ساحل کوثر

ساحل کوثر0%

ساحل کوثر مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

ساحل کوثر

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8568
ڈاؤنلوڈ: 2665

تبصرے:

ساحل کوثر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8568 / ڈاؤنلوڈ: 2665
سائز سائز سائز
ساحل کوثر

ساحل کوثر

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی اجمالی زندگی

دل جس کے دیار میں مدینے کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔ گویا مکہ میں درمیان صفا و مروہ دیدار یار کے لئے حاضر ہے ، عطر بہشت ہر زائر کے دل و جان کو شاداب و با نشاط کردیتا ہے ۔ جس کے حرم میں ہمیشہ بہار ہے ۔ بہار قرآن و دعا ، بہار ذکر و صلوات ، شب قدر کی یادگار بہاریں ۔ دعا و آرزو کے گلدستے کی بہار جو تشنہ کام روحوں کو سیراب کردیتی ہے ، ہر خستہ حال مسافر زیارت کے بعد تھکن سے بیگانہ ہوجاتا ہے ۔ ہر آنے والا شخص اس حرم میں قدم رکھنے کے بعد خود کو غریب محسوس نہیں کرتا ۔ یہ کون ہے ؟

اسے سب پہچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حرم ، حرم اہل بیت ہے ۔ مدفن یادگار رسول ، نور چشم موسیٰ بن جعفر علیہم السلام ، آئینہ نمائش عفت و پاکی ، حضرت فاطمہ ثانی ہے ۔ وہ کہ جو خود مکتب علوی کی تعلیم یافتہ اور خاندان نبوی کے اسرار میں سے ایک راز ہے جس کی ولادت سے قبل صادق آل محمد علیہم السلام نے اس کے آنے کی نوید دیدی تھی ۔ خاندان زہرا علیہا السلام کی ایک دختر جو انہی کی طرح ولایت و امامت کی حامی تھی اورزینب کبریٰ علیہا سلام کی طرح شایستگان کی قافلہ سالار تھی اگر حضرت زینب علیا مقام کی فریادوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا تو فاطمہ معصومہ (س) کی فریادوں نے بنی عباس کو ، آپ کی مدینے سے مرو اور خراسان کی طرف الٰہی سیاسی حرکت در حقیقت زمانے کے طاغوت کے خلاف ایک سفر تھا ۔ اگر چہ وہ اپنے بھائی اور امام زمان کی زیارت نہ کرسکیں لیکن اپنا پیغام پہنچادیا ۔

آپ نے خاندان پیغمبر صل اللہ علیہ و آلہ کے چند افراد اورمحبان اہلبیت کے ہمراہ مدینے سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ہر زمانے میں مادی و طاغوتی طاقتیں اسلام حقیقی کے تربیت یافتہ جیالوں کے سامنے بولی ہیں ۔ جیسا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے منھ در منھ فرمایا ” انی استصغرک “(۱) میں تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل و رسوا سمجھتی ہوں ۔ اگر چہ زینب دوراں کی حرکت منزل مقصود تک پہنچ سکی اور آخر کار دختر آفتاب اپنے اس پر برکت سفر میں دیدار حق کے لئے روانہ ہوگئی اور اپنی شہادت سے سب کو سوگوار بنادیا ۔ لیکن کچھ ہی زمانے کے بد دنیا اس عظیم سفر کے ثمرات کو مشاہدہ کرنے لگی ، یہ اس وقت سمجھ میں آیا جب اس بے کراں کوثر عترت کے صدقے میں علوم و معارف کے چشمے ابلنے لگے اور قم یہ حریم مقدس فاطمی اسلام کے حیات بخش معارف کے نشر کا مرکز قرار پا گیا اور دنیا کے ستمگروں کے خلاف علم کا محور بن گیا ۔

یہ تمام چیزیں اس کی طلبگار ہیں کہ اس عظیم خاتون کی زندگی پر گفتگو کی جائے خصوصا نوجوان نسل کو آپ سے آشنا کیا جائے ۔ ہم اس پر مفتخر ہیں کہ اس سلسلے میں آپ کی زندگی اور فضائل کا اجمالی خاکہ اس فصل میں جمع آوری کرکے خاندان عصمت کے متوالوں کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔

فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کون ہیں

آپ کا اسم مبارک فاطمہ اور القاب معصومہ ، ستی(۲) ، اور فاطمہ کبریٰ ہیں ۔ آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیہما السلام اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں کہ جو امام رضا علیہ السلام کی بھی والدہ ماجدہ ہیں ۔(۳)

ولادت تا ہجرت

آپ نے پہلی ذی القعدہ ۱۷۳ ء ھ میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رنجہ فرمایا اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس ۱۰(۴) یا بارہ ۱۲(۵) ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کردیا ۔

شہر مقدس کی طرف سفر مقدس

امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے(۶) حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔(۷) اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں ۔

بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اہل قم کے عشق اہلبیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے شخصی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔(۸)

بی بی مکرمہ نے ۱۷ دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے ۔

غروب ماہتاب

آخر کار وہ تمام جوش و خروش ، ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے سے اور دختر فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت سے اہل قم کو میسر ہوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طہارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں اور عاشقان امامت و ولایت عزادار ہوگئے ۔

آپ کی اس نا بہنگام وفات اور مرض ، کے سلسلے میں کہا جا تا ہے کہ ساوہ میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا تھا ۔(۹) دشمنان اہل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ہونا اور اسی میں بعض حضرات کا جام شہادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وہاں سے سفر کرنا ، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نہیں ہے ۔

ہاں بی بی معصومہ نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقانیت رہبران واقعی کی امامت کی سند گویا پیش کردی اور ماموں کے چہرہ سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی قہرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت ازبام کردیا ۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا ۔ اسی درمیان تقدیر الٰہی اس پر قائم ہوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے عدالتی کے خلاف قیام کرنے کا بہترین نمونہ قرار پا جائے اور ہر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الہام الٰہی قرار پائے ۔

مراسم دفن

شفیعہ روز جزا کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا ۔ کفن پہنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی ۔ لیکن دفن کے وقت محرم نہ ہونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ بنام ” قادر “ اس عظیم کام کو انجام دیں ، لیکن قادر حتی دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اہل بیت کے جنازے کو ہر کس و ناکس سپرد خاک نہیں کرسکتا ہے لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگہاں لوگوں نے دو سواروں کو دیکھا کہ ریگزاروں کی طرف سے آرہے ہی جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پہنچے تو نیچے اتر گئے پھر نماز جنازہ پڑہی اور اس ریحانہ رسول خدا کے جسد اطہر کو داخل سرداب ( جو پہلے سے آمادہ تھا ) دفن کردیا ۔ اور قبل اس کے کہ کسی سے گفتگو کریں سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پہچانا ۔(۱۰)

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی مد ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رہے ہوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دہی کے لئے قم تشریف لائے ہوں ۔

حضرت کو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطہر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رہا ۔ مگر جب حضرت زینب دختر امام محمد تقی علیہ السلام قم تشریف لائیں تو مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا ۔(۱۱)

____________________

۱۔ خطبہ حضرت در شام

۲۔سیدہ اور سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

۳۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹ ۔

۴۔ وسیلہ المعصومہ بنقل نزھۃ الابرار ۔

۵۔ مستدرک سفینۃ البحار ج/ ۸ ص/ ۲۵۷ ۔

۶ ۔ زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴ ، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔

۷ ۔ دریائے سخن تالیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲ ، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری ۔

۸۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳ ۔

۹۔ وسیلۃ المعصومیہ : میرزا ابو طالب بیوک ص/ ۶۸ ، الحیاۃ السیاسۃ للامام الرضا علیہ السلام : جعفر مرتضیٰ عاملی ص/ ۴۲۸ ، قیام سادات علوی : علی اکبر تشید ص / ۱۶۸ ۔

۱۰۔ تاریخ قدیم قم ص / ۲۱۴ ۔

۱۱۔ سفینۃ البحار ج/ ۲، ص / ۳۷۶ ۔

تیسری فصل

حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے فضائل و مناقب

چونکہ ائمہ طاہرین اور اولیاء دین کی معرفت ان کے نفسانی فضائل و کمالات کی معرفت حاصل کرنا ہے نہ یہ کہ فقط اجمالی زندگی کی آشنایی ہی پر اکتفا کیا جائے لہٰذا کریمہ اہل بیت علیہم السلام کی زندگی کے اجمالی خاکے کو بیان کرنے کے بعد آپ کے بعض فضائل و مناقب پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔

خاندانی شرافت

آپ کی فضیلتوں میں سے ایک بہت بڑی فضیلت بیت وحی اور کاشانہ رسالت و امامت سے آپ کا نتساب ہے ۔ آپ دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ، دختر ولی خدا ، خواہر ولی اللہ ، عمہ (پھوپھی ) ولی اللہ ہیں اور یہ امر خود تمام فضائل و کمالات معنوی و روحانی کا سر چشمہ ہے کہ آپ کی زندگی ائمہ معصومین علیہم السلام کے جوار میں گزری ہے ، مثلا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام اور ایسے راہ نور و سعادت کے رہنماوں کی تعلیمات سے بہرہ مند ہونا خود آپ کی بلندی روح اور مقام علمی و رفعت علمی کے لئے ایک اساسی عامل ہے ۔ اس بنیاد پر ہم آپ کو فضائل اہلبیت علیہم السلام کا نمونہ کہہ سکتے ہیں ۔

آپ کی عبادت

قرآن مجید کی صریح آیت( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ) (۱) ( ہم نے جن و انس کو فقط اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ تاکہ اس راہ میں کمال حاصل کر کے ہم سے نزدیک ہوں )کے پیش نظر ہدف خلقت انسان فقط عبادت الٰہی ہے وہ حضرات جو اس ہدف کی حقیقت سے روشناس ہیں وہ مرتبہ عالی تک پہنچنے کے لئے جو اطمینان و نفس مطمئنہ کا حصول ہے کسی بھی زحمت کو زحمت نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو بارگاہ ایزدی میں عبادت و راز و نیاز کا زمانہ سمجھتے ہیں ۔ رات کے سناٹے میں اپنے محبوب کی دہلیز پر سر نیاز خم کردیتے ہیں اور زبان دل سے ہم کلام ہوکر والہانہ انداز میں محو راز و نیاز ہوتے ہیں نیز ہمیشہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ نماز و راز و نیاز کی حالت میں اس سے ملاقات کریں تا کہ اس آیہ کریمہ( یا ایتها النفس المطمئنه ارجعی الی ربک راضیة مرضیة ) (۲) کے مصداق قرار پائیں ۔

بندگی اور عبادت الٰہی کا ایک عالی ترین نمونہ کریمہ اہل بیت فاطمہ معصومہ علیہا السلام ہیں ۔ وہ ۱۷ دنوں کا قیام اور دختر عبد صالح یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی لخت جگر کی وہ یادگار عبادت ، خضوع و خشوع ، شب زندہ داریہ تمام چیزیں آپ کی بندگی و عبادت کا ایک گوشہ ہیں وہ بیت النور اور معبد و محراب اس صفیۃ اللہ کی عبادتوں کی یادگار ہے ۔ اسی راز و نیاز کی برکتوں سے لخت جگر باب الحوائج نے قیامت تک کے لئے عاشقان عبادت و ولایت کی ہدایت کی راہیں کھول دیں ۔

آپ کی عبادت گا موسیٰ بن خزرج کے دولت سرا میں تھی اور آج بھی یہ حجرہ میدان میر خیابان چہار مردان نزد مدرسہ ستیہ موجود ہے کہ جو محبان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے ۔

عالمہ و محدثہ اہل بیت علیہم السلام

اسلامی فرہنگ میں سچے محدثوں کی ایک خاص عزت و حرمت رہی ہے ۔ راویوں اور محدثوں نے گنجینہ معارف اسلامی اور مکتب تشیع کے گرانمایہ ذخیروں نیز اسلام کے غنی فرہنگ کی حفاظت کی خاطر ایک نمایاں کردار پیش کیا یہ افراد اسرار آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اور امانت الٰہی کے امین و محافظ تھے ۔

ایک بلند ترین عنوان کہ جو آپ کے علمی مرتبے اور آپ کی معرفت کا شاہکار وہ یہ ہے کہ آپ کو ” محدثہ “ کہا جاتا ہے بزرگان علم حدیث بلا جھجھک آپ سے منقول احادیث کو قبول فرماتے ہیں اور اس سے استناد کرتے ہیں ۔ کیونکہ آپ مورد وثوق و اطمینان افراد کے علاوہ کسی دوسرے سے حدیث نقل نہیں فرماتی تھیں ۔ ہم مناسب موقع پر ان احادیث میں سے بعض کو بعنوان نمونہ ذکر کریں گے ۔

آپ معصومہ ہیں

اگر چہ مقام عصمت ( گناہوں سے محفوظ رہنا در حالیکہ اس کی قدرت رکھتا ہو ) ایک خاص رتبہ ہے جو انبیاء کرام اور ان کے اوصیاء و خصوصا چہاردہ معصومین علیہم السلام سے مختص ہے ۔ لیکن بہت سارے ایسے افراد تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں جنھوں نے خداوند عالم کی مخلصانہ بندگی و اطاعت نیز صدق و طہارت کی راہ پر گامزن ہونے کی وجہ سے تقویٰ اور وحی طہارت حاصل کرکے گناہ اور اخلاقی برائیوں سے دوری اختیار کرلی اور اپنی روح کے دامن کو ناپا کی کے دھبے سے بچالیا ۔

فاطمہ معصومہ (س) جو مکتب ائمہ (ع) کی تربیت یافتہ اور صاحبان آیت تطہیر کی یادگار ہیں ، طہارت و پاکیزگی نے اس منزل معراج کو طے کیا کہ خاص(۳) و عام نے آپ کو معصومہ کا لقب دیدیا ۔ یہاں تک کہ بعض بزرگ علماء آپ کو طہارت ذاتی کا حامل اور تالی تلو معصومین علیہم السلام سمجھتے ہیںچنانچہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :

من زار المعصومة بقم فقد زارنی (۴)

یعنی جو قم میں فاطمہ معصومہ کی زیارت کرے اس نے گویا میری زیارت کی ہے نیز زیارت دوم جو آپ کے لئے وارد ہوئی ہے اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے :السلام علیک ایتها الطاهرة الحمیدة البرة الرشیدة التقیة و النقیة (۵) یعنی سلام ہو آپ پر اے پاکیزہ و ستائش شدہ ، نیک کردار ، ہدایت یافتہ ، پرہیزگار اور با صفا خاتون ۔

کریمۃ اہل بیت علیہم السلام

انسان عبادت و بندگی خداوند عالم کے نتیجے میں اس حد تک پہنچ سکتا ہے کہ مظہر ارادہ حق اور واسطہ فیض الٰہی قرار پا جائے ، یہ ذات اقدس الہ کی عبودیت کا ثمرہ ہے چنانچہ خداوند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :

انا اقول للشیء کن فیکون اطعنی فیما امرتک اجعلک تقول للشیء کن فیکون (۶) اے فرزند آدم میں کسی چیز کے لئے کہتا ہوں کہ ہوجا ! پس وہ وجود میں آجا تی ہے ، تو بھی میرے بتائے ہوئے راستوں پر چل میں تجھ کو ایسا بنادوں گا کہ کہے گا ہوجا ! وہ شیء موجود ہو جائے گی ۔

امام صادق علیہ اسلام نے بھی فرمایا :

العبودیة جوهرة کنهها الربوبیة (۷)

یعنی خدا کی بندگی ایک گوہر ہے جس کی نہایت اور اس کا باطن موجودات پر فرمانروائی ہے ۔

اولیاء خدا جنہوں نے بندگی و اطاعت کی راہ میں دوسروں سے سبقت حاصل فرمائی اور اس راہ کو خلوص کے ساتھ طے کیا وہ اپنی با برکت زندگی میں بھی اور اس عارضی زندگی کے بعد بھی منشاء کرامات و عنایات ہیں ۔ جوان کی پاکیزہ زندگی کا نتیجہ ہے ۔

قدیم الایام سے آستان قدس فاطمی ہزاروں کرامات و عنایات ربانی کا مرکز و معدن رہا ہے ، کتنے نا امید قلوب فضل و کرم الٰہی کی امیدوں سے سر شار اور کتنے تہی داماں افراد رحمت ربوبی سے اپنی جھولی بھر کر ، اور کتنے ہر جگہ سے نا امید افراد اس در پر آکر خوشحال و شادمان ہوکر کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کے فیض و کرم سے فیضیاب ہوتے ہوئے لوٹے ہیں اور اولیاء حق کی ولایت کے سایہ میں مستحکم ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کی بنیاد ڈالی ہے ۔ یہ تمام چیزیں اسی کنیز خدا کی عظمت روحی اور بے کراں منبع فیض و کرم خداوندی کی نشانی ہیں عنقریب آپ کی کرامت کے نمونے ذکر کئے جائیں گے ۔

مقام شفاعت

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حق شفاعت اور اس مقام عظیم تک پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لئے ایک خاص اہلبیت کی ضرورت ہے ، کیونکہ خداوند عالم ایسے لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے کہ جنہیں اس کی طرف سے اجازت حاصل ہے ۔یومئذ لا تنفع الشفاعة الا من اذن له الرحمن (۸) اس دن کسی کی شفاعت سودمند نہ ہوگی مگر جسے رحمن اجازت دے گا ۔ اور یہ اذن ان لوگوں کو ملتا ہے کہ جو قرب الٰہی کے مرتبہ عالی اور مخلصانہ بندگی پرور دگار کو حاصل کرچکے ہیں ان میں انبیاء و ائمہ معصومین سر فہرست ہیں اور ان کے بعد خالص بندگان الٰہی اور اولیاء مقرب ایزدی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے حد و مقام اور اپنے درجہ معنوی کے مطابق شفاعت کا حق رکھتے ہیں ۔ مثلا علما ، شہداء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے شائستہ فرزند ۔ انہی لوگوں میں سے کہ جن کی شفاعت کے حق کی روایات میں تصریح ہوئی ہے وہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

تدخل بشفاعتها شیعتی الجنة باجمعهم (۹) یعنی ان ( فاطمہ معصومہ ) کی شفاعت سے ہمارے سارے شیعہ جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔

آپ کی زیارت میں امام معصوم کے حکم کے مطابق کہا جا تا ہے کہیافاطمة اشفعی لی فی الجنة ۔ یعنی اے فاطمہ جنت میں ہماری شفاعت فرمائیے ۔ یہ جملہ خود آپ کی عظمت اور رفعت مقام ، جلالت قدر کو بیان کر رہا ہے کہ آپ شفیعہ روز جزا ہیں ،چنانچہ اسی زیارت کے دوسرے ٹکڑے میں آیا۔فان لک عند الله شاٴ نا من الشاٴن (۱۰) یعنی ہم جو آپ سے شفاعت کی بھیک مانگ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خد کے محضر میں نا قابل بیان شان و منزلت کی حامل ہیں جو زمینوں کے باسیوں کے لئے قابل تصور نہیں ہے فقط خدا ، پیامبر اور اوصیاء طاہرین اس سے واقف ہیں ۔

فضیلت زیارت

وہ روایتیں جو آپ کی زیارت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں آپ کے فضائل کی بہترین سند ہیں کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو اس مرقد مطہر و منور کی زیارت کی تشویق فرمائی ہے نیز اس کا بہت عظیم ثواب بیان فرمایا ہے یہ ثواب ایسا ہے کہ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں امام رضا علیہ السلام کے بعد فقط آپ ہی کے سلسلے میں کتابوں میں ملتا ہے ۔ ہم یہاں فقط چند روایات ذکر کرتے ہیں ہیں ۔

۱ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :من زارها فله الجنة (۱۱) یعنی جو ان ( فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے گا وہ بہشت کا حقدار ہے ۔

۲ ۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا :من زارها قبر عمتی بقم فله الجنة (۱۲) یعنی جو قم میں ہماری پھوپھی کی زیارت کرے گا اس کے لئے جنت ہے ۔

۳ ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :من زارها عارفا بحقها فله الجنة (۱۳) جو ان ( فاطمہ معصومہ ) کی زیارت ان کے حق کو پہچانتے ہوئے کرے گا وہ بہشت کا حق دار ہے ۔

۴ ۔ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا :قال الامام الصادق علیه السلام : ان لِلّٰه حرما و هو مکه وللرسول حرما و هو المدینه و لامیرالمومنین حرما و هو الکوفة و لنا حرما و هو قم و ستدفن فیه-اامرة من ولدی تسمی فاطمة من زارها وجبت له الجنة ( قال علیه السلام ذالک و لم تحمل بموسیٰ امة ) (۱۴)

خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے رسول کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے ، امیرالمومنین کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ہمارے لئے ایک حرم ہے ایک حرم ہے اور وہ قم ہے ، عنقریب وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا ۔ امام علیہ السلام نے یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ حاملہ بھی نہ ہوئی تھیں ۔ جو بھی اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی ۔

اس روایت سے خصوصا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل یہ حدیث صادر ہوئی بخوبی اندازہ ہوتا کہ حضرت فاطمہ معصومہ کا قم میں دفن ہونا خداوند عالم کے اسرار میں سے ایک سر خفی ہے اور اس کا تحقق مکتب تشیع کی حقانیت کی ایک عظیم دلیل ہے ۔

______________________

۱۔ سورہ ذاریات آیہ / ۵۷ ۔

۲۔ سورہ فجر آیہ / ۲۸ ، ۲۷ ۔

۳۔ آیۃ اللہ حسن زادہ عاملی نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت کی تحقیقی کانفرنس میں دانشگاہ قم میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔

۴۔ ناسخ التواریخ ج/ ۷ ص ۳۳۷ ۔

۵۔ انوار المشعشعین : شیخ محمد علی قمی ص / ۲۱۱ ۔

۶۔ مستدرک الوسائل ج/ ۲ ، ص / ۲۹۸ ۔

۷۔مصباح الشریعۃ باب ۱۰۰ ۔

۸۔ سورہ طٰہ / ۱۰۵ ۔

۹۔ سفینۃ البحار ج/ ۲ ص / ۳۷۶ ۔

۱۰۔ بحار الانوار ج/ ۱۰۲ ص/ ۲۶۶ ۔

۱۱۔بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۵ ۔

۱۲۔ مدرک سابق ۔

۱۳۔ بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۶ ۔

۱۴۔ بحار الانوار ج / ۱۰۲ ص / ۲۶۷ ۔

چوتھی فصل

حضرت معصومہ علیہا السلام سے منقول روایتیں

قال رسول الله صلی الله علیه وآله :

انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ( ۱)

پیغمبر اسلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں امت کے درمیان فتنہ و نفاق کی موجوں کو بخوبی دیکھ رہے تھے ، آپ اسلامی معاشر ے کے مستقبل کے لئے نگراں تھے ۔ انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نفاق و فریب کے پردے کو چاک کرنے کی خاطر اپنے ہدایت گر پیغام کے ذریعہ متلاطم موجوں کے درمیان کشتی نجات کو پہنچوا کر ساحل نجات کو سب کے لئے آشکار کردیا ۔

آپ کا آخری پیغام حدیث ثقلین کے علاوہ کچھ اور نہ تھا جس میں آپ نے اپنے پیروکاروں کی ہدایت کو قرآن و عترت سے متمسک رہنے میں مرہون قرار دیا اور فقط انہی دونوں کو شریعت کا اساسی محور قرار دے کر بقاء دینداری کا تنہا عامل قرار دیدیا ۔

یہ تمام باتیں فقط اس لئے تھیں کہ قرآن مجید کے نورانی احکام و معارف روشن ہوجائیں ، بدعتوں اور دنیا پرستوں کی شیطانی افکار کا سد باب ہوجائے کیونکہ قرآنی معارف حقایق دینی کے صادق عارفوں سے حاصل کئے گے ہیں جو دینی معاشرے کو اس کتاب کے حیات بخش سر چشمے سے سیراب اور منافق و بدعت گذار افراد کو تاریخ کی رہگذر میں اپنے مقاصد شوم تک پہنچنے سے محروم کرتی ہے ۔

لیکن اندھرے کے پجاریوں نے اس موقع پر ضعیف الایمان افراد کی مدد سے ” حسبنا کتاب اللہ “ کا ایک بد ترین نعرہ بلند کردیا ۔ اس کے بعد اس شوم ہدف تک پہنچنے کے لئے نبی کی کتنی نورانی حدیثیں جلائی گئیں ۔ کتنے گرانبہا موتیوں نے صدف صدر میں دم توڑ دیا ۔ کتنے محدثین نے زمانے کے ظلم و جور سے زبان پر تالے لگا لئے اور دیار وحی سے نکال دئے گئے اور انھوں نے صحرائے غربت میں عترت کی محبت میں دم توڑ دیا ۔ میثم کی زبان ، رشید ہجری کے کٹے دست و پا ، ابوذر کی شہر ربزہ کی دربدری خود انتہائے ظلم کی گواہ ہے کہ اہلبیت اور ان کے پیرو کاروں پر کتنا ظلم ڈھا یا گیا ۔

لیکن آل محمد علیہم السلام کی اس غربت کے دور میں راہ حق کے منادی راویان شیعہ خاموش نہ بیٹھے بلکہ حالات کی ہواوں کا رخ موڑتے ہوئے فضائل و احادیث عترت کی ترویج کرتے رہے اور ایک دن وہ بھی آیا کہ وہ سیاہ راتیں تمام ہوگئیں ۔ حدیث پر لگے خود ساختہ قوانین ختم ہوگئے قرآن و عترت نے اپنی حقیقی جگہ پالی ، سچے حاملان وحی کے لئے ایک موقع فراہم ہوا اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام کے زمانے میں علوم اہلبیت کا فیاض سر چشمہ ابلنے لگا ، تشنگان معارف الٰہی کوثر قرآن و عترت کے شربت روح افزا سے سیراب ہونے لگے ۔

اسی زمانے سے مکتب امامت کے تربیت یافتہ جیالوں نے خاندان رسالت کی حدیثوں کے ثبت و نشر پر کمر ہمت باندھ لی اور ائمہ معصومین کے قیمتی آثار کی ترویج کے ذریعہ معاشرے کے اعتقادی اصولوں اور دینی ارزشوں کی پائگاہ کو استحکام بخش دیا ۔ تاریخی رہگذر کے مختلف زمانے میں امت اسلام کی دینی شخصیت کو محفوظ رکھتے ہوئے شریعت نبوی اور مکتب علوی کی پاسداری کی ۔

انہی ولایت و امامت کے گرانقدر خزانے کے امانتدار سپاہیوں میں سے ایک عظیم محافظ محدثہ آل طہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں جنہوں نے ولایت کے بارے میں بہت ساری روایتیں نقل فرمائی ہیں ۔ جن میں سے بعض کا ذکر مقصود ہے ۔

( ۱) حدیث غدیر و منزلت

عن فاطمۃ بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی فاطمہ و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر علیہ السلام قلن حدثتنا فاطمۃ بنت جعفر بن محمد الصادق ، حدثتنی فاطمۃ بنت محمد بن علی ، حدثتنی فاطمۃ بنت علی بن الحسین ، حدثتنی فاطمۃ و سکینۃ ابنتا الحسین بن علی عن ام کلثوم بنت فاطمۃ بنت النبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ قالت : انسیتم قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یوم غدیر خم : من کنت مولاہ فعلی مولاہ و قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ ۔(۲)

ترجمہ : امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی دختر فاطمہ ،امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹیوں فاطمہ (معصومہ سلام اللہ علیہا ) زینب اور ام کلثوم سے نقل فرماتی ہیں کہ ان لو گوں نے فرمایا کہ ہم سے فاطمہ بنت جعفر صادق علیہ السلام نے ان سے فاطمہ بنت محمد بن علی نے ان سے فاطمہ بنت علی بن الحسین نے ان سے امام حسین بن علی علیہم السلام کی دو بیٹیوں فاطمہ اور سکینہ نے انھوں نے ام کلثوم دختر فاطمہ بنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل فرمایا ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے (لوگوں سے پوچھا ) کہا : کیا تم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غدیر خم کے دن کی فرمائش ”من کنت مولاه فعلی مولاه “ (جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں ) اور ان کے قول انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ (اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسیٰ سے تھی ) کو فراموش کردیا ؟

( ۲) حدیث حب آل محمد علیہم السلام

حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام فاطمہ بنت امام جعفر صادق علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام باقر علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام سجاد علیہ السلام سے وہ فاطمہ بنت امام حسین علیہ السلام سے وہ زینب بنت امیر المومنین علیہ السلام وہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہاسے نقل فرماتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فر مایا :الا و من مات علی حب آل محمد مات شهیدا ( آگاہ ہو جاو کہ جو آل محمد کی محبت پر مرے گا وہ شہید مرا ہے ۔ )(۳)

( ۳) حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کی قدر و منزلت

فاطمہ معصومہ علیہا السلام (اسی مذکورہ سند سے ) فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل فرماتی ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا : جب شب معراج میں بہشت میں داخل ہوا تو ایک قصر دیکھا جس کا ایک دروازہ یاقوت اور موتی سے آراستہ تھا اس کے دروازے پر ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھالا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی القوم ( خدا کے علاوہ کوئی لائق پرستش نہیں محمد اللہ کے رسول اور علی لوگوں کے رہبر ہیں ۔ ) اور اس کے پردہ پر لکھا تھا بخ بخ من مثل شیعۃ علی خوشابحال خاشابحال علی علیہ السلام کے شیعوں جیسا کون ہے ؟ میں اس قصر میں داخل ہو وہاں ایک قصر دیکھا جو عقیق سرخ سے بنا تھا اس کا دروازہ چاندی کا تھا جو زبر جد سے مزین تھا اس در پر بھی ایک پردہ آویزاں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا محمد رسول اللہ علی وصی المصطفیٰ محمد خدا کے رسول اور علی مصطفیٰ کے وصی ہیں اس کے پردہ پر مرقوم تھا بشر بشیعۃ علی بطیب المولد علی شیعوں کو حلال زادہ ہونے کی مبارک باد دیدو میں داخل ہوا تو وہاں زبرجد سے بنا ہوا ایک محل دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا تھا اس محل کا دروازہ سرخ یاقوت کا تھا جو موتیوں سے مزین تھا اس پر ایک پردہ لٹکا تھا میں نے سر اٹھا یا تو دیکھا کہ پردہ پر لکھا ہے شیعۃ علی ہم الفائزون یعنی علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں ، میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ محل کس کا ہے جبرئیل نے کہا آپ کے چچا زاد بھائی ، وصی و جانشین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ہے قیامت کے دن سب بجز علی کے شیعوں کے ننگے پاوں وارد ہونگے ۔(۴)

( ۴) قم دیار ابرار

جب حضرت معصومہ ساوہ میں مریض ہوئیں تو قافلے والوں سے کہا کہ مجھے قم لے چلو میں نے اپنے با با سے سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔(۵)

____________________

۱۔ بحار الانوار ج / ۲۳ ص / ۱۴۱۔

۲۔الغدیر ج / ۱ ، ص ۱۹۶ ۔

۳ ۔آثار الحجۃ محمد رازی ص / ۹ ، نقل از اللو للوہ الثمینہ ص / ۲۱۷۔

۴ ۔ بحار ج / ۶۸ ، ص / ۷۶ ۔

۵ ۔ ودیعہ آل محمد آقای انصاری ص ۱۲ نقل از دریای سخن سقا زادہ تبریزی ۔