۳ ۔ سیف کہتا ہے : اسود نے اپنے لشکر کی کمانڈری ، یمن میں موجود قیس کو سونپی اور رسول خدا نے قیس جو یمن میں تھا اور یمن میں مقیم ایرانیوں کو ایک خط کے ذریعہ حکم دیا کہ اسود کو قتل کر ڈالیں ۔ لیکن دوسرے مورخین نے کہا ہے : رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیس کو براہ راست اپنی طرف سے اسود سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہاں پر مقیم ایرانیوں کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئے اور ان کی ہمت افزائی کرے ۔ جب قیس صنعا میں داخل ہونا چاہتا تھا تو اس نے اسود کا پیرو اور حامی ہونے کا اظہار کیا ، اسود نے بھی اس پر یقین کر لیا اور قیس کو صنعا میں داخل ہونے کی اجازت دیدی۔
یہ ان تحریفات و تغییرات کا خلاصہ تھا جسے سیف نے اسود کی داستان میں انجام دیا ہے ، لیکن وہ چیزیں جو سیف نے اس داستان میں خود اضافہ کی ہیں اور جھوٹ اور افسانے کے طور پر اس داستان میں ضمیمہ کی ہیں وہ حسب ذیل ہیں کہ کہتا ہے :
۱ ۔ اسود کا ایک شیطان تھا جو اسے وحی کرتا تھا اور اسے غیب کی اطلاع دیتا تھا اسود اسے اپنا ”فرشتہ “ کہتا تھا ۔ اس شیطان نے اسود کو چند بار خبر دی کہ ” یہ قیس ، جسے تم نے عزت و احترام میں اپنے برابر پہنچا دیا ہے، عنقریب تمہیں قتل کر ڈالے گا۔
سیف کہتا ہے: اسود نے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور اس لکیر کے پیچھے سو اونٹ اورگائے جمع کیں ، پھر ان کے سامنے کھڑا ہوا ا س کے بعد بغیر اس کے کہ ان حیوانوں کے ہاتھ پاؤں باندھے انھیں نحر کردیا ، جبکہ ان میں سے ایک نے بھی لکیر سے باہر قدم نہیں رکھا ۔ اسی حالت میں رکھا تا کہ لکیر کے اس طرف تڑپتے ہوئے جان دیدیں ۔
سیف اسود کے اس معجزہ کو روداد کے شاہد کے طورپر اپنے راوی کے ایک دوسرے جملہ سے مستحکم اور مضبوط بناتا ہے کہ: وہ کہتا ہے کہ ”میں نے اس سے خطرناک اور وحشتناک ترین دن کبھی نہیں دیکھاتھا “
۳ ۔ سیف کہتا ہے :جب اسود کے قاتل اس کی خوابگاہ میں داخل ہوئے اور وہ اپنے بستر پر گہری نیند سورہا تھا تواس کا شیطان --- جسے فرشتہ کہتے تھے --- اسودکے قاتلوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے اسود کے روپ میں اس کے لہجہ و زبان سے بات کرتا تھا۔
سیف کہتا ہے: وہی شیطان اسود کے قتل ہونے کے بعد اس کے بدن میں داخل ہوا اور اس کے جسم کو ہلا رہا تھا تا کہ اس کے قاتل اس پر کنٹرول کرکے اس کا سر تن سے جدا نہ کرسکیں یہاں پر قاتلوں میں سے دو افراد اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اور اس کی بیوی نے اس کے سر کے بال پکڑلئے اور ایک شخص نے اس کے سر کو تن سے جدا کیا۔ اس دوران شیطان مبہم اور غیر مفہوم باتیں کرتے ہوئے فریاد بلند کررہا تھا ۔ جی ہاں ! سیف ان معجزوں اور غیر معمولی واقعات کو اس جھوٹے پیغمبر اسود کیلئے بیان کرتا اور اس طرح اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ایک جھوٹے پیغمبر کیلئے یہ معجزہ گڑھنے میں سیف کا محرک اور مقصد کیا تھا ؟
کیا سیف نے کسی مقصد کے بغیر اس افواہ بازی کو انجام دیا ہے ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں وہ مقصد کے بغیر کسی بھی حقیقت کو تحریر نہیں کرتا ہے اور مقصد کے بغیر کسی جھوٹ کو نہیں گڑھتا ہے ؟
کیا اس معجزہ سازی سے اس کا مقصود یہ تھا کہ اس طرح اسود کیلئے چند فضائل و مناقب جعل کرے ؟ جبکہ اسود عنسی قبیلہ قحطان سے تعلق رکھتا ہے اور سیف ہمیشہ قبیلہ قحطان کے عیوب ثابت کرتا ہے نہ مناقب۔ اس کے علاوہ سیف نے اپنی روایت کو اسود کی فضیلت کے طور پر بیان نہیں کیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ اسود شیطان کے زیر اثر تھااور شیطان اس کے ساتھ گفتگو کرتا تھا لیکن خود اسود اسے فرشتہ کہتا تھا ۔
بہر حال یہ شیطان وہی تھا جس نے قیس کی روداد کے بارے میں اسود کوخبر دی ، وہی تھا جب اسود اپنے بسترہ پر گہری نیند سورہا تھا ، اسود کی زبانی باتیں کرتاتھا ، اور وہی شیطان تھا جو اسود کے جسم کو ہلا رہا تھا تا کہ اس کے قاتل اس کا سر تن سے جدا نہ کرسکیں یہا تک چار آدمی آپس میں تعاون کرتے ہیں تا کہ اس کے بدن کی حرکت کو روک لیں پھر اس کا سر تن سے جدا کر سکے ہیں ۔
سیف کے ان مجموعی بیانات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس جھوٹے پیغمبر کو شیطان عالم غیب کی خبر دیتا تھا اور غیر معمولی و قانون فطرت کے مخالف کام کو اس کی زبان اور سائر اعضاء سے جاری کرتا تھا وہ حقیقت میں شیطان تھا لیکن اسود اسے فرشتہ کہتا تھا اور بہت سے لوگ اس کے ان غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے اس پر ایمان لے آئے تھے۔
یہ وہ مطالب ہیں جنہیں سیف نے خود جعل کرکے اسود کی داستان میں اضافہ کیا ہے، لیکن کس محرک نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا ؟ اس کو خدا بہتر جانتا ہے ہمیں کیا معلوم؟
شاید سیف کے ان جھوٹ اور اکاذیب جعل کرنے میں اس کا مقصد یہ تھا کہ وحی ، ملائکہ ، غیب کی خبریں ، معجزات کی کیفیت اوردر نتیجہ پیغمبروں کے غیر معمولی کار نامے کا مضحکہ کرنا تھا جیسا کہ اس نے اس افسانہ میں انجام دیا ہے اور انھیں شیطانیحرکت یا کہا نت یا جنات اور شیاطین سے ارتباط کے طو پر معرفی کرتا ہے اور اس داستان کو تمام پیغمبروں کے غیبی ارتباط اور فعالیت کے ایک نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہے اس طرح ان تحریفات میں اس کا محرک پیغمبروں کے کام کا مذاق اڑانا ہے اس میں اس کا وہی زندقہ و بے دین ہونا کارفرما تھا ۔
شاید وہ اس طرح مسلمانوں کو ان کے عقیدہ میں سست او رمتزلزل کرنا چاہتا تھا تا کہ انھیں اس طرح تلقین کر ے کہ کیا معلوم اسود کے غیبی کارنامے نیرنگ اور شیطنت پر متکی ہوں اور دوسرے پیغمبروں کے کارنامے فرشتہ و حقیقت پر متکی ہوں ؟ شائد دوسرے پیغمبربھی اسود کے مانند ہوں اور ان کے فرشتے بھی اسود کے فرشتہ کے مانند تھے !
بہر حال ، سیف کا مقصد جو بھی ہو ، وہ اس کام میں کامیاب ہوا ہے کہ خرافات کو مسلمانوں کے عقائد میں ملاوٹ کرکے اپنے جھوٹ اور جعلیات کو ان کے ذہن میں ڈال دے ۔
یہاں تک کہ طبری جیسے مورخین اور نامور مؤلفین نے بھی اس کے جھوٹ اور جعلیات کو مسلمانوں کے درمیان شائع کیا ہے اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی نے ان پر توجہ نہیں کی ہے ۔
اسود عنسی کی داستان کے راویوں کا سلسلہ
اولا ً: سیف نے جس داستان کو اسود عنسی کی داستان کے نام سے جعل کیا ہے ، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے:
۱ لف) اس کے ایک حصہ میں اصلی داستان میں بعض مطالب تحریف کئے گئے ہیں اس کو سیف نے تحریف اور رنگ آمیزی کرکے ایک نئی صورت دیدی ہے ۔
دوسرے حصہ میں ایسے افسانے ہیں کہ سیف نے خود انہیں جعل کیا ہے اور اصل داستان میں ان کا اضافہ کیاہے ۔
اس کے بعد ان سب کو روایتوں اور احادیث کی صورت میں پیش کیا ہے اور ان روایتوں کیلئے اپنے جعلی راویوں کے ذریعہ ایک سند بھی جعل کی ہے اور اسے مکمل اور مضبوط کرنے کے بعد علمائے تاریخ کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔
سیف نے ان روایتوں کو مندرجہ ذیل راویوں سے نقل کیا ہے :
۱ ۔ سہل بن یوسف سلمی
۲ ۔ عبد بن صخر بن لوذان سلمی انصاری
۳ ۔ عروة بن غزیہ دثینی
۴ ۔ مستنیر بن یزید نخعی
ہم نے حدیث اور رجال اور تاریخ کی کتابوں میں تحقیق کرنے کے بعد جان لیا کہ یہ سب افراد سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔
ثانیاً : اسود عنسی کی داستان کی جن روایتوں کو سیف نے اپنے جھوٹے روایوں سے نقل کیاہے ، مندرجہ ذیل مؤرخین نے انھیں ان سے لے کر اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے :
۱ ۔ طبری نے سند کے ذکر کے ساتھ۔
۲ ۔ ذہبی نے ” تاریخ اسلام “ میں سیف تک سندکے ذکر کے ساتھ ۔
۳ ۔ ابن اثیر نے ” الکامل “ میں ۔
۴ ۔ ابن کثیر نے البدایہ و النہایة میں ۔
موخر الذکر دو مورخین نے اسود عنسی کی داستان کے بارے میں سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
۵ ۔ سمعانی نے ” انساب“ میں ان روایتوں کے ایک حصہ کو درج کیا ہے ۔
۶ ۔ ابن اثیر نے ان روایتوں کو ” لباب“ میں درج کیا ہے لیکن یہاں پر سمعانی سے نقل کرتا اور اس کی سند کو سیف تک پہنچاتا ہے۔
۷ ۔ حموی نے ” معجم البلدان “ میں ان روایتوں کے ایک حصہ کو سند کے بغیر درج کر دیا ہے۔
جواہرات کی ٹوکری اورحضرت عمر کا معجزہ
لست ادری ما ذا قصد واضع هذا الخبر
میں نہیں جانتاکہ اس جھوٹی داستان کو جعل کرنے والے کا مقصود کیا ہے ؟
مولف
ہم نے گزشتہ فصلوں میں کہا کہ سیف کی خرافات پر مشتمل داستانیں دو قسم کی ہیں : ان میں سے ایک حصہ کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ان جعلی داستانوں پر مشتمل ہے کہ جس میں دوسروں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا ہے ۔ ہم نے سیف کی ان داستانوں کے نمونے گزشتہ پانچ فصلوں میں پیش کئے ، جنہیں سیف نے خود جعل کیا ہے ۔ اب اس فصل میں خرافات پر مشتمل اس کی ان داستانوں کے سلسلہ کو پیش کریں گے جن کے جعل کرنے میں دوسروں نے بھی سیف کا ہاتھ بٹایا ہے پھر یہ داستانیں تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہوئی ہیں ، جیسے مندرجہ ذیل داستان:
سیف کہتا ہے :
خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے ” ساریہ بن زنیم دئلی “ کو ” فسا“ اور ” داراب“ کے شہروں کی طرف روانہ کیا، ساریہ کے سپاہیوں نے ان دو شہروں کے باشندوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔ ایرانیوں نے اطراف و اکناف میں خبر دی اور دیہات و قصبوں کے لوگوں سے مدد طلب کی ،لوگ ہر طرف سے ان کی طر ف مدد کوآ گئے اور اس طرح ایک عظیم فوج جمع ہوگئی اور ساریہ کے سپاہیوں کو اپنے بیچ میں قرار دیا ۔ خلیفہ دوم عمر مدینہ میں نما ز جمعہ کے خطبے پڑھنے میں مشغول تھے ، وہاں سے جب انھوں نے فسا میں ساریہ کے سپاہیوں کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ تو وہیں سے ان کی طرف خطاب کیا : ” یا ساریة بن زنیم الجبل ، الجبل “ اے ساریہ ! پہاڑ کی طر ف پناہ لے لو ۔ پہاڑ کی طرف ، فسا میں مسلمانوں نے مدینہ سے عمر کی آواز سنی ۔ وہ ایک پہاڑ کے کنارے پر پناہ گزیں تھے کہ اگر اس پہاڑ میں پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے ان پر حملہ کرسکتا تھا ۔ مسلمان سپاہیوں نے بھی عمر کی آواز سن کر اسی پہاڑ میں پناہ لے لی اور وہاں سے ایرانیوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دیدی ساریہ نے اس جنگ میں کافی مقدار میں مال غنیمت پر قبضہ کیاکہ ا ن میں گراں قیمت جواہرات سے بھری ایک ٹوکری بھی تھی۔ ساریہ نے سپاہیوں سے درخواست کی کہ جواہرات بھری یہ ٹوکری خلیفہ کو بخش دیں ۔ سپاہیوں نے اس کی موافقت کی ساریہ نے اس ٹوکری کو فتح کی نوید اور خبر کے ساتھ اپنے ایک سپاہی کے ذریعہ عمر کے یہاں بھیج دیا ۔وہ شخض خلیفہ کی مجلس میں اس وقت پہنچا جب دستر خوان بچا ہوا تھا اور ایک گروہ کو کھانا کھلا یا جارہا تھا ۔ ساریہ کا قاصد بھی خلیفہ کے حکم سے ان سے جاملا ، جب انہوں نے کھانا کھا لیا تو خلیفہ اٹھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ، ساریہ کا قاصد بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا ، عمر جب گھر پہنچے تو اس کیلئے دوپہر کا کھانا لایا گیا جو خشک روٹی ، روغن زیتون اور نمک پر مشتمل تھا ، عمر نے اپنی بیوی ام کلثوم سے کہا:
کیا کھانا کھانے کیلئے ہمارے پاس نہیں آؤگی ؟
ام کلثوم نے کہا: میں آپ کے پاس ایک اجنبی مرد کی آواز سن رہی ہوں ۔
عمر نے کہا: جی ہاں ، ایک اجنبی مرد میرے پاس بیٹھا ہوا ہے ۔
ام کلثوم نے کہا: اگرآپ چاہتے ہیں کہ میں مردوں کے پاس آجاؤں ، تو میرے لئے بہتر اور مناسب لباس فراہم کریں ۔
عمر نے کہا؛ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ ام کلثوم علی کی بیٹی اور عمر کی بیوی ہے ؟ ام کلثوم نے کہا: یہ کوئی ایسا فخر نہیں ہے جو مجھے خوشنود یا سیر کرے عمر نے ساریہ کے قاصد سے کہا؛ سامنے آجاؤ اور کھانا کھاؤ ، اگر وہ مجھ سے راضی ہوتی تو یہ کھانا اس سے بہتر ہوتا ۔
سیف کہتا ہے : دونوں کھانا کھانے میں مشغول ہوئے ، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا: میں آپ کے لشکر کے کمانڈر ساریہ کا قاصد ہوں ۔
عمر نے اسے خوش آمدید کہا اور اپنے بہت نزدیک بٹھایا اس کے بعد لشکر کے بارے میں اس سے حالات پوچھے ساریہ کے قاصد نے مسلمانوں کی فتح وکامیابی کی خبرخلیفہ کو سنادی اور جواہرات کی ٹوکری کی روداد سے بھی انھیں آگاہ کیا ۔ عمر نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کے ساتھ تند کلامی کرتے ہوئے بولے: ان جواہرات کو واپس لے جاؤ اور سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردو
سیف نے ایران کے شہر ” فسا“ اور ” داراب“ کی فتح کی داستان کو دو مختلف سندوں سے نقل کیا ہے ان میں جواہرات کی ٹوکری کی روداد کو ساریہ سے منسوب کیا ہے ۔
سیف نے جواہرات کی داستان کو سلمة بن قیس شجعی
کی کردوں کے ساتھ جنگ میں بھی ذکر کیا ہے لیکن اس روایت میں جواہرات بھیجنے کی داستان کوسلمة سے منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ سلمة بن قیس نے ان جواہرات کو کردوں سے غنائم کی صورت میں حاصل کرکے عمر کو تحفہ کے طور پر بھیجا ہے۔
دوسری روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور طبری سے بھی ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے فیروز آبادی نے بھی ” قاموس“ میں اور زبیدی نے ”تاج العروس “ میں اسے لغت ” سری “ کی تشریح میں سند کے ذکر کے بغیر درج کیا ہے ۔
داستان کے متن کی جانچ پڑتال
یہ تھا سیف کی روایت کے مطالب جنگ ساریہ اور صندوق جواہرا ت کی داستان کا خلاصہ اس داستان کو دوسرے مؤرخین نے بھی دیگر اسناد کے ساتھ درج کیا ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیا اصل داستا ن کو سیف نے جعل کیا ہے اور دوسروں نے اس سے اقتباس کرکے سیف کی اسناد کے علاوہ دوسری اسناد اس میں اضافہ کی گئی ہیں یا یہ کہ اصل داستان کو دوسروں نے جعل کیا ہے اور سیف نے ان سے اقتباس کرکے ان پر بعض اسناد کا اضافہ کیا ہے؟
بہر حال ہم اس داستان کی سند اور اس کے وجود میں آنے کی کیفیت پر تحقیق کرنا نہیں چاہتے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اس کی تاریخ پیدائش اور اشاعت پر بحث کریں کیونکہ ان دو موضوعات پر بحث و تحقیق انتہائی طولانی اور تھکادینے والی ہوگی ۔
بلکہ ہم اس داستان کو متن کے لحاظ سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں جو نکات اس داستا ن میں بیان ہوئے ہیں ان پر بحث و تحقیق کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اس داستان کا متن اس کے جھوٹے ہونے کا ایک رسوا کنندہ اور مستحکم شاہد ہے پھر ایسی مضبوط دلیل اور واضح گواہ ہوتے ہوئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہی نہیں ہے
ملاحظہ ہو متن داستان :
۱ ۔ اس داستان میں آیا ہے : جب عمر مدینہ میں نماز جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اچانک ان پر حقیقت کشف ہوئی اور شہر مدینہ سے شہر فسا میں اپنے سپاہیوں کی خطرناک حالت کو مشاہدہ کیا اور ان کی اتنی دور ی سے ان کی رہنمائی کی اور پہاڑوں میں پناہ لینے کی ہدایت کی۔عمر کی آواز سپاہیوں کے کانوں تک پہنچ گئی انہوں نے اس کے حکم کے مطابق پہاڑوں میں پناہ لے لی اور مورچے سنبھالے اور قطعی و حتمی شکست سے بچ گئے اور ایک بڑی فتح و کامیابی حاصل کی ۔
ہم کہتے ہیں کہ اگر پر وردگار کی اپنے نیک بندوں سے رسم وروش ایسی تھی تو اس خلیفہ کو ”پل ابو عبید “کی روداد میں کیوں آ گاہ نہیں نہ کیا تاکہ وہ اپنے لشکر کو اس پل سے گزرنے نہ دیتا اور اتنی بڑی شکست سے دوچار ہونے سے بچا لیتا۔
کیوں جنگ احد میں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو آگاہ نہیں کیا کہ جن تیر اندازوں کو محا فظت کے لئے مقر ر کیا تھاا نھیں اپنی ماموریت کی جگہ پہاڑ کے درہ کوخالی کرنے نہ دیتے تاکہ مشر کین کے سپاہی مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ نہ کر سکتے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو وہ نا قابل تلا فی شکست و ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمانوں کے بہت سے افراد کو تہہ تیغ کیا گیا؟
۲ ۔ مزید ہم کہتے ہیں کہ جو شخص قاصد کی حیثیت سے عمر کی طرف روانہ ہوا تھا اس نے کس طرح اس فتح وکا مرانی کی خبر کو اتنی مدت تک تاخیر میں ڈال دیا اور یہ نوید خلیفہ کو نہ پہنچا ئی تاکہ کھانا کھانے کی روداد تمام ہوئی اور اس کے بعد پورے راستے میں خلیفہ کے ہمراہ ان کے گھر تک اس سلسلہ میں کچھ کہا اور خلیفہ کے گھر میں بھی لب کشائی نہیں کی یہاں تک دوسری بار کھانا کھانے سے فارغ ہوا اس کے بعد اپنے آپ کوپہچنوای
جی ہاں ، کیسے اور کیوں اس قاصد نے اتنی اہم خبر کو اس طولانی مدت تک تاخیر دیتا رہا؟اور اس مدت کے دوران اس کا اونٹ کہاں پر تھا ، جس پر جواہرات کی ٹوکری لادی ہوئی تھی؟
۳ ۔ ہم پوچھتے ہیں : سیف کے کہنے کے مطابق جواہرات کو تحفہ کے طور پر عمر کو بھیجنے والا کمانڈر کون تھا؟
۴ ۔ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ جنگ کن کے ساتھ تھی، ایرانیوں سے یاد کُردوں سے ؟ اگر کُردوں سے تھی تو کس جگہ پر اور کس علاقہ میں تھی ؟
۵ ۔پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کس طرح خلیفہ نے اپنی بیوی ام کلثوم سے مطالبہ کیا کہ آکر ایک نا محرم کے ساتھ بیٹھے اور اس کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھائے ؟
کیا ام کلثوم نے خلیفہ کی درخواست اس لئے منظور نہیں کی کہ اس کے لباس نئے اور مردوں کی بزم کے مناسب نہیں تھے ؟ جبکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” عورتیں یہ حق نہیں رکھتی ہیں کہ اپنی زینت مردوں کو دکھائیں مگر یہ کہ اپنے شوہر یا ماں باپ اور اولاد کو“ کیا مدینہ پیغمبر ان دنوں مردو زن کے اختلاط کے لحاظ سے آج کل کے ہمارے شہروں کے مانند تھا اور خلیفہ بھی آج کے زمانے کے مردوں کی طرح تھے کہ اپنی بیوی کو نامحرموں کی محفلوں میں شرکت کی اجازت دیتے اور ان کی بیوی بھی مردوں کی محفلوں میں خودنمائی اور خودآرائی کرتی ؟ کیا اس زمانے میں مدینہ منورہ میں کوئی مرد اپنی بیوی سے متعلق اس قسم کا کام نجام دیتا تھا؟
ہم نہیں جانتے اس داستان کو جعل کرنے والے کا مقصد کیا تھا ؟ البتہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات او ر جھوٹ پر مشتمل داستانیں جعل کرکے انھیں مسلمانوں کے اعتقادات میں داخل کرنا چاہتا تھا تا کہ اس طرح مسلمانوں کو ان کے عقائد میں سست او رمتزلزل کر سکے منتہی اس نے تاریخ نویسی ، سیرت اور اصحاب پیغمبر کے حالات بیان کرکے اپنے اس مقصد کی طرف قدم بڑھا یا ہے، کیونکہ اس قسم کی تاریخ اور سیرت جیسے خلیفہ کے زہد و تقوی کی داستان ، قدرتمندوں اور صاحبان اقتدار کے فضائل و معجزے سننا اکثر لوگوں کیلئے خوش آئند اور لذت بخش ہے، اور اس طرح اسے قبول کرنا ان کیلئے آسان ہوتا ہے ۔
اس داستان کے بارے میں دانشوروں کا طریقہ کار:
گذشتہ دانشوروں کی کتابوں کے مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض علماء اس داستان کے جعلی اور جھوٹی ہونے کے بارے میں متوجہ ہوئے ہیں اور اس سلسلہ میں ا پنے نظریات کو واضح طور پر بیان کرچکے ہیں اب ہم ان میں سے بعض نمونے حسب ذیل بیان کرتے ہیں :
۱ ۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ا س داستان کو نقل کیا ہے لیکن خلیفہ کی اپنی بیوی سے ایک اجنبی مرد کے ساتھ دسترخوان پر کھاناکھانے کی گفتگو کی روداد جو ساریہ اور مسلمہ کی خبر میں آئی ہے کو حذف کیا ہے جبکہ داستان کا یہ حصہ اس افسانہ کا شاہکار ہے جو اس داستان کو جعل کرنے والے کا بنیادی مقصد تھا۔
۲ ۔ ابن حزم ” جمہرة الانساب “ میں جب بنی الدیل کے شجرہ نسب پر پہنچتا ہے تو کہتا ہے :
” ساریہ بن زنیم “ اور یہ وہی ساریہ ہے جس کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ عمر نے اسے مدینہ سے پکارا اور اس نے ایران کے ”فسا “ میں عمرکی آواز سنی، لیکن یہ مطلب بہت بعید ہے میری نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور صحت سے کوسوں دور ہے۔
۳ ۔ سیف اس داستان میں کہتا ہے: ” جنگ د ارا بجرد “ میں مسلمانوں کے ہاتھ جواہرات کی ایک ٹوکری ہاتھ آئی ، اسے تحفہ کے طور پر خلیفہ کی خدمت میں بھیجا گیا ، لیکن دوسرے مؤرخین کے بیان میں یہ داستان دوسری صورت میں ذکر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر :
بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے : خلیفہ دوم نے ، جنگ نہاوند میں جنگی غنائم کی سرپرستی ”سائب بن اقرع ‘ کو سونپی ، اس نے بھی غنائم کو جمع کیا اور انھیں جنگ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں میں تقسیم کیا ۔ سائب نے نہاوند میں غنائم تقسیم کرنے کے بعد ایک خزانہ پایا ۔ اس خزانہ میں جواہرات سے بھری دو ٹوکریاں تھیں ان دونوں ٹوکریوں کو غنائم جنگی کے خمس کے ساتھ خلیفہ عمر کے پاس لے گیا ، ان کے پیدا ہونے کی تفصیلات خلیفہ کو بتائی ، خلیفہ نے کہا: انھیں بازار میں بیچ کر اس کے پیسے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں میں تقسیم کردو۔ سائب ان جواہرات کو بازار کوفہ میں لے گیا اور عمرو بن حریث کو فروخت کیا اور اس کے پیسے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے سپاہیوں میں تقسیم کیا
اسی روداد کے مانند دینوری نے ” اخبار الطوال “ میں ا ور اعثم نے اپنی ”’ فتوح “ میں نقل کیا ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سائب نے جنگ نہاوند میں پائے جانے والے جواہرات کی ان دو ٹوکریوں کو ان اموال میں محسوب کیا ہے کہ جو حملہ اور جنگ کے بغیر انہیں حاصل کیا گیا ہو اور یہ غنائم کا جزء نہیں ہے کہ انھیں غنائم کے خمس کے ہمراہ خلیفہ عمر کو بھیجا ہوگا ۔ لیکن عمر نے اسے غنائم جنگی محسوب کرکے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے سپاہیوں کیلئے واپس بھیج دیا ۔ لیکن، سیف کہتا ہے کہ یہ جواہرات جنگ فسا میں ، جنگ و غلبہ کے دوران مسلمانوں کے ہاتھ آئے ، اور مسلمانوں نے انھیں اپنے کمانڈر کے حکم سے تحفہ کے طورپر خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیا نہ اس صور ت میں کہ یہ خلیفہ وقت سے مخصوص تھے ۔
یہ تھا ، مؤرخین کی روایتوں کے مطابق جواہرات کے ایک صندوق یا دو صندوقوں کی داستان کا خلاصہ جو سیف کی روایتوں سے کسی قسم کی مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔
۴ ۔ سیف کہتا ہے کہ ایک اہم جنگ چھڑ گئی او رمسلمان اس جنگ میں فاتح ہوئے اس وقت مسلمانوں کے لشکر کا کمانڈر ساریة بن زینم تھا ۔
لیکن بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے کہ اولا ً: ”دارابجرد “ میں کوئی جنگ ہی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ جگہ وہاں کے لوگوں کے ہتھیار ڈالنے اور صلح کے ذریعہ فتح ہوئی ہے اور اس کا فاتح بھی عثمان بن ابی ا لعاص ثقفی تھا نہ ساریة بن زنیم اور مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار بھی ابو موسیٰ اشعری تھا نہ ابن زنیم ۔
چھان بین اور موازنہ کا نتیجہ
۱ ۔ ” فسا“ اور ” دارابجرد “ ساریہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ ان دو شہروں کا فاتح عثمان بن ابی العاص تھا ۔ اور اس جنگ میں سپہ سالار اعظم ابو موسی ٰ اشعری تھا ۔
۲ ۔ جواہرات کے صندوق کو ساریہ یا سلمہ اشجعی نے خلیفہ کے یہاں نہیں بھیجا ہے ، بلکہ اسے جنگ نہاوندمیں مسلمانوں کے کمانڈر سائب بن اقرع خلیفہ کے پاس لے گیاہے۔
____________________