عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 17622
ڈاؤنلوڈ: 4150


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17622 / ڈاؤنلوڈ: 4150
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

تقسیم کیا ہر لشکر کیلئے ایک کمانڈر مقرر کیا اور ہر کمانڈر کے ہاتھ میں ایک پرچم دیا اور ہر ایک کو مرتدوں کے ایک قبیلہ کی طرف روانہ کیا ۔

۱ ۔ ایک پرچم خالد بن ولید کے ہاتھ میں دیا اور اسے حکم دیا کہ طلیحہ بن خویلد کی طرف روانہ ہوجائے اور اس کے قبیلہ کو کچل دے اس کو کچلنے کے بعد مالک بن نویرہ کو کچلنے کیلئے ” بطاع“ کی طرف روانہ ہوجائے اگر مالک نے اس کے مقابلہ میں استقامت دکھائی تو اس سے جنگ کرے ۔

۲ ۔ ایک اور پرچم عکرمة بن ابی جہل کے ہاتھ میں دیا اور اسے مسیلمہ کو کچلنے کیلئے مامور کیا۔

۳ ۔ ایک اور پرچم مہاجرین بن ابی امیہ کے ہاتھ میں دیا اور اسے حکم دیا کہ ” عنسی “ کے لشکر کو کچلنے کے بعد یمن کے ایرانی نسل کے لوگوں کی حمایت کرے اور انھیں ” قیس بن مکشوح “ اور اس کے حامیوں سے نجات دے اور اس کے بعد سرزمین حضرموت میں واقع کندہ نامی جگہ کی طرف روانہ ہوجائے ۔

۴ ۔ ایک اور پرچم خالد بن سعید بن عاص کے ہاتھ میں دیا تو اس نے خطرہ محسوس کرکے اپنی ماموریت کی جگہ یمن کو ترک کر دیا اور مدینہ گیا تو اسے ماموریت دی کہ ” حمقتین “ کی طرف روانہ ہوجائے جو شام میں ایک جگہ تھی ۔

۵ ۔ ایک اور پرچم عمرو بن العاص کے ہاتھ میں دیا اور اسے ” قضاعہ “ ، ” ودیعہ “ اور ” حارث“ کے گروہوں کو کچلنے کا حکم دیا ۔

۶ ۔ ایک اور پرچم ” حذیفہ بن محصن غلفانی “ کے ہاتھ میں دیا اور اسے ’ ’ دبار “ کے باشندوں کی بغاوت کو کچلنے کا حکم دیا ۔

۷ ۔ ایک اور پرچم ” عرفجة بن ہرثمہ “ کے ہاتھ میں دیا اور اسے حکم دیا کہ ” مہرہ “ کی طرف روانہ ہوجائے، ضمناً ”حذیفہ “ اور ”عرفجہ “ کو حکم دیا کہ اس راہ میں آپس میں اجتماع اور اتحاد کرکے ایک دوسرے کی مددکریں ۔

۸ ۔ ایک اور پرچم ” شرجیل بن حسنہ “ کے ہاتھ میں دیا اور اسے ” عکرمہ بن ابی جہل “ کی مدد کیلئے بھیجا اور اسے کہا کہ جب اکرمہ جنگِ یمامہ سے فارغ ہوجائے تو اسے ” قضاعہ “ روانہ ہوکر وہاں پر مرتدوں سے لڑنا چاہئے ۔

۹ ۔ ایک اور پرچم ” معن بن حاجز ‘ یا ’ ’ طریفة بن حاجز“ کے ہاتھ میں دیا اور اسے حکم دیا کہ ”بنی سلیم “ اور ” قبیلہ ہوازن “ نیز ان کی مدد کو آنے والے افراد کو کچلنے کیلئے روانہ ہوجائے ۔

۱۰ ۔ دسواں پرچم ” سویدبن مقرن “ کے ہاتھ میں دیا اور اسے حکم دیا کہ یمن میں ” قبیلہ تہامہ“ کی طرف روانہ ہوجائے ۔

۱۱ ۔ آخر میں گیارھویں پرچم کو ” علاء بن حضرمی “ کے ہاتھ میں دیا اور اسے بحرین کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا ۔

یہ گیارہ کمانڈر اپنے گروہ اور سپاہیوں کے ہمراہ ” ذی القصہ “ میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور ہر ایک اپنے لشکر کے ساتھ اپنی ماموریت کی جگہ کی طرف روانہ ہوا ۔

ابوبکر نے روانگی کے حکم اور منشور جنگ کے علاوہ کمانڈروں کے ہاتھ میں حکم نامے بھی دئے اور ان تمام قبائل کے نام خطوط لکھے جو اسلام سے منحرف ہوئے تھے اور ان کو کچلنے کیلئے فوج بھیجی تھی ، ان کو ارتداد اوربغاوت کے عواقب اور خطرات سے آگاہ کیا تھا اور انھیں دوبارہ اسلام کے دائرے میں آکر اس کی اطاعت کرنے کی دعوت دی تھی ۔

خطوط کا مضمون

سیف نے ” ذی القصہ “ کی داستان کو عبید للہ ابن سعید کی ایک اور روایت سے اس طرح خاتمہ بخشا ہے :

ابوبکر نے عرب کے باغی اور سرکش قبائل کی طرف سپاہ کو روانہ کرتے وقت ان کے نام خطوط بھی بھیجے ان تمام خطوط کا مضمون حسب ذیل تھا :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابوبکر ، پیغمبر خدا کے جانشین کی طرف سے ہر اس شخص کے نام جسے میرایہ خط پہنچے ، خاص و عام کے نام ، جو اسلام پر ثابت قدم رہے اور جو اسلام سے منحرف ہوکر مرتد ہوئے ، سلام ہو! ان پر جو راہ راست کی پیروی کرتے ہیں ، طبری نے اس خط کو دو صفحوں پر مشتمل لکھنے کے بعد آخر میں یوں لکھا ہے :

میں نے فلاں کو بعض مہاجرین ، انصار اور تابعین کے ہمراہ تمہاری طرف روانہ کیا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ کسی سے جنگ نہ کرے اور کسی کو قتل نہ کرے مگر یہ کہ پہلے اسے خدا کی طرف دعوت دے ، جو بھی اس کا مثبت جواب دے اور اسلام کو قبول کرے ، بغاوت و سرکشی سے ہاتھ کھینچ لے ، اسے قبول کرکے اپنے ساتھ ملائے اور جو حق کو قبول کرنے سے انکار کرے اس سے شدت کے ساتھ جنگ کرے اور باغی و سرکش افراد میں سے کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑے اور ان سب کو تہہ تیغ کرکے نذر آتش کرے ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالے اور کسی سے اسلام کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہ کرے.

اس کے بعد سیف کہتا ہے:

قاصدوں نے ان خطوط کو لشکر کے پہنچنے سے پہلے قبائل تک پہنچادیا ، اور ہر ایک کمانڈر بھی اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اپنی ماموریت کی جگہ کی طرف روانہ ہوا جبکہ ابوبکر کا عہدنامہ بھی ان کے ہاتھ میں تھا ۔

منشور جنگ کا متن

جیسا کہ ہم نے کہا کہ سیف کے کہنے کے مطابق جب ابوبکر نے اپنے گیارہ کمانڈروں کو جزیرة العرب کے سرکش اور باغی قبائل کو کچلنے کیلئے روانہ کیا تو ان کے ہاتھ میں ا یک منشور اور فرمان نامہ بھی دیا، ان سب کا متن حسب ذیل تھا :

خدا کے نام سے یہ ابوبکر ، جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ایک عہد نامہ ہے فلاں کیلئے جب اس عہد نامہ کو اس کے ہاتھ میں دیتا ہے اسے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کی طرف روانہ کرتا ہے جنہوں نے اسلام سے منہ موڑاہے اور اسے تاکید کے ساتھ نصیحت کرتا ہے کہ حتی الامکان تقویٰ اور پرہیزگاری کو اپنا پیشہ بنائے اور اسے حکم دیتا ہے کہ احکام الٰہی کے نفاذ میں سخت تلاش کرے ان لوگوں کے ساتھ شدت سے لڑے جنہوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی کی ہے اور مرتد ہوئے اور بغاوت پر اتر آئے ہیں ، انھیں جہاں پر پائے نابودکردے کسی سے بجز اسلام کوئی اورچیز کو قبول نہ کرے اور سب کوخدا کی طرف دعوت دے اور جو بھی دعوت قبول کرے اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرے اور محبت سے پیش آئے اور انھےں احکام الٰہی سکھائے اور جو بھی اس کی دعوت کو مسترد کرے اس کے ساتھ جنگ کرے اور اگر وہ کامیاب ہوجائے تو ان باغی اور سرکش افراد کا سر قلم کردے اور انھیں ہر ممکن طریقے سے قتل کرکے نابود کردے ۔

داستان ذی القصہ کی اشاعت

جو کچھ ہم نے ” ذی القصہ “ کی داستان کے بارے میں کہا ، وہ طبری کی روایتوں کا خلاصہ تھا اور طبری نے بھی ان تمام روایتوں کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے مؤرخین نے جیسے : ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن خلدون وغیرہ نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے بھی جو کچھ اپنی کتاب ” معجم البلدان “ میں سرزمین ” حمقتین “ کی شرح میں لکھا ہے ، اسی سیف کی روایت سے نقل کیا ہے اور یوں کہتا ہے :

” سیف نقل کرتا ہے ، جب خالد بن سعید نے لوگوں سے ڈرکر یمن میں اپنی ماموریت کی جگہ کو ترک کر دیا اور مدینہ آگیا ، ابوبکر نے اس کے ہاتھ میں ایک پرچم دیا اور اسے شام کے اطراف میں واقع ”حمقتین “ نامی جگہ کی طرف روانہ کیا “

” مراصد الاطلاع “ کے مصنف نے بھی جو کچھ سرزمین ” حمقتین “ کے بارے میں ذکر کیا ہے اسے حموی سے نقل کیا ہے اور ”استیعاب “ َ ” اسد الغابہ “ اور ” اصابہ “ کے مؤلفین نے بھی ” حذیفہ بن محصن “ اور ” عرفجہ بن ھرثمہ “ کے بارے میں جو کچھ پیغمبر کے اصحاب کی حیثیت سے لکھا ہے ، وہی مطالب ہیں جو سیف کی روایتوں میں آیا ہے انہوں نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرکے ان دونوں کو پیغمبر کے اصحاب کی حیثیت سے لکھا ہے۔

حقیقت میں سیف کی روایتیں مسلمانوں میں اس طرح پھیل گئیں اور یہ خشک اور بے بنیاد درختوں نے اسلامی مصادر و کتابوں میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔

سیف کی روایتوں کی جانچ پڑتال

” ابرق ربذہ “ اور داستان ” ذی القصہ “(۱) کے بارے میں سیف کی روایت کی سند میں سہل بن یوسف کا نام آیاہے اور ہم نے ثابت کردیا ہے کہ سہل بن یوسف، سیف کے انسان سازی کے کا رخانہ کو بنایاہوا راوی ہے اور خداوند عالم نے اس انسان کو خلق نہیں کیا ہے اور در حقیقت کوئی راوی اس نام و نشان کا پایا نہیں جاتا۔

____________________

۱۔ داستان ابرق گزشتہ فصل می ں بیان ہوچکی ہے اور داستان ذی القصہ کو بھی اس فصل می ں ملاحظہ فرمایا، اسلئے یہا ں پر یہ دونو ں داستانی ں سند اور دوسرو ں کی روایتو ں سے موازنہ کرکے ان کی تحقیق کی جاتی ہے ۔

سیف کی دوسری روایت (جو مرتدوں کے نام ابوبکر کے خط کے متن کے بارے میں ہے) کی سند میں عبد اللہ بن سعید کا نام آیا ہے اور ہم نے اس عبد اللہ کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں ثابت کیا ہے ، کیونکہ سیف کی روایتوں کے علاوہ ہم نے تاریخ اور رجال کی کسی اور کتاب میں اس شخص کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں ”ذی القصہ “ کی داستان

جو کچھ سیف نے داستان ” ذی القصہ “ کے بارے میں ذکر کیا ہے ہم نے اس کا خلاصہ بیان کیا لیکن دوسرے راویوں نے اس داستان کو دوسری صورت میں نقل کیا ہے کہ ہم قارئین کرام کی

خدمت میں پیش کرتے ہیں :

طبری نے ابن کلبی سے نقل کیا ہے کہ اسامہ اپنے لشکریوں کے ہمراہ شام کی جنگ سے مدینہ واپس آیا ، اسکے بعد ابوبکر نے مرتدوں سے جنگ کرنے کا اقدام کیا اورمسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ سے باہر آیا یہاں تک کہ مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر نجد کی طرف ” ذی القصہ “ نامی جگہ پر پہنچا ، اور وہاں پر اپنے لشکر کو آراستہ کیا خالد بن ولید کو مرتدوں کے قبائل کے طرف بھیجا اور انصار کی سرکردگی ثابت بن قیس(۱) کو سونپی اور خالد

____________________

۱۔ ثابت بن قیس قبیلہ خزرج میں شمار ہوتا ہے اس کی ماں قبیلہ طی سے تھی وہ جنگ احد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ترجمان تھا اور اس نے احد کے بعد واقع ہونے والی جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور یمامہ کی جنگ میں مارا گیا اسکے بیٹے ، محمد ، یحییٰ اور عبد اللہ بھی جنگ صفین میں قتل ہوئے ہیں اسد الغابہ، ج ۱/ ص ۲۲۹

کو پورے لشکر کا سپہ سالار قرار دیا اور اسے حکم دیا کہ ” طلیحہ “ اور عیینہ بن حصن کی طرف روانہ ہوجائے تو انہوں نے قبیلہ بنی اسد کی زمینوں میں سے بزاخہ نامی جگہ پر پڑاؤ ڈالا تھا ، ضمناً اسے کہا کہ میری اور میرے لشکر کی ملاقات تجھ سے خیبر میں ہوگی ۔

البتہ ابوبکر نے اس جملہ کو جنگی حکمت عملی کے پیش نظر زبان پر جاری کیا ہے تا کہ یہ بات دشمنوں کے کانوں تک پہنچے اور ان کے دل میں رعب و وحشت پیدا ہوجائے ورنہ اس نے تمام جنگجوؤں کو خالد کے ساتھ دشمن کی طرف بھیج دیا تھا اور کوئی باقی نہ رہا تھا کہ کسی دوسرے لشکر کو تشکیل دیا جاتا اور خالد کی مدد کیلئے ” بزاخہ “ یا ” خیبر “ کی طرف روانہ ہوتا ۔

” ذی القصہ ‘ ‘ کی طرف ابوبکر کی روانگی اس جگہ پر خالد کو سپہ سالار بنانے کی روداد کو ” یعقوبی“ نے بھی اپنی تاریخ میں درج کیا ہے لیکن وہ اضافہ کرتا ہے کہ اس کے بعد ” ثابت “ کو انصار کا امیر بنادیا گیا تو انہوں نے ابوبکر سے جھگڑا کیا کہ اس نے کیوں انصار میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا ؟!

بلاذری اور مقدسی نے بھی ” ذی القصہ “کی داستان کو نقل کیا ہے اور حملہ ” بنی فزارہ “ کی روداد کا اس میں اضافہ کیا ہے ۔

مقدسی ، ابوبکر کے ” ذو القصہ “ کی طرف روانہ ہونے کی روداد کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے تب خالد اپنی فوج کے ہمراہ دشمن کی طرف روانہ ہوا لیکن جب ” خارجہ بن حصن فزری “(۱) نے مسلمانوں

____________________

۱ خارجہ ، عیینة بن حصن کا بھائی ہے یہ وہ شخص ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور آیا اور خشک سالی کے بارے میں شکایت کی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے قبیلہ کے بارے میں دعا کی اور وہ بھی مسلمان ہوگیا اور واپس اپنے قبیلہ میں چلا گیا ۔

واقدی کہتا ہے کہ خارجہ وہ شخص ہے جس نے اپنے قبیلہ کو زکوة دینے سے روکا تھا اور نوفل بن معاویہ جو زکوٰة جمع کرنے کا

کی تعداد کو کم پا یا تو اس نے جرات پیدا کرکے چند جنگجو سواروں کے ہمراہ ان پر حملہ کیا مسلمانوں نے شکست کھا کر فرار کی اور ابوبکر نے بھی ایک درخت پر چڑھ کر پناہ لی اور اسکی شاخوں سے اوپر چڑھ گئے تا کہ دشمن کی نظروں سے اوجھل ہوجائے ۱ اس وقت طلحہ بن عبد اللہ ایک بلند جگہ پر کھڑا ہوا اور اس نے فریاد بلند کی : لوگو ! مسلمانو ! نہ ڈرو! فرار نہ کرو! ہمارا لشکر آپہنچا ہے ۔

شکست خوردہ مسلمان واپس آگئے اور خارجہ بھی وہاں سے چلا گیا اور اپنی راہ لے لی تب ابوبکر درخت سے نیچے اترے اور واپس مدینہ چلے آئے۔

بلاذری نے اس داستان کو اس طرح نقل کیا ہے کہ ابوبکر مسلمانوں کے ہمراہ باغیوں کی سرزمین ” ذو القصہ “ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پر مرتد قبائل کے خلاف ایک بڑا لشکر تشکیل دیکر اسے آراستہ کیا، اس وقت خارجہ اور منظور بن زبان (دونوں ہی بنی فزارہ سے تعلق رکھتے تھے،)نے ابوبکر کے لشکر پر حملہ کیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ میں مشرکوں نے شکست کھائی اور

بھاگ گئے طلحہ نے ان کا پیچھا کیا اور ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا اور یہاں تک کہتا ہے:

مامور تھا سے ملاقات کی اور تمام زکوٰة و صدقات جو اس کے پاس تھے واپس لے لیا اور اپنے رشتہ داروں کو دیدیا خارجہ وہی ہے جو بنی اسد سے خالد کی جنگ کے بعد ابوبکر کے پاس آیا اور ابوبکر نے اس سے کہا : تمہیں ان دو روایتوں میں سے ایک کا انتخاب کرناچاہئے : یا ” سلم مخربہ “ یعنی ذلت کے ساتھ تسلیم ہوجاؤ یا ” حرب مجلیہ “ یعنی نابود کرنے والی جنگ کو قبول کر اس کے بعد ابوبکر نے ان دو جملوں کی تشریح کی اس نے کہا: میں سلم کا انتخاب کرتا ہوں ،اصابہ، ج ۱ ص ۳۹۹ ، نمبر ۲۱۳۳)

۱ ۔ میری نظر میں یہ روایت ابن اسحاق اور دوسروں کی روایت سے صحیح تر ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ ( ۱/۱۷۰) ، انھیں سے نقل کرتا ہے ،”ابوبکر نے اپنے آپ کو ایک کچھار میں مخفی کیا “کیونکہ ان سرزمینوں میں کوئی کچھار اور جنگل موجود نہ تھا کہ ابوبکر خود کو اس میں مخفی کرتے۔

” اس کے بعد ابوبکر نے ” ذی القصہ “ میں ایک پرچم خالد کے ہاتھ میں دیا اور ثابت بن قیس کو بھی انصار کے گروہ کا کمانڈر مقرر کیا اس کے بعد اسے حکم دیا کہ ثابت کے ہمراہ ” طلیحہ “ کی طرف روانہ ہوجائے جو ان دنوں ” بزاخہ “ میں تھا “۔

موازنہ اور تحقیق

جب ہم جنگِ ابرق اور داستان ” ذی القصہ “ کے بارے میں سیف کی روایت کو دوسرے مؤرخین کی روایتوں سے مقابلہ کرکے ان کی تطبیق و موازنہ کرتے ہیں تو سیف کے افسانے آسانی کے ساتھ آشکار ہوجاتے ہیں ، کیونکہ دوسرے مؤرخین نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ ابوبکر جنگ و لشکر کشی کیلئے صرف ایک بار مدینہ سے باہر نکلے ہیں اور کہا ہے کہ اسامہ کو ” موتہ “ سے واپسی کے بعد ” ذی القصہ“ کی طرف روانہ کیاگیا ہے اور وہاں پر لشکر آمادہ کیا ہے اور اس لشکر کی کمانڈری خالد بن ولید کو سونپی اور انصار کے گروہ کی سرپرستی ” ثابت بن قیس “ کو سونپی ، اس کے بعد ان کو حکم دیا کہ ” طلیحہ “ اور اس کے گرد جمع ہوئے قبیلہ ” اسد “ و ” فزارہ “ کو کچلنے کیلئے ” بزاخہ “ کی طرف روانہ ہوجائیں ، لیکن بعض مؤرخین نے بنی فزارہ پر شبانہ حملہ کرنے نیز انکے ایک شخص کے قتل ہونے اور اس واقعہ کے ذی القصہ میں رونما ہونے کی خبر دی ہے ۔

یہ ہے حوادث ، لشکر کشی اور جنگوں کا مجموعہ جو مؤرخین کے نقل کے مطابق جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک مختصر زمانے میں واقع ہوئے ہیں ۔

لیکن چونکہ اس فصل اور گزشتہ فصل میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ سیف نے بہت سی روایتیں اور مفصل داستانیں نقل کی ہیں اور ابوبکر کیلئے متعدد جنگیں اور حملات نقل کئے ہیں کہ دوسرے مؤرخین کی روایتوں میں ان داستانوں اور جنگوں کا کوئی اثر معلوم نہیں ہے اور یہ سب سیف کی خصوصیات میں سے ہے ۔

سیف کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ کے اطراف میں مرتد قبائل کی طرف کئی بار روانہ ہوئے ہےں اور ان کے ساتھ جنگ کی ہے۔

یہاں پر ہم سیف کے خیالی اور افسانوی جنگوں کی مفصل اور مشروح داستانوں کا ایک خلاصہ پیش کرتے ہیں تا کہ سیف کی روایتوں کا دو سرے راویوں کی روایتوں سے تفاوت اور اختلاف واضح ہوجائے ۔

۱ ۔ سیف کہتا ہے : ابوبکر کی مرتدوں کے ساتھ سب سے پہلی جنگ اس طرح تھی کہ مدینہ کے اطراف میں رہنے والے اکثر قبائل نے مدینہ کی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا اورمرتد ہوگئے ، وہ اپنے دین و مذہب سے منحرف ہوئے اور ” ابرق ربذہ “ نامی ایک جگہ پر اجتماع کیا ۔

قبیلہ ” ثعلبہ بن سعد “ اور ” عبس “ ، ” حارث ‘ کی سرپرستی میں اور قبیلہ ” مرہ“ عوف کی سرپرستی میں اور قبیلہ ” کنانہ “کے ایک گروہ نے آپس میں اجتماع کیا اور ایک بڑا لشکر تشکیل دیا کہ شہروں میں ان کیلئے جگہ کی گنجائش نہیں تھی ، اس کے بعد سیف اپنے اس خیال اور افسانوی لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو” ابرق ربذہ “ میں رکھتا ہے اور دوسرے گروہ کو ” ذی القصہ “ کی طرف روانہ کرتا ہے اور طلیحہ نے بھی اپنے بھائی ” حبال “ کی سرپرستی میں ایک لشکر کو ان کی طرف بھیج دیا ہے ، اس کے بعد وہی باغی او رسرکش قبائل تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ نماز وتر پڑھیں گے لیکن انھیں زکوٰة دینے سے معاف قرار دیا جائے اور اس تجویزکو اپنے چند افراد کے ذریعہ مدینہ بھیجتے ہیں اور روداد کو ابوبکر کے سامنے پیش کرتے ہیں ابوبکر ان کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں قبائل کے نمایندے اپنے لشکر کی طرف --- جو ” ابرق“ میں موجود تھا --- روانہ ہوتے ہیں اور روداد کی رپورٹ اپنے کمانڈروں کو دیتے ہیں اور مسلمانوں کی کمزوری اور تعاون کی کمی سے انھیں آگاہ کرتے ہیں اور ابو بکر کی حکومت کے مرکز یعنی مدینہ پر حملہ کرنے کی ترغیب و تجویز پیش کرتے ہیں ابوبکر کو روداد کی اطلاع ملتی ہے تو دشمنسےمقابلہ کرنے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں ۔

سیف کہتا ہے : ابوبکر نے بزرگ اصحاب میں سے چار اشخاص کو چند جنگجوؤں کے ہمراہ مدینہ کی گزرگاہوں کی محافظت پر مامور کیا اس کے بعد تمام مسلمانوں ں کو مسجد میں جمع کیا ا ور روداد سے انھیں آگاہ کیا اور دشمن سے لڑنے کیلئے ایک لشکر کو آراستہ کیا اس واقعہ کے بعد تین دن گزرے تھے کہ مرتدوں کے لشکر نے ایک گروہ کو ذخیرہ کے طور پر ”ذی حسی “ میں رکھ کر باقی افراد کے ذریعہ مدینہ پر حملہ کیا ، لیکن مدینہ کے محافظین نے ان کا جواب دیا اورا نھیں پیچھے ڈھکیل دیا ، ابو بکر کو روداد کی خبر ملی اور اس نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا ، وہ اپنے آب کش اونٹوں پر سوار ہوئے اور خود ابوبکر کی کمانڈر ی میں دشمن کی طرف بڑھ گئے ۔

سیف کے کہنے کے مطابق ان دولشکروں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ جاتی ہے اور مسلمان فتحیاب ہوتے ہیں اور دشمن کو بڑی شکست دیتے ہیں اور انھیں ”ذی حسی “ تک پیچھے ڈھکیل دیتے ہیں مرتدوں کا ” ذی حسی “ میں ذخیرہ شدہ گروہ اچانک مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے وہ اپنی مشکوں کو ، جنہیں وہ پہلے ہی ہوا سے پر کرکے رسیاں ان کے اندر ڈال چکے تھے مسلمانوں کے اونٹوں کے سامنے ڈالتے ہیں اور یہ اونٹ رم کرکے اپنے مسلمان سواروں سمیت مدینہ پہنچتے ہیں ،مسلمانوں کی کمزوری کی خبر ذی حسی سے ذی القصہ تک پہنچ جاتی ہے مرتدوں کے قبائل ” ذبیان “ اور ” اسد“ جو ذی القصہ میں موجود تھے ذی حسی کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور ” ابرق “ کے مقام پر آمنا سامنا ہوتا ہے ۔

۲ ۔ سیف کہتا ہے : ابوبکر دوسری بار اپنی سپاہ کو آراستہ کرتے ہیں لشکر کے میمنہ اور میسرہ کیلئے کمانڈر مقرر کرتے ہیں اور قلب لشکر کیلئے بھی ایک کمانڈر مقرر کرتے ہیں اور روانہ ہونے کا حکم دیتے ہیں ، ابوبکر کے سپاہیوں نے راتوں رات روانہ ہوکر اچانک دشمن پر حملہ کیا اور انہیں بڑی شکست دی ان کے تمام حیوانوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا اس جنگ میں ” طلیحہ“ کا بھائی ”حبال “ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔ آخر کار ابوبکر نے دشمن کا پیچھا کیا یہاں تک ” ذی القصہ “ پہنچے وہاں پر اپنے کچھ فوجیوں کو ” نعمان بن مقرن “ کی کمانڈری میں رکھ کر خود مدینہ واپس آ گئے۔

۳ ۔ سیف تیسری بار ابوبکر کو مدینہ سے قبائل کی طرف روانہ کراتے ہوئے کہتا ہے :

قبیلہ ” عبس “ اور ”ذیبان “ نے اپنے درمیان موجود مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی اور ان سب کو قتل کر ڈالا ابوبکر نے ایک لشکر کو آراستہ کرکے مدینہ سے انکی طرف روانہ ہوئے یہاں تک ”ابرق“ پہنچے اور مذکورہ دو قبیلوں سے جنگ کی اور انھیں شکست دی اور بعض افراد کو اسیر بنایا ، ” ربذہ “ میں واقع ان کی سرزمینوں اور آبادیوں پر قبضہ جمایا اور جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تھی انھیں ان شہروں سے، شہر بدر کیا ” ابرق “ کے تمام بیابانوں کو سواری کے گھوڑوں کے لئے مخصوص کردیا اور سیف نے دوسرے بیابانوں کو مسلمانوں کے عام حیوانوں کیلئے آزاد رکھا ۔

سیف ان جنگوں اور فتوحات کو نقل کرنے کے بعد اپنی بات کو ثابت اور محکم کرنے کے لئے کہتا ہے کہ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے ” زیاد بن حنظلہ “ نامی ایک شاعراور اس زمانے کے دوسرے شعراء نے ان جنگوں کے بارے میں اشعار اور قصیدے لکھے ہیں اور ان جنگوں کی داستانوں کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے ۔

۴ ۔ سیف ابوبکر کیلئے ایک اور جنگ کی داستان نقل کرتا ہے اور اسے چوتھی بار ” ذی القصہ “ کی طرف حرکت دیتے ہوئے کہتا ہے ۔

ابوبکر مسلمانوں کے ایک گروہ کے ہمراہ ” ذی القصہ “ کی طرف روانہ ہوئے ، اور وہاں پر حجاز کے اطراف کے باغیوں اور جزیرة العرب کے سرکش قبائل کو کچلنے کیلئے ایک فوج تیارکی اور اس فوج کو گیارہ لشکروں میں تقسیم کیا اور ہر لشکر کیلئے ایک کمانڈر مقرر کیا اور اس کے ہاتھ میں ایک پرچم دیا اور ہر کمانڈر کے ہاتھ میں ایک خط او رمنشور کی ایک ایک کاپی دی ، اور ایک خط ہر مرتد قبیلہ کے نام بھی روانہ کیا ، جن کے خلاف اس نے فوج کشی کی تھی ، اور انھیں ہتھیار ڈالنے اور امن امان کی دعوت دی۔

تطبیق اور موازنہ کا نتیجہ

اس سلسلہ میں کی گئی مزید تحقیقات اور دقیق جانچ پڑتال کے بعد ہم وثوق کے ساتھ

کہہ سکتے ہیں :

جنگ ” ابرق “ اور داستان ” ذی القصہ “ کے بارے میں کہ جس میں اس قدر مفصل اور طولانی مطالب نقل کئے گئے ہیں ، وہ سب سیف کی خصوصیات ہیں اور کسی بھی دوسرے مؤرخ نے ان مطالب کو سیف کے علاوہ نقل نہیں کیا ہے اور یہ سب جھوٹ اور فرضی افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے نہ ان قبائل کے اکثر کے ا رتداد کے بارے میں (سیف نے ان پر ارتداد کی تہمت لگائی ہے) صحیح ہے اور نہ ان کا ” ابرق “ اور ”ذی القصہ “ میں اجتماع کرنا واقعیت رکھتاہے اور نہ مرتدین کی طرف سے ایک گروہ کو مدینہ بھیجنے میں کوئی سچائی اورحقیقت ہے اور نہ ابوبکر کی طرف سے چندا فراد کومدینہ کی گزرگاہوں کی حفاظت کیلئے معین کرناصحیح ہے نہ اس کی لشکر کشیاں اور نہ اونٹوں کے رم کرنے میں کوئی حقیقت ہے نہ چار جنگوں ---کہ سیف نے ابوبکر کیلئے نقل کیا ہے --- کی کوئی حقیقت ہے وہ تمام اشعار، قصیدے ، فتوحات دشمن کی سرزمینوں اور شہروں پر تسلط جمانا ، سب کا سب جھوٹ کا پلندہ اور جعلی ہے ایسے افراد اور علاقے دنیا میں خلق ہی نہیں ہوئے ہیں ۔

” ابرق ربذہ “ نام کی نہ کوئی جگہ ، ” زیاد بن حنظلہ “نامی نہ کوئی شاعر صحابی ہے اور نہ ہی ”خیطل “ نام کا کوئی شاعر ہے اور نہ ہی راویان حدیث میں : سہل بن یوسف اور عبد اللہ بن سعید جیسوں کا کہیں وجود ہے، بلکہ ان سب کو ناول نویس زبردست داستان ساز دروغگو سیف بن عمر زندیق نے اپنی خیالی طاقت کے ذریعہ خلق کیا ہے !!

حقیقت میں صرف ایک چیز صحیح ہے جسے دوسرے مورخین نے بھی نقل کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ ابوبکر نے ایک لشکر تیار کیا اور گروہ انصار کی سرکردگی ” ثابت بن قیس “ کو سونپی اور خالد بن ولید کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا اور ” بزاخہ “ میں جمع ہوئے ان افراد کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے روانہ کیا جو مسلمانوں سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور انھیں حکم دیا کہ اس کے بعد دوسروں سے جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوجائیں ،جی ہاں ! ابوبکر نے ان دو افراد کے علاوہ کسی کو کمانڈر مقرر نہیں کیا اور ان پرچموں کے علاوہ کوئی پرچم کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا اور خالد بن سعید کو بھی لشکر کے کمانڈر کی حیثیت سے مرتدوں سے لڑنے کیلئے اطراف شام میں ” حمقتین “ نامی جگہ کی طرف روانہ نہیں کیا ، بلکہ خالد بن سعید ، مرتدوں سے جنگ کے خاتمہ کے بعد شام جانے والے سپاہیوں کے ساتھ وہاں چلا گیا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ جو کچھ سیف نے اس سلسلہ میں نقل کیا ہے وہ بے بنیاد اور جعلی ہے ، سیف نے ایک پرچم اور ایک کمانڈر اور ایک لشکر اور ایک پیمان اور ایک خط گیارہ گیارہ کی تعداد میں بیان کیا ہے ، جیسا کہ ہم نے یاد دہانی کرائی کہ ان روایتوں کی سند کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے ، کیونکہ ان روایوں کی سند میں سہل بن یوسف اور عبد اللہ بن سعید کا ذکر آیا ہے کہ ہم نے کہا کہ یہ دو شخص ان راویوں میں سے ہیں کہ سیف کے خیالات نے انھیں خلق کیا ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں ۔

اسلامی مآخذ میں سیف کی روایتوں کے نتائج

۱ ۔ بے بنیاد جنگی منشورات ، خطوط اور بے اساس عہد ناموں کا ایک سلسلہ اسلام کے اصلی اور سیاسی خطوط کی فہرست میں درج ہوئے ہیں ۔

۲ ۔ سیف کے ذاتی طورپر جعل کئے گئے اشعار اور قصائد اسلام کے بنیادی ادبیات میں اضافہ ہوئے ہیں ۔

۳ ۔ حمقتین اور ابرق ربذہ نامی افسانوی دو شہروں یا سر زمینوں کا اصلاً کہیں وجود ہی نہیں تھا ، پھر بھی اسلامی سرزمینوں کی فہرست میں قرار پائے ہیں اور معجم البلدان اور شہروں کی تشریح سے مربوط کتابوں میں درج ہوکر اسلامی مآخذ میں شامل ہوئے ہیں ۔

۴ ۔ زیاد بن حنظلہ نامی صحابی شاعر کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا پھر بھی وہ پیغمبر خدا کے اصحاب کی فہرست میں قرار پایا ہے اور علم رجال اور اصحاب کی زندگی کے حالات پر مشتمل کتابوں میں درج ہوا ہے ۔

۵ ۔ سیف نے ان روایتوں میں ” سہل بن یوسف “ اور ” عبد اللہ بن سعید “ نامی دو راوی خلق کئے ہیں ، حتی سہل کا نام علم رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوا ہے اور ان کتابوں کو دروغ سے آلودہ کیا ہے ۔

۶ ۔ سیف کی آخری کا ری ضرب یہ ہے کہ اس نے ان روایتوں ، کمانڈروں لشکر کشیوں اور گھمسان کی جنگوں کو جعل کرکے ایسا دکھایا ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام نے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور یہ دین زور و زبردستی اور تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے ، اسی لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد مختلف عرب قبائل یکے بعد دیگرے ارتداد کی طرف مائل ہوئے اور دوبارہ تلوار کی ضرب اور خونریزی سے اسلام کی طرف پلٹ گئے ہیں ۔

افسانہ کے راویوں کا سلسلہ

سیف کی روایتوں کے متن کے لحاظ سے ، دوسرے مؤرخین کی روایتوں سے ان کی عدم تطبیق اور اس طرح مآخذاسلامی میں ان کے بُرے آثار و نتائج کے پیش نظر ضعف و تزلزل کو آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

لیکن ان روایتوں کی سند کے ضعف کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ :

” یہ روایتیں جس کتاب میں بھی درج ہوئی ہیں او رجس کسی نے بھی انھیں نقل کیا ہے آخرمیں وہ سیف پر منتہی ہوتی ہیں اور ان تمام نقلوں کا سرچشمہ وہی ہے “

اس کا حدیث جعل کرنا اور جھوٹ بولنا بھی اسلام کے تمام دانشوروں اور مؤرخین کے یہاں ثابت ہے بلکہ وہ زندیق اور بے دین ہونے میں معروف ہے ان حالات کے پیش نظر ان روایتوں پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے اور تاریخ اسلام کے حقائق کے ذریعہ سے کیسے پہچانا جاسکتا ہے نیز دوسروں کو بھی کیسے پہچنوایا جاسکتا ہے ؟!

یہ ہے جنگ ابرق اور ”ذی قصہ “ کے بارے میں سیف کے راویوں کا سلسلہ اور ملاحظہ فرمائیں کہ یہ روایتیں کیسے صرف سیف پر ہی منتہی ہوئی ہیں اور کیسے اسی پر ہی ختم ہوتی ہیں ۔

بنیاد

سیف نے ان روایتوں کو :

۱ ۔ سہل بن یوسف

۲ ۔ عبد اللہ بن سعید

سے نقل کیا ہے کہ دونوں سیف کے جعل کردہ اور اس کی فکرو خیال کے پیداوار ہیں اور اسلام میں ایسے راویوں کا بالکل وجو د ہی نہیں ہے ۔

شاخیں :

سیف سے :

۱ ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں

۲ ۔ استیعاب کے مؤلف نے

اصحاب پیغمبر کی تشریح میں

۳ ۔ اسد الغابہ کے مؤلف نے

اصحاب پیغمبر کی تشریح میں

۴ ۔ تجرید کے مؤلف نے

اصحاب پیغمبر کی تشریح میں

۵ ۔ اصابہ کے مؤلف نے

اصحاب پیغمبر کی تشریح میں

۶ ۔ معجم البلدان کے مؤلف نے اصحاب پیغمبر کی تشریح میں

نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اس فرق کے ساتھ کہ سیف نے ان تمام روایتوں کو درج کیا ہے لیکن دوسروں نے ان میں سے بعض کو ہی درج کیا ہے ۔

اور طبری سے بھی

۷ ۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

۸ ۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

۹ ۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں

نقل کیا ہے ۔

اور معجم البلدان سے بھی :

” مراصد الاطلاع “ کے مؤلف نے نقل کیا ہے لیکن خلاصہ کے طور پر محقق دانشور توجہ فرمائیں کہ ان تمام نقلوں اور روایتوں کا سرچشمہ کس طرح مشہور زندیق اور کاذب سیف تک پہنچتا ہے اور اس کے ہی سبب سے یہ جعلی روایتیں تاریخ اسلام میں داخل ہوئی ہیں اور اسلامی مآخذ میں اپنا مقام بنایا ہے۔

قبیلہ طی کے ارتداد کی داستان

کان هذا خبر ردة طی فی روایات سیف

قبیلہ طی کے ارتدا د کے بارے میں سیف کی روایتوں کے متون و اسناد یہ ہیں ۔

مؤلف

طبری نے قبیلہ طی کے ارتداد کی داستان کو سیف کی سات روایتوں کو نقل کرکے مندرجہ ذیل تفاوت کے ساتھ اپنی تاریخ میں د رج کیا ہے :

ان روایتوں میں سے دو روایتوں میں قبیلہ ” غطفان “ ، قبیلہ ” طی “ اور قبیلہ ” اسد“ کے ارتداد (اور ان کاپیغمبری کا مدعی) ” طلیحہ “ کے گرد جمع ہونے کا افسانہ آیا ہے ۔

تیسری روایت میں کہتا ہے کہ قبیلہ ” اسد “ نے سرزمین سمیراء میں قبیلہ ”غطفان “ نے مدینہ کے نزدیک اور قبیلہ ” طی “ نے اپنے کھیتوں میں اجتماع کیا ۔

ایک دوسری مفصل روایت میں ان قبیلوں کے ارتداد کی علت بیان کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے ان تین قبیلوں کے افراد مدینہ گئے ا ور مشہور و معروف مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوئے اور تجویز پیش کی کہ ہم نماز پڑھنے کیلئے آمادہ ہیں اس شرط سے کہ ہم سے زکوٰة لینا معاف کیا جائے ابوبکر کے علاوہ تمام مسلمانوں نے ان کی تجویز قبول کی، لیکن ابوبکر نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا: تم لوگ دوسرے مسلمانوں کے مانند ٹیکس اور اموال کی زکوٰة ادا کرنے میں مجبور ہو اور ایک دن اور رات سے زیادہ مہلت نہیں ہے لہذا انہوں نے اس فرصت سے استفادہ کرکے اپنے قبائل کی طرف فرار کیا ۔

چوتھی روایت میں یوں آیا ہے : جب ابوبکر نے ” طلیحہ “ کے پیروکاروں کو (ابرق ربذہ میں جمع ہوئے تھے)وہاں سے نکال باہر کیا تو ” طلیحہ “ نے قبیلہ ” طی “ کے دو خاندانوں ” جدیلہ “ اور ”غوث“ کو پیغام بھیجا کہ اس کے ساتھ ملحق ہوجائیں اور اس کی مدد کریں ،ان میں سے بعض بڑی ہی سرعت سے طلیحہ کی طرف روانہ ہوگئے اور حکم دیا کہ باقی لوگ بھی تدریجاً ’ ’ طلیحہ “ کی طرف دوڑ پڑیں ۔

سیف کہتا ہے : ابوبکر نے خالد کو ”ذی القصہ “ سے ان قبائل کی طرف روانہ کرنے سے پہلے ”عدی بن حاتم “ کو ان کی طرف روانہ کیااور اس سے کہا کہ تم انھیں نجات دینا ، قبل اس کے کہ وہ دوسروں کا لقمہ بن کر ہلاک ہوجائیں ، عدی روانہ ہوا ور خالد بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا اورابوبکر نے خالد کو بھی حکم دیا کہ پہلے قبیلہ طی کی طرف روانہ ہوجاؤ جو سرزمین ” اکنا ف“ میں تھے ،خالد ان کی طرف روانہ ہوا اور قبیلہ طی کے باقی افراد خالد کی فوج کے پہنچنے کی وجہ سے طلیحہ کے لشکر سے ملحق نہیں ہوسکے عدی بھی براہ راست ان کے پاس پہنچا اور انھیں اسلام لانے کی دعوت دی ، قبیلہ طی نے عدی کے جواب میں کہا: ہم ” ابو الفصیل“(۱) کی ہرگز بیعت نہیں کریں گے عدی نے انھیں کہا:

____________________

۱۔ چونکہ کلمہ ” بکر “ و کلمہ ’ فصیل “ دونوں اونٹ کے بچہ کے معنی ہیں اس لئے بعض لوگ ابوبکر کو حقارت و توہین کی غرض سے ” ابو الفصیل “ یعنی اونٹ کے بچے کا باپ کہتے تھے اورجو اس کا احترام کرتے تھے وہ اسے ” ابو الفحل “ کہتے ہیں اس داستان میں ابو الفصیل اور ابو الفحل ابوبکر ہے ۔