کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ مےرے اسلاف اگر موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تےرے ہاتھ شل نہ ہوں۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیعليهالسلام
کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔
اے یزید تو کیوں نہ خوش ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے۔اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
تو نے اولاد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے۔ جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔
تو عنقریب اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ مل جائے گا۔ اور اُس واقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور مےری زبان بولنے سے عاجز ہوتی۔اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے میں باز رہتا۔
اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی !
اے ہمارے کردگارِ حق تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔
اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔
اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔
اے یزید ! تو نے جو ظلم کیا ہے اپنے ساتھ کیا ہے۔تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے۔اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خدا ؐ کے سامنے ایک مجرم کی صورت لایا جائے گا اور تجھ سے تےرے اس گھناؤنے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسولؐ کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو دربدر کیوں پھرایا۔نیز رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا آلِ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کاتجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر مٹ چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی میں سے روزی پا رہے ہیں۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ؐ عدالتِ الٰہی میں تےرے خلاف شکاےت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعے تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یہی بات تےرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تےرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تےری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔
اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں توُ ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس کلام کرنا بھی شریفوں توہین ہے۔ میری اس جرأت سخن پر توُ مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقلال اختیار کروں گی اور تےری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقلال پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنواؤں اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑئےے ان پاکباز شہیدوں کے مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔
اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہاہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تےرے بس سے باہر ہوگا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے۔
اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تمہیں معلوم ہونا چاہئےے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔
تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔
تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو سکتا۔ تےرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔
تےری حیات اقتدار میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔تےرے سب ساتھی تےرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔تےرے پاس اس دن کے لئے حےرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔
ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور ہمارے آخر (امام حسین علیہ السلام) کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے ، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے۔
خطبہ کے اثرات :
سیدہ زینبِ کبریٰ کا حقیقت آمیز مگر آتشیں خطبہ سن کر یزید کانپنے لگا اور اپنے جرائم کے تمام راز فاش ہونے اور اپنے برے انجام کا سن کر اس کے حواس باختہ ہو گئے اسے کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کرے اور کیا کہے جس سے اس کی بد اعمالیوں اور گھناؤنے کردار پر پردہ پڑ سکے۔ اپنے انجام کا تصور کر کے کہنے لگا !
میری دنیا بھی آخرت بھی گئی ایسی رسوائیاں نصیب ہوئیں
بے اثر ہے ہر ایک فریاد موت کی گھڑیاں اب قریب ہوئیں
نمونہ ئ سخن :
جنابِ زینب نے اپنے اس خطبے میں حقائق کے اظہار کیا
جو انقلاب آفریں انداز اختیار کیا ہے اس کی نظیر کہیں عالم میں نہیں ملتی اور حق و حقیقت کی ترجمانی کر تے ہوئے فطرت کی رعنائیوں کو آزادی و حریت سے ہم آہنگ کرکے جرأت بیان کا جو مقدس نمونہ پیش کیا ہے وہ ہر صاحب فکر و دانش کے لئے قابلِ تقلید ہے۔
جنابِ زینب نے اپنے مقدس بیان کی روشنی میں دنیائے انسانیت کو حقائق کے اظہار کا فطری طریقہ فطری حقوق کے تحفظ کا سلیقہ اور حقیقت و عقیدت کے امتزاج کا ڈھنگ سکھایا ہے۔
اعلائے کلمہ حق :
سیدہ زینب نے بتلایا کہ ظالم و ستمگر کے سامنے کلمہ حق کس طرح کہا جاتا ہے۔ اور زبان و بیان کی قوت کو شمشیر و سناں سے زیادہ تیز اثر دے کر کس طرح لوگوں کے دلوں میں اترا جاتا ہے۔
علیعليهالسلام
کی بیٹی نے اپنے خطبے کے بل بوتے پر مظلوم انسانوں کا استحصال کرنے والوں کے خلاف قیام کرنے کے آداب سکھائے۔
قصرِ یزیدیت کی تاراجی :
جنابِ زینب عالیہ نے جس پاکیزہ انداز میں بنی امیہ کی نخوت کا کاخِ مرمر اپنے بیان کی قوت سے ریزہ ریزہ کیا اس کے سامنے یزید کا سر ندامت و شرمندگی سے جھک گیا اور اسے رسولؐ زادی کا استدلال اس طرح رسوا کر گیا کہ وہ سوچنے لگا کہ کاش ! زمین کا منہ کھل جائے اور وہ اس میں چھپ کر اپنی رہی سہی عزت بچا سکے مگر اب وقت گزر چکا تھا۔ افسوس و ندامت کی گھڑیاں بیت چکی تھیں اور اموی خاندان کی طاغوتیت اور فرعونیت کا بت پاش پاش ہو چکا تھا اور ان کی سطوت و آمریت کے چراغ گل ہو چکے تھے۔ اور اب یزید کے ایوانِ اقتدار پر مایوسی ، پریشانی ، اضطراب اور ندامت کے سائے محیط تھے۔
انقلاب آفرین خطبہِ :
زینبِ(سلام اللہ علیہا) کبریٰ کے تاریخی خطبے کی انقلاب آفرین تاثیر رہتی دنیا تک بنی ہاشم کی شجاعت کا پرچم سربلند رکھے گی۔ اور فطرت کی رعنائیوں اور زیبائیوں کے مشتاق علیعليهالسلام
کی بیٹی کے عصمت شعار خطاب کی روشنی میں شعور نظر ، شعارِ حقیقت ، احساس عظمت و قوت ارادہ ، حسن اخلاق اور کسب کمال کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے رہیں گے۔
خطباتِ سیدہ اور واقعاتِ کربلا :
حضرت سیدہ زینب کے حقیقت شعار خطبے سے ہر دور میں ظالم و ستمگر حکمرانوں کے ایوانِ اقتدار لرزتے رہیں گے اور مالی طاقت کے بل بوتے پر انسانیت کا خون کرنے والے طاغوت ، علیعليهالسلام
کی بیٹی کے اس تاریخی خطاب کی انقلاب آفرینی سے نہ نچ سکیں گے۔ اور جب بھی کربلا کے خونیں واقعے کا تذکرہ ہو گا تو جنابِ زینب کے خطبوں کی یاد تازہ ہو جائے گی۔
ایمان کی منزل کفِ پا چوم رہی ہے
ملت کی جبیں نقشِ وفا چوم رہی ہے
اے بنت علیعليهالسلام
عارفہ لہجہ قرآن
خطبوں کو ترے وحی خدا چوم رہی ہے