عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 17653
ڈاؤنلوڈ: 4156


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17653 / ڈاؤنلوڈ: 4156
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

دوسری جلد

علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم:سید قلبی حسین رضوی

دوسری جلد سے مربوط خطوط اورمقدمے

* - جلد اول کے مطالعہ کے بعد دانشور مرحوم محمود ابوریہ کے لکھے گئے دو خطوط

* - اس کتاب کی پہلی جلد کے بارے میں ڈاکٹر احسان عباس کا خط

* - دوپیش لفظ

* - مطالعات کا نتیجہ

* - سیف کی روایتوں کے بارے میں بحث کا محرک

دانشور مرحوم جناب ابور یہ کے دو خطوط

مصری دانشور مرحوم کی ایک یاد!

گزشتہ دس برسوں کے دوران مصر کے ایک دانشور اور عالم اسلام کے ایک مشہور عالم و محقق مرحوم شیخ ابور ریہ کے ساتھ میری ایک طویل خط و کتابت رہی ، انہوں نے میرے دو خطوط کا جواب اپنی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں شائع کیا ، میں بھی یادگار کے طور پر مرحوم کی پہلی برسی پر ان کے دو خطوط کو اس کتاب کی ابتداء میں شائع کررہا ہوں ، خدا مرحوم کو اپنی رحمت اور بہشت جاوداں سے نوازے۔

پہلا خط

دانشور استاد جناب سید مرتضیٰ عسکری

سلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

ایک دن آزاد فکر اسلامی علماء و دانشوروں کی ایک میٹینگ میں مفکر دانشوروں اور ان کی سبق آموز اور فائدہ بخش کتابو ں کی بات چھڑگئی، ان میں سے ایک شخص نے آپ کا ذکر کیا اور کہا کہ استاد علامہ عسکری نے ” عبد اللہ بن سبا “ کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ، جو انتہائی عمیق اور حقائق کو واضح کرنے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں انہوں نے علم و تحقیق کے دلدادوں کیلئے چند نظریات پیش کئے ہیں کہ ان سے پہلے کوئی بھی دانشور حقائق تک نہیں پہنچا ہے ، انہوں نے ایسے حقائق واضح کئے ہیں کہ منجمد فکر کے حامل اور مقلّد علما اس قسم کے حقائق کے اظہار کرنے کی جرات نہیں رکھتے ۔

اس کی باتوں نے مجھے اس پر مجبور کیا کہ اس کتاب کو ڈھونڈ کر اس کے جدید علمی مباحث سے استفادہ کروں ، خداوند عالم سے خیر و صلاح کا متمنی ہوں اور اب اس کتاب کے ایک نسخہ کی خود حضرت عالی سے درخواست کرتا ہوں ، امید ہے میری درخواست کو منظور فرما کر اسے ارسال کرکے مجھ پر مہربانی فرمائیں گے ۔ میں آپ کی محبتوں کا شکرگزار ہوں ۔

آپ پر خداوند عالم کا درود اوراس کی رحمت ہو

مخلص

محمود ابوریہ ، مصر ، جیزہ۔

۱۷ محرم ۱۳۸۰ ئھ ۱۱ جنوری ۱۹۶۰ ئئ

مذکورہ خط مرحوم شیخ ابو ریہ کا پہلا خط تھا جو مجھے ملا ، جب میں نے مرحوم کی درخواست کے مطابق انھیں کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی جلد اول تحفہ کے طور پر بھیج دی تو انہوں نے ایک اور خط مجھے لکھا جو حسب ذیل ہے :

دوسرا خط

سرورگرامی و دانشور عالیقدر ، حضرت استاد عسکری

سلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

خداوند متعال آپ کو ہمیشہ خوشحالی ، صحت و سلامتی اور عافیت عطاکرے ، میں بے حد خوشحال ہوں کہ آج مجھے توفیق حاصل ہوئی کہ آپ کی گراں قدر کتاب ” عبداللہ بن سبا “ کو دقت کے ساتھ ایک بار مطالعہ کرنے کے بعد چند جملے آپ کو لکھوں لیکن اس مفید کتاب کا ایک بار پھر مطالعہ کروں گا ، فی الحال آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہو کہ جس بلند اور جدید روش سے آپ نے اس کتاب میں کام لیا ہے وہ ایک بے مثال ، علمی اور اکیڈمک روش ہے جسے آپ سے پہلے کسی نے اس صورت میں انجام نہیں دیا ۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی اس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کیونکہ اس کامیابی اور نعمت کو خداوند عالم نے صرف آپ کے نصیب کیا ہے اور آپ کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ اس قسم کے اہم اور بنیادی موضوع کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے یہ واضح اور قابل قدر تاریخی نتائج حاصل کریں ۔

آپ نے اس بحث و تحقیق کے ذریعہ تاریخ اسلام میں ایسی چیزیں کشف کی ہیں کہ گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران کسی دانشمند کو یہ حقائق کشف کرنے میں توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے اور آپ کی اس بحث کی ایک یورپی دانشور (کہ شائد اس کانام ” ولز‘ ہے) نے تائید کی ہے ، وہ کہتا ہے :

” تاریخ سراپا جھوٹ ہے “ افسوس ہے کہ ” ولز“ کا کہنا تاریخ اسلام کے بارے میں بھی صحیح ثابت ہوتاہے ، کیونکہ ہر زمانے میں نفسانی خواہشات اور اندھے تعصبات نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اپنی صحیح راہ سے ایسے منحرف کرکے رکھ دیا ہے کہ آج مسلمان اس بات کی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس کررہے ہیں کہ تاریخ اسلام اور ان کے دین کے بارے میں گہرائی سے تحقیق و بحث کی جائے ۔

حقیقت میں آپ کی کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کو اس قسم کی تحقیقات کے بارے میں ایک راھنما شمار کیا جاسکتا ، آپ کو خداوند عالم کا شکر بجالانا چاہئے کہ اس نے اس تحقیقی بحث کو آپ کیلئے محفوظ رکھا ہے اور اسی سے مدد طلب کرکے اپنے لئے منتخب کی گئی راہ و روش میں مستحکم اور مؤثر قدم بڑھائیں ،ا وراس سلسلہ کو جاری رکھیں اور اپنی علمی تحقیقات سے حقائق کو کشف کرنے کے بعد نتائج ملائم و نرم لہجہ میں دوسروں کے سامنے پیش کریں اور فیصلہ قارئین کے ذمہ چھوڑ دیں ، خاص کر ابو بکر ، عمر اور خلافت سے مربوط مسائل کو بیشتر ملائم اور مناسب حالت میں بیان کریں ،کیونکہ ابھی لوگوں کے اذہان اس حد تک آمادہ نہیں ہیں کہ ان کے بارے میں حقائق صاف ا ور واضح الفاظ میں سن کر انھیں قبول کریں ۔

وا لسلام علیکم

خیر اندیش

محمود ابور یہ

مصر، جیزہ ، شارع قرة بن شریک

۲۰ رجب ۱۳۸۰ ئھ ، ۷ نومبر ۱۹۶۱ ئئ

خرطوم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کا خط

میں نے کتاب ” عبد اللہ بن سبا‘ کا مطالعہ ، کیا، ” احادیث سیف بن عمر“ کے موضوع کے تحت آپ نے جو واقعی کو شش کی ہے ، خاص کر جو سیف کی روایتوں اور دوسرے مؤرخین کی روایتوں کے درمیان موازنہ کرکے ان کی مطابقت کی ہے ، اس سے میں ، انتہائی خوش ہوا۔

آپ کی کتاب نے میرے ذہن میں چند سوالا ت پیدا کئے ، جن کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :

۱ ۔ کیا علم رجال کے بعض علماء کی طرف سے سیف کے خلاف حکم جاری کرکے اس کی روایتوں کو ضعیف اورمتروک کہنے پر اکتفاء کرکے اس کی تاریخی روایتوں کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ علم حدیث کے دانشوروں کے پاس حدیث کے راویوں کی پہچان کیلئے خاص معیار موجود ہےکہ جس کے ذریعہ بعض کی تعدیل و توثیق کرتے ہیں کہ اخبار کے راویوں کیلئے یہ اعتراضات کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے ۔ مثلا ” قول بہ قدر‘کا الزام بعض اوقات سبب بنتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں جرح کرکے اس کی حدیث کو مردود قرار دیں ۔ اس قسم کے الزامات ہمارے آج کل کے معیار کے مطابق زیادہ مشکل کا سبب نہیں بن سکتے ہیں ۔

۲ ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان تمام مطالب کو پہلے سے خود ہی گڑھ لیا ہوگا ؟ یعنی ایک پوری تاریخ کو فرضی طور پر لکھا ہوگا؟ اگر آپ کا یہ مفروضہ صحیح ہے توانسان اس وسیع خیال طاقت پر تعجب اور حیرت میں پڑتا ہے !

۳ ۔ سیف نے بعض رودادوں کو مفصل طور پر تالیف کیا ہے اس کی یہ تفصیل نویسی اس کی تیز بینی اور ذرہ بینی کی دلیل ہے جس کا اس نے اہتمام کیا ہے اور دوسروں نے ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کی ہے ۔ اسے انہی تفصیلات کی وجہ سے بعض ناموں کے ذکر کرنے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ذہنوں سے نکل کر فراموش ہو گئے تھے اس سلسلہ میں آپ کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں :

آپ بلاذری کی کتاب ”فتوح البلدان “ کو اٹھا کرابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ سے موازنہ کریں ۔ پہلی کتاب عام موضوع پر لکھی گئی ہے اور دوسری کتاب خاص اور صرف مصر کے بارے میں لکھی گئی ہے ۔ کیا ابن عبد الحکیم نے ان تمام چیزوں کو ---- جو آپ کی اور ہماری نظر میں قابل اعتماد ہیں --- لایا ہے جن کے بارے میں بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے ؟ پھر اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ ابن عبد الحکیم کی روایتوں کو بلاذری کی روایتوں سے موازنہ کیا جائے ؟ میرا عقیدہ یہ ہے کہ سیف کی ایسی ہی حالت تھی ، کیونکہ اس کاارادہ تھا کہ ایک مفصل اور جامع کتاب تالیف کرے جس میں تمام رودادوں کو درج کرے اور عام باتوں اور خلاصہ پر اکتفا نہ کرے بلکہ جو کچھ دوسروں کے قلم سے سہواً یا عمداً چھوٹ گیا ہے ان سب چیزوں کو درج کرے ۔ مناسب نہیں ہے کہ صرف سیف کی کتاب کو ابن سعد کی طبقات --- جس کا مقصد اشخاص کے طبقات ، درجے ، اور مراتب لکھنا تھا ---- یا اس کے بعد والی کتابوں جیسے اسد الغابہ اور الاصابہ سے موازنہ کریں ،ہاں ان سے آگاہی پیدا کرے اوریہ اندازہ کرنے کیلئے کہ ان میں سیف کی کس طرح روایتیں نقل ہوئی ہیں اور سلسلہ جاری رہا ہے ۔

میں ہر چیز سے پہلے سیف کی روایتوں کو ---ابو مخنف یا دوسروں کی روایتوں ، جن سے طبری نے روایتیں نقل کی ہیں ---- ترجیح دیتا ہوں تا کہ میرے لئے یہ امر روشن ہوجائے کہ کیا گزرا ہے صرف وہی ہے جس نے ایک موضوع کو نقل کیاہے ، شائد ایسا نہ ہوگا کہ نقل کئے گئے موضوع میں سیف کی تنہائی کا سبب اس کا خیال اور وہم ہوگا یا اس نے چاہا ہوگا کہ ان بزرگوں کا دفاع کرے جن کے دامن پر تاریخ کی رودادوں کی گردِ ملامت بیٹھی ہو۔

۴ ۔ ان مواقع کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے جہاں سیف کی روایتیں دوسروں کی روایتوں سے ہم آہنگ ہیں ؟ کیا اس کے باوجود بھی اسے داستان گھڑھنے والا سمجھتے ہیں ؟ مثلا یہ روایت کہ گمان نہیں کرتا ہوں کہ طبری نے اسے نقل کیا ہوگا :

سیف بن عمر نے عبد الملک ابن جریح ، اس نے نافع سے اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے : میں نے عمر سے کہا کہ اپنے لئے ایک جانشین مقرر کرو ، ورنہ اپنے خدا کو اس وقت کیا جواب دو گے، جب اس سے ملاقات کرو گے ، جبکہ امت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے سرپرست چھوڑ گئے ہوگے ؟

اس نے جواب دیا : اگر میں اپنے لئے جانشین منتخب کروں ، تو میں نے ایسے شخص کا سا عمل کیا ہےجو مجھ سے بہتر تھا اور اس نے اپنے لئے جانشین مقرر کیا ہے (یعنی ابو بکر کہ جس نے اپنے بعد مجھے مقرر کیا) اور اگر کسی کو مقرر نہ کروں تو بھی میں نے اس شخص کا سا عمل کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھا کہ اس کے بقول اس نے اپنے لئے کسی کو جانشین مقرر نہ کیا ہے (اس کا مقصود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جنہوں نے اس کے بقول کسی کو جانشین کے طور پر معین نہ کیا تھا)

یہ عین وہی عبارت ہے جسے ابن ابی بکر نے سیف سے روایت کی ہے اور اگر ابن سعد کی طبقات کی طرف رجوع کریں گے تو اسی روایت کو دوسروں کے ذریعہ ملاحظہ فرمائیں گے (ج ۳/ ص ۳۴۸) ۔

امید کرتا ہوں کہ آپ روایتوں کی چھان بین کرتے ہیں ، مہربانی کرکے بتائیے کہ کیا سیف کی تمام روایتیں مردود ہیں یا ان میں سے بعض کو آپ قبول کرتے ہیں ؟

۵ ۔ آپ نے سیف پر تاریخی واقعات کے سالوں میں تحریف کرنے کی نسبت دی ہے لفظ تحریف کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس نے اس موضوع میں عمداً یہ کام کیا ہے جبکہ تاریخی واقعات میں اختلاف صرف ان سے ہی مخصوص نہیں ہے ، تنہا وہی نہیں تھاکہ تاریخی واقعات میں اختلاف رکھتا ہو ۔ اگر آپ غزوات اور جنگوں کے راویوں ، جیسے موسی بن عقبہ ، ابن شہاب زہری ، واقدی اور ابن اسحاق پر ذر اغور فرمائیں گے تو جنگوں کے سالوں اور لشکر بھیجنے کی تاریخوں کے بارے میں کافی اختلافات مشاہدہ کریں گے اور اگر ذرا سا آگے بڑھ کر تاریخ طبری میں فتح دمشق اور شام کے دیگر شہروں کے بارے میں گوناگوں روایتیں ملاحظہ کریں تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ان اختلافات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد بھی آپ اسی اعتقاد پر قائم رہیں گے کہ سیف نے ان سالوں اور تاریخوں میں عمداً تغیر دے کر تحریف کیا ہے ۔

نمونہ کیلئے طاعون عمواس کے حادثہ کو مد نظر رکھیں ، ابن اسحاق و ابو معشر کہتے ہیں کہ یہ حادثہ ۱۸ ھ ء میں پیش آیا اور سیف کہتا ہے ۱۷ ھء میں پیش آیا ہے ۔ ان اختلافات میں سے بعض اس لئے رونما ہوئے ہیں کہ تاریخ کی ابتداء میں اختلاف تھا، عمر نے ہجرت کی ابتداء کو اول محرم سے حساب کیا ہے جبکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت ربیع الاول میں واقع ہوئی ہے اس بنا پر اگر مورخ کہتا ہے کہ یہ تاریخی روداد ۱۷ ھء میں واقع ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے ۱۸ ھء میں تو یہ ان چند مہینوں کی وجہ سے ہے ، کیونکہ بعض راویوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی حقیقی ہجرت کو تاریخ کی ابتداء قرار دیا ہے اور بعض نے اس زمانے کو قرار دیا ہے کہ عمر نے مقرر کیا ہے یعنی اگر کوئی موضوع ماہ محرم یا صفر میں واقع ہو ا ہوگا تو ایک آدمی کہہ سکتا ہے ۱۸ ھء میں واقع ہوا ہے اور دوسرا کہہ سکتا ہے ۱۷ ھء کے آخری ماہ میں واقع ہوا ہے ۔

اور اسی طرح سیف کے بعض دوسرے تاریخی اختلافات ہیں جو دوسروں سے مختلف ہیں تاریخ کے ذکر میں اس قسم کے اختلافات کا بدنیتی سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ تحریف کی دلیل نہیں بن سکتے ہیں ، فرض کیجئے اگر سیف ایک مسئلہ میں دوسرے راویوں سے اختلاف بھی رکھتا ہو تو یہ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ اس نے خطا کی ہے ، اور دوسرے صحیح راستہ پر چلے ہیں ہم مجبور ہیں کہ ہر ایک موضوع کی دقیق، تحقیق و تحلیل کریں اور جو بھی صحیح اور زیادہ ترمستحکم ہو اسے قبول کریں ۔

۶ ۔میں چاہتا تھا کہ آپ سیف کی روایتوں میں موجود اسناد و مآخذ جن پر سیف نے تکیہ کیا ہے کی جانچ پڑتال کرتے، تا کہ ہم دیکھتے کہ کیا ان اسناد میں آپ کی نظر میں اشکال موجود ہے یا نہیں اگر ہے تو کس دلیل کی بنا پر ؟ شائد بحث ایک تازہ نتیجہ پر پہنچ جاتی اور آپ کے نقطہ نظر کو تقویت ملتی ۔

یہ تھے وہ چند مسائل جو آپ کی کتاب کے مطالعہ کو مکمل کرنے کے بعد میرے ذہن میں پیدا ہوئے ، اس امید کے ساتھ کہ ہمیں ایک ایسے متحیر سوال کنندہ کی حیثیت سے جان لیں جو حقیقت کی جستجو میں ہے نہ ایک ہٹ دھرم تنقید اور سرزنش کرنے والے کی حیثیت سے ، ہم سب اس چیز کے متمنی ہیں کہ حقیقت تک پہنچ کر قلب ور روح کو مطمئن کریں ۔

والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

مخلص

احسان عباس

۲۴ /۱/ ۱۹۵۷ ئئ

ہمارا جواب جو جواب ہم نے دیا ، وہ حسب ذیل ہے :

آپ کا ۲۴/۱/ ۱۹۵۷ ءء کو لکھا گیا خط ملا ، کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ پر آپ کی تنقید و بحث میرے لئے خوشنودی و مسرت کا سبب بنی ، کیونکہ تنقید ایک ایسی چیز ہے جو مصنف کو اس امر کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کے بارے میں اس نے غفلت کی ہو ، تا کہ اسے پورا کرکے اپنی بحث کو اختتام تک پہنچا کر فائدہ حاصل کرسکے آپ نے اس تنقید کے ذریعہ میری اس کوشش میں شرکت کی ہے اور ہماری اس جانچ پڑتال اور علمی تحقیق میں تعاون فرمایا ہے میں آپ جیسے دانشوروں کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں اپنا فریضہ انجام دیا ہے ۔

لیکن ، جوآپ نے چند سوالات کرکے عنایت کی ہے ، اس سلسلے میں عرض ہے:

اولاً: آپ نے سوال کیا ہے کہ کیا سیف کے بارے میں علم حدیث کے دانشوروں کا یہ کہنا کہ وہ ضعیف اور مردود ہے ، ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس کی تاریخی روایتوں کو چھوڑ کر اس پر عمل نہ کریں اور اہل حدیث ----مثلاً کسی ایسے شخص کو جو عقیدہ قدریہ سے مہتم ہو ---ضعیف جان کر اس کی روایتوں پر عمل نہیں کرتے ہیں ؟

ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں : نہیں ، کیونکہ اہل حدیث کی تمام روایتوں کے راوی کو ضعیف ہونے کا الزام نہیں لگاتے ہیں اور انھیں یکبارگی رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ضعیف ہونے کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں اور دقیق نظر ڈالتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی سبب کے بغیر ضعیف کہا گیا ہو تو ان کے نظریہ کی تائید نہ کرتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ، لیکن اگر جرح و تضعیف کی علت بیان کی گئی ہو تو اس علت پر توجہ کرتے ہیں اور اگر ہم درک کر لیتے ہیں کہ مثلاً ان مطالب کو علت قراردیا ہے کہ ” فلاں مرجئہ “ ہے اس لئے اس کی حدیث متروک ہے ”فلاں شیعہ ہے اور اس پر رافضی ہونے کا الزام ہے “ فلاں ضعیف ہے ، کیونکہ خلق قرآن کا قائل ہے یا متروک ہے کیونکہ فلسفیوں کی باتوں کی ترویج کرتا ہے “ اس صورت میں ہم اس قسم کی تضعیفوں پر اعتنا نہیں کرتے ہیں ۔

لیکن اگر ہم دیکھتے ہیں کہ جرح میں اس قسم کے الفاظ کہے گئے ہیں ” جعل کرنے والا ہے “ ایسے افراد سے روایت کرتا ہے جنہیں خود اس نے نہیں د یکھا ہے ، ” حدیث کو گڑھ لیتا ہے اور غیر معروف اشخاص سے ان کی نسبت دیتا ہے “ جبکہ یہ کہنے والا راوی کا ہم عصر یا اس کے عقیدہ کا مخالف نہ ہو اور اس کے بارے میں خود غرضی نہ رکھتا ہے اور مذہب کے سلسلے میں بھی اس سے اختلاف نہ رکھتا ہو ، جیسے اگر ایک اشعری ہو تو دوسرا معتزلی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں دانشور کی بات کو رد نہیں کرسکتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ جرح کی دوسری وجوہات کی وجہ سے اس کے ساتھ اختلاف رکھنے کی بناء پر اس خاص جرح کے سلسلے میں اعتناء نہ کریں ۔

اس بناء پر میں نے علمائے حدیث کے بیان کو سیف بن عمر کے بارے میں نقل کیا ہے اور میں نے اسے قبول کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے :

” وہ حدیث جعل کرتا تھا “ خود حدیث گڑھ لیتا تھا اور اپنی گڑھی ہوئی حدیثوں کو باوثوق راویوں کی زبانی نقل کرتا تھا “ جنہوں نے اس کے بارے میں یہ الفاظ کہے ہیں وہ علمائے حدیث میں سے گوناگون افراد اس کے بعد والی صدیوں کے دوران مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے ، اسکے علاوہ میں نے صرف علمائے حدیث پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ بھی کیاہے اور اسی موازنہ اور تحقیق کانتیجہ یہ تھا کہ میں نے علمائے حدیث کی بات کی سیف کے بارے میں تائید کی ہے ۔

آپ نے اپنے دوسرے سوال میں یہ کہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے ان سب چیزوں کو خود گڑھ لیا ہوگا ؟

میں کہتا ہوں : اس میں کونسی مشکل ہے ، جبکہ آپ خود جرجی زیدان اور اس کی جعلی داستانوں ، حریری اور اس کے مقامات ، عنترہ ، الف لیلیٰ اور کلیلہ و دمنہ جیسے افسانوں کے لکھنے والوں اور ادبی و اخلاقی ہزار داستانوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ انھیں بعض داستان نویسوں اور ادیبوں نے مختلف ملتوں سے جعل کرکے اپنے زور قلم سے خیالات پر مبنی شخصیتوں اور سورماؤں کو نہ صرف لباس وجود سے آراستہ کیا ہے بلکہ انہیں خلق کیا ہے تو کیا مشکل ہے ہم سیف کو بھی ان جیسا ایک افسانہ ساز جان لیں اور ا س میں کسی قسم کا تعجب ہی نہیں ہے تعجب تو ان تاریخ نویسوں کے بارے میں ہے جنہوں نے سیف کی داستانوں کو با اعتبار جان کر دوسروں کی صحیح اور سچی روایتوں کو نقل نہ کر کے انھیں چھوڑ دیا ہے جب ہم ان کے اس کام کے بارے میں متوجہ ہوئے تو خود اس کے کام کے بارے میں بھی کوئی تعجب اور حیرت باقی نہیں رہی(۱)

____________________

۱۔ اس کا سبب ہم نے اس سے پہلے اسی کتاب کی آخر میں بیان کیا ہے ۔

تیسرے سوال میں بیان کئے گئے مطلب کے بارے میں خلاصہ حسب ذیل ہے :

سیف نے رودادوں کو مفصل طور پر بیان کیا ہے اور بلاذری نے اجمالی اور خلاصہ کے طورپر ، اس کی روایتوں میں تاریخ کو مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے جیسے ابن عبد الحکیم کی کتاب ” فتوح مصر “ کی روایتوں کے مقابلہ میں بلاذری کی ” فتوح البلدان “ اول الذکر کتاب تاریخ فتوح مصر سے مخصوص ہے اور مؤخر الذکر کتاب تمام تاریخ اور تمام فتوحات کا ذکر کیا ہے ، ایک خاص علاقے کی تاریخ کی بارے میں تالیف کی گئی کتاب میں ناموں کی تفصیل ذکر ہے اور دوسری کتاب میں یہ تفصیل لکھنا بھول گئے ہیں یا ذہن سے تفصیلات محو ہوگئی ہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے اس لحاظ سے بلاذری کی ”فتوح “ کے کام کو ابن عبد الحکیم کے کام سے کیسے قیاس کریں گے !!

میں کہتا ہوں :ان سب فاصلوں اور دوریوں کے باوجود سیف کی ” فتوح “ کو ابن عبدالحکیم کی ”فتوح “ سے موازنہ نہ کرناکیسے جائز ہے ؟!! کیونکہ اولاً ہم دیکھتے ہیں کہ علم حدیث کے دانشوروں نے ابن عبد الحکیم کی ان الفاظ میں تو صیف کی ہے : ” اس میں کسی قسم کی تشویش نہیں ہے ،” وہ سچ بولنے والا ، قابل اعتماد اور علم تاریخ کا دانشور ہے “ اور اس قسم کے دوسرے الفا ظ بیان کئے ہیں اور کوئی اس کے بارے میں اشکال نہیں رکھتا ہے نیز اسے ضعیف نہیں کہا گیا ہے لیکن سیف کا قضیہ اس کے برعکس ہے ، دانشوروں نے اس کی ملامت کی ہے اور اس کی روایتوں کو ضعیف جانا ہے ۔

اس کی ملامت کرنے والوں میں : ابن معین ، ابو حاتم ، ابو داؤد، دار قطنی ، ابن عدی ، ابن حیان برقانی ، ابن عبد البر ، ذہبی ، ابن حجر ، سیوطی ، فیروز آبادی اور زبیدی شامل ہیں ۔

ثانیاً : ان دو اشخاص کی تحریروں میں واضح اور آشکار فرق ہے :

ابن عبد الحکیم ” فتوح مصر “ میں صرف قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے بارے میں لکھتا ہے مؤرخین اسلام نے جو کچھ قبل از اسلام کے بارے میں لکھا ہے اس پر اعتراض نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان کے اکثر تاریخی منابع و مآخذ اسرائیلی تھے بلکہ ان کی تاریخ کے اس حصہ کے بارے میں تحقیق کی جانی چاہئے جو انہوں نے اسلام کے بارے میں لکھا ہے تاریخ کا یہ حصہ کئی گروہوں میں تقسیم ہوتا ہے :

ان میں سے بعض حقیقت گو، مؤرخین نے اپنی تحریروں میں واقعی رودادوں کو لکھا ہے اور ان میں سے بعض نے جذبات کے زیر اثر آکر الٹ پلٹ اور کم و بیش کردیا ہے، ایک گروہ نے ایسا نہیں کیا ہے لیکن اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق جو مورخ سے بھی ہو روایتوں کو دیکھ کر انھیں نقل کیا ہے یہ لوگ بعض اوقات اس مطلوبہ چیز کو ایسے افراد کے پاس پاتے تھے کہ وہ تاریخ نویسی میں امین نہیں تھے اور روایتوں میں کم و زیادتی کرتے تھے اس حالت کو جانے کے باوجود بھی اس گروہ سے نقل کرتے تھے

ایک اور گروہ کے افراد غفلت کی وجہ سے ان سے نقل کرتے تھے اور اگر ہم تاریخ ابن عبد الحکیم کی تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ حدیث کے علماء نے اس کے بارے میں حقیقی گواہی دی ہے کیونکہ وہ تاریخ لکھنے میں حقیقت کا متلاشی تھا اور فتوح مصر میں جو کچھ حقیقت میں گزرا تھا اسے لکھا ہے اگر ہم اس کی کتاب کو بلاذری کی کتاب کے ساتھ موازنہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اجمال اور تفصیل کے درمیان ہے لیکن سیف بن عمر کے حالت ایسی نہیں ہے جس پر ہم نے اس کی نکتہ چینی کی ہے اور کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ میں اس پر اعتراض کیا ہے وہ دو قسم پر مشتمل ہے :

پہلی قسم : تحریف اور جابجا کر دیا ہے ، جیسے کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے تھے ، خبر دی گئی کہ ابو بکر لوگوں سے بیعت لینے کیلئے مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں تو بغیر عبا قبا کے حضرت صرف ایک کرتا پہن کر مسجد کی جانب روانہ ہو گئے تا کہ ابو بکر کی بیعت کرنے میں پیچھے نہ رہیں اس طرح آکر ان کی بیعت کی اس کے بعد بیٹھ گئے اور کسی کو بھیجا تا کہ ان کا لباس لے آئے پھر لباس پہن کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔

جبکہ طبری اس داستان کو دوسری جگہ پر عائشہ سے یوں نقل کرتا ہے : کہ علی اور بنی ہاشم نے چھ مہینہ تک بیعت نہیں کی ، یہاں تک کہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیھا) دنیا سے رحلت کرگئیں(۱) ہم اسی روایت کو صحیح بخاری ، مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں سیف کی روایت کے برعکس پاتے ہیں ۔ بالکل یہی قضیہ سعد بن عبادہ کی بیعت کے بارے میں بھی ہے اسی طرح خالد بن سعید اموی کی بیعت سے انکار کے بارے میں جو کچھ کہا ہے(۲)

”حواب“(۳) کے کتوں کے بھونکنے کی داستان میں بجائے ام المؤمنین ام زمل کا نام لیتا ہے ۔ اس طرح جو کچھ اس نے مغیرہ بن شعبہ(۴) کے زنا کے بارے میں کہاہے۔

____________________

۱۔ ملاحظہ ہو کتاب عبدا للہ بن سبا (فارسی) صفحہ۷۶ و ۱۱۲۔

۲۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۷۶ پر سیف کی روایت اور ۲۵(۱) پر روایت غیر سیف۔

۳۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۳۰ بہ روایت سیف اور ۲۵ پر روایت غیر سیف۔

۴۔ ملاحظہ ہو کتاب عبد اللہ بن سبا (فارسی) صفحہ ۶۷ سیف کی روایت اور ۶۸ پر روایت غیر سیف۔

ان تمام مواقع پر جہاں طبری نے سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں کو نقل کیا ہے اسی جگہ سیف کی تحریف شدہ روایتوں کو بھی نقل کیا ہے ۔

دوسری قسم : من جملہ مواقع جن پر ہم سیف کی نکتہ چینی کرتے ہیں ، وہ داستانیں ہیں جنہیں سیف نے جھوٹ پر مبنی گڑھ لیا ہے اور انھیں تاریخ اسلام میں داخل کیا ہے، ان داستانوں کو اس سے پہلے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے یا اگر اصل داستان سچی تھی تو اس نے اس پر بہت سے مطالب کا اضافہ کیا ہے ۔

من جملہ مطالب کے داستان علاء بن حضرمی ہے جس میں سیف نے ذکرکیا ہے کہ ” دھنا “ کے صحرا میں اس کیلئے پانی جاری ہوا ، اس کے لشکر نے گھوڑے ، اونٹ ، خچر ، گدھے ، سوار اور پیادہ سب کے ساتھ سمندر کو عبور کیا جبکہ اس کی مسافت کشتی کے ذریعہ ایک دن اورایک رات کے فاصلہ کے برابر تھی اور لکھتا ہے کہ خدا نے چار پاؤں کے سموں کے نیچے نرم ریت اُگا دی کہ صرف حیوانوں کے سم پانی کی نیچے جاتے تھے اور اس طرح انہوں نے اس سمندر کو عبور کیا ۔

اور اس افسانہ کے آخر میں بیان کرتا ہے کہ راہب ہجری مسلمان ہوا اور ابوبکر نے اس کے اسلام لانے کے بارے میں صحابہ کو بشارت دی تھی(۱) اور اباقر کے دن گائے کا سعد کے لشکریوں میں سے عاصم بن عمر سے گفتگو کرنا(۲)

____________________

۱۔ عبد اللہ بن سبا ،(فارسی) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳)

۲۔ عبد اللہ بن سبا، (فارسی) ص ۱۶۱ ۔ ۱۶۳)

اور روز جراثیم کا ایک اور افسانہ کہ سپاہیوں کا دجلہ سے عبور کرنا ، اگر کوئی گھوڑا تھک جاتا تھا تو اس کے سموں کے نیچے ریت کا ٹیلہ پیدا ہوجاتا تھا اور اس پر گھوڑا ایسے تھکاوٹ دور کرتا تھا جیسے کہ وہ زمین پر کھڑا ہو۔(۱)

من جملہ ان کے وہ مطالب ہیں جنہیں سیف دو بھائی قعقاع اور عاصم کے بارے میں نقل کرتا ہے(۲) یا وہ باتیں جو اس نے عثیم(۳) نامی جنّی صحابی کی داستان میں کہی ہیں اس کے علاوہ بکیر کے اطلال نامی گھوڑے کی باتیں کرنا جب بکیر نے اپنے گھوڑے کو چابک کرکے چھلانگ لگانے کو کہا تو گھوڑے نے جواب میں کہا: ” سورہ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگائی “ اسی طرح اس کے دوسرے افسانے(۴)

من جملہ مواقع جن میں سیف نے بے حد مبالغہ گوئی کی ہے اور کافی مقدار میں اصل قضیہ میں اضافہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس نے کہا ہے کہ اسلامی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے دشمنوں کو قتل کر ڈالا ہے اس سلسلہ میں اس نے کہا ہے کہ خالد نے تین دن اورتین رات کے اندر اتنے دشمنوں کے سر قلم کئے کہ خون کی ندی جاری ہوگئی ۵ یہ سیف کی ان مبالغہ آمیزیوں کے علاوہ ہے جو اس نے اپنے نفسانی خواہشات کے تحفظ میں انجام دئیے ہیں ۔

____________________

۱۔ عبد اللہ بن سبا ( فارسی ) ص ۲۰۱ ۔ ۲۰۲

۲۔ان دوافراد کی زندگی کے حالات کتاب ”خمسون و ماة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو ۔

۳۔ ”خمسون و ماة صحابی مختلق “ ص ۶۷ ، ۱۲۸، ۱۳۱، ۱۵۸ پر ملاحظہ ہو

۴۔”خمسون و ماة صحابی مختلق“ میں قعقاع کے حالات ملاحظہ ہوں

۵۔”خمسون و ماة صحابی مختلق“ (فارسی) اور اسی کتاب ج(۲) میں فصل ” انتشار اسلام بالسیف “ میں پر ملاحظہ ہو