنايا ہے _

اگر اس كے چنگل ميں ايك بار چلے گئے تو ياد ركھو كہ تم نے تو اسكى كھال نہيں كھينچى ليكن وہ تمھارى كھال كو ادھيڑ دے گا(۲۴)

صفين معركہ حق و باطل

اس سے قبل اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ _ معاويہ نے كس طريقہ سے عثمان كے تمام حقوق كے باوجود جو اسكى گردن پر تھے انكى نصرت كرنے ميں كوتاہى كى ، اور اس قدر عذر تراشى كى كہ ناراض مسلمانوں نے انكو گھر كے اندر قتل كر ڈالا ، شايد معاويہ اس انتظار ميں تھا كہ جو اسكى خلافت كى راہ ميں كانٹے ہيں وہ سب صاف ہو جائيں ، ليكن قتل عثمان كے بعد معاويہ كى خواہش كے بر خلاف لوگوں نے امير المومنين(ع) كو خليفہ تسليم كر ليا ، جب زمام حكومت على (ع) كے ہاتھوں ميں اگئي تو اپ نے خاص طور سے اپنى بيعت كا مطالبہ معاويہ سے كيا لہذا معاويہ نے ايك بڑى پلاننگ تيار كى _ اس نے مظلوميت عثمان اور انتقام خون كو بہانہ بناكر جو پہلى مرتبہ جنگ جمل ميں اس پرچم كو لہرايا جا چكا تھا امام (ع) سے بر سرپيكار ہو

____________________

۲۴_ بدايہ النھايہ ج ۸ ص۱۲۹

۶۷

جانے اور اسكے ذريعہ سے اپنے دل كى تمنائيں نيز اپنے باپ ابو سفيان كى وصيت پورى كر كے اسلام كى وسيع و عريض حكومت كو اپنے ہاتھوں ميں لينے كا ارادہ كيا _ اسى لئے اس نے عثمان كا خون الود كرتہ مسجد دمشق كے منبر كے نزديك لٹكا ديا ، بوڑھے اسكے گرد جمع ہو كر رونے لگے ، پھر اپنى تقرير ميں اس بات كا اعلان كيا كہ ميں مقتول كا وارث ہوں اور جن لوگوں نے خليفہ كو ناحق قتل كيا ہے ان سے خون كا انتقام لينا چاہيئے اہل شام معاويہ كے دام فريب ميں اكر سخت دھوكہ كھائے ، جى نہيں ، بلكہ ان لوگوں نے يزيد بن ابو سفيان ( برادر معاويہ ) كے ہاتھوں اسلام كو قبول كيا تھا اور تقريبا بيس سال سے معاويہ كى حكمرانى ميں زندگى گذار رہے تھے ، لہذا ايك طرف شام والوں كى سادہ لوحى تھى ، جسكى وجہ سے بنى اميہ جدہر چاہتے تھے انكو گھما ديتے تھے اور دوسرى طرف خاندان بنى اميہ سے ان لوگوں كى بيس سالہ رفاقت و محبت تھى ، يہى وہ كڑى سے كڑى تھى جو اہل شام كو معاويہ كے افكار و نقشہ كو قبول كرنے ميں معاون ومدد گار ثابت ہوئي ، اسى لئے شام والوں نے فورا اس كى بيعت كر كے اس كے فرمان پر اپنا سر تسليم خم كر ديا(۲۵) اہل شام چاہتے تھے كہ امام (ع) سے جنگ كريں كيونكہ ان لوگوں كو سمجھايا گيا تھا كہ قاتل عثمان اپكے حاشيہ نشين اور پناہ ميں ہيں ، لہذا ان لوگوں كو كھينچ كر لايا جائے گا پھر خليفہ ء مظلوم كے خون كا بدلہ ان سے ليں گے _ شام والے معاويہ كى سر براہى ميں خون عثمان كا بدلہ لينے كےلئے امام (ع) سے جنگ كرنے كى خاطر يہاں سے چل ديئے ، دونوں لشكر كا ربيع الثانى ۳۸ھ ميں ميدان صفين ميں امنا سامنا ہوا(۲۶) صفين كے كھلے ميدان ميں نہر فرات كے كنارے دونوں لشكر كے ما بين كافى دنوں تك جنگ بند رہى ، امير المومنين (ع) نے جنگ ميں كبھى پيش قدمى نہيں كى اور جس طرح اسلام نے حكم ديا تھا اسى طرح اپنے لشكر والوں كو دستور ديا ، معاويہ نے پہلے ہى روز نہر فرات كا پانى جو تنھا مخزن اب تھا امام (ع) كے لشكر پر بند كر ديا ، چالاك مشاور عمر و عاص نے كہا _ اے معاويہ _ تمھيں معلوم ہونا چاہيئے كہ على (ع) اور انكے ساتھيوں كے ہاتھ ميں جب تك چمكتى ہوئي تلواريں اور لچكتے ہوئے نيزے ہيں كبھى پياسے نہيں رہ سكتے ہيں ، بہتر يہ ہے كہ تم انھيں پانى سے نہ روكو ، ليكن لشكر امام (ع) كا دلير سردار مالك اشتر كى سعى و كوشش نے نہر فرات كو معاويہ كے سپاہ سے چھين ليا _ جب لشكر على نے نہر فرات پر قبضہ كر ليا تو حضرت على (ع) نے اپنى شان و شوكت سے معاويہ كے پاس پيغام بھيجوايا كہ ، اگر چہ فرات پر ہمارا قبضہ ہے مگر تم اور تمھارى فوج چاہے اور جتنا چاہے پانى لے سكتى ہے اس پر سبھى كا حق بنتا ہے(۲۷) _

____________________

۲۵_ صفين ص ۱۲۸

۲۶_ صفين ص ۲۰۹، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۰

۲۷_ صفين ص ۱۹۳

۶۸

معاويہ كى چالاكي

يہ پہلى جھڑپ دونوں لشكر كے درميان تھى ، جنگ مدت دراز كے لئے متوقف ہوگئي كيونكہ امير المومنين (ع) نے حتى الامكان كوشش كى كہ جنگ اور زبر دستى كے ذريعہ اپنے نظريات كو نہيں تھوپاجائے ليكن شامى سوائے خون عثمان كے كچھ نہيں كہتے تھے ؟

ذى الحجہ كے مہينے ميں بھى چھوٹى موٹى مڈ بھيڑيں ہوئيں ليكن اسكا كوئي خاص نتيجہ نہيں نكلا ، محرم الحرام كى امد پر طرفين جنگ سے دستبرادر ہو گئے ، ليكن اس مہينہ كے تمام ہوتے ہى دوبارہ جنگ شروع ہو گئي ، ان تمام مدتوں ميں معاويہ كى يہى سعى و كوشش رہى كہ كسى نہ كسى طريقہ سے امام عليہ السلام اسكو حكومت شام كا پروانہ لكھديں تاكہ جنگ كا خاتمہ كر دے ، ليكن امام (ع) كسى قيمت پر راضى نہيں تھے كہ معاويہ جيسا انسان انكا ہمنوا بنے_

اخر ايك شديد حملہ ميں لشكر امام (ع) كى شجاعت اور پا فشارى كا نتيجہ يہ ہوا كہ فوج نے داہنى سمت سے اتنى پيش قدمى كى كہ معاويہ كے خيمہ تك پہونچ گئي _ ليكن ميسرہ كى فوج شاميوں كے حملہ كى تاب نہ لاكر پيچھے ہٹ گئي _

اس وقت امام عليہ السلام بہ نفس نفيس ميدان ميں اگئے اور اپنے فرارى لشكر كو للكارا ،پھر معاويہ سے كہا ، اے معاويہ لوگوں كا خون نا حق كيوں بہا رہا ہے ائو ہم دونوں لڑكر فيصلہ كر ليں معاويہ نے جان كے خوف سے امير المومنين كى دعوت قبول نہيں كى كيونكہ خوب جانتا تھا كہ جو بھى بہادر امام (ع) سے مقابلہ كرنے كے لئے ميدان جنگ ميں گيا وہ دوبارہ واپس نہيں آيا ہے _

تمام رات جنگ جارى رہى ، جب رات كا اندھيرا چھٹا تو لشكر امام (ع) كى شكست اخرى مرحلہ ميں تھى ، مالك اشتر كوفہ كے بہادروں كے ساتھ ميمنہ كى طرف سے اور امام (ع) قلب لشكر سے دشمنوں پر تابڑ توڑ حملہ كر رہے تھے ، اور

۶۹

لشكر كوفہ كے سپاہى جب شام كى فوج ميں گھس گئے تو معاويہ نے راہ فرار اختيار كى اسكے سپاہيوں كو سوائے شكست كے كوئي اور چيز نظر نہيں ارہى تھى ، كفر اور جاہليت كا ركن بزرگ ہميشہ كے لئے نيست و نابود ہو رہاتھا اور حكومت علوى تمام بلاد اسلامى پر حكمرانى كرتى نظر ارہى تھى كہ اچانك معاويہ كے مكار مشاور عمر و عاص كے ذہن ميں ايك فتور آيا تب جا كر معاويہ كى جان ميں جان ائي _

عمر و عاص نے معاويہ سے كہا كہ :

لشكر شام كو حكم دو كہ قران كو نيزوں پر بلند كريں فوج شام نے اسكے حكم كى تعميل كر كے يہ كہنا شروع كيا كہ ہم حكم قران پر راضى ہيں اس طرح پانچ سو قران نيزے پر بلند كئے گئے(۲۸) ،امام (ع) كے لشكر كے بے دين افراد نے اس فريب ميں اكر استقامت كرنا چھوڑ ديا _

سوائے چند افراد كے كوئي بھى ثابت قدم نہ رہ سكا خاص طور پر وہ جو معاويہ كے مزدور اور سپاہ كوفہ كے منافقين تھے جيسے اشعث بن قيس كہ اس نے اس راہ ميں خوب فتنہ برپا كيا(۲۹) _

امام (ع) اور ا ن كے لشكر والوں نے بہت سمجھايا بجھايا كہ يہ كام دھوكہ اور سياست ہے يہ لوگ نہ مسلمان ہيں اور نہ ہى قران والے ہيں ہم نے بارہا ان لوگوں كو قران كى طرف دعوت دى ليكن اسكے سايہ ميں نہيں آئے _

لشكر امام (ع) كے افراطى لوگ اشعث بن قيس كى سر براہى ميں بغاوت و سر كشى پر اتر آئے ، اس ہنگامہ بلا خيز ميں مالك اشتر ايك طرف سے لشكر معاويہ كو درہم برہم كئے ہوئے تھے ، عنقريب تھا كہ جنگ لشكر امام (ع) كے حق ميں ختم ہو _

دوسرى طرف اشعث اوراسكے ساتھيوں نے امام (ع) كو سخت محاصرے ميں لے ليا اور ان سے كہا كہ اپ مالك اشتر كو حكم ديں كہ ميدان جنگ سے واپس اجائيں ، امام (ع) نے فرستادہ كو بھيجا ، مالك اشتر نے اس سے كہا كہ انحضرت سے كہنا كہ يہ گھڑى جنگ سے واپس بلانے كى نہيں ہے ، ہميں خدا وند عالم پر بھروسہ ہے كہ جلد كاميابى نصيب كر دے گا ، وہ شخص مالك كا پيغام ليكر لوٹ آيا _

اسى اثنا ء ميں شديد گرد و غبار اور ڈھول تاشے كى آواز ميدان جنگ ميں گونجنے لگى ، لشكر عراق كى فتح اور شام

____________________

۲۸_ مروج الذھب ج۲ ص ۳۹۰

۲۹_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۶۵

۷۰

والوں كى شكست نماياں تھى كہ جو لوگ امام عليہ السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح گھيرے ہوئے تھے انھوں نے فرياد بلند كرنا شروع كر دى كہ اپ نے اشتر كو اتش جنگ بھڑ كانے كا حكم ديا ہے _

امام عليہ السلام نے فرمايا ، وائے ہو تم لوگوں پر ہم نے اپنے فرستادہ سے چپكے سے گفتگو كى تھى آيا تم لوگوں كے سامنے ہم نے واپسى كا پيغام نہيں كہلايا تھا _

ان لوگوں نے امام (ع) سے كہا كہ اپ مالك اشتر كے پاس كہلوايئےہ ميدان سے واپس چلے ائيں _ ورنہ ہم لوگ اپكے لشكر سے علحدہ ہو جائينگے_

امام (ع) نے مالك اشتر كے پاس پيغام بھيجوايا كہ پلٹ ائو ورنہ فتنہ و اشوب بھڑك اٹھے گا ، مالك اشتر نے كہا ، كيوں ، ان قران كى وجہ سے جو نيزوں پر بلند كئے گئے ، فرستادہ امام (ع) نے كہا ، جى ہاں ، مالك اشتر نے كہا ، خدا كى قسم ، مجھے اس بات كاخوف ہے كہ كہيں اسكى وجہ سے ہمارے درميان اختلاف نہ ہو جائے ، فرزند نابغہ عمر و عاص نے اس كام كو كر كے ہمارے ہاتھوں كو باندھ ڈالا ہے _ اہ _ آيا تم نہيں ديكھتے ہو كہ خدا وند عالم نے كس طريقہ سے فتح كو ہمارى جھولى ميں ڈالديا ہے ، ذرا تم خود بتائو يہ وقت ميدان چھوڑنے كا ہے _

امام (ع) كے فرستادہ نے كہا ، اے اشتر تم چاہتے ہو كہ ايك طرف فاتح ميدان بنو اور دوسرى طرف امام (ع) قتل كر ديئے جائيں يا دشمنوں كے حوالہ ہو جائيں ، ان لوگوں نے امام (ع) سے كہا ہے كہ اپ اشتر كو واپس بلواليں ورنہ ہم لوگ اپكو تلوار سے قتل كر دينگے ، جس طريقے سے عثمان كو قتل كيا گيا ہے ، مالك اشتر نے كہا ، خدا كى قسم ، ہم ہرگز ايسى فتح نہيں چاہتے ہيں يہ كہا اور ميدان جنگ سے واپس اگئے اور امام (ع) كى خدمت ميں شرفياب ہو كر ان لوگوں سے مخاطب ہوئے جنھوں نے امام (ع) كو محاصرہ ميں كر ليا تھا_

اے كاہلو _ ايك لمحے ميں دشمن كے اوپر پيروز وكامياب ہو جاتے اور وہ جو كتاب خدا و سنت رسول كو كچل رہا تھا انكو اپنے چنگل ميں كر ليتے مگر اسكے چھوٹے سے فريب ميں اكر پھنس گئے اور قران كے فريبى دعوت ميں اكر ميدان كو چھوڑ ديا مجھے كم از كم ايك ساعت كى مہلت ديدو تاكہ جنگ كو مرحلہ اختتام تك پہونچا دوں ،ان لوگوں نے كہا ، ہم لوگ اس بات كو تسليم نہيں كرتے _

مالك اشتر نے فرمايا : ايك مرتبہ گھوڑا دوڑانے كى مہلت ديدو

۷۱

ان لوگوں نے كہا ، اگر اسكى اجازت دونگا تو تمہارے جرم ميں ہم لوگ شريك ہو جائيں گے مالك اشتر نے فرمايا ، مجھ سے بات بناتے ہو جب تم لوگوں نے جنگ كى تھى اور تمہارے اچھے عمار ياسر جيسے شھيد ہو گئے ، تو اس وقت حق پر تھے ، يا اب جبكہ تم لوگ بچ گئے ہو اور تمھيں لوگ خوا ہاں صلح ہو ؟

اگر اسوقت تم لوگ حق پر ہو تو وہ لوگ جو تم سے بہتر تھے اور انكى پاكيزگى كا تم لوگ انكار بھى نہيں كر سكتے وہ اگ ميں جل رہے ہوں گے ؟

ان لوگوں نے كہا _ اشتر ہم لوگوں كو چھوڑ دو ہم لوگ تمھارى پيروى نہيں كرينگے اور ہمارى نگاہوں سے دور ہو جائو _

مالك اشتر نے جواب ديا ، خدا كى قسم ، تم لوگوں نے دھوكہ كھايا ہے ہم تمھارى نمازوں كو شوق خدا اور زھد دنيا كى دليل سمجھے بيٹھے تھے ليكن اب مجھے معلوم ہو گيا كہ تم لوگ موت كے خوف سے بھاگ رہے ہو اور ابھى دنيا ميں رہنے كا اشتياق ركھتے ہو ، اج كے بعد كبھى عزت و سر بلندى كو نہيں ديكھو گے دور ہو جائو اسى طرح جس طرح ستمكاران دور ہو گئے ، ناہنجار و سر كش افراد ان كے جواب سے ششدر رہ گئے تھے ، اشتر كو برا بھلا كہا گيا ، يہاں تك كہ انكے گھوڑے كو تازيانے سے مارا جب حد سے زيادہ بات بڑھ گئي تو مالك اشتر نے بار ديگر ان لوگوں كو خوب سنايا _

امام (ع) نے جب ان حالات كو ديكھا تو مالك اشتر كو بلا كر ارام كرنے كو كہا ، جسوقت ارام كر رہے تھے تو اشتر نے امام (ع) سے فرمايا كہ ، اقا اتنى اجازت ديديجئے كہ ان لوگوں سے نپٹ لوں اور ان تمام لوگوں كے ہوش كو ٹھكانے تك پہونچا دوں حاضرين نے آواز بلند كرنا شروع كر دى كہ على (ع) حكميت پر راضى ہو گئے مالك اشتر نے كہا ، اگر على (ع) راضى ہو گئے ہيں تو ہم بھى حكميت پر راضى ہيں چارو ں طرف سے ايك ہى آواز تھى على (ع) راضى ہيں ، اس ہنگام ميں امام (ع) سر جھكائے خاموش تھے اور كوئي بات نہيں _(۳۰)

____________________

۳۰_ صفين ص ۴۹۲

۷۲

ابو موسى اور عمر و عاص

اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ، امام (ع) اپنے لشكر كے ان سركش اور باغى افراد كے نظريات كو قبول كرنے ميں مجبور ہو گئے تھے جو حكميت كے خواہاں تھے ، بات انتخاب حكم تك پہونچ گئي شام والوں نے عمر و عاص كو منتخب كيا اشعث اور اسكے كوفے كے ساتھيوں نے جو اس واقعہ كے بعد خوارج كہلانے لگے انھوں نے كہا كہ ، ہم ابو موسى اشعرى كو اس كام لئے منتخب كرتے ہيں _

امام (ع) نے فرمايا ، ہم ابو موسى كو اس اہم كام پر منتخب نہيں كرنا چاہتے ہيں

اشعث اور اسكے ساتھيوں نے كہا ہم سوائے ابو موسى كے كسى كو حكم نہيں بنانا چاہتے ہيں كيونكہ اس نے پہلے ہى ہم لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے سے منع كيا تھا _

امام (ع) نے كہا :ميں اسكى حكميت سے راضى نہيں ہوں كيونكہ اس نے مجھ سے دورى اختيار كى اور لوگوں كو ہمارى مدد سے روكا پھر مجھ سے فرار بھى كيا يہاں تك كہ ہم نے اسكو امان ديا ہم اس كام كے لئے ابن عباس كو نامزد كرتے ہيں _

ان لوگوں نے كہا ، خدا كى قسم ، ابن عباس اور تمھارے ميں فرق ہى كيا ہے لہذا ہم لوگ انكو قبول نہيں كرتے كوئي ايسا شخص لشكر عراق سے حكم ہو جسكى نسبت معاويہ اور تم سے يكساں ہو_

امام (ع) نے فرمايا ، پھر مالك اشتر كو معين كرتا ہوں

اشعث نے كہا _ انھيں كى بدولت تو جنگ كے شعلے بھڑ كے ہيں اور وہ بھلا چاہيں گے كہ تحكيم كامياب ہو ؟ امام (ع) نے فرمايا كہ اشتر كے سلسلے ميں كيا خيال ہے _

ا شعث نے كہا اگر اشتر حكم ہو گئے تو ہمارے اور لشكر شام كے درميان اسقدر تلواريں چلے گيں _كہ اشتر اور تمھارى خواہش پورى ہو جائے گي

۷۳

امام (ع) نے كہا ،اخر عمر و عاص ابو موسى كو فريب ديدے گا

ان لوگوں نے كہا ، ہم ابو موسى كى حكميت پر راضى ہيں

امام (ع) نے فرمايا سوائے ابو موسى كے كسى اور كو قبول نہيں كرو گے ؟

ان لوگوں نے كہا ، جى نہيں

امام (ع) نے فرمايا _ پس جو چاہو كرو

ايك شخص ابو موسى كو بلانے گيا مالك اشتر نے عرض كيا ، امير المومنين(ع) ہم كوبھى اس كے ہمراہ حكميت ميں شريك كر ديجئے ، اس پيشكش كو اہل كوفہ كے درميان ركھا گيا ليكن وہ لوگ اس پر راضى نہيں ہوئے_

پھر قرار داد قلمبند كى گئي كہ دونوں طرف كے حكم اس كے پابند ہو نگے كہ قران كريم اور سنت رسول (ص) كى رو سے فيصلہ كرينگے ، پھر اضافہ كيا گيا كہ اگر حكمين نے قران و سنت رسول (ص) كے خلاف فيصلہ كيا تو مسلمان اس فيصلے كو نہيں مانيں گے ،_ اس عہد و پيمان پر اہل شام كى جانب سے عمر و عاص نے اور ابو موسي( جو بيوقوف اور بے ايمان عراقيوں كى طرف سے منتخب ہوا تھا )نے دستخط كئے دو مہ الجندل كے اجتماع حكمين سے پہلے عمر و عاص نے ابو موسى اشعرى كى خوب تعظيم و تكريم كى اپنے سے بلند دكھانے كے لئے كہا كہ تم تو ہم سے پہلے رسول اسلام (ص) كے ہمنشين ہوئے اور تم ہم سے سن و سال ميں بڑے بھى ہو _

قبل اس كے كہ ابو موسى اور عمر و عاص ميں باہمى اختلاف ہو ابو موسى نے كہا:

اے عمر و عاص آيا تم امت كى صلاح نہيں چاہتے ہو ؟

عمر و عاص نے پوچھا ، امت كى صلاح كس چيز ميں ہے

ابو موسى نے جواب ديا ، صلاح اس ميں ہے كہ حكومت و خلافت كو عبد اللہ بن عمر كے حوالہ كر ديا جائے كيونكہ اس نے ان جنگوں ميں شركت بھى نہيں كى ہے _

عمرو عاص نے كہا _ تم نے معاويہ كو كيوں فراموش كر ديا

۷۴

ابو موسى نے كہا ، خلافت سے معاويہ كو كيا سرو كار ہے وہ تو كسى صورت ميں اسكا مستحق نہيں ہے ، بات طول پكڑ گئي اور دونوں نے كسى پر اتفاق رائے قائم نہيں كيا ، اخر اس مسئلے كو كيسے سلجھايا جائے ، ابو موسى نے كہا ، ميرى رائے يہ ہے كہ ان دونوں ( على (ع) و معاويہ ) كو تخت خلافت سے بركنار كر ديا جائے اسكے بعد خلافت كو مسلمانوں كى شورى پر چھوڑ ديا جائے جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

عمر و عاص نے كہا ، تم صحيح كہتے ہوہم اس رائے پر اتفاق كرتے ہيں ، يہ وہى مشورہ ہے جس ميں عوام كى بھلائي بھى ہے _

دونوں صبح سويرے لوگوں كے جم غفير ميں حاضر ہوئے ، ابو موسى نے عمر و عاص سے كہا كہ منبر پر جا كر اپنى بات كو بيان كرو _

عمر و عاص نے اپنے نقشہ كے تحت جس كا اظہار بھى كيا تھا كہ ہم ہرگز تم پر سبقت نہيں كر سكتے كيونكہ تم ہجرت اور عمر كے لحاظ سے مجھ سے بڑے ہو ، پہلے بولنے كے لئے كہا :

ابو موسى اشعرى كھڑے ہوئے اور منبر پر اكر حمد الہى كے بعد كہا ، اے لوگو ، ہم دونوں نے ان چيزوں كے بارے ميں جو امت اسلامى كى يگانگى اور الفت كو دوبارہ پلٹا دے كوئي چيز ان دونوں ( على (ع) ومعاويہ ) كے بر كنار كرنے سے بہتر نہيں پايا _

اس كے بعد خلافت كو شورى كے حوالہ كر ديا جائے ، تاكہ شورى جس كو چاہے اس كو انتخاب كرے ، اور ميں على و معاويہ كو بركنار كرتا ہوں ، يہ كہہ كر فورا منبر سے اتر آيا ا س كے بعد منبر پر عمر و عاص آيا حمد الہى كے بعد اس طرح تقرير كى كہ ، اس مرد كى باتوں كو تم لوگوں نے سنا اس نے على (ع) كو بركنار كر ديا اگاہ ہو جائو كہ ميں بھى اسى طرح على كو معزول كرتا ہوں اور اس كى جگہ معاويہ كو برقرار كرتا ہوں كيونكہ وہ خون عثمان كا انتقام لينے والا اور ان كا وارث ہے اور اس كى جانشينى كا حقدار بھى ہے ، ابو موسى ان تمام مكارى و دھوكہ دھڑى سے بہت ناراض ہوا اور كہنے لگا تم نے ايسا كيوں كيا خدا وند عالم كبھى تمہارى مدد نہ كرے اور تم نے دھوكہ ديكر گناہ عظيم كيا ہے ، اے عمر و عاص تمہارى مثال اس كتے كى طرح ہے كہ اس پر حملہ كرو تو ،يا اس كو چھوڑ دو تو، منھ سے زبان نكال كر سانس ليتا ہے _

۷۵

عمر و عاص بھى جواب دينے سے نہيں چونكا ، اس نے كہا ، تمھارى مثال اس گدھے كى سى ہے جس پر كتا بيں لاددى گئي ہوں _(۳۱)

حكمين اور ان كے ساتھى بادل نا خواستہ ايك دوسرے كو برا بھلا كہتے ہوئے متفرق ہو گئے ، در انحاليكہ حكميت سے كوئي خاص نتيجہ نہيں نكل پايا تھا سوائے اسكے كہ معاويہ كو امير المومنين كى صف ميں لاكر كھڑا كر ديا گيا ، جبكہ وہ اس وقت سوائے ايك حاكم طاغى كے كچھ نہ تھا جو حكومت اسلامى پر خليفہ نامزد كر ديا گيا تھا ، جنگ صفين ميں لشكر شام كى جانب سے پينتاليس ہزار افراد اور لشكر عراق سے پچيس ہزار افراد قتل ہوئے(۳۲)

شام كے ليٹرے

معاويہ اپنى بچى كھچى فوج كو ليكر ۳۷ھ ميں شام واپس اگيا ، ليكن لشكر امام (ع) اور لشكر حق كو نيست و نابود كرنے كے لئے ايك نئي تدبير سوچى اور اس كو عملى جامہ پہنايا ، معاويہ امير المومنين (ع) كے ما تحتى والے علاقوں ميں وقتا فوقتا چھوٹے موٹے لشكر كو بھيجتا رہا تاكہ سر سبز و شاداب بستيوں كو ويرانے ميں تبديل كر دے _

كچھ افراد جيسے نعمان بن بشير ، سفيان بن عون ، عبد اللہ بن مسعدہ ، ضحاك بن قيس ، بسر بن ارطاة ، اور انكے علاوہ دوسرے لوگ بھى اس جنايت عظيم كے لئے روانہ كئے گئے ، معاويہ كے فرمان سے تمام بلاد اسلامى عراق ، حجاز ، يمن ، كے بے گناہ مسلمانوں كو موت كے گھاٹ اتارا گيا ، اور بستيوں ميں قتل و غارتگرى خوف و دہشت پھيلائي گئي _

ہم اس خونريزى اور قتل و غارتگرى اور ضد انسانيت كى افسوسناك داستان كو ضمير فروش انسانوں كى پہچان كے لئے قارئين كرام كى خدمت ميں پيش كرنا چاہتے ہيں _

____________________

۳۱_ وقعة صفين ص ۵۴۹

۳۲_ صفين ص ۶۴۳

۷۶

۱_ نعمان بن بشير

يہ شخص انصار كے قبيلہ خزرج سے تھا ، نعمان كى پيدائشے رسول (ص) كى رحلت سے چھہ يا اٹھ سال قبل ہوئي عثمان كے زمانے ميں جو فتنہ و اشوب انكى كرتوت كى بناء پر اٹھا تھا اسوقت يہ شخص خليفہ كے ہوا داروں ميں سے تھا ، عثمان كے بعد معاويہ كے ساتھ ہو گيا اور معاويہ كے مرنے كے بعد يزيد كے ہمنوائوں ميں ہو گيا ، نعمان نے اپنى قوم كے بر خلاف كام كيا _

قبائل انصار جو حكومت امير المومنين (ع) اور حضرت اما م حسن (ع) كے زمانہ ميں انھيں دونوں بزرگوں كى ہمراہى كى تھى اور قدم قدم پر ساتھ ديا تھا ، اس نے رو گردانى كى _

نعمان بن بشير يہ وہى شخص ہے جو عثمان كے خون الود پيراہن كو مدينہ سے شام لايا ، جيسا كہ اپ نے ملاحظہ فرمايا ، كہ معاويہ نے اس پيراہن كو مسجد دمشق كے منبر كے نزديك اويزان كر ديا اور شام كے سادہ لوح افراد نے اسكے گرد جمع ہو كر خوب گريہ كيا اور معاويہ نے ان لوگوں كو على (ع) اور انكى خلافت كے خلاف خوب بھڑكايا ، حكومت معاويہ كے زمانے ميں

____________________

۷۷

حاكم كوفہ ہوا اسكے بعد شہر حمص كى فرما نراوئي حاصل ہوئي ، ليكن معاويہ بن يزيد كے بعد عبد اللہ بن زبير كے طرفداروں ميں ہو گيا _

لہذا لشكر اموى نے اسكو'' مرج راہط ''كے مقام پر ذى الحجہ ۶۴ ھ ميں قتل كر ديا(۳۳)

معاويہ نے ۳۹ھ ميں نعمان بن بشير كى سر براہى ميں ايك ہزار كى فوج كے ساتھ عين التمرپر حملہ كرنے كے لئے بھيجا _

اس مقام پر امير المومنين(ع) كى ايك فوجى چھائونى تھى اس وقت صرف سو سپاہى تھے نعمان نے خطرناك حملہ كيا ، ليكن شہر كے شجاع و دلير سپاہيوں نے اپنى تلوار كو نيام سے نكال ليا اور ليٹرے شاميوں كے مد مقابل اكر خوب جنگ كى _

جنگ كے دوران پچاس ادميوں كا ايك مختصر دستہ مدد كے لئے اگيا نعمان نے اس دستہ كو ديكھا تو يہ سمجھا كہ يہ مقدمة الجيش ہے اور اسكے عقب ميں فوج ارہى ہے _

اس نے فورا واپسى كے ارادہ سے رخ موڑ ا اور شام كى جانب بھاگ كھڑا ہوا(۳۴)

۲_ سفيان بن عوف

قلمرو علوى ميں لشكر شام كى جانب سے دوسرى لوٹ كھسوٹ سفيان بن عوف كى سربراہى ميں انجام پائي _

اس نے جنگوں اور فتوحات شام ميں ابو عبيد ہ جراح كے ساتھ اہم كردار ادا كيا تھا معاويہ نے مدتوں بعد روميوں كے مقابلہ ميں جو جنگ و جہاد كا بازار گرم تھا اس كى رہبرى سفيان بن عوف كے حوالہ كر دى ، اخر سر زمين روم ۵۲ ھ ميں دنيا سے گيا _

سفيان بن عوف نے معاويہ كى طرف سے دوسرى ماموريت بھى انجام دى ہے جن ميں عراق كى سرزمين پر حملہ ہے يہ حملہ ۳۹ ھ ميں وقوع پذير ہوا _

معاويہ نے سفيان بن عوف سے چلتے وقت كچھ باتيں كہى تھيں كہ ، اگر تمھارى سفر ميں كسى سے جنگ چھڑ جائے اور مخالف تمھارا دوست نہيں ہے يعنى خاندان اموى كو دوست نہيں ركھتا ہے تو بغير خوف و ہراس كے اسكو قتل كر دينا ، جس

____________________

۳۳_ اسد الغابہ ج۵ ص ۲۳ ، اصابہ ج۳ ص ۵۲۹

۳۴_ طبرى ج۶ ص ۱۷۷ _ ابن اثير ج۳ ص ۱۵۰ _ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۱۳ ، ابن كثير ج ۷ ص ۳۱۹ _ ۳۲۴

۷۸

قريہ اور ابادى سے گذرنا اسكو ويران كر كے مال كو لوٹ لينا ، كيونكہ تخريبى نقطہ نظر سے مال كا لوٹنا قتل كے برابر نہيں ہے چاہے تمہارى جان اس راہ ميں چلى ہى كيوں نہ جائے(۳۵)

طبرى اور ابن اثيرنے اس غارتگرى كى اس طرح منظر كشى كى ہے كہ ، معاويہ نے سفيان بن عوف كى سر كردگى ميں چھہ ہزار كى جمعيت كے ساتھ ھيت و انبار اور مدائن پر حملہ كرنے كے لئے بھيجا معاويہ نے سفيان كو ہدايت كى كہ حملہ كر كے انھيں تباہ و برباد كردے سفيان نے حسب دستور پہلے ھيت كا رخ كيا _

جب سفيان كا لشكرھيت پہونچا تو كيا ديكھا كہ شہر خالى ہے كسكو قتل كرے اور كسے لوٹے اخر مجبور ہو كر اس جگہ سے كوچ كيا اور شہر انبار اگيا ، يہاں پر سو ادميوں كا ايك دستہ شہر كى حفاظت كے لئے متعين تھا ، جب اسے معلوم ہوا كہ فوج كى تعداد كم ہے تو اپنے لشكر كى صف بندى كر كے حملہ كر ديا ، كافى لڑتے جھگڑتے قتل ہو گئے _

اب شاميوں كى چيرہ دستيوں كو روكنے كے لئے كوئي نہ تھا انہوں نے ايك ايك گھر كو لوٹا اخر سفيان اموال كثير كے ساتھ معاويہ كے يہاں پلٹ گيا(۳۶)

اديب شہير و مورخ ابو الفرج نے كتاب اغانى ميں سفيان كے حملے كى داستان كو يوں بيان كيا ہے '' مرد غامدى نے شہر انبار پر حملہ كيا حاكم شہر اور كثير تعداد ميں مردوں اور عورتوں كو بے رحمانہ قتل كيا اس دلخراش حادثہ كى خبر امير المومنين (ع) كو معلوم ہوئي_

اپ نے ايك خطبہ ديا كہ ، تم لوگوں نے ہمارے فرمان كو پس پشت ڈالديا ہے يہى وجہ ہے كہ تمھارے اس پڑوس كے لوگ تم پر حملہ كر رہے ہيں ، يہ مرد غامدى جو شہر انبار ميں اكر حاكم شہر اور كثير تعداد ميں مرد و زن كو موت كے گھاٹ اتار كر چلا گيا ، خدا كى قسم ہميں معلوم ہوا ہے كہ اس نے مسلمان عورتوں اور اہل كتاب پر حملہ كيا اور عورتوں كے زيورات نيز جو كچھ ہاتھ لگا اسكو سميٹ كر چلتا بنا ہے ، شام كے ڈاكو اپنے شہر كى طرف اس طريقے سے پلٹ رہے ہيں كہ انكے ہاتھ اموال سے لبريز اور ايك چھوٹا سا زخم بھى ان كے جسم پر نہيں ہوتا ہے اگر ايك غيور مسلمان اس ضد انسانى اور خلاف اسلام عمل سے رنجيدہ ہو كر مر رہا ہے تو بھتر ہے كہ اسكى مذمت و سر زنش نہ كى جائے(۳۷)

____________________

۳۵_ شرح النہج ج۲ ص ۹۰

۳۶_ عيون الاخبار ج۲ ص ۲۳۶

۳۷_ اغانى ج ۱۵ ص ۴۳

۷۹

۳_ عبد اللہ بن مسعدہ

عبد اللہ بن مسعدہ انھيں ميں سے ايك ہے جسكو معاويہ نے مملكت امام (ع) كى تاخت و تاراجى كے لئے بھيجا تھا ، يہ كمسنى ميں جو زيد بن حارثہ كى جنگ قبيلہ بنى فراز سے ہوئي تھى اس ميں اسير ہوا تھا، رسول اسلام نے اسكو اپنى بيٹى فاطمہ كے حوالہ كر ديا تھا ، ليكن اپ نے اسكو ازاد كر ديا _

عبد اللہ ابتداء ميں امير المومنين(ع) كے چاہنے والوں ميں سے تھا ، ليكن مدت كے بعد معاويہ كے پاس دمشق چلا گيا _

اس نے اپنى فكر كو اس طرح بدل ڈالا كہ امام (ع) كے سر سخت دشمنوں ميں اس كا شمار ہونے لگا ، عبد اللہ بن مسعدہ نے اتنى طولانى عمر پائي كہ يزيد بن معاويہ كے لشكر كے ساتھ واقعہ حرہ كے حملہ ميں شريك ہوا يہ جنگ تمام تر قساوت قلبى اور ہتك حرمت و ذلت كا مظاہرہ تھى اور اس طرح يزيد اور خلافت بنى اميہ كے دامن پر دوسرا دھبہ لگا _

عبد اللہ نے اسكے علاوہ بھى شام كى جانب سے عبد اللہ بن زبير سے جنگ كى اور اسى جنگ ميں برى طرح زخمى ہوا ، مورخين نے اس واقعہ كے بعد كے اسكے حالات قلمبند نہيں كئے ہيں(۳۸) معاويہ نے عبد اللہ بن مسعدہ فرازى كو سترہ سو ادميوں كے ساتھ قلمرو امام (ع) كى جانب روانہ كيا اور اسے حكم ديا كہ مكہ و مدينہ تك بڑھتا چلا جائے اور راستے ميں جو بستياں پڑيں وہاں كے باشندوں سے زكواة و صدقات كو جمع كر لے اور اگر كوئي انكار كرے تو بے دريغ انھيں قتل كر دے _

۴- ضحاك بن قيس

قريش سے ضحاك بن قيس كا شمار معاويہ كے جنگى سربرا ہوں ميں ہوتا تھا ،اس كى ولادت رسول اكرم كى وفات سے سات سال قبل ہوئي تھى _

اس نے معاويہ كى جنگوں ميں بڑھ چڑھ كر حصہ ليا اور بہت سارے اسيروں كو اپنا ہمنوا بنا يا تھا ، ايك مدت تك شہر دمشق كا داروغہ رہا پھر ۵۳ھ ميں كوفہ كا حاكم بنا اور چار سال تك كوفہ پر حكومت كى ،ضحاك بن قيس نے معاويہ كے امور كو مرتے تك انجام ديا ، يزيد جو شكار كے لئے گيا تھا ، اسكے باپ كے مرنے كى خبر اسى ضحاك نے اس تك پہونچائي تھى ،

____________________

۳۸_ اسد الغابہ ج۳ ص ۲۵۵ ، اصابہ ج۲ ص ۳۵۹، جمہرة انساب العرب ص ۲۴۵ ، طبرى ج۴ ص ۸۳ ، يعقوبى ج۲ ص ۴۴

۸۰