عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 11%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18625 / ڈاؤنلوڈ: 4541
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

دوسری جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

دوسری جلد سے مربوط خطوط اورمقدمے

* - جلد اول کے مطالعہ کے بعد دانشور مرحوم محمود ابوریہ کے لکھے گئے دو خطوط

* - اس کتاب کی پہلی جلد کے بارے میں ڈاکٹر احسان عباس کا خط

* - دوپیش لفظ

* - مطالعات کا نتیجہ

* - سیف کی روایتوں کے بارے میں بحث کا محرک

دانشور مرحوم جناب ابور یہ کے دو خطوط

مصری دانشور مرحوم کی ایک یاد!

گزشتہ دس برسوں کے دوران مصر کے ایک دانشور اور عالم اسلام کے ایک مشہور عالم و محقق مرحوم شیخ ابور ریہ کے ساتھ میری ایک طویل خط و کتابت رہی ، انہوں نے میرے دو خطوط کا جواب اپنی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں شائع کیا ، میں بھی یادگار کے طور پر مرحوم کی پہلی برسی پر ان کے دو خطوط کو اس کتاب کی ابتداء میں شائع کررہا ہوں ، خدا مرحوم کو اپنی رحمت اور بہشت جاوداں سے نوازے۔

پہلا خط

دانشور استاد جناب سید مرتضیٰ عسکری

سلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

ایک دن آزاد فکر اسلامی علماء و دانشوروں کی ایک میٹینگ میں مفکر دانشوروں اور ان کی سبق آموز اور فائدہ بخش کتابو ں کی بات چھڑگئی، ان میں سے ایک شخص نے آپ کا ذکر کیا اور کہا کہ استاد علامہ عسکری نے ” عبد اللہ بن سبا “ کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ، جو انتہائی عمیق اور حقائق کو واضح کرنے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں انہوں نے علم و تحقیق کے دلدادوں کیلئے چند نظریات پیش کئے ہیں کہ ان سے پہلے کوئی بھی دانشور حقائق تک نہیں پہنچا ہے ، انہوں نے ایسے حقائق واضح کئے ہیں کہ منجمد فکر کے حامل اور مقلّد علما اس قسم کے حقائق کے اظہار کرنے کی جرات نہیں رکھتے ۔

اس کی باتوں نے مجھے اس پر مجبور کیا کہ اس کتاب کو ڈھونڈ کر اس کے جدید علمی مباحث سے استفادہ کروں ، خداوند عالم سے خیر و صلاح کا متمنی ہوں اور اب اس کتاب کے ایک نسخہ کی خود حضرت عالی سے درخواست کرتا ہوں ، امید ہے میری درخواست کو منظور فرما کر اسے ارسال کرکے مجھ پر مہربانی فرمائیں گے ۔ میں آپ کی محبتوں کا شکرگزار ہوں ۔

آپ پر خداوند عالم کا درود اوراس کی رحمت ہو

مخلص

محمود ابوریہ ، مصر ، جیزہ۔

۱۷ محرم ۱۳۸۰ ئھ ۱۱ جنوری ۱۹۶۰ ئئ

مذکورہ خط مرحوم شیخ ابو ریہ کا پہلا خط تھا جو مجھے ملا ، جب میں نے مرحوم کی درخواست کے مطابق انھیں کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی جلد اول تحفہ کے طور پر بھیج دی تو انہوں نے ایک اور خط مجھے لکھا جو حسب ذیل ہے :

دوسرا خط

سرورگرامی و دانشور عالیقدر ، حضرت استاد عسکری

سلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

خداوند متعال آپ کو ہمیشہ خوشحالی ، صحت و سلامتی اور عافیت عطاکرے ، میں بے حد خوشحال ہوں کہ آج مجھے توفیق حاصل ہوئی کہ آپ کی گراں قدر کتاب ” عبداللہ بن سبا “ کو دقت کے ساتھ ایک بار مطالعہ کرنے کے بعد چند جملے آپ کو لکھوں لیکن اس مفید کتاب کا ایک بار پھر مطالعہ کروں گا ، فی الحال آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہو کہ جس بلند اور جدید روش سے آپ نے اس کتاب میں کام لیا ہے وہ ایک بے مثال ، علمی اور اکیڈمک روش ہے جسے آپ سے پہلے کسی نے اس صورت میں انجام نہیں دیا ۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی اس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کیونکہ اس کامیابی اور نعمت کو خداوند عالم نے صرف آپ کے نصیب کیا ہے اور آپ کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ اس قسم کے اہم اور بنیادی موضوع کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ واضح اور قابل قدر تاریخی نتائج حاصل کریں ۔

آپ نے اس بحث و تحقیق کے ذریعہ تاریخ اسلام میں ایسی چیزیں کشف کی ہیں کہ گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران کسی دانشمند کو یہ حقائق کشف کرنے میں توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے اور آپ کی اس بحث کی ایک یورپی دانشور (کہ شائد اس کانام ” ولز‘ ہے) نے تائید کی ہے ، وہ کہتا ہے :

” تاریخ سراپا جھوٹ ہے “ افسوس ہے کہ ” ولز“ کا کہنا تاریخ اسلام کے بارے میں بھی صحیح ثابت ہوتاہے ، کیونکہ ہر زمانے میں نفسانی خواہشات اور اندھے تعصبات نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اپنی صحیح راہ سے ایسے منحرف کرکے رکھ دیا ہے کہ آج مسلمان اس بات کی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس کررہے ہیں کہ تاریخ اسلام اور ان کے دین کے بارے میں گہرائی سے تحقیق و بحث کی جائے ۔

حقیقت میں آپ کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کو اس قسم کی تحقیقات کے بارے میں ایک راھنما شمار کیا جاسکتا ، آپ کو خداوند عالم کا شکر بجالانا چاہئے کہ اس نے اس تحقیقی بحث کو آپ کیلئے محفوظ رکھا ہے اور اسی سے مدد طلب کرکے اپنے لئے منتخب کی گئی راہ و روش میں مستحکم اور مؤثر قدم بڑھائیں ،ا وراس سلسلہ کو جاری رکھیں اور اپنی علمی تحقیقات سے حقائق کو کشف کرنے کے بعد نتائج ملائم و نرم لہجہ میں دوسروں کے سامنے پیش کریں اور فیصلہ قارئین کے ذمہ چھوڑ دیں ، خاص کر ابو بکر ، عمر اور خلافت سے مربوط مسائل کو بیشتر ملائم اور مناسب حالت میں بیان کریں ،کیونکہ ابھی لوگوں کے اذہان اس حد تک آمادہ نہیں ہیں کہ ان کے بارے میں حقائق صاف ا ور واضح الفاظ میں سن کر انھیں قبول کریں ۔

وا لسلام علیکم

خیر اندیش

محمود ابور یہ

مصر، جیزہ ، شارع قرة بن شریک

۲۰ رجب ۱۳۸۰ ئھ ، ۷ نومبر ۱۹۶۱ ئئ

خرطوم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کا خط

میں نے کتاب ” عبد اللہ بن سبا‘ کا مطالعہ ، کیا، ” احادیث سیف بن عمر“ کے موضوع کے تحت آپ نے جو واقعی کو شش کی ہے ، خاص کر جو سیف کی روایتوں اور دوسرے مؤرخین کی روایتوں کے درمیان موازنہ کرکے ان کی مطابقت کی ہے ، اس سے میں ، انتہائی خوش ہوا۔

آپ کی کتاب نے میرے ذہن میں چند سوالا ت پیدا کئے ، جن کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :

۱ ۔ کیا علم رجال کے بعض علماء کی طرف سے سیف کے خلاف حکم جاری کرکے اس کی روایتوں کو ضعیف اورمتروک کہنے پر اکتفاء کرکے اس کی تاریخی روایتوں کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ علم حدیث کے دانشوروں کے پاس حدیث کے راویوں کی پہچان کیلئے خاص معیار موجود ہےکہ جس کے ذریعہ بعض کی تعدیل و توثیق کرتے ہیں کہ اخبار کے راویوں کیلئے یہ اعتراضات کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے ۔ مثلا ” قول بہ قدر‘کا الزام بعض اوقات سبب بنتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں جرح کرکے اس کی حدیث کو مردود قرار دیں ۔ اس قسم کے الزامات ہمارے آج کل کے معیار کے مطابق زیادہ مشکل کا سبب نہیں بن سکتے ہیں ۔

۲ ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان تمام مطالب کو پہلے سے خود ہی گڑھ لیا ہوگا ؟ یعنی ایک پوری تاریخ کو فرضی طور پر لکھا ہوگا؟ اگر آپ کا یہ مفروضہ صحیح ہے توانسان اس وسیع خیال طاقت پر تعجب اور حیرت میں پڑتا ہے !

۳ ۔ سیف نے بعض رودادوں کو مفصل طور پر تالیف کیا ہے اس کی یہ تفصیل نویسی اس کی تیز بینی اور ذرہ بینی کی دلیل ہے جس کا اس نے اہتمام کیا ہے اور دوسروں نے ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے ۔ اسے انہی تفصیلات کی وجہ سے بعض ناموں کے ذکر کرنے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنوں سے نکل کر فراموش ہو گئے تھے اس سلسلہ میں آپ کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں :

آپ بلاذری کی کتاب ”فتوح البلدان “ کو اٹھا کرابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ سے موازنہ کریں ۔ پہلی کتاب عام موضوع پر لکھی گئی ہے اور دوسری کتاب خاص اور صرف مصر کے بارے میں لکھی گئی ہے ۔ کیا ابن عبد الحکیم نے ان تمام چیزوں کو ---- جو آپ کی اور ہماری نظر میں قابل اعتماد ہیں --- لایا ہے جن کے بارے میں بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے ؟ پھر اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ ابن عبد الحکیم کی روایتوں کو بلاذری کی روایتوں سے موازنہ کیا جائے ؟ میرا عقیدہ یہ ہے کہ سیف کی ایسی ہی حالت تھی ، کیونکہ اس کاارادہ تھا کہ ایک مفصل اور جامع کتاب تالیف کرے جس میں تمام رودادوں کو درج کرے اور عام باتوں اور خلاصہ پر اکتفا نہ کرے بلکہ جو کچھ دوسروں کے قلم سے سہواً یا عمداً چھوٹ گیا ہے ان سب چیزوں کو درج کرے ۔ مناسب نہیں ہے کہ صرف سیف کی کتاب کو ابن سعد کی طبقات --- جس کا مقصد اشخاص کے طبقات ، درجے ، اور مراتب لکھنا تھا ---- یا اس کے بعد والی کتابوں جیسے اسد الغابہ اور الاصابہ سے موازنہ کریں ،ہاں ان سے آگاہی پیدا کرے اوریہ اندازہ کرنے کیلئے کہ ان میں سیف کی کس طرح روایتیں نقل ہوئی ہیں اور سلسلہ جاری رہا ہے ۔

میں ہر چیز سے پہلے سیف کی روایتوں کو ---ابو مخنف یا دوسروں کی روایتوں ، جن سے طبری نے روایتیں نقل کی ہیں ---- ترجیح دیتا ہوں تا کہ میرے لئے یہ امر روشن ہوجائے کہ کیا گزرا ہے صرف وہی ہے جس نے ایک موضوع کو نقل کیاہے ، شائد ایسا نہ ہوگا کہ نقل کئے گئے موضوع میں سیف کی تنہائی کا سبب اس کا خیال اور وہم ہوگا یا اس نے چاہا ہوگا کہ ان بزرگوں کا دفاع کرے جن کے دامن پر تاریخ کی رودادوں کی گردِ ملامت بیٹھی ہو۔

۴ ۔ ان مواقع کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے جہاں سیف کی روایتیں دوسروں کی روایتوں سے ہم آہنگ ہیں ؟ کیا اس کے باوجود بھی اسے داستان گھڑھنے والا سمجھتے ہیں ؟ مثلا یہ روایت کہ گمان نہیں کرتا ہوں کہ طبری نے اسے نقل کیا ہوگا :

سیف بن عمر نے عبد الملک ابن جریح ، اس نے نافع سے اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے : میں نے عمر سے کہا کہ اپنے لئے ایک جانشین مقرر کرو ، ورنہ اپنے خدا کو اس وقت کیا جواب دو گے، جب اس سے ملاقات کرو گے ، جبکہ امت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے سرپرست چھوڑ گئے ہوگے ؟

اس نے جواب دیا : اگر میں اپنے لئے جانشین منتخب کروں ، تو میں نے ایسے شخص کا سا عمل کیا ہےجو مجھ سے بہتر تھا اور اس نے اپنے لئے جانشین مقرر کیا ہے (یعنی ابو بکر کہ جس نے اپنے بعد مجھے مقرر کیا) اور اگر کسی کو مقرر نہ کروں تو بھی میں نے اس شخص کا سا عمل کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھا کہ اس کے بقول اس نے اپنے لئے کسی کو جانشین مقرر نہ کیا ہے (اس کا مقصود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جنہوں نے اس کے بقول کسی کو جانشین کے طور پر معین نہ کیا تھا)

یہ عین وہی عبارت ہے جسے ابن ابی بکر نے سیف سے روایت کی ہے اور اگر ابن سعد کی طبقات کی طرف رجوع کریں گے تو اسی روایت کو دوسروں کے ذریعہ ملاحظہ فرمائیں گے (ج ۳/ ص ۳۴۸) ۔

امید کرتا ہوں کہ آپ روایتوں کی چھان بین کرتے ہیں ، مہربانی کرکے بتائیے کہ کیا سیف کی تمام روایتیں مردود ہیں یا ان میں سے بعض کو آپ قبول کرتے ہیں ؟

۵ ۔ آپ نے سیف پر تاریخی واقعات کے سالوں میں تحریف کرنے کی نسبت دی ہے لفظ تحریف کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس نے اس موضوع میں عمداً یہ کام کیا ہے جبکہ تاریخی واقعات میں اختلاف صرف ان سے ہی مخصوص نہیں ہے ، تنہا وہی نہیں تھاکہ تاریخی واقعات میں اختلاف رکھتا ہو ۔ اگر آپ غزوات اور جنگوں کے راویوں ، جیسے موسی بن عقبہ ، ابن شہاب زہری ، واقدی اور ابن اسحاق پر ذر اغور فرمائیں گے تو جنگوں کے سالوں اور لشکر بھیجنے کی تاریخوں کے بارے میں کافی اختلافات مشاہدہ کریں گے اور اگر ذرا سا آگے بڑھ کر تاریخ طبری میں فتح دمشق اور شام کے دیگر شہروں کے بارے میں گوناگوں روایتیں ملاحظہ کریں تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ان اختلافات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد بھی آپ اسی اعتقاد پر قائم رہیں گے کہ سیف نے ان سالوں اور تاریخوں میں عمداً تغیر دے کر تحریف کیا ہے ۔

نمونہ کیلئے طاعون عمواس کے حادثہ کو مد نظر رکھیں ، ابن اسحاق و ابو معشر کہتے ہیں کہ یہ حادثہ ۱۸ ھ ء میں پیش آیا اور سیف کہتا ہے ۱۷ ھء میں پیش آیا ہے ۔ ان اختلافات میں سے بعض اس لئے رونما ہوئے ہیں کہ تاریخ کی ابتداء میں اختلاف تھا، عمر نے ہجرت کی ابتداء کو اول محرم سے حساب کیا ہے جبکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت ربیع الاول میں واقع ہوئی ہے اس بنا پر اگر مورخ کہتا ہے کہ یہ تاریخی روداد ۱۷ ھء میں واقع ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے ۱۸ ھء میں تو یہ ان چند مہینوں کی وجہ سے ہے ، کیونکہ بعض راویوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی حقیقی ہجرت کو تاریخ کی ابتداء قرار دیا ہے اور بعض نے اس زمانے کو قرار دیا ہے کہ عمر نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کوئی موضوع ماہ محرم یا صفر میں واقع ہو ا ہوگا تو ایک آدمی کہہ سکتا ہے ۱۸ ھء میں واقع ہوا ہے اور دوسرا کہہ سکتا ہے ۱۷ ھء کے آخری ماہ میں واقع ہوا ہے ۔

اور اسی طرح سیف کے بعض دوسرے تاریخی اختلافات ہیں جو دوسروں سے مختلف ہیں تاریخ کے ذکر میں اس قسم کے اختلافات کا بدنیتی سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ تحریف کی دلیل نہیں بن سکتے ہیں ، فرض کیجئے اگر سیف ایک مسئلہ میں دوسرے راویوں سے اختلاف بھی رکھتا ہو تو یہ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ اس نے خطا کی ہے ، اور دوسرے صحیح راستہ پر چلے ہیں ہم مجبور ہیں کہ ہر ایک موضوع کی دقیق، تحقیق و تحلیل کریں اور جو بھی صحیح اور زیادہ ترمستحکم ہو اسے قبول کریں ۔

۶ ۔میں چاہتا تھا کہ آپ سیف کی روایتوں میں موجود اسناد و مآخذ جن پر سیف نے تکیہ کیا ہے کی جانچ پڑتال کرتے، تا کہ ہم دیکھتے کہ کیا ان اسناد میں آپ کی نظر میں اشکال موجود ہے یا نہیں اگر ہے تو کس دلیل کی بنا پر ؟ شائد بحث ایک تازہ نتیجہ پر پہنچ جاتی اور آپ کے نقطہ نظر کو تقویت ملتی ۔

یہ تھے وہ چند مسائل جو آپ کی کتاب کے مطالعہ کو مکمل کرنے کے بعد میرے ذہن میں پیدا ہوئے ، اس امید کے ساتھ کہ ہمیں ایک ایسے متحیر سوال کنندہ کی حیثیت سے جان لیں جو حقیقت کی جستجو میں ہے نہ ایک ہٹ دھرم تنقید اور سرزنش کرنے والے کی حیثیت سے ، ہم سب اس چیز کے متمنی ہیں کہ حقیقت تک پہنچ کر قلب ور روح کو مطمئن کریں ۔

والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

مخلص

احسان عباس

۲۴ /۱/ ۱۹۵۷ ئئ

ہمارا جواب جو جواب ہم نے دیا ، وہ حسب ذیل ہے :

آپ کا ۲۴/۱/ ۱۹۵۷ ءء کو لکھا گیا خط ملا ، کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ پر آپ کی تنقید و بحث میرے لئے خوشنودی و مسرت کا سبب بنی ، کیونکہ تنقید ایک ایسی چیز ہے جو مصنف کو اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کے بارے میں اس نے غفلت کی ہو ، تا کہ اسے پورا کرکے اپنی بحث کو اختتام تک پہنچا کر فائدہ حاصل کرسکے آپ نے اس تنقید کے ذریعہ میری اس کوشش میں شرکت کی ہے اور ہماری اس جانچ پڑتال اور علمی تحقیق میں تعاون فرمایا ہے میں آپ جیسے دانشوروں کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں اپنا فریضہ انجام دیا ہے ۔

لیکن ، جوآپ نے چند سوالات کرکے عنایت کی ہے ، اس سلسلے میں عرض ہے:

اولاً: آپ نے سوال کیا ہے کہ کیا سیف کے بارے میں علم حدیث کے دانشوروں کا یہ کہنا کہ وہ ضعیف اور مردود ہے ، ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس کی تاریخی روایتوں کو چھوڑ کر اس پر عمل نہ کریں اور اہل حدیث ----مثلاً کسی ایسے شخص کو جو عقیدہ قدریہ سے مہتم ہو ---ضعیف جان کر اس کی روایتوں پر عمل نہیں کرتے ہیں ؟

ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں : نہیں ، کیونکہ اہل حدیث کی تمام روایتوں کے راوی کو ضعیف ہونے کا الزام نہیں لگاتے ہیں اور انھیں یکبارگی رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ضعیف ہونے کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں اور دقیق نظر ڈالتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی سبب کے بغیر ضعیف کہا گیا ہو تو ان کے نظریہ کی تائید نہ کرتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ، لیکن اگر جرح و تضعیف کی علت بیان کی گئی ہو تو اس علت پر توجہ کرتے ہیں اور اگر ہم درک کر لیتے ہیں کہ مثلاً ان مطالب کو علت قراردیا ہے کہ ” فلاں مرجئہ “ ہے اس لئے اس کی حدیث متروک ہے ”فلاں شیعہ ہے اور اس پر رافضی ہونے کا الزام ہے “ فلاں ضعیف ہے ، کیونکہ خلق قرآن کا قائل ہے یا متروک ہے کیونکہ فلسفیوں کی باتوں کی ترویج کرتا ہے “ اس صورت میں ہم اس قسم کی تضعیفوں پر اعتنا نہیں کرتے ہیں ۔

لیکن اگر ہم دیکھتے ہیں کہ جرح میں اس قسم کے الفاظ کہے گئے ہیں ” جعل کرنے والا ہے “ ایسے افراد سے روایت کرتا ہے جنہیں خود اس نے نہیں د یکھا ہے ، ” حدیث کو گڑھ لیتا ہے اور غیر معروف اشخاص سے ان کی نسبت دیتا ہے “ جبکہ یہ کہنے والا راوی کا ہم عصر یا اس کے عقیدہ کا مخالف نہ ہو اور اس کے بارے میں خود غرضی نہ رکھتا ہے اور مذہب کے سلسلے میں بھی اس سے اختلاف نہ رکھتا ہو ، جیسے اگر ایک اشعری ہو تو دوسرا معتزلی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں دانشور کی بات کو رد نہیں کرسکتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ جرح کی دوسری وجوہات کی وجہ سے اس کے ساتھ اختلاف رکھنے کی بناء پر اس خاص جرح کے سلسلے میں اعتناء نہ کریں ۔

اس بناء پر میں نے علمائے حدیث کے بیان کو سیف بن عمر کے بارے میں نقل کیا ہے اور میں نے اسے قبول کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے :

” وہ حدیث جعل کرتا تھا “ خود حدیث گڑھ لیتا تھا اور اپنی گڑھی ہوئی حدیثوں کو باوثوق راویوں کی زبانی نقل کرتا تھا “ جنہوں نے اس کے بارے میں یہ الفاظ کہے ہیں وہ علمائے حدیث میں سے گوناگون افراد اس کے بعد والی صدیوں کے دوران مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے ، اسکے علاوہ میں نے صرف علمائے حدیث پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ بھی کیاہے اور اسی موازنہ اور تحقیق کانتیجہ یہ تھا کہ میں نے علمائے حدیث کی بات کی سیف کے بارے میں تائید کی ہے ۔

آپ نے اپنے دوسرے سوال میں یہ کہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان سب چیزوں کو خود گڑھ لیا ہوگا ؟

میں کہتا ہوں : اس میں کونسی مشکل ہے ، جبکہ آپ خود جرجی زیدان اور اس کی جعلی داستانوں ، حریری اور اس کے مقامات ، عنترہ ، الف لیلیٰ اور کلیلہ و دمنہ جیسے افسانوں کے لکھنے والوں اور ادبی و اخلاقی ہزار داستانوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ انھیں بعض داستان نویسوں اور ادیبوں نے مختلف ملتوں سے جعل کرکے اپنے زور قلم سے خیالات پر مبنی شخصیتوں اور سورماؤں کو نہ صرف لباس وجود سے آراستہ کیا ہے بلکہ انہیں خلق کیا ہے تو کیا مشکل ہے ہم سیف کو بھی ان جیسا ایک افسانہ ساز جان لیں اور ا س میں کسی قسم کا تعجب ہی نہیں ہے تعجب تو ان تاریخ نویسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے سیف کی داستانوں کو با اعتبار جان کر دوسروں کی صحیح اور سچی روایتوں کو نقل نہ کر کے انھیں چھوڑ دیا ہے جب ہم ان کے اس کام کے بارے میں متوجہ ہوئے تو خود اس کے کام کے بارے میں بھی کوئی تعجب اور حیرت باقی نہیں رہی(۱)

____________________

۱۔ اس کا سبب ہم نے اس سے پہلے اسی کتاب کی آخر میں بیان کیا ہے ۔

تیسرے سوال میں بیان کئے گئے مطلب کے بارے میں خلاصہ حسب ذیل ہے :

سیف نے رودادوں کو مفصل طور پر بیان کیا ہے اور بلاذری نے اجمالی اور خلاصہ کے طورپر ، اس کی روایتوں میں تاریخ کو مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے جیسے ابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ کی روایتوں کے مقابلہ میں بلاذری کی ” فتوح البلدان “ اول الذکر کتاب تاریخ فتوح مصر سے مخصوص ہے اور مؤخر الذکر کتاب تمام تاریخ اور تمام فتوحات کا ذکر کیا ہے ، ایک خاص علاقے کی تاریخ کی بارے میں تالیف کی گئی کتاب میں ناموں کی تفصیل ذکر ہے اور دوسری کتاب میں یہ تفصیل لکھنا بھول گئے ہیں یا ذہن سے تفصیلات محو ہوگئی ہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے اس لحاظ سے بلاذری کی ”فتوح “ کے کام کو ابن عبد الحکیم کے کام سے کیسے قیاس کریں گے !!

میں کہتا ہوں :ان سب فاصلوں اور دوریوں کے باوجود سیف کی ” فتوح “ کو ابن عبدالحکیم کی ”فتوح “ سے موازنہ نہ کرناکیسے جائز ہے ؟!! کیونکہ اولاً ہم دیکھتے ہیں کہ علم حدیث کے دانشوروں نے ابن عبد الحکیم کی ان الفاظ میں تو صیف کی ہے : ” اس میں کسی قسم کی تشویش نہیں ہے ،” وہ سچ بولنے والا ، قابل اعتماد اور علم تاریخ کا دانشور ہے “ اور اس قسم کے دوسرے الفا ظ بیان کئے ہیں اور کوئی اس کے بارے میں اشکال نہیں رکھتا ہے نیز اسے ضعیف نہیں کہا گیا ہے لیکن سیف کا قضیہ اس کے برعکس ہے ، دانشوروں نے اس کی ملامت کی ہے اور اس کی روایتوں کو ضعیف جانا ہے ۔

اس کی ملامت کرنے والوں میں : ابن معین ، ابو حاتم ، ابو داؤد، دار قطنی ، ابن عدی ، ابن حیان برقانی ، ابن عبد البر ، ذہبی ، ابن حجر ، سیوطی ، فیروز آبادی اور زبیدی شامل ہیں ۔

ثانیاً : ان دو اشخاص کی تحریروں میں واضح اور آشکار فرق ہے :

ابن عبد الحکیم ” فتوح مصر “ میں صرف قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے بارے میں لکھتا ہے مؤرخین اسلام نے جو کچھ قبل از اسلام کے بارے میں لکھا ہے اس پر اعتراض نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان کے اکثر تاریخی منابع و مآخذ اسرائیلی تھے بلکہ ان کی تاریخ کے اس حصہ کے بارے میں تحقیق کی جانی چاہئے جو انہوں نے اسلام کے بارے میں لکھا ہے تاریخ کا یہ حصہ کئی گروہوں میں تقسیم ہوتا ہے :

ان میں سے بعض حقیقت گو، مؤرخین نے اپنی تحریروں میں واقعی رودادوں کو لکھا ہے اور ان میں سے بعض نے جذبات کے زیر اثر آکر الٹ پلٹ اور کم و بیش کردیا ہے، ایک گروہ نے ایسا نہیں کیا ہے لیکن اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق جو مورخ سے بھی ہو روایتوں کو دیکھ کر انھیں نقل کیا ہے یہ لوگ بعض اوقات اس مطلوبہ چیز کو ایسے افراد کے پاس پاتے تھے کہ وہ تاریخ نویسی میں امین نہیں تھے اور روایتوں میں کم و زیادتی کرتے تھے اس حالت کو جانے کے باوجود بھی اس گروہ سے نقل کرتے تھے

ایک اور گروہ کے افراد غفلت کی وجہ سے ان سے نقل کرتے تھے اور اگر ہم تاریخ ابن عبد الحکیم کی تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ حدیث کے علماء نے اس کے بارے میں حقیقی گواہی دی ہے کیونکہ وہ تاریخ لکھنے میں حقیقت کا متلاشی تھا اور فتوح مصر میں جو کچھ حقیقت میں گزرا تھا اسے لکھا ہے اگر ہم اس کی کتاب کو بلاذری کی کتاب کے ساتھ موازنہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اجمال اور تفصیل کے درمیان ہے لیکن سیف بن عمر کے حالت ایسی نہیں ہے جس پر ہم نے اس کی نکتہ چینی کی ہے اور کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں اس پر اعتراض کیا ہے وہ دو قسم پر مشتمل ہے :

پہلی قسم : تحریف اور جابجا کر دیا ہے ، جیسے کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے ، خبر دی گئی کہ ابو بکر لوگوں سے بیعت لینے کیلئے مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں تو بغیر عبا قبا کے حضرت صرف ایک کرتا پہن کر مسجد کی جانب روانہ ہو گئے تا کہ ابو بکر کی بیعت کرنے میں پیچھے نہ رہیں اس طرح آکر ان کی بیعت کی اس کے بعد بیٹھ گئے اور کسی کو بھیجا تا کہ ان کا لباس لے آئے پھر لباس پہن کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔

جبکہ طبری اس داستان کو دوسری جگہ پر عائشہ سے یوں نقل کرتا ہے : کہ علی اور بنی ہاشم نے چھ مہینہ تک بیعت نہیں کی ، یہاں تک کہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیھا) دنیا سے رحلت کرگئیں(۱) ہم اسی روایت کو صحیح بخاری ، مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں سیف کی روایت کے برعکس پاتے ہیں ۔ بالکل یہی قضیہ سعد بن عبادہ کی بیعت کے بارے میں بھی ہے اسی طرح خالد بن سعید اموی کی بیعت سے انکار کے بارے میں جو کچھ کہا ہے(۲)

”حواب“(۳) کے کتوں کے بھونکنے کی داستان میں بجائے ام المؤمنین ام زمل کا نام لیتا ہے ۔ اس طرح جو کچھ اس نے مغیرہ بن شعبہ(۴) کے زنا کے بارے میں کہاہے۔

____________________

۱۔ ملاحظہ ہو کتاب عبدا للہ بن سبا (فارسی) صفحہ۷۶ و ۱۱۲۔

۲۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۷۶ پر سیف کی روایت اور ۲۵(۱) پر روایت غیر سیف۔

۳۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۳۰ بہ روایت سیف اور ۲۵ پر روایت غیر سیف۔

۴۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۶۷ سیف کی روایت اور ۶۸ پر روایت غیر سیف۔

ان تمام مواقع پر جہاں طبری نے سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں کو نقل کیا ہے اسی جگہ سیف کی تحریف شدہ روایتوں کو بھی نقل کیا ہے ۔

دوسری قسم : من جملہ مواقع جن پر ہم سیف کی نکتہ چینی کرتے ہیں ، وہ داستانیں ہیں جنہیں سیف نے جھوٹ پر مبنی گڑھ لیا ہے اور انھیں تاریخ اسلام میں داخل کیا ہے، ان داستانوں کو اس سے پہلے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے یا اگر اصل داستان سچی تھی تو اس نے اس پر بہت سے مطالب کا اضافہ کیا ہے ۔

من جملہ مطالب کے داستان علاء بن حضرمی ہے جس میں سیف نے ذکرکیا ہے کہ ” دھنا “ کے صحرا میں اس کیلئے پانی جاری ہوا ، اس کے لشکر نے گھوڑے ، اونٹ ، خچر ، گدھے ، سوار اور پیادہ سب کے ساتھ سمندر کو عبور کیا جبکہ اس کی مسافت کشتی کے ذریعہ ایک دن اورایک رات کے فاصلہ کے برابر تھی اور لکھتا ہے کہ خدا نے چار پاؤں کے سموں کے نیچے نرم ریت اُگا دی کہ صرف حیوانوں کے سم پانی کی نیچے جاتے تھے اور اس طرح انہوں نے اس سمندر کو عبور کیا ۔

اور اس افسانہ کے آخر میں بیان کرتا ہے کہ راہب ہجری مسلمان ہوا اور ابوبکر نے اس کے اسلام لانے کے بارے میں صحابہ کو بشارت دی تھی(۱) اور اباقر کے دن گائے کا سعد کے لشکریوں میں سے عاصم بن عمر سے گفتگو کرنا(۲)

____________________

۱۔ عبد اللہ بن سبا ،(فارسی) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳)

۲۔ عبد اللہ بن سبا، (فارسی) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳)

اور روز جراثیم کا ایک اور افسانہ کہ سپاہیوں کا دجلہ سے عبور کرنا ، اگر کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا تو اس کے سموں کے نیچے ریت کا ٹیلہ پیدا ہوجاتا تھا اور اس پر گھوڑا ایسے تھکاوٹ دور کرتا تھا جیسے کہ وہ زمین پر کھڑا ہو۔(۱)

من جملہ ان کے وہ مطالب ہیں جنہیں سیف دو بھائی قعقاع اور عاصم کے بارے میں نقل کرتا ہے(۲) یا وہ باتیں جو اس نے عثیم(۳) نامی جنّی صحابی کی داستان میں کہی ہیں اس کے علاوہ بکیر کے اطلال نامی گھوڑے کی باتیں کرنا جب بکیر نے اپنے گھوڑے کو چابک کرکے چھلانگ لگانے کو کہا تو گھوڑے نے جواب میں کہا: ” سورہ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگائی “ اسی طرح اس کے دوسرے افسانے(۴)

من جملہ مواقع جن میں سیف نے بے حد مبالغہ گوئی کی ہے اور کافی مقدار میں اصل قضیہ میں اضافہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس نے کہا ہے کہ اسلامی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے دشمنوں کو قتل کر ڈالا ہے اس سلسلہ میں اس نے کہا ہے کہ خالد نے تین دن اورتین رات کے اندر اتنے دشمنوں کے سر قلم کئے کہ خون کی ندی جاری ہوگئی ۵ یہ سیف کی ان مبالغہ آمیزیوں کے علاوہ ہے جو اس نے اپنے نفسانی خواہشات کے تحفظ میں انجام دئیے ہیں ۔

____________________

۱۔ عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) ص ۲۰۱ ۔ ۲۰۲

۲۔ان دوافراد کی زندگی کے حالات کتاب ”خمسون و ماة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو ۔

۳۔ ”خمسون و ماة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو

۴۔”خمسون و ماة صحابی مختلق“ میں قعقاع کے حالات ملاحظہ ہوں

۵۔”خمسون و ماة صحابی مختلق“ (فارسی) اور اسی کتاب ج(۲) میں فصل ” انتشار اسلام بالسیف “ میں پر ملاحظہ ہو

پہلی حدیث(١) :

رسول کے قرابتداروں کی مودت ہی اجر رسالت ہے

اخرج سعید بن منصور فی سننہ ، عن سعید بن جبیر، فی قولہ تعالی :

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قال:قربی رسول اﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

سعید بن منصور (٢)نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر (٣)سے آیۂ مودت:

( قل لااسئلکم علیه اجراًالاالمودة فی القربی )

(اے رسول !تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت )کا اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا)(٤)کی تفسیرمیں نقل کیا ہے کہ'' القربی'' سے مراد؛رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار ہیں ۔(٥)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کی اصطلاح میں قول ، فعل اورتقریر رسول کو حدیث کہا جاتا ہے ، اسی طرح رسول کے خَلقی اور خُلقی اوصاف نیز صحابہ اور تابعین کے کلام کو بھی اہل سنت کے یہاں حدیث کہا گیا ہے

ڈاکٹرنورالدین عتر؛ منہج النقد،ص ٢٧۔ دکتر صبحی الصالح؛علوم الحدیث ومصطلحہ،ص ٤٢٦۔

لیکن شیعہ علماء کی اصطلاح میں حدیث وہ کلام ہے جو معصوم کے فعل ، قول اور تقریرکی حکایت کرے

سید حسن الصدر الکاظمی ؛نہایة الد رایة،ص٨٠۔شیخ عبد اﷲ مامقانی ؛مقباس الہدایہ فی علم الدرایة جلد١،ص٥٩۔

(٢)ابو عثمان سعید بن منصور بن شعبہ ٔ خراسانی یا طالقانی؛ آپ جوزجان میں متولد ہوئے، اور بلخ میں پرورش پائی،اور آپ نے دیگر ممالک کی طرف متعددسفر کیا ، آخر کار مکہ میں سکونت اختیار کی ،اور یہیں ٢٢٧ ھ میں وفات پائی ،امام مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ، ان سے مروی احادیث کتب صحاح ستہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٤١٧،٤١٦۔ تاریخ البخاری ،جلد ٢ ، ص ٤٧٢۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٦٨۔ مختصر تاریخ دمشق ،جلد ٦، ص ١٧٥۔تہذیب التہذیب جلد ٣ ، ص ٨٩ ، ٩٠.

(٣)ابو محمد سعید بن جبیر بن ہشام اسدی والبی؛آپ ٤٦ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٩٥ھ میں ٤٩ سال کے سن میں حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں قتل ہوئے،آپ کی شہادت کے بعد ابن جبیر نے عبد اﷲ بن عباس اور عبد اﷲ بن عمر کی شاگردی اختیار کی ، یہ جملہ تابعین میں بہت ہی بلند پایہ کے عالم دین شمار کئے جاتے ہیں ، اور انھیںتفسیر قرآن لکھنے والے گروہ میں قدیم ترین مفسر قرآن مانا جاتا ہے، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٧٧،٧٦۔ طبقات ابن سعد جلد ٦،ص٢٦٧،٢٥٦۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٩۔تہذیب التہذیب جلد ٤ ، ص١٤،١١.

(٤) سورہ ٔ شوری آیت ٢٣

(٥)مذکورہ حدیث کو درج ذیل علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے:

سیوطی ؛ تفسیردر منثور ج ٦ ، ص٧.حسکانی ؛ شواہد التنزیل جلد٢، ص ١٤٥. حاکم؛مستدرک الصحیحین جلد٣ ، ص ١٧٢. ابن حجر ؛ صواعق محرقة ص ١٣٦۔ طبری ؛ ذخائر العقبی ص٩۔

دوسری حدیث :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار کون لو گ ہیں ؟

اخرج ابن المنذر،و ابن ابی حاتم،و ابن مَرْدَوَیْه ، فی تفاسیرهم ، والطبرانی فی المعجم الکبیر ، عن ابن عباس ؛لما نزلت هذه الآیة :( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قالوا : یا رسول اﷲ! من قرابتک هولاء الذین وجبت علینا مودتُهم ؟ قال:(( علی وفاطمة وولداهما))

ترجمہ:۔ابن منذر (١)ابن ابی حاتم (٢)اور ابن مردویہ (٣)نے اپنی تفاسیر میں اور طبرانی (٤)نے اپنی کتاب'' المعجم الکبیر ''میں ابن عباس (٥)سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت:

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )

نازل ہوئی تولوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : یا رسول اﷲ ! آپ کے وہ قرابتدار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے؟

تورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، (٦)فاطمہ (٧) اور ان کے دونوں بیٹے ( امام حسن اور امام حسین ) ہیں۔ (٨)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) ابو بکر محمد بن ابراہیم ابن منذر نیشاپوری ؛ آپ بہت بڑے حافظ ، فقیہ ، مجتہد اور مسجد الحرام کے پیش اما م تھے، آپ کی مشہور کتابیں : المبسوط فی الفقیہ ،الاشراف فی اختلاف العلماء اور کتاب الاجماع ہیں،آپ ٢٤٣ ھ میں متولد ہوئے اور ٣١٨ ھ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ،آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٧٨٣ ، ٧٨٢۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢، ص ١٠٨ ، ١٠٢ ۔ کتاب الاعلام جلد ٦ ، ص ١٨٤۔شذرات الذہب جلد٢، ص ٢٨٠۔

(٢)ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم محمدبن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی؛

آپ ٢٤٠ھ میں شہر''رَےْ '' میں پیدا ہوئے اور ٣٢٧ ھ میں اسی شہر میںدنیا سے گزر گئے ، آپ کا اپنے زمانے کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ،اور آ پ نے علم حدیث کو اپنے وا لد محترم اور فن جرح وتعدیل کے ماہر جناب ابو ذرعہ جیسے اساتذہ سے سیکھا ، اسی طرح آپ کا شمار علم قرائت کے مشہور علماء میں ہوتا تھا ، علم دین کی تلاش میں آپ نے مکہ ، دمشق ،مصر، اصفہان اور دیگر شہروں کی جانب متعدد سفر کئے ،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد٢ ، ص٨٣٢ ، ٨٢٩۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢،ص ٣٢٨، ٣٢٤ ۔شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ فوات الوفیات جلد١ ص ٥٤٣ ، ٥٤٢۔ طبقات الحنابلہ جلد ٢، ص ٥٥۔ لسان المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢ ، ٤٣٣۔

المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢۔ مرآة الجنان جلد ٣، ص ٢٨٩۔

(٣)ابو بکر بن ا حمد موسی بن مردویہ بن فورک اصفہانی؛ آپ ہی تفسیر ابن مردویہ،تاریخ ابن مردویہ ''و چند دیگر کتابوں کے مؤ لف ہیں،آپ کا شمار اپنے معاصر محدثین، مؤرخین ، مفسرین اور علم جغرافیہ کے جاننے والوں میںہوتا ہے ، آ پکی پیدائش ٣٢٤ ھ میں اور وفات ٤١٠ ھ میں ہوئی،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢، ص ١٠٥١۔١٠٥٠۔ اخبار اصفہان جلد ١، ص ١٦٨۔ المنتظم جلد ٣، ص ٢٩٤۔

(٤)ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر لخمی شامی طبرانی ؛ آپ ٢٦٠ ھ میں شہر عکا میں متولد ہوئے ، اور سوسال کی عمر میں ٣٦٠ ھ میں شہر اصفہان میں انتقال کرگئے، آپ نے حدیث رسول کی تلاش میں حجاز ، یمن ، ایران اور الجزیرہ وغیرہ کے متعدد سفرکئے ، آپ کی اہم کتابیں یہ ہیں :المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ جلد ٣، ص ٩١٨،٩١٢۔ ذکراخبار اصفہان جلد ١، ص ٣٢٥۔ میزان الاعتدال جلد ٢، ص ١٩٠ ۔ النجوم الزاہرة جلد٤، ص ٥٩۔الاعلام جلد ٣، ص ١٨١۔ لسان المیزان جلد ٢، ص٧٤۔

(٥)ابو العباس عبد اﷲ بن عباس بن عبد المطلب قرشی ہاشمی؛ آپ حبر امت، جلیل القدر صحابی تھے ،آپ ہجرت کے تین سال پہلے دنیا میں آئے ، رسول اسلام نے دعا فرمائی تھی کہ خدا ان کو دین اسلام کا فقیہ قرار دے ، اور علم تاویل عطا فرمائے ، صحاح ستہ کے مؤلفین نے سولہ سو ساٹھ ]١٦٦٠[ حدیثیں اپنی کتب صحاح میں ان سے نقل کی ہیں ، موصوف نے جنگ صفین اور جنگ جمل میں حضرت علی ـ کی طرف سے شرکت کی تھی ، اور واحدی کے قول کے مطابق آپ کی وفات ٧٢ سال کی عمر میں ٦٨ ھ میں شہر طائف میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

وفیات الاعیان جلد ٣، ص ٦٣ ، ٦٢۔ الاصابة جلد٤ ، ص ٩٤ ،٩٠ ۔ جوامع السیرة ص ٢٧٦۔ تذکرة الحفاظ جلد ١، ص ٤٢٥۔ العقد الثمین جلد ٥، ص١٩٠۔ نکت الہمیان ص ١٨٠ ۔ تاریخ دمشق جلد٦، ص ٢٦٠۔ الاعلام ج ٤، ص ٢٢٨۔ لسان المیزان جلد ٣ ص ٧٣۔

(٦)ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب(ع)؛ آپ کی ولادت بعثت سے دس سال قبل مکہ میں ہوئی، اور آغوش رسالت میں پرورش پائی،کتاب'' الاصابہ'' میں ابن حجر کے قول کے مطابق آپ ہی پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،(اظہار اسلام کیا )آپ نے سوائے جنگ تبوک کے اسلام کی تما م مشہور جنگوں میں شرکت فرمائی، کیونکہ اس جنگ میں آپ مدینہ میں رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام پذیر رہے ، آپ کے بیشمارفضائل ہیں ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:

جتنے فضائل و مناقب علی ـکے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوئے ہیں اس مقدار میں کسی بھی صحابی کیلئے نقل نہیں ہوئے ہیں،آپ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ میں ہوئی، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

الاصابة جلد ٤، ص ٢٧١، ٢٦٩۔ تذکرة الحفاظ جلد١ ، ص ١٢ ، ١٠۔ حلیة الاولیاء جلد ١، ص ٧٨، ٦١۔ الاستیعاب جلد ٢ص ٤٦١۔ اسد الغابة جلد ٤، ص ٢٩٢۔

(٧) آپ ہی سیدة نساء العالمین ، حسنین کی مادر گرامی ، جناب خدیجہ کی لخت جگراوررسول اسلام کی دختر نیک اختر ہیں،آپ خدا کے نبی کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھیں ،آپ کی ذات سے رسول کی نسل چلی ، بعض اقوال کی بنا پر آپ کی ولادت با سعادت ؛ ٢٠ جمادی الثانیہ بروز جمعہ،بعثت سے دوسال قبل شہر مکہ میں ہوئی ، البتہ شیخ کلینی اور ابن شہر آشوب نے شہزادی کی تاریخ ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرمائی ہے، اور یہی مشہور بھی ہے ، اور امام جعفر صادق ـ کے نقل کے مطابق آپ کے شہادت ٣ جمادی الثانیہ ١١ ھ میں ہوئی.دیکھئے:

کتاب اعیان الشیة جلد ٢، ص ٣٢٠،٢٧١.

(٨)اس حدیث کو اہل سنت کے مشہورو جلیل القدر علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، چنانچہ حسب ذیل کتابیںدیکھئے:

سیوطی ؛ در منثور جلد٦، ص٧.

( سیوطی نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ).

طبرانی المعجم الکبیر ؛جلد ١ ،ص ١٢٥.(قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری، دمشق سوریہ )

ابن حجرہیثمی ؛ مجمع الزوائد جلد ٩، ص ١١٨۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٥۔

محب الدین طبری کہتے ہیں : اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اپنی اپنی کتاب'' المناقب'' میں نقل کیا ہے.

ابن صباغ مالکی ؛ الفصول المہمةص ٢٩.

ابن صباغ نے بغوی سے مرفوع سند کے ساتھ ابن عباس سے اس حدیث کونقل کیا ہے.

قرطبی ؛ا لجامع لاحکام القرآن جلد١٦، ص ٢٢،٢١.

قرطبی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث میں دو بیٹوں سے مراد رسول اسلام کے دونوں نواسے حسنین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں

تفسیر کشاف جلد ٢، ص ٣٣٩۔ اسعاف الراغبین ص ٢٠٥۔ ارشاد العقل السلیم جلد١، ص ٦٦٥. حلیة الاولیاء جلد ٣ ، ص ٢٠١ ۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ١ ، ص ٢٢٩۔ شواہد التنزیل جلد ٢، ص ٣٠ و ص ١٥٠۔ تفسیر طبری جلد ٢٥ ، ص ١٧۔ تفسیر ابن کثیر جلد ٤ ، ١١٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ نزل الابرار ص ٣١۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨. الغدیر جلد ٣، ص ١٢٧.

تیسری حدیث :

حسنہ سے مراد آل محمد کی محبت ہے

اخرج ابن ابی حاتم،عن ابن عباس فی قوله تعالی:( وَمَنْ یَقْتَرِف حَسَنَةً ) قال : ((المودة لآل محمد )).

ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے اس آیہومن یقترف حسنة :اور جو شخص بھی ایک نیکی حاصل کرے گاہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے )(١)کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آیت میں ''حسنة ''سے مراد آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مودت ہے ۔(٢)

چوتھی حدیث :

ایمان کا دار و مدار آل محمدد کی محبت ومودت پر ہے

اخرج احمد ، والتِّرمذی و صححه ،والنسائی والحاکم ،عن المطلب بن ربیعة ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((واﷲلا یدخل قلب امریء مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

احمد ،(٣)ترمذی (٤)( صحیح سند کے ساتھ )، نسائی (٥)اور حاکم(٦) نے مطلب بن ربیعہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

قسم بخدا کسی بھی مسلم مرد کے دل میںاس وقت تک'' ایمان''(٨) داخل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رضایت اور میری قرابتدار ی کی وجہ سے تم (اہل بیت) کو دوست نہ رکھے ۔ (٩)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)سورہ شوری آیت ٢٣.

(٢)مذکورہ حدیث علمائے اہل سنت کی دیگر کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے ، چنانچہ مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:

سیوطی ؛ تفسیر در منثور جلد ٦ ، ص ٧۔ تفسیر کشاف جلد ٣، ص ٤٦٨۔ الفصول المہمة ص٢٩۔ الجامع لا حکام القرآن جلد ١٦ ،ص ٢٤۔

قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں : اقتراف کے معنی حاصل اور اکتساب کرنے کے ہیں جس کا مادہ قرف بمعنی کسب ہے،اور اقتراف بمعنی اکتساب آیا ہے

الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ الشواہد التنزیل جلد ٢ ،ص ١٤٧۔ فضائل الخمسة ج ٢، ص ٦٧۔

(٣)ابو عبد اﷲ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال ذہلی شیبانی مروزی بغدادی ؛ آپ ١٦٤ھ میں پیدا ہوئے، اور ٧٧ سال گزار کر ٢٤١ھ میں شہر بغداد میں چل بسے ، آپ کو اہل سنت کے فقہی چاروں اماموں میں سے ایک جلیل القدر امام کے طور پر مانا اور پہنچانا جاتاہے ، آپ ایک بلند پایہ کے حافظ اور محدث تھے ،یہاں تک کہ دس لاکھ حدیثیں آ پ کو یاد تھیں، آ پ کی اہم ترین کتاب ''المسند'' ہے، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

شذرات الذہب ، جلد ٢ ، ص ٩٨ ،٩٦. تذکرة الحفاظ ج ٢ ، ص ٤٤٢، ٤٤١.

(٤)ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی ترمذی ؛ آپ جلیل القدر محدث، نابینااور امام بخاری کے خاص شاگرد تھے ،آپ ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٧٩ ھ میں شہر ترمذ میں گزر گئے ، اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، اوردیگر شہروں وغیرہ کا سفر کیا ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٤٣٥ ، ٤٣٣۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٦١٦۔ میزان الاعتدال ج ٣، ص ١١٧۔لباب ابن اثیر ج ١، ص ١٧٤۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص ١٩٣۔ النجوم الزاہرہ ج ٣، ص٧١۔ تہذیب التہذیب ج ٩، ص ٣٨٧۔

(٥)ابوعبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی؛ آپ ٢١٥ ھ میں شہر نسائ(خراسان کا ایک شہر) میں متولد ہوئے ،اور ٣٠٣ ھ میں ٨٨سال کے سن میں فلسطین میں وفات پائی ،کہا جاتا ہے کہ آ پ کے جنازے کو فلسطین سے مکہ لاکر وہاں دفن کیا گیا ، آپ اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، حجاز ، شام اور مصر کے علماء کی خدمت میں گئے، اور ان سے حدیث کے بارے میں کسب فیض کیا ،آ پ کا بزرگ علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ، آپ ایک مدت تک مصر میں قیام پذیر رہے ، اس کے بعد دمشق میں سکونت اختیار کی ، آ پ کی مشہور کتابیں'' السنن اور الخصائص'' ہیں ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

طبقات الشافعیةج ٣، ص ١٦، ١٤۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٢٤١،٢٣٩۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٢٥۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص٢٤۔ تہذیب التہذیب ج١٠، ص٣٦۔

(٦)حاکم ابو عبد اﷲ محمد بن محمد بن حمد ویہ بن نعیم طہمانی نیشاپوری ؛ آپ ٣١٢ھ میں پیدا ہوئے، او ر ٤٠٥ ھ میں وفات ہوئی ، آپ علم کے اشتیاق میں ٢٠ سال کے سن سے ہی عراق چلے گئے تھے، اس کے بعد خراسان اور ماورای النہر سفرکیا ، آپ ایک مدت تک شہر نسا ء کے قاضی رہے ، لیکن بعد میں اس عہدے سے استعفا ء دیدیا ،بہر حال آپ متعدد مرتبہ آل بویہ کی حکومت میں اہم منصب پر فائز رہے، آپ سے دار قطنی ، بیہقی اور دیگر بڑے محدثین نے روایتیں نقل کی ہیں،آپ کی مشہور کتابیں یہ ہیں : مستدرک الصحیحین ،اور المدخل الی العلم الصحیح ،اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ، ص ١٠٤٩، ١٠٤٥۔ وفیات الاعیان ج ٤، ص ٤٠٨۔ اعلام المحدثین ٣٢٤۔

(٧) آپ مطلب بن ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب بن ہاشم ہاشمی یعنی ربیعہ (بن حرث) اور ام الحکم( بنت زبیر بن عبد المطلب) کے بیٹے ہیں ،آپ نے رسول اور علی سے احادیث نقل کی ہیں ، اور جن لوگوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ یہ حضرات ہیں : خود آپ کے بیٹے عبد اﷲ اور عبد بن حرث بن نوفل ہیں ، علمائے انساب نے آپ کو مطلب کے نام سے یاد کیا ہے حالانکہ بعض محدثین آپ کو عبد المطلب کے نام سے جانتے ہیں ، آپ پہلے مدینہ میں پھر شام میں رہنے لگے ، اور یہیں ٦٢ ھ میں وفات پائی ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے:

الاصابة جلد ٤ ، ص١٩١۔ نیز جلد ٦، ص ١٠٤۔ الاستیعاب جلد ٣، ص ٤١٣۔

(٨)مذکورہ حدیث نقل کئے گئے حوالوں کے بعض نسخوں میں کلمہ ایمان نہیں آیا ہے لہٰذا اس صورت میں حدیث کے معنی اس طرح ہوںگے : خدا کسی مسلمان کے دل میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ تم کو خدا کیلئے اور میری قرابت کی خاطر دوست نہ رکھے

(٩) مذکورہ حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی تمام اسناد کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: ایک مرتبہ جناب عبا س یعنی رسول کے چچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: یا رسول اﷲ! کچھ مقامات پر میں نے دیکھا کہ قریش آپس میں باتیں کررہے تھے ،لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ سب خاموش ہوگئے ،یہ سنکر رسول بہت نا راض ہوئے اور فرمایا:

((واﷲ لا یدخل قلب امری مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

المسند جلد ٣، ص٢١٠،حدیث نمبر :١٧٧۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح ج ٣، ص ٣٠٥ ، ٣٠٤۔ باب مناقب عباس ابن عبد المطلب.

(ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے). سیوطی ؛ الدر المنثور ج ٦ ،ص ٧۔(سیوطی نے اس حدیث کو آیہ مودت کے ذیل میں نقل کیا ہے) طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٩ ۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج ٦، ص ٢١٨۔ خطیب تبریزی ؛مشکاة المصابیح ج ٣، ص ٢٥٩ ، ٢٥٨۔

پانچویں حدیث :

اہل بیت کے بارے میں خدا کا لحاظ کرو

اخرج مسلم ، والترمذی والنسائی ،عن زید بن ارقم ؛ ان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:(( اذکرکم اﷲ فی اهل بیتی ))

مسلم (١)، ترمذی اور نسائی نے زید بن ارقم (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے ارشاد فرمایا : اے میری امت والو! میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،(ان کا خیال رکھنا کیونکہ میں قیامت میں تم سے ان کے بارے میں سوال کروں گا اگر تم نے ان سے نیکی کی تو خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہوگی اور اگر تم نے انھیں ستایا تو اس کے عذاب سے ڈرو،اقتباس از احادیث ) (٣)

چھٹی حدیث:

کتاب خدا اور اہل بیت سے تمسک ضروری ہے

اخرج الترمذی و حسنه ، والحاکم ،عن زید بن ارقم ؛قال: قال رسولﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی تارک فیکم ماان تمسکتم به لن تضلوا بعدی ،کتاب اﷲ ، وعترتی اهل بیتی و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیهما))

ترمذی ( حسن سند کے ساتھ)اور حاکم نے زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا:اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور دیکھو !یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز ہر گز جدا نہ ہوںگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگے،(لہٰذااچھی طرح اور خوب سمجھ بوجھ لو! )تم میرے بعد ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ؟ (٤)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) آپ کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری ہے آپ ٢٠٢ھ (یا٢٠٦)میں متولد ہوئے ، او ر ٢٦١ ھ میں (دیہات)نصر آباد ،ضلع نیشاپور میں وفات ہوئی ،آپ نے بغداد کے کئی مرتبہ سفر کئے ، آپ بہت بڑے محدث اور عالم دین تھے ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح (صحیح مسلم )ہے، اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ١٥٠۔طبقات الحنابلہ ص٢٤٦۔ مرآة الجنان ج ٢ ص١٧٤۔ وفیات الاعیان ج٢، ص١١٩۔ تاریخ بغداد ج ٣، ص ١٠٠۔بستان المحدثین ص ١٠٤۔

(٢) زید بن ارقم بن زید انصاری خزرجی؛ ذہبی نے آپ کو بیعت رضوان والوں میں شمار کیا ہے ، موصوف نے تقریباً ١٧ غزووں(جنگوں) میںرسول اسلام کے ساتھ شرکت کی ، اور جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت فرمائی ، او ر ٦٦ ھ میں جناب مختار کے دور حکومت کوفہ میں وفات پائی ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج١، ص ٤٥۔الاصابة ج ٣،ص ٢١۔ الاستیعاب ج ١ص ٥٦٦،٥٧٨۔

(٣)مذکورہ حدیث کو سیوطی نے اس جگہ اختصار کے ساتھ نقل کی ہے، لیکن امام مسلم نے اس حدیث کوتفصیل کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے:

حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیه، قال له حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، رأیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، وسمعت حدیثه،وغزوت معه،و صلیت خلفه، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! ما سمعت من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، قال یابن اخی:واللّٰه لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عهدی،و نسیت بعض الذی أعِی من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا،فلاتکلفونیه ثم قال:قام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه یوما فینا خطیباًبِمائٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰه َو اَثْنیٰ علیه و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ :الَاَ یا ایها الناس! فانما انا بشر یوشک ان یأتِیَ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِک فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُهُماَ کتاَبُ اللّٰه ،فِیْهِ الهُدیٰ وَ النُّورُ فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰهِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ به، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰه وَ رَغَّبَ فِیْهِ، ثم قاَلَ: وَ اَهْلُ بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰه فی اَهْلِ بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰه فیِ اَهْلِ بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰه فِی اَهْلِ بَیْتی ثلَاَثا،فقال له حصین :و من اهل بیته؟ یازید !أَلَیس نسائُه من اهل بیته؟ قال: نسائه من اهل بیته، و لکن اهل بیته من حُرِم الصّدقة بعده ،قال :و من هم؟ قال: هم آلُ عَلی ،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل هٰؤلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم.''

مسلم نے روایت کی ہے کہ یزید بن حیاَّن کہتے ہیں: ایک مرتبہ میںاور حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، اور حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:''اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، کیو نکہ تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیدار سے مشرف ہو چکا ہے، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے فیض حاصل کرچکاہے، اور تونے رسول کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، اس طرح تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، لہٰذا جو تونے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے اسے ہمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کہتے ہیں: اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اور میری عمر گزر چکی ہے، چنانچہ بہت کچھ کلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میںفراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رہا ہوں اسے قبول کرلینا،اور جہاں سکوت کرلوں تو اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کہتے ہیں: ایک روز رسول اسلام مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے، اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمایا: اے لوگو !میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے ،اور مجھے موت سے ہم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی کتاب خدا ہے جو ہدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ہے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رہو، اور اس سے بہرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اہل بیت ہیں ،اور میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے خوف کرنا ،اور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا).

زید نے جب تمام حدیث بیان کردی، تو حصین نے پوچھا: اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ہے؟ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں؟

زید ابن ارقم نے کہا: ہاں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت میں ہیں مگر ان اہل بیت میں نہیں جن کی سفارش رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمارہے ہیں، بلکہ یہ وہ اہل بیت ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے؟

زید بن ارقم نے کہا :وہ اولاد علی ، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ہیں!

حصین نے کہا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے کہا: ہاں.

عرض مترجم: اس حدیث کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ہے، حالانکہ حدیث غدیر کے سینکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم ہیںجو یہ کہتے تھے :''اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ہے، اس کے بعد علی کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا و آقا ہیں، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ، اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ ''

البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے اہل بیت کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ہے، حالانکہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیت سے مراد آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا تھا.

یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے:

مسند احمد بن حنبل ج ٤، ص ٤٦٧ ،٤٦٦۔ کنزالعمال ج ١، ص ١٥٩، ١٥٨۔ سیوطی؛ در منثور ج٦،ص٧۔

(مذکورہ حدیث سیوطی نے اس کتاب میںترمذی اور مسلم سے نقل کی ہے).

اکلیل ص ١٩٠۔ القول الفصل ج ١،ص٤٨٩۔ عین المیزان ص ١٢ فتح البیان ج٧، ص ٢٧٧۔

(٤)مذکورہ حدیث کو ترمذی نے باب مناقب اہل بیت میں نقل کیا ہے ، اور حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث حسن اور غریب ہے

دیکھئے : الجامع الصحیح(ترمذی شریف) ج ٢ ، ص٣٠٨۔

البتہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس ہوئے تو غدیر خم کے مقام پرٹھہر نے کا حکم دیا اور کہا یہاں سائبان لگایا جائے، پھر فرمایا:

کانی قد دعیت فاجبت،انی تارک فیکم الثقلین احدهمااکبر من الآخر کتاب اﷲ ، وعترتی، فانظرواکیف تخلفونی فیهما،و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،ثم قالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ان اﷲ عز وجل مولای و انا مولی کل مومن ،ثم اخذ بید علی فقال:صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''من کنت مولاه فهذاولیه، اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه.

گویا میرے لئے خدا کی طرف سے دعوت ہونے والی ہے جسے مجھے یقیناً قبول کرنا ہوگا،میں تمھارے درمیا ن دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک؛ د وسرے سے اکبر ہے(یعنی ایک ثقل اکبر ہے اور دوسری ثقل اصغر) اوریہ کتاب خدا ہے اور میری عترت ، پس دیکھو کہ تم میرے بعد کیا ان کے ساتھ سلوک کرتے ہو، یعنی ان کا احترام کرتے ہو یا نہیں ؟ یقیناً وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے،اور میرے پاس حوض کوثر پروارد ہونگے،اس وقت فرمایا :بیشک میرا مولااور سر پرست خدا ہے، اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں ، پھر علی ـ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا ولی اور آقا علی ہے اے میرے خدا !تو دوست رکھ اسکو جو علی کو دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : مذکورہ حدیث شرط شیخین(بخاری اور مسلم) کی روشنی میں صحیح ہے

ایک وضاحت :

امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ حدیثوں کونقل کیا ہے،ممکن ہے ایک حدیث ان حضرات کے نزدیک صحت( اور صحیح ہونے)کے شرائط پر نہ اترے لیکن دوسرے محدثین کے نزدیک صحیح ہو ،یا ان کے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو لیکن دوسروں کی نزدیک ضعیف ہو، اور نیز خود ان حضرات کے درمیا ن بھی حدیث کے شرائط صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ مسلم نے احادیث کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے :

١۔ وہ احادیث جن کے راوی اعتقاد کے اعتبارسے درست اور نقل روایت میں متقن ہوں،اور ان کی روایتوں میں نہ کسی قسم کی فاحش غلطی اور نہ ہی ان روایتوں کے اندر کوئی شدید اختلاف پایا جاتاہو

٢۔وہ احادیث جن کے راوی حفظ اور اتقان میں پہلے درجہ تک نہ پہنچیں

٣۔وہ احادیث جن کے راوی اکثر محدثین کے نزدیک کذب بیانی میں متہم ہوں

مسلم نے اپنی کتاب میں مذکورہ تیسرے طبقے سے روایت نقل نہیں کی ہے

امام بخاری کی شرط صحت کے بارے میں حافظ ابو الفضل بن طاہر کہتے ہیں :

احادیث کے تمام راوی موثق ہوں ، اور ان کی وثاقت تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہونے کے ساتھ ان کی سند بھی متصل ہو ، نیز سند مشہور صحابہ میں سے کسی ایک تک منتہی ہوتی ہو

حافظ ابو بکر حازمی کہتے ہیں : شرط صحت بخاری کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے تمام اسناد متصل ہوں ، اور راوی مسلمان اور صادق ہو، اور ان میں کسی طرح کی خیانت اور غش نہ پائی جائے ، اور عادل ، حافظہ قوی اورعقیدہ سالم ہو،نیزہر قسم کے اشتباہات سے دور ہو ں

مزید معلومات کیلئے حسب ذیل کتابیں دیکھئے :

صحیح مسلم ج ١، ص٢ ۔فتح ا لباری شرح صحیح ا لبخاری ج ١، ص٧۔ مترجم.

نسائی نے بھی مذکورہ حدیث کو الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ،اور حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی نقل کیا ہے کہ زید سے جب کسی نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس حدیث کو خود اپنے کانوں سے سنا ہے ؟تو انھوں نے کہا: ایسا کوئی فردنہیں جو اس سائبان کے نیچے ہواور اس نے اس حدیث کو نہ سنا ہو

قارئین کرام !مذکورہ کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج ١،ص ١٥٤۔ذخائر العقبی باب فضائل اہل بیت ۔ مسند احمد بن حنبل ، ج ٣ ، ص ١٧و ج٤ص ٣٦٦۔ سنن بیہقی ج ٢، ص ١٤٨، ج ٧،ص ٣٠ .سنن دارمی ج ٢ ،ص ٤٣١۔ مشکل الآثار ج ٤، ص ٣٦٨۔ اسد الغابة ج ٢، ص ١٢ ۔ مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٠٩و ص ١٤٨۔ مجمع الزوائد جلد ١،ص ١٦٣۔و جلد ١٠، ص ٣٦٣۔ طبقات ابن سعد جلد ٢، ص ٢ ۔ حلیة الاولیاء جلد ١ ،ص٣٥٥۔ تاریخ بغداد جلد ٨، ص ٤٤٢۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ الریاض النضرة جلد٢، ص ١٧٧ ۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ینابیع المودة، ص ٣١۔ مصابیح السنة ص ٢٠٥۔ جامع الاصول جلد١ ،ص ١٨٧۔ المواہب اللدنیة جلد٧، ص ٧۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17