عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 17%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18643 / ڈاؤنلوڈ: 4555
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

دوسری جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

دوسری جلد سے مربوط خطوط اورمقدمے

* - جلد اول کے مطالعہ کے بعد دانشور مرحوم محمود ابوریہ کے لکھے گئے دو خطوط

* - اس کتاب کی پہلی جلد کے بارے میں ڈاکٹر احسان عباس کا خط

* - دوپیش لفظ

* - مطالعات کا نتیجہ

* - سیف کی روایتوں کے بارے میں بحث کا محرک

دانشور مرحوم جناب ابور یہ کے دو خطوط

مصری دانشور مرحوم کی ایک یاد!

گزشتہ دس برسوں کے دوران مصر کے ایک دانشور اور عالم اسلام کے ایک مشہور عالم و محقق مرحوم شیخ ابور ریہ کے ساتھ میری ایک طویل خط و کتابت رہی ، انہوں نے میرے دو خطوط کا جواب اپنی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں شائع کیا ، میں بھی یادگار کے طور پر مرحوم کی پہلی برسی پر ان کے دو خطوط کو اس کتاب کی ابتداء میں شائع کررہا ہوں ، خدا مرحوم کو اپنی رحمت اور بہشت جاوداں سے نوازے۔

پہلا خط

دانشور استاد جناب سید مرتضیٰ عسکری

سلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

ایک دن آزاد فکر اسلامی علماء و دانشوروں کی ایک میٹینگ میں مفکر دانشوروں اور ان کی سبق آموز اور فائدہ بخش کتابو ں کی بات چھڑگئی، ان میں سے ایک شخص نے آپ کا ذکر کیا اور کہا کہ استاد علامہ عسکری نے ” عبد اللہ بن سبا “ کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ، جو انتہائی عمیق اور حقائق کو واضح کرنے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں انہوں نے علم و تحقیق کے دلدادوں کیلئے چند نظریات پیش کئے ہیں کہ ان سے پہلے کوئی بھی دانشور حقائق تک نہیں پہنچا ہے ، انہوں نے ایسے حقائق واضح کئے ہیں کہ منجمد فکر کے حامل اور مقلّد علما اس قسم کے حقائق کے اظہار کرنے کی جرات نہیں رکھتے ۔

اس کی باتوں نے مجھے اس پر مجبور کیا کہ اس کتاب کو ڈھونڈ کر اس کے جدید علمی مباحث سے استفادہ کروں ، خداوند عالم سے خیر و صلاح کا متمنی ہوں اور اب اس کتاب کے ایک نسخہ کی خود حضرت عالی سے درخواست کرتا ہوں ، امید ہے میری درخواست کو منظور فرما کر اسے ارسال کرکے مجھ پر مہربانی فرمائیں گے ۔ میں آپ کی محبتوں کا شکرگزار ہوں ۔

آپ پر خداوند عالم کا درود اوراس کی رحمت ہو

مخلص

محمود ابوریہ ، مصر ، جیزہ۔

۱۷ محرم ۱۳۸۰ ئھ ۱۱ جنوری ۱۹۶۰ ئئ

مذکورہ خط مرحوم شیخ ابو ریہ کا پہلا خط تھا جو مجھے ملا ، جب میں نے مرحوم کی درخواست کے مطابق انھیں کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی جلد اول تحفہ کے طور پر بھیج دی تو انہوں نے ایک اور خط مجھے لکھا جو حسب ذیل ہے :

دوسرا خط

سرورگرامی و دانشور عالیقدر ، حضرت استاد عسکری

سلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

خداوند متعال آپ کو ہمیشہ خوشحالی ، صحت و سلامتی اور عافیت عطاکرے ، میں بے حد خوشحال ہوں کہ آج مجھے توفیق حاصل ہوئی کہ آپ کی گراں قدر کتاب ” عبداللہ بن سبا “ کو دقت کے ساتھ ایک بار مطالعہ کرنے کے بعد چند جملے آپ کو لکھوں لیکن اس مفید کتاب کا ایک بار پھر مطالعہ کروں گا ، فی الحال آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہو کہ جس بلند اور جدید روش سے آپ نے اس کتاب میں کام لیا ہے وہ ایک بے مثال ، علمی اور اکیڈمک روش ہے جسے آپ سے پہلے کسی نے اس صورت میں انجام نہیں دیا ۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی اس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کیونکہ اس کامیابی اور نعمت کو خداوند عالم نے صرف آپ کے نصیب کیا ہے اور آپ کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ اس قسم کے اہم اور بنیادی موضوع کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ واضح اور قابل قدر تاریخی نتائج حاصل کریں ۔

آپ نے اس بحث و تحقیق کے ذریعہ تاریخ اسلام میں ایسی چیزیں کشف کی ہیں کہ گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران کسی دانشمند کو یہ حقائق کشف کرنے میں توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے اور آپ کی اس بحث کی ایک یورپی دانشور (کہ شائد اس کانام ” ولز‘ ہے) نے تائید کی ہے ، وہ کہتا ہے :

” تاریخ سراپا جھوٹ ہے “ افسوس ہے کہ ” ولز“ کا کہنا تاریخ اسلام کے بارے میں بھی صحیح ثابت ہوتاہے ، کیونکہ ہر زمانے میں نفسانی خواہشات اور اندھے تعصبات نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اپنی صحیح راہ سے ایسے منحرف کرکے رکھ دیا ہے کہ آج مسلمان اس بات کی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس کررہے ہیں کہ تاریخ اسلام اور ان کے دین کے بارے میں گہرائی سے تحقیق و بحث کی جائے ۔

حقیقت میں آپ کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کو اس قسم کی تحقیقات کے بارے میں ایک راھنما شمار کیا جاسکتا ، آپ کو خداوند عالم کا شکر بجالانا چاہئے کہ اس نے اس تحقیقی بحث کو آپ کیلئے محفوظ رکھا ہے اور اسی سے مدد طلب کرکے اپنے لئے منتخب کی گئی راہ و روش میں مستحکم اور مؤثر قدم بڑھائیں ،ا وراس سلسلہ کو جاری رکھیں اور اپنی علمی تحقیقات سے حقائق کو کشف کرنے کے بعد نتائج ملائم و نرم لہجہ میں دوسروں کے سامنے پیش کریں اور فیصلہ قارئین کے ذمہ چھوڑ دیں ، خاص کر ابو بکر ، عمر اور خلافت سے مربوط مسائل کو بیشتر ملائم اور مناسب حالت میں بیان کریں ،کیونکہ ابھی لوگوں کے اذہان اس حد تک آمادہ نہیں ہیں کہ ان کے بارے میں حقائق صاف ا ور واضح الفاظ میں سن کر انھیں قبول کریں ۔

وا لسلام علیکم

خیر اندیش

محمود ابور یہ

مصر، جیزہ ، شارع قرة بن شریک

۲۰ رجب ۱۳۸۰ ئھ ، ۷ نومبر ۱۹۶۱ ئئ

خرطوم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کا خط

میں نے کتاب ” عبد اللہ بن سبا‘ کا مطالعہ ، کیا، ” احادیث سیف بن عمر“ کے موضوع کے تحت آپ نے جو واقعی کو شش کی ہے ، خاص کر جو سیف کی روایتوں اور دوسرے مؤرخین کی روایتوں کے درمیان موازنہ کرکے ان کی مطابقت کی ہے ، اس سے میں ، انتہائی خوش ہوا۔

آپ کی کتاب نے میرے ذہن میں چند سوالا ت پیدا کئے ، جن کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :

۱ ۔ کیا علم رجال کے بعض علماء کی طرف سے سیف کے خلاف حکم جاری کرکے اس کی روایتوں کو ضعیف اورمتروک کہنے پر اکتفاء کرکے اس کی تاریخی روایتوں کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ علم حدیث کے دانشوروں کے پاس حدیث کے راویوں کی پہچان کیلئے خاص معیار موجود ہےکہ جس کے ذریعہ بعض کی تعدیل و توثیق کرتے ہیں کہ اخبار کے راویوں کیلئے یہ اعتراضات کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے ۔ مثلا ” قول بہ قدر‘کا الزام بعض اوقات سبب بنتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں جرح کرکے اس کی حدیث کو مردود قرار دیں ۔ اس قسم کے الزامات ہمارے آج کل کے معیار کے مطابق زیادہ مشکل کا سبب نہیں بن سکتے ہیں ۔

۲ ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان تمام مطالب کو پہلے سے خود ہی گڑھ لیا ہوگا ؟ یعنی ایک پوری تاریخ کو فرضی طور پر لکھا ہوگا؟ اگر آپ کا یہ مفروضہ صحیح ہے توانسان اس وسیع خیال طاقت پر تعجب اور حیرت میں پڑتا ہے !

۳ ۔ سیف نے بعض رودادوں کو مفصل طور پر تالیف کیا ہے اس کی یہ تفصیل نویسی اس کی تیز بینی اور ذرہ بینی کی دلیل ہے جس کا اس نے اہتمام کیا ہے اور دوسروں نے ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے ۔ اسے انہی تفصیلات کی وجہ سے بعض ناموں کے ذکر کرنے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنوں سے نکل کر فراموش ہو گئے تھے اس سلسلہ میں آپ کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں :

آپ بلاذری کی کتاب ”فتوح البلدان “ کو اٹھا کرابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ سے موازنہ کریں ۔ پہلی کتاب عام موضوع پر لکھی گئی ہے اور دوسری کتاب خاص اور صرف مصر کے بارے میں لکھی گئی ہے ۔ کیا ابن عبد الحکیم نے ان تمام چیزوں کو ---- جو آپ کی اور ہماری نظر میں قابل اعتماد ہیں --- لایا ہے جن کے بارے میں بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے ؟ پھر اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ ابن عبد الحکیم کی روایتوں کو بلاذری کی روایتوں سے موازنہ کیا جائے ؟ میرا عقیدہ یہ ہے کہ سیف کی ایسی ہی حالت تھی ، کیونکہ اس کاارادہ تھا کہ ایک مفصل اور جامع کتاب تالیف کرے جس میں تمام رودادوں کو درج کرے اور عام باتوں اور خلاصہ پر اکتفا نہ کرے بلکہ جو کچھ دوسروں کے قلم سے سہواً یا عمداً چھوٹ گیا ہے ان سب چیزوں کو درج کرے ۔ مناسب نہیں ہے کہ صرف سیف کی کتاب کو ابن سعد کی طبقات --- جس کا مقصد اشخاص کے طبقات ، درجے ، اور مراتب لکھنا تھا ---- یا اس کے بعد والی کتابوں جیسے اسد الغابہ اور الاصابہ سے موازنہ کریں ،ہاں ان سے آگاہی پیدا کرے اوریہ اندازہ کرنے کیلئے کہ ان میں سیف کی کس طرح روایتیں نقل ہوئی ہیں اور سلسلہ جاری رہا ہے ۔

میں ہر چیز سے پہلے سیف کی روایتوں کو ---ابو مخنف یا دوسروں کی روایتوں ، جن سے طبری نے روایتیں نقل کی ہیں ---- ترجیح دیتا ہوں تا کہ میرے لئے یہ امر روشن ہوجائے کہ کیا گزرا ہے صرف وہی ہے جس نے ایک موضوع کو نقل کیاہے ، شائد ایسا نہ ہوگا کہ نقل کئے گئے موضوع میں سیف کی تنہائی کا سبب اس کا خیال اور وہم ہوگا یا اس نے چاہا ہوگا کہ ان بزرگوں کا دفاع کرے جن کے دامن پر تاریخ کی رودادوں کی گردِ ملامت بیٹھی ہو۔

۴ ۔ ان مواقع کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے جہاں سیف کی روایتیں دوسروں کی روایتوں سے ہم آہنگ ہیں ؟ کیا اس کے باوجود بھی اسے داستان گھڑھنے والا سمجھتے ہیں ؟ مثلا یہ روایت کہ گمان نہیں کرتا ہوں کہ طبری نے اسے نقل کیا ہوگا :

سیف بن عمر نے عبد الملک ابن جریح ، اس نے نافع سے اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے : میں نے عمر سے کہا کہ اپنے لئے ایک جانشین مقرر کرو ، ورنہ اپنے خدا کو اس وقت کیا جواب دو گے، جب اس سے ملاقات کرو گے ، جبکہ امت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے سرپرست چھوڑ گئے ہوگے ؟

اس نے جواب دیا : اگر میں اپنے لئے جانشین منتخب کروں ، تو میں نے ایسے شخص کا سا عمل کیا ہےجو مجھ سے بہتر تھا اور اس نے اپنے لئے جانشین مقرر کیا ہے (یعنی ابو بکر کہ جس نے اپنے بعد مجھے مقرر کیا) اور اگر کسی کو مقرر نہ کروں تو بھی میں نے اس شخص کا سا عمل کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھا کہ اس کے بقول اس نے اپنے لئے کسی کو جانشین مقرر نہ کیا ہے (اس کا مقصود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جنہوں نے اس کے بقول کسی کو جانشین کے طور پر معین نہ کیا تھا)

یہ عین وہی عبارت ہے جسے ابن ابی بکر نے سیف سے روایت کی ہے اور اگر ابن سعد کی طبقات کی طرف رجوع کریں گے تو اسی روایت کو دوسروں کے ذریعہ ملاحظہ فرمائیں گے (ج ۳/ ص ۳۴۸) ۔

امید کرتا ہوں کہ آپ روایتوں کی چھان بین کرتے ہیں ، مہربانی کرکے بتائیے کہ کیا سیف کی تمام روایتیں مردود ہیں یا ان میں سے بعض کو آپ قبول کرتے ہیں ؟

۵ ۔ آپ نے سیف پر تاریخی واقعات کے سالوں میں تحریف کرنے کی نسبت دی ہے لفظ تحریف کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس نے اس موضوع میں عمداً یہ کام کیا ہے جبکہ تاریخی واقعات میں اختلاف صرف ان سے ہی مخصوص نہیں ہے ، تنہا وہی نہیں تھاکہ تاریخی واقعات میں اختلاف رکھتا ہو ۔ اگر آپ غزوات اور جنگوں کے راویوں ، جیسے موسی بن عقبہ ، ابن شہاب زہری ، واقدی اور ابن اسحاق پر ذر اغور فرمائیں گے تو جنگوں کے سالوں اور لشکر بھیجنے کی تاریخوں کے بارے میں کافی اختلافات مشاہدہ کریں گے اور اگر ذرا سا آگے بڑھ کر تاریخ طبری میں فتح دمشق اور شام کے دیگر شہروں کے بارے میں گوناگوں روایتیں ملاحظہ کریں تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ان اختلافات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد بھی آپ اسی اعتقاد پر قائم رہیں گے کہ سیف نے ان سالوں اور تاریخوں میں عمداً تغیر دے کر تحریف کیا ہے ۔

نمونہ کیلئے طاعون عمواس کے حادثہ کو مد نظر رکھیں ، ابن اسحاق و ابو معشر کہتے ہیں کہ یہ حادثہ ۱۸ ھ ء میں پیش آیا اور سیف کہتا ہے ۱۷ ھء میں پیش آیا ہے ۔ ان اختلافات میں سے بعض اس لئے رونما ہوئے ہیں کہ تاریخ کی ابتداء میں اختلاف تھا، عمر نے ہجرت کی ابتداء کو اول محرم سے حساب کیا ہے جبکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت ربیع الاول میں واقع ہوئی ہے اس بنا پر اگر مورخ کہتا ہے کہ یہ تاریخی روداد ۱۷ ھء میں واقع ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے ۱۸ ھء میں تو یہ ان چند مہینوں کی وجہ سے ہے ، کیونکہ بعض راویوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی حقیقی ہجرت کو تاریخ کی ابتداء قرار دیا ہے اور بعض نے اس زمانے کو قرار دیا ہے کہ عمر نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کوئی موضوع ماہ محرم یا صفر میں واقع ہو ا ہوگا تو ایک آدمی کہہ سکتا ہے ۱۸ ھء میں واقع ہوا ہے اور دوسرا کہہ سکتا ہے ۱۷ ھء کے آخری ماہ میں واقع ہوا ہے ۔

اور اسی طرح سیف کے بعض دوسرے تاریخی اختلافات ہیں جو دوسروں سے مختلف ہیں تاریخ کے ذکر میں اس قسم کے اختلافات کا بدنیتی سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ تحریف کی دلیل نہیں بن سکتے ہیں ، فرض کیجئے اگر سیف ایک مسئلہ میں دوسرے راویوں سے اختلاف بھی رکھتا ہو تو یہ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ اس نے خطا کی ہے ، اور دوسرے صحیح راستہ پر چلے ہیں ہم مجبور ہیں کہ ہر ایک موضوع کی دقیق، تحقیق و تحلیل کریں اور جو بھی صحیح اور زیادہ ترمستحکم ہو اسے قبول کریں ۔

۶ ۔میں چاہتا تھا کہ آپ سیف کی روایتوں میں موجود اسناد و مآخذ جن پر سیف نے تکیہ کیا ہے کی جانچ پڑتال کرتے، تا کہ ہم دیکھتے کہ کیا ان اسناد میں آپ کی نظر میں اشکال موجود ہے یا نہیں اگر ہے تو کس دلیل کی بنا پر ؟ شائد بحث ایک تازہ نتیجہ پر پہنچ جاتی اور آپ کے نقطہ نظر کو تقویت ملتی ۔

یہ تھے وہ چند مسائل جو آپ کی کتاب کے مطالعہ کو مکمل کرنے کے بعد میرے ذہن میں پیدا ہوئے ، اس امید کے ساتھ کہ ہمیں ایک ایسے متحیر سوال کنندہ کی حیثیت سے جان لیں جو حقیقت کی جستجو میں ہے نہ ایک ہٹ دھرم تنقید اور سرزنش کرنے والے کی حیثیت سے ، ہم سب اس چیز کے متمنی ہیں کہ حقیقت تک پہنچ کر قلب ور روح کو مطمئن کریں ۔

والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

مخلص

احسان عباس

۲۴ /۱/ ۱۹۵۷ ئئ

ہمارا جواب جو جواب ہم نے دیا ، وہ حسب ذیل ہے :

آپ کا ۲۴/۱/ ۱۹۵۷ ءء کو لکھا گیا خط ملا ، کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ پر آپ کی تنقید و بحث میرے لئے خوشنودی و مسرت کا سبب بنی ، کیونکہ تنقید ایک ایسی چیز ہے جو مصنف کو اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کے بارے میں اس نے غفلت کی ہو ، تا کہ اسے پورا کرکے اپنی بحث کو اختتام تک پہنچا کر فائدہ حاصل کرسکے آپ نے اس تنقید کے ذریعہ میری اس کوشش میں شرکت کی ہے اور ہماری اس جانچ پڑتال اور علمی تحقیق میں تعاون فرمایا ہے میں آپ جیسے دانشوروں کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں اپنا فریضہ انجام دیا ہے ۔

لیکن ، جوآپ نے چند سوالات کرکے عنایت کی ہے ، اس سلسلے میں عرض ہے:

اولاً: آپ نے سوال کیا ہے کہ کیا سیف کے بارے میں علم حدیث کے دانشوروں کا یہ کہنا کہ وہ ضعیف اور مردود ہے ، ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس کی تاریخی روایتوں کو چھوڑ کر اس پر عمل نہ کریں اور اہل حدیث ----مثلاً کسی ایسے شخص کو جو عقیدہ قدریہ سے مہتم ہو ---ضعیف جان کر اس کی روایتوں پر عمل نہیں کرتے ہیں ؟

ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں : نہیں ، کیونکہ اہل حدیث کی تمام روایتوں کے راوی کو ضعیف ہونے کا الزام نہیں لگاتے ہیں اور انھیں یکبارگی رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ضعیف ہونے کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں اور دقیق نظر ڈالتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی سبب کے بغیر ضعیف کہا گیا ہو تو ان کے نظریہ کی تائید نہ کرتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ، لیکن اگر جرح و تضعیف کی علت بیان کی گئی ہو تو اس علت پر توجہ کرتے ہیں اور اگر ہم درک کر لیتے ہیں کہ مثلاً ان مطالب کو علت قراردیا ہے کہ ” فلاں مرجئہ “ ہے اس لئے اس کی حدیث متروک ہے ”فلاں شیعہ ہے اور اس پر رافضی ہونے کا الزام ہے “ فلاں ضعیف ہے ، کیونکہ خلق قرآن کا قائل ہے یا متروک ہے کیونکہ فلسفیوں کی باتوں کی ترویج کرتا ہے “ اس صورت میں ہم اس قسم کی تضعیفوں پر اعتنا نہیں کرتے ہیں ۔

لیکن اگر ہم دیکھتے ہیں کہ جرح میں اس قسم کے الفاظ کہے گئے ہیں ” جعل کرنے والا ہے “ ایسے افراد سے روایت کرتا ہے جنہیں خود اس نے نہیں د یکھا ہے ، ” حدیث کو گڑھ لیتا ہے اور غیر معروف اشخاص سے ان کی نسبت دیتا ہے “ جبکہ یہ کہنے والا راوی کا ہم عصر یا اس کے عقیدہ کا مخالف نہ ہو اور اس کے بارے میں خود غرضی نہ رکھتا ہے اور مذہب کے سلسلے میں بھی اس سے اختلاف نہ رکھتا ہو ، جیسے اگر ایک اشعری ہو تو دوسرا معتزلی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں دانشور کی بات کو رد نہیں کرسکتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ جرح کی دوسری وجوہات کی وجہ سے اس کے ساتھ اختلاف رکھنے کی بناء پر اس خاص جرح کے سلسلے میں اعتناء نہ کریں ۔

اس بناء پر میں نے علمائے حدیث کے بیان کو سیف بن عمر کے بارے میں نقل کیا ہے اور میں نے اسے قبول کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے :

” وہ حدیث جعل کرتا تھا “ خود حدیث گڑھ لیتا تھا اور اپنی گڑھی ہوئی حدیثوں کو باوثوق راویوں کی زبانی نقل کرتا تھا “ جنہوں نے اس کے بارے میں یہ الفاظ کہے ہیں وہ علمائے حدیث میں سے گوناگون افراد اس کے بعد والی صدیوں کے دوران مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے ، اسکے علاوہ میں نے صرف علمائے حدیث پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ بھی کیاہے اور اسی موازنہ اور تحقیق کانتیجہ یہ تھا کہ میں نے علمائے حدیث کی بات کی سیف کے بارے میں تائید کی ہے ۔

آپ نے اپنے دوسرے سوال میں یہ کہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان سب چیزوں کو خود گڑھ لیا ہوگا ؟

میں کہتا ہوں : اس میں کونسی مشکل ہے ، جبکہ آپ خود جرجی زیدان اور اس کی جعلی داستانوں ، حریری اور اس کے مقامات ، عنترہ ، الف لیلیٰ اور کلیلہ و دمنہ جیسے افسانوں کے لکھنے والوں اور ادبی و اخلاقی ہزار داستانوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ انھیں بعض داستان نویسوں اور ادیبوں نے مختلف ملتوں سے جعل کرکے اپنے زور قلم سے خیالات پر مبنی شخصیتوں اور سورماؤں کو نہ صرف لباس وجود سے آراستہ کیا ہے بلکہ انہیں خلق کیا ہے تو کیا مشکل ہے ہم سیف کو بھی ان جیسا ایک افسانہ ساز جان لیں اور ا س میں کسی قسم کا تعجب ہی نہیں ہے تعجب تو ان تاریخ نویسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے سیف کی داستانوں کو با اعتبار جان کر دوسروں کی صحیح اور سچی روایتوں کو نقل نہ کر کے انھیں چھوڑ دیا ہے جب ہم ان کے اس کام کے بارے میں متوجہ ہوئے تو خود اس کے کام کے بارے میں بھی کوئی تعجب اور حیرت باقی نہیں رہی(۱)

____________________

۱۔ اس کا سبب ہم نے اس سے پہلے اسی کتاب کی آخر میں بیان کیا ہے ۔

تیسرے سوال میں بیان کئے گئے مطلب کے بارے میں خلاصہ حسب ذیل ہے :

سیف نے رودادوں کو مفصل طور پر بیان کیا ہے اور بلاذری نے اجمالی اور خلاصہ کے طورپر ، اس کی روایتوں میں تاریخ کو مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے جیسے ابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ کی روایتوں کے مقابلہ میں بلاذری کی ” فتوح البلدان “ اول الذکر کتاب تاریخ فتوح مصر سے مخصوص ہے اور مؤخر الذکر کتاب تمام تاریخ اور تمام فتوحات کا ذکر کیا ہے ، ایک خاص علاقے کی تاریخ کی بارے میں تالیف کی گئی کتاب میں ناموں کی تفصیل ذکر ہے اور دوسری کتاب میں یہ تفصیل لکھنا بھول گئے ہیں یا ذہن سے تفصیلات محو ہوگئی ہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے اس لحاظ سے بلاذری کی ”فتوح “ کے کام کو ابن عبد الحکیم کے کام سے کیسے قیاس کریں گے !!

میں کہتا ہوں :ان سب فاصلوں اور دوریوں کے باوجود سیف کی ” فتوح “ کو ابن عبدالحکیم کی ”فتوح “ سے موازنہ نہ کرناکیسے جائز ہے ؟!! کیونکہ اولاً ہم دیکھتے ہیں کہ علم حدیث کے دانشوروں نے ابن عبد الحکیم کی ان الفاظ میں تو صیف کی ہے : ” اس میں کسی قسم کی تشویش نہیں ہے ،” وہ سچ بولنے والا ، قابل اعتماد اور علم تاریخ کا دانشور ہے “ اور اس قسم کے دوسرے الفا ظ بیان کئے ہیں اور کوئی اس کے بارے میں اشکال نہیں رکھتا ہے نیز اسے ضعیف نہیں کہا گیا ہے لیکن سیف کا قضیہ اس کے برعکس ہے ، دانشوروں نے اس کی ملامت کی ہے اور اس کی روایتوں کو ضعیف جانا ہے ۔

اس کی ملامت کرنے والوں میں : ابن معین ، ابو حاتم ، ابو داؤد، دار قطنی ، ابن عدی ، ابن حیان برقانی ، ابن عبد البر ، ذہبی ، ابن حجر ، سیوطی ، فیروز آبادی اور زبیدی شامل ہیں ۔

ثانیاً : ان دو اشخاص کی تحریروں میں واضح اور آشکار فرق ہے :

ابن عبد الحکیم ” فتوح مصر “ میں صرف قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے بارے میں لکھتا ہے مؤرخین اسلام نے جو کچھ قبل از اسلام کے بارے میں لکھا ہے اس پر اعتراض نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان کے اکثر تاریخی منابع و مآخذ اسرائیلی تھے بلکہ ان کی تاریخ کے اس حصہ کے بارے میں تحقیق کی جانی چاہئے جو انہوں نے اسلام کے بارے میں لکھا ہے تاریخ کا یہ حصہ کئی گروہوں میں تقسیم ہوتا ہے :

ان میں سے بعض حقیقت گو، مؤرخین نے اپنی تحریروں میں واقعی رودادوں کو لکھا ہے اور ان میں سے بعض نے جذبات کے زیر اثر آکر الٹ پلٹ اور کم و بیش کردیا ہے، ایک گروہ نے ایسا نہیں کیا ہے لیکن اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق جو مورخ سے بھی ہو روایتوں کو دیکھ کر انھیں نقل کیا ہے یہ لوگ بعض اوقات اس مطلوبہ چیز کو ایسے افراد کے پاس پاتے تھے کہ وہ تاریخ نویسی میں امین نہیں تھے اور روایتوں میں کم و زیادتی کرتے تھے اس حالت کو جانے کے باوجود بھی اس گروہ سے نقل کرتے تھے

ایک اور گروہ کے افراد غفلت کی وجہ سے ان سے نقل کرتے تھے اور اگر ہم تاریخ ابن عبد الحکیم کی تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ حدیث کے علماء نے اس کے بارے میں حقیقی گواہی دی ہے کیونکہ وہ تاریخ لکھنے میں حقیقت کا متلاشی تھا اور فتوح مصر میں جو کچھ حقیقت میں گزرا تھا اسے لکھا ہے اگر ہم اس کی کتاب کو بلاذری کی کتاب کے ساتھ موازنہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اجمال اور تفصیل کے درمیان ہے لیکن سیف بن عمر کے حالت ایسی نہیں ہے جس پر ہم نے اس کی نکتہ چینی کی ہے اور کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں اس پر اعتراض کیا ہے وہ دو قسم پر مشتمل ہے :

پہلی قسم : تحریف اور جابجا کر دیا ہے ، جیسے کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے ، خبر دی گئی کہ ابو بکر لوگوں سے بیعت لینے کیلئے مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں تو بغیر عبا قبا کے حضرت صرف ایک کرتا پہن کر مسجد کی جانب روانہ ہو گئے تا کہ ابو بکر کی بیعت کرنے میں پیچھے نہ رہیں اس طرح آکر ان کی بیعت کی اس کے بعد بیٹھ گئے اور کسی کو بھیجا تا کہ ان کا لباس لے آئے پھر لباس پہن کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔

جبکہ طبری اس داستان کو دوسری جگہ پر عائشہ سے یوں نقل کرتا ہے : کہ علی اور بنی ہاشم نے چھ مہینہ تک بیعت نہیں کی ، یہاں تک کہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیھا) دنیا سے رحلت کرگئیں(۱) ہم اسی روایت کو صحیح بخاری ، مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں سیف کی روایت کے برعکس پاتے ہیں ۔ بالکل یہی قضیہ سعد بن عبادہ کی بیعت کے بارے میں بھی ہے اسی طرح خالد بن سعید اموی کی بیعت سے انکار کے بارے میں جو کچھ کہا ہے(۲)

”حواب“(۳) کے کتوں کے بھونکنے کی داستان میں بجائے ام المؤمنین ام زمل کا نام لیتا ہے ۔ اس طرح جو کچھ اس نے مغیرہ بن شعبہ(۴) کے زنا کے بارے میں کہاہے۔

____________________

۱۔ ملاحظہ ہو کتاب عبدا للہ بن سبا (فارسی) صفحہ۷۶ و ۱۱۲۔

۲۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۷۶ پر سیف کی روایت اور ۲۵(۱) پر روایت غیر سیف۔

۳۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۳۰ بہ روایت سیف اور ۲۵ پر روایت غیر سیف۔

۴۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۶۷ سیف کی روایت اور ۶۸ پر روایت غیر سیف۔

ان تمام مواقع پر جہاں طبری نے سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں کو نقل کیا ہے اسی جگہ سیف کی تحریف شدہ روایتوں کو بھی نقل کیا ہے ۔

دوسری قسم : من جملہ مواقع جن پر ہم سیف کی نکتہ چینی کرتے ہیں ، وہ داستانیں ہیں جنہیں سیف نے جھوٹ پر مبنی گڑھ لیا ہے اور انھیں تاریخ اسلام میں داخل کیا ہے، ان داستانوں کو اس سے پہلے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے یا اگر اصل داستان سچی تھی تو اس نے اس پر بہت سے مطالب کا اضافہ کیا ہے ۔

من جملہ مطالب کے داستان علاء بن حضرمی ہے جس میں سیف نے ذکرکیا ہے کہ ” دھنا “ کے صحرا میں اس کیلئے پانی جاری ہوا ، اس کے لشکر نے گھوڑے ، اونٹ ، خچر ، گدھے ، سوار اور پیادہ سب کے ساتھ سمندر کو عبور کیا جبکہ اس کی مسافت کشتی کے ذریعہ ایک دن اورایک رات کے فاصلہ کے برابر تھی اور لکھتا ہے کہ خدا نے چار پاؤں کے سموں کے نیچے نرم ریت اُگا دی کہ صرف حیوانوں کے سم پانی کی نیچے جاتے تھے اور اس طرح انہوں نے اس سمندر کو عبور کیا ۔

اور اس افسانہ کے آخر میں بیان کرتا ہے کہ راہب ہجری مسلمان ہوا اور ابوبکر نے اس کے اسلام لانے کے بارے میں صحابہ کو بشارت دی تھی(۱) اور اباقر کے دن گائے کا سعد کے لشکریوں میں سے عاصم بن عمر سے گفتگو کرنا(۲)

____________________

۱۔ عبد اللہ بن سبا ،(فارسی) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳)

۲۔ عبد اللہ بن سبا، (فارسی) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳)

اور روز جراثیم کا ایک اور افسانہ کہ سپاہیوں کا دجلہ سے عبور کرنا ، اگر کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا تو اس کے سموں کے نیچے ریت کا ٹیلہ پیدا ہوجاتا تھا اور اس پر گھوڑا ایسے تھکاوٹ دور کرتا تھا جیسے کہ وہ زمین پر کھڑا ہو۔(۱)

من جملہ ان کے وہ مطالب ہیں جنہیں سیف دو بھائی قعقاع اور عاصم کے بارے میں نقل کرتا ہے(۲) یا وہ باتیں جو اس نے عثیم(۳) نامی جنّی صحابی کی داستان میں کہی ہیں اس کے علاوہ بکیر کے اطلال نامی گھوڑے کی باتیں کرنا جب بکیر نے اپنے گھوڑے کو چابک کرکے چھلانگ لگانے کو کہا تو گھوڑے نے جواب میں کہا: ” سورہ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگائی “ اسی طرح اس کے دوسرے افسانے(۴)

من جملہ مواقع جن میں سیف نے بے حد مبالغہ گوئی کی ہے اور کافی مقدار میں اصل قضیہ میں اضافہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس نے کہا ہے کہ اسلامی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے دشمنوں کو قتل کر ڈالا ہے اس سلسلہ میں اس نے کہا ہے کہ خالد نے تین دن اورتین رات کے اندر اتنے دشمنوں کے سر قلم کئے کہ خون کی ندی جاری ہوگئی ۵ یہ سیف کی ان مبالغہ آمیزیوں کے علاوہ ہے جو اس نے اپنے نفسانی خواہشات کے تحفظ میں انجام دئیے ہیں ۔

____________________

۱۔ عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) ص ۲۰۱ ۔ ۲۰۲

۲۔ان دوافراد کی زندگی کے حالات کتاب ”خمسون و ماة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو ۔

۳۔ ”خمسون و ماة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو

۴۔”خمسون و ماة صحابی مختلق“ میں قعقاع کے حالات ملاحظہ ہوں

۵۔”خمسون و ماة صحابی مختلق“ (فارسی) اور اسی کتاب ج(۲) میں فصل ” انتشار اسلام بالسیف “ میں پر ملاحظہ ہو

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17