ساحل کوثر

ساحل کوثر0%

ساحل کوثر مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

ساحل کوثر

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8543
ڈاؤنلوڈ: 2627

تبصرے:

ساحل کوثر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8543 / ڈاؤنلوڈ: 2627
سائز سائز سائز
ساحل کوثر

ساحل کوثر

مؤلف:
اردو

چھٹی فصل :

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا شعراء کی زبانی

تاریخ کی رہ گذر میں مکتب امامت و ولایت کی ترویج اور فضائل و مناقب اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نشر میں اسلامی شاعروں کا ایک اچھا کردار رہا ہے ۔ جن کے حکمت آموز اشعار نے ہمیشہ عاشقان خاندان نبوت و رسالت کے قلوب کو جلا بخشی ہے اور ایک زندہ جاوید سند کی حیثیت سے مکتب لالہ زار علوی اور بے کراں دریائے فضائل اہلبیت علیہم السلام کو اجاگر کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔

اسی رہ گزر میں کریمہ اہل بیت علیہم السلام کی عظمت نے ان منادیا ن حق شعراء کو بارگاہ ملکوتی حضرت معصومہ علیہا السلام میں عرض ادب پیش کرنے پر مجبور کردیا اور اس طرح وہ پر معنیٰ اشعار و قصائد کہنے کے لئے آمادہ ہوگئے ۔

زبان فارسی میں تو ان اشعار کی تعداد بے حد و حساب ہے کہ اگر بطور مستقل اس پر کام کیا جائے تو ایک دیوان ہوجائے گا ۔ لیکن مولف محترم نے چند برگزیدہ اشعار کو کتاب میں جمع فرمایا ہے اور اسے ایک فصل قرار دیا ہے ۔

واضح ہے کے اردو داں افراد کے لئے یہ شعری مجموعہ سود مند نہ ہوگا لہٰذا یہ طے پایا کہ ان اشعار کی جگہ اردو زبان کے شعراء کے اشعار پیش کئے جائیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں قدیم شعراء کے اشعار دستیاب نہ ہو سکے بلکہ جہاں تک حقیر کی معلومات ہے ہمارے قدیم شعراء نے اس موضوع پر طبع آزمائی نہیں فرمائی ہے ۔

بنا بر ین زمانہ حاضر کے جن شعراء کے اشعار دستیاب ہو سکے ہیں انھیں اس فصل میں ذکر کر رہا ہوں ۔

ہم اس کتاب کے ذریعہ تمام شعراء کرام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر اشعار کہہ کر ہمیں روانہ کریں تا کہ آئندہ اڈیشن میں ہم مناسب اشعار کو کتاب میں مزین کر سکیں ۔

برگزیدہ از قصیدہ در مدح نورین نیرین حضرت فاطمہ زہرا و فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہما

نتیجہ فکر : امام خمینی قدس سرہ

ترجمہ : مولانا ابن علی صاحب قبلہ واعظ

عیسیٰ ڈیوڑ ھی پہ اس کی درباں ہیں

عبد درگاہ ابن عمراں ہیں

ایک ہے دیدہ بان بر سردار

خادم در ہے ایک عصا بر دار

یا کہ دو طفل در حریم جلال

پئے تکمیل نفس ہیں بے حال

حفظ انجیل پر کسے یہ کمر

اس کو تورات ہو چکی از بر

نہ کریں دعوئے امامت اگر

موسیٰ جعفر ، از پئے داور

میں یہ کہہ دوں کہ یہ ہیں پیغمبر

معجزہ اس پہ آپ کی دختر

ایسی دختر نہیں بجز زہرا

ایسا صلب پدر ، نہ رحم ہوا

ان دو کی ایسی اب کوئی دختر

نہ ہوئی اور نہ ہوگی تا محشر

وہ ہے امواج علم کا مظہر

یہ ہے افواج حلم کا مصدر

لطف سے اس کے سامنے ہے وجود

اور عدم اس کے قہر سے مفقود

انبیا کے لئے وہ تاج سر

یہ سر اولیا کا ہے مغفر

کعبہ وہ عالم جلالت کا

اور یہ مشعر زمین قدرتکا

لم یلد لب نہ کرتا بند اگر

کہتا میں ہیں خدا کی دو دختر

اس کی چادر میں بند کون و مکاں

روسری اس کی ستر عفت حق

ملک باقی کا ہے وہ تاج سر

یہ ہے برعرش کبریا افسر

قطرہ اس کی عطا کا بحر و سما

رشحہ فیض کان زر اس کا

اس سے خاک مدینہ روشن ہے

اس سے یہ قم کا خطہ روشن ہے

قم ہے اس کی شرف سے خلد نظر

اس سے پانی مدینے کا کوثر

عرصہ قم ہے رشک خلد عجیب

بلکہ خلد بریں ہے اس کا نقیب

عرش پر قم کو ناز ہے زیبا

” لوح“ شاید کہ اس کی ہو ہمتا

ہے عجب خاک ،آبروئے جہاں

مرجع دوست ،ملجا ئے غیراں

سنتے گریہ قصیدہ ہندی

وہ ادیب و سخنور و سعدی

ہوتا نہ طوطی کی طرح اس کی زباں پر

اے بجلالت ز آفرینش برتر

اور وہ قمری کی طرح لاقانہ لب پر

اے کہ جہاں زرخ تو گشتہ منور

دختر خورشید

نتیجہ فکر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی دام ظلہ العالی

ترجمہ جناب مولانا اخلاق حسین صاحب اخلاق پکھناروی

زائیدہ خرد ہیں تو خواہر ہیں دین کی

اور گوہر شرف تو جلالت جبین کی

عصمت اسیر گیسوے عصمت تری رہی

علم و عمل رہین ترے کوچہ و گلی

اے شاخسار عظمت توحید کا ثمر

خورشید ہے اساس تو ہمشیرہ قمر

انسانیت کے تاج کی زینت ہے آپ سے

روشن نگین ختم نبوت ہے آپ سے

شیطان راندہ ہو گیا قم کے خطاب سے

پھر قم کو بخشی رونق و عزت جناب سے

حوا کا یہ مقام تو جنت کا ہے محل

ناموس ایزدی کی نہ ہو کیوں چہل پہل

آکے حرم میں عقل و خرد مات ہوتے ہیں

اس خاک سے حیات کے چشمے ابلتے ہیں

اک جسم نازنیں کی زمیں راز دار ہے

ہے ایسی جان جس سے جہاں میں بہار ہے

خورشید اور ماہ منور کو روشنی

ہے نور قم اور عکس خراسان سے ملی

روحوں کی تازگی کا ہے ایران اب سبب

مشکۃ کی صفت میں ہیں یہ دو چراغ رب

کیا پوچھتے ہودل بھلا ان دو حرم کی بات

جن کی شعاع نور سے روشن ہے شش جہات

ہر کو تمھارے در سے کرم کی امید ہے

محتاج تر سبھی سے گدا بس وحید ہے

حریم خدا

نتیجہ فکر سید جعفر احتشام صاحب مرحوم

ترجمہ جناب مولانا اخلاق حسین صاحب اخلاق پکھناروی

قم کی زمین عطر و لطافت سے ہے بھری

ذوق و صفا سے گوہر ناسفتہ بھی بنی

گوہر کہاں سے لائے تری شان کا جواب

شان علیٰ کو عرش بریں پر ہے برتری

بس ہے ترے مقام اجل کو زمین قم

ہیں دفن اس میں دختر موسیٰ بن جعفری

تھیں خواہشیں سبھی کی کہ عظمت کو دیں جنم

زہرہ جبیں کے بعد نہ زہرا سی ہو سکی

اے فاطمہ حریم خدا بضعۃ رسول

مرضیہ تو کریمہ درگاہ ایزدی

کاظم کی بیٹی اخت رضا بالیقین ہیں آپ

گردوں ندید ایسا پدر اور برادری

فخر امام ہفتم و ہشتم کا یہ شرف

ان کی بہن تو ان کی ہیں بے مثل لاڈلی

مریم خدا کی چیدہ چنیدہ سہی مگر

پھر بھی روا نہیں ہے کریں تیری ہمسری

الطاف خاص و عام سے اے عصمت الٰہ

ہم عاصیوں کو روز جزا کر دے تو بری

صدحیف یہ کہ آپ نہ تھی روز کربلا

زہرا کی بیٹیاں تھیں مصیبت تھی بے بسی

وہ اک شکست باز و تووہ اک دریدہ گوش

اور دوسرے کے ہاتھ میں جکڑی تھی ہتھکڑی

زینب پکاری رو کے کہ نانا دہائی ہے

سب ہو گئے شہید اسیری کی ہے گھڑی

اے فاطمہ عزیز بر ادر کا واسطہ

ہو احتشام کو بھی عطا قصر اخضری

ہے گنہگار اور دعا لب پہ ہے یہی

اخلاق کوسدا ہو عطا علم و اگہی

گیسوئے جمال رسالت

نتیجہ فکر جناب مولانا اخلاق حسین صاحب اخلاق پکھناروی

گلدستہ جناں کی شرافت ہیں فاطمہ

اور لا مکان کا جاہ و جلالت ہیں فاطمہ

لا ریب کائنات کی غایت ہیں فاطمہ

سر خیل دین نور شریعت ہیں فاطمہ

برج شرف میں گوہر یکتا و لا جواب

خالق کی ذات پاک پہ آیت ہیں فاطمہ

جس سے نکھار دین کے گلشن میں آئی ہے

وہ شانہ کرامت و نکہت ہیں فاطمہ

جس کی وجہ سے خلد کا پروانہ ملتا ہے

حق کی نگاہ میں وہی الفت ہیں فاطمہ

یہ طائر خیال کی پرواز سے پرے

معبود لم یزل کی دلالت ہیں فاطمہ

لاشی ء ہے کائنات اگر اس میں یہ نہ ہوں

کون و مکاں کی خاص ضرورت ہیں فاطمہ

نا زاں ہے جس کو دیکھ کے خود رب ذو الجلال

وہ گیسوئے جمال رسالت ہیں فاطمہ

و الشمس کی قسم رخ روشن ہے بے مثال

دست کرشمہ ساز کی صنعت ہیں فاطمہ

دخت نبی کی عظمت و عفت نہ پوچھئے

یہ مظہر صفات کرامت ہیں فاطمہ

پل میں بدلتی رہتی ہیں تقدیر کائنات

باب المراد کلک مشیت ہیں فاطمہ

مل جائے گی مراد ذرا جاکے دیکھئے

اب مرکز جہان سخاوت ہیں فاطمہ

جو ان کے حق کو جان کے زیارت پہ آئے گا

خلد بریں ہے اس کے ضمانت ہیں فاطمہ

جھکتے ہیں سر جہاں کے جس در کے سامنے

اس در کی دو جہان میں شوکت ہیں فاطمہ

شاہکار فاطمہ

نتیجہ فکر : جناب مولانا سید اطہر عباس رضوی صاحب قبلہ اطہر الہ آبادی

ہے خدائے لم یزل مدحت گزار فاطمہ

حیف ہے اب تک نہ تم سمجھے وقار فاطمہ

جو نہ سمجھے آج تک عز و وقار فاطمہ

حشر میں سمجھے گا ان سے کردگار فاطمہ

لم یشم نفحۃ الجنۃ کا وہ مصداق ہے

جس کے بھی دل میں ہے شمہ بھر غبار فاطمہ

سر تو اکثر خود سروں کے سامنے بھی ہیں جھکے

دل جھکے جب سامنے آئے مزار فاطمہ

مرتبہ میں ہوگیا قم آج ہم شان نجف

مرکز فقہ و فقاہت ہے دیار فاطمہ

جبہ سائی تشنگان علم کرتے ہیں یہاں

اور شہر علم ہے دائر مدار فاطمہ

کتنے بے مایہ ہوئے آکر یہاں سر مایہ دار

علم کی صورت مراجع ، شاہکار فاطمہ

تیرگی جہل دنیا سے مٹانے کے لئے

ہے ضیائے علم سے روشن جوار فاطمہ

بیشتر ابواب جنت کھلتے شہر قم میں ہیں

افتخار قم رہین افتخار فاطمہ

آشیانہ اہل بیت پاک کا ہے شہر قم

خلد شرمائے کچھ ایسا ہے جوار فاطمہ

ثانی زہرا ہیں زینب ، ثانی زینب ہیں یہ

ہے شعار ثانی زہرا شعار فاطمہ

عالم غربت میں مولا کی زیارت کے لئے

آتے ہیں ہر سال لاکھوں جا نثار فاطمہ

قبر میں اطہر کو دیکھا تو ملک کہنے لگے

مرحبا صد مرحبا مدحت گزار فاطمہ

سدابھار

نتیجہ فکر :جناب مولانا سید ضرغام حیدر صاحب قبلہ۔نجف الہ آبادی

وہ لطف دولت و قدرت نہ اقتدار میں ہے

مزہ جو لذت علمی کا اس دیار میں ہے

کبھی مکیں کی فضیلت کسی قرار میں ہے

کبھی مکاں کی فضیلت کسی مزار میں ہے

شرف یہ حضرت آدم کا ہے کہ خلد میں تھے

شرف یہ قم کا کہ معصومہ کے دیار میں ہے

کبھی بلائیں ادھر اپنا رخ نہیں کرتیں

یہ شہر قم ہے جو معصومہ کے حصار میں ہے

خزاں کی زد پہ مسلسل ہے جامعہ ازہر

فضائے قم کو جو دیکھا سدا بھار میں ہے

حرم کے شیخ ذرا حج کے بعد آجانا

فضا جنان کی اسی قم لالہ زار میں ہے

نسیم رحمت خالق سے ملتصق ہے وہ

نجف جہاں میں جو معصومہ کے جوار میں ہے

قصیدہ در مدح فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

نتیجہ فکر : مولانا محمد رضا خان صاحب قبلہ ۔ رضا جونپوری

میں اسیر حب ، محبت میرے دامن گیر ہے

قابل تحسین کس درجہ مری تقصیر ہے

قم کے میخانے میں آنا باعث توقیر ہے

کس قدر شفاف ماں کے دودھ کی تاثیر ہے

روضہ معصومہ قم دیکھ کر ایسا لگا

در پہ میخانے کے رکھا ساغر تطہیر ہے

مدحت معصومہ قم سی نہیں دیکھی شراب

پی کر میخار ازل لگتا جوان و پیر ہے

میرے میخانے پہ ہے تہمت کی بارش اس لئے

بے خطا میخار بھی ساقی بھی بے تقصیر ہے

کیوں نہ ہوجائے مثال طور شہر قم بھلا

روضہ پر نور کی پھیلی ہوئی تنویر ہے

کیوں نہ ہو شام و سحر آخر فرشتوں کا نزول

روضہ معصومہ قم خلد کی تصویر ہے

محفل مدحت ہے پڑھنا آج معصومہ کے گھر

اوج پر ہے مرتبہ معراج پر تقدیر ہے

ضامن جنت ہیں اقوال ائمہ لا جرم

مشکل برزخ ہماری آپ کی تقصیر ہے

زائروں پر آپ کے نار جہنم ہے حرام

آپ کے روضے پہ یہ خط جلی تحریر ہے

با وضو ہو کر یہاں آنا رضا صبح و مساء

بنت موسی فاطمہ کی بولتی تصویر ہے

مدح معصومہ قم صلوات اللہ علیہا

نتیجہ فکر : جناب مولاناجنان اصغر مولائی صاحب

لبوں پر میرے معصومہ کی مدحت

حقیقت میں ہے قرآں کی تلاوت

ہے حاصل تیری الفت کا خزانہ

نہیں در کا راب دنیا کی دولت

نگین قم فقط تیرا شہر ہے

جہاں ہوتا نہیں احساس غربت

یہاں پلتے ہیں مذہب کے محافظ

تیری ممنون احساں ہے شریعت

ترے در کے سوالی ہم ہیں بی بی

عطا ہو ہم کو علم و فن کی دولت

عداوت ہے تمھاری جس کے دل میں

ہے اس پر قادر مطلق کی لعنت

اے بنت موسیٰ باب الحوائج

بنادو میری بھی حر جیسی قسمت

نذر معصومہ قم صلوات اللہ علیہا

نتیجہ فکر : جناب مولانا ظہور مہدی مولائی صاحب قبلہ ظہور بجنوری

میں عقیدت کے سبزہ زار میں ہوں

یعنی حاضر ترے دیار میں ہوں

شکر صد شکر میں بھی مستغرق

تیری الفت کے آبشار میں ہوں

اللہ اللہ میرا عز و شرف

زیر قبہ ترے مزار میں ہوں

اب تو مجھ پہ کرم کرو بی بی

کب سے میں راہ اختبار میں ہوں

ماں کی آغوش کیسے یاد آئے

تیری شفقت کے جب حصار میں ہوں

مجھ کو نسبت ہے آپ سے بی بی

منزل فخر و افتخار میں ہوں

جب سے میرا ہوا جہاں میں ظہور

مستقل راہ انتظار میں ہوں

پاسبان امامت و کریمہ اہل بیت

نتیجہ فکر : مولانا سید مراد رضا رضوی غفر اللہ ذنوبہ

بنت رسول مالک جنت ہیں فاطمہ

اللہ کے جمال کی عظمت ہیں فاطمہ

وجہ وجود کون و مکاں آپ ہی کی ذات

القصہ مرسلین پر حجت ہیں فاطمہ

مریم ہوں یاکہ ہاجرہ یا ہوں وہ آسیہ

سب سے بلند و صاحب عزت ہیں فاطمہ

عیسی کو ہے شرف کہ ہیں معصومہ میری ماں

پیغمبر خدا کی شرافت ہیں فاطمہ

کہہ دو یہ شیخ سے خدا اس سے بس ہے خوش

خوشنودی جس بشر کی محبت ہیں فاطمہ

اس حال میں بھی آپ نے کی ہے محافظت

لا ریب پاسبان امامت ہیں فاطمہ

باطل کے ساتھ اس طرح در گیر ہوتے ہیں

حق ہے کہ سنگ میل ہدایت ہیں فاطمہ

پھر عشق آل پاک کی قسمت چمک گئی

حق ہے وجود حق و کرامت ہیں فاطمہ

کیا پوچھتے ہو ہم سے کہ قم میں رکھا ہے کیا

اس باگاہ پاک کی عظمت ہیں فاطمہ

معصومہ گر لقب ہے تو ستی بھی کہتے ہیں

یعنی جمال عفت و عصمت ہیں فاطمہ

زہرا کی قبر گر نہیں ملتی تو کیا ہوا

قم میں بجائے بنت رسالت ہیں فاطمہ

کیا خوش نصیب ہم ہیں کہ میلاد نور میں

تبریک دینے حاضر خدمت ہیں فاطمہ

ہے آپ کے لقب میں کریمہ بھی اک لقب

در پہ کھڑا ہوں صاحب رافت ہیں فاطمہ

بھائی کے شوق میں جو ہوا تھا سفر شروع

ثابت ہوا کہ رافع عظمت ہیں فاطمہ

بنت علی نے کوچ کیا تھا اسی طرح

زینب کی طرح صاحب جرات ہیں فاطمہ

خطبہ نے جس کے شام کے دربار میں کہا

ہندہ کے پوتے دیکھ سلامت ہیں فاطمہ

اپنے سفر میں زینب دوراں نے یہ کہا

اس دور میں بھی صاحب ہمت ہیں فاطمہ

یا فاطمہ مراد رضا کی بنائیے

بھائی کی طرح صاحب رافت ہیں فاطمہ