ساحل کوثر

ساحل کوثر50%

ساحل کوثر مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

ساحل کوثر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9982 / ڈاؤنلوڈ: 4310
سائز سائز سائز

پانچویں فصل:

کریمہ اہل بیت کی کرامتیں

چونکہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہااس خاندان کی چشم و چراغ ہیں جس کے لئے زیارت جامعہ میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جملہ ملتا ہے ”عادتکم الاحسان و سجیتکم الکرم “ احسان آپ کی عادت اور کرم آپ کی فطرت ہے ۔(۱) لہٰذا بہت ساری کرامتیں آستانہ مقدس سے ظاہر ہوئیں جس سے بزرگوں میں ملا صدر آیۃ اللہ بروجردی جیسے افراد سے لے کر دور و دراز ملکوں سے آنے والے عاشقان ولایت جو زیارت کی غرض سے آئے سب کے سب آپ کی کریمانہ فطرت ، لطف و احسان سے فیضیاب ہوئے لیکن افسوس کہ یہ تمام کرامتیں محفوظ نہیں ہیں ہم بعنوان نمونہ چند کرامتوں کو ذکر کرتے ہیں :

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی سے منقول کرامتیں

حضرت آیت اللہ العظمیٰ اراکی قدس اللہ نفسہ الزکیہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاتھ میں ورم کی کیفیت پیدا ہوگئی اور جلد پھٹنے لگی یہاں تک کہ میں وضو کرنے سے بھی معذور ہوگیا مجبورا تیمم کرتا تھا ۔ اس سلسلے میں تمام علاج و معالجہ بے کار ثابت ہوا آخر کار حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاسے متوسل ہوا مجھے الہام ہوا کہ دستانہ استعمال کروں میں نے ایسا کیا کچھ دنوں بعد میرا ہاتھ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔

مرحوم اعلیٰ اللہ مقامہ نے فرمایا کہ جناب حسن احتشام(۲) آقای شیخ ابراہیم صاحب الزمانی تبریزی ( جو ایک نیک اور مخلص انسان تھے ) سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ میں زیارت کے لئے مشرف ہوا ہوں جیسے داخل ہونا چاہا تو حرم کے خدام نے کہا کہ حرم بند ہے چونکہ حضرت فاطمہ الزہراء اور جناب معصومہ ضریح میں محو گفتگو ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے میں نے کہا سیدہ سلام اللہ علیہا میری ماں ہیں میں ان کے لئے محرم ہوں تو پھر لوگوں نے مجھے اندر جانے کی اجازت دیدی اندر جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ یہ دونوں بیبیاں تشریف فرما ہیں اور بالائے ضریح محو گفتگو ہیں تمام باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے فرما رہی ہیں کہ سید جعفر احتشام نے میری مدح کی ہے ظاہراً وہ حضرت کی مدح کر رہے تھے ۔

آقای شیخ ابراہیم نے یہ خواب میں اہل منبر کے دورہ والے جلسے میں پیش کیا وہاں جناب جعفر احتشام بھی موجود تھے حاج احتشام نے کہا ان اشعار کا کچھ حصہ آپ کو یاد بھی ہے کہا ہاں ” دخت موسیٰ بن جعفر “ جیسے ہی شیخ ابراہیم سے سنا رونے لگے اور کہنے لگے کہ ہاں یہ میرے اشعار میں سے ہیں ۔

ہم اس کلام کو بطور کامل یہاں ذکر کرتے ہیں :

ای خاک پاک قم چہ لطیف و معطری

خاکی ولی ز ذوق و صفا بند گوہری

گوہر کجا و شان تو نبود عجیب اگر

گویم ز قدر و منزلت از عرش برتری

بس باشد این مقام ترائی زمین قم

مدفن برای دختر موسیٰ بن جعفری

ای بانوی حریم امامت کہ مام دہر

نازادہ بعد فاطمہ یک ہم چون دختری

یا فاطمہ حریم خدا بضعۃ بتول

محبوبہ مکرمہ حی داوری

ہستی تو دخت موسیٰ و اخت رضا یقین

گر دوں ندیدہ ہم چون پدر ہم برادری

فخر امام ہفتم و ہشتم کہ از شرف

وی رایگانہ دختر و آن را تو خواہری

مریم کہ حق ز جملہ زنہایش برگزید

شایستہ نیست آنکہ کند با تو ہمسری

از لطف خاص و عام تو ای عصمت اللہ

بر عاصیان شفیعہ فردای محشری

صد حیف یوم طف نبودی بکربلا

بینی بنات فاطمہ با حال مضطری

زینب کشید نالہ کہ یا ایہا الرسول

بین بہر ما نماندہ نہ اکبر نہ اصغیری

و آن یک شکستہ بازو و آن یک دریدہ گوش

و آن دیگری بہ چنگ لئیم ستمگری

یا فاطمہ بجان عزیز برادرت

بر احتشام لطف نما قصر اخضری

سید جعفر احتشام ایک کیفیت اور مخصوص انداز میں مصائب پڑھا کرتے تھے اور خود بھی بہت زیادہ روتے تھے آپ کے فرزند حسن احتشام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے کہا کہ دیگر شعراء کی طرح آپ بھی اپنا تخلص پیش کیا کیجئے لیکن انھوں نے میری عرض قبول نہیں کی کافی اصرار و گزارش کے بعد ایک شعر پڑھا جو اسی نظم کا مقطع ہے ۔

یعنی ای فاطمہ بجان عزیز برادرت بر احتشام لطف نما قصر اخضری

وہ فرماتے ہیں کہ جناب معصومہ علیہا السلام نے انھیں قصر اخضری عنایت بھی کیا میں نے پوچھا کس طرح تو آپ نے کہا کہ جہاں پر آقای مرعشی کا مصلیٰ بچھتا تھا وہاں پر گچ کاری کر کے سبز سنگ مرمر لگا دیا گیا ہے اور جناب احتشام کی قبر اسی حرم میں مسجد بالا سر پر موجود ہے یہ سبز قصر تھا جو جناب احتشام کو مل گیا ۔

آقای الحاج شیخ حسن علی تہرانی ( جو آیۃ اللہ مروارید کے نانا تھے ) جن کا شمار بزرگ علماء میں ہوتا تھا نیز میرزائے شیرازی کے فاضل و ارشد شاگردوں میں تھے جنھوں نے نجف کی مقدس و مشکبار فضا میں علم و ادب کی اپنی پیاس پچاس سال تک بجھائی ہے آپ کے ایک بھائی جو شال فروش کے نام سے شہرت رکھتے تھے نجف کے تاجروں میں شمار ہوتے تھے طالب علمی کے زمانے میں آپ کے بھائی ماہانہ پچاس تومان دیاکرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے تاجربھائی کی وفات ہو گئی اور ان کا جنازہ قم آیا اور قم میں دفن کردئے گئے ۔

حاج شیخ حسن علی نے اپنی عمر کے آخری لمحات میں مشہد مقدس کی سکونت اختیار کر لی تھی جب انہیں ٹیلیگرام سے بھائی کے مرنے کی خبر دی گئی تو خبرپاتے ہی امام ہشتم امام رضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ میں اپنے بھائی کی خدمتوں اور نوازشوں کا صلہ انھیں نہیں دے سکا مگر یہ کہ آپ کے در پر حاضر ہوا ہوں اور اجتجا کر رہا ہوں کہ آپ اپنی بہن حضرت معصومہ سے سفارش کردیں کہ وہ میرے بھائی کی نصرت کردیں ۔ اسی شب ایک تاجر ( جو اس واقعہ سے بے خبر تھا ) نے خواب دیکھا کہ حرم حضرت معصومہ میں مشرف ہوا ہوں وہاں پر لوگ کہہ رہے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام قم تشریف لائے ہیں ایک تو اپنی بہن سے ملاقات کرنے دوسرے شیخ حسن علی کے بھائی کے لئے حضرت معصومہ سے سفارش کرنے کے لئے ۔

تاجر اس خواب کا مطلب سمجھ نہیں سکا اور حاج شیخ حسن علی سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ جس رات تم نے خواب دیکھا ہے میں اپنے بھائی کے متعلق امام رضا علیہ السلام سے متوسل ہوا تھا تمہارا یہ خواب صحیح اور سچا ہے

آقای سید محمد تقی خوانساری مرحوم نے اس خواب کو سننے کے بعد فرمایا کہ اس خواب سے استفادہ ہوتا ہے کہ قم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا حرم ہے یہی وجہ ہے کہ امام رضا علیہ السلام قم تشریف لائے ۔ اور حاج شیخ حسن علی کے بھائی کے متعلق سفارش کی لیکن خود حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس مسئلہ میں کوئی مداخلت نہیں کی چونکہ یہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکا علاقہ ہے اور حضرت اس میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے ہیں ( حضرت آیت اللہ اراکی کے حوالے سے ان کرامتوں کی کیسٹیں آستانہ کے امور فرہنگی میں موجود ہیں )۔

جلال و جبروت حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

آقای شیخ عبد اللہ موسیانی جو ( آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی کے شاگرد تھے ) نقل فرماتے ہیں کہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی طلاب سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے قم واپس ہونے کی علت یہ ہے کہ میرے والد سید محمود مرعشی نجفی ( کہ جو ایک مشہور زاہد و عابد تھے ) نے حضرت علی علیہ السلام کے حرم اقدس میں چالیس شبیں گذاریں ایک شب ( مکاشفہ کی حالت میں ) حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا کہ آنحضرت فرما رہیں ہیں کہ سید محمود کیا چاہتے ہو ؟ جواب دیا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کہاں ہے تا کہ اس کی زیارت کروں حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں حضرت کی وصیت پائمال کر کے تمھیں ان کی اصل قبر کا پتہ نہیں دے سکتا پھر سید محمود نے عرض کی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت پڑھتے وقت میں کیا کروں ؟ تو حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ خداوند عالم نے حضرت فاطمہ کا تمام جلال و عظمت شان حضرت معصومہ قم علیہا السلام کو عطا کردیا ہے لہٰذا جو بھی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی زیارت کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے وہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کرے ۔

پھر حضرت آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی فرماتے ہیں کہ میرے والد مجھ سے سفارش کیا کرتے تھے کہ میں زیارت کرنے پر قادر نہیں ہو لیکن تم جاو اور ان کی زیارت کرو لہٰذا میں اپنے والد کی سفارش کی وجہ سے حضرت معصومہ اور حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی خاطر ایران آیا اور موسس حوزہ علمیہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ حائری اعلیٰ اللہ درجاتہ کے اصرار پر قم ہی میں رہ گیا آیت اللہ مرعشی اس زمانے میں کہا کرتے تھے کہ ساٹھ سال سے ہر روز حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا سب سے پہلا زائر میں ہوتا ہوں ( یعنی جو شخص سب سے پہلے روزانہ آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا وہ آیت اللہ مرعشی ہیں )

حضرت فاطمہ معصومہ کی نوازشیں

جناب آقای عبد اللہ موسیانی حضرت آیت اللہ مرعشی سے نقل فرماتے ہیں کہ میں سردی کے موسم میں ایک شب بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہوگیا سوچا کہ حرم چلا جاوں لیکن نا وقت اور بے موقع سمجھ کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگا اور سر کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ لیا تا کہ اگر نیند بھی آنے لگے تو سو نہ سکوں ۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک بی بی کمرے میں داخل ہوئیں ہیں ( جن کا قیافہ میں نے بخوبی دیکھا لیکن اسے بیان نہیں کروں گا ) اور فرماتی ہیں کہ سید شہاب اٹھو اور حرم جاومیرے بعض زائرین کڑاکے کی سردی سے جان بحق ہونے والے ہیں ۔ انھیں بچاو آپ فرماتے ہیں کہ میں بلا تامل حرم روانہ ہوگیا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ حرم کے شمالی دروازے ( میدان آستانہ کی طرف ) پر بعض پاکستانی یا ہندوستانی ( اپنی مخصوص وضع و قطع کے ساتھ ) ٹھنڈک کی شدت کی وجہ سے دروازے سے پشت لگائے ہوئے تھر تھرارہے ہیں ( کانپ ) میں نے دق الباب کیا حاج آقای حبیب نامی خادم نے میرے اصرار پر دروازہ کھول دیا ہمارے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی حرم کے اندر داخل ہوگئے اور ضریح کے کنارے زیارت اور عرض ادب میں مصروف ہوگئے میں نے بھی انہیں خادموں سے پانی مانگا اور نماز شب کے لئے وضو کرنے لگا ۔

ایک دوسری عنایت

آقای شیخ عبد اللہ موسیانی فرماتے ہیں کہ میں مشہد کے لئے عازم تھا جب کہ وہاں زائرین کی کثرت کے سبب مسافر خانہ یا ہوٹل کا دستیاب ہونا مشکل تھا جوں ہی مجھے مشہد میں اژدہام اور گھر نہ ملنے کی خبر ملی تو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکے حرم میں مشرف ہوا اور بہت ہی اپنائیت سے آنحضرت سلام اللہ علیہاکی خدمت میں عرض پرداز ہوا بی بی جان میں آپ کے بھائی کی زیارت کا قصد رکھتا ہوں لہٰذا آپ خود مجھے وہاں پر دچار مشکلات ہونے سے بچائیں اس کے بعد میں مشہد کے لئے روانہ ہوگیا وہاںپہنچنے کے بعد دیکھا کہ ایسے ہنگام میں گھر کا ملنا بہت مشکل ہے حرم سے قریب ٹیکسی رکی اور میں اتر گیا ناگہاں دیکھا کہ ایک جوان ایک گلی سے نکل کر میری طرف آرہا ہے اس نے آتے ہی سوال کیا کہ گھر چاہیے ۔ میں نے کہا کہ ہاں پھر اس نے مجھے اپنے پیچھے پیچھے آنے کے لئے کہا میں اس کے ساتھ ہولیا وہ اپنے گھر لے گیا ایک بہت ہی وسیع و عریض اور عمدہ کمرہ میرے حوالہ کیا اور میں سامان سجل کرنے لگ گیا اتنے میں اس کی بیوی نے مجھے کھانے پر مدعو کر لیا حرم مطہر کی زیارت اور فریضہ کی ادائیگی کے بعد ان کے ساتھ ہم دستر خوان ہو گیا دوسرے دن اس خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ یہاں کب تک رہنے کا قصد رکھتے ہیں ؟ میں نے جواب دیا دس دن ۔ خاتون نے کہا ہم تہران جارہے ہیں یہ کنجی ہے آپ جب بھی جانا چاہیں یہ کنجی ہمارے پڑوسی آقای رضوی (رضوانی ) کو دے دیجئے گا میں سمجھا کہ جس کو کنجی دینے کے لئے کھا ہے اس سے مراد کرایہ کی بھی بات کر لی ہے چند دن کے بعد کوئی گھر پر آیا اور کہنے لگا میں رضوی یا رضوانی ہوں آپ جب بھی قم کے لئے روانہ ہوں کنجی کمرے کے اندر آئینہ کے پیچھے رکھ دیجئے گا ۔ اور گھر کا دروازہ بند کرکے چلے جائے گا ۔ پھر میں نے اس سے بھی کہا کہ کرایہ کا کیا ہو گا اس نے کہا کہ کرایہ سے متعلق مجھ سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے دس دن قیام کے بعد جب میں نے قم آنے کا ارادہ کیا تو یاد آیا کہ ٹکٹ پہلے لینا چاہئے اب تو ٹکٹ لینا بہت مشکل ہے ۔ میں نے اس گاڑی والے سے ( جو ہمارے قیام گاہ کے پاس گاڑی پارک کرتا تھا اور تہران سے مشہد اس کی مسیر تھی ) گزارش کی کہ ہمیں بھی اپنے ہمراہ تہران تک لیتے چلو اس نے جواب دیا کل میں تو تہران ہیں جاوں گا لیکن آپ کو بہر صورت قم بھیج دوں گا دوسرے دن وہ ہمیں گیرج لے گیا اور دفتر کے نگراں سے سفارش کی کہ یہ ہمارے لوگ ہیں اور قم جانا چاہتے ہیں کوئی صورت نکالئے اس نے خنداں پیشانی سے استقبال کیا اور بس میں بہترسے بہتر ہماری ضرورتوں کے مطابق جگہ دیدی اسی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہانے ہماری واپسی کا بھی انتظام کردیا جس طرح مشہد میں ہمارے قیام کا بند و بست کیا تھا ۔

نخجوانی طالب علم کو شفا

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ فرماتے ہیں کہ روس کی بربادی اور اس کی تقسیم نیز مسلمان نشین جمہوریتوں کے آزاد ہونے کے بعد (جس میں ایک جمہوری نخجوان بھی ہے)نخجوان کے شیعوں نے اپنے نوجوانوں کو حوزہ علمیہ قم بھیجنے کاارادہ کیاتاکہ تبلیغ اور صحیح تربیت کاایک اچھا اور مناسب انتظام ہو قم بھیجنے کے لئے ان لوگوں نے ایک مسابقہ کاانعقاد کیا جس میں تین سو افراد نے شرکت کی اور ان میں سے پچاس افراد کو قبول کیا گیاجن کے نمبر اچھے تھے ان پچاس افراد میں سے ایک منتخب شدہ نوجوان ایسا بھی تھا جس کی آنکھ خراب تھی ،مسئولین نے اسے رد کردیا۔لیکن اس کے باپ کے بے حد اصرار کی بناء پر اسے دوبارہ قبول کیاگیا،جس وقت یہ افراد تحصیل علم کے لئے قم روانہ ہورہے تھے اس وقت ویڈیو گرافر نے کیمرہ اس لڑکے کی طرف گھمادیا اور ایک برجستہ تصویر لے کر نمائش میں لگادی جب اس نوجوان نے یہ دیکھا تو بہت رنجیدہ ہوا قم پہنچنے کے بعد سارے لوگ اپنے اپنے مدرسوں میں ساکن ہوئے لیکن اس نوجوان کے قدم حرم مطہر کی جانب بڑھے اور اس نے بارگاہ حضرت معصومہ میں حاضری دی نہاےت لگن خلوص کے ساتھ حضرت سے متوسل ہوا اسی عالم میں وہ سوگیا خواب میں اس نے عوالم مشاہدہ کئے بیداری کے بعد اس نے دیکھا کہ اب آنکھ سالم اور بے عیب ہے شفا یابی کے بعد وہ مدرسہ لوٹتاہے جب اس کے دوستوں نے یہ کرامت اور معجزاتی کیفیت دیکھی تو ایک ساتھ حرم کے لئے روانہ ہوگئے اور کافی دیر تک وہاں دعا اور توسل میں مشغول رہے جب یہ خبر نخجوان پہنچی تو وہاں کے لوگوں نے کافی اصرار کیا کہ اس جوان کو یہاں بھیج دیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت اور ہدایت نیز مسلمانوں کا عقیدہ پختہ ہوسکے۔(۳)

منبع فیض الٰہی

محدث قمی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض اساتذہ سے خود سنا ہے کہ ملا صدر شیرازی نے اپنی بعض مشکلات کی بنیاد پر شیراز سے قم کی ہجرت کر لی اور کہک نامی دیہات میں سکوت پذیر ہوگئے ۔ اس حکیم فرزانہ کے لئے جب بھی کسی علمی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کو آتے تھے اور حضرت سے متوسل ہونے کی وجہ سے ان کی علمی مشکلات حل ہوجاتی تھی اور اس منبع فیض الٰہی کے مورد عنایت قرار پاتے تھے ۔(۴)

مرد نصرانی کو شفا

محدث نوری نے نقل فرمایا ہے : کہ بغداد میں ایک نصرانی بنام یعقوب مرض چکے تھے وہ اس درجہ نحیف و لاغر ہوچکا تھا کہ چلنے پھر نے سے بھی معذور تھا وہ کہتا ہے :

خدا سے میں نے بارہا موت کی تمنا کی یہاں تک کہ ۱۲۸۰ ھ میں عالم خواب میں ایک جلیل القدر نورانی سید کو دیکھا کہ میرے تخت کے پاس کھڑے ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اگر شفا چاہتے ہو تو کاظمین کی زیارت کے لئے آو جب میں خواب سے بیدار ہوا تو اپنی ماں سے خواب کو نقل کیا ، چونکہ میری ماں نصرانی تھی اس لئے کہنے لگی یہ شیطانی خواب ہے ۔ دوسری مرتبہ جب میں سویا تو ایک خاتون کو خواب میں دیکھا جو چادر میں ڈھکی تھیں مجھ سے کہنے لگیں : اٹھو ! صبح ہوگئی ہے ۔ کیا میرے باپ نے تم سے شرط نہ کی تھی کہ ان کی زیارت کرو گے تو وہ تم کو شفا یاب کریں گے ؟ میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ تو فرمایا : میں معصومہ امام رضا علیہ السلام کی بہن ہوں ۔ پھر میں نے پوچھا آپ کے بابا کون ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : موسیٰ بن جعفر ( اسی اثناء میں ) میں خواب سے بیدار ہوگیا متحیر تھا کہ کہاں جاوں ذہن میں آیا کہ سید راضی بغدادی کے پاس جاوں ۔ اسی عزم کے تحت میں بغداد گیا اور جب ان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو دق الباب کیا ۔ آواز آئی : کون ؟ میں نے کہا دروازہ کھولو ! جیسے ہی سید نے میری آواز سنی اپنی بیٹی سے کہا : دروازہ کھولو ایک نصرانی مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے ۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو ان سے پوچھا : آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ میں اس قصد سے آیا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا : خواب میں میرے جد نے مجھے سارے قضیہ سے آگاہ کردیا ہے ۔ پھر وہ مجھے کاظمین شیخ عبد الحسین تہرانی کے پاس لے گئے تو میں نے اپنی ساری داستان ان سے کہہ سنائی ۔ داستان سننے کے بعد انھوں نے حکم صادر فرمایا اور لوگ مجھے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حرم مطہر میں لے گئے اور مجھے ضریح کا طواف کرا یا لیکن کوئی عنایت نہ ہوئی میں حرم سے باہر نکلا ، پیاس کا غلبہ ہوا پانی پیا ، پانی پیتے ہی میری حالت متغیر ہوگئی ۔ میں زمین پر گر گیا گویا میری پیٹھ پر ایک پہاڑ تھا جس کی سنگینی سے مجھے نجات ملی ، میرے بدن کا ورم ختم ہوگیا ، میرے چھرے کی زردی سرخی میں تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد اس مرض کا نام و نشان تک مٹ گیا ۔ شیخ بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے ہاتھوں مسلمان ہو گیا ۔

مفلوج کو شفا

حجۃ الاسلام و المسلمین آقای شیخ محمود علمی اراکی نے نقل فرمایا ہے :

میں نے خود بارہا ایک شخص کو دیکھا ہے کہ جو پیر سے عاجز تھا وہ اپنے پیروں کو جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ وہ اپنے بدن کے نچلے حصہ کو زمین پر خط دیتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے چلتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے اس کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ روس کے ایک شہر قفقاز کا باشندہ ہے ۔ وہ بتانے لگا کہ میرے پیر کی رگیں خشک ہوچکی ہیں لہٰذا میں چلنے سے معذور ہوں ۔ میں مشہد امام رضا علیہ السلام سے شفا لینے گیا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اب یہاں قم آیا ہوں اگر خدا نے چاہا تو شفا مل جائے گی ۔

ماہ رمضان المبارک کی ایک رات کو یکایک حرم کے نقار خانے سے نقارہ بجنے کی آواز آئی ۔ لوگ آپس میں کہہ رہے تھے بی بی نے مفلوج کو شفا دیدی ! اس واقعے کے چند دنوں بعد میں چند افراد کے ساتھ گاڑی ( یکہ ) میں اراک کی طرف جا رہا تھا ۔ راستے میں اراک سے چھ فرسخ کے فاصلے پر اسی مفلوج شخص کو دیکھا کے اپنے صحیح و سالم پیر سے کربلا کی طرف عازم ہے ہم نے اپنا یکہ روکا اور اس کو اپنی سواری پر سوار کرلیا ۔ پھر معلوم ہوا کہ اس دن جسے شفا ملی تھی وہ یہی مفلوج ہے ۔ وہ شخص اراک تک ہم لوگوں کے ساتھ تھا ۔(۶)

عزاداری اہلبیت کا صلہ اور درد پا کی شفا

حضرت آیۃ اللہ شیخ مرتضیٰ حائری نے فرمایا :

آقا جمال نامی شخص جو ” ہژبر “ کی عرفیت سے مشہور تھا ، اس کے پیر میں درد کی شکایت ہوگئی اور وہ اس حد تک بڑھی کہ مجلسوں میں ایک آدمی انھیں گودی اٹھا کر لے جا یا کرتا تھا اور ان کی کمک کرتا تھا ۔

نویں محرم کو آقای ہژبر مدرسہ فیضیہ میں اس مجلس میں شرکت کی غرض سے آئے جسے آیۃ اللہ مرتضیٰ حائری نے برپا کیا تھا ، آقا سید علی سیف ( آیۃ اللہ حاری مرحوم کے خادم ) کی نگا جیسے ہی آقائے ہژبر پر پڑی ان کو برا بھلا کہنے لگے ، کہنے لگے : یہ کون سا کھیل رچا رکھا ہے ، لوگوں کو زحمت میں مبتلا کرتے ہو ۔ اگر تم واقعاً سید ہو تو جاو جا کر بی بی سے شفا حاصل کرلو ۔ یہ جملہ سن کر آقائے ہژبر کافی متاثر ہوئے ۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو اپنے ہمراہی و مدد گار سے کہا : مجھ کو حرم مطہر لے چلو ! حرم پہنچ کر زیارت و عرض ادب کے بعد شکستہ حالی میں توسل کیا ، اسی حالت میں سید کو نیند آگئی ۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے : اٹھو ! میں نے کہا : میں اٹھ نہیں سکتا ۔ کہا گیا : تم اٹھ سکتے ہو ، اٹھ جاو ! اس کے بعد ان کو ایک عمارت دکھائی گئی اور کہنے والے نے کہا : یہ عمارت سید حسین آقا کی ہے جو میرے لئے مصائب پڑھتے ہیں اور یہ نامہ بھی ان کو دیدینا ۔ ناگہاں آقائے ہژبر کی آنکھ کھل گئی تو انھوں نے خودکو اس حال میں کھڑے ہوئے پایا کہ ان کے ہاتھ میں ایک خط تھا ۔ انھوں نے وہ نامہ مذکورہ شخص تک پہنچادیا ۔ وہ کہتے تھے : میں ڈر گیا کہ اگر اس خط کو نہیں پہنچا یا تو دوبارہ اس درد میں مبتلا ہوجاوں گا ۔ اس خط میں کیا تھا کسی کو معلوم نہ ہوسکا حتیٰ آیۃ اللہ حائری نے فرما یا : اس واقعہ کے بعد آقائے ہژبر بالکل بدل گئے ، گویا ایک دوسری دنیا کے باشندے ہیں اکثر و بیشتر خاموش ، یا ذکر خدا میں مشغول رہتے تھے ۔(۷)

گمشدہ کو نجات اور زائرین پر عنایتیں

حرم کے خادم اور کلید دار جو آقائے روحانی مرحوم ( علمائے قم میں سے ایک عالم دین جو مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام میں امام جماعت تھے ) کی نمازوں میں تکبیر بھی کہا کرتے تھے ۔ خود نقل کرتے ہیں : جاڑے کی ایک رات تھی ، میں حرم مطہر میں تھا عالم خواب میں حضرت معصومہ علیہا السلام کو دیکھا کہ آپ فرمارہی ہیں : اٹھو اور مناروں پر چراغ روشن کرو ، میں خواب سے بیدار ہوا اور کوئی توجہ نہ دی ، دوسری مرتبہ بھی یہی خواب دیکھا لیکن اس مرتبہ بھی توجہ نہ دی ، تیسری مرتبہ حضرت نے فرمایا : مگر تم سے نہیں کہہ رہی ہوں کہ اٹھو اور مناروں پر چراغ روشن کرو ؟ میں خواب سے بیدار ہوا اور کسی علت کو معلوم کئے بغیر منارے پر گیا اور چراغ روشن کر کے پھر سوگیا ۔ صبح کو اٹھ کر حرم کے دروازوں کو کھولا اور آفتاب طلوع ہونے کے بعد حرم سے باہر آیا ۔ اپنے رفقاء کے ساتھ جاڑے کی دھوپ میں گفتگو کر رہا تھا کہ یکایک چند زائرین کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوا ۔ وہ کہہ رہے تھے : بی بی کی کرامت اور معجزے کو دیکھا ! اگر کل رات اس سرد ہوا اور شدید برف باری میں حرم کے منارے کا چراغ روشن نہ ہوتا توہم لوگ ہرگز راستہ تلاش نہیں کرپاتے اور ہلاک ہوجاتے ۔

خادم کہتا ہے :

میں اپنے آپ میں حضرت کی کرامت کی طرف متوجہ ہوا نیز یہ کہ آپ کو اپنے زائروں سے کس قدر محبت و الفت ہے۔(۸)

مرض دیوانگی

آقائے میر سید علی برقعی نے فرمایا :

ایک شخص نے بیان کیا کہ میں جب عراق میں ایران کا سفیر تھا تو میری بیوی دیوانگی کی مرض میں مبتلا ہوگئی ، نوبت یہاں تک آگئی کہ ان کے پیر میں زنجیر ڈالنی پڑی ایک دن جب سفارت خانے سے لوٹا تو ان کا بہت برا حال دیکھا ۔ یہ حال دیکھنے کے بعد اپنے مخصوص کمرے میں داخل ہوا اور وہیں سے امیر المومنین علیہ السلام سے متوسل ہوا عرض کیا :

یا علی چند سال سے آپ کی خدمت میں ہوں اور پردیسی ہوں ، اپنی بیوی کی شفا یابی آپ سے چاہتا ہوں ۔اسی طرح متحیر و پریشان تھا کہ خدا یا کیا کروں کہ ناگہاں گھر کی خادمہ دوڑتی ہوئی آئی اور بولی آقا ! جلدی آئیے ۔ میں نے پوچھا : میری بیوی مرگئی ؟ کہنے لگی : نہیں ! اچھی ہوگئی ہیں ۔ میں جلدی سے اپنی بیوی کے پاس آیا تو دیکھا کہ طبیعی حالت میں بیٹھی ہیں ۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے پوچھنے لگیں : میرے پیر میں زنجیر کیوں باندھی ہے ؟

میں نے سارا واقعہ سنادیا ۔ اس کے بعد میں نے پوچھا تم یکایک ٹھیک کیسے ہوگئی ؟ انھوں نے جواب دیا : ابھی ابھی ایک با جلالت خاتون میرے کمرے میں داخل ہوئیں تھیں ، میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : میں معصومہ امام موسیٰ جعفر علیہ السلام کی دختر ہوں ، میرے جد امیر المومنین علیہ السلام نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو شفا دوں اور میں نے تم کو شفا یاب کردیا ۔(۹)

ضعف چشم

حاج آقائے مہدی صاحب مقتبرۃ اعلم السلطنۃ ( بین صحن جدید و عتیق ) نے نقل کیا ہے کہ میں کچھ دنوں قبل ضعف چشم میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ ڈاکٹروں کے پاس جانے کے بعد معلوم ہوا کہ آنکھ میں موتیا بندہوگیا ہے لہٰذا اس کا آپریشن کرنا پڑے گا ۔ وہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں جب بھی حرم مشرف ہوتا تھا تو ضریح کی تھوڑی سی گرد و غبار آنکھوں سے مل لیا کر تا تھا ۔ میرا یہ عمل باعث ہوا کہ میری آنکھوں کی کمزوری برطرف ہوگئی ۔ یہ عمل ایسا با برکت ثابت ہوا کہ آج تک چشمے کے بغیر قرآن و مفاتیح پڑھتا ہوں ۔(۱۰)

گونگی لڑکی

حجۃ الاسلام جناب آقائے حسن امامی یوں رقمطراز ہیں :

۱۰ / رجب ۱۳۸۵ ء ھ بروز پنجشنبہ ” آب روشن آستارہ “ کی رہنے والی ایک ۱۳ سالہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ہمراہ قم آئی ۔ وہ لڑکی ایک مرض کی وجہ سے گونگی ہو گئی تھی اور بولنے کی صلاحیت اس سے سلب ہوگئی تھی ۔ ڈاکٹروں کو دکھانے کے با وجود بھی اس کا معالجہ نہ ہو سکا ۔ جب ڈاکٹر مایوس ہوگئے تو وہ لوگ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم میں پناہ گزیں ہوئے ۔ دو رات وہ لڑکی ضریح کے پاس بیٹھی رہی ۔ کبھی روتی تو کبھی زبان بے زبانی سے مشغول راز و نیاز تھی کہ یک بارگی حرم کے سارے چراغ خاموش ہوگئے ۔ اسی وقت وہ لڑکی حضرت کی بے کراں عنایتوں کے سائے میں آگئی اور ایک عجیب انداز میں چیخ اٹھی جسے وہاں کے خدام اور زائرین نے اچھی طرح سنا چیخ سنتے ہی مجمع ٹوٹ پڑتا تا کہ اس کے کپڑے کے کچھ حصے بعنوان تبرک لے لے ۔ لیکن فوراً خادمین حضرات لڑکی کو حفاظت کے لئے ایک حجرے میں لے گئے ( جسے کشیک خانہ کہتے ہیں ) یہاں تک کہ مجمع کم ہویا ۔ لڑکی نے کہا : جس وقت چراغ گل ہوا اسی وقت ایک ایسی روشنی اور نور دیکھا کہ اپنی پوری زندگی میں ویسا نور نہیں دیکھا تھا پھر حضرت سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ فرمارہی ہیں : تم ٹھیک ہوگئی ہو اب بول سکتی ہو میں چیخنے لگی تو دیکھا کہ میں بول سکتی ہوں ۔(۱۱)

مریض دق

آقائے مہدی صاحب مقبرہ اعلم السلطنۃ فر ماتے ہیں :

قم کے ایک دیہات ”خلجستان “ کا ایک شخص مرض دق (ٹی ۔بی) میں مبتلا ہو گیا قم کے ڈاکٹروں کی طرف مراجعہ کیا ۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ پھر تہران گیا وہاں معالجہ شروع کیا ۔ یہاں تک کہ علاج میں اس کی ساری دولت ختم ہو گئی لیکن دواؤں نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ۔ مایوس ہو کر تہی داماں وہ اپنے وطن لوٹ آیا ۔ وہاں کے رہنے والوں نے اس سے کہا: تمھارے پاس یہاں کچھ نہیں ہے اور تم جس مرض میں مبتلا ہو وہ چھوت کا مرض ہے ۔ تمھارا یہاں رہنا یہاں کے لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے لہٰذا تم یہاں سے چلے جاؤ۔ چار و ناچار وہ آوارہ وطن تہی داماں رنجور شخص قم پہنچتا ہے اور صحن جدید میں حرم مطہر کے مقبروں میں سے ایک مقبرے میں تمام جگہوں سے ناامید ہو کر عنایات فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا سے اپنے دل کو تسلی دیتا ہے ۔ اسی اثنا میں اسے نیند آجاتی ہے ۔ بی بی کی عنایتوں کے نتیجہ میں بیدار ہو نے کے بعد اندر مرض کا کوئی اثر نہیں پاتا ہے ۔(۱۲)

قرض کی ادائیگی اور رزق میں برکت

آستانہ مقدسہ کے خادم جناب آقائے کمالی فرماتے ہیں : ۱۳۰۲ ھء شمسی کی بات ہے میں حضرت معظمہ کی بارگاہ میں پناہ گزیں تھا اور وہیں صحن نو میں ایک حجرے میں مقیم تھا ۔ زندگی بہت سختی سے گذر رہی تھی اور بے حد فقیر و نادار ہو گیا تھا زندگی حرم کے اطراف کے تاجروں سے قرض پر گذر رہی تھی ۔ ۔ یہاں تک کہ ایک دن نماز صبح کی ادائیگی کے بعد بی بی کی بارگاہ میں مشرف ہوا ۔ اور اپنی ساری حالت بی بی کو سنادیا ۔ اسی حالت میں پیسوں کی تھیلی میرے دامن میں گری ۔ کچھ دیر تک تو میں نے انتظار کیا کہ شاید یہ کسی زائر کا پیسہ ہو تو یہ اسے دیدوں ، لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ بی بی کا خاص لطف ہے ۔ تھیلی لے کر اپنے حجرے کی طرف پلٹ گیا ۔ جب اسے کھولا تو اس میں چار ہزار تومان تھے پہلے تو میں نے سارے کے سارے قرض ادا کئے پھر چودہ مہینوں تک اس کو خرچ کرتا رہا لیکن اس میں کافی برکت تھی ، ختم ہی نہیں ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک دن حجۃ الاسلام حسین حرم پناہی تشریف لائے اور ہماری زندگی کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے موضوع کو یوں بیان کردیا ۔ انہی دنوں وہ عطیہ ختم ہوگیا ۔(۱۳)

حرم کے خادم کو شفا

یہ کرامت جو کہ حد تواتر تک پہنچی ہے اس طرح نقل کی جاتی ہے :

حرم کے خادموں میں سے ایک خادم جن کا نام میرزا اسد اللہ تھا کسی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کے پیروں کی انگلیاں سیاہ ہوگئیں ۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ انگلیاں پیروں کے ساتھ کاٹنی پڑیں گی تا کہ مرض اوپر سرایت نہ کرسکے ۔ لہٰذا طئے پایا کہ دوسرے دن آپریشن ہوگا ۔ میرزا اسداللہ نے کہا جب ایسا ہی ہونا ہے تو آج رات مجھے دختر موسیٰ بن جعفر علیہما السلام کے حرم مطہر میں لے چلو ۔ لوگ انہیں حرم لے گئے ۔ رات کو خادموں نے حرم بند کردیا ۔ وہ خادم حرم ضریح کے پاس پیر میں درد کی وجہ سے نالہ و شیون کر رہا تھا ۔ یہاں تک کہ سپیدی سحری نمودار ہونے کا وقت آگیا نا گہاں خادموں نے میرزا کی آواز سنی کہ کہہ رہے ہیں : حرم کا دروازہ کھولو ۔ بی بی نے مجھے شفا یاب کردیا ۔

جب لوگوں نے دروازہ کھولا تو ان کو مسرور و شادمان پایا ۔ اسد اللہ نے کہا : عالم خواب میں دیکھا کہ ایک با جلالت خاتون میرے پاس تشریف لائیں اور فرمارہی ہیں : تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے عرض کی : اس مرض نے مجھ کو عاجز کردیا ہے میں خدا سے یا تو اس درد کی دوا چاہتا ہوں یا موت کا خواستگار ہوں ۔ اس با جلالت خاتون نے اپنی چادر کا ایک گوشہ چند مرتبہ میرے پیر پر مس کیا اور فر مایا : ہم نے تم کو شفا دیدی ۔ میں نے عرض کیا : آپ کون ہیں ؟ فرمایا : مجھے نہیں پہچانتے ہو جب کہ میری نوکری کرتے ہو ۔ میں فاطمہ دختر موسیٰ بن جعفر علیہما السلام ہوں ۔ بیدار ہونے کے بعد میرزا نے وہاں روئی کے کچھ ٹکڑے پائے تھے تو ان کو سمیٹ لیا تھا ۔ اس میں سے تھوڑا سا بھی جس مریض کو دیا جاتا تھا اور وہ درد کی جگہ پر اسے مس کرتا تھا تو فوراً شفا یاب ہو جاتا تھا ۔ اسد اللہ کہتے ہیں کہ وہ روئی ہمارے گھر میں موجود تھی ۔ یہاں تک کہ سیلاب آیا اور ہمارا گھر برباد ہوگیا اور وہ روئی غائب ہوگئی پھر دوبارہ نہ ملی ۔(۱۴)

شفائے چشم

آقائے حیدری کاشانی ( واعظ ) نقل فرماتے ہیں کہ ان کی ایک ہم صنف دوست نے حضرت آیۃ اللہ بہاء الدینی کی خدمت میں بیان کیا : ایک دن میں نے اپنی دس سال کی بیٹی کی آنکھ پر ایک دانہ دیکھا ۔ جب متخصص کے پاس لے گیا تو معاینہ کے بعد اس نے بتایا کہ اس کا آپریشن کرنا پڑے گا نہیں تو خطرہ ہے ۔

لڑکی نے جیسے ہی یہ سنا ناراض ہو کر کہنے لگی کہ میں آپریشن نہیں کراوں گی ۔ مجھے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم لے چلو ۔ یہ کہنے کے بعد خود حرم کی طرف دوڑتی ہوئی روانہ ہوگئی ۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوگئے ۔ وہ جیسے ہی حرم پہنچی رونا شروع کردیا اور بی بی کو مخاطب کر کے بولی : اے بی بی میں آپریشن نہیں چاہتی ہوں ۔ یہ کہتی جاتی اور ضریح سے اپنی آنکھ ملتی جاتی تھی ۔ اس کا برا حال تھا ۔ اس منظر کو دیکھنے کے بعد ہم منقلب ہوگئے ۔ اس حالت توسل کے بعد اس کو آغوش میں لے کر دلداری کی اور اس سے کہا : اچھی ہو جوو گی ، پھر اس کو حرم مطہر کے صحن میں لے گیا ۔ ناگہاں میری نگاہ اس کی آنکھ پر پڑی تو دیکھا کہ اس خطر ناک دانہ کا تھوڑا سا بھی اثر موجود نہیں ہے ۔

مہمان نوازی کا خرچ

آقائے حیدری کاشانی فرماتے ہیں کہ ایک دن ہمارے گھر میں کسی کی مہمان نوازی کے لئے کچھ نہیں تھا ۔ لیکن کچھ لوگ شہر بیر جند ( جہاں مجھے شہر بدر کیا گیا تھا ) ۔ سے جو ہمارے آشنا تھے ہمارے یہاں تشریف لائے میں پریشان تھا کہ آخر کیا کروں ؟ جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو حرم آیا اور وہیں داخل حرم عرض کیا : بی بی جان آپ ہماری حالت سے بخوبی واقف ہیں ۔ ابھی یہ کہا ہی تھا کہ ایک خاتون نے آواز دی ۔ آواز سن کر میں ٹھہر گیا ۔ اس نے مجھے کچھ پیسہ دیا ۔ اور کہا یہ آپ کا پیسہ ہے ۔ پیسہ لے کر میں بڑہنے لگا تو اس خاتون نے مجھے پھر پکارا اور کچھ اور پیسے دئے اور کہا کہ یہ بھی آپ کا پیسہ ہے ۔ اب میں نے ضریح کی گنبد کی طرف رخ کیا اور عرض کی : بی بی جان آپ کا بہت بہت شکریہ وہاں سے لوٹ کر گھر آیا اور مہمانوں کی خاطر و مدارات کے لئے سامان مہیا کیا ۔ جب میری بیوی ( جو میری حالت سے واقف تھی ) نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کہاں سے لائے ؟ میں کہا : فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے عنایت کیا ہے ۔

قم جاو

آقائے حیدری کاشانی فرماتے ہیں کہ : مسجد گوہر شاد میں عشرہ مجالس تمام ہونے کے بعد ایک خاتون میرے پاس آئی اور کہا : میرا جوان بچہ مریض تھا ایک رات حضرت رضا علیہ السلام کو خواب میں دیکھا ۔ حضرت نے فرمایا : تمہارے دو جوان مریضوں میں سے ایک کو میں نے شفا یاب کردیا دوسرے کو میری بہن کے پاس قم لے جاو ( کیونکہ قم میں میری بہن اسے شفا دیں گی ) اب آپ چونکہ قم روانہ ہوارہے ہیں تو یہ ساٹھ ۶۰ تومان وہاں ضریح میں ڈال دیجئے گا میں چند دن کے بعد حاضر ہوں گی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ مشہد آتے وقت تم قم نہیں گئی تھی ؟ اس نے کہا ” نہ “ میں نے کہا : حضرت کی فرمائش تم سے شکوہ تھا کہ کیوں اس سفر میں ان کی بہن کی زیارت کو نہیں گئیں ۔(۱۵)

نزول رحمت

پھر ایک بار شب کی تاریکی میں دست فیض الٰہی کریمہ اہل بیت کے ہاتھوں فیض و کرم تقسیم کرنے لگا اور خورشید سے زیادہ روشن ایک چراغ ولایت عاشقان دلسوختہ ولایت پر چمکنے لگا ۔ کوئی پرانی بات نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے جو پانچ ، چھ سال قبل روز جمعہ شب ۲۳ / اردیبہشت ۱۳۷۳ شمسی کو وقوع پذیر ہوئی ہے اور ایک بار پھر غیبی خزانوں اور نزول رحمت الٰہی کا مشاہدہ کیا ۔

جس نے دامن عنایت میں جگہ پائی وہ ایک چودہ سالہ لڑکی تھی جو دور و دراز کا سفر طے کر کے آئی تھی ۔ وہ آذربائیجان کے ایک شہر ” شوط ماکو “ کی رہنے والی تھی ۔

اس نے خود مجھ سے اس طرح نقل کیا ہے :

میں رقیہ امان اللہ پور ” شوط ماکو “ کی رہنے والی ہوں ۔ چار ماہ قبل سردی کے اثر سے میرے دونوں پیر مفلوج ہو گئے تھے ، گھر والوں نے ” ماکو “ خوئی ، تبریز کے مختلف ہسپتالوں میں معالجہ کرایا ۔ لیکن تمام ڈاکٹروں نے مختلف اکسرے اور آزمائشات کے بعد ہمارے علاج سے عاجزی ظاہر کی ۔ میں اسی طرح اپنے پیروں کو حرکت دینے سے معذور تھی یہاں تک کہ چہارشنبہ کی رات ۲۱ / اردیبہشت ۱۳۷۳ شمسی کو عالم خواب میں دیکھا کہ ایک سفید پوش خاتون ایک سفید گھوڑے پر سوار میری طرف آرہی ہیں ۔ نزدیک آکر فرمایا : کیوں شروع ہی سے میرے پاس نہیں آئی تا کہ تم کو شفا دیدیتی ؟ مضطرب حالت میں خواب سے بیدار ہوئی اور خواب کو چچا اور پھوپھی سے نقل کردیا ۔ ان لوگوں نے بھی بلا فاصلہ قم کے سفر کے مقدمات فراہم کردیئے ۔ لہٰذا روز جمعہ ۲۳ / اردیبہشت ساڑھے سات بجے شام کو ہم لوگ حرم مطہر میں مشرف ہوئے ۔ میں نماز کے بعد زیارت پڑھنے لگی ۔ ناگہاں ان بی بی کی آواز کانوں سے ٹکرائی جن کو خواب میں دیکھا تھا کہ فرمارہی ہیں : اٹھ جاو ۔ میں نے تم کو شفا دیدی ہے ۔ میں نے شروع میں کوئی توجہ نہ دی دوبارہ پھر اس صدا کی تکرار ہوئی ۔ اس بار میں نے خود کو حرکت دی تو مشاہدہ کیا کہ میں حرکت کی قدرت رکھتی ہوں اور اس طرح میں بی بی دو عالم کے سایہ لطف میں پناہ گزیں ہوگئی ۔(۱۶)

نسیم رحمت

باختران کے رہنے والی ایک لڑکی پروین محمدی ، اعصابی تشنج میں مبتلا ہوگئی جب تمام معالجات سے نا امید ہوگئی تو لڑکی اپنے والدین کے ساتھ امام رضا علیہ السلام سے شفا کی امید میں مشہد روانہ ہوئی ۔

پروین کی والدہ اس کرامت کو اس طرح نقل فرماتی ہیں :

جب میں قم پہونچی تو اپنے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی بہن کے پاس چلیں اگر انھوں نے جواب نہیں دیا تو مشہد چلیں گے ۔ دو بجے رات کے بعد ہم لوگ قم پہنچے ۔ دوسرے دن نو ۹ بجے صبح حرم میں مشرف ہوئے میری بیٹی جسے بہت مشکل سے نیند آتی تھی ۔ اعصابی تشنج کی وجہ مشکلات سے دو چار تھی ، توجہ اور توسل کی حالت میں جب اس کو ضریح پاس لے گئے تو بڑی آسانی سے سو گئی ۔ چند گھنٹوں کے بعد پس از نماز ظہر و عصر ایک خاص قسم کی خوشبو نے حرم کو اپنے احاطے میں لے لیا میں نے دیکھا کہ میری لڑکی کا داہنا ہاتھ تین مرتبہ اس کے چہرے پر ملا گیا اور اس کے چہرے کا رنگ روشن ہوگیا ، چادر کے جس گوشے کو ضریح میں باندھا تھا وہ کھل گیا اسی حالت میں ہماری بیٹی بڑی آسانی سے خواب سے بیدار ہو گئی اور پوچھا مادر گرامی ! ہم کہاں ہیں ؟ میں نے کہا : حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ۔ کہنے لگی : مادر میں بھوکی ہوں ، مہینوں سے اس جملہ کو سننے کی آرزو تھی لہٰذا میں نے کہا چلو حرم کے باہر چلتے ہیں ہم لوگ صحن میں داخل ہوئے اس سے پوچھا : ناراحتی کا احساس نہیں کرتی ہو ؟ بولی نہیں الحمد للہ اچھی ہوں میں نے محسوس کیا کہ اس کی حالت طبیعی ہے اس کے بعدمیں نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا شکریہ ادا کیا ۔(۱۷)

شفا بخش شربت

۱۴ / شعبان چہارشنبہ کا دن تھا ۔ آستانہ مقدسہ میں نیمہ شعبان کی بزرگ عید کے موقع پر کریمہ اہل بیت علیہم السلام کی ملکوتی بارگاہ میں دور سے آئے ہوئے مہمونوں کی ضیافت ہو رہی ہے ۔ وہ بھائی کا ہمسایہ ہے جو بہن کے بلانے پر شفا کی امید میں اس در پر حاضر ہوا ہے ۔ وہ امیر محمد کوہی ساکن مشہد ہیں اور وہاں کے امور اقتصادی کے سابق ملازم ہیں ۔ آپ اپنی داستان اس طرح بیان فرماتے ہیں :

تین سال سے میں فلج کے مرض میں مبتلا تھا اور حرکت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ویلچیر ( Wheel Chair ) کے سہارے چلتا تھا ۔ مشہد اور تہران کے متخصص ڈاکٹروں کے پاس گیا ، علاج کے مختلف مراحل گزارے بارہا ہسپتال میںرہا ، دعائے توسل اور ان مجالس میں بغرض شفا شرکت کی جو امام رضا علیہ السلام کے حرم میں برپا ہوتی تھیں لیکن کوئی عنایت نہ ہوئی۔ انہی دنوں بہت زیادہ غم و غصہ کی وجہ سے میں اپنے خانوادہ کے ساتھ حرم مشرف ہوا اور بہت دکھے دلوں سے عرض کیا: مولا !آپ تو غیر مسلموں کو محروم نہیں کرتے ہیں پھر مجھ جیسے شیعہ پر کیوں توجہ نہیں دیتے ہیں ۔ مولا !یا تو میرا جواب دیجئے یا میں قم جا کر آپ کی بہن سے شکایت کروں گا اور ان کو وسیلہ قرار دوںگا اس وقت حضرت معصومہ علیہا السلام کو مخاطب کرکے عرض کیا : میں آپ کے بھائی کا ہمسایہ ہوں اور ایک ایسا انسان ہوں جو عیال مند ہے اپنی پوری زندگی میں کوئی خیانت نہیں کی ہے اور اپنی آخری کوشش تک کامیاب رہا ہوں پھر وہ مجھے شفا کیوں نہیں دیتے ہیں؟ اس توسل اور شکوے کے بعد ایک خاتون کو عالم خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہی ہیں ۔تم قم آؤ تاکہ میں تم کو شفا دوں ۔ میں نے عرض کیا آپ ہمارے گھر تشریف لائی ہیں اور ہماری مہمان ہیں مجھے یہیں شفا دے دیجئے میرے پاس پیسہ نہیں ہے کہ قم آؤں فرمایا: تم کو قم آنا پڑے گا ۔ میں نے اپنے خواب کو اپنے بال بچوں سے نقل کر دیا چند دنوں کے بعد میرے فرزند نے مجھے سے کہا: بابا ! ہم نے اپنی ساری دولت آپ کے معالجے میں صرف کر دی ۔ لیکن چند پیٹی نوشابہ بیچنے کی وجہ سے کچھ پیسے ہاتھ میں آئے ہیں اسی کو مسافرت میں خرچ کیجئے اور قم چلے جایئے مجھے امید ہے کہ آپ کوشفا ملے گی۔

میں قم کی طرف رواں ہوگیا ۔ قم پہنچنے کے بعد وضو کیا اور حرم میں داخل ہو گیا ۔ دو آدمیوں سے گزارش کی کہ مجھے سہارا دے کر ضریح کے پاس لے جائیں ۔ وہ لوگ مجھے ضریح کے پاس لے گئے ۔ ( میں بہت تھکا ہوا تھا ) زیارت اور التجا کے بعد وہیں ضریح کے پاس کمبل اوڑھ لیا ، مجھے نیند آگئی ۔ عالم خواب میں ایک خاتون کو کالی چادر اور سبز مقنعہ میں دیکھا انہوں نے مجھ سے فرمایا : میرے لال آنا مبارک ہو ۔ اب میں نے تم کو شفا دیدی ۔ اٹھ جاو ! اب تم کو کوئی بیماری نہیں ہے ۔ میں نے عرض کیا : میں بیمار اور مفلوج ہوں ۔ انہوں نے ایک مٹی کا پیالہ جس میں چائے رکھی تھی میرے ہاتھ میں دی اور فرمایا : پیئو میں نے چائے پی ۔ ناگہاں خواب سے بیدار ہوا ۔ دیکھا کہ میں اپنے پیر پر کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتا ہوں اپنی جگہ سے اٹھا اورخود کو ضریح تک پہنچایا اور آخر کار آج کے دن بی بی سے اپنی عیدی لے لی ۔(۱۸)

یہ بی بی مقدسہ کے بے شمار الطاف ، بے پایاں عنایت اور فراوان کرامات کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا ۔ آپ ہی کے پاک و پاکیزہ وجود کے وسیلے سے قم عاشقان و سالکان طریق ہدایت کا ماوی اور قبلہ امید عارفان حقیقت ہو گیا ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ یہی مختصر تذکرہ دلسوختہ عاشقوں کے پیاسے حلقوم کے لئے شربت اور چراغ راہ ہدایت ہوتا کہ خواب غفلت سے بیدا ہو جا سکے ۔ اس امید کے ساتھ حضرت سب کو اپنے لطف و عنایت کے سایہ میں قرار دیں گی اور سب کو راہ ہدایت پر گامزن فرمائیں گی انشاء اللہ ۔

____________________

۱ ۔بحارج/ ۱۰۲ ، ص / ۱۳۲ ۔

۲۔ فرزند سید جعفر احتشام مرحوم دونوں قم کے خطیب شمار ہوتے تھے ۔

۳ ۔ اس کرامت کی کیسٹ حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی کی زبانی آستانہ فرہنگی میں موجود ہے

۴۔ فوائد الرضویہ ص۳۷۹ باتصرف۔

۵۔ دارالسلام ج / ۲ ، ص / ۱۶۹ ۔

۶ ۔ زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص / ۴۷ ۔

۷ ۔ زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص / ۴۷ ۔

۸ ۔ ودیعہ آل محمد / محمد صادق انصاری ص ۱۴ ۔

۹۔ بشارۃ المومنین / شیخ قوام اسلامی جاسبی ص ۴۳ ۔

۱۰۔ مدرک سابق ۔

۱۱ ۔ بشارۃ المومنین ص ۴۹ ۔

۱۲ ۔ بشارۃ المومنین ص ۵۱ ۔

۱۳۔ بشارۃ المومنین ص ۵۲ ۔

۱۴۔ انوار المشعشعین / شیخ محمد علی قمی ۲۱۶ ۔

۱۵ ۔ یہ کرامت آستانہ مقدسہ میں اوڈیو اور ویڈیو دونوں طرح موجود ہے ۔

۱۶ ۔اس کرامت کی اوڈیو کیسٹ اور تصویر آستانہ مقدسہ میں موجود ہے ۔

۱۷ ۔ یہ کرامت ۲ / تیر ۱۳۷۳ شمسی بروز پنجشنبہ کو وقوع پذیر ہوئی اس کی آوڈیو اور تصویر نیز آستانہ مقدسہ میں موجود ہے۔

۱۸۔ یہ کرامت آستانہ مقدسہ میں تصویر کے ساتھ آڈیو کیسٹ میں موجود ہے ۔

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر


4

5

6