ـآیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹
(
بسم الله الرحمن الرحیم
)
۱ ۔(
اذا الشمس کورت
)
۲ ۔(
و اذا النجوم انکدرت
)
۳ ۔(
واذا الجبال سیّرت
)
۴ ۔(
و اذا العشار عطّلت
)
۵ ۔(
و اذاالوحوش حشرت
)
۶ ۔(
و اذا البحار سجّرت
)
۷ ۔(
و اذا النفوس زوّجت
)
۸ ۔(
و اذا الموء دة سئلت
)
۔
۹ ۔(
بِایّ ذنب قتلت
)
۔
ترجمہ
اس خدا کے نام سے جو مہر بان اور بخشنے والا ہے ۔
۱ ۔ جس وقت سورج کو لپیٹاجائے گا۔
۲ ۔ اور جس وقت ستارے بے نور ہوجائیں گے ۔
۳ ۔ جس وقت پہاڑ چلنے لگیں گے ۔
۴ ۔ جس وقت زیادہ قیمتی مال فراموش کردیا جائے گا۔
۵ ۔ جس وقت وحوش کو جمع کیاجائے گا۔
۶ ۔ جس وقت دریا جوش مارنے لگیں گے ۔
۷ ۔ جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین قرار پائے گا ۔
۸ ۔ جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا ۔
۹ ۔ کہ ان کو کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے ؟
جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا
اس سورہ کے آغاز میں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، مختصر، ہیجان انگیز اور دل ہلا دینے والے اشاروں کے ساتھ اس جہاں کے اختتام اور قیامت کی ابتداء کے ہولناک حوادث سے ہمارا آمنا سامنا ہے ۔
یہ حوادث ہمیں عجیب و غریب جہانوں کی سیر کراتے ہیں ، پر وردگار عالم ان نشانیوں میں سے آٹھ نشانیون کو بیان کرتاہے ۔ پہلے ارشاد فرماتاہے :
” اس وقت جب سورج کا دفتر لپیٹ دیاجائے گا “(
اذاالشمس کورت
)
۔
” کورت“ ،” تکویر“ کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کے لپیٹنے اور جمع کرنے کے معنی میں ہے ۔ ( مثلاً سر پر عمامہ لپیٹنا) یہ ایسا مفہوم ہے جو لغت و تفسیر کی بہت سی کتب سے معلوم ہو تا ہے کبھی کسی چیز کے پھینک دینے اور تاریک ہو نے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں معانی اسی اصلی مضمون کی طرف لوٹتے ہیں ۔
بہر حال یہاں مراد سورج کی روشنی کا بجھ جانا ہے ، اس کا تاریک ہو نا ، یعنی اس کے وجود کا ختم ہو جانا ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ فی الحال سورج ایک کرّہ ہے ، حد سے زیادہ گرم اور جلتا ہو ا، اس قدر کے اس کا تمام مواد تہہ بہ تہہ گیس کی شکل میں نکل آیاہے اور اس کے ارد گرد جلانے والے شعلے موجود ہیں جن کی بلندی لاکھوں میٹر ہے ۔ اگر کرہ زمین ان میں سے کسی شعلے کی دمریان الجھ جائے تو ایک ہی لمحہ میں خاک ہو کر تھوڑی سی گیس میں تبدیل ہو جائے لیکن اس جہان کے آخر میں قیامت کی ابتداء پر جوحرارت ختم ہو جائے گی اور شعلے بجھ جائیں گے ، اس کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی اور اس کے حجم میں کمی ہو جائے گی ۔
تکویر کے یہ معنی ہیں ۔ اسی لئے لسان العرب میں آیاہے :
(کورت الشمس جمع ضوء ا ولف کما تلف العمامه
) سورج کی تکویر کے یہ معنی ہیں کہ اس کی روشنی سمٹ جائے گی اور لپیٹ دی جائے گی جس طرح عمامہ کو پیٹتے ہیں ۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی موجودہ علم بھی تائید کرتا ہے ۔ سورج کی روشنی آہستہ آہستہ تاریکی کی طرف جارہی ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :
” اور جس وقت ستارے بے نور ہو کر غائب ہو جائیں گے “(
و اذا النجوم انکدرت
)
۔
” انکدرت“،” انکدار“ کے مادہ سے گرنے اور پراکندہ ہونے کے معنی میں ہے اور کدورت کی اصل کے پیش نظر تیر گی اور تاریکی کے معنی میں ہے ۔ زیر بحث آیت میں ان دونوں کا جمع ہونا بھی ممکن ہے اس لئے کہ آغاز قیامت میں ستارے اپنی روشنی کھو بیٹھے گے ، منتشر ہو جائیں گے اور گر پڑیں گے اور عالم بالا کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا جیسا کہ سورہ انفطار کی آیت ۲ میں آیاہے :
(
و اذا الکواکب انتثرت
)
” اور جب ستارے گر کر منتشر ہو جائیں گے “اور جیسا کہ سورہ مرسلات کی آیت ۸ میں آیا ہے(
فالنجوم طمست
)
اور جب ستارے مٹ جائیں گے اور تاریک ہو جائیں گے “قیامت کی تیسری نشانی کے سلسلہ میں فرماتا ہے :
”اور جب پہاڑ چلنے لگیں گے “اذالجبال سیرت “۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ قرآن کی مختلف آیتوں سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آغاز قیامت میں پہاڑ مختلف مراحل طے کریں گے۔
پہلا مرحلہ یہ کہ چلنے لگیں گے اور آخری مرحلہ میں غبار میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ اس سلسلہ میں مزید تشریح اسی جلد میں سورہ نباکی آیت ۲۵ میں ملاحظہ فرمائیں )۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” جس وقت نہایت قیمتی مال فراموشی کے حوالہ ہو جائیں گے “(
اذاالعشار عطلت
)
۔
” عشار“ جمع ”عشراء“کی جو در اصل حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے جس کے حمل کو دس ماہ گذر چکے ہوں اور وہ بچہ جننے کے قریب ہویعنی زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ وہ ایک اور اونٹ کو جنم دے گی ۔ اور بہت زیادہ دودھ اس کے پستانوں میں ظاہرہو گا ۔
جس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں تو عرب میں اس قسم کے اوٹنی بہت قیمتی شمار ہو تی تھی ۔
”عطلت“ تعطیل کے مادہ سے سرپرست اور چرواہے کے بغیر چھوڑدینے کے معنی میں ہے ، مراد یہ ہے کہ اس دن ہولناکی اس قدر شدید ہو گی کہ ہر انسان اپنے نفیس ترین مال کو فراموش کردے گا ۔
مرحوم طبرسی مجمع البیان میں نقل کرتے ہیں کہ بعض مفسرین نے عشار کو بادل کے معنی میں لیا ہے اور ” عطلت‘ بارش کے معطل ہو جانے کے معنی میں ہے ۔ یعنی اس دن آسمان پر بادل تو ظاہر ہوں گے لیکن برسیں گے نہیں ۔ ( ہوسکتاہے یہ بادل مختلف گیسو ں سے ہوں ، یا ایٹمی بادل ہوں ، یا گرد و غبار کے تودے جو پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے سے آغاز قیامت میں ظاہر ہو ں گے )۔
لیکن طبرسی مزید کہتے ہیں کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ عشار کی تفسیر بادلوں سے کرنا ایسی چیز ہے جو لغت عرب میں معروف نہیں ہے لیکن اس مطلب کی طرف توجہ سے جو ” طریحی “ نے مجمع البحرین میں نقل کیا ہے کہ ” عشار“ اصل میں حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے اور اس کے بعد بار بردار کو کہا گیا ہے ۔
ممکن ہے بادلوں پر بھی اس اطلاق عام طور پر پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے ہو اگرچہ ہو بادل جو آغاز قیامت میں نمو دار ہو ں گے بار بردارنہیں ہوں گے ( غور کیجئے)
بعض مفسرین نے ”عشار“ کی تفسیر گھروں اور زرعی زمینوں سے کی ہے جو عرصہ محشرمیں بیکار ہو جائیں گے اور ساکنوں اور زراعت کرنے والوں سے محروم ہوں گی۔لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ بعد میں آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے :
” اور جس وقت وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے “(
و اذا الوحوش حشرت
)
۔ وہی جانور جو عام حالات میں ایک دوسرے سے ڈرتے تھے عرصہ قیامت کے حولناک حوادث کی وحشت کی شدت ایسی ہو گی کہ ان کو ایک دوسرے کے گرد جمع کردے گی اور وہ ہر چیز کو بھول جائیں گے ، گویا وہ چاہیں گے کہ اپنے اس اجتماع سے اپنے خوف و و حشت میں کمی کریں ۔
دوسرے لفظوں میں جس وقت وہ ہولناک مناظر و حشی جانوروں سے ان کے مخصوص خواص چھین لیں گے تو انسانوں سے کیا سلوک کریں گے ۔ لیکن بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت قیامت کی عدالت میں وحشی جانوروں کو جمع ہو نے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے عالم میں اور اپنی آگاہی اور شعور کے حدود میں رہتے ہو ئے جواب دہی کے پابند ہیں اور گر انہوں نے ایک دوسرے پرظلم و ستم کیا ہو گا تو وہاں ان سے بدلہ لیا جائے گا ۔
اس آیت کی سورہ انعام کی آیت ۳۸ کے ساتھ مشابہت ہے کہ جو کہتی ہے کہ:
(
وما من دآبةٍ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه اِلَّا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون
)
کوئی زمین میں چلنے والا اور کوئی پرندہ جو پانے پروں سے پرواز کرتا ہے موجود نہیں مگریہ کہ وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔ ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں چھوڑا نہیں ہے ، اس کے بعد تم اپنے پر ور دگار کی طرف محشور ہوگے۔
( جانوروں کے حشر و نشر اور حساب و کتاب کے سلسلہ میں تفصیلی بحث سورہ انعام کی اسی آیت کے ذیل میں جلد ۳ ص ۳۶۹ تا ۳۷۲ ہم کر چکے ہیں )۔
جو کچھ یہاں کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زیرِ بحث آیات دنیا کے اختتام اور آخرت کے آغاز کی ہولناک نشانیوں کے سلسلہ میں بحث کر رہی ہیں ، لہٰذا پہلی تفسیر مناسب ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :۔
” جس وقت دریا و ں میں آگ لگ جائے گی “(
و اذا البحار سجرت
)
۔
” سجرت“ ۔ ” تسجیر“ کے مادہ سے جلانے اور آگ کے ہیجان میں آنے کے معنی میں ہے ۔ اور اگر قرآن کی یہ تعبیر گزشتہ زمانے میں مفسیرین کے لئے عجیب و غریب تھی تو اس وقت ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہے اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پانی دو عناصر ، ہیڈروجن اور آکسیجن، سے مرکب ہے جو دونوں شدید طور پر قابل اشتعال ہیں ۔
بعید نہیں کہ عرصہ قیامت میں دریا اور سمندروں کاپانی اس طرح دباو اور فشار میں آجائے کہ انکا تجزیہ ہو جائے اور یہ آگ پکڑ جائیں ۔
بعض نے اس لفظ کے پر ہو نے کے معنی میں تفسیر کی ہے جیسا کہ آگ سے پر تنور کو مسجر کہا جا تا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ عرصہ محشر کے زلزلے اور پہاڑوں کا انتشار دریاو ں اور سمندروں کے پر ہونے کا سبب بنے یا آسمانی پتھروں کے گرنے سے وہ پر ہو جائیں اور ان کا متلاطم پانی خشکیوں کی سطح پرجاری ہو اور ہر چیز کو غرق کر دے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :
” اور جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین ہو جائے گا(
و اذا النفسوس زوّجت
)
۔ صالحین صالحین کے ساتھ، اور بد کار بدکار لوگوں کےساتھ ، اصحاب الیمین اصحاب الیمین کے ساتھ اور اصحاب الشمال اصحاب الشمال کے ساتھ ، اس دنیا کے بر عکس جہاں سب ملے جلے ہیں ، کہیں مومن کا ہمسایہ مشرک ہے اور کہیں صالح اور نیک کا ہمسایہ غیر صالح ہے ۔لیکن قیامت کے جو یوم الفصل یعنی جدائی کا دن ہے ، اس میں یہ صفتیں مکمل طور پر الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گی ۔
اس آیت کی تفسیر میں دوسرے احتمالات بھی پیش ہو ئے ہیں من جملہ ایک یہ ہے کہ ارواح ابدان میں پلٹ آئیں گی یا جتنی روحوں کے ساتھ جہنمی نفسوس شیاطین کے پا ہو جائیں گے یا یہ کہ ہر انسان اپنے دوست یا رفیق کے قریب ہو گا بعد میں اس کے کہ موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے گی یا ہر انسا ن اپنے اعمال کا قرین ہو گا۔
لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیات ۷ سے اا تک اس کی گواہ ہیں :
(
وکنتم ازواجاً ثلاثة فاصحاب المینة ما اصحاب المینة و اصحاب امشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون اولٰئک المقربون
)
اس دن تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاو گے۔ پہلا گروہ اصحاب مینہ کا ہے ۔ کیا کہنا اصحاب میمنہ کا ۔ دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے وہ کیاہی منحوس گروہ ہے اور تیسرا گروہ سبقت کرنے والوں کاہے اور سبقت کرنے والے ہی مقربین ہیں ۔
حقیقت میں یہ آیت ایسی تبدیلیاں جو قیامت کی تمہید ہیں ، ان کے ذکرکے بعد اس عظیم دن کے ہر اول دستے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ایسا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے قرین کے ہمراہ ہو جائے گا ۔
اس کے بعد قیامت کے ایک حادثہ کو موضوع بناتے ہوئے مزید فرماتا ہے :
” جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا “(
و اذا المو دة سئلت
)
۔” کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی ہیں “(
بایّ ذنبٍ قتلت
)
۔
” موء دة “ ۔ ” وأد“ ( بروزن رعد) اس کی لڑکی کے معنی میں ہے جسے زندہ دفن کر دیا گیا ہو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی ثقل ، بوجھ اور سنگینی کے ہیں اور چونکہ ان لڑکیوں کو قبر میں دفن کرتے تھے اور ان پر مٹی ڈال دیتے تھے اس لئے یہ تعبیر ان کے لئے استعمال کی گئی ہے ۔
بعض روایات کے نتیجہ میں اس آیت کی تفسیر کو وسعت دی گئی ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے قطع رحم یا مودة اہل بیت کو قطع کرنا اس میں شامل ہے ۔
ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس وقت اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال ہو ا تو آپ نے فرمایا (من قتل فی مودتنا
) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہماری محبت کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ہیں ۔
ایک د وسری حدیث میں آیا ہے کہ اس بات کی گواہ آیت قربیٰ ہے(
قل لا اسئلکم علیه اجراً الاالمودة فی القربیٰ
)
”کہہ دے میں تبلیغ نبوت کے سلسلہ میں تم سے کسی قسم کا اجر نہیں چاہتا سوائے اپنے اہل بیت کی مودة کے “ (سورہ شوریٰ ۲۳ ۔ )
البتہ آیت کا ظاہری مفہوم وہی پہلی تفسیر ہے لیکن اس میں اس قسم کے مفہوم کی صلاحیت ہے ۔
____________________