عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 17623
ڈاؤنلوڈ: 4150


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17623 / ڈاؤنلوڈ: 4150
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

اس جنگ کا نام جنگ سلاسل یعنی سلسلوں اور زنجیروں کی جنگ رکھا گیا ہے ۔

سیف اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے کہ ہرمز سپاہ کو تیار کرنے کے بعد ایک بڑی اور مسلح فوج کے ہمراہ خالد کے لشکر کی طرف روانہ ہوا اور ” کاظمہ “ نامی ایک جگہ پر ایک پانی کے نزدیک پڑاؤ ڈالا اور پانی پر قبضہ جمایا ، جب خالد کا لشکر وہاں پہنچااور دیکھا کہ پانی پر دشمن نے قبضہ جما لیا ہے اس لئے انہوں نے ایک خشک جگہ پر پڑاؤ ڈالا، جب خالد کے سپاہیوں نے پانی کے بارے میں اس سے گفتگو کی تو خالد نے انھیں حکم دیاکہ سامان اتار کر ایک جگہ بیٹھ جائیں ، اس کے بعد خالد نے کہا: خدا کی قسم آخرکار یہ پانی ان دو سپاہیوں میں سے صابر اور بااستقامت ترین سپاہ کے قبضہ میں آئے گابس تم لوگ جمنے کی کوشش کرنا اور یہ کہنے کے بعد دشمن کو فرصت اور مہلت دیئے بغیر ان پر حملہ کردیا خداوند عالم نے بھی بادلوں کے ایک ٹکڑے کو انتخاب کیا اور مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے پانی برسایا، جس سے مسلمانوں میں جرات اور قوت پیدا ہوئی ۔

ہرمز، تن تنہا میدان کارزار میں آیا اور پکارتے ہوئے بولا: تنہا جنگ کرو!تنہا جنگ کرو! خالد کہاں ہے ؟! اس طرح ہرمز خالد سے تنہا جنگ کی دعوت دیتا تھا ۔ اس نے اپنی فوج کے سرداروں سے طے کیا تھا کہ خالد کو تنہا جنگ میں کھینچ کر اپنے حامیوں کے تعاون سے ایک چالاکی اور فریب سے اسے موت کے گھاٹ اتاردے گا خالد نے جب ہرمز کی آواز اور تنہا جنگ کی فریاد سنی تو اپنے گھوڑے سے اتر گیا اور پیدل ہرمز کی طرف بڑھا ۔ ہرمز بھی اپنے گھوڑے سے اتر گیا اور خالد کے مقابلے میں آکھڑا ہوا دو نوں طرف سے تلواریں بلند ہوئیں خالد نے ہرمز کو نیچے گرادیا اس وقت ہرمز کے فریب کاروں اور حامیوں نے خالد پر حملہ کیا تا کہ اس کو قتل کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں ، لیکن اس کے باوجود وہ خالد کو ہرمزکے قتل سے نہ روک سکے ، دوسری طرف سے ” قعقاع بن عمرو “ بھی خالد کی مدد کیلئے آگے بڑھا اور فریب کاروں کے منصوبہ کو نقش بر آپ کرکے رکھ دیا اور انھیں خالد کو قتل ہونے سے بچا لیا آخرکار ایرانی فوج نے شکست کھائی اور مسلمانوں نے ان پر فتح پائی اور رات گئے تک سبھی تہہ تیغ کر دیئے گئے ۔

سیف ایک دوسری روایت میں کہتا ہے : ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ اس عظیم اور وسیع بیابان میں ایرانیوں کے زنجیر میں جکڑے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچا تھا ۔ یہاں تک کہتا ہے :

جب اس دن مسلمانوں کی فتحیابی اور ایرانی لشکر کی شکست و ہزیمت پر جنگ ختم ہوئی اور مسلمانوں کا مقصد اس جنگ میں پورا ہوا تو خالد نے اپنے لشکر کے ساتھ وہاں سے کوچ کیا اور بصرہ کے عظیم پل پر پڑاؤ ڈالا اس کے بعد مثنی کو دشمن کی بھاگی فوج کا پیچھا کرنے کیلئے روانہ کیا اورمعقل بن مقرن کو بھی ابلہ کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ وہاں پر جنگی اسیروں اور دشمن کے اموال کو جمع کرے یہ تھا جنگ ” ذات السلاسل “ کا خلاصہ جو مسلمانوں کے حق میں تمام ہوئی اور ایران کے بادشاہ ہرمز بھی خالد کے ہاتھوں قتل ہوا لیکن ہرمز کے دو سپہ سالار قباد اور انوشجان میدان کارزار سے زندہ نکل کے بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور خالد نے جنگ کے خاتمہ پر اس فتح و کامرانی کی نوید کو غنائم جنگی کے خمس اور اس جنگ میں ہاتھ آئے ایک ہاتھی کے ساتھ ” زربن کلیب“ کے ذریعہ مدینہ بھیج دیا ۔ مدینہ میں اس ہاتھی کو عام لوگوں کے تماشا اور نمائش کیلئے رکھا گیا اور اسے گلی کوچوں میں گھمایا گیا جب کم عقل عورتیں اسے دیکھتی تھیں توخیال کرتی تھیں کہ یہ ایک مصنوعی مخلوق ہے اور کہتی تھیں : کیا حقیقت میں یہ بھی خدا کی مخلوق ہے ؟! ابوبکر نے اس ہاتھی کو دوبارہ خالد کے پاس بھیج دیا اور ہرمز کی ٹوپی کو بھی انعام کے طور پر اسے بخش دیا ۔

سند کی جانچ

سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو سات روایتوں کے ضمن میں نقل کیا ہے کہ ان سات روایتوں کی سند میں سیف کے پانچ جعلی راویوں کا نام آیا ہے اس طرح ان میں سے تین راوی : ” محمد بن نویرہ ، مقطع بن ھیثم بکائی اور حنظلہ بن زیاد“ کا نام ایک یا اور ان میں سے دو راوی : عبدالرحمن بن سیاہ احمری اور مہلب بن عقبہ کا نام دوبار سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہوا ہے۔

یہ ہے داستان فتح ابلہ کی سند اور سیف کے راویوں کا خلاصہ لیکن اس کے بعد اس کی سند اس طرح ہے کہ طبری نے اسے مفصل طور پر اور ذہبی نے خلاصہ کے طور پر لیکن دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ، دوسرے معروف مورخین جیسے : ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی داستان کو مفصل طور پر اور ابن خلدون نے خلاصہ کے طور پر طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں آنے والی نسل کیلئے درج کیا ہے اس طرح جعل کی گئی روایتیں تاریخ کی کتابوں اور اسلام کے نام نہاد علمی مآخذ میں درج ہوئی ہیں ۔

تطبیق اور موازنہ

اگر ہم سیف کی روایتوں کو دوسرے مؤرخین کی روایتوں سے تطبیق و موازنہ کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ سیف کی روایتیں اس سلسلہ میں نہ صرف سند کے لحاظ سے خدشہ دار اور باطل ہیں بلکہ متن کے لحاظ سے بھی باطل اور ان کا جعلی ہونابہت واضح ہے کیونکہ سیف ان روایتوں میں دو الگ داستانوں یعنی داستان فتح ابلہ اور خالد کے ہرمز سے جنگ کی داستان کو آپس میں ملا کر ان دونوں میں تحریف اور رنگ آمیزی کرکے ایک تیسری داستان جعل کی ہے جس کو قارئین کرام نے اس کی مذکورہ سات روایتوں میں ملاحظہ فرمایا اب ذرا ان دو داستانوں کی حقیقت دوسرے مورخین کی روایتوں میں ملاحظہ فرمائیں ۔

۱ ۔ فتح ابلہ

طبری نے اپنی تاریخ میں فتح ابلہ کے بارے میں سیف کی سات روایتوں کو ۱۲ ھء کے حوادث کے ضمن میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے یہ روایتیں جو فتح ابلہ کے بارے میں سیف سے ہم تک پہنچی ہیں ، معتبر مورخین اور صحیح تاریخ کے بیان کے برخلاف ہے کیونکہ فتح ابلہ ۱۴ ھء میں خلافت عمر کے دوران عتبہ بن غزوان کے ذریعہ انجام پائی ہے کہ ہم اسے اسی سال کے حوادث کے ضمن میں مفصل طور پر بیان کریں گے ۔

بالکل اسی عبارت کو ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی اپنی تاریخ کی کتابوں میں خلاصہ کے طورپر درج کیا ہے ۔

طبری نے اپنی کتاب کی اس فصل میں دئے گئے اپنے وعدے کے مطابق فتح ابلہ صحیح اخبار کو اپنی کتاب کی دوسری فصل میں ۱۴ ھء کے حوادث کے ضمن میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی اس روش میں اسی کی پیروی کی ہے لیکن دوسری فصل میں فتح ابلہ کے بارے میں سیف کی روایتوں اور داستانوں کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ وہاں پر فتح ابلہ کی داستان کو ابو مخنف کی روایت کے مطابق یوں بیان کیا گیا ہے :

ابی مخنف کی روایت کے مطابق فتح ابلہ

عتبہ بن غزوان تین سو جنگجوؤں کے ہمراہ بصرہ میں داخل ہوا اور خریبہ(۱) نام کی ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا ان دنوں ابلہ (جو چین اور کئی دوسرے ممالک کی بندرگاہ تھی) جس کی حفاظت پانچ سو ایرانی سوار کرتے تھے عتبہ نے تھوڑے سے توقف کے بعد وہاں سے کوچ کیا اور اجانہ کے نزدیک پڑاؤ ڈالا ، ابلہ کے باشندے ایک لیس لشکر کے ساتھ شہر سے باہر آگئے عتبہ ان کی طرف روانہ ہوا ، اس نے اپنے سپاہیوں میں سے فتادہ و قسامہ نامی دو افراد کو دس سوار فوجیوں کے ساتھ لشکر کے پیچھے مقرر کیا تا کہ مسلمانوں کے لشکر کی دشمن کے اچانک حملہ سے حفاظت کرسکیں اور فرار کرنے والے سپاہیوں کو روک

____________________

۱۔ خریبہ ایک قدیمی محل تھا ، مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے خراب ہو چکا تھا اس لیے اس جگہ کو خربیہ کہتے تھے(معجم البلدان)

لیں اس کے بعد ابلہ کے لشکر سے نبرد آزما ہوا اور ان کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی یہ جنگ ایک اونٹ کو ذبح کرکے اسکے گوشت کو تقسیم کرنے کی مدت تک جاری رہی خداوند عالم نے مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب کی ۔ ابلہ کی سپاہ نے شکست کھائی اور اپنے شہر سے بھاگ گئے عتبہ میدان کارزار سے اپنے کیمپ کی طرف واپس آیا ابلہ کے باشندے چند دن اپنے شہر میں رکے رہے خداوند عالم نے ان کے دلوں پر ایسا خوف و ہراس ڈال دیا کہ اس سے زیادہ وہ اپنے شہر میں نہ رک سکے اور فرار کو قرار پر ترجیح دی اور ہلکے بارلے کر فرات کو عبور کرکے چلے گئے اس طرح شہر ابلہ مسلمانوں کیلئے خالی کر دیا مسلمانوں کے سپاہی شہر ابلہ میں داخل ہوئے تھوڑی اجناس ، جنگی اسلحہ اور چھ سو درھم نقدان کے ہاتھ آیا کہ ہر سپاہی کو دو درھم ملے اس کے علاوہ چند افرادکو اسیر کرلیا۔

یہ فتح ماہ رجب یا شعبان ۱۴ ھء میں انجام پائی عتبہ نے ایک خط کے ذریعہ فتحیابی کی خبر کو عمر کی خدمت میں بھیج دیا جو اس زمانہ میں خلیفہ تھے ۔

فتوح البلدان میں بھی فتح ابلہ کو عمر کے زمانے میں عتبہ بن غزوان کی سرکردگی میں روایت کیا گیا ہے ۔

۲ ۔ خالد کے ہرمز کے ساتھ نبرد آزمائی کی داستان

بیہقی نے اس داستان کو اپنی سنن میں یوں بیان کیا ہے : خالد کی ہرمز کے ساتھ ” کاظمہ “ نامی میدان میں مڈبھیڑ ہوئی اور اسے جنگ کی دعوت دی ، ہرمز میدان میں آگیا لیکن خالد نے اسے پہلے ہی حملہ میں قتل کر ڈالا ۔

یاقوت حموی نے بھی معجم البلدان میں ” کاظمہ “ کی وضاحت میں یوں لکھا ہے :

” کاظمہ “ ایک وسیع میدان ہے جو سمندر کے ساحل پر ہے وہاں سے بحرین کے راستے سے بصرہ تک دو دن کا فاصلہ ہے “

گزشتہ مباحث کا نتیجہ

جو کچھ اس فصل میں بیان ہوا سیف کی نقل کے مطابق یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خالد بن ولید یمن کے ”زبابہ “ کے باپ ” آزادبہ “ کے ذریعہ ہر مز کو ایک خط لکھتا ہے جس سرحد پر ہرمز حکومت کرتا تھا وہ ایران کی سب سے بڑی اور اہم ترین سرحدوں میں سے ایک تھی اور اسکے سرحد بان ایران کے طاقتور ترین سرحد بانوں میں سے ہوتے تھے اس کے کمانڈر”تجربہ “ ترین جنگجو ہوا کرتے تھے جو سمندر کے راستے سے ہندوستان سے نبرد آزما ہوتے تھے اور خشکی کے راستے سے عربوں سے برسرپیکار رہتے تھے، ہرمز جو عربوں کا بد ترین ہمسایہ اور خباثت اور بدجنس ہونے میں ضرب المثل تھا بادشاہ وقت ایران شیرویہ اور اس کے بیٹے ولیعہد اردشیر کے نام خط لکھتا ہے اور انھیں مسلمانوں کے ایران کی سرحد کی طرف لشکر کشی کی خبر دیتا ہے اورخود بھی خالد سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک لشکر کو تشکیل دیتا ہے اس لشکر کی کمانڈ خاندان سلطنت کے دو آدمیوں کو سونپتا ہے سپاہی بھی فرار سے بچنے کیلئے اپنے آپ کو زنجیروں اور سلاسل سے جکڑ لیتے ہیں ، اس کے بعد خالد کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور ” کاظمہ “ نام کی ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالتے ہیں پانی پر قبضہ کرتے ہیں خالد کے سپاہی مجبورہوکر ایک خشک اور بے آب و گیاہ جگہ پر پڑاو ڈالتے ہیں لیکن خداوند عالم ان کیلئے پانی برساتا ہے اور انھیں سیراب کرتا ہے جس طرح جنگ بدر میں خدا نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے بارش نازل کی تھی آخرکار جنگ چھڑ جاتی ہے ہرمز کے لشکر کے سردار خالد کو قتل کرنے کا ایک منصوبہ مرتب کرتے ہیں تا کہ اسے مکر و فریب کے ذریعہ قتل کر ڈالیں اس مقصد کیلئے ہرمز خالد کو تنہا جنگ کی دعوت دیتا ہے ۔

یہ دونوں آپس میں جنگ کرتے ہیں خالد ہر مز کو بغل میں لے لیتا ہے تا کہ اسے زمین پر دے مارے ،یہاں پر ہرمز کے حامیوں کو خالد کے قتل کی مناسب فرصت ملتی ہے اور اس پر حملہ کرتے ہیں لیکن خالد دشمن کے حملہ کی پروا کئے بغیر ہرمز کو قتل کر ڈالتا ہے اسی اثناء میں قعقاع میدان کارزار میں پہنچ جاتا ہے اور نہایت چالاکی اور چابک دستی سے دشمن کے سپاہیوں کو میدان سے کھدیڑ دیتا ہے اور انھیں خالد کو قتل کرنے کی فرصت نہیں دیتا، اس طرح اس جنگ میں مسلمان فتح پاتے ہیں اور ایران کی سب سے بڑی سرحد ابلہ پر قبضہ کرتے ہیں ، دشمن کے اموال کو غنیمت کے طورپر حاصل کرتے ہیں اسلامی فوج کا سپہ سالار ، خالد غنائم کے پانچویں حصہ کو ابو بکر کے پاس مدینہ بھیجتا ہے کہ ان غنائم میں ایک عظیم الجثہ ہاتھی بھی تھا کہ جسے دیکھ کر مدینہ کی عورتیں خیال کرتی ہیں کہ یہ مصنوعی اور جعلی مخلوق ہے ابوبکر اس ہاتھی کو دوبارہ خالد کے پاس بھیج دیتا ہے ۔

یہ سب مطالب جو فتح ابلہ کے بارے میں ذکر ہوئے انھیں صرف سیف نے نقل کیا ہے اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے ان روداد وں اور حوادث میں سے کسی ایک کو نقل نہیں کیا ہے چنانچہ ہم نے گزشتہ صفحات میں کہا کہ سیف نے یہاں پر دو مستقل داستانوں کو آپس میں ملا کر تحریف اور رنگ آمیزی کے بعد ان سے ایک تیسری داستان جعل کی ہے ان داستانوں میں سے ایک جس سے سیف نے غلط فائدہ اٹھایا ہے وہ فتح ابلہ کی داستان ہے کہ اس کے بارے میں مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ عمر کے زمانے میں واقع ہوئی ہے نہ ابوبکر کے دور میں اس فتح کا سپہ سالار ” عتبہ بن غزوان “ تھا نہ خالد ۔

دوسری داستان ” خالد کی ہرمز سے نبرد آزمائی کی “ہے کہ جس کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ بصرہ سے دو منزل کی دوری پر رونما ہوا ہے وہاں پر بھی خالد نے ہرمز سے جنگ کی دعوت دی ،نہ کہ ہرمز نے خالد سے ۔

لیکن سیف ان تمام وقائع اور رودادوں کو جنہیں مؤرخین نے بیان کیاہے الٹا دکھایا ہے اور ان میں ملاوٹ کر دی ہے۔

تحریف اورالٹ پھیر کرتا اور ان سے دوسری داستانیں بنا کر ان کی جگہ پر ثبت کرتا ہے تا کہ اس طرح تاریخ اسلام کو درہم برہم کرکے واقعات کو ناقابل شناخت بنا کر دگرگوں کردے ۔

حدیث سازی میں سیف کا تخصص اور اس کا ہنراس وقت زیادہ رونما ہوتا ہے جب اس افسانہ کو سات روایتوں سے نقل کرتاہے تا کہ کثرت روایات سے اپنے جھوٹ کو محکم اور مضبوط بنا کرحقیقت و قبولیت کی منزل سے قریب کردے اور اس افسانوی مطلب پر حقیقت کا خول چڑھا دے ۔

ان روایتوں کے اسناد میں اپنے پانچ جعلی راویوں کا نام لیتا ہے تا کہ وہ بھی پہچان لئے جائیں اور قانونی حیثیت حاصل کرلیں ۔ مختصر یہ کہ دو خطوط یعنی ” خالد کا ہرمز کے نام خط “ اور ہرمز کا ” شیروہ “ اور ” اردشیر “ کے نام خط ، سپاہیوں کو زنجیروں اور سلاسل میں جکڑنا ، جنگ کا آغاز اور خالد کے شدید حملے ، خالد کے قتل کیلئے دشمن کی سازش اس جنگ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے افسانوی صحابی قعقاع کا کردار ،خالد کے فوجیوں کیلئے بارش کی کرامت کا واقع ہونا ، مسلمانوں کی فتحیابی ،دشمن کے مال و منال کا غارت ہونا اورغنائم کے پانچویں حصہ کو ایک عظیم الجثہ ہاتھی کے ہمراہ مدینہ بھیجنا وغیرہ ان مطالب میں سے کوئی ایک بھی صحیح اور حقائق پر مبنی نہیں ہے اس طر ح ”زر“ اور قعقاع نامی اصحاب اور سیف کے اس داستان کے راویوں میں سے کسی ایک کا حقیقت میں وجود نہیں تھا بلکہ یہ سیف ہے جس نے ان سب چیزوں کو جعل کیا ہے اور ان جھوٹ کے پلندوں کا بیج تاریخ اسلام میں بویا ہے کہ آج ہم ان کے تلخ میوؤں کا مزہ چکھ رہے ہیں اور آج اس کا تلخ ترین میوہ افسانوی جنگوں میں ایک اور جنگ کا اضافہ ہے جس کی وجہ سے اسلام کو خون اور تلوار کا دین معرفی کیا گیا ہے یہ ایک سرخ و خونین جنگ ہے جس میں سیف کے کہنے کے مطابق مسلمانوں نے زنجیر میں جکڑے ہوئے دشمنوں پر حملہ کیا اوران سبھی کو تہہ تیغ کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا ۔

حیرہ میں خالد کی فتوحات

تفرد سیف بذکر ما ذکرناه

سیف کے علاوہ کسی اور نے ان جنگوں کے بارے میں نقل نہیں کیا ہے ۔

مؤلف

سیف خالد کیلئے کئی جنگیں اور فتوحات نقل کرتا ہے کہ اس کے علاوہ تاریخ نویسوں میں سے کسی اور نے اس قسم کی فتوحات خالد کیلئے نقل نہیں کی ہیں ۔

۱ ۔ جنگِ سلاسل یا فتح ابلہ

اس جنگ کے بارے میں گزشتہ فصل میں وضاحت کی گئی ہے ۔

۲ ۔ جنگِ مذار

سیف جنگ سلاسل کے بعد ثنی یا مذار نامی ایک دوسری جنگ کے بارے میں نقل کرتا ہے اور اس سلسلہ میں یوں کہتا ہے :

سرزمین ایران کی سرحد کے کمانڈر ہرمز نے ایران کے بادشاہ ” شیرویہ “ اور اس کے بیٹے ”اردشیر “ کے نام ایک خط لکھا، اس خط میں خالد کی ایران کی سرحدوں کی طرف لشکر کشی کے بارے میں وضاحت کی ، اور ان سے مدد کی درخواست کی ۔ اس کے جواب میں ” قارن بن قریانس “ کی کمانڈ میں ایک لشکر بھیجا گیا ۔ جب ” قارن “ ، ”مذار “ کے مقام پر پہنچا تو اس نے ہرمز کے قتل ہونے کی خبر سنی ، مزید غضبناک ہوا ۔ دوسری طرف سے ہرمز کے شکست خوردہ سپاہی ، اہواز ، فارس اور اس کے اطراف کے باشندوں اور کوہ نشینوں کو اس روداد کی اطلاع ملی اور ہر طرف سے قارن کی طرف روانہ ہوئے اور ”مذار “ میں ان کے لشکر سے ملحق ہوئے اور اس طرح ایک عظیم لشکر تشکیل پایا۔ قارن نے مذار پہنچ کر اس جگہ کو اپنا فوجی کیمپ قرار دیا اور وہیں پر اپنی فوج کو منظم و لیس کرنے میں لگ گیا۔

ہرمز کے شکست خوردہ دو کمانڈروں قباد اور انوشجان کو بالترتیب یمین ویسار کا کمانڈر مقرر کیا ۔ اس طرح اپنے لشکر کو خالد سے لڑنے کیلئے آمادہ کیا۔ مثنی اور اس کے بھائی معنی نے اس روداد کی خبر آناً فاناً خالد کو پہنچادی اور اس نے بھی اپنے لشکر کو آراستہ کیا اور قارن کی طرف روانہ ہوا ۔ یہ دولشکر ” مثنی“ نام کی ایک جگہ پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے اور وہیں پر دونوں لشکروں کے درمیان ایک خونین او ر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ” ابیض الرکاب “ کے لقب سے مشہور شخص ” معقل بن اعشی “ نے قارن کو قتل کر ڈالا ۔ عدی نے قباد کو اور عاصم نے انوشجان کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس طرح ایرانی لشکر کے تینون کمانڈر قتل کئے گئے اور ایرانی سپاہیوں نے شکست و ہزیمت سے دوچار ہوکر فرار کیا ۔ مسلمانوں نے انھیں تہہ تیغ کیا اور ان کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتاردیا ، یہاں تک مقتولین کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی اس کے علاوہ ان کی ایک بڑی تعداد دریا میں غرق ہوگئی لیکن بڑے دریا مسلمانوں کیلئے فراریوں کا پیچھا کرنے میں رکاوٹ بن گئے ۔

اس طرح جنگ مثنی یا مذار مسلمانوں کے حق میں تمام ہوئی خالد نے جنگی غنائم کو اپنے فوجیوں میں تقسیم کیا اور ا س کا خمس مدینہ بھیج دیا اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ آنے والا مال غنیمت جنگ سلاسل کے غنائم اور اسراء سے زیادہ تھا ۔

۳ ۔ فتح ولجہ

سیف کہتا ہے :جب جنگِ مذار میں ایرانی سپاہ کی شکست اور قارن کے قتل ہونے کی خبر ایران کے بادشاہ اردشیر کو پہنچی تو ا س نے سرزمین سواد کے ” اندرزغر “ نامی ایک شخص کی کمانڈ میں حیرہ سے کسکر اور اطراف کے عربوں اور دیہات کی آبادیوں کے باشندوں کو جمع کرکے ایک لشکر آراستہ کیا اور اسے ”بہمن جاذویہ “ کی کمانڈر ی میں ایک دوسرے لشکر کی مدد فراہم کرکے تقویت بخشی اور اس کے بعد ان کو روانہ ہونے کا حکم دیا ۔ اس طرح خالد کی طرف ایرانیوں کی تیسری لشکر کشی کا آغاز ہوا ۔ یہ فوج ۱۳ ھ ء کے ماہ صفر میں ” ولجہ ‘ میں داخل ہوئی ۔

سیف کہتا ہے : خالد کو ” اندرزغر“ کے لشکر کے پہنچنے کی خبر ملی اس نے مثنی سے ولجہ کی طرف کوچ کیا اور وہاں پر جنگ مثنی سے شدید تر ایک جنگ چھڑگئی ۔ یہاں تک دونوں لشکروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ۔ خالد نے اس جنگ میں دو کمین گاہیں بنائی تھیں اسلام کے سپاہیوں کے ایک گروہ کو ” سعید بن مرہ“ کی کمانڈری میں ان دوکمین گاہوں میں سے ایک میں مخفی رکھا تھا ۔ انہوں نے کمین گاہ کے دونوں طرف سے اچانک ایرانیوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کئے اور ان سے سخت انتقام لیا ان کی صفوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور انھیں پیچے ہٹ کر فرار کرنے پر مجبور کیا ۔خالد نے آگے سے اور دوسروں نے پیچھے سے دشمن کے لشکر کو بیچ میں محاصرہ کرلیااور ان کا عرصہ حیات تنگ کردیااور ان کی فوج کو ایسے درہم برہم کردیا کہ کوئی ایک دوسرے کے مارے جانے کو نہیں دیکھ سکتا تھا ۔

اس طرح ایران کے سپہ سالار ” اندرزغر“ کو شکست ملی اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوا اورپیاس کی شدت کی وجہ سے ہلاک ہوگیا ۔

خالد نے ایران کے ایک ایسے پہلوان سے جنگ کی جو ہزار افراد کے برابر تھا اور اسے قتل کر ڈالا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر اپنے لئے کھانا منگوایا اور اسی حالت میں کھانا کھایا ۔

۴ ۔ فتح الیس

سیف کہتا ہے : جب خالد بن ولید نے جنگِ ولجہ میں قبیلہ بکر بن وائل کے بعض افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ وہ عرب عیسائی تھے جنہوں نے ایرانیوں کی مدد کی تھی تو ان کے قبیلہ کے لوگ غضبناک ہوگئے اور انہوں نے ایرانیوں کے ساتھ خط و کتابت کی ۔ اس کے بعد عبدا للہ بن اسود عجلی کی سرکردگی میں ” الیس ‘ کے مقام پر اجتماع کیا ۔ ایران کے پادشاہ اردشیر نے بہمن جاذویہ (جو ایرانیوں کی شکست کے بعد ” قسیاثا“ میں رہائش پذیر ہوا تھا) کے نام ایک خط لکھا اور قبیلہ بکر بن وائل کے ” الیس “ میں اجتماع کے بارے میں اسے مطلع کیا ۔ بہمن جاذویہ نے پہلے ” جابان“ کو الیس کے باغیوں کی طرف روانہ کیا اور اسے حکم دیا کہ میرے پہنچنے تک جنگ کیلئے اقدام نہ کریں اس کے بعد خود اردشیر کے پاس گیا تا کہ اقدامات کے بارے میں ذاتی طور پر اس کے ساتھ گفتگو اور صلاح و مشورہ کرے ایرانیوں میں یہ رسم تھی کہ ہر روز ایک شخص کو لوگوں کے نمائندہ کے طور پر بادشاہ کے پاس بھیجتے تھے اور بہمن ان کے نمائندوں میں سے ایک تھا۔ جابان کی مسلمانوں کے خلاف لشکر کشی اور اس کے ” الیس“ پہنچنے کی خبر جب لوگوں تک پہنچی تو وہ ہر طرف سے اس کی طرف دوڑ پڑے ۔ تمام سرحدی نگہبان اورگزشتہ جنگوں کے فراری جومسلمانوں کے ساتھ دل میں بغض و کینہ رکھے ہوئے تھے جابان کے گرد جمع ہوگئے ۔اور عبدا للہ اسود نے بھی عرب نسل کے عیسائیوں اور قبائل ” عجل“ ، ” تنیم اللات “ اور ”ضبیعہ “ اور حیرہ کے اطراف کے اعراب کو اپنے گرد جمع کیا اور ان کے ہمراہ اس کے لشکر سے جاملا۔

جب خالد کو یہ اطلاع ملی کہ اعراب نے ” عبد الاسود“ کے گرد اجتماع کیا ہے ، تو اس نے اپنے لشکر کو آمادہ کیا اور ان کی طرف روانہ ہو گیا۔

خالد کو اس وقت ایرانیوں کی لشکر کشی اور ایرانی سپہ سالار جابان کے الیس پہچنے کی کوئی اطلاع نہیں تھی وہ صرف ” عبد الاسود “ کو کچلنے کیلئے نکلا تھا۔

ایرانی سپاہی جب ” الیس “ پہنچے تو انہوں نے اپنے کمانڈر جابان سے پوچھا کہ کیا ہم پہلے تیزی کے ساتھ دشمن پر حملہ کریں یا پہلے دسترخوان بچھائیں اور سپاہیوں کو کھانا کھلادیں ؟ تا کہ دشمن یہ خیال کرے کہ ہم قدرتمند ہیں اور ان کی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں ، اس کے بعد فرصت سے دشمن پر اچانک حملہ کرکے ان سے جنگ کریں ۔

جابان نے کہا: اگر مسلمانوں نے تمہارے ساتھ چھیڑچھاڑ نہ کی تو تم بھی ان کے مقابلہ میں بے توجہی کا مظاہرہ کرنا ۔ لیکن فوجیوں نے اس کی تجویز سے اختلاف کیا اور دسترخوانوں کو بچھا کر کھانا حاضر کیا اور فوجیوں کو کھانا کھانے کی دعوت دی اور اس طرح سب دستر خوان پر بیٹھ گئے ۔

اسی اثناء میں خالد ” الیس “ پہنچا اور ایرانی سپاہیوں کو وہاں پر دسترخوان پر دیکھا۔

اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ تمام اسباب زمین پر رکھ کر بجلی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑیں ۔ خالد کے سپاہ کے تابڑ توڑ حملے شروع ہوگئے۔ جابان نے اپنے سپاہیوں سے کہا: کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ عرب تمہیں فرصت نہیں دیں گے ؟! اب اگر کھانا نہ کھا سکتے ہو تو کم از کم اس کھانے کو مسموم کرکے رکھ دو۔ اگر دشمن پر فتح پاؤ گے تو کوئی خاص چیز کو ہاتھ سے نہیں دیا اور اگر شکست کھائی اور یہ کھانا دشمن کے ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے اسے کھالیا تو یہی کھانے ان کی ہلاکت کا سبب بن جائےں گے لیکن انہوں نے یہا ں پر بھی جابان کے کہنے پر عمل نہیں کیا اور دسترخوان سے اٹھ کر خالد کے لشکر کے حملہ کا جواب دیا ۔ دونوں فوجوں میں ایک سخت جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ میں مشرکین زیادہ استقامت دکھا رہے تھے ۔

خالد نے کہا: خداوندا ! تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر یہیں ان لوگوں پر فتح نصیب کر دے گا تو میں ان میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا اور ان کے خون کی ندی بہادوں گا۔ آخرکار خدا نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی اور خالد کی طرف سے منادی نے فریاد بلند کی : لوگو ! دشمن کے افراد کو اسیر بنالو اور انھیں قتل نہ کرو مگر ان لوگوں کو جو اسیر ہونے سے گریز کریں مسلمان دشمن کی طرف بڑھے اور انھیں جوق در جوق اسیرکر لیا ۔ خالد بن ولید نے حکم دیا کہ ندی کے پانی کو بند کرو اور کچھ لوگوں کو اس کام پر مامور کیا کہ اسیروں کا خشک ندی کے کنارے پر سر قلم کریں تا کہ ان کا خون ندی میں جاری ہوجائے اور خالد کی قسم کو عملی جامہ پہنایا جائے یہ سلسلہ تین دن رات تک جاری رہا ۔

فتحیابی کے بعد دوسرے دن دشمن کے فراریوں کا بین النہرین تک تعقیب کیا گیا الیس کے تمام اطراف میں اسی حد تک آگے بڑھے اور جس کسی کو پکڑتے تھے اس نہر کے کنارے لاکر اس کا سر قلم کرتے تھے تا کہ ندی میں خون جاری کرسکیں اور خالد کی قسم کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔

یہاں پر قعقاع اور دیگر صلح پسند افراد نے خالد سے کہا کہ اگر روئے زمین کے تمام لوگوں کے سر قلم کئے جائیں تب بھی ندی میں خون جاری نہیں ہوگا کیونکہ آدم کے بیٹے کے قتل کے بعد زمین پر خون کا سرد ہونے کے بعد جاری ہوناروکا گیا ہے ۔

اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس خون پر پانی بہنے دیا جائے تا کہ وہ پانی خون سے رنگین ہو کر جاری ہوجائے اور اس طرح تیری قسم بھی پوری ہوجائے گی ۔

خالد نے پانی کو کھولنے کا حکم دیا اور اس طرح ندی کا پانی خونین رنگ میں تبدیلی ہوکر جاری ہوا اس لئے اس ندی کو آج تک خون کی ندی کہا جاتا ہے اس ندی پر چند پن چکیاں تھیں جو اس خونی پانی سے چلیں اور اٹھارہ ہزار فوجیوں کیلئے گندم پیس کر آٹا بنا دیا ۔ الیس میں مقتولین کی تعداد ستر ہزار افراد تھی اور ان میں اکثر ”امغشیا“ کے باشندے تھے ۔

۵ ۔ فتح امغشیا :

سیف کہتا ہے : جب خالد الیس کی جنگ سے فارغ ہوا تو وہ ” امغشیا “ ۱ کی طرف روانہ ہوا ۔ امغیشیا کے باشندوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرار کیا خالد جب وہاں پہنچا تو ان لوگوں کو اس کی مہلت نہیں دی کہ اپنی ضروریات زندگی کا ساز و سامان شہر سے باہر لے جائیں ۔

” امغیشیا “ کے باشندے عراق کے کھیتوں میں پراکندہ ہوئے خالد نے ” امغیشیا “ کو مسمار کرنے اور جو کچھ وہاں ہے اسے نیست ونابود کرنے کا حکم دیا ۔

سیف کہتا ہے : ” امغیشیا “ ایک بڑا شہر تھا ۔ حیر ہ اور الیس اس کے اطراف کے علاقے شمار ہوتے تھے ۔

مسلمانوں کو اس جنگ میں کثرت سے بے مثال جنگی غنائم ہاتھ آئے کہ کسی دوسری جنگ میں انھیں اس قدر جنگی غنائم نہیں ملے تھے ۔ ان غنائم میں سے ہر سپاہی کو انعام و اکرام کے علاوہ فی کس ایک ہزار پانچ سو دینار کی رقم باضابطہ حصہ میں ملی جب یہ خبر ابوبکر کو پہنچی تو اس نے کہا؛ اے گروہ قریش ! آپ کا شیر ، خالد ایران کے بڑے شیر سے نبرد آزما ہوا اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ، دنیا کی عورتیں خالد جیسے کوجنم دینے سے عاجز اور بانجھ ہیں ۔

۶ ۔ فرات بادقلی کی فتح

سیف کہتا ہے : خالد نے امغیشیا کی فتح کے بعد کشتیوں کے ذریعہ حیرہ کی طرف کوچ کیا۔ حیرہ کے سرحد ی کمانڈر ” آزادبہ “ کوجب یہ اطلاع ملی تو اس نے خالد سے جنگ کرنے کیلئے ایک لشکر آمادہ کیا اور خالد کی فوج کی طرف روانہ ہوا اور ”غریبین “ نامی ایک جگہ پر پڑاؤ ڈال کر اس جگہ کو اپنا فوجی کیمپ قرار دیا اور اپنے بیٹے کو ایک گروہ کے ہمراہ بھیج دیا انہوں نے خالد کی کشتیوں کیلئے دریا کے پانی کا رخ بدل دیا مسلمانوں کی کشتیاں دلدل میں پھنس گئیں ۔ خالد نے اپنے فوجیوں کو کشتیوں سے نیچے اتارا اور آزادبہ کے بیٹے کی طرف روانہ ہوا اور ” بادقلی “ کے دریا میں ان کا آپس میں آمنا سامنا ہوا اسے تمام فوجیوں کے ساتھ قتل کر ڈالا اور دریا پر جو باندھ بنایا گیا تھا اسے توڑدیا اور پانی ندیوں کی طرف جاری ہوگیا اور ان کی کشتیاں تیرنے لگیں اس کے بعد خالد حیرہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب ” آزادبہ “ کو خالد کی پہنچنے کی خبر ملی اس نے جنگ کئے بغیر فرار کی ۔ خالد غریبین میں داخل ہوا ۔اور یہا ں پر موجود محلوں ، عمارتوں اور شہر حیرہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا۔

سیف کہتا ہے : چونکہ آزادبہ خاندانی نسب اور حیثیت کے لحاظ سے متوسط طبقہ کا شخص تھا اور ایسے افرا د کونصف اشراف کہتے تھے ، اس لئے ایک متوسط ٹوپی پہنتا تھا اور اس کی ٹوپی کی قیمت پچاس ہزار دینا تھی ۔

سند کی تحقیق

فتوحات کے بارے میں جو داستانیں ہم نے یہاں تک نقل کی ہیں ،سیف نے انھیں پندرہ روایتوں پر تقسیم کیا ہے ان روایتوں کی سند میں ” محمد بن عبدربہ بن نویرہ “ نامی ایک راوی چھ بار ذکر ہوا ہے دوسرے راوی ” بحر بن فرات عجلی “ زیاد بن سرجس احمری “ ، ” عبد الرحمان بن سیاہ احمری “ اور ”مہلب بن عقبہ اسدی “ دوبار اور ایک دوسرا راوی بنا م ’ غصن بن قاسم “ ایک بار ان روایتوں کی سند میں ذکرہوا ہے ۔

موازنہ اور تطبیق

یہاں تک ہم نے فتح حیرہ سے پہلے تک فتوحات خالد کے بارے میں نقل کی گئی روایتوں کا ایک اجمالی خاکہ بیان کیا لیکن دوسرے مؤرخین اس سلسلہ میں کہتے ہیں :

خالد نے مذار میں کچھ ایرانیوں کے ساتھ جنگ کی اور بعض تاریخ نویسوں کے نقل کے مطابق خالد نے جنگ مذار کی کمانڈ ری ” جریر “ کے سپرد کی اور یہ جنگ اسی جریر کے اقدامات اور نگرانی میں انجام پائی اور خود خالد ” کسگر “ کی کی طرف سے ” زندرود“ کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو تیر اندازی سے فتح کیا پھر وہاں سے ” درنی “ اور اس کے اطرف روانہ ہوا اور ” درنی “ کے لوگوں کو امان دی اور اسی امان کے نتیجہ میں ” درنی “ اور اس کے اطراف کو کسی جنگ وخونریزی کے بغیر اپنے قبضہ میں لے لیا پھر ”ہرمزجرد “ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں کے لوگوں کو بھی پناہ دی اور اس طرح یہ علاقہ بھی کسی جنگ و خونریزی کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ۔

وہاں سے ” الیس “ کی طرف روانہ ہوا ’ الیس “ کا حاکم اور کمانڈر جابان جب رودا د سے آگاہ ہوا تو اس نے ایک لشکر کو آراستہ کیا اور خالد سے جنگ و مقابلہ کرنے کیلئے اپنے کیمپ سے باہر آیا۔ خالد نے بھی اپنے سپاہیوں کے حصہ کو ” مثنی “ کی کمانڈری میں جابان کی طرف روانہ کیا تھا ۔ یہ دو لشکر ”نہرخون “ کے نزدیک ایک دوسرے کے مقابل میں پہنچے اور ان کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی۔ جابان کے لشکر نے اس جنگ میں شکست کھائی اور بھاگ گئے ۔

اس ندی کے کنارے اس جنگ کے واقع ہونے کی وجہ سے اس ندی کا نام نہر خون پڑا اور یہ ندی اسی نام سے مشہور ہوئی ۔

مؤرخین کہتے ہیں : خالد جنگ الیس سے فراغت پانے کے بعد ” حیرہ ‘ کی طرف روانہ ہوا جب وہ ” حیرہ “ کے نزدیک پہنچا تو ” آزاذبہ“ کے سوار بھی اس کی طرف بڑھ گئے یہ دو لشکر ندیوں کے ایک سنگم پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں پہنچ گئے اور ان کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی ۔

خالد کی سپاہ کے ایک کمانڈر ” مثنی “ نے آزادبہ کے سواروں کو سخت شکست دی ۔ جب اہل حیر ہ نے مسلمانوں کی اس شجاعت اور کامیابی کا مشاہدہ کیا تو سب نے ہتھیار ڈال دیا اور مسلمانوں کے استقبال کیلئے نکل پڑے

اسلامی ثقافت میں سیف کی روایتوں کا ما حصل

فتوحات خالد کے بارے میں یہاں تک تحقیق و جانچ پڑتال سے ہمارے لئے واضح ہوگیا : یہ صرف سیف ہے جس نے ” معقل بن اعشی “ اور ” سعید بن مرہ “ جیسے پہلوانوں کا نام لیا ہے ” الاصابہ “ کے مؤلف نے بھی ان دواشخاص کی زندگی کے حالات کو اصحاب پیغمبر کے حالا ت کے ضمن میں درج کیا ہے ، لیکن اس نے بھی جو کچھ ان دو خیالی اشخاص کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے اخذ کیا ہے ۔

پھر بھی تنہا سیف ہے جس نے ” عاصم “ نامی ایک اور صحابی کا نام لیا ہے اور ” الاصابہ “ کے مؤلف اور دوسرے شرح نویسوں نے بھی اس کے بارے میں حالات کو سیف سے نقل کیا ہے اور اسے پیغمبر خدا کے اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

پھر بھی تنہا سیف ہے جس نے ” امغیشیا “ ، ” مثنی “ اور ” قسیاثا “ نامی مقام کا نام لیا ہے اور ” معجم البلدان “ کے مؤلف اور ” مراصد الاطلاع “ کے مؤلف نے ان ناموں کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور انھیں اسلامی شہر اور آبادیوں میں شمار کیا ہے ۔

نیز تنہا سیف ہے جس نے ” مثنی “ کیلئے ” مغنی “ نامی ایک بھائی خلق کیا ہے،اور اسے تابعین کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

نیز تنہا سیف ہے جس نے اپنی روایتوں میں ایرانی لشکر کیلئے ” قارن بن قریانس ‘ اور ” قباد انوشجان “ نامی دوسرداروں کا نام لیا ہے جبکہ دوسرے مؤرخین ان سرداروں کو نہیں جانتے ہیں اور بنیادی طور پر ان کا کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔

نیز تنہا سیف ہے جس نے خالدپر انسان کشی ، خونریزی ، خون کی ندی بہانے اور ” امغیشیا “ کو مسمار کرنے کی قسم کھانے کا الزام لگایا ہے ۔

اور تنہا وہی ہے جس نے ” ولجہ “ نامی ایک اور جنگ ، دسیوں خونین حوادث اور دوسری خونین جنگوں کے بارے میں اپنے جعلی اور افسانوی راویوں سے داستانیں نقل کرکے انھیں آنے والی نسلوں کیلئے درج کیا ہے ۔

یہ سب جھوٹ، افسانے ، سیکڑوں توہمات اور دوسرے افسانے سیف کے ذہن اور خیال کی پیداوار ہیں جو اسلامی تمدن میں نفوذ کرکے اسلامی مآخذ میں یادگار کے طور پر باقی رہ گئے ہیں ۔ جی ہاں ! ان تمام روایتوں اور حوادث کو تنہا سیف نے نقل کیا ہے اور طبری نے بھی اسی سے نقل کیا ہے اور بعد والے مؤرخین جیسے : ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون نے انھیں طبر ی سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ اس طرح یہ جھوٹے اخبار و حوادث ، یہ جنگی افسانے یہ خیالی مکان و علاقے، یہ افسانوی اصحاب و راوی اور یہ جعلی سپہ سالار تاریخ کی کتابوں اور مختلف اسلامی مآخذ میں درج ہو کر آج تک مسلمانوں کے درمیان اشاعت پاکر مشہور ہوئے ہیں اور ان سب کا مجموعی طور پر ایک منحوس اور فاسد نتیجہ نکلتا ہے کہ ” اسلام تلوار اور خون کا دین ہے اور تلوار کے زور اور خونریزی کے ذریعہ پھیلا ہے “۔