کی تعداد کو کم پا یا تو اس نے جرات پیدا کرکے چند جنگجو سواروں کے ہمراہ ان پر حملہ کیا مسلمانوں نے شکست کھا کر فرار کی اور ابوبکر نے بھی ایک درخت پر چڑھ کر پناہ لی اور اسکی شاخوں سے اوپر چڑھ گئے تا کہ دشمن کی نظروں سے اوجھل ہوجائے ۱ اس وقت طلحہ بن عبد اللہ ایک بلند جگہ پر کھڑا ہوا اور اس نے فریاد بلند کی : لوگو ! مسلمانو ! نہ ڈرو! فرار نہ کرو! ہمارا لشکر آپہنچا ہے ۔
شکست خوردہ مسلمان واپس آگئے اور خارجہ بھی وہاں سے چلا گیا اور اپنی راہ لے لی تب ابوبکر درخت سے نیچے اترے اور واپس مدینہ چلے آئے۔
بلاذری نے اس داستان کو اس طرح نقل کیا ہے کہ ابوبکر مسلمانوں کے ہمراہ باغیوں کی سرزمین ” ذو القصہ “ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پر مرتد قبائل کے خلاف ایک بڑا لشکر تشکیل دیکر اسے آراستہ کیا، اس وقت خارجہ اور منظور بن زبان (دونوں ہی بنی فزارہ سے تعلق رکھتے تھے،)نے ابوبکر کے لشکر پر حملہ کیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ میں مشرکوں نے شکست کھائی اور
بھاگ گئے طلحہ نے ان کا پیچھا کیا اور ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا اور یہاں تک کہتا ہے:
مامور تھا سے ملاقات کی اور تمام زکوٰة و صدقات جو اس کے پاس تھے واپس لے لیا اور اپنے رشتہ داروں کو دیدیا خارجہ وہی ہے جو بنی اسد سے خالد کی جنگ کے بعد ابوبکر کے پاس آیا اور ابوبکر نے اس سے کہا : تمہیں ان دو روایتوں میں سے ایک کا انتخاب کرناچاہئے : یا ” سلم مخربہ “ یعنی ذلت کے ساتھ تسلیم ہوجاؤ یا ” حرب مجلیہ “ یعنی نابود کرنے والی جنگ کو قبول کر اس کے بعد ابوبکر نے ان دو جملوں کی تشریح کی اس نے کہا: میں سلم کا انتخاب کرتا ہوں ،اصابہ، ج ۱ ص ۳۹۹ ، نمبر ۲۱۳۳)
۱ ۔ میری نظر میں یہ روایت ابن اسحاق اور دوسروں کی روایت سے صحیح تر ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ ( ۱/۱۷۰) ، انھیں سے نقل کرتا ہے ،”ابوبکر نے اپنے آپ کو ایک کچھار میں مخفی کیا “کیونکہ ان سرزمینوں میں کوئی کچھار اور جنگل موجود نہ تھا کہ ابوبکر خود کو اس میں مخفی کرتے۔
” اس کے بعد ابوبکر نے ” ذی القصہ “ میں ایک پرچم خالد کے ہاتھ میں دیا اور ثابت بن قیس کو بھی انصار کے گروہ کا کمانڈر مقرر کیا اس کے بعد اسے حکم دیا کہ ثابت کے ہمراہ ” طلیحہ “ کی طرف روانہ ہوجائے جو ان دنوں ” بزاخہ “ میں تھا “۔
موازنہ اور تحقیق
جب ہم جنگِ ابرق اور داستان ” ذی القصہ “ کے بارے میں سیف کی روایت کو دوسرے مؤرخین کی روایتوں سے مقابلہ کرکے ان کی تطبیق و موازنہ کرتے ہیں تو سیف کے افسانے آسانی کے ساتھ آشکار ہوجاتے ہیں ، کیونکہ دوسرے مؤرخین نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ ابوبکر جنگ و لشکر کشی کیلئے صرف ایک بار مدینہ سے باہر نکلے ہیں اور کہا ہے کہ اسامہ کو ” موتہ “ سے واپسی کے بعد ” ذی القصہ“ کی طرف روانہ کیاگیا ہے اور وہاں پر لشکر آمادہ کیا ہے اور اس لشکر کی کمانڈری خالد بن ولید کو سونپی اور انصار کے گروہ کی سرپرستی ” ثابت بن قیس “ کو سونپی ، اس کے بعد ان کو حکم دیا کہ ” طلیحہ “ اور اس کے گرد جمع ہوئے قبیلہ ” اسد “ و ” فزارہ “ کو کچلنے کیلئے ” بزاخہ “ کی طرف روانہ ہوجائیں ، لیکن بعض مؤرخین نے بنی فزارہ پر شبانہ حملہ کرنے نیز انکے ایک شخص کے قتل ہونے اور اس واقعہ کے ذی القصہ میں رونما ہونے کی خبر دی ہے ۔
یہ ہے حوادث ، لشکر کشی اور جنگوں کا مجموعہ جو مؤرخین کے نقل کے مطابق جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک مختصر زمانے میں واقع ہوئے ہیں ۔
لیکن چونکہ اس فصل اور گزشتہ فصل میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ سیف نے بہت سی روایتیں اور مفصل داستانیں نقل کی ہیں اور ابوبکر کیلئے متعدد جنگیں اور حملات نقل کئے ہیں کہ دوسرے مؤرخین کی روایتوں میں ان داستانوں اور جنگوں کا کوئی اثر معلوم نہیں ہے اور یہ سب سیف کی خصوصیات میں سے ہے ۔
سیف کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ کے اطراف میں مرتد قبائل کی طرف کئی بار روانہ ہوئے ہےں اور ان کے ساتھ جنگ کی ہے۔
یہاں پر ہم سیف کے خیالی اور افسانوی جنگوں کی مفصل اور مشروح داستانوں کا ایک خلاصہ پیش کرتے ہیں تا کہ سیف کی روایتوں کا دو سرے راویوں کی روایتوں سے تفاوت اور اختلاف واضح ہوجائے ۔
۱ ۔ سیف کہتا ہے : ابوبکر کی مرتدوں کے ساتھ سب سے پہلی جنگ اس طرح تھی کہ مدینہ کے اطراف میں رہنے والے اکثر قبائل نے مدینہ کی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا اورمرتد ہوگئے ، وہ اپنے دین و مذہب سے منحرف ہوئے اور ” ابرق ربذہ “ نامی ایک جگہ پر اجتماع کیا ۔
قبیلہ ” ثعلبہ بن سعد “ اور ” عبس “ ، ” حارث ‘ کی سرپرستی میں اور قبیلہ ” مرہ“ عوف کی سرپرستی میں اور قبیلہ ” کنانہ “کے ایک گروہ نے آپس میں اجتماع کیا اور ایک بڑا لشکر تشکیل دیا کہ شہروں میں ان کیلئے جگہ کی گنجائش نہیں تھی ، اس کے بعد سیف اپنے اس خیال اور افسانوی لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو” ابرق ربذہ “ میں رکھتا ہے اور دوسرے گروہ کو ” ذی القصہ “ کی طرف روانہ کرتا ہے اور طلیحہ نے بھی اپنے بھائی ” حبال “ کی سرپرستی میں ایک لشکر کو ان کی طرف بھیج دیا ہے ، اس کے بعد وہی باغی او رسرکش قبائل تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ نماز وتر پڑھیں گے لیکن انھیں زکوٰة دینے سے معاف قرار دیا جائے اور اس تجویزکو اپنے چند افراد کے ذریعہ مدینہ بھیجتے ہیں اور روداد کو ابوبکر کے سامنے پیش کرتے ہیں ابوبکر ان کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں قبائل کے نمایندے اپنے لشکر کی طرف --- جو ” ابرق“ میں موجود تھا --- روانہ ہوتے ہیں اور روداد کی رپورٹ اپنے کمانڈروں کو دیتے ہیں اور مسلمانوں کی کمزوری اور تعاون کی کمی سے انھیں آگاہ کرتے ہیں اور ابو بکر کی حکومت کے مرکز یعنی مدینہ پر حملہ کرنے کی ترغیب و تجویز پیش کرتے ہیں ابوبکر کو روداد کی اطلاع ملتی ہے تو دشمنسےمقابلہ کرنے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں ۔
سیف کہتا ہے : ابوبکر نے بزرگ اصحاب میں سے چار اشخاص کو چند جنگجوؤں کے ہمراہ مدینہ کی گزرگاہوں کی محافظت پر مامور کیا اس کے بعد تمام مسلمانوں ں کو مسجد میں جمع کیا ا ور روداد سے انھیں آگاہ کیا اور دشمن سے لڑنے کیلئے ایک لشکر کو آراستہ کیا اس واقعہ کے بعد تین دن گزرے تھے کہ مرتدوں کے لشکر نے ایک گروہ کو ذخیرہ کے طور پر ”ذی حسی “ میں رکھ کر باقی افراد کے ذریعہ مدینہ پر حملہ کیا ، لیکن مدینہ کے محافظین نے ان کا جواب دیا اورا نھیں پیچھے ڈھکیل دیا ، ابو بکر کو روداد کی خبر ملی اور اس نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا ، وہ اپنے آب کش اونٹوں پر سوار ہوئے اور خود ابوبکر کی کمانڈر ی میں دشمن کی طرف بڑھ گئے ۔
سیف کے کہنے کے مطابق ان دولشکروں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ جاتی ہے اور مسلمان فتحیاب ہوتے ہیں اور دشمن کو بڑی شکست دیتے ہیں اور انھیں ”ذی حسی “ تک پیچھے ڈھکیل دیتے ہیں مرتدوں کا ” ذی حسی “ میں ذخیرہ شدہ گروہ اچانک مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے وہ اپنی مشکوں کو ، جنہیں وہ پہلے ہی ہوا سے پر کرکے رسیاں ان کے اندر ڈال چکے تھے مسلمانوں کے اونٹوں کے سامنے ڈالتے ہیں اور یہ اونٹ رم کرکے اپنے مسلمان سواروں سمیت مدینہ پہنچتے ہیں ،مسلمانوں کی کمزوری کی خبر ذی حسی سے ذی القصہ تک پہنچ جاتی ہے مرتدوں کے قبائل ” ذبیان “ اور ” اسد“ جو ذی القصہ میں موجود تھے ذی حسی کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور ” ابرق “ کے مقام پر آمنا سامنا ہوتا ہے ۔
۲ ۔ سیف کہتا ہے : ابوبکر دوسری بار اپنی سپاہ کو آراستہ کرتے ہیں لشکر کے میمنہ اور میسرہ کیلئے کمانڈر مقرر کرتے ہیں اور قلب لشکر کیلئے بھی ایک کمانڈر مقرر کرتے ہیں اور روانہ ہونے کا حکم دیتے ہیں ، ابوبکر کے سپاہیوں نے راتوں رات روانہ ہوکر اچانک دشمن پر حملہ کیا اور انہیں بڑی شکست دی ان کے تمام حیوانوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا اس جنگ میں ” طلیحہ“ کا بھائی ”حبال “ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔ آخر کار ابوبکر نے دشمن کا پیچھا کیا یہاں تک ” ذی القصہ “ پہنچے وہاں پر اپنے کچھ فوجیوں کو ” نعمان بن مقرن “ کی کمانڈری میں رکھ کر خود مدینہ واپس آ گئے۔
۳ ۔ سیف تیسری بار ابوبکر کو مدینہ سے قبائل کی طرف روانہ کراتے ہوئے کہتا ہے :
قبیلہ ” عبس “ اور ”ذیبان “ نے اپنے درمیان موجود مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی اور ان سب کو قتل کر ڈالا ابوبکر نے ایک لشکر کو آراستہ کرکے مدینہ سے انکی طرف روانہ ہوئے یہاں تک ”ابرق“ پہنچے اور مذکورہ دو قبیلوں سے جنگ کی اور انھیں شکست دی اور بعض افراد کو اسیر بنایا ، ” ربذہ “ میں واقع ان کی سرزمینوں اور آبادیوں پر قبضہ جمایا اور جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تھی انھیں ان شہروں سے، شہر بدر کیا ” ابرق “ کے تمام بیابانوں کو سواری کے گھوڑوں کے لئے مخصوص کردیا اور سیف نے دوسرے بیابانوں کو مسلمانوں کے عام حیوانوں کیلئے آزاد رکھا ۔
سیف ان جنگوں اور فتوحات کو نقل کرنے کے بعد اپنی بات کو ثابت اور محکم کرنے کے لئے کہتا ہے کہ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے ” زیاد بن حنظلہ “ نامی ایک شاعراور اس زمانے کے دوسرے شعراء نے ان جنگوں کے بارے میں اشعار اور قصیدے لکھے ہیں اور ان جنگوں کی داستانوں کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے ۔
۴ ۔ سیف ابوبکر کیلئے ایک اور جنگ کی داستان نقل کرتا ہے اور اسے چوتھی بار ” ذی القصہ “ کی طرف حرکت دیتے ہوئے کہتا ہے ۔
ابوبکر مسلمانوں کے ایک گروہ کے ہمراہ ” ذی القصہ “ کی طرف روانہ ہوئے ، اور وہاں پر حجاز کے اطراف کے باغیوں اور جزیرة العرب کے سرکش قبائل کو کچلنے کیلئے ایک فوج تیارکی اور اس فوج کو گیارہ لشکروں میں تقسیم کیا اور ہر لشکر کیلئے ایک کمانڈر مقرر کیا اور اس کے ہاتھ میں ایک پرچم دیا اور ہر کمانڈر کے ہاتھ میں ایک خط او رمنشور کی ایک ایک کاپی دی ، اور ایک خط ہر مرتد قبیلہ کے نام بھی روانہ کیا ، جن کے خلاف اس نے فوج کشی کی تھی ، اور انھیں ہتھیار ڈالنے اور امن امان کی دعوت دی۔
تطبیق اور موازنہ کا نتیجہ
اس سلسلہ میں کی گئی مزید تحقیقات اور دقیق جانچ پڑتال کے بعد ہم وثوق کے ساتھ
کہہ سکتے ہیں :
جنگ ” ابرق “ اور داستان ” ذی القصہ “ کے بارے میں کہ جس میں اس قدر مفصل اور طولانی مطالب نقل کئے گئے ہیں ، وہ سب سیف کی خصوصیات ہیں اور کسی بھی دوسرے مؤرخ نے ان مطالب کو سیف کے علاوہ نقل نہیں کیا ہے اور یہ سب جھوٹ اور فرضی افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے نہ ان قبائل کے اکثر کے ا رتداد کے بارے میں (سیف نے ان پر ارتداد کی تہمت لگائی ہے) صحیح ہے اور نہ ان کا ” ابرق “ اور ”ذی القصہ “ میں اجتماع کرنا واقعیت رکھتاہے اور نہ مرتدین کی طرف سے ایک گروہ کو مدینہ بھیجنے میں کوئی سچائی اورحقیقت ہے اور نہ ابوبکر کی طرف سے چندا فراد کومدینہ کی گزرگاہوں کی حفاظت کیلئے معین کرناصحیح ہے نہ اس کی لشکر کشیاں اور نہ اونٹوں کے رم کرنے میں کوئی حقیقت ہے نہ چار جنگوں ---کہ سیف نے ابوبکر کیلئے نقل کیا ہے --- کی کوئی حقیقت ہے وہ تمام اشعار، قصیدے ، فتوحات دشمن کی سرزمینوں اور شہروں پر تسلط جمانا ، سب کا سب جھوٹ کا پلندہ اور جعلی ہے ایسے افراد اور علاقے دنیا میں خلق ہی نہیں ہوئے ہیں ۔
” ابرق ربذہ “ نام کی نہ کوئی جگہ ، ” زیاد بن حنظلہ “نامی نہ کوئی شاعر صحابی ہے اور نہ ہی ”خیطل “ نام کا کوئی شاعر ہے اور نہ ہی راویان حدیث میں : سہل بن یوسف اور عبد اللہ بن سعید جیسوں کا کہیں وجود ہے، بلکہ ان سب کو ناول نویس زبردست داستان ساز دروغگو سیف بن عمر زندیق نے اپنی خیالی طاقت کے ذریعہ خلق کیا ہے !!
حقیقت میں صرف ایک چیز صحیح ہے جسے دوسرے مورخین نے بھی نقل کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ ابوبکر نے ایک لشکر تیار کیا اور گروہ انصار کی سرکردگی ” ثابت بن قیس “ کو سونپی اور خالد بن ولید کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا اور ” بزاخہ “ میں جمع ہوئے ان افراد کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے روانہ کیا جو مسلمانوں سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور انھیں حکم دیا کہ اس کے بعد دوسروں سے جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوجائیں ،جی ہاں ! ابوبکر نے ان دو افراد کے علاوہ کسی کو کمانڈر مقرر نہیں کیا اور ان پرچموں کے علاوہ کوئی پرچم کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا اور خالد بن سعید کو بھی لشکر کے کمانڈر کی حیثیت سے مرتدوں سے لڑنے کیلئے اطراف شام میں ” حمقتین “ نامی جگہ کی طرف روانہ نہیں کیا ، بلکہ خالد بن سعید ، مرتدوں سے جنگ کے خاتمہ کے بعد شام جانے والے سپاہیوں کے ساتھ وہاں چلا گیا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ جو کچھ سیف نے اس سلسلہ میں نقل کیا ہے وہ بے بنیاد اور جعلی ہے ، سیف نے ایک پرچم اور ایک کمانڈر اور ایک لشکر اور ایک پیمان اور ایک خط گیارہ گیارہ کی تعداد میں بیان کیا ہے ، جیسا کہ ہم نے یاد دہانی کرائی کہ ان روایتوں کی سند کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے ، کیونکہ ان روایوں کی سند میں سہل بن یوسف اور عبد اللہ بن سعید کا ذکر آیا ہے کہ ہم نے کہا کہ یہ دو شخص ان راویوں میں سے ہیں کہ سیف کے خیالات نے انھیں خلق کیا ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں ۔
اسلامی مآخذ میں سیف کی روایتوں کے نتائج
۱ ۔ بے بنیاد جنگی منشورات ، خطوط اور بے اساس عہد ناموں کا ایک سلسلہ اسلام کے اصلی اور سیاسی خطوط کی فہرست میں درج ہوئے ہیں ۔
۲ ۔ سیف کے ذاتی طورپر جعل کئے گئے اشعار اور قصائد اسلام کے بنیادی ادبیات میں اضافہ ہوئے ہیں ۔
۳ ۔ حمقتین اور ابرق ربذہ نامی افسانوی دو شہروں یا سر زمینوں کا اصلاً کہیں وجود ہی نہیں تھا ، پھر بھی اسلامی سرزمینوں کی فہرست میں قرار پائے ہیں اور معجم البلدان اور شہروں کی تشریح سے مربوط کتابوں میں درج ہوکر اسلامی مآخذ میں شامل ہوئے ہیں ۔
۴ ۔ زیاد بن حنظلہ نامی صحابی شاعر کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا پھر بھی وہ پیغمبر خدا کے اصحاب کی فہرست میں قرار پایا ہے اور علم رجال اور اصحاب کی زندگی کے حالات پر مشتمل کتابوں میں درج ہوا ہے ۔
۵ ۔ سیف نے ان روایتوں میں ” سہل بن یوسف “ اور ” عبد اللہ بن سعید “ نامی دو راوی خلق کئے ہیں ، حتی سہل کا نام علم رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوا ہے اور ان کتابوں کو دروغ سے آلودہ کیا ہے ۔
۶ ۔ سیف کی آخری کا ری ضرب یہ ہے کہ اس نے ان روایتوں ، کمانڈروں لشکر کشیوں اور گھمسان کی جنگوں کو جعل کرکے ایسا دکھایا ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام نے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور یہ دین زور و زبردستی اور تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے ، اسی لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد مختلف عرب قبائل یکے بعد دیگرے ارتداد کی طرف مائل ہوئے اور دوبارہ تلوار کی ضرب اور خونریزی سے اسلام کی طرف پلٹ گئے ہیں ۔
افسانہ کے راویوں کا سلسلہ
سیف کی روایتوں کے متن کے لحاظ سے ، دوسرے مؤرخین کی روایتوں سے ان کی عدم تطبیق اور اس طرح مآخذاسلامی میں ان کے بُرے آثار و نتائج کے پیش نظر ضعف و تزلزل کو آپ نے ملاحظہ فرمایا۔
لیکن ان روایتوں کی سند کے ضعف کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ :
” یہ روایتیں جس کتاب میں بھی درج ہوئی ہیں او رجس کسی نے بھی انھیں نقل کیا ہے آخرمیں وہ سیف پر منتہی ہوتی ہیں اور ان تمام نقلوں کا سرچشمہ وہی ہے “
اس کا حدیث جعل کرنا اور جھوٹ بولنا بھی اسلام کے تمام دانشوروں اور مؤرخین کے یہاں ثابت ہے بلکہ وہ زندیق اور بے دین ہونے میں معروف ہے ان حالات کے پیش نظر ان روایتوں پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے اور تاریخ اسلام کے حقائق کے ذریعہ سے کیسے پہچانا جاسکتا ہے نیز دوسروں کو بھی کیسے پہچنوایا جاسکتا ہے ؟!
یہ ہے جنگ ابرق اور ”ذی قصہ “ کے بارے میں سیف کے راویوں کا سلسلہ اور ملاحظہ فرمائیں کہ یہ روایتیں کیسے صرف سیف پر ہی منتہی ہوئی ہیں اور کیسے اسی پر ہی ختم ہوتی ہیں ۔
بنیاد
سیف نے ان روایتوں کو :
۱ ۔ سہل بن یوسف
۲ ۔ عبد اللہ بن سعید
سے نقل کیا ہے کہ دونوں سیف کے جعل کردہ اور اس کی فکرو خیال کے پیداوار ہیں اور اسلام میں ایسے راویوں کا بالکل وجو د ہی نہیں ہے ۔
شاخیں :
سیف سے :
۱ ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں
۲ ۔ استیعاب کے مؤلف نے
اصحاب پیغمبر کی تشریح میں
۳ ۔ اسد الغابہ کے مؤلف نے
اصحاب پیغمبر کی تشریح میں
۴ ۔ تجرید کے مؤلف نے
اصحاب پیغمبر کی تشریح میں
۵ ۔ اصابہ کے مؤلف نے
اصحاب پیغمبر کی تشریح میں
۶ ۔ معجم البلدان کے مؤلف نے اصحاب پیغمبر کی تشریح میں
نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اس فرق کے ساتھ کہ سیف نے ان تمام روایتوں کو درج کیا ہے لیکن دوسروں نے ان میں سے بعض کو ہی درج کیا ہے ۔
اور طبری سے بھی
۷ ۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں
۸ ۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں
۹ ۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں
نقل کیا ہے ۔
اور معجم البلدان سے بھی :
” مراصد الاطلاع “ کے مؤلف نے نقل کیا ہے لیکن خلاصہ کے طور پر محقق دانشور توجہ فرمائیں کہ ان تمام نقلوں اور روایتوں کا سرچشمہ کس طرح مشہور زندیق اور کاذب سیف تک پہنچتا ہے اور اس کے ہی سبب سے یہ جعلی روایتیں تاریخ اسلام میں داخل ہوئی ہیں اور اسلامی مآخذ میں اپنا مقام بنایا ہے۔