عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 15948
ڈاؤنلوڈ: 2914


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15948 / ڈاؤنلوڈ: 2914
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

خدا کی قسم ایک ایسا لشکر تمہاری طرف آیا ہے کہ تمہاری ناموس کو مباح قرارد ے گا تب تم اسے ” ابو الفحل الاکبر “ کہو گے انہوں نے جب عدی کی بات سنی تو خوف و ہراس سے دوچار ہوئے اور اس سے کہا: تم اپنے لشکر کی طرف چلے جاؤ اور انھیں ہمارے قبیلہ پر حملہ کرنے سے روک لو تا کہ ہم طلیحہ کے لشکر سے ملحق ہوئے اپنے قبیلہ کے افراد کو اپنی طرف پلٹا دیں گے ، اس کے بعد ہم تمہارے لشکر سے ملحق ہوسکتے ہیں اور طلیحہ کی مخالفت کرسکتے ہیں اگر اس کام سے پہلے ” طلیحہ“ سے مخالفت کریں گے ، تو وہ اس کی فوج میں موجود ہمارے قبیلہ کے تمام افراد کو نابود کرکے رکھ دے گا ،عدی نے جو ابھی ” سُنح“ میں تھا ، خالد کی طرف لوٹ کر کہا: مجھے تین دن کی مہلت دو تا کہ پانچ سو بہادر سپاہیوں کو تیرے رکاب میں حاضر کردوں جو ” طلیحہ “ سے جنگ میں تیری نصرت کریں گے اور دشمن کے لشکر کو تہس نہس کرکے رکھ دیں گے یہ کام اس سے بہتر ہے کہ جلد بازی میں ان پر حملہ کرو اور انھیں آتش جہنم میں جلا دو اور اپنے آپ کو انھیں کچلنے میں مشغول کرو۔

خالد نے عدی کی بات مان لی ، قبیلہ طے نے اپنے ان افراد کو پیغام بھیجا جو بزاخہ میں طلیحہ کے گرد جمع ہوئے تھے ، اور انہیں اپنے پاس بلایا ، انہوں نے بھی ایک خاص چالاکی اور فریب دے کر اس بہانے سے اپنے آپ کو طلیحہ سے جدا کیا کہ اپنے قبیلہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے قبیلہ کی طرف لوٹ آئے اگرو ہ یہ چالاکی نہ کرتے تو طلیحہ کا لشکر انھیں ہرگز نہ چھوڑتا ۔

اس طرح ، عدی قبیلہ غوث کو نجات دیکر انھیں ہلاک ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوا جو خاندان طی میں سے تھا اور خود عدی بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا ۔

سیف کہتا ہے : خالد نے فیصلہ کیا کہ قبیلہ طی کے ایک اور خاندان ” جدیلہ “ کی طرف روانہ ہوجائے عدی نے یہاں پر بھی اس سے مہلت چاہی تا کہ جس طرح قبیلہ ”غوث “ کو نجات دے چکا تھا ” جدیلہ “ کو بھی نجات دے سکے خالد نے یہاں پر بھی عدی کو مہلت دیدی اور وہ جدیلہ کی طرف روانہ ہوا اور ابو بکر کیلئے ان سے بیعت لینے تک ان کے درمیان رہا اور ان کے اسلام لانے کی خبر خالد کے پاس لے آیا ، اس طرح ” عدی “ قبیلہ طی کے ایک ہزار سوار مرد مسلمان فوج میں شامل کرنے میں کامیاب ہوا اور انھیں ہلاکت و بدبختی سے نجات دی ۔

یہاں پر یہ کہنا چاہئے کہ عدی ، قبیلہ طی میں ان کیلئے بہترین اور بابرکت ترین فرد تھا ۔

یہ تھا سیف کی چوتھی روایت کا خلاصہ ، جو اس نے قبیلہ طی کے مرتدوں کے بارے میں نقل کی ہے اور طبری نے بھی اس سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

سیف اپنی پانچویں روایت میں ” بزاخہ“ میں ” طلیحہ “ کے لشکر کی شکست کی تشریح کرنے کے بعد کہتا ہے ،

قبائل اسد، غطفان ، ہوازن اور طی سے کوئی عذر قبول نہیں کیا گیا جب تک کہ وہ ان افراد کو خالد کے حوالہ نہ کر دیں جنہوں نے مسلمانوں کو اذیتیں پہنچائی تھیں ۔

سیف اپنی چھٹی روایت میں ا م زمل کے ارتداد کو نقل کرنے کے ضمن میں کہتا ہے : قبائل غطفان ، ہوازن ، سلیم اور طی کے وہ افراد جنہوں نے لشکر سے فرار کیا تھا ، ام زمل کے گرد جمع ہوئے(۱)

____________________

۱۔ اس روایت کا باقی حصہ ہم ام زمل کی داستان میں نقل کریں گے ۔

سیف اپنی ساتویں روایت میں ” بطاح “ کی داستان بیان کرتا ہے اور اس کی ابتداء میں کہتا ہے :

خالد ، قبیلہ ” اسد“ ” غطفان “ ” طی “ اور ”ہوازن “ کے کام کو خاتمہ بخشنے کے بعد ” بطاح “ کی طرف روانہ ہوا ۔

یہ تھا قبیلہ ” طی “ کے ارتداد کی روداد کے بارے میں سیف کی سات روایتوں کا خلاصہ کہ ان سب کو طبری نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے

سندکی چھان بین

سیف کی مذکورہ سات روایتوں کی سند کے طور پر درج ذیل راوی ذکر ہوئے ہیں :

اولاً: حبیب بن ربیعہ اسدی کا نام ان روایوں میں آیا ہے جس نے بنی اسدسے مدینہ جاکر نماز پڑھنے اور زکوٰة معاف کرنے کی تجویز پیش کرنے کی داستان ” عمارہ اسدی “ نامی ایک اور راوی سے نقل کیا ہے جبکہ ہم نے ان دو راویوں کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب روایت میں نہیں پایا ہے ۔

اس دلیل کی بنا پر ہم سیف کے مذکورہ دو راویوں کو جعلی اور اس کے ذہن کی تخلیق سمجھتے ہیں ۔

ثانیا ً: ”سہل بن یوسف “ کا نام درج ذیل روایتوں کی سند میں پایا جاتاہے :

۱ ۔ ”طلیحہ“ کے گرد قبائل ” اسد “ ، غطفان “ اور ” طی کے جمع ہونے کی داستان ۔

۲ ۔ قبیلہ طی کا اپنی کھیتوں میں جمع ہونا ۔

۳ ۔ قبیلہ ” طی“ کی ” طلیحہ “ سے ملحق ہونے کی داستان اور یہ کہ عدی بن حاتم نے کس طرح ان کو ” طلیحہ “ کے لشکر سے جدا کیا ۔

۴ ۔ ” طلیحہ “ کی شکست کے بعد باقی مرتدوں کے ”ام زمل “ کے گردجمع ہونے کی داستان ۔

۵ ۔ بطاح کی داستا ن ، کہ خالد بن ولید مرتدوں کو کچلنے کے بعد بطاح کی طرف روانہ ہوا ۔

ان تمام روئیدادوں اور روایتوں کو سیف نے ” سہل بن یوسف “ سے نقل کیا ہے ، جبکہ حدیث کے راویوں میں ” سہل بن یوسف “ نامی کسی راوی کا کہیں وجود نہیں ہے بلکہ سہل ان راویوں میں سے ہے جنہیں سیف نے اپنے ذہن سے خلق کیا ہے اور اسے روایت نقل کرنے کا منصب سونپا ہے اور اسے تاریخ اسلام کے راویوں میں شامل کیا ہے تا کہ اس کے نام پر جھوٹ گڑھ کر مسلمانوں کے حوالے کردے ۔

یہ تھا قبیلہ ” طی “ کے ارتداد کی داستان کا خلاصہ ، اس متون و اسنادکے ساتھ جس کو آپ نے ملاحظہ فرمایا: اور اس کی داستان کو طبری نے سیف کی سات روایتوں سے حاصل کرکے سیف کی داستان سازی کے کارخانہ کا ٹریڈ مارک لگا کر اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دوسروں نے بھی اس جھوٹ کو طبری سے نقل کرکے اس کوپھیلایا ہے چنانچہ ” الاصابہ “ کا مؤلف ” ثمامہ “ و ”مھلھل “ (سیف کی روایتوں میں دونوں قبیلہ طی سے منسوب ہیں )چنانچہ وہ ان کے حالات مآخذکے ذکر کے ساتھ طبری سے نقل کرتاہے اور ” معجم البلدان “ کے مؤلف ” حموی “ نے بھی ” سنح “ کی تشریح میں ----جسے سیف نے قبیلہ طی کے شہروں کے ضمن میں اس کا ذکر کیا ہے ۔---سیف سے نقل کیا ہے ”مراصد الاطلاع “ کے مؤلف نے بھی لفظ ” سنح“ کی وضاحت میں اسے حموی سے نقل کیا ہے اسی طرح اس داستان کو ابن اثیر ، اور ابن کثیر نے بھی طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں ” طی “ کی داستان

طبری قبیلہ طی کی روداد کو ابن کلبی سے اور وہ ابو مخنف سے یوں نقل کرتا ہے :

قبیلہ طی کے سپاہیوں کی بنی اسد اور فزارہ سے مڈبھیڑ ہوتی تھی اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے تھے ، لیکن ان کے درمیاں جنگ واقع نہیں ہوتی تھی ”قبیلہ اسد و فزارہ “کہتے تھے : خدا کی قسم ہم کبھی ابو الفصیل یعنی ابوبکر کی بیعت نہیں کریں گے طی کے سپاہی اس کے جواب میں کہتے تھے خدا کی قسم وہ تمہارے ساتھ ایسی جنگ کرے گا کہ اسے ” ابوالفحل اکبر “ کہنے پر مجبور ہوجاؤ گے

طبری ابن کلبی سے مزید نقل کرتا ہے کہ جب خالد بن ولید بزاخہ کی طرف روانہ ہوا تو اس نے عکاشہ بن محصن(۱) اور ثابت بن اقرم(۲) کو لشکر کے پیش رو کی حیثیت سے وہاں بھیجا اور جب وہ اپنی ماموریت کی جگہ کے نزدیک پہنچے تو اتفاق سے طلیحہ اور اس کے بھائی کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوگئی ---

____________________

۱۔ عکاشہ ایک شخص تھا جو ابو محصن کے نام سے معروف تھا وہ قبیلہ اسد سے تعلق رکھتا تھا اور خاندان عبد شمس کا ہم پیمان تھا عکاشہ نے پیغمبر کے زمانے میں مدینہ ہجرت کی تھی اور اسلام کے تمام جنگوں میں شرکت کی ہے (اسد الغابہ ،ج(۴) / ۳۰۲)

۲۔ ثابت اقرم کا بیٹا اور گروہ انصار کا ہم پیمان تھا اس نے پیغمبر کے حضور تمام جنگوں میں شرکت کی اور جنگ موتہ میں بھی جعفر بن ابیطالب کے ساتھ شریک تھا کہ جعفر کی شہادت کے بعد اسلام کا پرچم اس کے ہاتھ میں دیدیا گیا لیکن اس نے اسے خالد کے حوالہ کیا اور کہا کہ تم فنون جنگ میں مجھ سے آگاہ تر ہو (الاصابہ ، ج(۲) / ۸۸)

جو مسلمانوں کے لشکر کااندازہ لگانے کیلئے اپنے قبیلہ سے باہر آئے تھے ،اور ان کے درمیان ایک جنگ واقع ہوئی جس میں عکاشہ اور ثابت ط،لیحہ اور اس کے بھائی کے ہاتھوں مارے گئے ۔

طلیحہ نے وہاں پر چندا شعار کہے اور ان کے ضمن میں یوں کہا:

جب میں نے ان کا قیافہ دیکھا ، مجھے اپنے بھائی کی یاد آئی اور میں نے یقین کرلیا کہ اب اپنے بھائی کے خون کا انتقام لے لوں گا اور جب میں نے اپنے بھائی کا انتقام لے لیا ،اس شب میں نے ابن اقرم اور عکاشہ غنمی کو خاک و خون میں غلطان کرکے چلا گیا ۔

طبری نے ابن کلبی سے نقل کیا ہے کہ : خالد اپنے لشکر کے ہمراہ آرہا تھا اس کے سپاہی ثابت کی زمین پر پڑی لاش پر توجہ کئے بغیر اس کے اوپر سے عبور کر گئے اور اس کا جسد ان کے گھوڑوں کے سموں تلے روندا گیا یہ روداد مسلمانوں کیلئے بہت گراں گزری ، اس کے بعد انہوں نے عکاشہ کا جنازہ دیکھا ۔ یہاں پر مسلمانوں نے بے ساختہ فریاد بلند کرکے روتے ہوئے کہا کہ : یہ دیکھو مسلمانوں کے دو عظیم شخصیتیں اور بہادر قتل کئے گئے ہیں !

طبری ایک اور روایت میں ا ضافہ کرکے کہتا ہے : جب خالد نے اپنے لشکر کی چیخ و پکار کی حالت دیکھی تو ان کی تسلی کیلئے کہا،کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک بڑے قبیلہ کے یہاں لے چلوں ، جن کی تعداد زیادہ ہے ، ان کی شان و شوکت محکم وہ اپنے دین و مذہب میں پایدار ہیں حتی ان میں سے ایک فرد بھی اسلام سے منحرف نہیں ہوا ہے اس کے سپاہیوں نے کہا: یہ کونسا قبیلہ ہے ؟ اور کیا بہتر قبیلہ ہے خالد نے کہا، جس قبیلہ کا میں نے تجھے تعارف کرایا ہے، وہ قبیلہ ” طی “ ہے سپاہیوں کو خالد کی بات پسند آئی اور انہوں نے اس کیلئے دعا کی اس کے بعد خالد اپنے سپاہیوں کے ہمراہ قبیلہ طی کی طرف لوٹا اور ان کے درمیان پہنچا ۔

ایک دوسری روایت کے مطابق کہ اسے بھی طبری نے نقل کیا ہے : قبیلہ طی کے معروف شخص ”عدی“ نے خالد کو پیغام بھیجا کہ اپنے لشکر کے ہمراہ اس کے قبیلہ کی طرف آئے اور ان کے درمیان کچھ دیر ٹھہرے تا کہ وہ طی کے قبیلہ والوں کو اطلاع دے اور خالد کے موجودہ لشکر سے ایک اسلحوں سے لیس لشکر تشکیل دے اور اس کے بعد دشمن کی طرف روانہ ہوجائے خالد نے عدی کی تجویز کو قبول کرکے اس پر عمل کیا ۔

یہ تھا اس کا ایک خلاصہ جو ہمیں قبیلہ طی کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اس کا مضمون سیف کی روایتوں سے بالکل مختلف ہے ۔

لیکن جو کچھ سیف نے طلیحہ کے ارتداد اور بزاخہ کی جنگ کے بارے میں روایت کی ہے اور حدیثیں گڑھ لی ہیں ، دوسرے مؤرخین نے اس کے برعکس لکھا ہے کہ مدینہ کے اطراف میں قبائل میں سے صرف دو قبیلوں نے طلیحہ کی مدد کرکے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرمی کی ہے ، ان میں سے ایک خود طلیحہ کا قبیلہ اسد ہے اور دوسرا گروہ فزارہ جو قبیلہ غطفان کا ایک حصہ ہے اور غطفان بھی قبیلہ قیس عیلان کی ایک شاخ تھی ان دو قبیلوں کے علاوہ کسی اور قبیلہ کا نام نہیں آیا ہے ،جس نے طلیحہ کے گرد جمع ہوکر مسلمانوں سے جنگ کی ہو(۱)

____________________

۱۔ یہ مطلب ” معجم البلدان “ میں لغت ” بزاخہ “ کے بارے میں ابوعمر شیبانی سے نقل ہو اہے اور فتوح اعثم کوفی میں بھی اس کا ذکر آیا ہے

مؤرخین مزید کہتے ہیں کہ قبیلہ اسد کی آبادیوں میں ایک آبادی ”بزاخہ“ میں طلیحہ کے سپاہ کااجتماع واقع ہوا ہے اور خالد بن ولید ”ذی القصہ “ سے قبیلہ فزارہ کے دو ہزار سات سو افراد لے کر ان کی طرف روانہ ہوا اور ان دو سپاہیوں کا اسی بزاخہ میں آمنا سامنا ہوا،اور ان کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی جب مسلمان طلیحہ کے سپاہیوں کو تہہ تیغ کررہے تھے ، عیینہ طلیحہ کے پاس آیا اور کہا: دیکھا ” ابوالفصیل“ کے سپاہی کیسی خونریزی کررہے ہیں کیا جبرئیل نے اس سلسلے میں تجھے خبر نہیں دی ہے ؟! طلیحہ نے جواب میں کہا: ابھی نہیں

عیینہ دوبارہ سپاہیوں کے صف میں شامل ہوکر جنگ میں مشغول ہوا اور اس دفعہ اسے سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا اوردوبارہ فرار کرکے طلیحہ کے پاس آکر پوچھا : جبرئیل کے بارے میں

کوئی خبر ہے ؟

طلیحہ نے کہا: ابھی تک کوئی خبر نہیں ہے

عیینہ نے کہا: آخر کب تک ہمیں جبرئیل کا انتظار کرنا چاہئے اب تو دشمن بری طرح ہمارا انتقام لے رہا ہے دوبارہ لشکر کی طرف جاکر جنگ میں مشغول ہوا جب خطرہ اس کے نزدیک پہنچا تو طلیحہ کی طرف بھاگ کر کہا: کیا ابھی تک جبرئیل نے کوئی خبر نہیں دی ؟

طلیحہ نے کہا: جی ہاں ، جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیہ میرے لئے نازل ہوئی :

اور دوسری کتابوں سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے چنانچہ طبری نے ابن کلبی سے نقل کیا ہے کہ قبیلہ طی کے سپاہیوں اور قبیلہ اسد اور فزازہ کے درمیان مڈبھیڑ ہوتی تھی ۔

”ان لک رحاً کرحا ویوماً لا تنساہ“

” تیرے لئے بھی ایک چکی ہے ، محمد کی چکی کے مانند اور ایک دن ہے ناقابل فراموش۔

عیینہ نے کہا: خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں تیرے سامنے ناقابل فراموش ایک دن ہے اس کے بعد اپنے افرادکی طرف مخاطب ہوکر یوں بولا :

اے بنی فزارہ ! یہ شخص دروغگو ہے اور پیغمبر نہیں ہے یہ کہہ کر وہ اس کے لشکر سے بھاگ گیا،اس رودادکے بعدطلیحہ کے لشکرنے مکمل طور پر شکست کھائی اور مسلمان کامیاب ہوئے اور عیینہ کو گرفتار کرکے مدینہ لے آئے لیکن ابوبکر نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ معاف کرکے اسے آزاد کیا دوسری طرف سے جب طلیحہ نے اپنی شکست کا یقین پیدا کیا تو پہلے سے ایسے موقع کیلئے آمادہ رکھے ہوئے ایک گھوڑے پر سوار ہوکر شام کی طرف بھاگ گیا ، لیکن مسلمان سپاہیوں نے اسے پکڑ کر مدینہ بھیجا وہ مدینہ میں مسلمان ہوا اور بعد کی جنگوں میں اسلام و مسلمین کے حق میں اچھے خدمات انجام دئے ۔

یعقوبی نے اس روداد کو دوسری صورت میں ذکر کیا ہے اور کہتا ہے : طلیحہ شام بھاگ گیا لیکن شام سے عذر خواہی کے طور پر دو شعر ابوبکر کے نام بھیج دئے اور ان دو اشعار کے ضمن میں یوں عذر خواہی کی :

اگر میں تو بہ کروں اور اپنے گناہوں سے منہ پھیر لوں تو کیا ابوبکر میری توبہ قبول کریں گے ؟

یعقوبی کہتا ہے :یہ خط جب ابو بکر کو پہنچا تو اس نے اس پر رحم کھا کر اسےمدینہ واپس بلا لیا ۔

تطبیق اورتحقیق کا نتیجہ

قارئین کرام نے یہاں تک ملاحظہ فرمایا کہ سیف نے اپنے جھوٹ کیلئے مقدمہ سازی کے طور پر قبیلہ طی کے ارتداد کی داستان کو سات روایتوں کے ذریعہ نقل کیا ہے ، اس طرح کہ : پہلی اور دوسری روایت میں قبیلہ طی کا ارتداد اور ان کا طلیحہ کے گرد اجتماع کرنا بیان کرتا ہے ۔

تیسری روایت میں ان کے ارتداد کی علت اور ان کے مدینہ جانے کی روداد کی وضاحت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قبیلہ طی نے چند نمائندوں کو مدینہ بھیجا اور تجویزپیش کی کہ نماز تو پڑھیں گے لیکن انھیں زکوٰة ادا کرنے سے معاف قرارد یا جائے اور تمام مسلمانوں نے اس کی تجویز کی تائید کی لیکن ابوبکر نے ان کی تجویز مسترد کرکے انھیں تین دن کی مہلت دی تا کہ غور و فکر کرکے بغاوت اور ارتداد سے ہاتھ کھینچ لیں وہ اس فرصت سے استفادہ کرکے اپنے قبائل کی طرف بھاگ گئے ۔

چوتھی روایت میں قبیلہ طی کے ایک گروہ پر یوں الزام لگاتا ہے کہ وہ طلیحہ کے لشکر سے ملحق ہوئے اوردوسروں کو ملحق ہونے میں حوصلہ افزائی کررہے تھے اس لئے ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ طلیحہ کے لشکر سے ملحق ہو اور دوسروں کو بھی ملحق ہونے میں حوصلہ افزائی کررہے تھے اس لئے ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ پہلے قبیلہ طے کی طرف روانہ ہوجائے اور انھیں طلیحہ کے ساتھ ملحق ہونے سے روکے ،سیف اس روایت میں کہتا ہے کہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو قبیلہ طی کی طرف روانہ کرنے سے پہلے عدی کو ان کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ طی کا ایک مشہور و معروف اور نیک شخص تھا ،تاکہ انھیں ارتداد اور بغاوت سے روک لے اور انھیں اسلام قبول کرنے اور اسلامی حکومت کے سامنے تسلیم ہونے کو کہے ،عدی نے خود کو قبیلہ کے پاس پہنچادیا اور انھیں ابوبکر کی بیعت کرنے کی دعوت دی ، لیکن انہوں نے جواب میں کہا: ہم ” ابو الفصیل“ اونٹ کے بچے کے باپ (ابوبکر) کی ہرگز بیعت نہیں کریں گے عدی نے کہا: ابوبکر (جسے تم لوگ ابو الفصیل کہتے ہو اور اس کی بیعت سے انکار کرتے ہو) آپ کی ناموس اور آبرو پر ایسا حملہ کرے گا اورتمہیں اسیر بنائے گا کہ اسے ” ابو الفحل اکبر “ کے نام سے یاد کرو گے قبیلہ طی نے جب عدی سے یہ باتیں سنیں تو خوف و وحشت سے دوچار ہوئے اور عدی کے ذریعہ خالد سے مہلت کی درخواست کی تا کہ اپنے افراد کو فریب کاری سے طلیحہ کے سپاہ سے واپس بلا کر خالد سے ملحق کریں خالد نے بھی ان کی درخواست منظور کی ۔

پانچویں روایت میں لشکر طلیحہ کی شکست کھانے کی روداد بیان کرتا ہے اور کہتا ہے خالد نے طلیحہ کی شکست کھانے کے بعد قبیلہ اسد اور طی کے کسی فرد کی بیعت قبول نہیں کی مگر یہ کہ جن افراد نے مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں نذر آتش کیا تھا اور ان کی لاشوں کو مثلہ کیا تھا ، کو ان کے حوالہ کردیں ۔

اور چھٹی روایت میں قبیلہ طی کو ان افراد میں شمار کرتا ہے جنہوں نے جنگ ” بزاخہ “ میں شکست کھانے کے بعد ” ام زمل “ کے گرد اجتماع کیا تھا ۔

آخر میں ساتویں روایت میں : قبیلہ طی کو ان لوگوں میں شمار کرتا ہے جنھیں خالد نے ” بطاح “ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے ارتداد سے باز آنے کے لئے آماد کیا تھا ۔

جی ہاں ! سیف قبیلہ طی کے ارتداد کی داستان اس طرح بیان کرتا ہے ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیوں کہ دوسرے مؤرخین کے لکھنے کے مطابق کہ جن کا ہم نے اس بحث و تحقیق میں ذکر کیا، ” طی “ وہی قبیلہ ہے کہ جس نے نہ صرف طلیحہ کی طرفداری نہیں کی ہے بلکہ طلیحہ کے لشکر کا مقابلہ کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ ابوبکر تمہارے ساتھ ایسی جنگ کرے گا کہ آپ اسے ابو ا لفحل کے نام سے پکاریں گے اوریہ وہی قبیلہ ہے کہ اسلام پرثابت قدم تھا اور افراد کی کثرت اورجنگی طاقت اور استقامت کی وجہ سے خالدبن ولید نے ان کے یہاں پناہ لی تھی اور طلیحہ سے جنگ میں ان سے مدد طلب کی تھی ۔

سیف نے اس تحریف اور جھوٹ گڑھ نے میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ قبیلہ طی کو مرتد قبائل کی فہرست میں قرار دے اور انہیں ایسے معرفی کرے کہ اسلام کی طرف دوبارہ پلٹنا موت اور اسارت کے ڈر سے تھا نہ عقیدہ و ایمان کی وجہ سے ، سیف ، قبیلہ طی کے علاوہ کئی دوسرے قبائل کو بھی مرتدوں میں شمار کرتا ہے اور انھیں طلیحہ کے دوست اورسپاہ میں شامل کرتا ہے جبکہ طلیحہ کے لشکر میں قبیلہ اسد کے چند افراد ----جو اس کا اپنا قبیلہ تھا ----اور فزارہ کے رئیس عیینہ کی سرپرستی میں بعض افراد کے علاوہ دوسرے قبائل سے کوئی شامل نہیں تھا ۔

سیف نے ان افسانوی اور جھوٹ کے پلندوں کو خود جعل کرکے مؤرخیں اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے اختیار میں د یدیا ہے لیکن افسوس اس پر ہے کہ یہ جھوٹ اور افسانے تاریخ کی کتابوں اسلامی علوم کے مآخذ میں داخل ہوگئے اور آج مسلمانوں میں اشاعت اور رواج پیدا کرچکے ہیں یہاں تک کہ اماکن اور علاقوں کے نام جو سیف نے اپنی روایتوں کے ضمن میں جعل کئے ہیں ، معجم البلدان میں درج ہوچکے ہیں او راشخاص اور اصحاب کے نام جو اس نے خلق کئے ہیں رجال کی کتابوں اور تشریحات اور اصحاب پیغمبر کی زندگی کے حالات پرمشتمل کتابوں میں درج ہوکر حقیقی صورت اختیار کرچکے ہیں ۔

حدیث کے راویوں کا سلسلہ

اولا : سیف نے ارتداد قبیلہ طی کی داستان کو :

۱ ۔ سہل بن یوسف ۔

۲ ۔ حبیب اسدی ۔

۳ ۔ عمار اسدی۔

سے نقل کیا ہے پانچ روایتوں میں سہل کا نام پایا جاتا ہے اور ایک روایت میں حبیب اور عمارہ کا نام ہے یہ تینوں سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں ۔

ثانیا ً: سیف سے :

۱ ۔ طبری نے ذکر سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں ۔

۲ ۔ مؤلف ” اصابہ “ نے ذکر سند کے ساتھ اصحاب کے حالات کی تفصیل میں ۔

۳ ۔ معجم البلدان کے مؤلف نے سند کے ذکر کے بغیر اماکن کے حالات کی تفصیل میں ۔

درج کیا ہے ۔

ثالثاً طبری اور معجم البلدان سے بھی :

۱ ۔ ابن اثیر نے

۲ ۔ ابن کثیر نے اور

۳ ۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ام زمل کے ارتداد کی داستان

ابیدت فیها بیوتات

اس جنگ میں بہت سے خاندان نابود ہوئے ۔

سیف

طبری ” ام زمل “ نامی ایک عورت کے ارتداد کے بارے میں ایک اور مفصل داستان سیف سے نقل کرتا ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

ام زمل جس کا نام سلمی تھا ، ایک ارجمند اور مقتدر عورت تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں میں شمار ہوتی تھی ، وہ عزت واحترام میں اپنی ماں ام فرقہ بنت ربیعہ سے کچھ کم نہ تھی ، یہ عورت ابوبکر کے زمانے میں مرتد ہوئی اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف اس نے بغاوت کی، ”جنگ بزاخہ“ اور طلیحہ کے تمام شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے سپاہی اس کے گرد جمع ہوئے ،اس کے بعد سیف کی خیالی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہوکر بھاگے ہوئے قبائل غطفان ، ہوازن ، سلیم، اسد اور طے کے بچے کچھے سپاہی بھی اس عورت کے لشکر سے ملحق ہوئے اس کے علاوہ مرتد ہوئے قبائل کے تمام فراری اور آوارہ لوگ بھی اس سے جا ملے اور اس طرح اس نے مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک عظیم لشکر منظم کیا، اس بڑے لشکر کی کمان خود ام زمل نے سنبھالا۔

یہ لشکر مسلمانوں سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوا، جب یہ خبر مسلمانوں کے سپہ سالار خالد بن ولید کو پہنچی تو وہ ام زمل کے لشکرکی طرف روانہ ہوا اور ان کے درمیان ایک شدید جنگ واقع ہوئی اس جنگ میں ام زمل ایک عظیم الجثہ اونٹ پر سوار تھی یہ اونٹ اسے اپنی ماں کی طرف سے وراثت میں ملا تھا ، جسے ایک محترم اونٹ مانا جاتا تھا ،کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس اونٹ کو معمولی تکلیف پہنچاتا تو اسے اس کے مقابلہ میں سو اونٹ دینا پڑتے تھے ، ام زمل ایسے ہی اونٹ پر سوار ہوکر سپاہ کی کمانڈ کررہی تھی اور اپنی والدہ ام فرقہ کی طرح عجیب اور بے مثال بہادری اور شجاعت کے ساتھ مسلمانوں سے لڑرہی تھی۔

سیف کہتا ہے :

اس جنگ میں خاسی، ہاربہ، اور غنم قبیلہ کے بہت سے خاندان نابود ہوئے اور قبیلہ ” کاہل“ کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور ام زمل کے اونٹ کے اطراف میں کشتوں کے پشتے لگ گئے کہ صرف ام زمل کے اونٹ کے اطراف میں سو سے زائد لاشیں پڑی تھیں ،آخرکار یہ جنگ ام زمل کے قتل اور مسلمانوں کی فتحیابی پر ختم ہوئی مسلمانوں کی فتح کی نوید مدینہ بھیجی گئی ۔

یہ بھی مرتدوں کی ایک اور جنگ ہے کہ سیف نے اسے مؤرخین کیلئے تحفہ کے طور پر پیش کیا ہے اور کہتا ہے کہ اس جنگ میں قبائل خاسی، ھاربہ اور غنم کے کئی خاندان نابود ہوئے اور قبیلہ کاہل کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور ام زمل کے اونٹ کے اطراف میں بھی مختلف قبائل کے ایک سو افراد قتل ہوئے ۔

یہ تھی سیف کے بقول ام زمل کے ارتداد اور مسلمانوں کے ساتھ اس کی جنگ کا خلاصہ جو بنیادی طور پر جھوٹ اور جعلی ہے اس جنگ کے تمام جزئیات اور تانے بانے کو سیف نے خود گڑھا اور بنا ہے حتی اس جنگ کی سپہ سالار اور سورما ، ام زمل نامی عورت بھی سیف کے ذہن کی تخلیق ہے اس کے علاوہ سہل نامی اس داستان کا راوی بھی سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ، اس کے بعد اس داستان کو سیف سے طبری ، حموی اور ابن حجر نے نقل کر کے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ، بعد میں دوسرے مؤرخین نے بھی ان تین افراد سے نقل کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اس طرح یہ افسانوی او رجھوٹی داستان تاریخ کی کتابوں اور اسلامی متون میں شامل ہو گئی ہے(۱)

____________________

۱۔ ہم نے کتاب عبدا للہ بن سبا کی جلد اول میں فصل ” نباح کلاب الحواب “ اور جلد دوم میں فصل ” رواة مختلفون “ میں ” ام زمل “ کے حالات کی تشریح میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔

عمان اور مہرہ کے باشندوں کے ارتداد کی داستان

و قتلوا من المشرکین فی المعرکة عشرة آلاف

اس جنگ میں مسلمانوں نے دس ہزار مشرکین کو قتل کر ڈالا ۔

سیف

سیف کی روایت

جیسا کہ طبری سیف سے نقل کرتا ہے ، مسلمانوں کا ” دبا“ کے مقام پر مشرکین سے آمنا سامنا ہوا اور ان کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس جنگ میں مسلمان فتحیاب ہوئے اور دس ہزار مرتدوں کو قتل کر ڈالا، ان کے بچوں کو اسیر بنایا ان کا مال و منال لوٹ لیا اور آپس میں تقسیم کردیا ، اسیروں میں سے پانچویں حصہ ---- جن کی تعداد آٹھ سو سے زیاد ہ تھی --- کو اسیروں کے خمس کے عنوان سے ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا ۔

سیف کہتا ہے : مسلمانوں نے ” دبا“ کے مشرکین سے جنگ کے بعد ”مہرہ“ کی طرف کوچ کیا تا کہ وہا ں کے مشرکین سے لڑیں ” مہرہ “ کے مشرکین دو گروہ میں منقسم تھے اور سرداری کے موضوع پر آپس میں اختلاف و جنگ کرتے تھے ، ان میں سے ایک گروہ کی سرپرستی خاندان ” شخرات“ نامی ایک شخص کررہا تھا یہ گروہ ” جیروت “ میں زندگی گذار رہا تھا اور اس کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جیروت سے ”نضدون“ تک پھیلے ہوئے تھے ، اس کے بعد سیف ” جیروت “ اور نضدون کاتعارف کراتے ہوئے کہتا ہے : ” جیروت“ اور ” نضدون “ ” مہرہ “ کے بیابانوں میں سے دو بیابان ہیں ۔ اس کے بعد اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے : مسلمان جب ” مہرہ “ پہنچے تو ” شخریت“ مسلمانوں کے کمانڈر سے ملحق و متحد ہوکر ان کا ہم پیمان ہو گیا اور اپنے تمام افراد و سپاہیوں کے سمیت مسلمانوں کے لشکر سے ملحق ہوا اور انہوں متحد ہوکر مشرکین کے دوسرے گروہ کی طرف کوچ کیا یہاں پر ” دبا“ کی جنگ سے ایک شدیر تر جنگ واقع ہوئی اور آخر کار مشرکین کا سردار مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور مشرکین کے لشکر کو شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا اور مسلمانوں کے فوجیوں نے انھیں تہہ تیغ کیا اور حتی الامکان ان کے افراد کا قتل عام کیا ،ان کے مال و منال کو غنیمت کے طور پر لوٹ لیا اور ان کا پانچواں حصہ غنائم کے خمس کے طور پر ابوبکر کو بھیج دیا اس جنگ میں مسلمانوں نے اس قدر مشرکین سے جنگی غنائم حاصل کئے کہ ان میں سے صرف ایک قسم عمدہ نسل کے دو ہزار گراں قیمت گھوڑے تھے ۔

سیف کہتا ہے : جب یہ پے در پے فتحیابیاں مسلمانوں کو نصیب ہوئیں تو اس علاقہ کے تمام لوگوں میں خوف و وحشت پھیلی اور سب لوگوں نے جان و مال کے خطرہ میں پڑنے کے ڈر سے اسلام قبول کیا ،ان جنگوں کے نتیجہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے ان میں ، ریاضہ ، مر،للبان ، جیروت ، ظہور السحر، الصبرات ، ینعب َ اور ذات خیم کے باشندے تھے ،ان علاقوں کے باشندوں کے مسلمان ہونے کی روداد کو نوید کے طور پر مرکز اسلامی میں ابوبکر کو اطلاع بھیج دی گئی ۔

یہ تھا اس داستا ن کا ایک حصہ جسے سیف نے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے اور طبری نے بھی اسے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے اور دوسرے مؤرخین جیسے ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

حموی نے بھی اس داستان میں ذکر ہوئے شہروں اور علاقوں کے نام سیف سے نقل کرکے شہر اور اماکن کی فہرست میں قرار دے کر سیف کی روایتوں سے ان کیلئے تفصیل و تشریح لکھی ہے مراصد الاطلاع کے مؤلف نے بھی حموی سے نقل کیا ہے ابن حجر نے بھی ” شخرات “ نامی شخص (جو اس داستان میں آیا ہے) کو سیف سے نقل کرکے اس کی زندگی کے حالات کو” اصابہ “ میں اصحاب رسول کی فہرست میں درج کیا ہے ،اس طرح یہ جھوٹی داستانیں ، ان میں ذکر ہوئے اشخاص و اماکن کے نام اشخاص کے حالات سے مربوط کتابوں میں درج ہونے کے بعد ”معجم البلدان “ (شہروں اور اماکن سے مربوط کتابوں ) آگئے ہیں ، اور آج تک تاریخ اسلام کے حقیقی واقعات کے طور پر مسلمانوں کے اختیار میں قرار پائے ہیں ۔

اس داستان کی سند کی چھان بین

سیف نے محکم کاری اور دانشوروں کو اطمینان دلانے کیلئے عمان اور مہرہ کے باشندوں کی افسانوی داستان کو دو اسناد سے نقل کیا ہے ان دو مآخذ میں سے ایک میں ” سہل بن یوسف ‘ کا نام ہے اور دوسری میں ” غصن بن قاسم “ کا نام آیا ہے ، ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے کہ یہ دونوں راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور اس قسم کے راویوں کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں عمان او رمہرہ کے باشندوں کی داستان : قارئین کرام نے یہاں تک عمان اور مہرہ کے باشندوں کے ارتداد کی داستان کو سیف کی زبانی سنا ،اب ہم دوسرے معتبر راویوں کی زبانی اسی داستان کو بیان کرتے ہیں تا کہ سیف کی خود غرضیاں واضح اور روشن ہوجائیں ۔

کلاعی کتاب ” اکتفاء “ میں اور ابن عثم کوفی کتاب ” فتوح “ میں کہتا ہے : عکرمہ(۱) ا پنے لشکر کے ساتھ ” دبا“ کی طرف روانہ ہوا ا ور اس کے سپاہیوں کا ” دبا“ کے باشندوں کے ساتھ آمنا سامنا ہوا اور ان کے درمیان جنگ ہوئی، مسلمانوں کے حملے سخت اور کاری تھے اور ” دبا“ کے سپاہی ان کے مقابلے میں تاب نہ لا سکے اور شکست کھا کر بھاگ گئے اور اپنے شہر کے آخری نقطہ تک پیچھے ہٹے ، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں تہہ تیغ کیا اور اس جنگ میں ان کے ایک سو سپاہیوں کو قتل کر ڈالا، باقی لوگوں نے قلعوں اور آبادیوں میں پناہ لے لی ،مسلمانوں نے انھیں اسی قلعہ میں محاصرہ کردیا، جب ” دبا“ کے لوگوں نے خود کو محاصرہ میں پایا تو انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈال

____________________

۱۔ عکرمہ بن ابی جہل قبیلہ قریش اور خاندان مخزوم سے تھا ، اس کی ماں ”ام مجالد “ہلال بن عامر کے خاندان سے ہے عکرمہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں پیغمبر خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ میں اسے قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا اور وہ ڈر کے مارے یمن بھاگ گیا تھا اس کے بعد اس کی بیوی ام حکیم (چچیری بہن)اور حارث بن ہشام نے اس کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے امان حاصل کیا اور اسے مکہ میں پیغمبر کے حضورمیں پیش کیا، عکرمہ وہاں پر مسلمان ہوا اس کے بعد اس نے کہا: یا رسول اللہ جتنے پیسے میں نے آج تک آپ کے خلاف صرف کئے ہیں اسی مقدار میں پیسے راہ خدا میں صدقہ دیدوں گا یہ وہی عکرمہ ہے جسے ابوبکر نے مردوں کی جنگ میں کمانڈر مقرر کیا وہ جنگ اجنادین یا یرموک یا جنگ صفر جو شام کی جنگوں میں سے ایک تھی ۱۳ ھء میں قتل ہو (اسد الغابہ ۴/ (۶) ، تاریخ اسلام ذہبی ج ۱/۳۸۰)