• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9858 / ڈاؤنلوڈ: 3049
سائز سائز سائز
خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)

خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

خطبات حضرت زینب (سلام اللہ علیہا)

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان

انتساب

کربلا کی شیر دل خاتون

وارثِ مشنِ حسین

سیدہ زینبِ کبریٰ (سلام اللہ علیہا)

بنتِ

علیعليه‌السلام ابنِ ابی طالب(علیہما السلام)

کے نام

پیش لفظ

عشرہئ محرم الحرام اپنی تمام تر اداسیوں کے ساتھ گزر گیا۔ ہم نے حسینی کردار سے کیا کچھ حاصل کیا؟یہ ہر ایک عزادار کے قلبی ظرف پر منحصر ہے۔ حسین اور حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اسی راستے پر چلیں جو کربلا والوں نے متعین کیا ورنہ ہم کربلا اورکربلا والوں سے کچھ حاصل کرنے سے محروم رہے ہیں۔کربلا ایک درسِ انسانیت ہے جس سے ہماری عملی زندگی عبارت ہے۔

عاشورہ کے بعدحضرت سید الساجدین کی پناہ میں جو کاروانِ مخدارت و عصمت کوفہ و شام کی جانب روانہ ہوا، اس کے مقصد کو جاننا ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہئے۔ زمانے میں بسنے والا ایک عام خاندان نہ نقل مکانی اختیار کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اجڑنا۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ یہ خاندانِ توحید و تطہیر کیوں،کس لئے دربدر ہوا؟ وہ کون سے محرکات تھے جن کی وجہ سے عرب کا یہ معزز ترین اور باوقار صاحبِ حیثیت قبیلہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوا ؟ کربلا میں دی جانے والی قربانیاں ، مخدراتِ عصمت کے مصیبتوںکے سفر،شہربہ شہر پھرائے جانےکی اذیتیں، درباروں، بازاروں میں دئے جانے والے توحید و رسالت اور امامت کے لئے خطبے آخر کس لئے تھے ؟ یہی نا ! کہ ان نظریاتِ الٰہی کی بقا رہے اور توحید کے مخالف نظریات کا قلع قمع کیاجائے ۔.خاندانِ رسالت ؐ تو اپنے مقصد میں کامیاب و کامران رہا ۔ اب ان کی تمام تر قربانیوں کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ ہم ان کے قائم کردہ اور معین کردہ راستے پر گامزن ہو کر ان کے اسوہئ زندگی پر عمل پیرا ہوں۔ اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی نجات ہے ۔ اس خاندان کی ایک ایک قربانی ہمہ وقت ہماری نگاہوں میں رہے اور اس صراطِ مستقیم پر ہمارا عمل نظر آئے۔

مخدراتِ عصمت و طہارت کے دئیے ہوئے خطبات آج بھی ہمارے لئے مشعلِ ہدایت ہیں۔ جس طرح انہوں نے بقائے توحید کے لئے خطبہ دینا فرض سمجھا اسی طرح ہم پر واجب ہے کہ ان کے خطبات کو پڑھیں، اللہ کے اسرار و رموز ان میں پنہاں ہیں اس پر غور و خوض کریں۔ ہم پر واضح ہو جائے گا کہ یہ خطبات صرف کوفہ و شام اور دیگر شہروں کے افراد ہی کے لئے، صرف اسی دَور ہی کی ضرورت نہ تھے بلکہ یہ فرمودات قیامت تک کے لئے آنے والی تمام نسلوں کے لئے بھی اسی طرح دعوت فکر لئے ہوئے ہیں جس طرح اس ماحول میں ضروری تھا۔

وارثانِ کساء کی تربیت یافتہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے ظلم و جور کے عہد اور غیر شریفانہ ماحول میںالٰہی نظام کی خاطر فرمائے گئے فرمودات کی بازگشت سے آج بھی کائنات انگشت بدنداں ہے۔

یہ خطبات ہماری بہنوں،بہو، بیٹیوںکے لئے لمحہ فکریہ ہیں کہ جب بھی دین پر افتاد آ پڑے تو انہی خطبات کو دہرا کر توحید و رسالت اور امامت کا بھر پور دفاع کیا جائے۔ تو اس لائحہ عمل سے خدا اور رسولؐ امام کے دشمنوں کا ویسا ہی انجام ہو سکتا ہے۔ دشمن کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تاریخ بھی خانوادہئ عصمت و طہارت کی صداقت لکھنے پر مجبور ہو گئی۔

ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ کہ ہم اس سانحے کا اثر لیتے ہیں یا سن کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اگر آج ہم خاموش ہو گئے تو کل روزِ محشر کہیں وہ خاموش نہ ہو جائیں جن سے ہماری شفاعت وابستہ ہے۔ آج لمحہئ فکریہ ہے اور کل نتیجہ. اور اس نتیجے کے لئے آج ہی کا لفظ ہے کل کا نہیں ہے۔ آئیں آج بھی اس توبہ کے کھلے ہوئے دروازے پر جھک جائیں ۔ ورنہ جب یہ دروازہ بند ہو گیا تو اس لمحہ کا نام ہی محشر ہو گا ۔

التماسِ دعا کے ساتھ حرفِ آخر کے طور پر یہ کہنا مناسب ہو گا :

علیعليه‌السلام کی علیعليه‌السلام بیٹی نے اپنے خطبات کے بل بوتے پر مظلوم انسانوں کو استحصال کرنے والوں کے خلاف قیام کرنے کے آداب سکھائے۔

ملتمسِ دعا

سیکریٹری نشرواشاعت

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان(راولپنڈی ڈویژن)

پیش لفظ

گنج شہدا کے منظر نامے کے رو برو نوع انسانیت محوِ حیرت کھڑی وقارِ آدمیت کی اس بے مثال علمبردار کو دیکھتی ہے۔ اُس کی کمر جو عصرِ عاشور تک دُکھ سے کمان ہو گئی تھی، شام ڈھلتے ہی عزمِ بے پناہ سے کیسے سینہ ئ جبر میں تیر ہو گئی ہے۔حرف و بیان کا دم اکھڑتا ہے کہ یہ خطیبِ منبر سلونی کی علی و اعلیٰ بیٹی کا تذکرہ ہے۔

نہج البلاغہ جہانِ فصاحت و بلاغت کی صبحِ صادق ہے کہ اس میں لفظ کا وقار اور معنی کے نو بہ نو اسرار ہیں۔تہہ بہ تہہ مضامین کی فراوانی، بینا کا شکوہ اور حسنِ کلام، کلامِ امام کے اعجاز ہیں۔ علیعليه‌السلام جہاں بھی ہیں علیعليه‌السلام ہیں۔ مسجدِکوفہ ، سرکار علیعليه‌السلام اور بارگاہِ امامت نصیب کی یاوری سے ہی ملتے ہیں۔

لیکن بازارِ شام، دربارِ یزید ملعون اور اسیریئ خانوادہ عصمت، تاریخِ بشر ہانپ ہانپ جاتی ہے۔ حسین خلق خدا کو امتیازِ خیر و شر سمجھانے کے لئے لق و دق دشت نینوا کو درس گاہ بناتے ہیں۔ جبرِ ابلیس کے مقابل یہ اہتمام کوتاہ بینوں کو کوئی ساعتوں میں محوِ ہستی ہوتا نظر آیا ہوگا۔ کہ مؤرخ دربارِ ستم میں مصروفِ خوشامد نویسی ہے۔اور خبر نگاری ابھی آباد بستیوں میں بھی نہیں رواج پائی۔

اور سچ بھی ہے کہ واقعہ کیسا بھی ہو اپنے واقعاتی حقائق تک محدود رہ جائے تو زمان و مکان کے سرد خانوں کی نذر ہو رہتا ہے۔ اور جہاں واقعہ کو امتیاز خیر و شر کی مقصدیت سے مشروط کیا جا رہا ہو وہاں کوئی ایسا انتظام بھی ضروروی ہے جو حقائق کو مبتلائے ہوسِ دنیا، مؤرخین اور خبرنگاروں کی تاویلات سے بچا کر شعورِ انسانیت کو حقیقی تفصیلات کے ساتھ ہدیہ کر سکے۔

کسے مجالِ انکار ہو کہ واقعہئ کربلا اپنے المیاتی اور مزاحمتی ہر دو پہلوؤں میں ہمتِ بشری کی عظیم ترین اور بے مثال روائت ہے۔ جہاں حقائق میں درپیش انسان کو المیوں کی انتہا ہے وہیں ہر المیے کے ردّعمل میں المےے کے حجم سے بڑھ کر اپنے مؤقف کے ساتھ غیر متزلزل استواری بھی موجود ہے۔ المیے کی انتہا یہ ہے کہ واقعات کا تذکرہ صدیوں بعد بھی مقبول ترین عنوانِ گریہ و عزا ہے۔ اور ضبط و برداشت کا یہ عالم کہ جبر و استبداد کے خلاف حسینعليه‌السلام اور حسینیت کامیاب جدوجہد کا بہترین استعارہ ہے۔

روایاتِ عزا ہوں یا جہدِ اعلانِ حق ، کربلا جنابِ زینبِ(سلام اللہ علیہا) کے ہمسفر نہ ہوتی تو شعورِ انسانیت کربلاکے اعجاز آفریں اثرات سے یقینا محروم رہ جاتا۔وہ آنکھ جو صبح سے عصرِ عاشور تک اندوہ ناک المیے دیکھتی خونچکاں رہی، شام ڈھلتے ہی روشنی کا امین چراغ ہو گئی۔ دستِ جبر رکا نہیں، المیہ جاری ہے لیکن سیدہئ زینبِ(سلام اللہ علیہا) صفِ عزا پر جبرِ باطل کے مقابل وہ معرکہ گرم کرتی ہیں کہ خوف و ہوس کے سرد خانوں میں منجمد انسانی احساس زندگی کی دستکیں سننے لگتا ہے۔

بھائیوں، بیٹوں، بھیتیجوں اور انصار کے خنجر رسیدہ سر نیزوں پر بلند ہیں۔ جشن فتح میں غروق مردہ ضمیروں کے مجمع ہیں۔ اسیری کی اعصاب شکن اذیت ہے۔ اور جلوسِ اعداء و اغیار میں فلک مآب عصمت و طہارت کی امین ثانی ئ زہرا تلخ ترین غم و اندوہ کو سپرد حرف و بیاں کرتی ہیں تو نہ صرف لہجے سے تمکنتِ فاتح خیبر کی مہک آتی ہے بلکہ المیے کے افق سے حق کی دائمی بالادستی کی نوید طلوع ہوتی نظر آتی ہے۔

کہاں ہیں وہ لفظ جو جنابِ سیدہ کے قلبِ مطہر میں لہو روتے صدمات کا احاطہ کر سکیں کہ جتنے پیارے تھے آنکھوں کے روبرو تہہ تیغِ جفا دیکھے۔ لیکن کمالِ سخن سرِ تعظیم خم کئے ہے کہ رنج و الم کی انتہا خطباتِ جنابِ زینب میں بصورتِ نالہ و شیون نہیں بلکہ ہر خطبے میں جبر کے مقابل حسینی عزم جہاد کا تسلسل واضح و بیّن ہے۔ جذباتی سطح پر خطبہ جس بے پناہ اذیت کا شکار ہے کسی بیان کی مغتاج نہیں مگر ان خطبات کے ذریعے ضمیرِ انسانی سے مخاطب آواز میں نہ کوئی ضعف ہے اور نہ ہی کوئی فریاد۔ بلکہ کیا عزم سے فرماتی ہیں۔

'' اے یزید ! تو ہر کوشش کر دیکھ اور جس قدر حیلے بہانے

اختیار کر لیکن بخدا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے نام کو مٹا سکے اور

ہمارے مکتب کو ڈھا سکے۔ تےری مہلت چند روزہ ہے۔''

کہنا لازم ہے کہ جبرِ مسلسل کا شکار یہ مظلومہئ کربلا قوت کے ابدی سرچشمہ سے یوں متمسک ہے کہ دکھ اپنی تمام تر حشر آفرینیوں کے باوجود اس کے مقصد اور جہاد کے مقابل ہار جاتے ہیں۔ دلِ نازک صدمات کی ہر ضربِ گراں سے وہ توانائی پاتا ہے کہ جس سے باطل کے سینوں میں سیاہ دل کانپ اُٹھتے ہیں۔

سیدہئ زینبِ(سلام اللہ علیہا) منبرِ مظلومیت پر متمکن ہمیں الٰہیاتی انعام یافتگان سے متعارف کرواتے ہوئے فرمارہی ہیں۔

''خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پیش رو سعادت سپرد ہوئے

اور ان کے بعد ہمارے حصے میں رحمت و شہادت آئی،

ہم خدا سے ان کے لئے اجر عظیم اور عنائت طلب کرتے

ہیں۔ یقینا وہی خدائے واحد اور مہرباں ہے۔''

ہر صفِ عزا تقلیدِ سنتِ زینبیہ ہے جہاں خاتونِ کربلا و شام کے یہ الفاظ مصروفِ عزا ہر قلب میں ایک امکان روشن کرتے ہیں۔ حق کی ابدی اور دائمی بالادستی کے ساتھ غیر متزلزل استواری کے ذرےعے باعزت اور باعث شرف زندگی کا امکان زیادہ واضح اور روشن ہو جاتا ہے۔

مسلم حصاص بیان کرتا ہے کہ ابن زیاد نے مجھے دارالامارہ کی اصلاح کیلئے بلایا ہوا تھا۔ اور میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک کوفہ کے اطراف و جوانب سے شورو غل کی آوازیں آنے لگیں۔ اسی اثنا میں ایک خادم آیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آج کوفہ میں شورو غل ہو رہا ہے۔اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک خارجی(خاکم بدہن )قاتل کا سر لایا جا رہا ہے جس نے یزید پر خروج کیا تھا۔ میں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا؟ کہا حسین ابن علی(علیہم السلام)۔ میں یہ سنتے ہی دم بخود ہو کر رہ گیا۔ جب خادم چلا گیا تو میں نے دوہتھڑ اپنے منہ پر مارے۔ قریب تھا کہ میری آنکھیں ضائع ہو جائیں۔ اس کے بعد میں ہاتھ منہ دھو کر دارالامارہ کی پچھلی طرف سے کناسہ کے مقام پر پہنچا جہاں لوگ سروں اور قیدیوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ایک قافلہ پہنچا جو چالیس اُونٹوں پر مشتمل تھا۔ جن پر اولاد حضرت فاطمۃ الزہراعليها‌السلام سوار تھی۔ ان میں کچھ بچے اور مستورات تھیں۔ امام زین العابدینعليه‌السلام بے پلان اُونٹ پر سوار تھے۔رگہائے بدن سے خون جاری تھااور آپ کی حالت بیماری اور ضعف کی وجہ انتہائی کرب ناک تھی۔

آلِ محمدؐ کی خستہ تنی دیکھ کر اہل کوفہ صدقہ کی کھجوریں اور روٹیوں کے ٹکڑے بچوں کی طرف پھینکتے تھے۔ جناب امّ کلثوم یہ فرما کر:یا اہل کوفہ ان الصدقۃ علینا حرامکہ اے اہل کوفہ! صدقہ ہم پر حرام ہے کھجوریں وغیرہ بچوں کے ہاتھوں سے لے کر نیچے پھینک دیتی تھیں۔ لوگ خاندانِ نبوت کی یہ حالت زار دیکھ کردھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔جناب امّ کلثوم (سلام اللہ علیہا)نے فرمایا۔

اے اہل کوفہ خاموش ہو جاؤ! تمھارے مرد ہمیں قتل کرتے ہیں اور تمھاری عورتیں ہم پر روتی ہیں۔ خدا وند عالم روز قیامت تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔

مسلم کہتا ہے:

یہ بی بی گفتگو کر رہی تھیں کہ اچانک صدائے شور و شغب بلند ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ(دوسری طرف سے)شہدائے کربلا کے سر نیزوں پر سوار لائے جا رہے ہیں۔ ان میں آگے آگے جناب امام حسین کا سرِ اقدس تھا اور وہ سر بدرِ کامل کی طرح تابندہ اور درخشندہ تھا۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ رسولخداؐ کے ساتھ مشابہ تھا۔ ریش مبارک خضاب کی وجہ سے بالکل سیاہ تھی۔ چہرہ انور ماہتاب کی مانند مدوّر اور روشن تھا اور ہوا ریش مبارک کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی۔ جب جناب زینب عالیہ کی اپنے بھائی کے سر مبارک پر اس حالت میں نظر پڑی تو اس منظر سے بیتاب ہو کر فرط غم و الم سے چوبِ پالان پر اس زور سے سر مارا کہ خون جاری ہوگیا۔(١)

جب اس حال میں یہ لٹا ہوا قافلہ کوفہ کے درو دیوار کے قریب پہنچ گیا۔ ہاں! ہاں! وہی کوفہ جس میں جناب امیر علیہ السلام کے ظاہری دور خلافت میں جناب زینب و امّ کلثوم شہزادیوں کی حیثیت سے رہ چکی تھیں اور آج قیدیوں کی حیثیت سے داخل ہو رہی تھیں۔ آہ!

اے فلک آں ابتدا ایں انتہائے اہلِ بیتعليه‌السلام

__________________.

(١)بحار جلد ١٠ صفحہ٢٢٠ ، ناسخ جلد ٩ صفحہ ٣١١، ٣١٢ ، نفس المہموم صفحہ ٢١٣ ۔

مخفی نہ رہے کہ صاحبِ طراز المذہب نے بڑے شد و مد کے ساتھجناب زینب عالیہ کے سر پھوڑنے والے واقعہ کی نفی کی ہے اور اس امر کوبی بی کے صبرو استقلال کے منافی قرار دیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کے خیالی استبعاد کی بنا پر ان واقعات کا جو کہ کتب معتمدہ میں موجود ہیں، انکار نہیں کیا جا سکتا نیز اس فعل کو صبر و استقلال کے منافی قرار دینا بھی درست نہیں۔''بفحویٰ ہر سخن جائے و ہر نکتہ مقامے وارد ۔ جہاں حسب ضرورت جناب زینب عالیہ نے اس قدر صبرو ضبط سے کام لیا ہے کہ خود امام زین العابدین کو تسلیاں اور دلاسے دیئے ہیں وہاں یہ بھی ثابت ہے کہ گریبان چاک کر کے اپنے منہ پر طمانچے بھی مارے ہیں۔ لہٰذا حسین جیسے عظیم بھائی کا سر اچانک نوک سناں پر دیکھ کر فرط غم و الم کی وجہ سے چوب پالان پر سر دے مارنا کون سی تعجب خیز بات ہے۔ واللہ العالم۔۔۔۔

بازارِ کوفہ میں ارشادِ امام سجادعليه‌السلام

کوفہ کے زن و مرد جو ہزاروں کی تعداد میں یہ نظارہ دیکھنے کے لئے وہاں جمع تھے۔آلِ رسول کو اس تباہ حالت میں دیکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ امام زین العابدین نے نحیف و نزار آواز کے ساتھ فرمایا:

تنوحون وتبکون من جانمن ذاالذی قتلنا

اے کوفہ والو ! یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے۔ ؟

اسی اثنا میں ایک کوفیہ عورت نے بالائے بام جھانک کر دیکھا اور دریافت کیا کہ تم کس قوم و قبیلہ کی قیدی ہو۔ بی بیوں نے فرمایا: نحن اساری آلِ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔ ہم خاندانِ نبوت کے اسیر ہیں۔ یہ سن کر وہ نیک بخت عورت نیچے اتری اور کچھ برقعے اور چادریں اکٹھی کر کے ان کی خدمت میں پیش کیں۔جن سے پردگیانِ عصمت نے اپنے سروں کو ڈھانپ لیا۔(١)

__________________

(١)مخفی نہ رہے کہ کلماتِ علمائے ابرار اور اخبار و آثار میں قدرے اختلاف ہے۔کہ کوفہ اور دربار ابن زیاد میں وارد ہونے کے وقت مخدرات عصمت و طہارت بے مقنعہ و چادر تھیں یا باپردہ تھیں۔؟ مشہور یہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے کہ چادرِ تطہیر کی وارث بی بیاں امت کے سلوک کے نتیجہ میں بے مقنعہ و چادر تھیں۔ ہاں البتہ بعض آثار سے یہ ضرور آشکار ہوتاہے کہ بی بیاں مکشفات الوجوہ نہ تھیں۔ چنانچہ فاضل دربندی نے اسی قول پر زور دیا ہے۔ ہم نے اوپر جو روایت درج کی ہے اس سے دونوں اقوال کے درمیان جمع و توفیق ہو جاتی ہے کہ اس کوفیہ عورت کے برقعوں اور چادروں کے انتظام سے پہلے بی بیاں سر ننگے تھیں۔ بعد ازاں جب سر ڈھانپنے کا انتظام ہو گیا تو بناتِ رسول ؐ نے پردہ کر لیا۔ اگرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ظالموں نے وہ چادریں بھی چھین لیںتھیں۔ (سیرتِ صدیقہ صغریٰ) مگر یہ دعویٰ بلا دلیل ہونے کیوجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔ واللہ العالم بحقائق الامور۔

حضرتِ زینبِ عالیہ صلوات اللہ علیہا کا خطبہ:

اس وقت عقیلہ بنی ہاشم نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں کے گریہ و بکا اور شور و شغب کی وجہ سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔لیکن راویان اخبار کا بیان ہے کہ جونہی شیرِ خدا کی بیٹی نے لوگوں کو ارشاد کیا کہ انصتوا خاموش ہو جاؤ ! تو کیفیت یہ تھی کہ ارتدت الانفاس و سکنت الاجراس آتے ہوئے سانس رک گئے اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔اس کے بعد خطیب منبر سلونی کی دختر نے خطبہ شروع کیا تو لوگوں کو حضرت علیعليه‌السلام کا لب و لہجہ اور ان کاعہد معدلت انگیز یاد آگیا۔راوی (حذام اسدی یا بشیر بن خریم اسدی) کہتا ہے:

خدا کی قسم میں نے کبھی کسی خاتون کو دختر علیعليه‌السلام سے زیادہ پرزور تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا(بی بی کے لب و لہجہ اور اندازِ خطابت سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ) گویا جناب امیر المومنین کی زبان سے بول رہی ہیں۔ بالفاظ دیگر یوں محسوس ہوتا کہ حضرت امیر آپ کی زبان سے بول رہے ہیں۔

جب ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی تو امّ المصائب نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

سب تعریفیں خدا وند ذوالجلال و الاکرام کے لئے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمدؐ پر اور ان کی طیب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اہلِ کوفہ!اے اہل فریب و مکر !کیا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو ! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیااور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم (منافقانہ طورپر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو۔جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، ڈینگ مارنے والے ، پیکرِ فسق و فجور اور فسادی ،کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے کہ جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔

آگاہ رہو! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و بکا کرتے ہو ؟ ہاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ روؤ زیادہ اور ہنسو کم۔تم امام علیہ السلام کے قتل کی عار و شنار میں گرفتار ہو چکے ہو اور تم اس دھبے کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے سلیل(فرزند) اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ ،مصیبت میں جائے پناہ، منارہئ حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لئے۔تم نے بہت ہی برے کام کا ارتکاب کیاہے اور آخرت کے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ہو گئی اورتم برباد ہو گئے۔تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہو گئے ۔تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول ؐ کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا ؟ اور ان کا کون سا خون بہایا ؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا ؟ تم نے ایسے اعمال شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں ، زمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امام کا جرم شنیع کیا ہے جو پہنائی و وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔اگر اس قدر بڑے پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو ؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔کیونکہ خدا وندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ''یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے''۔

اہلیانِ کوفہ کی حالت

قارئین ! پھر بی بیِ عالم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ حیران و سرگرداں ہیں اور تعجب سے انگلیاں مونہوں میں ڈالے ہوئے ہیں۔میں نے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو میرے پہلو میں کھڑا رو رہا تھا۔اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور وہ اس حال میں کہ رہا تھا

میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ کے بزرگ سب بزرگوں سے بہتر، آپ کے جوان سب جوانوں سے افضل، آپ کی عورتیں سب عورتوں سے اشرف، آپ کی نسل سب نسلوں سے اعلیٰ اور آپ کا فضل عظیم ہے۔

جناب امّ کلثوم کا خطبہ مخدومہئ کو نین صلوات اللہ علیہاکے بعد جناب امّ کلثوم بنت حیدرِ کرار نے بآواز بلند آہ و بکا کرتے ہوئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا :

تمام حمدو ثنا خدا وند قادر و مطلق کے لئے ہے اور درود و سلام ان ہستیوں پر جو لائقِ درود و سلام ہیں ۔

اما بعد ! اے اہل کوفہ برائی ہو تمہارے لئے، تم نے کیوں حسین کی نصرت نہ کی۔؟ ان کوشہید کر دیا اور ان کے ما ل و اسباب کو لوٹا اور اسے اپنا ورثہ بنا لیا اور ان کے اہل و عیال کو قید کیا۔ تمہارے لئے ہلاکت اور رحمت ایزدی سے دوری ہو۔ وائے ہو تمہارے حال پر ۔ کیا کچھ معلوم بھی ہے کہ تم کن مصائب میںمبتلا ہوئے اور کیا بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھایا اور کن کے خون تم نے بہائے۔ کن اہلِ حرم کو تکلیفیں پہنچائیں۔ کن لڑکیوں کو لوٹا اور کن اموال پر ناجائز قبضہ کیا۔تم نے ایسے شخص(امام حسین ) کو قتل کیا جو رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد تمام لوگوں سے افضل تھا۔ رحم تمہارے دلوں سے اٹھالیا گیا۔یقینا خدا کا گروہ ہی کامیاب و کامران ہوتا ہے اور شیطانی گروہ خائب و خاسر ہوتا ہے۔

پھر حزن و ملال میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھے۔

وائے ہو تم پر ! تم نے بلا قصور میرے بھائی کو شہید کیا۔اس کی سزا تمہیں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دی جائے گی۔تم نے ایسے خون بہائے جن کے بہانے کو خدا، رسول اور قرآن نے حرام قرار دیا تھا۔تمہیں آتش جہنم کی بشارت ہو کہ جس میں تم ابد الآباد تک معذب رہو گے۔ میں اپنے اس بھائی پر جو بعد از رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب لوگوں سے افضل تھا زندگی بھر روتی رہوں گی اور کبھی نہ خشک ہونے والا سیلِ اشک بہاتی رہوں گی۔

خطبہ کا اثر

جناب امّ کلثوم کے خطبہ کا اس قدر اثر ہوا کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔عورتیں اپنے بال بکھیر کر ان میں مٹی ڈالنے لگیں اور چہروں پر طمانچے مارنے شروع کئے۔اسی طرح مرد شدت غم سے نڈھال ہو کر اپنی داڑھیاں نوچنے لگے۔ اس روز سے زیادہ رونے والے مرد اور عورتیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔

امام زین العابدین کا خطبہ

لوگ ابھی گریہ و بکا کر رہے تھے کہ امام زین العابدینعليه‌السلام نے انہیں خاموش ہونے کا حکم دیا۔چنانچہ جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو امام سجاد علیہ السلام نے خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

اے لوگو ! جو شخص مجھے پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو شخص نہیں پہچانتا میں اسے اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں میں علی ابن الحسین ہوں۔ وہ حسین جو بلا جرم و قصور نہر فرات کے کنارے ذبح کیا گیا۔میں اس کا بیٹا ہوں جس کی ہتک عزت کی گئی ، جس کا مال و منال لوٹا گیااور جس کے اہل و عیال کو قید کیا گیا۔ میں اس کا پسر ہوں جسے ظلم و جور سے درماندہ کر کے شہید کیا گیا اور یہ بات ہمارے فخر کے لئے کافی ہے۔ اے لوگو ! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں،کیا تم نے میرے پدرِ عالی قدر کو دعوتی خطوط لکھ کر نہیں بلایا تھا ؟ اور ان کی نصرت و امداد کے عہد و پیمان نہیں کئے تھے ؟ اور جب وہ تمہاری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تشریف لائے تو تم نے مکر و فریب کا مظاہرہ کیا اور ان کی نصرت و یاری سے دست برداری اختیار کر لی۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ قتال کر کے ان کو قتل کر دیا۔ہلاکت ہو تمہارے لئے کہ تم نے اپنے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیااور برائی ہو تمہاری رائے اور تدبیر کے لئے! بھلا تم کن آنکھوں سے جناب رسول اکرمؐ کی طرف دیکھو گے،جب وہ تم سے فرمائیں گے کہ تم نے میری عترت اہل بیت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی اس لئے تم میری امت سے نہیں ہو۔

راویان اخبار کا بیان ہے کہ جب امام کا کلامِ غم التیام یہاں تک پہنچا تو ہر طرف سے لوگوں کے رونے اور چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ہر ایک نے دوسرے کو کہنا شروع کیا: ھلکتم وما تعلمون یعنی تم بے علمی میں ہلاک و برباد ہو گئے ہو۔ امام سجاد نے پھر سے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے فرمایا:

خدا اس بندے پر رحم کرے جو میری نصیحت کو قبول کرے اور میری وصیت کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں یاد رکھے کیونکہ تمہارے لئے رسول خداؐ کی زندگی میں اعلیٰ ترین نمونہ موجود ہے۔

سب نے یک زبان ہو کر کہا :

یابن رسول اللہؐ سب آپ کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ آپ جو حکم دیں گے ضرور اس کی تعمیل کی جائے گی۔ ہم آپ کے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہیں۔

امام سجاد نے ان کا یہ کلامِ فریب انضمام سن کر فرمایا:

ہیہات اے گروہِ مکاراںو عیاراں!اب تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ اب تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک کرو جو میرے اب و جد کے ساتھ کر چکے ہو ؟ حا شا و کلا ۔ ایسا اب ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بخدا ! ابھی تک تو سابقہ زخم بھی مندمل نہیں ہوئے۔ کل تو میرے پدر عالی قدر کو ان کے اہل بیت کے ساتھ شہید کیا گیا، ابھی تک تو مجھے اپنے اب و جد اور بھائیوں کی شہادت کا صدمہ فراموش نہیں ہوا۔ بلکہ ان مصائب کے غم و الم کی تلخی میرے حلق میں ابھی موجود ہے اور غم و غصہ کے گھونٹ ابھی تک میرے سینہ کی ہڈیوں میں گردش کر رہے ہیں۔ ہاں تم سے صرف اس قدر خواہش ہے کہ نہ ہمیں فائدہ پہنچاؤ اور نہ ہی نقصان۔

دربارِ ابنِ زیاد میں پیشی

ان خطبات کے بعد اسیران اہل بیت کا لٹا ہوا قافلہ دربارِ ابن زیاد کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر ابن زیاد نے تمام لوگوں کو حاضری کا اذن عام دے رکھا تھا۔ اس لئے دربار، درباریوں اور تماش بینوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے شہداء کے سر دربار میں پہنچائے گئے اور اس کے بعد اسیران کرب و بلا کو دربار میں پیش کیا گیا۔

دربار میں ان اسیران خانوادہ نبوت و رسالت کے ساتھ جو اندوہناک سلوک روا رکھا گیا، تواریخ و مقاتل کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔یہاں طوالت اور موضوع کے پیش نظر ان کے بیان سے قاصر ہیں۔لہٰذا قارئین سے معذرت کے ساتھ ہم آگے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔

اسرائے اہل بیت کی دمشق میں آمد

صبر و استقلال اور عزم و ہمت کی تاریخ رقم کرنے کے ساتھ ساتھ لشکر یزیدی کے بے حد و انتہا ظلم و جور کو آزمائش خداوندی تسلیم کرتے ہوئے یہ کاروان حسینی،جو کہ اب کرب و بلا کی شیر دل خاتون کی قیادت میں آکر کاروان زینبی کی شکل اختیارکرچکا تھا ، شہر شام میں داخل ہوا۔کرب و بلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک اس قافلہ پر کیا کیا مصائب و آلام ڈھائے گئے ؟ اس کارواں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟ ظلم و بربریت کے پہاڑکس قدر توڑے گئے ؟ تشدد و حیوانیت کی کیا کیا مثالیں قائم کی گئیں ؟ اور اس بے یار و مددگار اور مظلوم و مقہور قافلہ کے افراد نے کس کمال پامردی اور حوصلہ کے ساتھ ان کا سامنا کیا ؟یہ تمام واقعات و حالات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔کربلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک کے راستہ میں بہت سے چھوٹے چھوٹے مزارات شہداء ، جن کی وجہ سے وہاں شہر آباد ہو چکے ہیں ، ان سوالات کے واضح جواب لئے ہوئے ہیںاور ارباب سیر و مقاتل نے نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے۔

مختصراًشام کے لوگوں نے اسلامی دستور اور تعلیمات کو خالد بن ولید، معاویہ، زیاد اور ان جیسے افراد کی رفتار و کردار کے آئینے میں دیکھا تھا۔ انہیں سیرت پیغمبرؐ اور مہاجرین و انصار کے طرز عمل کا کچھ پتہ نہ تھا۔ ٦١ ہجری میں شام میں چند افراد تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے اوپرتھیں۔ان کی ترجیح یہی تھی کہ وہ ایک کونے میں بیٹھ جائیں اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھیں بند کر لیں۔ شام کے لوگ یہ بات سننے پر آمادہ نہ تھے کہ حضرت محمدؐ کے رشتہ دار اور قریبی بنی امیہ کے علاوہ کوئی اور بھی ہیں۔

اکثر مقتل کی کتب میں یہ لکھا ہے کہ اسیروں کے شہر دمشق میں داخل ہونے کے موقع پر لوگوں نے شہر کو سجایا ہوا تھا۔ یزید نے اپنے دربار میں یہ اشعار پڑھے :

کاش !آج میرے جنگ بدر میں مارے جانے والے بزرگ موجود ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے کس طرح محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے ان کا انتقام لیا ہے۔

کیونکہ اس دن یزید کی مجلس میں اس کے اردگرد ایسے افراد بیٹھے تھے کہ جنہوں نے اسلام اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اقتدار و حکومت تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا ہوا تھا نہ کہ قربتِ خدا کا ذریعہ۔

آپ ملاحظہ فرمائیں کہ دونوں محفلیں ایک طرح کی ہیں اور باتیں بھی ایک جیسی ہیں۔کوفے میں ابن زیاد بھی خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا کہ اس نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے اور عراقیوں کے ہاتھوں سے ان کی قوت چھین لی ہے۔ شام میں یزید افتخار کر رہا ہے کہ جنگ بدر میں اس کے مقتول بزرگوں کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ اگر یہ معاملہ یہیں پر ختم ہو جاتا ہو تو کامیاب تھا، لیکن جناب زینب نے اسے اس کی کامیابی کا پھل کھانے نہ دیا۔وہ جسے اپنے لئے شیریں سمجھ رہا تھا جنابِ زینب عالیہ نے اس کا مزہ حد سے زیادہ کڑوا کر دیا اور اس کے لئے تلخ بنا دیا۔جناب زینب نے پابرہنہ اور بے مقنعہ و چادر اپنی مختصر گفتگو میں اہل مجلس کو سمجھا دیا کہ ان پر حکومت کرنے والا کون ہے اور کس کے نام پر حکومت کر رہا ہے۔ اور رسیوں میں جکڑے اس کے سامنے کھڑے قیدی کون ہیں۔

جب کبھی غیرتِ انساں کا سوال آتا ہے۔

بنت ِ زہرا تےرے پردے کا خیال آتا ہے