عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 23%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18649 / ڈاؤنلوڈ: 4555
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

جنگ کندہ کی جانچ پڑتال

یہ تھی وہ جنگیں جو قبائل کندہ اور ابوبکر کے سپاہیوں کے درمیان واقع ہوئیں تمام مؤرخین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ سب جنگیں صرف ایک اونٹ کے سبب واقع ہوئی ہیں اس اونٹ کا مالک اسے بہت چاہتا تھا ۔اور ابو بکر کے نمائندہ زیاد بن لبید سے درخواست کی کہ اس اونٹ کے بدلے میں اس سے دوسرا اونٹ قبو ل کرے ، لیکن زیاد نہیں مانا ۔ اس جوان نے اپنے قبیلہ کے ایک سردار کو واسطہ قرار دیا ، پھر بھی زیاد نے قبول نہیں کیا یہاں تک یہ معمولی روداد ایک بڑی ، خونین ،اور تباہ کن جنگ میں تبدیل ہوئی ۔

لیکن اکثر مورخین نے اس روداد کی تفصیلات اور جزئیات لکھنے سے اجتناب کیا ہے تا کہ یہ امر بزرگ اصحاب پر تنقید اور اعتراض کا سبب نہ بنے صرف اعثم کوفی نے کسی حد تک اس کے جزئیات کی طرف اشارہ کیاہے کہ ہم نے اس سے نقل کیا ۔

تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مؤرخین نے ” زیاد بن لبید “ کی ظالمانہ روش (جو اس جنگ میں واضح ہے) اور اس کے فضائل میں شمار کیا ہے اور اس کی تجلیل کی ہے کہ وہ ایک قوی اور پختہ ارادے کا مرد اور زکوٰة حاصل کرنے میں بہت سخت تھا جبکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اس قسم کی سختی کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور اس سلسلے میں اپنے والی اور حکام کو نرمی سے پیش آنے کی سفارش فرماتے رہے ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ” معاذ بن جبل “ کو یمن کیلئے مامور کیا تو اپنے فرمان کے ضمن میں یوں فرمایا:

” معاذ ! تم ان لوگوں کی طرف جارہے ہو جو اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)ہیں خدا اور اس کے دین کا انکار نہیں کرتے ہیں تم مصمم اردہ سے خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے بارے میں دعوت دینا اگر انہوں نے تیری دعوت کو قبول کی تو ان سے کہنا کہ خداوند عالم نے تم لوگوں پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض اور واجب کی ہے ۔ اگر انہوں نے نماز کو بھی قبول کیا تو اسکے بعد کہنا کہ خداوند عالم نے زکوٰة بھی تم لوگوں پر واجب کی ہے کہ جو دولتمندوں سے حاصل کی جاتی ہے اور فقراء و حاجتمندوں کو دی جاتی ہے اگر اس حکم کو بھی قبول کر لیں تو ان سے بہترین اموال لینے سے پرہیز کرنا ”فایاک و کرائم اموالھم“ اور مظلوموں کی نفرین سے ڈرنا کیونکہ خداوند عالم مظلوموں کی نفرین کو جلدی قبول کرتا ہے ”اتق دعوة المظلوم“

یہ حدیث صحیح بخاری ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مالک اور ابن حنبل جیسے مآخذ میں درج ہے ۔

ابن حجر فتح الباری میں جملہ فایاک وکرائم اموالھم کی تشریح میں کہتا ہے کرائم ، کریمہ کی جمع ہے کریمہ ہر نفیس اور پسندیدہ چیز کو کہتے ہیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حکم میں لوگوں سے ایسی چیزیں لینے سے منع فرمایا ہے جو مالک کی پسندیدہ اور قابل توجہ ہوں ۔ اس حکم کا راز یہ ہے زکوٰة غمخواری اور اقتصادی زخموں پر مرہم پٹی لگانے کیلئے ہے اور یہ کام مال داروں کے ساتھ ظلم وستم اور ناانصافی کرنے اور ان کے جذبات مجروح کرنے سے انجام نہیں پاسکتا ۔

اور جملہ ” اتق دعوة المظلوم “ کی تشریح میں کہتا ہے : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس جملہ کے ذریعہ فرماتے ہیں : کسی پر ظلم و ستم کرنے سے ڈرنا ، ایسا نہ ہو کہ کوئی مظلوم تجھے نفرین کرے۔ اس کے بعد کہتا ہے : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو یہ جملہ لوگوں سے گراں قیمت اور ان کے پسندید اموال لینے کے ضمن میں فرمایا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ فرمانا چاہتے ہیں : لوگوں سے ان کے پسندیدہ اموال لینا ان پر ظلم ہے اس لئے اس سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے ۔

یہ تھا زکوٰة کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم کہ اسے کس طرح حاصل کرناچاہئے ا ور کن کے درمیان تقسیم کرناچاہئے خلیفہ کے گماشتوں کا عمل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس حکم کے بالکل بر عکس تھا کیونکہ وہ ان قبائل کے مال کو زکوٰة کیلئے وصول کرتے تھے نہ اس لئے کہ اسے حاجتمندوں اور فقراء میں تقسیم کریں ، بلکہ اس لئے وصول کرتے تھے کہ اسے خلیفہ کے پاس بھیج دیں ،انہوں نے اپنے اس عمل سے پیغمبر اسلام کے فرمائشات کی مخالفت کی ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی ہے مظلوموں اور بے سہاروں کی نفرین کی پرو انہیں کی لوگوں کے من پسندی اموال کوا ن سے زبردستی لیتے تھے اونٹ کے ایک بچہ کیلئے ایک بڑی اور خونین جنگ لڑکر زمانہ جاہلیت کی جنگ ” بسوس “ کو بری الذمہ کردیا ہے ۔

لیکن ان سب چیزوں سے بالاتر ، خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں پر کفر و ارتداد کا الزام لگایا کہ مورخین بھی آج تک اس بڑی اور ناقابل عفو افتراء پردازی کے جرم میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔

مالک بن نویرہ کی جنگ

مالک بن نویرہ کی ایک اور جنگ ہے جس سے عرب قبائل کا ابوبکر کی حکومت کے ساتھ اختلاف کا سبب معلوم ہوتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض اس وقت کے طرز حکو مت پر تھا نہ یہ کہ وہ اسلام سے منحرف ہوکر مرتد ہوئے تھے ۔

اعثم کوفی نے ” مالک بن نویرہ کی جنگ “ کی یوں تشریح کی ہے :

خالد بن ولید نے عرب قبائل کو کچلنے کیلئے ایک بڑے لشکر کو جمع کیا اور سرزمین بنی تمیم کی طرف آگے بڑھا اور وہاں پر اپنا کیمپ لگادیا ۔ وہیں پر اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصہ کو ایک طرف روانہ کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو مالک بن نویرہ کی طرف روانہ کیا اس وقت مالک بن نویرہ اپنی بیوی اور چند رشتہ داروں کے ہمراہ ایک باغ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ انھوں نے اچانک خود کو اور اپنے افراد کو کچھ سواروں کے درمیان پایا کہ انہوں نے ہر طرف سے انہیں گھیر لیا تھا ۔ اس طرح خالد کے سپاہیوں نے مالک کے ساتھیوں کا محاصرہ کیا اور اسے اس کی خوبصورت بیوی کے ساتھ قیدی بنالیا نیز ان کے علاوہ ان کے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں کو بھی اسیر بنایا ، اسکے بعد انھیں خالد کے پاس لے آئے اور ان سب کو اس کے سامنے کھڑا کردیا ۔

ٍخالد نے بغیر کسی سوال و پوچھ تاچھ ، تحقیق اور جواب گوئی کے حکم دیا کہ مالک کے تمام اعزہ واقارب کو قتل کردیا جائے انہوں نے فریاد بلند کی کہ ہم مسلمان ہیں ،کیوں ہمارے قتل کا حکم جاری کرتے ہو اور کس کی اجازت سے ہمیں قتل کرتے ہو؟

خالد نے کہا: خدا کی قسم میں تم سب کو قتل کرڈالوں گا ۔

ان میں سے ایک بوڑھے نے کہا: کیا ابوبکر نے تمہیں رو بہ قبلہ نماز پڑھنے والوں کو قتل کرنے سے منع نہیں کیا ہے ؟

خالد نے کہا؛ جی ہاں ابوبکر نے ہمیں ا یسے افراد کو قتل کرنے سے منع کیا ہے لیکن تم لوگوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ہے ۔

اعثم کہتا ہے : اسی اثناء میں ابو قتادہ اپنی جگہ سے اٹھا اور خالد سے مخاطب ہوکر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہیں ان لوگوں پر تجاوز کرنے کا حق نہیں ہے ۔

خالد نے کہا: کیوں ؟

ابوقتادہ نے کہا؛ کیونکہ میں نے خود اس واقعہ کامشاہدہ کیا ہے کہ جب ہمارے سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کی نظر ہمارے فوجیوں پر پڑی انہوں نے سوال کیا کہ تم کون ہو؟ ہم نے جواب میں کہا کہ ہم مسلمان ہیں ، اس کے بعد انہوں نے کہا: ہم بھی مسلمان ہیں اس کے بعد ہم نے اذان کہی اور نماز پڑھی انہوں نے بھی ہماری صف میں کھڑے ہوکر ہمارے ساتھ نماز پڑھی ۔

خالد نے کہا؛ ابوقتادہ! صحیح کہتے ہو ، اگر چہ انہوں نے تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن زکوٰة دینے سے انکار کیا ہے لہذا نھیں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔

اعثم کہتا ہے : ایک بوڑھا ان میں سے اٹھا اس نے کچھ باتیں کہیں ، لیکن خالد نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور ان سب کا ایک ایک کرکے سر قلم کر ڈالا۔

اعثم کہتا ہے : ابوقتادہ نے اس دن قسم کھائی کہ اس کے بعد وہ کبھی بھی ایسی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا جس کا کمانڈر خالد ہوگا۔

اعثم اپنی بات کو یہاں جاری رکھتا ہے کہ : خالد نے مالک بن نویرہ کے افراد کو قتل کرنے کے بعد اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے قتل کا بھی حکم جاری کیا ۔ مالک نے کہا؛ کیا مجھے قتل کرو گے جبکہ میں ایک مسلمان ہوں اور رو بہ قبلہ نماز پڑھتا ہوں ؟

خالد نے کہا: اگر تم مسلمان ہوتے تو زکوٰة دینے سے انکار نہیں کرتے ، اور اپنے رشتہ داروں اور قبیلہ کے لوگوں کو بھی زکوٰة نہ دینے پر مجبور کرتے خدا کی قسم تم پھر سے اپنے قبیلہ میں جانے کا حق نہیں رکھتے ہو اپنے وطن کا پانی نہیں پیو گے اور میں تمہیں قتل کرڈالوں گا ۔

اعثم کہتا ہے : اسی اثناء میں مالک بن نویرہ نے اپنی بیوی پر ایک نظر ڈالی اور کہا: خالد ! کیا اس عورت کیلئے مجھے قتل کرتے ہو؟

خالد نے کہا: میں تجھے خدا کے حکم سے قتل کرتا ہوں کیونکہ تم اسلام سے منحرف ہوئے ہو اور زکوٰة کے اونٹوں کو رم کر چکے ہو اور اپنے رشتہ داروں اور اعزہ کوزکوٰة دینے سے روکا ہے ۔

خالد نے یہ کہتے ہوئے مالک کے سر کو تن سے جدا کیا مورخین کہتے ہیں کہ خالد بن ولید نے مالک کو قتل کرنے کے بعد اس کی بیوی سے شادی کی اورا س کے ساتھ ہمبستری کی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے تمام علمائے تاریخ کا اتفاق ہے ۔

ان جنگوں کا اصل محرک

جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابو بکر کے سپاہیوں نے بعض ایسے مسلما نوں سے جنگ کی ہے جنھوں نے نہ تلوار اٹھا ئی تھی اور نہ دوسرے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تھی، بلکہ بار ہااپنے اسلام کا اعلان کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی صف میں نمازبھی پڑھی تھی ۔

جی ہاں ، ابو بکر کے سپاہیوں نے ایسے ہی افراد کے ساتھ جنگ کی ہے، انھیں اسیر بنایا ،زکوٰة اداکر نے کے الزام میں انکا سر قلم کیا ہے ، کم ازکم ان سے زکوٰة کا مطالبہ کرتے تا کہ دیکھتے کہ کیا وہ زکوٰة ادا کر نے سے منکر بھی ہیں یا نہیں ۔

حقیقت میں ان جنگوں کے واقع ہو نے میں کچھ اور ہی اسباب اور علل ہیں ا وردوسرے اغراض اور مقاصد ہیں نہ انکا ار تداد سے کو ئی ربط ہے اور نہزکوٰة ادانہ کر نے سے کوئی تعلق ہے ۔ چنانچہ مالک بن نویرہ خالد بن و لید کو صراحتا الزام لگاتے ہےں کہ وہ ان کی بیوی کے لئے اسے قتل کر رہا ہے اور خالدکا اس کے بعد والا طرز عمل بھی مالک کی بات کی تائید و تصد یق کرتا ہے۔

کیا اس قسم کی جنگوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے اور انھیں مرتدافراد اور اسلام کے دشمنوں سے جنگ کہا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ جنگیں حقیقت میں مالک کی بیوی یا تیز رفتار اونٹ کیلئے نہیں تھیں ؟ اور یا ان کے ابو بکر کی بیعت کرنے میں تامل اور ان کی حکومت کو زکوٰة اداکرنے سے اجتناب کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں ؟

جو بات یقینی اور مسلم ہے وہ یہ ہے کہ ان جنگوں میں اسلامی مقاصد نہیں تھے اور یہ اسلام کیلئے انجام نہیں پائی ہیں ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ اس کے باوجود کیسے ان جنگوں کو مرتدلوگوں سے جنگوں کا نام دیا گیا ہے ! اور اصحاب کے زمانے سے آج تک اسی جعلی نام سے مشہور و معروف ہیں ۔ یہ سب غیر حقیقی بیانات ، بے بنیاد اور خطرناک نام گزار یاں اور اسی قسم کی دسیوں منحوس اور تاریک تحریفات سیف کے توسط سے تاریخ اسلام میں وجود میں آئی ہیں ۔

سیف کی فتوحات پر ایک نظر

سیف بن عمر نے بہت سی جنگوں کو مرتدین کی جنگوں کے نام سے جعل کیا ہے ، اور بعض غیر اسلامی جنگوں کو بھی دین اسلام کے کھاتے میں ڈال کر انھیں بھی مرتدین کی جنگوں میں شمار کیا ہے ۔ یہ جنگی روایتیں اور افسانے اسلام و مسلمانوں کو گوناگوں نقصانات پہنچانے کے علاوہ اسلام کے چہرہ کو مسخ کرکے شرمناک صورت میں پیش کرتی ہیں اور اسکے علاوہ اسلام کی دشمنی اور کینہ رکھنے والوں کیلئے مضبوط دستاویز فراہم کرتی ہیں ، کہتے ہیں :

” اسلام نے مسلمانوں کے دل میں جگہ نہیں پائی تھی ۔ جزیرة العرب کے مختلف قبائل جو اسلام قبول کرچکے تھے پیغمبر کی وفات کے بعد ہی گروہ گروہ اسلام سے منحرف ہوگئے اور دوسری بار تلوار اور نیزے کے بل بوتے پر پھر سے اسلام لائے “

اسی طرح اسلامی فتوحات کے بارے میں بھی سیف کی روایتیں جھوٹ سے بھری ہیں اور مرتدین کی افسانوی جنگوں کے انھیں مقاصد کی پیروی کرتی ہیں ان کے بارے میں کتاب کے دوسرے حصہ میں مرتدین کی جنگوں کے ساتھ ان پر بھی بحث ہوئی ہے ۔ ان میں ایسا دکھایا گیا ہے کہ اسلامی فوج نے جزیرة العرب کے قبائل اور ملتوں کے لوگوں میں سے لاکھوں افراد کو تہہ تیغ کیا ہے یہاں تک کہ وہ لوگ ترس ووحشت سے تسلیم ہوکر اسلام کے فرمانبردار بنے۔

جبکہ یہ سب مطالب بے بنیاد اور حقائق کے خلاف ہیں ، کیونکہ سیف نے جن لوگوں کو اپنی روایتوں میں ذکر کیا ہے نہ یہ کہ وہ مخالف اسلام نہ تھے بلکہ مسلسل مسلمانوں کے فائدہ میں کوشش اور سرگرمی دکھاتے رہے ہیں اور غیر اسلامی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے بارے میں ان کا تعاون کرتے رہے ہیں ۔ چنانچہ مسلمانوں کی رومیوں سے جنگ میں حمص اور شام کے تمام شہروں کے باشندوں نے مسلمانوں کی نصرت کی کہ جس کومعروف مؤرخ بلاذری نے ان کی روداد کو مفصل طور پر درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے ۔

ہر قل نے شام کے لوگوں کو مسلمانوں سے جنگ کرنے کیلئے آراستہ کیا اور جنگ ” یرموک “ کے لئے آمادہ ہوئے جب اس روداد کی خبر مسلمانوں کو پہنچی تو انہوں نے حمص کے لوگوں سے وصول کیا گیا ٹیکس انھیں واپس کیا اور کہا ہم تمہاری مدد اور دفاع کرنے سے معذور ہیں او ر تمہارے امور کو تم پر ہی چھوڑتے ہیں ۔

حمص کے باشندوں نے کہا: آپ لوگوں کی عادلانہ اور منصفانہ حکومت ہمارے لئے ہرقل کی ظالمانہ حکومت سے بہتر ہے ہم حاضر ہیں تاکہ آپ کے کارندوں ، نمائندوں اور مسلمانوں کی مدد کریں اور ہرقل کے سپاہیوں کو شہر حمص سے نکال باہر کریں ۔ دوسری طرف حمص کے یہودی بھی اٹھے اور کہا کہ قسم ہے توریت موسی کی ہرقل کے سپاہی اس شہر میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں مگر یہ کہ ہمارے افراد ختم ہوجائیں اور ہم ان کے مقابلے میں عاجز و ناتواں ہوجائیں ا س وجہ سے انہوں نے ہرقل کے سپاہیوں کیلئے شہر حمص کے دروازے بند کئے اور شہر کے بچاؤ کی ذمہ داری خود سنبھال لی اس طرح دوسرے شہروں کے ان یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی اسی طرز عمل کو اختیار کیا اور مسلمانوں کی مدد (جو صلح کے ذریعہ مغلوب ہوئے تھے)کی۔

بلاذری کہتا ہے : جب روم کی فوج نے شکست کھائی اور مسلمان خوش ہوئے تو اس شہر کے دروازوں کو مسلمانوں کیلئے کھولا گیا اور انہوں نے اپنے ” مقلسین “(۱) کو اسلام کے سپاہیوں کے استقبال کیلئے بھیجا جو جشن و شادامانی کی وجہ سے ناچتے گاتے تھے اور ایک خاص احترام کے ساتھ مسلمانوں کا استقبال کیا کرتے تھے اور اپنی رضا ور غبت سے اپنے مال کا ٹیکس اسلامی حکومت کو ادا کیا۔

اس طرح عراق کے مختلف شہروں کے سرداروں اور گاؤں کے چوہدریوں نے بھی اسلامی فوج کا تعاون کیااور ان کی مدد کی ،چنانچہ حموی کہتا ہے :

مقامی سردار اور چوہدری مسلمانوں کیلئے خیر خواہی کرتے تھے اور ایرانیوں کے اسرار و رموز ان پر فاش کرتے تھے اور ایرانی سپاہیوں پر تسلط جمانے کے راز سے انھیں آگاہ کرتے تھے ، مسلمانوں کو تحفے و تحائف پیش کرتے تھے مسلمانوں کی آسائش کیلئے بازار تشکیل دیتے تھے(۲) یہاں تک کہتا ہے :

اسلام کے سپاہی ” سعد “ کی کمانڈری میں ا یران کے پادشاہ یزجرد سے نبرد آزما ہونے کیلئے مدائن کی طرف جارہے تھے ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں پانی کو عبورکرنے

کے راستہ سے آگاہ نہیں تھے ۔ لہذا وہ وہاں پر رک گئے مقامی لوگوں نے ان کی

____________________

۱۔ مقلسین فن کاروں کا ایک گروہ تھا جو دف بجانے ، عورتوں کے دائرے ، رقص کرتے ہوئے حکام اور فرمانرواؤں کے استقبال کیلئے جاتے تھے ۔

۲۔ پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ ہر شہر کے لوگ جب کسی لشکر کے اس شہر میں داخل ہونے پرراضی ہوتے تھے تو لشکر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے بازار تشکیل دیتے تھے ۔

نصرت کی اور انھیں صیادین کے گاؤں کے نزدیک عبور کا راستہ دکھانے میں راہنمائی کی سعد کے سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کے ساتھ وہیں سے دریاکو عبور کیا اس کے بعد مدائن پر حملہ کیا ۔ یزجرد نے جب یہ حالا ت دیکھے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا اور مسلمانوں نے مقامی لوگوں کی حمایت اور راہنمائی کے نتیجہ میں ایک عظیم فتح پائی ۔

ایک محقق ان روشن دلائل اور صحیح تاریخی نصوص سے واضح طور پر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح امتوں اور ملتوں نے اپنے فرمانرواؤں او رحکام کے مقابلہ میں مسلمانوں کا استقبال کیا ہے اور ان کا تعاون کیا ہے ؟

ان ہی دلائل اور تاریخ کے معتبر نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور دوسری ملتوں کے درمیان قطعاً کوئی جنگ واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ مسلمانوں کی جنگیں اےسے حکام اور فرمانرواؤں کے خلاف واقع ہوئی ہیں جو ملتوں اور لوگوں پر مسلط تھے اور زبردستی ان پر حکو مت کرتے تھے مسلمان جب اس قسم کی مطلق العنان اور جابر حکومتوں کے خلاف جنگ کرتے تھے تو لوگ مسلمانوں کی مدد کرتے تھے اور ان کی فتحیابی پر استقبال کرتے اور مسلمانوں کی حکومت کو ان جابر اور ظالم حکمرانوں کی حکومت پر ترجیح دیتے تھے ۔

یہ تھا مسلمانوں کی جنگوں کا قیافہ جو تاریخ کے صحیح نصوص اور روایتوں کی تحقیق کے بعد حاصل ہوتا ہے لیکن افسوس ہے کہ سیف کے بعد اکثر تاریخی منابع و مآخذ نے ان حقائق کو پس پشت ڈال کر سیف کی روایتوں کی طرف رجوع کیا ہے اور سیف کی جھوٹی روایتوں سے استناد کرنے کے نتیجہ میں اسلام کی جنگوں کو خونین اور وحشت ناک دکھایا ہے اور ان پر افسانوی وحشتناک جنگوں کا بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ پڑھنے والا سیف کی روایتوں میں یوں پڑھتا ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے بہت سی خونین اور خطر ناک جنگیں لڑی ہیں اور بہت سے انسانو ں کا قتل عام کیا ہے متعدد شہروں کو ویران اور مسمار کیا ہے لیکن یہ سب باتیں ان حقائق کے خلاف ہیں جو تاریخ کے صحیح اور معتبر نصوص سے حاصل ہوتی ہیں ۔

سیف فتح عراق کے بارے میں کہتا ہے : ” جنگ ذات السلاسل “ میں مسلمانوں نے ایرانی سپاہیوں کا قتل عام کیا اور انہیں بالکل ہی نابودکرکے رکھدیا جیسے کہ کوئی جنگ ہی واقع نہ ہوئی ہو۔

سیف نے ” ثنی “ ، ” مذار “ ، ” ولجہ “ ، ” الیس “ اور ” امغیشیا “ نام کی دوسری جنگیں بھی نقل کی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک واقع نہیں ہوئی ہے اصلاً ” امغیشیا “ نام کا کوئی شہر ہی روئے زمین پر وجود نہیں رکھتا تھا جس کے بارے میں سیف نے کہا ہے کہ اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں ویران ہوا ہے۔ اس طرح سیف کی روایتوں میں ” مقر “ اور ” فم فرات بادقلی “ نام کی جنگوں کا بھی ذکر آیا ہے کہ اصلاً واقع نہیں ہوئی ہیں اس کے علاوہ سیف کی دوسری جنگیں جو اس کی کتاب فتوح میں ایرانیوں کے ساتھ جنگوں کے عنوان سے درج کی گئی ہیں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ سب سیف نے خود جعل کی ہیں اس سلسلہ میں جو کچھ اس نے کہا ہے جھوٹ اور جعلی تھا ، خاص کر جو اس نے ان جنگوں میں لاکھوں غیر عرب کے قتل عام ہونے کے بارے میں لکھا ہے وہ اس کے جھوٹ اور افتراء کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ان روایتوں کا نتیجہ

بہر حال سیف کی روایتوں کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگوں میں خاص کر اسلام کے دشمنوں میں یہ مشہور ہوجائے کہ اسلام خونریزی ، نیزہ اور تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور یہی سیف کی روایتیں سبب بنی ہیں کہ مستشرقین اور مغربی اسلام شناس اسلام کو تلوار اور زورو زبردستی کا دین بتاتے ہیں ، مثال کے طور پر

۱ ۔ گلدزیہر(۱) صراحت اور قطعی طور پر کہتا ہے :

” ہم اپنے سامنے اسلامی حکومت کے قلمرو میں وسیع نقاط کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ عرب سرزمینوں سے آگے بڑھے ہیں اور یہ سب تلوار اور نیزہ کے زور پر حاصل کئے گئے ہیں “

نیز فرمانرواؤں کے بارے میں کہتا ہے :

” یہ دنیا پرست فرمانروا اپنی پوری ہمت اور توجہ ایسے قوانین کو مستحکم و نافذ کرنے پر متمرکز کرتے تھے کہ حکومت کے اختیارا ت کو تقویت بخشیں اور ان کی

-____________________

۱۔ گلدزیہر اسرائیلی ہے ۱۸۵۰ ءء میں ” ھنگاریا “ میں پیدا ہواا س نے یورپ کے مشرق شناسی کے معرو ف ترین مدرسوں میں تعلیم حاصل کی ہے اس کے بعد ایک سیاسی ماموریت پر شام اور وہاں سے فلسطین اور پھر مصر گیا اور الازہر یونیورسٹی کے اساتذہ سے عربی زبان سیکھی اس کے بعد ان سے پوری آمادگی کے ساتھ مشرق شناسی کی ماموریت سنبھال لی اور ۱۹۴۷ ءء میں فوت ہوا اس کے خاندان نے اس کے مرنے کے بعد شہر قدس میں اس کی لائبریری ” کتابخانہ عمومی صہیونی “ کو بیچ ڈالا ۔

کتاب المستشرقون تالیف نجیب طبع دوم طبع دائرة المعارف ۱۹۴۷ ء ھ ص ۱۹۶ پر بھی کہتا ہے ” گلدزیہر اسلام کےساتھ ایک شدید عداوت رکھتا تھا اس کی تالیفات اسلام اور مسلمانوں کےلئے خطرناک و نقصان دہ ہیں (الفکر الاسلامی) طبع پنجم ، طبع بیروت ، چاپخانہ دار الفکر ،ص/ ۵۳

حکومت کو جومختلف سرزمینوں میں تلوار اور عرب نسل پرستی کی بنیا دپر برقرار کرچکے تھے کو مضبوط اور پائیدار بنادیں “

۲ ۔” بلدیدور ورگیل“ نامی ایک اور اسلام شناس اس سلسلہ میں کہتا ہے:

” اسلام تلوار کے زور اور عورتوں کی شرکت سے پھیلا ہے “

۳ ۔ یہ مطلب یورپیوں میں رواج پیدا کرگیا ہے حتیٰ ان کی ادبیات میں بھی شامل ہوگیا ہے چنانچہ ” جربویل “ ” مصطفی “ نامی ڈرامہ میں ا یک مسلمان وزیر کی زبانی جواپنے پادشاہ سے کہتا ہے : ”ہمارے شجاع بہاد رپیغمبر کی مدد ، تلوار اور نیزہ سے کی گئی ہے “

۴ ۔ ”جون دراید “ اپنے ” دون سباستیان “ نامی ڈرامہ میں یوں کہتا ہے : ” سپاہ اسلام کے ایک کمانڈر نے محمد کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کیلئے حکم دیا کہ عیسائیوں کابھیڑ بکریوں کی طرح سر تن سے جدا کرکے ان کے پیغمبر کے پاس ہدیہ کے طور پر بھیج دیں “

”حصا رودس “ نامی ایک اور ڈرامہ میں ا یک مسلمان کی زبانی لکھتا ہے :

کیا خوب انجام دیا ہمارے بہادر پیغمبر نے کہ : سستی، تساہلی اور ہزیمت کوحرام اور منع قرار دیا ۔

اور ہمیں حکم دیا کہ تلوار اور نیزے کے ذریعہ اپنی حکومت کو تمام دنیا میں پھیلا دیں ۔

۵ ۔ فلیپ حِتی ۱ اپنی کتاب ” تاریخ العرب “ میں کہتا ہے :

____________________

۱۔ فلیپ حتی عیسائی اور اصل میں لبنانی ہے ،بعد میں امریکاکی نیشنلٹی اختیار کی وہ برنسٹن یونیورسٹی امریکہ میں شرق شناسی تدریس کرتا تھا اور امریکہ کی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے امور کا غیر رسمی مشاور تھا وہ اسلام و مسلمانوں کا ایک سخت دشمن شمار ہوتا تھا الفکر الاسلامی ص ۵۵۴۔ ۵۵۵

” جہاد جو اسلام کے منصوبوں میں سے ایک ہے وہی کمزور شکست خوردہ ملتوں کی لوٹ مار ، غارت گری اور انھیں بے چارہ اور نابود کرنا ہے کہ ایک قوم اور طاقتور ملت کا ضعیف اور کمزور ملتوں پر تسلط جما کر انھیں مختلف طبقات میں تقسیم کرےں اور ان میں سے ایک گروہ مثل غیر عرب مسلمانوں کو نو آبادیوں میں تبدیل کرکے نچلے طبقہ میں قرار دے کر انھیں اپنا نوکر بنا لیں “(۱)

____________________

۱۔ رسالة الاسلام ۔

سیف کے خرافات پر مشتمل افسانوں پر ایک نظر

سیف کی جعلیات اور الٹ پلٹ کا صرف اسی پر خلاصہ نہیں ہوتا ہے کہ جن کو ہم نے یہاں تک بیان کیا ہے ، بلکہ جس طرح ہم نے کتاب کے دوسرے حصہ میں پڑھا ، سیف نے اپنی روایتوں میں بہت سے افسانوں کی بھی اشاعت کی ہے اور انھیں افسانوں کے ذریعہ خرافات اور جھوٹ جعل کئے ہیں ، جیسے :

- خالد کا زہر کھانے اور اس پر اس کا اثر نہ ہونے کا افسانہ ۔

-مسلمانوں کی تکبیر کی آواز سے حمص کے گھروں کا گرجانے کا افسانہ

- دجال کا شہر کے دروازہ پر لات ماکر شوش کی فتح کا افسانہ

-اسود عنسی کے شیطان اور اس کے معجزات اور غیب گوئی کاافسانہ کہ وہ اسے فرشتہ کہتا تھا

-جواہرات کی ٹوکری اور خلیفہ کے زہد و تقویٰ کا افسانہ

-عمر کی اپنی بیوی سے ایک نامحرم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے سلسلہ میں گفتگو کا افسانہ۔

-عمر کا مدینہ سے شہر” فسا “میں موجود اپنے سپاہیوں کو آواز دینے کا افسانہ

-”بکیر“ نامی گھوڑے کی گفتگو کا افسانہ

-عاصم بن عمرو کے ساتھ گائے کی گفتگو کا افسانہ و

سیف کے تغیرات پر ایک نظر

ہم نے کتاب کے تیسرے حصہ میں بتایا کہ سیف نے تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کرنے اور تاریخی حقائق کو مجہول اور غیر معروف بنانے کی غرض سے بعض حوادث کے پہلوانوں کے ناموں میں گوناگون صورت میں تغیرات ایجاد کئے ہیں معروف اشخاص کے ناموں کو غیر معروف افراد کے ناموں میں تبدیل کیا ہے ، جیسے :

عبد المسیح بن عمرو کے نام کو عمروبن عبدا لمسیح میں ،

معاویہ بن ابی سفیان کے نام کو معاویہ بن رافع میں ،

عمرو بن عاص کے نام کوعمروبن رفاعہ میں اور عبدا لرحمان بن ملجم کے نام کو خالد بن ملجم میں تبدیل کیا ہے ۔

سیف نے بعض اوقات اسی مقصد کے پیش نظر دنیا میں وجود نہ رکھنے والے بعض افراد کو اپنے زور خیال سے خلق کرکے اپنے ان افسانوں میں معروف و مشہور افرادکے ناموں پر نام گزاری کی ہے ، جیسے :

خزیمہ بن ثابت انصاری غیر ذو الشہادتین کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معروف صحابی ” خزیمة بن ثابت “ معروف بہ ذو الشہادتین کے مقابلہ میں خلق کیا ہے ۔

افسانوی، سماک بن خرشہ کو پیغمبر خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے معروف صحابی ”سماک بن خرشہ“ معروف بہ ” ابودجانہ “ کے مقابلہ میں خلق کیا ہے اور جعلی وبرة بن یحنس خزاعی “ کو پیغمبر کے معروف صحابی وبرة بن یحنس کلبی “ کے مقابلہ میں خلق کیا ہے ۔

اس کے علاوہ سیف نے اپنے خیال میں جعلی اسماء کی کثیر تعداد پیش کر دی ہے تا کہ ضرورت پڑنے پر اپنے جعلی افراد اور اماکن کو ان سے نام گزاری کر کے اپنے افسانوں میں انھیں استعمال کرے۔

سیف کے افسانوی افرادو اشخاص کے کئی گروہ ہیں :

۱ ۔ ان میں سے بعض کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے طور پر پہچنوایا گیا ہے ، جیسے :

اسود بن قطبہ ، اعبد بن فدکی ، حمیضة بن نعمان ، ثمامہ بن اوس بن لام طایی، شخریت طاہر بن ابی ہالہ ، عاصم بن عمرو اسیدی ، عثمان بن ربیعہ ثقفی ، عصمة بن عبد اللہ، قعقعاع بن عمرو بن مالک عمری ، نافع بن اسود تمیمی ، مہلہل بن زید بن لام طایی۔

۲ ۔ سیف کے بعض جعلی افراد ، صحابی ہونے کے علاوہ راوی بھی معروف ہیں ، جیسے : ظفر بن دہی ، عبید بن صخر بن لوذان انصاری سلمی ، ابوزہراء قشیری ۔

۳ ۔ سیف کے بعض افسانوی افراد کو صحابی ہونے کے علاوہ شاعر کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے، جیسے : زیاد بن حنظلہ تمیمی ، ضریس قیسی خطیل بن اوس۔

۴ ۔ سیف نے اپنے جعلی افراد میں سے ایک گروہ کو غیر صحابی راویوں کے طور پر پہچنوایا ہے ، جیسے : بحر فرات عجلی ، حبیب بن ربیعہ اسدی ، حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ، زیاد بن سرجس احمری ، سہل بن یوسف بن سہل بن انصار سلمی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری ، عبد اللہ بن سعید انصاری بن ثابت بن جزع انصاری ، عروة بن عرفجہ دثینی ، عمارة بن فلان اسدی ، غصن بن قاسم کنانی ، محمد بن نویرة بن عبدا للہ ، مستنیر بن یزید ، مقطع بن ھیثم بکایی ، مہلب بن عقبہ ، یزید بن اسید غسانی ۔

۵ ۔ سیف نے اپنے جعلی حوادث کے افسانوی اشخاص و سورماؤں کے مذکورہ چند گروہوں کے علاوہ ، اس قسم کے افسانوی حوادث کیلئے کئی جگہیں اور اماکن بھی جعل کئے ہیں اور ان کی جعلی نام گزاری کی ہے جبکہ ان ناموں کی جگہیں روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں رکھتی تھیں اور نہ اس وقت ان کا کہیں وجود ہے ، جیسے:ابرق ربذہ ، اخابث ، اعلاب ، جبروت، حمقتین ، ریاضة الروضات ، ذات الخیم ، شہر طی میں سنح ،صبرات ، ظہور الشحر ، لبان ،مر ، نضدون و ینعب۔

۶ ۔ سیف نے ان سب کے علاوہ ایرانی فوج کے چندکمانڈر بھی جعل کئے ہیں جیسے:

اندرز غر ، انوشجان ، بہمن داذویہ ، قارن بن قریانس ، قباذ اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے افراد۔

۷ ۔ سیف نے بعض رومی کمانڈر بھی جعل کئے ہیں ، جیسے : ارطبون ، روم کا مکار اور چالاک کمانڈر ۔

تاریخ اسلام میں سیف کے جعلیات اور تغیرات کے یہ چند نمونے تھے اس کے علاوہ تاریخ اسلام میں سیف کا ایک اور جعلی کام ، عبد اللہ بن سبا کا افسانہ خلق کرنا اور اس کی نام گزاری ہے کیونکہ تاریخ عرب میں قحطانیوں میں ایک قبیلہ کا نام ” سبائی “ تھا کہ حقیقت میں وہ یمن میں رہائش پذیر تھے ، ان میں سے ایک شخص کا نام عبدا للہ بن وہب سبائی تھاجو بعد میں خوارج کا سردار بنا اور نہروان کی جنگ میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کی اور اسی جنگ میں مارا گیا ۔ سیف نے اس نام سے ایک بڑا افسانہ گڑھ کر اسلام میں ایک مذہبی فرقہ جعل کیا ہے اور ” سبائیین“ کا لفظ اس فرقہ کا نام رکھا ۔

اصل میں یہ ایک قحطانی قبیلہ کا نام تھا اس افسانوی فرقہ کیلئے سیف نے ایک رئیس بھی جعل کیا ہے اور عبدا للہ بن وہب سبائی رئیس خوارج کا نام بدل کر اس فرقہ کے جعلی رئیس کا نام عبداللہ بن سبا رکھا ہے ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض نیک اور پاک اصحاب کو بھی اس فرقہ سے منسوب کیا ہے۔ سیف نے اپنے اس جعلی افسانہ کے ذریعہ تاریخ کے چہرہ اور راہ کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔

چونکہ یہ بحث خود ایک مفصل داستان ہے اور ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ، لہذا ہم اس موضع کو اس کتاب کی اگلی جلد کیلئے مخصوص رکھتے ہیں اور ا س سے دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس موضوع کی طرف رجوع کریں ۔ اس کے ساتھ ہی ہم یہاں پر سیف کی جنگوں ، فتوحات ، خرافات اور تحریفات کے موضوع کو ختم کرتے ہیں ۔

مرتضی عسکری

شب سہ شنبہ ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۸۴ ھ ق

داستان کندہ کے مآخذ

۱ ۔ فتوح اعثم : ۱/ ۵۶ ۔ ۸۷

۲ ۔ فتوح بلاذری : ۱۲۰ ۔ ۱۲۴ ، خاندان بنی ولیقہ اور اشعث کے ارتداد کی فصل میں ۔

۳ ۔ معجم البلدان : مادہ نجیر : / ۷۶۲ ۔ ۷۶۴ ، مادہ حضرموت میں : ۲/ ۲۸۴ ۔ ۲۸۷

گراں قیمت اموال لینے کی ممانعت کے بارے میں حدیث:

۱ ۔ صحیح بخاری : فصل صدقات میں : ۱/ ۱۸۱ ،

۲ ۔ صحیح بخاری : حکم اموال گراں قیمت : ۱/ ۱۷۶

۳ ۔ فتح الباری : ۴/ ۶۵ ۔ ۹۹

۴ ۔ مسند احمد : ۱/ ۲۳۳

۵ ۔ سنن پنجگانہ ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی اور موطا مالک احکام زکوٰة میں ۔

۶ ۔ طبقات ابن سعد : ج ۴/ ق ۲/ ۷۶

۷ ۔ کنز العمال : حدیث ۱۱۹۴ احادیث زکوٰة سے ۔

۸ ۔ قصہ مالک بن نویرہ فتوح اعثم میں : ۱/ ۲۰/ ۲۳

۹ ۔ حمص کے لوگوں کا مسلمانوں کی مدد کرنا : فتح بلاذری : حدیث ۳۶۷ فصل فتح حمص / ۱۶۲

۱۰ ۔ عراق کے دیہاتیوں کا مسلمانوں کی مدد کرنا : معجم البلدان : ۴/ ۳۲۳ مادہ کوفہ

۱۱ ۔ گلدزیہر کا بیان: العقیدہ و الشریعہ : ۴۳ ۔۔ ۴۸

فہرست

دوسری جلد سے مربوط خطوط اورمقدمے ۴

دانشور مرحوم جناب ابور یہ کے دو خطوط ۵

مصری دانشور مرحوم کی ایک یاد! ۵

پہلا خط ۵

دوسرا خط ۶

خرطوم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کا خط ۸

مطالعات کے نتائج ۲۶

روایت جعل کرنے میں سیف کا مقصد ۲۶

۱ ۔ خاندانی تعصب ۲۷

۲ ۔ کفر و زندقہ ۲۸

اس جانچ پڑتال کا مقصد ۳۰

یہ کتاب ۳۰

سیف کی روایتوں میں بحث کرنے کا محرک ۳۰

چھٹا حصہ : ۳۳

آئندہ مباحث کا پس منظر ۳۴

جنگ ابرق کی روایتیں ۳۴

دروغ بافی کی زمینہ سازی ۳۴

سیف ان روایتوں میں یوں کہتا ہے : ۳۵

جنگِ ابرق کی داستان ۳۶

ـآیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( اذا الشمس کورت )

۲ ۔( و اذا النجوم انکدرت )

۳ ۔( واذا الجبال سیّرت )

۴ ۔( و اذا العشار عطّلت )

۵ ۔( و اذاالوحوش حشرت )

۶ ۔( و اذا البحار سجّرت )

۷ ۔( و اذا النفوس زوّجت )

۸ ۔( و اذا الموء دة سئلت ) ۔

۹ ۔( بِایّ ذنب قتلت ) ۔

ترجمہ

اس خدا کے نام سے جو مہر بان اور بخشنے والا ہے ۔

۱ ۔ جس وقت سورج کو لپیٹاجائے گا۔

۲ ۔ اور جس وقت ستارے بے نور ہوجائیں گے ۔

۳ ۔ جس وقت پہاڑ چلنے لگیں گے ۔

۴ ۔ جس وقت زیادہ قیمتی مال فراموش کردیا جائے گا۔

۵ ۔ جس وقت وحوش کو جمع کیاجائے گا۔

۶ ۔ جس وقت دریا جوش مارنے لگیں گے ۔

۷ ۔ جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین قرار پائے گا ۔

۸ ۔ جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا ۔

۹ ۔ کہ ان کو کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے ؟

جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا

اس سورہ کے آغاز میں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، مختصر، ہیجان انگیز اور دل ہلا دینے والے اشاروں کے ساتھ اس جہاں کے اختتام اور قیامت کی ابتداء کے ہولناک حوادث سے ہمارا آمنا سامنا ہے ۔

یہ حوادث ہمیں عجیب و غریب جہانوں کی سیر کراتے ہیں ، پر وردگار عالم ان نشانیوں میں سے آٹھ نشانیون کو بیان کرتاہے ۔ پہلے ارشاد فرماتاہے :

” اس وقت جب سورج کا دفتر لپیٹ دیاجائے گا “( اذاالشمس کورت ) ۔

” کورت“ ،” تکویر“ کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کے لپیٹنے اور جمع کرنے کے معنی میں ہے ۔ ( مثلاً سر پر عمامہ لپیٹنا) یہ ایسا مفہوم ہے جو لغت و تفسیر کی بہت سی کتب سے معلوم ہو تا ہے کبھی کسی چیز کے پھینک دینے اور تاریک ہو نے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں معانی اسی اصلی مضمون کی طرف لوٹتے ہیں ۔

بہر حال یہاں مراد سورج کی روشنی کا بجھ جانا ہے ، اس کا تاریک ہو نا ، یعنی اس کے وجود کا ختم ہو جانا ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ فی الحال سورج ایک کرّہ ہے ، حد سے زیادہ گرم اور جلتا ہو ا، اس قدر کے اس کا تمام مواد تہہ بہ تہہ گیس کی شکل میں نکل آیاہے اور اس کے ارد گرد جلانے والے شعلے موجود ہیں جن کی بلندی لاکھوں میٹر ہے ۔ اگر کرہ زمین ان میں سے کسی شعلے کی دمریان الجھ جائے تو ایک ہی لمحہ میں خاک ہو کر تھوڑی سی گیس میں تبدیل ہو جائے لیکن اس جہان کے آخر میں قیامت کی ابتداء پر جوحرارت ختم ہو جائے گی اور شعلے بجھ جائیں گے ، اس کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی اور اس کے حجم میں کمی ہو جائے گی ۔

تکویر کے یہ معنی ہیں ۔ اسی لئے لسان العرب میں آیاہے :

(کورت الشمس جمع ضوء ا ولف کما تلف العمامه ) سورج کی تکویر کے یہ معنی ہیں کہ اس کی روشنی سمٹ جائے گی اور لپیٹ دی جائے گی جس طرح عمامہ کو پیٹتے ہیں ۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی موجودہ علم بھی تائید کرتا ہے ۔ سورج کی روشنی آہستہ آہستہ تاریکی کی طرف جارہی ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :

” اور جس وقت ستارے بے نور ہو کر غائب ہو جائیں گے “( و اذا النجوم انکدرت ) ۔

” انکدرت“،” انکدار“ کے مادہ سے گرنے اور پراکندہ ہونے کے معنی میں ہے اور کدورت کی اصل کے پیش نظر تیر گی اور تاریکی کے معنی میں ہے ۔ زیر بحث آیت میں ان دونوں کا جمع ہونا بھی ممکن ہے اس لئے کہ آغاز قیامت میں ستارے اپنی روشنی کھو بیٹھے گے ، منتشر ہو جائیں گے اور گر پڑیں گے اور عالم بالا کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا جیسا کہ سورہ انفطار کی آیت ۲ میں آیاہے :

( و اذا الکواکب انتثرت ) ” اور جب ستارے گر کر منتشر ہو جائیں گے “اور جیسا کہ سورہ مرسلات کی آیت ۸ میں آیا ہے( فالنجوم طمست ) اور جب ستارے مٹ جائیں گے اور تاریک ہو جائیں گے “قیامت کی تیسری نشانی کے سلسلہ میں فرماتا ہے :

”اور جب پہاڑ چلنے لگیں گے “اذالجبال سیرت “۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ قرآن کی مختلف آیتوں سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آغاز قیامت میں پہاڑ مختلف مراحل طے کریں گے۔

پہلا مرحلہ یہ کہ چلنے لگیں گے اور آخری مرحلہ میں غبار میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ اس سلسلہ میں مزید تشریح اسی جلد میں سورہ نباکی آیت ۲۵ میں ملاحظہ فرمائیں )۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” جس وقت نہایت قیمتی مال فراموشی کے حوالہ ہو جائیں گے “( اذاالعشار عطلت ) ۔

” عشار“ جمع ”عشراء“کی جو در اصل حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے جس کے حمل کو دس ماہ گذر چکے ہوں اور وہ بچہ جننے کے قریب ہویعنی زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ وہ ایک اور اونٹ کو جنم دے گی ۔ اور بہت زیادہ دودھ اس کے پستانوں میں ظاہرہو گا ۔

جس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں تو عرب میں اس قسم کے اوٹنی بہت قیمتی شمار ہو تی تھی ۔

”عطلت“ تعطیل کے مادہ سے سرپرست اور چرواہے کے بغیر چھوڑدینے کے معنی میں ہے ، مراد یہ ہے کہ اس دن ہولناکی اس قدر شدید ہو گی کہ ہر انسان اپنے نفیس ترین مال کو فراموش کردے گا ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں نقل کرتے ہیں کہ بعض مفسرین نے عشار کو بادل کے معنی میں لیا ہے اور ” عطلت‘ بارش کے معطل ہو جانے کے معنی میں ہے ۔ یعنی اس دن آسمان پر بادل تو ظاہر ہوں گے لیکن برسیں گے نہیں ۔ ( ہوسکتاہے یہ بادل مختلف گیسو ں سے ہوں ، یا ایٹمی بادل ہوں ، یا گرد و غبار کے تودے جو پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے سے آغاز قیامت میں ظاہر ہو ں گے )۔

لیکن طبرسی مزید کہتے ہیں کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ عشار کی تفسیر بادلوں سے کرنا ایسی چیز ہے جو لغت عرب میں معروف نہیں ہے لیکن اس مطلب کی طرف توجہ سے جو ” طریحی “ نے مجمع البحرین میں نقل کیا ہے کہ ” عشار“ اصل میں حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے اور اس کے بعد بار بردار کو کہا گیا ہے ۔

ممکن ہے بادلوں پر بھی اس اطلاق عام طور پر پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے ہو اگرچہ ہو بادل جو آغاز قیامت میں نمو دار ہو ں گے بار بردارنہیں ہوں گے ( غور کیجئے)

بعض مفسرین نے ”عشار“ کی تفسیر گھروں اور زرعی زمینوں سے کی ہے جو عرصہ محشرمیں بیکار ہو جائیں گے اور ساکنوں اور زراعت کرنے والوں سے محروم ہوں گی۔لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ بعد میں آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

” اور جس وقت وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے “( و اذا الوحوش حشرت ) ۔ وہی جانور جو عام حالات میں ایک دوسرے سے ڈرتے تھے عرصہ قیامت کے حولناک حوادث کی وحشت کی شدت ایسی ہو گی کہ ان کو ایک دوسرے کے گرد جمع کردے گی اور وہ ہر چیز کو بھول جائیں گے ، گویا وہ چاہیں گے کہ اپنے اس اجتماع سے اپنے خوف و و حشت میں کمی کریں ۔

دوسرے لفظوں میں جس وقت وہ ہولناک مناظر و حشی جانوروں سے ان کے مخصوص خواص چھین لیں گے تو انسانوں سے کیا سلوک کریں گے ۔ لیکن بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت قیامت کی عدالت میں وحشی جانوروں کو جمع ہو نے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے عالم میں اور اپنی آگاہی اور شعور کے حدود میں رہتے ہو ئے جواب دہی کے پابند ہیں اور گر انہوں نے ایک دوسرے پرظلم و ستم کیا ہو گا تو وہاں ان سے بدلہ لیا جائے گا ۔

اس آیت کی سورہ انعام کی آیت ۳۸ کے ساتھ مشابہت ہے کہ جو کہتی ہے کہ:

( وما من دآبةٍ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه اِلَّا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

کوئی زمین میں چلنے والا اور کوئی پرندہ جو پانے پروں سے پرواز کرتا ہے موجود نہیں مگریہ کہ وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔ ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں چھوڑا نہیں ہے ، اس کے بعد تم اپنے پر ور دگار کی طرف محشور ہوگے۔

( جانوروں کے حشر و نشر اور حساب و کتاب کے سلسلہ میں تفصیلی بحث سورہ انعام کی اسی آیت کے ذیل میں جلد ۳ ص ۳۶۹ تا ۳۷۲ ہم کر چکے ہیں )۔

جو کچھ یہاں کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زیرِ بحث آیات دنیا کے اختتام اور آخرت کے آغاز کی ہولناک نشانیوں کے سلسلہ میں بحث کر رہی ہیں ، لہٰذا پہلی تفسیر مناسب ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :۔

” جس وقت دریا و ں میں آگ لگ جائے گی “( و اذا البحار سجرت ) ۔

” سجرت“ ۔ ” تسجیر“ کے مادہ سے جلانے اور آگ کے ہیجان میں آنے کے معنی میں ہے ۔ اور اگر قرآن کی یہ تعبیر گزشتہ زمانے میں مفسیرین کے لئے عجیب و غریب تھی تو اس وقت ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہے اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پانی دو عناصر ، ہیڈروجن اور آکسیجن، سے مرکب ہے جو دونوں شدید طور پر قابل اشتعال ہیں ۔

بعید نہیں کہ عرصہ قیامت میں دریا اور سمندروں کاپانی اس طرح دباو اور فشار میں آجائے کہ انکا تجزیہ ہو جائے اور یہ آگ پکڑ جائیں ۔

بعض نے اس لفظ کے پر ہو نے کے معنی میں تفسیر کی ہے جیسا کہ آگ سے پر تنور کو مسجر کہا جا تا ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ عرصہ محشر کے زلزلے اور پہاڑوں کا انتشار دریاو ں اور سمندروں کے پر ہونے کا سبب بنے یا آسمانی پتھروں کے گرنے سے وہ پر ہو جائیں اور ان کا متلاطم پانی خشکیوں کی سطح پرجاری ہو اور ہر چیز کو غرق کر دے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :

” اور جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین ہو جائے گا( و اذا النفسوس زوّجت ) ۔ صالحین صالحین کے ساتھ، اور بد کار بدکار لوگوں کےساتھ ، اصحاب الیمین اصحاب الیمین کے ساتھ اور اصحاب الشمال اصحاب الشمال کے ساتھ ، اس دنیا کے بر عکس جہاں سب ملے جلے ہیں ، کہیں مومن کا ہمسایہ مشرک ہے اور کہیں صالح اور نیک کا ہمسایہ غیر صالح ہے ۔لیکن قیامت کے جو یوم الفصل یعنی جدائی کا دن ہے ، اس میں یہ صفتیں مکمل طور پر الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گی ۔

اس آیت کی تفسیر میں دوسرے احتمالات بھی پیش ہو ئے ہیں من جملہ ایک یہ ہے کہ ارواح ابدان میں پلٹ آئیں گی یا جتنی روحوں کے ساتھ جہنمی نفسوس شیاطین کے پا ہو جائیں گے یا یہ کہ ہر انسان اپنے دوست یا رفیق کے قریب ہو گا بعد میں اس کے کہ موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے گی یا ہر انسا ن اپنے اعمال کا قرین ہو گا۔

لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیات ۷ سے اا تک اس کی گواہ ہیں :

( وکنتم ازواجاً ثلاثة فاصحاب المینة ما اصحاب المینة و اصحاب امشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون اولٰئک المقربون )

اس دن تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاو گے۔ پہلا گروہ اصحاب مینہ کا ہے ۔ کیا کہنا اصحاب میمنہ کا ۔ دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے وہ کیاہی منحوس گروہ ہے اور تیسرا گروہ سبقت کرنے والوں کاہے اور سبقت کرنے والے ہی مقربین ہیں ۔

حقیقت میں یہ آیت ایسی تبدیلیاں جو قیامت کی تمہید ہیں ، ان کے ذکرکے بعد اس عظیم دن کے ہر اول دستے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ایسا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے قرین کے ہمراہ ہو جائے گا ۔

اس کے بعد قیامت کے ایک حادثہ کو موضوع بناتے ہوئے مزید فرماتا ہے :

” جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا “( و اذا المو دة سئلت ) ۔” کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی ہیں “( بایّ ذنبٍ قتلت ) ۔

” موء دة “ ۔ ” وأد“ ( بروزن رعد) اس کی لڑکی کے معنی میں ہے جسے زندہ دفن کر دیا گیا ہو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی ثقل ، بوجھ اور سنگینی کے ہیں اور چونکہ ان لڑکیوں کو قبر میں دفن کرتے تھے اور ان پر مٹی ڈال دیتے تھے اس لئے یہ تعبیر ان کے لئے استعمال کی گئی ہے ۔

بعض روایات کے نتیجہ میں اس آیت کی تفسیر کو وسعت دی گئی ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے قطع رحم یا مودة اہل بیت کو قطع کرنا اس میں شامل ہے ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس وقت اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال ہو ا تو آپ نے فرمایا (من قتل فی مودتنا ) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہماری محبت کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ہیں ۔(۱)

ایک د وسری حدیث میں آیا ہے کہ اس بات کی گواہ آیت قربیٰ ہے( قل لا اسئلکم علیه اجراً الاالمودة فی القربیٰ ) ”کہہ دے میں تبلیغ نبوت کے سلسلہ میں تم سے کسی قسم کا اجر نہیں چاہتا سوائے اپنے اہل بیت کی مودة کے “ (سورہ شوریٰ ۲۳ ۔ )(۲) البتہ آیت کا ظاہری مفہوم وہی پہلی تفسیر ہے لیکن اس میں اس قسم کے مفہوم کی صلاحیت ہے ۔

____________________

۱۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔۲۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔

۱ ۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا

عربوں کے زمانہ جاہلیت کے درد ناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ در گور کردینا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں بارہا اشارہ ہوا ہے ۔ اگر بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ قبیح رسم عربوں میں عام تھی۔ صرف قبیلہ کندہ یا بعض دوسرے قبائل میں تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اقدام کچھ عجیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ ورنہ قرآن اس بارے میں اتنی تاکید کے ساتھ بار بار گفتگو نہ کرتا۔

بہر حال یہ کام اس قدر وحشت ناک تھا کہ اس کا کبھی کبھی ہو نا بھی نہایت قبیح امر ہے ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ عربوں کے زمانہ جاہلیت میں جس وقت عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں ایک گڑھا کھود دیتے اور اس کے اوپر بیٹھ جاتے اگر نوزائیدہ بچہ لڑکی ہوتو اس کواس گڑھے میں پھینک دیتے اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیتے ۔ اسی لئے ان کے شعراء میں سے ایک شاعر اس سلسلہ میں فخر یہ لہجہ میں کہتا ہے :

سمیتها اذا ولدت تموت و القبرصهو ضامن ذمیت

میں نے اس نو زائید لڑکی کا نام اس کی ولادت کے وقت تموت رکھا ( جس کے معنی مر جائے گی ) اور قبر میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کردیا ۔(۱)

اس جرم کے مختلف اسباب و عوامل تھے

زمانہ جاہلیت میں عورت کا ایک انسان کے لحاظ سے بے قدر و قیمت ہونا اس شدید فقر و فاقہ کی کیفیت کا نتیجہ تھا جو اس معاشرہ میں مسلط تھا ۔ لڑکیاں نہ تو کچھ کماکر دے دسکتی تھی نہ ڈاکہ ڈالنے میں شرکت کر سکتی تھیں ۔

ایک سبب اور بھی اور وہ یہ کہ اس بات کا امکان تھاکہ مختلف جنگوں میں گرفتار ہو کر لڑکیاں قید ہو جائیں اور ان کی عزت و ناموس دوسروں کے قبضہ میں چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بے غیرتی کا دھبہ متعلقین کے دامن پر لگ جائے گا۔

یہ چند عوامل لڑکیوں کے زندہ در گور کرنے کا سبب بنے ، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمانہ موجود میں بھی یہ رسم کسی نہ کسی صورت میں موجو دہے ۔ اور کچھ نہیں تو اسقاط حمل کی آزادی کی صور ت میں بہت سے متمدن ممالک میں رواج پائے ہوئے ۔ اگر زمانہ جاہلیت کے عرب نو زائیدہ بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے تو ہمارے زمانہ متمدن انسان انھیں شکم مادر میں قتل کردیتے ہیں اس کی مزید تشریح جلد ۶ ص ۳۷۲ پر سورہ نحل کی آیت ۵۹ کے ذیل میں ہم لکھ چکے ہیں ۔

۲ ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس اقدام کو اس قدر قبیح اور قابل ِ نفرت قرار دیاہے کہ روز ِ قیامت دوسرے اعمال کی پر سش سے پہلے اس داد خواہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قانون ِ اسلام کی رو سے عام انسانوں خصوصاً بے گناہ انسانوں کے خون کی بہت شدید گرفت کی گئی ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عورت کی کتنی قدر و منزلت ہے ۔

۳ ۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن میں نہیں کہا کہ قاتلوں سے سوال کریں گے بلکہ کہتا ہے کہ ان معصوم بچیوں سے سوال ہو گا کہ تمہارا کیا گناہ تھا کہ اس بے رحمانہ طریقہ پر تم کو قتل کیا گیا ۔ گو یا قاتل اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے ان کے جرم کے بارے میں پر سش بھی کی جائے بلکہ تنہا ان مقتولین کی گواہی کا فی ہے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۴

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۱۰ ۔( و اذا الصحف نشرت )

۱۱ ۔( و اذا السمآء کشطت )

۱۲ ۔( و اذاالجحیم سعرت )

۱۳ ۔( و اذاالجنة ازلفت )

۱۴ ۔( علمت نفسٌ مّآ احضرت )

ترجمہ

۱۰ ۔ جس وقت اعمال نامہ کھول دیئے جائیں گے ۔

۱۱ ۔اور جس وقت آسمان سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔

۱۲ ۔ اور جس وقت دوزخ دہک اٹھے گا ۔

۱۳ ۔ اور جس وقت جنت قریب کردی جائے گی ۔

۱۴ ۔ اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا کیا ہے ۔

اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔

اس بحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیتوں میں قیامت کے مرحلے یعنی اس جہان کی ویرانی کے موضوع پر آئی تھی زیر بحث آیتوں میں اس کے دوسرے مرحلہ یعنی دوسرے عالم کے ظہور اورنامہ اعمال کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے : ” جس روز اعمال نامہ کھول دئے جائیں گے “( و اذاالصحف نشرت ) ۔ ” صحف “ صحیفہ کی جمع ہے ۔ یہ اس چیز کے معنوں میں ہے جو صفحہ رخ کی طرح وسیع ہو ۔ اس کا اطلاق ان تختیوں اور کاغذوں پر ہوا ہے جن پر کچھ مطالب لکھتے ہیں ۔ قیامت میں اعمال ناموں کے کھلنے سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے وہ عمال انجام دئے ہیں ان کے سامنے اعمال ظاہر ہو جائیں گے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب دیکھ لیں جیسا کہ سورہ اسراء کی آیت چار میں آیاہے :( اقراء کتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) اور ان اعمال ناموں کا دوسروں کے سامنے واضح ہونا بھی نیکو کاروں کے لئے ایک تشویق کا عنوان ہے اور بد کاروں کے لئے تشویق و سزا و رنج اور تکلیف ہے۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :”اور جس وقت آسمان کے سامنے سے پر دہ ہٹا دیا جائے گا “۔( و اذا السماء کشطت ) ۔ ”کشطت“ ( بر وزن کشف) کے مادہ سے اصل میں ، جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے ، جانور کی کھال اتار نے کے معنی میں ہے اور ابن منظور کے بقول ” لسان العرب “ میں کسی چیز کے رخ سے پردہ ہٹا نے کے معنی میں بھی آیاہے ، لہٰذا جس وقت بادل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے ۔

زیربحث آیت میں اس سے مرادیہ ہے کہ وہ پر دے جو اس دنیا میں عالم مادہ اور عالم بالا پر پڑے ہو ئے ہیں یعنی لوگ فرشتوں کو یادوزخ و جنت کو نہیں دیکھ سکتے ، وہ ہٹ جائیں گے اور انسان علم ہستی کے حقائق کو دیکھ سکیں گے ۔ جیساکہ بعد والی آیت میں آئے گا کہ جہنم شعلہ ور ہوگا اور جنت انسانوں کے نزدیک ہو جائے گی جی ہاں قیامت کا دن یوم البروزہے ۔ چیزوں کی ہیت اس دن آشکار ہو جائے گی اور آسمان کے چہرے سے پردہ ہٹ جائے گا ۔ اس تفسیرکے مطابق و مندرجہ بالا آیت قیامت کے دوسرے مرحلہ کے حوادث یعنی انسانوں کی حیات تازہ کے مراحل کی گفتگو کرتی ہے ۔ قبل و بعد کی آیات بھی انہی چیزوں کے حامل ہیں اور یہ بہت سے مفسرین اس آیت کو آسمانوں کے لپیٹے جانے اور قیامت کے پہلے مرحلہ یعنی اس عالم کی فنا سے متعلق سمجھا ہے ، یہ بہت بعید نظر آتاہے اور نہ یہ مفہوم قبل و بعد کی آیت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، اس لئے بعد والی آیات میں مزید فرماتاہے ” اور جس وقت جہنم شعلہ ور ہو گا “( و اذاالجحیم سعرت ) ۔( و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) ۔ ” بیشک دوزخ کافروں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے “ ( توبہ/ ۴۹)

کے مطابق جہنم اب بھی موجود ہے لیکن اس دنیا کے حجابات اس کے مشاہدہ کی راہ میں حائل ہیں ۔ جیسا کہ بہت سی آیات قرآنی کے مطابق جنت بھی ان پر ہیز گاروں کے لئے تیار ہے ۔ اسی بناء پر بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” اور جس وقت جنت ہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی “( و اذاالجنة ازلفت ) ۔ یہی معنی سورہ شعراء کی آیت ۹۰ میں بھی اس فرق کے ساتھ آئے ہیں کہ یہاں متقین کے نام کی تصریح نہیں ہو ئی ۔ ”ازلفت“ ۔ ” زلف“( بر وزن حرف) اور ”زلفیٰ “ ( بر وزن کبریٰ) کے مادہ سے نز دیکی کے معنوں میں ہے ہو سکتا ہے اس سے مراد قرب مکانی ہو یا قرب زمانی یا اسباب و مقدمات کے لحاظ سے یا پھر یہ سب امور ہوں یعنی جنت مکان کے لحاظ سے بھی مومنین کے نزدیک ہوجائے گی اور زمانِ ورود کے اعتبار سے بھی اور اس کے اسباب و علل بھی وہاں سہل و آسان ہوں گے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں فرماتاکہ نیکو کار جنت کے نزدیک ہو جائیں گے بلکہ فرماتا ہے جنت کو ان کے نزدیک کردیں گے اور یہ بہت ہی محترم تعبیر ہے جو اس سلسلہ میں ممکن ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے جنت اور جہنم دونوں اس وقت موجود ہیں لیکن اس دن جنت زیادہ تر نزدیک اور دوزخ ہر زمانہ کی نسبت زیادہ بھڑک رہا ہوگا۔آخری زیر بحث آیت میں جو فی الحقیقت تمام گذشتہ آیتوں کی تکمیل کرتی ہے اور تمام شرطیہ جملوں کی جزا ہے جو گذشتہ بارہ آیتوں میں آئے ہیں ، فرماتا ہے :” اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے “( علمت نفس مااحضرت ) ۔ اور تعبیر اچھی طرح بتا تی ہے کہ انسان کے تما م اعمال وہاں حاضر ہو گے اور وہاں انسان کا علم مشاہدہ لئے ہوگا ۔ یہ حقیقت قرآن کی متعدد آیات میں آئی ہے ۔ سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( و وجدوا ما عملوا حاضراً) ” جو کچھ انہوں نے اعمال کئے ہیں وہ اسے حاضرپائیں گے “۔ اور سورہ زلزال کی آخری آیات میں آیاہے : ( فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرة شراً یرہ)جس شخص نے ذرہ برابر نیک عمل کیا ہو گا وہ اسے دیکھے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا ۔ یہ آیت بھی اعمال کی تجسیم کو بیان کرتی ہے اور یہ کہ انسانوں کے اعمال جو اس جہاں میں بظاہر نابود ہو جاتے ہیں ، وہ حقیقتاً نابود نہیں ہوتے ۔ اس دن مناسب شکلوں اور صورتوں میں مجسم ہو گے اور عرصہ محشر میں حاضر ہو گے ۔

۱ ۔نظم آیات

زیر بحث آیتوں میں اور گزشتہ آیتوں میں مسئلہ قیامت کے رابطہ سے بارہ احادیث کی طرف اشارہ ہوا ہے جن سے چھ دوسرے حوادث چھ دوسرے مرحلہ یعنی موت کے بعد کی نئی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پہلے حصہ میں سورج کے تاریک و سیاہ ہو جانے ، ستاروں کے بے نور ہونے ، پہاڑوں کے تزلزل اور حرکت میں آجانے ، سمندروں میں آگ لگ جانے ،اموال کو بھول جانے اور جانوروں کے وحشت زدہ ہو جانے کے بارے میں گفتگو ہے ۔

دوسرے مرحلہ میں انسانوں کے الگ الگ صفوں میں محشور ہونے ، بے گناہ زندہ در گورلڑکیوں سے سوال کئے جانے، نامہ اعمال کے کھلنے ،آسمانوں سے حجابات کے ہٹ جانے ، جہنم کی آگ کے بھڑک اٹھنے، جنت کے نزدیک ہونے اور آخر میں انسان کے اپنے اعمال سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کی بات ہو ئی ہے ۔

یہ آیات ، باوجود اختصار، اس قدر پر معنی اور دل ہلانے دینے والی ہیں کہ ہر انسان کے وجود کو متزلزل کر دیتی ہےں اور اسے غور و فکر پر اس طرح مجبور کر دیتی ہےں کہ وہ اس دنیا کے انجام اور قیامت کی کیفیات کو مختصر عبارتو ں میں اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھنے لگتاہے ۔ کس قدر زیبا، خوبصورت،اور اثر کرنے والی یہ آیات ِ قرآن ہیں اور کس قدر پرمعنی اور الہام بخش ان کے نکات ہیں ۔

۲ ۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟

ہر چیز سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ ہمارے نظام شمسی کا یہ حیات بخش مرکز جسے ہم سورج کہتے ہیں آسمان کے باقی رہنے ستاروں کی بہ نسبت اگر چہ یہ متوسط ستارہ ہے لیکن اپنی ذات کی حد تک اور کرہ زمین کی نسبت بہت بڑا ہے ۔

ماہرین کی تحقیقق اور ان کے مطالعوں کے مطابق اس حجم کا ایک ملین اور تین کروڑ گنا زمین کے مقابلہ میں ہے البتہ یہ چو نکہ ہم سے تقریباًایک سو پچاس ملین کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے لہٰذا وہ موجود حجم میں نظر آتاہے ۔

سورج کی عظمت و وسعت کی تصویر کشی کے لئے یہی مقدار کا فی ہے کہ اگر چاند اور زمین کو اس فاصلہ کے ساتھ جو اس وقت ان دونوں کے درمیان ہے سورج کے اندرمنتقل کردیں تو چاند آسانی کے ساتھ زمین کے گردگردش کر سکتا ہے بغیراس کے کہ وہ سورج کی سطح سے خارج ہو ۔

سورج کی سطح کی حرارت چھ ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور اس کے عمق کی حرار ت کئی ملین درجوں سے زیادہ ہے ۔ اگر چہ ہم چاہیں کہ سورج کے وزن کو ٹنوں کے حساب سے بیان کریں تو ضروری ہے کہ ہم دو کا عدد لکھیں اور ستائیس صفراس کے آگے لگائیں یعنی دو ارب ارب ارب ٹن۔

سورج کی سطح سے شعلہ بلند ہوتے ہیں جنکا ارتفاع کبھی تو ایک سوساٹھ ہزار کلو میڑ ہو تا ہے اور کرہ زمین اس کے اندر آسانی سے گم ہوسکتاہے ، چونکہ زمین قطرہ بارہ ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے ، باقی رہا سورج کی نورانی روشنی دینے والی طاقت کا سرچشمہ، اس کے بر عکس جو بعض ماہرین نے طے کر کھا ہے ، وہ چلنے سے پید ا نہیں ہوتا ۔

جارج گاموف اپنی کتاب ” سورج کی پیدائش اور اس کی موت“ میں لکھتاہے کہ اگر سورج کا جسم خالص پتھر کے کوئلے سے بناہوتا اور مصر کے پہلے فرعون کے زمانے میں اسے آگ لگائی گئی ہوتی تو ضروری تھاکہ وہ اب تک سب جل چکا ہو تا اور خاک کے سوا کوئی چیز باقی نہ بچی ہوتی اور کسی قسم کے دوسرا جلنے والا مادہ اگر پتھر کے کوئلے کی جگہ ہم فرض کریں تووہ بھی یہی اشکال رکھتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جلنے کا مفہوم سورج پر صادق نہیں آتا۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ایٹمی تجربوں سے حاصل شدہ طاقت ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ طاقت ( انرجی) بہت زیادہ اور بڑی ہے اس بناء پر سورج کے ایٹم انرجی کی تبدیلی میں مصروف ہیں جو ماہرین کے حساب کے مطابق ہر سیکنڈ میں چار ملین ٹن کم ہوجاتے ہیں مگر سورج کا حجم اتنا بڑا ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود اس پر کو ئی اثر نہیں پڑتا اور اس کیفیت و وضع میں معمولی سا تغیر بھی واقع نہیں ہوتا۔

لیکن جاننا چاہئیے کہ یہی چیز ایک مدت دراز کے بعد سورج کے فنا ہو جانے کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ جرم عظیم لاغر، کمزور، پتلا اور بے نور ہو جائے گا ۔ اور یہی چیز ستاروں پر بھی صادق آتی ہے ۔(۱)

اس بنا ء پر جو کچھ اوپر والی آیات میں سورج کے تاریک ہونے اور ستاروں کے بکھر جانے کے سلسلہ میں آیاہے وہ ایسی حقیقت ہے جو مو جودہ زمانے کے علم کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور قرآن نے اس وقت ان حقایق کو بیان کیا ہے جب نہ صرف جزیرة العرب کے ماحول میں بلکہ اس زمانے کی علمی دنیا کی محفلوں میں بھی ان مسائل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔

____________________

۱۔ اقتباس از کتب” پیدائش و مرگ خورشید“ و نجوم بی تلسکوب“ اور ” ساختمان خورشید

ـآیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( اذا الشمس کورت )

۲ ۔( و اذا النجوم انکدرت )

۳ ۔( واذا الجبال سیّرت )

۴ ۔( و اذا العشار عطّلت )

۵ ۔( و اذاالوحوش حشرت )

۶ ۔( و اذا البحار سجّرت )

۷ ۔( و اذا النفوس زوّجت )

۸ ۔( و اذا الموء دة سئلت ) ۔

۹ ۔( بِایّ ذنب قتلت ) ۔

ترجمہ

اس خدا کے نام سے جو مہر بان اور بخشنے والا ہے ۔

۱ ۔ جس وقت سورج کو لپیٹاجائے گا۔

۲ ۔ اور جس وقت ستارے بے نور ہوجائیں گے ۔

۳ ۔ جس وقت پہاڑ چلنے لگیں گے ۔

۴ ۔ جس وقت زیادہ قیمتی مال فراموش کردیا جائے گا۔

۵ ۔ جس وقت وحوش کو جمع کیاجائے گا۔

۶ ۔ جس وقت دریا جوش مارنے لگیں گے ۔

۷ ۔ جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین قرار پائے گا ۔

۸ ۔ جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا ۔

۹ ۔ کہ ان کو کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے ؟

جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا

اس سورہ کے آغاز میں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، مختصر، ہیجان انگیز اور دل ہلا دینے والے اشاروں کے ساتھ اس جہاں کے اختتام اور قیامت کی ابتداء کے ہولناک حوادث سے ہمارا آمنا سامنا ہے ۔

یہ حوادث ہمیں عجیب و غریب جہانوں کی سیر کراتے ہیں ، پر وردگار عالم ان نشانیوں میں سے آٹھ نشانیون کو بیان کرتاہے ۔ پہلے ارشاد فرماتاہے :

” اس وقت جب سورج کا دفتر لپیٹ دیاجائے گا “( اذاالشمس کورت ) ۔

” کورت“ ،” تکویر“ کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کے لپیٹنے اور جمع کرنے کے معنی میں ہے ۔ ( مثلاً سر پر عمامہ لپیٹنا) یہ ایسا مفہوم ہے جو لغت و تفسیر کی بہت سی کتب سے معلوم ہو تا ہے کبھی کسی چیز کے پھینک دینے اور تاریک ہو نے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں معانی اسی اصلی مضمون کی طرف لوٹتے ہیں ۔

بہر حال یہاں مراد سورج کی روشنی کا بجھ جانا ہے ، اس کا تاریک ہو نا ، یعنی اس کے وجود کا ختم ہو جانا ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ فی الحال سورج ایک کرّہ ہے ، حد سے زیادہ گرم اور جلتا ہو ا، اس قدر کے اس کا تمام مواد تہہ بہ تہہ گیس کی شکل میں نکل آیاہے اور اس کے ارد گرد جلانے والے شعلے موجود ہیں جن کی بلندی لاکھوں میٹر ہے ۔ اگر کرہ زمین ان میں سے کسی شعلے کی دمریان الجھ جائے تو ایک ہی لمحہ میں خاک ہو کر تھوڑی سی گیس میں تبدیل ہو جائے لیکن اس جہان کے آخر میں قیامت کی ابتداء پر جوحرارت ختم ہو جائے گی اور شعلے بجھ جائیں گے ، اس کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی اور اس کے حجم میں کمی ہو جائے گی ۔

تکویر کے یہ معنی ہیں ۔ اسی لئے لسان العرب میں آیاہے :

(کورت الشمس جمع ضوء ا ولف کما تلف العمامه ) سورج کی تکویر کے یہ معنی ہیں کہ اس کی روشنی سمٹ جائے گی اور لپیٹ دی جائے گی جس طرح عمامہ کو پیٹتے ہیں ۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی موجودہ علم بھی تائید کرتا ہے ۔ سورج کی روشنی آہستہ آہستہ تاریکی کی طرف جارہی ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :

” اور جس وقت ستارے بے نور ہو کر غائب ہو جائیں گے “( و اذا النجوم انکدرت ) ۔

” انکدرت“،” انکدار“ کے مادہ سے گرنے اور پراکندہ ہونے کے معنی میں ہے اور کدورت کی اصل کے پیش نظر تیر گی اور تاریکی کے معنی میں ہے ۔ زیر بحث آیت میں ان دونوں کا جمع ہونا بھی ممکن ہے اس لئے کہ آغاز قیامت میں ستارے اپنی روشنی کھو بیٹھے گے ، منتشر ہو جائیں گے اور گر پڑیں گے اور عالم بالا کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا جیسا کہ سورہ انفطار کی آیت ۲ میں آیاہے :

( و اذا الکواکب انتثرت ) ” اور جب ستارے گر کر منتشر ہو جائیں گے “اور جیسا کہ سورہ مرسلات کی آیت ۸ میں آیا ہے( فالنجوم طمست ) اور جب ستارے مٹ جائیں گے اور تاریک ہو جائیں گے “قیامت کی تیسری نشانی کے سلسلہ میں فرماتا ہے :

”اور جب پہاڑ چلنے لگیں گے “اذالجبال سیرت “۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ قرآن کی مختلف آیتوں سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آغاز قیامت میں پہاڑ مختلف مراحل طے کریں گے۔

پہلا مرحلہ یہ کہ چلنے لگیں گے اور آخری مرحلہ میں غبار میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ اس سلسلہ میں مزید تشریح اسی جلد میں سورہ نباکی آیت ۲۵ میں ملاحظہ فرمائیں )۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” جس وقت نہایت قیمتی مال فراموشی کے حوالہ ہو جائیں گے “( اذاالعشار عطلت ) ۔

” عشار“ جمع ”عشراء“کی جو در اصل حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے جس کے حمل کو دس ماہ گذر چکے ہوں اور وہ بچہ جننے کے قریب ہویعنی زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ وہ ایک اور اونٹ کو جنم دے گی ۔ اور بہت زیادہ دودھ اس کے پستانوں میں ظاہرہو گا ۔

جس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں تو عرب میں اس قسم کے اوٹنی بہت قیمتی شمار ہو تی تھی ۔

”عطلت“ تعطیل کے مادہ سے سرپرست اور چرواہے کے بغیر چھوڑدینے کے معنی میں ہے ، مراد یہ ہے کہ اس دن ہولناکی اس قدر شدید ہو گی کہ ہر انسان اپنے نفیس ترین مال کو فراموش کردے گا ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں نقل کرتے ہیں کہ بعض مفسرین نے عشار کو بادل کے معنی میں لیا ہے اور ” عطلت‘ بارش کے معطل ہو جانے کے معنی میں ہے ۔ یعنی اس دن آسمان پر بادل تو ظاہر ہوں گے لیکن برسیں گے نہیں ۔ ( ہوسکتاہے یہ بادل مختلف گیسو ں سے ہوں ، یا ایٹمی بادل ہوں ، یا گرد و غبار کے تودے جو پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے سے آغاز قیامت میں ظاہر ہو ں گے )۔

لیکن طبرسی مزید کہتے ہیں کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ عشار کی تفسیر بادلوں سے کرنا ایسی چیز ہے جو لغت عرب میں معروف نہیں ہے لیکن اس مطلب کی طرف توجہ سے جو ” طریحی “ نے مجمع البحرین میں نقل کیا ہے کہ ” عشار“ اصل میں حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے اور اس کے بعد بار بردار کو کہا گیا ہے ۔

ممکن ہے بادلوں پر بھی اس اطلاق عام طور پر پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے ہو اگرچہ ہو بادل جو آغاز قیامت میں نمو دار ہو ں گے بار بردارنہیں ہوں گے ( غور کیجئے)

بعض مفسرین نے ”عشار“ کی تفسیر گھروں اور زرعی زمینوں سے کی ہے جو عرصہ محشرمیں بیکار ہو جائیں گے اور ساکنوں اور زراعت کرنے والوں سے محروم ہوں گی۔لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ بعد میں آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

” اور جس وقت وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے “( و اذا الوحوش حشرت ) ۔ وہی جانور جو عام حالات میں ایک دوسرے سے ڈرتے تھے عرصہ قیامت کے حولناک حوادث کی وحشت کی شدت ایسی ہو گی کہ ان کو ایک دوسرے کے گرد جمع کردے گی اور وہ ہر چیز کو بھول جائیں گے ، گویا وہ چاہیں گے کہ اپنے اس اجتماع سے اپنے خوف و و حشت میں کمی کریں ۔

دوسرے لفظوں میں جس وقت وہ ہولناک مناظر و حشی جانوروں سے ان کے مخصوص خواص چھین لیں گے تو انسانوں سے کیا سلوک کریں گے ۔ لیکن بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت قیامت کی عدالت میں وحشی جانوروں کو جمع ہو نے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے عالم میں اور اپنی آگاہی اور شعور کے حدود میں رہتے ہو ئے جواب دہی کے پابند ہیں اور گر انہوں نے ایک دوسرے پرظلم و ستم کیا ہو گا تو وہاں ان سے بدلہ لیا جائے گا ۔

اس آیت کی سورہ انعام کی آیت ۳۸ کے ساتھ مشابہت ہے کہ جو کہتی ہے کہ:

( وما من دآبةٍ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه اِلَّا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

کوئی زمین میں چلنے والا اور کوئی پرندہ جو پانے پروں سے پرواز کرتا ہے موجود نہیں مگریہ کہ وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔ ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں چھوڑا نہیں ہے ، اس کے بعد تم اپنے پر ور دگار کی طرف محشور ہوگے۔

( جانوروں کے حشر و نشر اور حساب و کتاب کے سلسلہ میں تفصیلی بحث سورہ انعام کی اسی آیت کے ذیل میں جلد ۳ ص ۳۶۹ تا ۳۷۲ ہم کر چکے ہیں )۔

جو کچھ یہاں کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زیرِ بحث آیات دنیا کے اختتام اور آخرت کے آغاز کی ہولناک نشانیوں کے سلسلہ میں بحث کر رہی ہیں ، لہٰذا پہلی تفسیر مناسب ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :۔

” جس وقت دریا و ں میں آگ لگ جائے گی “( و اذا البحار سجرت ) ۔

” سجرت“ ۔ ” تسجیر“ کے مادہ سے جلانے اور آگ کے ہیجان میں آنے کے معنی میں ہے ۔ اور اگر قرآن کی یہ تعبیر گزشتہ زمانے میں مفسیرین کے لئے عجیب و غریب تھی تو اس وقت ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہے اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پانی دو عناصر ، ہیڈروجن اور آکسیجن، سے مرکب ہے جو دونوں شدید طور پر قابل اشتعال ہیں ۔

بعید نہیں کہ عرصہ قیامت میں دریا اور سمندروں کاپانی اس طرح دباو اور فشار میں آجائے کہ انکا تجزیہ ہو جائے اور یہ آگ پکڑ جائیں ۔

بعض نے اس لفظ کے پر ہو نے کے معنی میں تفسیر کی ہے جیسا کہ آگ سے پر تنور کو مسجر کہا جا تا ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ عرصہ محشر کے زلزلے اور پہاڑوں کا انتشار دریاو ں اور سمندروں کے پر ہونے کا سبب بنے یا آسمانی پتھروں کے گرنے سے وہ پر ہو جائیں اور ان کا متلاطم پانی خشکیوں کی سطح پرجاری ہو اور ہر چیز کو غرق کر دے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :

” اور جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین ہو جائے گا( و اذا النفسوس زوّجت ) ۔ صالحین صالحین کے ساتھ، اور بد کار بدکار لوگوں کےساتھ ، اصحاب الیمین اصحاب الیمین کے ساتھ اور اصحاب الشمال اصحاب الشمال کے ساتھ ، اس دنیا کے بر عکس جہاں سب ملے جلے ہیں ، کہیں مومن کا ہمسایہ مشرک ہے اور کہیں صالح اور نیک کا ہمسایہ غیر صالح ہے ۔لیکن قیامت کے جو یوم الفصل یعنی جدائی کا دن ہے ، اس میں یہ صفتیں مکمل طور پر الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گی ۔

اس آیت کی تفسیر میں دوسرے احتمالات بھی پیش ہو ئے ہیں من جملہ ایک یہ ہے کہ ارواح ابدان میں پلٹ آئیں گی یا جتنی روحوں کے ساتھ جہنمی نفسوس شیاطین کے پا ہو جائیں گے یا یہ کہ ہر انسان اپنے دوست یا رفیق کے قریب ہو گا بعد میں اس کے کہ موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے گی یا ہر انسا ن اپنے اعمال کا قرین ہو گا۔

لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیات ۷ سے اا تک اس کی گواہ ہیں :

( وکنتم ازواجاً ثلاثة فاصحاب المینة ما اصحاب المینة و اصحاب امشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون اولٰئک المقربون )

اس دن تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاو گے۔ پہلا گروہ اصحاب مینہ کا ہے ۔ کیا کہنا اصحاب میمنہ کا ۔ دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے وہ کیاہی منحوس گروہ ہے اور تیسرا گروہ سبقت کرنے والوں کاہے اور سبقت کرنے والے ہی مقربین ہیں ۔

حقیقت میں یہ آیت ایسی تبدیلیاں جو قیامت کی تمہید ہیں ، ان کے ذکرکے بعد اس عظیم دن کے ہر اول دستے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ایسا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے قرین کے ہمراہ ہو جائے گا ۔

اس کے بعد قیامت کے ایک حادثہ کو موضوع بناتے ہوئے مزید فرماتا ہے :

” جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا “( و اذا المو دة سئلت ) ۔” کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی ہیں “( بایّ ذنبٍ قتلت ) ۔

” موء دة “ ۔ ” وأد“ ( بروزن رعد) اس کی لڑکی کے معنی میں ہے جسے زندہ دفن کر دیا گیا ہو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی ثقل ، بوجھ اور سنگینی کے ہیں اور چونکہ ان لڑکیوں کو قبر میں دفن کرتے تھے اور ان پر مٹی ڈال دیتے تھے اس لئے یہ تعبیر ان کے لئے استعمال کی گئی ہے ۔

بعض روایات کے نتیجہ میں اس آیت کی تفسیر کو وسعت دی گئی ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے قطع رحم یا مودة اہل بیت کو قطع کرنا اس میں شامل ہے ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس وقت اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال ہو ا تو آپ نے فرمایا (من قتل فی مودتنا ) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہماری محبت کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ہیں ۔(۱)

ایک د وسری حدیث میں آیا ہے کہ اس بات کی گواہ آیت قربیٰ ہے( قل لا اسئلکم علیه اجراً الاالمودة فی القربیٰ ) ”کہہ دے میں تبلیغ نبوت کے سلسلہ میں تم سے کسی قسم کا اجر نہیں چاہتا سوائے اپنے اہل بیت کی مودة کے “ (سورہ شوریٰ ۲۳ ۔ )(۲) البتہ آیت کا ظاہری مفہوم وہی پہلی تفسیر ہے لیکن اس میں اس قسم کے مفہوم کی صلاحیت ہے ۔

____________________

۱۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔۲۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔

۱ ۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا

عربوں کے زمانہ جاہلیت کے درد ناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ در گور کردینا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں بارہا اشارہ ہوا ہے ۔ اگر بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ قبیح رسم عربوں میں عام تھی۔ صرف قبیلہ کندہ یا بعض دوسرے قبائل میں تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اقدام کچھ عجیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ ورنہ قرآن اس بارے میں اتنی تاکید کے ساتھ بار بار گفتگو نہ کرتا۔

بہر حال یہ کام اس قدر وحشت ناک تھا کہ اس کا کبھی کبھی ہو نا بھی نہایت قبیح امر ہے ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ عربوں کے زمانہ جاہلیت میں جس وقت عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں ایک گڑھا کھود دیتے اور اس کے اوپر بیٹھ جاتے اگر نوزائیدہ بچہ لڑکی ہوتو اس کواس گڑھے میں پھینک دیتے اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیتے ۔ اسی لئے ان کے شعراء میں سے ایک شاعر اس سلسلہ میں فخر یہ لہجہ میں کہتا ہے :

سمیتها اذا ولدت تموت و القبرصهو ضامن ذمیت

میں نے اس نو زائید لڑکی کا نام اس کی ولادت کے وقت تموت رکھا ( جس کے معنی مر جائے گی ) اور قبر میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کردیا ۔(۱)

اس جرم کے مختلف اسباب و عوامل تھے

زمانہ جاہلیت میں عورت کا ایک انسان کے لحاظ سے بے قدر و قیمت ہونا اس شدید فقر و فاقہ کی کیفیت کا نتیجہ تھا جو اس معاشرہ میں مسلط تھا ۔ لڑکیاں نہ تو کچھ کماکر دے دسکتی تھی نہ ڈاکہ ڈالنے میں شرکت کر سکتی تھیں ۔

ایک سبب اور بھی اور وہ یہ کہ اس بات کا امکان تھاکہ مختلف جنگوں میں گرفتار ہو کر لڑکیاں قید ہو جائیں اور ان کی عزت و ناموس دوسروں کے قبضہ میں چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بے غیرتی کا دھبہ متعلقین کے دامن پر لگ جائے گا۔

یہ چند عوامل لڑکیوں کے زندہ در گور کرنے کا سبب بنے ، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمانہ موجود میں بھی یہ رسم کسی نہ کسی صورت میں موجو دہے ۔ اور کچھ نہیں تو اسقاط حمل کی آزادی کی صور ت میں بہت سے متمدن ممالک میں رواج پائے ہوئے ۔ اگر زمانہ جاہلیت کے عرب نو زائیدہ بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے تو ہمارے زمانہ متمدن انسان انھیں شکم مادر میں قتل کردیتے ہیں اس کی مزید تشریح جلد ۶ ص ۳۷۲ پر سورہ نحل کی آیت ۵۹ کے ذیل میں ہم لکھ چکے ہیں ۔

۲ ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس اقدام کو اس قدر قبیح اور قابل ِ نفرت قرار دیاہے کہ روز ِ قیامت دوسرے اعمال کی پر سش سے پہلے اس داد خواہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قانون ِ اسلام کی رو سے عام انسانوں خصوصاً بے گناہ انسانوں کے خون کی بہت شدید گرفت کی گئی ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عورت کی کتنی قدر و منزلت ہے ۔

۳ ۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن میں نہیں کہا کہ قاتلوں سے سوال کریں گے بلکہ کہتا ہے کہ ان معصوم بچیوں سے سوال ہو گا کہ تمہارا کیا گناہ تھا کہ اس بے رحمانہ طریقہ پر تم کو قتل کیا گیا ۔ گو یا قاتل اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے ان کے جرم کے بارے میں پر سش بھی کی جائے بلکہ تنہا ان مقتولین کی گواہی کا فی ہے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۴

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۱۰ ۔( و اذا الصحف نشرت )

۱۱ ۔( و اذا السمآء کشطت )

۱۲ ۔( و اذاالجحیم سعرت )

۱۳ ۔( و اذاالجنة ازلفت )

۱۴ ۔( علمت نفسٌ مّآ احضرت )

ترجمہ

۱۰ ۔ جس وقت اعمال نامہ کھول دیئے جائیں گے ۔

۱۱ ۔اور جس وقت آسمان سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔

۱۲ ۔ اور جس وقت دوزخ دہک اٹھے گا ۔

۱۳ ۔ اور جس وقت جنت قریب کردی جائے گی ۔

۱۴ ۔ اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا کیا ہے ۔

اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔

اس بحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیتوں میں قیامت کے مرحلے یعنی اس جہان کی ویرانی کے موضوع پر آئی تھی زیر بحث آیتوں میں اس کے دوسرے مرحلہ یعنی دوسرے عالم کے ظہور اورنامہ اعمال کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے : ” جس روز اعمال نامہ کھول دئے جائیں گے “( و اذاالصحف نشرت ) ۔ ” صحف “ صحیفہ کی جمع ہے ۔ یہ اس چیز کے معنوں میں ہے جو صفحہ رخ کی طرح وسیع ہو ۔ اس کا اطلاق ان تختیوں اور کاغذوں پر ہوا ہے جن پر کچھ مطالب لکھتے ہیں ۔ قیامت میں اعمال ناموں کے کھلنے سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے وہ عمال انجام دئے ہیں ان کے سامنے اعمال ظاہر ہو جائیں گے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب دیکھ لیں جیسا کہ سورہ اسراء کی آیت چار میں آیاہے :( اقراء کتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) اور ان اعمال ناموں کا دوسروں کے سامنے واضح ہونا بھی نیکو کاروں کے لئے ایک تشویق کا عنوان ہے اور بد کاروں کے لئے تشویق و سزا و رنج اور تکلیف ہے۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :”اور جس وقت آسمان کے سامنے سے پر دہ ہٹا دیا جائے گا “۔( و اذا السماء کشطت ) ۔ ”کشطت“ ( بر وزن کشف) کے مادہ سے اصل میں ، جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے ، جانور کی کھال اتار نے کے معنی میں ہے اور ابن منظور کے بقول ” لسان العرب “ میں کسی چیز کے رخ سے پردہ ہٹا نے کے معنی میں بھی آیاہے ، لہٰذا جس وقت بادل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے ۔

زیربحث آیت میں اس سے مرادیہ ہے کہ وہ پر دے جو اس دنیا میں عالم مادہ اور عالم بالا پر پڑے ہو ئے ہیں یعنی لوگ فرشتوں کو یادوزخ و جنت کو نہیں دیکھ سکتے ، وہ ہٹ جائیں گے اور انسان علم ہستی کے حقائق کو دیکھ سکیں گے ۔ جیساکہ بعد والی آیت میں آئے گا کہ جہنم شعلہ ور ہوگا اور جنت انسانوں کے نزدیک ہو جائے گی جی ہاں قیامت کا دن یوم البروزہے ۔ چیزوں کی ہیت اس دن آشکار ہو جائے گی اور آسمان کے چہرے سے پردہ ہٹ جائے گا ۔ اس تفسیرکے مطابق و مندرجہ بالا آیت قیامت کے دوسرے مرحلہ کے حوادث یعنی انسانوں کی حیات تازہ کے مراحل کی گفتگو کرتی ہے ۔ قبل و بعد کی آیات بھی انہی چیزوں کے حامل ہیں اور یہ بہت سے مفسرین اس آیت کو آسمانوں کے لپیٹے جانے اور قیامت کے پہلے مرحلہ یعنی اس عالم کی فنا سے متعلق سمجھا ہے ، یہ بہت بعید نظر آتاہے اور نہ یہ مفہوم قبل و بعد کی آیت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، اس لئے بعد والی آیات میں مزید فرماتاہے ” اور جس وقت جہنم شعلہ ور ہو گا “( و اذاالجحیم سعرت ) ۔( و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) ۔ ” بیشک دوزخ کافروں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے “ ( توبہ/ ۴۹)

کے مطابق جہنم اب بھی موجود ہے لیکن اس دنیا کے حجابات اس کے مشاہدہ کی راہ میں حائل ہیں ۔ جیسا کہ بہت سی آیات قرآنی کے مطابق جنت بھی ان پر ہیز گاروں کے لئے تیار ہے ۔ اسی بناء پر بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” اور جس وقت جنت ہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی “( و اذاالجنة ازلفت ) ۔ یہی معنی سورہ شعراء کی آیت ۹۰ میں بھی اس فرق کے ساتھ آئے ہیں کہ یہاں متقین کے نام کی تصریح نہیں ہو ئی ۔ ”ازلفت“ ۔ ” زلف“( بر وزن حرف) اور ”زلفیٰ “ ( بر وزن کبریٰ) کے مادہ سے نز دیکی کے معنوں میں ہے ہو سکتا ہے اس سے مراد قرب مکانی ہو یا قرب زمانی یا اسباب و مقدمات کے لحاظ سے یا پھر یہ سب امور ہوں یعنی جنت مکان کے لحاظ سے بھی مومنین کے نزدیک ہوجائے گی اور زمانِ ورود کے اعتبار سے بھی اور اس کے اسباب و علل بھی وہاں سہل و آسان ہوں گے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں فرماتاکہ نیکو کار جنت کے نزدیک ہو جائیں گے بلکہ فرماتا ہے جنت کو ان کے نزدیک کردیں گے اور یہ بہت ہی محترم تعبیر ہے جو اس سلسلہ میں ممکن ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے جنت اور جہنم دونوں اس وقت موجود ہیں لیکن اس دن جنت زیادہ تر نزدیک اور دوزخ ہر زمانہ کی نسبت زیادہ بھڑک رہا ہوگا۔آخری زیر بحث آیت میں جو فی الحقیقت تمام گذشتہ آیتوں کی تکمیل کرتی ہے اور تمام شرطیہ جملوں کی جزا ہے جو گذشتہ بارہ آیتوں میں آئے ہیں ، فرماتا ہے :” اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے “( علمت نفس مااحضرت ) ۔ اور تعبیر اچھی طرح بتا تی ہے کہ انسان کے تما م اعمال وہاں حاضر ہو گے اور وہاں انسان کا علم مشاہدہ لئے ہوگا ۔ یہ حقیقت قرآن کی متعدد آیات میں آئی ہے ۔ سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( و وجدوا ما عملوا حاضراً) ” جو کچھ انہوں نے اعمال کئے ہیں وہ اسے حاضرپائیں گے “۔ اور سورہ زلزال کی آخری آیات میں آیاہے : ( فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرة شراً یرہ)جس شخص نے ذرہ برابر نیک عمل کیا ہو گا وہ اسے دیکھے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا ۔ یہ آیت بھی اعمال کی تجسیم کو بیان کرتی ہے اور یہ کہ انسانوں کے اعمال جو اس جہاں میں بظاہر نابود ہو جاتے ہیں ، وہ حقیقتاً نابود نہیں ہوتے ۔ اس دن مناسب شکلوں اور صورتوں میں مجسم ہو گے اور عرصہ محشر میں حاضر ہو گے ۔

۱ ۔نظم آیات

زیر بحث آیتوں میں اور گزشتہ آیتوں میں مسئلہ قیامت کے رابطہ سے بارہ احادیث کی طرف اشارہ ہوا ہے جن سے چھ دوسرے حوادث چھ دوسرے مرحلہ یعنی موت کے بعد کی نئی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پہلے حصہ میں سورج کے تاریک و سیاہ ہو جانے ، ستاروں کے بے نور ہونے ، پہاڑوں کے تزلزل اور حرکت میں آجانے ، سمندروں میں آگ لگ جانے ،اموال کو بھول جانے اور جانوروں کے وحشت زدہ ہو جانے کے بارے میں گفتگو ہے ۔

دوسرے مرحلہ میں انسانوں کے الگ الگ صفوں میں محشور ہونے ، بے گناہ زندہ در گورلڑکیوں سے سوال کئے جانے، نامہ اعمال کے کھلنے ،آسمانوں سے حجابات کے ہٹ جانے ، جہنم کی آگ کے بھڑک اٹھنے، جنت کے نزدیک ہونے اور آخر میں انسان کے اپنے اعمال سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کی بات ہو ئی ہے ۔

یہ آیات ، باوجود اختصار، اس قدر پر معنی اور دل ہلانے دینے والی ہیں کہ ہر انسان کے وجود کو متزلزل کر دیتی ہےں اور اسے غور و فکر پر اس طرح مجبور کر دیتی ہےں کہ وہ اس دنیا کے انجام اور قیامت کی کیفیات کو مختصر عبارتو ں میں اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھنے لگتاہے ۔ کس قدر زیبا، خوبصورت،اور اثر کرنے والی یہ آیات ِ قرآن ہیں اور کس قدر پرمعنی اور الہام بخش ان کے نکات ہیں ۔

۲ ۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟

ہر چیز سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ ہمارے نظام شمسی کا یہ حیات بخش مرکز جسے ہم سورج کہتے ہیں آسمان کے باقی رہنے ستاروں کی بہ نسبت اگر چہ یہ متوسط ستارہ ہے لیکن اپنی ذات کی حد تک اور کرہ زمین کی نسبت بہت بڑا ہے ۔

ماہرین کی تحقیقق اور ان کے مطالعوں کے مطابق اس حجم کا ایک ملین اور تین کروڑ گنا زمین کے مقابلہ میں ہے البتہ یہ چو نکہ ہم سے تقریباًایک سو پچاس ملین کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے لہٰذا وہ موجود حجم میں نظر آتاہے ۔

سورج کی عظمت و وسعت کی تصویر کشی کے لئے یہی مقدار کا فی ہے کہ اگر چاند اور زمین کو اس فاصلہ کے ساتھ جو اس وقت ان دونوں کے درمیان ہے سورج کے اندرمنتقل کردیں تو چاند آسانی کے ساتھ زمین کے گردگردش کر سکتا ہے بغیراس کے کہ وہ سورج کی سطح سے خارج ہو ۔

سورج کی سطح کی حرارت چھ ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور اس کے عمق کی حرار ت کئی ملین درجوں سے زیادہ ہے ۔ اگر چہ ہم چاہیں کہ سورج کے وزن کو ٹنوں کے حساب سے بیان کریں تو ضروری ہے کہ ہم دو کا عدد لکھیں اور ستائیس صفراس کے آگے لگائیں یعنی دو ارب ارب ارب ٹن۔

سورج کی سطح سے شعلہ بلند ہوتے ہیں جنکا ارتفاع کبھی تو ایک سوساٹھ ہزار کلو میڑ ہو تا ہے اور کرہ زمین اس کے اندر آسانی سے گم ہوسکتاہے ، چونکہ زمین قطرہ بارہ ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے ، باقی رہا سورج کی نورانی روشنی دینے والی طاقت کا سرچشمہ، اس کے بر عکس جو بعض ماہرین نے طے کر کھا ہے ، وہ چلنے سے پید ا نہیں ہوتا ۔

جارج گاموف اپنی کتاب ” سورج کی پیدائش اور اس کی موت“ میں لکھتاہے کہ اگر سورج کا جسم خالص پتھر کے کوئلے سے بناہوتا اور مصر کے پہلے فرعون کے زمانے میں اسے آگ لگائی گئی ہوتی تو ضروری تھاکہ وہ اب تک سب جل چکا ہو تا اور خاک کے سوا کوئی چیز باقی نہ بچی ہوتی اور کسی قسم کے دوسرا جلنے والا مادہ اگر پتھر کے کوئلے کی جگہ ہم فرض کریں تووہ بھی یہی اشکال رکھتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جلنے کا مفہوم سورج پر صادق نہیں آتا۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ایٹمی تجربوں سے حاصل شدہ طاقت ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ طاقت ( انرجی) بہت زیادہ اور بڑی ہے اس بناء پر سورج کے ایٹم انرجی کی تبدیلی میں مصروف ہیں جو ماہرین کے حساب کے مطابق ہر سیکنڈ میں چار ملین ٹن کم ہوجاتے ہیں مگر سورج کا حجم اتنا بڑا ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود اس پر کو ئی اثر نہیں پڑتا اور اس کیفیت و وضع میں معمولی سا تغیر بھی واقع نہیں ہوتا۔

لیکن جاننا چاہئیے کہ یہی چیز ایک مدت دراز کے بعد سورج کے فنا ہو جانے کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ جرم عظیم لاغر، کمزور، پتلا اور بے نور ہو جائے گا ۔ اور یہی چیز ستاروں پر بھی صادق آتی ہے ۔(۱)

اس بنا ء پر جو کچھ اوپر والی آیات میں سورج کے تاریک ہونے اور ستاروں کے بکھر جانے کے سلسلہ میں آیاہے وہ ایسی حقیقت ہے جو مو جودہ زمانے کے علم کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور قرآن نے اس وقت ان حقایق کو بیان کیا ہے جب نہ صرف جزیرة العرب کے ماحول میں بلکہ اس زمانے کی علمی دنیا کی محفلوں میں بھی ان مسائل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔

____________________

۱۔ اقتباس از کتب” پیدائش و مرگ خورشید“ و نجوم بی تلسکوب“ اور ” ساختمان خورشید

ـآیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( اذا الشمس کورت )

۲ ۔( و اذا النجوم انکدرت )

۳ ۔( واذا الجبال سیّرت )

۴ ۔( و اذا العشار عطّلت )

۵ ۔( و اذاالوحوش حشرت )

۶ ۔( و اذا البحار سجّرت )

۷ ۔( و اذا النفوس زوّجت )

۸ ۔( و اذا الموء دة سئلت ) ۔

۹ ۔( بِایّ ذنب قتلت ) ۔

ترجمہ

اس خدا کے نام سے جو مہر بان اور بخشنے والا ہے ۔

۱ ۔ جس وقت سورج کو لپیٹاجائے گا۔

۲ ۔ اور جس وقت ستارے بے نور ہوجائیں گے ۔

۳ ۔ جس وقت پہاڑ چلنے لگیں گے ۔

۴ ۔ جس وقت زیادہ قیمتی مال فراموش کردیا جائے گا۔

۵ ۔ جس وقت وحوش کو جمع کیاجائے گا۔

۶ ۔ جس وقت دریا جوش مارنے لگیں گے ۔

۷ ۔ جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین قرار پائے گا ۔

۸ ۔ جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا ۔

۹ ۔ کہ ان کو کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے ؟

جس دن کائنات کے دفتر کو لپیٹ دیاجائے گا

اس سورہ کے آغاز میں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، مختصر، ہیجان انگیز اور دل ہلا دینے والے اشاروں کے ساتھ اس جہاں کے اختتام اور قیامت کی ابتداء کے ہولناک حوادث سے ہمارا آمنا سامنا ہے ۔

یہ حوادث ہمیں عجیب و غریب جہانوں کی سیر کراتے ہیں ، پر وردگار عالم ان نشانیوں میں سے آٹھ نشانیون کو بیان کرتاہے ۔ پہلے ارشاد فرماتاہے :

” اس وقت جب سورج کا دفتر لپیٹ دیاجائے گا “( اذاالشمس کورت ) ۔

” کورت“ ،” تکویر“ کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کے لپیٹنے اور جمع کرنے کے معنی میں ہے ۔ ( مثلاً سر پر عمامہ لپیٹنا) یہ ایسا مفہوم ہے جو لغت و تفسیر کی بہت سی کتب سے معلوم ہو تا ہے کبھی کسی چیز کے پھینک دینے اور تاریک ہو نے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں معانی اسی اصلی مضمون کی طرف لوٹتے ہیں ۔

بہر حال یہاں مراد سورج کی روشنی کا بجھ جانا ہے ، اس کا تاریک ہو نا ، یعنی اس کے وجود کا ختم ہو جانا ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ فی الحال سورج ایک کرّہ ہے ، حد سے زیادہ گرم اور جلتا ہو ا، اس قدر کے اس کا تمام مواد تہہ بہ تہہ گیس کی شکل میں نکل آیاہے اور اس کے ارد گرد جلانے والے شعلے موجود ہیں جن کی بلندی لاکھوں میٹر ہے ۔ اگر کرہ زمین ان میں سے کسی شعلے کی دمریان الجھ جائے تو ایک ہی لمحہ میں خاک ہو کر تھوڑی سی گیس میں تبدیل ہو جائے لیکن اس جہان کے آخر میں قیامت کی ابتداء پر جوحرارت ختم ہو جائے گی اور شعلے بجھ جائیں گے ، اس کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی اور اس کے حجم میں کمی ہو جائے گی ۔

تکویر کے یہ معنی ہیں ۔ اسی لئے لسان العرب میں آیاہے :

(کورت الشمس جمع ضوء ا ولف کما تلف العمامه ) سورج کی تکویر کے یہ معنی ہیں کہ اس کی روشنی سمٹ جائے گی اور لپیٹ دی جائے گی جس طرح عمامہ کو پیٹتے ہیں ۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی موجودہ علم بھی تائید کرتا ہے ۔ سورج کی روشنی آہستہ آہستہ تاریکی کی طرف جارہی ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :

” اور جس وقت ستارے بے نور ہو کر غائب ہو جائیں گے “( و اذا النجوم انکدرت ) ۔

” انکدرت“،” انکدار“ کے مادہ سے گرنے اور پراکندہ ہونے کے معنی میں ہے اور کدورت کی اصل کے پیش نظر تیر گی اور تاریکی کے معنی میں ہے ۔ زیر بحث آیت میں ان دونوں کا جمع ہونا بھی ممکن ہے اس لئے کہ آغاز قیامت میں ستارے اپنی روشنی کھو بیٹھے گے ، منتشر ہو جائیں گے اور گر پڑیں گے اور عالم بالا کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا جیسا کہ سورہ انفطار کی آیت ۲ میں آیاہے :

( و اذا الکواکب انتثرت ) ” اور جب ستارے گر کر منتشر ہو جائیں گے “اور جیسا کہ سورہ مرسلات کی آیت ۸ میں آیا ہے( فالنجوم طمست ) اور جب ستارے مٹ جائیں گے اور تاریک ہو جائیں گے “قیامت کی تیسری نشانی کے سلسلہ میں فرماتا ہے :

”اور جب پہاڑ چلنے لگیں گے “اذالجبال سیرت “۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ قرآن کی مختلف آیتوں سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آغاز قیامت میں پہاڑ مختلف مراحل طے کریں گے۔

پہلا مرحلہ یہ کہ چلنے لگیں گے اور آخری مرحلہ میں غبار میں تبدیل ہو جائیں گے ۔ اس سلسلہ میں مزید تشریح اسی جلد میں سورہ نباکی آیت ۲۵ میں ملاحظہ فرمائیں )۔ اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” جس وقت نہایت قیمتی مال فراموشی کے حوالہ ہو جائیں گے “( اذاالعشار عطلت ) ۔

” عشار“ جمع ”عشراء“کی جو در اصل حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے جس کے حمل کو دس ماہ گذر چکے ہوں اور وہ بچہ جننے کے قریب ہویعنی زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ وہ ایک اور اونٹ کو جنم دے گی ۔ اور بہت زیادہ دودھ اس کے پستانوں میں ظاہرہو گا ۔

جس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں تو عرب میں اس قسم کے اوٹنی بہت قیمتی شمار ہو تی تھی ۔

”عطلت“ تعطیل کے مادہ سے سرپرست اور چرواہے کے بغیر چھوڑدینے کے معنی میں ہے ، مراد یہ ہے کہ اس دن ہولناکی اس قدر شدید ہو گی کہ ہر انسان اپنے نفیس ترین مال کو فراموش کردے گا ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں نقل کرتے ہیں کہ بعض مفسرین نے عشار کو بادل کے معنی میں لیا ہے اور ” عطلت‘ بارش کے معطل ہو جانے کے معنی میں ہے ۔ یعنی اس دن آسمان پر بادل تو ظاہر ہوں گے لیکن برسیں گے نہیں ۔ ( ہوسکتاہے یہ بادل مختلف گیسو ں سے ہوں ، یا ایٹمی بادل ہوں ، یا گرد و غبار کے تودے جو پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے سے آغاز قیامت میں ظاہر ہو ں گے )۔

لیکن طبرسی مزید کہتے ہیں کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ عشار کی تفسیر بادلوں سے کرنا ایسی چیز ہے جو لغت عرب میں معروف نہیں ہے لیکن اس مطلب کی طرف توجہ سے جو ” طریحی “ نے مجمع البحرین میں نقل کیا ہے کہ ” عشار“ اصل میں حاملہ اونٹنی کے معنی میں ہے اور اس کے بعد بار بردار کو کہا گیا ہے ۔

ممکن ہے بادلوں پر بھی اس اطلاق عام طور پر پانی کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے ہو اگرچہ ہو بادل جو آغاز قیامت میں نمو دار ہو ں گے بار بردارنہیں ہوں گے ( غور کیجئے)

بعض مفسرین نے ”عشار“ کی تفسیر گھروں اور زرعی زمینوں سے کی ہے جو عرصہ محشرمیں بیکار ہو جائیں گے اور ساکنوں اور زراعت کرنے والوں سے محروم ہوں گی۔لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ بعد میں آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

” اور جس وقت وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے “( و اذا الوحوش حشرت ) ۔ وہی جانور جو عام حالات میں ایک دوسرے سے ڈرتے تھے عرصہ قیامت کے حولناک حوادث کی وحشت کی شدت ایسی ہو گی کہ ان کو ایک دوسرے کے گرد جمع کردے گی اور وہ ہر چیز کو بھول جائیں گے ، گویا وہ چاہیں گے کہ اپنے اس اجتماع سے اپنے خوف و و حشت میں کمی کریں ۔

دوسرے لفظوں میں جس وقت وہ ہولناک مناظر و حشی جانوروں سے ان کے مخصوص خواص چھین لیں گے تو انسانوں سے کیا سلوک کریں گے ۔ لیکن بہت سے مفسرین کا نظر یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت قیامت کی عدالت میں وحشی جانوروں کو جمع ہو نے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے عالم میں اور اپنی آگاہی اور شعور کے حدود میں رہتے ہو ئے جواب دہی کے پابند ہیں اور گر انہوں نے ایک دوسرے پرظلم و ستم کیا ہو گا تو وہاں ان سے بدلہ لیا جائے گا ۔

اس آیت کی سورہ انعام کی آیت ۳۸ کے ساتھ مشابہت ہے کہ جو کہتی ہے کہ:

( وما من دآبةٍ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه اِلَّا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

کوئی زمین میں چلنے والا اور کوئی پرندہ جو پانے پروں سے پرواز کرتا ہے موجود نہیں مگریہ کہ وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔ ہم نے کسی چیز کو اس کتاب میں چھوڑا نہیں ہے ، اس کے بعد تم اپنے پر ور دگار کی طرف محشور ہوگے۔

( جانوروں کے حشر و نشر اور حساب و کتاب کے سلسلہ میں تفصیلی بحث سورہ انعام کی اسی آیت کے ذیل میں جلد ۳ ص ۳۶۹ تا ۳۷۲ ہم کر چکے ہیں )۔

جو کچھ یہاں کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ زیرِ بحث آیات دنیا کے اختتام اور آخرت کے آغاز کی ہولناک نشانیوں کے سلسلہ میں بحث کر رہی ہیں ، لہٰذا پہلی تفسیر مناسب ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :۔

” جس وقت دریا و ں میں آگ لگ جائے گی “( و اذا البحار سجرت ) ۔

” سجرت“ ۔ ” تسجیر“ کے مادہ سے جلانے اور آگ کے ہیجان میں آنے کے معنی میں ہے ۔ اور اگر قرآن کی یہ تعبیر گزشتہ زمانے میں مفسیرین کے لئے عجیب و غریب تھی تو اس وقت ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہے اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پانی دو عناصر ، ہیڈروجن اور آکسیجن، سے مرکب ہے جو دونوں شدید طور پر قابل اشتعال ہیں ۔

بعید نہیں کہ عرصہ قیامت میں دریا اور سمندروں کاپانی اس طرح دباو اور فشار میں آجائے کہ انکا تجزیہ ہو جائے اور یہ آگ پکڑ جائیں ۔

بعض نے اس لفظ کے پر ہو نے کے معنی میں تفسیر کی ہے جیسا کہ آگ سے پر تنور کو مسجر کہا جا تا ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ عرصہ محشر کے زلزلے اور پہاڑوں کا انتشار دریاو ں اور سمندروں کے پر ہونے کا سبب بنے یا آسمانی پتھروں کے گرنے سے وہ پر ہو جائیں اور ان کا متلاطم پانی خشکیوں کی سطح پرجاری ہو اور ہر چیز کو غرق کر دے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :

” اور جس وقت ہر شخص اپنے جیسے کا قرین ہو جائے گا( و اذا النفسوس زوّجت ) ۔ صالحین صالحین کے ساتھ، اور بد کار بدکار لوگوں کےساتھ ، اصحاب الیمین اصحاب الیمین کے ساتھ اور اصحاب الشمال اصحاب الشمال کے ساتھ ، اس دنیا کے بر عکس جہاں سب ملے جلے ہیں ، کہیں مومن کا ہمسایہ مشرک ہے اور کہیں صالح اور نیک کا ہمسایہ غیر صالح ہے ۔لیکن قیامت کے جو یوم الفصل یعنی جدائی کا دن ہے ، اس میں یہ صفتیں مکمل طور پر الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گی ۔

اس آیت کی تفسیر میں دوسرے احتمالات بھی پیش ہو ئے ہیں من جملہ ایک یہ ہے کہ ارواح ابدان میں پلٹ آئیں گی یا جتنی روحوں کے ساتھ جہنمی نفسوس شیاطین کے پا ہو جائیں گے یا یہ کہ ہر انسان اپنے دوست یا رفیق کے قریب ہو گا بعد میں اس کے کہ موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے گی یا ہر انسا ن اپنے اعمال کا قرین ہو گا۔

لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیات ۷ سے اا تک اس کی گواہ ہیں :

( وکنتم ازواجاً ثلاثة فاصحاب المینة ما اصحاب المینة و اصحاب امشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون اولٰئک المقربون )

اس دن تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاو گے۔ پہلا گروہ اصحاب مینہ کا ہے ۔ کیا کہنا اصحاب میمنہ کا ۔ دوسرا گروہ اصحاب شمال کا ہے وہ کیاہی منحوس گروہ ہے اور تیسرا گروہ سبقت کرنے والوں کاہے اور سبقت کرنے والے ہی مقربین ہیں ۔

حقیقت میں یہ آیت ایسی تبدیلیاں جو قیامت کی تمہید ہیں ، ان کے ذکرکے بعد اس عظیم دن کے ہر اول دستے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ایسا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے قرین کے ہمراہ ہو جائے گا ۔

اس کے بعد قیامت کے ایک حادثہ کو موضوع بناتے ہوئے مزید فرماتا ہے :

” جس وقت زندہ در گور لڑکیوں سے سوال کیا جائے گا “( و اذا المو دة سئلت ) ۔” کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی ہیں “( بایّ ذنبٍ قتلت ) ۔

” موء دة “ ۔ ” وأد“ ( بروزن رعد) اس کی لڑکی کے معنی میں ہے جسے زندہ دفن کر دیا گیا ہو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی ثقل ، بوجھ اور سنگینی کے ہیں اور چونکہ ان لڑکیوں کو قبر میں دفن کرتے تھے اور ان پر مٹی ڈال دیتے تھے اس لئے یہ تعبیر ان کے لئے استعمال کی گئی ہے ۔

بعض روایات کے نتیجہ میں اس آیت کی تفسیر کو وسعت دی گئی ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے قطع رحم یا مودة اہل بیت کو قطع کرنا اس میں شامل ہے ۔

ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس وقت اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال ہو ا تو آپ نے فرمایا (من قتل فی مودتنا ) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہماری محبت کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ہیں ۔(۱)

ایک د وسری حدیث میں آیا ہے کہ اس بات کی گواہ آیت قربیٰ ہے( قل لا اسئلکم علیه اجراً الاالمودة فی القربیٰ ) ”کہہ دے میں تبلیغ نبوت کے سلسلہ میں تم سے کسی قسم کا اجر نہیں چاہتا سوائے اپنے اہل بیت کی مودة کے “ (سورہ شوریٰ ۲۳ ۔ )(۲) البتہ آیت کا ظاہری مفہوم وہی پہلی تفسیر ہے لیکن اس میں اس قسم کے مفہوم کی صلاحیت ہے ۔

____________________

۱۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔۲۔تفسیر بر ہان جلد۴ ص۴۳۲، حدیث ۷ و ۱۱۔

۱ ۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا

عربوں کے زمانہ جاہلیت کے درد ناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ در گور کردینا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں بارہا اشارہ ہوا ہے ۔ اگر بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ قبیح رسم عربوں میں عام تھی۔ صرف قبیلہ کندہ یا بعض دوسرے قبائل میں تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اقدام کچھ عجیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ ورنہ قرآن اس بارے میں اتنی تاکید کے ساتھ بار بار گفتگو نہ کرتا۔

بہر حال یہ کام اس قدر وحشت ناک تھا کہ اس کا کبھی کبھی ہو نا بھی نہایت قبیح امر ہے ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ عربوں کے زمانہ جاہلیت میں جس وقت عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں ایک گڑھا کھود دیتے اور اس کے اوپر بیٹھ جاتے اگر نوزائیدہ بچہ لڑکی ہوتو اس کواس گڑھے میں پھینک دیتے اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رہنے دیتے ۔ اسی لئے ان کے شعراء میں سے ایک شاعر اس سلسلہ میں فخر یہ لہجہ میں کہتا ہے :

سمیتها اذا ولدت تموت و القبرصهو ضامن ذمیت

میں نے اس نو زائید لڑکی کا نام اس کی ولادت کے وقت تموت رکھا ( جس کے معنی مر جائے گی ) اور قبر میرا داماد ہے جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کردیا ۔(۱)

اس جرم کے مختلف اسباب و عوامل تھے

زمانہ جاہلیت میں عورت کا ایک انسان کے لحاظ سے بے قدر و قیمت ہونا اس شدید فقر و فاقہ کی کیفیت کا نتیجہ تھا جو اس معاشرہ میں مسلط تھا ۔ لڑکیاں نہ تو کچھ کماکر دے دسکتی تھی نہ ڈاکہ ڈالنے میں شرکت کر سکتی تھیں ۔

ایک سبب اور بھی اور وہ یہ کہ اس بات کا امکان تھاکہ مختلف جنگوں میں گرفتار ہو کر لڑکیاں قید ہو جائیں اور ان کی عزت و ناموس دوسروں کے قبضہ میں چلی جائے گی جس کے نتیجہ میں بے غیرتی کا دھبہ متعلقین کے دامن پر لگ جائے گا۔

یہ چند عوامل لڑکیوں کے زندہ در گور کرنے کا سبب بنے ، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زمانہ موجود میں بھی یہ رسم کسی نہ کسی صورت میں موجو دہے ۔ اور کچھ نہیں تو اسقاط حمل کی آزادی کی صور ت میں بہت سے متمدن ممالک میں رواج پائے ہوئے ۔ اگر زمانہ جاہلیت کے عرب نو زائیدہ بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے تو ہمارے زمانہ متمدن انسان انھیں شکم مادر میں قتل کردیتے ہیں اس کی مزید تشریح جلد ۶ ص ۳۷۲ پر سورہ نحل کی آیت ۵۹ کے ذیل میں ہم لکھ چکے ہیں ۔

۲ ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس اقدام کو اس قدر قبیح اور قابل ِ نفرت قرار دیاہے کہ روز ِ قیامت دوسرے اعمال کی پر سش سے پہلے اس داد خواہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قانون ِ اسلام کی رو سے عام انسانوں خصوصاً بے گناہ انسانوں کے خون کی بہت شدید گرفت کی گئی ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں عورت کی کتنی قدر و منزلت ہے ۔

۳ ۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن میں نہیں کہا کہ قاتلوں سے سوال کریں گے بلکہ کہتا ہے کہ ان معصوم بچیوں سے سوال ہو گا کہ تمہارا کیا گناہ تھا کہ اس بے رحمانہ طریقہ پر تم کو قتل کیا گیا ۔ گو یا قاتل اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے ان کے جرم کے بارے میں پر سش بھی کی جائے بلکہ تنہا ان مقتولین کی گواہی کا فی ہے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، ص ۴۴۴

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۱۰ ۔( و اذا الصحف نشرت )

۱۱ ۔( و اذا السمآء کشطت )

۱۲ ۔( و اذاالجحیم سعرت )

۱۳ ۔( و اذاالجنة ازلفت )

۱۴ ۔( علمت نفسٌ مّآ احضرت )

ترجمہ

۱۰ ۔ جس وقت اعمال نامہ کھول دیئے جائیں گے ۔

۱۱ ۔اور جس وقت آسمان سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔

۱۲ ۔ اور جس وقت دوزخ دہک اٹھے گا ۔

۱۳ ۔ اور جس وقت جنت قریب کردی جائے گی ۔

۱۴ ۔ اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا کیا ہے ۔

اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔

اس بحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیتوں میں قیامت کے مرحلے یعنی اس جہان کی ویرانی کے موضوع پر آئی تھی زیر بحث آیتوں میں اس کے دوسرے مرحلہ یعنی دوسرے عالم کے ظہور اورنامہ اعمال کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے : ” جس روز اعمال نامہ کھول دئے جائیں گے “( و اذاالصحف نشرت ) ۔ ” صحف “ صحیفہ کی جمع ہے ۔ یہ اس چیز کے معنوں میں ہے جو صفحہ رخ کی طرح وسیع ہو ۔ اس کا اطلاق ان تختیوں اور کاغذوں پر ہوا ہے جن پر کچھ مطالب لکھتے ہیں ۔ قیامت میں اعمال ناموں کے کھلنے سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے وہ عمال انجام دئے ہیں ان کے سامنے اعمال ظاہر ہو جائیں گے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب دیکھ لیں جیسا کہ سورہ اسراء کی آیت چار میں آیاہے :( اقراء کتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) اور ان اعمال ناموں کا دوسروں کے سامنے واضح ہونا بھی نیکو کاروں کے لئے ایک تشویق کا عنوان ہے اور بد کاروں کے لئے تشویق و سزا و رنج اور تکلیف ہے۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :”اور جس وقت آسمان کے سامنے سے پر دہ ہٹا دیا جائے گا “۔( و اذا السماء کشطت ) ۔ ”کشطت“ ( بر وزن کشف) کے مادہ سے اصل میں ، جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے ، جانور کی کھال اتار نے کے معنی میں ہے اور ابن منظور کے بقول ” لسان العرب “ میں کسی چیز کے رخ سے پردہ ہٹا نے کے معنی میں بھی آیاہے ، لہٰذا جس وقت بادل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے ۔

زیربحث آیت میں اس سے مرادیہ ہے کہ وہ پر دے جو اس دنیا میں عالم مادہ اور عالم بالا پر پڑے ہو ئے ہیں یعنی لوگ فرشتوں کو یادوزخ و جنت کو نہیں دیکھ سکتے ، وہ ہٹ جائیں گے اور انسان علم ہستی کے حقائق کو دیکھ سکیں گے ۔ جیساکہ بعد والی آیت میں آئے گا کہ جہنم شعلہ ور ہوگا اور جنت انسانوں کے نزدیک ہو جائے گی جی ہاں قیامت کا دن یوم البروزہے ۔ چیزوں کی ہیت اس دن آشکار ہو جائے گی اور آسمان کے چہرے سے پردہ ہٹ جائے گا ۔ اس تفسیرکے مطابق و مندرجہ بالا آیت قیامت کے دوسرے مرحلہ کے حوادث یعنی انسانوں کی حیات تازہ کے مراحل کی گفتگو کرتی ہے ۔ قبل و بعد کی آیات بھی انہی چیزوں کے حامل ہیں اور یہ بہت سے مفسرین اس آیت کو آسمانوں کے لپیٹے جانے اور قیامت کے پہلے مرحلہ یعنی اس عالم کی فنا سے متعلق سمجھا ہے ، یہ بہت بعید نظر آتاہے اور نہ یہ مفہوم قبل و بعد کی آیت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، اس لئے بعد والی آیات میں مزید فرماتاہے ” اور جس وقت جہنم شعلہ ور ہو گا “( و اذاالجحیم سعرت ) ۔( و ان جهنم لمحیطة بالکافرین ) ۔ ” بیشک دوزخ کافروں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے “ ( توبہ/ ۴۹)

کے مطابق جہنم اب بھی موجود ہے لیکن اس دنیا کے حجابات اس کے مشاہدہ کی راہ میں حائل ہیں ۔ جیسا کہ بہت سی آیات قرآنی کے مطابق جنت بھی ان پر ہیز گاروں کے لئے تیار ہے ۔ اسی بناء پر بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” اور جس وقت جنت ہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی “( و اذاالجنة ازلفت ) ۔ یہی معنی سورہ شعراء کی آیت ۹۰ میں بھی اس فرق کے ساتھ آئے ہیں کہ یہاں متقین کے نام کی تصریح نہیں ہو ئی ۔ ”ازلفت“ ۔ ” زلف“( بر وزن حرف) اور ”زلفیٰ “ ( بر وزن کبریٰ) کے مادہ سے نز دیکی کے معنوں میں ہے ہو سکتا ہے اس سے مراد قرب مکانی ہو یا قرب زمانی یا اسباب و مقدمات کے لحاظ سے یا پھر یہ سب امور ہوں یعنی جنت مکان کے لحاظ سے بھی مومنین کے نزدیک ہوجائے گی اور زمانِ ورود کے اعتبار سے بھی اور اس کے اسباب و علل بھی وہاں سہل و آسان ہوں گے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں فرماتاکہ نیکو کار جنت کے نزدیک ہو جائیں گے بلکہ فرماتا ہے جنت کو ان کے نزدیک کردیں گے اور یہ بہت ہی محترم تعبیر ہے جو اس سلسلہ میں ممکن ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے جنت اور جہنم دونوں اس وقت موجود ہیں لیکن اس دن جنت زیادہ تر نزدیک اور دوزخ ہر زمانہ کی نسبت زیادہ بھڑک رہا ہوگا۔آخری زیر بحث آیت میں جو فی الحقیقت تمام گذشتہ آیتوں کی تکمیل کرتی ہے اور تمام شرطیہ جملوں کی جزا ہے جو گذشتہ بارہ آیتوں میں آئے ہیں ، فرماتا ہے :” اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے “( علمت نفس مااحضرت ) ۔ اور تعبیر اچھی طرح بتا تی ہے کہ انسان کے تما م اعمال وہاں حاضر ہو گے اور وہاں انسان کا علم مشاہدہ لئے ہوگا ۔ یہ حقیقت قرآن کی متعدد آیات میں آئی ہے ۔ سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( و وجدوا ما عملوا حاضراً) ” جو کچھ انہوں نے اعمال کئے ہیں وہ اسے حاضرپائیں گے “۔ اور سورہ زلزال کی آخری آیات میں آیاہے : ( فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرة شراً یرہ)جس شخص نے ذرہ برابر نیک عمل کیا ہو گا وہ اسے دیکھے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا ۔ یہ آیت بھی اعمال کی تجسیم کو بیان کرتی ہے اور یہ کہ انسانوں کے اعمال جو اس جہاں میں بظاہر نابود ہو جاتے ہیں ، وہ حقیقتاً نابود نہیں ہوتے ۔ اس دن مناسب شکلوں اور صورتوں میں مجسم ہو گے اور عرصہ محشر میں حاضر ہو گے ۔

۱ ۔نظم آیات

زیر بحث آیتوں میں اور گزشتہ آیتوں میں مسئلہ قیامت کے رابطہ سے بارہ احادیث کی طرف اشارہ ہوا ہے جن سے چھ دوسرے حوادث چھ دوسرے مرحلہ یعنی موت کے بعد کی نئی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پہلے حصہ میں سورج کے تاریک و سیاہ ہو جانے ، ستاروں کے بے نور ہونے ، پہاڑوں کے تزلزل اور حرکت میں آجانے ، سمندروں میں آگ لگ جانے ،اموال کو بھول جانے اور جانوروں کے وحشت زدہ ہو جانے کے بارے میں گفتگو ہے ۔

دوسرے مرحلہ میں انسانوں کے الگ الگ صفوں میں محشور ہونے ، بے گناہ زندہ در گورلڑکیوں سے سوال کئے جانے، نامہ اعمال کے کھلنے ،آسمانوں سے حجابات کے ہٹ جانے ، جہنم کی آگ کے بھڑک اٹھنے، جنت کے نزدیک ہونے اور آخر میں انسان کے اپنے اعمال سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کی بات ہو ئی ہے ۔

یہ آیات ، باوجود اختصار، اس قدر پر معنی اور دل ہلانے دینے والی ہیں کہ ہر انسان کے وجود کو متزلزل کر دیتی ہےں اور اسے غور و فکر پر اس طرح مجبور کر دیتی ہےں کہ وہ اس دنیا کے انجام اور قیامت کی کیفیات کو مختصر عبارتو ں میں اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھنے لگتاہے ۔ کس قدر زیبا، خوبصورت،اور اثر کرنے والی یہ آیات ِ قرآن ہیں اور کس قدر پرمعنی اور الہام بخش ان کے نکات ہیں ۔

۲ ۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟

ہر چیز سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ ہمارے نظام شمسی کا یہ حیات بخش مرکز جسے ہم سورج کہتے ہیں آسمان کے باقی رہنے ستاروں کی بہ نسبت اگر چہ یہ متوسط ستارہ ہے لیکن اپنی ذات کی حد تک اور کرہ زمین کی نسبت بہت بڑا ہے ۔

ماہرین کی تحقیقق اور ان کے مطالعوں کے مطابق اس حجم کا ایک ملین اور تین کروڑ گنا زمین کے مقابلہ میں ہے البتہ یہ چو نکہ ہم سے تقریباًایک سو پچاس ملین کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے لہٰذا وہ موجود حجم میں نظر آتاہے ۔

سورج کی عظمت و وسعت کی تصویر کشی کے لئے یہی مقدار کا فی ہے کہ اگر چاند اور زمین کو اس فاصلہ کے ساتھ جو اس وقت ان دونوں کے درمیان ہے سورج کے اندرمنتقل کردیں تو چاند آسانی کے ساتھ زمین کے گردگردش کر سکتا ہے بغیراس کے کہ وہ سورج کی سطح سے خارج ہو ۔

سورج کی سطح کی حرارت چھ ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور اس کے عمق کی حرار ت کئی ملین درجوں سے زیادہ ہے ۔ اگر چہ ہم چاہیں کہ سورج کے وزن کو ٹنوں کے حساب سے بیان کریں تو ضروری ہے کہ ہم دو کا عدد لکھیں اور ستائیس صفراس کے آگے لگائیں یعنی دو ارب ارب ارب ٹن۔

سورج کی سطح سے شعلہ بلند ہوتے ہیں جنکا ارتفاع کبھی تو ایک سوساٹھ ہزار کلو میڑ ہو تا ہے اور کرہ زمین اس کے اندر آسانی سے گم ہوسکتاہے ، چونکہ زمین قطرہ بارہ ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے ، باقی رہا سورج کی نورانی روشنی دینے والی طاقت کا سرچشمہ، اس کے بر عکس جو بعض ماہرین نے طے کر کھا ہے ، وہ چلنے سے پید ا نہیں ہوتا ۔

جارج گاموف اپنی کتاب ” سورج کی پیدائش اور اس کی موت“ میں لکھتاہے کہ اگر سورج کا جسم خالص پتھر کے کوئلے سے بناہوتا اور مصر کے پہلے فرعون کے زمانے میں اسے آگ لگائی گئی ہوتی تو ضروری تھاکہ وہ اب تک سب جل چکا ہو تا اور خاک کے سوا کوئی چیز باقی نہ بچی ہوتی اور کسی قسم کے دوسرا جلنے والا مادہ اگر پتھر کے کوئلے کی جگہ ہم فرض کریں تووہ بھی یہی اشکال رکھتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جلنے کا مفہوم سورج پر صادق نہیں آتا۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ایٹمی تجربوں سے حاصل شدہ طاقت ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ طاقت ( انرجی) بہت زیادہ اور بڑی ہے اس بناء پر سورج کے ایٹم انرجی کی تبدیلی میں مصروف ہیں جو ماہرین کے حساب کے مطابق ہر سیکنڈ میں چار ملین ٹن کم ہوجاتے ہیں مگر سورج کا حجم اتنا بڑا ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود اس پر کو ئی اثر نہیں پڑتا اور اس کیفیت و وضع میں معمولی سا تغیر بھی واقع نہیں ہوتا۔

لیکن جاننا چاہئیے کہ یہی چیز ایک مدت دراز کے بعد سورج کے فنا ہو جانے کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ جرم عظیم لاغر، کمزور، پتلا اور بے نور ہو جائے گا ۔ اور یہی چیز ستاروں پر بھی صادق آتی ہے ۔(۱)

اس بنا ء پر جو کچھ اوپر والی آیات میں سورج کے تاریک ہونے اور ستاروں کے بکھر جانے کے سلسلہ میں آیاہے وہ ایسی حقیقت ہے جو مو جودہ زمانے کے علم کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور قرآن نے اس وقت ان حقایق کو بیان کیا ہے جب نہ صرف جزیرة العرب کے ماحول میں بلکہ اس زمانے کی علمی دنیا کی محفلوں میں بھی ان مسائل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔

____________________

۱۔ اقتباس از کتب” پیدائش و مرگ خورشید“ و نجوم بی تلسکوب“ اور ” ساختمان خورشید


7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17