ساحل کوثر

ساحل کوثر33%

ساحل کوثر مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

ساحل کوثر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9980 / ڈاؤنلوڈ: 4310
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام: ساحل کوثر

مولف: الياس محمد بيگی

مترجم: سید مراد رضا رضوی

پہلی فصل : قم کا روشن ماضی

شہر قم کا تاریخی سابقہ

بعض حضرات قم کو قدیم شہروں میں شمار کرتے ہیں اور اسے آثار قدیمہ میں سے ایک قدیم اثر سمجھتے ہیں نیز شواہد و قرائن کے ذریعہ استدلال بھی کرتے ہیں مثلا قمی زعفران کا تذکرہ بعض ان کتابوں میں ملتا ہے کہ جو عہد ساسانی سے مربوط ہیں ۔ نیز شاہنامہ فردوسی میں ۲۳ ء ھ کے حوادث میں قم کا ذکر بھی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ قم اور ساوہ بادشاہ ” تہمورث پیشدادی “ کے ہاتھوں بنا ہے ۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام دلیلیں مدعا کو ثابت نہیں کرتی ہیں کیونکہ عہد ساسانی میں قم کی جغرافیائی و طبیعی حالت ایسی نہ تھی کہ وہاں شہر بنایا جا تا بلکہ ایسا شہر تہمورث کے ہاتھوں بنا یا جا نا ایک قدیم افسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے علاوہ ازیں شاہنامہ فردوسی میں ۲۳ ء ھ کے حوادث میں قم کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ اس دور میں بھی یہ زمین اسی نام سے موسوم تھی کیونکہ فردوسی نے اپنے اشعار میں محل فتوحات کے نام اس زمانے کے شہرت یافتہ و معروف ناموں سے یاد کیا ہے نہ کہ وہ نام کہ جو زمان فتوحات میں موجود تھے ۔ اسناد تاریخ اور فتوحات ایران کہ جو خلیفہ مسلمین کے ہاتھوں ہوئی اس میں سرزمین قم کو بنام ” شق ثمیرۃ “ یاد کیا گیا ہے ۔

اس بنا پر شہر قم بھی شہر نجف ، کربلا ، مشہد مقدس کی طرح ان شہروں میں شمار ہوتا ہے کہ جو اسلام میں ظاہر ہوئے ہیں ایسی صورت میں اس کے اسباب وجود کو مذہبی و سیاسی رخ سے دیکھنا ہوگا ۔(۱)

قم کی طرف خاندان اشعری کی ہجرت

قم اسلامی شہروں میں سے ایک شہر ہے ۔ جس نے خاندان اشعری(۲) کے اس سرزمین پر ۸۳ ھ(۳) میں وارد ہونے اور ان کے سکونت پذیر ہونے کے بعد وجود پیدا کیا ہے اور اس کا نام قم رکھا گیا ۔

یہاں پر لازم ہے کہ خاندان اشعری کی ہجرت کے اسباب و علل پر توضیح دی جائے :

خاندان اشعری حاکم کوفہ حجاج کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کی برجستہ شخصیت کے قتل کے بعد امن و سلامتی کا فقدان محسوس کرنے لگے تو جلا وطنی اختیار کر کے ایران کی طرف روانہ ہوگئے چلتے چلتے نہاوند پہنچے ، وہاں ایک وبا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ جاں بحق ہوگئے ۔ لہٰذا وہاں سے دوبارہ کوچ اختیار کرلیا اور اسی طرح آبلہ پائی کرتے ہوئے سرزمین قم پر وارد ہوگئے ان لوگوں کے قم آنے کی علت کیا تھی اس کے لئے ان کے جدبزرگ مالک کی فتوحات کوجنگ قادسیہ میںدیکھناپڑے گا

مالک ، فراہان و تفرش اور آشتیان و ساوہ کو فتح کرنے کے بعد قوم دیلم کے ساتھ کہ جو لوگوں کے اموال کو ہڑپ لیتے اور وہاں کے رہنے والوں کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے ۔ آمادہ پیکار ہوگئے اور انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور نیست و نابود کردیا اور جو ناموس انکے دست ستم سے اسیر تھیں انھیں آزاد کردیا اس زمانے کے لوگ خود کو مالک کا آزاد کردہ سمجھتے تھے ان لوگوں نے اس واقعہ کو ہمیشہ یاد رکھا ۔ قبیلہ اشعری کہ جو اس دیار کے نام سے آشنا تھے مستقل سکونت کے لئے اس سرزمین کی طرف روانہ ہوگئے جب یہ لوگ منزل ” تقرود “ ( جو ساوہ کے قرب و جوار میں ہے ) پہنچے تو احوص نے اس سر سبز و شاداب سرزمین کو سکونت اختیار کرنے کے لئے مناسب سمجھا تو وہاں قیام کے لئے غور و فکر کرنے لگے ۔

اعراب کی منزلگاہ کوہ یزدان ( در میان تقرود و قم )کی وادی میں تھی اسی وجہ سے آہستہ آہستہ خاندان اشعری کے ورود کی خبر یزدان پائدار (یزدانفاذار) زرد تشتیوں کے سردار تک پہنچ گئی ، وہ ان لوگوں کی آمد سے بہت خوش ہوا اور اس امر کی تصمیم کی کہ دیلمیوں کے حملے سے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کو قم میں پناہ گزیں کرے گا نیز ظالم قوم ، دیلم کی سرکوبی نے کہ جو احوص اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ ہوئی تھی یزدانفاذار کو اس سلسلے میں اور مصمم تر کردیا ( وہی حملہ مجدد جو احوص کے ہاتھوں ان منطقوں ہر ہوا تھا ) فتح و ظفر کی خبرسن کر وہ بذات خود احوص کے استقبال کے لئے روانہ ہوگیا اور تشکر کے عنوان سے ان کے سروں پر زعفران اور درہم نچھاور کئے ۔ ان کی قوم کو اس زمانے کے مشہور و معروف قلعے میں جگہ دی ان لوگوں نے اپنی چادروں کے ذریعہ ان قلعوں کے درمیان فاصلہ قائم کیا ۔ عبد اللہ ( احوص کے بھائی ) کے لئے اقامہ نماز اور احکام اسلام کے بیان کی خاطر ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔ زرد تشتیوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتنی صمیمیت و محبت پیدا کرلی کہ آپس میں بردباری و مواسات کے عہد نامے نیز پیمان دفاعی پر دستخط کردیا ۔ اس طرح مسلمان اعراب نے روز بروز اپنے محل سکونت کو وسعت دینا شروع کردیا اور بہت سارے گھر اور کھیتیاں خرید لیں اسی وجہ سے جدا جدا قلعے نئے نئے مکانات بننے کی وجہ سے آپس میں متصل ہونے لگے اس طرح ایک مکمل شہر وجود میں آگیا اور سب سے پہلے مسجد اس شہر میں بنائی گئی ۔

مذکورہ عہد و پیمان یزدانفاذار کی آنکھ بند ہونے تک بخوبی اجرا ہو رہے تھے ۔ اور مسلمانوں و زرد تشت دو قومیں آپس میں صلح و آشتی کی زندگی گزار رہی تھیں ۔ لیکن یزدانفاذار کی موت کے بعد اس کی اولاد مسلمانوں کی روز افزون حشمت و ثروت اور ان کے وسیع و مرتبہ و با جلالت مکانات دیکھ کر خود کو ذلیل و رسوا سمجھنے لگی اور اس سلسلے میں فکر کرنے لگی یہاں تک کے وہ لوگ پیمان شکنی پر آمادہ ہوگئے اور عبد اللہ و احوص ( بزرگان خاندان اشعری ) سے اصرار کرنے لگے کہ اپنی قوم کے ساتھ اس سرزمین سے باہر چلے جائیں عبد اللہ و احوص نے ان لوگوں کو بے حد پند و نصیحت کی اور انھیں وفائے عہد و پیمان کی دعوت دی ، عہد شکنی کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں ڈرایا لیکن قوم زرد تشت اسی طرح اپنی باتوں پر اڑی رہی اور نئے سال کی چودہ تاریخ تک کی مہلت دی تا کہ جو کچھ بھی ہے اسے فروخت کرکے یہاں سے چلے جائیں ۔

اس فاصلہ زمانی میں احوص نے بزرگان قبیلے سے مشورت کے بعد ارادہ کیا کہ سال کے آخری چہارشنبہ میں اس دیار کو زرد تشتیوں اور چالیس قلعوں کے بزرگوں سے نجات دلائیں گے نیز پاک سرشت افراد کے اسلام سے گرویدہ ہونے کی راہنمائی کریں گے ۔ اسی عزم کی بنیاد پر چالیس لوگوں کو مامور کیا کہ اس شب میں کہ جب زرد تشت جشن و خوشحالی اور شراب نوشی میں مشغول ہوں تو یہ لوگ ان قلعوں میں پہنچ کر ان قلعوں کے خداوں کو نیست و نابود کردیں ۔ یہ پالیسی بہت اچھی طرح کامیاب ہوئی اور زرد تشتیوں کے فتنہ پرور سردار اس شہر سے نکل بھاگے ۔ قلعہ کفر لجاجت منہدم ہوگیا وہاں کے لوگ آزادی محسوس کرتے ہوئے گروہ در گروہ مسلمان ہونے لگے اور آتشکدے یکی بعد دیگرے خاموش ہو کر مسجدوں میں تبدیل ہوگئے اس طرح سے مسلمانوں نے احوص و عبد اللہ اشعری کی رہبری میں سر بلندی حاصل کی(۴) اور شہر قم بعنوان شہر امامی مذہب معرض وجود میں منصئہ شہود پر ظہور پذیر ہوگیا ۔ اور امامی شیعوں کا فقہی مکتب عبد اللہ بن سعد اور ان کے فرزندوں کے ہاتھوں اس شہر میں قائم ہوا ۔ گزشت زمان کے ساتھ ساتھ قم پیرو فقہ اہلبیت کے شہر سے معروف ہوگیا اس طرح اس شہر نے ایک درخشاں ستارہ کی طرح عالم اسلام کے مطلع پر تابناکی حاصل کر لی ۔ آہستہ آہستہ یہ شہر پیروان امامت و ولایت کا مامن و پناہ گاہ قرار پاگیا ۔ یہاں تک کہ مہاجر شیعوں کی تعداد چھ ۶ ہزار تک پہنچ گئی ۔(۵)

قم کا فرہنگی ، سیاسی سابقہ

اہل قم نے ایسی اہمیت و عظمت حاصل کی کہ گویا حکومت اسلامی کے مرکز میں زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا آغاز ظہور خلافت عباسی میں ۱۳۲ ئھ سے لے کر حکومت ہارون کے اواخر تک ان لوگوں نے حکومت وقت کو ٹیکس نہیں دیا اور کسی خلیفہ میں اتنی جرات و ہمت نہ ہوئی کہ ان سے مقابلہ کرتا ۔

ہارون الرشید کی خلافت کے زمانے میں جس میں اسلامی حکومت نے بیشترین وسعت حاصل کی ۱۸۴ ئھ میں یہ طے پایا کہ محبان اہلبیت کو تحت فشار قرار دیا جائے اور ظلم و ستم کے مخالف اہل قم کی سر کوبی کی جائے ۔ اسی عزم کے تحت ہارون نے عبد اللہ بن کوشید قمی کو حکومت اصفہان ( قم اس وقت اصفہان کے توابع میں شمار ہوتا تھا ) کا حاکم قرار دیا تا کہ وہ پچاس سال سے زیادہ کا ٹیکس قم سے وصول کرے ۔ اس نے اپنے بھائی عاصم کو عامل قرار دیا ۔ عاصم مختلف اذیتوں اور آزار کے با وجود گذشتہ مالیات سے ایک درہم بھی نہ لے سکا لیکن اس نے اسی طرح مظالم کو جاری رکھا یہاں تک کہ بعض بزرگوں نے شفاعت و سفارش کی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا ان واسطوں کے بے اثر ہونے کے بعد عاصم بعض جان باز افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا ۔یہی واقعہ باعث ہوا کہ عبد اللہ حکومت اصفہان سے معزول ہوگیا لیکن وہ فوراً دارالخلافہ روانہ ہوا اور اس دس ہزار درہم دے کر گزارش کی کہ اسے اس کے عہدے پر باقی رہنے دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ اصفہان کی تابعیت سے قم خارج ہوجائے ۔ آخر کار قانع کنندہ توضیحات اور حمزہ بن یسع ( از بزرگان قم ) کے بیانات اور شہر کے ٹیکس کے ذمہ دار ہونے کے بعد ہارون نے قم کی استقلالیت کو قبول کرلیا اس کے حدود کی تعیین کے بعد جامع مسجد بنائی گئی نیز امام جمعہ کے لئے ایک منبر نصب کیا گیا ۔ ( یہ استقلال کی علامت تھی )(۶)

استقلال کے وقت اس سرزمین پر دو شہر موجود تھے ایک نیا اسلامی شہر بنام قم اور دوسرا زرد تشتیوں کا شہر بنام ” کلیدان “ حکومتی کارندے اور شہر کا قید خانہ وہیں تھا کیونکہ اہل قم عاملان حکومت کو اپنے شہر میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔

ستمگروں سے اہل قم کا مبارزہ

اہل قم اپنے زمانے کے ستمگر حاکموں سے ہمیشہ دست و گریباں رہے اور موقع پاکر شورش و انقلاب بھی برپا کرتے تھے ۔ (نیز ٹیکس دینے ) اور حکومت کی اقتصادی حمایت سے پرہیز کرتے تھے ۔

امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد اور مامون کے مظالم سے آگاہی کے بعد اہل قم نے ۲۰۳ ئھ اس فاجعہ عظیم کی بنیاد پر بعنوان اعتراض اور ولایت و امامت کے مقدس حریم کی حمایت کرتے ہوئے ایک بے سابقہ انقلاب برپا کردیا اور عباسی حکمرانوں کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرلی سالانہ مالیات دینے سے انکار کردیا ۔ اس انقلاب نے دس سال تک طول پکڑا آخر کار علی بن ہشام کی قیادت میں سپاہیوں کی یورش سے بہت سارے بزرگان شہر جن میں یحییٰ بن عمران ( اہل قم کے بزرگ جو اس قیام کے نظام کو سنبھالے تھے ) بھی تھے قتل کردئے گئے شہر کا ایک حصہ بر باد ہو گیا اور گزشتہ مالیات بھی (زبردستی) وصول لی گئی ، اہل شہر آہستہ آہستہ شہر کو بنانے لگے یہاں تک کہ ۲۱۶ ہجری تک شہر پھر ایک اطمینان بخش حالات میں تبدیل ہو گیا ۔

اسی سال ( معتصم کی خلافت کے زمانے میں ) لوگوں نے قم کے دار الحکومت پر حملہ کردیا اور شہر کے عامل ( طلحی ) کو شہر سے باہر نکال دیا اور علم مخالفت بلند کردیا ۔ طلحی کے بھڑکانے پر معتصم نے وصیف ترک کی سر براہی میں سپاہی روانہ کئے تا کہ اہل شہر کو خاموش کیا جائے اس نے بھگائے ہوئے حاکم کی مدد سے مختلف حیلہ و مکر کے ذریعہ شہر میں راستہ بنا لیا اس کے سپاہی اہل شہر کے قتل اور غارت گری میں مشغول ہوگئے اور انقلابی افراد کے گھروں ، باغوں میں آگ لگانے لگے اس طرح شہر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ لیکن اس تمام قتل و غرت گری نے نفرت و بیزاری کے سوا کچھ نہ دیا ۔ اسی مخالفت و اعتراض کی بنیاد پر ایک شخص کو بنام محمد بن عیسیٰ ( جو کہ ایک خوشخو اور انسان دوست شخص تھا ) قم کی حاکمیت سونپی گئی ۔ نئے حاکم نے اپنی ساجھ بوجھ کے ذریعہ لوگوں کی رضایت حاصل کی اور محبت کی بیچ کو ان کے درمیان چھینٹ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۴۵ ہجری تک شہر میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا ۔

آخر کار متوکل ( ایک جسور اور لا ابالی شخص ، جسے مقدسات دین کی اہانت کرتے ہوئے کوئی خوف و ہراس محسوس نہ ہوتا تھا مثلاً علی الاعلان حضرت علی اور حضرت صدیقہ طاہرہ علیہما السلام کو گالی دینا ، مرقد امام حسین علیہ السلام کو تاراج کرنا ) کی خلافت کے زمانے میں عاشق ولایت و امامت اہل قم بزرگان دین کے ساتھ ایسی جسار تیں اور اہانتیں دیکھنے کے بعد اس قدر غصہ ہوئے کہ موقع نکال کر حکومت عباسی کے معارضین مانند حسین کوکبی ( اشراف سادات علوی ) کا ساتھ دے کر ایک چھوٹی سے علوی حکومت تشکیل دےدی اور حکومت کے عمال کو نکال دیا ۔ تین سال تک یہ حکومت برقرار رہی ۔ آخر کار معتمد عباسی نے ”بلادجبل “ کے حاکم کو مامور کیا کہ حکومت علوی کو ختم کر کے قمیوں کے قیام کی سر کوبی کرے ۔ اس نے ایک کثیر فوج کے ساتھ حسین کوکبی کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد اہل قم کو سرکوب کرنا اور ان کے بزرگوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ بعض کو قید کر دیا ۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنے میں اس نے اتنی زیادتی کی کہ ان لوگوں نے امان پانے کے لئے امام حسن عسکری علیہ السلام کی پناہ اختیار کی حضرت نے اس شر عظیم سے نجات پانے کے لئے انہیں ایک دعا تعلیم فرمائی کہ اسے نماز شب میں پڑھیں ، یہ سر کوبیاں ، انقلاب اور ظلم و ستم کے خلاف قیام کے آتش فشاں کو خموش نہ کر سکیں ۔

اسی بنا پر اہل قم نے فقط معتمد سے در گیری کی وجہ سے یعقوب لیث کے ہمراہ ۲۶۳ ہجری میں دوبارہ اس کے مقابلے میں قیام کردیا ۔ یہ انقلاب کبھی کبھی ظہور پذیر ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ معتضد عباسی کی طرف سے یحییٰ بن اسحاق جو شیعہ تھے قم کے حاکم منصوب ہوئے وہ چونکہ نرم خو اور تجربہ کار انسان تھے اس لئے کوشش کی کہ خلفاء کی طرف سے لوگوں کا بغض و کینہ کم ہوجائے اور شورش و ہنگامہ کو روک سکیں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ۔ ان کی مدد سے امن و امان اور شہر میں بنیادی اقدامات ہونے لگے ۔ مثلاً اس سرزمین کا آخری آتشکدہ بجھایا گیا ، ایک عظیم منارہ و ماذنہ مسجد ابو الصدیم اشعری کے پاس تعمیر کیا گیا جس کی اذان کی آواز شہر کو دونوں حصوں میں پہنچتی تھی ۔(۷)

فرہنگی ، سیاسی انقلاب

اسی زمانے میں علی بن بابویہ نے اپنی مرجعیت عامہ کے ذریع ایک بے نظیر اور پر برکت مکتب کا قم میں قیام کیا جس میں تربیت پانے والوں کی تعداد دو لاکھ تک نقل کی گئی ہے ۔(۸)

ستارہ بابویہ ہی کے طلوع کے بعد حکومت سے مبارزہ کی روش بالکل بدل گئی اور ان لوگوں نے اصولی جنگ شروع کردی۔ ایک طرف تو فرزندان بابویہ کو تقویت بخشی اور ان کی قدرت سے یکی بعد دیگری خلفاء کو ہٹا تے رہے اور طبرستان میں حکومت آل علی علیہ السلام بنام ” ناصر کبیر و ناصر صغیر “ وجود میں لے آئے تو دوسری طرف علمائے اسلام تبلیغ و ترویج معارف دینی کی خاطر قم سے امراء کی خدمت میں پہنچ گئے اور ان میں سے اکثر و بیشتر مقام وزارت و امارت و ریاست پر پہنچ گئے اور نام وزرائے قم زینت بخش تاریخ حکومت و سیاست ہوگیا ۔ حکومت رکن الدولہ دیلمی کے دور میں ابن بابویہ کے مشورہ سے ابن العمید کی وزارت اور آپ کی صلاحدید کا نتیجہ تھا کہ استاد ابن العمید کی دعوت پر شیخ صدوق نے قم سے ری کا سفر اختیار کیا ، نیز گرانقدر علمی و فرہنگی آثار جو اسی ہجرت کا نتیجہ تھے تمام کے تمام اسی بزرگ زعیم شیعی کے سیاسی اقدامات کا ثمرہ ہیں ۔

اسی طرح ابن قولویہ مرحوم کا بغداد کا سفر کرنا اور وہاں مسجد براثا میں مکتب فقہ جعفری کا قیام کرنا نیز مختلف علمی ، فرہنگی اقدامات جنہوں نے تمام عالم اسلام میں وسعت پیدا کی تمام کے تمام قم مکتب ابن بابویہ کی برکتوں سے تھے ۔ یہ اسی پر برکت مکتب کا ثمرہ تھا کہ جس نے محدود انقلاب کو عظیم فرہنگی ، سیاسی انقلاب میں تبدیل کردیا اور بڑے بڑے سیاسی ، فرہنگی عہدے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تربیت یافتہ افراد کے اختیار میں آگئے اور حکومت عدل و معارف شیعی کی پیاسی بشریت کو اسلام حقیقی اور شیعیت کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب کر دیا(۹) یہ نورانی ستارہ اپنی روز افزون آب و تاب کے ساتھ آج بھی لاکھوں مسلمانوں کی مشعل راہ اور ناامیدوں کی امید ہے در حقیقت قم ام القرائے عالم اسلام ، حرم اہلبیت اور آشیانہ آل محمد علیہم السلام ہے ۔

قم کی مذہبی نورانیت

مذہبی اور روحانی اعتبار سے قم کے امتیاز اور اس کی شرافت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کل سے لے کر آج تک تیرہ سو سال کی مدت میں شیعیت کا مرکز علم و آگہی ، فضیلت و کرامت کا گہوارہ ، حکمت و معرفت کا جوش مارتا ہوا سر چشمہ ، یہی مقدس شہر جسے قم کہا جاتا ہے ۔ آئیں تشیع اور نشر معارف دینی و فرہنگی اسلام کے احیاء میں علمائے قم کی زحمتیں اس حد تک پھلدار ثابت ہوئیں کہ تاج کرامت ان کے سروں سجا دیا گیا ۔ ”لولا القمیون لضاع الدین(۱۰) ( اگر اہل قم نہ ہوتے تو دین برباد ہو جاتا ) ۔ ہاں قم ایک ایسا شہر ہے جس کی پہلی معنوی بنیاد اصحاب و محبان اہلبیت علیہم السلام نے ڈالی ۔ خاندان اشعری نے ایمان و تولائے آل محمد علیہم السلام کے مسالے سے اس عمارت کو تعمیر کیا اور اس شہر کی بنیاد ۸۳ ہجری(۱۱) میں ڈالی اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام کے زمانے میں اس کی طراحی ہوئی یہ شہر مرکز اسلام کی سر براہی میں ایک مستقل ملک کی طرح خاص مقررات اور مزیت کا حامل تھا حتی اس دور میں بھی کہ جب شیعوں نے گھٹن کا دور دیکھا ہے اہل قم نے بدون تقیہ با کمال آزادی اس دیار مقدس میں آثار واخبار آل محمد علیہم السلام اور انکی تدوین میں کوئی کم و کاست نہ کی نیز اذان کے فلک شگاف نعرہ میں فراز ارتفاعات پر ولایت علی علیہ السلام کی شہادت دیتے تھے ۔ مکتب امامیہ خاندان اشعری کے توسط سے پہلی مرتبہ قم میں افتتاح پذیر ہوا جس میں فقہ شیعہ علی الاعلان پڑھائی جاتی تھی ۔ اس طرح ہدایت کے مشعل اس شہر میں روشن ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل قم ہمیشہ ائمہ معصومین کی عنایت خاصہ کے مورد نظر رہے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے قم اور اہل قم کی فضیلت و عظمت کے بارے میں مختلف حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں ان احادیث میں سے کچھ چنندہ حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں :

۱- قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم لما اسری بن الی السماء حملنی جبرئیل علی کتفه الایمن فنظرت الی بقعة بارض الجبل حمراء احسن لونا من الزعفران و اطیب ریحا من المسک فاذا فیها شیخ علی راٴسه برنس فقلت لجبرئیل : ما هذه البقعة الحمراء التی هی احسن لونا من الزعفران و اٴطیب ریحا من المسک ؟

قال : بقعة شیعتک و شیعة وصیک علی علیه السلام فقلت: من الشیخ صاحب البرنس ؟ قال : ابلیس فقلت : فما یرید منهم ؟ قال : یرید ان یصدهم عن ولایة امیر المومنین و یدعوهم الی الفسق و الفجور قلت : یا جبرئیل اهو بنا الیهم ، فاٴهویٰ بنا الیهم اسرع من البرق الخاطف و البصر الامع ، فقلت : قم یا ملعون ! فشارک اعدائهم فی اموالهم و اولادهم فان شیعتی و شیعة علیٍ لیس لک علیهم سلطان ، فسمیت قم(۱۲)

ترجمہ : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں : کہ جب مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی تو جبرئیل نے مجھے اپنے داہنے شانے پر اٹھایا تو اس وقت میں نے ” ارض جبل “ میں ایک بقعہ کی طرف دیکھا جو سرخ رنگ اور زعفران سے زیادہ خوش رنگ اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھی ، ناگہاں اس سرزمین پر ایک بوڑھے کو دیکھا جس کے سر پر ایک لمبی سی ٹوپی تھی ۔ میں نے جبریل سے پو چھا! یہ کون سی زمین ہے کہ جس کی سرخی زعفران سے زیادہ خوش رنگ اور جس کی خوشبو مشک سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا : یہ آپ کے اور آپ کے وصی علی علیہ السلام کے شیعوں کا بقعہ ہے ۔ پھر میں نے پوچھا : یہ بوڑھا کون ہے جس کے سر پر ایک لمبی سی ٹوپی ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا : ابلیس ہے (یہ سنتے ہی ) میں نے ( جبرئیل سے ) کہا :اے جبرئیل مجھے وہاں لے چلو جبرئیل نے برق رفتاری سے بھی زودتر مجھے وہاں پہنچا دیا ۔ پس میں نے اس سے کہا : اٹھ جا ائے ملعون اور دشمنان شیعہ کے اموال و اولاد و خواتین میں شریک ہو کیونکہ میرے اور علی کے دوستداروں پر تیرا کوئی تسلط نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا نام ” قم “ ہو گیا ۔(۱۳)

۲-قال الصادق علیه السلام : انما سمی قم لان اهله یجتمعون مع قائم آل محمد و یقومون معه و یستقیمون علیه و ینصرونه ۔(۱۴)

ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اس شہر کا نام قم اس لئے رکھا گیا کہ اس شہر کے لوگ قائم آل محمد علیہم السلام کے ساتھ اجتماع کریں گے اور ان کے ساتھ قیام کریں گے اور اسپرڈٹے رہیں گے نیز ان کی مدد کریں گے ۔

۳-قال الامام کاظم علیه السلام : قم عش آل محمد و ماٴوی شیعتهم ۔

ترجمہ : امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : قم آشیانہ آل محمد اور شیعوں کی پناہ گاہ ہے ۔(۱۵)

۴-قال الامام الرضا علیه السلام : ان للجنة ثمانیة ابواب و لاهل قم واحد منها فطوبی لهم ثم طوبی لهم ثم طوبی لهم (۱۶)

ترجمہ : امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بہشت کے آٹھ ابواب ہیں ان میں سے ایک اہل قم کے لئے ہے پس ان کے لئے خوشا بحال ۔ (حضرت نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا )

۵-قال الامام الصادق علیه السلام : سیاٴ تی زمان تکون بلدة قم و اهلها حجة علی الخلائق و ذلک فی زمان غیبة قائمنا الی ظهوره ۔(۱۷)

ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ایک زمانہ ایسا آئے گا شہر قم اور وہاں کے رہنے والے تمام لوگوں پر حجت ہونگے اور یہ زمانہ ہمارے قائم (عج) کی غیبت میں ہوگا یہاں تک کہ وہ ظہور کریں ۔

۶-قال الامام الصادق علیه السلام :تربة قم مقدسة و اهلها منا و نحن منهم لا یریدهم جبار بسوء الا عجلت عقوبته ما لم یخونوا اخوانهم ۔(۱۸)

ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : تربت قم مقدس ہے اہل قم ہم میں سے ہیں اور ہم ان سے ہیں کوئی ستمگر ان کے ساتھ برائی کا قصد نہیں کرسکتا ہے مگر یہ کہ اس کے عذاب میں تعجیل ہوگی تا وقتیکہ لوگ اپنے دینی بھائی سے خیانت نہ کریں ۔

۷-قال الامام الصادق علیه السلام : محشر الناس کلهم الی بیت المقدس الا بقعة بارض الجبل یقال لها قم فانهم یحاسبوا فی حفرهم و یحشرون من حفرهم الی الجنة ۔(۱۹)

ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : تمام لوگ بیت المقدس کی طرف محشور ہوں گے مگر سرزمین ” ارض الجبل “ کے افراد جسے قم کہتے ہیں ان لوگوں کا حساب انہی کی قبروں میں ہوگا اور وہیں سے جنت کی طرف محشور ہوں گے ۔

۸-عن الامام الصادق علیه السلام : ( ا نه علیه السلام اشار الی عیسی بن عبد الله ) فقال : سلام الله علی اهل قم ، یسقی الله بلادهم الغیث و ینزل الله علیهم البرکات و یبدل الله سیاٴتهم حسنات هم اهل رکوع و سجود و قیام و قعود ، هم الفقهاء الفهماء هم اهل الدرایة و الروایة و حسن العبادة ۔(۲۰)

ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے عیسیٰ بن عبد اللہ قمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اہل قم پر خدا کا سلام ہو ، خدا ان کے شہر کو بارش رحمت سے سیراب کرے اور ان پر برکتیں نازل فرمائے ، ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل ڈالے ۔ یہ لوگ اہل رکوع و سجود و قیام و قعود ہیں یہ لوگ فہمیدہ فقہاء ہیں ۔ یہ لوگ اہل روایت و درایت اور بہترین عبادت کرنے والے ہیں ۔

۹-قال ابو الصلت الهروی کنت عند الرضا علیه السلام فدخل علیه قوم من اهل قم فسلموا علیه فرد علیهم و قربهم ثم قال لهم : مرحبا بکم و اهلا فاٴنتم شیعتنا حقا ۔(۲۱)

ترجمہ : ابو صلت ہروی کہتے ہیں کہ ہم لوگ امام رضا علیہ السلام کے پاس تھے کہ اسی اثناء میں قم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے پس ان لوگوں نے حضرت کو سلام کیا تو حضرت نے جواب سلام دیا اور اپنے نزدیک بیٹھا یا پھر ان سے فرمایا ۔ مرحبا خوش آمدید تم لوگ ہمارے حقیقی شیعہ ہو ۔

۱۰-قال الامام الصادق علیه السلام : ستخلو کوفة من المومنین و یاٴزر عنها العلم کما تاٴزر الحیة فی حجرها ثم یظهر العلم ببلدة یقال لها قم ، یصیر معدنا للعلم و الفضل ۔(۲۲)

ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : عنقریب کوفہ مومنوں سے خالی ہو جائے گا اور علم وہاں سے اس طرح جمع ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں خود کو لپیٹ لیتا ہے پھر ایک شہر میں علم ظاہر ہوگا جسے قم کہتے ہیں اور وہ مرکز علم و فضل قرار پائے گا ۔

۱۱-روی بعض اصحابنا قال : کنت عند ابی عبد الله علیه السلام جالسا اذ قرء هذه الآیة : ”فاذا جاء وعد اولٰهما بعثناعلیکم عبادا لنا اولیٰ باٴس شدید فجاسوا خلال الدیار و کان وعدا مفعولا “ (سورة بنی اسرائیل / ۵) فقلنا : جعلنا فداک من هولاء ؟ فقال ثلاث مرات هم والله اهل قم ۔(۲۳)

ترجمہ : ہمارے بعض اصحاب نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی اثناء میں آپ نے اس آیہ شریفہ ” فاذا جاء وعد“ (پھر جب ان دو فسانوں میں پہلے کا وقت آپہونچا تو ہم نے تم پر کچھ اپنے بندوں (بخت النصر) اور اس کی فوج مسلط کردیا جو بڑے سخت لڑنے والے تھے تو وہ لوگ تمہارے گھروں میں گھسے( اور خوب قتل و غارت کیا اور خدا کے عذاب کا وعدہ تو پورا ہو کر رہا ) کی تلاوت فرمائی ۔ تو ہم لوگوں نے پوچھا ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا خدا کی قسم وہ اہل قم ہیں ۔

۱۲-قال الامام الکاظم علیه السلام : رجل من اهل قم یدعو الناس الی الحق یجتمع معه قوم کزبر الحدید لا تزلهم الریاح العواصف و لا یملون من الحرب و لا یجبنون و علی الله یتوکلون و العاقبة للمتقین ۔(۲۴)

ترجمہ : امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا ۔ ایک گروہ آہن کی طرح استحکام کے ساتھ اس کی ہمراہی کرے گا جسے حوادث کی تند ہوائیں ہلا نہیں پائیں گی وہ لوگ جنگ سے تھکن محسوس نہیں کریں گے ، اور نہ ہی ڈریں گے وہ لوگ خدا پر بھروسہ رکھنے والے ہونگے ( بہترین ) عاقبت تو پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔

۱۳-قال الامام الصادق علیه السلام : ان الله احتج بالکوفة علی سائر البلاد و بالمومنین من اهلها علی غیرهم من اهل البلاد و احتج ببلدة قم علی سائر البلاد و باهلها علی جمیع اهل المشرق و المغرب من الجن و الانس و لم یدع الله قم و اهلها مستضعفا بل وفقهم و ایدهم ۔(۲۵)

ترجمہ : امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : اللہ نے کوفے کو سارے شہر پر حجت قرار دیا ہے اور وہاں کے با ایمان افراد کو دوسرے شہر کے لوگوں پر حجت قرار دیا ہے اور شہر قم کو دوسرے شہروں پر حجت قرار دیا ہے اور وہاں کے لوگوں کو مشرق و مغرب کے تمام جن و انس پر حجت قرار دیا ہے ۔ خداوند عالم نے قم اور اہل قم کو یونہی نہیں چھوڑدیا کہ مستضعف اور غریب ( فکری و فرہنگی ) ہوجائیں بلکہ انہیں توفیق دی اور ان کی تائید فرمائی ہے ۔

۱۴-قال الامام الصادق علیه السلام : ان لِلّٰهِ حرما و هو مکه و ان للرسول حرما و هو المدینه و ان لامیرالمومنین حرما و هو الکوفة و ان لنا حرما و هو قم و ستدفن فیها امراٴة من اولادی تسمی فاطمة فمن زارها وجبت له الجنة (قال الراوی : و کان هذا الکلام منه قبل ان یولد الکاظم علیه السلام ) ۔(۲۶)

ترجمہ : امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : بے شک خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے ، رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے امیرلمومنین علیہ السلام کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ، ہمارے لئے ایک حرم ہے اور وہ قم ہے عنقریب ہماری اولاد میں سے ایک خاتون وہاں دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا جو اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی ۔

راوی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام نے یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی تھی کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔

اس کے علاوہ ائمہ معصومین علیہم السلام اہل قم اور وہاں کے بعض بزرگوں کو اپنی عنایتوں کے سایہ میں رکھتے تھے ان کے لئے ھدیئے خلعتیں مثلا انگوٹھی ، کفن کا کپڑا بھیجا کرتے تھے ۔(۲۷) نیز بعض بزرگوں کے حق میں گرانقدر حدیثیں بیان فرمائی ہیں بطور نمونہ بعض حدیثیں مذکور ہیں :

۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے زکریا بن آدم سے اس وقت فرمایا کہ جب وہ قم سے باہر جانا چاہتے تھے : قم سے باہر نہ جاو ( کیونکہ ) خدا تمھاری وجہ سے اہل قم سے بلا کو دور رکھتا ہے جس طرح موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے وجود نے اہل بغداد سے بلا کو دور رکھا ۔(۲۸)

۲ ۔ امام صادق علیہ السلام نے عیسیٰ بن عبد اللہ قمی کے بارے میں فرمایا : تم ہمارے اہل بیت میں سے ہو ۔ پھر حضرت نے فرمایا عیسیٰ بن عبد اللہ ایسے انسان ہیں جنھوں نے اپنی حیات و ممات کو ہماری موت و زندگی سے ہم آہنگ کر لیا ہے ۔(۲۹)

۳ ۔ امام صادق علیہ السلام نے عمران بن عبد اللہ قمی سے فرمایا : خداوند عالم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم کو اور تمھارے خاندان کو روز قیامت ( جہاں کوئی سایہ نہیں ہوگا ) اپنی رحمت کے سایہ میں قرار دے ۔(۳۰)

____________________

۱۔ گنجینہ آثار قم ( عباس فیضی ) : ج/۱ ، ص/۷۰ ۔

۲۔ اس قبیلہ نے اوائل بعثت میں یمن سے مدینہ ہجرت کی تھی اور آنحضرت پر ایمان لائے تھے اس قبیلہ کے بزرگ مالک بن عامر بن ہانی ہیں جنھوں نے جنگ قادسیہ میں اپنے ہدایت یافتہ ہونے اور بلند نفسی کا ثبوت پیش کیا آپ عبد اللہ اور احوص کے جد ہیں یہ دونوں بزرگوار قم کے شیعوں کا مرکز بنانے میں بنیادی کردار رکھتے ہیں ۔ ( گنجینہ آثار قم : ج/۱، ص/۱۳۷ )

۳۔ معجم البلدان : ج/۴، ص/۳۹۷ ۔

۴۔ تاریخ قدیم قم ( حسن بن محمد بن حسن قمی ) ص/۲۴۵۔ ۲۵۷، باتصرف ۔

۵۔ گنجینہ آثار قم :عباس فیضی ۔ج/۱ ، ص ۱۵۴

۶۔ گنجینہ آثار قم : عباس فیض ج/۱ ، ص/۱۵۴ ۔

۷۔ گنجینہ آثار قم : ج/۱ ، ص/۳۵۳ ۔

۸۔ مدرک سابق : ص/۱۶۲ ۔

۹۔ گنجینہ آثار قم : ج/۱ ، ص/۱۶۲ ۔ اضافہ و تصرفات کے ساتھ

۱۰۔ بحار الانوار ج/۶۰، ص/ ۲۱۷

۱۱۔ معجم البلدان ج/ ۴ ، ص/ ۳۹۷ ۔

۱۲۔ بحارالانوار : ج/۶۰، ص/ ۲۰۷ ۔

۱۳۔ یہ حدیث اور اس قسم کی دوسری حدیثیں انسان کو حیران کر دےتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل سے دریافت کیا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ کیا العیاذ باللہ جبرئیل کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سے زیادہ علم تھا ؟ واضح ہے کہ اس کا جواب منفی میں ہوگا ۔ تو پھر اس حدیث اور اس قسم کی دوسری حدیثوں کی توجیہ کیا ہو گی ؟ اس سلسلے میں جب ہم تحقیقی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود اسی موضوع پر بہت روایتیں موجود ہیں ۔

کتاب اصول کافی جو شیعوں کی معتبر کتاب ہے اس میں ایک باب ہے جو کتاب الحجہ کے ابواب میں سے ایک باب ہے جس کا موضوع ہے : ”ان الائمة علیهم السلام اذا شاووا انْ یعلمو علموا “ ( یعنی ائمہ علیہم السلام جب معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تب جانتے ہیں )اس موضوع کے تحت کلینی رحمۃ اللہ علیہ نے تین حدیثیں ذکر فرمائی ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک کا مفہوم و منطوق یہی ہے کہ ائمہ موصومین علیہم السلام ہر وقت اپنے علوم وھبی سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ۔ خود پیغمبر اسلام نے قضاوت کے سلسلے میں فرمایا کہ میں گواہ ہوں اور قسموں کے ذریعہ حکم نافذ کروں گا ۔

لہٰذا اس قسم کے سوالات جو ائمہ معصومین علیہم السلام اور خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کیا کرتے تھے اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا تھا کہ انھیں اس امر کا علم نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہرجگہ اپنے علوم کو استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ جب ان کی مشیت ہوتی تھی تب علم لدنی سے استفادہ فرماتے تھے ۔ مترجم ۔

۱۴۔ بحار الانوار : ج / ۶۰ ، ص / ۲۱۶ ۔

۱۵۔ مدرک سابق : ص / ۱۲۴ ،

۱۶۔ مدرک سابق : ص / ۲۱۵۔

۱۷۔ مدرک سابق : ص/ ۲۱۳ ۔

۱۸۔ بحار الانوار : ج/۶۰ ، ص/ ۲۱۸ ۔

۱۹۔ مدرک سابق

۲۰۔ مدرک سابق : ص/ ۲۱۷ ۔

۲۱۔ بحار الانوار : ج۶۰ ، ص/ ۲۳۱ ۔

۲۲۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۳ ۔

۲۳۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۶ ۔

۲۴۔ بحار الانوار : ج/۶۰ ، ص/ ۲۱۶ ۔

۲۵۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۳ ۔

۲۶ ۔ مدرک سابق ص/ ۲۱۶ ۔

۲۷۔سفینہ البحار ج/۲ ، ص/ ۴۴۷۔

۲۸۔ بحار الانوار ج/ ۶۰ ، ص/ ۲۱۷ ۔

۲۹۔ معجم الرجال الحدیث ج/۱۳ ، ص/ ۲۱۴۔

۳۰۔ مدرک سابق ص/ ۱۵۸ ۔

نماز کے بارے میں گفتگو

نماز کے مسائل

ہاں۔ ہم اپنی گفتگو کا آغاز نماز سے کریں گے،میرے والد نے فرمایا: نماز (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے : ”عمود دین“ ہے۔)

ان قبلت قبل ما سواها، و ان ردت رد ماسواها “۔

”اگر نماز قبول ہوگئی تو ہر چیزقبول ہوجائیگی اوراگر وہ ردکردی گئی تو تمام چیزیں رد کردی جائیں گی“میرے والد نے مزیدفرمایا کہ نماز خالق ومخلوق کے درمیان ایک معین وثابت ملاقاتوں کی جگہ ہے اللہ تعالی نے اس کے اوقات ‘اس کے طریقہ‘اس کی صورتوں،اس کی کیفیات کواپنے بندوں کیلئے مقرر کیاہے تم نمازکے دوران اس کے سامنے اپنی عقل وقلب اور اعضاء وجوارح کواس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کھڑے ہوجاؤ اس سے بات اور مناجات کرو پس تم پر لازم ہے کہ مناجات کے دوران صفائے قلب وذہن کے ساتھ اشک ریزی کرو(آنسوبہاؤ) اور شفاف روح کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

اس طرح کہ جیسے اس کے سامنے کھڑے ہو اور اسی کے ساتھ اس کی ملاقات اور اس کے وصال کی لذت وسعادت کی نعمت سے لطف اندوزہوتے ہو اور یہ فطری بات ہے کہ اس کی محبت تم پر خوف کے ساتھ طاری ہوگی کیونکہ تم اپنے ایسے خالق کے سامنے کھڑے ہوگے کہ جوعظیم اور تم پر رحیم ہے اور تمہارے حال پر مہربان ہے‘ اور سمیع وبصیر ہے۔

آپ کے مولا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے رب کی عبادت میں پوری طرح مستغرق رہتے اور ہر وقت اس کی طرف اس طرح متوجہ رہتے کہ جنگ صفین میں آپ کے جسم سے تیر نکالا گیا تو اس کا دردو الم آپ کو اپنے رب کی مناجات سے نہ روک سکا۔

امام حضرت زین العابدین علیہ السلام جب وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد پڑجاتا آپ کے گھروالوں میں سے کسی نے پوچھاآپ کا وضو کے وقت یہ کیا حال ہوجاتا ہے؟تو آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے جارہا ہوں اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کے جسم میں لرزہ پڑجاتا کسی نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :

”میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا چاہتاہوں اور اس سے مناجات کرنا چاہتاہوں تو میرے جسم میں لرزہ پڑجاتاہے “۔

اور جب تمہارے امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام گوشہ تنہائی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو روتے اور آپ کے جسم کے اعضاء میں اضطراب پیدا ہوجاتا اور آپ کے قلب(مبارک) میں خوف خدا سے حزن واندوہ پیدا ہو جاتاتھا۔

اور جب آپ کو ہارون رشید کے تاریک اور وحشتناک قید خانہ میں لے جایا گیا تو وہاں آپ خدا کی اطاعت وعبادت میں مشغول ہوگئے اور اس بہترین وپسندیدہ فرصت کے مہیا ہونے پر اپنے پروردگار کا شکر بجالائے اور اپنے پروردگارکومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں”میں نے تجھ سے عرض کیا تھا کہ مجھے اپنی عبادت کا موقعہ عنایت فرماتو نے میری اس دعا کو قبول کیا لہٰذا میں تیری اس چیزپر حمدوثنا بجالاتاہوں۔

اور میرے والد نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا نماز نفس کی اندرونی خواہش وکیفیت کی ظاہری حالت اور ایسے خدا سے لگاؤ اور ربط کانام ہے جوکائنات کا خالق‘غالب‘ مالک اور سب کا نگہبان ہے۔جس وقت تم اپنی نماز کو شروع کرتے ہوئے (اللہ اکبر ) کہتے ہو تو مادیات اور اس کی راہ وروش اور اسی کی زیب وزینت تمام کی تمام تمہارے نفس میں سے دور ہوجاتی ہے اور تم اکثر مضمحل ہوجاتے ہو کیونکہ تم اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہو کہ جو خالق کائنات اور اس پر غالب ہے جس نے اس دنیا کو اپنی مشئیت کے مطابق مسخر کیا ہے پس وہ ہر چیز سے بڑا عظیم ہے اور ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اور جس وقت تم سورة الحمد کی قرائت کرتے ہو ایاک نعبدوایاک نستعین تو تم اپنے نفس اور جسم کو اللہ قادرو حکیم کی استعانت کے علاوہ کسی دوسری استعانت کے اثر سے پاک وصاف کرلیتے ہو۔(یعنی صرف اللہ سے استعانت چاہتے ہو کسی اور سے نہیں )اور یہ خشوع کی پسندیدہ عادت ہر روز پانچ مرتبہ حتمی ہوجاتی ہے صبح ظہر،عصر،مغرب،اور عشاء،اور اگر تم چاہو اس میں مستحب نمازوں کا اضافہ کر سکتے ہو۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ نمازیں واجب اور مستحب دونوں ہیں؟

جواب: ہاں کچھ نمازیں واجب اورکچھ دوسری نمازیں مستحب ہیں؟

سوال: واجب نمازیں کو تو میں جان گیا کہ جوہرروزادا کی جاتی ہیں وہ صبح‘ظہر‘عصر،مغرب اور عشاء،ہیں؟

جواب: نہیں فقط یہی نمازیںواجب نہیں ہیں بلکہ کچھ دوسری نمازیں بھی واجب ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ نماز آیات (دوسری نمازکی بحث میں دیکھیے)

۲ نماز طواف حج اور عمرہ کے وقت (حج کی بحث میں دیکھیئے)

۳ نماز میت (میت کے بیان میں دیکھیے)

۴ باپ کی وہ قضا نمازیں جو اس نے پڑھی نہیں ہیں (اس حیثیت سے کہ اس کے بڑے بیٹے پر اس کی موت کے بعد اس کی نمازکی قضا واجب ہے۔)

۵ وہ نماز جو اجارہ یا نذریا قسم یا ان دونوں کے علاوہ واجب ہو جاتی ہے اور وہ نماز مختلف حالات کی بناپر بدلتی رہتی ہے۔

اس کے علاوہ مقدمات نماز پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں

۱ وقت نماز

۲ قبلہ

۳ نماز کی جگہ

۴ نمازی کا لباس

۵ نماز کی حالت میں طہارت

میرے والد نے فرمایا کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ یہ مقدمات نماز یومیہ کے علاوہ دوسری نمازوں میں واجب نہیں ہیں چاہے وہ واجب ہوں یا مستحب، شرط اول (وقت) کے علاوہ تمام شرائط دوسری نمازوں میں واجب ہیں جن کی تفصیل انشاء اللہ بیان کی جاءے گے اور اب تفصیل کے ساتھ اس مقدمات میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ بیان کرتاہوں

سوال: وقت نماز سے شروع کیجئے؟

جواب: ہاں ان مقدمات میں وقت سب سے زیادہ بہتر ہے ۔

۱ ۔ نمازکا وقت

نماز یومیہ کا وقت معین ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی جائز نہیں ہے پس نماز صبح کا وقت صبح (صادق) سے سورج کے نکلنے تک ہے اور نماز ظہرین (ظہروعصر)کا وقت زوال شمس سے غروب تک ہے اور اول وقت ظہر سے مخصوص ہے اور آخروقت عصرسے مخصوص ہے ان دونوں کی ادا کے مقدار کے مطابق ۔

سوال: میں زوال کو کس طرح پہچانوں کہ یہی وہ وقت ہے کہ جس میں نماز ظہرین پڑھی جاتی ہے؟

جواب: زوال کا وقت طلوع شمس اور غروب شمس کا درمیانی وقت ہے لیکن نماز مغربین (مغرب وعشاء کا وقت اول مغرب سے آدھی رات تک ہے پہلا مخصوص وقت نماز مغرب سے ہے اور آخر وقت نماز عشاء سےمخصوص ہے ان دونوں کے ادا کرنے کے مطابق تم نماز مغرب کومشرق کی سرخی زائل ہوجانے کے بعد پڑھ سکتے ہو۔

سوال: یہ حمرہ مشرقیہ کیا ہے(مشرق کی سرخی)؟

جواب: وہ آسمان میں مشرق کی طرف ایک سرخی ہے جوکہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ کے مقابل ہوتی ہے جب سورج بالکل غروب ہو جاتاہے تو وہ زائل ہوجاتی ہے ۔

سوال: میں کیسے آدھی رات کو معین کروں کہ یہ وقت نماز عشاء کا آخری وقت ہے؟

جواب: سورج کے ڈوبنے اور صبح (صادق) کے نکلنے کا درمیانی وقت نصف لیل یعنی آدھی رات ہے ۔

سوال: اگر رات آدھی یا زیادہ گزرگئی اور میں نے نماز مغربین جان کر نہیں پڑھی تو کیا حکم ہے۔

جواب: تم پر واجب ہے کہ جلدی سے صبح کے نکلنے سے پہلے دونوں نمازوں کو بقصد قربت مطلقہ پڑھو یعنی نماز کی ادا اور قضاء کاذکر نہ کرو۔

سوال: نماز میں جو چیز اہم ہے اس کا لحاظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر نماز کو شروع کرنے سے پہلے اس کے وقت کے داخل ہوجانے کا یقین ہو جانا چاہیے وہ نماز صبح ہویا ظہر یا عصر یا مغرب یا عشاء کی ہو۔

( ۲) قبلہ

نماز کی حالت میں تم پر قبلہ رخ ہونا واجب ہے اور قبلہ وہ جگہ ہے جیسا کہ تم جانتے ہو۔ جہاں مکہ میں کعبہ محترم واقع ہے ،

سوال: اور جب بہت جدوجہد اور ان تمام حجتوں کے بعد بھی جن پر بھروسہ رکھ کرقبلہ کی سمت تعین کیا جاسکتا ہے قبلہ کی سمت کو معلوم کرنے پر قادر نہ ہوسکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھتو۔

سوال: اور اگر ایک سمت کو دوسری سمت پر ترجیح نہ دے سکوں تو؟

جواب: جس سمت قبلہ کا تم کو ظن ہو اس سمت نماز پڑھ لو۔

سوال: اور جب میں کسی ایک سمت کے متعلق عقیدہ پیدا کرلوں کہ یہ قبلہ کی سمت ہے اور نماز پڑھ لوں پھر نماز کے بعد معلوں ہوجائے کہ میں نے خطا کی ہے؟

جواب: جب تمہارا انحراف قبلہ سے صرف دائیں یا بائیں جانب کے درمیان ہوتو تمہاری نمازصحیح ہے ،اور اگر تمہارا قبلہ سے انحراف اس قدر زیادہ ہو یا تمہاری نماز قبلہ کی سمت سے برعکس ہو اور ابھی نماز کا وقت بھی نہیں گزرا تو نماز کا اعادہ کرو اور اگر نماز کا وقت گزر گیا ہو تو نماز کی قضا واجب نہیں ہے

( ۳) نمازی کا مکان

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ تمہاری نماز کی جگہ مباح ہو کیونکہ نماز غصبی جگہ پر صحیح نہیں ہے اور غصی جگہ میں وہ چیز شمار ہوگی کہ جس کا خمس واجب ہو اور نہ دیا گیا ہو ،چاہے گھر ہو یا ان دونوں کے علاوہ کوئی اور چیز اور تفصیل کے ساتھ تم کو اس کی شرح (خمس کی بحث میں دی جائیگی) یہاں صرف ضرورت کے تحت اشارہ کردیا ورنہ غفلت، چشم پوشی،لاپرواہی جہنم میں جانے سے نہیں روک سکتی، بہت سے ایسے ہیں کہ جنھوں نے اپنے اموال میں سے حق خدا کو نہ نکالا اور وہ جہنم میں چلے گئے‘

سوال: فرض کیجئے زمین غصبی نہیں ہے لیکن اس پر جو فرش بچھا ہے وہ غصبی ہے تو کیا یہی حکم رہے گا؟

جواب: یہی حکم ہے ،کہ تمھاری نماز اس فرش پر صحیح نہیں ہے میرے والد نے مزید فرمایا کہ تمھارے سجدے کی جگہ پاک ہونی چاہئے ۔

سوال: آپ کامقصد سجدہ کی جگہ سے پیشانی کی جگہ ہے؟

جواب: ہاں صرف سجدے کی جگہ کی طہارت یعنی سجدہ گاہ یا جس پر تم سجدہ کررہے ہو (وہ پاک ہو)۔

سوال: اور نماز کی باقی جگہ مثلاً دونوں پاؤں کی جگہ یاوہ جگہ کہ جس کو نماز میں پورا جسم گھیرے ہوئے ہے؟

جواب: اس میں طہارت شرط نہیں ہے پس اگر سجدے کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ نجس ہو اور اس جگہ کی تری جسم اور لباس تک سرایت نہ کرے تو اس جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے یہاں پھر چندموضوعات باقی رہ گئے ہیں جو نمازپڑھنے والے کی جگہ سے مخصوص ہیں میں ان کو تمہارے لئے چند صورتوں میں بیان کرتاہوں۔

( ۱) نماز میں اور نماز کے علاوہ کسی صورت میں معصومین کی قبورکی طرف پشت کرنا جب کہ پشت کرنے سے بے ادبی ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔

(ب) مرد اور عورت کی نماز صحیح نہیں ہے جب وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے کھڑی ہو مگریہ کہ دونوں کے کھڑے ہونے کے درمیان دس ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہویا، ان دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو مثلاً دیوار۔

جواب: نماز کا پڑھنا مسجدوں میں مستحب ہے مساجد میں سب سے زیادہ افضل نماز کا پڑھنا مسجد الحرام‘مسجد نبوی مسجد کوفہ اور مسجد اقصی میں ہے اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس روضوں میں نماز کا پڑھنا مستحب ہے ۔

(د) عورت کے لئے افضل ہے کہ وہ اپنی نماز پڑھنے کے لئے زیادہ تر ایسی جگہ کا انتخاب کرے کہ جہاں بالکل تنہائی ہواور کوئی نامحرم اس کو نہ دیکھے حتی کہ اپنے گھرمیں بھی ایسی ہی جگہ کا انتخاب کرے۔

۴ ۔نمازپڑھنے والے کالباس اور اس میں چندشرطیں ہیں

لباس پاک ہو اور غصبی نہ ہو لباس کے مباح ہونے کی شرط یہ ہے کہ صرف شرمگاہ کو چھپانے والا لباس مباح ہو اور یہ چیزمردو عورت کے درمیان مختلف ہے مردکے لئے کچھ اندرونی لباس کا مباح ہوناکافی ہے مثلاٌ جانگیہ (کم از کم اتنا لباس مرد کا مباح ہوجب کہ عورت کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کیونکہ نماز میں عورت کے لباس کا دائرہ وسیع ہے اور وہ تمام بدن کا چھپانا ہے،سوائے ان اعضاء کے کہ جو چھپانے سے مستثنی رکھے گئے ہیں (یعنی چہرہ ہاتھ گٹوں تک اور پاؤں کا ظاہری حصہ)۔

ب لباس مردار کے ان اجزاء کا نہ ہو کہ جن میں جان ہوتی ہے جیسے اس حیوان کی کھال کہ جو شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو (اگرچہ وہ لباس اس کی شرمگاہ کو بھی نہ چھپاتا ہو،یعنی نمازی کے ہمراہ ان اجزاء میں سے کوئی چیز نہ ہو)

سوال: کیا اس کھال کی بلٹ میں نماز پڑھنا صحیح ہے کہ جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے خریدی ہوئی ہو یا اسلامی ممالک میں بنائی گئی ہو جب کہ اس کا تذکیہ معلوم نہ ہو؟

جواب: ہاں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

سوال: اور کھال کی وہ بلٹ جو کافر سے لی گئی ہو یا کافروں کے ممالک میں بنائی گئی ہو؟

جواب: ہاں اسمیں بھی نماز پڑھنا صحیح ہے( مگریہ کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ غیر مذ کی حیوان کی کھال سے بنی ہے تو پھر نماز صحیح نہیں ہے)

سوال: جب کہ اس کھال کی بلٹ کے بارے میں یقین نہ ہو مثلا معلوم نہ ہوکہ اصلی کھال کی ہے یا نقلی؟ توکیا حکم ہے؟

جواب: مذکورہ تمام حالات میں اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے ۔

الف نمازی کا لباس درندوں کے اجزاء کا بنا ہوا نہ اور اس مقدار میں نہ ہوکہ جس میں شرمگاہ چھپائی جاسکتی ہو اور نہ درندوں کے علاوہ ان جانوروں کا ہو کہ جن کا گو شت نہ کھایا جاتا ہو

ب مردوں کا لباس خالص ریشم کا نہ ہو،لیکن عورتوں کے لئے خالص ریشم کے لباس میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔

ج مردوں کےلئے خالص سونے کے تاروں کا بنا ہوا لباس نہ ہو یا سونے کے تار اس میں اتنے مخلوط نہ ہوں کہ جس پر سونے کانام صادق آئے ہاں اگر بہت کم سونے کے تارہوں تو کوئی حرج نہیں۔

سوال: اور اگر (سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلہ یا کڑا ہاتھ میں ہوتو مردکا اس کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے اسی طرح مردکے لئے ہمیشہ سونے کا لبا س پہنا حرام ہے۔

سوال : کیا نماز کے علاوہ بھی مرد کو سونا پہننا حرام ہے ؟

جواب : جی ہاں۔

سوال: سونے کے وہ دانت جو بعض مرد بنواتے ہیں اور سونے کی وہ گھڑی جو بعض لوگ جیب میں رکھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ چیزیں جائز ہیں اور ان کے ساتھ ان لوگوں کا نماز پڑھنا جائز ہے

سوال: کسی مرد کو معلوم نہیں کہ اس کی انگوٹھی سونے کی ہے اور وہ اس میں نماز پڑھ لے معلوم ہو لیکن بھول کر نماز پڑھ لے،اور پھر نماز کے بعد اس کو معلوم ہوجا ئے، یا اس کو بتایا جائے،تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس کی نماز صحیح ہے۔

سوال: اور عورتوں کیلئے کیا حکم ہے؟

جواب: ان کے لئے ہمیشہ سونے کا لباس پہننا اور اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔

اب نمازی کے لباس میں جواہم چیزہے وہ یہ کہ نماز میں مرد پر شرمگاہ کا کتنا چھپانا واجب ہے تو اس کی مقدار صرف عضوتناسل ،دونوں بیضہ، اور پاخانے کا مقام چھپانا واجب ہے،عورت پر نماز کی حالت میں پورے جسم کا چھپانا واجب ہے یہاں تک کہ بالوں کا بھی چھپانا واجب ہے اگر چہ وہ تنہاہی کیوں نہ ہو،اور اس کو کوئی دیکھ بھی نہ رہا ہو،سوائے اس چہرہ کے کہ جس کو عموماً اوڑھنی نہیں چھپاتی کہ اس کا پلو کاندھے پر ڈالا جائے،اور دونوں ہاتھ کلائیوں تک اور دونوں پیر انگلیوں کے سرے سے گٹوں تک ۔

یہ تمام کے تمام مقدمات نماز تھے میرے والد نے فرمایا نماز خود چند واجب اجزاء کا ایک مرکب عمل ہے اور وہ اجزاء یہ ہیں نیت،تکبیرة الاحرام‘قیام،قرائت،ذکر،رکوع،سجدے،تشھد،اور،سلام ،ان اجزاء میں ترتیب اور موالات کا لحاظ رکھا جائیگا جیسا کہ آپ کو آئندہ معلوم ہوگا۔

سوال: آپ نے نماز کے بیان کو اذان واقامت سے شروع کیوں نہ کیا ؟

جواب: اس سے پہلے کہ آپ کو میں اس سوال کا جواب دوں ضروری ہے کہ آپ کو ان اجزاء کے بارے میں بتاؤں کہ ان میں سے کچھ کا نام ارکان ہے اور وہ نیت، تکبیرة الاحرام‘قیام،رکوع اور سجدے ہیں ۔

میں نے تمام اجزاء میں صرف ان کو خصوصیا ت کے ساتھ اس لئے بیان کیا کہ یہ نماز کے باطل ہونے میں ایک خاصیت رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر ان میں سے کوئی عمداً یاسہواًً کم یا زیادہ ہوجائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے لہٰذا یہ اپنے اس نام میں امتیاز رکھتے ہیں۔

اب آپ کے سوال کا جواب دیتاہوں ۔

اذان واقامت نماز پنجگانہ میں مستحب موکدہ ہیں (سنت موکدہ) بہتر ہے کہ نمازی ان کو بجالائے لیکن اگر ترک بھی کردے تو نماز صحیح ہے۔

اس کے بعد میرے والد نے فوراً نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

میں آپ سے تمنا کرتاہوں کہ آپ اپنی پنجگانہ نماز میں اذان واقامت کو ترک نہ کریں ورنہ ان دونوں کا ثواب کم ہوجائے گا۔

سوال: جب میں چاہوں کہ اذان دوں تو کس طرح اذان دوں؟

جواب: تو فرمایا : تم کہو۔

اَللّٰهُ اکبَرُ چار مرتبہ

اشهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اَشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه دو مرتبہ

سوال: اقامت کس طرح کہیں؟

جواب: قامت میں کہیں:

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دو مرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنْ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ دومرتبہ

اٴَشْهَدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰهُ دو مرتبہ

”اشهدان علیا ولی الله “۔۔۔ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَةِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفلَاَحِ دو مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ دو مرتبہ

اٴَللّٰهُ اٴَکْبَرُ دومرتبہ

لَاَ اٴِلٰهَ اٴِلاَّ اللّٰه ایک مرتبہ

سوال: اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی شہادت؟

جواب: آپؑ کی ولایت کی شہادت رسالت کی شہادت کی تکمیل ہے اور مستحب ہے۔ لیکن اذان واقامت کا جزء نہیں ہے۔

نیت

سوال: اس بناپر کیا اجزاء نماز میں پہلا جزء وہی ہے جوآپ نے بتایا یعنی نیت ؟

جواب: ہاں۔

سو ال : نماز کی نیت کیسے کی جائے گی؟

جواب: نماز میں تمہارا قصد فرمان الٰہی کو بجالانے کے لئے ہو یعنی نماز کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو اور یہ نسبت تذلیلی ہو،چاہتا ہوں تم کو اضافہ تذلیلیہ کے بارے میں واضح طور پرسمجھا ؤں۔

اضافہ تذلیلیہ ( نسبت تذلیلی) ایک ایسا عمل ہے جو افعال عبادی سے قریب ہے‘اس کے ذریعہ انسان میں ایک شعوری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کہ وہ مولائےجلیل سجانہ وتعالی کے سامنے ایک عید ذلیل ہے۔

سوال: کیا نیت کے لئے کوئی لفظ مخصوص ہے؟

جواب: ہرگز نہیں نیت ایک عمل قلبی ہے زبانی عمل نہیں،لہٰذا اس کے لئے کوئی لفظ معین نہیں،اس کا محل قلب ہے اگر تمہارا مقصد نماز میں تقرب الی اللہ نہیں ہے، کہ جس کی تائید تمہارے حرکات کریں گے۔ تو تمہاری نماز باطل ہے۔

دوسرے۔ تکبیرة الاحرام

س یہ تکبیرة الاحرام کیا ہے؟

جواب: تمہارااللہ اکبر کہنا اس حالت میں کہ تم اپنے قدموں پر کھڑے اور اپنی جگہ ساکت ہوکر قبلہ کی طرف رخ کرکے عربی زبان میں اس کو ادا کرو‘کلمہ( اکبر) کی ہمزہ کی آواز کو واضح طور پر اور اسی طرح تمام حروف اپنی زبان پر جاری کرو،اور افضل یہ ہے کہ تکبیرة الاحرام اور سورالحمد کے درمیان تم تھوڑا ساخاموش رہ کر فاصلہ پیدا کرو تاکہ تکبیر کی آخری (راء) سورالحمد سے مل نہ جائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا: حالت قیام میں تم پر تکبیرۃ الاحرام کہنا واجب ہے،اگر میں مریض ہوجاؤں اور اپنے قدموں پر کھڑانہ ہو سکوں،اگرچہ عصا یا دیوار کایا ان دونوں کے علاوہ کسی اورچیز کا سہارا بھی نہ لے سکوں تو میں پھر نمازکس طرح پڑھوں؟

جواب تم بیٹھ کر نماز پڑھو،اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھرلیٹ کر،بائیں کروٹ یا داہنی کروٹ چہرہ کو قبلہ رخ کرکے نماز پڑھوں اور واجب ہے کہ امکان کی صورت میں داہنی کروٹ کو بائیں کروٹ پر مقدم کرو)

سوال: اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟

جواب: تو تم چت لیٹ کر اس طرح کہ تمہارے پاؤں قبلہ کی طرف ہوں نماز پڑھو۔

سوال: جب کہ میں تکبیرة الاحرام کو قیام کی حالت میں کہہ سکتا ہوں مگر اس قیام کو جاری نہیں رکھ سکتا تو کیا کروں؟

جواب: قیام کی حالت میں تکبیر کہو اور باقی نماز کو بیٹھ کریا لیٹ کر جیسا بھی آپ کے لئے مناسب ہوپڑھو۔

تیسرے۔ قرائت

تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورۂ حمد کی قرائت کرو( اور اس کے بعد کسی دوسرے سورة کی کامل قرائت کرو)صحیح قرائت ،اس میں کسی قسم کی بھول چوک نہیں ہونی چاہیے اور سورة توبہ کے علاوہ ہر سورة کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے جیساکہ قرآن مجید میں حکم ہے۔

سوال: اگر سورہ حمد کے بعد دوسرا سورہ پڑھنے کے لئے وقت میں گنجائش نہ ہوتو؟

جواب: دوسرے سورہ کو نہ پڑھو، اور صرف سورہ الحمد کی قرائت کرو، اسی طرح اگر تم مریض ہو اور دوسرے سورہ کو پڑھنے کی قوت نہیں رکھتے یا کسی چیز کا خوف ہویا جلدی ہو تو دوسرے سورہ کو ترک کرسکتے ہو۔

جواب: دونوں سوروّں کو کس طرح پڑھوں ؟

سوال: مرد پر نماز صبح اور مغرب وعشاء میں دو کا با آواز بلند پڑھنا واجب ہے اور نماز ظہرو عصر میں دونوں کا آہستہ پڑھنا واجب ہے۔

سوال: اور عورتوں کے لئے؟

جواب: عورت بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتی،نماز ظہرین میں اس پر واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔

سوال: جب کہ میں نماز میں حکم جہر واخفات (بلند آواز اور آہستہ ) سے جاہل ہوں یا بھول کردونوں سورتوں کو یا ان میں سے کچھ کو بلند آوازمیں پڑھ لیا جبکہ میری نماز ظہرو عصر ہے یعنی میں نے حکم کے خلاف کیا تو کیا حکم ہے؟

جواب: تمہاری نماز صحیح ہے ۔

سوال: یہ پہلی اور دوسری رکعت کے بارے میں تھا، تیسری اور چوتھی رکعت میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کو تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ حمد اور تسبیحات اربعہ پڑھنے کے درمیان اختیار ہے،چاہے جو پڑھو،دونوں حالتوں میں آواز آہستہ ہو یعنی سورہ الحمد یا تسبیحات اربعہ کو آہستہ پڑھو سوائے بسم اللہ کے،کہ تم کو بلند آوازسے پڑھنے کا حق ہے۔ چاہے تم امام جماعت ہویا فردا پڑھ رہے ہو۔

سوال: اگر میں نے تسبیحات اربعہ کو اختیار کیا تو میں کیا پڑھوں؟

جواب: آہستہ آواز میں ایک مرتبہسُبۡحَانَ اللهِ وَالۡحَمۡدُللهِ وَلاَاِلٰهَ اِلاَّاللهُ وَاللهُ اَکۡبَرُ کہنا تمہارے لئے کافی ہے اور تین مرتبہ پڑھنا افضل ہے۔

سوال: کیا یہاں قرائت میں کوئی اور چیز بھی رہ گئی ہے؟

جواب: ہاں قرائت کرتے وقت زیادہ فصیح یہ ہے کہ تم کلمات کو حرکت دو یا آخر کلمات میں جو حرکت ہے اس کو اسی کے اعتبار سے اداکرو پس اگر کلمات کے آخری حروف ساکن ہیں تو حرکت مت لگاؤ اور جب تم کو کسی کلمہ پر وقف کرنا ہو تو زیادہ فصیح یہ ہے کہ اس کے آخری حروف کو ساکن کردو۔

پھر تم پر واجب ہے کہ حرف الف کو ذرا سا کھینچ کر پڑھو اور جب کلمہ ((ولاالضالین )) کو سورہ الحمد کے آخر میں پڑھو تو اس کے الف اور تشدید کو بصورت صحیح ادا کرو۔

سوال اور اسکے بعد؟

جواب: ہمزہ وصل کو اپنی قرائت میں اس وقت حذب کروجب درمیان کلام میں آئے اور کلام کے شروع میں (اس کو پڑھو) حذف مت کرو اور ہمزہ قطع کو اپنی زبان پر اس طرح جاری کرو کہ اچھی طرح آشکار اور واضح ہوجائے۔

سوال: ہمزہ وصل اور ہمزہ قطع کو مثال سے بیان کیجئے؟

جواب: مثلاًہمزہ ”اللہ الرحمن۔الرحیم اھدنا“ میں ہمزہ وصل ہے۔ پڑھنے کے دوران اس کو زبان پر ظاہر مت کرو اور مثلاً” انعمت ایاک“ میں ہمزہ قطع ہے اس کو پڑھنے کے دوران زبان پرواضح طور پر جاری کرو

سوال: پھرکیا؟

جواب: اگر تم چاہو تو سورہ حمد کے بعد سورہ توحید پڑھویا دوسرے سورہ میں سے جو بھی تمہارے لئے آسان ہو اس کو اختیار کرو کلمہ” احد“ کو وقف کرکے اس کو ساکن کرو جب تم آیہ کریمہ((قل هوالله احد )) کو پڑھو یعنی ذرا سا احد پر ٹھہر کر اس کے بعد والی آیہ ((الله الصمد )) میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

نماز میں تمہاری قرائت زیادہ صحیح اور صاف ہونی چاہئے اس کے لئے تم کسی ایسے شخص کے سامنے نماز پڑھو جس کی نماز صحیح اور بہتر ہو،تاکہ وہ تمہاری قرائت اور نمازکو درست اور صحیح کردے،اگر تم پر یہ چیز مشکل ہوتو کم از کم دونوں(سورتوں سورہ الحمد اور اس کے بعد والے سورہ کی قرائت) میں دقت نظر سے کام لیتے ہوئے مشہور قاریوں میں سے کسی ایک کی روشنی میں قرائت کرو‘تاکہ تمہاری غلطی معلوم ہوجائے اگر غلطی معلوم ہوجائے تو اس کو صحیح کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اس چیز سے کہ تم اپنے بچپنے کی جو غلط قرائت ہے اس کو جاری رکھو اور جس وقت تم پر تمہاری غلطی منکشف ہو جا ئےتو اتنا عرصہ گزرجائے کہ چند سال جو نماز تم نے پڑھی ہے وہ ایسی نماز ہوکہ جس کی قرائت صحیح نہ ہو۔

چوتھے قیام

اس کے معنی واضع ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ ذرا سا اشارہ اس کی طرف بھی کروں کہ قیا م نماز کے اجزاء میں سے ایک ایسا منفرد جز ہے کہ جس میں دو صفتیں موجود ہیں اور وہ یہ کہ وہ کبھی رکن نماز ہے جیسے تکبیرة الاحرام کی حالت میں قیام اور رکوع سے پہلے قیام کہ جس کو قیام متصل بہ رکوع سے تعبیر کیا جاتاہے ۔پس ان دونوں قیام پر رکن کے احکام اور خصوصیات مترتب ہوتے ہیں اور کبھی وہ واجبات نماز سے ہے لیکن رکن نہیں ہے جیسے قرائت اور تسبیحات اربعہ کی حالت میں قیام اور رکوع کے بعد والا قیام پس اس صورت میں اس پر واجبات نماز کے احکام جاری ہوتے ہیں جو غیر رکن ہیں ۔

پانچویں رکوع

پھردونوں سوروں کی قرائت کے بعد رکوع واجب ہے۔

سوال: میں کس طرح رکوع کروں؟

جواب: اتنا جھکو کہ تمہارے ہاتھوں کی ہتھیلیاں تمہارے گھٹنوں تک پہونچ جائیں اور جس وقت تم پورے طریقہ سے رکوع میں خم ہوجاؤ تو (سبحان ربی العظیم وبحمد) ایک مرتبہ کہو یا تین بار (سبحان اللہ) کہو یا تین مرتبہ (اللہ اکبر) یا تین مرتبہ ( الحمد للہ) کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر ممکن ہو مثلاً تین مرتبہ تہلیل (لا الہ الا اللہ) کو پھر رکوع سے سیدھے کھڑے ہوکر سجدوں کے لئے خم ہو ۔

چھٹے سجود (دونوں سجدے)

ہر رکعت میں دو سجدے واجب ہیں۔

سوال: میں کس طرح سجدے کروں؟

جواب: اپنی پیشانی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھلیاں اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھو اور سجدہ کرنے میں شرط ہے کہ پیشانی ایسی چیز پر رکھو جو زمین سے ہو یا زمین سے اُ گتی ہو اور کھانے پہننے کے کام میں نہ آ تی ہو ۔

سوال: ذرا مثال سے سمجھائیے کہ کھانے اور پہننے والی چیزوں پر کیوں سجدہ جائز نہیں؟

جواب: پھل اور ترکاریاں ان پر سجدہ اس لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کھائی جاتی ہیں‘اور روئی اور کتان پر اس لئے سجدہ جائز نہیں کہ وہ پہنی جاتی ہیں ۔

سوال: مثلاً میں کس چیز پر سجدہ کروں؟

جواب: تم مٹی،ریت،کنکری اور لکڑی یا ان (درختوں کے) پتے کہ جو کھائے نہیں جاتے ان پر سجدہ کرو،تم اس کاغذ پر بھی سجدہ کرسکتے ہو کہ جو لکڑی یا روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو سوکھی گھانس اور ان کے علاوہ بہت سی چیزوں پر بھی سجدہ کرسکتے ہو۔

گیہوں،جو،روٹی،تار کول،شیشہ پرسجدہ نہ کرو اور مٹی پر سجدہ کرنا افضل ہے،اور اس سے افضل (تربت حسین خاک شفاء) پر سجدہ کرناہے اس پر سجدہ کرنے سے نماز کی فضیلت وشرف بڑھ جاتاہے۔

سوال: اور اگر میں ان چیز وں کے(جس پر سجدہ صحیح ہے) نہ ہونے کی بناءپر یا خوف کی بناء پران کے علاوہ چیزوں پر سجدہ کروں تو کیا حکم ہے؟

جواب: اگر تم اس چیز کے نہ ہونے کی بناپر کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یاوہ چیز تمہارے لئے فراہم نہیں ہے تو پھرتارکول پر سجدہ کرو،اگر یہ نہ ملے تو پھر جس پر چاہو مثلاً گپڑا، ہتھیلی یا اگر تم تقیہ کی حالت میں ہو،تو پھر تقیہ جس بات کا متقاضی ہو اس پر سجدے کرو۔

میرے والد نے یہ کہہ کر مزید فرمایا:

یہ بات بھولنا نہ چا ہئے کہ تمھارے سجدہ کی جگہ تمہارے گھٹنوں اور انگوٹھوں کی جگہ کے برابر ہونا چاہئے پس ایک دوسرے کو چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند نہ ہونا چاہئے(اسی طرح تمہارے سجدہ کی جگہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند نہ ہونی چا ہئے)۔

سوال: میں پیشانی دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں پاؤں کے انگوٹھے اور دونوں گھٹنے زمین پر رکھ کر کیا کہوں؟

جواب: تم سجدے میں جانے کے بعد (سبحان ربی الاعلی وبحمدہ) ایک مرتبہ کہو یا سبحان اللہ تین مرتبہ کہو یا اللہ اکبر یا الحمدللہ تین تین مرتبہ کہو یا ان کے علاوہ جو بھی ذکر اس مقدار کے مطابق کہو پھر اپنے سرکو بلند کرکے اطمینان کے ساتھ بیٹھو،جب تم مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤ تو پھر دوسرا سجدہ کرو اور ذکر سجدے میں سے جو تم کو اوپر معلوم ہو اہو ،اس کو اختیار کرکے پڑھو۔

سوال: اور اگر میں سجدہ میں پورا نہ جھک سکوں کسی مرض کی بناپر مثلاً؟

جواب: جتنا تم جھک سکتے ہو اتنا جھکو اور وہ چیز کہ جس پر سجدہ صحیح ہے اس کو بلند رکھ کرپیشانی اس پررکھواور تمام اعضاء سجدہ کو انکی جگہ پر رکھو۔

سوال: اگر میں اس پر بھی قادر نہ ہوں تو؟

جواب: اپنے سرسے سجدے کی جگہ اشارہ کرو اگر یہ بھی نہ کرسکو تو اپنی آنکھوں سے اس طرح شارہ کرو کہ سجدہ میں جانے کے لئے آنکھیں بند کرو اور اٹھنے کے لئے آنکھوں کو کھول لو۔

ساتویں تشہد

اور ہر نماز کی دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد اور نماز مغرب اور نماز ظہرو عصرو عشاء کی آخری رکعت میں تشہد کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں اس میں کیا پڑھوں؟

جواب: تم کہو:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

تم اطمینان سے بیٹھ کرصحیح صورت میں اس کو پڑھو۔

آٹھویں۔سلام

ہر نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر سلام کا پڑھنا واجب ہے۔

سوال: میں سلام میں کیا کہوں ؟

جواب: اگر تم اس میں (السلام علیکم) ہی پڑھو تو کافی ہے اور اس میں اگر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضاضہ کردو تو افضل ہے، اور اس سے افضل یہ ہے کہ اس سے پہلے:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّببِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ کهو ۔

نماز کے یہی اجزا ہیں کہ جو مسلسل (ایک کے بعد ایک ادا کئےجائیں گے جس طرح میں نے ان کو تمہارے سامنے گنوایا اور بیان کیا ہے ایک کے بعد ایک ان میں بعض جزءکا تمسک بعض جزء سےہے اس کے اجزاء میں اتنا فاصلہ نہ ڈالا جائے کہ اس سے نماز کی وحدت اور ہیت میں خلل پڑجائے۔

سوال: آپ نے مجھ سے قنوت کے بارے میں بیان نہیں کیا حالانکہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے نماز میں قنوت پڑھتے ہیں؟

جواب: قنوت نماز پنجگانہ اور دوسری نمازوں میں ایک مرتبہ مستحب ہے،سوائے نماز شفع کے، دوسری رکعت میں دونوں سوروں کے بعد اور رکوع سےپہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو قنوت کے لئے بلند کرو اگر تمہارا ارادہ اس مستحب کام کو کرنے کا ہوتو۔

سوال: کیا کوئی ایسا ذکر معین ہے کہ جس کو میں قنوت میں پڑھوں؟

جواب: نہیں‘تم قنوت میں قرآن کی آیتیں پڑھ سکتے ہوکہ جن میں خداوند عالم سے ایسی دعا کی گئی ہو کہ جس کو تم چاہتےہو،اوراپنے رب سے مناجات اور جو بھی دعاچاہو اس سے کرو ۔

سوال آپ سے مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھے کس طرح نماز پڑھنا چاہئے اور کیا پڑھوں یا نماز کے ہر جزء کو کس طرح انجام دوں اب چاہتا ہوں کہ آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کروں کہ جن سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

سوال: اگر وہ چیز یں مجھ سے سرزد ہوجائیں تو کیا مجھ پر دوبارہ نماز واجب ہے؟

جواب : ہاں میں ان کے بارے میں تم کو بتاتا ہوں ۔

۱ نماز کے ارکان میں سے عمداً نیت یا تکبیرة الاحرام یا رکوع یا سجود وغیرہ کا چھوٹ جانا۔

۲ درمیان نماز نمازی سے حدث صادر ہونا ( اور اگرچہ آخری سجدہ کے بعد سہواً یا اضطراراً بھی حدث صادر ہوجائے)

۳ نمازی کا قبلہ سے عمداً تمام چہرہ یا تمام جسم منحرف ہوجائے۔

سوال : اگر قبلہ سے انحراف اتنا کم ہوکہ جو استقبال قبلہ میں کوئی حرج پیدا نہ کرسکے تو؟

جواب: اس سے نماز میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ مکروہ ہے ۔

۴ جان بوجھ کر نمازی کا بلندآوازسے ایسا ہنسنا کہ جس میں آتارچڑھاؤ ہو(یعنی قہقہہ لگانا)۔

۵ جان بوجھ کر نمازی کا نماز میں امور دنیا کے لئے رونا،چاہے اس میں آواز ہو یا نہ ہو،لیکن امور آخرت کے لئے رونا ہوتو اس میں کو ئی) حرج نہیں ہے۔

۶ نماز کے دوران مصلی کاعمداً کلام کرنا چاہے ایک حرف ہی کیوں نہ ہو‘جب کہ وہ حرف مفہوم رکھتا ہو،چاہے اس سے معنی کے مفہوم کا ارادہ کیا گیا ہو جیسے کہ کہا جائے (قِ) کہ یہ وقی کا فعل امر ہے،یا معنی کے مفہوم کے علاوہ ارادہ کیا گیا ہو،جیسے اگر نماز کے دوران سوال کیاجائے کہ (حروف) ابجد کا دوسرا (حرف) کیا ہے تو تم کہو (ب) اور نماز کے باطل کرنے سےمستثنی ہے، نماز میں سلام کا سلام سے جواب دینا واجب ہے۔

۷ نمازی کا اثنائے نماز میں کھانا پینا(اگرچہ نماز کی شکل وصورت کو ختم نہ بھی کرے)

۸ نماز میں ایسا کام کرنا جو نماز کی شکل وصورت کو بگاڑدے جیسے کپڑے کا سلنایا بننا۔

۹ نمازی عمداً بغیر تقیہ خدا کے سامنے ادب اور خضوع کے قصد سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے، اس کا نام تکفیرہے۔

۱۰ امام کے سورہ فاتحہ ختم کرنے کے بعد (یا فرادا نماز پڑھتے وقت ختم سورہ کے بعد( کلمہ (آمین) عمداً کہنا۔

پھر اس کے بعد ہمارے پاس جو بہتر ین موضوع ہے کہ جس کی طرف میں اشارہ کروں گا وہ نماز میں شک ہے۔

سوال: کیا نماز میں شک کرنا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

جواب: نماز میں شک کرنا تمام حالات میں اورہمیشہ نماز کو باطل نہیں کرتا‘ہاں،بعض شکوک نماز کو باطل کرتے ہیں،اور بعض شکوک قابل علاج ہیں بعض شکوک کی پرواہ نہ کرنی چاہئے وہ مہمل ہیں۔

میں عام طریقہ سے تم کو کچھ عام قاعدہ جو شک کے کچھ حالات کوشامل ہیں بتائے دیتاہوں۔

پہلا قاعدہ

جو بھی نماز کے بعد نماز کے صحیح ہونے میں شک کرے اس کی نماز کو صحیح سمجھاجائے گا۔

سوال: مثلاً؟

جواب: جیسے تم نے نماز صبح پڑھنے کے بعد شک کیا کہ دورکعتیں پڑھی ہیں یا زیادہ یا دوسے کم پڑھی ہے تو ایسی صورت میں تم کہو کہ میری نماز صحیح ہے۔

دوسرا قاعدہ

جو کوئی نماز کے کسی ایسے جزءکے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرےکہ اس کو بجالایا ہے، تو وہ جزء صحیح سمجھا جائے گا،اور نماز بھی صحیح ہوگی ۔

سوال: مثلاً؟

جواب: تم نے اپنی قرائت کی صحت کے بارے میں شک کیا،یا رکوع کے بارے میں یا سجدہ کی صحت کے بارے میں شک کیا قرأت تمام ہونے کے بعد،رکوع یا سجدہ انجام دینے کے بعد، تو تم کہو کہ میری قرائت صحیح ہے میرارکوع میرا سجدہ صحیح ہے پھر میری نماز اس کے بعد صحیح ہے۔

تیسرا قاعدہ

کسی نے نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کے بارے میں بعد والے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک کیا تو بنا اس پر رکھی جائیگی کہ وہ مشکوک جزء بجالایاگیا ہے اور اس کی نماز بھی صحیح ہے بلکہ اگر وہ شرعی طور پر اگلے جز ء میں داخل نہیں ہوا ہے اور بالفرض اگلے جزء میں پوری طرح داخل ہونے سے عمداً خلل انداز ہوا ہے تو بھی صحت پر بنا رکھنا کافی ہے( یعنی اگلے جزء میں ابھی پورے طورسے عمداً داخل ہونے میں دیر کی تو بھی جزء مشکوک کے بجالائے جانے پر بنا رکھی جائیگی)

سوال: مثال سے سمجھائیے؟

جواب: مثلاً تم نے سورہ الحمد کے بارے میں شک کیا کہ پڑھایا نہیں،حالانکہ تم دوسرے سورہ کے پڑھنے میں مشغول ہوتو کہو میں نے اس کو پڑھا ہے اور پھر اپنی نماز کو جاری رکھو اور اسی طرح تم خم ہونے کی حالت میں ہو رکوع کے لئے اور تم کو شک ہوا کہ میں نے سورہ پڑھایا نہیں تو تم کہو کہ میں نے سورہ کو پڑھا ہے،اور اپنی نماز کو جاری رکھو، پس تمہاری نماز صحیح ہے۔

چوتھا قاعدہ

جو زیادہ شک کرے اور شک میں فطری حالت سے زیادہ تجاوز کرجائے تو اس کا شک مہمل ہے وہ اپنے شک کی طرف اعتناء نہ کرے اور نہ اس کی طرف متوجہ ہو پس اس کی وہ نماز کہ جس میں اس نے شک کیا ہے صحیح ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلا تم نماز صبح کی رکعتوں کی تعداد میں زیادہ شک کرتے ہو تو تمہارا یہ شک مہمل ہے تم کہو میری نماز صحیح ہے،اور جب تمہارا یہ شک سجدوں کے بارے میں ہو کہ میں نے ایک سجدہ کیا یا دو، تو کہو میں نے دونوں سجدے کئےہیں،پس اپنے شک کی طرف توجہ نہ دو اور نہ اس کو کوئی اہمیت دو،بلکہ تم اپنی نماز کے صحیح ہونے کا اعتبار کرو اور اسی طرح وہ کثیر الشک کہ جو ہمیشہ نماز میں شک کرتا ہے اس کا شک بھی مہمل ہے اور اس کی نماز کو صحیح اعتبار کیا جائیگا۔۔ہمیشہ ۔۔ہمیشہ

سوال: میں کس طرح پہچانوں کہ میں زیادہ شک کرنے والا ہوں ۔

جواب: کثیر الشک(زیادہ شک کرنے والا) اپنے کو آسانی سے پہچان لیتا ہے اس کے لئے عام لوگوں کے سامنے اس کا کثیرا الشک ہونا ہے(اور وہ تین نمازوں میں شک نہ کرے) اگر وہ تین نمازوں میں پے درپے شک کرے تو اس کے کشیر الشک ہونے کے لئے کافی ہے۔

پانچواں قاعدہ

ہروہ شخص جو نماز صبح کی رکعتوں یا نماز مغرب کی رکعتوں،یا چار رکعتی نمازوں میں سے پہلی اور دوسری رکعتوں میں شک کرے اور اس کا ذہن ان دواحتمالوں میں سے کسی ایک کی طرف ترجیح نہ دے اور نہ اس کا ذہن رکعتوں کے عدد کو معین کرے بلکہ وہ اسی طرح متحیر اور مشکوک رہے،اور رکعتوں کو نہ جانے کہ کتنی ہوئیں تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: مثلاً؟

جواب: مثلاً وہ نماز صبح پڑھ رہا ہے اور اس حالت میں اس کو شک ہوا کہ اس کی پہلی رکعت ہے یا دوسری تھوڑا سوچا اور فکر کیا مگر اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ پہلی رکعت ہے یا دوسرے تو اس کی نماز باطل ہے۔

سوال: اگر دونوں احتمالوں میں سے اس کے ذہن میں ایک احتمال کو ترجیح حاصل ہوگئی ،تو کیاوہ اپنےذہن کے احتمال کو ترجیح دے کہ وہ پہلی رکعت ہے؟

جواب: اگر اس کے ذہن میں کسی معین رکعت کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اس غالب احتمال کے تقاضہ کے مطابق عمل کرےگا(اس لئے کہ تمہارے سوال میں پہلی رکعت کے رجحان کا احتمال تھا)اس بنا پر وہ دوسری رکعت بجالائے اور نماز کو تمام کرے،اس کی نماز صحیح ہے اور اسی طرح نماز مغرب میں اور چار رکعتی نمازوں کی پہلی اوردوسری کعتوں میں یہی حکم ہے۔

سوال: اب مجھے نماز صبح اور مغرب اور ظہر وعشاء کی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں شک کرنے والے کا حکم معلوم ہوگیا لیکن چاررکعتی نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں شک کرنے والے کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب شک کرنے والے کے ذہن میں کچھ رکعتوں کی تعداد کو ترجیح حاصل ہوگئی ہو تو وہ اپنے اسی ظن کے مطابق عمل کرے گا کہ جس کا ذہن میں رحجان حاصل ہوا ہے۔

سوال: اور اگر وہ اپنے تحیر اور شک پر باقی رہے تو؟

جواب: اس وقت زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں پرہر ایک جگہ کا مخصوص حکم ہے میں یہاں مختصر طور پر کچھ کو بیان کرتا ہوں۔

( ۱) جس شخص نے تیسری اور چوتھی رکعت میں شک کیا اس وقت وہ چار رکعت پر بنا رکھے اور اپنی نماز تمام کرے پھر نماز کے بعد دو رکعت نماز بیٹھ کریا ایک رکعت نماز کھڑے ہو کر پڑھے اس نماز کونماز احتیاط کہتے ہیں۔

( ۲) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت میں اگر کوئی شک کرے (یعنی اپنی پیشانی سجدہ کرنے والی چیز پر رکھے چاہے ابھی ذکر شروع نہ بھی کیا ہو) تو جار پر بنا رکھے اور نماز کو تمام کرنے کے بعد دو سجدہ سہو بجالائے۔

( ۳) دوسرے سجدے میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی دوسری اور تیسری رکعت میں شک کرے تو تین پر بنا رکھے اور اس کے بعد چوتھی بجالائے،اس کے بعد نماز کو ختم کرکے (ایک رکعت کھڑے ہو کر) نماز احتیاط پڑھے ۔

سوال: نماز احتیاط کس طرح پڑھی جائیگی؟

جواب: اپنی نماز کو تمام کرنے کے بعد داہنے اور بائیں توجہ کئے بغیر اور مبطلات نماز میں سے کسی مبطل کو انجام دیئے بغیر نماز احتیاط کو شروع کرے تکبیر کہے پھر سورہ الحمد پڑھے (آہستہ) اور اس میں دوسرا سورہ واجب نہیں ہے،پھر رکوع کرے،پھر سجدہ کرے،اگر نماز احتیاط ایک رکعت پڑھ رہا ہے تو تشہد وسلام پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور اگر دورکعت نماز احتیاط واجب تھی تو دوسری رکعت کو،پہلی رکعت کی طرح بجالا ئے۔

سوال: سجدہ سہو جس کو آپ نے ذکر کیا( وہ کس طرح ادا کیا جائیگا؟

جواب: اپنی نماز کے بعد نیت کرو اور سجدہ میں جاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجد ہ میں جانے سے پہلے تکبیر کہو اور سجدہ میںبسم الله بالله السلام علیک ایها النبی ورحمة الله وبرکاتہ پڑھو پھر سجدے سے سراٹھا کر بیٹھو پھر دوبارہ سجدے میں جاؤ پھر سر اٹھاؤ اور تشہدو سلام پڑھ کر سجدۂ سہو کو تمام کرو۔

میرے والد نے مزید فرمایا۔

لیکن سجدہ سہو کے بارے میں فقط یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں سجدۂ سہو چوتھی اور پانجویں رکعت میں شک کرنے کی بناپر واجب ہوتا ہے بلکہ اس کے علاوہ دوسری جگہیں بھی ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱ لف جب تم نماز میں سہواًیا بھول کر کلام کرو۔

ب جب تم ایسی جگہ سلام بھول کر کہو جہاں سلام کہنے کی جگہ نہیں تھی اور کہو(السلام علیک ایها النبی ورحمة الله ربرکاته یا کهو السلام علینا وعلی عباد الله الصالحین السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته )

ج اگر تم نے بھول کر نماز میں تشہد کو نہ پڑھا تو نماز کے بعد دوسجدۂ سہوبجالاؤ اور افضل یہ ہے کہ سجدۂ سہو کے ساتھ تشہد کی قضا بھی کرو۔

د (تم کو نماز کے بعد اجمالاً معلوم ہو کہ تمہاری نماز میں کچھ کمی یا زیادتی ہوگئی ہے ساتھ ہی یہ کہ تمہاری نماز محکوم بصحت ہے) تو ایسی صور ت میں دوسجدہ سہو تم پر لازم ہے اور افضل تمہارے لئے یہ ہے کہ اگر تم نماز میں ایک سجدہ بھول گئے ہو تو دو سجدہ سہو بجالاؤ ،اس کے ساتھ ہی بعد نماز اس کی قضا بھی بجالاؤاور ایسے ہی ہے اگرتم بیٹھنے کی جگہ کھڑے یا کھڑے ہونے کی جگہ بھول کر بیٹھ گئے، بلکہ افضل یہ ہے کہ تم اپنی نماز میں ہر کمی وزیادتی کی لئے سجدہ سہو کرو۔

جتنی مرتبہ سجدہ واجب ہوا ہے اتنی ہی مرتبہ اس کو بجالایا جائے یعنی دو مرتبہ یا اس سے زیادہ واجب ہوا ہے تو تم اتنی مرتبہ سجدہ کرو ہماری نماز کی گفتگو جب ختم ہوگئی تو میں نے اپنے والد سے تقاضہ کیا کہ وہ میرے سامنےبطور درس اور تطبیق کے طور پر چار رکعتی نماز کہ جو نماز پنجگانہ میں سے سب سے زیادہ طولانی ہے پڑھیں،تاکہ میں نزدیک سے ملاحظہ کروں کہ میرے والد کس طرح تکبیر کہتے ہیں‘کس طرح قرائت ورکوع وسجود وتشہد اور سلام کو انجام دیتے ہیں،میری اس یاد دہانی کے بعد میرے والد ہر روز مجھ کو سیکھانے کے لئےمیرے سامنے نماز عشاء پڑھتے ہیں اور یہ نماز چاررکعت بلند آواز والی ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب میں خود دیکھوں گا کہ وہ کس طرح نماز پڑھتے ہیں اور جس وقت میرے والد اس بلند آواز والی چاررکعتی نماز کو شروع کرتے تو میں اپنے تمام حواس کو سمیٹ کر نہایت ہوشیاری کے ساتھ ان کی نماز کے تمام حرکات کو دیکھتا اور اب آپ سے بیان کرتا ہوں کہ میرے والد کس طرح نماز پڑھتے ہیں۔

پہلے ا نھوں نے وضوء کیا پھر وہ اپنے مصلے پر روبقبلہ کھڑے ہوگئے وہ خاشع تھے پس انہوں نے نماز کے لئے اذان واقامت کہی پھر نماز کو شروع کیا‘پس انہوں نے اللہ اکبر کہی پھر سورہ الحمد کوپڑھنے کے بعد سورہ قدر کو پڑھا جب وہ سورہ تمام ہوگیا کھڑے ہوئے تھے اور رکوع میں خم ہونے والے تھے اور ‘جب پوری طرح رکوع میں پہنچ گئے تو سبحان ربی العظیم وبحمدہ کہتے ہوئے ذکر کیا اور رکوع کی حالت میں ہی جب انہوں نے ذکر کے آخری حرف کو تمام کیا تو وہ سیدھے اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے اور جب وہ قیام کی حالت میں تھے تو سجدہ کے لئے جھکے اور جب سجدے میں پہنچے توسبحان ربی الا علی وبحمده کہہ کر ذکر سجدہ کیا اور سجدہ ہی کی حالت میں ذکر کے آخری حرف کو تمام کرکے سجدہ سے سراٹھاکر سیدھے بیٹھ گئے پھر دوسرے سجدے کے لئے جھکے پس اس میں بھی وہی ذکر کیا جو پہلے سجدہ میں کیا تھاسبحان ربی الاعلی وبحمده پھر سر کو سجدہ سے بلند کرکے بیٹھے،تاکہ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں،اور جس وقت قیام میں پہونچے تو سورہ حمد اور اس کے بعد اس مرتبہ سورہ توحید کوپڑھا،جب اس کی قرائت سے فارغ ہوئے تو قنوت کے لئے ہاتھوں کو بلند کیا اور قنوت میں قرآن کی اس آیت کریمہ کو پڑھارب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین والمومنات ولاتزد الظا لمین الاتباراً ۔

پھر قنوت سے ہاتھ گراکر رکوع کے لئے خم ہوئے اور جس وقت رکوع میں پہونچ گئے سبحان ربی العظیم وبحمدہ کو پڑھا،پھر سیدے کھڑے ہوئے تاکہ سجدہ کے لئے خم ہوں اور جس وقت سجدہ میں پہونچے تو سبحان ربی الاعلی وبحمدہ کو پڑھا اور جب سجدے سے اٹھ کر بیٹھ گئے تو تشہد کو پڑھا”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد سے فارغ ہوئے تو سیدھے کھڑے ہوگئےتیسری رکعت کے لئے قیام میں پہونچنے کے بعد انھوں نے سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کی تسبیح کو تین مرتبہ پڑھا،مگر آہستہ آواز میں‘پھر رکوع سے کھڑے ہوئے اور سجدے کے لئے جھکے اور اس میں وہی پڑھا جو پچھلے سجدوں میں پڑھا تھا سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پھر بیٹھ کر دوسرے سجدے میں چلے گئے پس اس میں بھی وہی پڑھا تھا،پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوئے جو آخری رکعت تھی پس اس رکعت میں وہی تسبیح پڑھی جو پچھلی رکعت میں پڑھی تھی سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر کو تین مرتبہ پڑھا ۔

پھر اطمینان سے بیٹھ کر تشہد میں وہی پڑا کہ جو پہلے تشہد میں پڑھا تھا:

”اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لاَ شَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُه اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ “

اور جب تشہد کو ختم کیا تو نبیؐ پر سلام پڑھا:

”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّهَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه “ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِیْنَ“،”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَا تُه “

اس طرح میرے والد نے نماز عشاء کو پڑھا‘اسی نماز کے مثل نماز ظہرو عصر ہے کیونکہ وہ دونوں بھی چار رکعت ہیں سوائے اس کے کہ ان دونوں کی پہلی دو رکعتوں میں دونوں سورہ کی قرائت آہستہ آواز میں ہوتی ہے۔

کبھی میں نے اپنے والد کو نماز مغرب کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ان کو نماز عشاء ہی کی طرح نماز مغرب کو پڑھتے ہو ئے پایا ہے مگر یہ کہ تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر وہ تشہد پڑھتے اور سلام کہہ کر اپنی نماز کو ختم کردیتے تھے(چونکہ نمازمغرب کی تین رکعت ہے)

اسی طرح میں نے ان کو نماز صبح بھی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح نماز عشاء پڑھتے ہیں مگر یہ کہ دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد تشہد اور سلام پڑھنے کے بعد نماز تمام کردیتے تھے، کیونکہ نماز صبح دورکعت ہے۔

اسی طرح میرے والد نماز پنجگانہ کو پڑھتے تھے مگر میرے سامنے (نماز عشاء کے علاوہ) اور نمازیں نہ پڑھتے کہ جن کو دیکھ کر محفوظ کرتا،اور ان کے بارے میں کچھ سوچتا اب میں آپ کے سامنے اپنے والد کی نمازوں کی بعض خصوصیات کو بیان کروں گا،وہ نیچے دی ہوئی خصوصیات کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔

۱ نماز کو اول وقت پڑھنے کے زیادہ حریص ہیں (اور پابندی وقت کا خاص خیال رکھتے ہیں) پس وہ نماز ظہر کو مثلاً جب ظہر کا وقت (زوال) ہوتا ہے پڑھتے ہیں اسی طرح نماز مغرب کو اول وقت پڑھتے ہیں اورایسےہی تمام نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر پڑھتے ہیں اور جس وقت میں نے نماز کو اول وقت پڑھنے کی جلدی کا سبب پوچھا تو انھوں نے جواب میں امام صادق علیہ السلام کی حدیث کو بیان فرمایا کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایاہے۔

اول وقت کی فضیلت آخر وقت پر ایسی ہی ہے جیسے آخرت کو دنیا پر فضیلت ہے فضل الوقت الاول علی الاخیر کفضل الا خرة علی الدنیا ۔

۲ اورجس وقت اپنے پروردگار کے سامنے نماز پڑھنے کے لئےکھڑے ہوتے تو آپؑ پر خضوع وخشوع وتذلل کے آثار ظاہر ہوجاتے اور کبھی کبھی اپنے نفس سے سوال وجواب کرتے،لیکن ذرا بلند آواز سے( قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔)

گویا نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتے ہیں اسی طرح اپنے قلب کو نماز میں اللہ کے لئے خشوع کی اہمیت کو بتاتے ہیں۔

۳ اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہیں تو اس سے پہلے دورکعت نماز پڑھتے،اور ظہر کی نماز سے پہلے آٹھ رکعت، دودورکعت کرکے مشل نمازصبح کے پڑھتے،اور اسی طرح عصر کی نماز سے پہلے اتنی ہی مقدار میں نماز پڑھتے اور نماز مغرب کے بعد دو دورکعت کرکے مثل نمازصبح کے چار رکعت نماز پڑھتے اور عشاء کے بعد دورکعت نماز بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ میں نے ان نمازوں کے بارے میں معلوم کیا تو فرمایا(وہ نوافل)ہیں کہ جن کے متعلق امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:نوافل کا پڑھنا مومن کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

۴ جملہ (اللہ اکبر) کے کلمہ (اکبر) میں جو ہمزہ ہے وہ ھمزہ قطع ہے پس جس وقت بھی تم تکبیر کہو تو تمہارے اوپراس ھمزہ کا واضح اور آشکار کرنا واجب ہے جس وقت میرے والد نے یہ فرمایا:تو میں نے ڈرتے ہو ئےان سے ایک مرتبہ کہا بعض لوگ اس ہمزہ کو واؤ کے مشابہ ادا کرتے ہیں جیسے کہ یہ جملہ اللہ اکبرہو۔)

تو فرمایا: کہ ان کی طرح ادا کرنے سے تم بچو کیونکہ وہ غلطی پر ہیں اور میرے والد نے مزید فرمایا: سورہ فاتحہ کی آیت (صراط الذین انعمت علیہم) میں (انعمت) کے ہمزہ کو ادا کرنا تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت اپنی زبان پر صاف واضح اور آشکار ادا کرو،اور اس جیسے تمام ہمزہ جیسے الاعلی کا ہمزہ کہ جو سجدہ میں سبحان ربی الاعلی وبحمدہ پڑھتے ہیں ہمزہ قطع ہے،تم پر واجب ہے کہ اس کو پڑھتے وقت زبان پر واضح وروشن ظاہر کرو۔

۵ میرے والد نے فرمایا جب تم سورہ توحید کی آیہ کریمہ (قل ھواللہ) کی تلاوت کرو تو کلمہ(احد) کی دال پر وقف کرو‘پھر اس کے بعد والی آیت (اللہ الصمد) کی تلاوت سے پہلے تھوڑا ٹھہرو ،یہ تمہارے لئے سہل اور آسان ہے۔

۶ میرے والد اپنی نماز میں کلموں کے آخر کو حرکت دیتے تھے جب کہ وہ اپنے کلام اور ذکر کو آگے بڑھاتے اور جاری رکھتے اور اسی کے ساتھ جب کہیں روکنا چاہتے تو کلمہ کے آخری حرف کو ساکن کردیتے تھے۔

۷ میں نے اپنے والد سے ایک مرتبہ سوال کیا جب آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے ہیں تو میں نے آپ کو (رحمٰن) کے نون کو زیرکے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے،اوراسی طرح (الرحیم) کی (میم) کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے اور آپ الرحمٰن الرحیم،مالک یوم الدین سورہ حمد کی بھی اسی طرح تلاوت کرتے ہیں حالانکہ اکثر لوگوں کو میں نے پیش کے ساتھ پڑھتے ہو ئےسنا ہے۔اسی طرح جب آپ سورہ حمد میں خداوند عالم کے اس قول ایاک نعبد کی قرائت کرتے ہیں تو کلمہ(نعبد)کی (ب)کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جب کہ اکثر لوگ نماز کی حالت میں اس کو زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔

انھوں نے کہا تم نے نحو اور اس کے قواعدکو نہیں پڑھی ہے؟

میں نے کہا :میں نے نحو پڑھی ہے مگر اتنی مشکل نہیں۔

انھوں نے فرمایا: نحو کے علماء (الرحمن الرحیم)کے دونوں کلموں کی حرکت میں کیا کہتے ہیں؟

میں نے کہا وہی زیر جیسا کہ آپ نے فرمایا ۔

تو انھوں نے کہا: قرآن کریم کا ایک نسخہ میرے پاس لاؤ پس میں نے کتاب اللہ کا ایک نسخہ جومیرے قریب تھا اٹھا کر ان کو دیا۔

انھوں نے فرمایا: سورہ حمد نکالو اور اس کو دیکھو،پس میں نے سورہ حمد کو نکالا تو (الرحمن الرحیم) کے دونوں کلموں کے آخر میں زیر تھا اور (ایاک نعبد) کے کلمہ کی (باء) پر زیر نہیں ہے میں نے کہا جس طرح آپ نے پڑھا ہے ویساہی ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح کتاب خدا میں (حرف)پر حرکت ہے اسی طرح پڑھو اور جو غلط قرائت مشہور ہے اس سے محفوظ رہو۔

۸ اور میرے والد رکوع اور سجودمیں ذکر اس وقت تک نہیں پڑھتے جب تک ان میں جاکر ٹھہرنہ جائیں اور اپنے سر کو بلند نہیں کرتے مگر ذکر کے تمام کرنے کے بعد۔

۹ اور جب اپنے سر کو پہلے سجدہ سے اٹھاتے ہیں تو تھوڑی دیر بالکل ٹھیک سے بیٹھ کر دوسرے سجدے میں جاتے ہیں اور اسی طرح وہ دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کرتے ہیں،یعنی بیٹھتے ہیں پھر بعد والی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

۱۰ میں نے ان سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ میں آپ کو دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں کہ آپ اپنےلئے اپنے والدین اور تمام برادران مومنین کے لئے نماز کے بعد دعا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے۔

”من دعا لاخوانہ امن المومنین و المومنات و المسلمین و المسلمات و کل اللہ بہ عن کل مومن ملکا یدعو لہ“

جو شخص اپنے مومن،مومنہ اور مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرے خداوندعالم ہر مومن کے بدلے اس پر ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس کے لئے دعا کرتارہتاہے ۔

۱۱ میں نے سوال کیا کہ میں آپ کو ہر فریضہ کے بعد تسبیح پڑھتے دیکھتا ہوں،آپ نے فرمایا:ہاں وہ تسبیح زہرا علیہا السلام ہے اور یہ تسبیح جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہ زہرا(س) کو تعلیم کی تھی اور وہ (اللہ اکبر ) ۳۴/ مرتبہ (الحمدللہ) ۳۳/ مرتبہ (سبحان اللہ) ۳۳ / مرتبہ ہے پس ان سب کی تعداد سوہوگی ۔

سوال: کیا تسبیح زہراء(س) کی فضیلت ہے؟

جواب: ہاں، امام صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے ابی ہاورن مکفوف سے فرمایا اے ابا !ہاورن ہم اپنے بچوں کو تسبیح زہراء پڑھنے کا اس طرح حکم دیتےہیں جس طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں پس اس کا پڑھنا لازم ہے پس جس بندہ نے اس کو لازمی طور پر نہیں پڑھا اس نے(ہم سے) شقاوت کی۔

۱۲ کبھی کبھی میرے والد نماز ظہر کے بعد عصر پڑھتے یا نماز مغرب کے بعد فوراً عشاء پڑھتے اور کبھی دو نمازوں کے درمیان فاصلہ ڈال دیتے نماز ظہر کے بعد اپنے ضروریات کو انجام دیتے اور جب نماز عصر کا وقت آتاتو نماز عصر پڑھتے اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی فاصلہ سے پڑھتے ۔

اور جس وقت میں ان سے اس بارے میں معلوم کرتا تو فرماتے تم کو اختیار ہے چاہے ان دونوں کے درمیان فاصلہ ڈالو یا بغیر فاصلہ کے پڑھو۔

۱۳ میں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ جب آپ سورہ قدر پڑھتے ہیں تو میں سنتا ہوں کہ آپ (انانزلناہ فی لیلة القدر) کو پڑھتے وقت حرف لام کو ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کو اصلاً ظاہر نہیں کرتے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ حرف لام موجود ہی نہیں ہے،وہ (انزلناہ) پڑھتے ہیں اورسبحان ربی العظیم وبحمده کو جب آپ پڑھتے ہیں تو سبحان کی سین کو پیش اور (ر)کو زبر پڑھتے ہیں حالانکہ میں بہت لوگوں سے سنا ہے جو آپ کی طرح نہیں پڑھتے؟

آپ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ تم اپنی قرائت کی طرف متوجہ رہو۔

دوسری نمازوں کے بارے میں گفتگو

دوسری نمازوں کی گفتگو کا وقت آنے سے پہلے میں ان چیزوں کے بارے میں نظر ثانی کرنے لگا کہ جو پہلی نماز کی گفتگو میں زیر بحث آئی تھیں تاکہ اپنے حافظہ کا امتحان لوں کہ کتنا مجھے یاد ہے تاکہ اس چیز کے بارے میں اپنے والد سے معلوم کروں کہ جس کو میرے ذہن نے یاد نہیں رکھایا جس کو سمجھا نہیں ہے اور ابھی ہماری نماز کی بحث بھی جاری ہے۔

میرے والد جب تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے ایک ایسا سوال کرنے سے پہل کی کہ میں اس کا جواب نہ دے سکا میں نے ان سے عرض کیا کہ:

سوال: کیا نماز عشاء کو میں دورکعت پڑھ سکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ وہ چار رکعتی نماز ہے لیکن میں نے آپ کو دورکعت پڑھتے دیکھا ہے؟

والد کیا ہم سفر میں تھے؟۔

جی ہاں۔

والدیہ صحیح ہے پس چار رکعتی نمازنماز ظہر عصر عشاء سفر میں دو رکعت ہوجاتی ہیں جب کہ نیچے بیان کی ہوئیں ان میں قصر کی شرطیں پائی جائیں۔

۱ جب کسی شخص کے سفر کا قصد اپنے رہنے کی جگہ تقریباً(کلو میڑ) یا زیادہ ہو،چاہے یہ دوری فقط جانے کے لئے ہو یا آنے جانے کے لئے ہو۔

سوال: مجھے وضاحت کے ساتھ بتائیے؟

جواب: جب مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے جو تمہارے وطن سے( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ دور ہوتو اس پر اپنی نماز میں قصر واجب ہے،اس طرح کہ وہ چار رکعت والی نماز کو فقط دورکعت پڑھے اور اسی طرح کوئی مسافر کسی ایسے شہر کا سفر کرے کہ جس کی مسافت اس کے وطن کی جگہ سے ( ۲۲ کلو میڑ) ہو اور اسی روز اس کی واپسی کا بھی ارادہ ہو تو اپنی نماز کو قصر کرے گا۔

سوال: کس جگہ سے سفر کی ابتداء کا حساب کیا جائیگا؟

جواب: سفر کی ابتداء کا حساب شہر کے آخری مکان سے کیا جاتاہے۔

۲ مسافر اپنے سفر کے ارادہ پر باقی رہے،اگر درمیان سفر اپنی رائے بدل دے تو پھر نماز پوری پڑھے گا مگریہ کہ اس کا ارادہ اپنے وطن کی طرف لوٹنے کا ہو اور اس کا یہ طے کیا ہوا راستہ آنے جانے کو ملا کر قصر کی مسافت کی مقدار تک پہنچ گیا ہو تو پھر اس پر نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے۔

۳ مسافر کا سفر جائز ہو پس اگر اس کا سفر حرام (کام کے لئے) ہو جیسا کہ بعض حالات میں زوجہ کا بغیر شوہر کی اجازت کے سفر کرنا یا اپنے سفر میں حرام کام کا ارادہ ہو مثلاًچوری کا،تو ایسی حالت میں وہ پوری نماز پڑھے اور اسی سے ملحق اگر کوئی تفریح کے قصد سے شکار کو جائے تو بھی نماز پوری پڑھے۔

۴ مسافر اپنے وطن سے نہ گزرے یا وہاں اثنائے سفر قیام نہ کرے یا جس شہر کی طرف سفر ہے اس میں دس ( ۱۰) روز رہنے کی نیت نہ کی ہو،یا کسی شہر میں ایسا متردد نہ ہو کہ یہاں سے کب جائیگا اور اس طرح اس کو تیس( ۳۰) روز تردد میں گزر گئے ہوں تو ایسی صورت میں اول سفر سے تیس ( ۳۰) دن تک نماز قصر پڑھے گا،پوری نہیں۔

سوال: اور جب اپنے وطن یا اپنے ٹھہرنے کی جگہ سے اثنائے سفر گزرے اور وہاں اترے یا جس شہر کی طرف سفر کیا ہے وہاں دس دن یا زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو یا ایسی جگہ گیا ہو جہاں سے وہ واپس لوٹنے میں متردد ہو اور اس طرح اس کو وہاں تیس ( ۳۰) دن گزر گئے ہوں تووہ ان جگہوں پر کون سی نماز پڑھے گا؟

جواب: ان جگہوں پر وہ پوری نماز پڑھے گا مگر جو شخص سفر سے واپسی میں متردد ہو (تووہ تیس( ۳۰) دن تک قصر نماز پڑھے گا )تیس ( ۳۰) دن بعد پوری نماز پڑھے گا ۔

۵ کسی کا سفرکرنا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور۔ملاح۔ چرواہ یا وہ بار بار کسی دوسرے کام کے لئے سفر کرے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈرائیور اثنائے سفر پوری نماز پڑھے گا؟

جواب: ہاں جس کا پیشہ ڈرائیوری ہوتو اگر وہ ( ۴۴ کلومیڑیا زیادہ) مسافت طے کرے تو وہ اپنے کام(ڈرائیوری )کے دوران پوری نماز پڑھے گا۔

سوال: تاجر،طالب علم،ملازم جب کسی شہر میں مقیم ہوں اور کسی دوسرے شہر میں ‘یونیور سٹی۔دفتر یا مرکز تجارت ہو اور وہ ان کے رہنے کی جگہ سے ۲۲ کلومیڑدور ہو اور وہ وہاں پہنچنے کے لئے ہر روزیا ہر دوسرے روز سفر کرتے ہوں (تو کیا حکم ہے)؟

جواب: تو وہ نماز کو پوری پڑھیں گے قصر نہیں پڑھیں گے۔

۶ جن کا کوئی رہنے کا ٹھکانہ نہ ہو،بلکہ ان کا گھران کے ساتھ ہو اور ان کا کوئی وطن نہ ہو،جیسے سیاح کہ جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے ہیں اور کہیں بھی ان کے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہوتا تو وہ نماز پوری پڑھے گا۔

سوال: مسافر قصر کی ابتداء کہاں سے کرے گا؟

جواب: جب شہر والوں کی نظروں سے وہ پوشیدہ اور ان سے دور ہوجائے تو اس پر (اپنی نماز کا) قصر کرنا واجب ہے۔اور اس کی اکثر علامت یہ ہے کہ وہ مسافر شہر کے رہنے والوں میں سے کسی کو نہ دیکھے اس وقت اپنی نماز کی قصر کرے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مسافر جب اپنے وطن سے گزرے یا وہاں ٹھہرے تو وہ نماز کو پوری پڑھے گا آپ کا اس کے وطن سے کیا مقصد ہے؟

جواب: میرا یہاں وطن سے مقصدیہ ہے۔

الف۔ وہ اصلی ٹھکانہ جس کی طرف اس کو منسوب کیا جاتاہے اور اس کے والدین کے رہنے کی جگہ ہو اورعموماًاس کی زندگی کا مرکز ہے۔

ب۔ وہ جگہ کہ جس کو انسان اپنا ٹھکانہ اور مسکن بنا لیتا ہے اس طرح کہ اپنی بقیہ عمر کو وہیں گزارے۔

ج۔ ایسی جگہ جہاں اتنی طویل مدت تک رہے کہ جب تک وہ وہاں ہے اس کو مسافر نہ کہا جاسکے۔

سوال: اس کے معنی یہ ہوئے؟

۱ جب مسافر اپنے وطن سے گزرے اور وہاں ٹھہرے۔

۲ جہاں کا انسان نے سفر کیا ہے وہاں وہ دس روز یا زیادہ برابر ٹھہرے۔

۳ اور جب کسی ایسے شہر کا سفر جہاں تیس( ۳۰) روز تک ایسا متردد رہے کہ نہ جانے کہ کب وہ اپنے وطن کو واپس ہوگا تو ایسے مسافر(جو اوپر بیان ہوئے ہیں) اپنی نماز پوری پڑھیں گے اور قصر نہیں کریں گے؟

جواب: جی ہاں ۔

سوال: اور جب کسی مسافر کو اوپر تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئے تو؟

جواب: تو وہ نماز قصر پرھے گا پس ہر وہ مسافر کہ جو( ۴۴ کلو میڑ) یا زیادہ کا سفر کرے تو وہ نماز قصر پڑھے گا مگریہ کہ اپنے وطن سے گزرے اور اس میں ٹھہرے یا کہیں دس روز کی نیت کرلی ہوتو،والد ہاں ۔۔ہاں۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی مسافر ہوتو اگر وہ اثنائے سفر نماز نہ پڑھے بلکہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے تو (کیا حکم ہے؟)

جواب: وہ نماز پوری پڑھے گا‘کیونکہ وہ نماز اپنے وطن میں پڑھ رہاہے۔

سوال: اور جب نماز کا وقت آجائے اور کوئی اپنے وطن میں ہو اور نماز نہ پڑھے پھر وہ ۴۴ کلو میڑ یا زیادہ کا سفر کرے؟

جواب: تووہ نماز کو قصر پڑھے کیونکہ وہ نماز کو سفر کی حالت میں پڑھ رہا ہے۔

سوال: میں بعض دفعہ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اکھٹی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ایک ساتھ رکوع،ایک ساتھ سجدے اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟

جواب: وہ لوگ نماز یومیہ کو جماعت سے پڑھتے ہیں فرادی نہیں ۔

سوال: ہم نماز جماعت کو کس طرح پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: جب دو یا دو سے زیادہ اشخاص جمع ہوجائیں تو ان میں سے ایک جو امام جماعت کے شرائط رکھتا ہے اس کو جائز ہے کہ وہ سب کے آگے کھڑے ہو کر باقی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ان لوگوں کو اس عمل سے زیادہ اجر ملتا ہے۔

سوال: کیا نماز جماعت مستحب ہے؟

ج ہاں اس کا عظیم ثواب ہے،خاص کر کسی عالم کے پیچھے اور جتنے لوگ نماز جماعت میں زیادہ ہوں گے اتنی ہی اس کی فضیلت بھی بڑھے گی۔

سوال: امام جماعت کے کیا شرائط ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی گفتگو میں اشارةبیان کیا؟

جواب: امام جماعت کے شرائط میں ہے کہ وہ ،بالغ ہو ،عاقل ہو، مجنون نہ ہو،مومن ہو،عادل ہو،اپنے خدا کی معصیت (گناہ) نہ کرتا ہو قرائت صحیح ہو،حلال ہو،جب مامون مرد ہوں تو امام بھی مرد ہو(عورت نہ ہو)

سوال: ہم کس طرح پہچانیں کہ یہ مرد مومن ہے،عادل ہے تاکہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ سکیں؟

جواب: اس کے ظاہری حال کا بہتر ہونا کافی ہے۔

سوال: کیا جماعت میں امام جماعت کے دوسرے شرائط بھی ہیں۔؟

جواب: ہاں (امام جماعت کے بارے میں اعتبار کیا گیا ہے کہ وہ ایسا نہ ہوکہ جس پر شرعی حد جاری کی گئی ہو) اور اگر ماموم کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہےہیں تو امام کی نماز بھی قیام کی حالت میں ہونی چاہیے امام وماموم کے قبلہ میں احتلاف نہ ہو ایسا نہ ہوکہ امام کا اعتقاد قبلہ کےمتعلق کسی طرف ہو اور ماموم کا اعتقاد دوسری طرف ہو، ماموم کی نظر میں امام کی نماز صحیح ہو،پس اگر امام پانی کی نجاست کو نہ جانتے ہوئے نجس پانی سے وضو کرے اور ماموم کو پانی کی نجاست کا علم ہو تو پھر ایسی صورت میں ماموم کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔

سوال: میں جماعت کے ساتھ کس طرح نماز پڑھو؟

جواب: پہلے کسی ایسے شخص کو کہ جس میں امام جماعت کے شرائط جمع ہوں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،شخص معین کرو اگر تم تنہا ہو تو امام کے داہنی طرف ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو یا اگر تم دویا دو سے زیادہ ہوتو پھر امام کے پیچھے کھڑے ہو تمہارے اورامام کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جیسے دیوار وغیرہ تمہارے کھڑے ہونے کی جگہ سے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ زیادہ بلند نہ ہونی چاہیے تمہارے اور امام کے درمیان یا جو مصلی تمہارے پہلو میں کھڑا ہے یا وہ جو تمہارے آگے کھڑا ہے کہ جس کا رابطہ امام سے ہے اس کے او ر تمہارے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہئے ۔

سوال: پس اس بناپر نمازیوں کے درمیان ایک میڑسے زیادہ فاصلہ نہ ہونا چاہیے؟

جواب: (ہاں! تقریبا) اور نمازی کا اپنے برابر والے نمازی سےمتصل ہونا چاہیے ایک سمت ہی سے کافی ہے اور یہ اتصال چاہے آگے سے ہو یا داہنی طرف سے ہویا بائیں طرف سے ہو کافی ہے۔

سوال: اس کے بعد کیا ہونا چا ہئے؟

جواب: جب امام جماعت تکبیر کہے تو اس کے بعد اس کے پیچھے کھڑے ہونے والے تکبیر کہیں جب امام سورہ الحمد اور اس کے بعد سورہ پڑھے تو مامومین کو ان (سوروں) کی تلاوت نہ کرنی چاہیے کیونکہ امام کی تلاوت ان کی طرف سے کفایت کرے گی پس جب وہ رکوع کرے تو وہ بھی رکوع کریں اور جب و ہ سجدہ میں جائے تو اس کے بعد وہ سجدہ میں جائیں اور جب وہ تشھد پڑھے تو یہ تشھد پڑھیں اور اس کے سلام کے بعد یہ سلام کہیں۔

سوال: اور کیا میں رکوع و سجدہ اور تشہد میں ذکر پڑھوں اور کیا تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ پڑھوں یا خاموش رہوں اور کچھ نہ پڑھوں؟

جواب: بلکہ تم اسی طرح (ان کو) پڑھو کہ جس طرح تم فرادی نماز پڑھتے وقت پڑھتے ہو،لہٰذا تم رکوع ،سجود اور تشہد میں (اس کا مخصوص) ذکر پڑھو اور تیسری اور چوتھی میں جیسا کہ میں نے بتایا تسبیحات اربعہ کی تکرار کرو فقط سور تین(الحمدو سورہ) پڑھنا تم پر (واجب) نہیں ہے،پھر(ان کے علاوہ سب کی متابعت تم پر (ضروری ) ہے۔

سوال: آپ کا کیا مقصد ہے؟

جواب: تم پر امام جماعت کی اتباع ہر ہر قدم پر ضروری ہے یعنی جب وہ رکوع کرے تو تم بھی اس کے ساتھ رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی اس کے ساتھ سجدہ کرو اور جب وہ سجدے سے سر اٹھائے تو تم اپنے سر کو اٹھاؤ اور اسی طرح (ہر فعل کو انجام دو)افعال نماز میں اس سے پہل نہ کرو۔

سوال: اور امام جماعت سے کب ملحق ہونا چاہیے؟

جواب: امام جماعت کے حالت قیام میں تکبیر کہنے کے بعد یا جب وہ حالت رکوع میں ہو تو اس سے ملحق ہونا چاہیے۔

سوال: میں امام جماعت کے ساتھ اس وقت ملحق ہوں کہ جب وہ دونوں سورتوں کی تلاوت کررہا ہو تو مجھ پر دونوں سوروں کا پڑھنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا‘مگر جب وہ رکوع میں ہوتو میں کس طرح اس سے ملحق ہوں؟

جواب: تم تکبیر کہہ کرفوراً رکوع میں چلے جاؤ یہاں تک کہ امام جماعت اپنے رکوع کو ختم کرکے کھڑا ہوجائے تو تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔

سوال: اور ان دونوں سوروں کے پڑھنے کا کیا ہوگا( وہ تو میں نے پڑھا ہی نہیں ؟

جواب: جب تم رکوع میں اس سے ملحق ہوگئے تو ان دونوں سوروں کی قرائت تم سے ساقط ہے۔

سوال: اور جب وہ تیسری یاچوتھی رکعت میں ہو تو تسبیحات اربعہ پڑھ رہا ہو اس وقت اس سے ملحق ہوں تو؟

جواب : تم تکبیر کہو پھردونوں سوروں کی آہستہ تلاوت کرو ۔

سوال: اور جب دونوں سوروں کے پڑھنے کا وقت وسیع نہ ہو؟

جواب: تو تم فقط سورہ حمد کو پڑھو۔

سوال: مجھے نماز ظہر پڑھنا ہے اور میں امام جماعت سے ملحق ہوجاؤں حالانکہ امام جماعت عصر کی نماز پڑھ رہاہے( تو میرے لئے کیا حکم ہے۔؟

جواب: ہاں تم ملحق ہوسکتے ہو،تمہاری نماز اور امام جماعت کی نماز میں جہرو اخفات یا قصر وتمام یا قضاو اداء کی حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے۔

سوال: کیا عورتوں کے لئے مردوں کی طرح جماعت ہے؟

جواب: ہاں عورت ایسے مرد کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے جس میں امام جماعت کے شرائط پائے جاتے ہوں جیسا کہ اس کے لئے عورت کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائزہے،لیکن اگر عورت امام ہو(تواس پر واجب ہے وہ عورتوں کی صف میں کھڑی ہو ان سے آگے کھڑی نہ ہو) اور پھر اسی طرح نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھائے جیسا کہ مردامام جماعت پڑھاتا ہے،لیکن اگر عورتیں مردوں کے ساتھ نمازپڑھ رہی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ مردوں کے پیچھے نماز پڑھیں،یا ان کے ساتھ ایک صف میں اگر نماز پڑھیں تو بیچ میں کوئی چیزحا ئل ہونی چاہیے اگر چہ دیوار ہی کیوں نہ ہو۔

سوال: یہ نماز جماعت تھی اس کے علاوہ میں نے ایک نماز کا نام سنا کہ اس کا نام نماز جمعہ ہے پس کیا یہ نماز اس کے علاوہ ہے۔؟

جواب: ہاں وہ دورکعت نماز صبح کی طرح ہے مگر یہ کہ نماز صبح سے ان دو خطبوں کی بناپرممتاز ہوجاتی ہے کہ جو نماز جمعہ سے پہلے پڑھے جاتے ہیں اس طرح کہ امام کھڑا ہو اور ان دونوں خطبوں میں ایسی چیز بیان کرے جس میں خدا کی رضایت اور لوگوں کا نفع ہو۔

اور کم سے کم پہلے خطبہ میں واجب ہے کہ اللہ تعالی کی حمد وثنا کرے( عربی زبان میں) اور لوگوں کو تقوے کی نصیحت کرے،اورقرآن کریم کا ایک چھوٹا سا سورہ پڑھے پھر تھوڑا بیٹھ کر دوسری مرتبہ دوسرے خطبے کے لئے کھڑا ہو پس اللہ کی حمدوثنا اور محمد و آل محمد پر اور مسلمانوں کے ائمہ علیہم السلام پر صلوات بھیجے اور سب سے زیادہ بہتر وافضل مومنین ومومنات کے لئے استغفار کرنا ہے۔

سوال: کیا یہاں اس کے واجب ہونے میں کچھ شرائط بھی ہیں؟

جواب: ہاں اس کے واجب ہونے کے چندشرائط ہیں کہ نماز ظہر کا وقت داخل ہوجائے،پانچ لوگوں کا جمع ہونا،کہ ان میں ایک امام جمعہ ہو،اور امام جمعہ میں وہ تمام شرائط پائی جائیں کہ جو امام جماعت کے بارے میں بیان کی گئی ہیں اور جب کسی شہر میں نماز جمعہ قائم ہواپنے تمام شرائط کے ساتھ پس اگر امام معصوم یا جس کو اس نے مقرر کیا ہے نماز جمعہ کا اقامہ کرے تو اس شہر کے تمام رہنے والوں پر نماز جمعہ میں شرکت کرنا واجب ہے،سوائے ان لوگوں کے جن کو بارش نے یاشدید موسم سرمایا ان دونوں کے علاوہ کسی اور چیز نے شرکت کرنے سے مجبور کردیا ہو،جو مرض وبینائی سے سالم ہوں سوائے بوڑھے اور مسافر کے اورنماز جمعہ میں تقریبا ( ۱۱ کلو میڑ) کے فاصلہ تک شرکت کرنا( ضروری ہے)

سوال: اور اگر امام یا جس کو امام نے مقرر کیا ہو اس کے علاوہ کوئی نماز جمعہ کو قائم کرے تو پھر اس میں شرکت کرنا واجب نہیں ہے اور نماز ظہر کا بجالانا جائزہے،اور اگر کوئی مصلی نماز جمعہ کو جو اس کے تمام شرائط کے ساتھ قائم ہوئی ہے پڑھ لے تو وہ نماز ظہر سے کفایت کرے گی اور وہ نماز ظہر کو ساقط کردے گی۔

اب دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔

۱ نماز جمعہ کا پڑھنا واجب تخییری ہے پس مکلف نماز جمعہ اور نماز ظہر کے پڑھنے میں مخیر ہے( چاہے نماز جمعہ پڑھے یا نماز طہر) مگر نماز جمعہ کا پڑھناافضل ہے ۔

۲: نماز جمعہ کے درمیان تقریباً ساڑھے پانچ کلومیڑ کا فاصلہ معتبر ہے۔

سوال: چاہتا ہوں آپ سے ایک سوال کروں مگر کیا کروں حیامانع ہے ۔

جواب: جو کچھ چاہو تم سوال کرو دین میں کسی چیز کی شرم نہیں ۔

سوال: اگر میں نے نماز پنجگانہ میں کسی نماز کو نیند کی بناپر کبھی غفلت کی بنا پر چشم پوشی اور لاپرواہی اور کبھی جہالت کے سبب نہ پڑھی ہویا اگر پڑھی ہے تو نماز باطل اور فاسد پڑھی اور نماز کا وقت بھی نکل چکا (تو اب کیا کروں ؟)

جواب: ان کی قضا تم پر واجب ہے اگر وہ مثل صبح ومغرب اور عشاء کے جہری ہے تو ان کی قضا بھی جہری ہے اور اگر وہ مثل ظہر و عصر کے اخفاتی ہوں تو ان کی قضا بھی آہستہ آواز سے ہوگی اور اگر وہ قصر ہیں تو ان کی قضا بھی قصراور اگروہ تمام ہیں تو ان کی قضا بھی تمام ہوگی ۔

سوال: اور کیا میں نماز ظہر کی قضا زوال کے وقت پڑھ سکتا ہوں اور نماز عشاء کے وقت میں اس طرح نماز عشاء کی قضا ادا کرسکتا ہوں؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ تم جس وقت چاہو اپنی کسی بھی نماز کی قضا ادا کرسکتے ہو چاہے رات ہو یا دن اور تم صبح نماز کی قضا شام کے وقت بھی ادا کرسکتے ہو،اسی طرح دوسری نمازوں کی بھی قضاء ادا کرسکتے ہو۔

سوال: اور جب مجھے معلوم نہ ہوکہ میری کون سی نماز قضا ہے تو میں کس نماز کی قضا ادا کرو؟

جواب: جس نماز کے قضا ہونے کا یقین ہو ،اور جس کو تم نے اس کے وقت میں نہ پڑھی ہو، اس کی قضا کرو لیکن جس نماز کے قضا ہونے کے بارے میں تم کو شک ہے تو اس کی قضاتم پر واجب نہیں ہے۔

سوال: ذرامجھے مثال سے واضح کیجئے؟

جواب: مثلاً تم کو یقین ہے کہ تم نے ایک مہینہ تک نماز صبح نہیں پڑھی تو ایک مہینہ کی نماز صبح کی قضا تم پر واجب ہے لیکن جس کے بارے میں شک ہے کہ وہ قضا ہوئی یا نہیں تو اس کی قضا تم پر واجب نہیں ہے۔

دوسری مثال جب تم کو معلوم ہوکہ ایک زمانہ تک تم نے نماز صبح نہیں پڑھی،اب تمہارے دل میں دواحتمال پیدا ہوتے ہیں کہ تم نے آیا ایک مہینہ نماز قضا کی ہے یا ایک مہینہ دس دن کی قضا ہوئی ہے ایسی صورت میں ایک مہینہ کی نماز کی قضا تمہارے لئے ضروری ہے اس سے زیادہ نہیں ۔

سوال: کیا جو ہماری نماز قضا ہوئی ہے اس کا ادا کرنافوراً بغیر تاخیر کے واجب ہے؟

جواب: بغیر تساہلی اور تسامح کے تاخیر جائز ہے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تمہاری نماز جس دن فوت ہوئی ہے اسی دن اس کی قضا ادا کرو مثلا تمہاری کسی دن صبح کو آنکھ نہ کھلے اور نماز صبح قضا ہوجائے تو اسی دن نماز صبح کی قضا ادا کرلو تاکہ وہ زیادہ نہ ہوجائیں تو تم پر ان کی قضا کا ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔

میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں قضا کے سلسلہ میں تساہلی اور تسامح سے خدا تم کو توفیق عنایت کرے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کے معین وقت میں ادا کرو۔

سوال: ذرا ٹھہرئیے نماز کی پہلی والی گفتگو میں آپ نے مجھے نماز واجب کی تعداد میں بتایا تھا کہ نماز مرنے والے کے بڑے بیٹے پر ادا کرنا واجب ہے جب کہ باپ نے ان کی قضا ادا نہ کی ہواور وہ مرجائے؟

جواب: ہاں( نماز واجب کی قضا بڑے بیٹے پر واجب ہے ، جب کہ والد کی نماز کسی عذر کی بنا پر قضا ہوگئی ہو اور اس نے اس قضا کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہوئے بھی قضا کو ادا نہ کیا ہو اور وہ مر جائے اور اس کا بڑا بیٹا اس کی موت کے وقت قاصر نہ ہو اور وہ ممنوع الارث بھی نہ ہو تو اس کو چا ہئے کہ وہ کسی کو اپنی نیابت میں اپنے والد کی قضا نماز ادا کرنے پر بحیثیت اجارہ معین کرے ۔

سوال: آپ نے مجھ سے نماز آیات کے بارے میں ذکر کیا تھا؟

جواب: نماز آیات سوائے حیض ونفاس والی عورتوں کے تمام مکلفین پر چاند گہن سورج گہن چاہے ذرا سا ہی کیوں نہ ہو(زلزلہ کے وقت) واجب ہے اور ہروحشت ناک آسمانی حادثہ کے وقت جیسے بجلی کی کڑک وگرج،سرخ وسیاہ آندھی وغیرہ کے وقت اور اسی طرح وحشت ناک زمینی حادثات کے وقت جیسے زمین کا ایسا پھٹ جانا اور دھنس جانا کہ جس میں عام لوگ خوف زدہ ہوجائیں نماز آیات کو فرادا پڑھا جاتا ہے اور چاند گہن اور سورج گہن میں جماعت سے بھی پڑھا جاتاہے۔

سوال: نماز آیات کب ادا کی جاتی ہے۔؟

جواب: سورج گہن اور چاند گہن میں شروع گہن سے ختم گہن تک۔

سوال: زلزلوں میں وبجلی کی کڑک وگرج میں اور ہر آسمانی یا زمینی وحشت ناک حادثات کے وقت(کلاصۃاً)نماز آیا ت کب پڑھی جائے؟

جواب: ان میں نماز کا وقت کوئی معین نہیں بلکہ جیسے ہی حادثات رونما ہوں ویسے ہی نماز کو بجالایا جائے مگر یہ کہ حادثہ کا وقت وسیع ہوتو اس کی نماز کو اتنے وقت میں بجالایا جائے کہ اس حادثہ کا زمانہ ختم نہ ہواہو۔

سوال: نماز آیات کو کس طرح پڑھوں؟

وہ دورکعت ہے اورہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں ۔

سوال: وہ کس طرح؟

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت کرو اس کے بعد کسی دوسرے سورہ کو کامل پڑھو، پھر رکوع کرو جب تم اپنا سررکوع سے اٹھاؤ تو پھر سورہ الحمد اور ایک کامل سورہ پڑھو پھر رکوع کرو اسی طرح پانچ رکوع کرو۔

جب تم اپنا سر رکوع سے بلند کرو تو سجدے کے لئے جھک جاؤ اور دوسجدوں کو اسی طرح کرو کہ جس طرح تم ہمیشہ نماز میں سجدے کرتے ہو۔

پھر تم دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور اس رکعت میں بھی اسی طرح انجام دو جو اس سے پہلے والی رکعت میں انجام دیا ہے (یعنی پانچ رکوع اور پانچ مرتبہ دونوں سوروں کا پڑھنا) پھر تشہدو سلام کے بعد نماز کو تمام کرو،یہ ہے وضاحت اس نماز کی کہ جس میں دس رکوع ہیں،لیکن وہ دورکعت پر مشتمل نماز ہے اور اس کے علاوہ اس نماز کی دوسری بھی صورت ہے مگر اختصار کی بنا پر اس کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: جب سورج گہن یا چاند گہن لگ جائے اور اس کا علم نہ ہو یہاں تک کہ وہ بالکل ختم ہوجائے تو اس کاکیا حکم ہے؟

جواب: جب سورج گہن یا چاند گہن پورا ہو اس طرح کہ وہ گہن تمام سورج اور چاند کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تم پراس کی قضا واجب ہے اور اگرپورانہ ہو صرف تھوڑا سا گہن ہو تو تم پر قضا واجب نہیں ہے۔

سوال: اور کیا نماز آیات زلزلہ وبجلی کی کڑک وچمک میں ہے؟

جواب: جب ان دونوں کے حادثہ کا تھوڑا زمانہ گزرجائے اور تم نے کسی بھی سبب نماز نہیں پڑھی تو پھر ان کی قضا ساقط ہے ۔

سوال: اگر زمین کے کسی بھی حصہ میں سورج یا چاند گہن ہو تو کیا مجھ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے؟

جواب: ہرگز نہیں بلکہ اس چاند یا سورج گرہن کی نماز تم پر واجب ہے جو تمہارے شہر میں ہوا ہو یا جو تمہارے شہر سے کوئی ایساشہر ملا ہوا ہو کہ جس کے حادثات اور واقعات مشترک ہوں اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں سورج گہن یا چاند گہن لگا ہو اور وہ تم سے دور ہوتو اس وقت تمہارے اوپرنماز آیات واجب نہیں ہے۔

سوال: آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ نمازیں واجب ہیں اور مستحب؟لیکن آپ نے مستحب نمازوں کے بارے میں کچھ نہ فرمایا؟

جواب: وہ بہت ہیں ان کو بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں ہے ۔اس لئےان میں سے کچھ کو میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

۱ نماز شب (اور اس کا آخری حصہ تہائی رات میں ادا کرنا افضل ہے،اور جتنا نماز صبح سے وقت قریب ہوگا اتنا ہی افضل ہے) آٹھ رکعتیں ہیں ہر دورکعت کے بعد نمازپڑھنے والا سلام پھیرے ، نماز صبح کی طرح،جب یہ آٹھ رکعت ختم ہوجائیں تو پھر دورکعت نماز شفع پڑھے پھرنماز وتر پڑھے جو ایک رکعت ہے پس یہ تمام کی تمام گیارہ رکعت ہیں ۔

سوال: مجھے بتائیے کہ نماز وتر کس طرح پڑھی جاتی ہے جب کہ وہ ایک رکعت ہے؟۔

جواب: پہلے تکبیر کہو پھر الحمد پڑھو اور مستحب ہے کہ اس کے بعد سورہ توحید پڑھو تین مرتبہ،اور سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھو پھر ہاتھوں کو بلند کرکے جو چاہو دعا پڑھو۔

تم پر مستحب ہے کہ اللہ کے خوف سے گریہ کرو اور چالیس مومنین کا نام لے کر ان کے واسطے مغفرت طلب کرو اور ستر مرتبہ پڑھو۔

(استغفرالله واتوب الیه ) اور سات مرتبہ (هذا مقام العاذ بک من النار ) پڑھو اور تین سو مرتیہ(العفوء )کہو اور جب تم اس سے فارغ ہوجاؤتو رکوع کرو اور پھر تشہد وسلام کے بعد نماز تمام کرو۔

اور تم نماز شفع اور وتر پر ہی صرف اکتفاء کرسکتے ہو بلکہ تنہا اور خاص طورسے وتر پر بھی اکتفاء کرسکتے ہو جب کہ وقت تنگ ہو۔

سوال: نماز شب کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: نماز شب کی بہت بڑی فضیلت ہے امام صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی وصیت میں جو علی علیہ السلام سے کی ہے (تین مرتبہ فرمایا)علیک بصلواة اللیل (علیک بصلواة اللیل ) (علیک بصلواة اللیل

یعنی تم نماز شب پڑھا کرو۔

اور اسی طرح نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ ”صلاة رکعتین فی جوف اللیل الی من الدنیا وما فیها “۔رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنا مجھے دنیا اور جو اس میں ہے اس سے زیادہ پسند ہے، اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا او راس نے کسی حاجت کے بارے میں آپ سے شکایت کی او راپنی شکایت میں اپنی بھوک کا بھی اضافہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: (اے شخص تو نماز شب پڑھتا ہے) تو اس نے کہا ہاں، تو آپ نے اس کے دوست کی طرف متوجہ ہوکر اور فرمایا وہ شخص جھوٹا ہےجو کہتا ہے کہ رات کو نمازشب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رہے خداوند عالم نے اس شخص کےروزی کی ضمانت لی ہے جو رات کو نماز شب پڑھتا ہے)۔

۲ نماز وحشت یا دفن کی رات کی نماز او راس کے ادا کرنے کا وقت دفن کی پہلی رات ہے، رات کے کسی بھی حصہ میں اس کو پڑھئے اور وہ دو رکعت ہے، رکعت اول الحمد کے بعد آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ انا انزلناہ اور تشہد و سلام کے بعد کہو۔

اللهم صل علی محمد و آل محمد و ابعث ثوابها الی قبر فلان ۔

اور فلاں کی جگہ میت کا نام لو، اور ایک دوسری صورت بھی اس نماز کی ہے، فقہ کی کتابوں میں دیکھو اگر مزید جاننا چاہتے ہو تو۔

۳ ۔ نماز غفیلہ او ر وہ دو رکعت ہے مغرب و عشاء کے درمیان پہلی رکعت میں الحمد کے بعد یہ آیہ کریمہ پڑھو۔

( و ذالنون اذذهب مغاضبافظن ان لن نقدر علیه فنادی فی الظلمات ان لا لااله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین، فاستجبنا له و نجیناه من الغم و کذالک ننجی المومنین )

اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد اس آیہ کریمہ کی تلاوت کرو۔

( و عنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو و یعلم ما فی البر والبحر و ما تسقط من ورقة الا یعلمها ولا حبة فی ظلمات الارض و لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین )

پھر دعا کے لئے ہاتھوں کو بلند کرو اور کہو۔

اللهم انت ولی نعمتی والقادر علی طلبتی تعلم حاجتی فاسالک بحق محمد وآله علیه وعلیهم السلام لما قضیتهالی ۔

اپنی حاجب طلب کرو انشاء اللہ پوری ہوگی۔

۴ ۔ ہر مہینہ کے پہلے دن کی نماز اور وہ دو رکعت ہے۔ پہل رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ توحید تین مرتبہ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورۂ قدر تین مرتبہ، پھر تم صدقہ دو جو بھی تم کو میسر ہو او راس مہینہ کی سلامتی کو خرید لو اور اس کے بعد قرآن کی کچھ مخصوص آیتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔

۵ ۔حضرت علی علیہ السلام کی نماز،اور وہ چار رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی طرح پڑھو، ہر رکعت میں سورۂ الحمد کے بعدپچاس ( ۵۰) مرتبہ( قل هو الله احد ) پڑھو،توپھر اس کے اور خدا کے درمیان کوئی گناہ نہ رہے گا۔

۶ ۔ امرمشکل کی آسانی کے لئے نماز، اور وہ دو رکعت ہے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب کوئی کام مشکل ہوجائے تو دو رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( انا فتحنا ) کو( ولینصرک الله نصرا عزیرا ) تک اور دوسری رکعت میں الحمد اور قل ہو اللہ احد اور( الم نشرح لک صدرک ) پڑھو۔


3

4

5

6