عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 17%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18648 / ڈاؤنلوڈ: 4555
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

۳ ۔ سیف کہتا ہے : اسود نے اپنے لشکر کی کمانڈری ، یمن میں موجود قیس کو سونپی اور رسول خدا نے قیس جو یمن میں تھا اور یمن میں مقیم ایرانیوں کو ایک خط کے ذریعہ حکم دیا کہ اسود کو قتل کر ڈالیں ۔ لیکن دوسرے مورخین نے کہا ہے : رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیس کو براہ راست اپنی طرف سے اسود سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہاں پر مقیم ایرانیوں کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئے اور ان کی ہمت افزائی کرے ۔ جب قیس صنعا میں داخل ہونا چاہتا تھا تو اس نے اسود کا پیرو اور حامی ہونے کا اظہار کیا ، اسود نے بھی اس پر یقین کر لیا اور قیس کو صنعا میں داخل ہونے کی اجازت دیدی۔

یہ ان تحریفات و تغییرات کا خلاصہ تھا جسے سیف نے اسود کی داستان میں انجام دیا ہے ، لیکن وہ چیزیں جو سیف نے اس داستان میں خود اضافہ کی ہیں اور جھوٹ اور افسانے کے طور پر اس داستان میں ضمیمہ کی ہیں وہ حسب ذیل ہیں کہ کہتا ہے :

۱ ۔ اسود کا ایک شیطان تھا جو اسے وحی کرتا تھا اور اسے غیب کی اطلاع دیتا تھا اسود اسے اپنا ”فرشتہ “ کہتا تھا ۔ اس شیطان نے اسود کو چند بار خبر دی کہ ” یہ قیس ، جسے تم نے عزت و احترام میں اپنے برابر پہنچا دیا ہے، عنقریب تمہیں قتل کر ڈالے گا۔

سیف کہتا ہے: اسود نے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور اس لکیر کے پیچھے سو اونٹ اورگائے جمع کیں ، پھر ان کے سامنے کھڑا ہوا ا س کے بعد بغیر اس کے کہ ان حیوانوں کے ہاتھ پاؤں باندھے انھیں نحر کردیا ، جبکہ ان میں سے ایک نے بھی لکیر سے باہر قدم نہیں رکھا ۔ اسی حالت میں رکھا تا کہ لکیر کے اس طرف تڑپتے ہوئے جان دیدیں ۔

سیف اسود کے اس معجزہ کو روداد کے شاہد کے طورپر اپنے راوی کے ایک دوسرے جملہ سے مستحکم اور مضبوط بناتا ہے کہ: وہ کہتا ہے کہ ”میں نے اس سے خطرناک اور وحشتناک ترین دن کبھی نہیں دیکھاتھا “

۳ ۔ سیف کہتا ہے :جب اسود کے قاتل اس کی خوابگاہ میں داخل ہوئے اور وہ اپنے بستر پر گہری نیند سورہا تھا تواس کا شیطان --- جسے فرشتہ کہتے تھے --- اسودکے قاتلوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے اسود کے روپ میں اس کے لہجہ و زبان سے بات کرتا تھا۔

سیف کہتا ہے: وہی شیطان اسود کے قتل ہونے کے بعد اس کے بدن میں داخل ہوا اور اس کے جسم کو ہلا رہا تھا تا کہ اس کے قاتل اس پر کنٹرول کرکے اس کا سر تن سے جدا نہ کرسکیں یہاں پر قاتلوں میں سے دو افراد اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اور اس کی بیوی نے اس کے سر کے بال پکڑلئے اور ایک شخص نے اس کے سر کو تن سے جدا کیا۔ اس دوران شیطان مبہم اور غیر مفہوم باتیں کرتے ہوئے فریاد بلند کررہا تھا ۔ جی ہاں ! سیف ان معجزوں اور غیر معمولی واقعات کو اس جھوٹے پیغمبر اسود کیلئے بیان کرتا اور اس طرح اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ایک جھوٹے پیغمبر کیلئے یہ معجزہ گڑھنے میں سیف کا محرک اور مقصد کیا تھا ؟

کیا سیف نے کسی مقصد کے بغیر اس افواہ بازی کو انجام دیا ہے ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں وہ مقصد کے بغیر کسی بھی حقیقت کو تحریر نہیں کرتا ہے اور مقصد کے بغیر کسی جھوٹ کو نہیں گڑھتا ہے ؟

کیا اس معجزہ سازی سے اس کا مقصود یہ تھا کہ اس طرح اسود کیلئے چند فضائل و مناقب جعل کرے ؟ جبکہ اسود عنسی قبیلہ قحطان سے تعلق رکھتا ہے اور سیف ہمیشہ قبیلہ قحطان کے عیوب ثابت کرتا ہے نہ مناقب۔ اس کے علاوہ سیف نے اپنی روایت کو اسود کی فضیلت کے طور پر بیان نہیں کیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ اسود شیطان کے زیر اثر تھااور شیطان اس کے ساتھ گفتگو کرتا تھا لیکن خود اسود اسے فرشتہ کہتا تھا ۔

بہر حال یہ شیطان وہی تھا جس نے قیس کی روداد کے بارے میں اسود کوخبر دی ، وہی تھا جب اسود اپنے بسترہ پر گہری نیند سورہا تھا ، اسود کی زبانی باتیں کرتاتھا ، اور وہی شیطان تھا جو اسود کے جسم کو ہلا رہا تھا تا کہ اس کے قاتل اس کا سر تن سے جدا نہ کرسکیں یہا تک چار آدمی آپس میں تعاون کرتے ہیں تا کہ اس کے بدن کی حرکت کو روک لیں پھر اس کا سر تن سے جدا کر سکے ہیں ۔

سیف کے ان مجموعی بیانات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس جھوٹے پیغمبر کو شیطان عالم غیب کی خبر دیتا تھا اور غیر معمولی و قانون فطرت کے مخالف کام کو اس کی زبان اور سائر اعضاء سے جاری کرتا تھا وہ حقیقت میں شیطان تھا لیکن اسود اسے فرشتہ کہتا تھا اور بہت سے لوگ اس کے ان غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے اس پر ایمان لے آئے تھے۔

یہ وہ مطالب ہیں جنہیں سیف نے خود جعل کرکے اسود کی داستان میں اضافہ کیا ہے، لیکن کس محرک نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا ؟ اس کو خدا بہتر جانتا ہے ہمیں کیا معلوم؟

شاید سیف کے ان جھوٹ اور اکاذیب جعل کرنے میں اس کا مقصد یہ تھا کہ وحی ، ملائکہ ، غیب کی خبریں ، معجزات کی کیفیت اوردر نتیجہ پیغمبروں کے غیر معمولی کار نامے کا مضحکہ کرنا تھا جیسا کہ اس نے اس افسانہ میں انجام دیا ہے اور انھیں شیطانیحرکت یا کہا نت یا جنات اور شیاطین سے ارتباط کے طو پر معرفی کرتا ہے اور اس داستان کو تمام پیغمبروں کے غیبی ارتباط اور فعالیت کے ایک نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہے اس طرح ان تحریفات میں اس کا محرک پیغمبروں کے کام کا مذاق اڑانا ہے اس میں اس کا وہی زندقہ و بے دین ہونا کارفرما تھا ۔

شاید وہ اس طرح مسلمانوں کو ان کے عقیدہ میں سست او رمتزلزل کرنا چاہتا تھا تا کہ انھیں اس طرح تلقین کر ے کہ کیا معلوم اسود کے غیبی کارنامے نیرنگ اور شیطنت پر متکی ہوں اور دوسرے پیغمبروں کے کارنامے فرشتہ و حقیقت پر متکی ہوں ؟ شائد دوسرے پیغمبربھی اسود کے مانند ہوں اور ان کے فرشتے بھی اسود کے فرشتہ کے مانند تھے !

بہر حال ، سیف کا مقصد جو بھی ہو ، وہ اس کام میں کامیاب ہوا ہے کہ خرافات کو مسلمانوں کے عقائد میں ملاوٹ کرکے اپنے جھوٹ اور جعلیات کو ان کے ذہن میں ڈال دے ۔

یہاں تک کہ طبری جیسے مورخین اور نامور مؤلفین نے بھی اس کے جھوٹ اور جعلیات کو مسلمانوں کے درمیان شائع کیا ہے اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی نے ان پر توجہ نہیں کی ہے ۔

اسود عنسی کی داستان کے راویوں کا سلسلہ

اولا ً: سیف نے جس داستان کو اسود عنسی کی داستان کے نام سے جعل کیا ہے ، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے:

۱ لف) اس کے ایک حصہ میں اصلی داستان میں بعض مطالب تحریف کئے گئے ہیں اس کو سیف نے تحریف اور رنگ آمیزی کرکے ایک نئی صورت دیدی ہے ۔

دوسرے حصہ میں ایسے افسانے ہیں کہ سیف نے خود انہیں جعل کیا ہے اور اصل داستان میں ان کا اضافہ کیاہے ۔

اس کے بعد ان سب کو روایتوں اور احادیث کی صورت میں پیش کیا ہے اور ان روایتوں کیلئے اپنے جعلی راویوں کے ذریعہ ایک سند بھی جعل کی ہے اور اسے مکمل اور مضبوط کرنے کے بعد علمائے تاریخ کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔

سیف نے ان روایتوں کو مندرجہ ذیل راویوں سے نقل کیا ہے :

۱ ۔ سہل بن یوسف سلمی

۲ ۔ عبد بن صخر بن لوذان سلمی انصاری

۳ ۔ عروة بن غزیہ دثینی

۴ ۔ مستنیر بن یزید نخعی

ہم نے حدیث اور رجال اور تاریخ کی کتابوں میں تحقیق کرنے کے بعد جان لیا کہ یہ سب افراد سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔

ثانیاً : اسود عنسی کی داستان کی جن روایتوں کو سیف نے اپنے جھوٹے روایوں سے نقل کیاہے ، مندرجہ ذیل مؤرخین نے انھیں ان سے لے کر اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے :

۱ ۔ طبری نے سند کے ذکر کے ساتھ۔

۲ ۔ ذہبی نے ” تاریخ اسلام “ میں سیف تک سندکے ذکر کے ساتھ ۔

۳ ۔ ابن اثیر نے ” الکامل “ میں ۔

۴ ۔ ابن کثیر نے البدایہ و النہایة میں ۔

موخر الذکر دو مورخین نے اسود عنسی کی داستان کے بارے میں سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۵ ۔ سمعانی نے ” انساب“ میں ان روایتوں کے ایک حصہ کو درج کیا ہے ۔

۶ ۔ ابن اثیر نے ان روایتوں کو ” لباب“ میں درج کیا ہے لیکن یہاں پر سمعانی سے نقل کرتا اور اس کی سند کو سیف تک پہنچاتا ہے۔

۷ ۔ حموی نے ” معجم البلدان “ میں ان روایتوں کے ایک حصہ کو سند کے بغیر درج کر دیا ہے۔

جواہرات کی ٹوکری اورحضرت عمر کا معجزہ

لست ادری ما ذا قصد واضع هذا الخبر

میں نہیں جانتاکہ اس جھوٹی داستان کو جعل کرنے والے کا مقصود کیا ہے ؟

مولف

ہم نے گزشتہ فصلوں میں کہا کہ سیف کی خرافات پر مشتمل داستانیں دو قسم کی ہیں : ان میں سے ایک حصہ کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ان جعلی داستانوں پر مشتمل ہے کہ جس میں دوسروں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا ہے ۔ ہم نے سیف کی ان داستانوں کے نمونے گزشتہ پانچ فصلوں میں پیش کئے ، جنہیں سیف نے خود جعل کیا ہے ۔ اب اس فصل میں خرافات پر مشتمل اس کی ان داستانوں کے سلسلہ کو پیش کریں گے جن کے جعل کرنے میں دوسروں نے بھی سیف کا ہاتھ بٹایا ہے پھر یہ داستانیں تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہوئی ہیں ، جیسے مندرجہ ذیل داستان:

سیف کہتا ہے :

خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے ” ساریہ بن زنیم دئلی “ کو ” فسا“ اور ” داراب“ کے شہروں کی طرف روانہ کیا، ساریہ کے سپاہیوں نے ان دو شہروں کے باشندوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔ ایرانیوں نے اطراف و اکناف میں خبر دی اور دیہات و قصبوں کے لوگوں سے مدد طلب کی ،لوگ ہر طرف سے ان کی طر ف مدد کوآ گئے اور اس طرح ایک عظیم فوج جمع ہوگئی اور ساریہ کے سپاہیوں کو اپنے بیچ میں قرار دیا ۔ خلیفہ دوم عمر مدینہ میں نما ز جمعہ کے خطبے پڑھنے میں مشغول تھے ، وہاں سے جب انھوں نے فسا میں ساریہ کے سپاہیوں کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ تو وہیں سے ان کی طرف خطاب کیا : ” یا ساریة بن زنیم الجبل ، الجبل “ اے ساریہ ! پہاڑ کی طر ف پناہ لے لو ۔ پہاڑ کی طرف ، فسا میں مسلمانوں نے مدینہ سے عمر کی آواز سنی ۔ وہ ایک پہاڑ کے کنارے پر پناہ گزیں تھے کہ اگر اس پہاڑ میں پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے ان پر حملہ کرسکتا تھا ۔ مسلمان سپاہیوں نے بھی عمر کی آواز سن کر اسی پہاڑ میں پناہ لے لی اور وہاں سے ایرانیوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دیدی ساریہ نے اس جنگ میں کافی مقدار میں مال غنیمت پر قبضہ کیاکہ ا ن میں گراں قیمت جواہرات سے بھری ایک ٹوکری بھی تھی۔ ساریہ نے سپاہیوں سے درخواست کی کہ جواہرات بھری یہ ٹوکری خلیفہ کو بخش دیں ۔ سپاہیوں نے اس کی موافقت کی ساریہ نے اس ٹوکری کو فتح کی نوید اور خبر کے ساتھ اپنے ایک سپاہی کے ذریعہ عمر کے یہاں بھیج دیا ۔وہ شخض خلیفہ کی مجلس میں اس وقت پہنچا جب دستر خوان بچا ہوا تھا اور ایک گروہ کو کھانا کھلا یا جارہا تھا ۔ ساریہ کا قاصد بھی خلیفہ کے حکم سے ان سے جاملا ، جب انہوں نے کھانا کھا لیا تو خلیفہ اٹھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ، ساریہ کا قاصد بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا ، عمر جب گھر پہنچے تو اس کیلئے دوپہر کا کھانا لایا گیا جو خشک روٹی ، روغن زیتون اور نمک پر مشتمل تھا ، عمر نے اپنی بیوی ام کلثوم سے کہا:

کیا کھانا کھانے کیلئے ہمارے پاس نہیں آؤگی ؟

ام کلثوم نے کہا: میں آپ کے پاس ایک اجنبی مرد کی آواز سن رہی ہوں ۔

عمر نے کہا: جی ہاں ، ایک اجنبی مرد میرے پاس بیٹھا ہوا ہے ۔

ام کلثوم نے کہا: اگرآپ چاہتے ہیں کہ میں مردوں کے پاس آجاؤں ، تو میرے لئے بہتر اور مناسب لباس فراہم کریں ۔

عمر نے کہا؛ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ ام کلثوم علی کی بیٹی اور عمر کی بیوی ہے ؟ ام کلثوم نے کہا: یہ کوئی ایسا فخر نہیں ہے جو مجھے خوشنود یا سیر کرے عمر نے ساریہ کے قاصد سے کہا؛ سامنے آجاؤ اور کھانا کھاؤ ، اگر وہ مجھ سے راضی ہوتی تو یہ کھانا اس سے بہتر ہوتا ۔

سیف کہتا ہے : دونوں کھانا کھانے میں مشغول ہوئے ، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا: میں آپ کے لشکر کے کمانڈر ساریہ کا قاصد ہوں ۔

عمر نے اسے خوش آمدید کہا اور اپنے بہت نزدیک بٹھایا اس کے بعد لشکر کے بارے میں اس سے حالات پوچھے ساریہ کے قاصد نے مسلمانوں کی فتح وکامیابی کی خبرخلیفہ کو سنادی اور جواہرات کی ٹوکری کی روداد سے بھی انھیں آگاہ کیا ۔ عمر نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کے ساتھ تند کلامی کرتے ہوئے بولے: ان جواہرات کو واپس لے جاؤ اور سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردو

سیف نے ایران کے شہر ” فسا“ اور ” داراب“ کی فتح کی داستان کو دو مختلف سندوں سے نقل کیا ہے ان میں جواہرات کی ٹوکری کی روداد کو ساریہ سے منسوب کیا ہے ۔

سیف نے جواہرات کی داستان کو سلمة بن قیس شجعی(۱) کی کردوں کے ساتھ جنگ میں بھی ذکر کیا ہے لیکن اس روایت میں جواہرات بھیجنے کی داستان کوسلمة سے منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ سلمة بن قیس نے ان جواہرات کو کردوں سے غنائم کی صورت میں حاصل کرکے عمر کو تحفہ کے طور پر بھیجا ہے۔

دوسری روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور طبری سے بھی ابن کثیر نے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے فیروز آبادی نے بھی ” قاموس“ میں اور زبیدی نے ”تاج العروس “ میں اسے لغت ” سری “ کی تشریح میں سند کے ذکر کے بغیر درج کیا ہے ۔

داستان کے متن کی جانچ پڑتال

یہ تھا سیف کی روایت کے مطالب جنگ ساریہ اور صندوق جواہرا ت کی داستان کا خلاصہ اس داستان کو دوسرے مؤرخین نے بھی دیگر اسناد کے ساتھ درج کیا ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیا اصل داستا ن کو سیف نے جعل کیا ہے اور دوسروں نے اس سے اقتباس کرکے سیف کی اسناد کے علاوہ دوسری اسناد اس میں اضافہ کی گئی ہیں یا یہ کہ اصل داستان کو دوسروں نے جعل کیا ہے اور سیف نے ان سے اقتباس کرکے ان پر بعض اسناد کا اضافہ کیا ہے؟

بہر حال ہم اس داستان کی سند اور اس کے وجود میں آنے کی کیفیت پر تحقیق کرنا نہیں چاہتے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اس کی تاریخ پیدائش اور اشاعت پر بحث کریں کیونکہ ان دو موضوعات پر بحث و تحقیق انتہائی طولانی اور تھکادینے والی ہوگی ۔

بلکہ ہم اس داستان کو متن کے لحاظ سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں جو نکات اس داستا ن میں بیان ہوئے ہیں ان پر بحث و تحقیق کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اس داستان کا متن اس کے جھوٹے ہونے کا ایک رسوا کنندہ اور مستحکم شاہد ہے پھر ایسی مضبوط دلیل اور واضح گواہ ہوتے ہوئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہی نہیں ہے

ملاحظہ ہو متن داستان :

۱ ۔ اس داستان میں آیا ہے : جب عمر مدینہ میں نماز جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اچانک ان پر حقیقت کشف ہوئی اور شہر مدینہ سے شہر فسا میں اپنے سپاہیوں کی خطرناک حالت کو مشاہدہ کیا اور ان کی اتنی دور ی سے ان کی رہنمائی کی اور پہاڑوں میں پناہ لینے کی ہدایت کی۔عمر کی آواز سپاہیوں کے کانوں تک پہنچ گئی انہوں نے اس کے حکم کے مطابق پہاڑوں میں پناہ لے لی اور مورچے سنبھالے اور قطعی و حتمی شکست سے بچ گئے اور ایک بڑی فتح و کامیابی حاصل کی ۔

ہم کہتے ہیں کہ اگر پر وردگار کی اپنے نیک بندوں سے رسم وروش ایسی تھی تو اس خلیفہ کو ”پل ابو عبید “کی روداد میں کیوں آ گاہ نہیں نہ کیا تاکہ وہ اپنے لشکر کو اس پل سے گزرنے نہ دیتا اور اتنی بڑی شکست سے دوچار ہونے سے بچا لیتا۔

کیوں جنگ احد میں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو آگاہ نہیں کیا کہ جن تیر اندازوں کو محا فظت کے لئے مقر ر کیا تھاا نھیں اپنی ماموریت کی جگہ پہاڑ کے درہ کوخالی کرنے نہ دیتے تاکہ مشر کین کے سپاہی مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ نہ کر سکتے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو وہ نا قابل تلا فی شکست و ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمانوں کے بہت سے افراد کو تہہ تیغ کیا گیا؟

۲ ۔ مزید ہم کہتے ہیں کہ جو شخص قاصد کی حیثیت سے عمر کی طرف روانہ ہوا تھا اس نے کس طرح اس فتح وکا مرانی کی خبر کو اتنی مدت تک تاخیر میں ڈال دیا اور یہ نوید خلیفہ کو نہ پہنچا ئی تاکہ کھانا کھانے کی روداد تمام ہوئی اور اس کے بعد پورے راستے میں خلیفہ کے ہمراہ ان کے گھر تک اس سلسلہ میں کچھ کہا اور خلیفہ کے گھر میں بھی لب کشائی نہیں کی یہاں تک دوسری بار کھانا کھانے سے فارغ ہوا اس کے بعد اپنے آپ کوپہچنوای

جی ہاں ، کیسے اور کیوں اس قاصد نے اتنی اہم خبر کو اس طولانی مدت تک تاخیر دیتا رہا؟اور اس مدت کے دوران اس کا اونٹ کہاں پر تھا ، جس پر جواہرات کی ٹوکری لادی ہوئی تھی؟

۳ ۔ ہم پوچھتے ہیں : سیف کے کہنے کے مطابق جواہرات کو تحفہ کے طور پر عمر کو بھیجنے والا کمانڈر کون تھا؟

۴ ۔ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ جنگ کن کے ساتھ تھی، ایرانیوں سے یاد کُردوں سے ؟ اگر کُردوں سے تھی تو کس جگہ پر اور کس علاقہ میں تھی ؟

۵ ۔پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کس طرح خلیفہ نے اپنی بیوی ام کلثوم سے مطالبہ کیا کہ آکر ایک نا محرم کے ساتھ بیٹھے اور اس کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھائے ؟

کیا ام کلثوم نے خلیفہ کی درخواست اس لئے منظور نہیں کی کہ اس کے لباس نئے اور مردوں کی بزم کے مناسب نہیں تھے ؟ جبکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” عورتیں یہ حق نہیں رکھتی ہیں کہ اپنی زینت مردوں کو دکھائیں مگر یہ کہ اپنے شوہر یا ماں باپ اور اولاد کو“ کیا مدینہ پیغمبر ان دنوں مردو زن کے اختلاط کے لحاظ سے آج کل کے ہمارے شہروں کے مانند تھا اور خلیفہ بھی آج کے زمانے کے مردوں کی طرح تھے کہ اپنی بیوی کو نامحرموں کی محفلوں میں شرکت کی اجازت دیتے اور ان کی بیوی بھی مردوں کی محفلوں میں خودنمائی اور خودآرائی کرتی ؟ کیا اس زمانے میں مدینہ منورہ میں کوئی مرد اپنی بیوی سے متعلق اس قسم کا کام نجام دیتا تھا؟

ہم نہیں جانتے اس داستان کو جعل کرنے والے کا مقصد کیا تھا ؟ البتہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات او ر جھوٹ پر مشتمل داستانیں جعل کرکے انھیں مسلمانوں کے اعتقادات میں داخل کرنا چاہتا تھا تا کہ اس طرح مسلمانوں کو ان کے عقائد میں سست او رمتزلزل کر سکے منتہی اس نے تاریخ نویسی ، سیرت اور اصحاب پیغمبر کے حالات بیان کرکے اپنے اس مقصد کی طرف قدم بڑھا یا ہے، کیونکہ اس قسم کی تاریخ اور سیرت جیسے خلیفہ کے زہد و تقوی کی داستان ، قدرتمندوں اور صاحبان اقتدار کے فضائل و معجزے سننا اکثر لوگوں کیلئے خوش آئند اور لذت بخش ہے، اور اس طرح اسے قبول کرنا ان کیلئے آسان ہوتا ہے ۔

اس داستان کے بارے میں دانشوروں کا طریقہ کار:

گذشتہ دانشوروں کی کتابوں کے مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض علماء اس داستان کے جعلی اور جھوٹی ہونے کے بارے میں متوجہ ہوئے ہیں اور اس سلسلہ میں ا پنے نظریات کو واضح طور پر بیان کرچکے ہیں اب ہم ان میں سے بعض نمونے حسب ذیل بیان کرتے ہیں :

۱ ۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ا س داستان کو نقل کیا ہے لیکن خلیفہ کی اپنی بیوی سے ایک اجنبی مرد کے ساتھ دسترخوان پر کھاناکھانے کی گفتگو کی روداد جو ساریہ اور مسلمہ کی خبر میں آئی ہے کو حذف کیا ہے جبکہ داستان کا یہ حصہ اس افسانہ کا شاہکار ہے جو اس داستان کو جعل کرنے والے کا بنیادی مقصد تھا۔

۲ ۔ ابن حزم ” جمہرة الانساب “ میں جب بنی الدیل کے شجرہ نسب پر پہنچتا ہے تو کہتا ہے :

” ساریہ بن زنیم “ اور یہ وہی ساریہ ہے جس کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ عمر نے اسے مدینہ سے پکارا اور اس نے ایران کے ”فسا “ میں عمرکی آواز سنی، لیکن یہ مطلب بہت بعید ہے میری نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور صحت سے کوسوں دور ہے۔

۳ ۔ سیف اس داستان میں کہتا ہے: ” جنگ د ارا بجرد “ میں مسلمانوں کے ہاتھ جواہرات کی ایک ٹوکری ہاتھ آئی ، اسے تحفہ کے طور پر خلیفہ کی خدمت میں بھیجا گیا ، لیکن دوسرے مؤرخین کے بیان میں یہ داستان دوسری صورت میں ذکر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر :

بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے : خلیفہ دوم نے ، جنگ نہاوند میں جنگی غنائم کی سرپرستی ”سائب بن اقرع ‘ کو سونپی ، اس نے بھی غنائم کو جمع کیا اور انھیں جنگ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں میں تقسیم کیا ۔ سائب نے نہاوند میں غنائم تقسیم کرنے کے بعد ایک خزانہ پایا ۔ اس خزانہ میں جواہرات سے بھری دو ٹوکریاں تھیں ان دونوں ٹوکریوں کو غنائم جنگی کے خمس کے ساتھ خلیفہ عمر کے پاس لے گیا ، ان کے پیدا ہونے کی تفصیلات خلیفہ کو بتائی ، خلیفہ نے کہا: انھیں بازار میں بیچ کر اس کے پیسے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں میں تقسیم کردو۔ سائب ان جواہرات کو بازار کوفہ میں لے گیا اور عمرو بن حریث کو فروخت کیا اور اس کے پیسے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے سپاہیوں میں تقسیم کیا(۱)

اسی روداد کے مانند دینوری نے ” اخبار الطوال “ میں ا ور اعثم نے اپنی ”’ فتوح “ میں نقل کیا ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سائب نے جنگ نہاوند میں پائے جانے والے جواہرات کی ان دو ٹوکریوں کو ان اموال میں محسوب کیا ہے کہ جو حملہ اور جنگ کے بغیر انہیں حاصل کیا گیا ہو اور یہ غنائم کا جزء نہیں ہے کہ انھیں غنائم کے خمس کے ہمراہ خلیفہ عمر کو بھیجا ہوگا ۔ لیکن عمر نے اسے غنائم جنگی محسوب کرکے محاذ جنگ میں شرکت کرنے والے سپاہیوں کیلئے واپس بھیج دیا ۔ لیکن، سیف کہتا ہے کہ یہ جواہرات جنگ فسا میں ، جنگ و غلبہ کے دوران مسلمانوں کے ہاتھ آئے ، اور مسلمانوں نے انھیں اپنے کمانڈر کے حکم سے تحفہ کے طورپر خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیا نہ اس صور ت میں کہ یہ خلیفہ وقت سے مخصوص تھے ۔

یہ تھا ، مؤرخین کی روایتوں کے مطابق جواہرات کے ایک صندوق یا دو صندوقوں کی داستان کا خلاصہ جو سیف کی روایتوں سے کسی قسم کی مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔

۴ ۔ سیف کہتا ہے کہ ایک اہم جنگ چھڑ گئی او رمسلمان اس جنگ میں فاتح ہوئے اس وقت مسلمانوں کے لشکر کا کمانڈر ساریة بن زینم تھا ۔

لیکن بلاذری ” فتوح البلدان “ میں کہتا ہے کہ اولا ً: ”دارابجرد “ میں کوئی جنگ ہی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ جگہ وہاں کے لوگوں کے ہتھیار ڈالنے اور صلح کے ذریعہ فتح ہوئی ہے اور اس کا فاتح بھی عثمان بن ابی ا لعاص ثقفی تھا نہ ساریة بن زنیم اور مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار بھی ابو موسیٰ اشعری تھا نہ ابن زنیم ۔

چھان بین اور موازنہ کا نتیجہ

۱ ۔ ” فسا“ اور ” دارابجرد “ ساریہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ ان دو شہروں کا فاتح عثمان بن ابی العاص تھا ۔ اور اس جنگ میں سپہ سالار اعظم ابو موسی ٰ اشعری تھا ۔

۲ ۔ جواہرات کے صندوق کو ساریہ یا سلمہ اشجعی نے خلیفہ کے یہاں نہیں بھیجا ہے ، بلکہ اسے جنگ نہاوندمیں مسلمانوں کے کمانڈر سائب بن اقرع خلیفہ کے پاس لے گیاہے۔

____________________

۱۔ سائب قبیلہ ثقیف سے ہے وہ ایک نوجوان تھا اپنی والدہ ملیکہ کے ساتھ مدینہ میں پیغمبر خدا کے حضور پہنچا ، پیغمبر نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرا اور اس کے حق میں ایک دعا کی ، سائب پیغمبر کے بعد اصفہان کا گورنر بنا اور آخر تک وہیں تھا یہاں تک کہ وفات پائی (اسد الغابہ : ،ج ۲/۲۴۹ و الاصابہ، :۲/ ۸)

۳ ۔ جوہرات کے اس صندوق کیلئے سپاہیوں میں سے کسی نے خلیفہ کیلئے درخواست نہیں کی ہے بلکہ یہ ایک خزانہ تھا جو نہاوند میں ہاتھ آیا تھا جسے غنائم جنگ پر مامور سائب نے غنائم کے خمس کے طور پر مدینہ میں خلیفہ کے پاس لے گیا ۔ اس لحاظ سے نہ سلمہ نے کسی قاصد کو جواہرات کے ساتھ مدینہ بھیجا ہے اور نہ فتح فسا اور دارابجرد میں ساریہ موجود تھا تا کہ کسی قاصد کو مدینہ بھیجتا اور خلیفہ بھی آرزو کرتا کہ اس کی بیوی ام کلثوم سلمة یا ساریہ کے قاصد کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھائے ۔

اور اسی طرح اس داستان کے باقی حصہ میں بھی مذکورہ حصہ کی طرح ضعف و جھوٹ کی کمی نہیں ہے اسی لئے بعض مورخین اس داستان کے افسانوی اور جھوٹی ہونے کے بارے میں متوجہ ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک نے اس داستان کے ایک حصہ کو حذف کیا ہے اور ایک دوسرے مؤرخ نے اس کے ایک حصہ کو بعید جان کر اسے نادرست بتایا ہے ۔

لیکن جو بھی ہو یہ افسانہ تاریخ ، حدیث اور لغت کی کتابوں میں اپنی جڑ مضبوط کرکے آج تک وسیع پیمانے پر پھیل کر شہرت حاصل کرچکا ہے اور اس قسم کے افسانوں کی شہرت اور اشاعت کا محرک یہ تھا کہ اسکو جعل کرنے والے نے داستان سرائی میں عجیب چالاکی اور مہارت سے کام لیا ہے اور جو کچھ جعل کیا ہے اسے خلیفہ کے زہد و فضیلت کو تشہیر کرنے کے لفافے میں بند کرکے اصحاب کی مدح و تعریف کا لباس پہنا کر تاریخ کے بازار میں پیش کیا ہے تاکہ بیہودہ اور متعصب افراد کے لئے پسندیدہ اور خوش آئند ہو اور اسی افراط اور حد سے زیادہ محبت کی وجہ سے ان کی سند کا ضعف اورمتن کی کمزوری ، حتی قرآن مجید کی صریح آیات کی مخالفت ہونے سے بھی چشم پوشی کرکے د ل کھول کر ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھیں اور انھیں اپنی کتابوں میں درج کرکے تاریخ اسلام کے حقیقی حوادث کے طور پر شائع کریں ۔

خلا صہ اور نتیجہ

ہم نے کتاب کے اس حصہ میں سیف کی جھو ٹی داستا نوں کے کئی نمو نوں کے بارے میں بحث و تحقیق کی اور انھیں متن اور سند کے لحاظ سے جانچ پڑتال کر کے دوسرے مور خین کی روایتوں کے ساتھ تطبیق اور موازنہ کیا۔ اس پو ری بحث و تحقیق کا نتیجہ حسب ذیل صورت میں حاصل ہوا کہ سیف کی روایتوں کے مطابق :

۱ ۔ خالد نے مہلک اور خطر ناک زہر کو ایک دفعہ نگل لیا، لیکن اس زہرنے خالد پرکسی قسم کا اثر نہیں کیا ۔

۲ ۔شہر حمص کے مکانات مسلمانوں کی تکبیر کی آواز سے منہدم ہو گئے اور در ودیوار گرکر زمین بوس ہوگئیں ۔

۳ ۔ صاف نامی ایک صحابی ---جو وہی دجال معروف ہے --- نے شہر شوش کے قلعہ کے دروازے پر ایک لات ماری اور اس کی زنجیریں اورقفل ٹوٹ کرڈھیر ہوگئے اور شہر کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھل گیا۔

۴ ۔ جھو ٹے پیغمبر اسود عنسی کاایک شیطان تھا جوحقیقی پیغمبر وں کے فرشتہ کے مانند اسے وحی کرتاتھا اور اسے غیبی اسرار کے بارے میں آگاہ کرتاتھا اور وہ اس کی وجہ سے غیر معمولی کام انجام دیتاتھا۔

۵ ۔ عمر نے اپنے فوجی سپہ سالار کو جو ایران کے ”دارا بجرد “نامی مقام پر تھا مدینہ سے پکارا اور اس کی جنگی پالیسی کے لحاظ سے راہنمائی کی جو مسلمانوں کی فتحیا بی کا سبب بنا۔

۶ ۔ عمر اپنی بیوی کو حکم دیتے ہےں کہ ایک نامحرم اور اجنبی مرد کے ساتھ ہم دسترخوان ہو جائے تو وہ نئے لباس نہ ہو نے کی وجہ سے ایسا کر نے سے انکار کرتی ہے۔

لیکن یہ سب مطالب جھوٹ اور بے بنیاد ہیں اور افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں کہ افسانہ نویس سیف نے انھیں جعل کیا ہے اور اصحاب پیغمبر کی مدح و فضلیت کے عنوان سے مسلمانوں کے اختیار میں پیش کیا ہے اور سادہ لو ح و متعصب افراد جواس قسم کی جھوٹی داستانوں کو اپنے اسلاف اور ان داستانوں کے سور ماؤں کے لئے ایک فضیلت سمجھتے ہیں لہذا انھوں نے حرص و طمع اور انتہائی دلچسپی کے ساتھ سیف سے نقل کر کے ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی ہے جبکہ وہ زندیق اور کافر سیف کے خطر ناک مقاصد کے بارے میں متو جہ نہیں ہوئے ہیں کہ وہ ان افسانوں کو جعل کر کے خرافات اور جھوٹ کو اسلام کے اصلی عقا ئد میں شامل کر نا چاہتا ہے اور مسلمانوں کو تو ہم پر ست اور تنگ نظر دیکھانا چاہتا ہے تاکہ انھیں بیو قوف اور احمق ثابت کرے، پیغمبروں کی و حی اور ان کے معجزات کا مذا ق اڑائے، لو گوں کو اس قسم کے مسائل کے بارے میں بد ظن اور بے تعلق بنادے ،ورنہ وہ اس کے علاوہ کونسا محرک رکھتاتھا جس کے پیش نظر شہر شوش کے دروازہ کے قفل کو توڑ نے کے لئے دجال اوراس کے فر مان سے مستند بنائے؟اور جھو ٹے پیغمبری کا دعوی کر نے والے اسود عنسی سے نسبت دے کہ فرشتہ(شیطان)اسے وحی کرتا اور اسے غیبی اسرار سے آگاہ کرتا تھا،اور وہ اس کے ذریعہ غیر معمولی کام اور معجزے انجام دیتا تھا ،اس حالت میں ا س جھوٹے پیغمبر جسے شیطان خبر دیتا تھا اور ایک حقیقی پیغمبر جسے فرشتہ خبر دیتا تھا کے درمیان کیا فرق ہے ؟ کیونکہ یہ دونوں خبر لانے والے کو فرشتہ کہتے ہیں اور اپنی اطلاعات کو اسی سے مستند کرتے ہیں ۔

اس نے کس مقصد کے پیش نظر عمر کو یہ نسبت دی ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ اپنی بیوی کو ایک نامحرم اور اجنبی مرد کے سامنے لاکر اسے دکھائے اس میں اس کے علاوہ کوئی اور علت نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ کو متزلزل اور مخدوش کرنا چاہتا تھا اور اس طرح دین مخالف مطالب کو ان کے دین و مذہب کے ساتھ ممزوج کرنا چاہتا تھا ۔

حیوانوں کے فصیح عربی زبان میں گفتگو کرنے میں ا س کا مقصود کیا تھا؟ کہ وہ کہتا ہے : ” بکیر “ نے اپنے معروف گھوڑے ” اطلال “ سے کہا: چھلانگ لگاؤ ندی کے اُس پار اے میرے اطلال ! گھوڑے نے فصیح عربی زبان میں کہا؛ سورہ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگائی یا کہتا ہے کہ : عاصم نے چرواہے سے گائے کے بارے میں سوال کیا ، اس نے جواب دیا : میں نے یہاں پر کوئی گائے نہیں دیکھی کچھار میں موجود گائے نے بولتے ہوے فصیح عربی زبان میں کہا: خدا کی قسم اس دشمن خدا نے جھوٹ بولا ہے ہم یہاں پر موجود ہیں “

سیف کا ان افسانوں اور اس قسم کے دسیوں افسانوں کو جعل کرنے میں کیا مقصد تھا کہ اس نے انہیں روایتوں میں بیان کیا ہے اور اس طرح ان کو مسلمانوں کے عقائد میں شامل کیا ہے ؟

وہ اس افسانہ سازی سے اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا تھا کہ مسلمانوں کے عقائد میں تشویش اور تخریب پیدا کرے اور انھیں توہم پرست اور تنگ نظر ثابت کرے ، ان کی عقل و دین پر ڈاکا مارے اور اس تمام راہ میں صرف محرک اس کا کفر و زندقہ ہونا تھا ۔

سیف نے جعل و تحریف کی اس مقدار پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے مختلف حوادث میں بہت سے ناموں میں تغیر و تحریفات کیں اور جعلیات بھر دئے ہیں اور ایک نام کو دوسرے نام میں بدل دیا ہے اس طرح تاریخ کے واضح حقائق کو تاریک اور نامعلوم بنا کے رکھ دیا ہے ان ہی تغیرات اور تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ کئی صدیوں سے دانشمندوں اور محققین کیلئے یہ حوادث نامفہوم اور نامعلوم بن کر رہ گئے ہیں کہ اس کی صحیح تشخیص دینے میں مغالطہ سے دوچار ہوئے ہیں اور بہت سے اسلامی حقائق ان کیلئے غیر واضح رہے ہیں ہم اس قسم کے تحریفات اور تغییرات کے نمونے آنے والی فصل میں بیان کریں گے ۔

ساتواں جلسہ

آزادی کے حدود

۱-اسلام کا سیاسی نظریہ اور آزادی کو محدود کرنے کا شبہ

چونکہ ہمارا اسلامی سماج،اسلامی قوانین اور ان متغیر قوانین پر کہ جو اسلامی دائرے میں وضع کئے جاتے ہیں ، ادارہ ہوتا ہے لھٰذا ہماری حکومت بھی اسلامی قوانین پر ہونی چاہیے اور قانون کو جاری کرنے والے حضرات اسلامی دائرے سے خارج نہیں ہونے چاہیے اور ہم لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسلامی قوانین پر عمل کریں -

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نظریہ انسان کی آزادی سے ہم آھنگ بھی ہے یا نھیں ؟ انسان اپنی زندگی کے قوانین اور ان کی کیفیت کوطے کرنے میں آزاد ہے، اگر اس سے کھا جائے کہ تمھیں اس دائرے میں چلناہے اور ان قوانین کی رعایت کرنی چاہے توکیا یہ انسان کی اصل آزادی جوانسان کی مسلمہ حقوق میں سے ہے،اس سے منافات تو نہیں رکھتا؟

ہم مندرجہ بالا سوال کو بیان کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، اور اس نکتہ سے ہم کو بعد کی گفتگو میں اس سے استفادہ کرنا ہے، اور یہ نکتہ غور طلب ہے: جس وقت عینی اور انضمامی چیزوں سے ہمارا واسطہ ہوتا ہے،تو ان کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا مثال کے طور پر جب ہم طبیعی علوم میں عینی چیز یں جیسے پانی، بجلی، اٹھنا، بیٹھنا، اسی طرح ڈاکٹری امور میں آنکھ، کان، ھاتھ، پیر، معدھ،دل، جگر کا مشاہدہ کرتے ہیں ، تو ان چیزوں کو سمجھنا آسان ہے کیونکہ ہم تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں ؟ ھاں بہت کم ایسے مسائل مبہم ہوتے ہیں جن کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے جیسے اگر پانی میں مٹی ملی ہو تو کیا پھر بھی پانی ہے یا نھیں ؟

لیکن عینی او رانضمامی چیزوں کو سمجھنے میں غالباً کوئی خاص مشکل نہیں ہوتی، لیکن اگر ہمارے سامنے انتزاعی اور کسبی چیزیں ہوں (مثلاً فلسفی مفاہیم یا انسانی علوم مثلاً علم نفسیات،جامعہ شناسی، حقوق اور علوم سیاسی وغیرہ جیسی چیزیں ) تو ان کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے،اور کبھی کبھی کسی لفظ کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور ایک لفظ کے متعدد معنی ہونے کی وجہ سے ان کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے غالباً ایسے الفاظ کے بارے بحث کے بعد بھی انسان کسی یقینی نتیجہ پر نہیں پہونچتا-

مثال کے طورپر ہم سبھی لفظ، فرہنگ(کلچر) سے آشنا ہیں اور یہ لفظ مدارس کی مختلف کلاسوں میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح اشعار، ادبیات اور روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتاہے، اس کے بعد بھی اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ فرہنگ کے کیا معنی ہیں ؟ تو شاید ھزاروں میں ایک بھی ایسا شخص بھی نہ ملے جو فرہنگ کے معنی کرتے وقت کھے کہ اس لفظ کے ۵ ۰ سے ۵ ۰۰ تک معنی ہیں ! اور یہ مسلم ہے کہ جب اس مشہور اصطلاح میں اتنا ابھام پایا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس ابھام کی وجہ سے بہت سے اجتماعی مسائل بھی تحت تاثیر قرار پائیں گے، اور جب توسعہ فرہنگی (کلچر کی وسعت) کی بات کی جائے گی تو سوال کیا جائے گا توسعہ فرہنگی یعنی چیست؟ اور اس کے مصادیق کیا ہیں ؟ اور کس صورت میں اور کس طرح فرہنگ میں توسعہ ہوتا ہے اور اگر پارلیمنٹ میں توسعہ فرہنگی کیلئے بجٹ پاس کیا جاتا ہے اور اس کو خرچ کرنے کیلئے جگھیں معین کی جاتی ہےں ، ہر وز اتخا نہ میں اس لفظ کے معنی بیان کئے جاتے ہیں اور اس کے خاص موارد مشخص کئے جاتے ہین اور بعض لوگوں کو اس سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جاتا ہے-

۲-آزادی کے بارے میں مختلف نظریات

ہم نے جو کچھ انتزاعی اور کسبی الفاظ کے بارے میں عرض کیا کہ جن کے خاص مصادیق بھی نہیں ہیں اور ان کی تعریف و حدو حدود بھی مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی ایک انتزاعی مفہوم ہے جس کے بارے میں ہمیں بحث کرنا ہے، مثلاً اگر کوئی کھے ”آزادی“ تو سننے والے کو اچھا لگتا ہے، اور آزادی کیلئے تمام ہی مذاہب ، ملت خاص احترام کے قائل ہیں ، کیونکہ انسان فطری طور پر آزادی چاہتا ہے، اور بعینہ آزادی کی تلاش میں رہتا ہے-

اگر کسی انسان سے سوال کیا جائے کہ آپ آذاد رہنا پسند کرتے ہیں یا غلام؟ لا محالہ سبھی حضرات جواب دیں گے: آزاد رہنا، اور کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ کسی کا غلام بن کر رہنا پسند نہیں کرےگا، لیکن چونکہ آزادی کے کوئی واضح معنی بیان نہیں ہوتے ہیں ، جس کی بنا پر آزادی کا نعرہ لگانے والے افراد جو دینی اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں کوئی کچھ معنی کرتا ہے تو دوسرا کچھ معنی مراد لیتا ہے، ایک شخص جب آزادی کا مطلب بیان کرتا ہے تو دوسرا کھتا ہے ہماری نظر میں آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے جو آپ نے بیان کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جو ہم کرتے ہیں ، اسی طرح دوسرا شخص بھی یھی کھتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس بارے میں جو کچھ اب ہماری طرف نسبت دیتے ہیں ، وہ ہماری مراد نہیں ہے-

بلکہ ہماری مراد اس کے علاوہ ہے اگر ہم آزادی کے بارے لکھی ہونی کتابوں ، مضامین اور رسالوں کا مطالعہ کریں خصوصاًوہ کتابیں جو آخری سالوں میں لکھی گئی ہیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ مولفین اور صاحب نظر حضرات کے دھیان آزادی کا کوئی مشخص و معین معنی نہیں ہے، ایک شخص آزادی کا کچھ معنی کرتا ہے اور اسی کا دفاع بھی کرتا ہے، تو دوسرا شخص اس نظریہ کی تنقید کرتا ہوا ایک دوسرا معنی کرتا ہے، اور ظاہر میں بات ہے کہ اس قدر اختلاف کے باوجود آپس میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا-

لھٰذا تفاہم اور سمجھوتے کیلئے آزادی کی ایک مشترک تعریف کی جانا ضروری ہے، تاکہ بحث کسی نتیجہ پر پہونچ سکے، اگر ہم سے کوئی سوال کرے کہ آزادی اور اسلام میں سازگاری ہے یا نہیں تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ پہلے ہمیں آزادی کو سمجھنا پڑے گا، کہ آزادی کے معنی کیا ہیں ، (اور جیسا کہ مغربی مولفین نے آزادی کے بارے میں حدوداً ۲ ۰۰ تعریف بیان کی ہیں اگرچہ ان میں سے بہت سی تعریفیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ،صرف ایک یا دو الفاظ کی وجہ سے اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ان مقامات پر یہ تعریفیں ایک دوسرے کے منافی(اپوزٹ) ہیں تو اس طرح کے اختلافی موارد میں کس طرح یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ آزادی اسلام سے سازگار ہے یا نھیں ؟

آزادی کی طرح ”ڈیمو کراسی“ (جمہوریت) بھی ہے یہ ایک مغربی اصطلاح ہے جس کے معنی مردم سالاری، حکومت یا لوگوں کی حکومت کئے جاتے ہیں ، لیکن پھر بھی اس کے کوئی خاص اور معین معنی موجود نہیں ہیں ، اس میں یہ معین نہیں ہے کہ ڈیمو کراسی ایک حکومت ہے یا اجتماعی زندگی کا ایک طریقہ ہے؟ کیا اس کا تعلق حکومتی اور سیاسی مسائل سے ہے ؟ معاشرہ شناسی یا مدیریت سے اس کا ربط ہے؟ یہ جامعہ شناسی سے مربوط ہے یا اس کا ربط مدیریت سے ہے، اس سلسلے میں بھی بہت بحثیں ہوچکی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ایسے الفاظ کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی مشکل میں اضافہ کرتا ہے-

اس طرح لفظ ”لیبرالیسم“ بھی ہے کہ جس کا ترجمہ پہلے ”آزادی خواہی“ ہوتاتھا اور آزادی خواہی لفظ آزادی کی وجہ سے بہت جذّاب اور خاص اہمیت کا حامل تھا اور اس بنیاد پر آخری دھائیوں میں شاہ کی پہلوی حکومت ”آزادی خواہ پارٹی“ کا نام اپنائے ہوئے تھی-

لھٰذاچونکہ اس طرح کے انتزاعی مفاہیم اچھی طرح واضح نہیں ہوتے ان سے بحث کرنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ واضح نہ ہونے کی بنا پر مطلب مشکل ہوجاتا ہے،اور قطعی طور پر ان کے معنی کی حد بیان کرنا مشکل ہوتا ہے اس طرح کے الفاظ کی کوئی خاص حد نہیں ہوتی، کبھی ان الفاظ کی حد کم ہوجاتی ہے اور کبھی بڑہ جاتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ان مشکلات کی وجہ سے بحث بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے-

لفظِ آزادی کے بارے میں ان مشکلات، ابھامات اور مختلف نظریات (جیسا کہ ۲ ۰۰ سے زائد تعریفیں بیان کی گئی ہیں ) کے پیش ِ نظر اگر ہم اسلامی لحاظ سے آزادی کو سمجھیں اور الگ الگ تعریفوں کو اسلام کے ساتھ مقایسہ کریں تو واقعاً یہ ایک مشکل و پیچیدہ کام ہے، عمومی اور مختلف لوگوں کیلئے اس بحث کو بیان کرنا تو دور کی بات ہے، لھٰذا ضروری ہے کہ بحث کو تطبیقی لحاظ سے آگے بڑھایا جائے اور دیکھیں کہ آزادی کے طرفدار حضرات آزادی سے کون سے معنی مراد لیتے ہیں ؟ اور آزادی سے کیا چاہتے ہیں ،اس وقت دیکھا جائے گا کہ جو وہ لوگ چاہتے ہیں وہ اسلامی نقطہ نظر سے ٹھیک ہے یا نھیں ؟ وہ لوگ جو آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کی طرفداری بھی کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ملک میں آزادی نہیں ہے ،آزادی کا کیا مطلب مراد لیتے ہیں ؟ کیا میڈیا آزاد نہیں ہے؟ کیا لوگ انفرادی آزادی نہیں رکھتے؟ یا سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی آزادی نہیں رکھتے؟ آزادی کا نعرہ لگانے والے لوگوں کو کس صورت میں آزاد سمجھتے ہیں ؟

اگر مصادیق کے بارے میں تھوڑی بحث کی جائے تو ایک واضح نتیجہ پر پہونچنا ممکن ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مد مقابل کیا کھتا ہے اور کیا چاہتا ہے، اس صورت میں گفتگو کی روش مبہم نہ رہے اور دوسرے افراد بھی اس سے غلط استفادہ نہ کرسکیں گے-

۳- آزادی، مطلق نہیں ہے،اور آزادی کے دین پر مقدم ہونے کا جواب

معمولاً خود عرض اور دھوکہ باز افراد آزادی جیسی انتزاعی اور مشکل چیزوں سے اپنے اہداف و مقاصد تک پہونچنے کیلئے آزادی جیسے الفاظ سے سوء استفادہ کرتے ہیں ، اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کچھ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے کھنے کا مقصد فی کچھ اور ہی ہوتا ہے، مغالطہ آمیزاور دھوکہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، مثال کے طور پر تقریروں ، مقالوں اور اخباروں میں یہ سوال بیان کیا جاتا ہے کہ دین آزادی پر مقدم ہے یا آزادی دین پر مقدم ہے؟ کیا اصل، آزادی ہے اور دین آزادی کے تابع ہے یا اصل دین ہے اور آزادی اس کے تابع ہے؟

معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ سوال ایک علمی اور دقیق سوال ہے اور یہ سمجھنا واقعاً جذّاب ہے کہ آ زادی اصل ہے یا دین اصل ہے؟ اس کا درک کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے، لیکن جب ہم بحث کرتے ہیں اور کھتے ہیں کہ دین اصل ہے تو جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی آزاد نہ ہو تو کوئی پھر کس طرح دین کا انتخاب کر سکتا ہے؟ لھٰذا انسان کو دین قبول کرنے میں آزاد ہونا چاہئے،، پس نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی دین پر مقدم ہے اور جب یہ طے ہوجائے کہ آزادی دین پر مقدم ہے تو پھر یہ نتیجہ بھی آسانی سے نکل آئے گا کہ دین آزادی کو محدود نہیں کر سکتا، کیونکہ آزادی دین سے بالاتر ہے اوردین پر مقدم ہونے کا حق رکھتی ہے-

قارئین کرام جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ یہ مغالطہ آمیز استدلال ظاہراًتو ٹھیک دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اگر کوئی انسان آزاد نہ ہوتو کس طرح دین کو انتخاب کر سکتا ہے، اس لئے انسان کو آزاد ہونا چاہیے، تاکہ اسلام کو دل سے قبول کرسکے، لھٰذا معلوم ہوتا ہے کہ آزادی دین پر مقدم ہے، اور یھی اصل ہے یھی دین کو معتبر بناتی ہے، اور بنیادی طور پر دین کی علت وجودی ہے لھٰذا اپنی پیدا کی ہوئی چیز کے ذریعہ خود ختم یا محدود نہیں ہو سکتی،آخر میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر انسان کا دینی ماحول بالکل آزادی کے ساتھ ہو گا-

بعض دوسرے افراد یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو کسی کا غلام نھیں ھوتا بلکہ آزادھوتاہے، لھٰذا زندگی اس کو میں آزاد ہونا چاہئے-

اس طرح یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ اختیار اور آزاد ارادہ رکھنا ایک بہت اہم چیز ہے، اس بنیاد پر اگر انسان اس دنیا میں آئے اور اس کے ھاتہ پیر مفلوج ہوجائیں اور زبان سے گونگا ہوجائے تو اس کی کیا قیمت ہے؟ انسان کی قدرو قیمت اس وقت ہے جب وہ آزاد ہو جہاں چاہے جائے جو کرنا چاہے اس کو انجام دے سکے، جو چاہے اپنی زبان سے کھے اور چونکہ انسان تکوینی طورپر آزاد خلق ہوا ہے تو پھر قانونی طور پربھی انسان کو آزاد ہونا چاہئیے!

یہ وہی طبیعت گرانہ مغالطہ ہے کہ جس میں ”است“ (ھے) سے ”باید“(ھونا چاہئیے) کا غلط نتیجہ نکالا گیا ہے، اگر ہم چاہیں کہ ان تمام مسائل کو دقیق اور جدی طریقہ سے بحث کریں توہم کو فلسفی اور دقیق بحث کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، اور بہت جلدی کسی نتیجہ پر نہیں پہونچ سکتے-

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اگر ہم آزادی کے بارے میں بحث کریں تو پھر دسیوں تعریفوں سے تحقیق و بررسی کرنی ہوگی، اس وجہ سے مصادیق کے سلسلے میں ہی بحث کرنا مناسب ہے، اورآزادی کا نعرہ لگانے والے افراد سے کھیں کھ: اگر کوئی شخص تمھارے منہ پر ایک زور دار تھپڑ لگا کر کھے میں آزاد ہوں ؟! تو کیایہ صحیح ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ جواب منفی ہوگا اور اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا، اور جواب یہ ملے گا کہ آزادی سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے، کیونکہ یہ تو دوسروں پر ظلم ہے لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی اس وقت تک مناسب ہے کہ جب تک دوسرے پر ظلم وزیادتی نہ ہو، یعنی آزادی مطلق نہیں ہے-

اور اگر اس سے یہ کھا جائے کہ کوئی شخص تمھارے خاندان اور عورتوں کے بارے میں جو کچھ چاہے کھے ، وہ تم کو مار تو نہیں رہا ہے بلکہ آپ کی بے حرمتی کررہا ہے اور تمھارے یا تمھارے اہل خانہ کے بارے میں نازیبا الفاظ کھہ رہا ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دےگا،کیونکہ یہ بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی ہے، اور ناموس کی عزت بھی معاشرے میں محترم ہے، پس معلوم ہوا کہ عزت وناموس پر تجاوز وزیادتی ظاہری چیزوں پر منحصر نہیں ہے-

اور اگر کوئی شخص کسی اخبار میں اس کے خلاف کچھ لکھے اور مقالہ کے ذریعہ اس کی شخصیت اور آبرو کو داغدار کرے، تو اس صورت میں کیا یہ فیزیکی اور ظاہری طور پر اس کی بے حرمتی نہیں ہوئی ہے، یعنی زبان کے ذریعہ اس کی بے عزتی نہیں ہوئی ہے،کیا کوئی اس چیز کی اجازت دے سکتا ہے؟ ہر گز کوئی شخص اس بات کو قبول نہیں کر سکتا، اور اس کام کو بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی اور اپنے لئے بے عزتی جانتا ہے، اور اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اس کی آبرو ریزی کرے، اور اس کے حقوق کو پائمال کرے، نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے اب تک تین قیود و شرط موجود ہیں اور اگر ان شرطوں کی رعایت نہ کی جائے تو دوسروں کے حقوق کی پامالی ہے-

۴- ہر معاشرے کی مقدسات کی رعایت ضروری ہے-

ایک دوسرا نکتہ کہ جس کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہر معاشرہ کی مقدسات (قابل احترام چیزیں ) الگ الگ ہیں ، اور نسبی ہوتی ہیں مثال کے طور پر بعض معاشروں میں کسی کی بھن یا بیٹی سے آزادانہ رابطہ کرنا معیوب نہیں ہوتا، جیسا کہ یورپی اور امریکائی ممالک ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی لڑکی یاعورت سے دوستی کرنا چاہے، تو چاہے اس دوستی کے نتائج کچھ بھی نکلیں کوئی مشکل نہیں ہے-

کیونکہ دونوں کی مرضی سے یہ کام ہو رہا ہے لیکن اگر کوئی شکایت کرے اور کورٹ میں جا کر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرے کہ طاقت کے بل بوتے پر مجہ پر ظلم ہوا ہے اور میں راضی نہیں ہوں ، تو عدالت اس کی اس شکایت کو سنتی ہے لیکن صرف مرد وعورت کی دوستی کیونکہ اپنی مرضی سے ہوتی ہے ،لھٰذاکوئی عیب نہیں ہے! لھٰذا اگر کوئی شخص کسی سے کھے میری اور تمھاری بھن کی دوستی ہے اور کل رات فلاں جگہ تھے یورپی فرہنگ و کلچر میں برا نہیں سمجہا جاتا، اور کوئی اس بات پر خوش بھی ہو سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یھی بات بری سمجھی جاتی ہے اور اس کو برا سمجہا جاتا ہے کسی کو ایسی باتیں کھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا،ان باتوں سے ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر معاشرے میں کچھ خاص چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کو وہ محترم اور مقدس سمجھتا ہے، درحالیکہ یھی چیزیں دوسرے معاشرے میں نہیں پائی جاتیں ، اب یہ دیکھنا ہے کہ ان مقدسات کا معیار کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر معاشرے کی مقدسات اس کی ثقافتی اور اجتماعی زندگی کی وجہ سے ہوتی ہیں ، اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ مقدسات معاشرے کی بنیاد، اس ماحول اور ملک کے ثقافتی معیار کی وجہ سے ہوتی ہیں لھٰذا اگر کسی معاشرے میں وہاں کی ثقافت کے وجہ سے کچھ چیزیں مقدس اور قابل احترام ہوں ، تو ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور ان کی بے احترامی نہیں ہونا چاہیے، اور کسی بھی معاشرے میں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جو چاہے کھے،جبکہ اس کو اس طرح کی باتیں کرنا چاہیے جن سے ان مقدسات کی بے احترامی نہ ہوتی ہو-

نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے بہت سی قید و شرط ہیں کہ جن کی ہر معاشرہ کے لحاظ سے رعایت کرنا چاہیے اور آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان جو چاہے کھے، اور جس طرح چاہے کرے، ھاں اگر جس ماحول میں وہ زبان کھول رہا ہے ا سمیں اگر اس کو بے احترامی نہیں سمجہا جاتا تو اس کا کہنا صحیح ہے لیکن جس معاشرے میں وہ کھہ رہا ہے اگر وہاں اس کا یہ کہنا اس معاشرے اور مذہب کے مقدسات کی توہین ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے وہ مقدسات کے ہدف کچھ کئے، اور جو چاہے انجام دے اور کوئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا، اگرچہ ہم نے جو کچھ بیان کیا،مغربی ممالک میں محترم اور با اہمیت نہیں سمجہا جاتا اور ہر انسان اپنی گفتار و کردار میں آزاد ہے،لیکن ہمارے معاشرے میں چونکہ اسلامی حکومت ہے مغربی ممالک سے فرق ہے اور اس طرح کی آزادی نہیں ہے کہ جو چاہے لوگوں کی طرف نسبت دے اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے فرہنگ و ماحول میں یہ چیزیں با ارزش ہیں اور ہر قوم و ملت کے مقدسات کا احترام کرنا ضروری ہے اور آزادی کے بھانہ ان کی خلاف ورزی کرنا صحیح نہیں ہے-

پس معلوم یہ ہوا کہ آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں اور اس قدر آزادی کو کوئی بھی عقلمند انسان قبول نہیں کر سکتا، لھٰذا آزادی کے اس طرح معنی بیان کرنے چاہئےے جس سے دوسروں کی توہین اور ان کے حقوق کی پائمالی نہ ہوتی ہو-

لھٰذا جن باتوں سے لوگوں کے مقدسات کی توہین ہوتی ہو ان کا بیان کرنا ممنوع اور ناجائز ہے، اسلامی معاشرہ میں آزادی کا بھانہ بناکرخاص طور سے جان سے زیادہ عزیز اسلامی مقدسات کی توہین کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے-

ہماری قوم و ملت نے ثابت کر دیا ہے کہ اپنے عزیزوں کی لاکھوں جانیں قربان ہوجائیں ، لیکن اسلام باقی رہے، اب اگر مغربی کلچر میں کسی بھی طریقہ سے کسی کی توہین ہو (مثلاً یہ کھا جائے کہ آپ کی ناک بہت لمبی ہے، آپ کا قیافہ برا ہے) اس کو عدالت میں جانے اور مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے، اسی طرح اگرہمارے معاشرے میں کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں توہین کرے، وہ بھی اس بارے میں کہ جو ماں ، باپ، بیوی اور اولاد حتی خود اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو، ظاہر ہے کہ لوگوں کو یہ اعتراض کرنے کا حق ہے کہ آزادی کا بھانہ بنا کر ہمارے مقدسات کی توہین کیوں کررہے ہو-

۵-آزادی کے نعرہ میں ناجائز غرض

جو لوگ آزادی کا دم بھرتے ہیں اور آزادی نہ ہونے کا غم مناتے ہیں اور ایران میں آزادی نہ ہونے کا مرثیہ پڑھتے ہیں ! کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ ان میں سے بعض لوگوں نے مغربی ممالک کا سفر کیا ہے یا ان کے بارے میں سنا ہے یا وہاں کی فلموں کو دیکھا ہے،جو لوگ اس طرح کی زندگی چاہتے ہیں ،لیکن ایران میں ان کو اس طرح کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے ،اسلامی حکومت کھاں سے قوانین بناتی ہے؟ کیا اسلامی حکومت کے قوانین خدا،رسول اور آئمہ کی مرضی کے مطابق قوانین نھیں ھوتے ہیں ؟ وہ لوگ الٰھی احکام کو قبول نہیں کرتے، ولی فقیہ پر اعتراضوں کی بوچھار کرتے ہیں اور ولی فقیہ کے متعلق کینہ رکھتے ہیں جبکہ ولی فقیہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کھتا:

( فَإِنَّهُمْ لاٰ یُکَذِّبُونَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِاٰیَاتِ اللّٰه یَجْحَدُوْنَ ) -(۱)

”یہ لوگ تم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ (یھ) ظالم (حقیقتاً) خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں “

کیا مرجع تقلید اور فقیہ اپنی طرف سے کچھ کھتا ہے؟ وہ جو کچھ بھی کھتا ہے قرآن ، احادیث سے اخذ کرتا ہے لیکن دشمن اس چیز کو قبول نہیں کرتا، امریکہ کی معتبر یونیورسٹیوں کی کھلی فضا میں بہت سے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کے سامنے ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے سے شرم آتی ہے،وہاں کے عیاش خانوں میں کیا کیا ہوتاہے؟ تصور کریں اگر وہاں کے عیاش خانوں کی ویڈیو بنائی جائے اور اس کو اس ملت کے جوانوں کو دکھائی جائے تو اس کا کیا اثر ہوگا؟ اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی جوان ایسی فلمیں دیکھئے گا،اور جب صبح اٹھ کر یونیورسٹی جائے گا تو پھر سکون سے نہیں رہ سکے گا، کیونکہ رات میں سویاہی نہیں ہے، اور دوسری طرف اس کی شھوت تحریک ہو جاتی ہے، اور اس کا چین و سکون غائب ہو جاتا ہے، اب اگر ایسا جوان نعرہ لگائے کہ یھاں آزادی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو میں کرنا چاہتا ہوں ،اس کو کرنے نہیں دیا جاتا اسلام کے مقابلہ میں اسی طرح کی آزادی کو لایا جاتاہے-

اور کھا جاتا ہے کہ آزادی مقدم ہے یا اسلام؟ اس آزادی کا مطلب ہی جنسی شھوات کو پورا کرنا ہے، لھٰذا شروع ہی سے یہ کھا جائے کہ آزادی سے ہم یہ چاہتے ہیں ، ہر وہ چیز جو کچھ کفر و الحاد کے ماحول میں ہوتی ہے وہی معاشرے میں بھی جائز ہو جائے تو وہ مطمئن رہیں کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، کیونکہ لوگوں نے اپنے عزیزوں کی جانیں قربان کی ہیں تاکہ اسلام کارواج ہو، نہ کہ مغربی فساد اور بے ہودگی رائج ہو-

ممکن ہے کہ کوئی یہ کھے کہ ہم واقعاً مسلمان ہیں اور اس حکومت کو ووٹ دیا ہے اور ولایت فقیہ کے معتقد ہیں اور جیسی آزادی مغربی ممالک میں رائج ہے ایسی آزادی نہیں چاہتے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم لکھنا چاہیں اس کو بغیر کسی روک ٹوک کے بے جھجک لکہ سکیں ہم تو آزادی بیان و قلم اور عملی آزادی کے خواہاں ہیں ،ہم کو اپنی بات کھنے کی آزادی ملنا چاہیئے-

یہ بات ظاہراً ٹھیک ہے کیونکہ حقوق بشر کے نشریات میں سے ایک حق جو تمام لوگوں کو ہے یھی آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی ہے اور اسی طرح کی آزادی کو ڈیمو کراسی کی ایک اصل مانا گیاہے، لیکن ہم ان سے یہ کھیں گے کہ آپ اپنی رائے کا اظھار کریں کہ ہمارے ملک کے حکمران کیسے ہیں لیکن کیا واقعاً آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فلاں شہر کا فلاں قاضی صحیح کام کرتا ہے یا نہیں یا فلاں شہر کاڈی ایم( D-M )ٹھیک کام کرتا ہے یا نھیں یا فلاں ملازم کا کردار صحیح ہے یا نھیں ؟ یا درحقیقت آپ اصل اسلام اور اسلامی مقدسات کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور ان تمام چیزوں کی نفی کرنا چاہتے ہیں ؟ یا اسلامی مقدسات کی توہین کرنا چاہتے ہیں ؟

۶- آزاد گفتگو کی حد وحدود

اگر آزادی سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جس کام کا ہوناجائز نہیں ہے اس کے بارے میں لکھنا اور کہنا جائز ہونا چاہئیے، جیسا کہ ہم نے مثال میں عرض کیا تو جب کسی شخص کو آپ کے سلسلے میں کوئی توہین آمیز کلمات کھنے کا کوئی حق نہیں ہے،یعنی وہ اتنی آزادی نہیں رکھتا لیکن جب اسلامی مقدسات کی بات آتی ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ آزادی بیان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جو چاہیں لکھیں ہم جو چاہیں کھیں !

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے بارے میں توہین آمیز کلمات زبان پر جاری کرے، اور اگر کوئی ایسا کرے تو آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور مقدمہ دائر کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ،آپ اجازت نہیں دیتے کہ آپ کے ذاتی مسائل کو اخبار میں دیا جائے تو پھر آپ کو اس ملت کے راز فاش کرنے کا حق کھاں سے حاصل ہوگیا؟ کس طرح آپ کی نظر میں کسی ایک شخص کے راز کو فاش کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ایک ملت کے راز کو فاش کرنا جائز ہوگیا! یعنی آپ کی نظر میں جب ایک شخص لاکھوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ،توکیا اس کے راز کو فاش کرنا جائز ہے؟! کیا ایک معاشرے کی نسبت اپنے مقالوں میں حدود کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے؟ کیا کچھ بھی لکھا اور کیا جا سکتا ہے، معاشرے کے بھی کچھ حقوق ہیں ،اس کے مقدسات ہیں اور ان کا احترام باقی رہنا چاہیے اور مقدسات کو مجروح نہیں کیا جا سکتا-

جس طرح آپ اپنی توہین کر برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اسی طرح آپ اپنی ناموس یا آپ کے گھریلو اسرار کے بارے میں تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتے، تو پھر آپ کس طرح اجازت دیتے ہیں کہ اس عظیم معاشرے جس نے ھزاروں عزیزوں کو ان مقدسات کی حفاظت کیلئے قربان کردیا ہے اس کی توہین کی اجازت دیتے ہیں ؟!

کیا آپ کی نظر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، ؟اور آزادی کا بھانہ بنا کر قانون کی طرف سے کوئی حد و حدود نہیں ہونا چاہیے؟ کیا آزادی مطلق ہے؟ اور اگر آزادی مطلق ہو توکسی کے بارے میں کچھ بھی کھنے کا حق حاصل ہونا چاہئےے اور اگر اس ۶ /کروڑ والی ملت کی مقدسات مجروح ہوں اور کوئی تم پر اعتراض کرے تو آپ جواب میں کھیں : اظھار نظر کرنا آزاد ہے! اس سے بڑا مغالطہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے احترام کو مجروح کرنا جائز نہیں ہے لیکن ۶ /کروڑ والی ملت کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ہے، لیکن ایک عرب مسلمانوں کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ہے! یہ کونسی منطق اور فلسفہ ہے؟ اور صرف اس وجہ سے کہ حقوق بشر کے نشریات میں موجود ہے کہ بیان آزاد ہے مقدسات کی توہین کرنا بھی آزاد ہوجائے گا؟! آزادی کا ایک مبہم کلمہ استعمال کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے لحاظ سے اس کی تفسیر کر کے سوء استفادہ کرتا ہے-

۷-الفاظ کے مفہوم اور مصادیق کو روشن کرنے کی ضرورت

ہم یھاں پر یہ مشورہ نھیں دیتے ہیں کہ مبہم اور غیر واضح الفاظ کو استعمال کرنے کے بجائے ان کے مصادیق پر تکیہ کریں اور کھیں کہ یہ کام جائز ہے یا نھیں ؟ مثلاً یہ کھنے کے بجائے کہ اسلام ڈیموکراسی کے موافق ہے یا نھیں ؟ کھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور کون سا عمل انجام دینا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ خدا اور اس کے احکام کو نادیدہ کرنا چاہتے ہیں اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کیے جائیں کہ انسان جس طرح کے قوانین بنانا چاہے بنا سکتا ہے اگرچہ خدا کے قوانین کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ، توچاہے پوری دنیا زور لگائے ہر گز ہم ایسی ڈیموکراسی کو قبول نہیں کر سکتے -

لیکن اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کئے جائیں کہ لوگ اپنی سرنوشت اور زندگی میں موثر ہیں ،کوئی شخص اپنے زور کے ذریعہ ان پر تحمیل نہیں کر سکتا، افراد بھی اسلامی قوانین اور بنیادوں کے دائرے میں چلیں ، تو اس چیز پر تو شروع انقلاب سے عمل ہو رہا ہے، اور اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ایران کے برابر کسی بھی ملک میں لوگوں کی کا احترام نہیں کیا جاتا،تو شاید دعویٰ بے جا نہ ہوگا، اور شاید کھنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہمارے پاس اس حد تک ثبوت نہیں ہیں ،لیکن پھر بھی ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں کھیں بھی اتنی آزادی نہ ہو، لھٰذا لفظ ڈیموکراسی پر بحث و مباحثہ کرناکہ اسلام ڈیموکراسی کا موافق ہے یا مخالف ہے ؟

اس سے بہت ر یہ ہے کہ پہلے اس کے مصادیق کو معین کر لیں ، مثلاً کیا اسلام ہم جنس بازی کے آزاد ہونے کی اجازت دیتاہے ؟ چاہے تمام ہی لوگ ایسا نظریہ رکھتے ہوں ، ظاہر ہے کہ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتااگر تمام ہی لوگ اس چیز کے موافق ہی کیوں نہ ہوں اور اس بارے میں ووٹ بھی دیں ، لھٰذا اگر ڈیموکراسی اس حد تک بے لگام ہو تو پھر ہم اس کو نہیں مانتے، لیکن اگر ڈیموکراسی سے مراد یہ ہو کہ افراد انتخابی مہم میں آزاد ہیں پارلیمنٹ کے ممبران کو آزادانہ طور پر منتخب کریں ، صدر کا انتخاب آزادانہ طریقہ پر ہو اور ان کو حق ہے کہ ممبران پارلیمنٹ یا دوسرے ذمہ دار افراد کی استیضاح(۱) کرے تو ایسی آزادی ہونا چاہیے کہ الحمد للہ ہمارے یھاں یہ آزادی ہے، اور ہم بھی سو فیصد اس کی حمایت کرتے ہیں ، لھٰذا اس کے لئے الفاظ کی بحث میں جانے سے بہت ر یہ ہے کہ ان کے مصادیق کے بارے میں بحث کی جائے، کھلے عام کھیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں تاکہ اس کا جواب بھی واضح طور پر دیا جا سکے-

اور اگر الفاظ مبہم اور نا مشخص استعمال کئے جائیں گے تو ان کے جوابات بھی مبہم دئے جائےں گے، درج ذیل الفاظ جیسے آزادی، ڈیموکراسی، لیبرالیسم، جامعہ مدنی، تمدن اور فرہنگ و ثقافت مبہم ہیں کہ جن کی مختلف تفسیریں کی جا سکتی ہیں لھٰذا ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا کبھی بھی عقلمندی نہیں ہے، صاف کھیں کیا چاہتے ہیں تاکہ ہم اس کا جواب دیں کہ آیا اسلام سے ہم آھنگ ہے یا نھیں ؟

(۱) یعنی ممبر آف پارلیمنٹ کسی وزیر سے کسی سلسلہ میں توضیح مانگے اور نامطمئن جواب ملنے پر دوبارہ اس کے بارے ووٹنگ ہو اور اگر اس کے بارے میں اعتماد رائے باقی رہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو ھٹا دیا جاتا ہے-

حوالہ

.۱سورہ انعام آیت ۳۳

ساتواں جلسہ

آزادی کے حدود

۱-اسلام کا سیاسی نظریہ اور آزادی کو محدود کرنے کا شبہ

چونکہ ہمارا اسلامی سماج،اسلامی قوانین اور ان متغیر قوانین پر کہ جو اسلامی دائرے میں وضع کئے جاتے ہیں ، ادارہ ہوتا ہے لھٰذا ہماری حکومت بھی اسلامی قوانین پر ہونی چاہیے اور قانون کو جاری کرنے والے حضرات اسلامی دائرے سے خارج نہیں ہونے چاہیے اور ہم لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسلامی قوانین پر عمل کریں -

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نظریہ انسان کی آزادی سے ہم آھنگ بھی ہے یا نھیں ؟ انسان اپنی زندگی کے قوانین اور ان کی کیفیت کوطے کرنے میں آزاد ہے، اگر اس سے کھا جائے کہ تمھیں اس دائرے میں چلناہے اور ان قوانین کی رعایت کرنی چاہے توکیا یہ انسان کی اصل آزادی جوانسان کی مسلمہ حقوق میں سے ہے،اس سے منافات تو نہیں رکھتا؟

ہم مندرجہ بالا سوال کو بیان کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، اور اس نکتہ سے ہم کو بعد کی گفتگو میں اس سے استفادہ کرنا ہے، اور یہ نکتہ غور طلب ہے: جس وقت عینی اور انضمامی چیزوں سے ہمارا واسطہ ہوتا ہے،تو ان کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا مثال کے طور پر جب ہم طبیعی علوم میں عینی چیز یں جیسے پانی، بجلی، اٹھنا، بیٹھنا، اسی طرح ڈاکٹری امور میں آنکھ، کان، ھاتھ، پیر، معدھ،دل، جگر کا مشاہدہ کرتے ہیں ، تو ان چیزوں کو سمجھنا آسان ہے کیونکہ ہم تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں ؟ ھاں بہت کم ایسے مسائل مبہم ہوتے ہیں جن کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے جیسے اگر پانی میں مٹی ملی ہو تو کیا پھر بھی پانی ہے یا نھیں ؟

لیکن عینی او رانضمامی چیزوں کو سمجھنے میں غالباً کوئی خاص مشکل نہیں ہوتی، لیکن اگر ہمارے سامنے انتزاعی اور کسبی چیزیں ہوں (مثلاً فلسفی مفاہیم یا انسانی علوم مثلاً علم نفسیات،جامعہ شناسی، حقوق اور علوم سیاسی وغیرہ جیسی چیزیں ) تو ان کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے،اور کبھی کبھی کسی لفظ کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور ایک لفظ کے متعدد معنی ہونے کی وجہ سے ان کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے غالباً ایسے الفاظ کے بارے بحث کے بعد بھی انسان کسی یقینی نتیجہ پر نہیں پہونچتا-

مثال کے طورپر ہم سبھی لفظ، فرہنگ(کلچر) سے آشنا ہیں اور یہ لفظ مدارس کی مختلف کلاسوں میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح اشعار، ادبیات اور روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتاہے، اس کے بعد بھی اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ فرہنگ کے کیا معنی ہیں ؟ تو شاید ھزاروں میں ایک بھی ایسا شخص بھی نہ ملے جو فرہنگ کے معنی کرتے وقت کھے کہ اس لفظ کے ۵ ۰ سے ۵ ۰۰ تک معنی ہیں ! اور یہ مسلم ہے کہ جب اس مشہور اصطلاح میں اتنا ابھام پایا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس ابھام کی وجہ سے بہت سے اجتماعی مسائل بھی تحت تاثیر قرار پائیں گے، اور جب توسعہ فرہنگی (کلچر کی وسعت) کی بات کی جائے گی تو سوال کیا جائے گا توسعہ فرہنگی یعنی چیست؟ اور اس کے مصادیق کیا ہیں ؟ اور کس صورت میں اور کس طرح فرہنگ میں توسعہ ہوتا ہے اور اگر پارلیمنٹ میں توسعہ فرہنگی کیلئے بجٹ پاس کیا جاتا ہے اور اس کو خرچ کرنے کیلئے جگھیں معین کی جاتی ہےں ، ہر وز اتخا نہ میں اس لفظ کے معنی بیان کئے جاتے ہیں اور اس کے خاص موارد مشخص کئے جاتے ہین اور بعض لوگوں کو اس سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جاتا ہے-

۲-آزادی کے بارے میں مختلف نظریات

ہم نے جو کچھ انتزاعی اور کسبی الفاظ کے بارے میں عرض کیا کہ جن کے خاص مصادیق بھی نہیں ہیں اور ان کی تعریف و حدو حدود بھی مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی ایک انتزاعی مفہوم ہے جس کے بارے میں ہمیں بحث کرنا ہے، مثلاً اگر کوئی کھے ”آزادی“ تو سننے والے کو اچھا لگتا ہے، اور آزادی کیلئے تمام ہی مذاہب ، ملت خاص احترام کے قائل ہیں ، کیونکہ انسان فطری طور پر آزادی چاہتا ہے، اور بعینہ آزادی کی تلاش میں رہتا ہے-

اگر کسی انسان سے سوال کیا جائے کہ آپ آذاد رہنا پسند کرتے ہیں یا غلام؟ لا محالہ سبھی حضرات جواب دیں گے: آزاد رہنا، اور کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا کہ کسی کا غلام بن کر رہنا پسند نہیں کرےگا، لیکن چونکہ آزادی کے کوئی واضح معنی بیان نہیں ہوتے ہیں ، جس کی بنا پر آزادی کا نعرہ لگانے والے افراد جو دینی اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں کوئی کچھ معنی کرتا ہے تو دوسرا کچھ معنی مراد لیتا ہے، ایک شخص جب آزادی کا مطلب بیان کرتا ہے تو دوسرا کھتا ہے ہماری نظر میں آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے جو آپ نے بیان کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جو ہم کرتے ہیں ، اسی طرح دوسرا شخص بھی یھی کھتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس بارے میں جو کچھ اب ہماری طرف نسبت دیتے ہیں ، وہ ہماری مراد نہیں ہے-

بلکہ ہماری مراد اس کے علاوہ ہے اگر ہم آزادی کے بارے لکھی ہونی کتابوں ، مضامین اور رسالوں کا مطالعہ کریں خصوصاًوہ کتابیں جو آخری سالوں میں لکھی گئی ہیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ مولفین اور صاحب نظر حضرات کے دھیان آزادی کا کوئی مشخص و معین معنی نہیں ہے، ایک شخص آزادی کا کچھ معنی کرتا ہے اور اسی کا دفاع بھی کرتا ہے، تو دوسرا شخص اس نظریہ کی تنقید کرتا ہوا ایک دوسرا معنی کرتا ہے، اور ظاہر میں بات ہے کہ اس قدر اختلاف کے باوجود آپس میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا-

لھٰذا تفاہم اور سمجھوتے کیلئے آزادی کی ایک مشترک تعریف کی جانا ضروری ہے، تاکہ بحث کسی نتیجہ پر پہونچ سکے، اگر ہم سے کوئی سوال کرے کہ آزادی اور اسلام میں سازگاری ہے یا نہیں تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ پہلے ہمیں آزادی کو سمجھنا پڑے گا، کہ آزادی کے معنی کیا ہیں ، (اور جیسا کہ مغربی مولفین نے آزادی کے بارے میں حدوداً ۲ ۰۰ تعریف بیان کی ہیں اگرچہ ان میں سے بہت سی تعریفیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ،صرف ایک یا دو الفاظ کی وجہ سے اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ان مقامات پر یہ تعریفیں ایک دوسرے کے منافی(اپوزٹ) ہیں تو اس طرح کے اختلافی موارد میں کس طرح یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ آزادی اسلام سے سازگار ہے یا نھیں ؟

آزادی کی طرح ”ڈیمو کراسی“ (جمہوریت) بھی ہے یہ ایک مغربی اصطلاح ہے جس کے معنی مردم سالاری، حکومت یا لوگوں کی حکومت کئے جاتے ہیں ، لیکن پھر بھی اس کے کوئی خاص اور معین معنی موجود نہیں ہیں ، اس میں یہ معین نہیں ہے کہ ڈیمو کراسی ایک حکومت ہے یا اجتماعی زندگی کا ایک طریقہ ہے؟ کیا اس کا تعلق حکومتی اور سیاسی مسائل سے ہے ؟ معاشرہ شناسی یا مدیریت سے اس کا ربط ہے؟ یہ جامعہ شناسی سے مربوط ہے یا اس کا ربط مدیریت سے ہے، اس سلسلے میں بھی بہت بحثیں ہوچکی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ایسے الفاظ کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی مشکل میں اضافہ کرتا ہے-

اس طرح لفظ ”لیبرالیسم“ بھی ہے کہ جس کا ترجمہ پہلے ”آزادی خواہی“ ہوتاتھا اور آزادی خواہی لفظ آزادی کی وجہ سے بہت جذّاب اور خاص اہمیت کا حامل تھا اور اس بنیاد پر آخری دھائیوں میں شاہ کی پہلوی حکومت ”آزادی خواہ پارٹی“ کا نام اپنائے ہوئے تھی-

لھٰذاچونکہ اس طرح کے انتزاعی مفاہیم اچھی طرح واضح نہیں ہوتے ان سے بحث کرنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ واضح نہ ہونے کی بنا پر مطلب مشکل ہوجاتا ہے،اور قطعی طور پر ان کے معنی کی حد بیان کرنا مشکل ہوتا ہے اس طرح کے الفاظ کی کوئی خاص حد نہیں ہوتی، کبھی ان الفاظ کی حد کم ہوجاتی ہے اور کبھی بڑہ جاتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ان مشکلات کی وجہ سے بحث بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے-

لفظِ آزادی کے بارے میں ان مشکلات، ابھامات اور مختلف نظریات (جیسا کہ ۲ ۰۰ سے زائد تعریفیں بیان کی گئی ہیں ) کے پیش ِ نظر اگر ہم اسلامی لحاظ سے آزادی کو سمجھیں اور الگ الگ تعریفوں کو اسلام کے ساتھ مقایسہ کریں تو واقعاً یہ ایک مشکل و پیچیدہ کام ہے، عمومی اور مختلف لوگوں کیلئے اس بحث کو بیان کرنا تو دور کی بات ہے، لھٰذا ضروری ہے کہ بحث کو تطبیقی لحاظ سے آگے بڑھایا جائے اور دیکھیں کہ آزادی کے طرفدار حضرات آزادی سے کون سے معنی مراد لیتے ہیں ؟ اور آزادی سے کیا چاہتے ہیں ،اس وقت دیکھا جائے گا کہ جو وہ لوگ چاہتے ہیں وہ اسلامی نقطہ نظر سے ٹھیک ہے یا نھیں ؟ وہ لوگ جو آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کی طرفداری بھی کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ملک میں آزادی نہیں ہے ،آزادی کا کیا مطلب مراد لیتے ہیں ؟ کیا میڈیا آزاد نہیں ہے؟ کیا لوگ انفرادی آزادی نہیں رکھتے؟ یا سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی آزادی نہیں رکھتے؟ آزادی کا نعرہ لگانے والے لوگوں کو کس صورت میں آزاد سمجھتے ہیں ؟

اگر مصادیق کے بارے میں تھوڑی بحث کی جائے تو ایک واضح نتیجہ پر پہونچنا ممکن ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مد مقابل کیا کھتا ہے اور کیا چاہتا ہے، اس صورت میں گفتگو کی روش مبہم نہ رہے اور دوسرے افراد بھی اس سے غلط استفادہ نہ کرسکیں گے-

۳- آزادی، مطلق نہیں ہے،اور آزادی کے دین پر مقدم ہونے کا جواب

معمولاً خود عرض اور دھوکہ باز افراد آزادی جیسی انتزاعی اور مشکل چیزوں سے اپنے اہداف و مقاصد تک پہونچنے کیلئے آزادی جیسے الفاظ سے سوء استفادہ کرتے ہیں ، اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کچھ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے کھنے کا مقصد فی کچھ اور ہی ہوتا ہے، مغالطہ آمیزاور دھوکہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، مثال کے طور پر تقریروں ، مقالوں اور اخباروں میں یہ سوال بیان کیا جاتا ہے کہ دین آزادی پر مقدم ہے یا آزادی دین پر مقدم ہے؟ کیا اصل، آزادی ہے اور دین آزادی کے تابع ہے یا اصل دین ہے اور آزادی اس کے تابع ہے؟

معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ سوال ایک علمی اور دقیق سوال ہے اور یہ سمجھنا واقعاً جذّاب ہے کہ آ زادی اصل ہے یا دین اصل ہے؟ اس کا درک کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے، لیکن جب ہم بحث کرتے ہیں اور کھتے ہیں کہ دین اصل ہے تو جواب دیتے ہیں کہ اگر کوئی آزاد نہ ہو تو کوئی پھر کس طرح دین کا انتخاب کر سکتا ہے؟ لھٰذا انسان کو دین قبول کرنے میں آزاد ہونا چاہئے،، پس نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی دین پر مقدم ہے اور جب یہ طے ہوجائے کہ آزادی دین پر مقدم ہے تو پھر یہ نتیجہ بھی آسانی سے نکل آئے گا کہ دین آزادی کو محدود نہیں کر سکتا، کیونکہ آزادی دین سے بالاتر ہے اوردین پر مقدم ہونے کا حق رکھتی ہے-

قارئین کرام جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ یہ مغالطہ آمیز استدلال ظاہراًتو ٹھیک دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اگر کوئی انسان آزاد نہ ہوتو کس طرح دین کو انتخاب کر سکتا ہے، اس لئے انسان کو آزاد ہونا چاہیے، تاکہ اسلام کو دل سے قبول کرسکے، لھٰذا معلوم ہوتا ہے کہ آزادی دین پر مقدم ہے، اور یھی اصل ہے یھی دین کو معتبر بناتی ہے، اور بنیادی طور پر دین کی علت وجودی ہے لھٰذا اپنی پیدا کی ہوئی چیز کے ذریعہ خود ختم یا محدود نہیں ہو سکتی،آخر میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر انسان کا دینی ماحول بالکل آزادی کے ساتھ ہو گا-

بعض دوسرے افراد یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو کسی کا غلام نھیں ھوتا بلکہ آزادھوتاہے، لھٰذا زندگی اس کو میں آزاد ہونا چاہئے-

اس طرح یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ اختیار اور آزاد ارادہ رکھنا ایک بہت اہم چیز ہے، اس بنیاد پر اگر انسان اس دنیا میں آئے اور اس کے ھاتہ پیر مفلوج ہوجائیں اور زبان سے گونگا ہوجائے تو اس کی کیا قیمت ہے؟ انسان کی قدرو قیمت اس وقت ہے جب وہ آزاد ہو جہاں چاہے جائے جو کرنا چاہے اس کو انجام دے سکے، جو چاہے اپنی زبان سے کھے اور چونکہ انسان تکوینی طورپر آزاد خلق ہوا ہے تو پھر قانونی طور پربھی انسان کو آزاد ہونا چاہئیے!

یہ وہی طبیعت گرانہ مغالطہ ہے کہ جس میں ”است“ (ھے) سے ”باید“(ھونا چاہئیے) کا غلط نتیجہ نکالا گیا ہے، اگر ہم چاہیں کہ ان تمام مسائل کو دقیق اور جدی طریقہ سے بحث کریں توہم کو فلسفی اور دقیق بحث کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، اور بہت جلدی کسی نتیجہ پر نہیں پہونچ سکتے-

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اگر ہم آزادی کے بارے میں بحث کریں تو پھر دسیوں تعریفوں سے تحقیق و بررسی کرنی ہوگی، اس وجہ سے مصادیق کے سلسلے میں ہی بحث کرنا مناسب ہے، اورآزادی کا نعرہ لگانے والے افراد سے کھیں کھ: اگر کوئی شخص تمھارے منہ پر ایک زور دار تھپڑ لگا کر کھے میں آزاد ہوں ؟! تو کیایہ صحیح ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ جواب منفی ہوگا اور اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا، اور جواب یہ ملے گا کہ آزادی سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے، کیونکہ یہ تو دوسروں پر ظلم ہے لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی اس وقت تک مناسب ہے کہ جب تک دوسرے پر ظلم وزیادتی نہ ہو، یعنی آزادی مطلق نہیں ہے-

اور اگر اس سے یہ کھا جائے کہ کوئی شخص تمھارے خاندان اور عورتوں کے بارے میں جو کچھ چاہے کھے ، وہ تم کو مار تو نہیں رہا ہے بلکہ آپ کی بے حرمتی کررہا ہے اور تمھارے یا تمھارے اہل خانہ کے بارے میں نازیبا الفاظ کھہ رہا ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دےگا،کیونکہ یہ بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی ہے، اور ناموس کی عزت بھی معاشرے میں محترم ہے، پس معلوم ہوا کہ عزت وناموس پر تجاوز وزیادتی ظاہری چیزوں پر منحصر نہیں ہے-

اور اگر کوئی شخص کسی اخبار میں اس کے خلاف کچھ لکھے اور مقالہ کے ذریعہ اس کی شخصیت اور آبرو کو داغدار کرے، تو اس صورت میں کیا یہ فیزیکی اور ظاہری طور پر اس کی بے حرمتی نہیں ہوئی ہے، یعنی زبان کے ذریعہ اس کی بے عزتی نہیں ہوئی ہے،کیا کوئی اس چیز کی اجازت دے سکتا ہے؟ ہر گز کوئی شخص اس بات کو قبول نہیں کر سکتا، اور اس کام کو بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی اور اپنے لئے بے عزتی جانتا ہے، اور اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص اس کی آبرو ریزی کرے، اور اس کے حقوق کو پائمال کرے، نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے اب تک تین قیود و شرط موجود ہیں اور اگر ان شرطوں کی رعایت نہ کی جائے تو دوسروں کے حقوق کی پامالی ہے-

۴- ہر معاشرے کی مقدسات کی رعایت ضروری ہے-

ایک دوسرا نکتہ کہ جس کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہر معاشرہ کی مقدسات (قابل احترام چیزیں ) الگ الگ ہیں ، اور نسبی ہوتی ہیں مثال کے طور پر بعض معاشروں میں کسی کی بھن یا بیٹی سے آزادانہ رابطہ کرنا معیوب نہیں ہوتا، جیسا کہ یورپی اور امریکائی ممالک ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی لڑکی یاعورت سے دوستی کرنا چاہے، تو چاہے اس دوستی کے نتائج کچھ بھی نکلیں کوئی مشکل نہیں ہے-

کیونکہ دونوں کی مرضی سے یہ کام ہو رہا ہے لیکن اگر کوئی شکایت کرے اور کورٹ میں جا کر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرے کہ طاقت کے بل بوتے پر مجہ پر ظلم ہوا ہے اور میں راضی نہیں ہوں ، تو عدالت اس کی اس شکایت کو سنتی ہے لیکن صرف مرد وعورت کی دوستی کیونکہ اپنی مرضی سے ہوتی ہے ،لھٰذاکوئی عیب نہیں ہے! لھٰذا اگر کوئی شخص کسی سے کھے میری اور تمھاری بھن کی دوستی ہے اور کل رات فلاں جگہ تھے یورپی فرہنگ و کلچر میں برا نہیں سمجہا جاتا، اور کوئی اس بات پر خوش بھی ہو سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یھی بات بری سمجھی جاتی ہے اور اس کو برا سمجہا جاتا ہے کسی کو ایسی باتیں کھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا،ان باتوں سے ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر معاشرے میں کچھ خاص چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کو وہ محترم اور مقدس سمجھتا ہے، درحالیکہ یھی چیزیں دوسرے معاشرے میں نہیں پائی جاتیں ، اب یہ دیکھنا ہے کہ ان مقدسات کا معیار کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر معاشرے کی مقدسات اس کی ثقافتی اور اجتماعی زندگی کی وجہ سے ہوتی ہیں ، اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ مقدسات معاشرے کی بنیاد، اس ماحول اور ملک کے ثقافتی معیار کی وجہ سے ہوتی ہیں لھٰذا اگر کسی معاشرے میں وہاں کی ثقافت کے وجہ سے کچھ چیزیں مقدس اور قابل احترام ہوں ، تو ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور ان کی بے احترامی نہیں ہونا چاہیے، اور کسی بھی معاشرے میں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جو چاہے کھے،جبکہ اس کو اس طرح کی باتیں کرنا چاہیے جن سے ان مقدسات کی بے احترامی نہ ہوتی ہو-

نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے بہت سی قید و شرط ہیں کہ جن کی ہر معاشرہ کے لحاظ سے رعایت کرنا چاہیے اور آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان جو چاہے کھے، اور جس طرح چاہے کرے، ھاں اگر جس ماحول میں وہ زبان کھول رہا ہے ا سمیں اگر اس کو بے احترامی نہیں سمجہا جاتا تو اس کا کہنا صحیح ہے لیکن جس معاشرے میں وہ کھہ رہا ہے اگر وہاں اس کا یہ کہنا اس معاشرے اور مذہب کے مقدسات کی توہین ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے وہ مقدسات کے ہدف کچھ کئے، اور جو چاہے انجام دے اور کوئی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا، اگرچہ ہم نے جو کچھ بیان کیا،مغربی ممالک میں محترم اور با اہمیت نہیں سمجہا جاتا اور ہر انسان اپنی گفتار و کردار میں آزاد ہے،لیکن ہمارے معاشرے میں چونکہ اسلامی حکومت ہے مغربی ممالک سے فرق ہے اور اس طرح کی آزادی نہیں ہے کہ جو چاہے لوگوں کی طرف نسبت دے اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے فرہنگ و ماحول میں یہ چیزیں با ارزش ہیں اور ہر قوم و ملت کے مقدسات کا احترام کرنا ضروری ہے اور آزادی کے بھانہ ان کی خلاف ورزی کرنا صحیح نہیں ہے-

پس معلوم یہ ہوا کہ آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں اور اس قدر آزادی کو کوئی بھی عقلمند انسان قبول نہیں کر سکتا، لھٰذا آزادی کے اس طرح معنی بیان کرنے چاہئےے جس سے دوسروں کی توہین اور ان کے حقوق کی پائمالی نہ ہوتی ہو-

لھٰذا جن باتوں سے لوگوں کے مقدسات کی توہین ہوتی ہو ان کا بیان کرنا ممنوع اور ناجائز ہے، اسلامی معاشرہ میں آزادی کا بھانہ بناکرخاص طور سے جان سے زیادہ عزیز اسلامی مقدسات کی توہین کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے-

ہماری قوم و ملت نے ثابت کر دیا ہے کہ اپنے عزیزوں کی لاکھوں جانیں قربان ہوجائیں ، لیکن اسلام باقی رہے، اب اگر مغربی کلچر میں کسی بھی طریقہ سے کسی کی توہین ہو (مثلاً یہ کھا جائے کہ آپ کی ناک بہت لمبی ہے، آپ کا قیافہ برا ہے) اس کو عدالت میں جانے اور مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے، اسی طرح اگرہمارے معاشرے میں کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں توہین کرے، وہ بھی اس بارے میں کہ جو ماں ، باپ، بیوی اور اولاد حتی خود اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو، ظاہر ہے کہ لوگوں کو یہ اعتراض کرنے کا حق ہے کہ آزادی کا بھانہ بنا کر ہمارے مقدسات کی توہین کیوں کررہے ہو-

۵-آزادی کے نعرہ میں ناجائز غرض

جو لوگ آزادی کا دم بھرتے ہیں اور آزادی نہ ہونے کا غم مناتے ہیں اور ایران میں آزادی نہ ہونے کا مرثیہ پڑھتے ہیں ! کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ ان میں سے بعض لوگوں نے مغربی ممالک کا سفر کیا ہے یا ان کے بارے میں سنا ہے یا وہاں کی فلموں کو دیکھا ہے،جو لوگ اس طرح کی زندگی چاہتے ہیں ،لیکن ایران میں ان کو اس طرح کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے ،اسلامی حکومت کھاں سے قوانین بناتی ہے؟ کیا اسلامی حکومت کے قوانین خدا،رسول اور آئمہ کی مرضی کے مطابق قوانین نھیں ھوتے ہیں ؟ وہ لوگ الٰھی احکام کو قبول نہیں کرتے، ولی فقیہ پر اعتراضوں کی بوچھار کرتے ہیں اور ولی فقیہ کے متعلق کینہ رکھتے ہیں جبکہ ولی فقیہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کھتا:

( فَإِنَّهُمْ لاٰ یُکَذِّبُونَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِاٰیَاتِ اللّٰه یَجْحَدُوْنَ ) -(۱)

”یہ لوگ تم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ (یھ) ظالم (حقیقتاً) خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں “

کیا مرجع تقلید اور فقیہ اپنی طرف سے کچھ کھتا ہے؟ وہ جو کچھ بھی کھتا ہے قرآن ، احادیث سے اخذ کرتا ہے لیکن دشمن اس چیز کو قبول نہیں کرتا، امریکہ کی معتبر یونیورسٹیوں کی کھلی فضا میں بہت سے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کے سامنے ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے سے شرم آتی ہے،وہاں کے عیاش خانوں میں کیا کیا ہوتاہے؟ تصور کریں اگر وہاں کے عیاش خانوں کی ویڈیو بنائی جائے اور اس کو اس ملت کے جوانوں کو دکھائی جائے تو اس کا کیا اثر ہوگا؟ اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی جوان ایسی فلمیں دیکھئے گا،اور جب صبح اٹھ کر یونیورسٹی جائے گا تو پھر سکون سے نہیں رہ سکے گا، کیونکہ رات میں سویاہی نہیں ہے، اور دوسری طرف اس کی شھوت تحریک ہو جاتی ہے، اور اس کا چین و سکون غائب ہو جاتا ہے، اب اگر ایسا جوان نعرہ لگائے کہ یھاں آزادی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو میں کرنا چاہتا ہوں ،اس کو کرنے نہیں دیا جاتا اسلام کے مقابلہ میں اسی طرح کی آزادی کو لایا جاتاہے-

اور کھا جاتا ہے کہ آزادی مقدم ہے یا اسلام؟ اس آزادی کا مطلب ہی جنسی شھوات کو پورا کرنا ہے، لھٰذا شروع ہی سے یہ کھا جائے کہ آزادی سے ہم یہ چاہتے ہیں ، ہر وہ چیز جو کچھ کفر و الحاد کے ماحول میں ہوتی ہے وہی معاشرے میں بھی جائز ہو جائے تو وہ مطمئن رہیں کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، کیونکہ لوگوں نے اپنے عزیزوں کی جانیں قربان کی ہیں تاکہ اسلام کارواج ہو، نہ کہ مغربی فساد اور بے ہودگی رائج ہو-

ممکن ہے کہ کوئی یہ کھے کہ ہم واقعاً مسلمان ہیں اور اس حکومت کو ووٹ دیا ہے اور ولایت فقیہ کے معتقد ہیں اور جیسی آزادی مغربی ممالک میں رائج ہے ایسی آزادی نہیں چاہتے، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم لکھنا چاہیں اس کو بغیر کسی روک ٹوک کے بے جھجک لکہ سکیں ہم تو آزادی بیان و قلم اور عملی آزادی کے خواہاں ہیں ،ہم کو اپنی بات کھنے کی آزادی ملنا چاہیئے-

یہ بات ظاہراً ٹھیک ہے کیونکہ حقوق بشر کے نشریات میں سے ایک حق جو تمام لوگوں کو ہے یھی آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی ہے اور اسی طرح کی آزادی کو ڈیمو کراسی کی ایک اصل مانا گیاہے، لیکن ہم ان سے یہ کھیں گے کہ آپ اپنی رائے کا اظھار کریں کہ ہمارے ملک کے حکمران کیسے ہیں لیکن کیا واقعاً آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فلاں شہر کا فلاں قاضی صحیح کام کرتا ہے یا نہیں یا فلاں شہر کاڈی ایم( D-M )ٹھیک کام کرتا ہے یا نھیں یا فلاں ملازم کا کردار صحیح ہے یا نھیں ؟ یا درحقیقت آپ اصل اسلام اور اسلامی مقدسات کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں اور ان تمام چیزوں کی نفی کرنا چاہتے ہیں ؟ یا اسلامی مقدسات کی توہین کرنا چاہتے ہیں ؟

۶- آزاد گفتگو کی حد وحدود

اگر آزادی سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جس کام کا ہوناجائز نہیں ہے اس کے بارے میں لکھنا اور کہنا جائز ہونا چاہئیے، جیسا کہ ہم نے مثال میں عرض کیا تو جب کسی شخص کو آپ کے سلسلے میں کوئی توہین آمیز کلمات کھنے کا کوئی حق نہیں ہے،یعنی وہ اتنی آزادی نہیں رکھتا لیکن جب اسلامی مقدسات کی بات آتی ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ آزادی بیان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جو چاہیں لکھیں ہم جو چاہیں کھیں !

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے بارے میں توہین آمیز کلمات زبان پر جاری کرے، اور اگر کوئی ایسا کرے تو آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور مقدمہ دائر کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ،آپ اجازت نہیں دیتے کہ آپ کے ذاتی مسائل کو اخبار میں دیا جائے تو پھر آپ کو اس ملت کے راز فاش کرنے کا حق کھاں سے حاصل ہوگیا؟ کس طرح آپ کی نظر میں کسی ایک شخص کے راز کو فاش کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ایک ملت کے راز کو فاش کرنا جائز ہوگیا! یعنی آپ کی نظر میں جب ایک شخص لاکھوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ،توکیا اس کے راز کو فاش کرنا جائز ہے؟! کیا ایک معاشرے کی نسبت اپنے مقالوں میں حدود کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے؟ کیا کچھ بھی لکھا اور کیا جا سکتا ہے، معاشرے کے بھی کچھ حقوق ہیں ،اس کے مقدسات ہیں اور ان کا احترام باقی رہنا چاہیے اور مقدسات کو مجروح نہیں کیا جا سکتا-

جس طرح آپ اپنی توہین کر برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اسی طرح آپ اپنی ناموس یا آپ کے گھریلو اسرار کے بارے میں تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتے، تو پھر آپ کس طرح اجازت دیتے ہیں کہ اس عظیم معاشرے جس نے ھزاروں عزیزوں کو ان مقدسات کی حفاظت کیلئے قربان کردیا ہے اس کی توہین کی اجازت دیتے ہیں ؟!

کیا آپ کی نظر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، ؟اور آزادی کا بھانہ بنا کر قانون کی طرف سے کوئی حد و حدود نہیں ہونا چاہیے؟ کیا آزادی مطلق ہے؟ اور اگر آزادی مطلق ہو توکسی کے بارے میں کچھ بھی کھنے کا حق حاصل ہونا چاہئےے اور اگر اس ۶ /کروڑ والی ملت کی مقدسات مجروح ہوں اور کوئی تم پر اعتراض کرے تو آپ جواب میں کھیں : اظھار نظر کرنا آزاد ہے! اس سے بڑا مغالطہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے احترام کو مجروح کرنا جائز نہیں ہے لیکن ۶ /کروڑ والی ملت کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ہے، لیکن ایک عرب مسلمانوں کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ہے! یہ کونسی منطق اور فلسفہ ہے؟ اور صرف اس وجہ سے کہ حقوق بشر کے نشریات میں موجود ہے کہ بیان آزاد ہے مقدسات کی توہین کرنا بھی آزاد ہوجائے گا؟! آزادی کا ایک مبہم کلمہ استعمال کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے لحاظ سے اس کی تفسیر کر کے سوء استفادہ کرتا ہے-

۷-الفاظ کے مفہوم اور مصادیق کو روشن کرنے کی ضرورت

ہم یھاں پر یہ مشورہ نھیں دیتے ہیں کہ مبہم اور غیر واضح الفاظ کو استعمال کرنے کے بجائے ان کے مصادیق پر تکیہ کریں اور کھیں کہ یہ کام جائز ہے یا نھیں ؟ مثلاً یہ کھنے کے بجائے کہ اسلام ڈیموکراسی کے موافق ہے یا نھیں ؟ کھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور کون سا عمل انجام دینا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ خدا اور اس کے احکام کو نادیدہ کرنا چاہتے ہیں اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کیے جائیں کہ انسان جس طرح کے قوانین بنانا چاہے بنا سکتا ہے اگرچہ خدا کے قوانین کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ، توچاہے پوری دنیا زور لگائے ہر گز ہم ایسی ڈیموکراسی کو قبول نہیں کر سکتے -

لیکن اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کئے جائیں کہ لوگ اپنی سرنوشت اور زندگی میں موثر ہیں ،کوئی شخص اپنے زور کے ذریعہ ان پر تحمیل نہیں کر سکتا، افراد بھی اسلامی قوانین اور بنیادوں کے دائرے میں چلیں ، تو اس چیز پر تو شروع انقلاب سے عمل ہو رہا ہے، اور اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ایران کے برابر کسی بھی ملک میں لوگوں کی کا احترام نہیں کیا جاتا،تو شاید دعویٰ بے جا نہ ہوگا، اور شاید کھنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہمارے پاس اس حد تک ثبوت نہیں ہیں ،لیکن پھر بھی ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں کھیں بھی اتنی آزادی نہ ہو، لھٰذا لفظ ڈیموکراسی پر بحث و مباحثہ کرناکہ اسلام ڈیموکراسی کا موافق ہے یا مخالف ہے ؟

اس سے بہت ر یہ ہے کہ پہلے اس کے مصادیق کو معین کر لیں ، مثلاً کیا اسلام ہم جنس بازی کے آزاد ہونے کی اجازت دیتاہے ؟ چاہے تمام ہی لوگ ایسا نظریہ رکھتے ہوں ، ظاہر ہے کہ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتااگر تمام ہی لوگ اس چیز کے موافق ہی کیوں نہ ہوں اور اس بارے میں ووٹ بھی دیں ، لھٰذا اگر ڈیموکراسی اس حد تک بے لگام ہو تو پھر ہم اس کو نہیں مانتے، لیکن اگر ڈیموکراسی سے مراد یہ ہو کہ افراد انتخابی مہم میں آزاد ہیں پارلیمنٹ کے ممبران کو آزادانہ طور پر منتخب کریں ، صدر کا انتخاب آزادانہ طریقہ پر ہو اور ان کو حق ہے کہ ممبران پارلیمنٹ یا دوسرے ذمہ دار افراد کی استیضاح(۱) کرے تو ایسی آزادی ہونا چاہیے کہ الحمد للہ ہمارے یھاں یہ آزادی ہے، اور ہم بھی سو فیصد اس کی حمایت کرتے ہیں ، لھٰذا اس کے لئے الفاظ کی بحث میں جانے سے بہت ر یہ ہے کہ ان کے مصادیق کے بارے میں بحث کی جائے، کھلے عام کھیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں تاکہ اس کا جواب بھی واضح طور پر دیا جا سکے-

اور اگر الفاظ مبہم اور نا مشخص استعمال کئے جائیں گے تو ان کے جوابات بھی مبہم دئے جائےں گے، درج ذیل الفاظ جیسے آزادی، ڈیموکراسی، لیبرالیسم، جامعہ مدنی، تمدن اور فرہنگ و ثقافت مبہم ہیں کہ جن کی مختلف تفسیریں کی جا سکتی ہیں لھٰذا ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا کبھی بھی عقلمندی نہیں ہے، صاف کھیں کیا چاہتے ہیں تاکہ ہم اس کا جواب دیں کہ آیا اسلام سے ہم آھنگ ہے یا نھیں ؟

(۱) یعنی ممبر آف پارلیمنٹ کسی وزیر سے کسی سلسلہ میں توضیح مانگے اور نامطمئن جواب ملنے پر دوبارہ اس کے بارے ووٹنگ ہو اور اگر اس کے بارے میں اعتماد رائے باقی رہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو ھٹا دیا جاتا ہے-

حوالہ

.۱سورہ انعام آیت ۳۳


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17