عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے 11%

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 106 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19324 / ڈاؤنلوڈ: 4882
سائز سائز سائز
عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے

عبد اللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد ۲

مؤلف:
اردو

اس حصہ سے مربوط مطالب کے مآخذ

جنگِ ابرق کے مآخذ

۱ ۔ مرتدین کی جنگوں کا مقدمہ ، تاریخ طبری ۱/ ۱۸۷۱ ۔ ۱۸۷۲

۲ ۔ غطفان کے ارتدادکا سبب ، تاریخ طبری ۱/ ۱۸۱۱ ۔ ۱۸۹۴

سیف کی روایتوں کے مطابق جنگِ ابرق کی داستان:

۳ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۱۸۷۳ ۔ ۱۸۸۵

۴ ۔ تاریخ ابن اثیر ، ۲/ ۲۳۲ ۔ ۲۳۴ ۔

۵ ۔ تاریخ ابن کثیر : ۶/ ۵۱۱ ۔ ۵۱۶ ۔

۶ ۔ تاریخ ابن خلدون: ۲/ ۲۷۳ ۔ ۵۱۶

۷ ۔ زیاد بن حنظلہ کے حالات کتاب ” خمسون و ماة صحابی مختلق “

۸ ۔،(۹) ۔ قبائل حمزة بن حزم و لباب بن اثیر کے حالات کی تشریح

۱۰ ۔ ۱۱ ۔ ابرق ربذہ کی وضاحت : معجم البلدان و مراصد الاطلاع

داستان ذی القصہ کے مآخذ

۱ لف۔ سیف کی روایت کے مطابق

۱ ۔ تاریخ طبری ۱/ ۱۸۸۰ ۔ ۱۸۸۵ ۔

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر ، ۲/ ۲۳۲ ۔ ۲۳۴

۳ ۔تاریخ ابن اثیر : ۶/ ۵۱۱ ۔ ۵۱۶

۴ ۔تاریخ ابن خلدون : ۲/ ۲۷۳ ۔ ۲۷۴

۵ ۔ و(۶) ۔ حمقتین کی وضاحت : معجم البلدان ،مراصدالاطلاع

ب : داستان ذی القصہ ، سیف کے علاوہ دوسروں کی روایت میں :

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۱۸۷۰

۲ ۔ تاریخ یعقوبی / طبع الغری /نجف/ ۱۳۸۵ ھء

۳ ۔ فتوح البلدان ، بلاذری / طبع مصر/ السعادہ ۱۹۵۹ ءء / ۱۰۴

۴ ۔ البدء وا لتاریخ : ۵/ ۱۵۷

ارتداد طی کے مآخذ

۱ ۔ داستان ارتداد طی سیف کی روایتوں میں :

۱ ۔ طلیحہ کے گرد طی کے لوگوں کا اجتماع کرنے کے بارے میں روایت : طبری ۱/ ۱۸۷۱

۲ ۔ طی کے لوگوں کی بغاوت : طبری ۱/ ۱۸۷۳

۳ ۔ قبیلہ طی کی تجویز : تاریخ طبری ۱/ ۱۸۹۱ ۔ ۱۸۹۲

۴ ۔ عدی قبیلہ طی کو لشکر طلیحہ سے واپس لایا: تاریخ طبری : ۱/ ۱۸۸۵ ۔ ۱۸۸۷

۵ ۔ مرتدوں اور قبیلہ طی سے خالد کا مسلمانوں کے قاتلوں کا مطالبہ : تاریخ طبری : ۱/ ۱۹۰۰

۶ ۔ طلیحہ کے فراری سپاہیوں کا ام زمل سے جاملنا : تاریخ طبری : ۱/ ۱۹۰۲

۷ ۔ قبیلہ طی کی جنگ کے خاتمہ کے بعد خالد کا واپس آنا: تاریخ طبری : ۱/ ۱۹۲۲

۸ ۔ قبیلہ طی کی جنگ کے خاتمہ کے بعد خالد کا واپس آنا: تاریخ ابن اثیر طبع منیریہ : ۲/ ۲۳۴

۹ ۔قبیلہ طی کی جنگ کے خاتمہ کے بعد خالد کا واپس آنا: تاریخ ابن کثیر : ۴/ ۳۱۷

۱۰ ۔ مادہ ” سخ ‘ اور ”قرودہ “ میں : معجم البلدان

۱۱ ۔ مادہ ” سخ “ اور ”قرودہ ‘ میں : مراصدالاطلاع

ب۔ داستان ارتداد طی سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں :

۱ ۔ قبیلہ طی کا کیمپ کلبی کی روایت سے : تاریخ طبری : ۱/ ۱۹۰۰

۲ ۔ حبال ، عکاشہ و ثابت کا قتل ، فتوح البلدان : بلاذری ، طبع دارالنشر : ۱۳۳

۳ ۔ جنگ بزاخہ و جنگ طلیحہ و اسارت عینیہ : فتوح البلدان بلاذری : ۱۳۴

۴ ۔ جنگ بزاخہ و جنگ طلیحہ و اسارت عینیہ : تاریخ ابن الخیاط : ۱/ ۸۷

۵ ۔ جنگ بزاخہ و جنگ طلیحہ و اسارت عینیہ : فتوح اعثم : ۱۳ ۔ ۱۴

۶ ۔جنگ بزاخہ و جنگ طلیحہ و اسارت عینیہ : تاریخ طبری : ۱/ ۱۸۹

۷ ۔ الفاظ ، بزاخہ ، قطن ، فھر ، معجم البلدان انہی موارد کے ذیل میں ۔

۸ ۔ الفاظ ، بزاخہ ، قطن ، فھر ، تاریخ اسلام ، ذہبی ۱/ ۳۵۰

۹ ۔الفاظ ، بزاخہ ، قطن ، فھر ، تاریخ یعقوبی ۲/ ۱۰۸

۱۰ ۔ الفاظ ، بزاخہ ، قطن ، فھر ، البداء و التاریخ ۵/ ۱۵۹

عمان و مہرہ کے باشندوں کے ارتداد کی داستان کے مآخذ

۱ ۔ طبری : ۱/ ۱۹۷۶ ۔ ۱۹۸۳

۲ ۔ ابن اثیر : ۲/ ۱۴۲ ۔ ۱۴۳ ۔

۳ ۔ ابن کثیر : ۶/ ۳۲۹ ۔ ۳۳۱

۴ ۔ ابن خلدون : ۲/ ۲۹۴ ۔ ۲۹۵

۵ ۔ معجم البلدان : الفاظ جیروت ، خیثم ، ریاض اور روضہ کی تشریح میں ۔

۶ ۔ مراصدا لاطلاع : الفاظ ، صبرات ، لبان ، مر ، نضدون ، روضہ کی تشریح میں ۔

۷ ۔ فتح البلدان بلاذری : ۱/ ۹۳

۸ ۔ فتوح اعثم : ۱/ ۷۴ و تاریخ الردة خلاصہ از کتاب اکتفاء کلاعی : ص ۱۴۷ ۔ ۱۱۵۰ ذکر ردة اہل دبا

۹ ۔ اسد الغابہ تشریخ ” عکرمہ بن ابی جہل “

۱۰ ۔ تاریخ الاسلام ، ذہبی ، تشریح ” عکرمہ بن ابی جہل “

یمن کے باشندوں اور گروہ اخابث کی ارتداد کے مآخذ

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۱۹۸۰ ۔ ۱۹۹۹

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر: ۲/ ۱۴۲ ۔ ۱۴۳

۳ ۔ تاریخ ابن کثیر : ۶/ ۳۲۹ ۔ ۳۳۲

۴ ۔ فتوح البلدان : ۱۲۷

۵ ۔ اصابہ ، طاہر ، حمیضہ ، عثمان بن ربیعہ کے حالات کی تشریح

۶ ۔ معجم البلدان : الفاظ ، اعلاب ، اخابث کی تشریح میں ۔

۷ ۔ مراصد الاطلاع : الفاظ ، اعلاب ، و اخابث کی تشریح میں ۔

مرتدوں کی پانچویں جنگ کے مآخذ

۱ ۔ ابوبکر کیلئے فضیلتیں بیان کرنا ،تاریخ طبری: ۱/ ۱۸۷۱ ۔ ۱۸۷۲

۲ ۔ مرتدین کی تجویز کو ابوبکر مسترد کرتا ہے : تاریخ طبری : ۱/ ۱۸۷۳

۳ ۔ لوگ ابوبکر سے درخواست کرتے ہیں کہ خود کو خطرہ میں نہ ڈالیں طبری : ۱/ ۱۸۷۸

فتح ابلہ کے مآخذ

الف : فتح ابلہ سیف کی روایتوں کے مطابق

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۰۲۰ ۔ ۲۰۲۶

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر : ۲/ ۲۰۹۴ ۔ ۲۰۹۶

۳ ۔ تاریخ ذہبی : ۱/ ۳۷۴

۴ ۔ تاریخ ابن کثیر : ۶/ ۳۴۴

۵ ۔ تاریخ ابن خلدون : ۲/ ۲۹۶

۶ ۔ اصابہ ، لفظ ” زرّ“کی تشریح میں ۔

ب: فتح ابلہ سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں کے مطابق

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۰۱۶ ۔ ۲۰۱۹ و ۱/ ۲۳۷۷ ، و ۲۳۸۲ ، ۲۳۸۶ و فتوح البلدان (ص ۴۱۸ ۔ ۴۲۰) باب فتح کو ردجلہ

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر : ۳/ ۳۷۷ ۔ ۳۸۷

۳ ۔ خالد کی ہرمز سے مقابلہ ۔ سنن بیہقی باب النقل بعد الخمس ۶/ ۳۱۳

حیرہ میں خالد کی فتوحات کے مآخذ

۱ ۔ تاریخ طبری :

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر ، ۲/ ۲۹۶ ۔ ۲۹۸

۳ ۔ تاریخ ابن کثیر / ۳۴۴ ۔ ۳۴۶

۴ ۔ تاریخ ابن خلدون : ۲۹۷ ۔ ۲۹۸

۵ ۔ فتوح البلدان ، بلاذری : ۲۹۶ ۔ ۲۹۷

۶ ۔ اصابہ : ” معقل بن اعشی “، ” سعید بن مرہ “ اور ” عاصم بن عمرو “ کی تشریح میں ۔

۷ ۔ معجم البلدان: ” قسیاثا“ اور ” ولجہ “ کی شرح میں ۔

۸ ۔ مراصد الاطلاع ” قسیاثا“ اور ” ولجہ “ کی شرح میں ۔

حیرہ کے بعد والی فتوحات کے مآخذ

۱ ۔ تاریخ طبری : ۱/ ۲۰۶۶ ۔ ۲۰۷۵

۲ ۔ تاریخ ابن اثیر : ۲/ ۳۰۱ ۔ ۲۰۶

۳ ۔ تاریخ ابن کثیر : ۲/ ۳۵۰ ۔ ۳۵۲

۴ ۔ تاریخ ابن خلدون : ۲/ ۲۹۹ ۔ ۳۰۲

۵ ۔ فتوح البلدان بلاذری : ۲۹۸ ، ۲۹۹ اور ۱۳۱

۶ ۔ اخبار الطوال دینوری: ۱۱۱

۷ ۔ اصابہ : ” عصمت بن عبد اللہ “ اور ” اعبدا بن فدکی “ کی تشریح میں

۸ ۔ معجم البلدان: الفاظ : ” مصیخ “ ، ” بنی برشاء “ ، ” ثنی “ اور ” زمیل “ کی وضاحت میں

۹ ۔ مراصد الاطلاع : الفاظ : ” مصیخ “ ، ” بنی برشاء “ ، ” ثنی “ اور ” زمیل “ کی وضاحت میں

ساتواں حصہ:

سیف کی خرافات پرمشتمل داستانیں

* -سیف کے حدیث جعل کرنے کا ایک اور محرک

* -مہلک زہر خالد پر اثر نہیں کرتا

* -عمر کے بارے میں پیغمبروں کی بشارتیں

* - مسلمانوں کے اللہ اکبر کی آواز حمص کے در و دیواروں کو گرادیتی ہے

* - دجال ،لات مار کر شہرو شوش کو فتح کرے گا

* -اسود عنسی کی توہمات بھری داستان

* -جواہرات کے صندوق اور عمرکا اعجاز

* -خلاصہ و نتیجہ

* -اس حصہ سے مربوط مآخذ

سیف کے حدیث جعل کرنے کا ایک اور محرک

و انما یدس الخرافات فی عقائد المسلمین

سیف نے مسلمانوں کے صحیح عقائد میں خرافات کی ملاوٹ کرنا چاہا ہے ۔

مؤلف

گزشتہ صفحات میں ہم نے سیف کے ا ن مقاصد کی وضاحت کی جن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے افسانہ سازی اور دروغ گوئی سے کام لیا ہے اور ہم نے کہا کہ اس میں اس کے تین مقصد تھے :

۱ ۔ وہ قبیلہ عدنان سے منسوب صاحب اقتدار اور بانفوذ اصحاب کا دفاع کرنا چاہتا تھا یا یہ کہ ان کے فضائل و مناقب کی تشہیر کرے خاص کر خاندان عمرو و اسید ---جو خاندان تمیم اور عدنان کے قبیلے تھے ----کی تمجید و تعریف کرے ۔

۲ ۔ وہ نیک اور صالح اصحاب ---- جو اقتدار اور سیاسی اثر و رسوخ کے مالک نہ تھے اور اسی طرح قبائل قحطان کے مختلف خاندان جو عدنانیوں اور وقت کے صاحب اقتدار کی مخالفت کرتے تھے ----- کی تنقید و بد گوئی کرے اور انھیں فاسد اور تنگ نظر متعارف کرے ۔

۳ ۔ سیف ان خونین جنگی داستانوں کو گڑھ کر اسلام کو تلوار اور خون کا دین بتانا چاہتا تھا ۔

لیکن سیف کی بعض داستانوں میں مذکورہ مقاصد میں سے کوئی ایک مقصد نظر نہیں آتا ہے نہ کسی عدنانی ، تمیمی اور صاحب اقتدار صحابی کی مدح و ثناء ہے اور نہ ہی کسی نیک و صالح صحابی اور قحطانی کی مذمت و ملامت ہے اور نہ اسلام کو تلوار اور خون کا دین دکھانے کی بات ہے ،بلکہ اس نے یہاں پر یہ کوشش کی ہے کہ اپنی ان داستانوں اور افسانوں کے ذریعہ اسلام کے پاک و پاکیزہ اور صاف و شفاف دین میں خرافات اور توہمات کی ملاوٹ کرے اور اس طرح مسلمانوں کے اصلی عقائد کو خرافات اور باطل سے ممزوج کرکے ان کے دین کے خوبصورت قیافہ کو بدنما اور مشکوک دکھائے ۔

سیف اپنی انہی خرافات پر مشتمل داستانوں اور افسانوں کے ذریعہ اپنے خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر اپنے کفر و زندقہ کے محرکات کو مثبت جواب دینے میں کامیاب ہوا ہے ۔

سیف کے اس قسم کے افسانے دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں :

۱ ۔ ان افسانوں کا ایک حصہ خود سیف سے مخصوص ہے کہ اس نے خود انھیں جعل کیا ہے ۔

۲ ۔ ان افسانوں کے دوسرے حصہ کو سیف نے دیگر افراد کے تعاون سے خلق کیا ہے ،بہر صورت سیف نے اس مقصد کے پیش نظربہت سی داستانوں کو گڑھ لیا ہے کہ اگر ہم ان سب کو یہاں پر بیان کریں گے تو اس کتاب کا حجم حد سے زیادہ بڑھ جائے گا اس لئے ہم اس کتاب میں شاہد و نمونہ کے طور پر صرف چند داستانوں کو درج کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ،کیونکہ یہی نمونے سیف کی دوسری داستانوں کی طرف راہنمائی کرنے میں مددگار ثابت ہوں گےنیزاس کی توہمات بھری روایتوں کو پہچاننے اور ان کی قدر و منزلت جاننے کے بارے میں محققین کیلئے ایک معیار ہوگا ۔

مہلک زہر خالد پر اثر نہیں کرتا !

و دس فی خبر الصلح اسطورة تناول خالد سم ساعة

سیف نے صلح حیرہ کی داستان میں مہلک زہر کا افسانہ خود گڑھ کر اضافہ کیا ہے ۔

مؤلف

اصل داستان

سیف کی سب سے پہلی خرافات پر مشتمل داستان (جس کا مسلمانوں کے عقاید کے ساتھ براہ راست ربط ہے) خالد پر زہر کا اثر نہ کرنا ہے ، کہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے :

طبری ۱۲ ھء کے حوادث کے ضمن میں فتح حیرہ کی روایت کو سیف سے نقل کرتا ہے کہ خالد بن ولید نے حیرہ کے بعض قلعوں کا محاصرہ کیا ،عمرو بن عبد المسیح خالد سے گفتگو کرنے کیلئے قلعہ سے باہر آیا ایک تھیلی اس کی کمر میں لٹکی ہوئی تھی جب وہ خالد کے نزدیک پہنچا تو خالد نے اس تھیلی کو اس سے لے لیا جو کچھ اس تھیلی میں تھا اسے اپنی تھیلی میں ڈالا اس کے بعد عمرو سے پوچھا کہ : یہ کیا ہے ؟

عمرو نے کہا: مہلک اور خطرناک زہر ہے جو انسان کو اسی وقت ہلاک کرسکتا ہے ۔

خالد نے پوچھا : اس زہر کو کس لئے ساتھ لائے ہو؟

عمر و نے کہا: مجھے ڈر تھا کہ تم ہماری صلح کی تجویز کو قبول نہ کرو گے لہذا میں زہر کو کھا کر خود کشی کر لوں گا، کیونکہ میرے لئے موت اس سے بہتر ہے کہ اپنے قبیلہ والوں کو جنگ کی ناگوار خبر سناؤں ۔

خالد بن ولید نے کہا: اگر کسی کی اجل نہ پہنچی ہو تو یہ زہر اسے ہلاک نہیں کرسکتا ہے اس کے بعد خالد نے یہ عبارت پڑھی : ” بسم اللہ خیر الاسماء رب الارض و رب السماء الذی لیس یضر مع اسمہ داء الرحمن الرحیم“ اس کے بعد اپنی ہتھیلی پر موجود زہر کو اپنے ہونٹوں کی طرف لے گیا اس کے اطرافیوں نے اسے زہر کھانے سے روکنا چاہا لیکن اس نے اس سے پہلے ہی زہر کو اپنے منہ میں ڈال کر اسے نگل لیا ۔

عمرو نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اے بزرگ مرد ! اوراے گروہ عرب خدا کی قسم آپ ایسے شریف اور آزاد مرد کے ہوتے ہوئے جو چاہو گے ، اسے حاصل کرو گے !

طبری اس افسانہ کو نقل کرنے کے بعد خالد اور عمرو کے درمیان واقع ہوئی صلح کی کیفیت کو مفصل بیان کرتا ہے ۔

سیف نے اس داستان میں خالد سے گفتگو کا مطالبہ کرنے والے شخص کا نام ” عمروبن عبد المسیح“ بتایا ہے اور خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کو اس میں اضافہ کیا ہے ۔

جبکہ بلاذری نے بھی صلح حیرہ کی روداد کو اپنی فتوح میں درج کیا ہے لیکن خالد سے گفتگو کرنے کا مطالبہ کرنے والے شخص کا نام ”عبد المسیح بن عمرو “ بتایا ہے نہ ” عمرو بن عبد المسیح ‘ اور خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے

دوسری جگہ پر طبری نے اس صلح کی روداد کو عظیم مؤرخ ابن کلبی سے نقل کیا ہے لیکن اس روایت میں خالد کے زہر کھانے کے افسانہ کا وجود نہیں ہے اور خالد سے بحث و گفتگو کرنے والا ’ ’ عبد المسیح بن عمرو“ ہے نہ ”عمروبن عبدا لمسیح ‘ جیسا کہ سیف کی روایت میں آیا ہے ۔

اس کے علاوہ ” انساب ابن الکلبی “ اور ” جمہرة انساب العرب “ میں بھی یہ شخص ” عبدالمسیح بن عمرو“ ہے او ر اس کے خاندانی کوائف بھی مفصل طور پر بیان ہوئے ہیں

جیسا کہ ملاحظہ فرمایا: سیف نے اس داستان کو گفتگو کرنے والے کے نام میں تحریف و تغیر کرکے نقل کیا ہے طبری نے بھی اس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد والے مؤرخین میں سے ہر ایک نے جیسے : ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے البتہ ابن کثیر نے خالد کے مہلک زہر کو کھانے کی داستان کو روایت سے حذف کیا ہے ۔

داستان کی سند کی چھان بین

سیف کی صلح حیرہ کے بارے میں نقل کی گئی داستان کی سند میں درج ذیل راوی ملتے ہیں :

۱ ۔ غصن بن قاسم : وہ بھی اس داستان کو قبیلہ کنانہ کے ایک ناشناس مرد سے نقل کرتا ہے طبری کی نقل کے مطابق غصن بن قسم کا نام سیف کی تیرہ روایتو ں کی سند میں آیا ہے چونکہ ہم نے اپنی تحقیق اور بررسی کے دوران اس راوی کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ، لہذااسے سیف کے جعلی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے اور جسے اس نے اپنے خیالات میں تخلیق کیا ہے ۔

۲ ۔ کنانہ سے ایک شخص : چونکہ سیف نے اپنے اس افسانوی راوی کا نام معین نہیں کیا ہے لہذا مؤرخین اور راویوں کے حالات پر روشنی ڈالنے والے اس نام کو اپنی کتابوں میں درج نہیں کرسکتے ہیں ۔

۳ ۔ محمد : سیف کی روایتوں کے اسناد میں محمد، محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ ہے اور ہم نے معاویہ کے زیاد کو ابوسفیان سے ملانے کی بحث میں کہا ہے کہ اس نام کا کوئی راوی آج تک پہچانا نہیں گیا ہے ا س لئے یہ بھی ان راویوں میں سے ہے جنہیں سیف نے خو ہی جعل کیا ہے

نتیجہ

اس بحث و تحقیق سے یہ نتیجہ نکلا کہ :

اولاً: سیف نے خالد سے گفتگو کرنے والے شخص کا نام ” عبد المسیح بن عمرو “ سے بدل کر ”عمرو بن عبد المسیح “ ذکر کیا ہے اور اس تحریف شدہ نام کو طبری سے سیف کی سولہ روایتوں میں ذکر کیا ہے جبکہ اس کا نام بلاذری کی فتوح البلدان اور ابن حزم کی جمہرہ میں ابن کلبی سے نقل کرکے ----خود طبری نے بھی اسے نقل کیا ہے ----عبدا لمسیح بن عمرو ذکر ہو اہے ۔

ثانیاً : سیف نے اس صلح کے افسانہ پر خالد کے زہر کھانے کا افسانہ بھی ذکر کیا ہے اس افسانہ کو اس کے علاوہ کسی اور مؤرخ نے ذکر نہیں کیا ہے ۔

یہ دروغ سازی کیوں ؟

سیف بن عمر نے اس لحاظ سے اس روداد پر اس افسانہ کا اضافہ کیا ہے کہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ لوگ اپنے گزشتہ گان کے بارے میں اس قسم کے فضائل سننے کے شوقین ہوتے ہیں لہذا سیف کیلئے یہ سنہرا موقع تھا کہ خرافات اور افسانوں کو مسلمانوں کے عقائد میں ممزوج کرکے مسلمانوں کو توہمات اور افسانہ پرست بنادے اور اسلام کو باطل اور خرافات کا دین بتائے ۔

اس کام اور اس قسم کے دوسرے کاموں میں اس کا محرک وہی اس کا کفر و زندقہ تھا جو اس کے دل میں پوشیدہ تھا اور علم رجال اور تاریخ کی کتابوں میں بھی اس کی زندقہ کی حیثیت سے توصیف و معرفی کی گئی ہے ۔

روایت کے راویوں کا سلسلہ

اولاً: سیف نے خالد کے زہر کھانے کی داستان کو :

۱ ۔ غصن بن قاسم

۲ ۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ

۳ ۔ ایک مرد کنانی سے نقل کیا ہے ۔

پہلے دوراوی سیف کے جعلی اور نقلی راویوں میں سے ہیں اور تیسرا راوی بھی مجہول غیر معروف ہے اور سیف نے اسے قبیلہ کنانہ کا ایک مرد جانا ہے اور سیف کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ یہ کنانی مرد کون تھا !

ثانیاً: سیف سے بھی مندرجہ ذیل بزرگوں نے اس داستان کو نقل کیا ہے :

۱ ۔ طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور طبری سے :

۲ ۔ ابن اثیر نے اور

۳ ۔ ابن کثیر نے نقل کیا ہے اور اسے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے کہ اس طرح ان تمام نقلوں کا سرچشمہ سیف ہے اور یہ وہی سیف جسے زندقہ کہا گیا ہے۔

حضرت عمر کے بارے میں پیغمبروں کی بشارتیں

البشری اورشلیم علیک الفاروق ینفیک مما فیک

مژدہ ہو تجھے اے اورشلیم کہ عمر تجھے کثافتوں سے پاک کرے گا

گزشتہ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر

عمرو عاص کی جنگیں

طبری ۱۵ ھء میں فتح فلسطین کی روداد کو سیف سے یوں نقل کرتا ہے :

عمر نے ایک خط کے ذریعہ عمرو عاص کو حکم دیا کہ روم کے سپہ سالار ”ارطبون “ سے فلسطین میں جنگ کرے ، اس کے بعد سیف کہتا ہے : یہ ارطبون “ حکومت روم کا چالاک ، مکار اور بڑے کام کا کمانڈر تھا اس نے فلسطین کے ایک قدیمی شہر ’ ’ رملہ “ میں ایک عظیم لشکر تیار کر رکھا تھا اور بیت المقدس میں بھی ایک دوسرا بڑا لشکر آمادہ رکھا تھا ۔

عمروعاص نے ” ارطبون“ کی آمادگی کے بارے میں عمر کو لکھا جب عمرو کا خط خلیفہ کے ہاتھ میں پہنچا تو اس نے کہا: ہم نے ارطبون ” عرب کو ” ارطبون “ روم سے جنگ کرنے کیلئے بھیجا ہے دیکھئے ان میں سے کون فتح پاتا ہے ، سیف اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے کہ عمرو عاص اپنے لشکر کے ہمراہ روانہ ہوا اور ” اجنادین “(۱) نامی ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور کچھ مدت وہاں پر ٹھہرا اس مدت کے دوران

____________________

۱۔ اجنادین فلسطین کے اطراف میں ایک جگہ ہے۔

”ارطبون “ کے کام میں اس کے کمزور نقاط سے اطلاع حاصل کرنے کیلئے کئی بار افراد کو ”ارطبون “ کے پاس بھیج دیا تا کہ اس کے معمولی ترین نقطہ ضعف سے مطلع رہے اور بوقتِ ضرورت اس سے استفادہ کرے مجبور ہوکر خود عمرو عاص بھی بعنوان نمائندہ عمرو عاص ارطبون کے پاس گیا اور نزدیک سے اس سے گفتگو کی اور اس گفتگو کے ضمن میں اپنی چالاکی اور خاص مہارت سے تمام قلعوں اور سپاہ ارطبون پر مسلط راستوں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی، لیکن ارطبون اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ یہ جو عمرو عاص کے نمائندے کی حیثیت سے اس کے پاس آیا ہے ، خود عمرو عاص ہے اس لئے حکم دیا کہ کسی کو راستے میں معین کرے تا کہ اسے قتل کردے ،عمرو عاص نے جب اپنی چالاکی اور فراست سے ارطبون کے منصوبہ کو سمجھ لیا تو ارطبون کے منصوبہ کو نقش بر آب کرنے کیلئے خود ایک تدبیر سوچی اور ارطبون سے کہا:

تم نے میری بات سنی اور میں نے بھی تیری بات سنی اور تیری بات نے مجھ پر ایک گہرا اثر ڈالا میں ان دس افراد میں سے ایک ہوں جنہیں خلیفہ نے عمرو عاص کے پاس بھیجا ہے تا کہ اس کی مدد اور تعاون کروں میں اس وقت جاؤں گا اور ان نو افراد کو بھی تیرے پاس لے آؤں گا اگر انہوں نے بھی تیری تجویز کو میری طرح قبول کیا تو یقینا سپہ سالار اور فوجی بھی اسی کی قبول کریں گے اور اگر ان نو افراد نے تیری تجویز کو قبول نہ کیا تو تجھے انھیں امان دینا ہوگا تا کہ وہ محفوظ جگہ پر واپس چلے جائیں ۔

ارطبون کو عمرو کی یہ بات پسند آئی اور اس کو قتل کرنے سے عارضی طور پر صرف نظر کیا اور قتل کے مامور کو راستہ سے ہٹا لیا عمرو عاص اس تدبیر اور حکمت عملی سے ارطبون کی مجلس سے باہر آنے میں کامیاب ہوا، اس وقت ارطبون سمجھ گیا کہ عمرو عاص نے اسے دھوکہ دیا ہے اور تعجب کی حالت میں کہا:

عمرو ایک چالاک آدمی ہے!

اس کے بعد عمرو عاص نے چونکہ اپنے اس معائنہ کے دوران اس سرزمین کے تمام اصلی اور فرضی راستوں کو جان لیا تھا اور ارطبون تک جانے اور اس پر مسلط ہونے کے راستوں کو مکمل طور پر پہچان چکا تھا ، اس لئے وہ اپنے لشکر کے ساتھ اس کی طرف روانہ ہوا اور یہ دونوں لشکر ” اجنادین “ کی جگہ پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں پہنچ گئے اور جنگ ” یرموک “ کے مانند ان میں ا یک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

بہت سے افراد مارے گئے ارطبون کی فوج نے مسلمان کے ہاتھوں بری شکست کھائی انہوں نے بیت المقدس تک عقب نشینی کی اور عمرو نے فتحیابی کے ساتھ اجنادین پر قبضہ کیا ۔

جن مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تھا ، ارطبون کو موقع دیا تا کہ بیت المقدس میں داخل ہوجائے، اس کے بعد مسلمان بیت المقدس کے اطراف سے متفرق ہوئے اور ” اجنادین “ میں عمرو عاص کے پاس چلے آئے ۔

بیت المقدس کی فتح کے بارے میں حضرت عمر کی پیشین گوئی۔

ارطبون جو بیت المقدس میں مستقر ہوا تھا نے وہاں سے عمرو عاص کے نام ایک خط لکھا کہ اس کا مضمون یوں تھا : تم اپنی قوم و ملت کے درمیان مجھ جیسے ہو اور قوم و ملت کے درمیان جو میری حیثیت ہے تم بھی اسی کے مالک ہو او ر خدا کی قسم اجنادین کو فتح کرنے کے بعد اب فلسطین کے ایک کونے کو بھی فتح نہیں کرسکو گے ، اپنے آپ پر مغرور نہ ہونا جس راستے سے آئے ہو اسی سے واپس چلے جانا ورنہ ایسی شکست سے دوچار ہوجاؤ گے جس کا سامنا تیرے اسلاف کو کرنا پڑا ہے ۔

جب یہ خط عمرو عاص کو ملا ، ایک شخص جو رومی زبان سے آشنا تھاارطبون کے پا س بھیجا اور اسے حکم دیا کہ ارطبون کی مجلس میں ایسا ظاہر کرنا کہ رومی زبان سے آشنائی نہیں رکھتے ہو تا کہ ارطبون کی باتوں کو سن کر اس کی اطلاع عمرو عاص تک پہنچادو،اس کے بعد ارطبون کے نام حسب ذیل مضمون کا ایک خط لکھا :

مجھے تیرا خط ملا ، جی ہاں ، جیسا کہ تم نے لکھا ہے تم بھی اپنی قوم میں میری طرح عزیز اور محترم ہو اور ایک عظیم شخصیت کے مالک ہو اور اگر تم شخصیت اورعظمت میں مجھے سے کم ہوتے تو میری فضیلت و شخصیت کا انکار کرتے ،لیکن یقین کرنا کہ میں فلسطین کے شہروں کا فاتح ہوں گا اور یہ شہر میرے ہاتھوں مسلمانوں کےلئے فتح ہوں گے، میں اس بات پر تیرے فلاں و فلاں وزیروں کو شاہد رکھتا ہوں ، تم اس خط کو ان کیلئے پڑھنا تا کہ وہ اس بارے میں تجھے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کریں گے ۔

عمرو و عاص کا نمائندہ اس کے حکم کے مطابق روانہ ہوا اور ارطبون کے پاس پہنچا او ر عمرو عاص کے خط کو اس کے چند وزراء اور اطرافیوں کے سامنے دیدیا، وزراء اور اطرافی جب خط کے مضمون سے آگاہ ہوئے تو ہنس کر تعجب سے کہنے لگے :

ارطبون ! تمہیں کہاں سے پتا چلا کہ عمرو عاص فلسطین کے شہروں کو فتح نہیں کرسکتا ہے اور وہ ان شہروں کا فاتح نہیں ہے؟

ارطبون نے کہا: ان شہروں کو ایسا شخص فتح کرسکتا ہے جس کا نام ” عمر “ ہوگا اور وہ نام تین حروف پر مشتمل ہوگا نہ ” عمرو “ جو چار حروف پر مشتمل ہے(۱)

اس کے بعد عمروعاص کا نمائندہ واپس آگیا اور روداد کے بارے میں اسے مطلع کیا، لہذا عمرو عاص سمجھ گیا کہ فلسطین خلیفہ دوم عمر کے ہاتھوں فتح ہوگا نہ عمرو عاص کے ہاتھوں ، اس لئے خلیفہ کے نام ایک خط لکھا:

میں ایک خطرناک اور کمرتوڑ جنگ میں پھنس گیا ہوں اور ایسے شہروں کے مقابلے میں قرار پایا ہوں جن کی فتح کو خداوند عالم نے آپ کیلئے ذخیرہ کیا ہے ، اب میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں ۔

جب یہ خط عمر کو پہنچا تو خلیفہ سمجھ گیا کہ عمرو عاص نے اس موضوع کو بدون اطلاع و آگاہی نہیں کہا ہے علم الٰہی میں یہ فتوحات عمر کے نام پر ثبت ہوئی ہیں اس لئے وہ اس کی شرکت و دخل اندازی سے آزاد ہوں گی اس لئے عمر نے اپنی فوج کو آمادہ کرکے عمرو عاص کی طرف روانہ ہوا اور جابیہ میں داخل ہوا(۱)

____________________

۱۔تاریخ ابن اثیر میں آیا ہے کہ ارطبون نے کہا: فلسطین کو فتح کرنے والا ان صفات کا ایک مرد ہے اس کے بعد ایک ایک کرکے عمر کے اوصاف بیان کئے ،جب کہ ابن اثیر صحابہ پیغمبر کے دوران فتوحات کو ہمیشہ تاریخ طبری سے نقل کرتا ہے لیکن تاریخ طبری میں ایسا کوئی مطلب نہیں آیا ہے ،گویا ابن اثیر نے یہاں اس پر خود ایک تفصیل کے ساتھ اضافہ کیا ہے ۔

عمر تین حروف سے لکھا جاتا ہے لیکن عمرو چار حرف سے لکھا جا تا ہے یعنی اس کے آخر پر واو کا اضافہ ہے جسے نہیں پڑھا جاتا تا کہ ان دو لفظوں میں اشتباہ نہ ہوجائے اس لئے داستان گڑھنے والے کا مقصد یہ ہے کہ ارطبون نے کہا کہ فلسطین کے شہروں کو وہ شخص فتح کرے گا کہ جس کا نام ”عمر “ ہے جو تین حروف سے لکھا جاتا ہے نہ وہ ”عمرو“ جو رسم الخط میں چار حروف لکھا جاتا ہے ۔

سیف کہتا ہے : جب عمر شام کی سرزمین میں داخل ہوئے تو شام کے ایک یہودی نے اس کا استقبال کرکے کہا:

اے فاروق ! آپ پر درود ہوآپ ہی بیت المقدس کو فتح کرنے والے ہیں خدا کی قسم اس سفر سے واپس نہیں ہوں گے مگر یہ کہ بیت المقدس آپ کے ہاتھوں فتح ہوجائے گا۔

سیف کہتا ہے : اس جنگ میں کبھی کبھی بیت المقدس کے لوگ عمروبن عاص پر غلبہ کرتے تھے اور کبھی عمرو بن عاص ان پر غلبہ حاصل کرتا تھا ،لیکن بہر صورت وہ بیت المقدس کو فتح نہ کرسکا اور نہ ”رملہ “ کوعمربن خطاب نے جابیہ میں پڑاؤ ڈالا تھا ،ایک دن اس نے اچانک دیکھا کہ اس کے سپاہیوں نے تلواریں کھینچ لیں اور جنگ کیلئے تیار ہوگئے ،عمر نے سوال کیا : کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا: کیا دشمن کی فوج اور ان کی بلند کی گئی تلواروں کو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ عمر نے جب غور سے دیکھا تو دور سے ایک گروہ کو اس حالت میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنی تلواروں کو اپنے سروں کے اوپر لہرارہے تھے اور تلواروں کی چمک آنکھوں کو چکا چوند کر دیتی تھیں عمر نے اس حالت کو دیکھ کر کہا؛ ڈرو نہیں وہ تم لوگوں پر حملہ کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ تم سے امان مانگنے آرہے ہیں انھیں امان دے دینا، عمر کے فوجیوں نے انھیں امان دیا ، پھر دیکھا کہ وہ بیت ا لمقدس کے باشندے ہیں کہ عمر کی پیشنگوئی کے مطابق انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالدئے ہیں اور ان سے امان چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو عمر کی مرضی

____________________

۱۔ جابیہ شام کے علاقوں میں ایک علاقہ تھا ۔

کے مطابق ہرطرح کی رعایت دے کر صلح کرنے پر حاضر ہیں اور آشتی چاہتے ہیں ان لوگوں نے آگے بڑھ کر عمر سے صلح کی اور عمر سے ایک صلح نامہ حاصل کیا اس صلح نامہ میں بیت المقدس تمام اطراف ، رملہ اور اس کی آبادیوں اور دیہاتوں کے سمیت درج تھا اس صلح نامہ میں فلسطین کا علاقہ جو صوبوں پر مشتمل تھادو حصوں میں تقسیم ہوا تھا اس کا ایک حصہ بیت المقدس اوردوسرا حصہ ” رملہ “ لکھا گیا تھا ۔

سیف کہتا ہے : فلسطین ان دنوں شامات پر مشتمل تھا یعنی آج کے سوریہ ، لبنان اور اردن بھی اس میں شامل تھے،پھر اضافہ کرتا ہے :وہ شامی مرد یہودی جس نے پہلے عمر کو بیت المقدس کی فتح کی نوید دی تھی صلح فلسطین میں حاضر تھا ، جب اس کو ایک باخبرشخص سمجھا تو عمر نے اس سے ” دجال “ کے بارے میں سوال کیا یہودی نے عمر کو جواب دیا :

دجال بنیامین کے فرزندوں میں سے ہے اور خدا کی قسم آپ عرب اسے باب ” لد“(۱) سے دس ہاتھ کی دوری سے قتل کریں گے ۔

سیف کہتا ہے : عمر کے جابیہ میں داخل ہونے کے وقت ارطبون بیت المقدس سے مصر کی طرف بھاگ گیا اور صلح نہ کرنے والے اس کی حامی بھی اس کے ساتھ جاملے اس کے بعد جب مسلمانوں نے مصر کے لوگوں سے صلح کی توارطبون نے وہاں سے روم کی طرف فرار کیا اور مسلمانوں سے لڑنے والے رومی سپاہیوں سے ملحق ہوگیا اور وہیں پر رہا اور موسم گرما کی جنگوں میں لشکر روم کا

____________________

۱۔ حموی معجم البلدان میں کہتا ہے ”لد“ بیت المقدس کے نزدیک واقع ایک گاؤں کا نام ہے اور ” رملہ “ کو بھی ”لد‘ کہتے ہیں ۔

کمانڈر بنا اور سپاہ اسلام کے کمانڈروں سے لڑتا تھا،ان جنگوں میں سے ایک میں قبیلہ قیس کے ”ضریس“ نامی ایک شخص سے اس کا مقابلہ ہوا اور اس کے ساتھ دست بہ دست لڑائی کی، اس جنگ میں ارطبون نے ” ضریس“ کے ہاتھ کو کاٹ ڈالا اور ضریس نے اسے قتل کر ڈالا(۱) ضریس نے وہاں پر یہ اشعار کہے:

اگر ارطبون نے میرے ہاتھ کو کاٹ ڈالا ، لیکن بحمد اللہ ابھی بھی اس ہاتھ سے استفادہ کرتا ہوں ، کیونکہ میری دو انگلیاں اور ہتھیلی باقی بچی ہے کہ اس سے دشمن کی طرف نیزہ پھینک سکتا ہوں اس دن جب دوسرے خوف و وحشت میں ہیں ،اگر ارطبون روم نے میرے ہاتھ کو کاٹ ڈالا ہے اس کے بدلے میں میں نے بھی اس کے بدن کے ٹکڑے کرکے بیابان میں بکھیر دئے ہیں(۲)

زیاد بن حنظلہ نے بھی اس سلسلہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

مجھے جنگ روم یاد آتی ہے وہ کافی طولانی رہی اس سال جب ہم رومیوں کے ساتھ

لڑرہے تھے مجھے یاد ہے یہ جنگ جس دن ہم حجاز میں تھے اور ہمارے اور رومیوں کے درمیان ایک ماہ کا زبردست اورپر مشقت کا فاصلہ تھا اور مجھے یاد آتا ہے وہ دن جب

____________________

۱۔ سیف ایک اور روایت میں جسے طبری نے بھی ۲۰ ھء کے حوادث میں ذکر کیا ہے یوں کہتا ہے کہ ارطبون فتح مصر میں اسی پہلے حملہ میں لشکر عمرو عاص کے ہاتھوں قتل کیا گیا اور یہ دوروایتیں جو دونوں سیف کی ہیں آپس میں اختلاف رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کو جھٹلاتی ہیں اور ” دروغگو را حافظہ نباشد “ کی روداد کو زندہ کرتی ہیں ۔

۲فان یکن ارطبون الروم افسدها

فان فیها بحمد للّٰه منتفعا

بنانان وجرموز اقیم به

صدر القناة اذا ما آنسو فزعا

و ان یکن ارطبون الروم قطعها

فقد ترکت بها اوصاله قطعاً

ارطبون روم اپنے شہروں کی حمایت کرتا تھا اور مسلمان بہادروں سے وہاں پر لڑتا تھا(۱)

ایک حیرت انگیز پیشین گوئی

سیف اپنی سند سے ایک ایسے شخص کے بقول جو فتح بیت المقدس میں حاضرتھا، نقل کرتا ہے کہ جب عمر جابیہ سے بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے اور مسجد بیت المقدس میں داخل ہوئے وہاں پر نماز پڑھی پھر اٹھ کر ایک کوڑے دان کی طرف بڑھے جسے رومیوں نے بنی اسرائیلیوں پراپنے تسلط کے دوران مسجد بیت المقدس میں بنایا تھا، اس طرح سے کہ وہ مسجد کوڑے کر کٹ کے نیچے چھپ گئی تھی جب بنی اسرائیل اقتدار میں آگئے تو اس کو ڑ کرکٹ کے ایک حصہ کو مسجد سے باہر لے گئے،لیکن اس کا ایک حصہ مسلمانوں کے ہاتھوں بیت المقدس کے فتح ہونے تک وہاں پر موجود تھاعمر نے جب بیت المقدس کو آزاد کیا تو اس کوڑے دان کو وہاں پر دیکھ کر لوگوں سے کہا: میں جو کام

انجام دوں گا تم لوگ بھی وہی کام انجام دینا ،اس کے بعد مسجد کی ایک دیوار کے پاس (جہاں پر یہ کوڑے دان تھا) دوزانو بیٹھ گئے اور اپنی قبا کو پھیلا کر کوڑے دان کی خاک کو اس قبا میں ڈال رہے تھے کہ اس اثناء میں پیچھے سے ” اللہ اکبر “ کی آواز بلند ہوئی چونکہ وہ لوگوں

____________________

۱ تذکرت حرب الروم لما تطاولت

و اذ نحن فی عام کثیر نزاو له

و اذا نحن فی ارض الحجاز و بیننا

مسیرة شهر بینهن بلا بلد

و اذارطبون الریم یحمی بلاده

یحاوله قرم هناک یساجله

اسی بنا پر ہم سیف کی ان دوگانہ تحریف میں سے کس کی تائید کریں گے ؟ کیا اس کی ان تحریفات کی تائید کریں جن میں اس نے بڑی شخصیتوں کے دفاع میں اصل تاریخی رودادوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے جبکہ خود طبری نے دوسرے راویوں سے ان واقعات کو دوسری طرح سے نقل کیا ہے یا اس کی داستانوں کی دوسری قسم کی تائید کریں جو توہمات اور خرافات پر مشتمل ہیں ، کیا اس قسم کی داستان سرائی کو روایات میں اجمال و تفصیل کہیں گے یا روایتوں میں الٹ پلٹ اور تحریف کا نام دیں گے؟

لیکن، جس دوسرے نکتہ کا آپ نے ذکر کیا ہے کہ ایک خاص علاقہ کی تاریخ لکھنے والا گمنام افراد کا نام لیتا ہے اور جو عام تاریخ لکھتا ہے وہ اس قسم کے مطالب میں مداخلت نہیں کرتا ہے ۔

ہم جواب میں کہتے ہیں : کیا آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ عمرو کے دو بیٹے قعقاع اور عاصم جن کا سیف نے نام لیا ہے ، گمنام افراد تھے ؟ نہیں ، ہرگز ایسانہیں ہے سیف کہتا ہے کہ قعقاع رسول خدا کے اصحاب میں سے تھا اور اس نے حدیث نقل کی ہیں ،وہ سقیفہ میں حاضر تھا ، ابوبکر نے اسے خالد کی مدد کیلئے بھیجا ہے اور ا سکے بارے میں یوں کہا ہے : ”جس فوج میں قعقاع جیسے افراد موجود ہوں وہ فوج فرار نہیں کرے گی “ وہ عراق میں خالد کی جنگوں میں شریک تھا ، جب خالد، اسلام کے سپاہیوں کی مدد کیلئے شام کی طرف روانہ ہوا تو اسے اپنے ساتھ لے گیا ، دمشق کی فتح اور اس پر تسلط جمانے کا سبب قعقاع کا اپنے ساتھی کے ہمراہ قلعہ کی دیوار پر چڑھنا تھا اس کے بعد عمر نے اسے دوبار ہ جنگ قادسیہ میں سعد کی مدد کیلئے وہاں سے عراق کی طر ف لوٹا دیا اور اس نے سفید ہاتھی کی آنکھ کو نکال کر اسے اندھابنا دیا قادسیہ کی جنگ میں اس کی بہادریاں مسلمانوں کی فتح و کامرانی کا سبب بنیں ۔

سیف کے نام گزاری کئے گئے ایام : ” الاغواث“ ”عماس “ اور ” الامارث “ میں اس نے مدد کی ہے ۔

سعد نے اس جنگ میں اسکے بارے میں عمر کو یہ تعریفیں لکھیں کہ ”وہ شہسوار ترین سپاہی ہے “ اس جنگ کے بعد عمر نے اسے ایک بار پھر مسلمانوں کی نصرت کیلئے یرموک کی جنگ میں شام بھیجا ، وہاں پر مسلمانوں کی مدد کرنے کے بعد تیسری بار عراق کی طرف روانہ ہوا اور نہاوند کی جنگ میں شرکت کی ، وہاں پر وہ شہر کے اندرپناہ لئے ہوئے ایرانیوں کو باہر لا کر صحرا تک کھینچ لانے میں کامیاب ہوا ،ان کامیابیوں کے بعد عمر نے اسے عراق کی سرحدوں کے محافظوں کے سردار کے طور پر مقرر کرکے اسے سرحد کا نگہبان بنا دیا۔

اس بناء پر دونوں خلیفہ ابوبکر اور عمر قعقاع کو ہر نامناسب حادثہ روکنے کیلئے بھیجتے تھے ، لیکن عثمان نے اسے کوفہ کا سپہ سالار مقرر کیا اور وہ سبائیوں کی تحریک اور ان کی بغاوت تک اس عہدہ پر فائز رہا اور اس شورش کو کچلنے میں کوشش کی جب عثمان محاصرہ میں قرار پایا تو اس کی نصرت کیلئے ایک فوج کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا ، لیکن اس سے پہلے کہ مدد کرنے والے پہنچ جاتے عثمان قتل ہوچکے تھے لہذا وہ واپس کوفہ کی طرف لوٹا ۔

علی کی خلافت میں اس نے کوفہ کے لوگوں کو جنگ جمل میں علی سے ملحق ہونے پر آمادہ کیا اور علی و عائشہ اور اس کے حامیوں (طلحہ و زبیر) کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوا تھا ، اگر سبائی دھوکے میں جنگ کے شعلوں کو نہ بھڑکاتے جب جنگ چھڑ گئی تو وہی تھا جس نے عائشہ کے اونٹ کا تعاقب کرکے اس پر قابو پاکر جنگ کا خاتمہ کیا اور وہی تھا جس نے عائشہ کے لشکر کو امان دیدی۔

معاویہ کے زمانے میں وہ ان افراد میں سے تھا جنہیں معاویہ کے حکم سے فلسطین کی ” ایلیا “ نامی جگہ پر جلا وطن کیا گیا ، کیونکہ وہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے لئے مخصوص اصحاب میں سے تھا ۔

لیکن اس کا بھائی عاصم : اس کے بارے میں سیف یوں کہتا ہے کہ وہ ۱۲ ھئمیں خالد کے ساتھ یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کیا، سیف نے اس کے بارے میں بہت سارے بہادری و شجاعت کے قصے جیسے جنگ قادسیہ میں ہاتھیوں کو اندھا بنانا وغیرہ نقل کی ہیں ۔ خلیفہ عمر نے اسے علاء کی مدد کیلئے فارس بھیجا ہے ، یہ وہی ہے جس کے ساتھ گائے نے گفتگو کی ، عمر نے سیستان کی جنگ کا پرچم اس کے ہاتھ میں دیا اس کے بعد اسے کرمان کی گورنری اور فرماں روائی سونپی اور اپنی وفات ۲۹ ھء تک وہا ں کی گورنری کے عہدہ پر فائز تھا ۔

سیف نے ان دو جنگجو بھائیوں کے بارے میں ا ن تمام اخلاقی خوبیوں کے علاوہ اشعار و مناقب بھی بیان کئے ہیں ۔

کیا بقول سیف جنگجو اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی دو بھائیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ گمنام افراد میں سے ہوں گے ؟ جبکہ سیف نے ان کیلئے اتنی خصوصیات بیان کی ہیں اور خلفاء کی طرف سے مختلف مراحل میں اتنی نوازشیں اور فرمان روائیاں عطا کی گئی ہیں اور ان سے اتنے اشعار نقل ہوئے ہیں کیا خالد بن ولید کیلئے اتنیشجاعت و بہادری کے قصے کتابوں میں بیان ہوئی ہیں جتنی سیف نے قعقاع کیلئے نقل کی ہیں ؟ اس کے باوجود کیا علت ہے کہ ان دو افراد کا نام صرف سیف کی روایتوں میں ذکر ہوا ہے ؟

طبری نے ۱۰ ھء سے ۲۹ ھء تک کی رودادوں کے بارے میں جو کچھ سیف سے نقل کیا ہے میں نے اسے اسی مدت کے بارے میں د وسروں کی روایتوں سے موازنہ اور تطبیق کیا اور اسی طرح جو کچھ ابن عساکر نے اپنی تاریخ دمشق کی ج ۱ و رج / ۲ میں سیف اور غیر سیف سے روایت کی ہے ، دونوں کی تطبیق کی، لیکن ان دو جنگجوؤں کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ ابن شہاب (وفات ۱۲۴ ھء) ، موسی بن عقبہ (پیدائش ۱۴۱ ھء) ، ابن اسحاق (پیدائش ۱۵۲ ھء) ، ابو مخنف (پیدائش ۱۵۷ ھء) ، محمد بن سائب (پیدائش ۱۴۶) ابن ہشام (پیدائش ۲۰۶ ھء) ، واقدی (پیدائش ۲۰۷ ھء) اور زبیر بن بکار (پیدائش ۲۴۷ ھء) کی روایتوں اور دوسرے راویوں کی روایتوں میں جس سے طبری اور ابن عساکر نے دسیوں روایتیں ان رودادوں کے بارے میں نقل کی ہیں کہ سیف نے ایسی ہی رودادوں میں ان دو بھائیوں کا نام ذکر کیا ہے لیکن ان دوبھائیوں کے بارے میں ا نہوں نے کہیں نام تک نہیں لیا ۔

میں نے اس موازنہ میں صرف اس پر اکتفاء کیا ہے جسے طبری نے سیف اور دوسروں سے نقل کیا ہے اور ابن عساکر کو صرف ایک گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے چونکہ میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنی بات کے تیسرے مرحلہ میں اس مطلب کے بارے میں یاددہانی کی ہے کہ ہم موازنہ اور مقابلہ میں تاریخ طبری پر اکتفاء کریں ، ورنہ میں آپ کے اس نظریہ سے اتفاق نہیں ر کھتا ہوں کہ صرف تاریخ طبری کو اہمیت دی جائے اور اسی پر اکتفاء کیا جائے (اگر آپ اس قسم کا اعتقاد رکھتے ہیں ؟)

آپ کے کہنے کے مطابق یاددہانی اور آگاہی کیلئے قعقاع اور عاصم کے بارے میں کیوں طبقات ابن سعد کی طرف رجوع نہ کریں ؟ کیا ابن سعد نے کوفہ میں رہنے والے اصحاب ، تابعین اور دانشوروں ،کی زندگی کے حالات پر روشنی نہیں ڈالی ہے ؟ اور یہ دو بہادر جنگجو کو سیف کے کہنے کے مطابق کوفہ کی معروف شخصتیں اور جنگجو تھے ؟!

کیا وجہ ہے کہ ہم آشنائی حاصل کرنے کیلئے کتاب ” الاصابہ “ کی طرف رجوع نہ کریں جبکہ ابن حجر بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں صورتوں میں سیف سے روایتیں نقل کرتے ہیں ؟

کیوں نہ ہم ” الاستعیاب “ ” اسد الغابہ “ اور ” التجرید “ کا مطالعہ کریں اور ان کے سیف سے نقل کئے گئے اصحاب کی زندگی کے حالات کو نہ پڑھیں ؟ کیا یہ کتابیں اصحاب کی زندگی کے حالات کی تشریح کرنے میں خصوصیت نہیں رکھتی ہیں ؟! ہم کیوں تاریخ ابن عساکر کی طرف رجوع نہ کریں اور اس کے ہر موضوع پر لکھے گئے مطالب کو نہ پڑھیں ،جو روایتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے اس نے حتی الامکان تمام روایتوں کو حتی سیف اور غیر سیف سے نقل کیا ہے ؟!

سیف کی فتوحات کی بحث میں ہم کتاب ” معجم البلدان “کا کیوں مطالعہ نہ کریں ؟ جبکہ اس کے مصنف کے پاس سیف کی کتا ب” فتوح “ کا تصحیح شدہ ابن خاضبہ کا لکھا ہوا قلمی نسخہ موجود تھا چنانچہ اس نے شہردں کی تاریخ لکھنے والے تمام مؤلفین کا ذکر کیا ہے کیوں نہ ہم ان کا مطالعہ کرکے موازنہ کریں ؟ اور اس بحث سے مربوط دوسری کتابوں کاکیوں ہم مطالعہ نہ کریں ؟ اس کی کیا دلیل ہے کہ ہم اپنی تحقیق، مطالعہ ، اور موازنہ کو طبری کی روایتوں تک محدود کرکے رکھیں ؟

میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ سچی روایتیں نہ لکھنے میں طبری کا تعمد اور اس کی خود غرضی شامل تھی میں اسے اس موضوع کے بارے میں ملزم جانتا ہوں ، کیا یہ شخص وہی نہیں ہے جو ۳۰ ھء کی رودادوں کو لکھتے ہوئے ابو ذر کی زندگی کے حالات کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

” اس سال یعنی ۳۰ ھء میں معاویہ اور ابوذر کا واقعہ پیش آیا اور معاویہ نے اسے شام سے مدینہ بھیج دیا ، اس جلاوطنی اور مدینہ بھیجنے کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں کہ مجھے ان میں سے بہت سی چیزوں کا ذکر کرنا پسند ہے لیکن جو لوگ اس قضیہ میں معاویہ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک داستان نقل کی ہے کہ سیر نے اسے لکھا ہے کہ شعیب نے اسے بقول سیف اس کیلئے نقل کیا ہے “(۱)

تاریخ طبری کا اس کے بعد والے افراد کیلئے قابل اعتماد بننے اور ان کا اس پر بھروسہ کرنے کا یہی موضوع سبب بنا ہے اس مطلب کی تفصیلات اور وضاحت کیلئے تاریخ ابن اثیر کا مقدمہ ، جہاں پر ۳۰ ھء میں ابوذر کی روداد بیان کی گئی ہے ،تاریخ ابن کثیر ،ج ۷ ص ۲۴۷ اور ابن خلدون جنگ جمل کی داستان کا آخری حصہ اور معاویہ کے ساتھ امام حسن کی صلح کا واقعہ مطالعہ کیا جائے(۲)

____________________

۱۔ طبری، ج ۴/ ص ۶۴

۲۔ اس کتاب کی ابتداء میں ” افسانہ کا سرچشمہ ”‘ نامی فصل ملاحظہ ہو

یہ طبری کا حال ہے نیز ان لوگوں کا جنہوں نے طبری پر اعتماد کر کے اس سے نقل کیا ہے لہذا یہکیسےممکن ہے کہ ہم اپنی تحقیقات اور چھان بین کو تاریخ طبری تک ہی محدود کر دیں ؟

آپ نے اپنے خط کے چوتھے بند میں لکھا تھا: سیف کی ان جگہوں کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں پر اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے ہم آہنگ اور بالکل ویسی ہی ہیں ؟ کیا اس صورت میں بھی آپ اسے حدیث جعل کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ؟یہاں تک آپ نے لکھا کہ: ” میں امید کرتا ہوں آپ سیف کی روایتوں پر تحقیقات کرتے وقت معین کریں کہ کیا سیف کی ساری روایتوں کوکہ جو کچھ اس سے نقل ہوا ہے اس میں مکمل طور پر الگ کر دیا جائے یا کم از کم اس کی بعض روایتوں کو قبول کیا جائے ؟

اس کے جواب میں کہنا چاہتا ہوں : سیف کی تاریخی روایتوں کی میری نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے میں اس کی وقعت ہارون رشید کے زمانے کی داستانوں پر مشتمل لکھی گئی کتاب ” الف لیلیٰ“ سے زیادہ نہیں سمجھتا جس طرح ہم کتاب ” الف لیلیٰ“ کو ہارون رشید کے زمانے کے بارے میں تاریخ کے ایک مآخذ اور نص کے طور پر مطالعہ نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ادبی داستان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اسے تھکاوٹ دور کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے ایک وسیلہ کے طور پر جانتے ہیں حقیقت میں بعض اوقات ان داستانوں میں داستان لکھنے والے کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے اور اس کے ہم عصر لوگوں کی فکری سطح پر تحقیق کی جاسکتی ہے اور اسی طرح اس زمانے میں ملک کی ثقافت و تمدن کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کا خود داستان کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا ۔

میں سیف کی داستانوں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور داستان کے اسلوب سے ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ہمارا یہ طاقتور داستان نویس اپنی داستانوں کیلئے مآخذ اور اسناد جعل کرنے کیلئے مجبور تھا تا کہ ان داستانوں کا سلسلہ اس زمانے تک پہنچ جائے جس کے بارے میں اس نے داستانیں لکھی ہیں کیونکہ اس کا زمانہ ” جرجی زیدان “ کا زمانہ تھا کہ اپنے تاریخی افسانوں کیلئے سند جعل کرنے کی ضرورت نہ رکھتا ہو ۔

میرے نزدیک سیف کی روایتوں کی حیثیت ایسی ہے کہ میں ان میں سے کسی ایک پر اعتماد نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ جس نے اتنا جھوٹ بولا ہو اس پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے دوسرے مواقع پر بھی جھوٹ نہ کہا ہوگا لہذا عقل حکم دیتی ہے کہ سیف کی کسی بھی روایت پر اعتماد نہ کیا جائے میں اگر سیف سے روایت کی گئی کسی داستان کو کسی دوسرے معتبر طریقے سے حاصل کروں تو اسے قبول کروں گا لیکن اس حالت میں ترجیح دوں گا کہ سیف کی روایت کو کالعدم قرار دوں ۔

اپنے خط کے پانچویں حصہ میں آپ نے ذکر کیا ہے: میں نے سیف کے توسط سے حوادث اور روئداد وں کے سالوں میں سیف پر تحریفات کی تہمت لگائی ہے اور لفظ تحریف سے روئیدادوں کے سال تعیین کرنے میں عمداً یہ کام انجام دینے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے ، جبکہ یہ صرف سیف نہیں تھا جس نے حوادث کے سالوں کے تعیین میں اختلاف کیا ہے ۔

میں اس کے جواب میں کہتا ہوں : اگر چہ سیف کے علاوہ دوسرے راوی بھی رودادوں کے بارے میں سال اور تاریخ معین کرنے میں آپس میں اختلافات رکھتے ہیں ، لیکن یہ کام ان کے یہاں اتنا عام اور مشہور نہیں ہے جتنا سیف کے یہاں پایا جاتا ہے یا اس نے اس کی عادت ڈال لی ہے اس کے علاوہ جس قدر ہم نے سیف کے یہاں تاریخی داستانوں میں تحریفات ، مداخلت اور الٹ پھیر دیکھی ہے اس قدر دوسروں کے یہاں مشاہدہ نہیں ہوتا ، اس کے علاوہ ہم نے اکثر اس کی ان تحریفات کو مد نظر رکھا ہے کہ صرف اس نے عمداً یہ کام انجام دیا ہے اور دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تائید نہیں کی ہے یعنی اس نے دوسرے تمام راویوں کے بر عکس عمل کیا ہے ۔

لیکن آپ کا یہ کہنا کہ زمانے کے بعض اختلافات جو بذات خود ایسے اسباب ہیں کہ ان کا بد نیتی اور خود غرضی سے کوئی ربط نہیں ہے۔

جواب میں کہتا ہوں کہ : خوش فکر انسان جتنی بھی کوشش کرے زیادہ سے زیادہ سیف کی تحریفات کے چند خاص مواقع کی توجیہ کرسکتا ہے لیکن اس کی تحریفات کے اندر ایسے نمونے بھی ملتے ہیں کہ جس قدر بھی ہم حسن ظن رکھتے ہوں اور اس کے سوا چارہ ہی نظر نہیں آتا ہے کہ اس سے بد نیتی اور خود غرضی کی تعبیر کی جائے ،نمونہ کے طور پر اس امر کی طرف توجہ فرمائیے کہ : طبری نے ۱۲ ھء کی رودادوں کو نقل کرتے ہوئے ” ابلہ “ کی فتح و تسخیر کے بارے میں اپنی تاریخ کی ج(۴) ص ۵ ۔ ۶ میں لکھا ہے : ابوبکر نے خالد کو عراق بھیجا اور اسے حکم دیا کہ پہلے بندر سندھ اور ہند کو فتح کرے وہ جگہ ان دنوں ” ابلہ “ کے نام سے مشہور تھی خلاصہ یہ ہے کہ : اس نے مشرکین کو اس حالت میں دیکھا کہ انہوں نے فرار نہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا تھا اور ان کے پاس پانی موجود تھا ، خالد نے ان کے مقابل میں ایک ایسی جگہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں پر پانی موجو نہ تھا اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئی خداوند عالم نے بادل کے ایک ٹکڑے کو بھیجدیا اور مسلمانوں کی فوج کے پیچھے موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خداوند عالم نے اسلام کے سپاہیوں کو طاقت بخشی ، سورج چڑھنے سے پہلے اس صحرا میں اس لشکر کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، جنہوں نے اپنے کو زنجیروں سے باندھا تھا ، خالد نے ان سب کا قتل عام کیا اسی لئے اس جنگ کو جنگِ ” ذات السلاسل “ کہا گیا ہے ، یعنی زنجیر والوں کی جنگ، خالد نے اس فتح و نصرت کی خبر جنگ غنائم اور ایک ہاتھی سمیت ابوبکر کو بھیجا، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھمایا گیا تا کہ لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر آپس میں کہتی تھیں کیا یہ خدا کی مخلوق ہے جسے ہم دیکھتے ہیں ؟ اور خیال کرتی تھیں کہ اسے انسان نے خلق کیا ہے ۔ ابو بکر نے اس ہاتھی کو ” زر“ نامی ایک شخص کے ذریعہ واپس بھیج دیا ۔

اس داستان کے بعد طبری کہتا ہے : ” ابلہ “ اور اس کی فتح کے بارے میں یہ داستان جو سیف نے نقل کی ہے ، اس چیز کے بر عکس ہے جو سیرت لکھنے والوں نے نقل کیا ہے اور اس کے بر خلاف ہے جو صحیح مآخذ اور آثار میں ذکر ہوا ہے بلکہ ” ابلہ “ خلافت عمر کے زمانے میں عقبہ بن غزوان کے ہاتھوں ۱۴ ھء میں فتح ہوا ہے اس کے بعد طبری نے ۱۴ ھء کی روئیداد کے ضمن میں اپنی کتاب کی جلد ۴ ص ۱۴۸ سے ۱۵۲ تک سیف کے علاوہ دوسرے راویوں سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

” عمر نے عقبہ سے کہا: ” میں نے تجھے سرزمین ہند کی بندرگاہ کی ماموریت دیدی ہے اور اسے بندر ہند کی گورنری سونپی ، عتبہ روانہ ہوا اور سرزمین ” اجانہ “ کے نزدیک پہنچا ، تقریباً ایک مہینہ تک وہاں پر ٹھہرا ، شہر ” ابلہ “ کے باشندے اس کے پاس آگئے ، عتبہ نے ان سے جنگ کی ، وہ بھاگ گئے اور شہر کوترک کیا ، مسلمان اس شہر میں داخل ہو گئے عتبہ نے اس فتحیابی کی نوید جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کے ساتھ عمر کو بھیج دی

خدا آپ کی حفاظت کرے ! ذرا غور سے دیکھئے اور غائرانہ نظر ڈالیے کہ سیف نے کس طرح عمر کے زمانے میں عتبہ نامی سردار کے ہاتھوں واقع ہوئی ایک روداد کو تحریف کرکے اسے ابوبکر کے زمانے سے مربوط کرکے خالد بن ولید کے ہاتھوں رونما ہوتے دیکھا یاہے ، اختلاف صرف سال اور تاریخ ثبت کرنے میں نہیں تھا کہ صرف ۱۴ ھ ئکو ۱۲ ھء کہا ہوگا تا کہ اس کی تحریف کیلئے کوئی توجیہ تلاش کرتے !

اس کے علاوہ سیف نے اس روداد کو لکھتے ہوئے ایک اور چیز کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خالد اور اس کے سپاہی ایک ایسی جگہ پر اترے جہاں پر پانی موجود نہ تھا اور خداوند عالم نے ان کے محاذ کے پیچھے ایسا پانی برسایا جس سے وہاں پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے اور اس طرح خدا نے مسلمانوں کو طاقت بخشی سیف اس طرح چاہتا تھا کہ جو برتری اور فضیلت خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عنایت کی تھی اسے خالد اور اس کے لشکر کیلئے ثابت کرے جہاں پر خداوند عالم فرماتا ہے :

<و یُنَّزِلُ عَلَیْکُمْ مِنَّ السَّماءِ مَاءً لِیُطَهِّرَکُمْ بِهِ وَ یُذْهِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوبِکُمْ وَیُثَّبِتَ بِهِ الاَقْدَامَ >

اور آسمان سے پانی نازل کررہا تھاتاکہ تمہیں پاکیزہ بنا دے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو مطمئن بنادے اورتمہارے قدموں کو ثبات عطاکردے ۔ (سورہ انفال / ۱۱)

اس طرح سیف نے ایک اور مطلب کا اضافہ کیا ہے کہ خالد نے دشمن فوج سے غنیمت کے طور پر ہاتھ آئے ایک ہاتھی کو جنگی غنائم کے ساتھ مدینہ بھیجا تا کہ مدینہ کے لوگ اس کا تماشا دیکھیں ، ہاتھی کو شہر مدینہ میں گھما یا گیا اور مدینہ کی کم عقل عورتیں اسے دیکھ کر کہتی تھی : کیا یہ خدا کی مخلوق ہے یا انسان کے ہاتھ کی بنی ہوئی کوئی چیز ہے ؟ کیا حقیقت میں ہاتھی پوری اس جعلی داستان کے ہم آہنگ نظر آتا ہے ؟ جسے سیف بن عمر نے خلق کیا ہے ، لیکن افسوس، کہ مناسب طریقے پر اسے جعل نہیں کیا ہے میں نہیں جانتا کہ سیف یہ بات کیوں بھول گیا ہے کہ حجاز کے عربوں نے سپاہ ابرھہ کی روداد میں ہاتھی کو دیکھا تھا کاروانوں نے اس خبر کو ہر بیابان تک پہنچا دیا تھا اور داستانیں لکھنے والوں نے اپنے افسانوں میں کافی حد تک اس کا ذکر کیا تھا مسلمان عورتوں نے قرآن مجید میں ان آیات کی کافی تلاوت بھی کی تھی

<اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیل اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَهُمْ فِی تَضْلِیلٍ >

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کردیا ہے ۔ (سورہ فیل)

میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ سیف نے کس مقصد سے ان مسائل اور ایسے مطالب کا اس داستان میں اضافہ کیا ہے ؟ کیا وہ یہ چاہتا تھا کہ جو چیز خداوند عالم نے غزوہ بدر میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے عطا کی تھی اسے خالد کیلئے ثابت کرے ؟ یا چاہتاتھا کہ خالد کے مرتبہ و مقام کو بلند کرکے اس کیلئے فتوحات اور کرامتیں بیان کرے تا کہ عراق کی سپہ سالاری سے اس کی معزولی اور سلب اعتماد کے بعد اسے عراق سے شام بھیج کر ایران کی فتوحات میں شرکت سے محروم کئے جانے کی بے چینی کی تلافی کرے یا ان باتوں کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے مد نظر تھی ؟

لیکن آپ کے چھٹے مطلب کے بارے میں کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ سیف نے اپنی روایتوں میں جس سلسلہ سندکا ذکر کیا ہے اس کی تحقیق اور چھان بین کی جائے ۔

جواب میں عرض ہے کہ : اگر سیف کی روایتوں کے بارے میں ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیف نے جو نقل کیا ہے اس میں وہ منفرد ہے اور اس کے بعد ہمیں معلوم ہوجائے کہ سیف نے اس روایت کو روایوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے تو کیا ہم اس روایت کے گناہ کو اس شخص کی گردن پر ڈال سکتے ہیں جس سے سیف نے روایت نقل کی ہے ؟

مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ فرمائیں گے شاید ہم اس کتاب کی اگلی بحثوں میں آپ کے نظریہ سے استفادہ کریں(۱)

والسلام علیکم ور حمة اللہ و برکاتہ

کاظمین ، عراق

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ سیف کی روایتوں کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض روایتوں کو سیف نے خود جعل کیا ہے اور دیگر راویوں سے نقل کیا ہے ہم نے ان تحقیقات کے نتائج کو کتاب عبدا للہ بن سبا کے بعد والے طبع میں داخل کیا ہے اور ” رواة مختلقون“ نام کی کتاب زیر تالیف ہے

مطالعات کے نتائج

روایت جعل کرنے میں سیف کا مقصد

ہم نے سیف کی روایتوں کے بارے میں کافی حد تک مطالعہ و تحقیقات کا کام انجام د یا ہے مطالعات کی ابتداء میں ہم یہ تصور کرتے تھے کہ روایت جعل کرنے اور داستانیں گڑھنے میں اس کا صرف یہ مقصد تھا کہ طاقتور اور صاحب اقتدار اصحاب جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھی اور نفوذ رکھتے تھے، کا دفاع کرے اور ان کے مخالفین کو ذلیل و حقیر کرے اور ان کی عظمت کو گھٹا کر پیش کرے ، ہر چند وہ بلند ایمان اور بافضیلت ہی کیوں نہ ہوں ، اس لئے اس نے تاریخ کے واقعات کو الٹ پلٹ کر کے رکھدیا ہے بہت سے افسانوں اور داستانوں کر گڑھ کر انھیں تاریخ اسلام میں شامل کیا ہے اس طرح نیک اور مخلص اصحاب کو ظالم اور تنگ نظر کی حیثیت سے معرفی کیا ہے اور ظالموں اور آلودہ دامن والوں کو پاک ، دانا اور پرہیزگار کے طور پر پیش کیا ہے اور جعل و تحریف کی اس تلاش میں اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ کرکے بد صورت دکھایا ہے اس منحوس اور خطرناک منصوبہ اور نقشہ میں اس کی کامیابی کا راز اس میں تھا کہ اس نے اپنے برے اور تخریب کارانہ مقصد کو تمام اصحاب کی تجلیل اور تعریف کے ساتھ ممزوج کرکے رسول خدا کے تمام اصحاب کی حمایت و دفاع کے پردے میں چھپایا ہے ، اس کی یہ چالاکی اور مکر و فریب مسلسل ایک طولانی مدت تک دانشوروں کیلئے پوشیدہ رہا اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ سیف حسن ظن اورللہیت اور مقدس مقصد رکھتا ہے اور حدیث و افسانے گڑھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام اصحاب کا دفاع کرنا چاہتا ہے اور ان کے فضائل کی تشہیر کرنا چاہتا ہے اسی غلط تصور کے تحت تاریخ اور حدیث کے علماء نے ----اس کے باوجود کہ اسے جھوٹا ا اس کی روایتوں کو جعلی اور خود اس کو افواہ باز و زندیق کہتے تھے --- اس کی روایتوں کو تمام راویوں پر ترجیح دے کر انھیں مقدم قرار دیا ہے ۔

اسی وجہ سے سیف کی جھوٹی روایتیں رائج ہوکر منتشر ہوگئیں اور اسلامی تاریخ اور مآخذ میں شامل ہوگئیں اور اس کے مقابلہ میں صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوکر اپنی جگہ، سیف کی جھوٹی روایتوں کو دے بیٹھی ہیں اسلام اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کے بہانے اسلام کیلئے یہ سب سے بڑا نقصان اور پیکر اسلام پر کاری ضرب تھی جو پہلے سیف کی طرف سے اورپھر اس کے اس جرم میں شریک تاریخ نویسوں کے ایک گروہ کی طرف سے پڑی ہے ۔

چونکہ میں نے سیف کی کارکردگیوں کے اس سلسلہ کو اسلام و مسلمین کے بارے میں نقصان دہ اور انتہائی خطرناک پایا اس لئے میں نے تاریخ اسلام کا عمیق مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ پیغمبر اسلام کے نیک اور مخلص اصحاب کا دفاع کروں جن کا حق تاریخ اسلام میں ضائع اور پایمال ہوا ہے۔

اور ان کی ذات کو سیف کی تہمتوں سے پاک کروں اور تاریخ میں گزرے ہوئے ہر واقعہ کو اپنی جگہ پر قراردوں ، خاص کر اپنے مطالعہ کو سیف کی روایتوں کے بارے میں جاری رکھوں اور اس کی تحریفات اور اس کے شریک جرم حامیوں کے تعصبات کے ضخیم پردوں کے نیچے سے تاریخ کے فراموش شدہ حقائق کو نکال کر کما حقہ ،صورت میں پیش کروں ، میں نے اس تحقیقات اور مطالعات کے خلاصہ کو ایک کتاب کی صورت دیدی اور ۱۳۷۵ ھء میں اسے نجف اشرف میں ” عبد اللہ بن سبا “ کے نام پر شائع کردیا یہ تھے میرے مطالعات کے پہلے نتائج اور انکشافات ۔

اس کے بعد میں نے سیف اور اس کی روایتوں کے بارے میں مطالعہ اور تحقیقات کو جاری رکھا میں نے اس سلسلہ میں عمیق تحقیقات اور بیشتر دقت سے کام لیا سب سے پہلے میرے لئے یہ مطلب منکشف اور عیاں ہوگیا کہ ان سب جعل ، جھوٹ اور کذب بیانی کی تشہیر سے سیف کا صرف صاحب اقتدار اصحاب کا دفاع ہی مقصد نہ تھا بلکہ اس کے اور بھی مقاصد تھے جنہیں اس نے ظاہری طور پر تمام اصحاب کے دفاع کے پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے ۔

حقیقت میں سیف کے احادیث جعل کرنے اور افسانہ سازی میں بنیادی اور اصلی محرک کے طور پر درج ذیل دو عوامل تھے :

۱ ۔ خاندانی تعصب

سیف اپنے خاندان ” عدنان “ کے بارے میں انتہائی متعصب تھا اور ہمیشہ اپنے خاندان کے افراد کی خواہش کے مطابق تعریف و تمجید کرتا ہے اور اپنے قبیلہ کے افرادکیلئے فضائل و مناقب جعل کرکے ان کی تشہیر کرتا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں انھیں شامل کرتا ہے چونکہ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور بنی امیہ کے تمام خلفاء اور ان کے زمانے کے حکام و فرمانروا سب قبیلہ عدنان سے تعلق رکھتے تھے ، اس طرح مہاجر اصحاب ،قریش سے تھے اور قریش بھی قبیلہ عدنان کا ایک خاندان تھا ، سیف ان سب کا خاندانی تعصب کی بناء پر کہ وہ اس کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے دفاع کرتا تھا چونکہ بزرگ صحابی اور طاقتور لوگ اس کے قبیلہ کے افراد تھے اسلئے یہ شبہہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ بزرگ اصحاب کا دفاع کرتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنے قبیلہ کے بزرگوں یعنی خاندان عدنان کے افراد کا دفاع کرتا تھا اس طرح ایسے خاندانی تعصب کی بناء پر قبیلہ قحطان کے افراد جو فخر و مباحات کے لحاظ سے قبیلہ عدنان کے ہم پلہ اور برابر تھے اس وقت کے حاکموں اور صاحبان اقتدار سے ---جو سب قبیلہ قریش اور عدناں سے تھے---- ----اچھے تعلقات نہیں رکھتے تھے(۱) شدید ملامت کرتا تھااور ان پر ناروا تہمتیں لگاتا تھا۔

چونکہ انصار قبیلہ قحطاں کا ایک خاندان تھا اس لئے سیف نے ان کی ملامت اور مذمت کرنے میں حد کر دی ہے اور انکی مذمت اور تنقید میں داستانیں گڑھ لی ہیں اور بہت سی روایتیں جعل کی ہیں ۔

۲ ۔ کفر و زندقہ

سیف کا اسلام میں جعل وتحریف کرنے کا دوسرا عامل اس کا کفر اور زندقہ تھا سیف اسی کفر و زندقہ اور دل میں اسلام سے عداوت رکھنے کی وجہ سے چاہتا تھاکہ تاریخ اسلام کو الٹ پلٹ کر اسلام کے چہرہ کو بد نما اور نفرت انگیز صورت میں پیش کرے ۔

یہی مقصد اور محرک تھا جس کی وجہ سے اس نے ایک طرف سے حدیث کے راویوں اور پیغمبر

____________________

۱۔خلفاء میں حضرت علی کی یہ خصوصیت تھی کہ ان کے مخالفین قریش و عدنان سے تھے اور ان کے دوست قحطانی تھے اس لئے سیف حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے میں بخل کرتا تھا لیکن امام اور ان کے طرفدارو(جو قحطانی تھے) کے بارے میں جھوٹ اور تہمتیں پھیلانے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا ۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17