عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 15950
ڈاؤنلوڈ: 2914


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15950 / ڈاؤنلوڈ: 2914
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

اصحاب ِ پیغمبر کے ناموں کا ناجائز فائدہ اٹھانا

فالتبس علی العلماء مدی العصور

یہ ہے اصحاب کے ایک گروہ کی حقیقت جو دانشوروں کیلئے صدیوں تک مسلسل غیر معروف رہے ہیں ۔

مؤلف

سیف نے اپنی تحریفات میں ناموں کوتبدیل کرنے میں جو دوسرا راستہ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے بعض اشخاص کو اپنے ذہن میں خلق کیا ہے ، پھر ان افسانوی اشخاص اور اپنے ذہن کی مخلوق کو معروف افراد کے کسی نام سے نام گزاری کی ہے اور حدیث سازی کے موقع پر انھیں ماموریت دی ہے اور ان کے نام پر کثرت سے احادیث اور داستانیں جعل کی ہیں ۔ ان ہی ناجائز استفادوں کی وجہ سے مشہور نام، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معروف صحابی و اصحاب سے مربوط حقائق و مطالب صدیوں تک دانشوروں کیلئے مبہم ، پیچیدہ اور غیر معروف رہے ہیں ۔

سیف نے اپنے خود ساختہ اصحاب اور راویوں کیلئے مشہور معروف اصحاب اور راویوں کے ناموں سے کسی نام کا انتخاب کرکے اس پر ان کا لیبل لگادیا ہے اور اس طرح اس قسم کے بہت سے اصحاب و راوی جعل کئے ہیں ہم اس فصل میں علم و تحقیق کے دلدادوں کیلئے ان کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

۱ ۔ خزیمہ بن ثابت

ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گروہ انصار اور خاندان اوس سے خزیمہ بن ثابت نامی ایک صحابی تھا ، اس نے ” بدر“ یا ” احد“ کے بعد تمام جنگوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رکاب میں شرکت کی ہے ۔

پیغمبر اسلام نے ایک واقعہ کی وجہ سے اسے ” ذو الشہادتین “ کا لقب بخشا تھا کہ اس دن کے بعد اس کی شہادت دو افراد کی شہادتوں کے برابر مانی جاتی تھی، یہ روداد اس کے خاندان کیلئے فخر و مباہات کا سبب بن گئی تھی ۔ وہ جنگ صفین میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ والسلام کے پرچم کے نیچے لڑتے ہوئے شہید ہوا چونکہ خزیمہ کا امیر المؤمنین کی سپاہ کی صف میں قتل ہونا بنی امیہ کیلئے ننگ و شرم کا سبب تھا اسلئے سیف نے اسی ” خزیمہ بن ثابت “ ذو الشہادتین سے ایک دوسرے ” خزیمہ بن ثابت “ کو خلق کیا ہے ، اس کے بعد یوں کہتا ہے : جو خزیمہ جنگ صفین میں علی کے سپاہیوں میں موجود تھا اور قتل ہوا ، وہ یہی خزیمہ تھا نہ ” خزیمہ ذو الشہادتین “ ۔ ذو الشہادتین جنگ صفین سے پہلے عثمان کے زمانے میں فوت ہوا تھا(۱)

۲ ۔ سماک بن خرشہ

انصار کے درمیان ” سماک بن خرشہ “ نام کا ایک صحابی تھا کہ وہ ’ ’ ابودجانہ “ کے نام سے مشہور

ہوا تھا ۔ اس نے پیغمبر اسلام کی جنگوں میں گراں قدر خدمات انجام دی تھیں اور جنگ یمامہ میں شہید

____________________

۱۔ کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب میں ذو الشہادتین ، سماک بن خرشہ ، وبرہ بن یحسن کی زندگی کا حالات ملاحظہ ہوں ۔

ہوا ہے ۔ سیف نے ایک دوسرے صحابی کو ” سماک بن خرشہ “ کے نام سے خلق کیا ہے اور کہا ہے کہ : یہ ”سماک “ ، ”ابودجانہ “ کے نام سے مشہور ” سماک “ نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک صحابی تھا۔ اس کے بعد اسی جعلی ” سماک “ سے روایتیں اور داستانیں گڑھ لی ہیں اور بعض جھوٹی اور افسانوی جنگوں میں اسے سپہ سالار کے عنوان سے پیش کیا ہے(۱)

۳ ۔ وبرہ بن یحنس خزاعی :

سیف نے ” وبرہ بن یحنس کلبی ‘ ‘ نامی معروف صحابی کے مقابلہ میں ”وبرہ یحنس“(۲) نامی دوسرے صحابی کو خلق کیا ہے ۔ البتہ کہا ہے کہ یہ وبرہ قبیلہ خزاعہ سے ہے نہ قبیلہ کلب سے(۳)

۴ ۔ سبائی

سیف نے اپنے انسان سازی کے کارخانہ میں صرف انفرادی اور متفرق اشخاص کو خلق و جعل کرنے پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اس نے بہت سے افراد پر مشتمل ایک گروہ کو بھی خلق کیا ہے اوراس گروہ کا نام ” سبیئہ “رکھا ہے ۔ اس کے بعد اکثر مفاسد و برائیوں کوانکے سر تھونپا ہے اور تاریخ اسلام میں واقع ہوئی تمام تخریب کاریوں ، ویرانیوں اور خطرناک جنگوں و بغاوتوں کا ذمہ دار انہیں کو ٹھہرایا ہے۔

____________________

۱۔ کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب میں خزیمةذو الشہادتین ، سماک بن خرشہ ، وبرہ بن یحسن کی زندگی کا حالات ملاحظہ ہوں

۲۔ کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب میں خزیمة ذو الشہادتین ، سماک بن خرشہ ، وبرہ بن یحسن کی زندگی کا حالات ملاحظہ ہوں

۳۔ کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب میں خزیمة ذوالشہادتین ، سماک بن خرشہ ، وبرہ بن یحسن کی زندگی کا حالات ملاحظہ ہوں

سیف نے اس نام کو اسی ” سبئیہ “ نام سے لیا ہے جو یمن میں چند قبائل کا نام تھاکہ ان کے جد کو ”سبا بن یشجب ‘ ‘ کہتے تھے(۱)

۵ ۔ عبد اللہ ابن سبا :

سیف نے اپنی تحریفات کی کاروائیوں کے سلسلہ میں جو سب سے اہم کام انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ذہن میں ایک پر اسرار اور فتنہ انگیز شخص کو خلق کیا ہے اور اسے ” عبدا للہ بن سبا “ نام رکھا ہے ، اور اس نام گزاری میں بھی جنگ نہروان میں خوارج کے رئیس و امیر ”عبد اللہ بن وہب سبئی“ کے نام سے استفادہ کیا ہے پھر اس کے نام پر بہت سی داستانیں اور وسیع پیمانے پر افسانے گڑھ لئے ہیں کہ تاریخ اسلام میں معروف و مشہور ہیں ۔ انشاء اللہ اس کتاب کی اگلی فصل میں اس پر مستقل طور پر بحث و گفتگو کریں گے ۔(۲)

____________________

۱۔ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کے چوتھے حصہ میں ” حقیقت ابن سبا و سبئیاں “ ملاحظہ ہوں

۲۔اس کتاب کے دوسرے حصہ میں ” خالد کے زہر کھانے کی روداد “ ملاحظہ ہو

سیف کی الٹ پھیر

استطاع بکل ذلک ان یشوّه معالم التاریخ

اس طرح سیف تاریخ اسلام کو پریشان اور تاریک دکھانے میں کامیاب ہوا ہے

مؤلف

تحریفات میں ناموں کی تبدیلی کے سلسلہ میں تیسرا راستہ جس سے سیف نے استفادہ کیاہے ، وہ یہ ہے کہ اس نے تاریخ اسلام کے حقائق کو مبہم و مشتبہ بنانے کیلئے بعض احادیث کے راویوں کے ناموں یا بعض داستانوں کے سورماؤں کے ناموں میں الٹ پھیر کرکے رکھ دیا ہے ، بیٹے کی جگہ پر باپ کا نام اور باپ کی جگہ پر بیٹے کا نام رکھا ہے ، جیسا کہ صلح حیرہ میں خالد سے گفتگو کرنے والے کا نام ” عبدا لمسیح بن عمرو “ تھا ، اسے بدل کر ” عمرو بن عبدالمسیح “ یعنی بیٹے کو باپ اور باپ کو بیٹا بنا کے رکھ دیا ہے سیف کے توسط سے نامو ں میں اس قسم کی الٹ پھیر اس کی سولہ روایتوں میں مشاہدہ ہوتی ہے جنہیں طبری نے نقل کیا ہے ۔

پھر یمن کے ایرانی بادشاہ ” باذان بن شہر ‘ جس کی بیوی سے اسود عنسی نے شادی کی تھی ، کے نام بدل کر ” شہر بن بادان “ رکھا ہے اس کے بارے میں ہم نے گزشتہ صفحات میں اسود عنسی کی داستان میں بحث کی ہے ۔

سیف نے اس اسود عنسی کی داستان میں ایک اور تحریف انجام دی ہے اور قیس کے باپ ”ہبیرہ بن مکشوح مرادی “ کے نام کو ” عبیدیغوث “ میں بدل دیا ہے

سیف نے اس قسم کی الٹ پھیر بہت زیادہ انجام دی ہے کہ ہم نے یہاں پر ”مشتے از خروار“ یعنی کچھ نمونہ کے طور پر چند کی طرف اشارہ کیا تا کہ محققین اور حقیقت کے متلاشی سیف کی تحریفات سے کسی حد تک آشنا ہوجائیں ا ور معیار اور اجمالی ضابطہ حاصل کریں ا ور جان لیں کہ سیف کی تحریفات یکساں و یکنوع نہیں تھیں کہ محققین و علماء آسانی و جلد ی سے اس کے ناپاک عزائم کے بارے میں مطلع ہوجائیں اور اس کی تخریب کارانہ سرگرمیوں سے آگاہی پیدا کرسکیں ۔ اس نے مختلف راہوں اور طریقوں سے تاریخ اسلام میں تخریب کاری و تحریفات انجام دی ہیں اور اس طرح تاریخ اسلام کو تہہ و بالا کر کے تاریخی حقائق و وقائع کو الٹ پھیر کیا اور مذموم صورت میں پیش کیا ہے ، روایوں ، صحابیوں ، غیر صحابیوں اور حوادث و داستانوں کے سورماؤں کے نام بدلنے میں کامیاب ہوا ہے ۔

سیف تخریب کاروں ، فتنہ انگیزوں شرپسندوں اور راویان حدیث کے مفسدگروہ، جنگوں کے کمانڈر، شعراء اور جنگی رجز خوانوں کی اپنے ذہن سے تخلیق کرنے ، افسانوی جنگوں کو وجود میں لانے اور سیاسی کتابیں اور افسانوی خطبے جعل کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔

ان تمام تحریفی و تخریبی سرگرمیوں میں محرک اس کا کفر و زندقہ تھا لیکن اس نے اس خطرناک محرک اور اپنے ناپاک عزائم کو اصحاب کی طرفداری میں پردہ پوشی کی ہے اور ان کے مناقب و فضائل کی اشاعت کے لفافے میں مخفی اور مستور کرکے رکھ دیا ہے اس طرح وہ اپنے ان تمام جھوٹ ، جعلیات اور افسانوں کو تاریخ کی نام نہاد معتبر کتابوں میں درج کرا کے مسلمانوں میں رائج کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس طرح گزشتہ تیرہ صدیوں سے مسلسل انکے بقاء کی ضمانت مہیا کر چکا ہے ۔

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ سیف نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کرنے اور تحریف کے سلسلے میں جو سب سے اہم ترین سر گرمی انجام دی ہے وہ اس کا گروہ سبیئہ کو جعل کرنا ہے کہ ہم اس کتاب کی آنے والی فصلوں میں اس موضوع پر بحث و تحقیق کریں گے کہ سیف نے ”سبائیوں “ کے گروہ کو کس طرح وجود میں لایا اور ”عبدا للہ بن سبا “ کو کسی طرح ” عبداللہ بن سبابن وھب “ کے مقابلہ میں جعل کیا ہے ۔ اور یہ افسانہ کیسے اشاعت اور ارتقاء کے منازل طے کرکے اسلامی مآخذ کی کتابوں میں راہ پیدا کرسکا اور تاریخ کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھا اور آج تک تاریخ اسلام میں اپنی جگہ کو محفوظ کرسکا ہے ؟!

خاتمہ:

گزشتہ مباحث پر ایک نظر

* -مرتدین کی جنگوں پر ایک نظر

* -مرتدین کی جنگوں کی جانچ پڑتال

* -کندہ کی جنگ

* -جنگ کندہ کی تحقیق

* -مالک بن نویرہ کی جنگ

* -ان جنگوں کا حقیقی محرک

* -سیف کی فتوحات پر ایک نظر

مرتدین کی جنگوں پر ایک نظر

یہاں تک ہم نے سیف کی روایتوں کے بارے میں بحث و تحقیق کی اور جو کچھ اس سلسلہ میں گزشتہ بحثوں کے ضمن میں بیان ہوا ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

سیف نے مرتدین کی جنگوں اور بیہودہ اور بے بنیاد فتوحات کے بارے میں داستانیں جعل کرکے اسلام کو ” تلوار اور خون کادین “ معرفی کیا ہے اور دوست و دشمن کو یہ دکھایا ہے کہ اسلام صرف شمشیر و نیزہ سے پھیل کر ادیان عالم میں اپنے لئے ایک جگہ بناسکا ہے ۔

ہم نے کتاب کی پہلی بحث میں کہا کہ سیف نے اسلام کو ” تلوار اور خون کا دین “ کے عنوان سے پہچنوانے کیلئے اپنے خیال میں مسلمانوں کیلئے بہت سی جنگیں جعل کی ہیں اور انھیں مرتدوں کی جنگوں کا نام دیا ہے ۔

سیف نے مرتدوں کی جنگوں کے باے میں جعل کی گئی روایتوں کے ضمن میں خلاصہ کے طور پر کہا ہے :

قبیلہ قریش اور ثقیف کے علاوہ تمام عرب قبائل یکبارگی اسلام سے منحرف ہو کر کفر و ارتداد کی طر ف مائل ہوگئے اور اسلام سرزمینوں میں فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی اسکے بعد سیف مرتد قبائل کے سرزمین ابرق ربذہ پر ان کے اجتماع کی روداد اور ابوبکر کے پاس ان کے چند نمائندے بھیجنے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : مرتد قبائل نے اپنے نمائندوں کے توسط سے ابوبکر سے درخواست کی کہ وہ نماز پڑھ لیں گے لیکن انھیں زکوٰة ادا کرنے سے مستثنی قرار دیا جائے ابوبکر نے ان کی تجویز کو مسترد کیا اور مدینہ کے لوگوں کو ان قبائل سے لڑنے کیلئے آمادہ کیا ۔ اس کے بعد ان قبائل نے مدینہ پر حملہ کیا ، خلیفہ کے سپاہیوں نے ان کا جواب دیا اور ان کے خیموں تک انھیں پیچھے ڈھکیل کیا ۔ اس طرح مرتدوں سے جنگوں کا آغاز ہوا ۔ ابوبکر نے ان کو کچلنے کیلئے تین بار لشکر کشی کی اور مدینہ سے ان کی طرف روانہ ہوا اسکے بعد سیف ان جنگوں کی کیفیت ، مرتدوں کے قتل ہونے ، خلیفہ کا ان کی زمینوں پر قبضہ جمانے ، سرزمین ابر ق کی چراگاہوں کے مسلمانوں کے گھوڑوں کیلئے وقف کرنے اور اس کے علاوہ ان افسانوی جنگوں میں رونما ہوئے حوادث کے جزئیات کی مفصل تشریح کرتا ہے لیکن لب لباب یہ ہے کہ اس پوری تشریح و تفصیل کے باوجود ان تما م رودادوں کو نقل کرنے میں سیف منفرد ہے نہ کسی دوسرے مؤرخ نے ان مطالب کو نقل کیا ہے اور نہ ان مطالب میں سے کوئی ایک صحیح و درست ہے ۔

سیف ابوبکر کیلئے چوتھی روانگی بھی نقل کرتا ہے کہ ابوبکر مدینہ سے ” ذی القصہ “ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پر اپنی فوج کو آراستہ کیا اور انھیں گیارہ لشکروں میں تقسیم کیا اور ہر لشکر کیلئے ایک کمانڈر مقرر کیا اور ہر کمانڈر کے ہاتھ میں ایک پرچم دیا تا کہ مرتدوں کے گروہوں سے لڑیں اور وہیں پر ان کمانڈروں کیلئے جنگی منشور اور مرتد قبائل کیلئے خطوط لکھے

سیف نے جو یہ روانگی ابوبکر سے منسوب کی ہے اور اس سفر میں جو روداد اس کیلئے نقل کی ہیں وہ بھی صحیح نہیں ہیں اور اس سلسلہ میں جو بھی نقل کیاہے خالد کی روانگی کے علاوہ سب اس کے ذہنی جعلیات ہیں جنہیں اس نے مورخین کی خدمت میں پیش کیا ہے اور انہوں نے بھی انھیں مسلمانوں تک پہنچایا ہے ۔

سیف نے ”ام زمل “ نام کی ایک اور ارتداد کی داستان نقل کی ہے اور اس کے بعد اسی عنوان سے ایک جنگ بھی جعل کیاہے اس جنگ میں بھی عجیب و غریب اور وحشتناک قتل عام حوادث اور بے مثال تباہی دکھائی ہے جب کہ نہ کوئی ” ام زمل “ وجود حقیقی رکھتی تھی کہ مرتدہوتی اور اس قسم کی جنگ واقع ہوتی اور یہ سب قتل و غارت اور تباہیاں واقع ہوتیں ۔

سیف نے ارتداد ” اخابث“ کے نام سے سرزمین ” اعلاب “ میں ایک اور ارتداد کے بارے میں نقل کیا ہے اور کہتا ہے: طاہر نام کا ایک کمانڈر -- جو خدیجہ کا بیٹا اور پیغمبر کاربیب تھا --- مرتدوں سے لڑنے کیلے ” اخابث“ کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پر ان کا اتنا قتل عام کیا کہ ان کے زمین پر پڑے لاشوں میں بدبو پھیلنے کی وجہ سے چلتے ہوئے قافلے رک گئے ۔

جبکہ نہ ” اعلاب “ کے نام پر کوئی سرزمین وجود رکھتی تھی اور نہ اخابث کے نام پر وہاں کے باشندے اور نہ ہی طاہر نامی کوئی صحابی تھا جسے پیغمبر اکرم نے پالا ہو ، جو اخابث کے افسانوی لشکر کا کمانڈر بنتا ۔

جی ہاں ، ان حوادث ، رودادوں اور دیگر بہت سے حوا دث کی کوئی حقیقت نہیں ہے جنہیں سیف نے مرتدوں کی جنگوں کے بارے میں نقل کیا ہے ۔ یہ سب داستانیں بے بنیاد اور جعلی ہیں اور جھوٹ اور افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔

لیکن اس کے باوجود سیف اپنی خاص مہارت او ر تخصص کی بنا پر حدیث اور تاریخ کو جعل کرکے پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے مرتد ہونے کے بارے میں اپنے جھوٹ اور جعلیات کی اشاعت کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جزیرة العرب کے تمام مسلمان اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہوگئے اور انہوں نے طاقت اور تلوار کے ذریعہ دوبارہ اسلام قبول کیا بجا ہے اس بحث کے اختتام پر تاریخ اسلام کے اس حصہ کو بیشتر واضح ہونے کیلئے مرتدوں سے جنگ کے نام پر جعل کی گئی سیف کی جنگوں کے بارے میں ایک مختصر تحقیق کی جائے :

۱ ۔ ان جنگوں کا ایک حصہ کہ بیشتر مرتدوں کی جنگوں کے افسانوں اور داستانوں پر مشتمل ہے ایسی جنگیں ہیں جنہیں حقیقت میں سیف نے اپنی ذہنی طاقت سے جعل کیا ہے اور ان جنگوں کی سورماؤں ، کمانڈروں اور جنگجوؤں کو بھی خود سیف نے خلق کیا ہے اس کے علاوہ اس نے اماکن اور جنگیں واقع ہونے کے مقامات کو بھی جعل کرکے مور خین کے اختیار میں دیدیا ہے ، جبکہ نہ ان جنگوں کو کوئی بنیاد ہے اور نہ ان کے دیگر کوائف کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ان جنگوں میں ذکر ہوئے اکثر سورما اور کمانڈروں کا کوئی وجود تھا ۔ حقیقت میں اس قسم کی جنگیں اسلام میں بالکل وجود میں ہی نہیں آئی ہیں ۔

۲ ۔ سیف نے جن جنگوں کو مرتدین کی جنگوں کے نام سے بیان کیا ہے ان کا ایک حصہ وہ جنگیں ہیں جو مسلمان اور کفار کے درمیان خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں واقع ہوئی ہیں ، یہ جنگیں مرتدوں سے نہیں تھیں جیسے ” مسیلمہ “ اور ” طلیحہ “ سے مسلمانوں کی جنگ کہ ان دونوں نے خود پیغمبر کے زمانے میں جھوٹی پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے ان سے جنگ کی اور انھیں شکست دی ہے۔

اگر چہ یہ جنگیں واقعیت رکھتی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم ان افراد کو مرتد کہیں اور ان کے ساتھ جنگ کو مرتدوں کی جنگ کہیں ، بلکہ مسلمانوں کی، اس گروہ کے ساتھ جنگ ، کفار کے ساتھ جنگ تھی ، نہ مرتدوں کے ساتھ۔

۳ ۔ ان جنگوں کی تیسری قسم جن کے بارے میں سیف نے مرتدوں کی جنگ کہا ہے وہ جنگیں ہیں جو خود مسلمانوں کے درمیان واقع ہوئی ہیں اور یہ داخلی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا نہ مسلمانوں کی مرتدوں سے جنگ یہ جنگیں اس صورت میں تھیں کہ عرب مسلمانوں کے بعض قبائل نے ابوبکر کی بیعت کرنے اور اپنے مال کی زکوٰة دینے سے انکار کیا ان کے علاوہ ایک اور گروہ بھی ابوبکر کے مامور حکام اور گورنروں کی بدرفتاری اور بے جا سختی کی وجہ سے زکوٰة دینے سے انکار کر تا تھا ابو بکر بھی اس قسم کے ہر گروہ کی طرف ایک لشکر کو روانہ کرتے تھے اور انھیں حکومت کے احکام پر عمل کرنے کیلئے مجبورکرتے تھے یہ جنگیں ، ابوبکر کے فرمانرواؤن اور قبائل کندہ کے درمیان واقع ہوئی جنگ کے مانند تھی یہ جنگ ایک جوان اونٹ کے سلسلے میں واقع ہوئی ہے کہ اعثم کوفی ، بلاذری اور حموی نے اس کی روداد کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے ۔

کندہ کی جنگ

حموی معجم البلدان میں مادہ ” حضرموت “ میں کہتا ہے :

جب مدینہ کے باشندوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابوبکر کی بیعت کی ابوبکر نے پیغمبر کے مامور ” کندہ “ و ”حضرموت“ کے حاکم ” زیادہ بن لبید بیاضی “ ۱ کے نام خط لکھا اور اسے پیغمبر کی رحلت اور مدینہ کے لوگوں کی طرف سے پیغمبر کے بعد اس کی بیعت کرنے کی اطلاع دی اور اس کے ضمن میں اسے حکم دیا کہ حضر موت کے باشندوں سے اس کیلئے بیعت لے لے۔

یہ خط جب ” زیاد بن لبید “کو پہنچا تو وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا اور ایک تقریرکی اور انھیں پیغمبر کی وفات کے بارے میں آگاہ کیا اور ابوبکر کی بیعت کرنے کی دعوت دی ۔ اشعث بن قیس نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا ، اور قبیلہ کندہ کے بعض افراد نے اشعث کی پیروی میں ابوبکر کی بیعت کرنے سے اجتناب کیا ، لیکن اسی قبیلہ کندہ کے بہت سے افراد نے ابوبکر کے نمائندہ کی حیثیت سے ” زیا د بن لبید “ کی بیعت کی زیاد اپنے گھر چلا گیا عصر پیغمبر کے مانند صبح سویرے زکوٰة دریافت کرنے کیلئے آمادہ ہوگیا۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ : ابوبکر نے زیاد بن لبید اور ابو امیہ مخزومی کے مہاجرین کو لکھا

____________________

۱۔ زیاد بن لبید کا لقب وکنیت ابو عبد اللہ بن لبید بن سنان تھا وہ قبیلہ خزرج کے گروہ انصار اور خاندان بیاضی سے ہے پیغمبر نے اپنی زندگی میں حضرموت کی حکومت اسے سونپی تھی ، پیغمبر کی رحلت کے بعد ابوبکر نے اسے خط لکھا اور اسے اپنے عہدہ پر برقرار رکھا وہ معاویہ کی خلافت کے دوران فوت ہوا اسد الغابہ : ۲/ ۲۱۷ ، جمہرہ ابن حزم : ۳۵۶

کہ دو شخص متفقہ طورپر لوگوں سے اس کیلئے بیعت لے لیں اور جو بھی ابوبکر کی بیعت کرنے یا زکوٰة دینے سے انکار کرے ، اس کے ساتھ جنگ کریں ۔

اعثم اپنی فتوح میں کہتا ہے : بعض لوگ رضا و رغبت کے ساتھ اور بعض جبر و اکراہ سے زیا دکو زکوٰة دیتے تھے زیاد بن لبید بھی زکوٰة وصول کرنے میں مصروف تھا اور لوگوں پر سختی کررہا تھا اتفاقاً ایک دن زید بن معاویہ قشیری سے زکات میں حاصل کئے گئے ایک اونٹ پر زکوٰة کی علامت لگا دی اور دیگر اونٹوں کے گلہ میں جنھیں ہنکا دیا ،ابوبکر کے پاس بھیجنا تھا ۔

یہ جوان قبیلہ کندہ کے حارثہ بن سراقہ نام کے ایک سردار کے پاس آیا اور کہا: چچیرے بھائی ، زیاد بن لبید نے میرا ایک اونٹ لے لیا اور اس پر علامت لگا کر زکوٰة میں لئے گئے اونٹوں میں چھوڑ دیا ہے۔اور میں زکوٰة دینے سے منکر ہوں لیکن اس اونٹ کو بہت پسند کرتا ہوں اگر مصلحت جانتے ہو تو اس بارے میں زیاد سے گفتگو کرو تا کہ اس اونٹ کو مجھے واپس دیدے اور میں اس کے بدلے میں دوسرا اونٹ دیدوں گا۔

اعثم کہتا ہے : حارثہ بن سراقہ زیاد کے پاس گیا اور کہا: اگر ممکن ہے تو اس جوان پر ایک احسان کرو اور اس کا اونٹ واپس کردو اور اس کے بدلے میں دوسرا اونٹ لے لینا ۔

زیاد نے حارثہ کے جواب میں کہا : یہ اونٹ خداکے حق میں قرار پایا ہے اور اس پر زکوٰة کی علامت لگی ہے اور میں پسند نہیں کرتا ہوں کہ اس کے بدلے میں دوسرا اونٹ قبول کروں ۔

بلاذری نے اس داستان کو اس طرح بیان کیا ہے : زیاد بن لبید ایک شدت پسند شخص تھا اس نے ایک کندی سے ایک اونٹ زکوٰة کے طور پر حاصل کیا اس نے کہا کہ اس اونٹ کو مجھے واپس دینا اور اس کی جگہ پر میں دوسرا اونٹ دیدوں گا ابوامیہ نے اس سلسلہ میں انکساری کی لیکن زیاد نے ممانعت اور سختی کی ۔

اعثم اس داستان کو یوں جاری رکھتا ہے(۱) حارث نے جب اس جوان کی تجویز زیاد کے پاس پہنچائی تو اس نے نہ یہ کہ اس سے منفی جواب سنا بلکہ وہ اس کی تندی اور سخت رویہ کا مشاہدہ کرنے پر بھی مجبور ہوا حتیٰ کہ تنگ آکر غضبناک حالت میں بولا : ہم کہتے ہیں کہ اس اونٹ کو مہربانی و بزرگواری سے چھوڑ دو ،ورنہ ذلیل و خوار ہوکے تو ضرور چھوڑ دو گے زیاد بھی حارثہ کی بات سے غضبناک ہواا ور کہا : میں اس اونٹ کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا اور دیکھوں گا کون اسے میرے ہاتھ سے لینے کی جرات کرتا ہے۔

اعثم کہتا ہے : حارثہ نے اس کی یہ بات سن کر ایک مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس مضمون کے چند اشعار پڑھے :

ایک بوڑھا تجھ سے اونٹ کا بچہ لینا چاہتا ہے کہ اس کی پیری کے آثار اس کے رخسار سے واضح ہیں ایک ایسا بوڑھا مرد جس کی داڑھی سفید کرتے کے مانند سفید ہوچکی ہے(۲)

____________________

۱۔ اعثم کی روایت کی گئی اس داستان کو تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ الکلاعی نے کتا ب الاکتفاء میں درج کیا ہے

۲ یمنها شیخ بخدیه الشیب

ملمح کما یلمح الثوب

اعثم کہتا ہے : اس کے بعد حارثہ ان اونٹوں کے درمیان آگیا اور اس اونٹ کو ان میں سے جدا کر کے نکال لایا اور اس کی لگام اس کے مالک کے ہاتھ میں دیدی اور کہا: اپنے اونٹ کو لے چلو اگر اس اونٹ کے بارے میں کسی نے تجھ سے کچھ کہا تو تلوار سے اس کی ناک کاٹ کر رکھ دینا اور اس جملہ کا بھی اضافہ کیا :

”ہم نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی کہ جب وہ زندہ تھے ، پیروی و اطاعت کی ہے ان کی رحلت کے بعد اگر ان کے خاندان کا کوئی فرد جانشین ہوتا تو پھر بھی ہم اس کی اطاعت کرتے لیکن پسر ابو قحافہ ! خدا کی قسم نہ اس کی اطاعت ہم پر واجب ہے اور نہ ہمارے اوپر کوئی بیعت ہے ۔

حارثہ نے یہاں پر بھی چند اشعار اس مضمون کے پڑھے :

جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے درمیان تھے ، ہم نے ان کی اطاعت کی لیکن تعجب ان لوگوں پر ہے کہ جو ابوبکر کی بیعت کرتے ہیں(۱)

معجم البلدان کے قول کے مطابق اس بارے میں حارثہ کے اشعار اس مضمون کے تھے :

ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس وقت پیروی کی جب وہ ہمارے درمیان موجود تھے اے قوم !ہمیں ابوبکر سے کیا کام ؟!

کیا ابوبکر اپنے بعد خلافت کو اپنے بیٹے بکر کی وراثت میں چھوڑے گا ؟ خدا کی

____________________

۱ اطعنا رسول الله اذکان بیننا

فیا عجبا ممن یطیع ابابکر

قسم ابوبکر کا یہ کام کمرشکن ہوگا(۱)

اعثم کہتا ہے :

جب یہ اشعار زیاد بن لبید نے سنے تو وہ وحشت میں پڑا کہ ایسا نہ ہو کہ زکوٰة میں لئے گئے تمام اونٹ اس سے واپس لے لئے جائیں لہذا راتوں رات بعض دوستوں کے ہمراہ حضرموت سے مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا اور تمام اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گیا جب حضرموت سے دودن کے فاصلہ پر پہنچا تو وہاں سے حارثہ بن سراقہ کے نام ایک خط لکھا اس خط میں چند اشعار بھی تھے ان اشعار میں سے ایک کا مضمون یہ تھا :

ہم راہ خدا میں تمہارے ساتھ لڑیں گے یہاں تک کہ تم ابو بکر کی اطاعت کرو یقین کے ساتھ جان لو کہ خدا کامیاب ہوگا(۲)

اعثم کہتا ہے : کندہ کے قبائل زیاد کے خط کے مضمون سے غضبناک ہوئے اور اشعث بن قیس کے پاس شکایت لے کر آئے اشعث نے کہا: اگر تم لوگ زیاد سے اختلاف نظر رکھتے ہو توکیوں اپنے مال کی زکات اسے دیتے ہو وہ اسے لے کر جاتا ہے ، اور اسکے بعد تمہیں قتل کی دھمکی دیتا ہے ؟

____________________

۱ اطعنا رسول الله ما دام وسطنا

فیا قوم ما شانی و شان ابی بکر

ایورشهاً بکراً اذا کان بعده

فتلک لعمر الله قاصمة الظهر

۲ نقاتلهم فی الله و الله غالب

علی امره حتی تطیعوا بابکر

اس کے ایک چچیرے بھائی نے اس سے کہا: اشعث ! خدا کی قسم تم نے سچ کہا اور خداکی قسم ہم قریش کیلئے وہی زر خرید غلام بن گئے ہیں کہ بعض اوقات امیہ(۱) کو ہماری طرف بھیجتا ہے اور کبھی زیاد کو ہم پر مسلط کرتا ہے جو ہماری ثروت کو بھی ہم سےہڑپتا ہے اور ہمیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دیتا ہے ۔

اشعث نے کہا: اے قبیلہ کندہ ! اگر میری بات قبول کرو تو تمہاری مصلحت اس میں ہے کہ متحد رہو تم لوگوں کی بات ایک ہونی چاہئے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں بیٹھے رہو ، اپنی حیثیت اور وجود کا دفاع کرو اورا اپنے مال کی زکوٰة کسی کو نہ دو ۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ عرب اس حالت کے جاری رہنے پر راضی نہیں ہوں گے کہ وہ ” تیم بن مرہ “ قبیلہ ابوبکر(۲) کی اطاعت کریں اور بنی ہاشم کے سردار جو بطحا کے بزرگ ہیں کو چھوڑ دیں جی ،ہاں ، صرف بنی ہاشم ہیں جو ریاست کی شائستگی رکھتے ہیں ان کے علاوہ کوئی ہم پر حکومت کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔

ہم اس مقام کےلئے دوسروں سے سزاوار تر اور مقدم ہیں کیونکہ جس زمانے میں ہم سلطنت اور سرداری کرتے تھے اس وقت روئے زمین پر نہ قریش کی کوئی خبر تھی اور نہ ابطحیوں کی(۳)

____________________

۱۔ میری نظر میں اباامیہ ہے نہ امیہ

۲۔ بعض نسخوں میں تیم بن مرہ آیا ہے لیکن ہماری نظر میں وہی صحیح ہے کہ متن میں ملاحظہ ہوا شائد ’تیم بن مرہ ‘ قبیلہ کندہ کا ایک خاندان ہوگا لیکن تیم بن مرہ وہی قبیلہ ابوبکر ہے چنانچہ شاعر جنگ جمل کی روداد میں کہتا ہے ہم نے شقاوت و بدبختی سے خاندان تیم کی پیروی کی جبکہ وہ چند کنیز و غلاموں کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ، شاعر کا مقصود یہاں پر اس شعر سے خاندان تیم سے ابوبکر کی بیٹی ہے کہ تفصیلی روداد کو ہم نے کتاب ” عائشہ دوران علی میں “ بیان کیا ہے ۔ تیم بن مرہ ،جمہرہ : ۱۳۵ میں اس طرح ذکر ہوا ہے کہ ہم نے کہا۔

۳۔ اس کا مقصود سلاطین سبئیہ ہے کہ جو حمیر ، قریش اور دوسروں سے قدیم تر تھے ۔

اعثم کہتا ہے: زیاد بن لبید، جب زکوٰة کے اونٹوں کو حضرموت سے مدینہ لے کر بھاگ رہا تھا، راستے میں ا بوبکر کے پاس جانے کے ارادے سے منصرف ہوا اور اونٹوں کو ایک مورد اعتماد شخص کے ذریعہ مدینہ بھیج دیا اور اسے حکم دیا کہ جو روداد واقع ہوئی ہے اس کے بارے میں ابوبکر کو کچھ نہ کہنا اس کے بعد قبائل کندہ کے ایک خاندان ” بنی ذہل بن معاویہ “(۱) کے پاس آیا اور ان سے روداد بیان کی انھیں ابوبکر کی بیعت کرنے اور اس کی اطاعت و پیروی کرنے کی دعوت دی ۔

بنی ذہل کا ایک سردار قبیلہ ” حارث بن معاویہ “(۲) نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: زیاد ! تم ہمیں ایک ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کرنے کی دعوت دیتے ہو کہ نہ ہم سے اس کے بارے میں کوئی عہد و پیمان لیا گیا ہے اور نہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں اس کی بیعت کرنے کا کوئی حکم دیاہے اور نہ تمہیں ،زیاد نے جواب میں کہا: اے مرد! صحیح کہا تم نے کہ اس کے بارے میں کوئی بیعت او رعہد وپیمان موجود نہیں تھا لیکن ہم نے اسے اس مقام کیلئے انتخاب کیا ہے ۔

حارث نے کہا: ذرا یہ بتاؤ، تم لوگوں نے اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس مقام سے کیوں محروم کیا ہے ؟ جبکہ وہ دوسروں سے سزاوار تر تھے کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے : رشتہ دار و اعزہ کتاب خدا میں ---یعنی خداکے حکم سے --- ایک دوسرے کی نسبت اولی اور نزدیک تر ہیں ۔

زیاد نے کہا: گروہ مہاجر و انصار اپنے کام میں تم سے آگاہ تر ہیں ۔

____________________

۱۔ بنی ذہل ایک خاندان تھا جو حضر موت میں زندگی کرتا تھا : جزیرة العرب ھمدانی / ۸۵

۲۔ حارث بن معاویہ کا نام و نسب ابن حزم کی جمہرہ ۲/ ۴۷۷ میں آیا ہے کہ وہ معاویہ بن ثور کا بیٹا تھا ور قبیلہ کندہ سے تھا

حارث نے کہا: خداکی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ تم لوگوں نے اس مقام کے حقداروں کو محروم کرکے

رکھ دیا ہے اور انکے بارے میں عداوت و حسد سے کام لیا ہے کیوں کہ میری عقل یہ قبول نہیں کرتی ہےکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا سے چلے جائیں اور لوگوں کیلئے کسی کو معین نہ کریں جس کی یہ لوگ پیروی کریں اے لوگو! ہم سے دور ہوجاؤ کیونکہ ہمیں ایک ایسی راہ کی طرف دعوت دیتے ہو کہ خدا اس پر راضی نہیں ہے ۔

اس کے بعد حارث بن معاویہ نے مندرجہ ذیل مضمون کے چند اشعار پڑھے :

جس پیغمبر کی ہم اطاعت کرتے تھے وہ اس دنیا سے چلا گیا

خدا کا درود اس پر ہو اور اپنا کوئی جانشین و خلیفہ معین نہیں کیا ؟(۱)

اعثم کہتا ہے : یہاں پر ” عرفجة بن عبدا للہ “ اٹھا اور کہا : خدا کی قسم حا رث صحیح کہتا ہے اس شخص کو نکال باہر کرو ، اس کو بھیجنے والا مقام خلافت کیلئے کسی قسم کی لیاقت اور حق نہیں رکھتا ہے اور گروہ مہاجر و انصار دین و امت کے امور میں اظہار نظر کرنے کے معاملہ میں پیغمبر اور ان کے اہل بیت ﷼ سے شائستہ تر نہیں ہیں

عاصم کہتا ہے : اس کے بعد قبیلہ کندہ کا ” عدی “ نامی ایک اور شخص اٹھا اور کہا:

لوگو ! ” عرفجہ “ کی بات پر توجہ نہ کرو اور اس کے حکم کی اطاعت نہ کرو کیونکہ وہ تمہیں کفر کی دعوت دیتا ہے اور حق کی پیروی کرنے سے روکتا ہے ، زیاد کی دعوت کو مثبت جانو اور اس کا جواب دو اور جس چیز پر

____________________

۱ کان الرسول هو المطاع فقد مضی

صلی علیه الله لم یستخلف

یہ شخص صحرا نشین عرب تھا اور پیغمبر کو مدینہ میں درک نہیں کیا تھالہذا وصی کے تعین کے بارے میں پیغمبر کی احادیث نہیں سنی تھیں ۔

مہاجر وانصار راضی ہوئے ہیں تم لوگ بھی اس پر راضی ہوجاؤ کیونکہ وہ اپنے کام میں تم لوگوں سے آگاہ تر ہیں ۔

اعثم کہتا ہے : اس شخص کے کئی چچیرے بھائی اپنی جگہ سے اٹھے اور اسے برا بھلا کہا اور گالیوں سے نوازا اور اس کی اتنی شدید پٹائی کی کہ اس کا بدن لہولہان ہوگیا اس کے بعد زیاد پر بھی حملہ بول دیا اور اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن اس سے منصرف ہوئے اورا سے اس جگہ سے نکال باہر کیا ۔

اعثم کہتا ہے :زیاد قبائل کندہ میں سے جس کسی کے پاس بھی جاتا ان کی طرف سے اسے مثبت جواب نہیں ملتا تھا اور اس کی درخواست کو مسترد کردیا جاتا تھا(۱)

زیاد نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا اور ابوبکر کے پاس جا کر تمام روداد سنادی اور ایسا ظاہر کیا کہ قبائل کندہ ارتداد کی طرف میلان رکھتے ہیں اور اسلام سے برگشتہ ہیں ۔

ابوبکر نے چار ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر آمادہ کیا اور زیاد کی کمانڈری میں حضرموت کی طرف روانہ کیا ۔ جب یہ خبر قبائل کندہ کو پہنچی ، تو گویا وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے اور ”’ ابضعة بن مالک “ جو کندہ کے شاہزادوں میں سے ایک تھا ، ان کے درمیان کھڑا ہوا اور یوں بولا: اے گروہ کندہ ! ہم نے اپنے خلاف ایک ایسی آگ کے شعلے بلند کئے ہیں کہ گمان نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ شعلے جلد بجھ جائیں

گے مگر یہ کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور ہم میں سے بہت سے افراد

____________________

۱۔ اس بات سے یوں استفادہ ہوتا کہ : زیاد ان قبائل کو اسلام کی دعوت نہیں دیتا تھا کیونکہ وہ مسلمان تھے اور نماز و زکات کا اعتراف کرتے تھے صرف ابوبکر کی خلافت سے انکار کرتے تھے اور اسے زکات دینے سے اجتناب کرتے تھے ۔