عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 23%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18650 / ڈاؤنلوڈ: 4555
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

اس حصہ سے مربوط مطالب کے مآخذ

۱ ۔ داستان صلح حیرہ اور خالد کے زہر کھانے کی روداد سے متعلق مآخذ:

۱ ۔ صلح حیرہ، خالد کا زہر کھانے اور ” عبد المسیح بن عمرو“ کا نام تبدیل ہوکر ” عمرو بن عبد المسیح“ ہونا سیف کی نقل کے مطابق۔

تاریخ طبری : ج/ ۱ ،ص/ ۲۰۳۹ ۔ ۲۰۴۴ ، ۲۱۹۷ ، ۲۲۵۵ ، ۲۲۵۶ اور ۲۳۸۹ ،

۲ ۔ صلح حیرہ، زہر کھانے کی روداد اور نام کی تبدیلی کے بغیر ، کلبی کی نقل کے مطابق:

تاریخ طبری : ج / ۱ ،ص/ ۲۰۱۹

۳ ۔ صلح حیرہ ، زہر کھانے کی روداد اور نام کی تبدیلی کے بغیر،

فتوح البلدان بلاذری ، ۲۵۲ ۔

۴ و ۵ ۔ صلح حیرہ میں خالد سے گفتگو کرنے والے کا نام ” عبدا لمسیح بن عمرو “ تھا نہ ” عمرو بن عبد المسیح “ انسان ابن کلبی نسب قحطان کی تشریح میں ا ور ” جمہرة الانساب “ ابن حزم : ۳۵۴ ۔

۶ ۔ صلح حیرہ ، خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کے ساتھ اور نام کی تبدیلی سیف کی نقل کے مطابق:

تاریخ ابن اثیر ، طبع منیریہ ۲/۲۶۶

۷ ۔ خالد کے زہر کھانے کا افسانہ ، تاریخ ابن کثیر ، : ۶/ ۳۴۶ ،

۲ ۔ عمر کے بارے میں پیغمبر کی بشارتوں کی داستان کے مآخذ

الف : روایات سیف :

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۵۸۶ ، ۱۵ ھء کے حوادث میں ۔

۲ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۳۹۷ ۔ ۲۴۱۱ ، ۱۵ ھء کے حوادث میں ۔

۳ ۔ تاریخ ابن اثیر : ۲/ ۳۸۷ ۔ ۳۸۹ ، ۱۵ ھء کے حوادث میں ۔

۴ ۔ تاریخ ابن کثیر : ۷/ ۴۵ ۔ ۵۸ ، ۱۵ ھء کے حوادث میں ۔

۵ ۔ تاریخ ابن خلدون : ۲/ ۳۳۶ ۔

۶ ۔ اصابہ ابن حجر : ۲/ ۲۰۸

ب : بیت المقدس کے بارے میں دوسروں کی روایتیں :

۱ ۔ تاریخ خلیفہ ابن خیاط : ۱/ ۱۰۵ ، ۱۶ ھء کے حوادث میں ۔

ٍ ۲ ۔ فتوح البلدان بلاذری ۱/ ۲۶۴ حوادث فلسطین کی فصل میں ۔

۳ ۔ تاریخ یعقوبی : ۲/ ۱۴۷ ، دوران عمرکے حوادث میں ۔

۴ -فتوح اعثم ؛ ۱/ ۲۸۹ ۔ ۲۹۶

۵ ۔ معجم البلدان : تراجم بلدان کے حصہ میں ،

ج ۔ شمشیر بازوں کے بارے میں دوسروں کی روایتیں

۱ ۔ کتاب اموال ابی عبید؛ ۱۵۳ ( فصل اہل صلح کو اپنے مال پر چھوڑنا چاہے)

۲ ۔ فتوح البلدان ، بلاذری ۱۶۵ فصل (حوادث فلسطین)

د ۔ بیت المقدس کی صفائی کے بارے میں دوسروں کی روایتیں :

۱ ۔ کتاب اموال ابی عبید ؛ ۱۴۸ فصل (اہل ذمہ کو مسلمانوں کی طرف سے امان دینا)

۲ ۔ کتاب اموال ابی عبید: ۱۵۴ فصل (اہل صلح کو اپنے حال پر چھوڑنا چاہئے)

۳ ۔ داستان شہر حمص کے مآخذ

۱ ۔ داستان شہر حمص کے بارے سیف کی تین روایتیں

تاریخ طبری : ۱۵ ھ ء کے حوادث میں ۱/ ۲۳۹۱

۲ ۔ حمص کے باشندوں کی صلح کی روداد:

فتوح البلدان ، بلاذری ، : ۱۳۷

۳ ۔ حمص کے لوگوں کے پاؤں کٹ جانے کی روداد کے بارے میں قشیری کی روایتیں

تاریخ طبری : ۱/ ۱۵۴ ۲ و ۲۳۹۱ ، ۲۳۹۵ ، ۲۷۹۶ ، ۲۵۳۳ ،

۴ ۔ شہر حمص کے در و دیوار گرجانے کی داستان:

تاریخ ابن اثیر ، طبع منیریہ ، ۲/ ۳۴۱ ،

۵ ۔ شہر حمص کے درو دیوار گرجانے کی روداد

تاریخ ابن کثیر : ۷/ ۵۳

۴ ۔ داستان فتح شوش کے مآخذ

۱ ۔ تاریخ طبری: ۱/ ۲۵۶۴ ۔ ۲۵۶۵

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر، ۲/ ۳۸۶ ،

۳ ۔ تاریخ ابن کثیر : ۷/ ۸۸

۴ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۵۶۲ ۔

۵ ۔ ابو موسی کی شوش کے باشندوں سے جنگ:

فتوح البلدان بلاذری : ۳۸۶

۶ ۔ ابو موسی کی شوش کے باشندوں سے جنگ:

اخبار الطوال ، دینوری ، ۱۳۲ ۔

۷ ۔ شوش کے باشندوں سے ابو موسی کی صلح:

تاریخ ابن خلیفہ : ۱۱۱

ابن صائد ابن صیاد معروف بہ دجال فاتح شوش کا افسانہ درج ذیل مآخذ میں آیا ہے ۔

۸ ۔ صحیح بخاری: ۱/ ۱۶۳ ،(۲) / ۶۷ ، ۴/ ۵۳

۹ ۔ صحیح مسلم : ۸/ ۱۸۹ ۔ ۱۹۴ ،

۱۰ ۔ سنن ابی داؤد : ۲/ ۲۱۸

۱۱ ۔ سنن ترمذی: ۹۱۱۹

۱۲ ۔ مسند طیالسی ، حدیث : ۸۶۵ ،

۱۳ ۔ مسند احمد: ۱/ ۳۰۸ ، ۴۵۷ ، و ۲/ ۱۴۸ ، ۱۴۹ ، و ۳/ ۲۶ ، ۴۳ ، ۶۶ ، ۷۹۸۲ ، ۳۶۸ ، و ۴ ۲۸۳ ، ۴۵/ ۴۹ ۔ ۱۴۸ ،

۵ ۔ اسود عنسی کی داستان کے مآخذ

۱ ۔ تاریخ طبری: ۱/ ۱۸۵۳ ۔ ۱۸۶۷ ، ۱۱ ھء کے حوادث میں ۔

۲ ۔ تاریخ اسلام ، ذہبی، ۱/ ۳۴۲ ۔ ۳۴۳ ،

۳ ۔ تاریخ ابن اثیر: ۲/ ۲۲۹ ،

۴ ۔ تاریخ ابن کثیر: ۶/۳۰۷ ۔ ۳۱۰ ،

۵ ۔ جمہرہ ابن حزم: ۳۸۲ ،

۶ ۔ لسان المیزان ، ابن حجر : ۳/ ۱۲۲ ، سہل بن یوسف کے حالات میں ۔

۷ ۔ انساب سمعانی : ۱/ ۲۲۳

۸ ۔ اصابہ ابن حجر : ۷۳۱۵

۹ ۔ تاریخ یعقوبی ، طبع نجف ، ۲/ ۱۰۸ ،

۱۰ ۔ البداء و التاریخ : ۵/ ۱۵۴ ۔

۱۱ ۔ فتوح البلدان بلاذری، طبع سعادت مصر ، ۱۹۵۹ ءء / ۱۱۳ ۔ ۱۱۵ ۔

۱۲ ۔ معجم البلدان حموی : مادہ ” دثینہ “ میں ۔

۶ ۔ جواہرات کی ٹوکری اور اس کے مآخذ

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۷۰ ، و ۲۷۱۴ ۔ ۲۷۲۱

ابن کثیر : ۷/ ۱۳۰ ۔ ۱۳۱ و فیروز آبادی نے قامو س میں ا ور زبیدی نے تاج العروس میں لغت ”سری“ کی تشریح میں

۲ ۔ جمہرہ ابن حزم : ۱۷۴ ۔ ۲۳۸

۳ ۔ فتوح اعثم ، طبع حیدر آباد : ۵۹ ۔ ۶۲ ،

۴ ۔ فتوح بلاذری، طبع بیروت ۱۳۷۷ ھ ، ۲/ ۳۰۲ و ۳۸۰ ۔

۵ ۔ تاریخ ابن اثیر ، طبع منیریہ ، قاہرہ ۱۳۴۹ ھء ۲/ ۲۱ و ۲۵

۶ ۔ اخبارا لطوال دینوری : طبع اول قاہرہ : ۱۳۸

۷ ۔ معجم البلدان ، تحت کلمہ ” فسا“ و ” درابجرد“

اسلامی ثقافت میں تحریف ہوئے نام

خالد بن ملجم بریدہ بن یحسن

معاویہ بن رافع عبدا لمسیح بن عمرو

عمرو بن رفاعہ شہر بن باذان

خزیمہ بن ثابت فیس بن عبدیغوث

سماک بن خرشہ عبدا للہ بن سبا و حزب سبایان۔

گزشتہ اور آئندہ مباحث پر ایک نظر

سیف نے اپنے تحریف اور مسخ کرنے کے کام کو تاریخ اسلام کے تمام جوانب اور ابعاد میں انجام دیا ہے اور اپنے خطرناک منصوبے کو ہر جہت اور زاوئے سے عملی جامہ پہنایا ہے ۔ اسلام کے حقائق کو تہ و بالا کرنے اور ہر چیز کو اس کے خلاف تبدیل کرنے میں اس نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اور یہ کام انتہائی مہارت اور ایسی ہوشیاری سے انجام دیا ہے کہ دانشوروں او رمحققین کیلئے اس کی تحریفات اور تبدیلیوں کی تشخیص دینا انتہائی مشکل اور دشوار بنا دیاہے ۔ جن حقائق کو اس نے مسخ اور الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے ان کا اصلی اور حقیقی قیافہ ابھی بھی دانشوروں اورعلماء کیلئے مجہول اور غیر معروف ہے۔

سیف نے اپنی تحریف کے جامع اوروسیع منصوبے کو چند طریقوں سے تاریخ اسلام میں داخل کر دیا ہے :

۱ ۔ خونین جنگوں کی ایجاد جیسے مرتدین کی جنگیں ۔

۲ ۔ خرافات پر مشتمل افسانے جعل کرکے ، مثلاً داستان اسود عنسی

۳ ۔ افسانوی اشخاص اور اماکن کا جعل کرنا، جیسے طاہر جیسا کمانڈر اور اعلاب جیسی سرزمین

۴ ۔ احادیث میں ملاوٹ اور انھیں الٹ پھیر کرنا۔

اس نے تاریخ اسلام میں تحریف کرکے اسے حقیقی اور صحیح راہ سے منحرف کردیا ہے ہم نے مذکورہ چہارگانہ تحریفات کی گزشتہ فصلوں میں وضاحت کی ہے اور اس سلسلہ میں قارئین کرام کی خدمت میں کئی نمونے بھی پیش کئے ہیں ، اب ہم اس حصہ میں سیف کی تحریف کی پانچویں قسم پر بحث و تحقیق کریں گے:

۵ ۔ سیف نے حدیث کے راویوں ، پیغمبر خدا کے اصحاب اور وقائع و حوادث کے پہلوانوں کے ناموں کو بدل کر تاریخ کے حقائق کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے اور اس طرح کی تحریفا ت کے ذریعہ اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوا ہے ۔

سیف ناموں کی تبدیلی کے حصہ میں ----کہ اس فصل میں یہی ہمارا موضوع ہے ----کبھی معروف اشخاص کے نام کو ایک غیر معروف نام میں تبدیل کرتا ہے ، کبھی اشخاص کو اپنی خیالی طاقت سے خلق کرتا ہے ، پھر انہیں کسی معروف اور نامور شخص کے نام سے نام گزاری کرتا ہے اور کبھی کسی حدیث میں ذکر ہوئے نام کو نقل کرتا ہے لیکن اسے الٹا اور تبدیل کرکے پیش کرتا ہے باپ کی جگہ پر بیٹے کا نام اور بیٹے کی جگہ پر باپ کا نام رکھتا ہے ۔ ہم ان تینوں قسم کی تبدیلی کو ایک الگ فصل میں بیان کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے کئی نمونے بھی ذکر کریں گے تا کہ ان نمونوں سے ہر فصل میں سیف کے تمام روایتوں کو پہچاننے کیلئے ایک مضبوط و مستحکم طریقہ کار معلوم ہوجائے ۔

آٹھواں حصہ :

سیف کے ذریعہ اشخاص کے ناموں کی تخلیق اور تبدیلی

* -معروف ناموں کوغیر معروف ناموں میں تبدیل کرنا۔

* -اصحاب پیغمبر کے ناموں کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔

* -سیف الٹ پلٹ کرتا ہے ۔

* -تیسرے حصہ کے مآخذ

معروف ناموں کا غیر معروف ناموں میں تبدیل کرنا

و صحف من اسماء اعلام الاسلام و المسلمین

سیف نے بہت سی معروف اسلامی شخصیتوں کے نام تبدیل کئے ہیں ۔

مؤلف

سیف نے بعض احادیث میں اپنے قبیلہ یا خاندان سے تعلق رکھنے والے اپنے محبوب افراد کی مذمت و ملامت کا اظہار کیاہے یا اسی طرح جن افراد کے بارے میں وہ دل میں بغض و عداوت رکھتا تھا ان کی ان احادیث میں مدح و فضیلت کا اظہار کیا ہے ، لہذا اس نے اس قسم کی احادیث میں ا یسے معروف و نامور اشخاص کے نام کو ایک غیر معروف اور مجہول نام میں تبدیل کر دیا ہے تا کہ اس کے دوستوں کا عیب اوران کی برائی چھپ جائے یا معروف و نامور اشخاص کی فضیلت و منزلت پر دے میں رہ جائے۔

یہاں پر ہم ان تبدیلیوں کے کئی نمونے پیش کرتے ہیں :

۱ ۔ خالد بن ملجم

سیف نے امیر المؤمنین علی بن ابیطالب (علیہ السلام) کے قاتل عبد الرحمان بن ملجم کا نام بدل کر خالد بن ملجم کر دیا ہے، جہاں پر خلیفہ دوم اپنے سپاہیوں کی پریڈ کا مشاہدہ کرنے کی روداد کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہتا ہے :

”خلیفہ ایک لشکر کو ” قادسیہ “ روانہ کررہے تھے، لہذا ” صرار “(۱) کے مقام پر اس لشکر کی پریڈ کا اس طرح مشاہدہ کیا کہ سپاہی اس کے سامنے سے گروہ گروہ اور پریڈ کرتے ہوئے گذرتے جارہے تھے، قبیلہ ” سکون “(۲) کا چار سو افراد پر مشتمل گروہ بھی خلیفہ کے سامنے سے گزرا ، کہ اچانک خلیفہ کی نظر چند سیاہ فام اور لمبے بال والے جوانوں پر پڑی اور انھوں نے ان سے منہ موڑ لیا،جب وہ دوسری بار خلیفہ کے سامنے سے گزرے تو پھر انھوں نے ان سے منہ موڑ لیا اور یہ روداد تین بار تکرار ہوئی جب ان سے اس روگردانی اور اعراض کے بارے میں سوال کیا گیا ۔

انھوں نے جواب میں کہا: میں ان افرادکے بارے میں بد ظن ہوں ، کیونکہ ان کا چہرہ میرے لئے غیر معروف اور پر اسرار لگ رہا ہے اور ان کے بارے میں میرے دل میں عجیب و غریب بغض و عداوت پیدا ہو رہی ہے اس کے بعد ان کے بارے میں مکرر ذکر کرتے اور کراہت و نفرت کا اظہار کرتے رہے اور لوگ بھی عمر کے اس قول اور فعل کے بارے میں حیرت اور استعجاب کا اظہار کرتے رہے یہاں تک کہ مستقبل میں اس مطلب کا راز لوگوں پر آشکار ہوا خالد بن ملجم جس نے بعد میں علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو قتل کیا اور اس کے علاوہ عثمان کے قتل کی حمایت کرنے والے بھی اس گروہ میں موجود تھے“(۳)

پھر سیف ۳۵ ھ ء کے حوادث کے ضمن میں کہتا ہے :

جب سبائیوں کے اکسانے پر مختلف اسلامی شہروں سے عثمان کے پاس شکایتیں پہنچیں تو، اس نے بھی مقامی تحقیقات کیلئے چند اشخاص کو ان شہروں کی طرف روانہ کیا تا کہ حالات کا نزدیک سے جائزہ لے کر خلیفہ کو ان کی اطلاع دیں ۔ ان افراد میں عمار یاسر بھی تھے ، جنھیں عثمان نے مصر کیلئے مامور کیا تھا بھیجے گئے تمام افراد عمار سے پہلے خلیفہ کے پاس واپس آ کر بولے ہم نے ان شہروں میں کسی بری یا ناخوشگوا رچیز کا مشاہدہ نہیں کیا ، ان شہروں کے حالات اطمینان بخش ہیں ۔ کچھ غیر معروف و خاص لوگ ناراضگی اور شکایت کا اظہار کرتے ہیں نہ عام لوگ اور امراء ، ان کے فرمانروا بھی مکمل طور پر لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے ہیں لیکن عمار کے مدینہ واپس لوٹنے میں تاخیر ہوئی ۔ یہاں تک لوگ ان کے بارے میں فکر مند ہوئے اور انہوں نے گمان کیا کہ انھےں مصر میں قتل کر دیا گیا ہے اسی اثناء میں مصر کے گورنر کا ایک خط مدینہ پہنچا جس میں لکھا تھا ، مصر میں ایک پارٹی عمار کو فریب دے کر ان کے اردگرد جمع ہوگئی کہ جن میں عبد اللہ بن سوداء اور خالد بن ملجم(۴) شامل تھا۔

۳۶ ھ کے حوادث کے ضمن میں کہتا ہے : جنگ جمل کے واقع ہونے سے پہلے ، قعقاع بن عمرو(۲) نے امیر المومنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زبیر کے درمیان صلح و صفائی کرانے کیلئے فرد ثالث کا فریضہ نبھانا طرفین نے صلح کرنے کا فیصلہ کیا ۔

۲ ۔ قعقاع سیف کا ایک افسانوی اور جعلی سورما ہے ، اس نے اسے اپنے خیال میں خلق کیا ہے اس کے بعد اسے پیغمبر خداکے ایک صحابی کے طور پر پہچنوایا ہے ہم نے اپنی کتاب ۱۵۰ جعلی اصحاب میں اس کے بارے میں ایک الگ فصل میں وضاحت کی ہے اور جنگ جمل کی روداد کو بھی کتاب ”عائشہ “ علی کے زمانے میں “ میں مکمل طور پر بیان کیا ہے

لیکن سبائیوں کا گروہ جیسے : ابن السوداء اور خالد بن ملجم صلح وآشتی پر راضی نہیں تھے ۔ اس لئے انہوں نے ایک خفیہ میٹنگ بلائی اور ایکمنصوبہ بنایا تا کہ مسلمانوں کے درمیان صلح کے منصوبہ کو درہم برہم کر کے رکھ دیں اور ان کے درمیان جنگ کے شعلوں کو بھڑکادیں ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اس منحوس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی صلح کو ایک زبردست خونین جنگ میں تبدیل کر دیا(۵)

یہ وہ مطالب ہیں جنہیں سیف نے امیر المؤمنین کے قاتل کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے خالد بن ملجم نام رکھا ہے جب کہ اس کا نام ’ عبدا لرحمان بن ملجم مرادی “ ہے اور یہ وہی شخص ہے جو فتح مصر میں موجود تھا اور وہاں اپنا گھر بنا چکا تھا،خلیفہ دوم نے

____________________

( ۱ صرار مدینہ کے نزدیک عراق کے راستہ پرایک پانی ہے ۔

( ۲ .سکون خاندان کندہ کا ایک قبیلہ ہے کہ جو قحطان سے محسوب ہوتا ہے ان کا شجرہ نسب سباء بن یشجب تک پہچتا ہے اور سیف تاریخ اسلام کی تمام برائیاں اور شر و فساد ان کی گردن پر ڈالتا ہے ۔

( ۳ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۲۲۰ ۔ ۲۲۲۱۔

( ۴ .تاریخ طبری : ۱/ ۲۹۴۴ اور تاریخ ابن اثیر ۳/ ۱۹۲)

( ۵ خلفاء کے زمانے میں رسم تھی کہ جو کوئی بھی خلافت پر پہچتا تھا مرکز کے لوگ اس کی بیعت کرتے تھے اس کے بعد روداد کی صوبوں اور آبادیوں تک اطلاع دی جاتی تھی اور بڑے شہروں کی بعض معروف شخصتیں وفد کی صورت میں نمائندہ کے طور پر آکر اپنی اور شہروں کے باشندوں کی طرف سے نئے خلیفہ کی بیعت کرتی تھیں

اس زمانے میں مصر کے گورنر عمرعاص کو اس کے بارے میں یوں لکھا تھا :

” عبدا لرحمان بن ملجم کے گھر کو مسجد کے نزدیک قرار دینا تا کہ وہ لوگوں کو قرآن اور دینی مسائل کی تعلیم دے “

پھر جب امیرالمؤمنین علی خلافت پر پہنچے ، مدینہ کے لوگوں کی بیعت کے بعد، قصبوں کے باشندوں کو بیعت کی دعوت دی(۲)

۲ ۔ خلفاء کے زمانے میں رسم تھی کہ جو کوئی بھی خلافت پر پہچتا تھا مرکز کے لوگ اس کی بیعت کرتے تھے اس کے بعد روداد کی صوبوں اور آبادیوں تک اطلاع دی جاتی تھی اور بڑے شہروں کی بعض معروف شخصتیں وفد کی صورت میں نمائندہ کے طور پر آکر اپنی اور شہروں کے باشندوں کی طرف سے نئے خلیفہ کی بیعت کرتی تھیں ۔

عبد الرحمان بن ملجم نے بھی اسی وقت ان کے پاس آکر ان کی طرف دستِ بیعت پھیلا یا ، لیکن امیر المؤمنین نے اس کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، وہ دوسری بار آیا تاکہ ان کی بیعت کرے پھر امیر المومنین نے اس کی بیعت قبول نہیں کی یہاں تک تیسری بار اس کی بیعت کو قبول کیا اور کہا:

” کس چیز نے شقی ترین لوگوں کو روکا ہے “ اس کے بعد اپنی داڑھی کو ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا:

” قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں علی کی جان ہے میری یہ داڑھی میرے سر کے خون سے رنگین ہوگی“۔

” و الذی نفسی بیده لتخضبن هذه من هذه(۱)

امیر المؤمنین کی نگاہ جب ابن ملجم پر پڑی تھی تو یہ شعر پڑھ کر گنگنانے لگے:

ارید حیا ته و یرید قتلی عذیرک من خلیلک من مراد (۲)

سیف کی روایت کی تحقیق اور بررسی

یہی عبدا لرحمان بن ملجم مرادی ہے کہ سیف نے گزشتہ چند روایتوں میں اس کے نام کو تبدیل کرکے خالد بنادیاہے ۔ اور اس تبدیلی اور تحریف کو اس نے جنگجو اصحاب کے فضائل کی تشہیر کے ضخیم

____________________

۱۔ انساب سمعانی : ورقہ ۴۰۱ ، اور لسانی المیزان : ۳/ ۴۳۹۔

۲۔ الاغانی : ۱۴ /۳۳، تاریخ ابن اثیر ۳/ ۳۲۶اور وہ مورخین ،جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے قاتل کا نام عبد الرحمان بن ملجم لکھا ہے نہ خالد بن ملجم وہ درج ذیل ہیں :الف) یعقوبی اپنی تاریخ کی ج ۲/۲۱۲ اور ۲۱۴ پر ۔ب) ابن سعد، طبقات، ج ۶، ص ۶۱۔ج) ابن حزم، جمہرة انساب العرب، ص ۲۰۰

پردے کے پیچھے مخفی اور پوشیدہ رکھا ہے تا کہ اپنے جھوٹ کو رواج دینے اور اشاعت کرنے میں بیشتر وسائل و امکانات مہیا کرسکے،اسی مقصود سے سیف :

پہلی روایت میں کہتا ہے :عمر ابن خطاب نے ” صرار “ کے مقام پر اپنے سپاہیوں کی پریڈ کا مشاہدہ کرتے ہوئے خالد بن ملجم سے نفرت و کراہت اور سپاہ میں اس کی موجودگی پر پریشانی کا اظہار کیا ،خلیفہ کے اس کام سے لوگ تعجب و حیرت میں پڑے یہاں تک کہ امیر المؤمنین کے قتل کے بعد ان کے بارے میں خلیفہ کی حیرانی اور پریشانی کی علت سمجھ گئے کہ عمر کو ان کے ہاتھوں مستقبل میں انجام پانے والی خیانت کے بارے میں علم تھا۔

دوسری روایت میں کہتا ہے ؛ تیسرے خلیفہ عثمان نے لوگوں سے عادلانہ برتاؤ اور خوش اخلاقی کے پیش نظر ، بعض اشخاص کو ماموریت دیدی تاکہ قصبوں میں جاکر ان شکایتوں کی تحقیقات کریں جو انھیں پہنچی تھیں ۔ واپسی پر ان انسکپٹروں نے خلیفہ کے گورنروں کے بارے میں لوگوں کی رضا مندی اور کسی قسم کی شکایت نہ رکھنے کی رپورٹ کے علاوہ کچھ اور نہیں لاےا ۔ ان انسپکٹروں میں صرف عمار تھے جو مصر میں ماموریت کے دوران ” ابن السوداء “ اور خالد بن ملجم اور تمام سبائیوں سے مل کر ان کا ہمنوا بنے اور یہی سبائی تھے جولوگوں کو شکایتیں لکھنے پر اکساتے تھے ۔

تیسری روایت میں کہتا ہے : جنگ جمل میں طرفین ---جس میں د ونوں طرف اصحاب رسول تھے --اور کمانڈروں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا تھا اور جنگ کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اسکے بعد سبائیوں کی سازش کی وجہ سے ، جن میں خالد بن ملجم بھی تھا ۔ جنگ کے شعلے دوبارہ بھڑک اٹھے ۔

ظاہر ہے کہ ان تین روایتوں میں سیف نے بہت سارے حقائق میں تبدیلی پیدا کر کے کثرت سے جھوٹ کی ملاوٹ کر دی ہے اور بے شمار جھوٹ گڑھ لیا ہے، کیونکہ نہ خلیفہ دوم اپنی فوج کا پریڈ دیکھنے کیلئے ” صرار“ گئے تھے اور نہ ہی انھوں نے اپنی فراست اور ذہانت سے ابن ملجم سے اظہار تنفر کیا ہے بلکہ اس کے بر عکس سیف کے کہنے کے مطابق خلیفہ نے مصر کے گورنر کو سفارش و تاکید کی تھی کہ ابن ملجم کی تجلیل اور احترام کرکے اسکے گھر کو مسجد کے قریب قرار دے تا کہ وہ احکام و قرآن کی تعلیم دینے کی ذمہ داری سنبھالے ۔

جی ہاں ، یہ امیر المومنین علی علیہ السلام تھے کہ جنھوں نے ابن ملجم کے بارے میں کراہت و نفرت کا اظہار کیا اور اس کی بیعت کوکئی بار مسترد کیا نیز ہمیشہ اس شعر کو پڑھتے رہے:” ارید حیاتہ“

اس کے علاوہ نہ خلیفہ سوم عثمان نے کسی کو لوگوں کی شکایتوں کی تحقیقات کیلئے کہیں بھیجا تھا اور نہ جعلی پارٹی سبائیوں کی سازش کا نتیجہ میں لوگوں نے بنی امیہ کے گورنروں کے خلاف کوئی شکایت خلیفہ کو بھیجی تھی اور نہ تحقیق کی غرض سے عمار یاسر کو مصر بھیجنے کی داستان صحیح ہے اور نہ مذکورہ جعلی پارٹی کے ذریعہ اسکے فریب کھانے میں کوئی حقیقت ہے ۔

اسکے علاوہ نہ جنگ جمل میں صلح کا کوئی موضوع تھا اور نہ سبائیوں کی سازش کے نتیجہ میں یہ صلح جنگ میں تبدیل ہوئی ہے اور نہ سبائیوں کے نام پر دنیا میں کوئی گروہ وجود میں تھا اور نہ کوئی صحابی رسول بنام قعقاع وجود رکھتا تھا جو جنگ جمل میں سفیر صلح ہوتا۔

اور نہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا قاتل خالد تھا ، بلکہ یہ سب سیف کے جعل کردہ افسانے ہیں جو اس نے کفر و الحاد کے زیر اثر یہ سب تغیرات اور تحریفات کو جنم دے کر مسلمانوں بالخصوص مورخین کے حوالے کر دیا ہے تا کہ اس طرح اسلام کی صحیح تاریخ کو درہم برہم کر دے اور تاریخی حقائق کو مخفی ، مبہم اور پیچیدہ بنا کر رکھ دے اور ان تمام جعلی ، تبدیلیوں اور تحریفات میں اول سے آخر تک، صاحب اقتدار اصحاب کی فضیلت تراشی اور مدح گوئی سے پورا پورا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور انھیں اپنے لئے آلہ کار قرار دیا ہے اور اس طرح اپنے ناپاک عزائم، کو اصحابِ پیغمبر کے دفاع اور ان کے فضائل کی تشہیر کی آڑ میں مسلمانوں تک پہنچا دیا ہے

معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ

اللهمَّ ارکسهما فی الفتنة رکساً

خدایا ! معاویہ و عمراور عاص کو فتنہ و فساد میں غرق فرما!

رسول خدا

معروف افرادکے نام تبدیل کرکے دوسرے غیر معروف نام رکھنے کے دو اور نمونے یہ ہیں کہ سیف معاویة بن ابی سفیان اور عمرو عاص کی حمایت کیلئے ۔” ابو برزہ اسلمی “(۱) کی روایت میں ان کے نام بدل کر معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ رکھا ہے روداد کی تفصیل حسب ذیل ہے :

ابوبرزہ اسلمی کہتا ہے : ہم ایک سفر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھے ۔ دو افراد کی نغمہ خوانی اور غنا کی آواز آنحضرت کے کانوں تک پہنچی کہ وہ ترانہ گا رہے تھے اور شعر پڑھ رہے

____________________

۱۔ ابو برزہ کا نام غضة بن عبید ہے ، وہ اوائل اسلام میں مسلمان ہوا جنگ خیبر ، حنین اور فتح مکہ میں آنحضرت کے حضور میں شرکت کی اور جنگ نہروان و صفین میں حضرت علی کی رکاب میں شرکت کی اس نے بصرہ میں سکونت اختیار کی اس کے بعد جنگ خراسان میں شرکت کی اور ساٹھ (۶۰) یا ستر (۷۰) سال کی عمر میں وہیں پر فوت ہوا ، اور جس دن سر مبارک امام حسین یزید کے سامنے لایا گیا ابو برزہ اس مجلس میں حاضر تھا اور یزید جب ایک چھڑی سے امام حسین کے خوبصورت دانتوں کی طرف اشارہ کررہا تھا ، ابو برزہ نے کھل کر اعتراض کیا اور کہا: یزید : اپنی چھڑی کو ان دانتوں سے اٹھالے ، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان دانتوں کو چوم رہے تھے یزید ! قیامت کے دن تیرا شفیع ابن زیاد ہوگا اور ان کا شفیع رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے یہ کہکر ابوبرزہ مجلس سے اٹھ کر چلا گیا ۔ طبقات : ۷/۲/ ۱۰۰، اصابہ : ۳/ ۵۲۶ تشریح نمبر ۸۷۱۸ ، تہذیب، ۱۰/ ۴۴۶ تشریہ نمبر ۸۱۵۔

یزال حواری تلوح عظامه

زوی الحرب عنه ان یجن و یقبرا

ترجمہ: میرے اس خیر خواہ دوست کی ہڈیاں نمایاں و ظاہر ہیں کیونکہ جنگ اس کے کفن و دفن میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ذرا دیکھئے یہ غنا کی آواز کہاں سے آرہی ہے اور کس کی ہے ؟ کہا گیا : یا رسول اللہ ! یہ معاویہ اور عمرو عاص ہیں کہ اس طرح گانا گاتے ہیں ؛ رسول خدا نے دعا کی : خدایا ! انھیں فتنہ میں غرق فرما اور انھیں آگ کی طرف کھینچ لے !

اللهم ارکسهما فی الفتنة رکسا و دعهما الی النار دعاً (۱)

سیف نے دیکھا کہ یہ روایتیں معاویہ اور عمرو عاص کی آبروریزی کرتی ہیں اور ان کے اصلی چہرے کو دکھاتی ہیں لہذا اس نے ان میں تحریف کرکے معاویہ و عمروعاص کے نام بدل کر ان کی جگہ پر معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ لکھ دیا ہے تا کہ اس طرح معاویہ اور عمرو عاص کے چہروں پر ایک نقاب کھینچ سکے اور ان کے نفرین شدہ چہروں کو چھپادے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان کے بارے میں کی گئی نفرت و بیزاری کو دوسروں کی گردن پر ڈال سکے اسی لئے اس نے مذکورہ روایت کو

____________________

۱۔ معاویہ اور عمرو عاص کے بارے میں پیغمبر خدا کی نفرین کی حدیث ابوبرزہ کی روایت میں جن الفاظ کے ساتھ آئی ہے ، انہیں الفاظ میں :

۱لف۔ احمد بن حنبل اپنی مسند ، ۴/ ۴۲۱ میں درج کیا ہے ۔ اس تفاوت کے ساتھ کہ اس نے ان دو کے نام کی جگہ پر فلاں فلاں کا استعمال کیاہے اور ان کے نام فاش نہیں کئے ہیں ، لیکن :

ب۔ نصر بن مزاحم کی کتاب صفین کے ۱۲۹ پر یہ روایت مکمل طور پر نقل کی گئی ہے اور

ج۔ سیوطی نے اللئالی المصنوعہ میں اور ابولیلی نے اپنی مسند میں نفرین کی روایت کو مکمل طور پر درج کیا ہے ۔

اس طرح نقل کیا ہے کہ راوی کہتا ہے :

میں ایک سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھا ۔ آنحضرت کے کانوں تک ایک آواز پہنچی میں اس طرف چلا گیا جہاں سے آواز آرہی تھی ، میں نے دیکھا کہ معاویہ بن رافع اور عمرو بن رفاعہ ہیں ، جو ترانہ لایزال حواری گا رہے تھے میں نے روداد آنحضرت کی خدمت میں بیان کی ۔ پیغمبر نے ان کے بارے میں نفرین کی اور فرمایا:اللهم ارکسهما فی الفتنة رکساً پیغمبر کی یہی نفرین سبب بنی کہ آنحضرت کے سفر سے واپس ہونے سے پہلے عمرو بن رفاعہ اس دنیا سے چلا گیا(۱)

ابن قانع اس روایت کو سیف سے نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اس روایت نے مشکل حل کردی ہے اور واضح ہوا کہ پہلی حدیث میں غلطی ہوئی ہے یعنی اصلی حدیث کہ اس حدیث میں ” ابن رفاعہ “ نامی ایک منافق کی جگہ پر ” ابن عاص “ اور ایک دوسرے منافق ” معاویہ بن رافع ‘ کی جگہ پر ”معاویہ بن ابی سفیان “ درج ہوکر مشتبہ ہوا ہے اس کے بعد کہتا ہے : خدا بہتر جانتا ہے ۔

سیف کی روایتوں کی چھان بین:

اس حدیث اور پیغمبر خدا کی سیرت کے اس حصہ (جو سیف کی روایت میں ذکر ہو اہے) کی دقیق تحقیق اور جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے دو اشخاص کے نام میں تحریف کی ہے

____________________

۱۔ اس روایت کو سیوطی نے اللئالی المصنوعہ : ۱/ ۴۲۷ میں ابن قانع کی ” ُمعجم الصحابہ “ سے نقل کیا ہے ۔

اور دو روایتوں کو بدل دیا ہے اور انھیں آپس میں ملا کر ایک تیسری روایت جعل کی ہے اس کے بعد اس جعلی روایت کیلئے خود ایک سند بھی جعل کی ہے اور ہماری سابق الذکر روایت کے مانند اسے درست کیا ہے ۔

سیف کی تحریف کی گئی دو روایتوں میں سے ایک کو ہم نے اس فصل کی ابتداء میں ا بو برزہ اسلمی سے نقل کیا ہے ۔

لیکن دوسری روایت جس میں سیف نے تبدیلی کر دی ہے ، ” رفاعہ بن زید “ کی موت کی روداد ہے کہ اسے ابن ہشام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے جگہ” بنی المصطلق “ سے واپسی کی روداد کے ضمن میں یوں ذکر کیا ہے :

رسول اکرم لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور حجاز کے بیابانوں سے گزرے یہاں تک حجاز کی آبادیوں میں سے بقیع سے اوپر بقعا نامی ایک آبادی میں پہنچ گئے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب وہاں سے روانہ ہونا چاہتے تھے ، ایک تیز ہوا چلی ، لوگ ترس و وحشت میں پڑے ۔ رسول خدا نے فرمایا: اس طوفان سے نہ ڈرنا کیونکہ یہ ہوا کفار کے ایک بزرگ شخص کی موت کیلئے چلی ہے ۔

جب آنحضرت مدینہ میں داخل ہوئے تو معلوم ہو اکہ اسی دن رفاعہ بن زید بن تابوت فوت ہوا ہے(۱)

____________________

۱۔ سیرة ا بن ہشام : ۳/ ۳۳۶ ، اور سیرہ ابن ہشام میں اس بارے میں د وسری احادیث بھی ذکر ہوئی ہیں : ۳/ ۱۳۷ و ۱۵۰ و ۱۸۸ و ۱۹۸

جو قبیلہ قینقاع سے تعلق رکھتا تھا اور یہودیوں کا سردار اور منافقین کی پنا گاہ تھا ۔

سیف پہلی روایت میں ” معاویہ“ کے نام کو ’ ’ معاویہ بن رافع “ اور ” عمرو عاص “ کے نام کو ”عمرو بن رفاعہ بن تابوت “ میں تبدیل کرتا ہے جس طرح جملہ ” سمع رجلین یتغنّیان “ کو ”سمع صوتا“ میں تحریف کیاہے اوررفاعہ کی موت کی روداد کو دو صحابیوں کے گاناگانے کی روداد سے ممزوج کیا ہے اور ان دو روایتوں کو آپس میں ملا کر اور تغیر و تبدیلی اور فریب کارانہ دخل و تصرف سے ایک اور روایت جعل کی ہے اور اس طرح ” معاویہ بن ابوسفیان “ اور ” عمرو عاص “ کو نغمہ خوانی اور پیغمبر کی نفرین سے بری کرکے دوسروں پر یہ تہمت لگانے میں کامیاب ہوا ہے کیونکہ اگر ان دو اشخاص کی اصلیت کے بارے میں مسلمان آگاہ ہوتے تو بعض مسلمان آج تک ان کی پیروی نہ کرتے لیکن جو بھی تھا ، سیف کی روایت ” ابن قانع “ کےلئے مورد پسند و خوشائند قرار پائی ہے اور اس نے اس کے شبہہ کو دور کیا ہے کیونکہ اس روایت نے اس کی چاہت کی ضمانت مہیا کی ہے اور اس کے اپنے قول کے مطابق مشکل حل ہوئی ہے اور یہ مشکل حدیثِ اول اور معاویہ اور ابن عاص کے بارے میں اعتراض تھا ۔

ابن قانع سے جواب طلبی :

یہاں پر مناسب ہے کہ ہم ابن قانع سے سوال کریں اور کہیں :

مان لیا کہ سیف کی یہ روایت آپ کی نظر میں معاویہ اور عمرو عاص سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نفرین کو دور کرتی ہے اور ان کیلئے مشکلات میں سے ایک مشکل کو برطرف کرتی ہے کیا یہ روایت آپ کو دوسری بہت ساری مشکلات سے دوچار نہیں کرتی ہے ؟

کیا اس صورت میں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ دو منافق ” معاویہ بن رافع “ اور ” عمرو بن رفاعہ “ جو سیف کی روایت میں آئے ہیں --کون ہیں ؟ اور کہاں تھے ؟ اور کیوں ان کا نام سیف کے علاوہ کسی اور کی روایت میں نہیں آیا ہے ؟

یا پھر آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ خیالی منافق کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا ؟ اور پیغمبر نے اس کے گانے کی آواز سنی ؟ لیکن وہ پیغمبر کے سفر سے واپس آنے سے پہلے ہی مدینہ میں فوت ہو گیا؟

جی ہاں ! سیف نے ایسی ہی تحریفیں اور تبدیلیاں وجود میں لائی ہیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی تحریفات علماء اور دانشوروں میں رائج ہوئی ہیں ۔کیونکہ اس نے ان تمام تحریفات اور تبدیلیوں کو صاحب اقتدار اصحاب کے فضائل و مناقب کی تشہیر و اشاعت کے ڈھانچے میں ان کے دوستوں اور طرفداروں کے سامنے پیش کیا ہے اور ان کے یہی حامی اور طرفدار ان جھوٹ ، باطل اور تحریفات کی نشر و اشاعت کا سبب بنے ہیں ۔ جو کچھ ایسے مسائل میں ہمارے نقطہ نظر کے مطابق قابل اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ سیف جیسے مجرموں نے حدیث اور سیرت پیغمبر میں ا س طرح تحریف کی ہے اور ” ابن قانع “ جیسے دانشوروں نے پوری طاقت سے ان تحریفات کو پیغمبر کی صحیح حدیث اور سیرت کے عنوان سے مسلمانوں میں ترویج کی ہے اور اس کے نیتجہ میں پیغمبر کی صحیح حدیث اور سیرت (جو مجموعاً پیغمبر خدا کی دو سنت ہیں ) مسلمانوں کی پہنچ سے اس حد تک دور رہی ہیں کہ بعض اوقات ان کو فراموش کیا گیا ہے ، اور اس کے بعد جو کوئی اس تحریف شدہ سنت سے تمسک پیدا کرتا ہے اس کی تجلیل کی جاتی ہے اور اسے اہل سنت کہتے ہیں یہاں پر اہل بحث و تحقیق دانشوروں پر لازم اور واجب ہے کہ اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آلودہ حدیث اور سیرت کو ان ناپاکیوں سے پاک و منزہ کریں تا کہ مسلمان پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی صحیح سنت سے تمسک پیدا کرسکیں ۔

دوسرا درس

دین میں تحقیق

تحقیق کے عوامل

دین میں تحقیق کی اہمیت

ایک شبہ کا حل

تحقیق کے عوامل

انسان کی نفسانی (روحانی و معنوی) خصوصیات میں سے ایک خاصیت حقائق اور واقعیات کا پتہ لگانا ہے جو ہر انسان میں آغاز ولادت سے پایا جاتا ہے، اور عمر کی آخری سانسوں تک یہ غریزۂ فطری باقی رہتا ہے، یہی حقیقت جوئی کی فطرت جسے ''حس کنجکاوی'' بھی کہا جاتا ہے انسان کو دین کے دائرے میں موجودہ مسائل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اور دین حق کی شناخت کے لئے آمادہ کرتی ہے، جیسے:کیا غیر مادی اور غیرمحسوس شیء (غیب) کا وجود ہے؟ اور اگر ایسا کچھ ہے تو پھر کیا جہان مادی و محسوس اور جہان غیب میں کوئی ربط ہے؟ اور اگر ان دونوں میں ربط ہے تو پھر کیا کوئی نا محسوس موجود ہے جو اس جہان مادی کا خالق ہو؟

کیا انسان کا وجود اسی مادی بدن میں منحصر ہے ؟اور اس کی حیات صرف اسی دنیا سے مخصوص ہے یا اس دنیوی د زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے؟ اور اگر انسان کے لئے ایک دوسری زندگی آخرت ہے تو کیا اس دنیاوی زندگی اور اس آخرت میں کوئی ربط ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی ربط ہے تو پھر

امور دنیوی میں کون سے امور آخرت کی زندگی میں مؤثر ہیں؟ اور کون سا راستہ زندگی کو صحیح گذارنے کے طور طریقہ کی پہچان کے لئے ہے؟ ایسا طور طریقہ جو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کی ضمانت دے؟ اور وہ طور طریقہ کیا ہے؟

پس حقیقت جوئی کی فطرت وہ اولین عامل ہے جو انسان کو مسائل کی جستجو منجملہ دینی مسائل اور دین حق کو پہچاننے کے لئے ابھارتی ہے۔

حقیقت کی شناخت کے لئے انسانی فطرت میں جو عوامل جوش و ولولہ کا سبب بنتے ہیں ان میں سے ایک ان تمام آرزؤں کو حاصل کرنا ہے جو ایک یا چند فطرتوں (حقائق کی شناخت کے علاوہ) سے متعلق اور کسی خاص معلومات پر منحصر ہیں، جیسے کہ مختلف دنیوی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا، علمی کوششوں کا نتیجہ ہے اور علوم تجربی کی کامیابیاں انسانوں کے لئے اپنی آرزؤں کے حصول میں نہایت مددگار ہیں، اسی طرح اگر دین ، انسان کے منافع و مصالح اور اس کی آرزؤں کو پورا کردے ،اور برے کاموں سے اسے روک دے تو یہ امر اس کے لئے نہایت مطلوب ہوگا، لہذا منفعت طلبی کی حس اور نقصان سے بچنے کی فطرت، دین میں اور زیادہ تحقیق و جستجو کی امنگ کو افزائش دینے کا سبب ہے۔

لیکن معلومات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے اور تمام حقائق کو درک کرنے کے لئے کافی و سائل کا ہونا ضروری ہے، یہ ممکن ہے کہ انسان تحقیق کے لئے ایسے مسائل کا انتخاب کرے کہ جنھیں حل کرنا آسان سہل الوصول اور محسوس ہو لیکن دینی مسائل کی جستجو سے صرف اس بناپر پرہیز کرتا رہے کہ ان کا حل کرنا مشکل اور کسی اہم علمی نتائج تک پہچنا ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے یہ امر ضروری ہے کہ لوگوں کے لئے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ دینی مسائل کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان مسائل میں تحقیق و جستجو بقیہ مسائل کی جستجو سے کاملاً متفاوت ہے۔

بعض ماہرین نفسیات کا عقیدہ ہے کہ اساساً خدا پرستی ایک مستقل آرزو ہے، جس کے سرچشمہ کو ''حس دینی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسے حس جستجو، حسن نیکی اور حسن زیبائی (خوبصورتی) میں انسانی روح کے لئے چوتھاپہلوشمار کیا جاتا ہے۔

ان لوگوں نے تاریخی شواہد کی رو سے یہ امر ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی کی حس ہر زمانہ میں مختلف شکلوں میں رہی ہے لہذا اس حس کا ہمیشگی اور اس طرح وسیع ہونا اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔

البتہ اس فطرت کے عمومی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام انسانو ںمیں زندہ و بیدار بھی ہو اور اسے مطلوب کی جانب بر انگخیتہ کرنے میں مدد بھی کرے ، بلکہ صحیح تربیت کے نہ ہونے اور فاسد معاشرہ کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی دوستی بہت ضعیف پڑ گئی ہو یا اسے اپنی صحیح مسیر پر حرکت کرنے سے منحرف کر دے ، جیسا کہ بقیہ تمام فطرتوں میں ضعف اور انحراف کا امکان ہے۔

اس نظریہ کے تحت دین میں تحقیق و جستجو ایک مشتعل فطرت ہے ، دلائل اور برہان کے ذریعہ اسے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس مطلب کو آیات و روایات کے ذریعہ مورد تائید قرار دیا جاسکتا ہے کہ جو دین کے فطری ہونے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن چونکہ اس میل فطری کی تاثیر آشکار نہیں ہے لہٰذا کوئی بحث و مباحثہ کے دوران اپنے موقف کی تائید میں اس کے وجود کا منکر ہو سکتا ہے اسی وجہ سے ہم تنہا اسی بیان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ عقلی دلائل کے ذریعہ اس حقیقت کو ثابت کریں گے۔

دین میں تحقیق۔

یہ حقیقت روشن ہوچکی ہے کہ ایک طرف حقائق کی شناخت کا فطری رجحان اور دوسری طرف حصول منفعت و مصلحت اور خطرات سے بچنے کی فطری خواہش ایک ایسا طاقتور عامل ہے جو تفکر و تحقیق اور علوم کی تحصیل میں نہایت مددگار ہے،یہی وجہ ہے جب کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ طول تاریخ میں بعض انسانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم پروردگار کی طرف سے انسانوں کو دوجہان کی سعادت تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں'' جنھوں نے اپنے پیغامات کے ابلاغ اور انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی بھی قسم کی زحمت اٹھانے سے دریغ نہیں کیا، اور تمام سختیوں کو اپنے لئے خریدا حتی کہ اپنی جانوں کو بھی اس ہدف کے تحت قربان کردیا، تو اس کے اندر دین میں تحقیق و جستجو کی ایک عجیب سی امنگ پیدا ہوتی ہے، اور وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ان لوگوںنے جو

دعویٰ کیا تھا کیا ان کا یہ دعوی درست اور منطقی دلائل کی رو سے صحیح تھا یا نہیں، خصوصاً یہ جزبہ بیداری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ا نھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے حیات جاودانی اور نعمت و سعادت کی بشارت دی ہے، عذاب دائمی اور ابدی شقاوت سے ڈرایا ہے، یعنی ان کی دعوت کو قبول کرلینا فراوان نعمتوں کے حصول کا موجب اور اس سے انکار کرنا دائمی خسران کا سبب ہے، ان سب حقائق کے جاننے کے بعد کون شخص دین سے غفلت کے لئے عذر پیش کرسکتا ہے اور دین کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو سے منہ پھیر سکتا ہے؟

ہاں! ممکن ہے کہ بعض اشخاص، آرام طلب اور کاہل ہونے کی وجہ سے یہ تحقیق انجام نہ دیں یا پھر دین کے قبول کرلینے کے بعد اس کی پابندیوں اور بعض نفسانی خواہشوں پر ر وک لگ جانے کی وجہ سے دین میں جستجو کرنے سے پرہیز کریں۔(۱)

لیکن ایسے اشخاص کو اپنی آرام طلب طبیعت کی سزا بھگتنا ہوگی، اور عذاب ابدی میں گرفتار ہونا ہوگا ایسے لوگوں کی حالت ان بچوں سے بھی بد تر ہے جو دوائوں کی تلخی کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور اپنے لئے حتمی موت کو دعوت دے د یتے ہے، اس لئے کہ یہ بچے اپنے فائدہ و نقصان کو سمجنے کے سلسلہ میں کافی عقل و شعور نہیں رکھتے ڈاکٹر کی ہدایتوں سے مخالفت دنیا کی چند روزہ نعمتوں سے محرومی سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بالغ انسان ،سود و زیاں کو درک کرنے اور جلد ختم ہوجانے والی نعمتوں کے سلسلہ میں غور و فکر کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن نے اپنے غافل انسانوں کو حیوانات سے بھی زیادہ گمراہ جانا ہے۔

( اُولَئِکَ کَالاَنعَامِ بَل هُم اَضَلُّ، اُولَئِکَ هُمُ الغَفِلُونَ ) (۲) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گزرے، یہی لوگ ( امور حق سے) بالکل بے خبر ہیں۔

ایک اور مقام پر حیوانات سے بدتر کہا ہے۔

( اِنَّ شَرَّ الدَّوآبٍّ عِندَ اللّهِ الصُمُّ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ ) (۳)

اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرہ گونگے (کفّار ) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے

ایک شبہ کا حل۔

اس مقام پر شاید کوئی شحص اپنے لئے یہ بہانا نہ پیش کرے کہ ایک مسئلہ کے تحت تنہا اسی صورت میں تحقیق و جستجو مفید ہے کہ جب اس کے حل کی امید ہو لیکن ہم دین اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں ایسی فکر کے مالک نہیں ہیں، اسی وجہ سے اپنی طاقت کو ایسے امور میں صرف کرنے کی بجائے کیوں نہ ایسے موارد میں صرف کریں جس میں زیادہ سے زیادہ نتیجہ بر آمد ہونے کی توقع ہو ، ایسے شخص کا جواب اس طرح دیں گے ۔

سب سے پہلے یہ کہ: دین کے اساسی مسائل کو حل کرنا کسی بھی صورت میں علمی مسائل کے حل کرنے سے کم نہیں ہے اور اس بات کو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض مشکل مسائل کا حل دانشمندوں کے سالہا سال کی زحمتوں کا نتیجہ ہے ۔

دوسرا یہ کہ : احتمال کی قدر و قیمت تنہا ایک عامل کے تابع (مقدار احتمال) نہیں ہے، بلکہ اس درمیان متحمل کی مقدار کو بھی جاننا ہوگا، مثلاً اگر ایک اقتصادی تجارت میں منفعت ٥% اور دوسری تجارتوں میں ١٠ % ہو لیکن اگر پہلی والی تجارت میں متحمل کی منفعت ایک ہزار روپیہ اور دوسری

تجارت میں ایک لاکھ ر وپیہ ہو تو پھر پہلی تجارت پانچ گونہ دوسری تجارت پر فوقیت رکھتی ہے اگر چہ پہلی تجارت میں مقدار احتمال ٥ % فیصد جودوسری تجارت کی مقدار احتمال ١٠% کا نصف ہے(۴)

چونکہ دین میں تحقیق کی منفعت کا احتمال بے شمار ہے ہر چند قطعی نتیجہ ہے کہ دستیابی کا احتمال ضعیف ہو، لیکن اس راہ میں تحقیق اور کوشش ہر اس راہ سے زیادہ ہے جسمیں نتیجہ محدود ہو، اور تنہا اسی صورت میں دینی مسائل میں ترک تحقیق قابل قبول ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ دین غیر درست اور اس کے مسائل قابل حل نہیں ہیں، لیکن ایسا یقین و اطمینان کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟!

سوالات

١۔ حقائق کی شناخت کے لئے انسان کا غریزہ کیا ہے؟

٢۔ کیوں انسان تمام حقائق کی تحقیق نہیں کرتا؟

٣۔ حس دینی کا مطلب کیا ہے؟ اور اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کون سی دلیل ذکر کی گئی ہے؟

٤۔ اصول دین میں تحقیق کی ضرورت کو بیان کریں؟

٥۔ کیا دین کے قطعی مسائل کو حل کرنے کی امید نہ ہونے کو، ترک تحقیق کے لئے عذر بنایا جاسکتا ہے؟

__________________

(١) ''بل یرید الانسان لیفجرامامه'' . سورۂ قیامت ۔آیت٥/. ترجمہ: مگر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی (ہمیشہ) برائی کرتا جائے

(٢)سورۂ اعراف۔ آیت/ ١٧٩. وہ لوگ چو پائے بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں.

(۳)سورۂ انفال۔ آیت/ ٢٢. وہ لوگ تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے کفار ہیں جو حقائق کو درک نہیں کرتے.

(۴)٥٠: ٥٠٠٠١٠٠ضرب ١٠٠٠۔ ١٠: ١٠٠ ١٠٠٠ : ١٠١٠٠ ضرب ١٠٠۔ ٥: ١٠ تقسیم ٥٠.

تیسرا درس

انسان بن کے جینے کی شرط

مقدمہ

انسان کمال طلب ہے

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

نتیجہ

مقدمہ

گذشتہ درس میں آسان عبارتوں کے ذریعہ دین میں تحقیق اور دین حق کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی گئی کہ یہ امر منفعت جوئی اور ضرر سے بچنے کے لئے ایک فطری عامل ہے جسے ہر انسان اپنے وجود میں پاسکتا ہے(۱) یا علم حضوری اس کی تشخیص میں اشتباہ نہیں کرسکتا۔

اس درس میں اسی مطلب کو ایک دوسرے انداز میں ثابت کریں گے، جو دقیق مقدمات پرمشتمل ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کرے، جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کا معتقد نہ ہو وہ کمال انسانی کو حاصل نہیں سکتا، بلکہ اسے سرے سے ایک حقیقی انسان نہیں مانا جاسکتا یا دوسری تعبیرکے مطابق انسان بن کے جینے کے لئے جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔

یہ دلیل تین مقدمات پر مشتمل ہے۔

١۔انسان ایک کمال جو (کمال طلب) موجود ہے۔

٢۔ کمال انسانی حکم عقل کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اختیاری کردار کے سایہ میں حاصل ہوتا ہے۔

٣۔ عقل کے احکام عملی ایک خاص نظری شناخت کے پرتو میں آشکار ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہترین جہان بینی کے تین اصول ہیں، یعنی مبدا وجود کی شناخت (توحید) حیات کا انجام(معاد) حاصل کرنے کے لئے ضمانت شدہ راستہ (نبوت) یا ہستی کی پہچان انسان کے پہچان اور راہ کی پہچان ہے اب اس کے بعد ان تینوں مقدمات کی وضاحت کے ساتھ بحث کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انسان کمال طلب ہے۔

اگر انسان اپنے باطنی اور رو حی (معنوی) میلانات میں غور و فکر کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ یہ سارے تمایلات ایک مخصوص ہدف کی جانب گامزن ہیں، اصولاً کوئی بھی انسان اس بات کو پسند نہیں کرتا، کہ اس کے وجود میں کوئی نقص ہو اور اپنی پوری تاب و توانائی کے ساتھ اپنے ذاتی عیوب و نقائص کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے تا کہ اپنے مطلوب ہدف تک پہنچ سکے، اور جب تک وہ عیوب دور نہیں ہوتے انھیں لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھتا ہے۔

یہ میلانات جب اپنی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں تو یہی مادی و معنوی تکامل (کمال کی طرف جانے) کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن اگر اسباب و شرائط کی بنیاد پر یہی میلانات انحرافی مسیر پر گامزن ہوجائیں تو غرور و گھمنڈ، ریا کاری اور خودخواہی جیسی بری صفت انسان کے اندر پیدا جاتی ہے

بہر حال کمال طلبی کی صفت ایک قوی فطرت ہے جو روح انسان میں پائی جاتی ہے ، جس کے واضح نمونہ اور آثار بخوبی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں لیکن ایک معمولی توجہ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سب کا ریشہ وہی کمال جوئی ہے۔

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے۔

نباتات کا رشد کرنا خارجی اسباب و شرائط کا نتیجہ اور ایک جبری امر ہے ،کوئی بھی درخت اپنے اختیار سے رشد نہیں کرتا، اور اپنی مرضی کے مطابق پھل نہیں دیتا، اس لئے کہ وہ ارادہ اور شعور کا حامل نہیں ہے۔

لیکن جانوروں کے رشد و نمو میں انتخاب کے آثار مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ارادہ و انتخاب اپنی طبیعی تقاضوں کے مطابق ایک محدود دائرے میں غرائز ہ حیوانی کے تحت ہر حیوان کی اپنی حسی قوت کے مطابق ایک محدود شعور کے پر تو میں ہے۔

لیکن انسان کی ذات نباتاتی و حیوانی خواصیات کے حامل ہونے کے علاوہ دورو حانی امتیازی پہلوؤں کا بھی مالک ہے، ایک طرف تو اس کے فطری میلانات اور خواہشات کے لئے کوئی حد مقررنہیں ہے اور دوسری طرف اس کی قوت عقل کی کامل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معلومات کو بے نہایت بنا سکتا ہے، ان دونوں خصوصیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کے ارادوں کی وسعت طبیعت کے حدود سے بھی کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔

جس طرح نباتات کے کمالات ایک خاص نباتی طاقت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور حیوانی کمالات انھیں حسی ادراکات کے نتیجہ پائے جانے والے ارادوں کی وجہ سے ہے اسی طرح انسانی کمالات کا سر چشمہ در واقع اس کا روحانی پہلو ہے جو عقل اور ارادوں کے ذریعہ حاصل ہوتے

ہیں، وہ عقل کہ جو مطلوب کے مراتب کو پہچان لے اور تزاحم(اھم اور مھم کو سمجھنے کے وقت ان میں سے بہترین کو ترجیح دے۔

لہٰذا رفتار و کردار کے انسانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عقل کی راہنمائی میں انسانی میلانات کے ذریعہ وجود میں آنے والے ارادوں کے ذریعہ حاصل ہو اور وہ عمل جو صرف اور صرف حیوانی غرائز کے ذریعہ عمل میں آئے، وہ حیوانی ہے جس طرح کہ وہ حرکت جو مکینکی طاقت کے ذریعہ انسانی بدن میں پیدا ہوتی ہے وہ ایک فیزیکی(طبیعی حرکت ہے۔

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

اختیاری عمل ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مطلوب نتیجہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس کی قدر و قیمت اس کے ہدف کے مطابق ہے جو روح کے تکامل(کمال کی طرف جانے) میں اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا جو عمل بھی کسی روحی کمال کے خاتمہ کا سبب ہے اس کی قدر و قیمت منفی ہوگی۔

لہذا اسی صورت میںعقل ، انسان کے اختیاری اعمال پر قضاوت کرسکتی ہے کہ جب انسانی کمالات اور ان کے مراتب سے پوری طرح آگاہ ہو، اور اچھی طرح سے جانتی و پہچانتی ہو کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اوراس کی زندگی کی شعاعوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اور وہ کمالات کے کتنے مدارج طے کرسکتا ہے؟ یا دوسری تعبیر کے مطابق اس کے وجود کے کتنے پہلو ہیں ؟اور اس کی خلقت کامقصد وہدف کیا ہے؟

اسی وجہ سے صحیح آئیڈیالوجی کا حاصل کرنا، یعنی اختیار ی اعمال پر ایک پرُ ارزش نظام کا حاکم صحیح جہان بینی اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی راہ میں ایک قدم ہے ، لہٰذا جب تک وہ ان مسائل کو حل نہیں کرتا اس وقت تک کردار و اعمال کے سلسلہ میں کوئی قطعی قضاوت نہیں کر سکتا، جس طرح سے کہ جب تک ہدف معلوم نہیں ہوتا اس وقت تک اس ہدف تک جانے والے راستہ کی تعیین غیر ممکن

ہے، لہذا یہ معارفِ نظری جو جہان بینی کے اساسی مسائل کو تشکیل دیتے ہیں حقیقت میں اسے عقل احکام عملی اور باارزش نظام کے مبنیٰ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

نتیجہ۔

ان مقدمات کی تشریح کے بعد اب ہم دین میں تحقیق کی ضرورت، صحیح آئیڈیا لوجی اور جہان بینی کو اس طرح ثابت کر یں گے۔

انسان اپنی فطرت کی وجہ سے اپنے انسانی کمال کی جستجو میں ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے مطلوبہ کمال کو حاصل کرلے، لیکن قبل اس کے کہ وہ ان امور کو پہچانے جو اسے کمال تک پہنچاسکتے ہیںضروری ہے کہ وہ اپنے انتہائی کمال کو پہچانے، اور اس انتہائی کمال کا جاننا اپنے وجود کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام کے بارے میں اطلاع حاصل کرنے میں ہے اس کے بعد اپنے کمال کے مختلف مراتب میں مختلف اعمال کے درمیان موجود، رابطہ کے مثبت یامنفی ہونے کو تشخیص دے، تا کہ وہ اس طرح اپنے انسانی کمال کے صحیح راستہ کو پہچان سکے، لہٰذا جب تک وہ نظری شناخت (اصول جہان بینی) کو حاصل نہیں کرتا اس وقت تک صحیح عملی نظام (آئیڈیالوجی) کو قبول نہیں کرسکتا۔

لہذا دین حق کی معرفت حاصل کرنا جو صحیح جہان بینی اور آئیڈیالوژی کو شامل ہے ضروری ہے اور اس کے بغیر کمال انسانی تک پہنچنا غیر ممکن ہے جیسا کہ وہ رفتار جوایسے افکار و اقدار کا نتیجہ نہ ہو وہ انسانی نہیں ہو سکتی یا وہ لوگ جو انھیں جاننے کے باوجود انکار کرتے ہیں، تنہا اپنی حیوانی خواہشات اور جلد ختم ہو نے والی مادی نعمتوں پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی اھمیت اصل میں ایک حیوان سے زیادہ نہیں ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے

'( 'یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الاَنعَامُ'' ) .(۲)

وہ دنیا میں سکون حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ( بے فکری سے) کھاتے پیتے ہیں جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں ۔

چونکہ وہ لوگ اپنی انسانی صلاحیتوں کو تباہ کرتے ہیں لہٰذا درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے

( ''ذَرهُم یَأکُلُوا وَیَتَمَتَعُوا وَیُلهِهِمُ الاَمَلُ فَسَوفَ یَعلَمُونَ'' ) .(۳)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں انھیں کی حالت پر چھوڑ دیجئے تا کہ (خوب )عیش و نوش کر لیں اور ( زندگی کے ) مزے اڑالیں اور ان کی تمنا ئیں انہیں لہو و لعب میں مشغول رکھے عنقریب وہ جان لیں گے ۔

سوالات

١۔ دین میں تحقیق کی دوسری دلیل کن مقدمات پر مشتمل ہے؟

٢۔ انسانی کمال طلبی کی وضاحت کریں؟

٣۔ انسان کی مہم خصوصیات کو بیان کریں؟

٤۔مذکورہ خصوصیات اور ان کے حقیقی کمال میں کیا رابطہ ہے؟

٥۔ کسی طرح آئیڈیالوژی، جہان بینی پر منحصر ہے؟

٦۔ دوسری دلیل کی منطقی صورت بیان کریں؟

__________________

(۱)اس دلیل کی شکل کچھ اسطرح ہے اگر منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے۔ ایسے

دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا جو بے نہایت منفعت کی طرف راہنمائی اور عظیم ضرر سے نجات دینے کا مدعی ہے ضروری ہے (تحقق معلول کے لئے علت ناقصہ ضرورت بالقیاس ہے) لیکن منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے، لہذا ایسے دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ضروری ہے۔

یہ استدلال جسے ''قیاس استثنائی'' کی شکل میں بیان کیا گیا ہے عقل کے احکامِ عملی اور ضرورت بالقیاس کی طرف ان کی باز گشت کے سلسلہ میں ایک خاص منطقی تحلیل ہے جو معلول (نتیجہ مطلوب) تک پہنچنے کے لئے ایک علت (فعل اختیاری) ہے، جیسا کہ اسے بیان کیا جاچکا ہے۔

اس درس میں یعنی مورد بحث دلیل کو اس شکل میں بیان کیاجاسکتا ہے، اگر کمال انسانی تک پہنچنا مطلوب فکری ہو تو اصول جہان بینی کی پہچان جو تکامل روح کے لئے شرط ہے ضروری ہوگا، لیکن کمال تک پہنچنا مطلوب فطری ہے، لہٰذا ان اصول کا جاننا ضروری ہے۔

(۲)سورۂ محمد۔ آیت/ ١٢ ۔ وہ حیوانوں کی طرح زندگی گذارتے ہیں اور کھاتے ہیں۔

(۳)سورۂ حجر۔ آیت/ ٣. انھیں ،انھیں کے حال پر چھوڑدیں کہ کھائیں اور زندگی گذاریں اور ان کی دنیوی آرزوئیں انھیں مگن رکھیں کہ عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا.

چوتھا درس

جہان بینی کے بنیادی مسائل کا راہ حل

مقدمہ

شناخت کی قسمیں

معرفت کی قسمیں

تنقید

نتیجہ

مقدمہ:

جب ایک انسان معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور دین حق کے اصول و قواعدکی پہچان کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو وہ پہلے ہی مرحلہ میں ان سوالوں کاسامنا کرتاہے کہ وہ کس طرح ان مسائل کو حل کرے؟ کس طر یقہ سے بنیادی اور صحیح معارف کو حاصل کرے؟ اور اصولاً ان کی شناخت کے راستے کیا ہیں؟ نیز ان میں سے کسے ان معارف تک پہنحنے کے لئے انتخاب کرے؟

ان مطالب پر فنی اور تفصیلی گفتگو کرنے کے لے فلسفہ کی ایک بحث ا(شیاء کی معرفت) (اپیستمولوژی) کا سہارا لینا ضروری ہے ،' کہ جسمیں شناخت انسان کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے، اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ہم یہاں پر ان تمام پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے اس لئے کہ وہ ہمیں اس کتاب میں اصل ہدف سے دور کردیں گے، اس وجہ سے ان میں سے فقط بعض کے بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے،اور مزید تحقیق کے لے (انشاء اﷲ)ہم ضرورت پڑنے پر اشارہ کریں گے(۱)

شناخت کی قسمیں ۔

انسان کی اس شناخت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

١۔ شناخت علمی( تجربی) (خاص اصطلاح میں) یہ شناخت، حسی امور کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اگر چہ عقل ادراکات حسی کی عمومیت اور اس کے مجرد عن المادہ ہونے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے شناخت علمی سے ،تجربی علوم مثلاً سائنس، لبیرٹری، اور زیست شناسی (علم حیات )جیسے علوم میں استفادہ کیا جاتا ہے۔

٢۔ شناخت عقلی : ایسی شناخت مفاہیم انتزاعی (معقولات ثانیہ) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اس میں اساسی اور بنیادی رول عقل کا ہوتا ہے ، ہر چند اس بات کا امکان ہے کہ بعض قضایا بہ عنوان مفا ھیم انتزاعی یا مقدمہ از قیاس ہونے کی وجہ سے حسی و تجربی ہوں ، اس شناخت کی وسعت منطق، علوم فلسفیہ، اور ریاضیات سب کو شامل ہے۔

٣۔ شناخت تعبدی : اس شناخت کی حثیت ثانوی ہے، جو (قابل اعتما د ماخذ و مدرک ) (اتورتیہ) اور صادق شخص کے خبر دینے کے ذیعہ حاصل ہوتی ہے وہ مطالب جو پیروان دین ، اپنے دینی رہنماہونے کے ناطے ان کے اقوال کو قبول کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ان کا یہ اعتقاد حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے اعتقاد سے کہیں زیادہ قومی ہوتا ہے جو اسی شناخت کا ایک حصہ ہے۔

٤۔شناخت شہودی : یہ شناخت دوسری اقسام کے بر خلاف مفہوم ذ ہنی کے واسطہ کے بغیر معلوم ذات عینی سے متعلق ہوتی ہے، جس میں کسی قسم کے اشتباہ کا امکان نہیں رہ جاتا لیکن جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جو کچھ بھی شہودی اور عرفانی کے نام سے بیان کیا جاتا ہے در حقیقت شھودات کی ایک ذہنی تفسیر ہوتی ہے جو قابل خطا ہے۔(۲)

معرفت کی قسمیں

شناخت کی قسمیں جن اصولوں کی بنیاد پر بیان کی گئیں ہیں انھیں اصولوں کے ذریعہ جہاں بینی کی بھی تقسیمات کی جاسکتی ہیں۔

١۔ معرفت علمی: یعنی انسان ،علوم تجربی کے ذریعہ حاصل ہونے والے نتائج کے ذریعہ ہستی کے سلسلہ میں ایک کلی معلومات حاصل کر ے۔

٢۔ معرفت فلسفی: وہ معرفت جو از راہ استدلال اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہو ۔

٣۔ معرفت دینی: وہ معرفت جو رہبران دین پر ایمان رکھنے اور ان کی گفتار کو قبول کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

٤۔ معرفت عرفانی: وہ معرفت جو کشف و شہود اور اشراق کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعا جہان بینی کے بنیادی مسائل کو انھیں چار تقسیموں کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، تا کہ ان میں کسی ایک کے برتر ہونے کا سوال پیدا نہ ہو ۔

تنقید۔

حس و تجربی شناخت کی وسعت اور مادی و طبیعی قضایا میں محدودیت کی وجہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ علوم تجربی کی بنیاد پر معرفت کے اصول کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اس سے مربوط مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ اس کے مسائل علوم تجربی کی حدود سے خارج ہیں، اور علوم تجربی میں ان مسائل کے تحت نفی و اثبات کا امکان نہیں ہے، جس طرح سے کہ وجود خدا کو آزمائشوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، یا (العیاذ باللہ) اسکی نفی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ علوم تجربی کے آلات ماوراء طبیعت تک پہنچنے سے قاصر ہیں، بلکہ ان کے ذریعہ تنہا مادی قضایا میں اثبات و نفی کا حکم صادر کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا علمی و تجربی معرفت (اپنے اصطلاحی معنی ) کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہے اور اسے صحیح معنوں میں کلمہ معرفت سے یاد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے '' جہان مادی کی شناخت'' کا نام دیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ ایسی شناخت معرف کے بنیادی مسائل کا جواب نہیں دے سکتی۔

لیکن وہ شناخت جو تعبدی روش کے ذریعہ حاصل ہو ، جسیا کہ ہم نے اشارہ بھی کیا ہے اس کی ایک ثانوی حثیت ہے، کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے مصدر یامصادر کا اعتبار ثابت ہوچکا ہو، یعنی پہلے مرحلہ میں کسی کی بعثت ثابت ہو تا کہ اس کے پیغامات کو معتبر سمجھاجاسکے، اور ہر امر سے پہلے پیغام ارسال کرنے والے یعنی وجود خدا کا اثبات ہونا چاہیے، لہٰذا یہ بات بطور کامل روشن ہے کہ خود پیغام ارسال کرنے والے کا وجود اور کسی پیغمبر کے وجود کو پیغام کے مستند ہونے کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا ، جیسے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ قرآن کہتا ہے ''خدا ہے'' پس اس کا وجود ثابت ہے، البتہ وجود خدا کے اثبات، شناخت پیغمبر اور حقانیت قرآن کے بعد ''مخبرصادق'' اور '' منا بع معتبر'' کے ذریعہ، تمام فرعی مسائل اور احکامات کو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی مسائل کو سب سے پہلے حل کرنا ضروری ہے، پس معلوم یہ ہو ا کہ روش تعبدی بھی بنیادی مسائل کے حل کے لئے نا کافی ہے، لیکن اشراقی عرفانی روش کے سلسلہ میں بہت طولانی بحث ہے۔

پہلے یہ کہ مسائل جہان بینی ایک ایسی شناخت ہے جو ذہنی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن متن شہود میں اسکا کوئی مقام نہیں ہے لہذا ایسے مفاہیم کے سلسلہ میں شہودپر اعتماد کرنا سھل انگاری اور ان کے ارادوں کے مطابق ہوگا۔

دوسرا یہ کہ : الفاظ و مفاہیم کے قالب میں شہودات کی تفسیر اور انھیں بیان کرنا، ایک قوی ذہن کا کام ہے، جسے عقلی کاوشوں اورفلسفی تحلیلوں میں ایک طولانی مدت تک جانفشانیوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا جو لوگ ایسے ذہن کے حامل نہیں ہوتے وہ اپنی تعبیرات میں متشابہ مفاہیم کا استعمال کرتے ہیں جو گمراہی کے عظیم عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ : بہت سے مقامات پر جو چیز واقعاً شہود میں آشکار ہوتی ہے خیالی انعکاس

اور ذہنی تفسیر کی وجہ سے خود خود مشاہدہ کرنے والے کے لے ، شک و تردید کا باعث ہوتی ہے۔

چوتھے یہ کہ : ان حقائق کی جستجو جسے تفسیر ذہنی (معرفت) کا نام دیا جاتا ہے سیر و سلوک میں سالہا سال زحمت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، سیر و سلوک کی روش کو قبول کرنا علمی شناخت کا ایک حصہ ہے، جس میں معرفت کے بنیادی مسائل اور مبانی نظری سے واقف ہونے کی ضرورت ہے،لہٰذا سیر و سلوک میں سفر سے پہلے ان مسائل کا حل کرنا ضروری ہے تا کہ نتیجہ میں کشف و شہود حاصل ہو سکے درں حالیکہ شہود ی شناخت کا مرحلہ انجام کار ہے اصولاً عرفان حقیقی اس کو حاصل ہوتا ہے جو راہ خدا میں خالصةً لوجہ اللہ(صرف خدا کی مرضی کے لئے) زحمت اٹھائے اورایسی سعی و کوشش راہ بندگی و اطاعت میں شناخت خدا پر منحصر ہے، جسے سب سے پہلے حاصل کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ:

اس تحقیق کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ تنہا وہ راستہ جس نے معرفت شناسی کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کے سامنے راہیں ہموار کی ہیں وہ راہ عقل اور روش تدبر و تفکر ہے، اور اس لحاظ سے جہان بینی واقعی کو جہان بینی فلسفی تسلیم کرناچاہیے ۔

البتہ عقل کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنا اور معرفت کو فلسفی مباحث میں منحصر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحیح معرفت حاصل کرنے کے لئے تمام فلسفی مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے بلکہ اس راہ میں صرف بد یہی اور چند مسائل کا حل کر لینا ہی کافی ہے کہ جو معرفت کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، اگر چہ اس کے باوجود ایسے مسائل اور اسی قسم کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے فلسفی مہارتوں کا زیادہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح شناخت عقلی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے مفید طریقہ شناخت کو بہ روی کار لانے کا مطلب یہ نہیں ہے بقیہ معلومات کو ترک کردیا جائے بلکہ بہت سے عقلی استدلالات میں ان مقدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جو علم حضوری یا حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، جس طرح سے کہ ثانوی مسائل اورفرعی اعتقادات کو حل کرنے کے لئے تعبدی شناخت کا سہارالیا جاسکتا ہے اور انھیں کتاب و سنت (دین کے معتبر منابع) کی اساس پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔

صحیح معرفت اور آئیڈیالوجی کو حاصل کرنے کے بعد سیر و سلوک کے مراحل کو طے کرنے کے لے مکاشفات و مشاھدا ت کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور بہت سے وہ مسائل جو عقلی استدلالات کے ذریعہ حل ہوتے ہیں انھیں ذہنی مفاہیم کے واسطہ کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سوالات

١۔ شناخت انسان کی اقسام اور ہر ایک کی وسعت کو بیان فرمائیں؟

٢۔ معرفت کی کتنی قسمیں تصور کی جا سکتی ہیں؟

٣۔ معرفت کے بنیادی مسائل کس طرح ثابت کئے جا سکتے ہیں؟

٤۔ جہان بینی علمی ( معرفت علمی ) پر تنقید و تبصرہ کریں؟

٥۔ معرفت کے مسائل کو بیان کرنے کے لئے تجربی شناختوں سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٦۔ عقیدتی مسائل کے اثبات میں کس طرح اور کن موارد میں تعبدی شناختوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٧۔ معرفت عرفانی کی تعریف کریں؟ اور کیا شہود عرفانی کے ذریعہ معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے؟

____________________

(۱) اس سلسلہ میں مزید اطلاع حاصل کرنے کے لئے اس کتاب کے ددوسرے حصہ ''آموزش فلسفہ'' اور مقالہ ''شناخت'' جو کتاب پاسداری از سنگرھای ایدۓولوژیک'' میں ہے، اور ایدۓولوژی تطبیقی کے درورس میں سے پانچویں درس سے سولہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے

(۲) رجوع فرمائیں، آموزش فلسفہ۔ تیرہوان درس.

دوسرا درس

دین میں تحقیق

تحقیق کے عوامل

دین میں تحقیق کی اہمیت

ایک شبہ کا حل

تحقیق کے عوامل

انسان کی نفسانی (روحانی و معنوی) خصوصیات میں سے ایک خاصیت حقائق اور واقعیات کا پتہ لگانا ہے جو ہر انسان میں آغاز ولادت سے پایا جاتا ہے، اور عمر کی آخری سانسوں تک یہ غریزۂ فطری باقی رہتا ہے، یہی حقیقت جوئی کی فطرت جسے ''حس کنجکاوی'' بھی کہا جاتا ہے انسان کو دین کے دائرے میں موجودہ مسائل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اور دین حق کی شناخت کے لئے آمادہ کرتی ہے، جیسے:کیا غیر مادی اور غیرمحسوس شیء (غیب) کا وجود ہے؟ اور اگر ایسا کچھ ہے تو پھر کیا جہان مادی و محسوس اور جہان غیب میں کوئی ربط ہے؟ اور اگر ان دونوں میں ربط ہے تو پھر کیا کوئی نا محسوس موجود ہے جو اس جہان مادی کا خالق ہو؟

کیا انسان کا وجود اسی مادی بدن میں منحصر ہے ؟اور اس کی حیات صرف اسی دنیا سے مخصوص ہے یا اس دنیوی د زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے؟ اور اگر انسان کے لئے ایک دوسری زندگی آخرت ہے تو کیا اس دنیاوی زندگی اور اس آخرت میں کوئی ربط ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی ربط ہے تو پھر

امور دنیوی میں کون سے امور آخرت کی زندگی میں مؤثر ہیں؟ اور کون سا راستہ زندگی کو صحیح گذارنے کے طور طریقہ کی پہچان کے لئے ہے؟ ایسا طور طریقہ جو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کی ضمانت دے؟ اور وہ طور طریقہ کیا ہے؟

پس حقیقت جوئی کی فطرت وہ اولین عامل ہے جو انسان کو مسائل کی جستجو منجملہ دینی مسائل اور دین حق کو پہچاننے کے لئے ابھارتی ہے۔

حقیقت کی شناخت کے لئے انسانی فطرت میں جو عوامل جوش و ولولہ کا سبب بنتے ہیں ان میں سے ایک ان تمام آرزؤں کو حاصل کرنا ہے جو ایک یا چند فطرتوں (حقائق کی شناخت کے علاوہ) سے متعلق اور کسی خاص معلومات پر منحصر ہیں، جیسے کہ مختلف دنیوی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا، علمی کوششوں کا نتیجہ ہے اور علوم تجربی کی کامیابیاں انسانوں کے لئے اپنی آرزؤں کے حصول میں نہایت مددگار ہیں، اسی طرح اگر دین ، انسان کے منافع و مصالح اور اس کی آرزؤں کو پورا کردے ،اور برے کاموں سے اسے روک دے تو یہ امر اس کے لئے نہایت مطلوب ہوگا، لہذا منفعت طلبی کی حس اور نقصان سے بچنے کی فطرت، دین میں اور زیادہ تحقیق و جستجو کی امنگ کو افزائش دینے کا سبب ہے۔

لیکن معلومات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے اور تمام حقائق کو درک کرنے کے لئے کافی و سائل کا ہونا ضروری ہے، یہ ممکن ہے کہ انسان تحقیق کے لئے ایسے مسائل کا انتخاب کرے کہ جنھیں حل کرنا آسان سہل الوصول اور محسوس ہو لیکن دینی مسائل کی جستجو سے صرف اس بناپر پرہیز کرتا رہے کہ ان کا حل کرنا مشکل اور کسی اہم علمی نتائج تک پہچنا ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے یہ امر ضروری ہے کہ لوگوں کے لئے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ دینی مسائل کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان مسائل میں تحقیق و جستجو بقیہ مسائل کی جستجو سے کاملاً متفاوت ہے۔

بعض ماہرین نفسیات کا عقیدہ ہے کہ اساساً خدا پرستی ایک مستقل آرزو ہے، جس کے سرچشمہ کو ''حس دینی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسے حس جستجو، حسن نیکی اور حسن زیبائی (خوبصورتی) میں انسانی روح کے لئے چوتھاپہلوشمار کیا جاتا ہے۔

ان لوگوں نے تاریخی شواہد کی رو سے یہ امر ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی کی حس ہر زمانہ میں مختلف شکلوں میں رہی ہے لہذا اس حس کا ہمیشگی اور اس طرح وسیع ہونا اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔

البتہ اس فطرت کے عمومی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام انسانو ںمیں زندہ و بیدار بھی ہو اور اسے مطلوب کی جانب بر انگخیتہ کرنے میں مدد بھی کرے ، بلکہ صحیح تربیت کے نہ ہونے اور فاسد معاشرہ کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی دوستی بہت ضعیف پڑ گئی ہو یا اسے اپنی صحیح مسیر پر حرکت کرنے سے منحرف کر دے ، جیسا کہ بقیہ تمام فطرتوں میں ضعف اور انحراف کا امکان ہے۔

اس نظریہ کے تحت دین میں تحقیق و جستجو ایک مشتعل فطرت ہے ، دلائل اور برہان کے ذریعہ اسے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس مطلب کو آیات و روایات کے ذریعہ مورد تائید قرار دیا جاسکتا ہے کہ جو دین کے فطری ہونے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن چونکہ اس میل فطری کی تاثیر آشکار نہیں ہے لہٰذا کوئی بحث و مباحثہ کے دوران اپنے موقف کی تائید میں اس کے وجود کا منکر ہو سکتا ہے اسی وجہ سے ہم تنہا اسی بیان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ عقلی دلائل کے ذریعہ اس حقیقت کو ثابت کریں گے۔

دین میں تحقیق۔

یہ حقیقت روشن ہوچکی ہے کہ ایک طرف حقائق کی شناخت کا فطری رجحان اور دوسری طرف حصول منفعت و مصلحت اور خطرات سے بچنے کی فطری خواہش ایک ایسا طاقتور عامل ہے جو تفکر و تحقیق اور علوم کی تحصیل میں نہایت مددگار ہے،یہی وجہ ہے جب کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ طول تاریخ میں بعض انسانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم پروردگار کی طرف سے انسانوں کو دوجہان کی سعادت تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں'' جنھوں نے اپنے پیغامات کے ابلاغ اور انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی بھی قسم کی زحمت اٹھانے سے دریغ نہیں کیا، اور تمام سختیوں کو اپنے لئے خریدا حتی کہ اپنی جانوں کو بھی اس ہدف کے تحت قربان کردیا، تو اس کے اندر دین میں تحقیق و جستجو کی ایک عجیب سی امنگ پیدا ہوتی ہے، اور وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ان لوگوںنے جو

دعویٰ کیا تھا کیا ان کا یہ دعوی درست اور منطقی دلائل کی رو سے صحیح تھا یا نہیں، خصوصاً یہ جزبہ بیداری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ا نھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے حیات جاودانی اور نعمت و سعادت کی بشارت دی ہے، عذاب دائمی اور ابدی شقاوت سے ڈرایا ہے، یعنی ان کی دعوت کو قبول کرلینا فراوان نعمتوں کے حصول کا موجب اور اس سے انکار کرنا دائمی خسران کا سبب ہے، ان سب حقائق کے جاننے کے بعد کون شخص دین سے غفلت کے لئے عذر پیش کرسکتا ہے اور دین کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو سے منہ پھیر سکتا ہے؟

ہاں! ممکن ہے کہ بعض اشخاص، آرام طلب اور کاہل ہونے کی وجہ سے یہ تحقیق انجام نہ دیں یا پھر دین کے قبول کرلینے کے بعد اس کی پابندیوں اور بعض نفسانی خواہشوں پر ر وک لگ جانے کی وجہ سے دین میں جستجو کرنے سے پرہیز کریں۔(۱)

لیکن ایسے اشخاص کو اپنی آرام طلب طبیعت کی سزا بھگتنا ہوگی، اور عذاب ابدی میں گرفتار ہونا ہوگا ایسے لوگوں کی حالت ان بچوں سے بھی بد تر ہے جو دوائوں کی تلخی کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور اپنے لئے حتمی موت کو دعوت دے د یتے ہے، اس لئے کہ یہ بچے اپنے فائدہ و نقصان کو سمجنے کے سلسلہ میں کافی عقل و شعور نہیں رکھتے ڈاکٹر کی ہدایتوں سے مخالفت دنیا کی چند روزہ نعمتوں سے محرومی سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بالغ انسان ،سود و زیاں کو درک کرنے اور جلد ختم ہوجانے والی نعمتوں کے سلسلہ میں غور و فکر کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن نے اپنے غافل انسانوں کو حیوانات سے بھی زیادہ گمراہ جانا ہے۔

( اُولَئِکَ کَالاَنعَامِ بَل هُم اَضَلُّ، اُولَئِکَ هُمُ الغَفِلُونَ ) (۲) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گزرے، یہی لوگ ( امور حق سے) بالکل بے خبر ہیں۔

ایک اور مقام پر حیوانات سے بدتر کہا ہے۔

( اِنَّ شَرَّ الدَّوآبٍّ عِندَ اللّهِ الصُمُّ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ ) (۳)

اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرہ گونگے (کفّار ) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے

ایک شبہ کا حل۔

اس مقام پر شاید کوئی شحص اپنے لئے یہ بہانا نہ پیش کرے کہ ایک مسئلہ کے تحت تنہا اسی صورت میں تحقیق و جستجو مفید ہے کہ جب اس کے حل کی امید ہو لیکن ہم دین اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں ایسی فکر کے مالک نہیں ہیں، اسی وجہ سے اپنی طاقت کو ایسے امور میں صرف کرنے کی بجائے کیوں نہ ایسے موارد میں صرف کریں جس میں زیادہ سے زیادہ نتیجہ بر آمد ہونے کی توقع ہو ، ایسے شخص کا جواب اس طرح دیں گے ۔

سب سے پہلے یہ کہ: دین کے اساسی مسائل کو حل کرنا کسی بھی صورت میں علمی مسائل کے حل کرنے سے کم نہیں ہے اور اس بات کو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض مشکل مسائل کا حل دانشمندوں کے سالہا سال کی زحمتوں کا نتیجہ ہے ۔

دوسرا یہ کہ : احتمال کی قدر و قیمت تنہا ایک عامل کے تابع (مقدار احتمال) نہیں ہے، بلکہ اس درمیان متحمل کی مقدار کو بھی جاننا ہوگا، مثلاً اگر ایک اقتصادی تجارت میں منفعت ٥% اور دوسری تجارتوں میں ١٠ % ہو لیکن اگر پہلی والی تجارت میں متحمل کی منفعت ایک ہزار روپیہ اور دوسری

تجارت میں ایک لاکھ ر وپیہ ہو تو پھر پہلی تجارت پانچ گونہ دوسری تجارت پر فوقیت رکھتی ہے اگر چہ پہلی تجارت میں مقدار احتمال ٥ % فیصد جودوسری تجارت کی مقدار احتمال ١٠% کا نصف ہے(۴)

چونکہ دین میں تحقیق کی منفعت کا احتمال بے شمار ہے ہر چند قطعی نتیجہ ہے کہ دستیابی کا احتمال ضعیف ہو، لیکن اس راہ میں تحقیق اور کوشش ہر اس راہ سے زیادہ ہے جسمیں نتیجہ محدود ہو، اور تنہا اسی صورت میں دینی مسائل میں ترک تحقیق قابل قبول ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ دین غیر درست اور اس کے مسائل قابل حل نہیں ہیں، لیکن ایسا یقین و اطمینان کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟!

سوالات

١۔ حقائق کی شناخت کے لئے انسان کا غریزہ کیا ہے؟

٢۔ کیوں انسان تمام حقائق کی تحقیق نہیں کرتا؟

٣۔ حس دینی کا مطلب کیا ہے؟ اور اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کون سی دلیل ذکر کی گئی ہے؟

٤۔ اصول دین میں تحقیق کی ضرورت کو بیان کریں؟

٥۔ کیا دین کے قطعی مسائل کو حل کرنے کی امید نہ ہونے کو، ترک تحقیق کے لئے عذر بنایا جاسکتا ہے؟

__________________

(١) ''بل یرید الانسان لیفجرامامه'' . سورۂ قیامت ۔آیت٥/. ترجمہ: مگر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی (ہمیشہ) برائی کرتا جائے

(٢)سورۂ اعراف۔ آیت/ ١٧٩. وہ لوگ چو پائے بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں.

(۳)سورۂ انفال۔ آیت/ ٢٢. وہ لوگ تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے کفار ہیں جو حقائق کو درک نہیں کرتے.

(۴)٥٠: ٥٠٠٠١٠٠ضرب ١٠٠٠۔ ١٠: ١٠٠ ١٠٠٠ : ١٠١٠٠ ضرب ١٠٠۔ ٥: ١٠ تقسیم ٥٠.

تیسرا درس

انسان بن کے جینے کی شرط

مقدمہ

انسان کمال طلب ہے

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

نتیجہ

مقدمہ

گذشتہ درس میں آسان عبارتوں کے ذریعہ دین میں تحقیق اور دین حق کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی گئی کہ یہ امر منفعت جوئی اور ضرر سے بچنے کے لئے ایک فطری عامل ہے جسے ہر انسان اپنے وجود میں پاسکتا ہے(۱) یا علم حضوری اس کی تشخیص میں اشتباہ نہیں کرسکتا۔

اس درس میں اسی مطلب کو ایک دوسرے انداز میں ثابت کریں گے، جو دقیق مقدمات پرمشتمل ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کرے، جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کا معتقد نہ ہو وہ کمال انسانی کو حاصل نہیں سکتا، بلکہ اسے سرے سے ایک حقیقی انسان نہیں مانا جاسکتا یا دوسری تعبیرکے مطابق انسان بن کے جینے کے لئے جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔

یہ دلیل تین مقدمات پر مشتمل ہے۔

١۔انسان ایک کمال جو (کمال طلب) موجود ہے۔

٢۔ کمال انسانی حکم عقل کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اختیاری کردار کے سایہ میں حاصل ہوتا ہے۔

٣۔ عقل کے احکام عملی ایک خاص نظری شناخت کے پرتو میں آشکار ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہترین جہان بینی کے تین اصول ہیں، یعنی مبدا وجود کی شناخت (توحید) حیات کا انجام(معاد) حاصل کرنے کے لئے ضمانت شدہ راستہ (نبوت) یا ہستی کی پہچان انسان کے پہچان اور راہ کی پہچان ہے اب اس کے بعد ان تینوں مقدمات کی وضاحت کے ساتھ بحث کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انسان کمال طلب ہے۔

اگر انسان اپنے باطنی اور رو حی (معنوی) میلانات میں غور و فکر کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ یہ سارے تمایلات ایک مخصوص ہدف کی جانب گامزن ہیں، اصولاً کوئی بھی انسان اس بات کو پسند نہیں کرتا، کہ اس کے وجود میں کوئی نقص ہو اور اپنی پوری تاب و توانائی کے ساتھ اپنے ذاتی عیوب و نقائص کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے تا کہ اپنے مطلوب ہدف تک پہنچ سکے، اور جب تک وہ عیوب دور نہیں ہوتے انھیں لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھتا ہے۔

یہ میلانات جب اپنی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں تو یہی مادی و معنوی تکامل (کمال کی طرف جانے) کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن اگر اسباب و شرائط کی بنیاد پر یہی میلانات انحرافی مسیر پر گامزن ہوجائیں تو غرور و گھمنڈ، ریا کاری اور خودخواہی جیسی بری صفت انسان کے اندر پیدا جاتی ہے

بہر حال کمال طلبی کی صفت ایک قوی فطرت ہے جو روح انسان میں پائی جاتی ہے ، جس کے واضح نمونہ اور آثار بخوبی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں لیکن ایک معمولی توجہ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سب کا ریشہ وہی کمال جوئی ہے۔

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے۔

نباتات کا رشد کرنا خارجی اسباب و شرائط کا نتیجہ اور ایک جبری امر ہے ،کوئی بھی درخت اپنے اختیار سے رشد نہیں کرتا، اور اپنی مرضی کے مطابق پھل نہیں دیتا، اس لئے کہ وہ ارادہ اور شعور کا حامل نہیں ہے۔

لیکن جانوروں کے رشد و نمو میں انتخاب کے آثار مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ارادہ و انتخاب اپنی طبیعی تقاضوں کے مطابق ایک محدود دائرے میں غرائز ہ حیوانی کے تحت ہر حیوان کی اپنی حسی قوت کے مطابق ایک محدود شعور کے پر تو میں ہے۔

لیکن انسان کی ذات نباتاتی و حیوانی خواصیات کے حامل ہونے کے علاوہ دورو حانی امتیازی پہلوؤں کا بھی مالک ہے، ایک طرف تو اس کے فطری میلانات اور خواہشات کے لئے کوئی حد مقررنہیں ہے اور دوسری طرف اس کی قوت عقل کی کامل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معلومات کو بے نہایت بنا سکتا ہے، ان دونوں خصوصیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کے ارادوں کی وسعت طبیعت کے حدود سے بھی کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔

جس طرح نباتات کے کمالات ایک خاص نباتی طاقت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور حیوانی کمالات انھیں حسی ادراکات کے نتیجہ پائے جانے والے ارادوں کی وجہ سے ہے اسی طرح انسانی کمالات کا سر چشمہ در واقع اس کا روحانی پہلو ہے جو عقل اور ارادوں کے ذریعہ حاصل ہوتے

ہیں، وہ عقل کہ جو مطلوب کے مراتب کو پہچان لے اور تزاحم(اھم اور مھم کو سمجھنے کے وقت ان میں سے بہترین کو ترجیح دے۔

لہٰذا رفتار و کردار کے انسانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عقل کی راہنمائی میں انسانی میلانات کے ذریعہ وجود میں آنے والے ارادوں کے ذریعہ حاصل ہو اور وہ عمل جو صرف اور صرف حیوانی غرائز کے ذریعہ عمل میں آئے، وہ حیوانی ہے جس طرح کہ وہ حرکت جو مکینکی طاقت کے ذریعہ انسانی بدن میں پیدا ہوتی ہے وہ ایک فیزیکی(طبیعی حرکت ہے۔

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

اختیاری عمل ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مطلوب نتیجہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس کی قدر و قیمت اس کے ہدف کے مطابق ہے جو روح کے تکامل(کمال کی طرف جانے) میں اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا جو عمل بھی کسی روحی کمال کے خاتمہ کا سبب ہے اس کی قدر و قیمت منفی ہوگی۔

لہذا اسی صورت میںعقل ، انسان کے اختیاری اعمال پر قضاوت کرسکتی ہے کہ جب انسانی کمالات اور ان کے مراتب سے پوری طرح آگاہ ہو، اور اچھی طرح سے جانتی و پہچانتی ہو کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اوراس کی زندگی کی شعاعوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اور وہ کمالات کے کتنے مدارج طے کرسکتا ہے؟ یا دوسری تعبیر کے مطابق اس کے وجود کے کتنے پہلو ہیں ؟اور اس کی خلقت کامقصد وہدف کیا ہے؟

اسی وجہ سے صحیح آئیڈیالوجی کا حاصل کرنا، یعنی اختیار ی اعمال پر ایک پرُ ارزش نظام کا حاکم صحیح جہان بینی اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی راہ میں ایک قدم ہے ، لہٰذا جب تک وہ ان مسائل کو حل نہیں کرتا اس وقت تک کردار و اعمال کے سلسلہ میں کوئی قطعی قضاوت نہیں کر سکتا، جس طرح سے کہ جب تک ہدف معلوم نہیں ہوتا اس وقت تک اس ہدف تک جانے والے راستہ کی تعیین غیر ممکن

ہے، لہذا یہ معارفِ نظری جو جہان بینی کے اساسی مسائل کو تشکیل دیتے ہیں حقیقت میں اسے عقل احکام عملی اور باارزش نظام کے مبنیٰ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

نتیجہ۔

ان مقدمات کی تشریح کے بعد اب ہم دین میں تحقیق کی ضرورت، صحیح آئیڈیا لوجی اور جہان بینی کو اس طرح ثابت کر یں گے۔

انسان اپنی فطرت کی وجہ سے اپنے انسانی کمال کی جستجو میں ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے مطلوبہ کمال کو حاصل کرلے، لیکن قبل اس کے کہ وہ ان امور کو پہچانے جو اسے کمال تک پہنچاسکتے ہیںضروری ہے کہ وہ اپنے انتہائی کمال کو پہچانے، اور اس انتہائی کمال کا جاننا اپنے وجود کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام کے بارے میں اطلاع حاصل کرنے میں ہے اس کے بعد اپنے کمال کے مختلف مراتب میں مختلف اعمال کے درمیان موجود، رابطہ کے مثبت یامنفی ہونے کو تشخیص دے، تا کہ وہ اس طرح اپنے انسانی کمال کے صحیح راستہ کو پہچان سکے، لہٰذا جب تک وہ نظری شناخت (اصول جہان بینی) کو حاصل نہیں کرتا اس وقت تک صحیح عملی نظام (آئیڈیالوجی) کو قبول نہیں کرسکتا۔

لہذا دین حق کی معرفت حاصل کرنا جو صحیح جہان بینی اور آئیڈیالوژی کو شامل ہے ضروری ہے اور اس کے بغیر کمال انسانی تک پہنچنا غیر ممکن ہے جیسا کہ وہ رفتار جوایسے افکار و اقدار کا نتیجہ نہ ہو وہ انسانی نہیں ہو سکتی یا وہ لوگ جو انھیں جاننے کے باوجود انکار کرتے ہیں، تنہا اپنی حیوانی خواہشات اور جلد ختم ہو نے والی مادی نعمتوں پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی اھمیت اصل میں ایک حیوان سے زیادہ نہیں ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے

'( 'یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الاَنعَامُ'' ) .(۲)

وہ دنیا میں سکون حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ( بے فکری سے) کھاتے پیتے ہیں جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں ۔

چونکہ وہ لوگ اپنی انسانی صلاحیتوں کو تباہ کرتے ہیں لہٰذا درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے

( ''ذَرهُم یَأکُلُوا وَیَتَمَتَعُوا وَیُلهِهِمُ الاَمَلُ فَسَوفَ یَعلَمُونَ'' ) .(۳)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں انھیں کی حالت پر چھوڑ دیجئے تا کہ (خوب )عیش و نوش کر لیں اور ( زندگی کے ) مزے اڑالیں اور ان کی تمنا ئیں انہیں لہو و لعب میں مشغول رکھے عنقریب وہ جان لیں گے ۔

سوالات

١۔ دین میں تحقیق کی دوسری دلیل کن مقدمات پر مشتمل ہے؟

٢۔ انسانی کمال طلبی کی وضاحت کریں؟

٣۔ انسان کی مہم خصوصیات کو بیان کریں؟

٤۔مذکورہ خصوصیات اور ان کے حقیقی کمال میں کیا رابطہ ہے؟

٥۔ کسی طرح آئیڈیالوژی، جہان بینی پر منحصر ہے؟

٦۔ دوسری دلیل کی منطقی صورت بیان کریں؟

__________________

(۱)اس دلیل کی شکل کچھ اسطرح ہے اگر منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے۔ ایسے

دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا جو بے نہایت منفعت کی طرف راہنمائی اور عظیم ضرر سے نجات دینے کا مدعی ہے ضروری ہے (تحقق معلول کے لئے علت ناقصہ ضرورت بالقیاس ہے) لیکن منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے، لہذا ایسے دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ضروری ہے۔

یہ استدلال جسے ''قیاس استثنائی'' کی شکل میں بیان کیا گیا ہے عقل کے احکامِ عملی اور ضرورت بالقیاس کی طرف ان کی باز گشت کے سلسلہ میں ایک خاص منطقی تحلیل ہے جو معلول (نتیجہ مطلوب) تک پہنچنے کے لئے ایک علت (فعل اختیاری) ہے، جیسا کہ اسے بیان کیا جاچکا ہے۔

اس درس میں یعنی مورد بحث دلیل کو اس شکل میں بیان کیاجاسکتا ہے، اگر کمال انسانی تک پہنچنا مطلوب فکری ہو تو اصول جہان بینی کی پہچان جو تکامل روح کے لئے شرط ہے ضروری ہوگا، لیکن کمال تک پہنچنا مطلوب فطری ہے، لہٰذا ان اصول کا جاننا ضروری ہے۔

(۲)سورۂ محمد۔ آیت/ ١٢ ۔ وہ حیوانوں کی طرح زندگی گذارتے ہیں اور کھاتے ہیں۔

(۳)سورۂ حجر۔ آیت/ ٣. انھیں ،انھیں کے حال پر چھوڑدیں کہ کھائیں اور زندگی گذاریں اور ان کی دنیوی آرزوئیں انھیں مگن رکھیں کہ عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا.

چوتھا درس

جہان بینی کے بنیادی مسائل کا راہ حل

مقدمہ

شناخت کی قسمیں

معرفت کی قسمیں

تنقید

نتیجہ

مقدمہ:

جب ایک انسان معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور دین حق کے اصول و قواعدکی پہچان کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو وہ پہلے ہی مرحلہ میں ان سوالوں کاسامنا کرتاہے کہ وہ کس طرح ان مسائل کو حل کرے؟ کس طر یقہ سے بنیادی اور صحیح معارف کو حاصل کرے؟ اور اصولاً ان کی شناخت کے راستے کیا ہیں؟ نیز ان میں سے کسے ان معارف تک پہنحنے کے لئے انتخاب کرے؟

ان مطالب پر فنی اور تفصیلی گفتگو کرنے کے لے فلسفہ کی ایک بحث ا(شیاء کی معرفت) (اپیستمولوژی) کا سہارا لینا ضروری ہے ،' کہ جسمیں شناخت انسان کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے، اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ہم یہاں پر ان تمام پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے اس لئے کہ وہ ہمیں اس کتاب میں اصل ہدف سے دور کردیں گے، اس وجہ سے ان میں سے فقط بعض کے بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے،اور مزید تحقیق کے لے (انشاء اﷲ)ہم ضرورت پڑنے پر اشارہ کریں گے(۱)

شناخت کی قسمیں ۔

انسان کی اس شناخت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

١۔ شناخت علمی( تجربی) (خاص اصطلاح میں) یہ شناخت، حسی امور کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اگر چہ عقل ادراکات حسی کی عمومیت اور اس کے مجرد عن المادہ ہونے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے شناخت علمی سے ،تجربی علوم مثلاً سائنس، لبیرٹری، اور زیست شناسی (علم حیات )جیسے علوم میں استفادہ کیا جاتا ہے۔

٢۔ شناخت عقلی : ایسی شناخت مفاہیم انتزاعی (معقولات ثانیہ) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اس میں اساسی اور بنیادی رول عقل کا ہوتا ہے ، ہر چند اس بات کا امکان ہے کہ بعض قضایا بہ عنوان مفا ھیم انتزاعی یا مقدمہ از قیاس ہونے کی وجہ سے حسی و تجربی ہوں ، اس شناخت کی وسعت منطق، علوم فلسفیہ، اور ریاضیات سب کو شامل ہے۔

٣۔ شناخت تعبدی : اس شناخت کی حثیت ثانوی ہے، جو (قابل اعتما د ماخذ و مدرک ) (اتورتیہ) اور صادق شخص کے خبر دینے کے ذیعہ حاصل ہوتی ہے وہ مطالب جو پیروان دین ، اپنے دینی رہنماہونے کے ناطے ان کے اقوال کو قبول کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ان کا یہ اعتقاد حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے اعتقاد سے کہیں زیادہ قومی ہوتا ہے جو اسی شناخت کا ایک حصہ ہے۔

٤۔شناخت شہودی : یہ شناخت دوسری اقسام کے بر خلاف مفہوم ذ ہنی کے واسطہ کے بغیر معلوم ذات عینی سے متعلق ہوتی ہے، جس میں کسی قسم کے اشتباہ کا امکان نہیں رہ جاتا لیکن جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جو کچھ بھی شہودی اور عرفانی کے نام سے بیان کیا جاتا ہے در حقیقت شھودات کی ایک ذہنی تفسیر ہوتی ہے جو قابل خطا ہے۔(۲)

معرفت کی قسمیں

شناخت کی قسمیں جن اصولوں کی بنیاد پر بیان کی گئیں ہیں انھیں اصولوں کے ذریعہ جہاں بینی کی بھی تقسیمات کی جاسکتی ہیں۔

١۔ معرفت علمی: یعنی انسان ،علوم تجربی کے ذریعہ حاصل ہونے والے نتائج کے ذریعہ ہستی کے سلسلہ میں ایک کلی معلومات حاصل کر ے۔

٢۔ معرفت فلسفی: وہ معرفت جو از راہ استدلال اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہو ۔

٣۔ معرفت دینی: وہ معرفت جو رہبران دین پر ایمان رکھنے اور ان کی گفتار کو قبول کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

٤۔ معرفت عرفانی: وہ معرفت جو کشف و شہود اور اشراق کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعا جہان بینی کے بنیادی مسائل کو انھیں چار تقسیموں کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، تا کہ ان میں کسی ایک کے برتر ہونے کا سوال پیدا نہ ہو ۔

تنقید۔

حس و تجربی شناخت کی وسعت اور مادی و طبیعی قضایا میں محدودیت کی وجہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ علوم تجربی کی بنیاد پر معرفت کے اصول کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اس سے مربوط مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ اس کے مسائل علوم تجربی کی حدود سے خارج ہیں، اور علوم تجربی میں ان مسائل کے تحت نفی و اثبات کا امکان نہیں ہے، جس طرح سے کہ وجود خدا کو آزمائشوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، یا (العیاذ باللہ) اسکی نفی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ علوم تجربی کے آلات ماوراء طبیعت تک پہنچنے سے قاصر ہیں، بلکہ ان کے ذریعہ تنہا مادی قضایا میں اثبات و نفی کا حکم صادر کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا علمی و تجربی معرفت (اپنے اصطلاحی معنی ) کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہے اور اسے صحیح معنوں میں کلمہ معرفت سے یاد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے '' جہان مادی کی شناخت'' کا نام دیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ ایسی شناخت معرف کے بنیادی مسائل کا جواب نہیں دے سکتی۔

لیکن وہ شناخت جو تعبدی روش کے ذریعہ حاصل ہو ، جسیا کہ ہم نے اشارہ بھی کیا ہے اس کی ایک ثانوی حثیت ہے، کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے مصدر یامصادر کا اعتبار ثابت ہوچکا ہو، یعنی پہلے مرحلہ میں کسی کی بعثت ثابت ہو تا کہ اس کے پیغامات کو معتبر سمجھاجاسکے، اور ہر امر سے پہلے پیغام ارسال کرنے والے یعنی وجود خدا کا اثبات ہونا چاہیے، لہٰذا یہ بات بطور کامل روشن ہے کہ خود پیغام ارسال کرنے والے کا وجود اور کسی پیغمبر کے وجود کو پیغام کے مستند ہونے کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا ، جیسے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ قرآن کہتا ہے ''خدا ہے'' پس اس کا وجود ثابت ہے، البتہ وجود خدا کے اثبات، شناخت پیغمبر اور حقانیت قرآن کے بعد ''مخبرصادق'' اور '' منا بع معتبر'' کے ذریعہ، تمام فرعی مسائل اور احکامات کو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی مسائل کو سب سے پہلے حل کرنا ضروری ہے، پس معلوم یہ ہو ا کہ روش تعبدی بھی بنیادی مسائل کے حل کے لئے نا کافی ہے، لیکن اشراقی عرفانی روش کے سلسلہ میں بہت طولانی بحث ہے۔

پہلے یہ کہ مسائل جہان بینی ایک ایسی شناخت ہے جو ذہنی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن متن شہود میں اسکا کوئی مقام نہیں ہے لہذا ایسے مفاہیم کے سلسلہ میں شہودپر اعتماد کرنا سھل انگاری اور ان کے ارادوں کے مطابق ہوگا۔

دوسرا یہ کہ : الفاظ و مفاہیم کے قالب میں شہودات کی تفسیر اور انھیں بیان کرنا، ایک قوی ذہن کا کام ہے، جسے عقلی کاوشوں اورفلسفی تحلیلوں میں ایک طولانی مدت تک جانفشانیوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا جو لوگ ایسے ذہن کے حامل نہیں ہوتے وہ اپنی تعبیرات میں متشابہ مفاہیم کا استعمال کرتے ہیں جو گمراہی کے عظیم عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ : بہت سے مقامات پر جو چیز واقعاً شہود میں آشکار ہوتی ہے خیالی انعکاس

اور ذہنی تفسیر کی وجہ سے خود خود مشاہدہ کرنے والے کے لے ، شک و تردید کا باعث ہوتی ہے۔

چوتھے یہ کہ : ان حقائق کی جستجو جسے تفسیر ذہنی (معرفت) کا نام دیا جاتا ہے سیر و سلوک میں سالہا سال زحمت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، سیر و سلوک کی روش کو قبول کرنا علمی شناخت کا ایک حصہ ہے، جس میں معرفت کے بنیادی مسائل اور مبانی نظری سے واقف ہونے کی ضرورت ہے،لہٰذا سیر و سلوک میں سفر سے پہلے ان مسائل کا حل کرنا ضروری ہے تا کہ نتیجہ میں کشف و شہود حاصل ہو سکے درں حالیکہ شہود ی شناخت کا مرحلہ انجام کار ہے اصولاً عرفان حقیقی اس کو حاصل ہوتا ہے جو راہ خدا میں خالصةً لوجہ اللہ(صرف خدا کی مرضی کے لئے) زحمت اٹھائے اورایسی سعی و کوشش راہ بندگی و اطاعت میں شناخت خدا پر منحصر ہے، جسے سب سے پہلے حاصل کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ:

اس تحقیق کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ تنہا وہ راستہ جس نے معرفت شناسی کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کے سامنے راہیں ہموار کی ہیں وہ راہ عقل اور روش تدبر و تفکر ہے، اور اس لحاظ سے جہان بینی واقعی کو جہان بینی فلسفی تسلیم کرناچاہیے ۔

البتہ عقل کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنا اور معرفت کو فلسفی مباحث میں منحصر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحیح معرفت حاصل کرنے کے لئے تمام فلسفی مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے بلکہ اس راہ میں صرف بد یہی اور چند مسائل کا حل کر لینا ہی کافی ہے کہ جو معرفت کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، اگر چہ اس کے باوجود ایسے مسائل اور اسی قسم کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے فلسفی مہارتوں کا زیادہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح شناخت عقلی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے مفید طریقہ شناخت کو بہ روی کار لانے کا مطلب یہ نہیں ہے بقیہ معلومات کو ترک کردیا جائے بلکہ بہت سے عقلی استدلالات میں ان مقدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جو علم حضوری یا حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، جس طرح سے کہ ثانوی مسائل اورفرعی اعتقادات کو حل کرنے کے لئے تعبدی شناخت کا سہارالیا جاسکتا ہے اور انھیں کتاب و سنت (دین کے معتبر منابع) کی اساس پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔

صحیح معرفت اور آئیڈیالوجی کو حاصل کرنے کے بعد سیر و سلوک کے مراحل کو طے کرنے کے لے مکاشفات و مشاھدا ت کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور بہت سے وہ مسائل جو عقلی استدلالات کے ذریعہ حل ہوتے ہیں انھیں ذہنی مفاہیم کے واسطہ کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سوالات

١۔ شناخت انسان کی اقسام اور ہر ایک کی وسعت کو بیان فرمائیں؟

٢۔ معرفت کی کتنی قسمیں تصور کی جا سکتی ہیں؟

٣۔ معرفت کے بنیادی مسائل کس طرح ثابت کئے جا سکتے ہیں؟

٤۔ جہان بینی علمی ( معرفت علمی ) پر تنقید و تبصرہ کریں؟

٥۔ معرفت کے مسائل کو بیان کرنے کے لئے تجربی شناختوں سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٦۔ عقیدتی مسائل کے اثبات میں کس طرح اور کن موارد میں تعبدی شناختوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٧۔ معرفت عرفانی کی تعریف کریں؟ اور کیا شہود عرفانی کے ذریعہ معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے؟

____________________

(۱) اس سلسلہ میں مزید اطلاع حاصل کرنے کے لئے اس کتاب کے ددوسرے حصہ ''آموزش فلسفہ'' اور مقالہ ''شناخت'' جو کتاب پاسداری از سنگرھای ایدۓولوژیک'' میں ہے، اور ایدۓولوژی تطبیقی کے درورس میں سے پانچویں درس سے سولہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے

(۲) رجوع فرمائیں، آموزش فلسفہ۔ تیرہوان درس.

دوسرا درس

دین میں تحقیق

تحقیق کے عوامل

دین میں تحقیق کی اہمیت

ایک شبہ کا حل

تحقیق کے عوامل

انسان کی نفسانی (روحانی و معنوی) خصوصیات میں سے ایک خاصیت حقائق اور واقعیات کا پتہ لگانا ہے جو ہر انسان میں آغاز ولادت سے پایا جاتا ہے، اور عمر کی آخری سانسوں تک یہ غریزۂ فطری باقی رہتا ہے، یہی حقیقت جوئی کی فطرت جسے ''حس کنجکاوی'' بھی کہا جاتا ہے انسان کو دین کے دائرے میں موجودہ مسائل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اور دین حق کی شناخت کے لئے آمادہ کرتی ہے، جیسے:کیا غیر مادی اور غیرمحسوس شیء (غیب) کا وجود ہے؟ اور اگر ایسا کچھ ہے تو پھر کیا جہان مادی و محسوس اور جہان غیب میں کوئی ربط ہے؟ اور اگر ان دونوں میں ربط ہے تو پھر کیا کوئی نا محسوس موجود ہے جو اس جہان مادی کا خالق ہو؟

کیا انسان کا وجود اسی مادی بدن میں منحصر ہے ؟اور اس کی حیات صرف اسی دنیا سے مخصوص ہے یا اس دنیوی د زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے؟ اور اگر انسان کے لئے ایک دوسری زندگی آخرت ہے تو کیا اس دنیاوی زندگی اور اس آخرت میں کوئی ربط ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی ربط ہے تو پھر

امور دنیوی میں کون سے امور آخرت کی زندگی میں مؤثر ہیں؟ اور کون سا راستہ زندگی کو صحیح گذارنے کے طور طریقہ کی پہچان کے لئے ہے؟ ایسا طور طریقہ جو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کی ضمانت دے؟ اور وہ طور طریقہ کیا ہے؟

پس حقیقت جوئی کی فطرت وہ اولین عامل ہے جو انسان کو مسائل کی جستجو منجملہ دینی مسائل اور دین حق کو پہچاننے کے لئے ابھارتی ہے۔

حقیقت کی شناخت کے لئے انسانی فطرت میں جو عوامل جوش و ولولہ کا سبب بنتے ہیں ان میں سے ایک ان تمام آرزؤں کو حاصل کرنا ہے جو ایک یا چند فطرتوں (حقائق کی شناخت کے علاوہ) سے متعلق اور کسی خاص معلومات پر منحصر ہیں، جیسے کہ مختلف دنیوی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا، علمی کوششوں کا نتیجہ ہے اور علوم تجربی کی کامیابیاں انسانوں کے لئے اپنی آرزؤں کے حصول میں نہایت مددگار ہیں، اسی طرح اگر دین ، انسان کے منافع و مصالح اور اس کی آرزؤں کو پورا کردے ،اور برے کاموں سے اسے روک دے تو یہ امر اس کے لئے نہایت مطلوب ہوگا، لہذا منفعت طلبی کی حس اور نقصان سے بچنے کی فطرت، دین میں اور زیادہ تحقیق و جستجو کی امنگ کو افزائش دینے کا سبب ہے۔

لیکن معلومات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے اور تمام حقائق کو درک کرنے کے لئے کافی و سائل کا ہونا ضروری ہے، یہ ممکن ہے کہ انسان تحقیق کے لئے ایسے مسائل کا انتخاب کرے کہ جنھیں حل کرنا آسان سہل الوصول اور محسوس ہو لیکن دینی مسائل کی جستجو سے صرف اس بناپر پرہیز کرتا رہے کہ ان کا حل کرنا مشکل اور کسی اہم علمی نتائج تک پہچنا ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے یہ امر ضروری ہے کہ لوگوں کے لئے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ دینی مسائل کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان مسائل میں تحقیق و جستجو بقیہ مسائل کی جستجو سے کاملاً متفاوت ہے۔

بعض ماہرین نفسیات کا عقیدہ ہے کہ اساساً خدا پرستی ایک مستقل آرزو ہے، جس کے سرچشمہ کو ''حس دینی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسے حس جستجو، حسن نیکی اور حسن زیبائی (خوبصورتی) میں انسانی روح کے لئے چوتھاپہلوشمار کیا جاتا ہے۔

ان لوگوں نے تاریخی شواہد کی رو سے یہ امر ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی کی حس ہر زمانہ میں مختلف شکلوں میں رہی ہے لہذا اس حس کا ہمیشگی اور اس طرح وسیع ہونا اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔

البتہ اس فطرت کے عمومی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام انسانو ںمیں زندہ و بیدار بھی ہو اور اسے مطلوب کی جانب بر انگخیتہ کرنے میں مدد بھی کرے ، بلکہ صحیح تربیت کے نہ ہونے اور فاسد معاشرہ کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی دوستی بہت ضعیف پڑ گئی ہو یا اسے اپنی صحیح مسیر پر حرکت کرنے سے منحرف کر دے ، جیسا کہ بقیہ تمام فطرتوں میں ضعف اور انحراف کا امکان ہے۔

اس نظریہ کے تحت دین میں تحقیق و جستجو ایک مشتعل فطرت ہے ، دلائل اور برہان کے ذریعہ اسے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس مطلب کو آیات و روایات کے ذریعہ مورد تائید قرار دیا جاسکتا ہے کہ جو دین کے فطری ہونے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن چونکہ اس میل فطری کی تاثیر آشکار نہیں ہے لہٰذا کوئی بحث و مباحثہ کے دوران اپنے موقف کی تائید میں اس کے وجود کا منکر ہو سکتا ہے اسی وجہ سے ہم تنہا اسی بیان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ عقلی دلائل کے ذریعہ اس حقیقت کو ثابت کریں گے۔

دین میں تحقیق۔

یہ حقیقت روشن ہوچکی ہے کہ ایک طرف حقائق کی شناخت کا فطری رجحان اور دوسری طرف حصول منفعت و مصلحت اور خطرات سے بچنے کی فطری خواہش ایک ایسا طاقتور عامل ہے جو تفکر و تحقیق اور علوم کی تحصیل میں نہایت مددگار ہے،یہی وجہ ہے جب کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ طول تاریخ میں بعض انسانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم پروردگار کی طرف سے انسانوں کو دوجہان کی سعادت تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں'' جنھوں نے اپنے پیغامات کے ابلاغ اور انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی بھی قسم کی زحمت اٹھانے سے دریغ نہیں کیا، اور تمام سختیوں کو اپنے لئے خریدا حتی کہ اپنی جانوں کو بھی اس ہدف کے تحت قربان کردیا، تو اس کے اندر دین میں تحقیق و جستجو کی ایک عجیب سی امنگ پیدا ہوتی ہے، اور وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ان لوگوںنے جو

دعویٰ کیا تھا کیا ان کا یہ دعوی درست اور منطقی دلائل کی رو سے صحیح تھا یا نہیں، خصوصاً یہ جزبہ بیداری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ا نھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے حیات جاودانی اور نعمت و سعادت کی بشارت دی ہے، عذاب دائمی اور ابدی شقاوت سے ڈرایا ہے، یعنی ان کی دعوت کو قبول کرلینا فراوان نعمتوں کے حصول کا موجب اور اس سے انکار کرنا دائمی خسران کا سبب ہے، ان سب حقائق کے جاننے کے بعد کون شخص دین سے غفلت کے لئے عذر پیش کرسکتا ہے اور دین کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو سے منہ پھیر سکتا ہے؟

ہاں! ممکن ہے کہ بعض اشخاص، آرام طلب اور کاہل ہونے کی وجہ سے یہ تحقیق انجام نہ دیں یا پھر دین کے قبول کرلینے کے بعد اس کی پابندیوں اور بعض نفسانی خواہشوں پر ر وک لگ جانے کی وجہ سے دین میں جستجو کرنے سے پرہیز کریں۔(۱)

لیکن ایسے اشخاص کو اپنی آرام طلب طبیعت کی سزا بھگتنا ہوگی، اور عذاب ابدی میں گرفتار ہونا ہوگا ایسے لوگوں کی حالت ان بچوں سے بھی بد تر ہے جو دوائوں کی تلخی کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور اپنے لئے حتمی موت کو دعوت دے د یتے ہے، اس لئے کہ یہ بچے اپنے فائدہ و نقصان کو سمجنے کے سلسلہ میں کافی عقل و شعور نہیں رکھتے ڈاکٹر کی ہدایتوں سے مخالفت دنیا کی چند روزہ نعمتوں سے محرومی سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بالغ انسان ،سود و زیاں کو درک کرنے اور جلد ختم ہوجانے والی نعمتوں کے سلسلہ میں غور و فکر کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن نے اپنے غافل انسانوں کو حیوانات سے بھی زیادہ گمراہ جانا ہے۔

( اُولَئِکَ کَالاَنعَامِ بَل هُم اَضَلُّ، اُولَئِکَ هُمُ الغَفِلُونَ ) (۲) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گزرے، یہی لوگ ( امور حق سے) بالکل بے خبر ہیں۔

ایک اور مقام پر حیوانات سے بدتر کہا ہے۔

( اِنَّ شَرَّ الدَّوآبٍّ عِندَ اللّهِ الصُمُّ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ ) (۳)

اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرہ گونگے (کفّار ) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے

ایک شبہ کا حل۔

اس مقام پر شاید کوئی شحص اپنے لئے یہ بہانا نہ پیش کرے کہ ایک مسئلہ کے تحت تنہا اسی صورت میں تحقیق و جستجو مفید ہے کہ جب اس کے حل کی امید ہو لیکن ہم دین اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں ایسی فکر کے مالک نہیں ہیں، اسی وجہ سے اپنی طاقت کو ایسے امور میں صرف کرنے کی بجائے کیوں نہ ایسے موارد میں صرف کریں جس میں زیادہ سے زیادہ نتیجہ بر آمد ہونے کی توقع ہو ، ایسے شخص کا جواب اس طرح دیں گے ۔

سب سے پہلے یہ کہ: دین کے اساسی مسائل کو حل کرنا کسی بھی صورت میں علمی مسائل کے حل کرنے سے کم نہیں ہے اور اس بات کو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض مشکل مسائل کا حل دانشمندوں کے سالہا سال کی زحمتوں کا نتیجہ ہے ۔

دوسرا یہ کہ : احتمال کی قدر و قیمت تنہا ایک عامل کے تابع (مقدار احتمال) نہیں ہے، بلکہ اس درمیان متحمل کی مقدار کو بھی جاننا ہوگا، مثلاً اگر ایک اقتصادی تجارت میں منفعت ٥% اور دوسری تجارتوں میں ١٠ % ہو لیکن اگر پہلی والی تجارت میں متحمل کی منفعت ایک ہزار روپیہ اور دوسری

تجارت میں ایک لاکھ ر وپیہ ہو تو پھر پہلی تجارت پانچ گونہ دوسری تجارت پر فوقیت رکھتی ہے اگر چہ پہلی تجارت میں مقدار احتمال ٥ % فیصد جودوسری تجارت کی مقدار احتمال ١٠% کا نصف ہے(۴)

چونکہ دین میں تحقیق کی منفعت کا احتمال بے شمار ہے ہر چند قطعی نتیجہ ہے کہ دستیابی کا احتمال ضعیف ہو، لیکن اس راہ میں تحقیق اور کوشش ہر اس راہ سے زیادہ ہے جسمیں نتیجہ محدود ہو، اور تنہا اسی صورت میں دینی مسائل میں ترک تحقیق قابل قبول ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ دین غیر درست اور اس کے مسائل قابل حل نہیں ہیں، لیکن ایسا یقین و اطمینان کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟!

سوالات

١۔ حقائق کی شناخت کے لئے انسان کا غریزہ کیا ہے؟

٢۔ کیوں انسان تمام حقائق کی تحقیق نہیں کرتا؟

٣۔ حس دینی کا مطلب کیا ہے؟ اور اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کون سی دلیل ذکر کی گئی ہے؟

٤۔ اصول دین میں تحقیق کی ضرورت کو بیان کریں؟

٥۔ کیا دین کے قطعی مسائل کو حل کرنے کی امید نہ ہونے کو، ترک تحقیق کے لئے عذر بنایا جاسکتا ہے؟

__________________

(١) ''بل یرید الانسان لیفجرامامه'' . سورۂ قیامت ۔آیت٥/. ترجمہ: مگر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی (ہمیشہ) برائی کرتا جائے

(٢)سورۂ اعراف۔ آیت/ ١٧٩. وہ لوگ چو پائے بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں.

(۳)سورۂ انفال۔ آیت/ ٢٢. وہ لوگ تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے کفار ہیں جو حقائق کو درک نہیں کرتے.

(۴)٥٠: ٥٠٠٠١٠٠ضرب ١٠٠٠۔ ١٠: ١٠٠ ١٠٠٠ : ١٠١٠٠ ضرب ١٠٠۔ ٥: ١٠ تقسیم ٥٠.

تیسرا درس

انسان بن کے جینے کی شرط

مقدمہ

انسان کمال طلب ہے

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

نتیجہ

مقدمہ

گذشتہ درس میں آسان عبارتوں کے ذریعہ دین میں تحقیق اور دین حق کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی گئی کہ یہ امر منفعت جوئی اور ضرر سے بچنے کے لئے ایک فطری عامل ہے جسے ہر انسان اپنے وجود میں پاسکتا ہے(۱) یا علم حضوری اس کی تشخیص میں اشتباہ نہیں کرسکتا۔

اس درس میں اسی مطلب کو ایک دوسرے انداز میں ثابت کریں گے، جو دقیق مقدمات پرمشتمل ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کرے، جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کا معتقد نہ ہو وہ کمال انسانی کو حاصل نہیں سکتا، بلکہ اسے سرے سے ایک حقیقی انسان نہیں مانا جاسکتا یا دوسری تعبیرکے مطابق انسان بن کے جینے کے لئے جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔

یہ دلیل تین مقدمات پر مشتمل ہے۔

١۔انسان ایک کمال جو (کمال طلب) موجود ہے۔

٢۔ کمال انسانی حکم عقل کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اختیاری کردار کے سایہ میں حاصل ہوتا ہے۔

٣۔ عقل کے احکام عملی ایک خاص نظری شناخت کے پرتو میں آشکار ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہترین جہان بینی کے تین اصول ہیں، یعنی مبدا وجود کی شناخت (توحید) حیات کا انجام(معاد) حاصل کرنے کے لئے ضمانت شدہ راستہ (نبوت) یا ہستی کی پہچان انسان کے پہچان اور راہ کی پہچان ہے اب اس کے بعد ان تینوں مقدمات کی وضاحت کے ساتھ بحث کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انسان کمال طلب ہے۔

اگر انسان اپنے باطنی اور رو حی (معنوی) میلانات میں غور و فکر کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ یہ سارے تمایلات ایک مخصوص ہدف کی جانب گامزن ہیں، اصولاً کوئی بھی انسان اس بات کو پسند نہیں کرتا، کہ اس کے وجود میں کوئی نقص ہو اور اپنی پوری تاب و توانائی کے ساتھ اپنے ذاتی عیوب و نقائص کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے تا کہ اپنے مطلوب ہدف تک پہنچ سکے، اور جب تک وہ عیوب دور نہیں ہوتے انھیں لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھتا ہے۔

یہ میلانات جب اپنی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں تو یہی مادی و معنوی تکامل (کمال کی طرف جانے) کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن اگر اسباب و شرائط کی بنیاد پر یہی میلانات انحرافی مسیر پر گامزن ہوجائیں تو غرور و گھمنڈ، ریا کاری اور خودخواہی جیسی بری صفت انسان کے اندر پیدا جاتی ہے

بہر حال کمال طلبی کی صفت ایک قوی فطرت ہے جو روح انسان میں پائی جاتی ہے ، جس کے واضح نمونہ اور آثار بخوبی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں لیکن ایک معمولی توجہ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سب کا ریشہ وہی کمال جوئی ہے۔

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے۔

نباتات کا رشد کرنا خارجی اسباب و شرائط کا نتیجہ اور ایک جبری امر ہے ،کوئی بھی درخت اپنے اختیار سے رشد نہیں کرتا، اور اپنی مرضی کے مطابق پھل نہیں دیتا، اس لئے کہ وہ ارادہ اور شعور کا حامل نہیں ہے۔

لیکن جانوروں کے رشد و نمو میں انتخاب کے آثار مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ارادہ و انتخاب اپنی طبیعی تقاضوں کے مطابق ایک محدود دائرے میں غرائز ہ حیوانی کے تحت ہر حیوان کی اپنی حسی قوت کے مطابق ایک محدود شعور کے پر تو میں ہے۔

لیکن انسان کی ذات نباتاتی و حیوانی خواصیات کے حامل ہونے کے علاوہ دورو حانی امتیازی پہلوؤں کا بھی مالک ہے، ایک طرف تو اس کے فطری میلانات اور خواہشات کے لئے کوئی حد مقررنہیں ہے اور دوسری طرف اس کی قوت عقل کی کامل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معلومات کو بے نہایت بنا سکتا ہے، ان دونوں خصوصیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کے ارادوں کی وسعت طبیعت کے حدود سے بھی کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔

جس طرح نباتات کے کمالات ایک خاص نباتی طاقت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور حیوانی کمالات انھیں حسی ادراکات کے نتیجہ پائے جانے والے ارادوں کی وجہ سے ہے اسی طرح انسانی کمالات کا سر چشمہ در واقع اس کا روحانی پہلو ہے جو عقل اور ارادوں کے ذریعہ حاصل ہوتے

ہیں، وہ عقل کہ جو مطلوب کے مراتب کو پہچان لے اور تزاحم(اھم اور مھم کو سمجھنے کے وقت ان میں سے بہترین کو ترجیح دے۔

لہٰذا رفتار و کردار کے انسانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عقل کی راہنمائی میں انسانی میلانات کے ذریعہ وجود میں آنے والے ارادوں کے ذریعہ حاصل ہو اور وہ عمل جو صرف اور صرف حیوانی غرائز کے ذریعہ عمل میں آئے، وہ حیوانی ہے جس طرح کہ وہ حرکت جو مکینکی طاقت کے ذریعہ انسانی بدن میں پیدا ہوتی ہے وہ ایک فیزیکی(طبیعی حرکت ہے۔

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

اختیاری عمل ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مطلوب نتیجہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس کی قدر و قیمت اس کے ہدف کے مطابق ہے جو روح کے تکامل(کمال کی طرف جانے) میں اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا جو عمل بھی کسی روحی کمال کے خاتمہ کا سبب ہے اس کی قدر و قیمت منفی ہوگی۔

لہذا اسی صورت میںعقل ، انسان کے اختیاری اعمال پر قضاوت کرسکتی ہے کہ جب انسانی کمالات اور ان کے مراتب سے پوری طرح آگاہ ہو، اور اچھی طرح سے جانتی و پہچانتی ہو کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اوراس کی زندگی کی شعاعوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اور وہ کمالات کے کتنے مدارج طے کرسکتا ہے؟ یا دوسری تعبیر کے مطابق اس کے وجود کے کتنے پہلو ہیں ؟اور اس کی خلقت کامقصد وہدف کیا ہے؟

اسی وجہ سے صحیح آئیڈیالوجی کا حاصل کرنا، یعنی اختیار ی اعمال پر ایک پرُ ارزش نظام کا حاکم صحیح جہان بینی اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی راہ میں ایک قدم ہے ، لہٰذا جب تک وہ ان مسائل کو حل نہیں کرتا اس وقت تک کردار و اعمال کے سلسلہ میں کوئی قطعی قضاوت نہیں کر سکتا، جس طرح سے کہ جب تک ہدف معلوم نہیں ہوتا اس وقت تک اس ہدف تک جانے والے راستہ کی تعیین غیر ممکن

ہے، لہذا یہ معارفِ نظری جو جہان بینی کے اساسی مسائل کو تشکیل دیتے ہیں حقیقت میں اسے عقل احکام عملی اور باارزش نظام کے مبنیٰ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

نتیجہ۔

ان مقدمات کی تشریح کے بعد اب ہم دین میں تحقیق کی ضرورت، صحیح آئیڈیا لوجی اور جہان بینی کو اس طرح ثابت کر یں گے۔

انسان اپنی فطرت کی وجہ سے اپنے انسانی کمال کی جستجو میں ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے مطلوبہ کمال کو حاصل کرلے، لیکن قبل اس کے کہ وہ ان امور کو پہچانے جو اسے کمال تک پہنچاسکتے ہیںضروری ہے کہ وہ اپنے انتہائی کمال کو پہچانے، اور اس انتہائی کمال کا جاننا اپنے وجود کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام کے بارے میں اطلاع حاصل کرنے میں ہے اس کے بعد اپنے کمال کے مختلف مراتب میں مختلف اعمال کے درمیان موجود، رابطہ کے مثبت یامنفی ہونے کو تشخیص دے، تا کہ وہ اس طرح اپنے انسانی کمال کے صحیح راستہ کو پہچان سکے، لہٰذا جب تک وہ نظری شناخت (اصول جہان بینی) کو حاصل نہیں کرتا اس وقت تک صحیح عملی نظام (آئیڈیالوجی) کو قبول نہیں کرسکتا۔

لہذا دین حق کی معرفت حاصل کرنا جو صحیح جہان بینی اور آئیڈیالوژی کو شامل ہے ضروری ہے اور اس کے بغیر کمال انسانی تک پہنچنا غیر ممکن ہے جیسا کہ وہ رفتار جوایسے افکار و اقدار کا نتیجہ نہ ہو وہ انسانی نہیں ہو سکتی یا وہ لوگ جو انھیں جاننے کے باوجود انکار کرتے ہیں، تنہا اپنی حیوانی خواہشات اور جلد ختم ہو نے والی مادی نعمتوں پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی اھمیت اصل میں ایک حیوان سے زیادہ نہیں ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے

'( 'یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الاَنعَامُ'' ) .(۲)

وہ دنیا میں سکون حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ( بے فکری سے) کھاتے پیتے ہیں جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں ۔

چونکہ وہ لوگ اپنی انسانی صلاحیتوں کو تباہ کرتے ہیں لہٰذا درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے

( ''ذَرهُم یَأکُلُوا وَیَتَمَتَعُوا وَیُلهِهِمُ الاَمَلُ فَسَوفَ یَعلَمُونَ'' ) .(۳)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں انھیں کی حالت پر چھوڑ دیجئے تا کہ (خوب )عیش و نوش کر لیں اور ( زندگی کے ) مزے اڑالیں اور ان کی تمنا ئیں انہیں لہو و لعب میں مشغول رکھے عنقریب وہ جان لیں گے ۔

سوالات

١۔ دین میں تحقیق کی دوسری دلیل کن مقدمات پر مشتمل ہے؟

٢۔ انسانی کمال طلبی کی وضاحت کریں؟

٣۔ انسان کی مہم خصوصیات کو بیان کریں؟

٤۔مذکورہ خصوصیات اور ان کے حقیقی کمال میں کیا رابطہ ہے؟

٥۔ کسی طرح آئیڈیالوژی، جہان بینی پر منحصر ہے؟

٦۔ دوسری دلیل کی منطقی صورت بیان کریں؟

__________________

(۱)اس دلیل کی شکل کچھ اسطرح ہے اگر منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے۔ ایسے

دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا جو بے نہایت منفعت کی طرف راہنمائی اور عظیم ضرر سے نجات دینے کا مدعی ہے ضروری ہے (تحقق معلول کے لئے علت ناقصہ ضرورت بالقیاس ہے) لیکن منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے، لہذا ایسے دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ضروری ہے۔

یہ استدلال جسے ''قیاس استثنائی'' کی شکل میں بیان کیا گیا ہے عقل کے احکامِ عملی اور ضرورت بالقیاس کی طرف ان کی باز گشت کے سلسلہ میں ایک خاص منطقی تحلیل ہے جو معلول (نتیجہ مطلوب) تک پہنچنے کے لئے ایک علت (فعل اختیاری) ہے، جیسا کہ اسے بیان کیا جاچکا ہے۔

اس درس میں یعنی مورد بحث دلیل کو اس شکل میں بیان کیاجاسکتا ہے، اگر کمال انسانی تک پہنچنا مطلوب فکری ہو تو اصول جہان بینی کی پہچان جو تکامل روح کے لئے شرط ہے ضروری ہوگا، لیکن کمال تک پہنچنا مطلوب فطری ہے، لہٰذا ان اصول کا جاننا ضروری ہے۔

(۲)سورۂ محمد۔ آیت/ ١٢ ۔ وہ حیوانوں کی طرح زندگی گذارتے ہیں اور کھاتے ہیں۔

(۳)سورۂ حجر۔ آیت/ ٣. انھیں ،انھیں کے حال پر چھوڑدیں کہ کھائیں اور زندگی گذاریں اور ان کی دنیوی آرزوئیں انھیں مگن رکھیں کہ عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا.

چوتھا درس

جہان بینی کے بنیادی مسائل کا راہ حل

مقدمہ

شناخت کی قسمیں

معرفت کی قسمیں

تنقید

نتیجہ

مقدمہ:

جب ایک انسان معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور دین حق کے اصول و قواعدکی پہچان کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو وہ پہلے ہی مرحلہ میں ان سوالوں کاسامنا کرتاہے کہ وہ کس طرح ان مسائل کو حل کرے؟ کس طر یقہ سے بنیادی اور صحیح معارف کو حاصل کرے؟ اور اصولاً ان کی شناخت کے راستے کیا ہیں؟ نیز ان میں سے کسے ان معارف تک پہنحنے کے لئے انتخاب کرے؟

ان مطالب پر فنی اور تفصیلی گفتگو کرنے کے لے فلسفہ کی ایک بحث ا(شیاء کی معرفت) (اپیستمولوژی) کا سہارا لینا ضروری ہے ،' کہ جسمیں شناخت انسان کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے، اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ہم یہاں پر ان تمام پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے اس لئے کہ وہ ہمیں اس کتاب میں اصل ہدف سے دور کردیں گے، اس وجہ سے ان میں سے فقط بعض کے بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے،اور مزید تحقیق کے لے (انشاء اﷲ)ہم ضرورت پڑنے پر اشارہ کریں گے(۱)

شناخت کی قسمیں ۔

انسان کی اس شناخت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

١۔ شناخت علمی( تجربی) (خاص اصطلاح میں) یہ شناخت، حسی امور کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اگر چہ عقل ادراکات حسی کی عمومیت اور اس کے مجرد عن المادہ ہونے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے شناخت علمی سے ،تجربی علوم مثلاً سائنس، لبیرٹری، اور زیست شناسی (علم حیات )جیسے علوم میں استفادہ کیا جاتا ہے۔

٢۔ شناخت عقلی : ایسی شناخت مفاہیم انتزاعی (معقولات ثانیہ) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اس میں اساسی اور بنیادی رول عقل کا ہوتا ہے ، ہر چند اس بات کا امکان ہے کہ بعض قضایا بہ عنوان مفا ھیم انتزاعی یا مقدمہ از قیاس ہونے کی وجہ سے حسی و تجربی ہوں ، اس شناخت کی وسعت منطق، علوم فلسفیہ، اور ریاضیات سب کو شامل ہے۔

٣۔ شناخت تعبدی : اس شناخت کی حثیت ثانوی ہے، جو (قابل اعتما د ماخذ و مدرک ) (اتورتیہ) اور صادق شخص کے خبر دینے کے ذیعہ حاصل ہوتی ہے وہ مطالب جو پیروان دین ، اپنے دینی رہنماہونے کے ناطے ان کے اقوال کو قبول کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ان کا یہ اعتقاد حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے اعتقاد سے کہیں زیادہ قومی ہوتا ہے جو اسی شناخت کا ایک حصہ ہے۔

٤۔شناخت شہودی : یہ شناخت دوسری اقسام کے بر خلاف مفہوم ذ ہنی کے واسطہ کے بغیر معلوم ذات عینی سے متعلق ہوتی ہے، جس میں کسی قسم کے اشتباہ کا امکان نہیں رہ جاتا لیکن جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جو کچھ بھی شہودی اور عرفانی کے نام سے بیان کیا جاتا ہے در حقیقت شھودات کی ایک ذہنی تفسیر ہوتی ہے جو قابل خطا ہے۔(۲)

معرفت کی قسمیں

شناخت کی قسمیں جن اصولوں کی بنیاد پر بیان کی گئیں ہیں انھیں اصولوں کے ذریعہ جہاں بینی کی بھی تقسیمات کی جاسکتی ہیں۔

١۔ معرفت علمی: یعنی انسان ،علوم تجربی کے ذریعہ حاصل ہونے والے نتائج کے ذریعہ ہستی کے سلسلہ میں ایک کلی معلومات حاصل کر ے۔

٢۔ معرفت فلسفی: وہ معرفت جو از راہ استدلال اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہو ۔

٣۔ معرفت دینی: وہ معرفت جو رہبران دین پر ایمان رکھنے اور ان کی گفتار کو قبول کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

٤۔ معرفت عرفانی: وہ معرفت جو کشف و شہود اور اشراق کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعا جہان بینی کے بنیادی مسائل کو انھیں چار تقسیموں کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، تا کہ ان میں کسی ایک کے برتر ہونے کا سوال پیدا نہ ہو ۔

تنقید۔

حس و تجربی شناخت کی وسعت اور مادی و طبیعی قضایا میں محدودیت کی وجہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ علوم تجربی کی بنیاد پر معرفت کے اصول کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اس سے مربوط مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ اس کے مسائل علوم تجربی کی حدود سے خارج ہیں، اور علوم تجربی میں ان مسائل کے تحت نفی و اثبات کا امکان نہیں ہے، جس طرح سے کہ وجود خدا کو آزمائشوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، یا (العیاذ باللہ) اسکی نفی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ علوم تجربی کے آلات ماوراء طبیعت تک پہنچنے سے قاصر ہیں، بلکہ ان کے ذریعہ تنہا مادی قضایا میں اثبات و نفی کا حکم صادر کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا علمی و تجربی معرفت (اپنے اصطلاحی معنی ) کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہے اور اسے صحیح معنوں میں کلمہ معرفت سے یاد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے '' جہان مادی کی شناخت'' کا نام دیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ ایسی شناخت معرف کے بنیادی مسائل کا جواب نہیں دے سکتی۔

لیکن وہ شناخت جو تعبدی روش کے ذریعہ حاصل ہو ، جسیا کہ ہم نے اشارہ بھی کیا ہے اس کی ایک ثانوی حثیت ہے، کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے مصدر یامصادر کا اعتبار ثابت ہوچکا ہو، یعنی پہلے مرحلہ میں کسی کی بعثت ثابت ہو تا کہ اس کے پیغامات کو معتبر سمجھاجاسکے، اور ہر امر سے پہلے پیغام ارسال کرنے والے یعنی وجود خدا کا اثبات ہونا چاہیے، لہٰذا یہ بات بطور کامل روشن ہے کہ خود پیغام ارسال کرنے والے کا وجود اور کسی پیغمبر کے وجود کو پیغام کے مستند ہونے کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا ، جیسے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ قرآن کہتا ہے ''خدا ہے'' پس اس کا وجود ثابت ہے، البتہ وجود خدا کے اثبات، شناخت پیغمبر اور حقانیت قرآن کے بعد ''مخبرصادق'' اور '' منا بع معتبر'' کے ذریعہ، تمام فرعی مسائل اور احکامات کو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی مسائل کو سب سے پہلے حل کرنا ضروری ہے، پس معلوم یہ ہو ا کہ روش تعبدی بھی بنیادی مسائل کے حل کے لئے نا کافی ہے، لیکن اشراقی عرفانی روش کے سلسلہ میں بہت طولانی بحث ہے۔

پہلے یہ کہ مسائل جہان بینی ایک ایسی شناخت ہے جو ذہنی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن متن شہود میں اسکا کوئی مقام نہیں ہے لہذا ایسے مفاہیم کے سلسلہ میں شہودپر اعتماد کرنا سھل انگاری اور ان کے ارادوں کے مطابق ہوگا۔

دوسرا یہ کہ : الفاظ و مفاہیم کے قالب میں شہودات کی تفسیر اور انھیں بیان کرنا، ایک قوی ذہن کا کام ہے، جسے عقلی کاوشوں اورفلسفی تحلیلوں میں ایک طولانی مدت تک جانفشانیوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا جو لوگ ایسے ذہن کے حامل نہیں ہوتے وہ اپنی تعبیرات میں متشابہ مفاہیم کا استعمال کرتے ہیں جو گمراہی کے عظیم عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ : بہت سے مقامات پر جو چیز واقعاً شہود میں آشکار ہوتی ہے خیالی انعکاس

اور ذہنی تفسیر کی وجہ سے خود خود مشاہدہ کرنے والے کے لے ، شک و تردید کا باعث ہوتی ہے۔

چوتھے یہ کہ : ان حقائق کی جستجو جسے تفسیر ذہنی (معرفت) کا نام دیا جاتا ہے سیر و سلوک میں سالہا سال زحمت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، سیر و سلوک کی روش کو قبول کرنا علمی شناخت کا ایک حصہ ہے، جس میں معرفت کے بنیادی مسائل اور مبانی نظری سے واقف ہونے کی ضرورت ہے،لہٰذا سیر و سلوک میں سفر سے پہلے ان مسائل کا حل کرنا ضروری ہے تا کہ نتیجہ میں کشف و شہود حاصل ہو سکے درں حالیکہ شہود ی شناخت کا مرحلہ انجام کار ہے اصولاً عرفان حقیقی اس کو حاصل ہوتا ہے جو راہ خدا میں خالصةً لوجہ اللہ(صرف خدا کی مرضی کے لئے) زحمت اٹھائے اورایسی سعی و کوشش راہ بندگی و اطاعت میں شناخت خدا پر منحصر ہے، جسے سب سے پہلے حاصل کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ:

اس تحقیق کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ تنہا وہ راستہ جس نے معرفت شناسی کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کے سامنے راہیں ہموار کی ہیں وہ راہ عقل اور روش تدبر و تفکر ہے، اور اس لحاظ سے جہان بینی واقعی کو جہان بینی فلسفی تسلیم کرناچاہیے ۔

البتہ عقل کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنا اور معرفت کو فلسفی مباحث میں منحصر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحیح معرفت حاصل کرنے کے لئے تمام فلسفی مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے بلکہ اس راہ میں صرف بد یہی اور چند مسائل کا حل کر لینا ہی کافی ہے کہ جو معرفت کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، اگر چہ اس کے باوجود ایسے مسائل اور اسی قسم کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے فلسفی مہارتوں کا زیادہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح شناخت عقلی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے مفید طریقہ شناخت کو بہ روی کار لانے کا مطلب یہ نہیں ہے بقیہ معلومات کو ترک کردیا جائے بلکہ بہت سے عقلی استدلالات میں ان مقدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جو علم حضوری یا حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، جس طرح سے کہ ثانوی مسائل اورفرعی اعتقادات کو حل کرنے کے لئے تعبدی شناخت کا سہارالیا جاسکتا ہے اور انھیں کتاب و سنت (دین کے معتبر منابع) کی اساس پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔

صحیح معرفت اور آئیڈیالوجی کو حاصل کرنے کے بعد سیر و سلوک کے مراحل کو طے کرنے کے لے مکاشفات و مشاھدا ت کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور بہت سے وہ مسائل جو عقلی استدلالات کے ذریعہ حل ہوتے ہیں انھیں ذہنی مفاہیم کے واسطہ کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سوالات

١۔ شناخت انسان کی اقسام اور ہر ایک کی وسعت کو بیان فرمائیں؟

٢۔ معرفت کی کتنی قسمیں تصور کی جا سکتی ہیں؟

٣۔ معرفت کے بنیادی مسائل کس طرح ثابت کئے جا سکتے ہیں؟

٤۔ جہان بینی علمی ( معرفت علمی ) پر تنقید و تبصرہ کریں؟

٥۔ معرفت کے مسائل کو بیان کرنے کے لئے تجربی شناختوں سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٦۔ عقیدتی مسائل کے اثبات میں کس طرح اور کن موارد میں تعبدی شناختوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٧۔ معرفت عرفانی کی تعریف کریں؟ اور کیا شہود عرفانی کے ذریعہ معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے؟

____________________

(۱) اس سلسلہ میں مزید اطلاع حاصل کرنے کے لئے اس کتاب کے ددوسرے حصہ ''آموزش فلسفہ'' اور مقالہ ''شناخت'' جو کتاب پاسداری از سنگرھای ایدۓولوژیک'' میں ہے، اور ایدۓولوژی تطبیقی کے درورس میں سے پانچویں درس سے سولہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے

(۲) رجوع فرمائیں، آموزش فلسفہ۔ تیرہوان درس.


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17