عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 15951
ڈاؤنلوڈ: 2914


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15951 / ڈاؤنلوڈ: 2914
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

کے اصحاب اور حوادث کے سورماؤں کے ناموں میں تبدیلی کی اور بہت سی روایتوں اور حوادث میں تحریف کرکے ان کے رونما ہونے کی تاریخ کو الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف سے مفصل روایتیں اور داستانیں جعل کرکے تاریخ اسلام میں شامل کی ہیں اور توہمات پر مشتمل افسانے جعل کرکے مسلمانوں کے اعتقادات کو خرافات اور بیہودگیوں سے بھر دیا ہے۔

سیف نے اس فاسد اور مخرب مقصد تک پہنچنے کیلئے ہر قسم کے جھوٹ ،افواہ بازی اور تحریف سے فروگذاشت نہیں کیا ہے لیکن ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس نے زبردست کوشش کی ہے کہ جھوٹی جنگوں اور فتوحات کو نقل کرکے اسلام کو سنگ دل اور اسلام کے سپاہیوں کو خونخوار اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کراے اور اس طرح ظاہر کرے کہ اسلامی جنگیں قتل و غارت لوٹ کھسوٹ ، ظلم و جور زبردستی اور بربریت پر مبنی تھیں اسی لئے کچھ لوگوں نے یہ تصور کیا ہے کہ اسلام تلوار اور خونریزی کے نتیجہ میں پھیلا ہے اور اس دین نے دنیا میں اس وجہ سے ایک جگہ بنائی ہے ۔

سیف کی جھوٹی داستانوں کی وجہ سے ہے کہ کہتے ہیں ” اسلام زور و زبردستی اور تلوار کا دین ہے“

یہ تھا میرے مطالعات کو جاری رکھنے کے نتائج اور ثمرات کا خلاصہ ، چونکہ بعد والے مطالعات میں عمیق تر نتائج تک پہنچا ہوں اور ان نکات کی طرف متوجہ ہوا ہوں ، اس لئے کتا ب” عبدا للہ بن سبا“ کے تیسرے ایڈیش میں --- جو بیروت میں انجام پایا ---اس کی طرف اشارہ کیا ہے اسی طرح دوسری بحثوں کے ضمن میں جو کتاب ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے نام سے منتشر ہوئی ہے اس میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرچکا ہوں بعد میں سیف کے بارے میں حاصل کئے گئے ان ہی مباحث اور تاریخی نکات کو ، جو تاریخ اسلام کے سیاہ زاویوں کو واضح اور روشن کرتے تھے ،ایک جگہ جمع کرکے موجودہ کتاب کی صورت میں آمادہ کیا اور اسے کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی دوسری جلد قرار دیا، اس کے اختتام پر ” عبدا للہ بن سبا “ ، ” سبیئہ “ اور ” ابن السوداء “ کے بارے میں مفصل اور دقیق بحث ہوئی ہے کیونکہ یہ موضوع بھی ان مطالب میں سے ہے کہ سیف نے ان میں بہت زیادہ اور واضح تحریفات اور تغیرات انجام دی ہیں اور مؤرخین نے بھی سیف کی ان ہی کذب بیانیوں اور جعلیات کو نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور تاریخ کی کتابوں سے بھی یکے بعد دیگرے نقل ہوتے ہوئے یہ جعلیات تاریخ اسلام میں بنیادی اصول کی صورت میں پیش ہوئے ہیں ان نقل و انتقال اور فعل و انفعال کے ضمن میں دوسری تبدیلیاں بھی وجود میں آئی ہیں اوران پر کچھ اور مطالب کا اضافہ کیا گیا ہے اس کے بعد ” ملل ونحل “ کے علماء عقیدہ شناسوں اور دوسرے مؤلفین نے جو کچھ سالہا سال تک ان افسانوی سورماؤں کے بارے میں لوگوں کی زبانوں پر جاری تھا ، اسے نقل کرکے کسی تحقیق اورچھان بین کے بغیر اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور اس طرح یہ تحولات اور تبدیلیاں اور ان کی پیدائش کے طریقے اور ان روایتوں اور داستانوں کے حقائق محققین سے بھی پوشیدہ ہیں ۔

اس جانچ پڑتال کا مقصد

ان مباحث کے سلسلہ کو شروع کرنے میں ہمارا مقصد ان لوگوں کیلئے تحقیق کی راہ کھولنا ہے جو تاریخ اسلام کے بارے میں بحث و تحقیق کرکے تاریخی حقائق تک پہنچناچاہتے ہیں ۔

ہمارا مقصد ان تاریکیوں اور رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو احادیث جعل کرنے اور دروغ سازی کی وجہ سے تحقیق اور اسلام کے حقائق تک پہچنے کی راہ میں پیدا کی گئی ہیں تا کہ شاید ہمارا یہ اقدام اسلامی دانشوروں اور محققین کو اس قسم کے مباحث کی ضرورت کی طرف متوجہ کرکے اور انھیں سیرت اور تاریخ اسلام میں بحث وتحقیق کرنے کی ترغیب دے اور وہ اپنی عمیق تحقیقات کے نتیجہ میں حقائق اسلام کو پہچاننے کیلئے دقیق معیار اور تازہ قوانین پیدا کرسکیں اور انھیں عام لوگوں کے اختیار میں دیدیں اور اس کام میں مشعل راہ کی حیثیت اختیار کریں ۔

یہ ہمارا ان مباحث کے سلسلہ اور حدیث اور تاریخ کی تحقیق کا مقصد ہے ۔

خداوند عالم ہمارے مقصد سے باخبر اور ہمارے دلوں کے راز سے آگاہ ہے

یہ کتاب

جو کچھ ان مباحث کے سلسلے میں اور تاریخ اسلام کے دروس کے بارے میں کتاب ” عبد اللہ بن سبا “ کی اس جلد میں درج کیا گیا ہے وہ درج ذیل حصوں میں خلاصہ ہوتا ہے :

۱ ۔ سیف بن عمر کے جھوٹے افسانوں پر مشتمل حصہ ، جس میں اس نے اسلام کو تلوار اور خون کا دین دکھایا ہے ۔

۲ ۔ توہمات پر مشتمل افسانوں کا حصہ ، جس میں سیف نے اسلام کو ایک خرافی مذہب کے طور پر اور مسلمانوں کو توہمات پر اعتقاد رکھنے والوں کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے ۔

۳ ۔ تبدیلیوں اور تغیرات کا حصہ ، جس میں سیف نے اسلام کے تاریخی واقعات کو پہچاننے میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے ان میں الٹ پلٹ کی ہے ۔

۴ ۔ ”عبد اللہ بن سبا“ کے بارے میں سیف کی جھوٹی روایتوں کا حصہ ،کہ اس نے اہل بیتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرفدار قبیلہ قحطان کی مذمت اورملامت کیلئے روایتیں جعل کی ہیں ۔

سیف کی روایتوں میں بحث کرنے کا محرک

اختلاق فی اختلاق

سیف کی تمام روایتں جھوٹ کا پولندہ ہیں ۔

مؤلف

اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں میں یہ افواہ پھیلی ہے کہ اسلام تلوار اورخونریزی سے دنیا میں پھیلا ہے ، یہاں تک اس مطلب کو ایک نعرہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور لوگوں کی زبان پر جاری کیا گیا ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک حربہ کی حیثیت سے استعمال کرتے اور کہتے ہیں : ” اسلام تلوار اور خون کا دین ہے “ جب ہم تاریخ کی کتابوں کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں ، سیرت اور احادیث کی تحقیق کرتے ہیں تو ہم سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں بھی ان بے بنیاد باتوں کے بارے میں کوئی دلیل و مآخذ نہیں پاتے ، کیونکہ یہ صرف سیف ہے جس نے اسلامی جنگوں اور غزوات میں بے حد خون خرابہ، قتل عام ،انسان کشی ، شہروں کی بربادی اور ویرانیاں نقل کی ہیں کہ ان کی مثال مغل اورتاتاریوں کی بربریت بھری اور وحشتناک جنگوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتی ، اور سیف کی یہی جھوٹی روایتیں اس غلط طرز تفکر کے لئے مآخذبن گئیں ۔

ہم نے ذیل میں پہلے اپنے دعویٰ کیلئے دو شاہد پیش کئے ہیں اس کے بعد سیف کی مذکورہ روایتوں کی بحث و تحقیق کی ہے:

۱ ۔ میں نے کتاب خانہ ” آثار بغداد “ میں تاریخ طبری کا ایک نسخہ دیکھا جو پہلے مسیحی پادری ”اب انسٹانس ماری کرملی “ کی ملکیت تھی اس نسخہ میں اسلامی فتوحات و جنگوں میں نقل شدہ قتل عام کی بڑی تعداد پر نشان لگے ہوئے تھے ، جب میں نے باریک بینی سے اس پر غور کیا تو یہ تمام موارد ایسی روایتوں میں ملے جنہیں سیف نے نقل کیا ہے ۔

۲ ۔ اسلام شناس مستشرق ” اجناس گلڈزیہر “ اپنی کتاب کے صفحہ ۴۲ پر لکھتا ہے :

” اپنے سامنے وسیع سرزمینوں کا مشاہد کررہا ہوں کہ عربی ممالک کے حدود سے و سیع تر ہیں ،یہ سب سرزمینیں تلوار کے ذریعہ مسلمانو ں کے ہاتھ میں آئی ہیں “

اس قسم کے فیصلے سیف کی روایتوں کے نتیجہ میں ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے باقی رہا ہے، لیکن ہم سیف کے علاو دوسروں سے نقل شدہ روایتوں میں اس کے برعکس پاتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے کسی پر تلوار نہیں کھینچی ہے جب تک کہ ان پر کسی نے پہلے تلوار نہ کھینچی ہو ،یا انہوں نے ان حکام و فرمانرواؤں پر تلوار اٹھائی ہے جو تلوار اور خونریزی کے ذریعہ لوگوں پر مسلط ہوئے تھے اور اکثر اوقات خود لوگوں نے ایسے ظالم اور خود سر حکمرانوں کے تختہ الٹنے میں مسلمانوں کا تعاون کیا ہے ۔ چنانچہ :

یرموک کی جنگ میں مسلمان شام میں رومیوں سے لڑنے میں مصروف تھے کہ حمص کے باشندوں نے مسلمانوں کی مدد کی اس کی روداد ” فتوح البلدان “ میں درج ہے ۔

چھٹا حصہ :

* -آئندہ مباحث کا پس منظر

* -جنگ ابرق کی روایتیں

* - ذی القصہ کی داستان

* -قبیلہ طی کے ارتداد کی داستان

* -ام زمل کے ارتداد کی داستان

* -عمان اور مہرہ کے باشندوں کے ارتداد کی داستان

* -اہل یمن اور اخابث کا ارتداد

* -سلاسل کی جنگ

* -حیرہ میں خالد کی فتوحات

* -فتح حیرہ کے بعد والے حوادث

* -سیف کی روایتوں کا دوسروں کی روایتوں سے موازنہ

* - گزشتہ مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ

* -اس حصہ سے مربوط مطالب کے مآخذ

آئندہ مباحث کا پس منظر

جب ہم سیف کی روایتوں کی تحقیق کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس نے تاریخ اسلام میں بڑی تعداد میں مرتد ین کی جنگیں ، کشور کشائیاں اور فتوحات نقل کی ہیں ، اور ان روایتوں میں ایسا منعکس کیا ہے کہ مسلمانوں نے ان جنگوں اور فتوحات میں اپنے مخالفین کا قتل عام کرکے بہت سے افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ان کے گھروں کو مسمار کرکے تباہ و برباد رکر دیا ہے اور ان کے باغات اور کھیتوں کو بنجر زمینوں میں تبدیل کرکے ویران کردیا ہے ۔

جبکہ حقیقت میں اس قسم کی جنگیں اسلام میں واقع ہی نہیں ہوئی ہیں اور ایسے حوادث وجود ہی میں نہیں آئے ہیں اسلام کی صحیح تاریخ ان تمام چیزوں کو مسترد کرتی ہے سیف نے جو کچھ ان جنگوں اور فتوحات کے بارے میں نقل کیا ہے ،سپاہیوں کیلئے جن سپہ سالاروں کو خلق کیا ہے اور جنگی اشعار و رجزخوانیاں ، مقتولین ، خرابیوں اور ویرانیوں کے بارے میں جو باتیں کہیں ہیں وہ سب کی سب بے بنیاد اور جعلی ہیں اور صرف سیف کے خیالات کا نتیجہ ہے جن وحشتناک داستانوں کو سیف نے مرتدین کی جنگوں یا فتوحات اسلام کے نام سے نقل کیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی واقع نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی کوئی حقیقت ہے ۔

اب ہم خدا کی مدد سے ان جنگوں اور فتوحات کے چند نمونوں کا یہاں پر ذکر کرکے ان میں سے ہر ایک پر جداگانہ فصل میں مستقل طور سے بحث و تحقیق کریں گے تا کہ شائد اس طرح سے محققین کیلئے حقیقتیں واضح اور منکشف ہوجائیں اور تاریخ اسلام کو پہچاننے اور اس کے تجزیہ و تحلیل کے جدید قوانین بھی حاصل ہوجائیں گے ضمناً مذکورہ اعتراضات کی بنیاد اور ان کے جواب بھی واضح ہوجائیں گے ۔

جنگ ابرق کی روایتیں

هکذا انتشرت روایات سیف فی المصادر

سیف کی جھوٹی روایتیں اس طرح تاریخ کی کتابوں میں آگئی ہیں ۔

مؤلف

دروغ بافی کی زمینہ سازی

سیف نے” اسلام کو خون و شمشیر کا دین دکھانے کیلئے “ اور اپنے دوسرے فاسد مقاصد کی وجہ سے جن روایتوں کو جعل کیا ہے وہ دو قسم کی ہیں ، ان میں سے بعض مرتدین کی جنگوں کے عنوان سے ہیں اور بعض فتوحات اسلامی کے نام سے ہیں ۔

چونکہ سیف مرتدین کی جنگوں کے بارے میں بعض روایتیں جعل کرنا چاہتا تھا اور عجیب و غریب اور وحشتناک رودادوں کو اس سلسلے میں نقل کرنا چاہتا تھا ، اسلئے اس کیلئے پہلے سے ہی چند چھوٹی روایتوں کوجعل کرکے راہ ہموار کرتا ہے ، طبری نے ان روایتوں کو اپنی تاریخ میں مرتدین سے مربوط روایتوں کے آغاز میں نقل کیاہے ۔

سیف ان روایتوں میں یوں کہتا ہے :

” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت اور جنگ موتہ کے لئے اسامہ کے لشکر کے روم کی طرف روانہ ہونے کے بعد ، حجاز میں کفر و الحاد کا رجحان پیدا ہوا ، فتنہ و بغاوت کے شعلوں نے حجاز کو ہر طرف سے اپنی لپٹ میں لے لیا ۔ مدینہ کے اطراف میں قبیلہ قریش اور ثقیف کے علاوہ موجود ہ تمام قبائل اور خاندان کے عام و خاص سب کے سب مرتد ہوگئے اور دین اسلام سے منحرف ہوگئے “

اس کے بعد سیف نے قبیلہ غطفان کے مرتدین ، قبیلہ ہوازن کے زکات ادا کرنے سے انکار اور قبیلہ طی اور ” اسد “ کے عام افراد کا ” طلیحہ “ کے گرد جمع ہونے اور اس طرح قبیلہ ” سلیم “ کے سرداروں کے مرتد ہونے کا ذکر کیا ہے اس کے بعد کہتا ہے: اسی طرح اسلامی مملکت کے مختلف علاقوں میں تمام مسلمان گروہ گروہ کفر کی طرف مائل ہوگئے اور اسلامی حکومت کے گورنروں اور فرمانرواؤں کی طرف سے مدینہ میں خطوط پہنچے اور ا ن میں بھی قبیلہ کے سردار وں یا قبائل کے تمام افراد کی طرف سے پیمان شکنی دیکھی گئی ۔

سیف قبائل اور ان کے سر داروں کی طرف سے ارتداد اور اسلام سے رواگردانی کو نقل کرنے کے بعد دوسری روایوں میں ا بوبکر کے ان مرتدافراد سے جنگ کرنے کا ذکر کرتا ہے بقول سیف یہ جنگ اسامہ کے واپس آنے سے پہلے واقع ہوئی ہے(۱) اب ہم اس جنگ کے چند نمونوں پر اس فصل میں بحث و تحقیق کرتے ہیں

طی قحطان کا ایک قبیلہ ہے اور حاتم طائی مشہور اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے بیٹے عدی

____________________

۱۔ ہم نے اس کتاب کی جلد اول می ں جنگ اسامہ جو شام کے اطراف می ں واقع ہوئی ہے کو نقل کیا ہے کہ ثقیف اور غطفان اورہوازن قبیلے ہی ں کہ ان کا نسب قیس بن عدی تک پہنچتا ہے ” اسد “ عرب می ں چند قبیلو ں کا نام ہے اور سیف کا مقصد یہا ں پر اسد بن خزیمہ ہے جو کہ قبیلہ مضر سے تھا اور طلیحہ کہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھاوہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا

کا نام بھی مرتدوں کی جنگوں میں آیا ہے ۔

” بنو سلیم “ عربوں کے کئی قبیلوں کا کہا جاتا ہے کہ ” بنو سلیم بن فہم “ ان میں سے ایک ہے اور وہ قحطان کا ایک طائفہ ہے ان ہی میں سے ”بنو سلیم بن حلوان “ ہے کہ جو قبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتا ہے ان قبائل کی تشریح کے بارے میں ا بن حزم کی ” جمہرة انساب العرب ، اور ابن اثیر کی ” لباب “ کی طرف رجوع کیاجائے ۔

جنگِ ابرق کی داستان

طبری کی سیف سے اور سہل بن یوسف سے نقل کی گئی روایتوں میں یوں آیا ہے کہ ” ثعلبہ بن سعد“ کے مختلف قبائل اور دوسرے قبائل جوان کے ہم پیمان تھے ، جیسے ” مرة “ اور ” عبس“ ، سرزمین ” ربذہ “ میں ” ابرق“ نامی ایک جگہ پر جمع ہوئے ا ور بنی کنانہ کا ایک گروہ بھی ان سے ملحق ہوا ،اس طرح ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اس سرزمین میں ان کیلئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی ، اس لئے وہ دو گروہوں میں تقسیم ہوئے ایک گروہ اس سرزمین ” ابرق“ میں رہا اور دوسرا گروہ ” ذی القصہ “ نامی دوسری جگہ کی طرف روانہ ہوا ” طلیحہ اسدی “ جس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اس نے اپنے بھائی ” حبال“ کی قیادت میں ان کیلئے مدد اور فوج بھیجی ”حبال “کی سپاہ میں قبائل ” دئل “ ، ” لیث“ اور ”’مدلج“ بھی شامل تھے ”فلان بن سناں “ کا بیٹا ” عوف“ بھی ابرق میں قبیلہ ” مرہ “ کیقیادت کررہا تھا ، قبیلہ ” ثعلبہ “ اور ”عبس“ کی قیادت” بنی سبیع“ قبیلہ کے حارث بن فلان “ کے ذمہ تھی ۔

اس طرح ان کی تعداد حد سے زیادہ بڑھ گئی اس کے بعدا ن قبیلوں نے بعض افراد کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے مدینہ بھیجا ، نمائندوں نے مدینہ کی طرف روانہ ہوکر مدینہ میں معروف شخصیتوں سے ملاقات کی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس کے علاوہ اپنے میزبانوں کو مجبور کیا تا کہ ابوبکر کے پاس جاکر بیچ بچاؤ کریں کہ یہ افراد اور قبائل نماز پڑھیں گے لیکن زکوٰت ادا کرنے سے مستثنی قرار پائیں گے، ابوبکر نے ان کے جواب میں کہا: خدا کی قسم اگر یہ قبائل زکوٰة ادا کرنے میں ایک اونٹ کے بندِ پا کے برابر بھی انکار کریں تو ،میں ان سے جنگ کروں گا ۔

سیف نے ایک دوسری روایت میں (جسے طبری نے مذکورہ روایتوں سے پہلے نقل کیا ہے) قبیلہ ” عیینہ “ اور ” غطفان“ کے ارتداد اور قبیلہ ” طی“ سے مرتد شدہ لوگوں کی داستان ذکر کرتے ہوئے کہا ہے : قبیلہ ” اسد“ ، ”غطفان“ ، ”ھوازن“ اور ” قضاعہ“ کے نمائندے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے دس دن بعد مدینہ میں جمع ہوئے اور ابوبکر سے درخواست کی کہ وہ نماز تو پڑھیں گے لیکن زکات ان سے معاف کی جائے ، انہوں نے اپنی تجویز کو مسلمانوں کی بزرگ شخصیتوں کی ذریعہ ابوبکر تک پہنچا دی ، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس کے علاوہ تمام بزرگوں نے ان کی اس تجویز کی تائید کرکے ابوبکر کے پاس جاکر ان قبائل کی تجویز ان تک پہنچادی ۔ ابوبکر نے ان کی تجویز کو منظور کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس میں اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ زکوٰت کو اسی صورت میں ادا کریں جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں اداکرتے تھے ۔ قبائل کے نمائندوں نے ابوبکر کا حکم ماننے سے انکار کیا اور ابوبکر نے بھی انھیں ایک دن اور ایک رات کی مہلت دی تو ان نمائندوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبائل کی طرف لوٹ آئے۔

مرتد گروہوں کے نمائندے جب مدینہ سے واپس آئے تو انہوں نے مسلمانوں کی کمزوری اور ان کی کمی کے بارے میں اپنے قبائل کے افرادکو مطلع کیا اورانھیں مسلمانوں سے جنگ کرنے پر اکسایا ،اور انھیں اسلامی مرکز پر حملہ کرنے پرآمادہ کیا ۔

جب ابوبکر کو روداد کی خبر ملی ، علی ، طلحہ ، زبیر اور ابن مسعود کو مدینہ کی گزرگاہوں کی ماموریت دیدی تا کہ باغیوں کے اچانک حملہ کو روکیں اور مدینہ کے لوگوں کو بھی حکم دیا کہ نماز جماعت کے وقت سب ،مسجد النبی میں جمع ہوجائیں اور ان سے کہا:

مدینہ کے لوگو! آپ کے شہر کے اطراف میں موجود قبائل کفر و ارتداد کی طرف چلے گئے ہیں ان کے نمائندوں نے تمہاری کمزوری اور تعداد کی کمی کا نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے ، انہوں نے جرات پیدا کی ہے اور تمہاری طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور ایک دن پیدل چلنے کے بعد تمہارے نزدیک پہنچ جائیں گے معلوم نہیں ہے کہ وہ دن میں شہر پر حملہ کریں گے یا رات میں ۔ لہذا تم لوگوں کو بھی جنگ کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔

اس واقعہ کو ابھی تین دن نہ گزرے تھے کہ مرتدین کے ایک بڑے لشکر نے رات میں مدینہ پر دھاوا بول دیا انہوں نے ذخیرہ فوج کے عنوان سے ایک گروہ کو سرزمین ” ذی حسی “‘ میں لشکر کی پشت پناہی کیلئے رکھا اور ایک گروہ نے مدینہ پر حملہ کیا ،جب یہ حملہ آور مدینہ کی گزرگاہوں کے نزدیک پہنچے تو ابوبکر کے مقرر کردہ جنگجوؤں سے روبرو ہوئے اور انھیں مدینہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ۔ موضوع کو ابوبکر تک پہنچایا گیا ۔

اس نے گزرگاہ کے محافظوں کو حکم دیا کہ اپنی ماموریت کی جگہ پر ڈٹ کر مقابلہ کریں اور امدادی فوج کے پہنچے تک استقامت دکھائیں ، اس کے بعد ابوبکر نے مسجد میں موجود ان ہی افراد کے ہمراہ آب کش(۱) اونٹوں پر سوار ہوکر دشمن کی طرف دوڑ پڑے اور ان کا ” ذی حسی“ تک تعاقب کیا، لیکن ”ذی حسی‘ ‘ کی جگہ پر پہنچنے کے بعد وہاں پر موجود دشمن کی امدادی فوج نے اپنے شکست خوردہ سپاہیوں کی مدد کی ، انہوں نے اپنی خاص مشکوں کو جن کی رسیاں ان کے اندر ڈال دی گئی تھیں اور اس سے ایک مہیب اور ہولناک آواز پیدا ہوگئی تھی مسلمانوں کے اونٹوں پر پھینک دیا ، اونٹ خوف سے رم کرکے بھاگ کھڑے ہوگئے ،مسلمان جو اونٹوں پر سوار تھے ، انھیں کنٹرول نہ کرسکے اس لئے بے اختیار انہیں اونٹوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے مدینہ لوٹے البتہ انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا ۔

سیف کہتا ہے : ” خطیل بن اوس “ نے بھی اس حادثہ کے بارے میں اس مضمون کے چند اشعار کہے ہیں :

” میرا ا ونٹ اور سفر کا بوجھ بنی ذیبان پر اس شب کی یاد میں قربان ہو جائے جب ابوبکر نے دشمن کے افراد کو نیزوں سے پیچھے ڈھکیل دیا تھا(۲)

____________________

۱۔ سیف کہنا چاہتا ہے کہ چونکہ مسلمانو ں کے پاس سواری کے اونٹ اور گھوڑے نہ تھے لہذا آب کش اونٹو ں پر سوار ہوکر مرتدو ں سے جنگ کرنے کیلئے گئے ۔

۲ فدی لبنی ذبیان رحلی وناقتی

عشیة یحدی بالرماح ابو بکر

سیف کہتا ہے : یہ حادثہ اس امر کا سبب بنا کہ دشمنوں نے مسلمانوں میں کمزور اور سستی کا بیشتر اندازہ کیا اور اس حادثہ کی خبر ان فوجیوں کو دیدی جو ”ذی القصہ “ میں موجود تھے ، اور وہ بھی مسلمانوں سے لڑنے کیلئے ” ذی القصہ “ سے ” ابرق“ کی طرف روانہ ہوئے ، لیکن ابوبکر نے اس رات آرام نہیں کیا یہاں تک کہ ایک لیس لشکر کو تشکیل دیدیا ، ” نعمان بن مقرن “ کو اس لشکر کے میمنہ پر اور ” عبد اللہ بن مقرن “ کو اس کے میسرہ پر مقرر کیا ”سوید بن مقرن “ کو جس کے ساتھ اونٹ سوار بھی تھے ، لشکر کے قلب میں قرار دیا اور اس طرح اپنے لشکر کو مکمل طور پر آمادہ اور لیس کیا ، پو پھٹنے سے پہلے ہی ابوبکر کا لشکر دشمن کی فوج کے مد مقابل قرار پایا ، اس سے پہلے کہ مرتدوں کی فوج مسلمان لشکر کے آنے کے بارے میں خبردار ہوجائے مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا آغاز ہوا ۔ سورج چڑھتے ہی دشمن کی فوج شکست و ہزیمت سے دوچار ہوئی اور مسلمان مدینہ کے اطراف میں موجود ان قبائل پر جو دین سے منحرف ہو گئے تھے کامیاب ہوئے ” طلیحہ “ کا بھائی حبال بھی اس جنگ میں قتل کیا گیا۔

ابوبکر کے لشکر نے ان کا ” ذی القصہ “ تک تعاقب کیا اور یہ سب سے پہلی فتح تھی جو ابوبکر کو نصیب ہوئی ۔

ابوبکر نے اس فتحیابی کے بعد ” نعمان بن مقرن “ کو سپاہیوں کے گروہ کی سرکردگی میں ” ذی القصہ “ میں ماموریت دی اور خود اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مدینہ لوٹ آئے ، اس فتحیابی کا نتیجہ تھا کہ مشرکین مسلمانوں سے مرعوب ہوئے ۔

ابوبکر کے واپس چلے جانے کے بعد قبیلہ ” بنی عبس“ا ور ” ذبیان “ کے بعض افراد نے اپنے درمیان موجود مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی اور ان سب کو قتل کر ڈالا اور باقی قبائل نے بھی ان کی اس روش کی پیروی کی اور ان کے درمیان موجود مسلمانوں کے سر قلم کئے ۔

جب اس حادثہ کی خبر ابوبکر کو ملی ، تو انھوں نے غضبناک ہوکر قسم کھائی کہ تمام مشرکوں کے سر قلم کرکے رکھدیں اور ہر قبیلہ کے توسط سے جتنے مسلمان قتل کئے گئے تھے ان سے زیادہ لوگوں کو قتل کر ڈالیں ،اس سلسلہ میں زیاد بن حنظلہ نے چند اشعار کہے ہیں جن کا مضمون حسب ذیل ہے :

” صبح سویرے ابوبکر بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھے ، گویا کہ ایک موٹا اونٹ اپنے دشمن پر حملہ آور تھا ، علی کو سواروں کا سردار قرار دیا ، یہاں پر طلیحہ کا بھائی حبال قتل کیا گیا“

سیف کی روایتوں میں اس سلسلہ میں حنظلہ سے بھی چند اشعار نقل ہوئے ہیں :

” ابوبکر نے اپنے قول اور فیصلہ کے مطابق قدم بڑھایا ، اور یہی آہنی ارادہ مسلمانوں کی استقامت اور ثبات کا سبب بنا ،اس عمل نے مشرکین کے درمیان شدیدرد عمل پیدا کیا، اور ان کے دل میں ایک زبردست وحشت پیدا کردی ۔

سیف مرتدین کی جنگ کو اس طرح نقل کرتا ہے یہا ں تک کہ مسلمانوں کے بعض افراد جو مدینہ کی گزرگاہوں اور اطفال کی حفاظت پر مامورتھے ” ذی القصر“ پہنچ گئے اور ابوبکر سے کہا: اے خلیفہ رسول ! خدا کے واسطے اپنے آپ کو دشمن کے مقابلے میں قرار دیکر خود کو ہلاکت کی نذر نہ کریں ،کیونکہ آپ کا وجود مسلمانوں کیلئے انتہائی اہم اورضروری ہے اور دشمنوں پر بھاری اور مؤثرہے اور اگر آپ ہلاک ہوگئے تو مسلمانوں کا نظم درہم برہم ہوجائے گا اور یہ سماجی شیرازہ بکھر جائے گا اور دشمن ہم پر مسلط ہوجائے گا لہذاپنی جگہ پر کسی اور کو معین کردیں تا کہ اگر وہ مارا گیا تو اس کی جگہ پر دوسرے کو معین کیا جاسکے ۔

ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم میں یہ کام ہرگز نہیں کروں گا بلکہ اپنی جان کی قربانی دے کر تم مسلمانوں کی مدد و یاری کروں گا ۔

یہ کہہ کر اپنے لشکر کے ہمراہ ” ذی حسی “ اور ’ ’ ذی القصہ “ کی طرف روانہ ہوگئے اور ” ابرق “ کے مقام پر ’ ’ربذہ “کے لوگوں سے روبرو ہوئے اور ان کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی ، اس جنگ میں ابوبکر نے ” حارث “ اور ” عوف“ پر فتح پائی ،اور ” حطیہ “ کو گرفتار کرلیا، قبیلہ ”بنو عبسی “اور ”بنو بکر “ بھاگ گئے، ابوبکر نے چند دن سرزمین ” ابرق “ پر قیام کیا اور ان چند دنوں کے دوران بھی ” بنی ذبیان “ سے جنگ کی اور انھیں شکست دی اور ان کے شہروں اور آبادیوں کو اپنے تصرف میں لے لیا اور انھیں وہاں سے نکال کرباہر کیا اور کہا:

اس کے بعد کہ خداوند عالم نے ہمیں ان شہروں کو عطا کیا ہے ” بنی ذبیان “ کا شہروں پر تصرف حرام اور ممنوع ہے اس کے بعد ابرق کے بیابانوں کو مسلمانوں کے جنگی گھوڑوں کیلئے مخصوص کیا اور دوسرے تمام حیوانوں کیلئے ربذہ کے دوسرے حصوں کو چرا گاہ کے عنوان سے اعلان کیا۔

یہ تھا افسانوی اور جھوٹی جنگ ابرق کا خلاصہ جو سیف کے بقول سرزمین ” ربذہ“ میں ” ابرق “ نامی جگہ پر واقع ہوئی ہے اسی لئے اس کو جنگ ” ابرق“ کہتے ہیں اس کے کہنے کے مطابق زیاد بن حنظلہ نے بھی اس جنگ کی داستان کو شعر کی صورت میں پیش کیا ہے اور اس میں اس جنگ کا نام ” ابرق “ رکھا ہے وہاں پر کہتا ہے :

جس دن ہم نے ابارق میں شرکت کی ۔

جنگ ابرق کے افسانہ کی پیدائش اور اس کا تاریخی کتابوں میں درج ہونا

یہاں تک ہم نے جنگِ ابرق اور اس سے مربوط حوادث کی داستان کے بارے میں ایک خلاصہ پیش کیا جسے طبری نے سیف سے نقل کیا ہے جبکہ ان حوادث اور روداد وں میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ہے بلکہ یہ سب سرا پا جھوٹ اور بے بنیاد ہیں ۔

مثلاً سیف کہتا ہے ” حبال، جنگ ” ابرق“ میں قتل ہوا جبکہ وہ ”جنگ ِ بزاخہ “ میں خالد کی طرف سے پیش قدم کے طور پر بھیجے جانے کی صورت میں ” عکاشہ “ اور ” ثابت “ کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس روداد کی تفصیل آپ مرتدین کی داستان میں جو سیف کے علاوہ دوسرے راویوں نے نقل کی گئی ہے مطالعہ کریں گے کہ یہ بے بنیاد داستان جنگ ” ابرق ربذہ “ کے نام سے گزشتہ بارہ صدیوں کے دوران تاریخ کی کتابوں میں منتشر اور نقل ہوتی چلی آرہی ہے ۔

سیف نے اس داستان کو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں جعل کیا ہے اور طبری نے بھی اپنی تاریخ میں اسے نقل کیا ہے اور بعد والے مؤرخین جیسے : ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں ثبت کیا ہے ۔

اس طرح یاقوت حموی نے ” ابرق ربذہ “ کی تشریح کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب ”معجم البلدان “ میں درج کیا ہے اور ” مراصدا الاطلاع “ کے مؤلف نے اسے حموی سے نقل کیا ہے اس طرح ابرق ربذہ کی داستان ابتدائی متون اور تاریخ کی نام نہاد معتبر کتابوں میں درج ہوئی ہے اور آج تک مسلمانوں میں نقل اور منتشر ہوتی چلی آ رہی ہے اور اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا جارہا ہے ہم خدا کی مدد اور فضل سے آنے والی فصل میں ” ذی القصہ “ کی داستان کے ذیل میں ا س داستان کی تحلیل نیز تحقیق کریں گے اور اس کے جعلی اور بے بنیاد ہونے کو واضح کردیں گے ۔

ذی القصہ کی داستان

کلما اوردناه خلاصة ما رواه الطبری

جن تمام جھوٹے افسانوں کا ہم یہاں ذکر کریں گے وہ تاریخ طبری میں سیف کی روایتوں کا ایک خلاصہ ہے

مؤلف

ایک دوسری داستان جو گزشتہ داستان سے مربوط اور مرتدین کی داستان کا بقیہ ہے وہ ”ذی القصہ “ کی داستان ہے کہ طبری نے سیف سے اور اس نے سہل بن یوسف سے نقل کیا ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ سیف کہتا ہے :

اسامہ فتح پاکر شام سے واپس آیا(۱) اور زکوٰة کے عنوان سے کافی مال و ثروت مدینہ لے آیا ،یہ مال اتنا تھا کہ اس سے متعدد اور بڑے لشکروں کیلئے ساز و سامان اور دیگر ضروریات پورے کئے جاسکتے تھے، جب، ابوبکر نے یہ حالت دیکھی تو اس نے سرزمین ” ذی القصہ “ کی طرف کوچ کیا اور وہاں پر مسلمانوں کے بڑے اور کافی تعداد میں لشکر تشکیل دئے اور انھیں آراستہ کیا اور انھیں گیارہ لشکروں میں

____________________

۱۔ سیف کا مقصد اسامہ کا جنگ تبوک سے لوٹنا ہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیماری کے دوران اسے لشکر کا سردار مقرر فرمایا تھا ابوبکر ، عمر اور دوسرے مہاجرین کو اس لشکر کا جزء قرار دیا تھا اور اسامہ کی سرکردگی می ں تبوک روانہ کیا تھا لیکن انہو ں نے سستی اور لیت و لعل کیا یہا ں تک پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وفات پائی اور یہ لوگ سقیفہ می ں جمع ہوگئے اور ابوبکر کو خلیفہ مقرر کرلیا اس کے بعد اسامہ کو اس جنگ پر روانہ کیا۔