عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 17620
ڈاؤنلوڈ: 4150


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17620 / ڈاؤنلوڈ: 4150
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ تھا اس افسانہ کا خلاصہ جسے سیف نے فتح شوش کے بارے میں بیان کیاہے طبری نے بھی اس افسانہ کو سیف سے نقل کیا ہے ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

فتح شوش کی داستان دوسروں کی روایت میں :

یہ تھی فتح شوش کی داستان سیف کی روایت کے مطابق لیکن ، فتح شوش کے بارے میں دوسرے مؤرخین کی روایتیں یوں ہیں :

خود طبری جو سیف کی روایت نقل کرنے والا ہے ، مشہور مورخ، مدائنی سے نقل کرتا ہے : جب ابو موسیٰ اشعری نے شہر شوش کا محاصرہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں فتح جلولا اور پادشاہ جلولا اور یزد جرد کے فرار کرنے کی خبر شوش کے باشندوں تک پہنچی اور وہ اس روداد کے بارے میں سن کر مرعوب ہوئے اور ابو موسیٰ سے امان و صلح کی درخواست کی اس نے بھی ان کی درخواست منظور کرلی اس طرح مسلمانوں اور شوش کے باشندوں کے درمیان صلح کا پیمان منعقد ہوا ۔

بلاذری ، فتوح البلدان میں کہتا ہے : ابو موسیٰ اشعری نے شوش کے باشندوں سے جنگ کی ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک ان کے پاس موجود پانی اور خوراک ختم ہوگئی اور ہتھیار ڈال کر صلح کر نے پر مجبور ہوئے ابو موسیٰ نے ان جنگجوؤں کو قتل یا اسیر کردیا کہ جن کے نام صلحنامہ میں ذکر نہیں ہوئے تھے اور ان کا مال غنیمت کے طور پرلوٹ لیا ۔

بلاذری کی باتوں کو ” دینوری “ نے بھی ” اخبار الطوال “ میں خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے ۔

ابن خیاط نے بھی اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ فتح شوش ۱۸ ھء میں ابو موسی ٰ اشعری کے ذریعہ صلح کے طریقے سے انجام پایا ۔

روایت سیف کی سند کے اعتبار سے تحقیق

جس طرح سیف کی روایت کے متن سے اس کا ضعیف اور باطل ہونا ظاہر ہے اور دوسرے مؤرخین کے متن سے سازگار نہیں ہے سند کے لحاظ سے بھی اس کا کمزور اور باطل ہونا بہت واضح ہے کیونکہ:

سیف کی روایت کی سند میں شوش کی فتح کی داستان بیان کرنے والا ” محمد“ ذکر ہوا ہے ہم نے مکرر کہا ہے کہ یہ ”محمد “ سیف کے جعلی راویوں میں سے ایک ہے ۔ اس کے علاوہ اس روایت کی سند میں چند دوسرے مجہول اور نامعلوم افراد جیسے : ” طلحہ “ اور ” عمر “ بھی راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں کہ علم رجال اور تشریح کی کتابوں میں ان کا نام و نشان نہیں ملا ۔ بحث کے طولانی ہونے کے پیش نظر ہم ان افراد کی تحقیق و جانچ پڑتال سے صرف نظر کرتے ہیں ۔

تطبیق اور جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کے کہنے کے مطابق شوش کی فتح کا سبب مسلمانوں کے لشکر میں دجال کی موجودگی تھی کہ جس کے بارے میں راہبوں اور پادریوں نے پہلے ہی پیشین گوئی کی تھی اور لوگوں کو اس کے بارے میں مطلع کیا تھا اور یہ پیشین گوئی بھی اس وقت واقع ہوئی جب مسلمان سپاہیوں میں سے دجال باہر آگیا اورشہرکے دروازہ پر لات مارتے ہوئے کہا: ” کھل جا اے دروازہ جو ” بظار“ کے مانند ہو “ دروازہ کی زنجریں اچانک ٹوٹ کی ڈھیر ہوگئیں قفل بھی ٹوٹ کرگرگئے اور دروازے کھل گئے ، مسلمان شہر میں داخل ہوئے شوش کے لوگوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور صلح کی فریادیں بلند ہوئیں اس جنگ کا سپہ سالار ” ابو سبرہ“ عدنانی تھا ۔

یہ تھا فتح شوش میں مسلمانوں کے سپہ سالار کے نام اور اس فتح کے سبب کے بارے میں سیف کی روایت کا خلاصہ لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں : شوش کی فتح کا سبب جلولا کی فتح اور وہاں کے بادشاہ کے فرار کے بارے میں اہل شوش تک خبر پہنچنا اور شوش کے لوگوں کا پانی اور غذا کاختم ہونا تھا کہ وہ ان عوامل کی وجہ سے صلح کرنے پر مجبور ہوئے اور امان کی درخواست کی مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار ابوموسیٰ اشعری تھا جو قبیلہ قحطان سے تھا ، نہ ” ابو سبرہ “ عدنانی ۔

اس تطبیق اور جانچ پڑتال سے واضح ہوتا ہے کہ سیف نے اس داستان کو نقل کرنے میں خاندانی تعصب سے کام لیا ہے اور عدنانی قبیلہ کے تعصب کی ندا کا مثبت جواب دے کر فتح شوش کی فضیلت کو ابو موسیٰ قحطانی سے چھین کر ابوسبرہ عدنانی کے کھاتے میں درج کیا ہے لیکن سیف کو کس محرک نے مجبور کیا ہے مسلمانوں کی شوش کی فتح و پیروزی کی داستان کو ” دجال “ سے نسبت دیدے ؟ جبکہ اس انتساب میں نہ اصحاب پیغمبر کیلئے کسی قسم کی ثنا گوئی ہے اور نہ کسی قسم کا خاندانی تعصب ؟

اس امر میں نہ خود سیف کے قبیلہ کیلئے کوئی فخرکی بات ہے اور نہ قبیلہ عدنان کے بارے میں کوئی فضیلت ، کیونکہ معمولاً سیف اس سلسلہ میں تعصب سے کام لیتا ہے ؟

لہذا ، اس نسبت و اسناد میں ، حقائق میں تحریف اور خرافات گڑھنے میں کونسا محرک ہوسکتا ہے ؟ کیا اس سلسلہ میں ا س کے زندقہ و کفر --- جس کا ا س پر الزام ہے ----کے علاوہ کسی او رمحرک کا تصور کیا جاسکتا ہے ؟

جی ہاں ! اس نے اپنے کفر و زندقہ کے اقتضاء کے مطابق مسلمانوں کے عقائد کو خرافات سے ممزوج کرکے تاریخ اسلام کوتشویش اور درہم برہم کرنا چاہا ہے ۔

داستان شوش کی روایت کے راویوں کا سلسلہ

اولاً: فتح شوش کی روایتوں کو سیف نے ” محمد “ نامی ایک نقلی اور جعلی راوی اور دومجہول اور نامعلوم راویوں سے نقل کیا ہے ۔

ثانیاً: سیف سے بھی ان روایتوں کو

۱ ۔ طبری نے اور طبری سے

۲ ۔ ابن اثیر اور

۳ ۔ ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

اسود عنسی کی داستان

لایحرف سیف ولا یختلق الا لتحقیق غایة

سیف اپنے ناپاک عزائم کے علاوہ کسی اور چیز کیلئے کسی حقیقت میں تحریف یا کسی داستان کو جعل نہیں کرتا ہے۔

مولف

سیف کے روایت کے مطابق اصل داستان

طبری نے ’ ’ اسود عنسی ----جس نے یمن میں پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ----کے بارے میں سیف سے کئی روایتیں نقل کی ہیں ہم ان روایتوں کے خلاصہ کوذیل میں درج کرتے ہیں :

جب اسود عنسی پیغمبری کا دعویٰ کرکے یمن پر مسلط ہوا تو اس نے یمن کے ایرانی بادشاہ ” شہر بن باذان ‘ ‘کو قتل کیا اور اس کی بیوی کے ساتھ شادی کی یمن میں مقیم ایرانیوں کی سرپرستی کو کمانڈر ’ فیروز “ اور آزادبہ نامی دو ایرانی نسل اشخاص کے ذمہ رکھی اور اپنے تمام فوجیوں کے کمانڈر ان چیف کے طور پر ” قیس بن عبدیغوث “ کو منصوب کیا ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ سے ان تین افراد کے نام خط لکھا اور حکم دیا کہ اسود عنسی سے جنگ کریں اور اسے جنگ یا مکر و فریب کے ذریعہ نابود کریں اور ایرانیوں کو اس کے شر سے نجات دلائیں انہوں نے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق آپس میں اتحاد کیا تھاکہ نیرنگ کے ذریعہ اسود کو نابود کریں لیکن اسود کو شیطان نے اسے اس روداد سے آگاہ کردیالہذا اسود نے قیس کو اپنے پاس بلا کر کہا:

قیس ! یہ میرا فرشتہ کیا کہتا ہے ؟

قیس نے کہا: کیا کہتا ہے ؟

اسود: میرا فرشتہ کہتا ہے تم نے اس قیس کا اتنااحترام کیا ہے اور اسے لشکر کے کمانڈر ی اور اعلی عہدہ تک ترقی دیدی ہے یہاں تک کہ احترام وشخصیت میں تمہارا ہم پلہ بن گیا اب اس نے تیرے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا کر فیصلہ کیا ہے کہ تیری سلطنت کو نابود کردے اور اس نے اپنے دل میں مکر و حیلہ چھپا رکھا ہے ۔

اس کے بعد اسود نے کہا: یہ فرشتہ مجھ سے کہتا ہے : اے اسود ! اے اسود ! اے بد بخت اے بدبخت ! قیس کے سر کو تن سے جدا کردو! ورنہ وہ تجھے قتل کر ڈالے گا اور تیرے سر کو قلم کردے گا ۔

قیس نے کہا: تیری جان کی قسم اے اسود! میرے دل میں تیرا مقام اور منزلت اس سے بالاتر ہے کہ تیرے بارے میں برا سوچوں اور تیری نسبت خیانت کروں

اسود: اے مرد تم کتنے ظالم ہو کہ میرے فرشتہ کو بھی جھٹلاتے ہو معلوم ہوتا ہے کہ اب اپنے عمل سے پشیمان ہوئے ہو اور جو کچھ مجھے میرے فرشتہ نے خبر دی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ میرے بارے میں بدنیتی سے منصرف ہوئے ہو ۔

سیف یہاں پر اسود کے اسی شیطان کو فرشتہ کے نام سے یاد کیا ہے اور روایت کرتا ہے کہ وہ تمام روداد کے بارے میں اسودکو خبر دیتاتھا ۔

سیف کہتا ہے قیس اسود کی مجلس سے اٹھ کے چلا گیا اور اس روداد کو اپنے د وستوں اور ان افراد کے سامنے تفصیلاً بیان کیا جن کے ساتھ اس نے اسود کو قتل کرنے کا منصوبہ مرتب کیا تھا ۔

اسود نے دوسری بار قیس کو اپنے پاس بلا کر کہا:

کیا میں نے تجھے تیرے کام کی حقیقت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا؟ لیکن تم نے مجھ سے جھوٹ کہااب پھر فرشتہ مجھ سے کہتا ہے : اے بدبخت اے بد بخت اگر قیس کے ہاتھ کو نہ کاٹو گے تو وہ تیرے سر کو قلم کرکے رکھ دے گا !

قیس نے کہا: میں تجھے ہر گز قتل نہیں کروں گا ، تم خدا کے پیغمبر ہو لیکن تم میرے بارے میں جو مصلحت سمجھتے ہو اسے انجام دو کیونکہ ترس و اضطراب کی حالت میں سر قلم ہونا میرے لئے ناگوار ہے حکم دو تا کہ مجھے قتل کر ڈالیں کیونکہ میرے لئے ایک بار مرنا اس سے بہتر ہے کہ ہر روز خوف و ہراس سے مروں اور پھر زندہ ہوجاؤں نیز ذلت کی زندگی سے مرنا بہتر ہے ۔

سیف کہتا ہے : اسود کو قیس کی اس بات کا اثر ہوا اور اس کیلئے اس کے دل میں رحم پیدا ہوا اور اسے آزاد کردیا ۔

سیف اضافہ کرتا ہے کہ اسود نے حکم دیا اور ایک سو گائے اور اونٹ حاضر کئے گئے اس کے بعد اس کے سامنے زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا اور خود اس خط کے مقابلہ میں کھڑا رہا اور اونٹوں کو اسی خط کے پیچھے رکھا اور اس کے بعد ان اونٹوں کے ہاتھ پاؤں باندھے بغیر انھیں نحر کردیا ۔ لیکن ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نے بھی اس کے معین کردہ خط سے آگے قدم نہیں بڑھایا اور ان سب نے اسی خط کے پیچھے جان دیدی ۔

سیف کہتا ہے : اس دن سے وحشتناک دن نہیں دیکھا گیا کہ ان سب اونٹوں کو جو آزاد تھے ایک ساتھ نحرکر دیا گیا اور ان میں سے ایک نے بھی خط سے آگے قدم نہیں بڑھاےا بلکہ اس خط کے پیچھے تڑپتے ہوئے جان دیدی ۔

سیف دوبارہ اسود کے قتل کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

آخر کار ان تین افراد جنھوں نے اسود کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کی بیوی کو بھی اپناہم نوا بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ اسکی مدد اور تعاون سے رات کے وقت اسود کو قتل کر ڈالیں گے جب وہ اسود کی خواب گاہ میں داخل ہوئے تو فیروز نے اسے قتل کرنے میں پیش قدمی کی اسود کو شیطان نے بیدار کیا اور دشمن کے داخل ہونے کے بارے میں اسے اطلاع دی چونکہ اسود اس وقت گہری نیند میں سویا ہوا تھا اس لئے آسانی کے ساتھ بیدار نہ ہوا ۔ لہذا شیطان خود فیروز کو وحشت میں ڈالنے کیلئے اسود کے روپ میں اس سے مخاطب ہوا اور کہا : فیروز تم مجھ سے کیاچاہتے ہو ؟ جب فیروز نے یہ جملہ سنا تو اس نے اسود کی گردن پر ضرب لگائی اور وہ دم توڑ بیٹھا ۔

سیف کہتا ہے: اس کے بعد فیروز کے دوسرے ساتھی داخل ہوئے تا کہ اسود کے سر کو تن سے جدا کریں ۔ لیکن اسود کا شیطان اس کے بے جان بدن میں داخل ہوا اور اسے حرکت دیتے ہوئے اس کے سر کو تن سے جدا کرنے میں رکاوٹ ڈالتا تھا ان میں سے دو افراد اسود کی پیٹھ پر سوار ہوئے اور اس کی بیوی نے اس کے سر کے بال مضبوطی سے پکڑ لئے تا کہ وہ حرکت نہ کرسکے شیطان اسکے اندر سے نامفہوم باتیں کررہاتھا ۔ آخر کار،چوتھے شخص نے اس کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔ اس وقت اسود کے اندر سے ایک خوفناک آواز اور نعرہ بلند ہوا جو گائے کی آواز سے مشابہت رکھتا تھا اوراس دن تک ایسی وحشتناک آواز نہیں سنی گئی تھی ۔یہ آواز اس اسود کے شیطان کی تھی جو اس کے اندر سے پکار رہا تھا یہ آواز جب محافظوں کے کانوں تک پہنچی تو وہ کمرے کے دروازے تک آگئے اور شور وغل کا سبب پوچھا اسود کی بیوی نے کہا: کوئی خاص بات نہیں ہے، پیغمبر پر وحی نازل ہورہی تھی ،وہ ختم ہوگئی ۔

یہ تھا اسود عنسی کے افسانہ کا خلاصہ جسے طبری نے سیف کی گیارہ روایتوں کے ضمن میں بیان کیا ہے اور ذہبی نے بھی ان میں سے دو روایتوں کو ” تاریخ الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں درج کیا ہے

سند کی تحقیق اور بررسی

طبری نے اسود عنسی کی داستان کو سیف کی گیارہ روایتوں کے ضمن میں نقل کیا ہے ان میں سے دو روایتوں کے راوی کے طور پر سہل بن یوسف کا نام ملتا ہے اور سہل نے بھی عبید بن صخر نامی ایک شخص سے روایت کی ہے ۔

ان روایتوں میں سے دو روایتوں کی سند میں ” مستنیربن یزید“ کا نام آیا ہے کہ اس نے بھی عروق بن غزیہ سے نقل کیا ہے ۔

اور ان روایتوں میں سے ایک میں خود”عروق بن غزیہ “ کا نام مستنیر کا نام لئے بغیر ذکر ہوا ہے ۔

جو کچھ ہم نے اسود کی داستان کے بارے میں بیان کیا وہ سیف کی روایتوں کا ایک خلاصہ تھا جن کی سند کو مذکورہ چند جعلی راوی تشکیل دے رہے ہیں کہ ہم ان کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالتے ہیں ۔

۱ ۔ سہل : طبری نے جو روایتیں سیف سے نقل کی ہیں ان میں سے ۳۷ روایتوں میں اس کا نام ملتا ہے سیف نے اسے یوسف سلمی کا بیٹا بتایا ہے قبائل عرب میں سے کئی قبائل کو سلمی کہتے ہیں ہمارے خیال میں یہاں پر سلمی سے سیف کامقصود وہ شخص ہے جس کا نسب سلمة بن سعد خزرجی انصاری تک پہنچتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کوائف کا کوئی بھی راوی جس کا نام سہل ہو اس کے باپ کا نام یوسف اور وہ سلمة بن سعد خزرجی یا دیگر قبائل سلمی سے منتسب ہو وجود نہیں رکھتا ہے وہ سیف کا جعل کیا ہوا راوی ہے ہم نے جعلی راویوں کے بارے میں اپنی تالیف کی گئی کتاب ” راویان ساختگی “ میں اس حقیقت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔

۲ ۔ عبید بن صخر بن لوذان سلمی : یہ دوسرا شخص ہے جس کا اسود کی داستان کی سند میں مشاہدہ ہوتا ہے لیکن وہ بھی ان راویوں میں سے ہے جسے سیف نے اپنے خیال سے جعل کیا ہے اور اسے اصحاب پیغمبر کی فہرست میں قرار دیا ہے ہم نے اس کے حالات پر اپنی کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔

۳ ۔ عروة بن غزیہ دثینی : عروہ وہ شخص ہے جسے سیف نے قبیلہ دثین سے متعلق بتایا ہے اس کا نام سیف کی چھ روایتوں میں ذکر ہوا ہے جنہیں طبری نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ان چھ روایتوں میں سے چار کو ضحاک بن فیروز نے نقل کیا ہے ۔ لیکن ہم نے عروة کا نام رجال یا تراجم کی کتابوں میں سے سمعانی و حموی کے نقل کے علاوہ کسی اور میں نہیں پایا۔

سمعانی ” کتاب الانساب“ میں لفظ ” دثینہ “ کے ضمن میں کہتا ہے دثینی ، دثینہ سے منسوب ہے اور ہم گمان کرتے ہیں کہ دثینہ یمن کے گاؤں اور آبادیوں میں سے ہوگا اور عروة بن غزہ دثینی بھی ، جو ضحاک بن فیروز سے روایت نقل کرتا ہے اور فتوح سیف بن عمر میں اس کا نام آیا ہے اسی آبادی کے لوگوں میں شمار ہوتا ہے ۔

ابن اثیر نے بھی سمعانی کی اسی بات کو خلاصہ کے طور پر ” اللباب “ میں درج کیا ہے(۱) حموی دثینہ کی تشریح میں کہتا ہے : اور عروة بن دثینی ، جو ضحاک ابن فیروز سے روایت نقل کرتا ہے اسی دثینہ سے منسوب ہے ۔

البتہ سمعانی اور حموی کی روایتوں کے مآخذ وہی سیف کی روایتیں ہیں آخر کار سمعانی نے اس کے مآخذ کو صراحتاً بیان کیا ہے لیکن حموی نے اپنی روایت کے مآخذ کو معین نہیں کیا ہے ۔

۴ ۔ مستنیر بن یزید : سیف نے اسے قبیلہ نخع سے تصور اور خیال کیا ہے کہ اس کا نام طبری کی

____________________

۱۔ رجال اور تراجم ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جن میں اشخاص کے حالات کی تشریح کی گئی ہو ۔

سیف سے نقل کی گئی اٹھارہ روایتوں میں مشاہدہ ہوتا ہے لیکن چونکہ ہم نے اسے سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا ہے ، لہذا ہم اسے گزشتہ راویوں کی طرح سیف کے جعلی راویوں میں جانتے ہیں ۔

تحقیق اور موازنہ

داستان اسود عنسی کی سند کے تزلزل اور ضعف کے بارے میں یہ ایک خلاصہ تھا جسے سیف نے نقل کیا ہے ۔ لیکن اس داستان کا متن اور مفہوم کے لحاظ سے ضعیف ہونا اسی صورت میں واضح ہوتا ہے کہ ہم دوسرے تاریخ نویسوں کے نقطہ نظر پر بھی نگاہ ڈالیں اور اس کے بعد ان دو روایتوں کا آپس میں تطبیق اور موازنہ کریں ۔

اب ہم داستان اسود عنسی کے بارے میں مورخین کی روایتیں بیان کرتے ہیں :

بلاذری نے اپنی کتاب فتوح البلدان میں اسود عنسی کی داستان کو نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

” اسود بن کعب بن عوف “ فال گوئی اور پیشین گوئی کرتا تھا نیز پیغمبری کا دعوی بھی کرتا تھا اس کے اپنا قبیلہ عنس تھا ، اس کے قبیلہ والے اس کی پیروی کرتے تھے اور دوسرے قبیلوں کے بعض گروہ بھی اس کی طرف رجحان پیدا کرچکے تھے ، اسود نے اپنا ”رحمان یمن “ نام رکھا تھا اور ایک تربیت یافتہ گدھا بھی رکھتا تھا کہ جب بھی اسے کہتا تھا : اپنے پروردگار کیلئے سجدہ کر ، وہ سجدہ میں جاتا تھا اور جب اس سے کہتا تھا: گھٹنے ٹیک ، وہ گھٹنے ٹیکتا تھا، بعض مورخین نے اسود کو ” ذو الحمار “ کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سر پر عمامہ رکھتا تھا۔ بعض مورخین نے کہا ہے کہ اس کا اصلی نام اسود ” عبہلہ “ تھا لیکن چونکہ سیاہ چہرہ تھا ، اس لئے ” اسود “کے نام سے معروف تھا۔

بلاذری کہتا ہے : اسود صنعا گیا اور اس جگہ پر قبضہ جمالیا اور وہاں کے حاکم (جو پیغمبر اسلام کی طرف سے حکومت کرتا تھا) کو نکال باہر کیا اوریمن میں مقیم ایران نسل کے لوگوں (جو ابناء(۱) )کہے جاتے تھے کو سخت دباؤ اور جسمانی اذیت کے تحت قرار دیا اور وہاں کے پادشاہ ” باذان “ کی بیوی مرزبانہ “ کے ساتھ شادی کی ۔ جب یہ خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آنحضرت نے ” قیس بن ہبیرة بن مکشوح مرادی“ کو اسود سے جنگ کرنے پرمامور کیا اور اسے حکم دیا کہ یمن مین مقیم ایرانیوں کی ہمت افزائی اور انہیں اپنی طرف مائل کرے ۔

جب قيس يمن پہنچا اسود کے پاس يوں ظاہر کيا کہ اسکا پیرو ، ہم عقیدہ اور ہم فکر ہے اسود نے اس کی بات پر یقین کیا اور اس کے صنعا میں داخل ہونے سے مانع نہیں ہوا،قیس قبیلہ مذحج، ہمدان اور دوسرے قبائل کے ہمراہ صنعا میں داخل ہوا۔ ایرانیوں کے ایک مشہور شخص فیروز کی حوصلہ افزائی کی خاص کر ایرانیوں کے سرپرست داذویہ کی ہمت افزائی کی ۔ ایرانیوں نے بھی قیس کے توسط سے اسلام قبول کیا ۔ قیس اور ایرانی آپس میں ہم نوا ہوگئے اور اسود کو قتل کرنے میں اتحاد و اتفاق کر لیا۔ چونکہ اسود

____________________

۱۔ چونکہ ابناء، ابن کا جمع یعنی بیٹے ہے اس لئے اعراب یمن میں مقیم ایرانیوں کو ابناء یعنی ایرانیوں کے بیٹے یا ایرانی نسل کہتے تھے ۔

کی بیوی پہلے سے اسکے ساتھ عداوت و دشمنی رکھتی تھی اس لئے قیس اور اس کے ساتھیوں نے مخفی طور پر ایک شخص کو اسکے پاس بھیجا اور اسود کو قتل کرنے میں مدد طلب کی اس نے بھی ان کی نصرت کرنے کا وعدہ کر لیا اور انھیں اسود کے گھر میں منتہی ہونے والے ایک پانی کے راستہ کی راہنمائی کی بعض مورخین کہتے ہیں کہ اسود کے گھر کے دیوار کو سوراخ کیا گیا اور سحر کے وقت اسی جگہ سے اس کی خوابگاہ میں داخل ہوئے اور اسے اپنے بسترہ میں مست پایا پھر فیروز نے اسے اسی حالت میں قتل کر ڈالا اور قیس نے بھی تلوار سے اس کے سر کو تن سے جدا کر ڈالا صبح کا وقت تھا کہ شہرکے قلعہ کے اوپر چڑھ کر تکبیر کی آواز بلند کی اور یوں تکبیر کہی:

الله اکبر ، الله اکبر ، اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمداً رسول الله و ان اسود الکذاب عدو الله خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں ، شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے رسول ہیں اور اسود جھوٹا اور دشمن خدا ہے ۔

اسود کے حامی اور پیرو جمع ہوئے قیس نے قلعہ کے اوپر سے اسود کے سر کو ان کی طرف پھینک دیا وہ سب ترس و وحشت سے متفرق ہوگئے ان میں سے صرف معدود چند افراد قلعہ کے ارد گرد موجود رہ گئے قیس نے اپنے دوستوں کی مدد سے ان میں سے ایک شخص کے علاوہ (جس نے اسلام قبول کیا تھا) باقی سب کو قتل کر ڈالا ۔

کتاب ” البدء و التاریخ “ کے مؤلف نے اسود کی داستان کو تقریباً اسی مضمون کے ساتھ اپنی کتاب (ج(۵) / ۱۵۴ ۔ ۱۵۵) میں درج کیا ہے۔

یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں اس روداد کو خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے(۱)

کلاعی نے اپنی کتاب ” الاکتفاء “ میں داستان کو تقریباً مذکورہ صورت میں درج کیا ہے(۲)

تحقیق کا نتیجہ

ہم نے یہاں تک داستان اسود کے بارے میں سیف اور دوسرں کی روایتوں کو بیان کیا اور ان دونوں بیانات کا آپس میں موازنہ و تطبیق کی ۔ اب ہم مذکورہ دونوں بیانات کے درمیان اختلاف کا خلاصہ اور نتیجہ پیش کرتے ہیں :

۱ ۔ سیف کی روایتوں میں یمن کے پادشاہ --- جس کی بیوی سے اسود نے شادی کی ---کا نام ”شہر بن باذان “ ذکر ہوا ہے جبکہ دوسرے مؤرخین نے اس کا نام ” باذان “ بتایا ہے ۔

۲ ۔ سیف نے قیس کے باپ کا نام عبدیغوث بتایاہے جبکہ دوسرے مورخین نے اس کا نام ” ھبیرہ بن مکشوح “(۳) بتایا ہے ۔

____________________

۱۔ ج ۲/ ۱۸۰،

۲۔ ملاحظہ ہو کتاب الردة ،ص ۱۵۱ کہ جو کلاعی کی کتاب الاکتفاء سے اقتباس ہے۔

۳۔ جمہرہ ،ص ۳۸۲ پر ابن حزم کے کہنے کے مطابق قیس ، مکشوح کا بیٹا ہے اور مکشوح کا اصلی نام ھبیرہ بن یغوث ہے لہذا اس بناپر قیس بن مکشوح اور قیس بن ہبیرہ بن عبدیغوث ایک ہی شخص ہے لیکن سیف نے قیس کو عبدیغوث کا بیٹا کہا ہے اور درمیان سے ایک واسطہ کو حذف کیا ہے اور اس کا یہ کام اس کا سبب بنا ہے کہ شخصیات کے حالات کی تشریح لکھنے والے مغالطے کا شکار ہوجائیں ا ور قیس کے نام پر دو شخص تصور کریں اور اس کیلئے دوبارہ تشریح لکھیں جیسے کتاب اسد الغابہ ، ۴/ ۲۶۲ و ۴/۲۲۷ اور الاصابہ، ۵/ ۷۳)