یہ طبری کا حال ہے نیز ان لوگوں کا جنہوں نے طبری پر اعتماد کر کے اس سے نقل کیا ہے لہذا یہکیسےممکن ہے کہ ہم اپنی تحقیقات اور چھان بین کو تاریخ طبری تک ہی محدود کر دیں ؟
آپ نے اپنے خط کے چوتھے بند میں لکھا تھا: سیف کی ان جگہوں کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں پر اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے ہم آہنگ اور بالکل ویسی ہی ہیں ؟ کیا اس صورت میں بھی آپ اسے حدیث جعل کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ؟یہاں تک آپ نے لکھا کہ: ” میں امید کرتا ہوں آپ سیف کی روایتوں پر تحقیقات کرتے وقت معین کریں کہ کیا سیف کی ساری روایتوں کوکہ جو کچھ اس سے نقل ہوا ہے اس میں مکمل طور پر الگ کر دیا جائے یا کم از کم اس کی بعض روایتوں کو قبول کیا جائے ؟
اس کے جواب میں کہنا چاہتا ہوں : سیف کی تاریخی روایتوں کی میری نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے میں اس کی وقعت ہارون رشید کے زمانے کی داستانوں پر مشتمل لکھی گئی کتاب ” الف لیلیٰ“ سے زیادہ نہیں سمجھتا جس طرح ہم کتاب ” الف لیلیٰ“ کو ہارون رشید کے زمانے کے بارے میں تاریخ کے ایک مآخذ اور نص کے طور پر مطالعہ نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ادبی داستان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اسے تھکاوٹ دور کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے ایک وسیلہ کے طور پر جانتے ہیں حقیقت میں بعض اوقات ان داستانوں میں داستان لکھنے والے کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے اور اس کے ہم عصر لوگوں کی فکری سطح پر تحقیق کی جاسکتی ہے اور اسی طرح اس زمانے میں ملک کی ثقافت و تمدن کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کا خود داستان کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا ۔
میں سیف کی داستانوں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور داستان کے اسلوب سے ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ہمارا یہ طاقتور داستان نویس اپنی داستانوں کیلئے مآخذ اور اسناد جعل کرنے کیلئے مجبور تھا تا کہ ان داستانوں کا سلسلہ اس زمانے تک پہنچ جائے جس کے بارے میں اس نے داستانیں لکھی ہیں کیونکہ اس کا زمانہ ” جرجی زیدان “ کا زمانہ تھا کہ اپنے تاریخی افسانوں کیلئے سند جعل کرنے کی ضرورت نہ رکھتا ہو ۔
میرے نزدیک سیف کی روایتوں کی حیثیت ایسی ہے کہ میں ان میں سے کسی ایک پر اعتماد نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ جس نے اتنا جھوٹ بولا ہو اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے دوسرے مواقع پر بھی جھوٹ نہ کہا ہوگا لہذا عقل حکم دیتی ہے کہ سیف کی کسی بھی روایت پر اعتماد نہ کیا جائے میں اگر سیف سے روایت کی گئی کسی داستان کو کسی دوسرے معتبر طریقے سے حاصل کروں تو اسے قبول کروں گا لیکن اس حالت میں ترجیح دوں گا کہ سیف کی روایت کو کالعدم قرار دوں ۔
اپنے خط کے پانچویں حصہ میں آپ نے ذکر کیا ہے: میں نے سیف کے توسط سے حوادث اور روئداد وں کے سالوں میں سیف پر تحریفات کی تہمت لگائی ہے اور لفظ تحریف سے روئیدادوں کے سال تعیین کرنے میں عمداً یہ کام انجام دینے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے ، جبکہ یہ صرف سیف نہیں تھا جس نے حوادث کے سالوں کے تعیین میں اختلاف کیا ہے ۔
میں اس کے جواب میں کہتا ہوں : اگر چہ سیف کے علاوہ دوسرے راوی بھی رودادوں کے بارے میں سال اور تاریخ معین کرنے میں آپس میں اختلافات رکھتے ہیں ، لیکن یہ کام ان کے یہاں اتنا عام اور مشہور نہیں ہے جتنا سیف کے یہاں پایا جاتا ہے یا اس نے اس کی عادت ڈال لی ہے اس کے علاوہ جس قدر ہم نے سیف کے یہاں تاریخی داستانوں میں تحریفات ، مداخلت اور الٹ پھیر دیکھی ہے اس قدر دوسروں کے یہاں مشاہدہ نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ ہم نے اکثر اس کی ان تحریفات کو مد نظر رکھا ہے کہ صرف اس نے عمداً یہ کام انجام دیا ہے اور دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تائید نہیں کی ہے یعنی اس نے دوسرے تمام راویوں کے بر عکس عمل کیا ہے ۔
لیکن آپ کا یہ کہنا کہ زمانے کے بعض اختلافات جو بذات خود ایسے اسباب ہیں کہ ان کا بد نیتی اور خود غرضی سے کوئی ربط نہیں ہے۔
جواب میں کہتا ہوں کہ : خوش فکر انسان جتنی بھی کوشش کرے زیادہ سے زیادہ سیف کی تحریفات کے چند خاص مواقع کی توجیہ کرسکتا ہے لیکن اس کی تحریفات کے اندر ایسے نمونے بھی ملتے ہیں کہ جس قدر بھی ہم حسن ظن رکھتے ہوں اور اس کے سوا چارہ ہی نظر نہیں آتا ہے کہ اس سے بد نیتی اور خود غرضی کی تعبیر کی جائے ،نمونہ کے طور پر اس امر کی طرف توجہ فرمائیے کہ : طبری نے ۱۲ ھء کی رودادوں کو نقل کرتے ہوئے ” ابلہ “ کی فتح و تسخیر کے بارے میں اپنی تاریخ کی ج
ص ۵ ۔ ۶ میں لکھا ہے : ابوبکر نے خالد کو عراق بھیجا اور اسے حکم دیا کہ پہلے بندر سندھ اور ہند کو فتح کرے وہ جگہ ان دنوں ” ابلہ “ کے نام سے مشہور تھی خلاصہ یہ ہے کہ : اس نے مشرکین کو اس حالت میں دیکھا کہ انہوں نے فرار نہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا تھا اور ان کے پاس پانی موجود تھا ، خالد نے ان کے مقابل میں ایک ایسی جگہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں پر پانی موجو نہ تھا اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئی خداوند عالم نے بادل کے ایک ٹکڑے کو بھیجدیا اور مسلمانوں کی فوج کے پیچھے موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خداوند عالم نے اسلام کے سپاہیوں کو طاقت بخشی ، سورج چڑھنے سے پہلے اس صحرا میں اس لشکر کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، جنہوں نے اپنے کو زنجیروں سے باندھا تھا ، خالد نے ان سب کا قتل عام کیا اسی لئے اس جنگ کو جنگِ ” ذات السلاسل “ کہا گیا ہے ، یعنی زنجیر والوں کی جنگ، خالد نے اس فتح و نصرت کی خبر جنگ غنائم اور ایک ہاتھی سمیت ابوبکر کو بھیجا، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھمایا گیا تا کہ لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر آپس میں کہتی تھیں کیا یہ خدا کی مخلوق ہے جسے ہم دیکھتے ہیں ؟ اور خیال کرتی تھیں کہ اسے انسان نے خلق کیا ہے ۔ ابو بکر نے اس ہاتھی کو ” زر“ نامی ایک شخص کے ذریعہ واپس بھیج دیا ۔
اس داستان کے بعد طبری کہتا ہے : ” ابلہ “ اور اس کی فتح کے بارے میں یہ داستان جو سیف نے نقل کی ہے ، اس چیز کے بر عکس ہے جو سیرت لکھنے والوں نے نقل کیا ہے اور اس کے بر خلاف ہے جو صحیح مآخذ اور آثار میں ذکر ہوا ہے بلکہ ” ابلہ “ خلافت عمر کے زمانے میں عقبہ بن غزوان کے ہاتھوں ۱۴ ھء میں فتح ہوا ہے اس کے بعد طبری نے ۱۴ ھء کی روئیداد کے ضمن میں اپنی کتاب کی جلد ۴ ص ۱۴۸ سے ۱۵۲ تک سیف کے علاوہ دوسرے راویوں سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
” عمر نے عقبہ سے کہا: ” میں نے تجھے سرزمین ہند کی بندرگاہ کی ماموریت دیدی ہے اور اسے بندر ہند کی گورنری سونپی ، عتبہ روانہ ہوا اور سرزمین ” اجانہ “ کے نزدیک پہنچا ، تقریباً ایک مہینہ تک وہاں پر ٹھہرا ، شہر ” ابلہ “ کے باشندے اس کے پاس آگئے ، عتبہ نے ان سے جنگ کی ، وہ بھاگ گئے اور شہر کوترک کیا ، مسلمان اس شہر میں داخل ہو گئے عتبہ نے اس فتحیابی کی نوید جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کے ساتھ عمر کو بھیج دی
خدا آپ کی حفاظت کرے ! ذرا غور سے دیکھئے اور غائرانہ نظر ڈالیے کہ سیف نے کس طرح عمر کے زمانے میں عتبہ نامی سردار کے ہاتھوں واقع ہوئی ایک روداد کو تحریف کرکے اسے ابوبکر کے زمانے سے مربوط کرکے خالد بن ولید کے ہاتھوں رونما ہوتے دیکھا یاہے ، اختلاف صرف سال اور تاریخ ثبت کرنے میں نہیں تھا کہ صرف ۱۴ ھ ئکو ۱۲ ھء کہا ہوگا تا کہ اس کی تحریف کیلئے کوئی توجیہ تلاش کرتے !
اس کے علاوہ سیف نے اس روداد کو لکھتے ہوئے ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خالد اور اس کے سپاہی ایک ایسی جگہ پر اترے جہاں پر پانی موجود نہ تھا اور خداوند عالم نے ان کے محاذ کے پیچھے ایسا پانی برسایا جس سے وہاں پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خدا نے مسلمانوں کو طاقت بخشی سیف اس طرح چاہتا تھا کہ جو برتری اور فضیلت خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عنایت کی تھی اسے خالد اور اس کے لشکر کیلئے ثابت کرے جہاں پر خداوند عالم فرماتا ہے :
<و یُنَّزِلُ عَلَیْکُمْ مِنَّ السَّماءِ مَاءً لِیُطَهِّرَکُمْ بِهِ وَ یُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوبِکُمْ وَیُثَّبِتَ بِهِ الاَقْدَامَ
>
اور آسمان سے پانی نازل کررہا تھاتاکہ تمہیں پاکیزہ بنا دے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو مطمئن بنادے اورتمہارے قدموں کو ثبات عطاکردے ۔ (سورہ انفال / ۱۱)
اس طرح سیف نے ایک اور مطلب کا اضافہ کیا ہے کہ خالد نے دشمن فوج سے غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے ایک ہاتھی کو جنگی غنائم کے ساتھ مدینہ بھیجا تا کہ مدینہ کے لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھما یا گیا اور مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر کہتی تھی : کیا یہ خدا کی مخلوق ہے یا انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز ہے ؟ کیا حقیقت میں ہاتھی پوری اس جعلی داستان کے ہم آہنگ نظر آتا ہے ؟ جسے سیف بن عمر نے خلق کیا ہے ، لیکن افسوس، کہ مناسب طریقے پر اسے جعل نہیں کیا ہے میں نہیں جانتا کہ سیف یہ بات کیوں بھول گیا ہے کہ حجاز کے عربوں نے سپاہ ابرھہ کی روداد میں ہاتھی کو دیکھا تھا کاروانوں نے اس خبر کو ہر بیابان تک پہنچا دیا تھا اور داستانیں لکھنے والوں نے اپنے افسانوں میں کافی حد تک اس کا ذکر کیا تھا مسلمان عورتوں نے قرآن مجید میں ان آیات کی کافی تلاوت بھی کی تھی
<اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیل اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَهُمْ فِی تَضْلِیلٍ
>
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کردیا ہے ۔ (سورہ فیل)
میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ سیف نے کس مقصد سے ان مسائل اور ایسے مطالب کا اس داستان میں اضافہ کیا ہے ؟ کیا وہ یہ چاہتا تھا کہ جو چیز خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے عطا کی تھی اسے خالد کیلئے ثابت کرے ؟ یا چاہتاتھا کہ خالد کے مرتبہ و مقام کو بلند کرکے اس کیلئے فتوحات اور کرامتیں بیان کرے تا کہ عراق کی سپہ سالاری سے اس کی معزولی اور سلب اعتماد کے بعد اسے عراق سے شام بھیج کر ایران کی فتوحات میں شرکت سے محروم کئے جانے کی بے چینی کی تلافی کرے یا ان باتوں کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے مد نظر تھی ؟
لیکن آپ کے چھٹے مطلب کے بارے میں کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ سیف نے اپنی روایتوں میں جس سلسلہ سندکا ذکر کیا ہے اس کی تحقیق اور چھان بین کی جائے ۔
جواب میں عرض ہے کہ : اگر سیف کی روایتوں کے بارے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیف نے جو نقل کیا ہے اس میں وہ منفرد ہے اور اس کے بعد ہمیں معلوم ہوجائے کہ سیف نے اس روایت کو روایوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے تو کیا ہم اس روایت کے گناہ کو اس شخص کی گردن پر ڈال سکتے ہیں جس سے سیف نے روایت نقل کی ہے ؟
مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ فرمائیں گے شاید ہم اس کتاب کی اگلی بحثوں میں آپ کے نظریہ سے استفادہ کریں
والسلام علیکم ور حمة اللہ و برکاتہ
کاظمین ، عراق
سید مرتضی عسکری
____________________