عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 0%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 15646
ڈاؤنلوڈ: 2730


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15646 / ڈاؤنلوڈ: 2730
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد 2

مؤلف:
اردو

فتح حیرہ کے بعد والے حوادث

فقتل یوم الفراض ماة الف

مسلمانوں نے جنگ فراض میں ایک لاکھ افراد کا قتل کیا ۔

سیف بن عمر

۱ ۔ جنگ حصید

سیف کہتا ہے : فتح حیرہ کے بعد ----جس کی داستان گزشتہ فصل میں بیان ہوئی ----ایرانیوں نے مسلمانوں کے خلاف دوبارہ بغاوت کی ۔ ” ربیعہ “ کے عرب بھی ان کی نصرت کیلئے اٹھے اور سب کے سب ”حصید “ نامی مقام پر جمع ہوکر مسلمانوں سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ مسلمانوں نے بھی قعقاع بن عمرو سے مدد کی درخواست کی ۔ قعقاع ان کی مدد کرنے کیلئے آمادہ ہوا اور ایرانیوں اور ربیعہ کے عربوں سے لڑنے کیلئے ” حصید “ کی طرف روانہ ہوا ۔ انکے ساتھ سخت جنگ کی ۔ اس جنگ میں قعقاع (مسلمانوں ) کو فتح، نصیب ہوئی ۔

اس جنگ میں کافی تعداد میں ایرانی مارے گئے اور ایرانیوں کا سپہ سالار ” زمہر “ بھی اس جنگ میں قتل ہوا اور اس کا قاتل قعقاع تھا ۔ اس جنگ میں ” روزبہ “ بھی قتل ہوا اور اس کا قاتل ، قبیلہ ”حارث بن طریف ضبی “کا ” عصمت بن عبدربہ “ نامی ایک شخص تھا ، عصمت گروہ ” بررہ “ میں شمار ہوتا تھا اور ” بررہ “ ایک ایسے خاندان کو کہتے ہیں ، جس کے تمام افراد مدینہ ہجرت کرچکے تھے ، اور آنحضرت کو درک کرچکے تھے ۔ ” خیرہ“ بھی ایک گروہ کا نام ہے جس کے قبیلہ کے تمام افراد مدینہ ہجرت کرگئے تھے ۔

بہر صورت اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ کافی مقدار میں جنگی غنائم آئے اور لشکرحصید کے بچے کھچے افراد ” خنافس “ کی طرف فرار کرگئے ۔ جب مسلمان ان کا پیچھا کرتے ہوئے ” خنافس“ میں داخل ہوئے تو ایرانیوں کا سپہ سالار ” مہبوذان “ اپنے لشکر کے ہمراہ ”خنافس“ سے ” مصیخ “ کی طرف بھاگ گیا

۲-جنگ مصیخ

سیف کہتا ہے : ایرانی لشکر اور ان کے سپہ سالار ” بہبوذان “ کے مصیخ کی طرف فرار کرنے کی اطلاع خالد بن ولید کو ملی ۔ اس نے اپنے لشکر کے کمانڈر ، قعقاع ، اعبد بن فدکی اور دوسرے کمانڈروں کے نام ایک خط لکھا اور ان کیلئے ایک رات مقرر کی تا کہ اس رات کو وہ سب مصیخ میں اجتماع کریں ۔ مقررہ وقت پر فوجی مصیخ میں جمع ہوئے دشمن کے افراد جو بے خبری کے عالم میں گہری نیند سورہے تھے تین جانب سے مسلمانوں کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ مسلمانوں نے دشمن کا ایسا قتل عام کیا کہ مصیخ کے بیابان میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ۔ اس بیابان میں جس نقطہ پر نگاہ پڑتی تھی دشمنوں کے جنازے زمین پر بھیڑ بکریوں کی لاشوں کے مانند بکھرئے ہوئے نظر آرہے تھے

۳ ۔ جنگ ثنی

پھر سیف کہتا ہے : جب مصیخ کے لوگوں نے اس طرح شکست کھائی اور مسلمانوں کے ہاتھوں خفت اٹھائی تو تغلب کے قبائل نے مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی اور ان سے جنگ کی غرض سے ”ثنی “ اور ” زمیل “ میں جمع ہوگئے خالد بن ولید نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ” ثنی “ اور ” زمیل “ کے باشندوں کے ساتھ مصیخ کے لوگوں کا سا سلوک کریں گے لہذا خالد نے اپنے سپاہ کو آمادہ کیا اور رات کی تاریکی میں تین جانب سے ثنی پر دھاوابول دیا اور سب لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنایا ۔ ثنی میں دشمن کی جمع شدہ فوج میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکاتا کہ روداد کی خبر کوزمیل میں موجود اپنی دوسری سپاہ تک پہنچا سکے ۔

۴ ۔ جنگِ زمیل

اس کے بعد سیف نے روایت کی ہے :

خالد نے ”ثنی “ کے باشندوں کا کام تمام کرنے کے بعد ” زمیل “ کے بے خبر لوگوں کی طرف رخ کیا اور ان پر تین جانب سے شب خون مارا ۔ ان کے بہت سے افراد کو ایسے قتل کر ڈالا کہ گزشتہ جنگوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے کیونکہ خالد نے قسم کھائی تھی(۱) کہ دشمن پرشب خون مار کر ان سب کو نابود کر ڈالے گا مسلمانوں کو اس جنگ میں کافی مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا ۔ جنگ کے خاتمہ پر

____________________

۱۔ میں نہیں جانتا کہ خالد نے انسانوں کے قتل کی کتنی قسمیں کھائی تھیں ؟!

خالد نے ان تمام غنائم کو اپنے سپاہیوں کے درمیان تقسیم کیا اور اس کے خمس کو ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا ۔

۵ ۔ جنگ ِ فراض

پھر سیف کہتا ہے : خالد ” زمیل “ سے ” فراض“ کی طرف روانہ ہوا تو دوسری طرف سے روم کی حکومت نے مسلمانوں کی خونریز روش سے سخت غضبناک ہوکر ان کی بیخ کنی کیلئے روم کی سرحد پر موجود ایرانی فوجی کیمپوں کی مدد کی اس کے علاوہ عربوں کے مختلف قبائل جیسے ’ تغلب “ ” ایاد “ اور”نمر“ کی بھی مدد کی ۔

ان سب نے روم کی حکومت سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی حمایت اور مدد کریں گے اورمسلمانوں سے جنگ کرنے کی اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور انہوں نے اپنے فوجیوں کو رومیوں کے اختیار میں د یدیا اس طرح ایک بہت بڑا لشکر جمع ہوا اور روم کے افواج کے ساتھ ملحق ہوا اس طرح ایک عظیم فوج تشکیل پائی ۔ اس کے بعد رومیوں اورمسلمانو ں کے د رمیان ایک گھمسان اور طولانی جنگ چھڑگئی ۔ یہ جنگ بھی رومیوں کی شکست پر ختم ہوئی خالد نے یہاں پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے ان کے بارے میں سختی کریں اور کسی قسم کی نرمی نہ برتیں اس کے نتیجہ میں مسلمان دشمن کے فراری سپاہیوں کو پکڑ کر نیزوں اور برچھیوں کے سائے میں گروہ گروہ کی صورت میں لاکر ایک جگہ جمع کرتے تھے اور اس کے بعد سب کے سر قلم کرتے تھے ۔ مسلمانوں نے اس جنگ میں ایک لاکھ افرادکو قتل کرکے انھیں خاک و خون میں غلطاں کیا ۔

سند کی تحقیق

سیف کی نقل کردہ ان روایتوں میں محمد ، مہلب ، زید اورغصن بن قاسم نامی چند راوی ملتے ہیں کہ یہ سب سیف کے جعل کردہ راوی ہیں اور اس نام و نشان کے راوی دنیا میں کہیں موجود نہیں تھے جیساکہ ہم نے اس سے پہلے بھی ذکر کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ان روایتوں کی سند میں ” ظفر بن دھی “ نامی ایک اور راوی نظر آتا ہے کہ وہ بھی سیف کا جعلی صحابی پیغمبر اور نقلی راوی ہے ۔

سیف نے ان روایتوں کی سند میں قبیلہ سعد کے ایک شخص اور قبیلہ کنانہ کے ایک شخص کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ان کیلئے نام معین نہیں کئے ہیں تا کہ علم رجال کی کتابوں میں درج ہوکر ان کی سوانح لکھی جاتی ۔

ہم ان دو بے نام و نشان راویوں کے حالات پر روشنی ڈالنے سے معذور ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

جو کچھ ہم نے ”حیرہ “ کے بعد خالد کی جنگوں کے بارے میں اس فصل میں بیان کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے :

تنہا سیف ہے جس نے ’ جنگ حصید“ کے نام پر ایک جنگ کا ذکر کیا گیا ہے ،جس میں بڑی تعداد میں ایرانیوں کاقتل عام کیا گیااور اسی طرح ” روزبہ “ اور ” رژمہر “ نامی دو ایرانی کمانڈروں کے قتل کے بارے میں نقل کیا ہے۔

یہ تنہا سیف ہے جس نے ” عصمت بن عبدربہ ضبی “ نامی ایک صحابی کا نام لیا ہے اور اسے قبیلہ ”بررہ “ میں شمار کیا ہے اور اس کے ضمن میں یہ وضاحت کی ہے کہ ” بررہ “‘ ہراس قبیلہ و خاندان کو کہتے ہیں کہ اس کے تمام افراد نے مدینہ ہجرت کی ہو اور ” خیرہ “ بھی کسی خاندان کے اس گروہ کو کہتے ہیں جنہوں نے اپنے قبیلہ سے مدینہ ہجرت کی ہو ۔

پھر تنہا یہی سیف ہے جس نے ” مصیخ “ نامی ایک جگہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ اس جگہ کے لوگ مسلمانوں سے جنگ میں اس قدر قتل ہوئے کہ مقتولین کے جنازے بھیڑ بکریوں کی لاشوں کے مانند بیابانوں میں بکھرے پڑے تھے ۔

پھر تنہا سیف ہے جس نے ’ ثنی “ اور وہاں کے تمام باشندوں کے قتل اور نابود ہونے کی بات کی ہے اور اس طرح ” زمیل “ نامی ایک اور جگہ پر بے مثال قتل عام کی تعریف کی ہے ۔

یہ تنہا سیف ہے جس نے ” جنگ فراض “ اور اس جنگ میں ایک لاکھ افراد کے قتل ہونے کی خبرہمارے لئے نقل کی ہے ۔

پھر تنہا سیف ہے جس نے نقاط ، اماکن ، شہروں اور بہت سی آبادیوں کا نام اپنی روایتوں اور داستانوں میں بیان کیا ہے کہ کسی کو ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے یاقوت حموی نے بھی ان اماکن اور جگہوں کے نام کوسیف سے نقل کرکے واقعی شہروں اور اماکن کی فہرست میں درج کیا ہے اور حموی سے بھی ’ ’ مراصد الاطلاع “ کے مؤلف نے انھیں نقل کرکے اپنی کتاب میں د رج کیا ہے ۔

بنیادی طور پر ان داستانوں اور حوادث کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے پھر ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

پھر تنہا سیف ہے جو اپنی ان داستانوں میں پیغمبر کے خاص اصحاب جیسے : اعبدا بن فدکی اور عصمة ابن عبد اللہ ضبی کا نام لیا ہے کہ سیف کے علاوہ کوئی بھی شخص پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے ان نام ونشان کے اصحاب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن طبری نے ان سب کو سیف کی داستانوں سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اس کے علاوہ ” الاصابہ “ کے مؤلف نے بھی انھیں طبری سے نقل کرکے ان ناموں کو پیغمبر کے واقعی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

سیف کی روایتوں کا دوسرے مورخین کی روایتوں سے موازنہ

هکذا کانت طبیعة غزوات خالد فی العراق

عراق میں خالد کی جنگیں اس طرح تھیں (نہ اس طرح کہ سیف کہتاہے)

مؤلف

ہم نے گزشتہ فصل میں فتح حیرہ کے بعد خالد کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کے ایک خلاصہ کا مطالعہ کیا اور سند کے لحاظ سے ان کے ضعیف ہونے کا بھی مشاہدہ کیا ،اب ہم اس سلسلہ میں ان دو نکتوں کی طرف اشارہ کریں گے جو ان داستانوں کے ضعیف اور جعلی ہونے کو ثابت کرنے کے سلسلے میں ضروری نظر آتے ہیں :

۱ ۔ چنانچہ گزشتہ فصل میں ملاحظہ فرمایا کہ سیف جنگ حیرہ کے بعد چند جنگیں نقل کرتاہے اور ان جنگوں میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچادیتا ہے اور کہتا ہے کہ صرف جنگ فراض میں مسلمانوں کی تلواروں سے ایک لاکھ افراد قتل کئے گئے ۔

جبکہ اولاً اس زمانہ میں وہ بھی ان دیہات اور قصبوں میں اتنے لوگوں کا اجتماع ناقابل قبول ہے اس کے علاوہ اس زمانے کے سرد اسلحہ اور جنگی وسائل سے اتنے لوگوں کا قتل عام کرنا سرسام آوراور ناقابل یقین ہے کیونکہ خود سیف کے کہنے کے مطابق یہ جنگیں عراق میں واقع ہوئی ہیں اور عراق کا علاقہ ان دنوں چھوٹے چھوٹے دیہات پر مشتمل تھا جو پراکندہ حالت میں ندیوں کے کناروں پر آباد تھے ان آبادیوں کے لوگ عرب نسل کے کسان اور بعض جگہوں پر ایرانی رہا کرتے تھے، ان دیہات میں سب سے بڑی آبادی حیر ہ تھی کہ عرب بادشاہ اس آبادی میں سکونت کرتے تھے ”بلاذری “ کی نقل کے مطابق جب خالد بن ولید نے عراق کے سب سے بڑے شہر حیرہ کی مردم شماری کی تو ان کی تعداد چھ ہزار تک پہنچ گئی ان پر لازم قرار دیا کہ سالانہ چودہ درہم فی کس ، اسلامی حکومت کوبعنوان جزیہ و ٹیکس ادا کریں ۔

جب ایک مرکزی شہر کی آبادی چھ ہزار ہو تو قریہ اور اس کے دوسرے دیہات کی آبادی کتنی ہونی چاہیے تا کہ مقتولین کی تعداد صرف ایک جنگ میں ایک لاکھ افراد تک پہنچ جائے ؟ اور اکیس خونین جنگیں بھی واقع ہوجائیں ۔

۲ ۔ ان جنگوں کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے لئے (کہ جن سے ان دنوں عراق کے شہروں میں آٹے کی پن چکیاں چلنے لگیں ) جب ہم معروف مؤرخ دینوری کے بیان پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب ” اخبار الطوال “ میں ایسے مطالب بیان کرتا ہے جن سے سیف کی جنگوں اور داستانوں کی بنیاد درہم برہم ہوکر ان کا جعلی اور افسانوی ہونا واضح ہوجاتا ہے ۔

دینوری یوں کہتا ہے:

جب سلطنت ،کسری کی بیٹی پوران کو ملی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ ایران ایک شائستہ پادشاہ اور ایک دانا رہبر سے محروم ہے اور وہاں کے لوگ بیچارگی کی وجہ سے ایک عورت کے گھر میں پنا گزین ہوئے ہیں یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے ڈاکوؤں اور لٹیروں نے اس فرصت سے استفادہ کیا اور قبیلہ بکر بن وائل کے دو افراد نے ایرانی آبادی والے دیہات کے لوگوں کے مال و ثروت پر ڈاکہ مارا اور جہاں تک ممکن ہوسکا لوٹ کھسوٹ مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔

جب لوگ ان کا پیچھا کرتے تھے تو وہ بیابانوں میں چھپ جاتے تھے اور لوگ انھیں پکڑنے سے عاجز تھے ، ان دو افراد میں سے ایک ” مثنی“ تھا جو حیرہ کے اطراف میں ڈاکہ زنی کرتا تھا اوردوسرا ” سوید“ تھا جو ” ابلہ “ کے اطراف میں لوٹ کھسوٹ مچارہا تھا یہ روداد ابوبکر کی خلافت کے دوران رونما ہوئی ،یہاں تک مثنی نے ابوبکر کے نام ایک خط لکھا اور اس خط میں ایرانیوں کی نسبت اپنی طاقت اور ایرانیوں کی کمزوری کے بارے میں انھیں مطلع کیا اور اس سے مدد اور لشکر بھیجنے کی درخواست کی تاکہ ایرانیوں پر حملہ کرسکے اور اس وسیع سرزمین کو مسلمانوں کیلئے فتح کرے ۔

ابوبکر نے یہ موضوع خالد بن ولید کو لکھا ، جو ان دنوں مرتدوں کی جنگ سے فارغ ہوچکا تھا ، اور اسے حکم دیا کہ حیرہ کی طرف روانہ ہوجائے اور مثنی کو اپنے لشکر کے ساتھ ملحق کرے ،خالد بھی ابوبکر کے فرمان کے مطابق حیرہ میں داخل ہوا لیکن مثنی نے خالد کے حیرہ میں داخل ہونے پر تنفر کا اظہار کیا،

پھر جب ہم بلاذری کی فتوح کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں پر مشاہدہ کرتے ہیں اس نے اپنی کتاب میں خالد کی جنگ خاص کر حیرہ کی جنگوں کے بارے میں ا س طرح تفصیلات ذکر کئے ہیں کہ ہمارے لئے ان جنگوں کی حقیقت واضح ہوسکتی ہے ہم نے گزشتہ صفحات میں حیرہ کی جنگوں کے بارے میں بلاذری سے نقل کرکے کچھ گوشے بیان کئے ہیں اب ہم اس فصل میں اس کا ایک خلاصہ بیان کریں گے جو اس نے حیرہ کے بعد والی جنگوں کے بارے میں نقل کیا ہے :

بلاذری کہتا ہے :

خالد نے بشیر بن سعد انصاری کو ” بانقیا“ روانہ کیا فرخبنداذ کی کمانڈری میں سپاہ عجم کے ایک گروہ نے اس کا راستہ روک کر اس پر تیر اندازی کی ،بشیر کے فوجیوں نے بھی اس پر حملہ کیا اور انھیں بری طرح شکست دیکر فرار کرنے پر مجبور یا حتی خود ” فرخبنداذ“ کو بھی قتل کر ڈالا لیکن بشیر اس جنگ میں بری طرح زخمی ہوا اس لئے مجروح حالت میں میدان جنگ سے پیچھے ہٹا اور ’ ’عین التمر “ کے مقام پر زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا

بعض نے کہا ہے کہ ” فرخبنداذ“ کو خود خالد نے قتل کیا اور ” جریر بن عبدربہ بجلی “ کو ان کی طرف بھیجا، ”صلوبا “ کا بیٹا ”بصبہری “ اس کے پاس آیا اور صلح کی تجویز پیش کی ،جریر نے بھی ان کی تجویز قبول کی اور دو ہزار درہم اور ” طلیسان ‘ کو ان سے لے کر صلح کی(۱)

بعض مورخین نے کہا ہے کہ صلوبا کا بیٹا خود خالد کے پاس آیا اور اس کے سامنے صلح کی تجویز

____________________

۱۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دو ہزار درہم اور ” طلیسان “ سالانہ ٹیکس اور جزیہ کے طور پر لیا جاتا تھا

پیش کی ، اور بعض نے کہا ہے کہ جنگ حیرہ کے بعد خالد ” فلالج “ میں آیا ۔ وہاں پر کچھ عجمی جمع ہوئے تھے اور وہ خالد کو دیکھ کر پراکندہ ہوئے اس لئے خالد کے لشکر کی وہاں پر کسی سے مڈ بھیڑ نہیں ہوئی اور وہ کسی کو قتل کئے بغیرحیرہ کی طرف واپس لوٹا۔ حیرہ میں خالد کو اطلاع ملی کہ شہر شوشتر میں ”جابان “ نے کچھ لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا ہے اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کررہاہے اسی لئے مثنی اور حنظلہ بن ربیع کو جابان کی طرف روانہ کیا جب یہ افراد شوشتر پہنچے تو جابان نے ”انبار“ کی طرف فرار کیا اور شوشتر کے لوگوں نے قلعوں میں پنا لے لی خالد نے جب روداد کو اس صور ت میں پایا تو مثنی کو چند سپاہیوں کے ہمراہ بغداد کے قدیمی بازار کی طرف بھیج دیا کہ اسے لوٹ لیں مثنی کے سپاہیوں نے بغداد کے بازار پر حملہ کیا اور سونا ، چاندی ، اور ہلکی مگر قیمتی اشیاء ان سے غنیمت کے طور پر لے لیں ، اس کے بعد ” انبار ‘ کی طرف رخ کیا ، جہاں پر خالد بھی موجود تھا ،خالد کے حکم سے انبار کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اور اس کے اطراف میں آگ لگادی انبار کے باشندوں نے جزیہ اور مختصر حقِ صلہ ادا کرکے خالد سے صلح کرلی۔

بعض مؤرخین نے کہا ہے کہ ” انبار “ کے لوگوں کی صلح عمر کے زمانے میں جریر سے ہوئی ہے ،

خلاصہ یہ کہ مؤرخین کے کہنے کے مطابق عراق میں خالد کی جنگیں اس صورت میں تھیں کہ وہ بعض اوقات چند سوار فوجیوں کو ایک گاؤں میں بھیجتا تھا اور اس گاؤں کے لوگ صلح کی تجویز کے ساتھ جزیہ اور ٹیکس ادا کرکے ان کا استقبال کرتے تھے یا مختصر مقابلہ اور تیر اندازی کے بعد دشمن کو شکست دیتے تھے یا بازار میں دشمن کے اجتماع پر حملہ کرکے انھیں متفرق کر دیتے تھے اور ان کے اموال کو بازار سے غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے اور بعض اوقات ایک شہر یا گاؤں پر حملہ کرتے تھے اور وہاں کے غنڈوں اور طاغوتیوں سے لڑتے تھے یا ان پر حملہ کرتے تھے جو مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے ہوئے تھے اور ان میں سے بعض بعض کو قتل کرتے تھے اور ضمناً ان واقعات کے دوران بعض افراد کو اسیر بناتے تھے اور غنائم جنگی پر بھی قبضہ کرلیتے تھے ۔

البتہ اس قسم کی پراکندہ اور چھوٹی جنگیں خالد کے لشکر کی تعداد سے مطابقت رکھتی ہیں کہ بلاذری خالد کے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کہتا ہے :

خالد بن ولید ۱۳ ھء ربیع الاول کے مہینہ میں شام کی طرف روانہ ہوا تا کہ وہاں پر مسلمان فوجیوں کی مدد کرے شام جاتے ہوئے راستے میں عراق میں یہ چھوٹے حملے بھی انجام دئے ۔

بعض نے کہا ہے کہ اس کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا ،اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس کے چھ سو سپاہی تھے اور بعض دوسروں نے اس کے سپاہی کی تعداد پانچ سو افراد نقل کی ہے ۔

واضح ہے کہ آٹھ سو یا پانچ سو افراد پر مشتمل ایک فوج یہ طاقت نہیں رکھتی کہ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار سکے جیسا کہ سیف کی روایتوں میں بتایاگیا ہے ۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ

هدف سیف من وضع هذا التاریخ الاسائة الی الاسلام

اس داستان سازی سے سیف کا مقصد اسلام کو نقصان پہچانا تھا ۔

مؤلف

گزشتہ فصلوں میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ سیف کی روایتوں کے مطابق خالد بن ولید جنگ ِ ذات السلاسل میں ایرانی فوجیوں کو جنہوں نے اپنے آپ کو زنجیروں اور سلاسل میں جکڑا تھا ،سب افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ۔

” ثنی “ کی جنگ میں ایسا قتل عام کرتا ہے کہ میدان کارزار میں مقتولین کی تعداد تیس ہزار تک پہنچتی ہے اس کے علاوہ ان کی ایک تعداد پانی میں غرق ہوجاتی ہے ۔

اس کے علاوہ خالد بن سید ” الیس “ کی جنگ میں قسم کھاتا ہے کہ دشمن کے خون سے ایک نہر جاری کرے اور اس مقصد کیلئے مسلسل تین دن تک سرزمین ” الیس “ کے باشندوں کو پکڑ پکڑ کر لاتا ہے اور ندی کے کنارے ان کا سر قلم کرتا ہے ، یہاں تک اس جنگ میں مقتولین کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی ہے ۔

اس کے بعد ’ ’ امغیشیا “ کو ویران کرتا ہے ۔

جنگ حیرہ میں ” آزادبہ “ کے لشکر کو نابود کرتا ہے ۔

جنگ ”حصید“ میں قعقاع بن عمرو ایک بڑے اور وحشتناک قتل عام کو انجام دیتا ہے اور ”حصید“ کے باشندے نیند اور بے خبری کے عالم میں تین جانب سے مسلمانوں کے حملہ و ہجوم کا نشانہ بن جاتے ہیں اور اتنے لوگ مارے جاتے ہیں کہ پورا علاقہ مقتولین کے جنازوں سے بھر جاتا ہے جیسے کہ بھیڑ بکریوں کی لاشین زمین پر پڑی ہوں ۔

سیف کے کہنے کے مطابق وہ پھر ” ثنی “ واپس آتا ہے اور وہاں کے باشندوں پر تین جانب سے حملہ کرتا اور تمام لوگوں کو تہہ تیغ کرتا ہے یہاں تک کہ ان میں سے ایک آدمی بھی موت اور مسلمانوں کی تلوار سے نجات نہیں پاتا تا کہ اپنے قبائل کو اس روداد کی خبر دیتا ۔

سیف کے کہنے کے مطابق مسلمانو ن نے تین طرف سے ” زمیل “ کے باشندوں پر ایک سخت حملہ کرکے ایک ایسے قتل عام کا بازار گرم کیا کہ گزشتہ جنگوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ،کیونکہ خالد بن ولید نے اس جنگ میں بھی قسم کھائی تھی کہ ان پر شب خون مار کر ان سب کو نابود کردے گا۔

پھر خالد حکم دیتا ہے کہ ” فراض“ کے باشندوں پر شکست کے بعد سختی کریں ، لہذا مسلمان سوار انھیں گروہ گروہ کی صورت میں پکڑ کر لاتے اور ایک جگہ کرکے سب کے سر قلم کرتے تھے اس جنگ میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچی ۔

یہ ہیں سیف کی وہ فتوحات او رجنگیں جن کے گیت وہ اسلام و مسلمانوں کیلئے گاتا ہے ان المناک واقعات کو سننے کے بعد کس انسان کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوں گے ؟ کیا مغل ، تاتار اور تاریخ کے دیگر لٹیروں اور غارتگروں کے ظلم اور خونریزی کی داستاں اس سے زیاد تھیں کہ ان افسانوی فتوحات میں ذکر ہوئی ہیں او ر اس سلسلہ کی تاریخی روایتوں میں منعکس ہوئی ہیں ؟

کیا اسلام کے دشمنوں کو یہ فرصت نہیں ملی ہے کہ ان ہی جعلی تاریخی واقعات کو تاریخی وقائع کے روپ میں شائع کرکے انھیں اسلام کے خلاف ایک حربہ کی صورت میں استعمال کریں اور یہ کہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے ؟ کیا ان جعلی حوادث کے مطالعہ کے بعد کوئی شک کرسکتا ہے کہ سیف اسلام کے بارے میں بد نیتی رکھتا تھا ؟

کیا سیف کے ان جعلی داستانوں اور جھوٹ گڑھنے میں دانشوروں کے بقول اسکے ،کافر و زندیق ہونے کے علاوہ کوئی اور محرک ہوسکتا ہے ؟

تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کیا سیف کے یہ سب جھوٹ اور بہتان امام المؤرخین طبری اور اس کے علامہ ابن اثیر اور اس کے ترجمان ابن کثیر اور مؤرخین کے فلاسفر ابن خلدون اور دسیوں دوسرے تاریخ دان حضرات جیسے : ابن عبد البر ، ابن عساکر ، ذہبی اور ابن حجر کےلئے واضح نہیں تھے ؟ کہ انہوں نے کسی تحقیق اور جانچ پڑتال کے بغیر انھیں اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ؟

قطعی اور یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب حضرات سیف کوبخوبی جانتے تھے اور اس کے کفر و زندقہ اور فاسد و ناپاک عزائم کے بارے میں پوری اطلاع رکھتے تھے ، کیونکہ یہی مورخین ہیں جنہوں نے اسے جھوٹ بولنے والا اورافواہ بازمعرفی کیا ہے اور اس پر کافر وزندقہ ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن اس کے باوجود کیوں انھوں نے اس کی روایتوں کو نقل کرکے شیر و شکر کے مانند انھیں آپس میں ملایا ہے؟ یہ واقعی طور پر تعجب و حیر کا مقام ہے اور اس سلسلہ میں دقت و تفکر انتہائی سر سام آور اور پریشان کن ہے ۔

ہم نے جنگ ” ذات السلاسل“ میں طبری ، ابن اثیر اور ابن خلدون کے بیان کا ذکر کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس جنگ کے بارے میں سیف کی روایت اس حقیقت کے خلاف ہے کہ اہل تاریخ و سیرت نے اس سلسلہ میں بیان کیا ہے لہذا یہ سب مؤرخین سیف کے جھوٹے اور زندقہ ہونے کے بارے میں اطلاع رکھتے تھے اور اطلاع و آگاہی کے باوجود اس کی روایتوں پر اعتماد کرکے اس کے جھوٹ نقل کئے ہیں اور وہ اس جھوٹ پر اعتماد کرنے کیلئے بھی محرک رکھتے تھے اور ان کے اسی محرک نے اس عمل کو محکم بنادیا ہے اس نے اپنے جھوٹ کو ان کے فضائل و مناقب کی تشہیر سے مزین کیا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء اور مؤرخین نے ان روداد اور حوادث کے بہتان ہونے کے باوجود ان کی اشاعت میں کوشش کی ہے اور ان کی ترویج میں سعی و کوشش کی ہے ۔

مثلاً سیف نے فتوح عراق میں اپنے جھوٹ کو خالد بن ولید کے مناقب کی اشاعت کو پردہ میں چھپا دیا ہے الیس کی جنگ میں شہر امغیشیا کی تخریب کے سلسلے میں اس کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے :

” ابوبکر نے کہا:اے گروہ قریش ! تمہارے شیر نے کسی دوسرے شیر پر حملہ کیا ہے اور اس کے ہاتھ سے لقمہ کو چھین لیا ہے دنیا کی عورتین خالد جیسے کو جنم دینے سے بے بس اور بانجھ ہیں “

اس کے علاوہ مرتدین کی جنگوں کو بھی ابوبکر کے مناقب سے مزین کیاہے اور فتوحات شام و ایران میں بھی (کہ اس کے کہنے کے مطابق عمر کے زمانے میں واقع ہوئی ہیں ) اسی روش پر عمل کیا ہے ۔

دوبارہ عثمان کے زمانے کے حوادث اورجنگ جمل میں بھی اسیطرح کی پردہ پوشی سے استفادہ کیاہے تمام داستانیں جو حوادث کے بارے میں جعل کی ہیں انھیں صاحب اقتدار ، زور آور اور جنگجو اصحاب کے مناقب و فضائل سے مزین کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سیف کی روایتوں نے رواج پیدا کیا اور تشہیر ہوئی لیکن اس کے مقابلہ میں تاریخ کی صحیح اورحقائق پرمبنیروایتیں فراموشی کی نذر ہوئی ہیں ۔

لیکن ، اس نکتہ پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ اگر چہ سیف نے اپنی روایتوں کو صحابہ کے فضائل کے ذریعہ پردہ پوشی کی ہے لیکن حقیقت میں یہ ہے کہ یہ داستانیں نہ صرف اصحاب کیلئے کسی قسم کی فضیلت نہیں بنتی ہیں بلکہ حقیقت میں ان کیلئے ملامت اورمذمت کا باعث ہیں ۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان مؤرخین نے کیوں اس نکتہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ خالد کے لاکھوں انسانوں کو قتل کرنے اور خون کی ندی بہانے کیلئے ندی کے کنارے ان کا سر قلم کرنے میں خالد کےلئے کونسی فضیلت ہے ؟ اس کے علاوہ ویرانیاں نیز شہروں اور آبادیوں کو مسمار کرنے میں خالد کی کوئی تعریف و فضیلت نہیں ہوسکتی ، مگر بے عقیدہ افراد اور زندیقیوں کے نظریہ کے مطابق کہ زندگی و حیات کو نور کےلئے ایک زندان تصور کرتے ہیں اورکہتے ہیں زندگی کے اس زندان کو منہدم کرنے کیلئے بیشتر تلاش و کوشش کرنی چاہئے تا کہ وہ نور نجات پائے(۱)

بہر حال سیف کے بے مصرف متاع نے تاریخ کے بازار میں اس طرح شہرت پائی ہے کہ ایک طرف سے خود سیف نے زورآور اصحاب کے مناقب سے اسے رنگ آمیزی کی ہے کہ ہر مطلب

و داستان جو بظاہر ایسے اصحاب کیلئے ایک فضیلت شمار ہوتی ہے اگر چہ حقیقت میں یہ فضیلت نہیں ہے

____________________

۱۔ملاحظہ ہو موضوع بحث الزندقہ و الزنادقہ کتاب ”خمسون وماة صحابی مختلق “

پھر بھی اسے لوگوں میں تشہیر کرکے اسے رواج دیاگیا ہے ۔

اس سے بدتر یہ ہے کہ سیف نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیاکہ بعض روایتوں اور داستانوں کو جعل کرکے جو بظاہر اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلئے فضیلت شمار ہوں اور انہیفضائلکےپس پردہ اپنیچاہت کے مطابق اسلام کو ضربہ پہچانے کیلئے ان کی اشاعت کی، بلکہ سیف نے پیغمبر کےلئے ایسے اصحاب بھی خلق کئے ہیں کہ خداوند عالم نے انھیں پیدا نہیں کیا ہے اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان کیلئے شرف ، کرامت ، فتوحات ، اشعار اور فضائل و مناقب قلم بند کئے ہیں اس کے، اس کام کا محرک یہ تھا کہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ بعض مسلمان جو کچھ بھی اصحاب کی مدح و ثناء اور منقبت وفضیلت میں ہو، اس کا دل کھول کر استقبال کرتے ہیں اور اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اس نے بھی اسی عقیدہ پر اعتماد و تکیہ کرکے اسلام کو تخریب اور منہدم کرنے کیلئے جو کچھ مناسب سمجھا اسے جعل کرکے مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ مسلمانوں کے حوالہ کیا ہے ،اور یہ سادہ لوح تاریخ دان سیف کی خواہش اور مقصد کی پیروی کرکے گزشتہ تیرہ صدیوں سے اس کے جھوٹ اور بہتانوں کو رواج دینے کی اشاعت کررہے ہیں الحمد اللہ ہم ان کے منحوس منصوبوں کو ناکام بنا کر تاریخ کے حقیقی چہرے سے توہمات اور باطل کے ضخیم پردوں کو اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔

ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں کیونکہ جو نمونے ہم نے پیش کئے وہ سیف کی تمام روایتوں کی قدر و منزلت جاننے کیلئے کافی ہیں ، جو اس نے مسلمانوں کی فتوحات اور مرتددوں سے جنگوں کے بارے میں نقل کی ہیں تا کہ یہ ثابت کرے کہ اسلام تلوار کے زور پرپھیلا ہے “

اگر ہم صحابہ کے زمانے میں اسلامی فتوحات کے بارے میں سیف کے نقل کئے گئے جعلیات اور بہتانوں میں سے ہر ایک پر الگ الگ تحقیق و جانچ پڑتال کرنا چاہیں تو بحث و تحقیق کا دامن مزید وسیع اور طولانی ہوگا اور موضوع تھکن اور خستگی کا سبب بن جائے گا اسلئے سیف کے برے عزائم کو دکھانے کیلئے کہ جو اسلام کو خون و تلوار کا دین معرفی کرتا ہے ، اسی قدر سیف کی جھوٹی جنگوں اور فتوحات پر اکتفاء کرتے ہیں اور اسکے علاوہ محققین کے ذمہ چھوڑ دیتے ہیں ہم اس کتا ب کے اگلے حصہ میں سیف کی توہمات پر مشتمل روایتوں پر بحث کریں گے ۔