عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 15946
ڈاؤنلوڈ: 2914


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15946 / ڈاؤنلوڈ: 2914
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

دئے ،مسلمانوں نے ان کے سرداروں اور کمانڈروں کو قتل کر ڈالا اور باقی لوگوں ----جن میں تین سو جنگجو اور چار سو عورتیں اور بچے تھے---- کو ابوبکر کے پاس بھیج دیا،ابوبکر ان کے مردوں کو قتل کرکے عورتوں اور بچوں کو مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے عمر نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ یہ مسلمان ہیں اور دل سے قسم کھاتے ہیں کہ ہم اسلام سے منحرف نہیں ہوئے ہیں لیکن مال و دولت سے ان کی انتہائی دلچسپی انہیں زکوٰةدینے سے روکتی تھی جس نے انھیں اس انجام تک پہنچادیا ہے ۔

اسلئے ابوبکر نے ان کو قتل نہیں کیا لیکن ان کو مدینہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی انھیں مدینہ میں نظر بند رکھا گیا یہاں تک عمر کی خلافت کا دور آگیا اور انھوں نے انھیں آزاد چھوڑدیا،کلاعی اضافہ کرتا ہے کہ وہ آزاد ہونے کے بعد بصرہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں پر رہائش اختیار کی ۔

بلاذری ”مہرہ“کے باشندوں کے بارے میں کہتا ہے :قبیلہ مہرة بن حیدان کے بعض لوگوں نے اجتماع کیا عکرمہ ان کی طرف روانہ ہوا اور انہوں نے اپنے مال کی زکوٰةاسے ادا کی اس لئے ان کے درمیان کوئی نبرد آزمائی نہیں ہوئی ۔

تحقیق و تطبیق کا نتیجہ

سیف کہتا ہے : مسلمانوں نے عمان کے باشندوں کے ساتھ جنگ میں ان کے دس ہزار افرادکو قتل کر ڈالا اور ان کے بہت سے لوگوں کو اسیر بنایا جس کے پانچویں حصہ کی تعداد آٹھ سو افراد پر مشتمل تھی جبکہ دوسرے مؤرخین نے ان کے چند سرداروں سمیت کل مقتولین اور اسیروں کی تعداد صرف آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

لیکن ، مہرہ کے باشندوں کے بارے میں سیف کہتا ہے کہ وہ دو گرہوں میں منقسم تھے اور ان میں سے ایک گروہ نے مسلمانوں سے اتحاد کیا اور دوسرے تما م مشرکوں سے لڑے اور یہ جنگ ” دبا“ کی جنگ سے شدید تر تھی اس جنگ میں مشرکین کا سردار مارا گیا اور مسلمانوں سے جتنا ممکن ہوسکا قتل عام کیا اور ان کے مال و ثروت کو دلخواہ حد تک لوٹ لیا اس جنگ میں دیگر اموال و غنائم کے علاوہ دو ہزار گراں قیمت اور اچھے نسل کے گھوڑے مسلمانوں کے نصیب ہوئے کہ ان کا پانچواں حصہ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا، اس قتل و غارت کے بعد اس علاقہ کے لوگ دوبارہ اسلام کے دائرے میں آگئے ۔

جبکہ دوسرے مؤرخین کہتے ہیں مہرہ کے لوگوں کے درمیان ایک چھوٹا سا اجتماع منعقد ہوا تھا جب عکرمہ مہرہ میں داخل ہوا تو مہرہ کے لوگوں نے کسی جنگ کے بغیر اپنے مال کی زکوٰةادا کی ۔

داستان کا خلاصہ

عمان کے باشندوں کے ارتداد کی داستانوں نے جو تلخ و ناگوار نتائج مسلمانوں کے حوالے کیا وہ حسب ذیل ہیں :

۱ ۔ شخریت نامی ایک اور جعلی صحابی کا نام اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فہرست میں اضافہ کیا گیا اور اس کی زندگی کے حالا ت علم رجال کی کتابوں اور اصحاب رسول کے حالات پر مشتمل مآخذمیں درج کئے گئے ہیں اور انھیں جھوٹ کے ساتھ ممزوج کیا گیا ہے ۔

۲ ۔ اسلامی جغرافیہ کی کتابوں میں آٹھ افسانوی سرزمنیوں کو مختلف ناموں کے ساتھ درج کیا گیا ہے اور اس طرح ان کی کتابوں کی قدر و منزلت اور اعتبار کو گرا دیا گیا ہے ۔

۳ ۔ اسلام کو تلوار اور خون کا دین معرفی کرنے کے افسانوں میں دو اور افسانوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس طرح دشمنوں کے بہانہ کو تقویت بخشی ہے۔

عمان اور مہرہ کے باشندوں کے ارتداد کے افسانہ کے راویوں کا سلسلہ

اولاً: سیف نے عمان اور مہرہ کے باشندوں کے ارتداد کی روایت کو دو طریقوں سے نقل کیا ہے :

ایک کو سہل بن یوسف سے نقل کیا ہے اور دوسری کو غصن بن قاصم سے نقل کیا ہے لیکن یہ دونوں شخص سیف کے جعلی اور نقلی راوی تھے عالم اسلام میں اصلاً اس قسم کے راویوں کا کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔

ثانیاً:سیف سے :

۱ ۔ طبری نے سیف کے استناد سے ۔

۲ ۔ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں سند کی ذکر کے بغیر۔

۳ ۔ ابن حجر نے ” اصابہ “ میں سیف کے استناد سے ۔

اس کے علاوہ :

۴ ۔ ابن اثیر نے

۵ ۔ ابن کثیر اور

۶ ۔ ابن خلدون نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۷ ۔ عبدا لمؤمن نے بھی معجم البلدان سے نقل کرکے اسے ” مراصدالاطلاع“ میں درج

کیا ہے۔

اہل یمن اور اخابث کا ارتداد

و انما اختلق سیف بن عمر

ان سب کو سیف بن عمر نے بذات خود جعل کیا ہے ۔

مؤلف

اہل یمن کا ارتداد

سیف کہتا ہے : ابوبکر کی حکومت کے دوران جب نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والا ” اسود“ ہلاک ہوا ، تو اس کے حامیوں کا ایک گروہ ازد، بجیلہ و خثعم کے مختلف قبائل کے افراد پر مشتمل تشکیل پایا اور ”حمیضہ بن نعمان “ کے گرد جمع ہوئے اور صنعا و نجران کے درمیان رفت و آمد کرتے رہے ابوبکر کی طرف سے مقرر کردہ طائف کے حاکم عثمان بن ابی العاص نے عثمان بن ربیعہ کی کمانڈری میں ایک لشکر ان کی طرف روانہ کیا ۔

یہ دو لشکر ’ ’ شنواء“ نام کی ایک سرزمین پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں قرار پائے اور ان کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑگئی یہ جنگ کفار کی شکست اور انکے تتر بتر ہونے پر ختم ہوئی اور ان کا سردار حمیضہ بھی کسی دور دراز علاقہ کی طرف فرار کرکے روپوش ہو گیا۔

اہل یمن کا دوسرا ارتداد

سیف کہتا ہے: جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی تو ابوبکر نے یمن کے سرداروں اور بزرگوں کے نام ایک خط لکھا اور اس میں انھیں دعوت دی کہ اپنے دین پر پائیداری اور استقامت کے ساتھ باقی رہیں اور ایرانی نسل کے لوگوں --- جو ” ابناء“ یعنی فرزندان فارس کے نام سے مشہور تھے ---- کی نصرت کریں ، اور ان کے سردار فیروز کی اطاعت کریں ،جب یہ خبر قیس بن عبدیغوث کو پہنچی تو اس نے ظلم و ستم، بربریت اور وحشتناک قتل عام کا آغاز کیا ۔

اس نے ” ابناء“ کے بزرگوں کو قتل کر ڈالا اور باقی لوگوں کو شہر یمن سے شہر بدر کیا اسود عنسی کے سپاہی (جو یمن کی پہلی جنگ میں شکست کھاکر فرار کرگئے تھے اور پراکندہ حالت میں مسلمانوں سے لڑرہے تھے)کے نام خفیہ طور پر ایک خط لکھا اور انھیں دعوت د ی کہ اس کے ساتھ ملحق ہوکر مسلمانوں کو کچلنے کیلئے ان سے اتحاد کریں ، انہوں نے قیس کی دعوت کا مثبت جواب دیا اوراس کی طرف روانہ ہوئے اس سے پہلے کہ وہ قیس تک پہنچتے ، قیس نے فیصلہ کیا کہ ”ابناء“ کے سرداروں اور بزرگوں کو مکر و فریب کے ذریعہ قتل کر ڈالے ، اس لئے اس نے ان کو ایک ایک کرکے دعوت دی اور یہ دعوت پہلے ”ازویہ “ سے شروع کی اور اسے ایک بہانہ سے اپنے گھر بلایا اور دھوکہ سے قتل کرڈالا۔

جب ”ابناء“ کے دوسرے سردار اور معروف شخصیتیں قیس کے مقصد سے آگاہ ہوئے تو وہ ڈر کے مارے پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ، قیس نے ان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے یمن سے نکال باہر کرکے ان کے اصلی وطن ایران کی طرف روانہ کیا ،بالکل اسی اثناء میں اسود کے باقی بچے فوجی بھی قیس کی دعوت کے مطابق اس کے پاس پہنچے اور ” صنعاء“ میں اسکے لشکر سے ملحق ہوگئے ۔ یہاں پر ” صنعاء“ اور اس کے اطراف میں ایک زبردست انقلاب رونما ہوا، ”ا بناء“ کے سردار فیروز نے قیس کے لشکر کو کچلنے کیلئے بعض قبائل کی مدد کی درخواست کی اور ایک لشکر کو مسلح و اآراستہ کرکے قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ، یہاں تک اس نے ابناء کی عورتوں اور بچوں کو دشمن سے آزاد کر کے اپنے پاس لے آیا ،دوسری بار بھی یہ دو لشکر صنعاء کے نزدیک ایک دوسرے سے متخاصم ہوئے یہاں پر ایک شدید تر جنگ واقع ہوئی اس جنگ میں فیروز کا لشکر کامیاب ہوا اور قیس کی فوج کو سخت شکست دیدی اور خود قیس کو بھی گرفتار کرکے ابوبکر کے پاس بھیج دیا۔

اخابث کا ارتداد

سیف کہتا ہے : تہامہ میں جو پہلی شورش اور بغاوت رونما ہوئی وہ قبیلہ ”عک“ و ”اشعر“ کے ذریعہ تھی، انہوں نے مرتد ہونے اور بغاوت پر اترنے کے بعد ” اعلاب“نامی ایک ساحلی جگہ پر اجتماع کیا ،”طاہر بن ابی ہالہ“ --- جو اسلامی حکومت کی طرف سے عک و اشعر کا حاکم تھا ---مرتد نہ ہوئے قبائل کے چند افراد کے ساتھ ان دو قبائل کے مرتدوں کی طرف روانہ ہوا ، اور ” اعلاب “ کی جگہ پر ان سے روبرو ہوا ور ان کے درمیان ایک جنگ چھڑگئی نتیجہ کے طور پر قبیلہ عک اور ان کے حامیوں نے شکست کھائی اور وہ سب قتل ہوگئے ان کی لاشیں اتنی دیر زمین پر پڑی رہیں کہ وہ سڑگئیں اور ان کی بدبو تمام اطراف اور قافلوں کی راہوں تک پھیل گئی یہ فتحیابی مسلمانوں کیلئے ایک عظیم فتح شمار ہوئی ، چونکہ ابوبکر نے ابی ہالہ کے نام اپنے خط میں ان دو قبیلوں کے باغی اور نافرمان افرادکو اخابث یعنی خبیت افراد اور ان کی راہ کو ” راہ خبث“ کہا تھا ، اسی لئے ان دو قبیلوں کو اس تاریخ کے بعد ”اخابث“ کہا جاتا ہے اور یہ جنگ بھی ” جنگ اخابث“ اور یہ راستہ بھی ” راہ اخابث“ کے نام سے مشہور ہوا ۔

ان روایتوں کے اسناد کی تحقیق اور ان کا تاریخ کی کتابوں میں درج ہونا :

سیف سے نقل کی گئی ان روایتوں کی سند میں حسب ذیل راوی ذکر ہوئے ہیں :

۱ ۔ سہل : یہ وہی سہل بن یوسف سلمی ہے جو سیف کی روایتوں کا افسانوی سورما ہے۔

۲ ۔ مستنیر بن یزید : اس کو سیف نے قبیلہ نخع سے متعارف کرایا ہے۔

۳ ۔ عروة بن غزیہ : سیف نے اسے قبیلہ دثین سے شمار کیا ہے ۔

ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے کہ ان راویوں میں سے کوئی ایک بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا اور یہ سب سیف کی ذہن کی تخلیق اورپیداوار ہیں ۔

طبری نے بھی ان روایتوں کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ۱۱ ھء کے حوادث کے ضمن میں درج کیا ہے ،ابن اثیر نے بھی طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ، ابن کثیر نے بھی ان ہی داستانوں کے خلاصہ کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے ۔

” الاصابہ“ کے مؤلف نے ” ابن ابی ہالہ “ عثمان بن ربیعہ اور حمیضہ بن نعمان کی زندگی کے حالات کے بارے میں ان ہی داستانوں پر اعتماد کرکے ان کے نام اور کوائف کو سیف کی ان ہی روایتوں سے استفادہ کرکے ان کے بارے میں اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیثیت سے بھی تشریح لکھی ہے ۔

معجم البلدان میں لفظ ” اعلاب “ و ” اخابث“ کی تشریح کے سلسلے میں یاقوت حموی کا مآخذ بھی سیف کی عبارتیں ہیں ،وہ کہتا ہے : ابوبکر نے اس قبیلہ کے افراد اور اطراف سے ان کی طرف آنے والے افراد کو ” اخابث “ کہا ہے،اور یہ گروہ اس تاریخ سے آج تک اخابث کے عنوان سے معروف ہوا ہے اور جس راہ پر وہ چلے ہیں اسے راہ اخابث کہا جاتا ہے

اس عبارت کے خلاصہ کو ابن اثیر اپنی تاریخ میں درج کرکے یوں لکھتاہے :

ابوبکر نے اس قبیلہ کو ” اخابث“ اور جس راہ پر وہ چلے تھے اسے راہ اخابث نام رکھا اور یہ تمام آج تک ان کیلئے باقی ہے ۔

چونکہ معجم البلدان کے مؤلف اور ابن اثیر کے بیان میں بھی یہ جملہ آیا ہے کہ انھیں اخابث کہا گیا ہے اور یہ نام ابھی تک باقی ہے لیکن ان کے بیان میں اس روایت کا مآخذ اور راوی ذکر نہیں ہوا ہے پڑھنے والا گمان کرتا ہے کہ یہ جملہ خود ابن اثیر اور معجم البلدان کے مؤلف کا ہے کہ ان کے زمانے میں اخابث نام کی راہ اور لوگ موجود تھے،اور انہوں نے اس راہ اور ان لوگوں کے نام کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور ان کی تشریح اور تفصیل لکھی ہے،لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام نابود ہوکر فراموش ہو گئے ہیں ۔

اور یہ ہمارے زمانے میں اس قسم کی جگہوں اور لوگوں کا نام و نشا ن نہیں ہے جبکہ ابن اثیر مؤلف معجم البلدان اور نہ طبری کے زمانے میں اس قسم کی راہ یا جگہ یا لوگوں کا روئے زمین پر کہیں وجود تھا اور نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد اور حتی نہ خود سیف کے زمانہ میں اس قسم کی کوئی جگہ یا لوگ موجود تھے بلکہ انھیں سیف بن عمر نے خود جعل کرکے اپنے تمام جعلیات میں اضافہ کیا ہے اور سیف کے بعد آنے والوں نے بھی اس کی عین عبارتوں اور الفاظ کو نقل کیا ہے اور یہی موضوع دوسروں کی غلط فہمی کا سبب بنا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت

ہم نے مؤرخین میں سیف کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ہے جس نے اہل یمن کیلئے ارتداد کی دو جنگوں کا ذکر کیا ہو اور کہا ہو کہ کوئی گروہ بنام اخابث تھا اور وہ مرتد ہوا تھا اس سلسلہ میں صرف بلاذری ایک مختصر بات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : قیس پر ”ازویہ “ کے قتل کا الزام لگا تھا اور ابوبکر کو بھی اس روداد کی خبر ملی کہ وہ صنعا میں مقیم ایرانیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا چاہتا تھا اور ان کے ایک مشہور شخص ”ازویہ “ کو قتل کیا ہے لہذا اس موضوع کرے بارے میں وہ ناراض اور غضبناک ہوا اور صنعا میں اپنے حاکم کو حکم دیا کہ قیس کو گرفتار کرکے مدینہ بھیج دے جب قیس مدینہ میں داخل ہوا تو اس نے ازویہ کے قتل کے بارے میں انکار کیا ،ابوبکر نے اسے مجبور کیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر کے پاس جاکر پچاس مرتبہ قسم کھائے کہ وہ ”ازویہ “ کے قتل کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتا ہے ۔

اس نے قسم کھائی اس کے بعد ابوبکر نے اس کی بات مان لی اور اسے آزاد کرکے حکم دیا کہ شام جاکر رومیوں سے لڑنے والے اسلام کے سپاہیوں کی مدد کرے ۔

نتیجہ اور خلاصہ

جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مؤرخین میں سے کسی نے بھی اس فصل میں ذکر ہوئی سیف بن عمر کی داستانوں کے بارے میں نقل نہیں کیا ہے ،اور بنیادی طورپر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں ” حمیضہ “ اور ” عثمان بن ربیعہ “ نام کے کمانڈروں کا کہیں وجود نہیں تھا تا کہ یمن کے مرتدوں کے ساتھ ان کی جنگ صحیح یا غلط ثابت ہو۔

جس طرح خداوند عالم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ کے طاہر بن ابی ہالہ نامی فرزند کو اصلا خلق نہیں کیا ہے تا کہ اخابث کے مرتدو ں سے وہ جنگ کرے اس طرح قطعاً اعلاب اور اخابث نامی کسی جگہ کو بھی روئے زمین پرخلق نہیں کیا ہے تا کہ وہاں پر کوئی جنگ واقع ہو۔

جی ہاں ! نہ ایسی کوئی جنگ واقع ہوئی ہے جس کے اوصاف سیف نے بیان کئے ہیں اور نہ کوئی جگہ اس نام و نشان کی موجود تھی اور نہ اس قسم کے کمانڈروں ،جنگ کے بہادروں اور ارتداد کا کہیں نام و و نشان تھا بلکہ یہ سب اور ان کے جزئیات و کوائف اور سورما سیف بن عمر کے خلق کئے ہوئے ہیں ، جس طرح اس نے سہل بن یوسف عروة بن غزیہ دثینی اورمستنیر جیسے راویوں کو اپنے ذہن سے خلق کیا ہے اور یہ داستانیں ان سے ہمارے لئے نقل کی ہیں ۔

گزشتہ فصلوں کا خلاصہ و نتیجہ

جیسا کہ گزشتہ فصلوں میں بیان ہوا ،سیف نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد مختلف عرب قبائل کو مرتد اور پیمان شکن کے طورپر معرفی کیا ہے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان زبردست او رشدید خونریزیاں نقل کی ہیں ، ان کا نام”حروب“ یا مرتدوں کی جنگیں رکھا ہے ، ہم نے گزشتہ فصلوں میں ان جنگوں کے سلسلہ میں ان مقامات کو نمونہ کے طور پرپیش کیا اور ان کی ایک ایک کرکے تشریح لکھی،ان کا خلاصہ سیف کے کہنے کے مطابق حسب ذیل تھا:

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کی سرزمین کفر و ارتداد کی طرف مائل ہوگئی۔ تمام عرب قبیلے بجز قبیلہ قریش اور ثقیف ، مرتد ہوئے اور اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے سے منکر ہوئے، نتیجہ کے طور پر تمام اسلامی سرزمنیوں میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور اکثر لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا

اس مقدمہ اور راہ ہموار کرنے کے بعد سیف ابوبکر کے نام پر کئی جنگیں نقل کرتا ہے ان جنگوں کا نام جنگ ”ابرق ربذہ “ اور ” ذی القصہ “ رکھتا ہے۔

سرزمین ” ذی القصہ “ میں گیارہ پرچم اور گیارہ کمانڈر خلق کرتا ہے اور ہر کمانڈر کے ہاتھ ایک پرچم دیتا ہے ابوبکر کی طرف سے کمانڈرو ں کے نام عہد نامے اور مرتد ہوئے قبائل کے نام کئی خطوط تالیف کرتا ہے ۔

اس کے بعد ارتداد کے بارے میں کئی دوسری داستانیں جیسے : قبیلہ طی ، ام زمل مر ، عمان ، یمن ، گروہ اخابث اور قبائل عرب کے نام پر گڑھ لیتا ہے اس کے بعد خونین اور گھمسان کی جنگوں ، ان جنگوں میں قتل اور اسیر ہونے والوں کی بڑی تعداد کا ذکر کرتا ہے اپنے کام اور بیان کو استحکام بخشنے کیلئے ان افسانوی جنگوں کے بارے میں اشعار و قصائد بھی گڑھ لیتا ہے ۔

یہ ہے سیف کی مرتدوں کے ساتھ واقع ہوئی نو جنگوں کا خلاصہ ہم نے ان جنگوں کے بارے میں گزشتہ بحثوں میں تحقیق و جانچ پڑتال کی اور یہ نتیجہ نکالا کہ سیف نے ان تمام داستانوں ، روایتوں ، جنگوں ، خونین مناظر اورجنگی علاقوں کو بذات خود جعل و خلق کیا ہے اور مرحلہ اول کے مؤرخوں کے سپرد کیا ہے اس نے اپنے افسانوی منصوبوں کے نفاذ کیلئے بنام حمیضہ اور طاہر اور دسیوں دوسرے سورما خلق کئے ہیں اور زیاد اور حنظلہ نامی شعراء بھی خلق کئے ہیں تا کہ ان حوادث کو شعر کی صورت میں پیش کرکے انھیں زیادہ سے زیادہ قانونی حیثیت وا ہمیت بخشے ، بعض اماکن اور جگہوں کو جعل کیا ہے اور ان کی نام گزاری بھی کی ہے تا کہ یہ دکھائے کہ یہ افسانوی جنگیں ان خیالی جگہوں پر واقع ہوئی ہیں جیسے: ابرق ربذہ ، حمقتین جیروت ، ذات خیم ریاضہ ، الروضة اللبان ، مر ،نضدون اور ینعب کہ یہ تمام علاقے جعلی ہیں اور اس قسم کے علاقے اور اماکن روئے زمین پر موجود ہی نہیں ہےں ، لیکن سیف کیا کرے ہر جنگ و حادثہ کیلئے ایک جگہ او رمکان کی ضرورت ہوتی ہے ۔

سیف نے اس مقصد کے پیش نظر بعض راویوں کو خلق کیا ہے تا کہ اپنی ان داستانوں اور جعلیات کو ان سے نقل کرے ، جیسے : سہل بن یوسف ، عروة بن غزیہ اور مستنیر و

دلچسپ بات ہے کہ سیف نے سب سے پہلے ایک بنیاد بنائی ہے تا کہ اپنے تمام جھوٹ اور جعلیات کو اس پر قرار دے اس نے اپنی بات کی ابتداء میں کہا ہے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلامی سرزمینوں میں فتنہ کے شعلے بھڑک اٹھے اور تمام عرب قبائل اسلام سے منحرف ہوگئے ۔

سیف، ارتداد و کفر کے الزام سے کسی بھی قبیلہ کو مستثنی قرار نہیں دیتا ہے ، بجز قبیلہ قریش اور ثقیف کے واضح ہے کہ اس نے ان دو قبیلوں کو بھی اس لئے کا فرو مرتد نہیں بنایا ہے تا کہ انھیں دوسرے قبائل سے جنگ کرنے کیلئے بھیج دے ورنہ یکطرفہ جنگ قابل تصور نہیں ہے ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک مرتدوں کے بارے میں سیف سے نقل کیا وہ مشتی از خروارے اور سمندر سے ایک قطرہ کے مانند ہے ان نمونوں کو بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ تھا کہ دانشوروں اور محققین کی توجہ ان بے بنیاد مطالب کی طرف مبذول کرائیں کہ سیف نے انھیں جعل کیا ہے اور انھیں نام نہاد معتبر تاریخی کتابوں میں درج کرایا ہے ورنہ اس کی تمام جعلی روایتوں کی تحقیق اور جانچ پڑتال کرنا ایک طولانی کام ہے اور یہ کام ہمیں اپنے مقصد تک پہنچنے میں (اسلام کو پہچاننے کی راہ میں حدیث اور سیرت کی پہچان میں ) رکاوٹ بن سکتا ہے ان ہی مختصر نمونوں کا نقل کرناہمیں آسانی کے ساتھ دکھاتا ہے کہ سیف نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جزیرة العرب اور اسلامی سرزمینوں کے بارے میں ایک ایسا بد نما اور نفرت انگیز چہرے کا خاکہ کھینچا ہے کہ دنیا کے ان علاقوں کے ہر نقطہ سے مرتدوں کا ہجوم نظر آتا ہے اور ہر سمت سے ارتداد کی صدائیں اور دین مخالف نعرے بلند ہوتے سنائی دے رہے ہیں یعنی اسلام نے اپنے پیرؤں میں کس قسم کا اثر نہیں ڈالا تھا اور وہ دوبارہ تلوار کے ذریعہ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اتنے مارے گئے ہیں کہ ان کی سڑی گلی لاشوں کی بدبو سے بیابانوں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے اور باقی لوگ اسیر بنائے جاتے ہیں اور انھیں قافلہ کی صور ت میں مدینہ بھیج دیا جاتا ہے ۔

تیرہ صدیوں سے یہ جھوٹ مسلمانوں میں رائج ہے اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہوا ہے، اس طولانی مدت کے دوران نہ صرف یہ کہ دانشوروں میں سے کسی نے ان جھوٹ کے پلندوں کی طرف توجہ نہیں دی ہے بلکہ کھلے دل سے ان اکاذب کا استقبال کیاہے کیونکہ سیف نے اس جھوٹ کی رپوٹ کو ابوبکر کی مدح و ثناء کے دائرے میں قرار دیا ہے اور اسے اس کی تعریف و تمجید سے مزین کیا ہے۔

اب ہم سیف کی ابوبکر کے بارے میں کی گئی مدح و ثنا کے چند نمونے پیش کرتے ہیں جن کے سبب اس کی جھوٹی روایتوں کو قبول کیا گیا ہے :

۱ ۔ سیف اپنی ان افسانوی داستانوں میں کہتا ہے :

جب رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی اور اسامہ جنگ تبوک کی طرف روانہ ہوا تو تمام اسلامی سرزمنیوں کے مختلف علاقوں میں عرب کفر و ارتداد کی طرف مائل ہوگئے اور پیغمبر کے زمانے میں مختلف شہروں میں ماموریت پر بھیجے گئے افراد مدینہ واپس آگئے یمن ، یمامہ اور دوسرے شہروں نیز علاقوں کے لوگوں اور قبیلہ اسد کے ارتداد کی خبر لے آئے ، ابوبکر نے ان سے کہا : صبر کرو تا کہ تمام امراء اور فرمانرواؤں کے خطوط بھی ہمیں پہنچ جائیں شائد ان کے خطوط تمہارے بیان سے ناگوار تر اور تلخ ترہوں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مامورین اور فرمانرواؤں کے خطوط بھی مختلف علاقوں سے مدینہ پہنچ گئے جس طرح ابو بکر نے پیشنگوئی کی تھی لوگوں کے ارتداد اور مرتدوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل ہونے کی خبر ان خطوط میں نمایاں تھی ، ابوبکر نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشرکین کے ساتھ روا رکھی جانے والی روش کے مطابق ان سرکش اورپیمان شکن لوگوں کی طرف چندافراد کو روانہ کیا تا کہ ان پر قابو پایا جاسکے اور کچھ خطوط بھی ان کے نام لکھے اور ان خطوط کے ضمن میں انھیں دوبارہ اسلام قبول کرنے نیزاسلامی حکومت کوتسلیم کرنے کی دعوت دی اور سر کشی و بغاوت اور ان کے ارتداد کے برے نتائج سے انھیں متنبہ کیا ۔ اس کے بعد اسامہ کے رومیوں کی جنگ سے واپس ہونے کا انتظار کیا تا کہ اسے حکومت اسلامی کی نافرمانی کرنے والے ان مرتدوں کی سرکوبی کیلئے بھیج دے ۔

۲ ۔ سیف ایک دوسری جگہ پر کہتا ہے:

تمام سرداروں اور فرمانرواوں نے مرتدوں سے ڈر کر مدینہ کی طرف فرار کیا اور مختلف قبائل کے ارتداد کی خبر ابوبکرکو پہنچادی گئی اور انھےں اس امر سے خبردار کیا جاتا رہا لیکن وہ اس قدر شجاع اور بہادر تھے کہ ذرہ برابر خوف محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ یہ خبر دیتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ جیسے انھیں نوید دی جارہی ہو نہ یہ کہ انھیں کسی خطرے سے آگاہ کیا جا رہا ہو اس لئے لوگ ابوبکر کے بارے میں کہتے ہیں کہ” پیغمبر کے علاوہ ہم نے خطرناک اور وسیع جنگوں کے مقابلہ میں ابوبکر سے جری اور بہادر تر کسی کو نہیں دیکھا “

۳ ۔ سیف مزید کہتا ہے :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے دس دن بعد قبیلہ اسد، غطفان ، ھوازن طی اور قضاعہ کے چند افراد مدینہ میں داخل ہوئے اور پیغمبر کے چچا عباس کے علاوہ مدینہ کے مشہور افراد سے ملاقات کی اور انھیں واسطہ قرار دیا تا کہ ابوبکر ان قبائل کے نماز پڑھنے پر اکتفاء کرےں اور زکوٰةکی ادئیگی سے انھیں سبکدوش قرار دیں ۔

امن و امان کے تحفظ کی غرض سے تمام مسلمان ان کی اس تجویز سے اتفاق کرکے ابوبکر کے پاس گئے اور روداد کو ان تک پہنچا دیا اور قبائل کے نمائندوں کی درخواست کو اس خبر کے ساتھ ابوبکر تک پہنچا دیا کہ اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بالاتفاق اس تجویز کی تائید کی ہے ابوبکر نے اس تجویز اور درخواست کو قبول کرنے سے انکار کیااور قبائل کے نمائندوں کو ابوبکر نے ایک رات اور ایک دن کی مہلت دی تا کہ اپنے حال پر نظر ثانی کرلیں وہ بھی اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبائل کی طرف روانہ ہوگئے۔

۴ ۔ ابوبکر کے ذو القصہ کی طرف روانہ ہونے کے بارے میں سیف یوں قصیدہ خوانی ومدح سرائی کرتا ہے کہ مسلمان اس سے کہتے تھے :

اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین! خدا کا واسطہ اپنے آپ کو اس طرح خطرہ میں نہ ڈالئے ،کیونکہ اگرآپ قتل ہوگئے تو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ بکھر جائے گا آپ کا وجود دشمن کے مقابلہ میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اور ناقابل شکست ہے لہذا بہتر ہے اپنی جگہ پر کسی اور کو اس جنگ پر روانہ کر دیں اگر وہ مارا گیا تو کسی دوسرے کو اس کی جگہ پر مقرر کردیا جائے گا ۔

ابوبکر نے کہا:

خدا کی قسم ہرگز ایسا نہیں کروں گا اور اپنی جگہ پر کسی دوسرے کا انتخاب نہیں کروں گا مجھے اپنی جان کی قسم !تم مسلمانوں کی نصرت ومدد کرنی چاہئے ۔

جی ہاں ، سیف اچھی طرح جانتا ہے کہ لقمہ کو کیسے نگلنا چاہئے اور زہریلی غذا میں کونسی چٹنی ملانی چاہئے تا کہ لوگوں کو آسانی کے ساتھ کھلائی جاسکے اسی قسم کے کارنامے اور رنگ آمیزیاں سبب بنی ہیں کہ مسلمانوں کے مشہور علماء اور دانشور سیف کی روایتوں کے دالدادہ بن جائیں اور اسے زندقہ اور جھوٹ سمجھنے کے باوجود دوسرے راویوں اور حدیث نقل کرنے والوں پر اس کو ترجیح دیں اور اس کی روایتوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ اہمیت دیگر ترویج کریں اور ابوبکر کی خلافت کے دوران واقع ہوئے حوادث کے بارے میں ہمارے لئے صحیح طور پر عکاسی کرنے والی معتبر روایتوں کو پس پشت ڈال کر فراموش کردیں ۔

جنگ سلاسل یا فتح ابلہ

و هذه القصة خلاف ما یعرفه اهل السیرة

یہ داستان مورخین کے بیان کے برعکس ہے۔

طبری

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ سیف نے اسلام کو ” تلوار اورخون “ کا دین ثابت کرنے کیلئے بہت سی روایتوں اور داستانوں کو جعل کیا ہے ۔

اس سلسلہ میں سیف کی روایتیں دو قسم کی ہیں :

ان میں سے ایک حصہ مرتدوں کی جنگوں کے طور پر اور دوسرا حصہ فتوحات اسلامی کے عنوان سے ہے ہم نے گزشتہ فصلوں میں سیف کی ان روایتوں کے نمونے بیان کئے جنہیں اس نے مرتدوں سے خونین اور وحشتناک جنگوں کے بارے میں جعل کیا ہے اس فصل میں ہم اسلامی فتوحات کے بارے میں جعل کی گئی سیف کی روایتوں کو بیان کریں گے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ایک مستقل اور جداگانہ فصل میں تشریح اور تفصیل پیش کریں گے ، لیکن چونکہ دونوں قسم کی روایتیں ایک مقصد کیلئے جعل کی گئی ہیں اور دونوں اسلام کے چہرہ کو جنگ و خوں ریزی اور خونین ثابت کرنے کیلئے ہے ، لہذا ہم بھی انھیں ایک ہی حصہ میں بیان کریں گے ۔

فتح ابلہ کی داستان

سیف نے جن جنگوں کو فتوحات کے عنوان سے نقل کیا ہے ، ا ن میں ایک جنگ ، فتح ابلہ یا جنگ سلاسل کے نام سے مشہورہے اس جنگ کی روداد کو سیف نے حسب ذیل صورت میں تشریح کی ہے :

ابوبکر نے ایک خط میں خالد بن ولید --جو ان دنوں یمامہ میں تھا ---- کو لکھا کہ یمامہ کی جنگ کے بعد عراق کی طرف روانہ ہوجاؤ اور اس سرزمین کے کفارو مشرکین سے جنگ کرو اور ”ابلہ “ ---جو ان دنوں ایران اور ھند کا بندر شمار ہوتا تھا ----تک پیش قدمی کرو۔

خالد نے عراق کی طرف روانہ ہونے سے پہلے ، سرحد ” ابلہ “ میں موجود ایرانی سرحد کے محافظ ہرمز کے نام ایک خط لکھا اس خط کو آزادبہ (یمن کے زباذبیہا کے باپ) کے ہاتھ بھیجا کہ اس کا مضمو ن یوں تھا ۔

خالد بن ولید کی طرف سے عجم کے سرحد ی چوکیوں کے کمانڈر ہرمز کے نام !

اما بعد اپنی سلامتی کی خاطر اسلام قبول کرنا یا اپنی اور اپنی امت کی طرف سے جزیہ دینا اور اگر ان دو میں سے کسی ایک کو قبول نہ کیا تو اپنی ذات کے علاوہ کسی کی ملامت نہ کرنا ، کیونکہ میں ایسے دلاوروں کے ساتھ تیری طرف آرہا ہوں کہ وہ موت کو اس قدر دوست رکھتے ہیں جتنا تم زندگی کو “

سیف کہتا ہے : ہندوستا ن کی سرحد ایران کی مہم ترین اور مضبوط ترین سرحدوں میں سے ایک تھی اس کے سرحدی محافظ سمندر میں ہندوستانیوں سے نبر آزما ہوتے تھے اور خشکی میں عربوں سے لڑتے تھے اور اس سرحد کا کمانڈر ہرمز ، عربوں کا بدترین اور خطرناک ترین ہمسایہ تھا اور تمام عرب اس سے غضبناک تھے اور اس کے ساتھ شدید عداوت اور دشمنی رکھتے تھے اور وہ عربو ں میں خباثت و ظلم میں ضرب المثل تھا اگرعرب کسی کو انتہائی خبیث یا کافر کہنا چاہتے تھے تو کہتے تھے فلاں ہرمز سے زیادہ خبیث یا اس سے زیادہ بد تر ہے “ ہرمز نسبی شرافت اور خاندانی حیثیت سے ایران میں انتہا کو پہنچا تھا اور اسی لئے وہ انتہائی گراں قیمت ٹوپی پہنتا تھا ، سیف کہتا ہے جوں ہی خالد کا خط ہرمز کو ملا ، وہ بجائے اس کے کہ اسے مثبت و صلح آمیز جواب لکھتا یا صلح و سازش کی راہ اختیار کرتا ، بادشاہ وقت ”کسری“ کے بیٹے شیرویہ “ اور شیرویہ کے بیٹے ’اردشیر “ کے نام ایک خط لکھا اور اس میں انھیں روداد اور خالد کے خط کے مضمون سے آگاہ و مطلع کیا اس کے بعد خالد سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک لشکر کو آمادہ اور لیس کیا، لشکر کے یمین و یسار کے جناحوں کو بالترتیب قباد اور انوشجان کو سونپا یہ دو بھائی تھے اور ان کا نسب ایران کے قدیمی بادشاہ اردشیر، شیرویہ تک پہنچتا تھا، انہوں نے لشکر کو جمع اور تیار کرنے کے بعدسپاہیوں کو زنجیروں اور سلاسل سے باندھا تا کہ محاذ جنگ سے کوئی فرار نہ کرسکے(۱) اسی وجہ سے تاریخ میں

____________________

۱۔ سیف نے جو یہ بات اس داستان میں کہی ہے ایک تعجب خیز و ناقابل یقین بات ہے کیونکہ میدان جنگ میں کوئی سپاہی اپنے آپ کو زنجیروں سے نہیں باندھتا ہے اس لئے کہ اس کو میدان کارزار میں ہلکا ہونا چاہئے اور اس کے ہاتھ پاؤں آزاد ہونے چاہئے تا کہ آسانی کے ساتھ ہر سو حرکت کر سکے اور دشمن کے حملوں کا جواب دے سکے، لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیوں سیف نے اس نکتہ کی طرف توجہ نہیں دی ہے یا عمداًچاہتا ہے کہ اس قسم کے جھوٹ کو گڑھ کر مسلمانوں کا مذاق اڑائے اور انھیں سادہ لوح اور تنگ نظر معرفی کرے اور یہ ثابت کرے کہ طبری جیسے ان کے دانشور کس قدر ہر جھوٹ اور مسخرہ آمیز چیز کو نقل کرتے ہیں اور علم و تمدن کے نام سے اپنی کتابوں میں درج کرتے ہیں ،تعجب اس بات پر ہے کہ ان تمام جھوٹ کے شاخسانے کومسلمان قبول کرتے ہیں ۔