عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 17621
ڈاؤنلوڈ: 4150


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17621 / ڈاؤنلوڈ: 4150
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

کو لقمہ اجل بنادیں گے اگر میری بات پر کان دھرو اور میرے نظریہ کو قبول کروتو یہ بہتر ہے کہ ہمیں گزشتہ کی تلافی کرنا چاہئے اور جو چیز ہاتھ سے گنوا دی ہے اس کا تدارک کرناچاہئے اور یہ جو آگ ہمارے خلاف شعلہ ور ہوئی ہے اسے اس طرح بجھا ئیں کہ اور ابوبکر کے پاس ایک خط لکھیں کہ ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنے مال کی زکوٰة اپنی مرضی سے اسے ادا کریں گے اور ہم ان کی پیشوائی اور امامت پر راضی ہیں(۱)

” ابضعہ “ نے اپنی بات کے اختتام پر اس جملہ کا بھی اضافہ کیا : باوجود اس کے کہ میں یہ تجویز تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں نیز تمہاری رای اور نظر سے بھی کوئی اختلاف نہیں رکھتا ہوں لیکن تمہارے کام کا نتیجہ وہی دیکھتا ہوں جو میں نے کہا ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا ہے۔

اس کے بعد اعثم قبیلہ کندہ میں ا ختلاف پیدا ہونے کی کیفیت اور ”اشعث“کی مخالفت اور اس کے عدم تعاون کی مکمل طور پر تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے :

زیاد نے قبیلہ کندہ کے ” بنو ھند “ نامی ایک خاندان پر اچانک حملہ کرکے انھیں بری طرح شکست دی کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان کی عورتوں ، بچوں اورمال و دولت پر تسلط جمایا

____________________

۱۔ ہم واضح طور پر مشاہد کرتے ہیں کہ تمام جنگیں ابوبکر کی خلافت اور حکومت کے سلسلہ میں تھیں نہ اسلام کیلئے لیکن چونکہ مؤرخین ابوبکر کی خلافت کو باقاعدہ قبول کرتے ہیں اس لئے ان اختلافات کو ارتداد سے منسلک کر کے اسلام سے اختلاف کے طور پر جانتے ہیں لہذا کہتے ہیں ” مسلمانوں نے عورتوں اور بچوں پر تسلط جمایا“ اور لشکر ابوبکر کو مسلمان جانتے ہیں اس کے مقابلہ میں ابوبکر کے مخالفوں کو مرتد کہتے ہیں اور یہی نام گزاری آج تک باقی رہی ہے ورنہ نہ کوئی ارتداد تھا اور نہ دین سے خروج کا کہیں وجود تھا ۔

اعثم کہتاہے : زیاد ” بنو ھند “ کو شکست دینے کے بعد کندہ کے ” بنو عاقل “ نامی قبیلہ، کی طرف روانہ ہوا اس نے ان پر بھی اچانک او ران کو اطلاع دیئے بغیرحملہ کیا ۔ ” زیاد بن لبید “ کے سپاہی جب بنی عاقل کے نزدیک پہنچے تو قبیلہ کی عورتوں کی فریاد بلند ہوئی تو لوگ زیاد کے لشکر سے لڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے قبیلہ کے لوگوں اور سپاہیوں کے درمیان نبرد آزمائی ہوئی اور تھوری مدت کے بعد یہ جنگ قبیلہ والوں کی شکست پر ختم ہوئی انہوں نے گھر بار اور بال بچوں کو چھوڑ کے فرار کیا اور وہ سب ” زیاد بن لبید “ کے سپاہیوں کے ہاتھ لگ گئے ۔

اسکے بعد وہ قبیلہ ” بنی حجر “ کی طرف روانہ ہوا اور ان پر شب خون مارا ۔ بنی حجر کے افراد ان دنوں زبردست اور نامور جنگجو مانے جاتے نیز قبائل کندہ کے بے مثال تیر اندازشمار ہوتے تھے چونکہ زیا دکے حملہ کے بارے میں پہلے سے مطلع نہیں تھے اور ان پر اچانک حملہ کیا گیاتھا اس لئے ایک مختصر جنگ اور مقابلہ کے بعد شکست سے روبرو ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوئے زیادکے سپاہیوں نے ان کے دو سو افراد کو قتل کرڈالا اور پچاس افرادکو قیدی بنالیا اورقبیلہ کے باقی افراد بھاگ گئے ان کا جو بھی مال و منال تھا مسلمانوں کے ہاتھوں یا بہ عبارت واضح ابوبکر کے سپاہیوں کے ہاتھ لگ گیا زیاد بن لبید ”بنی حجر “ سے جنگ کے بعد قبیلہ ” بنی حمیر “ کی طرف روانہ ہوا ۔ اس قبیلہ اور مسلمانوں کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی کہ اس میں مسلمانوں کے بیس افراد قتل کئے گئے اور قبیلہ کے بھی بیس افراد مارے گئے آخرکار قبیلہ ” بنی حمیر“نے بھی دوسرے قبیلوں کی طرح شکست کھائی اور بھاگ گئے مسلمانوں نے ان کی عورتوں اور بچوں پر تسلط جمایا۔

زیاد بن لبید کی کمانڈری میں انجام پانے والی ان جنگوں اور خونریزیوں کی خبر اشعث بن قیس کو پہنچی تو انتہائی غضبناک ہوا اور کہا:” کیا لبید کا بیٹا میرے رشتہ داروں اور میرے چچیرے بھائیوں کو قتل کرے ،عورتوں اور بچوں کو اسیر بنائے اور ان کی ثروت کو لوٹ لے اور میں آرام سے بیٹھا رہوں ؟!

اس کے بعد اپنے چچا زاد بھائیوں کو بلایا اور زیاد کی طرف روانہ ہواورشہر ” تریم “ ۱ کے نزدیک زیاد کے فوجیوں سے نبرد آزما ہوا اور ان کے تین سو افرادکو قتل کر ڈالا ۔ زیاد نے شکست کھاکر شہر ” تریم“ میں پناہ لے لی ، لہذا اشعث نے وہ تمام مال اور بچے پھر سے اپنے قبضہ میں لے لئے جنہیں زیاد لوٹ چکا تھا اس کے بعدا نہیں ان کے مالکوں کو واپس پہنچادیا ۔ اس روداد کے کندہ کے بعد مختلف قبیلے کے بہت سے افراد اشعث کے گرد جمع ہوگئے اور زیاد اور اسکے طرفداروں کا ” تریم “ میں محاصرہ کیا ۔ زیاد نے اس روداد کو ایک خط کے ذریعہ ابوبکر تک پہنچا دیا ابوبکر اس روداد سے غمگین اور پریشان ہوئے اور اسکے علاوہ کوئی چارہ نہ پایا کہ اشعث کے نام ایک خط لکھ کر اسے راضی کرےں ۔ مجبور ہوکر مندرجہ ذیل خط اس کے نام لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم،بندہ خدا عبد اللہ بن عثمان جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے اشعث بن قیس اور قبیلہ کندہ کے تمام ان افراد کے نام جو اس کے ساتھ ہیں ، اما بعد، خداوند عالم اپنے پیغمبر پر نازل کی گئی کتاب میں فرماتا ہے :

____________________

۱۔” تریم “ حضرموت کے شہروں میں سے ایک کا نام ہے اور ایک دوسرے شہر کا نا م شبام ہے او ردونوں شہر دو قبیلوں کے نام سے منصوب ہیں جو وہاں پر بستے تھے

”ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک موت کو دعوت مت دو جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ “(۱) میں تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہوں اور ارتداد و خدا سے پیمان شکنی سے روکتا ہوں کہ نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرنا تا کہ یہ چیز تمہیں راہ خدا سے گمراہ کرکے ہلاکت و بدبختی کی طرف نہ کھینچ لے ۔ اگر اسلام سے منحرف(۲) ا ور زکوٰة دینے سے انکار کرنے میں تمہار امحرک میرے نمائندہ زیاد بن لبید کی نامناسب اقدام اور بدسلوکی ہے(۳) تو میں اس کو آپ لوگوں کی سرپرستی سے معزول کرتا ہوں اور جسے تم بھی پسند کرتے ہو میں اسے تمہارے لئے سرپرست قرار دیتا ہوں اور حامل رقعہ کو میں نے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگوں نے اس حق کو قبول کیا تو وہ بھی زیاد کو حکم دے گا کہ وہ تمہارے شہر ووطن کو چھوڑ کر واپس آجائے اور تم لوگ بھی اپنے کئے پر نادم ہو کر جتنا جلد ممکن ہو توبہ کر لوخداوند عالم ہمیں اور تمہیں اسی راہ پر کامیاب کرے جو اس کی رضا اور خوشنودی کی راہ ہے والسلام(۴)

____________________

۱۔<یا ایها الذین آمنوا اتقو الله حق تقاته و لاتموتن الا و انتم مسلمون >(آل عمران / ۱۰۲)

۲۔ میں نہیں جانتا ابوبکر انہیں کس ارتدادکا الزام لگاتے ہیں کہ جبکہ وہ خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام کی نبوت کی شہادت دیتے اور مسلمانوں کے قبلہ کی طرف رخ کرے نما زپڑھتے تھے ؟!

۳۔ ابوبکر نے یہاں پر اپنے گورنر کی جارحیت اور ظلم کا اعتراف کیا ہے اور اختلاف کے اسرار کو فاش کیا ہے کہ قبائل عر ب کے اختلافات اور بغاوت کا سبب گورنروں کی جارحیت تھی نہ کہ ان کا ارتداد اور اسلام سے انحراف۔

۴۔ فتوح اعثم کی ج ۱/ ص ۶۸ پر اسی صورت میں آیا ہے اور جو کچھ حسان نے ابوبکر کے نامہ کے ذیل میں لکھا ہے اسے منعکس نہیں کیا ہے شائد اس سلسلہ میں چند اشعار بھی تھے فتوح کے مؤلف کے نقل کرنے سے رہ گئے ہیں ۔

جب ابوبکر کا خط اشعث کو ملا اور اس نے اس کو پڑھ لیا تو، اس نے قاصد سے کہا؛ تیرا رئیس ابوبکر ہماری مخالفت کے سبب ہم پر کفر و ارتداد کا الزام لگاتا ہے ، لیکن اپنے نمائندے کو کافر نہیں جانتا ہے جس نے ہمارے مسلمان رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں کو قتل کیا ہے ؟

قاصد نے کہا: جی ہاں ، اشعث ، تیرا کفر ثابت ہے کیونکہ تم نے مسلمانوں کے گروہ سے اختلاف کیا ہے(۱)

قاصد نے جب یہ جملہ کہا تو اشعث کے چچیرے بھائیوں میں ایک جوان نے اٹھ کر اس پر حملہ کیا اور اسکے فرق سر پر تلوار لگا کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالا ۔

اشعث نے اس جوان سے کہا: احسنت ! آفرین ہو تم پر ، ایک جھگڑالو کو خاموش کردیا اور ایک دخل در معقولات کرنے والے کو فوری جواب دیا ۔

ابو قرہ کندی اس روداد سے غضبناک ہوا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر بولا: اشعث ! نہیں ، خدا کی قسم تم نے جو کام انجام دیا ہے، ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی ترے ساتھ اس بات پر موافق نہیں ہے اور تعاون نہیں کرے گا کیونکہ تم نے ایک ایسے قاصد کو قتل کیا ہے جو کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا تھاجب کہ تم اس پر جارحیت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے تھے ابو قرہ نے کہا اور اپنے قبیلہ کے افراد کے ساتھ اشعث کے گروہ سے اٹھ کر اپنے قبیلہ کے مرکز کی طرف چلا گیا ۔

____________________

۱۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے مامور اشعث اور اس کے افراد کے ساتھ اتحاد و یکجہتی ہمدردی ایجاد کرنے کے بجائے اشعث اور اس کے افراد کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے ۔

اس کے بعد ابو سمرکندی اٹھا اور بولا: اشعث! تم ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہو ، کیونکہ تم نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کر ڈالا ہے ہم ان سے لڑتے ہیں جو ہم سے جنگ کرتے ہیں لیکن قاصد اور حامل خط کو قتل کرناصحیح اور مناسب نہیں تھا ۔

اشعث نے کہا؛ تم لوگ اپنے فیصلہ میں جلد بازی نہ کرو، اولاً اس قاصد نے ہم سب لوگوں پر کفر و ارتدادکا الزام لگا یا ۔

ثانیاً اگرچہ میں اس کے قتل سے ناراض نہ ہوا لیکن بہرحال میں نے اس کے قتل کا حکم بھی تو نہیں دیا تھا!

اس کے بعد ایک اور شخض اٹھا اور بولا : اشعث ! ہم سمجھتے تھے کہ تم اس نامناسب کام کے سلسلہ میں ہمارے لئے کوئی قابل قبول و اطمینان بخش عذر پیش کر کے ہمیں لاجواب کرو گے ، لیکن تم نے ہمارے جواب میں ا یک ایسی بات کہی جو ہم میں سے بیشتر افراد کی تم سے نفرت و بیزاری کاسبب بنا ، خدا کی قسم اگر تم دانا اور عقلمند ہوتے تو اس نامناسب کا م کو انجام پانے سے روکتے اور اس بے گناہ قاصد کی نسبت جارحیت اور ظلم کے مرتکب نہیں ہوتے اور اسے قتل نہیں کرواتے ۔

ایک اور شخص نے کہا: لوگو ! اس ظالم سے دوری اختیار کرو تا کہ خدا جان لے کہ تم اس کے ظلم و جارحیت سے راضی نہ تھے ۔

اس روداد کے بعد اشعث کے دوست و احباب اس کے گرد سے متفرق ہوگئے اور دو ہزار افراد کے علاوہ اس کے پاس کوئی نہ رہا ۔

زیاد نے ابوبکر کو ایک خط لکھا اور اس کے قاصدکے قتل ہونے کی خبر سے اسے مطلع کیا اور اس کے ضمن میں لکھا : میں اپنے احباب کے ساتھ فی الحال شہر ” تریم “ میں سخت محاصرہ اور برے حالات میں بسرکررہا ہوں ۔

ابوبکر نے قبیلہ کندہ کے بارے میں مشورہ کیا ۔ ابو ایوب انصاری ، نے کہا: فی الحال ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور اپنی پادشاہی اور ریاست میں مغرور ہیں اگر بیشتر سپاہ جمع کرنے کا فیصلہ کریں تو وہ یہ کام کر سکتے ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ اس سال تم اپنی فوج کو وہاں سے واپس بلا لو اور ان کے اموال کی زکوٰة سے صرف نظر کرو ۔ اس صورت میں مجھے امید ہے کہ وہ اپنی مرضی سے حق کی طر ف پلٹ آئیں گے اور اگلے سال سے اپنی مرضی اور خوشی سے زکوٰة ادا کریں گے ۔

ابوبکر نے کہا: ابو ایوب !خدا کی قسم جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر متعین فرمایا ہے ، اگر اس میں سے اونٹ کے پاؤں کا ایک حلقہ بھی کم دینے میں انکار کریں گے تو میں ا ن کے ساتھ جنگ کروں گا(۱) یہاں تک کہ بغاوت اور نافرمانی سے ہاتھ کھینچ لیں گے اور ذلیل و خوار ہوکر حق کو تسلیم کریں گے ۔

____________________

۱۔ اس جملہ میں ابوبکر کا اشعث کے افراد سے اختلاف کا راز واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر چاہتا تھا وہ اسی طرح زکوٰة دیتے رہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں دیتے تھے ورنہ بات ہرگز اسلام اور زکوٰة کے فریضہ کو قبول کرنے کے بارے میں نہیں تھی ۔

اس کے بعد ابوبکر نے عکرمة بن ابی جہل(۱) کو ایک خط میں لکھا کہ وہ اہل مکہ کے ایک گروہ اور اس کے ہمنواؤں کے ساتھ زیاد بن لبید کی طرف روانہ ہوجائے اور راستے میں عرب قبائل میں سے جو

بھی قبیلہ ملے انہیں اشعث کے خلاف لڑنے پر مشتعل کرے ۔

ابوبکر کے حکم سے عکرمہ قریش اور ان کے ہم پیمانوں کے دو ہزار سواروں کے ہمراہ زیاد کی طرف روانہ ہوا یہاں تک کہ نجران میں داخل ہوا اس وقت ” جریر بن عبد اللہ بجلی “ اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ نجران میں سکونت پذیر تھا اور خاندان بجلی کی سرداری اس کے ہاتھ میں تھی عکرمہ نے جریر کو اشعث سے جنگ کی دعوت دی لیکن جریر نے ان کا تعاون کرنے سے انکار کیا عکرمہ وہاں سے ” مارب“ کی طرف روانہ ہوا جب ”دبا“ کے باشندوں کو عکرمہ کے ’ ’مارب “پہچنے کی خبر ملی تو وہ عکرمہ کی روانگی سے غضبناک ہوئے اورکہا: ہم عکرمہ کو اس کے لئے نہیں چھوڑیں گے کہ قبیلہ کندہ اور غیر کندہ کے ہمارے چچیرے بھائیوں پر حملہ کرے اور انھیں قتل کر ڈالے ” دبا“ کے باشندوں نے اسی غرص سے ابوبکر کی طرف سے ان پر مامور نمائندہ ” حذیفہ بن محصن “ کو اپنے شہر سے نکال باہر کیا ، حذیفہ نے عکرمہ کے یہاں پناہ لے لی اور ”دبا“ کے باشندوں کی بغاوت کے بارے میں ابوبکر کو اطلاع دی ۔ ابوبکر اس واقعہ سے غضبناک ہوئے اور عکرمہ کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا :

____________________

۱۔ عکرمہ ، جس کا لقب ابوعثمان بن ابو جہل بن ہشام تھا وہ قبیلہ قریش کے خاندان مخزوم سے تھا اس کی والدہ مجالا نامی قبیلہ ہلال کی ایک عورت تھی ، عکرمہ کے باپ ابوجہل کا اصلی نام عمرو تھا عکرمہ بھی اپنے باپ ابوجہل کی طرح ایام جاہلیت میں رسول اللہ کے جانی دشمنوں میں شمار ہوتا تھا اور فتح مکہ کے کچھ دنوں بعد اسلام قبول کیا اور جنگ جمل میں ماراگیا اسد الغابہ ،۴/ ۲۔۷۔

اما بعد ، میں نے پہلے خط میں حکم دیا تھا کہ حضرموت کی طرف روانہ ہونالیکن

جب میرا یہ خط تجھے ملے تو اپنا راستہ بدل کر’ ’دبا“ کی طرف روانہ ہوجاواور وہاں کے لوگوں سے ایسا برتاؤ کروجس کے وہ شائستہ ہوں اور اس فرمان کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی تاخیر اور کوتاہی نہ کرنا ور جب ” دبا“ کی ماموریت سے فارغ ہوجاؤ تو وہاں کے باشندوں کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیجدواس کے بعد زیاد بن لبید کی طرف روانہ ہوجاو امید رکھتا ہوں خداوند عالم سرزمین حضرموت کی فتح تیرے ہاتھوں نصیب کرےو لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظیم

عکرمہ اسی حکم کے مطابق ”دبا“ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں کے باشندوں سے جنگ کی ، اور انہیں اپنے محاصرہ میں لے لیا چونکہ دبا کے باشندے اس محاصرہ میں مشکلات سے دوچار ہوئے تو اپنے گزشتہ حاکم حذیفہ کو پیغام بھیجا اور اس سے صلح کی درخواست کی اور کہا کہ وہ زکوٰةکو ادا کریں گے اور حذیفہ سے بھی محبت کرکے اس کے احکام کی اطاعت کریں گے حذیفہ نے دبا کے باشندوں کے نمائندہ کو اس پیغام کے ساتھ واپس بھیجا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کا معاہدہ منعقد نہیں ہوگا مگر مندرجہ ذیل شرائط پر:

۱ ۔ اقرار و اعتراف کرو کہ تم باطل پر ہو اور ہم حق پر ہیں ۔

۲ ۔ اعتراف کرو کہ تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں اور ہمارے مقتولین بہشت میں(۱)

____________________

۱ ۔کیا خداوند عالم قیامت کے دن جو کچھ ابوبکرکے گماشتے کہیں گے اسی پر عملی جامہ پہنائے گا؟ہم یہاں پر ایک بار پھر ابوبکر کے مامورین کی سختی اور تندی کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔

۳ ۔ تمہارے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہم اپنی مرضی کے مطابق تمہارے ساتھ برتاؤ کریں گے نہ تمہاری رائے اور مرضی کے مطابق۔

”دبا“ کے باشندوں نے مجبور ہوکر یہ شرائط مان لئے ۔ حذیفہ نے بیشتر اطمینان کیلئے پیغام بھیجا کہ اگر تم لوگوں نے واقعاً ہماری تجویز کو مان لیا ہے تو اسلحہ کے بغیر شہر سے باہر آنا ۔ انہوں نے بھی حاکم شہر کے اطمینان کیلئے اس کے حکم پر عمل کیا اور غیر مسلح صورت میں شہر سے باہر آگئے تا کہ صلح کا معاہدہ منعقد ہوجائے ۔

لیکن عکرمہ نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کے قلعہ پر قبضہ جمایا اور وہاں کے اشراف اور بزرگوں کے کھلے عام سر قلم کئے ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا اور ان کی ثروت کو غنیمت کے طور پر لوٹ لیا اور باقی لوگوں کو اسیر بناکر ابوبکر کے پاس بھیج دیا ۔

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردےاجائے اور انکے بچوں کو سپاہیوں کے درمیان غلاموں کی حیثیت سے تقسیم کردےاجائے ۔ عمر ابوبکر کے اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنے اور کہا: اے پیغمبر کے جانشین ! یہ لوگ دین اسلام پر باقی ہیں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ دل سے قسم کھاتے ہیں کہ اسلام سے منحرف نہیں ہوئے ہیں ۔

ابوبکر عمر کے کہنے پر ان کو قتل کرنے سے منصرف ہوگئے اور انھیں مدینہ کےجیل میں ڈال دیا یہاں تک وہ دنیا سے گزر گئے اور جب ابوبکر کے بعد حکومت کی باگ ڈور عمر کے ہاتھ آئی تو اپ نے انھیں جیل سے آزاد کر دیا۔

عکرمہ ” دبا“ کو فتح کرنے کے بعد ” زیاد “ کی مدد کیلئے حضرموت کی طرف روانہ ہو گیا ۔ جب یہ خبر اشعث کو پہنچی تو اس نے ” نجیر “ کے قلعہ میں پناہ لے لی ۔ اپنے دوست و احباب کی عورتیں اور بچے بھی وہیں پر جمع کر لئے اسکے بعد عکرمہ اور اس کے درمیان کئی جنگیں واقع ہوئیں جب اس روداد کی خبر قبیلہ کندہ اور ان افراد کو ملی جو ابوبکر کے قاصد کو قتل کرنے پر اشعث سے اختلاف کرکے اس سے جدا ہوئے تھے ، انہوں نے آپس میں کہا کہ اب جب کہ ہمارے بھائی قلعہ ” نجیر “ میں محاصرے میں پھنسے ہیں تو یہ ہمارے لئے ایک بڑی ننگ اور شرم کی بات ہے کہ انھیں دشمن کے حوالے کر کے خود نعمت و آسائش میں بسر کریں ، آئیے ہم ان کی طرف دوڑتے ہیں اور انہیں نجات دینے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح قبیلہ کندہ کے جنگ سے پیچھے بھاگنے والے لوگ دوبارہ زیاد کی فوج سے لڑنے کیلئے روانہ ہوئے زیاد کو جب انکی روانگی کی خبر ملی تو اس نے بے بسی اور پریشانی کا اظہار کیا عکرمہ نے اس سے کہا کہ مصلحت اس میں ہے کہ تم اسی جگہ پر رہنا اور محاصرہ میں پھنسے لوگوں کو محاصرہ توڑنے کی اجازت نہ دیناا ور میں چند لوگوں کے ساتھ ان لوگوں کی طرف چلا جاؤں گا جو ہماری طرف آرہے ہیں اور انھیں آگے بڑھنے سے روک لوں گا ۔

زیاد نے کہا: اچھی رائے ہے ، لیکن اگر خدا نے تجھے کامیابی عطا کی تو تلوار کو نیام میں نہیں رکھنا یہاں تک انکے آخری فرد کونہ قتل کر دو(۱)

____________________

۱۔ خلیفہ کے گماشتے ایک دوسرے کو اسی طرح کی سفارش کرتے تھے کہ مسلمانوں کے مخالفین میں سے کسی کو زندہ نہ رکھنا ۔

عکرمہ نے کہا: جہاں تک ممکن ہوسکے اس راہ میں کوشش کروں گا اس کے بعد روانہ ہوا یہاں تک ان لوگوں میں پہنچا اور ان کے درمیان جنگ واقع ہوئی ۔ عکرمہ اور اس کے دوستوں نے اس جنگ میں شکست کھائی جب رات ہو گئی توجنگ کے شعلے بجھ گئے لیکن دوسرے دن کی صبح کو دونوں فوجیں دوبارہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے قرار پائیں اور اس روز عصر تک گھمسان کی جنگ جاری رہی ۔

دوسری طرف سے اشعث بن قیس جو محاصرے میں تھا ، ان روداد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا ور چونکہ اس قلعہ کا محاصرہ جاری رہا بھوک اور پیاس نے اشعث اور اس کے ساتھیوں کو تنگ اور مجبور کر دیا اشعث نے زیا د کو پیغام بھیجا کہ خود اسے ، اس کے خاندان اور اس کے دوستوں میں سے دس افراد کو امان دیدے ۔ زیاد نے اس تجویز کی موافقت کی اور ان کے درمیان ایک عہد نامہ لکھا گیا ۔ محاصرہ میں پھنسے لوگوں نے خیال کیا کہ اشعث نے یہ امان نامہ سب لوگوں کیلئے حاصل کیا ہے اور تمام محاصرہ شدہ لوگ اس امان نامے میں شامل ہیں ، لہذا وہ خاموش رہے اور اس عہد نامہ کی مخالفت نہیں کی ۔ زیاد نے بھی ایک خط کے ذریعہ اس امان نامہ کی روداد عکرمہ کو بھیج دی ۔ عکرمہ نے ان لوگوں سے --جو اس سے لڑتے تھے ---کہا: لوگو ! ہم سے کس لئے جنگ کرتے ہیں ؟

عکرمہ نے کہا: یہ دیکھ لو ! تمہارے سردار نے امان کی درخواست کی ہے ۔ یہ کہا اور خط کو ان کی طرف پھینک دیا ۔ جب انہوں نے خط کو پڑھ لیا اور خط کے مضمون یعنی یہ کہ اشعث نے زیاد سے امان کی درخواست کی ہے سے مطلع ہوئے تو کہا : عکرمہ اب ہماری تیرے ساتھ کوئی جنگ ہی نہیں ہے ، تم سلامت چلے جاؤ اور وہ بھی اشعث کو گالیاں سناتے ہوئے عکرمہ کی جنگ سے واپس چلے گئے ۔

عکرمہ جب ان قبائل کی جنگ سے مطمئن ہوا تو اپنے دوستوں سے کہا: جتنا جلد ممکن ہوسکے زیاد کی طرف روانہ ہوجاؤ، کیونکہ اشعث نے امان کی درخواست کی ہے اور اگر زیاد اور اس کے ساتھی قلعہ کو فتح کریں اور وہاں کی ثروت کو غنیمت کے طور پر لے جائیں تو شائد تمہیں اس میں شریک قرار نہ دیں کیونکہ وہ قلع فتح کرنے میں تم لوگوں پر سبقت حاصل کریں گے ۔

عکرمہ اور اس کے دوست جب قلعہ ” نجیر “ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ابھی اشعث قلعہ سے باہر نہیں آیا ہے اور اپنے اور اپنے دوستوں کیلئے ایک مضبوط عہد نامہ کا مطالبہ کررہا ہے ۔ زیاد نے عکرمہ سے سوال کیا کہ : قبائل کندہ کے ساتھ تم نے کیا کیا ؟

عکرمہ نے کہا: تمہاری نظر میں مجھے ان کے ساتھ کیا کرناچاہئے تھا خدا کی قسم میں نے قبائل کندہ کے لوگوں کو ایسا مرد پایا جو طاقت ور ، جنگجو اور موت کا مقابلہ میں صابر و شاکر تھے۔ میں نے ان کے ساتھ جنگ کی لیکن آخرکار معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے طاقتور اور قوی تر ہیں ۔ اس کے علاوہ تیر اخط مجھے پہنچا اور میں نے دیکھا کہ اشعث نے امان کی درخواست کی ہے اور جنگ ختم ہوئی ہے اس لئے میں بھی اشعث کے امدادی فوجیوں سے جنگ ترک کرکے تیری طرف روانہ ہو گیا ہوں ۔

زیاد نے کہا: عکرمہ! نہیں ! خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ، وہ ایک بہانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ڈرپوک شخص ہو اور تیرا بزدل ہونا ہی سبب بنا ہے کہ تم جنگ سے فرار کرگئے ہو اور ہماری طرف آگئے ہو، کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قبائل کندہ پر ایسی تلوار چلانا کہ ان میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکے ؟ اب تم اپنے دوستوں کے ہمراہ اس خوف میں واپس آئے ہو کہ کہیں مال غنیمت ہاتھ سے نہ چلا جائے ۔اس پر خدا کی لعنت ہو جو آج کے بعد تجھے بہادر کہے ۔ عکرمہ ، زیاد کی باتوں سے غضبناک ہوا اور کہا: زیاد ! خداکی قسم اگر وہ تیرے ساتھ جنگ کرتے تو تم انھیں ایسے شیر پاتے جو اپنے تیز دانتوں اور اپنے مضبوط اور وحشی پنجوں کو تیز کرکے اپنے بچوں کے ہمراہ اٹھتے ہیں اور بہادرانہ طور پر بہادروں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ، اس وقت تم آرزو کرتے کہ وہ تم سے دست بردار ہوکر دوسری طرف رخ کرتے ۔ اسکے علاوہ تم خود ایک خشک ، سخت ، بہت بڑے ظالم ، غاصب ، بزدل اور مال و ثروت کے بارے میں دوسروں سے حریص تر ہو ۔ یہ تم تھے جس نے یہ سب شورشیں برپا کیاہے ۔ یہ تم تھے جس نے ان لوگوں سے جنگ کی ہے اور وہ بھی ایک اونٹ کیلئے ، جی ہاں ، صرف ایک اونٹ کیلئے اپنے اور ان قبائل کے درمیان اتنی جنگیں اور خونریزیاں برپا کی ہیں ا ور اگر میں اور میرے فوجی تیری نصرت کیلئے نہ آتے تو سمجھ لیتے تجھے کیسے یہ لوگ تہ تیغ کرکے طوق و زنجیر میں جکڑ تے ہیں ۔

اس کے بعد عکرمہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف خطاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ روانہ ہوجائیں لیکن زیاد نے عکرمہ سے معافی مانگی ۔ عکرمہ نے بھی اس کی معافی قبول کی اور اس کی نصرت اور مدد کرنے میں وفاردار رہا ۔ اس کے بعد اشعث اپنے خاندان ، بنی اعمام کے بزرگوں اور اپنے چچیرے بھائیوں اور ان کے خاندان اور مال و منال کے ساتھ قلعہ سے باہر آیا ۔ چونکہ اشعث نے صرف اپنے رشتہ داروں اور اعزہ کیلئے امان طلب کی تھی اور اس کا اپنا نام اس امان نامہ میں ذکر نہیں ہوا تھا، لہذا زیاد نے کہا: اشعث ! تم نے اپنے لئے امان نہیں چاہی ہے ۔ خدا کی قسم اب میں تجھے قتل کردوں گا ۔

اشعث نے کہا: میں نے اپنے رشتہ داروں کیلئے امان کی درخواست کی تھی مناسب نہیں تھا کہ اس میں اپنا نام بھی لکھدوں ، لیکن ، یہ جو تم نے کہا کہ : مجھے قتل کر ڈالو گے ، خد اکی قسم اگر مجھے قتل کر دو گے تو یمن کے تمام لوگ تیرے اور تیرے سردار ابوبکر کے خلاف شورش و بغاوت کریں گے اور وہ بغاوت ایک بے مثال بغاوت ہوگی ۔

زیاد ، اشعث کی باتوں پر توجہ کئے بغیر قلعہ میں داخل ہوا اور اشعث کے ایک ایک سپاہی کو پکڑ کر سر قلم کررہا تھا ، انہوں نے کہا: زیاد ! ہم نے اس لئے دروازہ تیرے لئے کھولا ہے کہ تم نے ہمیں ا مان دی تھی، اب تم کس حیثیت سے ہمیں قتل کررہے ہو ؟ امان دینا کہاں اور یہ قتل کرنا کہاں ؟

زیاد نے کہا: اشعث نے تم لوگوں سے جھوٹ کہا ہے ،کیونکہ عہد نامہ میں اس کے گھر انے کے افراد اور اس کے رشتہ داروں میں سے دس افرادکے علاوہ کسی کا نام نہیں آیا ہے ۔

اس کے بعد ان لوگوں نے کچھ نہیں کہا اور سمجھ گئے کہ یہ اشعث ہے جس نے انھیں موت کے حوالے کیا ہے ۔

جس وقت زیاد قلعہ کے لوگوں کے سر قلم کررہا تھا، اسی اثناء میں ابوبکر کی طرف سے اسے مندرجہ ذیل مضمون کا ایک خط ملا:

مجھے خبر ملی ہے کہ اشعث نے امان کی درخواست کی ہے اور میرے حکم کی اطاعت کی ہے تو اسے میرے پاس بھیج دو اور کندہ کے بزرگوں میں سے کسی کو قتل نہ کرنا۔

زیاد نے کہا: اگر یہ خط مجھ پہلے ملتا تو ان میں سے ایک کو بھی قتل نہیں کرتا اس کے بعد باقی افراد کو جمع کیاان کی تعداد اسی ( ۸۰) تھی انھیں زنجیروں میں جکڑ کر ابوبکر کے پاس بھیج دیا۔

قبیلہ کندہ کے افراد جب مدینہ میں داخل ہوئے اور ابوبکر کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو ابوبکر نے اشعث سے کہا:

شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں تم پرمسلط کیا ۔

اشعث نے کہا؛ جی ہاں ، میری جان کی قسم تم مجھ پر مسلط ہوگئے ہو جبکہ میں اسی چیز کا مرتکب ہوا ہوں جس کا گذشتہ دوسرے لوگ بھی مرتکب ہوئے تھے وہ یہ کہ تیرے حاکم زیاد بن لبید نے ہمارے اعزہ اور رشتہ داروں کو بے گناہ اور ظلم و ستم سے قتل کیا اور میرے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ وہی کیا جسے تم خود جانتے ہو۔

عمر اپنی جگہ سے اٹھے اور کہا: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین ! یہ اشعث مسلمان تھا، پیغمبر پر ایمان لایا تھا اور قرآن پڑھتا تھا ، بیت اللہ کی زیارت کی تھی اس کے بعد اپنے دین سے منحر ف ہو گےا اور اپنے طریقہ کو بدل ڈالا اور زکوٰة دینے سے انکار کیا۔ پیغمبر نے حکم دیا ہے جو بھی اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کردو ۔ اب خدا نے بھی تجھے قدرت عطا کی ہے لہذا اس کو قتل کرنا کیونکہ اس کا خون حلال و مباح ہے ۔

اشعث اٹھا اور عمر کے جواب میں ا بوبکر سے مخاطب ہوا : اے پیغمبر کے جانشین! میں نہ تو اپنے دین سے منحرف ہوا ہوں او رنہ ہی اپنے مالک کو زکوٰة دینے میں بخل سے کام لیا ہے ۔ لیکن تیرے نمائندہ زیاد بن لبید نے میرے رشتہ داروں اور اعزہ پر ظلم کیا اور ان میں سے بے گناہ افراد کو قتل کیا میں اس کے اس کام سے پریشان تھا اور اس کا انتقام لینے کیلئے اٹھا تھا اور اس سے جنگ و مقابلہ کیا ۔ یہ تھی وہ روداد جو گزری اب میں حاضر ہوں تا وان اور پیسے ادا کرکے اپنے آپ کو اور ان شاہزادوں اور یمن سے لائے گئے اسیروں کو نجات دلاؤں اور زندگی بھر تیرا حامی و مددگار رہوں اور تم اپنی بہن ام فروہ کو میرے عقد میں دے دو تا کہ میں تیرے لئے بہترین داماد بنوں ۔

ابوبکر نے کہا: میں نے تیری درخواست منظور کی، اس کے بعد اپنی بہن کو اشعث کے عقد میں دیدیا اور اسے بذل و بخشش سے بھی نوازا اس دن کے بعد اشعث ابوبکر کے دربار میں بہترین مقام و حیثیت کا مالک ہو گیا۔

یہاں پر جنگ کندہ کی روداد اختتام کو پہنچی ، اب ہم اس جنگ کے اسباب اور نتائج پر بحث کرتے ہیں ۔