چودہ ستارے

چودہ ستارے0%

چودہ ستارے مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ

چودہ ستارے

مؤلف: علامہ نجم الحسن کراروی
زمرہ جات:

مشاہدے: 46834
ڈاؤنلوڈ: 4394

تبصرے:

چودہ ستارے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 46834 / ڈاؤنلوڈ: 4394
سائز سائز سائز
چودہ ستارے

چودہ ستارے

مؤلف:
اردو

حضرت خديجہ تاريخ کے آئينہ ميں

حضرت خديجہ کا شمار تاريخ انسانيت کي ان عظيم خواتين ميں ہوتا ہے جنھوں نے انسانيت کي بقاء اور انسانوں کي فلاح و بھبود کے لئے اپني زندگي قربان کر دي ـ

تاريخ بشريت گواہ ہے کہ جب سے اس زمين پر آثار حيات مرتب ہونا شروع ہوئے اور وجود اپني حيات کے مراحل سے گزر تا ہوا انسان کي صورت ميں ظھور پذير ہوا اور ابوالبشر حضرت آدم عليہ السلام اولين نمونہ انسانيت اور خلافت الھيہ کے عھدہ دار بن کر روئے زمين پر وارد ہوئے اور پھر آپکے بعد سے ہر مصلح بشريت جس نے انسانيت کے عروج اور انسانوں کي فلاح و بھبود کيلئے اسکو اسکے خالق حقيقي سے متعارف کرانے کي کوشش کي،کسي نہ کسي صورت ميں اپنے دور کے خودپرست افراد کي سر کشي اور انانيت کا سامنا کرتے ہوئے مصائب وآلام سے دوچار ہوتا رہا دوسري طرف تاريخ کے صفحات پران مصلحين بشريت کے کچہ ہمدردوں اور جانثاروں کے نام بھي نظر آتے ہيں جو ہر قدم پر انسانيت کے سينہ سپر ہوگئے اور در حقيقت ان سرکش افراد کے مقابلے ميں ان ہمدرد اورمخلص افراد کي جانفشانيوں ہي کے نتيجے ميں آج بشريت کا وجود برقرار ہے ورنہ ايک مصلح قوم يا ايک نبي يا ايک رسول کس طرح اتني بڑي جمعيت کا مقابلہ کرسکتا تھا جوھر آن اسکے در پئے آزارہويھي مٹھي بھر دوست اور فداکار تھے جنکے وجود سے مصلحين کے حوصلے پست نھيں ہونے پاتے تھےـ

مرور ايام کے ساتھ پرچم اسلام آدم (ع)و نوح (ع)و عيسيٰ وابراھيم عليھم السلام کے ہاتھوں سربلندي وعروج حاصل کرتا ہوا ہمارے رسول کے دست مبارک تک پھونچااورعرب کے ريگزار ميں آفتاب رسالت نے طلوع ہوکر ہر ذرہ کو رشک قمر بنا ديا،ھرطرف توحيد کے شاديانے بجنے لگے از زمين تا آسمان لا الھٰ الا الله کي صدائيں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگيں ،محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محيط ہوگيا اور تبليغ الٰھي کا آخري ذريعہ اور ہدايت بشري کے لئے آخري رسول رحمت بنکر عرب کے خشک صحرا پر چھاتا ہوا سارے عالم پر محيط ہوگيا دوسري طرف باطل کا پرچم شيطان ونمرود ،فرعون وشداد کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ابولھب ،ابو جھل اور ابوسفيان کے ناپاک ہاتھوں بلند ہونے کي ناپاک کاوشوں ميں مصروف ہوگيا ـرسول کے کلمہ توحيد کے جواب ميں ايذا رساني شروع ہوگئي اور حق وباطل کي طرح برسر پيکار ہوگئے ايسے عالم ميں کہ ايک طرف مکہ کے خاص وعام تھے اور دوسري طرف بظاھر ايک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ہو چکے تھے ـ ليکن پيغام الٰھي کي عظمت، مصائب کي کثرت پر غالب تھي اور ہر اذيت کے جواب ميں رسول الله کا جوش تبليغ اور زيادہ ہوتا جاتا تھا ـ

ايسے کسمپر سي کے عالم ميں جھاں ايک طرف آپکے چچا ابوطالب نے آپ کي ہر ممکنہ مدد کي وھيں دوسري طرف آپ کي پاک دامن زوجہ حضرت خديجہ نے آپ کي دلجوئي اور مدارات کے ذريعہ آپکو کفار مکہ سے پھچنے والي تمام تکاليف کو يکسرہ فراموش کرنے پرمجبورکرديا ـ حضرت خديجہ نے آپ کي زبان سے خبر بعثت سنتے ہي اٰمنا وصدقنا کھہ کر آپ کي رسالت کي پھلے ہي مرحلے ميں تائيد کردي ـجناب خديجہ کا يہ اقدام رسول اکرم کيلئے بھت حوصلہ افزاء ثابت ہوا ـآپکي اسي تائيد وتعاون کو رسول اکرم آپ کي وفات کے بعد بھي ياد فرماتے رہتے تھے اور اکثر وبيشتر آپ کي زبان اقدس پر حضرت خديجہ کا تذکرہ رہتا تھا (۱)

عائشہ نے جب آپ کے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کھا کہ خديجہ ايک ضعيفہ کے سوا کچہ نھيں تھي اور خدا نے آپ کو اس سے بھتر عطا کردي ہے (عائشہ کا اشارہ اپني طرف تھا )تو حضور ناراض ہو گئے (۲ )ـ

اور غضب کے عالم o ميں فرمايا کہ خدا کي قسم خدا نے مجھکو اس سے بھتر عطا نھيں کيوللٰه لقد اٰمنت بي اذکفر الناس واٰوتيني اذرفضني الناس و صدقتني اذکذبني الناس (۳) خدا کي قسم وہ (خديجہ )اس وقت مجھ پر ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ہو ئے تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کرديا تھا اور اس نے ميري اس وقت تصديق و تائيد کي جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھےـ

خاندان و نام ونسب

شجر اسلام کي ابتدائي مراحل ميں آبياري کرنے والي اور وسطي مراحل ميں اس کي شاخوں کو نمو بخشنے والي يہ خاتون قريش کے اصيل و شريف گھرانے ميں پيد ا ہوئي ـروايات ميں آپ کي ولادت عام الفيل سے پندرہ سال قبل ذکر ہوئي اور بعض لوگوں نے اس سے کم بيان کيا ہے ـآپ کے والد خويلد ابن اسد بن عبد العزي بن قصي کا شمار عرب کے دانشمند وں ميں ہوتا تھا ـاور آپکي والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ہيں (۴)آپ کا خاندان ايسے روحاني اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کي محفاظت کے عھد يدار تھے ـ جس وقت بادشاہ يمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے يمن منتقل کرنے کا ارادہ کيا تو حضرت خديجہ کے والد ذات تھي جنھوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کي جس کے نتيجہ ميں مجبور ہوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ہو نا پڑا ـ(۵)

حضرت خديجہ کے جد اسد بن عبد العزي پيمان حلف الفضول کے ايک سرگرم رکن تھے يہ پيمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درميان ہو ا تھا جس ميں متفقہ طور پر يہ عھد کيا گيا تھا کہ مظلومين کي طرف سے دفاع کيا جائے گا اور خود رسول اکرم بھي اس پيمان ميں شريک تھے (۶)”ورقہ بن نوفل “(حضرت خديجہ کے چچا زاد بھائي )عرب کے دانشمند ترين افراد ميں سے تھے اور انکا شمار ايسے افراد ميں ہوتا تھا جو بت پرستي کو نا پسند کرتے تھے ي (۷)اور حضرت خديجہ کو چندين بار اپنے مطالعہ کتب عھدين کي بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد اس امت کے نبي ہيں ـ(۸)خلاصہ يہ کہ اس عظيم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ،دانشمنداوردين ابراھيم کے پيرو تھے ـ

تجارت

ايسے با عظمت افراد کي آغوش عاطفت کي پروردہ خاتون کي طبيعت ميں اپنے آبا و اجداد کي طرح رفق ودانشمندي کي آميزش تھي جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کي تجارت کو بطريقہ احسن سنبھال ليا اور اپنے متفکر اور زيرک ذھن کي بنا پر اپنے سرمايہ کوروز افزوں کرنا شروع کرديا ـ آپ کي تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنارتک پھيلي ہوئي تھي روايت کي گئي ہے کہ ”ھزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مين تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جيسے ممالک کے اطراف ميں مصروف تجارت تھے“ (۹) جن کے ذريعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لي تھي ـ

آپ کي تجارت ايسے افراد پر موقوف تھي جو بيرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکيں چنانچہ حضرت ختمي مرتبت کي ايمانداري ،شرافت ،اورديانت کے زير اثر حضرت خديجہ نے آپ کو اپني تجارت ميں شريک کرليا اور باھم قرار داد ہوئي اس تجارت ميں ہونے والے نفع اور ضرر ميں دونوں برابر شريک ہوں گے ـ(۱۰) اور بعض مورخين کے مطابق حضرت خديجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کيا تھا ـ (۱۱)ليکن اس کے مقابل دوسري روايت ہے جس کے مطابق رسول الله اپني حيات ميں کسي کے اجير نھيں ہوئے ـ (۱۲) بھر کيف حضرت کاروان تجارت کے ہمراہ روانہ شام ہوئے حضرت خديجہ کا غلام ميرہ بھي آپ کے ساتھ تھا ـ(۱۳)بين راہ آپ سے کرامات سرزد ہوئيں اور راھب نے آپ ميں علائم نبوت کا مشاھدہ کيا اور ”ميسرہ“کوآپ کے نبي ہونے کي خبر دي ـ (۱۴)تمام تاجروں کو اس سفر ميں ہر مرتبہ سے زيادہ نفع ہوا جب يہ قافلہ مکہ واپس ہوا تو سب سے زيادہ نفع حاصل کرنے والي شخصيت خود پيام اکرم کي تھي جس نے خديجہ کو خوش حال کرديا اس کے علاوہ ميسرہ (غلام خديجہ )نے راستے ميں پيش آنیوالے واقعات بيان کئے جس سے حضرت خديجہ آنحضرت کي عظمت و شرافت سے متاثر ہوگئيں

ازدواج

حضرت خديجہ کي زندگي ميں برجستہ و درخشندہ ترين پھلو آپ کي حضرت رسالت مآب کے ساتھ ازدواج کي داستان ہے ـجيسا کہ سابقہ ذکر ہوا کہ ”حضرت خديجہ کي تجارت عرب کے ا طراف واکناف ميں پھيلي ہوئي تھي اور آپ کي دولت کا شھرہ تھا “ چنانچہ اس بنا پر قريش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد چندين بار پيغام ازدواج پيش کرچکے تھے ،ليکن جنکو زمانہ جاھليت ميں ”طاھرہ“کھا جاتاتھا (۱۵)اپني پاکدامني اور عفت کي بنا پر سب کو جواب دے چکي تھيں ـحضرت جعفر مرتضيٰ عاملي تحرير فرماتے ہيں ”ولقد کانت خديجه عليها السلام من خيرة النساء القريش شرفا واکثر هن مالا واحسنهن جمالا ويقال لها سيدةالقريش وکل قومها کان حريصا ًعلي الاقتران بها لو يقدر عليها (۱۶)الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج۲/ص۱۰۷)

”حضرت خديجہ قريش کي عورتوں ميں شرف و فضيلت ،دولت وثروت اور حسن وجمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالاتھيں اور آپ کو سيدہ قريش کھا جاتا تھا اور آپ کي قوم کا ہر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواھاں تھا“

حضرت خديجہ کو حبالئہ عقد ميں لانے کے متمني افراد ميں ”عقبہ ابن ابي معيط “”صلت ابن ابي يعاب “”ابوجھل “اور ”ابو سفيان “جيسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اورباحيثيت لوگوں ميں شمار کياجاتاتھا (۱۷)ليکن حضرت خديجہ باوجود يکہ اپني خانداني اصالت ونجابت اورذاتي مال وثروت کي بناپر بے شمار ايسے افراد سے گھري ہوئي تھيں جو آپ سے ازدواج کے متمني اوربڑے بڑے مھرديکر اس رشتے کے قيام کوممکن بنانے کيلئے ہمہ وقت آمادہ تھے ہميشہ ازدواج سے کنارہ کشي کرتي رہتي تھيں ـکسي شريف اورصاحب کردار شخص کي تلاش ميں آپ کاوجود صحراء حيات ميں حيران وسرگرداں تھاـايسے عالم ميں جب عرب اقوام ميں شرافت وديانت کاخاتمہ ہوچکاتھا،خرافات وانحرافات لوگوں کے دلوں ميں رسوخ کرکے عقيدہ ومذھب کي شکل اختيار کرچکے تھے خود باعظمت زندگي گذارنااوراپنے لئے کسي اپنے ہي جيسے صاحب عزوشرف شوھر کاانتخاب کرناايک اھم اورمشکل مرحلہ تھا ،ايسے ماحول ميں جب صدق وصفاکافقدان تھاآپ کي نگاہ انتخاب رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھھر گئي جن کي صداقت وديانت کاشھرہ تھا،حضرتخديجہ نے کم ظرف صاحبان دولت واقتتدار کے مقابلے ميں اعلي ظرف ،مجسمہ شرافت وديانت اورعظيم کردار کے حامل رسول کو جو بظاھر تنگ دست ،يتيم اوربے سھاراتھے ترجيح دے کر قيامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دياکہ دولت وشھرت اوراقتدار کي شرافت ،عزت اور کردار کے سامنے کوئي حيثيت نھيں ہیالمختصر برسر اقتدار افراد کومايوس کرنے والي ”خديجہ “نے باکمال شوق وعلاقہ ازطرف خود پيغام پيش کرديا (۱۸)اورمھر بھي اپنے مال ميں قراردياجس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمايا”لوگوں گواہ رہنا“”خديجہ “نے خود کومحمدصلي الله عليہ وآلہ وسلم سے منسوب کيااورمھر بھي اپنے مال ميں قرار ديا ہے اس پربعض لوگوں نے ابوطالب عليہ السلام پرطنز کرتے ہوئے کھا ياعجباھ!المھر علي النساء للرجل (تعجب ہے مرد عورت کے مال سے مھر کي ادائيگي کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگي کااظھار کرتے ہوئے غضب کے عالم ميں فرمايا،”اذاکانوا مثل ابن اخي هذاطلبت الرجل باغلي الاثمان وان کانوا امثالکم لم يزوجوا الابالمهر الفالي “ (۱۹)(اگرکوئي مردميرے اس بھتيجے کے مانند ہوگاتوعورت اس کوبڑے بھاري مھر دے کرحاصل کرينگي ليکن اگر وہ تمھاري طرح ہوا تواسکو خود گراں و بھاري مھر ديکر شادي کرناھوگي )ايک دوسري روايت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بيس بکرہ نقل ہوا ہے)خود ادا کياتھا (۲۰)اور ايک روايت کے مطابق آپ کے مھر کي ذمہ داري حضرت علي نے قبول کرلي تھي ،حضرت کي عمر کے سلسلے ميں تمام مورخين کااس پراتفاق ہے کہ حضرت خديجہ سے آپ نے پھلي شادي ۲۵/سال کي عمر ميں کي ليکن خود حضرت خديجہ کي عمر کے بارے ميں کثير اختلاف وارد ہوا ہے چنانچہ۲۵،۲۸،۳۰/اور۴۰سال تک بھت کثرت سے روايات وارد ہوئي ہيں (۲۱)ليکن معروف ترين قول يہ ہے کہ آپ کي عمر شادي کے وقت ۴۰سال تھيـ (۲۲)

آياحضرت خديجہ (ع)رسول سے قبل شادي شدہ تھيں ؟

اس مسئلہ ميں کہ آيارسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد ميں آنے سے قبل حضرت خديجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھي رشتہ مناکحت سے منسلک رہچکي تھيں يانھيں تاريخ کے مختلف اوراق پر متعدد راويوں کے اقوال ميں کثير اختلاف واقع ہوا ہے چنانچہ بعض راويوں کے نزديک رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم سے شادي کرنے سے قبل حضرت خديجہ شادي شدہ تھيں اور سابقہ شوھرو ں سے آپ کي اولاد يں بھي ہوئيں تھيں

تاريخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتيب ”عتيق بن عايذبن عبد اللهفخروي “اور”ابوھالہ تميمي“ھيں (۲۳)اس کے علاوہ خود آنحضرت کے بارے ميں روايت وارد ہوئي ہے کہ ”عائشھ“کے علاوہ آپ نے کسي کنواري خاتون سے شادي نھيں کي تھي (۲۴)ليکن يہ تمام روايات جويہ ثابت کرتي ہيں کہ حضرت خديجہ شادي شدہ تھيں اوررسول سے قبل بھي دوسرے کي شريک حيات رہ چکي تھيں ،دلائل اوردوسري روايات معتبرہ کي روشني ميں صحيح نظرنھيں آتيں ،بلکہ تمام تاريخ کوسياست کے ہاتھوں مسخ کئے جانے کي ناکام کوششوں ميں سے ايک کانتيجہ ہيں ـ

تجزيہ وتحليل

۱)ـابن شھر آشوب کابيان ہے کہ ”مرتضيٰ شامي ميں اورابوجعفرتلخيص ميں رقم طراز ہيں کھ”ان النبي تزوج وکانت عذراء “ (۲۵) نبي نے آپ سے شادي کي درحاليکہ آپ کنواري تھيں “ـ

اس کے علاوہ اسي مطلب کي تائيد اس روايت سے بھي ہوئي ہے جو ثابت کرتي ہے”ان رقيہ وزينب کانتاابتي ہالةاخت خديجہ (۲۶)رقيہ اور زينب خديجہ کي بہن ہالہ کي بيٹياں تھيں (نہ کہ خديجہ کي)ـ

۲)ابوالقاسم کوفي کابيان ہے کہ ”خاص وعام اس بات پر متفق ہيں کہ تمام اشراف سربرآور دہ افراد حضرت خديجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے ليکن خديجہ کے بلند معيار کے سامنے ان کي دولت کي فراواني اورشان وشوکت ہيچ نظر آتي تھي يھي وجہ تھي کہ حضرت خديجہ نے سب کے رشتوں کوٹھکرادياتھاليکن زمانے کي حيرت کي اس وقت کوئي انتھا نہ رہي جب اسي خديجہ نے عرب کے صاحبان مال وزراورفرزندان دولت و اقتدار کوٹھکراکر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کرلياجن کے پاس مال دنياميں سے کچہ نہ تھا اسي لئے قريش کي عورتيں خديجہ سے تحير آميز ناراضگي کااظھار کرتے ہوئے سوال کربيٹھيں کہ اے خديجہ !تو نے شرفاوامراء قريش کوجواب دے ديااورکسي کوبھي خاطر ميں نہ لائي ليکن يتيم ابوطالب کوجو تنگ دست وبے روزگار ہے انتخاب کرليااس روايت سے يہ بات واضح ہوجاتي ہے کہ حضرت خديجہ نے مکہ کے صاحبان دولت وثروت کو رد کردياتھااورکسي سے بھي شادي کرنے پر آمادہ نھيں تھيں ،دوسري طرف اس روايت کي رد سے جوسابقا ذکر ہوئي آپ کے ايک شوھر کانام ”ابوھالہ تميمي “ھے جوبني تميم کاايک اعرابي تھا،عقل انساني اس بات پر متحير ہوجاتي ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئي اشراف کے پيغام کوٹھکرادے اورايک اعرابي کواپنے شريک حيات کے طور پرانتخاب کرلے ،علاوہ برايں اس سے بھي زيادہ تعجب کا مقام يہ ہے کہ خديجہ کے اشراف کونظر انداز کرکے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کو (جو خانداني اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے )انتخاب کرنے پر توقريش کي عورتيں انگشت نمائي کرتي نظر آئيں ليکن ايک اعرابي سے شادي کے خلاف عقل فعل پر، پر سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/۲ص/۱۲۳)اس دليل کي روشني ميں يہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت خديجہ نے رسول سے قبل کوئي شادي نھيں کي تھي اوراگر کي ہوتي توزمانے کے اعتراضات تاريخ ميں محفوظ ہوتےـ

۳)بعض لوگوں نے حضرت خديجہ کے شادي شدہ ہونے پر ا س روايت سے استدلال کيا ہے کھ”راہ اسلام کااولين شھيد حارث بن ابي ہالہ فرزند حضرت خديجہ ہے (۲۷)

مذکورہ بالاروايت کے مقابلے ميں دوسري روايات جن کي سند يں معتبر ہيں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پھلے شھيد کي صورت ميں پيش کرتے ہيں ”ان اول شهيد في الاسلام سميه والده عمار “ (۲۸)(اسلام کي راہ ميں پھلي شھيد ہونے والي سميہ والدہ عمار ہيں )اورابن عباس اورمجاھد کي روايت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتيلين قتلا من المسلمين “ (۲۹)

اسلام کي راہ ميں شھيد ہونے والے پھلے افراد ابوعمار اورام عمار ہيں ـ

ان روايات سے کاملاًردھوتي ہیکہ يہ شخص جسکو حضرت خديجہ کے بيٹے کي حيثيت سے تاريخ کے صفحات پر مرقوم کردياگيا ہے اسلام کي راہ ميں قربان ہونے والاپھلاشھيد تھا،لھذامعلوم نھيں ہے کہ اس شخص کاوجود خارجي تھا بھي يانھيں چہ جائيکہ حضرت خديجہ کافرزند ہوناپائے ثبوت کوپھنچےـ

۴)،روايات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خديجہ کي ايک بہن تھيں جن کانام ’ھالۂتھااس ہالہ کي شادي ايک فخروي شخص کے ساتھ ہوئي جس سے ايک بيٹي پيداھوئي جس کانام ”ھالھ“تھا،پھراس ہالہ اولي (خواھرخديجہ (ع))سے ايک بني تميم سے تعلق رکھنے والے شخص نے شادي کرلي جوابوھند کے نام سے معروف ہیاس تميمي سے ہالہ کے ايک بيٹاپيداھوا جس کانام ہند تھااوراس شخص ابوھند تميمي(شوھر خواھرخديجہ )کي ايک اور بيوي تھي جسکي دوبيٹياں تھيں ’رقيۂاور”زينب“کچہ عرصے کے بعد ابو ہند کي پھلي بيوي جورقيہ اورزينب کي ماں تھي فوت ہوگئي اورپھر کچہ ہي مدت کے بعد ”ابوھند “بھي دنياسے رخصت ہوگيااوراس کابيٹا”ھند “جوھالہ سے تھا اوردوبيٹياں جو اس کي پھلي بيوي سے تھيں جن کا نام تاريخ ،رقيہ اورزينب ذکر کرتي ہے ”خديجہ “کي بہن کے پاس باقي رہ گئے جن ميں سے ہند اپنے باپ کي موت کے بعد اپني قوم بني تميم سے ملحق ہوگيااور”ھالہ “(حضرت خديجہ کي بہن )اوراس کے شوھرکي دونوں بيٹياں حضرت خديجہ کے زير کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ کي شادي کے بعد بھي آپ ہي کے ساتھ رہيں اورآپ ہي کے گھر ميں ديکھاگياتھا اس لئے عرب خيال کرنے لگے کہ يہ خديجہ ہي کي بيٹياں ہيں اورپھر ان کوحضرت سے منسوب کردياگيا ليکن حقيقت امريہ تھي کہ رقيہ اورزينب حضرت خديجہ کي بہن ”ھالہ “کے شوھر کي بيٹياں تھيں (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/۲ص/۱۲۶)

مذکورہ بالادلائل کي روشني ميں يہ بات پائے ثبوت کو پھنچي ہے کہ حضرت خديجہ رسول کے حبالئہ عقد ميں آنے سے قبل غير شادي شدہ تھيں اورآپ کے شوھروں اورفرزندوں کے نام جوتاريخ ميں نظر آتے ہيں ياتوکسي غلط فھمي کانتيجہ ہيں ياسياست کے ہاتھوں عظمت رسول کو کم کرنیکي ايک ناکام کوشش ،مذکورہ دلائل کے علاوہ بھي حلّي اورنقضي جوابات دئے گئے ہيں جو تاريخ کي اس حقيقت سے پردہ اٹھانے والے ہيں ليکن يہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اورروايات کامتحمل نھيں ہوسکتا ہے،آپ کي اولاد ميں حضرت فاطمہ زھرا کے علاوہ کوئي فرزند زندہ نھيں رہاـ

رسول کي بعثت اورحضرت خديجہ کاايمان لانا

حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد عورتوں ميں جس شخصيت نے سب سے پھلے آپ کي تصديق کي اورآپ پر ايمان لائي وہ حضرت خديجہ کي ذات گرامي ہے (۳۰)طبري نے واقدي سے روايت کي ہے کہ ”اجتمع اصحابنا علي ان اول اهل القبلة استجاب لرسول الله خديجه بنت خويلد (۳۱)علماء کااس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کي آواز پر سب سے پھلے لبيک کھنے والي حضرت خديجہ کي ذات گرامي ہے )خود رسول اکرم صلي يللہ ع ليہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ”والله لقد امنت بي اذ کفر الناس واويتني اذ رفضني الناس وصدقتني اذکذبني الناس (۳۲)خداکي قسم وہ (خديجہ )مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ہوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کردياتھااوراس نے ايسے موقع پر ميري تصديق کي جب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے)

حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں :ـلم يجمع بيت واحد يومئيذ في الاسلام غير رسول الله وخديجه واناثالثها (۳۳)وہ ايسا وقت تھاجب روئے زمين پر کوئي مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خديجہ پر مشتمل تھا اور ميں ان ميں کي تيسري فرد تھا )ابن اثير کابيان ہے:ـاول امراء ةتزوجها واول خلق الله اسلم بالاجماع المسلمين لم يتقد مهاوجل ولاامراء ة “ (۳۴)حضرت خديجہ پھلي خاتون ہيں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کيااوراس امر پر بھي مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آپ سے پھلے نہ کوئي مرد ايمان لايا اورنہ کسي عورت نے اسلام قبول کيا)ـ

آنحضرت کي حضرت خديجہ(ع) سے محبت وعقيدت

حضرت خديجہ کي آنحضرت کي نگاہ ميں محبت و عقيدت اورقدرومنزلت کااندازہ اس بات سے لگاياجاسکتا ہے کہ آپکي زندگي ميں آنحضرت نے کسي بھي خاتون کو اپني شريک حيات بناناگوارہ نھيں کيا (۳۵)آپ کے بارے ميں حضرت کاارشاد ہیکہ ”خديجہ اس امت کي بھترين عورتوں ميں سے ايک ہے

(۳۶)آپ کي وفات کے بعد بھي ہميشہ آپ کو ياد فرماتے رہے (۳۷)عائشہ کابيان ہے کہ مجھے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي کسي زوجہ سے اتناحسد نھيں ہواجتناخديجہ سے ہواحالانکہ خديجہ کي وفات مجھ سے قبل ہوچکي تھي اوراس حسد کاسبب يہ تھاکہ آنحضرت آپ کاتذکرہ بھت زيادہ فرماتے تھے (۳۸) چنانچہ يھي سبب ہے کہ دوسر ي جگہ عائشہ سے روايت نقل ہوئي ہے کہ ”ايک روز رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خديجہ کي تعريف فرمارہے تھے مجھے حسد پيداھوااورميں نے عرض کي يارسول اللہ خديجہ ايک ضعيفہ کے علاوہ کچہ بھي نھيں تھي جو مرگئي اورخدانے آپ کواس سے بھتر عطا کردي ہے (عائشہ کااشارہ اپني طرف تھا)رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم يہ سن کرناراض ہوگئے (۳۹)اورغضب کے عالم ميں فرمايا”لاوالله ماابد لني الله خير امنهااٰمنت بي اذکفر الناس وصدقتني اذکذبني الناس وواستني بهالهااذحرمني الناس ورزقني منهاالله ولدادون غيرهامن النساء “(۴۰)خدا کي قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھيں کي وہ مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ہوئے تھے اس نے ميري اس وقت تصديق کي جب لوگ مجھکو جھٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذريعہ ميري اس وقت مدد کي جب لوگوں نے مجھے ہر چيز سے محروم کردياتھا اورخدانے صرف اسي کے ذريعہ مجھے اولاد عطافرمائي اورميري کسي دوسري بيوي کے ذريعہ مجھے صاحب اولاد نھيں کيارسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کي حضرت خديجہ کيلئے محبت اورعقيدت واحترام کااندازہ ہوتا ہے ـخديجہ کالسلام کيلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھي اسلام کي نشرواشاعت کاجذبہ ہي تھاجس نے اسلام کودنياکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوريھي سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کي بشارت ديدي تھي “عائشہ سے مسلم نے روايت نقل کي ہے کہ ”بشر رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بنت خويلد ببيت في الجنة “(حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے خديجہ سلام الله عليھاکو جنت کي بشارت دي تھي )(۴۱)حضرت خديجہ اور ابوطالب رسول کے دو ايسے مدافع تھے جنکي زندگي ميں کفار قريش کي طرف سے آپ کو کوئي گزند نھيں پھنچا ليکن رسول کے يہ دونوں جانثار ايک ہي سال بھت مختصر وقفہ سے يکے بعد ديگرے دنياسے رخصت ہوگئے اورروايات کے مطابق رسول پر دونوں مصيبتيں ہجرت سے تين سال قبل اورشعب ابي طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ہوئيں (۴۲)رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار ديا(۴۳)اوريہ مصيبت رسول کيلئے اتني سخت تھي کہ رسول خانہ نشين ہوگئے اورآپ نے حضرت خديجہ اورابوطالب کي وفات کے بعد باھر نکلنابھت کم کردياتھا(۴۴)ايک روز کسي کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دي رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم اسي حالت ميں گھر ميں داخل ہوئے آپ کي زبان پر يہ کلمات تھے”مانالت مني قريش شيا اکرهه حتي مات ابوطالب “(۴۵) قريش ابوطالب کي زندگي ميں مجھکوکوئي گزند نھيں پھنچا سکے)آپ حضرت ابوطالب اورخديجہ کي زندگي ميں اطمينان سے تبليغ ميں مصروف رہتے تھے ـخديجہ گھر کي چار ديواري ميں اور ابوطالب مکہ کي گليوں ميں آپ کے مدافع تھے

حضرت خديجہ جب تک زندہ رہيں رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اطمينان وسکون کا سبب بني رہيں دن بھر کي تبليغ کے بعد تھک کر چور اورکفار کي ايذارسانيوں سے شکستہ دل ہوجانے والارسول جب بجھے ہوئے دل اورپژمردہ چھرے کے ساتھ گھر ميں قدم رکھتاتو خديجہ کي ايک محبت آميز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ہوئے چھرے کوپھر سے ماہ تمام بنادياکرتي تھي ،خديجہ کي محبتوں کے زير سايہ کشتي اسلام کاناخدا عالمين کيلئے رحمت بنکر دنياکي ايذارسانيوں کو بھلاکر ايک نئے جوش و جذبے اورولولے کے ساتھ ڈوبتے ہوئے ستاروں کاالوداعي سلام اورمشرق سے سرابھارتے ہوئے سورج سے خراج ليتاھواايک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے باھر آتا اورباطل کو لرزہ براندام کرنے والي لاالہ الاالله کي بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے دروديوارہل کررہ جاتے کفارجمع ہوتے رسول پر اذيتوں کي يلغار کرديتے ليکن انسانيت کي نجات اورانسانوں کي اصلاح کاخواب دل ميں سجائے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خوشاآيند مستقبل کے تصور ميں ہر مصيبت کاخندہ پيشاني سے مقابلہ کرتے رہے اورآپ کے اسي صبر وتحمل اورآپ کي پاکدامن زوجہ کے تعاون اورجانثاري سے آج ہم مسلمانان جھان پرچم توحيد کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کوشرمندہ تعبير کرنے کے لئے آپ کے اس آخري جانشين کے انتظار ميں سرگرداں ہيں جوزمين کوعدل وانصاف سے پر کرديگا ـ

حوالےــــــــ

۱ـ صحيح مسلم /۴۴/۷۶/۲۴۳۵، ترمذي کتاب مناقب حديث /۳۹۰۱، کنز العمال ح/ ۱۳/ص/۶۹۳

۲ـ اسد الغابہ ج/۵ ص / ۴۳۸ ، مسلم فضائل صحابہ / ۳۴۳۷ ، البدايہ و النھايہ ج/ ۳ ص / ۱۵۸

۳ـ بحار ج/ ۱۶ ص/ ۱۲ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۹

۴ـ طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص /۸۸

۵ـسيرة ہشام ج/ ۴ ص / ۲۸۱ ، الاصابہ ج / ۴ ص / ۲۸۱،طبري ج / ۳ ص / ۳۳

۶ـالبدايہ و النھايہ ج / ۲ ص / ۲۶۲

۷ـ سيرة حليہ ج / ۱ ص / ۱۳۱ ، طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص / ۸۶ ، حيات النبي و سيرتہ ج / ۱ ص / ۶۰

۸ـ سيرة ہشام ج/ ۱ ص / ۲۵۹

۹ـ البدايہ و النھايہ ج/ ۲ ص / ۳۶۲ ، سيرة ہشام ج / ۱ ص / ۳۳۸

۱۰ـ بحار ج / ۱۶ ص / ۲۲

۱۱ـ البدايہ و النھايہ ج / ۲ ص / ۲۵۸

۱۲ـ البدء و التاريخ ج / ۲ ص / ۴۷

۱۳ـ تاريخ يعقوبي ج / ۱ ص / ۳۷۶

۱۴ـ بدايہ و النھايہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، طبري ج / ۲ ص / ۲۰۴

۱۵ـ الکامل في التاريخ ج/ ۱ ص / ۴۷۲ ، دلائل النبوة ج / ۲ ص / ۶۶

۱۶ـ سيرة حلبيہ ج / ۱ ص / ۱۳۵ ، البدايہ و النھايہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، الکامل في التاريخ ج / ۱ ص / ۴۷۲

۱۷ـ السيرة النبويہ (دحلان ) ج / ۱ ص/ ۹۲

۱۸ـبدايہ والنھايہ ج/ ۲ ص / ۳۵۸، بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲

۱۹ـبحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲

۲۰ـ سيرة حلبيہ ج / ۱ ص /۱۴۰ ، طبري ج/ ۲ ص / ۲۰۵

۲۱ـ الصحيح من سيرة النبي ج / ۲ ص / ۱۱۲ ـ۱۱۳ ، بحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۴

۲۲ـسيرہ ہشام ج / ۱ ص ۲۲۷

۲۳ـالبدايہ و النھايہ ج / ۲ ص / ۳۶۰ ، البدء و التاريخ ج/ ۲ ص / ۴۸

۲۴ـسيرہ حلبيہ ج / ۱ ص /۱۴۰، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ ۲ ص / ۱۱۵

۲۵ـفروغ ابديت ج/ ۱ ص / ۱۹۸

۲۶ـ سيرہ حلبيہ ج / ۱ ص/ ۱۴۰

۲۷ـ طبري ج / ۳ ص / ۳۶

۲۸ـمناقب آل ابيطالب ج / ۱ ص / ۲۰۶ ، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج / ۲ ص / ۱۲۲

۲۹ـمناقب آل ابيطالب ج / ۱ ص / ۲۶

۳۰ـ الاصابہ ج / ۱ ص / ۲۹۳

۳۱ـ الاصابہ ج / ۴ص /۳۳۵ ، اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۸۱ ، حياة النبي ج /۱ ص / ۱۲۱

۳۲ـ الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ ۲ ص ۱۲۵

۳۳ـ الانساب الاشراف ج / ۲ ص / ۲۳ ، الاصابہ ج / ۸ ص /۹۹ ، سيرة ہشام ج / ۱ ص / ۲۷۷، طبري ج/ ۲ ص / ۲۳۲ ـ ۲۲۱

۳۴ـ تاريخ طبري ج / ۲ ص / ۲۳۲

۳۵ـبحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۲ ، اسد الگابہ ج / ۲ ص / ۴۳۹

۳۶ـ نھج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ )

۳۷ـ اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۳۴

۳۸ـ البدء و التاريخ ج / ۲ ص / ۴۸ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۳۶۰

۳۹ـ الاصابہ ج / ۸ ص /۱۰۱ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۱ ، سنن ترمذي کتاب مناقب / ۳

فہرست

حضرت رسول اكرم صلى الله عليه وآله وسلم ۴

آنحضرت کی ولادت باسعادت ۴

آنحضرت کی ولادت کے وقت حیرت انگیزواقعات کاظہور ۴

آپ کی تاریخ ولادت ۵

آپ کی پرورش وپرداخت اورآپ کابچپنا ۵

آپ کی سایہ رحمت مادری سے محرومی ۶

حضرت ابوطالب کوحضرت عبدالمطلب کی وصیت وہدایت ۶

حضرت ابوطالب کے تجارتی سفرشام میں آنحضرت کی ہمراہی اوربحیرئہ راہب کاواقعہ ۶

جناب خدیجہ کے ساتھ آپ کی شادی خانہ آبادی ۷

کوہ حرامیں آنحضرت کی عبادت گذاری ۸

آپ کی بعثت ۸

دعوت ذوالعشیرہ کاواقعہ اوراعلان رسالت ووزارت ۹

حضرت رسول کریم شعب ابی طالب میں (محرم ۷ ء بعثت) ۱۰

آپ کامعجزہ شق القمر( ۹ بعثت ) ۱۲

آنحضرت صلعم کی معراج جسمانی ( ۱۲ ئبعثت) ۱۲

بیعت عقبہ اولی ۱۳

بیعت عقبہ ثانیہ ۱۳ بعثت ۱۳

ہجرت مدینہ ۱۳

تحویل کعبہ ۱۵

تبلیغی خطوط ۱۵

اصحاب کاتاریخی اجتماع اورتبلیغ رسالت کی آخری منزل ۱۵

حضرت علی کی خلافت کااعلان ۱۵

حجة الوداع ۱۶

واقعہ مباہلہ ۱۷

سرورکائنات کے آخری لمحات زندگی ۱۷

واقعہ قرطاس ۱۸

وصیت اوراحتضار ۱۹

رسول کریم کی شہادت ۱۹

وفات اورشہادت کااثر ۲۰

آنحضرت کی شہادت کاسبب ۲۱

ازواج ۲۱

اولاد ۲۱

حضرت علی علیہ السّلام ۲۳

نام ۲۳

القاب ۲۳

کنیت ۲۳

والدین ۲۳

ولادت ۲۳

بچپن ا ور تربیت ۲۴

پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع) ۲۴

رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع) ۲۶

شادی ۲۷

کتابت وحی ۲۸

حضرت علیہ السلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائی ۲۸

. حضرت علی علیہ السلام اور اسلا می جہاد ۲۸

غدیر خم ۲۹

حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں ۳۰

رسول اللہ (ص)کی وفات اور حضرت علی علیہ السلام ۳۰

حضرت علی علیہ السلام کی طاہری خلافت ۳۱

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت ۳۱

حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہا ۳۴

نام،القاب و کنیت ۳۴

والدین ۳۴

ولادت ۳۵

بچپن اور تربیت ۳۵

. حضرت فاطمہ (س) کی شادی ۳۵

حضرت فاطمہ (س) کا اخلاق و کردار ۳۷

حضرت فاطمہ(س) کا نظام عمل ۳۷

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ ۳۸