عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 15947
ڈاؤنلوڈ: 2914


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15947 / ڈاؤنلوڈ: 2914
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

کے امور کے بارے میں کبھی غفلت کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے آپ نے پوچھا : یہ تکبیر کی صدا کیسی ہے جو میں سن رہا ہوں ؟ کہا گیا : یہ کعب تھا جس نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے بلند آواز میں تکبیر کہی ، عمر نے کہا اسے میرے پاس لے آو جب کعب حاضر ہوا تو اس نے اپنی تکبیر کہنے کا سبب یوں بیان کیا :

اے امیر المومنین !پانچ سو سال پہلے ایک پیغمبر نے ،آپ کے اس انجام دئے گئے کارنامے کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی ۔

عمر نے کہا؛ وہ کیسے ؟

کعب نے کہا:ایک زمانے میں روم کے لشکر نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور بنی اسرائیل کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مسجد بیت المقدس کوکوڑے کاڈھیربنادیا اس کے بعد بنی اسرائیل فتحیاب ہوئے اور بیت المقدس کی حکومت کو دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ،لیکن انہوں نے یہ فرصت پیدا نہ کی کہ اس مسجد کو، اس کوڑے کرکٹ سے پاک کریں ،خداوند عالم نے ایک پیغمبر کو بھیجا اور وہ پیغمبر اس کوڑے پر چڑھ کر بیت المقدس کی طرف خطاب کرتا تھا اور یوں کہتا تھا : ”مژدہ ہو تم پر اے اورشلیم فاروق تمہیں اس تمام کوڑے کرکٹ اور کثافت سے پاک کرے گا“

اور ایک دوسری روایت میں یہ جملہ بھی آیا ہے کہ : اے اورشلیم فاروق سپاہ میں میرے حکم سے تیری طرف آئے گا اور رومیوں سے تیرے باشندوں کا انتقام لے گا “

نیرنگ اور چالبازیاں

سیف نے روایتوں میں عمر کے بارے میں انبیاء کی بشارت کو ایک عجیب مہارت اور کاری گری سے جعل کیا ہے اس میں انتہائی دقت اور نفاست سے کام لیا ہے تا کہ مسلمان اس کے ناپاک عزائم سے آگاہ نہ ہو سکیں اور اس سلسلہ میں اس کی تمام روایتوں کو غیر شعوری طور پر قبول کریں اور جن خرافات کو اس نے ان روایتوں میں شامل کیا ہے ان پر توجہ کئے بغیر اعتقاد پیدا کرلیں ہم سیف کی ان خطرناک چالبازیوں اور مکر و فریب پر بیشتر توجہ کیلئے اس کی نقل کی گئی بشارت انبیاء کی داستان کے بارے میں پھر سے جانچ پڑتال اور تحقیق کرتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ کیاسیف کہتا ہے؟

۱ ۔ روم کے لشکر کا کمانڈر ارطبون پہلے سے ہی جانتا تھا کہ بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں کا فاتح ایک شخص ہے جس کا نام عمر ہے جو تین حروف پر مشتمل ہے ۔

قارئین اس روداد سے قطعاً یہ سمجھ لیں گے کہ ارطبون نے یہ اطلاع کسی ماہر سے حاصل کی ہوگی اور ان اطلاعات و علوم کا استاد او رماہر کون ہے ؟

یہ ان لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا ہے جنہوں نے اس اطلاع کو پیغمبروں سے حاصل کیا ہو لہذا عمر کی فتوحات کے بارے میں اس پیشین گوئی اور بشارت کا سراغ انبیاء تک پہنچتا ہے ۔

۲ ۔ سیف اس داستان کی پیروی میں مرد یہودی کی داستان کو بیان کرتا ہے کہ عمر کے استقبال کیلئے آیا ہے اور اسے گراں قدر اور معنی خیز لقب ” فاروق“ سے خطاب کیا ہے اور اسے نوید دی ہے کہ بیت المقدس کو فتح کرنے والا وہ ہے اس یہودی نے اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے قسم بھی کھائی ہے ۔

سیف اس جملہ کو نقل کرکے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ یہودی چونکہ لقب ”فاروق“ کو قدیم کتابوں میں پیدا کرچکا تھا لہذا عمر کو اس لقب سے پکارا اور یہ شخص قدیمی کتابوں کے بارے میں وسیع اطلاعات رکھتا تھا لہذ عمر نے اس سے دجال کے بارے میں سوال کیا اور اس نے بھی دجال کے حسب و نسب اوراسے قتل کرنے والوں کے بارے میں اطلاع دی اور حتی اس کے قتل کی جگہ کے بارے میں بھی دقیق طور پر بتایا ۔ لہذا عمر کے بارے میں بیان کی گئی یہ بشارت اور فضیلت بھی قدیمی اور خداکے پیغمبروں کی کتابوں سے لی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسکے بعد سیف اپنے جھوٹ کو مستحکم کرنے کیلئے ایک اور داستان کو بیچ میں کھینچ لیتا ہے کہ عمر بیت المقدس کے کوڑے کرکٹ کو اپنی قبا میں جمع کرکے باہر لے گئے اور لوگوں کو بھی ایساہی کرنے کا حکم دیا اسی اثناء میں کعب -(دشمن اسلام) کی تکبیر کی صدا بلند ہوتی ہے اور اس کی پیروی میں تمام مسلمان تکبیر بلند کرتے ہیں عمر اسے بلا کر تکبیر کہنے کی علت پوچھتے ہیں ۔

یہ سب وہ پیش خیمے ہیں جو سیف کے توسط سے یکے بعد دیگرے عمل میں آئے ہیں ان مقدموں کے بعد کعب کی زبانی خلیفہ کا جواب یوں بیان کیا ہے : ” امیر المؤمنین “ جو کام آپ نے آج انجام دیا اسے آج سے پانچ سو سال پہلے ایک پیغمبر نے انجام دیا ہے “

سیف دوسری بار اپنی جھوٹی داستان کو مضبوط بنانے کیلئے کہتا ہے کہ عمر نے اس بات کے سلسلے میں کعب سے وضاحت چاہی کعب نے اس کے جواب میں کہا؛ رومیوں نے بنی اسرائیلیوں پر غلبہ پایا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا اور بیت المقدس کوخش وخاشاک اور کوڑا کرکٹ سے بھر دیا اور اسے کوڑے کے ڈھیرمیں تبدیل کیا خداوند عالم نے ایک پیغمبر کو بھیجااس نے کوڑے کے ڈھیرپر چڑھ کر بیت المقدس سے مخاطب ہوکر کہا:

” مژدہ ہو تجھے اے اورشلیم ! کہ فاروق تجھ پر تسلط جمائے گا اورتجھے اس ناپاکی سے پاک کرے گا “

۴ ۔ آخر میں سیف اپنی جھوٹی داستان کو ایک دوسری روایت میں خلیفہ کے لشکر کی تعریف و توصیف سے استحکام بخشتا ہے اور کہتا ہے :

اس پیغمبر نے بیت المقدس سے مخاطب ہوکر کہا: فاروق خداکے فرمانبردار سپاہیوں کے ساتھ تجھ پر مسلط ہوگا اور رومیوں سے تیرے باشندوں کا انتقام لے گا “

جیسا کہ ہم نے سیف کی روایتوں میں پڑھا کہ پہلے ارطبون مسیحی نے خبر دی تھی کہ بیت المقدس کو فتح کرنے والا عمر ہوگا اسکے بعد شام میں ایک یہودی نے بھی عمر کو یہ بشارت دی اور کعب نے بھی اپنے بیان میں ان خبروں سے سرچشمہ کا انکشاف کیا یہ سب گزشتہ پیغمبروں کی بشارتیں اور پیش گوئیاں ہیں ۔

لیکن سیف نے داستان کو مستحکم کرنے کیلئے اس بشارت کو چند روایتوں کے ضمن میں بیان کیا ہے اور اس کے ہر زاوئے کو ایک روایت میں سمو دیا ہے اور اس کے درمیان اپنے ناپاک عزائم کو بھی پوشیدہ طورپر بیان کیا ہے ۔

کیا ان سب چارلبازیوں اور افسانہ سازیوں اور ان تمام مستحکم کاریوں و مقدمہ سازیوں کے بعد کوئی اس میں شک و شبہہ کرسکتا ہے کہ جس طرح گزشتہ پیغمبروں نے ” احمد “ نامی ایک پیغمبر کے آنے کی بشارت دی ہے اسی طرح ” عمر “ نام کے ایک خلیفہ کے آنے کی بھی بشارت دی ہوگی ؟

کیا اس روداد کو امام المؤرخین طبری کے اپنی تاریخ میں نقل کرنے کے بعد کوئی اسے جھٹلانے کی جرات کرسکتا ہے یا اس میں شک و شبہہ کرسکتا ہے ؟

سیف کی روایتوں کی سند کی جانچ پڑتال

عمرو عاص اور ارطبون کی روداد کے بارے میں سیف کی روایتوں کی سند میں ” ابوعثمان “ کا نام آیا ہے اور ابو عثمان بھی سیف کے کہنے کے مطابق وہی یزید بن اسید غسانی ہے کہ تاریخ طبری اور تاریخ ابن عساکر میں اس کا نام سیف کی دس سے زیادہ روایتوں میں آیا ہے ٌ۔

اور ہم اس ابوعثمان کو ان راویوں میں سے جانتے ہیں کہ حقیقت میں جووجود نہیں رکھتا اور سیف نے اسے جھوٹ گڑھنے کیلئے خلق کیا ہے تا کہ وہ اسے اپنے دروغ سازی کے کارخانے میں معین کرکے ان کے نام پر افسانے جعل کرے ہم نے راویوں کے اس سلسلہ کو اپنی کتاب ” رواة مختلقون “ میں پہچنوایا ہے ۔

سیف کی ایک دوسری روایت کی سند میں جس میں گزشتہ پیغمبر میں سے ایک پیغمبر اورشلیم کو فاروق کی بشارت دیتا ہے ،ایک نامعلوم راوی کا ذکر ہوا ہے کہ خود سیف بھی اسے نہیں جانتا اورکہتا ہے جو فتح بیت المقدس میں حاضر تھا ہم نہیں جانتے سیف کی نظر میں یہ بے نام و نشان راوی کون تھا اور اس کا کیا نام تھا؟ تا کہ ہم اس کے بارے میں بحث و تحقیق کرتے ۔

سیف کی روایتوں کا دوسروں کی روایتوں سے تطبیق و موازنہ

سیف نے جو روایتیں بیت المقدس کی داستان میں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل مطالب پر مشتمل ہیں :

۱ ۔ عمرو عاص اور ارطبون کے درمیان واقع ہوئی روداد اور اخبار ہم نے ان رودادوں کو سیف کی روایتوں کے علاو ہ اور کسی روایت اور تاریخ میں پیدا نہیں کیا ۔

۲ ۔حضرت عمر کے بارے میں گزشتہ انبیاء کی بشارتیں اور پیشینگوئیاں ہم نے ان بشارتوں کو سیف کے علاوہ کسی مورخ کی تاریخ میں نہیں پایا ۔

۳ ۔ فتح بیت المقدس ” ایلیا “ کی خبر، یہ خبربھی دوسرے مورخین کی روایتوں میں دوسری صورت میں نقل ہوئی ہے کہ جو سیف کی روایت کو جھٹلاتی ہے ۔

تاریخ ابن خیاط -(وفات ۲۴۰ ھء) میں ،ابن کلبی سے نقل ہو کر یوں آیا ہے :

مسلمانوں کے سردار ابوعبیدہ نے حلب کے باشندوں سے صلح کی اور انھیں آپ کا صلح نامہ دیا اس کے بعد وہاں سے بیت المقدس کی طرف روانہ ہوا اور اسکے ایک کمانڈر خالد بن ولید جو لشکر کے آگے آگے تھا ، بیت المقدس میں داخل ہوا اور اس کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اوروہاں کے باشندوں نے بھی مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دیے اور صلح کی درخواست کی ۔

ایک دوسری روایت میں بلاذری نے فتوح البلدان میں مذکورہ جملہ کے بعد درج ذیل عبارت کا اضافہ کیا ہے،بیت المقدس کے لوگوں نے کہا: ہم حاضر ہیں کہ جن شرائط پر شام کے لوگوں نے آپ سے صلح کی ہے ان ہی شرائط پر ہم بھی صلح کریں جتناوہ جزیہ اور ٹیکس کے عنوان سے مسلمانوں کو اداکرتے تھے ہم بھی اتنا ہی ادا کریں گے لیکن شرط یہ ہے کہ خود عمر اس صلح نامہ پر دستخط کرےں اور ایک امان نامہ دےں ، ابوعبیدہ نے بیت المقدس کے لوگوں کی تجویز عمر کو لکھی اور وہ بیت المقدس آگئے، ایک صلح نامہ کا مضمون لکھا گیا ، عمر نے اس پر دستخط کئے چند دن بیت المقدس میں توقف کرنے کے بعد دوبارہ مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

یعقوبی (وفات ۲۹۲ ھء) نے اسی مطلب کو خلاصہ کے طورپر لکھا ہے ۔

ابن اعثم (وفات ۳۱۳ ھء) نے بھی اپنی کتاب فتوح میں اسی روایت کو بیشتر تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی (وفات ۶۲۶ ھء) نے معجم البلدان میں مادہ ’ ’ القدس“ میں اسی مطلب کو خلاصہ کے طور پر درج کیا ہے ۔

۴ ۔ سیف کی ان ہی روایتوں میں جو دوسری داستان ذکر ہوئی ہے وہ شمشیر بازوں اور امان طلب کرنے والوں کی روداد ہے ۔

یہ داستان بھی سیف کے علاوہ دوسرے مورخین کی روایتوں میں دوسری صورت میں بیان ہوئی ہے کہ سیف کے بیان کے ساتھ سازگار و موافق نہیں ہے “

ابو عبیدہ کتاب ” الاموال “ اور بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے : عمر جب شام سے بیت المقدس کی طرف آرہے تھے ، ابو عبیدہ نے اس کا استقبال کیا اس وقت مقامی باشندوں کا ایک گروہ جنہیں ” ُمقلسون “(۱) کہا جاتا تھا ، تلواروں اور پھولوں کو لیکر عمر کے استقبال کیلئے آگئے عمر نے جب ان کو دیکھا تو بلند آواز میں کہا : انہیں واپس لوٹادو ، اور انھیں اس کام سے روکو ، ابو عبیدہ نے کہا؛ اے امیر المؤمنین ! یہ عجمیوں کے عادات و روسومات میں سے ایک ہے (یا اس کے شبیہ جملہ کہا) اس کے بعد اضافہ کرتے ہوئے کہا؛ اگر آپ ان کو شمشیر بازی کرنے سے روک لیں گے تو وہ اسے ایک قسم کی پیمان شکنی تصورکریں گے، عمر نے کہا: انھیں اپنے حال پر چھوڑدو عمر اور اس کے فرزند ابو عبیدہ کے مطیع ہیں ۔

۵ ۔ اسی طرح جو ایک دوسری داستان سیف کی روایتوں میں آئی ہے وہ عمر کے ہاتھوں بیت المقدس کی صفائی کرنا ہے ۔

یہ روداد بھی کتاب ابو عبیدہ کی الاموال میں حسب ذیل آئی ہے :

عمر بن خطاب نے فلسطین کے مقامی باشندوں کو اجرت کے بغیر بیت المقدس کو جھاڑو لگانے پر مقرر کیا کیونکہ بیت المقدس میں کوڑے کرکٹ کا انبار لگاتھا ۔

تطبیق اور جہاں بین کا نتیجہ

سیف کی روایتوں کی دوسرے مورخین کی روایتوں سے تطبیق اور موازنہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دو قسم کی روایتیں کئی جہت سے آپس میں اختلاف اور تناقض رکھتی ہیں :

۱ ۔ سیف فتح بیت المقدس کی داستان میں ایسی روداد لکھتا ہے کہ دوسرے مورخین کی روایتوں میں ان کا وجود ہی نہیں ہے اور یہ سیف کی روایتوں کی خصوصیات شمار ہوتی ہیں ۔

۲ ۔ سیف کی روایت کے مطابق بیت المقدس میں مسلمانوں کی فوج کا کمانڈر عمروبن عاص تھا اور دوسروں کی روایت کے مطابق ابوعبیدہ جراح تھا ۔

۳ ۔ دوسروں کی روایت کے مطابق فتح بیت المقدس میں مسلمانوں کے لشکر کا کمانڈر ابو عبیدہ جراح تھا اور عمر صرف صلح نامہ پر دستخط کرنے کیلئے بیت المقدس آئے تھے ، اس لئے کہ فلسطین کے باشندوں نے درخواست کی تھی کہ خود خلیفہ صلح نامہ پر دستخط کرےں اور ابوعبیدہ نے جو روداد، عمر کیلئے لکھی تھی،اس کے بنا پروہ بیت المقدس آئے اور صلح نامہ پر دستخط کی اور ا س کے بعد واپس مدینہ روانہ ہوگئے لیکن سیف کی روایت کے مطابق اس فتح میں مسلمان فوجیوں کا کمانڈر عمرو بن عاص تھا کہجس کے مقابلہ میں رومی کمانڈر” ارطبون“ تھا اور سیف کے کہنے کے مطابق یہ ارطبون چالاکی اور دانائی میں عمرو بن عاص کے مانند تھا ،جیسا کہ خلیفہ اور عمرو عاص اور خود ارطبون نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ، پھر سیف کہتا ہے کہ ”عمرو عاص “اور” ارطبون“ کے درمیان کافی خط و کتابت اور چالبازیاں رد و بدل ہوتی رہی ہیں اور عمرو وعاص ان نیرنگ بازیوں میں ارطبون پر سبقت لے جاتا تھا اورمکر و حیلہ میں اس پر غلبہ پاتا تھا ، اس طرح کہ اولاً : عمرو عاص کے نمائندہ کی حیثیت سے ارطبون کے پاس گیا اور اس پر غلبہ پانے کے راستوں کی اطلاعات حاصل کی۔

ثانیاً: جب ارطبون نے اسے قتل کرانے کا منصوبہ بنایا تو عمرو عاص اپنی چالاکی اور فراست سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

ثالثاً: جب ارطبون نے اپنے وزیروں اور کمانڈروں کے سامنے فاتح بیت المقدس کا نام زبان پر لیا اور کہا کہ وہ خلیفہ دوم ”عمر “ ہوں گے توعمرو عاص قضیہ سے فوری طور پر آگاہ ہوا اور اس کی اطلاع خلیفہ وقت کو دی اور خلیفہ بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے اور ایک یہود ی عمر کے استقبال کیلئے دوڑا اور اسے یہ بشارت بھی دی کہ بیت المقدس کی فتح اس کے ہاتھوں انجام پائے گی ،عمر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے ا ور وہاں کے باشندوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان سے صلح کی لیکن ارطبون اور اس کے ساتھیوں نے صلح کو قبول نہ کرتے ہوئے مصر کی طرف فرار کیا ،مصر کو جب مسلمانوں نے فتح کیا تو ارطبون وہاں سے بھی روم کی طرف بھاگ نکلااور روم کی فوج کا گرمی کے موسم میں کمانڈر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا اور قبیلہ قیس کے ضریس نامی ایک شخص کے ہاتھوں ایک اسلامی جنگ میں قتل ہوا ۔

۴ ۔شمشیر بازوں کی داستان

اس داستان کو نقل کرنے میں بھی سیف کی روایتیں دوسروں سے اختلاف و تناقض رکھتی ہیں سیف کی روایت کے مطابق بیت المقدس کے باشندوں نے تلواریں لہراتے ہوئے عمر کا استقبال کیا عمر کے فوجیوں نے ان کے مسلح حالت میں آگے بڑھنے پر خوف کا احساس کیا، عمر نے کہا؛ڈرو نہیں یہ امان کی درخواست کرنے کیلئے آرہے ہیں لہذا انھیں امان دینا، بعد میں پتا چلا کہ عمر کی پیشنگوئی صحیح تھی اور وہ حقیقتاً امان کی درخواست کرنے اور صلح نامہ منعقد کرنے کیلئے آئے تھے ۔

لیکن سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں یہ شمشیر باز ”اذ رعات“ کے لوگ تھے اور انہوں نے پہلے ہی مسلمانوں سے صلح کا پیمان باندھا تھا اور گلدستے لے کر خاص کراس وقت مظاہرہ کرتے ہوئے عمر کا استقبال کیا تھا سیف نے اس داستان میں یہ دکھایا کہ مسلمان ڈر گئے اور اپنے اسلحہ ہاتھ میں لے لئے اور عمر نے ان کے مقاصدکے بارے میں مسلمانوں کو وضاحت دی جب کہ روداد بالکل اس کے برعکس تھی اور عمر ان کے مقاصد کو نہیں سمجھسکتے تھے اور شمشیر بازی اور ان کے حرکات سے ڈر گئے اور ان کے مقاصد کے بارے میں ابوعبیدہ نے عمرکے لئے وضاحت کی۔

۵ ۔ بیت المقدس کو جھاڑودینے اور صاف کرنے کی داستان

سیف کی روایتوں کے دوسرے مورخین کی روایتوں سے اختلاف کا ایک اور مسئلہ بیت المقدس کو جھاڑو دینے کی داستان ہے سیف کی روایت کے مطابق عمر نے مسجد کے کوڑے کرکٹ کو اپنے دامن میں جمع کیا اوراپنے سپاہیوں کو بھی حکم دیا کہ اس کام میں اس کی پیروی کریں یہاں پر کعب کے تکبیر کی آواز بلند ہوئی اور اس نے عمر کو خبر دیدی کہ سوسال پہلے ایک پیغمبر نے اورشلیم کو اس حادثہ کی بشارت دی ہے ۔

لیکن د وسروں کی روایت میں یوں آیا ہے کہ عمر نے ” انباط “ کو بیت المقدس میں جھاڑو دینے کا حکم دیا تھا اور ”انباط“ نچلے طبقہ والوں اور مزدوروں کو حکم دیتے تھے اس لحاظ سے عمر نے فلسطین کے فقراء اور مزدوروں کے ایک گروہ کو اجرت کے بغیرمسجد میں جھاڑ ودینے پر مقرر کیا تھا اور انھیں کے ذریعہ بیت المقدس کو پاک و صاف کرایا ہے ۔

جی ہاں ! سیف نے تاریخی واقعات میں اس طرح تحریف کرکے انہیں اپنی پسند کے مطابق پیش کیا ہے اور کبھی کبھی خود دوسری داستانیں بھی جعل کرکے ان میں ا ضافہ کیاہے اور اس طرح ان سے اپنے لئے مقاصد حاصل کئے ہیں کہ ذیل میں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

سیف نے جنگ روم اور عمر کے بارے میں بشارت کے عنوان سے روایتیں جعل کرکے جن جھوٹ اور اکاذب کو حقیقت اور تاریخی واقعات کے طور پر اسلامی تمدن اور مآخذ میں درج کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :

۱ ۔ ایک جعلی راوی بنام عثمان

۲ ۔ روم کے لشکر کیلئے ایک کمانڈر بنام ”ارطبون“

۳ ۔ ’ ’ ضریس قیسی “ اور ” زیاد بن حنظلہ “ نامی دو شاعر و اصحاب

۴ ۔ فتح بیت المقدس کے مسلمان کمانڈر کے نام میں تحریف کرکے ابوعبیدہ کی جگہ پر عمرو عاص کا نام بتانا اس کے علاوہ اس داستان میں سیف کے توسط سے اور بھی تحریفات اور جعلیا ت انجام پائے ہیں اور آنے والی نسلوں کیلئے اسلامی ثقافت میں درج ہوئے ہیں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیف کو کس چیز نے مجبور کیا ہے کہ ایک کمانڈر کا نام بدل کر اس کی جگہ دوسرے کا نام لے لے جبکہ دونوں قحطانی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اس تبدیلی میں خاندانی تعصب اور فخر و مباہات کو خاندان قحطان سے قبیلہ عدناں میں تبدیل کرنے کا موضوع ہی نہیں تھا ؟

آخر سیف کے لئے ان تمام خرافات اور بے بنیاد مطالعہ کو تاریخ اسلام میں درج کرنے میں کونسا محرک کارفرما تھا ؟

کیا سبب ہے کہ عمر ایک یہودی سے دجال کے بارے میں وضاحت پوچھتے ہیں اور وہ بھی جواب دیتا ہے اور دجال کا ان سے تعارف کراتا ہے۔

ان سوالات کا جواب اسکے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا کہ ہم یہ کہیں کہ سیف کا ان تمام جعل وتحریف کا مقصد اولاً مسلمانوں کی تاریخ میں تشویش و شبہہ پیداکرکے اسے الٹ پھیرکرنا تھا اور ثانیاً اسلام کے حقیقی عقائد میں جھوٹ اور خرافات داخل کرکے مسلمانوں کو توہم پرست ثابت کرنا تھا۔

افسوس ہے ، کہ سیف اپنے ان دونوں مقاصد میں کامیاب ہوا ہے ، کیونکہ اس قسم کے بے بنیاد مطالب کو اس نے ” خلیفہ دوم “ کے فضائل و مناقب کے پر دے میں جھوٹی اور خرافات روایتوں کو تاریخ اسلام میں داخل کر کے رواج دے دیا ہے۔ اور وہ شائع اور عام ہیں ۔ اس طرح امام المورخین طبری نے ان روایتوں کو خود سیف سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بھی اس سے نقل کرکے انھیں کتابوں میں درج کیا ہے : جیسے :

۱ ۔ ۲ ۔ ابن اثیر اور ابن کثیر میں سے ہر ایک نے کعب کی داستان کو حذف کرکے ان تمام روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۳ ۔ ابن خلدون نے بھی اس داستان کے خلاصہ کو ارطبون کے خاتمہ کی روداد اور اس کی پیشین گوئی کو حذف کرکے باقی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

۴ ۔ ابن حجر نے بھی ” اصابہ “ میں قیس کے نام کو اصحاب پیغمبر کی فہرست میں قرار دے کر اس کی زندگی کے حالات لکھنے میں سیف کی کتاب ” فتوح“ پر اعتماد کیا ہے ۔

مسلمانوں کے اللہ اکبر کی آواز حمص کے در و دیواروں کو گرادیتی ہے

کبر المسلمون فتهافتت دور کثیرة حیطان

حمص میں مسلمانوں کی صدائے تکبیر نے دیوار اور گھروں کو مسمار کر کے رکھ دیا۔

سیف

فتح حمص کی داستان سیف کی روایت میں :

طبری نے ۱۵ ھء کے حوادث کے ضمن میں فتح ”حمص “(۱) کے بارے میں سیف سے تین روایتیں نقل کی ہیں :

پہلی روایت میں کہتا ہے : جب مسلمان ” حمص“ کو فتح کرنے کیلئے اس شہر میں داخل ہوئے تو ” ہرقل“(۲) نے ”حمص“ کے باشندوں کو حکم دیا کہ وہ بھی ایسے دنوں میں مسلمانوں سے لڑیں جب سخت سردی ہو اور شدید برف باری ہورہی ہو نیز ان سے کہاکہ اگر انہوں نے اس پر عمل کیا تو مسلمانوں میں ایک شخص بھی موسم گرما تک زندہ نہیں بچے گا حمص کے باشندے ہر قل کے حکم کے مطابق سردیوں کے

____________________

۱۔ حمص سوریہ کا ایک شہر ہے ۔

۲۔ ہرقل ان دنوں سوریہ کے شہروں کا حاکم تھا ۔

دنوں میں مسلمانوں سے لڑے تھے ۔

دوسری روایت میں ا بوا لزہراء قشیری سے یوں نقل کیا ہے : حمص کے باشندوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یوں سفارش کی کہ موسم سرما پہنچنے تک اپنے شہروں کا عربوں کے حملوں اور تجاوز کے مقابلہ میں تحفظ اور بچاؤ کریں اور جب موسم سرما پہنچ جائے تو وہ تمہارے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ پا برہنہ ہیں ، موسم سرما میں سردی کی وجہ سے ان کے پاؤں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اس کے علاوہ ان کے ہمراہ خوراک بھی مختصر ہے اس لئے وہ اپنی جسمانی طاقت کو بھی ہاتھ سے دیدیں گے لیکن رومیوں کے تصور کے خلاف جب وہ جنگ سے واپس لوٹے تو اسکے بر عکس اپنے ہی بعض افرادکے پاؤں کو دیکھا کہ ان کے جوتوں کے اندر زخمی ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ہیں لیکن مسلمان باوجود اس کے کہ نعلین کے علاوہ کوئی اور چیز ان کے پیروں میں نہ تھی ان میں سے کسی ایک کے پاؤں میں بھی معمولی سا زخم بھی نہیں لگا تھا جب موسم سرما ختم ہوا تو حمص کے باشندوں میں سے ایک بوڑھا اٹھ کھڑا ہوا اور انھیں مسلمانوں سے صلح کرنے کی دعوت دی لیکن لوگوں نے اس کی بات نہیں مانی ایک اور بوڑھے نے بھی حمص کے باشندوں کیلئے وہی تجویز پیش کی لیکن اس کی تجویز کا بھی لوگوں نے مثبت جواب نہیں دیا ۔

سیف نے تیسری روایت میں غسانی اور بلقینی کے بوڑھے مردوں کی ایک جماعت سے نقل کرکے یوں بیان کیا ہے مسلمانوں سے موسم سرما کے بعد شہر حمص کی طرف حملہ کیا اور اچانک ایسی تکبیر کی آواز بلند کی کہ شہر کے لوگوں میں چاروں طرف خوف و وحشت پھیل گئی اور ان کے بدن کانپنے لگے اور تکبیر کی آواز سے ایک دم شہر کی درو دیوار زمین بوس ہوگئی ۔ حمص کے لوگوں نے ان بوڑھوں کے یہاں پناہ لے لی ، جنہوں نے پہلے ہی انھیں مسلمانوں سے صلح کرنے کی تجویز پیش کی تھی ، لیکن اس دفعہ ان بوڑھوں نے اپنی طرف سے ان لوگوں کی نسبت بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا اور انھیں ذلیل وخوار کرکے رکھ دیا۔

سیف کہتا ہے مسلمانوں کی تکبیر کی آواز ایک بار پھر شہر حمص کی فضا میں گونج اٹھی اور اس دفعہ شہر کے بہت سے گھر اور دیوار گرگئے اور لوگوں نے دوبارہ ان بوڑھوں اور قوم کے بزرگوں کے پاس پناہ لے لی اور کہا: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے ہو کہ عذاب خدا نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ؟

انہوں نے لوگوں کے جواب میں کہا: تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ مسلمانوں سے خود صلح کی درخواست کرو حمص کے لوگوں نے شہر کے مینار پر چڑھ کر فریاد بلند کی ” صلح ، صلح “ مسلمان چونکہ نہیں جانتے تھے کہ ان پر کیا گزری ہے اور ان پر کیسی ترس و وحشت طاری ہوئی ہے ؟ لہذا ان کی صلح کی تجویز کو قبول کیا دمشق کے باشندون کے ساتھ صلح کی جو شرائط رکھی تھیں ان ہی شرائط پر حمص کے باشندوں کے ساتھ بھی صلح کی ۔

دوسروں کی روایت کے مطابق فتح حمص کی داستان

فتح حمص کی داستان کو سیف نے مذکورہ تین روایتوں کے ضمن میں بیان کیا ہے جس کا آپ نے مطالعہ فرمایا ۔ لیکن دوسرے مؤرخین نے اس داستان کو دوسری حالت میں بیان کیا ہے ۔ مثلاً بلاذری کہتا ہے :

دمشق کو فتح کرنے کے بعد مسلمان حمص میں آگئے جب وہ شہر کے نزدیک پہنچے ، تو حمص کے باشندوں نے پہلے مسلمانوں سے جنگ کی، لیکن بعد میں اپنے شہر کے اندر داخل ہوکر قلعوں میں پناہ لے لی اورمسلمانوں سے صلح و امان کی درخواست کی ۔

بلاذری اضافہ کرتا ہے :

حمص کے حاکم ہر قل کا فرار کرنا ایک طرف سے اور مسلمانوں کی بے مثال قدرت اور پے در پے فتحیابیاں دوسری طرف سے حمص کے باشندوں کے کانوں میں پہنچ گئیں ان کے نتیجہ میں ان کے دل میں عجیب خوف و وحشت پیدا ہوگئی تھی۔

موازنہ اور تحقیق کا نتیجہ

جو کچھ ہمیں سیف کی روایتوں کی دوسرے مورخین کی روایتوں سے تطبیق کے نتیجہ میں حاصل ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کی روایتوں کے مطابق حمص کے باشندوں کے صلح کرنے کا محرک ان کے حاکم کی فرار اور مسلمانوں کی طاقت کے بارے میں ان کا مطلع ہونا تھا ۔

لیکن سیف کے کہنے کے مطابق حمص کے باشندوں کے مسلمانوں سے صلح کرنے کا محرک یہ تھا کہ انہوں نے پورے موسم سرما میں مسلمانوں سے جنگ کی اورسردی کی وجہ سے ان کے پاؤں زخمی ہوہو کر کٹ گئے اور دوسری طرف سے مسلمانوں کی تکبیر کی آواز سے شہر کے درو دیوار اور گھر زمین بوس ہوگئے ان پر رعب اور وحشت طاری ہوگئی اس کے نتیجہ میں ہتھیار ڈال کر صلح کرنے پر مجبور ہوگئے یہ تھا متن کے لحاظ سے سیف کی روایت میں ضعف ، اب ہم سند کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرتے ہیں :

سیف کی روایتوں کی سند کے لحاظ سے تحقیق

سیف کی روایتوں کی سند بھی چند زاویوں سے خدشہ دار اور متزلزل ہے کیونکہ

۱ ۔ سیف نے حمص کے باشندوں کے پاؤں کے کٹ جانے کی داستان ” ابو الزہراء قشیری “ سے نقل کی ہے ۔ قشیری کا نام تاریخ طبری میں سیف کی پانچ روایتوں میں ذکر ہوا ہے ۔اور ان ہی روایتوں پر تکیہ کرکے ابن عساکر نے ” تاریخ دمشق“ میں اور ابن حجر نے ”الاصابہ “ میں قشیری، کو پیغمبرخدا کے اصحاب میں سے ایک شمار کیا ہے ۔ لیکن ہم نے علم رجال کی کتابوں اور اصحاب رسول کے حالات پر مشتمل کتابوں میں گہرے مطالعہ و تحقیق کے بعد یہ حقیقت کشف کی کہ قشیری نام کا پیغمبر اسلام کا کوئی صحابی وجود نہیں رکھتا ہے اور اسے سیف نے خود جعل کیا ہے ۔

۲ ۔ سیف نے حمص کے گھروں اور دیواروں کے گرجانے کی خبر غسان اور بلقین کے بوڑھوں سے نقل کی ہے اب ہم کیسے ان بوڑھوں کو پہچان کر ان کے بارے میں بحث و تحقیق کریں جنہیں سیف نے غسان اور بلقین کے شیوخ سے جعل کیا ہے ؟

داستان کے راویوں کا سلسلہ

اولاً: سیف نے داستان حمص کی روایتوں کو :

۱ ۔ غسان اور بلقین کے بوڑھوں اور

۲ ۔ ابو الزہراء قشیری

سے نقل کیا ہے چونکہ سیف نے غسان اور بلقین کے بوڑھوں کا نام معین نہیں کیا ہے ، لہذا ہمارے لئے مجہول اور نامعلوم ہیں اور ان کی بات ناقابل قبول ہے اور دوسری طرف سے ہم نے کہا کہ قشیری بھی جو ان روایتوں کی سند میں آیا ہے ، سیف کا جعلی راوی ہے ۔

ثانیاً: سیف سے بھی :

۱ ۔ طبری نے بھی سیف کی سند سے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ، اور طبری سے:

۲ ۔ ابن اثیر اور

۳ ۔ ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

دجال شہر شوش کو فتح کرے گا!

فاتی صاف باب السوس و دقه برجله

دجال نے آگے بڑھ کر شہر شوش کے دروازہ پر لات ماری اور اسے مسلمانوں کےلئے کھول دیا

سیف

فتحِ شوش کی داستان ، سیف کی روایت میں

طبری ۱۷ ھء کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتا ہے کہ مسلمانوں کا کمانڈر ” ابوسبرہ “(۱) اپنے لشکر کے ساتھ شہر شوش آیا اور اسے محاصرہ کیامسلمانوں نے شوش کے باشندوں کے ساتھ کئی بار جنگ کی اور ہر بار اہل شوش نے مسلمانوں پر کاری ضرب لگائی راہب اور پادری شہر کے مینار پر چڑھ کر بلند آواز سے بولے :

اے گروہ عرب! جو کچھ ہمیں دانشوروں سے شہرشوش کے بارے میں معلوم ہوا ہے ، وہ یہ ہے

____________________

۱۔ ابو سبرہ بن ابررہم عامری قبیلہ قریش کے ان افراد میں سے ہے جس نے اوائل بعثت میں اسلام قبول کیا ہے اور آنحضرت کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ آنحضرت کی وفات کے بعد واپس مکہ چلا گیا اور خلافتِ عثمان کے زمانے میں و ہیں پر وفات پائی ۔

ابوسبرہ کی زندگی کے حالات استیعاب میں الاصابہ کے حاشیہ میں ۴/ ۸۲ ، اسد الغابہ ۵/ ۲۰۷ الاصابہ : ۴/ ۸۴ اور طبقات ج۳/ ۱۹۳ میں خلاصہ کے طور پر اور باب مقیمان مکہ ج ۵/ ۳۲۲ میں مفصل طور پر آیا ہے ۔

کہ شہر ،دجال کے بغیر یاا ن لوگوں کے علاوہ فتح نہیں ہوگا جن میں دجال موجودنہ ہو ۔ اس بنا پر اگر دجال تمہارے درمیان ہے تو جلدی ہی اس شہر کو فتح کر لوگے اور اگر تمہارے درمیان دجال نہیں ہے تو اپنے آپ کو تکلیف میں مت ڈالو کیونکہ یہ کوشش بے نتیجہ ہوگی مسلمانوں نے ان پیشین گوئی کرنے والوں کی باتوں پر کان نہیں د ھرا اور ایک بار پھر شوش کے باشندوں سے جنگ و تیر اندازی کی ۔ راہبوں اور دانشوروں نے ایک بار پھر قلعہ کے مینار پر چڑھ کر مسلمانوں سے مخاطب ہوکر اپنی پہلی باتوں کی تکرار کی اور مسلمانوں پر فریاد بلندکرکے انھیں غضبناک کیا ۔

صاف بن صیاد “(۱) جو ان کے درمیان تھا ، شہر کے دروازے کے پاس آگیا اور اپنے دروازہ پر ایک لات مارکر کہا: اے بظار(۲) کھل جا ۔ اچانک دروازے کی زنجیریں اور قفل ٹوٹ گر گئے ، دروازہ کھل گیا اور مسلمان شہر شوش میں داخل ہوگئے ! مشرکین نے جب یہ حالت دیکھی تو ڈرکے مارے اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور ” صلح صلح“ کی فریاد بلند کر نے لگے اور مسلمان مکمل طور پر شہر شوش میں داخل ہو گئے اور ان کی درخواست کا مثبت جواب دیا اور ان سے صلح کی ۔

____________________

۱۔ اہل سنت کے مآخذ میں ذکر ہوئی روایتوں کے ایک حصہ میں یوں آیا ہے : صاف بن صیاد، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ میں پیدا ہوا اور مدینہ کے لوگ اسے دجال جانتے تھے اور متن میں جو داستان ہم نے بیان کی ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال کی داستان اور اس کا صاف بن صیاد سے معروف ہونا سیف کے دوران مشہور تھا اور اس نے اس معروف داستان سے استفادہ کرکے اسے ایک د وسری داستان سے ممزوج کیا ہے اور ان د و داستانوں سے ایک تیسری داستان جعل کی ہے جیسے کہ کتاب کے متن میں ملاحظہ فرمایا : صاف بن صیاد کے بارے میں صحیح بخاری ۳/ ۱۶۳ و ۲/ ۱۷۹ کی طرف رجوع کیا جائے۔

۲۔ ” بظارہ “ مادہ حیوانات کی شرم گاہ کو کہتے ہیں کہ سیف کے کہنے کے مطابق صاف بن صیاد نے شہر شوش کے دروازہ کو اس قبیح اور گندے لفظ سے یاد کیا اور ” بظارہ “ کہا ۔