معاشرہ اور تاريخ

معاشرہ اور تاريخ0%

معاشرہ اور تاريخ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 9547
ڈاؤنلوڈ: 2564

تبصرے:

معاشرہ اور تاريخ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9547 / ڈاؤنلوڈ: 2564
سائز سائز سائز
معاشرہ اور تاريخ

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف:
اردو

معاشرتي تقسيم اور طبقہ بندى

معاشرہ باوجود وحدت كے اپنے اندر گروہوں، طبقوں اور مختلف اصناف ميں كہ جہاں متضاد صورتيں بھي نكل آتي ہيں، بٹا ہوا ہے ۔ يہ صورت حال اگر كلي نہيں تو كم از كم بعض معاشروں كا يہي حال ہے لہٰذا مكان ہے كہ معاشرہ اپني عين وحدت ميں اندروني طور پر مخالف اور كبھي متضاد طبقوں ميں منقسم ہو، پس معاشرہ وحدت كے ساتھ كثرت اور كثرت كے ساتھ عين وحدت كا حامل ہے اور حكمائے اسلام كي اصطلاح ميں معاشرے پر كثرت ميں ايك طرح كي وحدت اور وحدت ميں ايك طرح كي كثرت كار فرما ہے ۔ پچھلے ابواب ميں معاشرے كي وحدت پر گفتگو تھي كہ وہ وحدت كس نوعيت كي ہے ۔ اب گفتگو معاشرے كي كثرت سے متعلق ہے كہ اس كي نوعيت كيا ہے؟

اس سلسلے ميں دو نظريے مشہور ہيں، ايك نظريے كي بنياد تاريخي ماديت اور جدلياتي تضاد پر ہے، اس نظريے كے مطابق، جس كے بارے ميں آگے چل كر گفتگو ہوگى، ہمارا موضوع بحث مالكيت كے قانون كے تابع ہے، يعني وہ معاشرے جن ميں ذاتي مالكيت كا كوئي وجود نہيں مثلاً اوائل تاريخ كا سوشلسٹ معاشرہ يا آئندہ رونما ہونے والا سوشلسٹ معاشرہ بنيادي طور پر ايك طبقے كے حامل ہيں اور وہ معاشرے جن ميں ذاتي مالكيت كي بالادستي ہے حتمي طور پر دو طبقوں كے حامل ہيں پس اس صورت ميں معاشرہ يا تو ايك طبقے كا حامل ہے يا دو كا، اور اس كي كوئي تيسري صورت نہيں ہے ۔ دو طبقے ركھنے والے معاشروں ميں انسان دو گروہوں ميں بٹ جاتا ہے، ايك استحصال كرنے والا اور دوسرا استحصال ہونے والا اور سوائے ان دو حاكم و محكوم گروہوں يا لشكروں كے تيسرا كوئي گروہ موجود نہيں ۔ آرٹ، فلسفے، اخلاق، مذہب جيسے ديگر معاشرتي امور ميں بھي اسي طبقاتي نظام كا رنگ نظر آنے لگتا ہے، مثلاً دو طرح كا فلسفہ، دو طرح كا اخلاقى نظام اور دو طرح كے مذہب وغيرہ معاشرے پر حاكم ہوجاتے ہيں اور ہر ايك كسي مخصوص اقتصادي طبقے كا رنگ اپنے اوپر چڑھا ليتا ہے، اگر بالفرض ايك فلسفہ ايك مذہب يا ايك اخلاق معاشرے پر حاكم ہوتو بھي يہ انہي دو طبقات كے رنگوں ميں كسي ايك كا رنگ ہوگا جسے دوسرے طبقے پر ٹھونسا گيا ہوگا ۔

دوسرا نظريہ يہ ہے كہ كسي معاشرے كي ايك طبقے يا كئي طبقوں سے وابستگي كا انحصار مالكيت كے قانوني اصول پر نہيں ہے، بلكہ ثقافتى، اجتماعى، نسلي اور نظرياتي علل و اسباب بھي كسي معاشرے كو كئي طبقوں ميں بانٹ سكتے ہيں ۔ نخاص طور پر ثقافتي اور نظرياتي اسباب اس ميں بنيادي كردار ادا كر سكتے ہيں اور معاشرے كو صرف دو نہيں بلكہ كئي متضاد طبقوں ميں تقسيم كر سكتے ہيں، اسي طرح معاشرے كو اصل مالكيت كے لازماً رد كئے بغير ايك طبقاتي معاشرے ميں تبديل كيا جا سكتا ہے ۔

اب ہم ديكھتے ہيں كہ قرآن معاشرے كي كثرت كے بارے ميں كس نقطہ نظر كا حامل ہے ۔ كيا وہ كثرت و اختلاف كو تسليم كرتا ہے يا نہيں؟ اور اگر تسليم كرتا ہے تو كيا اس كے نزديك معاشرہ دو طبقوں كا حامل ہے اور وہ بھي مالكيت اور استحصال كي بنياد پر كوئي اور صورت اس كے پىش نظر ہے؟ ميرے خيال ميں معاشرے اور اجتماع سے متعلق قرآني الفاظ كا استخراج اور ان كے مفاہيم كے بارے ميں قرآن كے نقطہ نظر كا تعين ہي قرآن كي رائے معلوم كرنے كا بہترين نہيں تو كم از كم ايك اچھا راستہ ضرور ہے ۔

معاشرتي حوالے سے قرآني الفاظ كي دو قسميں ہيں بعض كا تعلق معاشرتي آثار سے ہے، جيسے ملت، شريعت، شرعہ، منہاج، سنت اور ان جيسے دوسرے الفاظ جن پر گفتگو ہمارے موضوع سے خارج ہے ليكن الفاظ جو سب كے لئے يا انساني گروہوں كے لئے اجتماعى عنوان كے حامل ہيں، صحيح طور پر قرآن كے نقطہ نگاہ كو مشخص كر سكتے ہيں، جيسے قوم، امت، ناس، شعوب، قبائل، رسول، نبى، امام، ولى، مومن، كافر، منافق، مشرك، مذبذب، مہاجر، مجاہد، صديق، شہيد، متقى، صالح، مصلح، مفسد، امر بالمعروف، نہي عن المنكر، عالم، ناصح، ظالم، خليفہ، ربانى، ربى، كاہن، رہبان، احبار، جبار، عالى، مستعلى، مستكبر، مستضعف، مسرف، مترف، طاغوت، ملا، ملوك، غنى، فقير، مملوك، مالك، جبر، عبد، رب وغيرہ ۔

البتہ بظاہر ان سے مشابہت ركھنے والے دوسرے الفاظ بھي ہيں ۔ جيسے مصلى، مخلص، صادق، منفق، مستغفر، تائب، عابد، حامد اور ان جيسے ديگر الفاظ ليكن يہ الفاظ جماعتوں اور گروہوں سے ہٹ كر صرف ايك طرح كے ”افعال“ كو ذكر كرنے كے لئے آئے ہيں ۔ اسي لئے ان كے بارے ميں يہ احتمال نہيں ہو سكتا كہ ان ميں گروہوں، جماعتوں اور معاشرتي طبقات كي گفتگو ہے ۔

اب يہ ضروري ہے كہ ان آيتوں كا جن ميں پہلے گروہ كے الفاظ كا تذكرہ ہے اور خاص طور پر وہ آيتيں جو اجتماعى رخ كو معين كرتي ہيں، بنظر غائر مطالعہ كيا جائے تاكہ يہ بات كھل جائے كہ ان سب كو دو گروہوں ميں سمويا جا سكتا ہے يا ان كے لئے متعدد گروہوں كي ضرورت ہے؟ اگر بالفرض انہيں دو گروہوں ميں سمويا جاسكتا ہو، تو كن دو گروہوں كو ان كے لئے مختص كيا جائے؟

يعني كيا ان سب كو اعتقادى موقف اختيار كرنے والے دو گروہوں، جو مومن اور كافر سے عبارت ہيں، ميں تقسيم كيا جائے يا اس تقسيم كي بنياد اقتصادي حالت كو بيان كرنے والے دو گروہوں يعني غنى اور فقير كے حوالے سے ہو؟ بعبارت ديگر تمام تقسيمات فرعي ہيں يا ايسا نہيں؟ اگر ايك تقسيم پر منتہي ہوتي ہيں تو وہ اصلي تقسيم كيا ہے؟ بعض لوگوں كا خيال ہے كہ معاشرے سے متعلق قرآن كا نقطہ نگاہ دو طبقوں كا حامل ہے ۔ ان كے بقول قرآن كي رو سے معاشرے كے دو طبقے ہيں، ايك مسلط اور دوسرا محكوم ۔ مسلط طبقے ميں مستكبرين اور ان كے مخالف اور محكوم حلقے ميں وہ لوگ ہيں جنہيں قرآن ميں ”مستضعفين“ كا نام ديا گيا ہے ۔ مومن كافر يا موحد اور مشرك يا صالح و فاسد، جيسي تمام تقسيمات فرعي پہلو كي حامل ہيں يعني يہ ظالم طاقتيں اور بے جا ظلم ہے جو كفر و شرك و نفاق وغيرہ كو وجود ميں لاتا ہے اور اس كے مقابلے ميں مظلوميت انسان كو ايمان، ہجرت، جہاد، صلاح، اصلاح وغيرہ كي طرف كھينچتي ہے، بعبارت ديگر وہ باتيں جنہيں قرآن عملى، اخلاقى يا اعتقادى انحراف سے ياد كرتا ہے، بنيادي طور پر اقتصادي روابط كي خاص كيفيات ہيں يعني استحصال كا عمل ہيں اور وہ باتيں جن كي قرآن اعتقادى، اخلاقى يا عملي اعتبار سے تائيد و تاكيد كرتا ہے بنيادي طور پر مظلوميت اور محكوميت ہيں ۔ انسان كا ضمير فطرتاً اور جبراً اپني مادي زندگي كي صورت حال كا تابع ہے، مادي حالات ميں تبديلي كے بغير لوگوں كے روحانى، نفسياتي اور اخلاقى حالات ميں تبديلي ناممكن ہے، يہي وجہ ہے كہ قرآن طبقاتي جدوجہد كي شكل ميں معاشرتي تحريكوں كو صحيح اور بنيادي قرار ديتا ہے، يعني وہ اقتصادي يا اخلاقى جدوجہد كي نسبت اجتماعى جدوجہد كو افضليت اور اصالت ديتا ہے ۔ قرآن كے اعتبار سے كافر، منافق، مشرك، فاسق، فاجر اور ظالم ان گروہوں سے ابھرتے ہيں جنہيں قرآن ”مترف“، ”مسرف“، ”ملا“، ”ملوك“، ”مستكبر“ اور ان جيسے ناموں سے ياد كرتا ہے ممكن نہيں كہ ايسے گروہ متقابل طبقے سے ابھريں اور يہ بالكل اسي طرح ہے جس طرح پىغمبر، رسول، امام، صديق، شہيد، مجاہد، مہاجر اور مومن مستضعف گروہ سے ابھرتے ہيں اور مقابل طبقہ سے ان كا ابھرانا ناممكن ہے، پس يہ استكبار و استضعاف ہے جو معاشرتي مزاج كو بتاتا ہے، اسے ايك سمت عطا كرتا ہے بقيہ تمام اور انہي كے مظاہر و تجليات ہيں ۔

قرآن نہ صرف يہ كہ ان گروہوں كو مستكبر و مستضعف كے دو اصلي طبقوں كے مظاہر سمجھتا ہے بلكہ اس نے ايك طرف صداقت، عفاف، اخلاص، عبادت، بصيرت، رافت، رحمت، فتوت، خشوع، انفاق، ايثار، خشيت اور فروتني جيسي صفات و ملكات كي طرف اشارہ كيا ہے اور اس كے مقابلے ميں كذب، خيانت، فجور، ريا، نفس پرستى، كور دلى، قساوت، بخل اور تكبر جيسي برائيوں كا ذكر كيا اور پہلے گروہ كي خصوصيات كمزور بنائي جانے والي جماعت كي صفات اور دوسرے گروہ كي خصوصيات كو كمزور بنانے والوں كي صفات سے تعبير كيا ہے ۔

پس كمزور بنانا اور كمزور بننے پر مشتمل دائرہ عمل نہ صرف مخالف اور متضاد گروہوں كا مركز طلوع ہے بلكہ متضاد اخلاقى صفات و ملكات بھي اس سے پھوٹتي ہيں اور يہ ہر انتخاب پر رجحان اور ہر سمت كے تعين، يہاں تك كہ تمام ثقافتي اور مدني آثار كي بنياد ہے، كمزور بنانے والے طبقے سے ابھرنے والا اخلاق، فلسفہ، آرٹ، علم و ادب اور مذہب اس كي اجتماعى موقف كو بيان كرتا ہے جو تمام كا تمام موجودہ حالات كو صحيح ثابت كرنے ميں مصروف ہوتا ہے اور معاشرے كے جمود و ركود اور توقف كي اصل وجہ ہے، ليكن اس كے برخلاف مستضعفين يا زمين پر كمزور بنائے جانے والے طبقے كا اخلاق، فلسفہ ، علم و ادب، آرٹ اور مذہب، بيدار ركھنے والا حركت آفرين اور انقلابى ہوتا ہے ۔

مستكبر يا جابر حكمران طبقہ اپني آقائيت اور اپني معاشرتي امتيازي خصوصيات كے باعث تاريك انديش، روايت پسند اور عافيت طلب ہوتا ہے جب كہ مستضعف و محكوم طبقہ اس كے برخلاف بيدار، روايت شكن، انقلابى، مصمم، پرجوش و پرعزم ہوتا ہے ۔

مختصر يہ كہ ان افراد كے عقيدے كے مطابق قرآن اس كي تائيد كرتا ہے كہ وہ چيز جو انسان كو بناتي اور اس كے گروہ كو مشخص كرتي ہے، اسے رخ حيات ديتي اور اس كے فكرى، اخلاقى، مذہبى اور نظرياتي مقام كو معين كرتي ہے وہ اس كي معاشي حالت ہے اور مجموعي طور پر قرآني آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ قرآن نے اپني تعليم كو اسي بنياد پر قائم كيا ہے ۔

اس اعتبار سے ايك خاص طبقے سے وابستگي ہر شے كا معيار ہے اور اسي معيار كے ذريعے تمام دعوؤں كو جانچا جا سكتا ہے، مومن، مصلح، رہبر يہاں تك كہ نبى يا امام كي تائيد و تكذيب بھي اسي كسوٹي كے ذريعے ہوني چاہيے ۔

يہ نظريہ حقيقتاً انسان اور معاشرے كے بارے ميں ايك مادي نقطہ نظر ہے، اس ميں كوئي شك نہيں كہ قرآن نے افراد كي اجتماعى حيثيت كا بطور خاص تذكرہ كيا ہے، ليكن كيا اس كا يہ مفہوم ہے كہ قرآن تمام نفسيات اور تمام طبقہ بنديوں كي اسي معيار پر توجيہ كرتا ہے؟ ہماري نظر ميں انسان دنيا اور معاشرے سے متعلق اسلامي نقطہ نظر اس نوعيت كے معاشرتي نقطہ نظر سے ہم آہنگ نہيں ہے اور يہ قرآني مسائل كے ايك سطحي مطالعے سے پىدا ہوا ہے، چونكہ ہم كتاب كے اس باب ميں جہاں تاريخ پر اس عنوان سے بحث ہوئي ہے كہ ”كيا طبيعت تاريخ مادي ہے؟ “، اس موضوع پر مكمل گفتگو كريں گے لہٰذا في الوقت اس موضوع كو يہيں رہنے ديتے ہيں ۔

معاشروں كي يگانگت يا ان كا تنوع بہ اعتبار ماہيت

اس مسئلہ كا بيان بھي جيسا كہ پہلے اشارہ ہوچكا ہے ہر مكتب فكر كے لئے ضروري ہے كيونكہ اسي گفتگو سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ كيا تمام انساني معاشرے ايك نظريہ حيات كے تابع ہو سكتے ہيں يا معاشروں كا تنوع مختلف نظريہ ہائے حيات كي پىداوار ہے اور ہر قوم، ہرملت، ہر تمدن اور ہر ثقافت كو خاص نظريہ حيات ( Ideology ) كي ضرورت ہے كيونكہ نظريہ حيات ان منصوبوں اور ان راستوں سے عبارت ہے جو معاشرے كو كمال و سعادت كي طرف لے جاتے ہيں، ہم يہ بھي جانتے ہيں كہ ہر نوع، اپني ايك خاص استعداد اور عليحدہ آثار و خواص كي حامل ہوتي ہے اور اس كا كمال و سعادت ہوتي ہے۔گھوڑے كے لئے كمال اور سعادت بعينہ گوسفند يا انسان كے لئے كمال اور سعادت نہيں ہے ۔ پس اگر تمام معاشروں كے لئے اصالت و غيبت كو فرض كر ليا جائے اور وہ سب ايك ذات، ايك طبيعت اور ايك ماہيت كے حامل ہوں تو ان كے لئے ايك واحد نظريہ حيات ہي ممكن ہوسكتا ہے اور اس صورت ميں ان كے اختلافات بھي ايسے ہوں گے جيسے ايك نوع كے افراد كے درميان ہوتے ہيں، ہر زندہ نظريہ حيات جزئيات كے اختلاف كے بارے ميں لچك اور انطباق كي قابليت ركھتا ہے، ليكن اگر معاشرے طبيعتوں، ماہيتوں اور ذوات ميں مختلف ہوں گے تو يہ فطري امر ہے كہ ان كے منصوبے، ان كے لائحہ ہائے عمل، ان كے نظريات اور ان كے لئے كمال و سعادت بھي متنوع ہوں گے اور واحد نظريہ حيات ان سب كا احاطہ نہيں كر سكے گا۔

بالكل يہي صورت آپ كو وقت كے دوش پر گذرتے ہوئے معاشروں كے انقلابات ميں ملتي ہے، كيا معاشرے اپنے انقلابات كي راہ ميں اپني نوعيت اور ماہيت بدلتے ہيں؟ اور اس طرح معاشروں كي حد تك تبدل انواع كا قانون جاري ہوتا ہے يا ان كے معاشرتي انقلابات كي كيفيت ايك نوع كے ايك فرد ميں رونما ہونے والي تبديليوں كي مانند ہے كہ جس كي ماہيت اور نوعيت محفوظ رہتي ہے ۔

پس پہلے مسئلے كا تعلق معاشرے سے ہے اور دوسرے كا تاريخ سے، ہم في الحال پہلے مسئلے كے بارے ميں گفتگو كريں گے اور دوسرے مسئلے كو تاريخ كي بحث ميں لايا جائے گا۔

عمرانيات كا مطالعہ يہ بتائے گا كہ معاشروں كے درميان مشترك ذاتي خواص موجود ہيں يا نہيں؟ كيا ان كے درميان فرق كو ہم سطحي كہہ سكتے ہيں اور اس فرق كے سبب يا معلول كو معاشرے كي ذات اور طبيعت سے باہر تصور كر سكتے ہيں اور معاشرے كي ذات اور طبيعت سے تعلق ركھنے والي تمام چيزوں كو يكساں جان سكتے ہيں، يا يہ كہ كہيں كہ بنيادي طور پر معاشرے اپني ذات اور طبيعت ميں مختلف ہيں لہٰذا بالفرض بيروني شرائط كے اعتبار سے ان ميں يكسانيت ہو ، تو بھي ان كا عمل مختلف ہوگا اور يہ خود وہ راستہ ہے كہ اس سلسلے ميں جن كے بارے ميں ابہام ہے، فلسفہ خود ان اشياء كو ان كي نوعي وحدت و كثرت كي پركھ كے لئے پىش كرتا ہے، يہاں ايك نزديك كا راستہ بھي موجود ہے اور وہ خود حضرت انسان ہے۔انسان كے بارے ميں ايك امر مسلم يہ ہے كہ انسان نوع واحد ہے، علم حياتيات كے اعتبار سے انسان جب سے وجود ميں آيا ہے اس ميں كوئي حياتياتي تبديلي رونما نہيں ہوئي ہے، بعض سائنس دانوں كا كہنا ہے كہ عالم طبيعت ميں جانداروں كے كمال كے نتيجے ميں انسان بن گيا اور انسان تك پہنچ كر طبيعت نے راستہ بدل ليا اور ارتقائي عمل زيست سے اجتماع ميں منتقل ہوگيا اور اس كا ارتقائي عمل جسماني سے روحاني اور معنوي گذرگاہ ميں منتقل ہوگيا ۔

گذشتہ اوراق ميں ہم انسان كے مدني الطبع ہونے كي بحث ميں اس نتيجے پر پہنچے تھے كہ انسان جو انواع كا نہيں بلكہ نوع واحد كا حامل ہے، اپني فطرت اور طبيعت كے اعتبار سے اجتماعى ہے يعني انسان كا اجتماعى رجحان اور اس كا گروہ و جماعت كي صورت ميں رہنا اور اس كا اجتماعى روح كا حامل ہونا، اس كي نوع اور اس كي ذات كا خاصہ ہے اور يہ انساني نوع كے فطري خواص ميں سے ہے ۔ انسان اس كمال تك پہنچنے كے لئے جس كي صلاحيت اس ميں ركھ دي گئي ہے، اجتماعى ميلان كا حامل ہے ۔ اس سے اجتماعى روح كے لئے بنياد فراہم ہوتي ہے ۔ اجتماعى روح اپني جگہ خود ايك وسيلہ ہے جو انساني نوع كو اپني انتہائے كمال تك پہنچاتا ہے، لہٰذا انسان كي نوع ہي اس كي اجتماعى روح كے راستے كا تعين كرتي ہے، جو خود اپنے مقام پر انساني فطرت كي خدمت ميں مصروف ہے ۔ انساني فطرت جب تك انسان باقي ہے، اپني مصروفيت جاري ركھے گي پس انفرادي روح يا يوں كہہ ليجئے انسان كي انساني فطرت پر اجتماعى روح كا دارومدار ہے اور چونكہ انسان نوع واحد ہے لہٰذا انساني معاشرے بھي يكساں ذات، يكساں طبيعت اور يكساں ماہيت كے حامل ہيں ۔ البتہ جيسے ايك فرد كبھي فطرت كے راستے سے منحرف ہو جاتا ہے بلكہ كبھي مسخ بھي ہو جاتا ہے، اسي طرح معاشرہ بھي كبھي اپنے فطري راستے كو چھوڑ ديتا ہے ۔ معاشروں كا تنوع، افراد كے اخلاقى تنوع كي طرح ہے جو كسي بھي صورت انسان كے نوع ہونے كے دائرے سے باہر نہيں ہوتا لہٰذا معاشرے، ثقافتيں، تہذيبيں مختصر يہ كہ اجتماعى روح جو معاشروں پر حكم فرما ہے اپنے ڈھانچے اور اپني رنگت ميں اختلاف كے باوجود انساني نوع ہي كي حامل ہے اور غير انساني ماہيت نہيں ركھتي ۔

ہاں! اگر ہم معاشرتي تركيب كے چوتھے نظريے كو قبول كر ليں اور افراد كو قابل جذب مادوں اور ظرفيت ركھنے والي خالي برتنوں كي طرح جانيں اور منكر فطر ہوجائيں تو پھر معاشروں كے نوعي اور ماہيتي اختلاف كو پىش كر سكتے ہيں، ليكن يہ نظريہ ڈوركم كے انداز فكر كي شكل ميں كسي طرح بھي قابل قبول نہيں ۔ اس لئے كہ وہ پہلا سوال جو اس ميں لاجواب رہ جاتا ہے يہ ہے كہ اگر اجتماعى روح كا ابتدائي سرمايہ فرديت اور انسان كے طبيعي يا حياتياتي پہلو سے نہ نكلے تو پھر وہ كہاں سے وجود ميں آئے؟ كيا اجتماعى روح كا وجود خالصتاً عدم سے پھوٹا ہے؟ كيا اجتماعى روح كي توجيہ كے لئے يہ كہنا كافي ہوگا كہ جب سے انسان كا وجود رہا ہے، معاشرہ اس كے ساتھ ہے؟ علاوہ ازيں خود ”ڈوركم“ كہتا ہے كہ اجتماعى امور يعني وہ امور جن كا تعلق معاشرے سے ہے انہيں اجتماعى روح نے خلق كيا ہے ۔ مذہب، اخلاق اور آرٹ جيسي چيزيں ہر معاشرے ميں رہي ہيں اور ہميشہ رہيں گي اور خود ڈوركم كي تعبير كے مطابق يہ سب چيزيں ”ہميشگي“ اور ”ہمہ جائيت“ ركھتي ہيں اور يہ خود اس بات كي دليل ہے كہ ڈوركم بھي اجتماعى روح كے لئے ماہيتي اور نوعي اكائي كا قائل ہے ۔

اسلامي تعليمات كو جو دين كے لئے ايك واحد نوعيت كي قائل ہيں اور شريعتوں كے اختلاف كو فرعي جانتي ہيں، نہ كہ ماہيتي اور دوسري طرف ہميں يہ بھي معلوم ہے كہ دين انفرادي اور اجتماعى ارتقاء سے متعلق لائحہ عمل كے سوا كچھ بھي نہيں، تو ظاہر ہوتا ہے كہ ان تعليمات كي بنياد معاشروں كي نوعي وحدت پر ہے اور اگر معاشرے نوعيت كے اعتبار سے متعدد ہوتے تو كمال اور اس تك پہنچنے كي راہيں متعدد ہوتيں اور پھر ماہيت اديان كا مختلف اور متعدد ہونا لازمي تھا ۔ قرآن كريم اصرار اور صراحت كے ساتھ كہتا ہے كہ دين تمام علاقوں، معاشروں، وقتوں اور زمانوں ميں ايك سے زيادہ نہيں رہا ہے، بااعتبار قرآن اديان (بصورت جمع) كوئي حقيقت نہيں ركھتے ۔ دين ہميشہ بصورت مفرد موجود رہا ہے، تمام انبياء الٰہي كا ايك ہي دين ، ايك ہي راستے اور ايك ہي مقصد كي طرف انسانوں كو بلاتے رہے ہيں ۔

( شرع لكم من الدين ما وصي به نوحا والذي اوحينا اليك وما وصينا به ابراهيم وموسيٰ و عيسيٰ ان اقيموا الدين ولا تتفرقوا فيه ) . (سورہ شوريٰ، آيت۔ ۱۳)

”تمہارے لئے اس نے دين كي وہي باتيں مقرر كيں جن كي بابت اس نے نوح كو پىش تر وصيت كي تھي اور (اے رسول!) جس كي بابت ہم نے تمہاري طرف وحي كي ہے اور جس كي بابت ہم نے ابراہيم اور موسيٰ و عيسيٰ كو وصيت كي تھي ۔ وہ يہي تھي كہ دين كو قائم ركھو اور اس ميں اختلاف نہ ڈالو ۔“

ايسي آيتيں قرآن ميں كثرت سے مليں گے، جو يہ ثابت كرتي ہيں كہ دين ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر پىغمبر كي زبان پر ايك ہي رہا ہے، البتہ شريعتوں كے اختلافات رائے نقص و كمال كے اختلافات ميں سے ہيں ۔ دين كے ماہيتاً ايك ہونے كي منطق انسان اور انساني معاشرے كي اس فكر پر ہے كہ انسان انواع نہيں بلكہ نوع واحد ہے اور بالك اسي طرح انساني معاشرہ ايك واقعيت عيني ہونے كے اعتبار سے انواع نہيں بلكہ نوع واحد ہے۔

معاشروں كا مستقبل

آج كے معاشروں، تمدنوں، ثقافتوں كو اگر ہم بالفرض نوع اور ماہيت كے اعتبار سے مختلف نہ بھي جانيں تو بھي كيفيت اور شكل و صورت كے اعتبار سے ان كا مختلف ہونا ناقابل انكار ہے ۔ انساني معاشرے آگے چل كر كيا صورت اختيار كريں گے؟ كيا يہ ثقافتيں، يہ تمدنيں، يہ معاشرے اور يہ قوميں بالكل اسي طرح اپني حالت پر باقي رہيں گي يا ايك تمدن، ايك ثقافت اور ايك معاشرے كي سمت انسانيت كا سفر جاري و ساري رہے گا اور يہ سب آگے چل كر مستقبل ميں اپنا روپ بدل ليں گے اور ايك رنگ ميں ڈھل جائيں گے، جو اصلي اور انسانيت كا رنگ ہوگا ۔ اس مسئلے كا تعلق بھي معاشرے كي ماہيت، اجتماعى اور انفرادي روح كے ايك دوسرے سے وابستہ ہونے كي نوعيت پر ہے، ظاہر ہے فطرت كي اصالت اور اس نظريے كي بنياد پر ہے كہ انسان كا اجتماعى وجود اس كي اجتماعى زندگي يعني معاشروں كي اجتماعى روح ايك ايسا وسيلہ ہے جسے انسان كي نوعي فطرت نے كمال مطلق تك پہنچنے كے لئے انتخاب كيا ہے ۔

يہ كہنا بجا ہوگا كہ معاشرے، ثقافتيں اور تہذيبيں ايك اكائي ہونے، متحد الشكل ہونے اور آخر كار ايك دوسرے ميں مدغم ہونے كي سمت گامزن ہيں اور انساني معاشروں كا مستقبل ايك كمال يافتہ عالمي اكائي پر مبني معاشرہ ہوگا جس ميں انسانيت سے متعلق تمام امكاني اقدار عملي صورت اختيار كرليں گے ۔ يہ وہ منزل ہوگي جہاں، انسان اپنے حقيقي كمال و سعادت اور اس انسانيت كو پہنچے گا، جو اصيل ہوگي ۔

قرآن كي رو سے يہ بات مسلم ہے كہ قطعي حكومت حق كي حكومت اور باطل كي مكمل نابودي سے عبارت ہے اور انجام كار متقىن كے لئے ہے۔

تفسير الميزان ميں ہے:

”كائنات كے بارے ميں گہري جستجو اس بات كو ظاہر كرتي ہے كہ انسان بھي كائنات كے ايك جزو كي حيثيت سے آئندہ اپني غايت و كمال كو پہنچے گا ۔“(۴)

قرآن كا يہ ارشاد كہ عالم ميں نفاذ اسلام ايك حتمي امر ہے، دراصل اسي بات كي دوسري تعبير ہے كہ انسان كو بالآخر كمال مطلق تك پہنچنا ہے۔ قرآن كہتا ہے:

( من يرتد منكم عن دينه فسوف ياتي الله بقوم يحبهم و يحبونه. ) (سورہ مائدہ، آيت۵۴)

”بالفرض اگر تم اس دين سے پھر جاؤ تو اللہ بشريت كو اس دين كے ابلاغ اور اسے مستحكم كرنے كے لئے تمہارے بجائے دوسري قوم كو لے آئے گا ۔“

يہاں در حقيقت مقصود يہ ہے كہ ضرورت خلقت اور انسان كے انجام كار كو بتلا يا جائے، اس ضمن ميں يہ آيت بھي ملاحظہ ہو:

( وعد الله الذين آمنوا منكم و عملوا الصالحات ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم و ليمكنن لهم دينهم الذي ارتضي لهم و ليبدلنهم من بعد خوفهم امنا يعبدونني لا يشركون بي شيئا ) (سورہ نور، آيت ۵۵)

”اللہ نے وعدہ كيا ہے كہ تم ميں سے وہ لوگ جو ايمان لائے اور عمل صالح كرتے رہے انہيں وہ ضرور زمين ميں جانشين بنائے گا اور ضرور ان كے دين كو جسے اس نے ان كے لئے پسند كيا ہے، نافذ كرے گا اور يقينا انہيں خوف ميں ايك عرصہ گذارنے كے بعد امن عطا كرے گا (دشمنوں كو مٹا دے گا) تاكہ پھر وہ ميري ہي عبادت كريں اور كسي چيز كو (ميري اطاعت ميں) ميرا شريك قرار نہ ديں ۔“ (توحيد كے مباحث ميں اس پرگفتگو ہو چكي ہے)

اس كے بعد ايك دوسري آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:

( ان الارض يرثها عبادي الصالحون )

”يہي امر حتمي ہے كہ ميرے صالح اور شائستہ بندے ہي زمين كے وارث ہوں گے ۔“

”الميزان“ ہي ميں ہے كہ اسلامي ملك كي سرحديں، جغرافيائي حدود يا معاہداتي رقبے نہيں بلكہ عقائد ہيں ۔ اس سلسلے ميں صاحب الميزان لكھتے ہيں:

”اسلام نے قومي تفريقات كي بنياد كو اس اعتبار سے كہ تشكيل معاشرہ ميں موثر كردار كي حامل ہوں، رد كيا ہے ۔ ان تفريقات كي دو اصلي وجوہات ہيں:

ايك نسلي رابطہ كي اساس پر قائم شدہ قبيلوں كي ابتدائي زندگي اور دوسري جغرافيائي خطوں كا اختلاف ۔ انہي دو چيزوں نے نوع انساني كو قوموں، قبيلوں اور اختلاف زبان و رنگ ميں بانٹ ديا ہے، يہي وہ دو اسباب ہيں، جو آگے چل كر اس بات كا سبب بنے كہ ہر قوم ايك خطے كو اپنے لئے مخصوص كر لے اور اسے وطن سے منسوب كر كے اس كے دفاع پر آمادہ ہو جائے ۔

يہ وہ پہلو ہے جس طرف طبيعت ( Nature ) انسان كو كھينچتي ہے، ليكن اس ميں ايك ايسي چيز موجود ہے جو انساني فطرت كے تقاضے كے خلاف ہے اور اس بات كا سبب بنتي ہے كہ انسان ايك ”كل“ اور ايك ”يونٹ“ كي صورت ميں زندگي بسر كرے ۔ قانون طبيعت بكھرے ہوؤں كو سميٹنے اور متفرق كو يكجا كرنے كي اساس پر قائم ہے اور اسي كے ذريعے طبيعت اپني غايتوں كو حاصل كرتي ہے ۔

يہ وہ امر ہے كہ جو مزاج طبيعت سے ہمارے سامنے آيا ہے اور ہم ديكھتے ہيں كہ كس طرح اصلي مادہ، عناصر اور پھر نباتات، پھر حيوان اور پھر انسان تك پہنچتا ہے ملكي اور قبائلي تفريقات ايك ملك يا قبيلے كو ايك مركز اتحاد پر لاتي اور اس كے ساتھ ساتھ وہ انہيں كسي دوسري وحدت كے بھي مقابل قرار ديتي ہيں، اس طرح كہ ايك قوم كے افراد آپس ميں ايك دوسرے كو تو اپنا بھائي سمجھتے ہيں مگر دوسرے انسان ان كي نظر ميں مد مقابل قرار پاتے ہيں اور وہ انہيں اس نگاہ سے ديكھتے ہيں، جس نگاہ سے اشياء كو ديكھا جاتا ہے ، يعني ان كي نگاہ منفعت جوئي اور سود و زياں پر ہوتي ہے اور يہي وجہ ہے كہ اسلام نے قومي اور قبائلي تفريقات كو جس سے انسانيت ٹكڑے ٹكڑے ہوجاتي ہے، رد كيا ہے اور انساني معاشرے كو نسل، قوم يا وطن كي بنياد نہيں بلكہ (كشف حق اور اس سے لگاؤ كے) عقيدے پر قرار ديا ہے (جو سب كے لئے يكساں ہے) يہاں تك كہ زوجيت اور ميراث كے بارے ميں بھي عقيدہ كے اشتراك كو معيار قرار ديا ہے ۔“(۵)

اسي طرح ”دين حق بالآخر كامياب ہے“ كے زير عنوان صاحب تفسير الميزان لكھتے ہيں:

”نوع انسان اس فطرت كے تحت جو اس ميں وديعت كي گئي ہے اپنے متعلق كمال و سعادت كي خواہاں ہے، يعني وہ اجتماعى صورت ميں اعليٰ ترين مادي اور معنوي مراتب زندگي كي خواہشمند ہے ۔ ايك دن يہ اسے مل جائيں گے ۔ اسلام جو دين توحيد ہے، اسي طرح كي سعادت كا ايك لائحہ عمل ہے اس طولاني مسافت ميں جن انحرافات سے انسان كو واسطہ پڑتا ہے، انہيں انساني فطرت كے بطلان اور اس كي صورت سے منسوب نہيں كرنا چاہيے۔ ہميشہ انسان پر اصلي حاكميت فطرت ہي كي ہوتي ہے اور بس انحرافات اور اشتباہات تطبيق ميں خطا كي حيثيت ركھتے ہيں ۔

وہ كمال و غايت جسے انسان اپني بے قرار فطرت كے حكم كے مطابق حاصل كرنا چاہتا ہے، ايك دن (جلد يا بدير) ضرور اسے حاصل ہو جائے گي ۔ سورہ روم كي تيسري آيت جو اس جملہ سے شروع ہوتي ہے:

( فاقم و جهك للدين حنيفاً فطرة الله التي فطر الناس عليها ) اور( لعلم يرجعون ) پر ختم ہوتي ہے ۔

اس مفہوم كو ظاہر كرتي ہے كہ حكم فطرت آخر الامر اتباع چاہتا ہے اور انسان بھٹكتا ہوا اور تجربات سے گذرنے كے بعد اپني راہ پالے گا اور اسے نہيں چھوڑے گا۔ان لوگوں كي باتوں پر كان نہيں دھرنا چاہيے جو اسلام كو اس طرح ديكھتے ہيں جيسے يہ انساني ثقافت كا ايك مرحلہ ہے۔

جس نے اپني ذمہ داري پوري كر دي ہے اور اب تاريخ كا ايك حصہ بن گيا ہے ۔ اسلام اس مفہوم ميں كہ جس ميں ہم اسے جانتے ہيں اور اس پر بحث كرتے ہيں، عبارت ہے قطعي كمال پر مبني انسان سے جو بضرورت ناموس خلقت ايك دن يقينا اس تك پہنچے گا ۔“(۶)

بعض لوگوں كا دعويٰ اس كے برعكس ہے اور كہتے ہيں كہ اسلام كسي صورت بھي انساني ثقافت اور انساني معاشرے كي يگانگت كے حق ميں نہيں ہے بلكہ وہ ان كے تنوع اور تعداد كا حامي ہے اور اسي تنوع اور تعداد كو باضابطہ طور پر مانتا اور ثابت كرتا ہے، وہ كہتے ہيں:

ايك قوم كي حيثيت، ہويت اور خودي اس كي اپني ثقافت سے عبارت ہے اور يہ ثقافت اس قوم كي اجتماعى روح كي ہے۔ اس اجتماعى روح كو اس قوم كي اپنے سے متعلق وہ خاص تاريخ بناتي ہے، جس ميں دوسري قوموں كا كوئي دخل نہيں ہوتا، عالم طبيعت انسان كي نوعيت كو بناتا ہے اور تاريخ اس كي ثقافت كو بلكہ در حقيقت يہ اس كي حيثيت، رويے اور حقيقي خودي كي معمار ہے۔ ہر قوم اپنے سے متعلق ايك خاص ثقافت، ايك خاص ماہيت اور خاص طرح كے رنگ و مزاج و اصول كي حامل ہے، جو اس كي حيثيت كي تكميل كرتي ہے اور اس ثقافت كي حفاظت كرتي ہے يعني اس ملت كي ہويت كي حفاظت كرتي ہے ۔

جس طرح كسي فرد كي ہويت اور حيثيت خود اسي سے متعلق ہوتي ہے اور اس كو چھوڑ كر دوسري ہويت اور دوسري شخصيت كو اپنانا گويا اپنے آپ كو اپنے سے سلب كرنا ہے يعني مسخ ہونا اور اپنے آپ سے بيگانہ ہونا ہے، كسي قوم كے لئے ہر وہ كلچر بيگانہ و اجنبي ہے جو تاريخ ميں كبھي اس كي مزاج سازي ميں دخيل نہ ہوا ہو، يہ بات كہ ہر قوم ايك خاص قسم كا احساس فكر، ذوق، پسند، ادب، موسيقى، حساسيت اور آداب و رسول ركھتي ہے اور كچھ ايسي چيزوں كو پسند كرتي ہے جو دوسري قوموں كے مزاج سے مختلف ہوتي ہيں، اس لئے ہے كہ يہ قوم اپني تاريخ ميں كاميابيوں، ناكاميوں، ثروتوں، محروميوں، آب وہوا كي كيفيتوں، مہاجرتوں، رابطوں اور نامور نابغہ لوگوں سے متعلق مختلف وجوہات كي بناء پر ايك خاص كلچر كي حامل ہوگئي ہے۔ اس خاص كلچر يا اس خاص ثقافت نے اس كي قومي و اجتماعى روح كو ايك خاص صورت ميں اور خاص زاويوں كے ساتھ بنايا ہے۔ فلسفہ، علم، ادبيات، ہنر، مذہب اور اخلاق وہ عناصر ہيں جو كسي انساني گروہ كے مشترك تاريخي سلسلے ميں ايك خاص صورت اور ايك خاص تركيب اختيار كرتے ہيں اور اس كي ماہيت وجودي كو دوسرے انساني گروہوں كے مقابل الگ تشخص ديتے ہيں اور اس تركيب سے ايك ايسي روح جنم ليتي ہے جو ايك گروہ كے افراد كو ”اعضائے يك پىكر“ كے مانند ايك حياتي اور اعضائي ارتباط ديتي ہے يہي وہ روح ہے جو اس پىكر كو نہ صرف ايك الگ مشخص وجود بخشتي ہے، بلكہ ايك ايسي زندگي عطا كرتي ہے جو تاريخ ميں ديگر روحاني اور ثقافتي پىكروں كے مقابل اس كي وجہ شناخت بن جاتي ہے، كيوں كہ يہ روح اس كي اجتماعى روش، اس كے طرز فكر، جماعتي عادات، ردعمل، طبيعت، حيات، واقعات، احساسات، ميلانات، خواہشات اور عقائد كے مقابل انساني تاثرات ميں حتيٰ كہ اس كي تمام سائنسى، فني اور ہنري ايجادات ميں بلكہ يوں كہيے كہ انساني زندگي كے تمام مادي اور معنوي جلوؤں ميں بڑي محسوس و ممتاز ہے ۔

كہا جاتا ہے كہ مذہب ايك طرح كي آئيڈيالوجى (نظريہ حيات) ہے، عقيدہ اور ايسے خاص عواطف و اعمال كا مجموعہ ہے جو اس عقيدے كے نتيجے ميں وجود ميں آتے ہيں ليكن قوميت تشخص ہے اور ان ممتاز خصائص كي حامل ہے جو ايك ہي تقدير سے وابستہ انسانوں كي مشترك روح كو جنم ديتي ہے۔ اس اعتبار سے قوميت اور مذہب كے درميان وہي رابطہ ہے جو تشخيص اور عقيدہ كے درميان ہے ۔

كہتے ہيں نسلي امتيازات اور قومي تفاوت سے متعلق اسلام كي مخالفت كو مختلف قوميتوں كي مخالفت پر منطبق نہيں كرنا چاہيے، اسلام ميں برابري اور يكسانيت كے اصول قوموں كي نفي كے مفہوم ميں نہيں ہيں بلكہ اس كے برعكس اسلام ايك مسلم اور ناقابل انكار طبيعي حقيقت كے عنوان سے قوميتوں كے وجود كا معترف ہے۔

( يا ايها الناس انا خلقنكم من ذكر وانثي وجعلنا كم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عندالله اتقيكم )

كہتے ہيں كہ اس آيت كے ذريعے اسلام كے نقطہ نظر سے قوميتوں كي نفي اور انكار پر استدلال كيا جاتا ہے جبكہ يہ بالكل برعكس قوميتوں كے اثبات اور ان كي تائيد پر دليل ہے كيوںكہ آيت سب سے پہلے (ذكور و اناث پر مبني) انسانيت كو بااعتبار جنسيت تقسيم كرتي ہے اور يہ ايك طبيعي تقسيم ہے، پھر فوراً شعوب و قبائل كے اعتبار سے انساني گروہ بندي كا تذكرہ ہوتا ہے اور يہ اس امر كو ظاہر كرتا ہے كہ شعوب و قبائل ميں لوگوں كي گروہ بندي مرد و زن كي تقسيم بندي كي طرح ايك طبيعي اور الٰہي امر ہے۔

يہ آيت اس بات كو واضح كرتي ہے كہ اسلام جس طرح مرد و زن كے درميان خصوصي رابطے كا طرف دار ہے اور جنسيت اور اس كے آثار كو ختم كرنا نہيں چاہتا، اسي طرح قوموں كے درميان مساوات كي بنياد پر رابطے كا حامي ہے اور انہيں مٹانے كے حق ميں نہيں ہے۔ يہ جو قرآن نے قوموں كي تشكيل كو جنسوں كي پىدائش كي طرح خدا سے نسبت دي ہے، اس كا معني يہ ہے كہ مشخص قوموں كا وجود خلقت ميں ايك طبعي حقيقت ہے۔ يہ جو قرآن نے قوموں كے وجودي اختلاف كي غرض و غايت كو ”تعارف“ (قوموں كي آپس ميں شناخت) كہا ہے۔ اس بات كي طرف اشارہ ہے كہ ايك قوم دوسري قوم كے مقابل اپني شناخت تك رسائي حاصل كرتي اور اپنے آپ كو پاتي ہے، ايك قوميت دوسري قوميت كے مقابل اپنے تشخص كو اجاگر كر كے قوت پىدا كرتي ہے۔

لہٰذاجو مشہور ہے، اس كے برخلاف اسلام ثقافت كے مفہوم ميں نيشنلزم كا مخالف نہيں بلكہ حامي ہے، وہ جس نسلي مفہوم ميں نيشنلزم كا مخالف ہے، وہ نسل پرستي ہے۔

يہ نظريہ كسي اعتبار سے مخدوش ہے، اولاً يہ كہ اس كا دارومدار انسان كے بارے ميں كسي خاص نظريے اور انسان كے ثقافتي اصول و مواد يعني فلسفيٰ، علم، فن اور اخلاق وغيرہ كے بارے ميں بھي كسي خاص نظريے پر ہے، جو دونوں مخدوش ہيں۔ انسان كے بارے ميں يہ فرض كيا گيا ہے كہ وہ فكر كے اعتبار سے، مشاہدہ كائنات كے اعتبار سے، عاطفي اعتبار سے اور اس اعتبار سے كہ كس چيز كو چاہے اور كون سا راستہ اختيار كرے اور كس منزل كي سمت چلے اپني ذات ميں ہر صلاحيت سے خالي ہے چاہے بالقوت ہي سہي۔ تمام افكار، تمام عواطف، تمام راستے اور تمام اہداف اس كے لئے يكساں ہيں۔ وہ ايك بے شكل و بے رنگ خالي ظرف كي طرح ہے جو ہر شے كو مظروف سے ليتا ہے، اس كي خودى، اس كي شخصيت، اس كا راستہ، اس كي منزل سب مظروف كي مرہون منت ہے ۔

اس كا مظروف اسے جس طرح كا تشخص دے گا، جس طرح كا راستہ اور جس منزل كو اس كے لئے معين كرے گا، وہ اسي كا پاپند ہوگا، يہي اس كي حقيقي شكل، حقيقي رنگ، حقيقي تشخص اور حقيقي راہ و منزل ہوگى، كيوں كہ ايسي مظروف سے اس كي ”خود“ كو قوام اور سہارا ملا ہے۔ اب اس كے بعد اس كي شخصيت، اس كے رنگ اور اس كي شكل كو اس چھيننے كے لئے جو كچھ بھي اسے ديا جائے گا، اس كے لئے وقتي اور بيگانہ ہوگا، كيوں كہ وہ اس پہلے تشخص كے خلاف ہوگا جسے تاريخ نے اپنے اتفاقي عمل سے بنايا ہے بعبارت ديگر، يہ نظريہ فرد اور معاشرے كي اصالت سے متعلق چوتھے نظريے سے ہم آہنگ ہے جو خالص اجتماعى اصالت پر مبني ہے اور جس پر ہم پہلے اعتراض كر چكے ہيں ۔

انسان كے بارے ميں با اعتبار فلسفي ہو يا بااعتبار اسلامى، اس طرح كا فيصلہ نہيں كيا جا سكتا۔ انسان اپني خاص نوعيت كے اعتبار سے بالقوہ ہي سہي ايك معين تشخص، معين راہ اور مقصد كا حامل ہے اور يہ چيز اسے الٰہي فطرت سے ملتي ہے، يہي فطرت اس كي حقيقي ”خود“ كو معين كرتي ہے۔ انسان كے مسخ ہونے يا نہ ہونے كو تاريخي معيار پر نہيں بلكہ انسان كے فطري اور نوعي معيار پر سمجھا جا سكتا ہے۔ ہر وہ تعليم اور ہر وہ كلچر جو انسان كي انساني فطرت سے ہم آہنگ ہو اور اسے پروان چڑھانے والا ہو، حقيقي و اصيل كلچر ہے۔ہر چند كے تاريخي حالات كے باعث اسے اوليت حاصل نہ ہو اور ہر وہ كلچر جو انسان كي انساني فطرت سے مطابقت نہ ركھتا ہو، اس كے لئے اجنبي اور غير ہے، ايك طرح سے اس كي حقيقي ہويت كو بدلنے والا، مسخ كرنے والا ہے اور اسے ”خود“ سے ”ناخود“ بنانے والا ہے۔ اگرچہ اس كي پىدائش قومي تاريخ كا كرشمہ كيوں نہ ہو مثلاً عقيدہ ثنويت اور آگ كي تقديس ايراني انسانيت كا مسخ ہے اگرچہ وہ اس كي تاريخ ہي سے كيوں نہ ابھري ہو، ليكن توحيد يكتا پرستي اور غير خدا كي پرستش سے دوري حقيقي انسانيت ہويت كي سمت اس كي بازگشت ہے۔ اگرچہ وہ باہر سے آئي ہو اور اس كي سرزمين نے اسے نہ ديا ہو ۔

انساني كلچر كے مواد سے متعلق خيال بھي غلط فرض كيا گيا ہے كہ يہ ان بے رنگ مادوں كي طرح ہے جن كي كوئي خاص شكل اور خاص تشخص نہيں ہوتا۔ ان كي شكل اور ان كي كيفيت كو تاريخ بناتي ہے، يعني فلسفہ بہرحال فلسفہ ہے اور اسي طرح سائنس، سائنس ہے۔ مذہب، مذہب ہے۔ اخلاق، اخلاق ہے اور آرٹ، آرٹ ہے خواہ وہ كسي شكل اور كسي رنگ ميں كيوں نہ ہو۔ ليكن يہ بات كہ اس كا رنگ اور كيفيت كيا ہوگى، يہ ايك نسبي امر ہے اور اس كي وابستگي تاريخ سے ہے، ہر قوم كي تاريخ ، اس كا كلچر، اس كا فلسفہ، اس كا مذہب، اس كي سائنس، اس كا اخلاق اور اس كا فن متقاضي ہے كہ وہ خود اس سے مخصوص ہو ۔

بعبارت ديگر جس طرح انسان اپني ذات ميں بے شكل و بے ہويت ہے اور اس كا كلچر اسے شكل و ہويت ديتا ہے، انساني كلچر كے حقيقي مواد و اصول بھي خود اپني ذات ميں بے شكل و صورت ہيں، تاريخ انہيں رنگ عطا كرتي ہے اور ان پر اپنا خاص رنگ جماتي ہے۔ بعض لوگ اس نظريے ميں يہاں تك آگے بڑھ گئے ہيں كہ اب ان كا يہ دعويٰ ہے كہ

”علم رياضي كي طرف فكر بھي ہر كلچر كے خاص ڈھب كے زير اثر قائم ہے ۔“(۷)

يہ نظريہ انساني كلچر كے نسبي ہونے كا نظريہ ہي ہے، ہم نے ”اصول فلسفہ“ ميں اصول فكر كے اطلاق اور نسبيت كے بارے ميں گفتگو كي ہے اور يہ ثابت كيا ہے كہ نسبي چيزيں اعتباري اور عملي علوم و ادراكات ہيں اور يہي وہ ادراكات ہيں جو مختلف ثقافتوں ميں مختلف زماني اور مكاني شرائط كے مطابق مختلف ہو اكرتے ہيں۔ نيز يہي وہ ادراكات ہيں جو اپني سطح سے ہٹ كر كسي دوسري حقيقت كے بارے ميں فيصلہ كرنے اور ان كے لئے حق وباطل اور غلط و صحيح كا معيار بننے سے معذور ہيں، ليكن وہ نظري افكار و ادراكات و علوم جو انسان كے نظري علوم اور فلسفے كو بنانے والے ہيں، مثلاً اصول مطالعہ، كائنات با اعتبار مذہب اور اخلاق كے بنيادي اصول پكے مطلق اور غير نسبي ہيں۔ مجھے افسوس ہے كہ ميں يہاں اس سے زيادہ اس گفتگو كو آگے نہيں بڑھا سكتا ۔

ثانياً يہ جو كہا جاتا ہے كہ مذہب عقيدہ ہے اور قوميت تشخص ہے اور ان دونوں كا رابطہ عقيدے اور تشخص كا رابطہ ہے اور يہ كہ اسلام قومي تشخصات كو اسي طرح استحكام بخشتا ہے اور انہيں اصولي طور پر مانتا ہے جيسي كہ وہ ہيں، مذہبى ابلاغ و ہدايت كي سب سے بڑي نفي ہے۔ مذہب وہ بھي اسلام جيسے مذہب كي ذمہ داري يہ ہے كہ وہ محور توحيد پر قائم كلي نظام سے متعلق ايك صحيح اور بنيادي انداز فكر ہميں دے اور اسي انداز فكر كي بنياد پر نوع بشر كي روحاني اور اخلاقى شخصيت كو سنوارنے اور افراد اور معاشرے كي انہيں خطوط پر پرورش كا لازمہ ہے كہ ايك نئي ثقافت كا بيج بويا جائے جو قومي نہيں انساني ثقافت ہے۔ يہ جو اسلام نے دنيا كو كلچر ديا اور آج ہم اسے اسلامي كلچر كے نام سے ياد كرتے ہيں اس لئے نہيں تھا كہ ہر مذہب كم و بيش اپنے لوگوں كے درميان موجود كلچر ميں گھل مل جاتا، اس سے متاثر ہوتا اور كم و بيش اسے اپنے زير اثر لے آتا ہے، بلكہ اس لئے تھا كہ كلچر بنانا اس مذہب كے متن ابلاغ ميں ركھ ديا گيا ہے۔ اسلامي كي ذمہ داري يہ ہے كہ وہ لوگوں كو اس كلچر سے باہر نكالے جس ميں انہيں نہيں ہونا چاہيے اور وہ چيزيں انہيں دے جن كي ان كے پاس كمي ہے اور وہ چيزيں جن كا ہونا ان كے لئے ضروري ہے اور ان كے پاس بھي ہيں، انہيں استحكام بخشے جسے قوموں كي مختلف ثقافتوں سے كوئي سروكار نہ ہو اور وہ سب سے ہم آہنگ ايسا مذہب ہے كہ جو پورے ہفتے ميں صرف ايك بار چرچ والوں ہي كے كام آسكتا ہے اور بس ۔

ثالثاً: ”( انا خلقنا كم من ذكر و انثي ) “ كا يہ مفہوم نہيں كہ ہم نے تمہيں دو طرح كي جنس خلق كيا ہے، يہ كہا جائے كہ اس آيت ميں سب سے پہلے انسان كو جنسيت كي بنياد پر تقسيم كيا ہے، پھر فوراً قومي تقسيم كي بات آئي ہے اور ساتھي ہي يہ نتيجہ نكالا جائے كہ آيت يہ سمجھانا چاہتي ہے كہ جس طرح اختلاف جنسيت ايك طبيعي امر ہے اور كسي مكتب فكر كو اس كي اساس پر استوار ہونا چاہيے نہ كہ اس كي نفي كي اساس پر، قوميت ميں اختلاف كي صورت بھي يہي ہے۔

آيت كا مفہوم يہ ہے كہ ہم نے تمہيں مرد اور عورت سے خلق كيا ہے، خواہ اس كا مطلب يہ ہو كہ تمام انسانوں كا نسلي رابط ايك مرد اور ايك عورت (آدم و حوا) پر منتہي ہوتا ہے اور خواہ يہ ہو كہ تمام انسان اس اعتبار سے يكساں ہيں كہ سب كا باپ ہوتا ہے اور سب كي ماں ہوتي ہے اور اس اعتبار سے كہيں كوئي امتياز نہيں ہے ۔

رابعاً: ”لتعارفوا“ جو آيہ كريمہ ميں بعنوان غايت استعمال ہوا ہے، اس مفہوم ميں نہيں ہے كہ قوموں كو اس اعتبار سے مختلف قرار ديا گيا ہے كہ وہ ايك دوسرے كي شناخت پىدا كر ليں اور اس سے يہ نتيجہ نكالا جائے كہ قوموں كو لازمي طور پر جداگانہ حيثيتوں سے باقي رہنا چاہيے تاكہ وہ اپنے مدمقابل كي شناخت سے بہرہ ور ہو سكيں، اگر يہي بات تھى، تو ”لتعارفوا“ (ايك دوسرے كي شناخت كرو) كے بجائے ”ليتعارفوا“ (ايك دوسرے كي شناخت كريں) استعمال ہوتا كيوں كہ مخاطب عوام ہيں اور انہي عام افراد سے خطاب ہے كہ يہ جو گروہ يا تفريقات اس وجہ سے وجود ميں آئي ہيں متن خلقت ميں كسي حكمت سے اس كا سروكار ہے اور وہ حكمت يہ ہے كہ تم لوگ قوموں اور قبيلوں كي نسبت كے ساتھ ايك دوسرے كو پہچانو اور ہم جانتے ہيں كہ يہ حكمت اس بات پر موقوف نہيں كہ تمام قوميتيں لازمي طور پر جداگانہ حيثيت سے ايك دوسرے سے عليحدہ رہيں ۔

خامساً: جو كچھ ہم نے گذشتہ اوراق ميں معاشرہ كي يگانگي اور تنوع سے متعلق اسلامي نقطہ نگاہ كو پىش كيا اور بتايا كہ معاشروں كا طبيعي اور تكويني سفر يگانہ معاشرے اور يگانہ ثقافت كي طرف ہے اور اسلام كا بنيادي لائحہ عمل اسي ثقافت اور اسي معاشرے كا استحكام ہے۔ مذكورہ بالا نظريے كي ترديد كے لئے كافي ہے ۔

اسلام ميں فلسفہ ”مہدويت“ اسلام، انسان اور عالم كے مستقبل كے بارے ميں اسي طرح كے نظريے كي اساس پر قائم ہے اور اسي منزل پر ہم معاشرے سے متعلق اپني اس بحث كا خاتمہ كر كے تاريخ كو زير بحث لاتے ہيں ۔

تاريخ كيا ہے؟

تاريخ كي تعريف تين طرح سے ہو سكتي ہے۔درحقيقت تاريخ سے متعلق تين ايسے علوم ہونے چاہيں جو ايك دوسرے سے قريبي تعلق ركھتے ہوں۔

۱۔ زمانہ حال ميں موجود حالات و كيفيات كے بجائے گذرے ہوئے انسانوں كے اوضاع اور احوال اور بيتے ہوئے حادثات كا علم، ہر وہ كيفيت، ہر وہ حالت، ہر وہ واقعہ و حادثہ جس كا تعلق زمانہ حال سے ہو يعني اس زمانے سے ہو كہ جس ميں ابھي اس پر گفتگو چل رہي ہو، ”آج كا واقعہ“ اور ”آج كا حادثہ“ ہوگا اور جب يہ قيد تحرير ميں آجائے گا تو ”روزآنہ“ كہلائے گا۔ ليكن جونہي اس كي تازگي ختم ہوجائے گي اور وقت كي طنابيں كھينچ جائيں گى، يہ تاريخ كا حصہ بن جائے گا۔ پس اس مفہوم ميں علم تاريخ ان حادثات، واقعات اور ان افراد كے حالات و كيفيات پر مبني علم ہے جو گذشتہ سے اپنا رشتہ جوڑ چكے ہيں وہ تمام سوانح عمرياں، ظفرنامے اور سيرتوں پر مشتمل كتابيں جو ہر قوم ميں تاليف ہوئي ہيں اور ہو رہي ہيں، اسي ضمن ميں آتي ہيں ۔

علم تاريخ اس مفہوم ميں اولاً جزو ہے، كليات كا علم نہيں، يعني اس كا تعلق انفرادي اور ذاتي امور كے ايك سلسلے سے ہے نہ كہ قواعد و ضوابط، روابط اور كليات سے۔ ثانياً يہ عقلي نہيں نقلي علم ہے۔ ثالثاً اس كا تعلق كيوں ہوا سے نہيں، كيسے تھا سے ہے۔ رابعاً اس كي وابستگي حال سے نہيں ماضي سے ہے۔ ہم اس طرح كي تاريخ كو ”نقلي تاريخ“ كي اصطلاح ديتے ہيں۔

۲۔ گذشتہ زندگيوں پر حكم فرما قواعد و روايات كا علم جو ماضي ميں رونما ہونے والے واقعات اور حوادث جو نقلي تاريخي ہيں، كے مطالعے اور تحليل و تجزيہ سے حاصل ہوتاہے۔ يعني گذشتہ كے حوادث و واقعات اس علم كے مبادي و مقدمات كي حيثيت ركھتے ہيں اور درحقيقت يہ حوادث و واقعات، تاريخ كے اس دوسرے مفہوم ميں ايك ايسے مواد كا حكم ركھتے ہيں اور درحقيقت يہ حوادث و واقعات، تاريخ كے اس دوسرے مفہوم ميں ايك ايسے مواد كا حكم ركھتے ہيں، جسے طبيعات كا سائنس دان اپني تجربہ گاہ ميں اس لئے اكٹھا كرتا ہے كہ اس پر تجزيہ و تحقيق كر كے اس كي خاصيت اور فطرت معلوم كرے اور اس كے علت و معلول سے متعلق رابطے كو سمجھے، تاريخي حوادث كا مزاج دريافت كرنے اور ان كے سبب و مسبب كو جاننے كي ٹوہ ميں ہوتا ہے تاكہ قواعد و ضوابط كا وہ عمومي سلسلہ اس كے ہاتھ آئے جس سے حال، مشابہ امور ميں ماضي كي صورت اختيار نہ كرے۔ ہم اس معني ميں تاريخ كو ”علمي تاريخ“ كي اصطلاح كا نام ديتے ہيں ۔

ہرچند كہ علمي تاريخ كا موضو ع تحقيق، وہ واقعات اور وہ حادثات ہيں، جن كا تعلق گذشتہ سے ہے، ليكن يہ جو مسائل اور قواعد استنباط كرتا ہے گذشتہ سے مخصوص نہيں ہوتے بلكہ عموميت ركھتے ہيں اور آئندہ پر بھي منطبق كئے جا سكتے ہيں۔

تاريخ كا يہ رخ اسے بڑا سود مند بنا ديتا ہے۔يہ انساني معرفت يا انساني شناخت كا ايك مآخذ بن كر انسان كو اس كے مستقبل پر دسترس ديتا ہے۔ علمي تاريخ كے محقق اور ماہر علم طبيعات كا كاموں ميں يہ فرق ہے كہ علم طبيعات كے ماہر كا تحقيقي مواد ايك موجود اور حاضر عيني مواد ہے جو لازماً اپني تحقيق اور تحليل و تجزيہ ميں عيني اور تجرباتي پہلو ركھتا ہے، ليكن مورخ كا تحقيقي مواد گذشتہ دور ميں تو تھا ليكن اب نہيں ہے صرف اس سے متعلق كچھ اطلاعات اور كچھ ريكارڈ مورخ كے پاس ہوتا ہے۔ مورخ اپنے فيصلوں ميں عدالت كے ايك قاضي كي طرح ہوتا ہے جو ريكارڈ ميں موجود دلائل و شواہد كي بنياد پر اپنا فيصلہ صادر كرتا ہے۔ اس كے پاس منطقى، ذہني اور عقلي تحليل ہے، خارجي اور عيني تحليل نہيں۔ مورخ اپنے تجزيوں كو خارجي تجربہ گاہ ميں يا قرع و انبيق جيسے آلات كے ذريعے انجام نہيں ديتا، بلكہ اس كا عمل عقل كي تجربہ گاہ ميں قياس و استدلال كے آلات سے ہوتا ہے، لہٰذا مورخ اس جہت سے علم طبيعات كے ماہر كي نسبت ايك فلسفي كے مشابہ ہوتا ہے۔

علمي تاريخ بھي نقلي تاريخ كي طرح سے ہي حال سے نہيں گذشتہ سے متعلق ہے۔ يہ علم”كيوں ہوا “كا نہيں، ” كيسے تھا“ سے متعلق علم ہے ليكن نقلي تاريخ كے برخلاف كلي ہے جزوي ہے، نيز عقلي ہے محض نقلي نہيں ۔

علمي تاريخ درحقيقت عمرانيات كا ايك حصہ ہے، يعني گذشتہ معاشروں سے متعلق عمرانيات كا موضوع مطالعہ عمومي ہے، جو معاصر معاشرے اور گذشتہ معاشرے دونوں پر محيط ہے ۔

اگر ہم عمرانيات كو معاصر معاشروں كي شناخت كے لئے مختص كر ديں، تو پھر علمي تاريخ اور عمرانيات دو الگ علم ہوں گے، ليكن رشتہ ميں ان كا ايك دوسرے سے قريبي تعلق ہوگا اور وہ ايك دوسرے كے ضرورت مند ہوں گے۔

۳۔ فلسفہ تاريخ يعني معاشروں كے ايك مرحلے سے دوسرے مرحلوں ميں جانے اور انقلابات سے دوچار ہونے كا علم، نيز ان قوانين كا علم جن كا ان انقلابات پر سكہ رہا ہے۔ بعبارت ديگر:يہ ”كيوں ہوا“ كا علم ہے نہ كہ ”كيسے تھا“ كا علم۔ ممكن ہے محترم قارئين كا ذہن اس طرف جائے كہ كيا يہ ممكن ہے كہ معاشروں ميں ”كيسے تھا“ بھي ہواور ”كيوں ہوا“ بھي جبكہ ”كيسے تھا“، ”علمي تاريخ“ كے نام سے كسي علم كا موضوع ہو ليكن فلسفہ تاريخ كے نام سے كسي دوسرے علم كا موضوع ہو؟ جبكہ ان دونوں كے درميان اجتماع ناممكن ہے كيوں كہ ”كيسے تھا“ سكون ہے اور ”كيوں ہوا“ حركت، لہٰذا ان دونوں ميں سے ايك كا انتخاب كرنا ہوگا۔ گذشتہ معاشروں كے بارے ميں ہمارے پردہ ذہن كي تصوير يا ”كيسے تھا“ سے متعلق ہوني چاہيے يا ”كيوں ہوا“ سے۔ ممكن ہے محترم قارئين اشكال كو زيادہ كلي اور زيادہ جامع بنا كر پىش كريں اور وہ يوں كہ كلي طور پر كائنات اور معاشرہ بااعتبار اس كے كہ كلي كائنات كا ايك جزو ہے، سے متعلق ہماري شناخت اور پردہ ذہن كي تصوير يا ساكن اور ايستادہ امور ميں سے ہے يا ان ميں سے ہے جن ميں تحريك پايا جاتا ہے، اگر دنيا يا معاشرہ ساكن يا ايستادہ ہے تو پھر اس ميں”كيسے تھا“تو ہوگا۔ ”كيوں ہوا“ نہيں اور اگر يہ متحرك ہے تو اس ميں ”كيوں ہوا“ ہوگا، ”كيسے تھا“ نہيں۔ اس اعتبار سے ہم ديكھتے ہيں كہ يہ اہم ترين فلسفي نظام دو بنيادي گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں ايك ”كيسے تھا“ كا فلسفہ اور دوسرا ”كيوں ہوا“ كا فلسفہ۔ پہلا فلسفہ وہ جو ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ كو ناقابل جمع اور متناقص قرار ديتا ہے۔ جہاں ”ہونا“ ہے وہ ”نہ ہونا“ نہيں اور جہاں ”نہ ہونا“ ہے وہاں ”ہونا“ نہيں۔ پس ان دونوں ميں سے ايك كا انتخاب ضروري ہے مگر چونكہ ضرورتاً ”ہونا“ ہے اور دنيا اور معاشرہ ايك حرف عبث نہيں لہٰذا اس دنيا پر ”سكون“ اور قيام كي حكومت ہے۔ ”كيوں ہوا“ كا فلسفہ وہ ہے كہ جو ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ كو آن واحد ميں قابل جمع جانتا ہے اور يہ حركت ہي ہے۔ حركت سوائے اس كے اور كچھ نہيں كہ كوئي شے اور باوجود ہونے كے نہ ہو۔ پس ”كيسے تھا“ كا فلسفہ اور ”كيوں ہوا“ كا فلسفہ ہستي كے بارے ميں دو بالكل متضاد اور مختلف نظريے ہيں۔ ان ميں سے ايك كا انتخاب كرنا ہوگا۔ اگر ہم پہلے گروہ ميں اپنے آپ كو شامل كر ليں تو ہميں يہ فرض كرنا ہوگا كہ معاشروں ميں ”ہونا“ رہا ہے ”نہ ہونا“ نہيں۔ اس كے برعكس اگر ہم دوسرا گروہ اختيار كر ليں تو وہاں معاشرے ”نہ ہونے“ سے متعلق ہيں، ”ہونے“ سے نہيں۔ پس ہمارے پاس گذشتہ مفہوم كے مطابق يا علمي تاريخ ہے اور فلسفہ تاريخ نہيں يا فلسفہ تاريخ ہے اور علمي تاريخ نہيں۔ جواب يہ ہے كہ ہستي اور نيستى، حركت و سكون اور امتناع تناقص كے قانون كے بارے ميں اس طرح كي سوچ مغربي انداز فكر ہے اور يہ ہستي كے فلسفي مسائل خاص طور ”اصالت وجود“ كے عميق مسئلے اور بہت سے ديگر مسائل سے ناواقفيت پر مبني ہے ۔

اول يہ كہ ”ہونا“ سكون كے مساوي بعبارت ديگر سكون ”ہونا“ ہے اور حركت ہونے نہ ہونے كے درميان ملاپ ہے يعني دو نقيضوں كا ملاپ ہے، يہ بات ان بڑے اشتباہات ميں سے ہے جن سے مغرب كے بعض فلسفي دوچار ہوئے ہيں، ثانياً جو كچھ يہاں ذكر ہوا ہے، اس كا اس فلسفي مسئلے سے كوئي واسطہ نہيں ہے۔ يہاں جو بات كہي گئي وہ يہ ہے كہ معاشرہ ہر زندہ وجود كي طرح دو قسم كے قوانين كا حامل ہے۔ ايك وہ قوانين جو ہر نوع كے دائرہ نوعيت پر حكم فرما ہے اور دوسرے وہ جو انواع كے تغيرات اور ان كے آپس ميں تبديلي سے وابستہ ہوتے ہيں۔ ہم پہلي قسم كو ”كيسے تھا“ اور دوسري كو ”كيوں ہوا“ سے متعلق قوانين كي اصطلاح ديتے ہيں ۔

اتفاقاً بعض بہت اچھے ماہرين عمرانيات نے اس نكتہ پر توجہ مبذول كي ہے، ”آگسٹ كانٹ“ انہي ميں سے ہے۔ ”ريمون آرون“ كہتا ہے: حركت اور سكون ”آگسٹ كانٹ“ كي عمرانيات كے دو خاص مقولے ہيں۔ سكون اس موضوعي مطالعے سے متعلق ہے، جسے آگسٹ كانٹ نے اجتماعى اجماع (يا اجتماعى توافق) كا نام ديا ہے۔ معاشرہ ايك اعضاء كے ايك مجموعے ( Organism ) كي طرح زندہ ہے۔ جس طرح بدن كے كسي حصے كي كاركردگي كو سمجھنے كے لئے يہ ضروري ہوتا ہے كہ اسے اس زندہ كل سے وابستہ كيا جائے جس كا وہ خود ايك حصہ ہے۔ اسي طرح حكومت اور سياست كي جانچ پڑتال كے لئے بھي يہ ضروري ہوتا ہے كہ اسے تاريخ كے ايك معين وقت ميں معاشرے كے كل سے وابستہ كيا جائے۔ آغاز ميں حركت ان پے در پے مراحل كي سادہ سي توصيف سے عبارت ہے جسے انساني معاشرے طے كرتے چلے آئے ہيں ۔

دودھ پلانے والے جانور ہوں يا رينگنے والے كيڑے، پرند ہوں يا چرند، مختلف انواع كے زندہ موجودات كي ہر نوع كو اگر ديكھا جائے تو معلوم ہوگا كہ يہ اپنے خاص قوانين سے متصل ہيں جن كا تعلق ان كي نوعيت سے ہوتا ہے۔ جب تك وہ اپني اس نوع كي حدود ميں رہتے ہيں، مذكورہ قوانين ان پر لاگو ہوتے ہيں۔ جيسے كسي حيوان كے مراحل جين سے متعلق قوانين يا اس كي صحت يا بيماري يا طرز پىدائش و پرورش يا انداز حصول غذا ء يا پھر اس كي مہاجرت، جبلت اور توالد و تناسل سے متعلق قوانين ليكن تبديلي و تكامل انواع كے نظريے(۸) كے مطابق خصوصي قوانين كے علاوہ ہر نوع اپنے نوعيت ميں كچھ اور قوانين بھي ركھتي ہے جو تبديلي و تكامل انواع اور ان كي پستي سے بلندي تك پہنچنے سے متعلق ہے۔ يہي قوانين ہيں جو فلسفي شكل اختيار كرتے ہيں اور جسے ہم فلسفہ تكامل تو كہہ سكتے ہيں مگر علم حياتيات نہيں، معاشرہ بھي اس اعتبار سے كہ ايك زندہ وجود ہے، دو طرح كے قوانين كا حامل ہے: ايك قوانين حيات اور دوسرے قوانين تكامل۔ وہ قوانين جن كا تعلق تمدنوں كي پىدائش اور ان كے انحطاط كے اسباب سے ہے اورجو معاشروں كي شرائط حيات كو معين كرتے ہيں اور جن كي حكمراني تمام معاشروں، اطوار اور تغيرات پر ہے، انہيں ہم معاشروں كے قوانين كي اصطلاح كہتے ہيں اور وہ قوانين جو معاشروں كے ايك عہد سے دوسرے عہد ميں ارتقاء پانے اور ايك نظام سے دوسرے نظام ميں جانے سے متعلق ہيں، ان كے لئے معاشروں كي ”كيوں ہوا“ كے قوانين كي اصطلاح لاتے ہيں، بعد ميں جب ہم دونوں قسم كے مسائل كو پىش كريں گے تو ان كا فرق بہتر طور پر واضح ہوگا۔ پس علم تاريخ تيسرے مفہوم ميں معاشروں كے ايك مرحلے سے دوسرے مرحلے ميں جانے اور تكامل پانے سے متعلق علم ہے۔ ان كي زندگي كا علم نہيں جو ان كے ايك خاص مرحلے يا تمام مراحل حيات كي عكاسي كرے۔ہم نے ان مسائل كے لئے ”فلسفہ تاريخ“ كي اصطلاح اس لئے پىش كي ہے تاكہ ان مسائل كا ان مسائل پر گمان نہ ہو، جنہيں ہم نے علمي تاريخ كے نام سے ياد كيا ہے۔ علمي تاريخ سے نسبت پانے والے مسائل جن كا تعلق معاشرے كي غير تكاملي حركات سے ہے، ان مسائل سے جدا نہيں كئے جا سكتے جو فلسفہ تاريخ سے متعلق ہيں اور جن كي نسبت معاشرے كي تكاملي حركات سے ہے اور اس لئے اشتباہات رونما ہوتے ہيں۔

فلسفہ تاريخ علمي تاريخ كي طرح كلي ہے جزوي نہيں، عقلي ہے نقلي نہيں۔ ليكن علمي تاريخ كے برخلاف يہ معاشروں كے ”كيوں ہوا“ كا علم ہے ”كيسے تھا“ كا نہيں۔ نيز علمي تاريخ كے برخلاف فلسفہ تاريخ سے متعلق مسائل كا تاريخ سے رشتہ صرف يہ نہيں ہے كہ وہ گزرے ہوئے زمانے سے وابستہ ہيں بلكہ يہ ان واقعات كي نشاندہي كرتے ہيں جن كا آغاز گذشتہ زمانے ميں ہوا اور جن كا عمل اب بھي جاري ہے اور آئندہ بھي رہے گا۔ زمانہ اس طرح كے مسائل كے لئے محض ايك ”ظرف“ نہيں بلكہ يہ ان مسائل كے پہلوؤں سے ايك پہلو ہے ۔

علم تاريخ اپنے تينوں مفاہيم ميں مفيد ہے يہاں تك كہ نقلي تاريخ بھي جس كا تعلق اشخاص كي سيرت اور ان كے حالات سے ہو، سود مند ، انقلاب آفرين، مربي اور تعميري ہو سكتي ہے۔ البتہ يہ اس بات سے وابستہ ہے كہ ہم كن افراد كي تاريخ حيات كا مطالعہ كرتے ہيں اور ان كي زندگي سے كن نكات كو ليتے ہيں۔ انسان جس طرح ”محاكات“ كے قانون كے تحت اپنے زمانے كے لوگوں كي ہم نشينى، ان كي رفتار و كردار اور ارادوں سے متاثر ہوتا ہے اور جس طرح معاصر لوگوں كي زندگي اس كے لئے سبق آموز اور عبرت انگيز ہوتي ہے، نيز جس طرح وہ اپنے زمانے كے لوگوں سے ادب اور راہ و رسم زندگي سيكھتا ہے اور كبھي لقمان كي طرح بے ادبوں سے ادب سيكھتا ہے تاكہ ان جيسا نہ ہو، اسي طرح گذشتہ لوگوں كي سرنوشت بھي اس كے لئے باعث ہدايت ہوتي ہے۔ تاريخ ايك براہ راست نشر ہونے والي فلم كي طرح ہے جو ماضي كو حال ميں بدلتي ہے، اسي لئے قرآن كريم ان افراد كي زندگي كے مفيد نكات كو پىش كرتا ہے، جو نمونہ عمل اور ”اسوہ“ بننے كي صلاحيت ركھتے ہيں اور اس بات كي تصريح بھي كرتا ہے كہ انہيں ”اسوہ“ قرار دو۔ جب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے:( لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة ) . (سورہ احزاب، آيت ۲۱)

”رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي ميں تمہارے لئے ايك عمدہ نمونہ حيات موجود ہے ۔“

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے:( قد كانت لكم اسوة حسنة في ابراهيم والذي معه ) . (سورہ ممتحنہ، آيت۵)

”ابراہيم اور ان كے ساتھ رہنے والوں ميں تمہارے لئے ”اسوئہ حسنہ“ موجود ہے ۔“

قرآن ”اسوہ“ كے عنوان سے جن ہستيوں كو پىش كرتا ہے وہاں اس كے پىش نظر ان كي دنياوي شخصيت نہيں ہوتي بلكہ وہ ان كي اخلاقى اور انساني شخصيت كو پىش نظر ركھتا ہے۔ جيسے ايك سياہ رنگ غلام لقمان جو بادشاہ تھے نہ مشہور فلسفي اور نہ ہي دولت مندوں ميں ان كا شمار ہوتا تھا بلكہ اس كے برعكس ايك غلام تھے مگر صاحب بصيرت تھے۔ قرآن نے انہيں حكيم و دانا كے نام سے ياد كيا ہے اور ان كے علم كو حكمت و دانائي كہا ہے يہي صورت ”مومن آل فرعون“ اور ”مومن آل ياسين“ كي ہے ۔

اس كتاب ميں جس ميں ہم معاشرے اور تاريخ كو اسلامي طرز فكر كي روشني ميں پىش كر رہے ہيں، ہمارے مطمع نظر صرف ”سائنسي تاريخ“ اور ”فلسفہ تاريخ“ ہے، كيوں كہ تاريخ كے يہي وہ دو رخ ہيں جو طرز فكر كے كلي مفہوم كے دائرے ميں آتے ہيں ۔

اس اعتبار سے ہم اپني گفتگو كو ان دونوں موضوعات كے بارے ميں كچھ آگے بڑھاتے ہيں اور ”سائنسي تاريخ“ سے آغاز كلام كرتے ہيں ۔

سائنسي تاريخ

سب سے پہلے مقدمہ كے طور پر يہ ياد آوري ضروري ہے كہ علمي تاريخ اس مفہوم پر مبني ہے، جسے ہم گذشتہ اوراق ميں عرض كر چكے ہيں اور وہ يہ كہ افراد سے الگ معاشرہ اصالت و حيثيت كا حامل ہے، اگر افراد سے جدا معاشرہ اصالت كا حامل نہ ہو تو افراد اور ان پر لاگو قوانين كے علاوہ كچھ بھي نہ ہوگا اور اس كے نتيجہ ميں علمي تاريخ جو معاشروں پر حكم فرما قواعد و ضوابط كا علم ہے، باقي نہيں رہے گا، تاريخ كسي قانون كي حامل تب ہو سكتي ہے جب تاريخ كوئي طبيعت ركھتي ہو اور تاريخ كسي طبيعت كي حامل تب ہو سكتي ہے جب معاشرہ كوئي طبيعت ركھتا ہو۔ سائنسي تاريخ كے بارے ميں مندرجہ ذيل مسائل كا مطالعہ ضروري ہے:

۱۔ علمي تاريخ جيسا كہ پہلے عرض كيا جا چكا ہے، نقلي تاريخ پر منحصر ہے، نقلي تاريخ علمي تاريخ كي تجربہ گاہ كے لئے مواد كي حيثيت ركھتي ہے، پس سب سے پہلے يہ تحقيق ضروري ہے كہ نقلي تاريخ معتبر اور قابل اعتماد ہے بھي يا نہيں۔ اگر قابل اعتماد نہيں ہے، تو پھر گذشتہ معاشروں پر حاكم قوانين كے بارے ميں كسي طرح كي علمي تحقيق بيہودہ اور عبث ہے ۔

۲۔ بالفرض ”نقلي تاريخ“ قابل اعتماد ہو اور معاشرے كے لئے افراد سے الگ حيثيت اور طبيعت كو مان ليا جائے، تاريخ حوادث و واقعات سے كلي قواعد اور قوانين كا استنباط اس بات پر موقوف ہے كہ قانون ”عليت“ اور جبر و سبب و مسبب انساني مسائل كے حدود و اختيارات ميں موجود ہو، يعني ان مسائل ميں موجود ہو، جو انسان كے ارادہ و اختيار سے وابستہ ہيں اور جن ميں تاريخي واقعات بھي شامل ہيں، وگرنہ قابل عموميت و كليت نہيں اور انہيں قاعدے اور ضابطے كے تحت نہيں ليا جا سكتا۔ كيا قانون عليت تاريخ پر مسلط ہے؟ اگر ہے تو پھر آزادى اور اختيار كے بارے ميں انسان كا رويہ كيا ہونا چاہيے؟

۳۔ كيا تاريخ ”ميٹر يالسٹ“ ہے اور مادي طبيعت كي حامل ہے؟ كيا تاريخ پر حكم فرما اصلي طاقت مادي ہے اور تمام روحاني طاقتيں تاريخ كي مادي طاقت كے تابع ہيں اور ان كي صورت فرعي يا طفيلي كي سي ہے؟ يا اس كے برعكس طبيعت تاريخ معنوي ہے اور تاريخ پر حاكم طاقت ايك معنوي طاقت ہے اور مادي طاقتيں اس كي فرع، اس كي تابع اور طفيلي ہيں؟ يعني كيا تاريخ خود اپني ذات ميں مثاليت پسند ہے يا كوئي تيسري صورت موجود ہے؟ اور وہ يہ ہے كہ تاريخ كي طبيعت مخلوط ہے اور اس ميں دو يا كئي طاقتوں كا عمل دخل ہے اور متعدد مادي اور معنوي طاقتيں كم و بيش ايك ہم آہنگ اور كبھي متضاد نظام كي صورت ميں تاريخ پر حكومت كرتي ہيں؟

۱۔ نقلي تاريخ كا معتبر يا بے اعتبار ہونا

كچھ لوگ نقلي تاريخ سے شديد بدظن ہيں، وہ تمام واقعات كو ناقلين كي جعل سازي جانتے ہيں جوذاتي اغراض و مقاصد يا قومي اور مذہبى تعصبات يا پھر اجتماعى تعلقات كي بنياد پر واقعات كو نقل كرنے ميں كمي بيشى، الٹ پھير، جعل و تخريف كرتے ہيں اور تاريخ كو اپني مرضي كے مطابق جيسا چاہتے ہيں، رنگ ديتے ہيں۔ حتيٰ كہ ان افراد نے بھي جنہوں نے عملاً اخلاقى طور پر جعل اور الٹ پھير سے دامن بچايا ہے، واقعات كو نقل كرنے ميں ”انتخاب“ سے كام ليا ہے، يعني انہوں نے ہميشہ ان چيزوں كو نقل كيا ہے، جو ان كے عقائد اور اہداف سے ہم آہنگ رہي ہے اور ان واقعات كو نقل كرنے سے پرہيز كيا ہے، جو ان كے عقائد اور جذبات كے خلاف رہے ہيں، اس طرح كے لوگوں نے اگرچہ تاريخي واقعات كو نقل كرنے ميں اپني طرف سے كسي چيز كا اضافہ نہيں كيا اور كوئي جعلي بات اس ميں نہيں بڑھائى، ليكن اپني پسند كے واقعات نقل كركے تاريخ كو جيسا چاہا ہے، شكل دے دي ہے۔ ايك حادثہ ايك شخصيت اسي وقت صحيح طور پر قابل تحقيق و تحليل ہے كہ جب اس سے متعلق تمام باتيں محقق كے روبرو ہوں اور اگر بعض چيزيں ہوں اور بعض نہ ہوں اور چھپا دي گئي ہوں، تو پھر حقيقي چہرہ پوشيدہ رہتا ہے اور كوئي دوسري صورت ابھر آتي ہے ۔

يہ بدگمان لوگ نقلي تاريخ كے بارے ميں بالكل اسي طرح سوچتے ہيں، جس طرح بعض بدگمان فقہا مجتہدين نقل احاديث و روايات كے بارے ميں سوچتے ہيں اور اسي كو ”انسداد باب علم“ كہا گيا ہے۔ تاريخ كے بارے ميں بھي ايسي سوچ كے حامل افراد ”انسدادي“ ہيں۔ بعض لوگوں نے تاريخ كے بارے ميں طنزاً كہا ہے:

”تاريخ نام ہے، وقوع پذير نہ ہونے والے واقعات كا جو مورخ موقع سے غير حاضر ہوتا ہے ۔“

ايك صحافي سے اس طنز كو نقل كيا گيا ہے كہ

”حقيقتيں مقدس ہيں، مگر عقيدہ آزاد ہے ۔“

تاہم بعض افراد اس دور تك بدگمان نہيں ہيں، ليكن انہوں نے تاريخ كے بارے ميں شك كے فلسفے كو ترجيح دي ہے ۔

كتاب ”تاريخ كيا ہے؟“ ميں پروفيسر سر جارج كلارك سے نقل كيا گيا ہے كہ:

”گذشتہ دور ميں رونما ہونے والے واقعات ايك يا كئي ذہنوں سے چھنتے چھناتے، ہم تك پہنچتے ہيں، لہٰذا ناقابل تغير، بسيط اور جامد ذرات پر حاوي نہيں ہيں، اس موضوع پر تحقيق لاحاصل رہتي ہے، اسي لئے بعض محققين نے فلسفہ شك ميں پناہ لي ہے اور كچھ نہيں تو اس عقيدے كا سہارہ ليا ہے، چونكہ تمام تاريخي فيصلوں ميں لوگوں كے ذاتي نظريات كا عمل دخل ہے، لہٰذا كسي پر بھروسہ نہيں كيا جا سكتا اور كوئي عيني تاريخي حقيقت موجود نہيں ہے ۔“(۹)

يہ حقيقت ہے كہ آنكھيں بند كر كے موثق راويوں پر بھي اعتبار نہيں كيا جا سكتا، ليكن پہلي بات تو يہ ہے كہ تاريخ، دوسرے علوم ميں بديہات كي طرح كچھ اصول ركھتي ہے اور وہي اصول خود محقق كے تحليل و تجزيہ ميں آسكتے ہيں۔ پھر ثانياً محقق ايك طرح كے اجتہاد كے ساتھ بعض نقول كي صحت اور عدم صحت كي كسوٹي پر پركھ كر ا س سے نتيجہ حاصل كر سكتا ہے۔ آج ہم ديكھتے ہيں كہ بہت سے ايسے مسائل جن كي بعض ادوار ميں بہت دھوم رہي ہے ليكن كئي صدياں گذرنے كے بعد محققين نے ان كے غير معتبر ہونے كو سورج كي طرح روشن كر ديا ہے، اسكندريہ كے كتب خانے كو جلانے كي داستان جو ساتويں صدي كي ہے۔

جي ہاں فقط ساتويں صدي ہجري سے زبان زد خاص و عام ہوئي اور اس طرح پھيلي كہ بدريج اكثر تاريخي كتابوں ميں سرائيت كر گئي ، موجودہ صدي كے محققين كي تحقيق نے يہ ثابت كيا ہے كہ يہ محض ايك بے بنياد افسانہ ہے، جسے خود غرض عيسائيوں نے گڑھ ركھا ہے، جيسے كوئي حقيقت چھپا دي جاتي ہے، ليكن كچھ عرصے كے بعد وہ سامنے آ جاتي ہے، لہٰذا مندرجات تاريخ كے بارے ميں بطور كلي بدگماني نہيں كي جا سكتي ۔

۲۔ تاريخ ميں قانون علت و معلول

كيا تاريخ پر قانون علت حكم فرما ہے؟ اگر علت كي حكومت ہے، تو اس كا لازم يہ ہے كہ ہر واقعہ كي وقوع پذيري اس كي اپني حد تك حتمي اور ناقابل اجتناب رہي ہے اور اس طرح ايك خاص”جبر“ تاريخ پر مسلط ہے اور اگر تاريخ پر جبر كا تسلط ہے ، تو پھر نوع بشر كي آزادى اور اختيار جبري ہے، تو پھر كسي شخص كي كوئي ذمہ داري نہ ہوگي اور كوئي بھي قابل توصيف و تمجيد يا مستحق مذمت و ملامت نہيں ہوگا اور قانون علت كي حكمراني نہيں تو پھر كليت بھي نہيں اور اگر كليت نہيں تو پھر تاريخ قوانين اور ضوابط سے عاري ہے، كيونكہ قانون كليت كا نتيجہ ہے اور كليت قانون علت كا نتيجہ ہے۔يہ وہ پىچيدہ سوال ہے، جو ”علمي تاريخ“ اور ”فلسفہ تاريخ“ كے بارے ميں پايا جاتا ہے، بعض افراد نے قانون علت اور قانون كليت كو مان كر آزادى اور اختيار كاا نكار كيا ہے اور آزادى كے نام پر جو چيز انہوں نے قبول كي ہے، وہ درحقيقت آزادى نہيں ہے، بعض نے اس كے برعكس اصول آزادى كو قبول كر كے تاريخ كي قانون پذيري سے انكار كيا ہے۔ اگر عمرانيات كے ماہرين نے قانون علت اور آزادى كو غير قابل يكجائي جانا ہے اور عليت سے رشتہ جوڑ كر آزادى كي نفي كي ہے۔ ”ہيگل“ اور اس كي پىروي ميں ”ماركس“ جبر تاريخ كے حامي رہے ، ہيگل اور ماركس كي نظر ميں آزادى ضرورت تاريخ سے آگاہي كے سواء كچھ نہيں ۔ ”ماركس اور ماركسزم“ كا مصنف اينجلز كي تاليف شدہ كتاب ”اينٹي ڈيورنگ“ كے حوالے سے لكھتا ہے:

”ہيگل وہ پہلا شخص تھا جس نے آزادى اور ضرورت كے تعلق كي انتہائي واضح طور پر نشان دہي كي ہے۔ اس كي نظر ميں آزادى، ادراك ضرورت كا نام ہے، ضرورت بس اس حد نابينا ہے كہ اس كا ادراك نہ ہو، آزادى، قوانين فطرت كے مقابل كھڑے ہونے ميں نہيں بلكہ ان قوانين كي شناخت اور انہيں معين مقاصد كے لئے بروئے كار لانے ميں ہے۔ يہ امر خارجي طور پر بھي قوانين فطرت پر صادق آتا ہے اور انسان كي روح و جسم پر بھي ۔“

نيز اس كتاب ميں مولف اس موضوع پر ايك مختصر بحث كرتا ہے كہ انسان خاص تاريخي حالات كے تحت اور ان حالات كي معين كردہ سمت ميں اقدام كر سكتا ہے اور اسے كرنا چاہيے۔اس كے بعد لكھتا ہے:

”درحقيقت تاريخ كے ذريعے ہمارے حوالے كي جانے والي چيزوں كي شناخت انسان كے عمل كو زيادہ موثر بناتي ہے، ان چيزوں كے خلاف ہر اقدام تاريخ كے خلاف رد عمل اور اس سے ٹكرانے كے مترادف ہوگا، ان سے ہم آہنگ سمت ميں اقدام، گويا تاريخ كي سمت اور راستے پر حركت كہلائے گى، ليكن يہاں يہ سوال ہوگا كہ آزادى كا كيا بنے گا؟ ماركس كا مكتب فكر اس كا جواب يوں ديتا ہے كہ آزادى عبارت ہو گى، فرد كي ضرورت تاريخ اور اس جماعت كے راستے سے آگاہي كي جس كي سمت اسے كھينچا جا رہا ہے ۔“(۱۰)

ظاہر ہے يہ باتيں مسئلے كو حل نہيں كرتيں، يہاں بات تاريخي حالات كے ساتھ انسان كے رابطہ كي ہے۔ كيا انسان تاريخي شرائط پر حاكم ہے؟ انہيں كوئي اور جہت دے سكتا ہے؟ ان كا رخ بدل سكتا ہے يا نہيں؟ اگر وہ ايسا نہيں كر سكتا اور تاريخ كو كوئي سمت نہيں دے سكتا يا اس كے رخ ميں تبديلي نہيں لا سكتا، تو پھر مجبوراً تاريخ كے دھارے پر لا كر ہي وہ اپنے آپ كو زندہ ركھ سكتا، بلكہ كمال حاصل كر سكتا ہے، وگرنہ اس كے خلاف اپني راہ متعين كرنا موت كو دعوت دينا ہے۔ اب يہ سوال درپيش ہے كہ كيا انسان كو تاريخ كي سمت ميں قرار پانے اور نہ پانے ميں اختيار ہے؟ يعني كيا وہ اس امر ميں آزاد ہے يا مجبور؟ اور كيا فرد پر معاشرے كے تقدم كے قانون كے مطابق اور اس بات كے بعد كہ فرد كے وجدان و شعور و احساس كو مكمل طور پر معاشرہ و تاريخ خاص كر اقتصادي حالات بناتے ہيں، آزادى كے لئے كوئي جگہ باقي رہتي ہے؟

پھر ”آزادى، ضرورت كے بارے ميں آگاہي سے عبارت ہے“ كا كيا مفہوم ہے؟ كيا وہ شخص جو خوفناك سيلاب كا شكار ہے اور اس بات سے آگاہ ہے كہ چند گھنٹوں ميں يہ سيلاب اسے سمندر كي گہرائيوں ميں پہنچا دے گا يا وہ شخص جو كسي بلندي سے گر رہا ہو، اس بات سے واقف ہو كہ قانون كشش ثقل اسے چند لمحوں ميں چور كر دے گا، سمندر كي گہرائيوں ميں جانے يا زمين پر گرنے ميں آزاد ہے؟

تاريخي جبري ماديت كي رو سے، مادي و اجتماعى شرائط انسان كو محدود كر ديتي ہے، اس كے لئے سمت كا تعين كرتي ہيں اور اس كے وجدان، اس كي شخصيت اور اس كے ارادہ انتخاب كو بناتي ہيں اور وہ اجتماعى شرائط كے مقابل ايك خالي برتن اور خام مواد كے سواكچھ نہيں اور انساني شرائط كا ساختہ ہے۔ انسان نے اجتماعى شرائط كو نہيں بنايا پچھلوں كي شرائط بعد ميں انسان كے لئے راستہ معين كرتي ہيں، مستقبل كي شرائط كي معمار نہيں، اس بناء پر آزادى كي صورت كوئي معني و مفہوم نہيں ركھتي۔ حقيقت يہ ہے كہ انساني آزادى، نظريہ فطرت كے بغير قابل تصور نہيں، اس نظريے كے مطابق انسان دنيا كے عمومي جوہري حركت كي راہ ميں دنيا سے ہٹ كر ايك اضافي پہلو كے ساتھ آتا ہے، يہي پہلو اس كي شخصيت كو پہلي بنياد فراہم كرتا ہے۔ اس كے بعد عوامل ماحول كے زير اثراس كي شخصيت كي تكميل اور پرورش ہوتي ہے، يہي وجودي بعد ہے، جو انسان كو انساني شخصيت ديتا ہے اور اس منزل تك لاتا ہے كہ وہ تاريخ پر حكمراني كرنے لگتا ہے اور تاريخ كي راہ كو معين كرتا ہے، ہم اس سے پہلے ”جبر و اختيار“ كے عنوان كے تحت عظيم شخصيات كے كردار كے تذكرے ميں اس موضوع پر مزيد روشني ڈاليں گے ۔

انسان كي آزادى ، جس مفہوم ميں ہم اشارہ كر چكے ہيں، نہ تو قانون عليت سے ٹكراتي ہے اور تاريخي مسائل كي كليت سے اور نہ ہي تاريخ كي قانون پذيري كي منافي ہے۔ يہ بات كہ انسان آزادى و اختيار كے ساتھ اپني فكر اور ارادے كے موجب اجتماعى زندگي ميں ايك معين، مشخص اور غير قابل تغير راہ ركھتا ہو، اس كا معني سوائے اس كے كہ كچھ نہيں كہ انسان اور انسان كے ارادے پر ايك اندھي ضرورت حكم فرما ہو، تاريخ كي قانوني پذيري اور كليت ميں ايك معترض بات يہ بھي ہے كہ تاريخ واقعات و حادثات كے مطالعے سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ كبھي چند جزوي اور حادثاتي واقعات بھي تاريخ كے دھارے كو بدل ديتا ہے، البتہ اتفاقي واقعات سے مراد بعض نا واقف افراد كي سوچ كے برخلاف علت كے بغير رونما ہونے والے واقعات نہيں ہيں، بلكہ وہ واقعات ہيں جو ايك عام اور كلي علت سے رونما نہيں ہوتے اور اس اعتبار سے كلي ضابطے سے عاري ہيں۔ اگر وہ واقعات، جو كلي ضابطے سے عاري ہيں، تاريخ ميں موثر كردار كے حامل ہوں، تو تاريخ كسي قاعدے، قانون اور مشخص روايت سے خالي ہوگي۔ اتفاقي تاريخي واقعات سے متعلق ضرب المثل مصر كي مشہور ملكہ قلو بطرہ كي ناك ہے، جس نے تاريخ كے دھارے كو موڑ ديا۔ ايسے جزوي اور اتفاقي واقعات كي كمي نہيں، جنہوں نے تاريخ كے رخ كو موڑ ديا ہے ۔

”ايڈورڈ ہيلٹ كار“ اپني كتاب ”تاريخ كيا ہے؟ “ ميں لكھتا ہے: ”جبر تاريخ پر حملے كي دوسري بنياد قلوپطرہ كي ناك“ كا مشہور معمہ ہے۔ يہ وہي نظريہ ہے ، جو تاريخ كو كم و بيش اغراض كا ايك باب اور اتفاقي امور سے ابھرنے والے واقعات كي ايك كڑي اور انتہائي اتفاقي علل سے منسوب ايك چيز جانتا ہے ۔

عام طور پر مورخين نے جنگ ايكٹيوم كي طرف جن علل كو مسلم جانتے ہوئے نسبت دي ہے، وہ درست نہيں۔ يہ جنگ انتھوني كي قلوپطرہ سے عشق كا نتيجہ تھى، جب بايزيد گٹھيا كي بيماري كي وجہ سے مركزي يورپ ميں اپني پىش قدمي جاري نہ ركھ سكا ۔

گيبن نے لكھا ہے: ”كسي انسان پر كسي بيماري كا تھوڑا سا حملہ ممكن ہے، كئي قوموں كو تباہي سے بچا لے يا تباہي كو التوا ميں ڈال دے ۔“ جس وقت ۱۹۲۰ء كے موسم خزاں ميں يونان كے بادشاہ اليگزينڈر كو ايك تربيت يافتہ بندر نے كاٹ ليا اور اس كي موت كا سبب بنا، تو اس حادثے نے ايسے واقعات كو جنم ديا كہ سر وينسٹن چرچل كو كہنا پڑا كہ ”۲۵۰۰ افراد بندر كے كاٹنے سے مر گئے ۔“ ياٹرو ئسكي ۱۹۲۳ء كے موسم خزاں ميں مرغابيوں كا شكار كرتے ہوئے بخار كے عارضے ميں مبتلا ہوگيا اور ايسے موقع پر جب اس كي جنگ زينوف كا منف اور اسٹالن سے ۱۹۳۳ء كے موسم خزاں ميں جاري تھى، وہ بستر پر گر پڑا ۔وہ لكھتا ہے:

”انسان كسي جنگ يا انقلاب كي پىشنگوئي تو كر سكتا ہے، ليكن موسم خزاں ميں مرغابيوں كے شكار كے نتائج كي پىشگوئي نا ممكن ہے ۔“(۱۱)

عالم اسلام ميں آخري اموي خليفہ مروان بن محمد كي شكست اس امر كي ايك عمدہ مثال ہے كہ اتفاق كو تاريخ كي سرنوشت دخل حاصل ہے، عباسيوں كے ساتھ اپني آخري جنگ كے دوران ميں سخت پىشاب آ گيا، لہٰذا وہ ايك طرف چلا گيا اتفاق سے وہاں دشمن كا ايك آدمي جا رہا تھا، اس كي نظر پڑي اور اس نے اسے قتل كر ديا۔ اس كے قتل كي خبر فوج ميں پھيل گئي چونكہ اس حادثے كے بارے ميں پہلے سے سوچا نہ گيا تھا، فوج كا جذبہ سرد پڑ گيا اور وہ بھاگ كھڑي ہوئي۔ يوں بني اميہ كي حكومت ختم ہوگئى، لہٰذا كہا گيا:

ذهبت الدولة ببولة

ايڈورڈ ہيلٹ كار اس امر كي توضيح كے بعد كہ حادثہ علت و معلول كے ايك رشتے سے منسلك ہوتا ہے، جو علت و معلول كے ايك اور رشتے كو قطع كر ديتا ہے نہ يہ كہ ايسا كوئي حادثہ ہوتا ہے ، جو بے علت ہو، لكھتا ہے:

”آخر كس طرح ہم علت و معلول كے منطقي تواتر كو تاريخ ميں دريافت كر سكتے ہيں اور اسے تاريخ كا مبنيٰ قرار دے سكتے ہيں، جب كہ ہمارا تواتر ہر آن ممكن ہے-، كسي دوسرے تواتر كے ذريعے جو ہماري نگاہ ميں غير مربوط ہو، منقطع ہوتا رہے يا كسي اور ڈگر پر چل پڑے ۔“(۱۲)

اس اشكال كے جواب كا تعلق معاشرے اور تاريخ كے لئے ايك معين رنگ والي طبيعت كے ہونے اور نہ ہونے سے ہے، اگر تاريخ معين راہ ركھنے والي طبيعت سے ہمكنار ہے، تو جزوي واقعات كا كردار ناچيز ہو جائيگا، يعني جزوي واقعات اگرچہ مہروں ميں تبديلي پىدا كرتے ہيں ، ليكن كل تاريخ كي راہ ميں ان كا كوئي اثر نہيں ہوتا، زيادہ سے زيادہ يہ ہوگا كہ اس سفر ميں تيزي يا كندي آجائيگى، ليكن اگر تاريخ طبيعت، حيثيت اور اس معين شدہ راہ سے عاري ہوگئى، جس سے طبيعت اور الگ حيثيت اس كے لئے مقرر كرے گى، تو لازماً تاريخ كي كوئي معين اور مشخص راہ نہيں ہوگي اور پہلے سے اس كے بارے ميں كچھ نہيں كہا جا سكتا اور وہ كليت سے عاري ہوگي ۔

تاريخ كے بارے ميں ہمارا نكتہ نظر يہ ہے كہ تاريخ طبيعت اور حيثيت كي حامل ہے اور يہ طبيعت اور حيثيت اسے ان انسانوں سے ملتي ہے، جو فطرتاً كمال كي تلاش ميں ہوتے ہيں۔ اتفاقي طور پر رونما ہونے والے واقعات تاريخ كي كليت اور ضرورت كو نقصان نہيں پہنچاتے۔ مونٹيسكو نے اتفاق كے بارے ميں بڑي خوبصورت بات كہي ہے اور اس كے كچھ حصے كو ہم پہلے بيان كر چكے ہيں۔ وہ كہتا ہے:

”اگر اتفاقي طور پر يعني ايك خاص علت كے سبب كسي حكومت كا تختہ الٹ جائے، تو يقينا اس ميں كسي كلي سبب كا ہاتھ ہوتا ہے جس كي وجہ سے يہ حكومت ايك جنگ ميں گھٹنے ٹيك بيٹھتي ہے ۔“

وہي كہتا ہے: ”بولٹاوا كي جنگ جو سويڈن كے بادشاہ باروہويں چارلس كے زوال كا سبب ہوئى، اگر نہ ہوتي اور وہ بولٹاوا ميں شكست نہ كھاتا تو كسي اور مقام پر شكست كھا ليتا، اتفاقي واقعات كي تلافي آسان ہو جاتى، ليكن جو واقعات چيزوں كي فطرت سے دائماً جنم ليتے رہتے ہيں ان سے محفوظ رہا جا سكتا ہے ۔“(۱۳)

۳۔ كيا تاريخ كي فطرت مادي ہے؟

تاريخ كس فطرت كي حامل ہے؟ اس كي اصل فطرت ثقافتي ہے يا سياسى ہے؟ اقتصادي ہے، مذہبى ہے يا اخلاقى ہے؟ اس كے مزاج ميں ماديت ہے يا روحانيت؟ يا پھر مخلوط ہے؟ پہلا سوال تاريخ سے متعلق اہم ترين مسائل ميں سے ہے۔ جب تك يہ مسئلہ حل نہيں ہوگا، تاريخ كے بارے ميں ہماري شناخت صحيح نہيں ہوگي۔ ظاہر ہے كہ مذكورہ تمام مادي اور روحاني عوامل تاريخ كے بننے اور اس كي تشكيل ميں موثر رہے ہيں اور اب بھي ہيں، ليكن يہاں تقدم، اصالت اور تعين كنندہ ہونے سے متعلق گفتگو ہے۔ يہاں ہميں يہ ديكھنا ہے كہ ان عوامل ميں سے كونسا عامل تاريخ كي اصلي روح اور اس كي اصل ہويت ہے؟ كون سا عامل باقي تمام عوامل كي توجيہ و تفسير كرتا ہے؟ ان ميں سے كونسا عامل بنياد ہے اور باقي عوامل عمارت؟ عام طور پر اہل نظر تاريخ كو كئي انجنوں والي گاڑي سمجھتے ہيں، جس ميں ہر انجن دوسرے انجن كي نسبت اپني جگہ اپني الگ حيثيت ركھتا ہے۔ يہ لوگ تاريخ كو صرف ايك فطرت والي نہيں سمجھتے بلكہ اسے كئي فطرتوں والي جانتے ہيں، ليكن اگر ہم تاريخ كوكئي انجنوں والي گاڑي اور كئي فطرتوں والي شے جانيں تو پھر تاريخ كے تكامل اور كمال كي طرف ا كے سفر كا مفہوم كياہو گا؟ يہ بات ممكن ہي نہيں كہ متعدد انجن چل رہے ہوں، جو كاركردگي ميں ايك دوسرے ميں الگ ہوں اور تاريخ كو اپنے اپنے دھارے پر پہنچانا چاہتے ہيں، تاريخ پر حكم فرما ہوں اور تاريخ كسي مشخص كمال كے راستے ميں آگے بڑھ سكے۔ مگر يہ كہ مذكورہ عوامل كو تاريخ كي جبلي قوتوں كا درجہ ديا جائے اور ان تمام پر مافوق، تاريخ كي ايك روح ماني جائے، جو تاريخ كي گوناگوں جبلي طاقتوں سے فائدہ اٹھا كر كسي معين راہ كمال پر پہنچاتي ہو۔ يہي وہ روح ہے جو تاريخ كي حقيقي ہويت ہے، ليكن يہ تعبير تاريخ كي ايك طبيعت كي بات سے مختلف ہے۔ تاريخ كي جبلي طاقتوں سے مراد كچھ اور ہے اور طبيعت تاريخ سے كچھ اور، كيوں كہ طبيعت تاريخ وہي ہے، جسے روح تاريخ سے تعبير كيا گيا ہے۔ ہمارے اس دور ميں ايك نظريہ يہ ابھرا ہے، جس نے اپنے بہت سے حامي پىدا كر لئے ہيں اور وہ تاريخي ميٹر يالزم يا تاريخي ”ڈائلكٹك ميٹريالزم“ كے نام سے مشہور ہے ۔ تاريخي ميٹريالزم يعني تاريخ كو معاشي نقطہ نظر سے ديكھنا، بعبارت ديگر تاريخي ماديت يعني يہ كہ تاريخ ايك مادي ماہيت اور جدلياتي وجود كي حامل ہے۔ مادي ماہيت ركھنے كا مطلب يہ ہے كہ كسي بھي معاشرے كي تمام تحريكيں شعبے اور مظاہر اس كي اقتصادي تنظيم كا حصہ ہيں، يعني اس معاشرے كي پىداوار كي مادي قوتيں اس كے پىداواري روابط كي كيفيت ہيں جو اخلاق، علم، فلسفہ، مذہب، قانون اور ثقافت وغيرہ سے متعلق معاشرے كي تمام روحاني حقيقتوں كي تشكيل كرتے ہيں، انہيں سمت ديتے ہيں اور جب بدل جاتے ہيں توانہيں بھي بدل ديتے ہيں ۔

ليكن يہ جو كہا جاتا ہے كہ تاريخ ايك جدلياتي وجود كي حامل ہے، جدلياتي اس مفہوم ميں ہے كہ تاريخ كي تكاملي حركات دراصل جدلياتي حركات ہيں، يعني وہ ايك ايسے جدلياتي تضادات كا محلول اور نتيجہ ہے جو ايك دوسرے سے خاص نوعيت كا رشتہ ركھتے ہيں، غير جدلياتي تضادات سے جدلياتي تضادات كا فرق يہ ہے كہ ہر مظہر اور واقعہ جبري طور پر اپني نفي اور انكار كو اپنے وجود ميں پرورش ديتا ہے اور ان مختلف تبديليوں كے بعد جو داخلي تضاد كے نتيجے ميں پىدا ہوتي ہيں، وہ مظہر ايك شديد كيفي تغير كے بعد پہلے دو مرحلوں كي نسبت زيادہ بلند مرحلے ميں تكامل پاتا ہے ۔

پس تاريخي ميٹريالزم ميں دو مسئلے شامل ہيں، ايك ہويت تاريخ كا مادي ہونا اور دوسرا اس كي حركات كا جدلياتي ہونا۔ ہماري گفتگو يہاں پہلے مسئلے كے بارے ميں ہوگى، دوسرا مسئلہ اس باب ميں زير بحث آئے گا، جہاں ہم تاريخ كے تحول و تكامل كے بارے ميں گفتگو كريں گے۔ ”ہويت تاريخ كي ماديت“ كا نظريہ ايك اور سلسلہ اصول سے وابستہ ہے، جو فلسفے، نفسيات يا عمرانيات كا پہلو لئے ہوئے ہے اور خود اپنے مقام سے آئيڈيالوجى سے متعلق نظريات اخذ كرتا ہے، بعض روشن فكر مسلمان اہل قلم اس بات كے مدعي ہيں كہ اسلام نے ہرچند فلسفي ماديت كو تسليم نہيں كيا ہے، ليكن تاريخي ماديت اس كے لئے قابل قبول ہے اور اسلام نے تاريخي اور معاشرتي نظريات كو اسي بنياد پر قائم كيا ہوا ہے، لہٰذا ہم ضروري سمجھتے ہيں كہ ذرا تفصيل سے اس پر گفتگو كي جائے لہٰذا جس اصول پر يہ نظريہ قائم ہے، ہم اس كے بارے ميں اپني معروضات پىش كرتے ہوئے اس كے ”نتائج“ پر بھي گفتگو كريں گے اور اس كے بعد اصل نظريہ كو سائنسي اور اسلامي نقطہ نظر سے تحقيق و تنقيد كي منزل پر لائيں گے ۔

ماديت تاريخ كے نظريہ كي بنياد

۱۔ روح پر مادہ كا تقدم

انسان جسم بھي ركھتا ہے اور روح بھي۔ جسم، علم حياتيات اور علم طب كا موضوع كا مطالعہ ہے ليكن روح اور اس سے متعلق امور فلسفے اور نفسيات كا موضوع ہيں، افكار، ايمان، احساسات ، ميلانات، نظريات اور آئيڈيالوجى نفسياتي امور كا حصہ ہيں۔ روح پر مادے كي تقدم كے اصول كي كوئي اساس نہيں بلكہ يہ صرف وہ عادي انعكاسات ہيں، جو مادہ عيني سے اعصاب اور دماغ پر وارد ہوتے ہيں۔ ان امور كي حيثيت صرف اس حد تك ہے كہ يہ باطني مادي قوتوں اور بيروني دنيا ميں رابطہ پىدا كرتے ہيں، ليكن خود يہ امور انسان كے وجود پر حاكم مادي طاقتوں كے مقابل طاقت شمار نہيں ہوتے، مثال كے طور پر نفسياتي امور كو، گاڑي كي لائٹس سے تشبيہ دي جا سكتي ہے، گاڑي رات كو لائٹس كے بغير نہيں چل سكتى، وہ لائٹس كي روشني ميں اپنا راستہ طے كرتي ہے، ليكن گاڑي كو چلانے والي شے لائٹس نہيں انجن ہے۔ نفسيات اور روح سے متعلق امور يعني افكار، ايمان، نظريات اور آئيڈيالوجى اگر تاريخ كي مادي طاقتوں كے رخ پر كام آئيں تو وہ تاريخ كي حركت ميں معاون ثابت ہوں گے، ليكن وہ خود ہرگز كسي حركت كو وجود ميں نہيں لا سكتے اور ہرگز مادي طاقتوں كے مقابل طاقت نہيں بن سكتے، نفسياتي اور روحاني امور بنيادي طور پر كوئي طاقت نہيں ہيں، نہ يہ كہ طاقت نہيں بلكہ ان كي حقيقت مادي ہے، انساني وجود كي حقيقي طاقتيں بن رہي ہيں، جو مادي طاقتوں كے عنوان سے جاني جاتي ہيں اور جنہيں مادي ترازو كے ذريعے تو لا سكتا ہے۔

اس اعتبار سے نفسيات پر مبني امور، حركت بخش اور جہت بخش ہونے كي صلاحيت نہيں ركھتے اور معاشرے كو آگے بڑھانے كے لئے اہرم ( Lever ) شمار نہيں ہوتے، نفسياتي تدريس اگر مطلقاً مادي اقدار پر منحصر اور ان كي توجيہ كرنے والي نہ ہوں تو كسي طرح بھي ايك اجتماعى حركت ان سے ظہور ميں نہيں آسكتي۔ اس بناء پر تفسير تاريخ ميں بڑي احتياط كي ضرورت ہے۔ ہميں ظاہري فريب ميں نہيں آنا چاہيے، اگر تاريخ كے كسي حصے ميں بظاہر يہ ديكھنے ميں آئے كہ كسي فكر، كسي عقيدے اور كسي ايمان نے كسي معاشرے كو آگے بڑھايا ہے اور اسے رشد و كمال كي طرح حركت دي ہے، اگر اچھي طرح تاريخ كا پوسٹ مارٹم كيا جاے تو معلوم ہوگا كہ ان عقائد كي كوئي بنيادي حيثيت نہيں ہے اور جو مادي طاقتيں ہيں، جنہوں نے معاشرے كو آگے كي سمت حركت دي ہے، يہ امور تو انہي مادي طاقتوں كا انعكاس ہيں، يہي طاقتيں ايمان كي شكل ميں تحريك بن كر ابھري ہيں۔ تاريخ كو آگے بڑھانے والي مادي طاقت فني نقطہ نظر سے معاشرے كا پىداواري نظام اور انساني نقطہ نظر سے معاشرے كا محروم اور لوٹ كھسوٹ كا شكار ہونے والا طبقہ ہے۔ مشہور مادي فلسفي ”فوئر باخ“ (Feuer Bagh) ) (جرمن فلسفي) جس كے بہت سے مادي نظريات سے ماركس نے استفادہ كيا ہے، لكھتا ہے: ”نظريہ كيا ہے؟ “، ”پراكسز (فلسفہ عمل اجتماعى) كيا ہے؟ “ ان دونوں كے درميان كس بات كا فرق ہے؟ اور پھر بات كا جواب اس طرح ديتا ہے:

”ہر وہ چيز جو ميرے ذہن تك محدود ہے، نظري ہے اور جو بہت سے اذہان ميں ابھرتي ہے، عملي ہے، وہ جو بہت سے اذہان كو آپس ميں متحد كرتي ہے، ايك گروہ كي تشكيل كرتي ہے اور اس طرح دنيا ميں اپنے لئے ايك مقام پىدا كرتي ہے ۔“(۱۴)

اس كا وفا دار شاگرد ماركس لكھتا ہے:

”ظاہر ہے كہ تنقيد كا اسلحہ، اسلحے پر تنقيد كي جگہ نہيں لے سكتا، مادي طاقت كو مادي طاقت سے ہي نيچا دكھايا جا سكتا ہے ۔“

ماركس غير مادي طاقتوں كي اصالت كا قائل نہ ہونے كي وجہ سے ان كي توضيحي اہميت (اس سے زيادہ نہيں) پر بات كرتے ہوئے كہتا ہے:

”ليكن نظريہ بھي يونہي عوام ميں رسوخ پىدا كر ليتا ہے، مادي طاقت ميں بدل جاتا ہے ۔“

روح پر مادہ كے تفدم، نفس پر جسم كے تقدم اور روحاني اور معنوي اقدار اور طاقتوں كي اصالت كا نہ ہونا دراصل فلسفي ماديت كے بنيادي اصول ہيں ۔

اس نظريے كے مقابل نظريہ اصالت روح ہے، اس كے مطابق انساني وجود كے تمام بنيادي پہلوؤں كي مادہ اور اس سے متعلق امور كے حوالے سے توجيہ و تفسير نہيں كي جا سكتى، روح انسان كے مركز وجود ميں ايك بنيادي حقيقت ہے، روحاني توانائي مادي توانائيوں سے بالكل جدا چيز ہے۔ اس اعتبار سے روحاني طاقتيں يعني فكرى، اعتقادى، ايماني اور جذبوں كي طاقتيں بعض اعمال كے لئے ايك جداگانہ حيثيت ركھتي ہيں۔ يہ اعمال انفرادي بھي ہو سكتے ہيں، اجتماعى بھي۔ان قوموں سے تاريخ كو آگے بڑھايا جا سكتا ہے، بہت سے تاريخي واقعات و حركات جداگانہ طور پر ان قوتوں كے مرہون منت ہوتے ہيں، خاص طور پر انسان كے انفرادي اور اجتماعى بلند پايہ كاموں كي براہ راست ان طاقتوں سے وابستگي ہے، ان كاموں نے انہيں طاقتوں سے بلندي حاصل كي ہے ۔

نفس كي قوتيں كبھي كبھي بدن كي مادي طاقتوں كو نہ صرف اختياري فعاليتوں كي حد ہيں بلكہ ميكانياتى، كيميائي اور حياتياتي كاموں كي سطح پر بھي شديد متاثر كرتي ہيں اور اپني خاص سمت ميں ان سے كام ليتي ہيں ۔جسماني بيماريوں كے علاج كے لئے نفسياتي طريقہ علاج اور ہپناٹزم كے غير معمولي اثرات ايسي چيزيں ہيں، جن كا انكار نہيں كيا جا سكتا۔ (ايسے مسائل كے بارے ميں زيادہ آگاہي كيلئے ہم كاظم زادہ ايرانشہري كي كتاب ”تداوي روحي“ كے مطالعے كي تلقين كرتے ہيں) علم اور ايمان اور خصوصاً ايمان، خاص طور پر وہاں جہاں نفس كي يہ دونوں قوتيں ہم آہنگ ہوں، ايك عظيم اور كارآمد طاقت بن جاتي ہيں اور تاريخ ميں زيرو زبر كر دينے والي اور ارتقاء بخش تحريك پىدا كر سكتي ہيں۔ روح اور روحاني طاقتوں كي اصالت”فلسفي ريلزم“ ( Philosophical Realism ) كے اركان ميں سے ہے ۔(۱۵)

۲۔ معنوي ضرورتوں پر مادي ضرورتوں كا تقدم

انسان كو كم از كم اپنے اجتماعى وجود ميں دو طرح كي ضرورتيں درپيش ہيں: ايك روٹى، پانى، مكان، كپڑا اور دوا جيسي ضرورتيں اور دوسري تعليم، ادب، آرٹ، فلسفي افكار، ايمان، آئيڈيالوجى، دعا، اخلاق اور ان جيسي روحاني چيزيں۔ يہ دونوں ضرورتين بہرحال اور بہر سبب انسان ميں موجود ہيں۔ ليكن يہاں گفتگو ان ضرورتوں كے تقدم اور اوليت كے بارے ميں ہے كہ كون سي ضرورت دوسري پر مقدم ہے۔ مادي ضرورتيں روحاني ضرورتوں پر مقدم ہيں، يا برعكس ہے يا پھر كوئي تقدم نہيں ركھتيں۔ مادي ضرورتوں كے تقدم سے متعلق نظريہ يہ ہے كہ مادي ضرورتوں كو تقدم اور اوليت حاصل ہے اور يہ اوليت اور تقدم صرف اس جہت سے نہيں كہ انسان سب سے پہلے مادي ضرورتوں كو پورا كرنے كے درپے ہوتا ہے اور جب يہ پوري ہوجاتي ہيں، تو پھر معنوي ضرورتوں كا سرچشمہ ہيں ايسا نہيں ہے كہ انسان اپني خلقت ميں دو طرح كي ضرورتوں اور دو طرح كي جبلتوں كے ساتھ آيا ہو، مادي ضرورت و جبلت اور معنوي ضرورت و جبلت، بلكہ انسان ايك طرح كي ضرورت اور ايك طرح كي جبلت كے ساتھ پىدا ہوا ہے اور اس كي معنوي ضرورتيں ثانوي حيثيت كي حامل ہيں اور درحقيقت يہ مادي ضرورتوں كو بہتر طور پر پورا كرنے كے لئے ايك وسيلہ ہيں، يہي وجہ ہے كہ روحاني ضرورتيں شكل، كيفيت اور ماہيت كے اعتبار سے بھي مادي ضرورتوں كے تابع ہيں۔ انسان ہر دور ميں آلات پىداوار ميں نشوونما كے تناسب سے مختلف شكل و رنگ اور كيفيت كي مادي ضرورتيں ركھتا ہے اور چونكہ اس كي معنوي ضرورتيں اس كي مادي ضرورتوں سے ابھرتي ہيں، لہٰذا وہ بھي شكل و صورت اور كيفيت و خصوصيت كے اعتبار سے مادي ضرورتوں سے مناسبت ركھتي ہيں۔ پس در حقيقت مادي ضرورتوں اور معنوي ضرورتوں ميں دو طرح كي ترجيحات موجود ہيں، ايك وجود سے متعلق ترجيحات، يعني روحاني ضروريات مادي ضروريات كي پىداوار ہيں اور دوسري ہويت سے متعلق ترجيح۔ جس ميں روحاني ضرورتوں كي شكل و صورت اور خصوصيت و كيفيت مادي ضرورتوں كي شكل و صورت، كيفيت و خصوصيت كے تابع ہيں۔ پى۔ رويان ”ميٹريالزم تاريخى“ ميں ”ہايمن لوئي“ كي كتاب ”فلسفي افكار“ كے صفحہ(۹۲)كے حوالے سے لكھتا ہے:

”انسان كي مادي زندگي نے اسے اس بات پر ابھارا كہ وہ اپنے زمانے كي مادي ضروريات كو پورا كرنے كے لئے وسائل كے مطابق نظريات بيان كرے۔ يہ نظريات جو تصور كائنات، معاشرے، آرٹ، اخلاق اور ديگر روحاني پہلوؤں كے بارے ميں ہيں كہ جو اسي مادي راستے اور پىداوار سے پىدا ہوئے ہيں ۔“(۱۶)

اس اعتبار سے ہر شخص كے علمي تضادات، اس كي فلسفيانہ سوچ، اس كا ذوق، حس جماليات، فنون لطيفہ كا ذوق، اخلاقى ميزان اور مذہبى رجحان اس كي طرز معاش كے تابع ہے۔ اسي لئے جب قانون كسي فرد كے بارے ميں لايا جائے گا، تو اس كي ادائيگي كي صورت يہ ہوگي ۔

”بتاؤ وہ كيا كھاتا ہے؟ تاكہ ميں بتا سكوں كہ وہ كيا سوچتا ہے؟ “ اور اگر اسے معاشرے كي سطح پر استعمال كيا جائے تو جملہ يہ ہوگا ”مجھے بتاؤ كہ پىداواري آلات ميں بہتري كس درجے پر ہے اور يہ بھي كہ معاشرے ميں افراد كے مابين كس طرح كے اقتصادي روابط كار فرما ہيں تاكہ ميں يہ بتا سكوں كہ اس معاشرے ميں كس طرح كي آئيڈيالوجى، كس طرح كا فلسفہ، كس طرح كا اخلاق اور كيسا مذہب پايا جاتا ہے؟ “

اس كے مد مقابل روحاني ضرورتوں كي اصالت پر مبني نظريہ ہے۔ اس نظريے كے مطابق ہر چند انسان ميں مادي ضرورتيں وقت كے اعتبار سے جلدي جوان اور نماياں ہوجاتي ہيں اور اپنے آپ كو جلد ظاہر كرتي ہيں، جيسا كہ چھوٹے بچے كے عمل سے ظاہر ہوتا ہے، پىدا ہوتے ہي اسے دودھ اور ماں كي چھاتي كي تلاش ہوتي ہے، ليكن انسان كي سرشت ميں چھپي ہوئي معنوي ضرورتيں بتدريج اس ميں پھوٹنے لگتي ہيں اور رشد و كمال كي ايك ايسي منزل آتي ہے، جب وہ اپني مادي ضرورتوں كو روحاني ضرورتوں پر قربان كر ديتا ہے۔ بہ تعبير ديگر:معنوي لذتيں انسان ميں مادي لذتوں اور مادي كششوں كي نسبت بنيادي بھي ہيں اور زيادہ طاقتور بھي (ارشادات كے باب ہشتم ميں بو علي نے اس مسئلے پر نہايت عمدہ بحث كي ہے)۔ آدمي جس قدر تعليم و تربيت حاصل كرے گا، اس كي معنوي ضرورتيں، معنوي لذتيں يہاں تك كہ اس كي تمام حيات معنوي اسي قدر مادي ضرورتوں، مادي لذتوں اور مادي حيات كو اپنے زير اثر لے آئے گى، معاشرے كا بھي يہي حال ہے كہ ابتدائي معاشروں ميں معنوي ضرورتوں سے زيادہ مادي ضرورتوں كي حكمراني ہوتي ہے، ليكن جس قدر معاشرہ كمال كي منزليں طے كرتا ہے، اسي قدر اس كي معنوي ضرورتيں قابل قدر بنتي جاتي ہيں اور انہيں تقدم حاصل ہوتا جاتا ہے اور وہ انساني مقصد كي صورت اختيار كر ليتي ہيں اور مادي ضرورتوں كو ثانوي حيثيت دے كر انہيں ايك وسيلے كے مقام تك نيچے لے آتي ہيں ۔(۱۷)

۳۔ فكر پر كام كے تقدم كا اصول

انسان ايك وجود ہے، جو فكر كرتا ہے، پہچانتا ہے اور كام كرتا ہے، تو پھر كام كو تقدم حاصل ہے يا فكر كو؟ انسان كا شرف اس كے كام ميں ہے يا فكر ميں؟ انسان كا جوہر اس كا كام ہے يا فكر؟ انسان كام كا نتيجہ ہے يا فكر كا؟

ماديت تاريخ، فكر پر كام كے تقدم اور اس كي اصالت كي قائل ہے۔ وہ كام كو اصل اور فكر كو فرع اور شاخ شمار كرتي ہے۔ منطق اور قديم فلسفہ، فكر كو كليد جانتا ہے۔ اس منطق ميں فكر، تصور اور تصديق ميں تقسيم ہوتي تھي۔ پھر يہ دونوں بديہي اور نظري ميں منقسم ہوتي تھيں اور پھر بديہي افكار نظري افكار كي كليد سمجھے جاتے تھے، اس منطق اور فلسفے ميں جوہر انسان ميں محض فكر كو سمجھا جاتا تھا، انسان كا كمال اور اس كا شرف اس كے علم ميں بتايا جاتا تھا۔ ايك كامل انسان ايك عالم انسان كے مساوي تھا۔ (فلسفے كي تعريف ميں ہدف و غايت كے پہلو سے كہا جاتا ہے: ”صيرورة الانسان عالما عقليا و مضاهيا للعالم العيني “ يعني ”فلسفي اس سے عبارت ہے كہ انسان عالم فكر بن جائے عالم عيني كي طرح “)

ليكن تاريخ ماديت اس بنياد پر استوار ہے كہ كام، فكر كي كليد اور فكر كا معيار ہے، انسان كا جوہر اس كا پىداواري كام ہے۔ كام انسان كي شناخت كا سبب بھي ہے اور اسے بنانے والا بھي۔ ماركس كہتا ہے:

”پوري تاريخ عالم سوائے اس كے كچھ نہيں كہ انسان كي خلقت انساني كام كے ذريعے سے ہے ۔“(۱۸)

اينجلز كہتا ہے:

”خود انسان بھي كام كي پىداوار ہے ۔“(۱۹)

كيونكہ وہ ابتداء ہي سے بجائے اس كے كہ طبيعي ناہمواريوں كو دور كرنے كے لئے فكر سے كام ليتا، اس نے اپنے پر مشقت كام كے ذريعے اپنے بيروني ماحول پر غلبہ پاليا اور اسي انقلابى عمل كے ذريعے و رجارحين كا مقابلہ كيا ۔

اپني مرضي كے معاشرے كو آگے بڑھايا اور اس كي تعمير كي ۔ ”ماركس اور ماركسزم“ كا مولف لكھتا ہے:

”ايسي صورت ميں جب فلسفہ ہستي ميں يہ معمول تھا كہ پہلے فكر و اصول پىش ہوں اور پھر ان كي روشني ميں عملي نتائج برآمد ہوں پر اكسز (فلسفہ عمل كے موجد) نے عمل كو فكر كي اساس قرار ديا (فلسفہ ہستي وہ فلسفہ ہے۔ جو دنيا كو ”ہونے“ كي اساس پر تفسير كرتا ہے، اس كے مقابل پر ”ہو چكنے“ كا فلسفہ ہے۔ ماركسزم اسي سے تعلق ركھتا ہے)۔“

پروكسز طاقت كو عقيدے كي جگہ سمجھتا ہے اور ہيگل سے ہم آواز ہو كر اس عقيدے كو پىش كرتا ہے كہ ”انسان كي حقيقي ہستي پہلے مرحلے پر اس كا عمل ہے“ اور اپنے اس عقيدے ميں جرمنى كے ايك نہايت صاف دل فلسفي كے ساتھ بھي شامل ہوجاتا ہے اور اس كے مشہور جملے كو الٹ كر ديتا ہے كہ ”سب سے پہلے فعل تھا“ يعني روح تھي اور كلام سے يہي ظاہر ہوتا ہے، اس فلسفے نے اسے يوں بنا ديا ہے:پہلے عمل تھا(۲۰) كہ يہ ماركسزم كا ايك اصول ماہيت ہے، اس ميں ماركسزم كے اصول كو ”پراكسز“ كے نام سے شہرت حاصل ہے اور ماركس نے اسے پہلے استاد ماديت ”فوئر باخ“ اور اپنے دوسرے پىشوا ہيگل سے ليا ہے، اس اصول كے مقابل قرار پانے والا اصول فلسفہ ريلزم ہے، جو كام اور فكر كي ايك دوسرے پر تاثير اور فكر كے كام پر تقدم كا قائل ہے۔ اس فلسفے كے مطابق انسان كا جوہر اس كي فكر ہے (نفس كا اپني ذات سے متعلق جوہري حضوري علم) انسان كام كے ذريعے يعني بيروني دنيا سے ارتباط كے ذريعے اپني معلومات كے لئے مواد فراہم كرتا ہے۔ جب تك ذہن اس پہلے مواد كي مدد سے غنى ہوجائے معرفت سے متعلق باتوں پر ”تعميم“، ”انتزاع“ اور استدلال ( Generalization,Abstraction & Argumentation ) كا عمل انجام ديتا ہے اور صحيح معرفت و شناخت كي راہ فراہم كرتا ہے۔ شناخت صرف ذہن ميں عيني مادے كا سادہ انعكاس نہيں بلكہ ذہن ميں اس عيني مادے كا انعكاس كے بعد روح كے غير مادي جوہر سے ابھرنے والے ذہني اعمال كے لئے معرفت كا ايك وسيلہ پىدا ہوتا ہے۔ پس كام فكر سے اور اسي حال ميں فكر كام سے جنم ليتي ہے۔ كام معيار فكر اور اسي طرح فكر معيار كار ہے اور يہ دور (”دور“ ايك فلسفي اصطلاح ہے۔ اس كي سادہ سي مثال يہ ہو سكتي ہے كہ كوئي كہے كہ انڈے نے مرغي كو اور مرغي نے انڈے كو جنم ديا ہے، تو ہم كہيں گے كہ اس طرح تو ”دور“ لازم آتا ہے، مترجم) دور محال نہيں انسان كي بزرگي اس كے علم، اس كے ايمان، اس كي عزت نفس اور كرامت نفس سے ہے اور كام اس اعتبار سے باوقار ہے كہ اس كے ذريعے يہ بزرگي اور عزت حاصل ہوتي ہے۔ انسان كام كا خالق بھي ہے اور اس كا بنايا ہوا بھي اور يہ انسان كا ايك خاص امتياز ہے كہ جس ميں اور كوئي اس كا شريك نہيں اور يہ شرف اسے اللہ تعاليٰ كي طرف سے خاص قسم كي خلقت حاصل ہونے كي وجہ سے ہے۔(ہم نے ”مسئلہ شناخت“ كے بارے ميں اپني كتاب ميں اس بارے ميں تفصيل سے گفتگو كي ہے) ليكن كام سے متعلق انسان كي تخليق ايك ايجادي اور ايجادي تخليق ہے، جب كہ كام سے انسان كي تخليق ”اعدادي“ ہے يعني انسان حقيقتاً اپنے كام كو خلق كرتا ہے، ليكن كام واقعاً انسان كو خلق نہيں كرتا، بلكہ كام، تكرار عمل اور تجربہ انسان كي تخليق كے لئے اندروني طور پر راہ ہموار كرتا ہے اور جہاں دو اشياء كا باہمي رابطہ ايسا ہو، جہاں ايك طرف ”ايجابي“ اور ”ايجادي“ ہو اور دوسري طرف ”اعدادي“ اور ”امكاني“ تو ہميشہ ”ايجابي“ اور ”ايجادي“ كو تقدم حاصل ہوگا۔

پس وہ انسان جس كا جوہر ذات ايك طرح كي آگاہي ہے (نفس كا اپني ذات كے بارے ميں حضوري علم)، كام جس كے ساتھ اس كا رابطہ مدمقابل كا اور فريقي ہے اور انسان كام كو خلق كرنے والا اور اسے وجود ميں لانے والا ہے اور يہ كام انسان كو وجود ميں لانے والا ہے، اس اعتبار سے كہ انسان كام كي ايجابي علت اور كام انسان كي اعدادي اور امكاني علت ہے، پس انسان كام پر تقدم ركھتا ہے، كام انسان پر نہيں ۔

۴۔ انسان كے انفرادي وجود پر اس كے اجتماعى وجود كا تقدم

بعبارت ديگر انسان كي نفسيات پر اس كي عمرانيات كا تقدم۔ انسان تمام جاندار مخلوقات ميں حياتيات كے لحاظ سے زيادہ كامل مخلوق ہے۔ وہ تكامل كي نوع كے لحاظ سے استعداد كا حامل ہے، جسے انساني تكامل كہا جاتا ہے۔ انسان ايك خاص شخصيت كا حامل ہے، جس سے اس كے وجود كے انساني تكامل كہا جاتا ہے۔ انسان ايك خاص شخصيت كا حامل ہے، جس سے اس كے وجود كے انساني پہلو تشكيل پاتے ہيں۔ وہ بعض تجربات اور تعليم كے زير اثر فكرى، فلسفي اور علمي پہلو كا حامل ہوتا ہے اور پھر بعض تجربات كے ذريعے ايك اور جہت تك پہنچتا ہے، جسے ہم اخلاقى جہت كے نام سے ياد كرتے ہيں، يہي وہ بعد يا جہت ہے، جو قدرت ( Value ) پىدا كرتي ہے، اس كے لئے اخلاقى معيار عمل پىش كرتي اور بتاتي ہے كہ كيا كرنا يا ہونا چاہيے اور كيا نہيں؟ مذہب اور آرٹ كي جہت كي بھي يہي صورت ہے۔ انسان اپني فكرى اور فلسفي جہات ميں كچھ فكرى اصول و مباني پىدا كر ليتا ہے اور يہي اس كي فكرى و فلسفي اساس بنتے ہيں، اسي طرح اپني اخلاقى اور اجتماعى معيار سنجي كے ذريعے وہ كچھ مطلق اور نيم مطلق اقدار تك پہنچتا ہے۔ يہ سب انساني ابعاد اور جہات انساني وجود كي تشكيل كرتي ہيں ۔

انساني جہات تمام كي تمام اجتماعى عوامل سے وجود ميں آتي ہيں۔ انسان آغاز پىدائش ميں ان تمام جہات سے عاري ہوتا ہے، فقط ايك خام مادہ ہوتا ہے، جو ہر فكرى اور جذباتي شكل ميں ڈھلنے كے لئے تيار ہوتا ہے، اب يہ اس بات پر منحصر ہے كہ وہ كن عوامل كے زير اثر قرار پاتا ہے، وہ ايك خالي برتن كي طرح ہے، جسے باہر سے بھرا جاتا ہے، وہ ايك آڈيو ٹيپ ہے، جس ميں آوازيں ريكارڈ كي جاتي ہيں اور جو چيز اس ميں بھرتي جاتي ہے، بعينہ وہي سني جاتي ہے۔ مختصر يہ كہ انسان كي شخصيت كي تعمير كرنے والے اور اسے ”شئے“ كي صورت سے نكال كر ”شخص“ بنانے والے وہ خارجي اجتماعى عوامل ہيں جو اسے ”شئے“ سے ”شخص“ بناتے ہيں۔ ”پى- رويان“ اپني تاليف ”تاريخي ميٹريالزم“ ميں ”ماركسزم كے اصولي مسائل“ جو ”بلخانف“ كي تاليف ہے، كے صفحہ(۴۳) سے نقل كرتا ہے:

”سماجي ماحول كي صفات ہر زمانے كي اپني پىداواري قوتوں كي سطح كے مطابق وجود ميں آتي ہيں يعني جب پىداواري قوتوں كي سطح معين ہوجاتي ہے، تو اجتماعى ماحول كي صفات اور اس سے متعلق سائيكالوجى، ماحول اور افكار و كردار كے باہمي روابط كا تعين بھي ہو جاتا ہے ۔“

اسي كتاب ميں مزيد لكھتا ہے:

”جب پىداواري قوتوں كے ذريعے سائيكالوجي (نفسيات) كا تعين ہوجاتا ہے تو نتيجتاً اس سے متعلق وہ آئيڈيالوجىز ( Ideologies ) بھي معين ہوجاتي ہيں، جو اس سائيكالوجي سے قريب ہوں، ليكن اس آئيڈيالوجى كي برقراري كے لئے كہ جو تاريخي مرحلے ميں اجتماعى روابط سے ابھرتي ہے اور نيز اس لئے كہ وہ وقت كے حاكم طبقے كے مفادات كي ہميشہ حفاظت كرے، ضروري ہے كہ اجتماعى اداروں كے ذريعے اس كي تقويت اور تكميل ہو۔

پس در حقيقت طبقاتي معاشروں كے اجتماعى ادارے باوجود اس كے كہ حكمران طبقے كي حفاظت اور آئيڈيالوجى كي توسيع و تقويت كے لئے وجود ميں آتے ہيں ليكن اصولاً ان كا تعلق اجتماعى روابط كے نتائج سے ہوتا ہے۔ آخري تجزيے كے مطابق وہ پىداواري كيفيت اور خصلت سے ابھرتے ہيں مثلاً چرچ اور مسجديں مذہبى عقائد كي نشر و اشاعت كے لئے ہوتي ہيں اور ان كي بنياد تمام مذاہب ميں روز جزاء پر ايمان ہے۔ روز جزاء پر ايمان طبقاتي تقسيم پرمبني مخصوص اجتماعى روابط سے پىدا ہوتا ہے جب كہ طبقاتي تقسيم پىداواري وسائل كے ايك تكاملي مرحلے سے وجود ميں آتي ہے۔گويا آخري بات يہ ہے كہ روز جزاء پر ايمان پىداواري قوتوں كي خصلت كا نتيجہ ہے ۔

اس اصول كا نقطہ مقابل علم بشريات ( Enthropology ) كے ايك اور مكتب كے ايك اصول جس كے مطابق اعليٰ افكار اور عالى جذبوں پر مشتمل انساني شخصيت كي اساس اس كي خلقت ميں عوامل خلقت كے ہاتھوں ركھي گئي ہے۔ يہ درست ہے كہ انسان افلاطون كے نظريے كے برخلاف ايك بني بنائي شخصيت كے ساتھ دنيا ميں نہيں آتا ليكن وہ اپني شخصيت كے اصلي اركان اور اصلي بنيادوں كو معاشرے سے نہيں بلكہ خلقت سے پاتا ہے۔ اگر ہم فلسفي اصطلاح ميں يہ بات كہنا چاہيں تو ہميں اس طرح كہنا ہوگا كہ اخلاق، مذہب، فلسفہ، آرٹ ار عشق جيسي بنيادي انساني جہات كا اصلي سرمايہ انسان كي نوعي صورت، اس كے باب كا مبداء ار اس كا نفس ناطقہ ہے، جس كي تكوين عوامل خلقت كے ذريعے ہوتي ہے۔ معاشرہ انسان كو ذاتي استعداد كے اعتبار سے يا پرورش ديتا ہے يا پھر مسخ كرتا ہے۔ نفس ناطقہ ابتدائي امر ميں بالقوہ ہوتا ہے اور پھر بتدريج عملي صورت اختيار كرتا ہے، لہٰذا انسان فكر و فہم كے ابتدائي اصول نيز مادي اور معنوي ميلانات كے اعتبار سے دوسرے زندہ موجودات كي طرح ہے كہ پہلے تمام بنياديں بالقوہ اس ميں موجود ہوتي ہيں اور پھر بعض جوہري حركات ان خصلتوں كو ابھارتي ہيں۔ اس طرح يہ چيزيں انسان ميں نشوونما پاتي ہيں۔ انسان بيروني عوامل كے زير اثر اپني فطري شخصيت كي پرورش كرتا ہے اور اسے كمال تك پہنچاتا ہے يا پھر دوسري صورت ميں اسے مسخ اور منحرف كرتا ہے۔ يہ وہي اصول ہے جسے اسلامي علوم ميں ”فطرت“ كے نام سے ياد كيا جاتا ہے، اصول فطرت وہ ہے جسے اسلامي علوم ميں ام الاصول كے عنوان سے ياد كيا جاتا ہے ۔

اصول فطرت كے اعتبار سے انسان كي نفسيات اس كي عمرانيات پر مقدم ہوتي ہے۔ انساني كي عمرانيات اس كي نفسيات سے حصول فيض كرتي ہے۔ اسي اصول فطرت كے اعتبار سے انسان جب پىدا ہوتا ہے باوجود اس كے كہ وہ بالفعل نہ كوئي ادراك ركھتا ہے اور نہ كوئي تصور، نہ تصديق اور نہ اس ميں انساني ميلانات ہوتے ہيں ليكن پھر بھي وہ حيواني پہلوؤں كے ساتھ وجودي پہلوؤں كو بھي اپنے ساتھ لاتا ہے، يہي وہ پہلو ہيں جو انتزاعي تصورات، منطقي تصديقات (منطقي اصطلاح ميں ”معقولات ثانيہ“) كے ايك سلسلے كو جو انساني فكر كي اساس ہے اور اس كے بغير ہر طرح كي منطقي سوچ محال ہے، انسان ميں جنم ليتے ہيں اور اس ميں علوي ميلانات بھي انہي پہلوؤں سے پىدا ہوتے ہيں، يہي وہ پہلو ہيں، جو انساني شخصيت كي حقيقي اساس سمجھے جاتے ہيں۔ انسان كي نفسيات پر اس كي عمرانيات كے تقدم سے متعلق نظريے كي مطابق انسان محض ايك اثر پذير ہستي ہے اور جدوجہد كرنے والي اور تخليق كار نہيں۔ وہ ايك خام مال ہے، جو بھي شكل اسے دي جائے گي اس كي ذات كے اعتبار سے اس كے لئے يكساں ہوگي۔ وہ ايك خالي ٹيپ كي طرح ہے، جو آواز بھي اس ميں بھري جائے گى، ٹيپ كي طرح ذات كے اعتبار سے كسي بھي اور آواز كي طرح ہوگى، جو بھي اس ميں بھري جائے۔ اس خام كے اندر كسي معين شكل كي سمت حركت نہيں كہ اگر وہ ”شكل“ اسے دي جائے تو گويا وہ خود اسي كي اپني شكل ہوگي اور اگر اسے كسي دوسري شكل سے ہمكنار كيا جائے تو گويا ايسا ہوگا، جيسے اس كي صورت كو مسخ كر ديا گيا ہو، اس ٹيپ كے اندر ايك معين آواز مطلوب نہيں ہے كہ اگر دوسري آواز اس ميں بھر دي جائے تو وہ اس كي ذات اور اس كي حقيقت سے ہٹ كر ہوگي۔ اس مادے كي نسبت تمام شكلوں سے، اس ٹيپ كي نسبت تمام آوازوں سے اور اس ظرف كي نسبت تمام چيزوں سے يكساں ہے ۔

ليكن اصول فطرت اور انسان كي نفسيات پر اس كي عمرانيات كے تقدم كي بنياد پر انسان اپنے آغاز حيات ميں ہر چند ہر ادراك بالفعل اور ہر ميلان بالفعل سے عاري ہوتا ہے، ليكن وہ اپنے اندر سے ڈائنا ميكي ( Dynamique ) صورت ميں بعض ابتدائي قضاوتوں جنہيں بديہيات اوليہ بھي كہا جاتا ہے، كي طرف نيز ان بلند مرتبہ اقدار كي سمت جو اس كي انسانيت كي معيار ہے، گامزن ہے، سادہ تصورات جو فكر كرنے كے لئے ابتدائي مواد كا كام كرتے ہيں اور جنہيں فلسفي اصطلاح ميں ”معقولات اوليہ“ كہتے ہيں، باہر سے ذہن ميں اترنے كے بعد وہ اصول نظري ياعملي تصديقات كي صورت ميں پھوٹتے ہيں اور يہ ميلانات اپنا اظہار كرتے ہيں ۔

پہلے نظريے كے مطابق يہ جو انسان ان موجودہ شرائط ميں ”مثلاً ۲*۲=۴ كے اصول كو صحيح تسليم كرتا ہے اور اسے ايك ايسا حكم مطلق مانتا ہے، جو تمام زمانوں اور مكانوں ميں يكساں طور پر حكم فرما ہے، درحقيقت اس كے اپنے ماحول كي خاص شرائط اور حالت كي پىداوار ہے، يعني اس خاصا ماحول اور خاص شرائط ميں بني نوع انسان كا رد عمل ہے اور درحقيقت يہ وہ آواز ہے جو اس ماحول ميں اس طرح ٹيپ ہوئي ہے، ممكن ہے دوسرے ماحول اور دوسري شرائط ميں اس كي صورت مختلف ہو اور وہ مثلاً ۲*۲=۲۶ ہو۔

ليكن دوسرے نظريے كے مطابق ماحول جو كچھ انسان كو ديتا ہے، وہ ۲، ۴، ۸،۱۰وغيرہ كا تصور ہے، ليكن يہ حكم كے ۲*۲=۴ يا ۵*۵=۲۵ انساني روح كي عمارت كا لازمہ ہے اور محال ہے، اس سے كوئي دوسري شكل رونما ہو اور يہ اسي طرح ہے جس طرح انسان كا طلب كمال كرنا اس كي خلقت روح كا لازمہ ہے۔(۲۱)

۵۔ معاشرے كے معنوي پہلوؤں پر مادي پہلوؤں كا تقدم

معاشرہ، اداروں، تنظيموں اور كئي شعبوں كا مجموعہ ہے۔ اقتصادي شعبہ، ثقافتي شعبہ، انتظامي شعبہ، سياسى شعبہ، مذہبى شعبہ، عدالتي شعبہ وغيرہ۔ اس اعتبار سے معاشرہ ايك مكمل عمارت كي طرح ہے۔ جس ميں ايك گھرانہ زندگي بسر كرتا ہے، اس ميں ڈرائنگ روم، ڈائنگ روم، بيڈروم، كچن، غسل خانہ وغيرہ سبھي كچھ ہوتا ہے ۔

معاشرتي اداروں ميں ايك ادارہ ايسا ہے، جس كي حيثيت بنياد كي سي ہے، جس پر تمام عمارت اپني پوري مضبوطي كے ساتھ قائم ہے، اگر وہ متزلزل ہو جائے تو پوري عمارت منہدم ہوجائے اور وہ معاشرے كا اقتصادي ڈھانچہ ہے ، يعني وہ چيزيں جن كا تعلق معاشرے كي بنيادي پىداوار سے ہے۔ جيسے پىداواري آلات، پىداواري ذرائع اور پىداواري روابط و تعلقات ۔

پيداواري آلات جو معاشرے كي ساكھ كا سب سے اہم حصہ ہيں۔ اپني ذات ميں تغير و ارتقاء پذير ہيں۔ پىداواري آلات كي ترقي و تكامل كے ساتھ ساتھ اسي اعتبار سے يہ رابطہ و تعلقات بھي بدلتے رہتے ہيں۔ پىداواري روابط يعني مالكيت سے متعلق اصول و قوانين كي كيفيت، درحقيقت يہ وہ قوانين ہيں، جو معاشرے كے نتيجہ عمل كے ساتھ انسان كے قرارداري روابط كو قائم كرتے ہيں۔ پىداواري روابط كي لازمي اور حتمي تبديلي كے بعد انسان كے تمام قانونى، فكرى، اخلاقى، مذہبى، فلسفي اور علمي اصول بھي تبديل ہو جاتے ہيں۔ مختصر يہ كہ ”بنياد معيشت“ ہے ۔

كتاب ”ماركس اور ماركسزم“ ميں كارل ماركس كے رسالے ”سياسي معيشت پر تنقيد“ سے منقول ہے:

” انسان اپني زندگي پىداوار ميں ايسے ضروري اور معين تعلقات كو اپناتا ہے، جو اس كے ارادے سے الگ ہوتے ہيں۔ يہ پىداواري روابط مادي قوتوں كي ترقي اور توسيع كے ايك معين درجے سے مطابقت ركھتے ہيں۔ مجموعي طور پر يہ روابط معاشرے كا اقتصادي ڈھانچہ بنتے ہيں، يعني حقيقي بنياد جس پر معاشرے كي قانوني اور سياسى عمارت معاشرتي شعور كي معين شكلوں كے مطابق بنتي ہے۔ مادي زندگي ميں سماجى، سياسى اور روشن فكرانہ زندگي كي رفتار پىداواري روش سے معين ہوتي ہے۔ انسان كا شعور اس كے وجود كو معين نہيں كرتا، بلكہ اس كے برعكس اس كا معاشرتي وجود اس كے شعور كو معين كرتا ہے ۔“(۲۲)

اسي كتاب ميں اننكوف كے نام ماركس كے خط سے نقل كيا گيا ہے:

”اگر آپ انسانوں كي پىداواري قوتوں كي وسعت كي كيفيت كو اپنے سامنے ركھيں تو ان كي تجارت اور كھيپ كي كيفيت از خود آپ كے سامنے آجائے گي۔ آپ تجارتي پىداواري اور مصرف پر توجہ كريں تو اس ميں طبقاتي و اصنافي تقسيم اور خانداني نظام اور اجتماعى تركيب مختصراً يہ كہ پورا مدني معاشرہ آپ كو دكھائي دے گا ۔“(۲۳)

”پيٹر“ ماركس كا نظريہ كي ان الفاظ ميں وضاحت كرتا ہے:

”اور اس طرح ماركس معاشرے كو ايك ايسي عمارت سے تعبير كرتا ہے، جس كي بنياد كو معاشي قوتيں اور خود اس عمارت كو افكار، آداب و رسوم اور نيز عدالتى، سياسى، مذہبى وغيرہ ادارے تشكيل ديتے ہيں، جس طرح كسي عمارت كا دارومدار اس كي بنياد پر ہوتا ہے، اسي طرح معاشي حالات يا پىداواري روابط بھي فني كيفيت سے وابستہ ہيں اور افكار، رسوم اور سياسى نظام كي صورتيں بھي اس معاشي حالات كے تابع ہيں۔“(۲۴)

اسي كتاب ميں لينن سے منقول ہے:

”پيداواري روش عالم طبيعت اور انساني زندگي كي پىداوار كے فوري نتائج نيز اجتماعى حالات اور ان سے پىدا شدہ فكرى حالات كے مقابل انساني طرز عمل كي آئينہ دار ہوتي ہے ۔“

”سياسي معيشت پر تنقيد“ كے پىش لفظ ميں وہ لكھتا ہے:

”ميري تحقيقات ميں مجھے يہ فكر دي كہ عدالتي تعلقات اور حكومت كي مختلف صورتيں نہ تو از خود ظہور ميں آسكتي ہيں اور نہ گويا انساني سوچ كا عمومي تحول اسے وجود ميں لا سكتا ہے، بلكہ يہ روابط اور يہ مختلف صورتيں موجود مادي شرائط سے ابھرتي ہيں ۔معاشرے كي ”اناٹومي“ كو سياسى معيشت ميں تلاش كرنا چاہيے ۔“

”ماركس“، ”فقر فلسفہ“ ميں لكھتا ہے:

”معاشري روابط مكمل طور پر پىداوار قوتوں سے تعلق ركھتے ہيں۔ انسان نئي پىداواري قوتوں كو حاصل كر كے اپني پىداوار كي كيفيت كو بدل سكتا ہے۔ پىداواري كيفيت اور طرز حصول معاش ميں تبديلي لا كر مكمل طور پر اپنے اجتماعى روابط كو بدل ديتا ہے۔ ہاتھ كي چكي معاشرے كي طوائف الملوكي اور بجلي يا بھاپ سے چلنے والي چكي سرمايہ دارانہ صنعتي معاشرے كي نشان دہي كرتي ہے ۔“

تمام معاشرتي شعبوں پر مادي شعبے كي تقدم سے متعلق نظريہ فكر پر كام كے تقدم كے نظريے جيسا ہي ہے۔ فكر پر كام كے تقدم كا نظريہ انفرادي سطح پر بيان كيا جاتا ہے اور مادي شعبے كے ديگر اجتماعى شعبوں پر تقدم كا نظريہ درحقيقت فكر پر كام كے تقدم كا نظريہ ہي ہے، ليكن اجتماعى سطح پر انساني نفسيات كے علم كو اس كے اس كے علم عمرانيات پر مقدوم جانے تو اس كے برخلاف ہوگا۔ مادي شعبے كا معاشرے كے ديگر شعبوں پر تقدم انفرادي كام كے انفرادي فكر پر تقدم كا نتيجہ ہے۔

معاشرے كا مادي شعبہ جو معاشي ساخت اور معاشي بنياد بھي كہلاتا ہے، دو حصوں ميں تقسيم ہوتا ہے، ايك پىداواري آلات، جو عالم طبيعت كے ساتھ انسان كے رابطے سے وجود ميں آتے ہيں اور دوسرے دولت كي تقسيم كے سلسلے ميں معاشرے كے افراد كا ايك دوسرے كے ساتھ معاشي رابطہ جسے گاہے پىداواري تعلقات سے بھي تعبير كيا جا سكتا ہے۔ پىداواري آلات اور پىداواري تعلقات كے مجموعے كو عام طور پر ”كيفيت پىداوار“ يا ”طرز پىداوار“ كے نام سے ياد كيا جاتا ہے۔ (پي نكسن كي كتاب ”مباني علم اقتصاد“ ديكھئے جسے ناصر زرافشاں نے ترجمہ كيا ہے مرج۔ نيز رويان كي كتاب ميٹريالزم تاريخ ميں پىداوار كا موضوع ديكھئے) نيز يہ بات بھي جاننا ضروري ہے كہ يہ اصطلاحات تاريخي ماديت كے رہنمائوں كي زبان ميں ابہام ميں خالي نہيں اور وہ صاف اور واضح زبان ميں اس كي وضاحت نہيں كر سكتے۔ (ديكھئے ”تجديد نظرطلبي از ماركس تا مائو “) جہاں اس بات كا تذكرہ ہوتا ہے كہ معاشيات اساس ہے اور معاشرے كا مادي پہلو باقي تمام پہلوؤں پر مقدوم ہے ، اس سے مراد تمام پىداواري نظام ہے۔ اس ميں آلات پىداوار اور پىداواري روابط دونوں شامل ہيں۔ وہ نكتہ جس پر توجہ ضروري ہے اور جو تاريخي ماديت كے رہنمائوں كي گفتگو ميں مختلف مقامات پر پوري طرح ظاہر ہوتا ہے۔ يہ ہے كہ خود بنياد دو طبقوں پر مشتمل ہے، جن ميں ايك دوسرے كي بنياد ہے اور دوسرا اس پر قائم ہے۔ اصل بنياد دراصل پىداواري آلات يعني مجسم كام ہے، يہ مجسم كام دولت كي تقسيم كے اعتبار سے خاص قسم كے معاشي روابط كا متقاضي ہے۔ يہ روابط جو پىداواري آلات كي ترقي كے درجے كے آئينہ دار ہوتے ہيں، اپنے آغاز پىدائش ميں صرف يہي نہيں كہ پىداواري آلات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہيں بلكہ ان كا محرك اور مشوق بھي ہوتے ہيں، يعني يہ ان آلات سے حصول منفعت كا بہترين ذريعہ بھي ہيں۔ يہ پىداواري آلات كے جسم پر بالكل فٹ آنے والا لباس ہے، ليكن پىداواري آلات خود اپني ذات ميں ترقي پذير ہيں۔ پىداواري آلات كي ترقي پىداواري نظام كے دونوں يونٹوں كے درميان ہم آہنگي كو توڑ ديتي ہيں، يعني وہي قوانين جو سابقہ پىداواري آلات كي مناسبت سے وجود پذير ہوئے تھے، ترقي يافتہ پىداواري آلات كے بدن پر تنگ ہو جاتے ہيں، اس كے لئے ركاوٹ بن جاتے ہيں اور دو يونٹوں كے درميان تضاد كا سامان فراہم كرتے ہيں۔ آخركار مجبور ہو كر نئے پىداواري آلات سے مناسبت ركھنے والے جديد پىداواري روابط قائم كرنے پڑتے ہيں۔ اس طرح معاشرے كي اساس بالكل دگرگوں ہو جاتي ہے۔ اسي تبديلي كے نتيجے ميں تمام مذہبى، اخلاقى، فلسفي اور قانوني عمارت كو بھي جو اس بنياد پر قائم تھى، منہدم ہونا پڑتا ہے ۔

اجتماعي كام بالفاظ ديگر مجسم كام جسے پىداواري آلات كہتے ہيں، كي ترجيح كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے نيز اس امر پر توجہ كرتے ہوئے كہ ماركس ان ماہر عمرانيات ميں سے ہے، جو انسان كے علم عمرانيات كو اس كے علم نفسيات پر مقدم جانتے ہيں اور انسان كو انسان كي حيثيت سے ايك اجتماعى وجود اور خود ماركس كے الفاظ ميں ”جزك“ وجود ہے، كام كا فلسفي كردار ماركسزم كي نظر ميں واضح ہوجاتا ہے، يہ بات فلسفہ ماركسٹ كا جوہر ہے، جس پر كم توجہ دي گئي ہے ۔

ماركس، كام كي انساني وجوديت اور انسان كي كام سے وجوديت كے بارے ميں اسي طرح سوچتا ہے، جس طرح ڈيكارٹ انسان كي عقلاني وجوديت، برگسن، استمراري اور ژان پال سارتر اس كي عصياني وجوديت كے بارے ميں سوچتے ہيں ۔

ڈيكارٹ كہتا ہے: ”ميں فكر كرتا ہوں پس ميں ہوں ۔“

برگسن كہتا ہے: ”مجھ ميں استمرار ہے، پس ميں ہوں ۔“

سارتر كہتا ہے: ”ميں گناہ كرتا ہوں، پس ميں ہوں ۔“

ماركس بھي يہي كچھ كہنا چاہتا ہے، وہ كہتا ہے: ”ميں كام كرتا ہوں، پس ميں ہوں ۔“

ان دانشوروں ميں كوئي نہيں چاہتا كہ وہ سوچ، استمرار يا عصيان وغيرہ جيسي چيزوں سے ماوراء انساني ”ميں“ كي موجوديت كو اثبات كرے بلكہ بعض تو انسان كے لئے ان كے علاوہ كسي وجوديت كے قائل نہيں ہيں بلكہ ہر كوئي ضمناً يہ چاہتا ہے كہ وہ جوہر انسانيت اور انسان كي وجودي حقيقت كي تعريف كرے ۔

مثلاً ڈيكارٹ يہ كہنا چاہتا ہے: ”ميري وجوديت، فكر كي وجوديت كے مساوي ہے اگر فكر نہيں تو ميں بھي نہيں ۔“ برگسن كہنا چاہتا ہے: ”انسان كي موجوديت عين استمرار اور زمانے كي موجوديت ہے ۔“ سارتر كي گفتگو بھي يہي ہے كہ ”جوہر انسانيت اور انسان كي حقيقي وجوديت گناہ اور سرتابي ہے، اگر گناہ كو انسان سے ہٹا ليا جائے تو پھر وہ نہيں ہے ۔“ ماركس بھي اپنے مقام پر كہنا چاہتا ہے: ”انسان كي تمام موجوديت اور اس كي حقيقي ہستي ”كام“ ہے۔ كام انسانيت كا جوہر ہے۔ ميں كام كرتا ہوں، اس لئے ميں ہوں۔ اس مفہوم ميں نہيں كہ كام ميري وجوديت كي دليل ہے بلكہ يہ كام ميري عين وجوديت اور ميري حقيقي ہستي ہے ۔“

ماركس كہتا ہے:

”سوشلسٹ انسان كے نزديك پوري عالمي تاريخ بشرى، كام كے ذريعے انسان كي خلقت كے سوا كچھ نہيں ۔“(۲۵)

يا وہاں جہاں وہ انسان كي آگاہي اور اس كے حقيقي وجود كے درميان فرق پىدا كر كے كہتا ہے:

”انسانوں كي آگاہي ان كے وجود كو معين نہيں كرتي بلكہ اس كے برعكس ان كا ”اجتماعي وجود“ ان كي آگاہي كو معين كرتا ہے۔“(۲۶)

يا پھر يہ بات كہ

”وہ مقدمات جن سے ہم آغاز كرتے ہيں، ايسي بنياديں نہيں جو خود اختياري ہوں اور ارادے پر مبني ہوں بلكہ حقيقي افراد، ان كا عمل اور ان كے مادي وجود كي شرائط اور حالات ہيں ۔“

پھر ماركس ان حقيقي افراد كي اس طرح وضاحت كرتا ہے:

”يہ طرز فكر ہم جيسے لوگوں كے لئے حيران كن ہے، جو انسان كي حقيقي ہستي اس كي ”ميں“ ( Self ) كو جانتے ہيں اور اس ”ميں“ كو غير مادي جو ہر قرار ديتے ہيں اور اسے عالم طبيعت كي جوہري حركات كي پىداوار سمجھتے ہيں، معاشرے كي پىداوار نہيں، ليكن وہ شخص جو ماركس كي طرح مادي سوچ كا حامل ہے اور غير مادي جوہر پر يقين نہيں ركھتا اس كے لئے ضروري ہے كہ وہ انسان كے جوہر اور اس كي حقيقت كي حياتياتي پہلو سے توجيہ كرے اور كہے كہ انسان كا جوہر اس كے بدن كي مادي ساخت ہي ہے۔ جس طرح قديم مادہ پرستوں مثلاً اٹھارويں صدي كے مادہ پرستوں كا عقيدہ تھا ليكن ماركس اس نظريے كو رد كرتا ہے، اس كادعويٰ ہے كہ انسانيت كا جوہر معاشرے ميں تشكيل پاتا ہے، عالم فطرت ميں نہيں، جو چيز فطرت ميں صورت اختيار كرتي ہے وہ انسان بالقوہ ہے، بالفعل نہيں۔ اب ماركس فكر كو جوہر انسانيت قرار دے اور كام اور فعاليت كو فكر كا مظہر و تجلي قرار دے۔مادي فكر ركھنے والا ماركس يہي نہيں كہ فرد ميں مادے كي اصالت كا قائل ہے اور فرد ميں مادے سے ماوراء جوہر كا انكاري ہے، معاشرے اور تاريخ كے باب ميں بھي مادے كي اصالت كا قائل ہے اور ناچار دوسري صورت كو منتخب كرتا ہے ۔

اس مقام پر ہويت تاريخ كے بارے ميں ديگر مادہ پرست مفكرين سے ماركس كے نظريے كا فرق واضح ہوتا ہے۔ ہر مادي نظريہ ركھنے والا مفكر بہرحال اس اعتبار سے كہ انسان اور اس كے وجودي مظاہر كو مادي جانتا ہے، تاريخ كي ماہيت و ہويت كو بھي مادي گردانتا ہے، ليكن ماركس اس سے بڑھ كر بات كرتا ہے ۔ وہ كہنا چاہتا ہے:

ماہيت تاريخ معاشي ہے اور معاشيات ميں چونكہ وہ معاشي پىداواري روابط يعني انسان كي مالكيت اور حاصل كار كو ايك لازمي اور ضروري امر اور پىداوار آلات يعني تجسم يافتہ كام كے مرحلہ پىش رفت كي انعكاسي صورت جانتا ہے لہٰذا درحقيقت يہ كہنا چاہتا ہے كہ ہويت تاريخ آلاتي ہے۔ پس صرف يہ كہہ دينا كہ ہويت تاريخ مادي ہے يا حتيٰ اسے معاشي كہنا ماركس كے نظريے كا مكمل بيان نہيں ہے۔ ہميں اس امر پر توجہ دينا چاہيے كہ تاريخ كي روح اور ہويت ماركس كي نگاہ ميں آلاتي ہے، يہي وجہ ہے كہ ہم نے اپني بعض تحريروں ميں ماركس كے تاريخي ميٹريالزم كو ”آلاتي نظريہ“ كہا ہے اور يہ بات ہم نے تاريخ سے مطالق اپنے ”انساني نظريہ“ كو سامنے ركھ كر كہي ہے، جس كے مطابق تاريخ انساني ماہيت كا ماحاصل ہے ۔

حقيقت يہ ہے كہ ماركس ”فلسفہ كار“ ميں اتنا غرق ہے اور كام كو ايسا اجتماعى نظريہ ديتا ہے كہ اس كے فلسفے كے مطابق درست يوں سوچنا پڑتا ہے كہ انسان وہ نہيں جو كوچہ و بازار ميں چلتے، پھرتے، سوچتے اور فيصلہ كرتے نظر آتے ہيں بلكہ مثلاً حقيقي انسان وہ آلات اور وہ مشينيں ہيں جو كارخانوں كو چلا رہي ہيں۔ وہ انسان جو چلتے، پھرتے، سوچتے اور بات كرتے ہيں انسان كي ”مثال“ ہيں ”خود“ انسان نہيں ۔

پيداواري آلات اور اجتماعى كاموں كے بارے ميں ماركس كا تصور ايك جاندار وجود كا سا ہے۔ جو خود بخود سوچي سمجھي ”مثالوں“ يعني انساني مظاہر كے ارادے اور فيصلے كے بغيرہي ايك جبر كے تحت رشد كرتے رہتے ہيں اور ارتقاء پاتے رہتے ہيں اور ظاہري انسانوں ”مثالوں“ كو جو فكر و ارادہ كي حامل ہيں، كو اپنے جبري اور قہري نفوذ كے تحت ركھتے اور انہيں اپنے پىچھے پىچھے چلائے ركھتے ہيں ۔

ايك اعتبار سے يہ كہا جا سكتا ہے كہ ماركس اجتماعى كار اور انسان كے شعور، ارادے اور آگاہي كے بارے ميں وہي كچھ كہتا ہے جو بعض حكمائے الٰہي انسان كے بدن كي اس كي فعاليت كے بارے ميں كہا كرتے تھے، جو غير شعوري طور پر نفس كے ايك آٹو ميٹك پوشيدہ ارادے كے تحت رو بہ عمل رہتي ہے، جيسے ہاضمے كا عمل يا قلب و جگر وغيرہ كے افعال ۔

ان حكماء كے نقطہ نظر سے ميلانات، خواہشات، چاہتيں، نفرتيں اور وہ جملہ امور جو نفس كے عملي پہلو سے تعلق ركھتے ہيں، يعني جو سفلى، تدبيرى، تعلقي اور بدن سے متعلق ہيں اور جو ذہن كے لئے آگاہ شعور كي سطح پر ہوتے ہيں، بعض طبيعي ضرورتوں سے ابھرتے ہيں اور يہ آگاہ شعور يہ جانے بغير كہ ان امور كي اساس كہاں ہے مجبوراً نفس كي پوشيدہ تدبير كے تحت قرار پاتا ہے۔ يہ اس چيز سے ملتي جلتي ہے، جسے فرائيڈ نے شعور باطن يا شعور ناآگاہ كہا ہے اور جو شعور آگاہ پر مقتدرانہ تسلط ركھتي ہے، ليكن اس فرق كے ساتھ كہ جو كچھ سابقہ حكماء كہتے تھے يا جو كچھ فرائيڈ كہتا تھا اولاً شعور ظاہر كے ايك حصے سے اس كا تعلق تھا، ثانياً ايك مخفي شعور كي حكومت اس پر كارفرما تھى، علاوہ ازيں وہ جو كچھ كہتے تھے انسان كے وجود سے باہر نہيں تھا اور جو كچھ ماركس كہتا ہے وہ وجود انسان سے باہر ہے اگر بنظر غائر ديكھا جائے تو ماركس كا نظريہ فلسفي نقطہ نظر سخت تعجب خيز ہے ۔

ماركس اپني اس دريافت كا ڈارون كي مشہور حياتياتي دريافت كے ساتھ موازنہ كرتا ہے۔ ڈارون نے يہ ثابت كيا كہ كس طرح كوئي امر حيوان كے ارادے اور شعور سے باہر اثبات كا سبب بنتا ہے كہ وقت كے گزرتے ہوئے لمحات ميں اس كا بدن بتدريج اور لاشعوري طور پر تكميل كي منزليں طے كرے۔ ماركس بھي يہي دعويٰ كرتا ہے كہ ايك اندھا امر (جو انسان كي حقيقي ہستي بھي ہے) بتدريج اور ناآگاہانہ طور پر اس بات كا سبب بنتا ہے كہ انسان كے اجتماعى بدن كي تعمير ہو، يعني وہ چيزيں جنہيں ماركس نے عمارت كہا ہے بلكہ خود بنياد كا ايك حصہ يعني اجتماعى معاشي روابط كي تعمير ہو۔

وہ كہتا ہے:

”ڈارون نے طبيعي ”فن شناسي“ كي تاريخ كي طرف دانشوروں كي طرف مبذول كي ہے، يعني ان كي زندگي كے لئے پىداواري وسائل كي حيثيت سے پودوں اور جانوروں كے اعضاء كي تشكيل كي طرف توجہ دلائي ہے، كيا اجتماعى انسان كو وجود ميں لانے والے اعضاء كي تاريخ پىدائش يعني ہر طرح كي اجتماعى تشكيلات كي مادي اساس كے بارے ميں اس طرح كي سوچ مناسب نہيں؟ ۔۔۔ فن شناسي عرياں طبيعت كے مقابل انسان كے طرز عمل كو بناتي ہے۔ پىداوار حاصل كرنے والي اس كي مادي زندگي اور نتيجے كے طور پر اجتماعى تعلقات اور فكرى محصولات جو ان سے پىدا ہوتے ہيں، كے شرچشمے كو آشكار كرتي ہے ۔“(۲۷)

اب تك مجموعي طور پر جو كچھ كہا گيا ہے اس سے يہ بات واضح ہوئي كہ تاريخي ميٹريالزم چند اور نظريوں پر مبني ہيں جن سے بعض علم نفسيات سے، بعض عمرانيات سے، بعض فلسفے سے اور بعض علم بشريت سے متعلق ہيں ۔

”ليكن يہ افراد ايسے نہيں، جو اپنے ہي تصور ميں ظاہر ہو سكيں ۔۔۔ بلكہ ايسے كہ مادي طور پىدا كرتے ہيں اور بناتے ہيں يعني وہ اپنے ارادے سے جدا ہو كر معين مادي اساس، شرائط اور حدود كے مطابق عمل كرتے ہيں ۔“(۲۸)

يا پھر اينجلز كا يہ جملہ كہ

”اقتصادي ماہرين كہتے ہيں كہ كام تمام سرمائے كا سرچشمہ ہے ليكن بغير انتہاء كے اس سے زيادہ نہيں۔ كام پوري انساني زندگي كے پہلي بنيادي شرط ہے۔ اس طرح كہ گويا ايك اعتبار سے يہ كہنا پڑتا ہے كہ خود انسان بھي كام كي تخليق ہے ۔“

يہ سب اقوال ايك ہي نظريے كي ترجماني كرتے ہيں۔ البتہ ماركس اور اينجلز نے اضافي وجود ميں كام كے كردار سے متعلق اس نظريے كو ہيگل سے ليا ہے۔ ہيگل نے پہلي بار يہ كہا تھا:

”انسان كي حقيقي ہستي پہلے درجے ميں اس كا عمل ہے ۔“

پس ماركس كے نقطہ نظر سے انسان كي انساني وجوديت اولاً انفرادي نہيں اجتماعى ہے، ثانياً اجتماعى انسان كي وجوديت اجتماعى كام يعني ايك مجسم كام ہے اور اپنے انفرادي احساس يا احساسات كي طرح ہر انفرادي امر يا پھر فلسفہ، اخلاق، آرٹ اور مذہب وغيرہ كي طرح كا ہر اجتماعى امر انسان كي حقيقي وجوديت كا مظہر و تجلي ہے، اس كي عين حقيقي وجوديت نہيں۔ اس بناء پر ہر انسان كا حقيقي تكامل و ارتقاء عيناً اجتماعى كام كا تكامل ہے، ليكن فكرى، جذباتي اور احساساتي تكامل يا معاشرتي نظام كا تكامل حقيقي تكامل كے مظاہر و تجليات ہيں، عين تكامل نہيں۔ معاشرے كا مادي تكامل اس كے روحاني تكامل كا معيار ہے۔گويا يہ اسي طرح ہے، جس طرح عمل معيار فكر ہے۔ فكر كي صحت و سقم كو عمل سے پركھنا چاہيے، فكرى اور منطقي معياروں سے نہيں۔ روحاني تكامل كا معيار بھي مادي تكامل ہے۔ پس اگر يہ بات پوچھي جائے كہ فلسفہ، اخلاق، مذہب اور آرٹ ميں كون سے مكتب زيادہ ترقي يافتہ ہيں، تو فكرى اور منطقي معيار اس كے جواب سے قاصر ہوں گے، صرف اور صرف معيار يہ ہوگا كہ يہ بات پركھي جائے كہ وہ مكتب اجتماعى كام يعني پىداواري آلات كے تكامل كے كس درجے اور كن شرائط كا مولود و مظہر ہے۔

نتائج

تاريخي ماديت كا نظريہ اپني جگہ چند ايسے نتائج كا حامل ہے، جو حكمت عملي اور اجتماعى عملي مقصد ميں موثر ہيں۔ تاريخي ميٹريالزم محض ايك ايسا فكرى اور نظري مسئلہ نہيں، جو معاشرتي رفتار و انتخاب ميں كوئي تاثير پىدا نہ كرے۔ آئيے اب ہم ديكھيں كہ ہم اس سے كيا نتائج حاصل كر سكتے ہيں:

۱۔ پہلا نتيجہ، معاشرے اور تاريخ كي ”شناخت“ سے متعلق ہے، ماديت تاريخ كے نزديك اجتماعى اور تاريخي واقعات كي شناخت اور ان كے تجزيئے كي بہترين اور مطمئن ترين راہ يہ ہے كہ ہم ان كي معاشي بنيادوں كي جانچ پڑتال كريں۔ تاريخي واقعات كي معاشي بنياد كے بغير ان كي پوري اور مكمل شناخت موثر نہيں، كيونكہ يہ بات فرض كر لي گئي ہے كہ تمام معاشرتي تبديلياں ماہيت كے لحاظ سے معاشي ہيں ہرچند كہ ظاہراً ان كي ماہيت ثقافتى، مذہبى يا اخلاقى ہو ۔

يعني يہ تمام چيزيں معلول اور نتيجہ ہيں، معاشرے كي اقتصادي اور مادي وضيعت كا۔پرانے حكماء بھي اس بات كے مدعي تھے كہ اشياء كي معرفت ان كے ايجاد كے اسباب و علل كي وسيلے سے، اعليٰ ترين اور مكمل ترين طرز معرفت ہے۔ پس يہ فرض كرلينے كے بعد كہ تمام اجتماعى تبديليوں كي بنياد معاشرے كي معاشي ساخت پر ہے۔ تاريخ كي معرفت كا بہترين راستہ اجتماعى و معاشي تجزيہ ہے۔ بعبارت ديگر جس طرح حقيقت اور ثبوت كے مرحلے ميں علت كو معلول پر تقدم اور ترجيح حاصل ہے، معرفت اور اثبات كے مرحلے ميں اسے تقدم اور ترجيح حاصل ہے۔ پس اقتصادي بنياد كي ترجيح عيني اور وجودي ترجيح نہيں بلكہ ذہنى، معرفتي اور اثباتي بھي ہے ۔

”تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو“ ميں اس مفہوم كي وضاحت ان الفاظ ميں كي گئي ہے:

”سماجي انقلابات كے تجزيئے ميں سماجي كشمكشوں كو ان كي سياسى، قانوني اور مكتبي شكل كو سامنے ركھ كر نہيں ديكھنا چاہيے بلكہ اس كے بر عكس پىداواري طاقتوں اور پىداواري تعلقات كے درميان تناقص كے رشتے سے ان كي وضاحت كرني چاہيے ۔“

ماركس نے حقيقتاً ہميں اس طرح كے فيصلوں سے باز ركھا ہے، كيونكہ اولاً يہ حقيقت بيني پر مبني نہيں ہوتے اور ان ميں معلول يعني سياسى، قانوني اور مكتبي شكلوں كو علت كي جگہ دے دي جاتي ہے، جو دراصل اقتصادي تناقضات اور تغيرات ہيں۔

ثانياً سطحي ہوتے ہيں كيونكہ وہ معاشرے كي گہرائي ميں اترنے اور حقيقي اسباب كو تلاش كرنے كي بجائے اس كي سطح پر رہ جاتے ہيں اور اسي چيز پر اكتفا كر ليتے ہيں جو فوري ان كے سامنے آتي ہے۔

ثالثاً وہم كي بنياد پر ہوتے ہيں كيونكہ عمارات جو تمام تر مكتبي ہوتي ہيں، سوائے توہم يعني نادرست تصوير كے كوئي حقيقت نہيں ركھتيں، ليكن موضوع كے حقيقي تجزئيے كي بجائے اس كي غلط تصوير سے وابستہ ہو جانا يقينا ہميں گمراہي كي طرف لے جائے گا۔ اس كے بعد كتاب (ماركس و اينجلز كے منتخب آثار) سے اس طرح نقل كيا گيا ہے:

”جس طرح كسي فرد كے بارے ميں اپنے بارے ميں اس كي اپني سوچ كے اعتبار سے فيصلہ نہيں كرتے، اسي طرح انسان كي اپنے بارے ميں آگاہي كے دور پريشاني كے بارے ميں بھي حكم نہيں لگانا چاہيے ۔“(۲۹)

ماركس كوشش كرتا ہے كہ آگہى، فكر اور جدت پسندي كے كردار كو عام طور پر وجود تكامل و ارتقاء سمجھاتا ہے، ختم كردے مثلاً ”سن سيمن“ جس كے بہت سے سے افكار سے ماركس نے استفادہ كيا ہے۔ تكامل ميں جبلتي جدت پسندي كے كردار كے بارے ميں لكھتا ہے:

”معاشرے دو طرح كي اخلاقى قوتوں كے طابع ہيں اور يہ دونوں قوتيں يكساں شدت اثر كي حامل ہيں اور باري باري اپنا اثر دكھاتي ہيں۔ ان ميں ايك قوت عادت ہے اور دوسري جدت پسندي۔ كچھ عرصے كے بعد عادتيں حتمي طور پر بري ہو جاتي ہيں اور يہي وہ وقت ہے، جب نئي چيزوں كي ضرورت محسوس ہوتي ہيں يہ ضرورت حقيقي انقلابى كيفيت كي تشكيل كرتي ہے ۔“(۳۰)

يا پھر ماركس كا دوسرا استاد پروڈن معاشروں كے تكامل ميں عقائد و افكار كے كردار پر اظہار خيال كرتے ہوئے كہتا ہے:

”قوموں كي سياسى صورتيں ان كے عقائد كا مظہر رہي ہيں۔ ان صورتوں كا تحرك، ان كا تغير اور ان كا زوال وہ عظيم الشان تجربات ہيں، جو ان افكار كي قدر و قيمت كو ہمارے لئے واضح كرتے ہيں اور بتدريج ان سے متعلق ابدي اور ناقابل تغير حقيقت رونما ہوتي ہے، ليكن ہم يہ ديكھتے ہيں كہ تمام سياسى ادارے لازماً حتمي موت سے بچنے كے لئے معاشرتي شرائط كو ہموار بنانے كے لئے اس كي طرف جھكتے ہيں ۔“(۳۱)

ان سب كے باوجود ماركس يہ دعويٰ كرتا ہے كہ:

”ہر سماجي انقلاب تمام چيزوں سے بڑھ كر ايك معاشي سماجي ضرورت ہے، جو معاشرے كي ماہيت و شكل اور پىدواري قوتوں اور اجتماعى روابط كي متضاد اور غير ہم آہنگ كيفيت كي وجہ سے پىدا ہوتي ہے ۔“(۳۲)

ماركس يہ كہنا چاہتا ہے كہ:

يہ جدت پسندي كي جبلت يا ايمان و عقائد كي ولولہ خيزي نہيں جو سماجي انقلابات كو جنم ديتي ہے بلكہ معاشى، سماجي ضرورت جدت پسندي كے رجحان يا عقائد اور ايمان كي ولولہ انگيزي كو پىدا كرتي ہے ۔“

پس ماديت تاريخ سے اس طرح كا نتيجہ اخذ كركے اگر ہم مثلاً يہ چاہيں كہ ايران و يونان كي لڑائي يا صليبي جنگوں يا اسلامي فتوحات يا مغرب كے صنعتي انقلاب يا پھر ايران كے دستوري انقلاب كا تجزيہ كريں تو يہ غلط ہوگا كہ ہم واقعات كي ظاہري صورتوں كو جو سياسى، مذہبى اور ثقافتي ہوتي ہيں، كا مطالعہ كرنے لگيں، اور ان پر حكم لگانے لگيں اور يا حتيٰ انقلاب لانے والے افراد كے احساس كو معيار قرار ديں، جو اسے سياسى، مذہبى يا ثقافتي تحريك سمجھتے تھے۔ ہميں چاہيے كہ ہم ان تحريكوں كي اس حقيقي ماہيت اور ہويت پر توجہ ديں، جو معاشي اور مادي ہے، تاكہ حقيقت كا اصلي رخ ہمارے سامنے آئے۔ آج بھي ہم ديكھتے ہيں كہ دور حاضر كے ماركسٹ بونے جس تاريخي تحريك كے بارے ميں كچھ كہنا چاہتے ہيں، كچھ نہ جانتے ہوئے بھي ادھر اُدھر سے چند جملے لے كر اس تحريك كے دور كے معاشي پہلو پر بحث فرمانے لگتے ہيں ۔

۲۔ تاريخ پر تسلط ركھنے والا قانون ايك جبرى، حتمي اور انسان اور انسان كے ارادے سے ماوراء قانون ہے۔ ہم پچھلے ابواب ميں اس موضوع پر گفتگو كر چكے ہيں كہ كيا تاريخ پر قوانين كي علت حكم فرما ہے؟ جس كا لازمہ ايك لحاظ سے علت و معلول كا ناگزير ہونا ہے، ہم وضاحت كر چكے ہيں كہ بعض نے اتفاق كے عنوان سے اور بعض نے اس عنوان سے كہ انسان ايك آزاد اور خودمختار مخلوق ہے۔ قانون عليت كي حكمراني كا انكار ہے اور اس كے نتيجے ميں معاشرے اور تاريخ كے لئے اس قانون اور ناقابل تغير ضوابط كي نفي كي ہے، ليكن ہم نے ثابت كيا ہے كہ يہ نظريے بے بنياد ہے اور قانون عليت اور اس كے نتيجے ميں معاشرے اور تاريخ پر علت و معلول كي ضرورت اسي طرح حكم فرما ہے جيسے ديگر امور پر۔ دوسري طرف ہم نے يہ ثابت كيا ہے كہ معاشرے اور تاريخ پر لاگو قوانين، ضروري اور كلي ہوتے ہيں كيوں كہ ان ميں حقيقي وحدت ہوتي ہے تو يہ حقيقي وجود كے حامل ہيں۔ پس گذشتہ بيان كے مطابق معاشرے اور تاريخ پر ”ضروري“ اور ”كلي“ قوانين حكم فرما ہيں۔ ہم اس نوعيت كي ضرورت كو اصطلاحاً فلسفي ضرورت كہتے ہيں۔ يہ ضرورت تاريخي عمل كو قطعي اور ضروري قوانين كے تحت جاري رہنے كا حكم ديتي ہے ۔

ليكن ماركسٹي جبر تاريخ جسے معاشي جبر بھي كہا جاتا ہے۔ فلسفي ضرورت كي ايك خاص تعبير ہے۔ يہ نظريہ دو اور نظريوں سے مل كر بنا ہے۔ جن ميں سے ايك فلسفي ضرورت ہي ہے جس كے مطابق كوئي واقعہ بغير ضرورت (يعني ضروري ہونے) كے وقوع پذير نہيں ہوتا۔ وقوع ميں آنے والا ہر واقعہ اپنے خاص پىدائشي اسباب كي بنياد پر حتمي اورناقابل اجتناب امر ہے اور اگر وہ علل نہ ہوتيں، تو محال اور ممتنع ہوتا۔ دوسرا نظريہ معاشرے كي مادي بنياد كا ديگر بنيادوں پر مقدم ہونا ہے، جس كي ہم وضاحت كر چكے ہيں۔ ان دونظريوں كا لازمہ تاريخ كا مادي جبر ہے يعني ناگزير ہے كہ عمارت بنياد كے مطابق ہو، بنياد بدل جائے تو عمارت كا بدلنا قطعي و حتمي ہے، اگر بنياد تبديل نہ ہو تو ناممكن ہے كہ عمارت بدل جائے، ماركسزم كے دعوے كے مطابق وہ چيز جو ماركسزي سوشلزم كو سائنسي بنا ديتي ہے اور عالم طبيعت كے ديگر قوانين كي طرح كا ايك طبيعي قانون بنا ديتي ہے، وہ يہي اصول ہے كيوں كہ اس اصول كے مطابق پىداواري آلات جو معاشرے كي معاشي ساخت كا سب سے اہم حصہ ہيں، طبيعي قوانين كے مطابق اپني ترقي اور پىشرفت كو جاري ركھتے ہيں۔ بالكل اسي طرح جس طرح مختلف پودوں اور حيوانات نے كئي سو كروڑ ملين سال كے تاريخي تسلسل كے دوران اپني تدريجي ترقي كو جاري ركھا اور خاص مراحل ميں نئي نوع ميں داخل ہوئے اور جس طرح پودوں اور جانوروں ميں رشد و كمال اور نوعي تبديلي كا عمل كسي كے ارادے، خواہش اور آرزو سے آزاد ہے، اسي طرح پىداواري آلات كے رشد و تكامل كي بھي يہي صورت ہے ۔

پيداواري آلات اپني تدريجي ترقي كے ساتھ كچھ مراحل طے كرتے ہيں اور جس مرحلے پر بھي پہنچتے ہيں جبراً اپنے ساتھ معاشرے كے تمام امور كو بھي بدل ديتے ہيں اور كوئي ان كا راستہ نہيں روك سكتا اور قبل اس كے كہ وہ اپني ترقي كے خاص مرحلے تك پہنچيں، سماجي ڈھانچے ميں تبديلي يا انقلاب ممكن نہيں تمام سوشلسٹ بلكہ كلي طور پر ہر وہ انصاف پسند انسان جو ان امكانات كو مدنظر ركھے بغير جو پىداواري آلات كي ترقي سے پىدا ہوتے ہيں، صرف انصاف كے قيام، جو سوشلزم اور معاشرے كو اجتماعى شكل دينے كے جذبے اور آرزو كو لے كر كوششوں ميں مصروف ہے، عبث كام انجام ديتا ہے۔ كارل ماركس ”سرمايہ“ نامي كتاب كے مقدمے ميں لكھتا ہے:

”وہ ملك جس نے صنعت كے اعتبار سے سب سے زيادہ پىش رفت كي ہے، ان ملكوں كے مستقبل كے لئے ايك نمونہ ہے، جو صنعت كے ميدان ميں اس سے پىچھے ہوں(۳۳)

حتيٰ اگر كوئي معاشرہ اس مرحلے تك پہنچ جائے كہ وہ اپني حركت پر حكمراني كرنے والے قانون طبيعت كي راہ بھانپ لے تو جب بھي وہ نہ تو اپني طبيعي پىش رفت سے متعلق مراحل كو پھلانگ سكے گا اور نہ ہي صدور فرامين كے ذريعے انہيں ختم كر سكے گا، ليكن وہ حاملگي كے دور اور پىدائش كي اذيت كو كم تر اور خفيف كر سكتا ہے۔“

ماركس اپني گفتگو كے آخري حصے ميں ايك ايسے نكتے كو پىش كرتا ہے جس كي طرف يا تو توجہ نہيں كي گئي يا بہت كم لوگوں نے اسے سمجھنے كي كوشش كي ہے، وہ دراصل ايك مفروضہ، سوال يا اعتراض كا جواب دينا چاہتا ہے ۔

ممكن ہے كوئي يہ كہے طبيعت كي منظم اور مرحلہ وار پىش رفت كے زير اثر معاشرے كي درجہ بدرجہ پىش رفت اس وقت تك جبري اور تخلف ناپذير ہے جب تك انسان اسے نہ پہچانے اور قانون طبيعي كے راستے كو كشف نہ كرے۔ ليكن جونہي انسان كو اس كا علم ہو گيا، يہ انسان كے قابو ميں آجائے گي اور انسان كو اس پر حكومت حاصل ہوجائے گى، لہٰذا كہتے ہيں: طبيعت جب تك سمجھ ميں نہ آئے انسان پر حاكم ہے اور جس قدر اس كي شناخت ہوجائے اسي قدر انسان كي خدمت گذار بن جاتي ہے۔ مثلاً كوئي وبائي بيماري جب تك مشخص نہ ہو اور يہ معلوم نہ ہو كہ كن چيزوں سے وجود ميں آتي ہے اور كن چيزوں سے اسے ختم كيا جا سكتا ہے، اس وقت تك انسان كي زندگي پر حكم علي الاطلاق ہوتي ہے، ليكن جونہي اس كي شناخت عمل ميں آئي جيسا كہ آج كل پہچاني جاتي ہے، وہيں اس پر قابو پاليا جاتا ہے، ايسي بيماريوں كے نقصانات سے بچا جا سكتا ہے۔ يہي صورت سيلاب اور طوفان وغيرہ كي بھي ہے۔

ماركس يہ كہنا چاہتا ہے كہ معاشرے كي منظم اور مرحلہ وار پىش رفت ڈائنا ميكي تغيرات اورحركات كي طرح ہے، يعني جو اشياء ميں اندروني طور پر خود بخود پىدا ہونے والي حركات ہيں۔ جيسے پودوں اور جانوروں كي منظم نشوونما، يہ ميكانياتي حركات و تغيرات ميں سے نہيں ہيں جو بيروني عوامل كے تحت اشياء ميں پىدا ہوتي ہيں، جيسے عالم طبيعت ميں تمام فني اور صنعتي تغيرات ہيں۔ كيڑے مار دواؤں كے ذريعے كيڑوں كا خاتمہ يا دوا كے ذريعے بيماري كے جراثيم كا خاتمہ اسي طرح كي چيز ہے۔ وہ مقام جہاں طبيعي قانون كي دريافت طبيعت كو كنٹرول كرنے كا سبب بنتي ہے اور انسان كے اختيار ميں آتي ہے۔ ميكانياتي روابط اور قوانين ہوتے ہيں ليكن ڈائناميكل تبديليوں اور اشياء كي اندروني اور ذاتي حركات كے بارے ميں انسان كے علم و آگاہي كا كردار زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انسان اپنے آپ كو ان قوانين سے ہم آہنگ كر كےان سے استفادہ كرے ۔

انسان پودوں كے اگنے، جانوروں كے تكامل اور رحم ميں جين پر حكم فرما قوانين كو دريافت كرنے كے بعد ايسے جبري اور ناقابل انحراف قوانين كو اخذ كر ليتا ہے، جن كے سامنے گردن جھكانے اور جنہيں تسليم كرنے پر وہ مجبور ہے۔ ماركس كہنا چاہتا ہے كہ انسان كي معاشرتي پىش رفت جس كا انحصار پىداواري آلات كي ترقي اور تكامل پر ہے۔ ايك طرح كے ڈائنامك اندرونى، ذاتي اور خود بخود ہونے والي ترقي ہے، جسے علم و آگاہي كے ذريعے نہيں بدلا جا سكتا اور جسے اپني مرضي كي شكل نہيں دي جا سكتي۔ انسان كو جبراً سماجي تكامل كے خاص مراحل سے اسي طرح گذرنا پڑتا ہے جس طرح نطفہ رحم مادر ميں مقرر اور معين مراحل سے گذرتا ہے۔ اس خيال كو ذہن سے نكالنا پڑے گا كہ ہم معاشرے كو وسطي مراحل سے نكال كر ايك دم آخري مرحلے تك لے جا سكيں گے يا يہ كہ اسے تاريخ كے بتائے ہوئے معين راستے سے ہٹا كر دوسري راہوں سے منزل مقصود تك پہنچا سكيں گے۔ ماركسزم سماجي تكاملي رفتار كو ايك نا آگہانہ طبيعي اور جبري رفتار جاننے كے باعث ايسي بات كرتا ہے، جيسي سقراط نے ذہن بشر اور اس كي تخليق فطري كے بارے ميں كي تھي۔ سقراط اپني تعليمات ميں استفہامي روش سے استفادہ كرتا تھا او راس بات كا معتقد تھا كہ اگر سوالات مرحلہ بمرحلہ منظم اور ذہني عمل كي مكمل شناخت كے ساتھ ہو تو ذہن اپني فطري اور قہري حركت كے ذريعے خود ہي اس كا جواب فراہم كرتا ہے اور باہر سے تعليم كي ضرورت پىش نہيں آتي۔ سقراط ايك دايہ كا بيٹا تھا، وہ كہتا تھا:ميں انسان كے ساتھ وہي كچھ كرتا ہوں، جو مير ماں حاملہ عورتوں كے بارے ميں انجام ديتي تھي۔ دايہ بچے كو نہيںجناتي ماں كي طبيعت خود اپنے وقت پر بچے كو جنم ديتي ہے۔ اس كے باوجود دايہ كا وجود ضروري ہے۔ دايہ خيال ركھتي ہے كہ كوئي غير طبيعي واقعہ رونما نہ ہو، جو ماں يا بچے كي تكليف كا باعث ہے ۔

ماركسزم كے اعتبار سے اگرچہ عمرانيات كے قوانين كي دريافت اور فلسفہ و تاريخ دونوں كا معاشرت كي تبديلي پر كوئي اثر نہيں، پھر بھي انہيں اہميت ديني چاہيے۔ سائنٹفك سوشلزم انہي قوانين كي دريافت كا نام ہے۔ كم سے كم جو اثر ان سے رونما ہوتا ہے، وہ يہ ہے كہ يہ تخيلي سوشلزم اور خواہشاتي عدل پرستي سے نجات ديتا ہے، كيونكہ ڈائنامك قوانين اس خصوصيت كے باوجود كہ ان سے تبديلي ناممكن ہے، ايك امتياز كے حامل ہيں اور وہ امتياز پىش گوئي ہے۔ سائنٹفك عمرانيات اور سوشلزم كے پرتو ميں ہر معاشرے كي وضيعت كو پركھا جا سكتا ہے كہ وہ كس مرحلے ميں ہے اور اس كے بارے ميں پىش گوئي كي جا سكتي ہے اور نتيجاً يہ معلوم ہو سكتا ہے كہ سوشلزم كا نطفہ ہر معاشرے كے رحم ميں كس مرحلے ميں ہے اور ہر مرحلہ ميں وہي توقع كي جاني چاہيے، جو اس كا تقاضا ہے اور بے جا توقعات نہيں كرنا چاہيے۔ ايك ايسي سوسائٹي جو ابھي جاگير دارانہ نظام كے مرحلے ميں ہے اس سے يہ توقع نہيں ركھنا چاہئے كہ وہ سوشلزم ميں منتقل ہو جائے، بالكل اسي طرح جس طرح چار مہينے كے جين كي پىدائش كے انتظار ميں نہيں بيٹھا جاتا ۔

ماركسزم كي يہ كوشش ہے كہ وہ معاشروں كي قدرتي مخفي توانائي كے مراحل كو سمجھے اور ان كا تعارف كروائے اور معاشروں كو ايك دور سے دوسرے دور ميں بدلنے كے جبري قوانين دريافت كرے ۔

ماركسزم كے نظريے كے مطابق معاشروں كو چار مراحل سے گذر كر سوشلزم تك پہنچنا پڑتا ہے۔ ابتدائي اشتراكي دور، دور غلامى، دور سرمايہ داري اور دور سوشلزم بعض اوقات چار كے بجائے پانچ، چھ يا سات دور بھي ذكر كئے جاتے ہيں، يعني دور غلامى، دور سرمايہ داري اور دور سوشلزم ميں سے ہر دور مزيد دو ادوار ميں تقسيم ہو سكتا ہے ۔

۳۔ ہر تاريخي دور دوسرے دور سے با اعتبار ماہيت و نوعيت مختلف ہے، جس طرح بيالوجي كے اعتبار سے جانور ايك نوع سے دوسري نوع ميں بدل جاتے ہيں اور ان كي ماہيت تبديل ہوجاتي ہے۔ ادوار تاريخي بھي يہي كيفيت لئے ہوئے ہيں۔ اس رو سے ہر تاريخي دور اپنے سے متعلق مخصوص قوانين كا حامل ہے۔ كسي دور كے لئے اس سے قبل كے دور يا اس كے بعد كے دور كے قوانين كو اس كے مناسب حال نہيں جاننا چاہيے۔ جيسے پانى جب تك پانى ہے، مائعات سے متعلق خاص قوانين كے تابع ہے، ليكن جونہي وہ بھاپ ميں تبديل ہوا، وہ گذشتہ قوانين كے تابع نہيں رہتا بلكہ اب وہ گيسوں سے متعلق مخصوص قوانين كے تابع ہو جاتا ہے۔ معاشرہ بھي مثلاً جب تك فيوڈلزم كے مرحلے ميں ہوتا ہے، خاص قوانين سے اس كي وابستگي ہوتي ہے اور جب اس مرحلے سے گذر كر سرمايہ داري كے مرحلے ميں قدم ركھتا ہے تو پھر جاگير دارانہ نظام كے دور كے قوانين كو اس كے لئے باقي ركھنے كي كوشش كرنا فعل عبث ہے ۔

اس اعتبار سے معاشرہ ايك ہي طرح كے ابدي اور جاوداني قوانين كا حامل نہيں ہو سكتا۔ تاريخي ميٹريالزم اور معاشرے كي بنياد اقتصادي ہونے كي بناء پر جاودانيت كا دعويٰ كرنے والا ہر قانون ناقابل قبول ہے اور يہي وہ جگہ ہے، جہاں تاريخي ماديت اور مذہب كي آپس ميں نہيں بنتى، خاص طور پر اسلام سے جو بعض جاوداني قوانين كا قائل ہے ۔

كتاب ”تجديد نظر طلبي“ ميں ”سرمايہ“ كے دوسرے ايڈيشن كے ملحقات سے نقل كيا گيا ہے كہ

”ہر تاريخي دور، اپنے سے متعلق خاص قوانين كا حامل ہوتا ہے۔جونہي زندگي ايك مرحلے سے دوسرے مرحلے ميں پہنچتي ہے، دوسرے قوانين اس پر لاگو ہوتے ہيں۔ معاشي زندگي اپني تاريخي پىش رفت ميں وہي صورت اختيار كرتي ہے، جيسے ہم بيالوجي كي ديگر شاخوں ميں پاتے ہيں ۔۔۔ معاشرتي آرگنزم اسي طرح ايك دوسرے سے مختلف و ممتاز ہوتے ہيں، جس طرح حيواني اور نباتاتي آرگنزم ۔“(۳۴)

۴. پيداواري آلات كي پىش رفت اس بات كا باعث بني كہ آغاز تاريخ ميں اختصاصي مالكيت وجود ميں آئي اور معاشرہ استحصال كرنے والے اور ہونے والے دو طبقوں ميں منقسم ہوگيا اور يہ دو طبقے ابتدائي تاريخ سے اب تك معاشرے كے دو بنيادي قطب ( Pole ) بنے ہوئے ہيں۔ ان دو طبقوں كے درميان تضاد و كشمكش كا ايك دائمي سلسلہ جاري ہے۔ البتہ معاشرے كے دو قطبي ہونے كا يہ مطلب نہيں كہ تمام كے تمام گروہ لازماً يا استحصال كرنے والے يا ہونے والے ہيں، ممكن ہے ان ميں ايسے گروہ بھي ہوں، جو نہ استحصال كنندہ ہوں نہ استحصال يافتہ۔ مقصد يہ ہے كہ معاشروں كي تقدير ميں موثر واقعہ ہونے والے يہي وہ دو گروہ ہيں، جو دو اصلي قطب ہيں۔ باقي تمام گروہ ان دو اصلي گروہوں ميں سے ايك كي پىروي كرتے ہيں ۔

”تجديد نظر طلبي“ ميں ہے:

”ماركس اور اينجلز كے پاس معاشرے ميں طبقات كي تقسيم اور ان كي آويزش سے متعلق ہميں دو طرح كے نمونے ملتے ہيں، ايك دو قطبي اور دوسرا كئي قطبي۔ طبقے كي تعريف ان دونوں نمونوں ميں مختلف ہے۔پہلے نمونے ميں طبقہ مزاجي اور دوسرے ميں حقيقي ۔“(۳۵)

طبقہ كے پى دائشي ضوابط بھي مختلف ہيں۔ اينجلز ”جرمني كے كاشت كاروں كي جنگ“ كے مقدمے ميں ان دونوں نمونوں كي آپس ميں دوستي كروانے اور ان سے ايك ہم جنس نمونہ بنانے كي كوشش كرتا ہے۔ وہ معاشرے ميں متعدد طبقات اور ان طبقات ميں مختلف گروہوں كي تشكيل كرتا ہے، ليكن اس كے عقيدہ كے مطابق ان طبقوں ميں سے فقط دو طبقے قطعي تاريخي ذمہ داري كو پورا كر سكتے ہيں۔ ايك ”بورژوائي“ (سرمايہ دارانہ نظام) اور دوسرا ”پرولتاريائي“ (مزدورانہ نظام) كيونكہ يہ دونوں طبقے حقيقتاً معاشرے كے متضاد قطب ہيں۔(۳۶)

ماركسزم كے فلسفہ كے مطابق جس طرح يہ بات محال ہے كہ معاشرے كي عمارت اس كي بنياد پر مقدم ہو، اسي طرح يہ بات بھي محال ہے كہ معاشرہ كي بنياد (يعني معاشى، معاشرتي اور مالكيت سے متعلق تعلقات) كے اعتبار سے استحصال گر اور استحصال شدہ دو طبقوں ميں تقسيم ہو اور عمارت كے اعتبار سے اس ميں وحدت باقي رہے۔ معاشرتي وجدان بھي اپني جگہ دو حصوں ميں تقسيم ہوگا، ايك استحصال گر وجدان اور دوسرا استحصال شدہ اور اس اعتبار سے معاشرے ميں دو تصور كائنات دو آئيڈيالوجىز، دو اخلاقى نظام اور دو قسم كا فلسفہ وجود ميں آئے گا ۔

كوئي طبقہ، وجدان، ذوق اور طرز فكر كے اعتبار سے اپنے معاشي موقف پر سبقت نہيں لے جا سكتا۔ صرف جو چيز دو قطبي نہيں ہوگي وہ استحصال گر طبقے كے مختصات ميں سے ہے۔وہ ايك ”دين“ اور دوسري ”حكومت“ ہے۔ دين اور حكومت استحصال شدہ طبقہ پر تسلط جمانے كے لئے استحصال گر طبقہ كي خاص ايجادات ہيں۔ استحصال گر طبقہ معاشرے كے مادي ذرائع كا مالك ہونے كے اعتبار سے اپنے كلچر كو جس ميں مذہب بھي شامل ہے۔ ، استحصال شدہ طبقے پر ٹھونستا ہے۔ اس رو سے ہميشہ حاكم ثقافت يعني حاكم تصور كائنات، حاكم آئيڈيالوجى، حاكم اخلاق، حاكم ذوق و احساس اور سب سے بڑھ كر حاكم مذہب استحصال گر طبقے ہي كي ثقافت ہوا كرتا ہے۔ استحصال شدہ طبقے كي ثقافت اسي كي طرح ہميشہ محكوم ہوتي ہے، اس كي ترقي اور راہوں كو روك ديا جاتا ہے۔ ماركس ”جرمن آئيڈيالوجى“ ميں كہتا ہے:

حاكم افكار، حاكم مادي تعلقات كے دانش مندانہ بيان سے ہٹ كر كوئي شے نہيں، يعني مادي تعلقات بزبان افكار، يعني وہي روابط جنہوں نے اس طبقے كو حاكم بنايا ہے۔ اس كي حاكميت كے افكار، وہ افراد جو حكمران طبقہ سے تعلق ركھتے ہيں۔ ديگر چيزوں كے علاوہ ان كے پاس آگاہي بھي ہوتي ہے، لہٰذا وہ سوچتے بھي ہيں جب تك ان كي حكومت ہے، وہ عصر تاريخ كا تعين بھي كرتے ہيں۔ واضح رہے كہ يہ كام وہ تمام سطحوں پر انجام ديتے ہيں، يعني علاوہ ديگر چيزوں كے چونكہ سوچنے والے اور افكار كي تخليق كرنے والے حكومت كر رہے ہوتے ہيں اور ان كے افكار وقت كے حاكم افكار ہوتے ہيں۔“(۳۷)

حاكم اور استحصال گر طبقہ بالذات، رجعت پسند، قدامت پسند اور روايت پرست ہوتا ہے اور اس كا كلچر بھي حاكم اور ٹھونسا ہوا كلچر ہوتا ہے، جو ايك رجعت پسندانہ اور روايت پرستانہ كلچر ہوتا ہے، ليكن استحصال شدہ طبقہ بالذات انقلابى، جمود شكن، پىش قدم اور مستقبل پر نظر ركھنے والا ہوتا ہے اور اس كا كلچر بھي محكوم ہوتا ہے جو ايك انقلابى، روايت شكن اور مستقبل پر نظر ركھنے والا كلچر ہوتا ہے۔ انقلابى ہونے كي لازمي شرط استعمار شدگي ہے يعني صرف يہي طبقہ ہے جو انقلابى بننے كي استعداد ركھتا ہے ۔

”تجديد نظر طلبي“ ميں اينجلز كي اس عبارت كے بعد جو ”جرمن ميںكاشت كاروں كي جنگ“ كے مقدمہ سے منقول ہے، لكھتا ہے:

”اس كے مقدمہ كے چھپنے كے ايك سال بعد جرمن سوشلسٹوں كي انجمن نے گواہ ميں اپنے ايك پروگرام ميں لكھا كہ مزدور كے مقابل تمام طبقے ايك رجعت پسند گروہ ہيں۔

ماركس نے اس جملے پر بڑي شدت سے تنقيد كى، ليكن اگر ہم حقيقت پسندي سے كام ليں تو ہميں يہ اعتراف كرنا ہوگا كہ ماركس نے جو كچھ اپنے قول ميں كہا تھا، يہ بيچارے سوشلسٹ چونكہ اس كے دو قطبي اور كئي قطبي نمونے كے درميان فرق كو سمجھنے سے قاصر تھے، اس لئے وہي كچھ كہہ سكتے تھے، جو انہوں نے كہا ہے اور اس كے علاوہ كوئي اور فيصلہ نہيں كر سكتے تھے، ماركس نے (كميونسٹ پارٹي كے منشور سے متعلق) بيان ميں طبقات كي موجودہ جنگ كو پرولتاريائي اور بورژوائي طبقات كي آپس ميں جنگ سے مماثلت دي تھي اور كہا تھا كہ ان طبقات كے درميان جو بورژوائي كے مخالف ہيں، صرف پرولتاريائي ايسا طبقہ ہے، جو حقيقتاً انقلابى ہے ۔“(۳۸)

ماركس نے بعض مقامات پر كہا كہ صرف پرولتاري طبقہ ايسا ہے جواپنے اندرانقلابي ہونے كي تمام شرائط اور خصوصيات ركھتا ہے اور وہ شرائط و خصوصيات يہ ہيں:

۱) استحصال شدگي جس كے لئے ضروري ہے كہ وہ طبقہ پىداوار دينے والا بھي ہو ۔

۲) مالكيت نہ ركھنا(يہ اور پہلي خصوصيت كسانوں كے بھي شامل حال ہے)۔

۳) تنظيم جس كا لازمہ ايك مركزيت ہے (يہ خصوصيت پرولتاري طبقہ كے لئے مخصوص ہے، جو ايك كارخانے ميں باہمي تعاون سے كام كرتا ہے، ليكن كسان اس خصوصيت ميں شامل نہيں ہيں، كيوں كہ وہ زمين كے مختلف حصوں ميں بٹے اور بكھرے ہوئے ہيں)۔

ماركس نے دوسري خصوصيت كے بارے ميں كہا ہے، مزدور دو اعتبار سے آزاد ہے: ”ايك قوت كار بيچنے كے اعتبار سے اور دوسرے ہر طرح كي مالكيت سے آزاد ہے ۔“

پھر تيسري خصوصيت كے بارے ميں ايك بيان ميں كہتا ہے:

”صنعت كي ترقي يہي نہيں كہ پرولتار ياؤں كي تعداد كو بڑھاتي ہے بلكہ انہيں قابل توجہ عوامي گروہ كي صورت ميں متمركز بھي كرتي ہے، ان كي طاقت كو بڑھاتي ہے اور وہ خود بھي اپني طاقت كو سمجھنے لگتے ہيں ۔“(۳۹)

مذكورہ بالا اصول كو ”آئيڈيالوجي كي بنياد او ر طبقاتي و اجتماعى بنياد كے درميان اصول مطابقت“ كا نام ديا جا سكتا ہے اور اصول كي بنياد پر ہر طبقہ ايك خاص طرح كي سوچ، فكر، اخلاق، فن اور شعر و ادب وغيرہ كي تخليق كرتا ہے، جو اس كي زندگى، معاش اور اس كے مفادات كي كيفيت كا تقاضا كرتي ہے۔ اسي طرح ہم اس اصول كو ”ہر فكر و نظر كي آرزو اور اس فكر و نظر كي سمت كے درميان اصول مطابقت“ كا نام بھي دے سكتے ہيں، يعني ہر فكر و نظر اور ہر اخلاقى يا مذہبى سسٹم جو كسي بھي طبقے سے ابھرتا ہے، اسي طبقے كے مفاد ميں ہوتا ہے، محال ہے كہ كسي طبقے كا كوئي فكرى سسٹم كسي دوسرے طبقے كي خير و صلاح اور فائدے ميں يا پھر كسي طبقے سے انسانيت كي خير و صلاح ميں كوئي فكرى نظام ابھرے اور كوئي خاص طبقاتي رجحان اس ميں نہ ہو، فكر و نظر ميں اس وقت انسانيت كا پہلو اور طبقات سے ماورائيت ہو سكتي ہے، جب پىداواري آلات كا تكامل سب طبقات كي نفي كا متقاضي ہو، يعني طبقاتي بنياد كے تضاد كي نفي سے ہي آئيڈيالوجىز كے تضاد كي نفي ہوگي اور فكرى مطمع نظر كے تضاد كي نفي سے ہي فكرى سمتوں كے تضاد كي نفي ہوگي ۔

ماركس اپني جواني كے زمانے كي بعض تحريروں (مثلاً ہيگل كے ”فلسفہ قانون پر انتقاد“ كے مقدے) ميں طبقات كے معاشي پہلو (منافع طلبي اور منافع دہي) سے زيادہ ان كے سياسى پہلو (فرمانروائي اور فرمانبرداري) كا زيادہ قائل تھا اور اسي لئے اس نے طبقاتي كشمكشوں كي ماہيت كو آزادى اور ظلم سے نجات كي جنگ سے تعبير كيا ہے۔ اس جنگ كے لئے اس نے دو مرحلوں كا ذكر كيا ہے:

ايك جزوي اور سياسى مرحلہ اور دوسراكلي اور انساني مرحلہ۔وہ كہتا ہے كہ پرولتاريائي انقلاب جو ”تاريخ كے قيديوں“ كا آخري مرحلہ انقلاب ہے، بنيادي اہميت كا حامل ہے، يعني يہ وہ انقلاب ہے، جو انسان كو مكمل آزادى بخشنے، فرمانروائي اور غلامي كي تمام شكلوں كو مٹانے كے لئے وجود ميں آتا ہے۔ ماركس اس مفہوم كي توجيہ ميں كہ كس طرح ايك طبقہ اپنے اجتماعى موقف ميں اپنے طبقاتي موقف سے آگے بڑھتا ہے اور اس كا مقصد كلي اور انساني بن جاتا ہے، جو تاريخي ميٹريالزم كے مطابق بھي درست ہے، اس طرح بيان كرتا ہے كہ چونكہ اس طبقے كي قيد اور غلامي بنيادي ہے، لہٰذا اس كا انقلاب بھي بنيادي ہے۔ اس طبقے پر بطور خاص ناانصافي نہيں ہوئي بلكہ ناانصافي اس پر مسلط ہوئي ہے ۔

اس رو سے وہ بھي صرف انصاف اور انسان كي نجات كا خواستار ہے، يہ بيان اولاً ”شاعري“ ہے سائنسي نہيں۔ ”بس نا انصافي اس پر مسلط ہوئي ہے“ كا مفہوم كيا ہے؟ كيا استحصال گر طبقہ قبلاً اپنے طبقے سے كسي طرح آگے بڑھ گيا اور اس نے ظلم كو حصول مفاد كے لئے نہيں بلكہ ظلم كي خاطر اور ناانصافي كو استحصال كے لئے نہيں بلكہ نا انصافي كي خاطر چاہا كہ پرولتاريائي طبقہ اس كے رد عمل ميں صرف انصاف كا خواہاں ہو؟

مزيد بر آں بالفرض استحصال گر طبقہ، سرمايہ داري كے دور ميں ايك ايسي صورت اختيار كر ليتا ہے، جو تاريخي ميٹريالزم سے ٹكراتي ہے اور يہ ايك طرح كا مثاليت پسندانہ ( Idealistic ) نظريہ ہے۔ ”مكتبي اور طبقاتي بنياد كے درميان مطابقت“ كا اصول اس بات كا متقاضي ہے كہ كسي فكر كے مطمع نظر اور اس كي سمت كے درميان مطابقت ہو، نيز يہ بھي كہ كسي فرد كا كسي عقيدے كي طرف جھكاؤ اس فرد كے طبقاتي ميلانات كے ساتھ مطابقت ركھتا ہو، يعني ہر فرد كا طبيعي ميلان اسي مكتب فكر كي جانب ہوتا ہے، جو اس كے اپنے طبقے سے ابھرتا ہے اور اس مكتب كو اپنانا اس كے اپنے طبقے كے مفاد ميں ہے ۔

ماركسسي منطق كے مطابق يہ اصول معاشرتي شناخت ميں يعني آئيڈيالوجى كي ماہيت كي شناخت اور ميلانات كے اعتبار سے سماجي طبقات كي شناخت ميں غير معمولي طور پر مفيد اور رہنما ہے۔

۵۔ تاريخي ميٹريالزم كا پانچواں نتيجہ يہ ہے كہ آئيڈيالوجى، دعوت وتبليغ اور پند و نصائح جيسے امور كا كردار معاشرے يا طبقاتي سماج كو كوئي جہت دينے ميں بہت محدود ہے، عام طور پر يہ خيال كيا جاتا ہے كہ مكتب، دعوت، برہان، استدلال، تعليم و تربيت، تبليغ، موعظہ اور نصيحت انسان كے وجدان كو مرضي كے مطابق ڈھال سكتے ہيں۔ يہ بات سامنے ركھتے ہوئے كہ ہر فرد، ہر گروہ اور ہر طبقے كا وجدان سماجي اور طبقاتي موقف كا بنايا ہوا ہے اور درحقيقت اس كے طبقاتي موقف كا جبري اور لازمي انعكاس ہے اور اس سے آگے يا پىچھے نہيں ہوسكتا، يہ سوچ كہ بنياد كے اوپر كي عمارت سے متعلق مسائل جن كا ابھي تذكرہ ہو چكا ہے، سماجي انقلاب كا مبداء بن سكتے ہيں، معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں ايك آئيڈيالسٹك تصور ہے اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ كہا جائے كہ ”روشن فكرى“، ”اصلاح طلبي“ اور”انقلابي ہونا“، ”خود انگيختي“ كا پہلو ركھتا ہے، يعني طبقاتي محروميت خودبخود روشن فكرى، اصلاح طلبي اور انقلابى ہونا ہے اور بيروني تعليم و تربيت وغيرہ كا اس ميں كوئي دخل نہيں ہوتا، كم از كم يہ بات كہي جا سكتي ہے كہ ان امور كي حقيقي داغ بيل طبقاتي موقف سے خودبخود پڑتي ہے۔ آئيڈيالوجى، رہنمائي اور باقي تمام روشن فكرانہ باتوں كا زيادہ سے زيادہ كردار يہ ہے كہ وہ طبقاتي تضاد اور درحقيقت محروم طبقے كے طبقاتي موقف كو ان سے متعارف كروائے اور بس۔ بتعبير ديگر ان كي اپني اصطلاح ميں ”طبقہ في نفسہ“ كو يعني اس طبقے كو جو اپني ذات ميں خاص طبقہ ہے۔ ”طبقہ لنفسہ“ ميں تبديل كرے يعني اس طبقے ميں تبديل كرے، جو اس كے علاوہ طبقاتي آگاہي بھي ركھتا ہو۔ بہرحال وہ تنہا فكرى ليور ( Lever ) جو طبقاتي معاشرے ميں كسي طبقے كو انقلاب كے لئے ابھار سكتا ہے، طبقہ كے اپنے موقف اور اپنے استحصال كے بارے ميں آگاہي ہے ليكن ان طبقاتي معاشروں ميں جہاں انسان استحصال گر اور استحصال شدہ گروہوں ميں بٹا ہوا ہے اور ہر گروہ ايك طرح سے اپنے آپ سے بيگانہ بنا بيٹھا ہے اور معاشرتي وجدان دو حصوں ميں بٹ گيا ہے، عدالت پسندي اور انسان دوستي جيسے انساني اصول كوئي كردار ادا نہيں كر سكتے ۔

ہاں البتہ جس دم پىداواري آلات كا تكامل جبراً پرولتاريائي حكومت كو جنم دے، طبقات معدوم ہو جائيں، انسان خود اپني حقيقت كو طبقاتي سرحدوں سے الگ ہو كر پالے اور مالكيت سے دو حصوں ميں تقسيم ہونے والا وجدان اپني وحدت كو حاصل كر لے، تب انسان دوستي كے فكرى اصول جو پىداواري آلات كي اشتراكي صور ت كے آئينہ دار ہيں اپنا كردار ادا كر سكتے ہيں، پس جس طرح تاريخي ادوار كے اعتبار سے سوشلزم كو جو ايك خاص تاريخي دور سے ابھرنے والي حقيقت ہے، اپني مرضي كے مطابق آگے يا پىچھے كے دور ميں نہيں لايا جا سكتا (جيسا كہ خيالي پلاؤ پكانے والے سوشلسٹ اس امر كے خواہاں تھے) اسي طرح ايك خاص تاريخي دور ميں بھي جہاں معاشرہ دو طبقوں ميں تقسيم ہے، كسي طبقے كي مخصوص آگاہي كو دوسرے طبقے پر نہيں ٹھونسا جا سكتا اور مشترك انساني آگاہي كا كوئي وجود نہيں ہوتا ۔

لہٰذا طبقاتي معاشرے ميں وہ عام اور كلي آئيڈيالوجى نہيں ابھر سكتي جو طبقاتي موقف كي حامل نہ ہو، ہر وہ آئيڈيالوجى جو طبقاتي معاشرے ميں ظہور پذير ہوتي ہے، بہرحال كوئي نہ كوئي طبقاتي رنگ ضرور ركھتي ہے اور نہ بفرض محال وجود پذير ہوتو عملاً كوئي كردار ادا كر سكتي ہے۔ اس اعتبار سے مذاہب و اديان كي تبليغات يا كم از كم وہ باتيں جو اديان و مذہب كے نام پر بصورت ہدايت و تبليغ يا پند و نصيحت كي جاتي ہيں اور جن ميں انصاف پسندى، عدل خواہى، انصاف طلبي اور انساني مساوات كا پىغام ہوتا ہے، اگر فريب نہيں تو كم از كم خيالي اور تصوراتي ضرور ہے ۔

۶۔ ايك اور نتيجہ جسے ترتيب كے ساتھ آنا چاہيے، يہ ہے كہ ليڈروں، مجاہدوں اور انقلابى رہنمائوں كا مركز آرزو جبراً اور لازماً استحصال شدہ طبقہ ہے ۔

اب جبكہ يہ بات پايہ ثبوت كو پہنچي كہ صرف استحصال شدہ طبقہ ہي وہ طبقہ ہے، جو روشن فكرى، اصلاح طلبي اور انقلاب كے لئے آمادگي ركھتا ہے اور يہ سب چيزيں استحصال شدگي اور محروميت سے وجود ميں آتي ہيں اور بنياد سے اوپر كے عوامل زيادہ سے زيادہ خود آگاہي ميں طبقاتي تضاد كو داخل كرنے كے لئے ہوتے ہيں، تو بطريق اوليٰ ان ممتاز شخصيتوں كو جو اس روشن فكرى كو استحصال شدہ طبقے كي خود آگاہي ميں داخل كرتي ہيں ان كا اور اس طبقے كا درد ہونا چاہيے اور ان سب كو ايك زنجير كے حلقے ميں ہونا چاہيے تاكہ اس طرح كي خود آگاہي ان ميں پىدا ہو سكے، جيسے كسي معاشرے كي عمارت كا تاريخي دور كے اعتبار سے اپني بنياد پر سبقت حاصل كرنا محال ہے اور جس طرح يہ محال ہے كہ ايك طبقے كا سماجي وجدان اپنے سماجي موقف پر مقدم ہو، اسي طرح يہ بھي محال ہے كہ ايك شخص رہنما كي حيثيت سے اپنے طبقے پر مقدم ہو اور اپنے طبقے كے تقاضوں سے بڑھ كر تقاضے پىش كرے، اس اعتبار سے محال ہے كہ استحصال پسند طبقوں ميں سے كوئي فردا اگرچہ استثنائي طور پر سہى، اپنے طبقے كے خلاف اور استحصال شدہ طبقے كے حق ميں قيام كرے ۔

كتاب ”تجديد نظر طلبي“ ميں ہے:

”كتاب” جرمن آئيڈيالوجى كي ايك جدت“، طبقاتي آگاہي پر ايك نيا تجزيہ ہے۔ اس كتاب ميں ماركس اپنے گذشتہ تمام آثار(۴۰) كے برخلاف طبقاتي آگاہي كو طبقے كي اپني پىداوار جانتا ہے، نہ يہ كہ باہر سے يہ چيز اس پر وارد ہوئي ہے۔ حقيقي آگاہي ايك آئيڈيالوجى كے سوا كچھ نہيں كيوں كہ حتمي طور پر طبقے كے مفادات كو ايك عمومي شكل دينے كي ضرورت ہوتي ہے، ليكن يہ امر اس بات كو نہيں روكتا كہ يہ آگاہي طبقے كے اپنے اندر سے پىدا ہونے والي آگاہي كي بنياد پر اس كے مفادات پر استوار ہو، بہرحال طبقہ اس وقت تك پختگي حاصل نہيں كرسكتا جب تك وہ اپني مخصوص آگاہي كو پا نہ لے ۔“

”يہ امر ماركس كے نظر ميں، طبقہ كے اندر فكرى كام(نظرياتي كام اور رہنمائي كا كام)اور مادي كام كي تقسيم كرتا ہے۔ بعض افراد اس طبقے كے مفكر اور دانشور بن جاتے ہيں جب كہ ديگر افراد ان افكار اور ان اوہام كے مقابل زيادہ خود سپردگي ركھتے ہيں اور انہيں زيادہ مقبول كرتے ہيں ۔“(۴۱)

كتاب ”فقر فلسفہ“ اور ايك بيان ميں ماركس كے مذكورہ نظريے كا تجزيہ كرتے ہوئے اسي كتاب ميں مرقوم ہے:

”اس طرح طبقاتي آگاہي كا حصول اور ايك ”طبقہ لنفسہ“ كي صورت اختيار كرنا پرولتاريا كا اپنا كام ہے۔ اقتصادي كشمكش كا خود انگيز نتيجہ ہے۔ اس انقلاب كو نہ تو وہ نظرياتي ماہرين لے كر آئے ہيں، جو مزدور تحريك سے باہر ہوتے ہيں اور باہر سے يہ نظريات لاتے ہيں اور نہ سياسى پارٹياں۔ماركس خيال پردازي كرنے والے سوشلسٹوں كي مذمت كرتا ہے كہ وہ اپني پرولتاريائي خصلت كے باوجود ”پرولتاريا“ كي تاريخي خود انگيختگي اور اس كي خاص سياسى تحريك كو نہيں ديكھتے اور اپنے خيالي تانوں بانوں كو پرولتاريا كي خود انگيختہ اور تدريجي تنظيم كي جگہ بصورت طبقہ ديكھنا چاہتے ہيں ۔“(۴۲)

يہ اصول بھي معاشرے، اس كے ميلانات اور افراد كي شناخت ميں كہ ان كا ميلان كيا ہے؟اور خاص طور پر قيادت اور معاشرے كي اصلاح كے دعويداروں كي شناخت ميں ماركسسٹي منطق كے حوالے سے خاص اہميت كا حامل ہے اور اسے ايك رہنما اصول قرار پانا چاہيے۔

اس گفتگو سے يہ بات سامنے آئي كہ ماركس اور اينجلز كسي ايسے روشن فكر گروہ كے قائل نہيں جو اپنے طبقے سے جدا اور بالاتر ہو اور نہ ہي ايسے گروہ كے قائل ہو سكتے ہيں، يعني ماركسزم كے اصول انہيں اس كي اجازت نہيں ديتے اور اگر كہيں ماركس نے اپنے بعض آثار ميں اس كے خلاف كچھ كہا ہے تو يہ ان موارد ميں سے ہے، جو يہ ظاہر كرتے ہيں كہ ماركس وہاں پر ماركسسٹ نہيں رہنا چاہتا۔ ہم بعد ميں يہ بتائيں گے كہ ايسے موارد كچھ كم نہيں، في الحال يہ سوال سامنے آتا ہے كہ ماركس اور اينجلز ماركسزم كے اصول كو سامنے ركھتے ہوئے، اپنے روشن فكرانہ موقف كي كس طرح توجيہ كريں گے۔ ان ميں سے كوئي بھي پرولتاريا طبقے سے تعلق نہيں ركھتا، يہ دونوں فلسفي ہيں، مزدور نہيں۔ پھر بھي انہوں نے محنت كشوں كے لئے ايك عظيم نظريے كو وجود بخشا، اس سلسلے ميں ماركس كا جواب سننے سے تعلق ركھتا ہے ۔ ”تجديد نظر طلبي“ ميں ہے:

”ماركس نے بہت كم روشن فكروں كے بارے ميں گفتگو كي ہے، ظاہراً وہ انہيں كسي خاص طبقہ ميں شمار نہيں كرتا بلكہ ديگر طبقات كا ايك حصہ جانتا ہے۔خاص طور پر انہيں بورژوائي طبقے سے نسبت ديتا ہے ۔

كتاب ”۱۸ برومر“ ميں ماركس خبر نگاروں، پروفيسروں، عدالت كے قاضيوں اور اكيڈمي كے اركان كو بھي پادريوں اور فوجي افسروں كي طرح بورژوائي طبقے ميں سے قرار ديتا ہے، اپنے بيان ميں جب وہ محنت كش طبقے كے لئے كام كرنے والے نظرياتي ماہرين كا نام لينا چاہتا ہے، جن ميں وہ خود اور اينجلز شامل ہيں اور جو پرولتاري بنياد نہيں ركھتے، ان كا ذكر روشن فكروں كي حيثيت سے نہيں كرتا بلكہ وہ انہيں فرمانروا گروہ كا ايك طبقہ جو پرولتاريوں ميں آگيا ہے اور ان كي تعليم و تربيت كے لئے بہت سے عناصر لايا ہے، قرار ديتا ہے ۔“(۴۳)

ماركس ايسي كوئي توضيح پىش نہيں كرتا كہ آخر وہ اور اينجلز كس طرح حكمران طبقے كے آسمان سے لڑھكے اور محكوم طبقے كي زمين پر ہيوط كر گئے اور قيمتي تحفے ان كي تعليم و تربيت كے لئے آكاش سے دھرتي پر گرے اور وہ بہ تعبير قرآن ”ذا مَترَ بَہ“ (جلد ۱۶) اپنے ساتھ لائے، حق يہ ہے كہ جو كچھ ماركس، اينجلز اور ان كے وسيلے سے خاص افتادہ نچلے طبقے پرولتر كے نصيب ميں آيا ہے، ابوالبشر آدم كے نصيب ميں نہيں آيا، مذہبى روايات كے مطابق جنہوں نے آسمان سے زمين پر ہيوط كيا، وہ آدم اپنے ساتھ اس طرح كا تحفہ نہيں لائے ۔

ماركس اس بات كي وضاحت نہيں كرتا كہ آخر كيونكر پرولتر طبقے كا آزادى بخش نظريہ حيات فرمانروا طبقہ ميں پروان چڑھا، اس كے علاوہ وہ اس كي وضاحت بھي نہيں كرتا كہ ”ہبوط“ اور يہ نيچے اتر آنا ان دو حضرات كے لئے استثنائي طور پر امكان پذير ہوا ہے يا دوسروں كے لئے بھي يہ بات ممكن ہے اور نيز وہ يہ بھي نہيں بتاتا كہ اب جب يہ بات معلوم ہوگئي كہ آسمان اور زمين كے دروازے بعض اوقات ايك دوسرے پر كھلتے ہيں، تو كيا اس سے صرف ”ہبوط“ كا عمل ہوتا ہے اور لوگ عرش و آسمان سے فرش و زمين كي طرف آتے ہيں يا كبھي ”معراج“ كي صورت رونما ہوتي ہے اور كيا بعض افراد زمين سے آسمان كي طرف بھي ”عروج“ پاتے ہيں؟

اور ايسا عروج عمل ميں آئے تو آسمان والوں كے شايان شان ايسا كوئي تحفہ نہيں ہو گا، جسے اوپر جانے والے لوگ اپنے ساتھ لے جائيں۔ بنيادي طور پر زمين سے آسمان كو تحفہ لے جانے كي بات بے معني ہے، بلكہ اگر معراج كي توفيق حاصل ہو اور آسمان ميں جذب ہو كر نہ رہ جائيں اور پھر انہيں دوبارہ زمين كي طرف لوٹنا پڑے تو وہ بھي ماركس اور اينجلز كي طرح آسمان سے تحفے اپنے ساتھ لائيں گے ۔

انتقادات

اب جب كہ نظريات ماديت تاريخ كے ”اصول“ اور ”نتائج“ پر سير حاصل گفتگو ہو چكي ہو تو ضرورت اس بات كي ہے كہ اس پر تنقيد اور تبصرہ ہوجائے ۔

سب سے پہلے ہميں اس نكتے كي وضاحت كرنا ہوگي كہ ہم يہاں نہ تو ماركس كي تمام كتب ميں اس كے نظريات پر تنقيد كے درپے ہيں اور نہ ہي كلي طور پر ماركسزم پر كوئي تنقيد كرنا چاہتے ہيں، اس وقت ہم ”ماديت تاريخ“ يا بااصطلاح ديگر ”تاريخي ميٹريالزم“ پر تنقيد كرنا چاہتے ہيں، جو ماركسزم كا ايك ستون ہے او ر بنيادي اعتبار سے ماركس كے نظريات پر مطلق تنقيد كچھ اور چيز ہے اور ”ماديت تاريخ“ كي طرح ماركسزم كے كسي اصول پر تنقيد اور چيز ہے ۔

ماركس كے نظريات پر تنقيد يعني اس كے ان مجموعي نظريات كا جائزہ جسے اس نے زندگي كے مختلف ادوار ميں مختلف كتابوں اور مختلف تحريروں ميں قلم بند كيا ہے اور جس ميں بے شمار تناقضات ہيں، اہل مغرب نے اس پر بڑي محنت سے كام كيا ہے۔ ايران ميں جہاں تك مجھے معلوم ہے، ”تجديد نظر طلبي“ اس موضوع پر سب سے اچھي تحرير ہے، جس كے حوالے ہم نے اپني كتاب ميں جابجا پىش كئے ہيں ۔(۴۴) ليكن ماركسزم يا اس كے اصولوں ميں سے كسي ايك پر تنقيد يا باالفاظ ديگر اس كے ايك اصول يا ان كئي اصولوں جو ماركسزم كي اساس سمجھے جاتے ہيں اور خود ماركس كي نظر ميں بھي ناقابل تامل ہيں، يا پھر ايك يا چند ايسے اصولوں پر تنقيد جو ہر چند خود اس كي نظر ميں قطعي نہيں ہيں اور خود اس نے اپنے بعض آثار ميں ان كے خلاف بھي كچھ كہا ہے، ليكن ان كا قطعي لازمہ ماركسزم كے اصول ہيں اور ماركس كا ان كے خلاف كچھ كہنا گويا ماركس كي ماركسزم سے ايك طرح كي عليحدگي ہے، ماركس كے نظريہ تاريخي ماديت كو پىش نظر ركھتے ہوئے ہم نے اس كتاب ميں يہي كام كيا ہے، ہم نے يہاں ماركس كے قطعي اور مسلمہ اصولوں يا ان سے حاصل ہونے والے قطعي نتائج كو سامنے ركھتے ہوئے تنقيد و تحقيق كي ہے ۔

يہ بات تاريخ كے عجائبات ميں سے ہے كہ ماركس جو اپني فلسفى، معاشرتي اور معاشياتي كتابوں ميں كم و بيش ہر جگہ تاريخي ميٹريالزم كا دم بھرتا تھا، اپنے زمانے كے بعض تاريخي واقعات كي تحليل و تعليل ميں بہت كم نظريہ ماديت تاريخ كي طرف متوجہ ہوا، ايسا كيوں ہے؟ اس سوال كے مختلف جوابات ديئے گئے ہيں۔ بات صرف مذكورہ موضوع پر ختم نہيں ہوتى، ماركسزم كے بہت سے مسائل ميں ماركس كي روش متناقص ہے، يعني نظرياتي اور عملي طور پر ماركسزم سے ايك طرح كي برگشتگي خود ماركس كي طرف سے مشاہدے ميں آتي ہے، پس اس كے لئے كسي زيادہ جامع جواب كي ضرورت ہے ۔

بعض افراد نے اس كا سبب ان كي زندگي كے مختلف ادوار كي خامي اور ناپختگي كو قرار ديا ہے ليكن يہ توجيہ كم از كم ماركسزم كے نقطہ نظر سے قابل قبول نہيں ہے۔ اس لئے آج ماركسزم كے جو كچھ اصول ہمارے سامنے ہيں، ان ميں سے بہت سے ماركس كي جواني يا درمياني عمر كے دور سے متعلق ہيں جب كہ بہت سي وہ باتيں جو انحرافي سمجھي جاتي ہيں، جن ميں سے اس كے اپنے سامنے كے بعض واقعات كي تحليل بھي شامل ہے، اس كي زندگي كے آخري دور سے متعلق ہيں ۔

بعض افراد نے اس اختلاف كو اس كي دوہري شخصيت پر محمول كيا ہے اور كہا ہے كہ وہ ايك طرف سے ايك فلسفى، صاحب نظر اور صاحب مكتب شخص تھا، جسے قطعي طور پر ايك يقين كا حامل ہونا چاہيے تھا، تاكہ وہ اصولوں كو قطعي اور ناقابل ترديد گردانے اور پوري قوت سے واقعات كو اپنے ذہن ميں اترتے ہوئے افكار كے مطابق ڈھالے۔ دوسري طرف وہ ايك علمي شخصيت اور علمي باطن كا حامل تھا اور اس كا علمي باطن اس بات متقاضي تھا كہ وہ ہميشہ حقائق كے سامنے سرتسليم خم كر دے اور كسي يقيني اصول كا پاپند نہ ہو ۔

بعض نے ماركس اور ماركسزم ميں فرق روا ركھا ہے، ان كا دعويٰ ہے كہ ماركس اور ماركس كي فكر، ماركسزم كا ايك مرحلہ ہيں، ماركسزم اپنے جوہر ميں ايك ترقي پذيرمكتب ہے۔ پس اگر ماركسزم نے ماركس كو پى چھے چھوڑ ديا ہو، تو اس ميں مضائقہ كي كون سي بات ہے؟

بعبارت ديگر اگر ماركس كا ماركسزم جو ماركسزم كا دور طفلي ہونے كے باعث قابل ترديد ہے تو يہ اس بات كي دليل نہيں كہ ماركسزم قابل ترديد ہے، ليكن اس عقيدے كے حامل افراد اس بات كي وضاحت نہيں كرتے كہ ماركسزم كا اصلي جوہر كيا ہے؟ كسي مكتب كے ارتقاء پذير ہونے كي شرط يہ ہے كہ اس كے اولين بنيادي اصول مستقل اور ناقابل تغير ہوں اور جو كچھ اعتراض ہو، فروع ميں ہو، اصول اپني جگہ ثابت رہيں وگرنہ كسي نظريہ كي تنسيخ اور اس كے كمال پذير ہونے ميں كوئي فرق باقي نہيں رہتا، اگر ہم كسي ثابت اور باقي رہنے والے اصول كو شرط تكامل نہ جانيں تو پھر بات كيا رہ جاتي ہے، پھر كيوں نہ ہم ہيگل ازم، سن سيمون، پروڈون يا ان جيسي ديگر ماقبل ماركس شخصيتوں سے اپني گفتگو كا آغاز كريں اور ہيگل، سن سيمونزم يا پروڈنزم كو ايك تكامل پذير مكتب جانيں؟ اور ماركسزم كو ان مكاتب كے مراحل ميں سے ايك مرحلہ قرار ديں؟

ہمارے خيال ميں ماركس كے تناقصات كا سبب يہ ہے كہ ماركس بيش تر ماركسٹوں كي نسبت كم تر ماركسٹ ہے، كہتے ہيں كہ اس نے ماركسٹوں كے ايك مجمع ميں جہاں وہ اپنے پچھلے نظريہ كے برخلاف نئے نظريہ كي حمايت ميں بول رہا تھا اور سننے والے اس كي گفتگو برداشت نہيں كر رہے تھے، كہا: ”ميں اس پائے كا ماركسٹ نہيں ہوں جس پائے كے ماركسٹ آپ لوگ ہيں“ نيز يہ بھي كہا جاتا ہے كہ اس نے اپني عمر كے آخري حصے ميں كہا: ”ميں قطعاً ماركسٹ نہيں ہوں ۔“

اپنے بعض نظريات ميں ماركسزم سے ماركس كي جدائي كا سبب يہ تھا كہ ماركس كي ہوشمندي اور اس كے فكر و فہم كي بلندي سے يہ بات دور تھي كہ وہ سو فيصد ماركسٹ بن جائے۔ مكمل ماركسٹ بننا كسي قدر حماقت كا متقاضي ہے، تاريخي ميٹريالزم جو ماركسزم كا ايك حصہ ہے اور جس پر ہماري گفتگو جاري ہے۔ جيسا كہ پہلے عرض كيا جا چكا ہے، كچھ ”اصول“ اور ”نتائج“ كا حامل ہے اور صرف ماركس كا ”عالم ہونا“ ہي نہيں بلكہ اس كا فلسفي ہونا اور اس كا مفكر ہونا، اسے اس بات كي اجازت نہيں ديتا تھا كہ وہ ان اصولوں اور نتائج كا ہميشہ پاپند رہے، اب ہم تنقيدات كي طرف آتے ہيں:

۱۔ بے دليل ہونا

سب سے پہلے تنقيد يہ ہے كہ نظريہ ايك بلا دليل تھيوري كي حد سے آگے نہيں بڑھتا۔ ہونا يوں چاہيے كہ ايك تاريخي فلسفي نظريہ يا تو اپنے زمانے كے عيني تاريخي حقائق كے تجربے پر مبني ہو اور اسے دوسرے ادوار پر عموميت دي جائے يا پھر يہ نظريہ ايسا ہو، جو ثابت اور مسلمہ فلسفى، منطقي اور علمي اصولوں كي بنياد پر علم منطق كے قياس و استدلال كے انداز پر ثابت ہو سكے ۔

تاريخي ميٹريالزم كي تھيوري ان ميں سے كسي روش ميں مبني نہيں۔ اس راستے سے نہ تو ان حقائق كي توضيح ہوتي ہے، جو ماركس اور اينجلز كے زمانے سے متعلق ہيں، يہاں تك كہ اينجلز خود اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ ميں نے اور ماركس نے اہميت معاشيات كے بارے ميں اپني بعض كتابوں ميں وہاں غلطي كا ارتكاب كيا ہے، جہاں ہم نے اپنے زمانے كے حقائق كا تجزيہ كيا ہے، چونكہ ہم خود حقائق كا سامنا كر رہے ہيں، ان غلطيوں سے مبرا ہيں، چند ہزار سالہ انساني تاريخ بھي ان كي تائيد نہيں كرتى، يہاں تك كہ انسان جب فلسفي فرمودات كي كتب كا مطالعہ كرتا ہے، جن ميں گذشتہ تاريخ كي ماديت تاريخ كے حوالے سے توجيہ ٹھونسي گئي ہے، تو ان لوگوں كي توجيہ و تاويل پر سخت حيرت ہوتي ہے، مثلاً كتاب تاريخ جہان ميں ۔۔۔(۴۵)

۲۔ بانيان مكتب كي تجديد نظر

جيسا كہ ہم بار بار عرض كر چكے ہيں، ماركس معاشرے كي معاشي بنياد كو اصلي اور باقي پہلوؤں كو اس بنياد پر تعميرات سے تعبير كرتا ہے اور اس تعبير سے معاشي بنياد پر تمام بنيادوں كي يكجانبہ وابستگي كا پتہ چلتا ہے، علاوہ بريں ماركس اپنے متعدد مذكورہ بيانات ميں اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ تاثير اور وابستگي يك جانبہ ہے، يعني معاشي عوامل تاثير مرتب كرنے والے عوامل ہيں اور باقي تمام شعبے تاثير لينے والے ہيں۔ معاشي عوامل خود سے آزادانہ طور پر عمل كرتے ہيں اور ديگر عوامل وابستہ عوامل ہيں ۔

حقيقت تو يہ ہے كہ ماركس نے يہ تصريح كي ہو يا نہ كي ہو، مادے كي روح پر، مادي ضروريات كي معنوي ضروريات پر، سوشيالوجي كي نفسيات پر اور كام كرنے كي فكر پر برتري سے متعلق ماركس كے خاص نظريات اسي نقطہ نظر كا تقاضا كرتے ہيں۔ ليكن ماركس نے اپني بہت سي تحريروں ميں جدلياتي منطق كي بنياد پر ايك اور مسئلے كو پىش كيا ہے، جسے ايك طرح كا تجديد نظر اور كسي حد تك تاريخ كي مطلق ماديت سے انحراف كہا جا سكتا ہے اور وہ ہے مسئلہ تاثير متقابل، تاثير متقابل كے اصول كي رو سے عليت كے رابطے كو يك طرفہ سمجھنا چاہيے، جس طرح ”الف“، ”ب“ كي علت اور اس ميں موثر ہے۔ اسي طرح ”ب“ بھي اپني جگہ ”الف“ كي علت اور اس كا موثر ہے بلكہ اس اصول كي بنياد پر عالم طبيعت اور معاشرے كے تمام اجزاء كے درميان ايك طرح كي وابستگي اور ايك طرح كي متقابل تاثير پائي جاتي ہے۔ مجھے في الحال اس سے كوئي بحث نہيں كہ اس صورت ميں پىش كيا جانے والا جدلياتي قانون درست بھي ہے كہ نہيں ليكن ميں يہ كہوں گا كہ اس قانون كي بنياد پر مادہ روح، كام اور فكر يا معاشي پہلو اور ديگر پہلوؤں ميں سے ايك كي دوسرے پر ترجيح كي بحث ہي بے معني ہو جاتي ہے كيوں كہ اگر دو چيزيں ايك دوسرے سے وابستہ رہيں اور ايك وجود دوسرے كے لئے ضروري ہو اور دونوں كا رہنا شرط وجود بن جائے تو پھر كسي كي ترجيح و تقدم ركھنے اور بنيادي ہونے كي بات بے معني ہے ۔

ماركس نے اپنے بعض بيانات ميں اصلي اور غير اصلي تمام امور كو معاشي بنياد كے حوالے كيا ہے اور بنياد اور عمارت كا ہرگز تذكرہ نہيں كيا، جيسا كہ ہم پہلے عرض كر چكے ہيں، وہ اپنے بعض بيانات ميں بنياد اور اس پر عمارت دونوں كي ايك دوسرے پر تاثير كا قائل ہوا ہے، تاہم اس نے اصلي اور آخري كردار انبياء كے حوالے كيا ہے، ”تجديد نظر طلبي“ ميں ماركس كي دو كتابوں ”سرمايہ“ اور ”علم اقتصاد پر تنقيد“ كے درميان موازنہ كيا گيا ہے اور يہ بتايا گيا ہے كہ كتاب ”سرمايہ“ ميں كتاب ”علم اقتصاد رپر تنقيد“ كي طرح يك طرفہ طور پر اقتصاد كي فيصلہ كن حيثيت كا ذكر كيا گيا ہے ۔ مصنف لكھتا ہے:

”اس كے باوجود ماركس نے شعوري يا غير شعوري طور پراس تعريف پر اضافہ كيا ہے اور وہ يہ ہے كہ بنياد پر عمارت بنياد كي ترجيح كے باوجود معاشرے ميں اس كے لئے بنيادي كردار ادا كر سكتي ہے ۔“(۴۶)

مولف مزيد لكھتا ہے كہ آخر حاكم اور فيصلہ كن كردار كي حامل ہونے كي حيثيت سے اقتصادي بنياد ہميشہ جو كردار ادا كرتي ہے اور اس بنيادي كردار ميں كہ جو عمارت ادا كرتي ہے، فرق كي نوعيت كيا ہے؟ يعني اگر عمارت كبھي بنيادي كردار ادا كرتي ہے، تو ايسي حالت ميں وہ حكم فرما اور فيصلہ كن حيثيت كي بھي حامل ہوگي بلكہ پھر جسے ہم عمارت كہتے ہيں، وہ عمارت نہيں رہتي بلكہ بنياد بن جاتي ہے اور بنياد عمارت كي جگہ لے ليتي ہے۔ اينجلز نے اپني عمر كے آخري حصے ميں جوزف بلاك نامي ايك شخص كے نام جو خط لكھا ہے، اس ميں وہ اس طرح گويا ہے:

”تاريخ كے مادي نظريے كے مطابق آخري مرحلے ميں تاريخ كي فيصلہ كن عامل پىداوار اور زندگي كي حقيقي تجديد ہے ۔“(۴۷)

”ميں نے اور ماركس نے اس سے زيادہ كچھ نہيں كہا ہے، اب اگر كوئي ماركس كے بعد اس گفتگو كو مسخ كر كے اس سے يہ مطلب نكالتا ہے كہ معاشي عامل ہي بطور مطلق فيصلہ كن عامل ہے، تو وہ اس عبارت كو ايك مجرد، پھيكي اور بےہودہ عبارت بناتا ہے۔ اقتصادي حالت بنياد ہے جب كہ ديگر عناصر عمارت ميں طبقاتي كشمكش كي سياسى شكل اور اس كے نتائج يعني كائناتي غلبے كے بعد كے حالات قانوني صورتيں، يہاں تك كہ شركت كرنے والوں كے ذہن ميں حقيقي كشمكشوں كے انعكاس، سياسى، قانوني اور فلسفي نظريات، مذہبى اعتقادات اور اس سے رونما ہونے والے انقلابات، تاريخي واقعات پر اثر انداز ہوتے ہيں اور اكثر حالات ميں حقيقي طور پر اس كي صورت گري كرتے ہيں۔ يہ تمام عوامل آپس ميں عمل اور رد عمل كي حيثيت ركھتے ہيں اور ان كے درميان محروم عوام كي اقتصادي تحريك اپني راہ كے تضادات كو لازماً دور كر ليتي ہے۔“(۴۸)

اس سے زيادہ تعجب خيز بات يہ ہے كہ اينجلز نے اپنے اسي خط ميں اس غلطي اور بقول خود اس كے مسخ كو ايك حد تك اپني اور ماركس كي ذمہ داري قرار ديا ہے۔ كہتا ہے:

”مجھے اور ماركس كو اس امر كے كچھ حصے كي ذمہ داري قبول كرني چاہيے كہ جو بعض اوقات اس عامل اقتصادي كو ضرورت سے زيادہ اہميت ديتے ہيں۔ ہم نے اپنے حريفوں كے مقابل بحالت مجبوري اس اقتصادي عامل كي تاكيد كي پھر ہمارے پاس اتنا وقت تھا اور نہ موقع كہ ہم ان تمام عوامل كا حق ادا كر سكيں، جو متقابل عمل ميں ان كے حصہ دار تھے ۔“(۴۹)

ليكن دوسرے لوگوں نے ماركس اور اينجلزكے اقتصادي عوامل پر انتہا پسندانہ تاكيد كو اينجلز كے اظہار خيال كے بالكل برعكس پىش كيا ہے، وہ كہتے ہيں كہ يہ انتہا پسندانہ تاكيد مخالف حريفوں كے سامنے نہيں بلكہ اس نظريے كے طرف دار قيبوں كے سامنے ان سے ان كے اسلحہ كو ہتھيانے كے لئے كي گئي ہے۔ تجديد نظر طلبي ميں ”علم اقتصاد پر تنقيد“ كي وجہ نگارش بيان كي گئي ہے، اس كتاب ميں ہر دوسري كتاب سے زيادہ عوامل اقتصادي كے يك طرفہ كردار پر زور ديا گيا ہے، ہم اس كتاب كے مقدمے كي معروف عبارت قبل ازيں نقل كر چكے ہيں، بہرحال تجديد نظر طلبي ميں ہے:

”علم اقتصاد پر تنقيد“ كي تحرير كا دوسرا سبب پروڈون كي ہنڈي سے متعلق بنيادي قوانين پر مبني كتاب تھى، اس كے علاوہ ڈاريمون پىٹر اور پروڈون كي ايك اور كتاب بھي مذكورہ كتاب كي اشاعت كا سبب بني۔ ماركس نے جس وقت ديكھا كہ ايك طرف سے اس كے رقيب يعني پروڈون كے حامي افراد اور دوسري طرف سے لاسال كے معتقدين اقتصادي عوامل پر (انقلابانہ انداز ميں نہيں بلكہ) اصلاح طلبانہ ڈھب سے زور دے رہے ہيں، تو اس نے چاہا كہ اس اسلحہ كو ان كے ہاتھوں سے چھين كر اسے انقلابى صورت ميں بروئے كار لائے۔اس كا لازمہ اس كے عقائدكي ”خشك شدگي“ اور ان كا عوام پسند ہونا تھا۔“(۵۰)

مائو نے تاريخي ماديت كے مفہوم ميں تجديد نظر اور اقتصاد كے اصل بنياد ہونے كو چين كے حالات كي صورت اور اس كردار كي توجيہ كے لئے جو انقلاب چين اور اس كي اپني قيادت نے عملاً انجام ديا ہے، يہاں تك پہنچايا ہے كہ اب يہ كہنا پڑتا ہے كہ تاريخي ميٹريالزم اور اقتصاد كي اصل بنياد ہونے كا مفہوم اور اس كے نتيجے ميں گويا سائنسي سوشلزم جو تاريخي ميٹريالزم پر مبني ہے، سوائے لفظ اور جملہ بنديوں كے اور كچھ نہيں رہا ہے ۔

مائو رسالہ تضاد ميں ”اصلي تضاد اور اس كي حقيقي سمت“ كے عنوان سے لكھتا ہے:

” ۔۔۔ كسي تضاد كي اصلي اور غير اصلي سمتيں ايك دوسرے كي جگہ لے ليتي ہيں اور اس تبديلي كے ساتھ واقعات اور اشياء كي خصلتوں ميں بھي تبديلي آجاتي ہے، كسي تضاد سے متعلق پراسيس ( Process ) يا اس كے تكامل سے متعلق كسي معين مرحلے ميں A اس كي اصلي سمت اور B غير اصلي سمت كو تشكيل ديتي ہے۔ پراسيس كے دوسرے مرحلے يا دوسرے حصے ميں كسي شے يا كسي واقعہ كے تكامل كے عمل ميں جب كوئي سمت تضاد دوسري سمت سے ٹكر ليتے ہوئے كمزور يا طاقت ور ہو جاتي ہے، تو اس كے نتيجے ميں ان دونوں سمتوں كے مقررہ مقامات ايك دوسرے سے بدل جاتے ہيں ۔“(۵۱)

اس كے بعد وہ لكھتا ہے:

”۔۔۔بعض لوگوں كا خيال ہے كہ يہ نظريہ (اصلي جہت كا بدل جانا) بعض تضادات كے سلسلے ميں درست نہيں۔ مثلاً وہ كہتے ہيں كہ پىداواري قوتيں(پىداواري قوتوں اور پىداواري روابط كے درميان تضاد ميں) كام (تھيوري اور پريكٹيكل كے مابين تضاد ميں) اور اقتصادي بنياد (اقتصادي بنياد اور عمارت كے تضاد ميں) تضاد كي اہم اور اصلي جہت كي تشكيل كرتے ہيں۔ گو تضاد كي دو سمتيں ايك دوسري سے اپني جگہ نہيں بدلتيں۔ يہ فكر صرف ميكانياتي ماديت سے مختص ہے كہ جو جدلياتي ماديت كے ساتھ كسي قسم كي قربت نہيں ركھتى، ظاہر ہے كہ پىداواري طاقتيں، كام اور اقتصادي بنياد كلي طور پر اہم اور فيصلہ كن كردار كي حامل ہيں اور اس حقيقت كا منكر شخص ميٹريالسٹ نہيں ہے۔ تاہم ہميں اس طرح ماننا ہوگا كہ پىداواري تعلقات، تھيوري اور عمارت معين شرائط كے تحت اپنے مقام پر ”اصلي اور فيصلہ كن كردار“ كے حامل ہو سكتے ہيں۔ اگر پىداواري تعلقات ميں تبديلي كے بغير رشد و تكامل تك نہيں پہنچ سكتے، تو پھر پىداواري تعلقات كي تبديلي ازلي اور فيصلہ كن كردار كي حامل ہو سكتي ہے۔ اگر لينن كي اس گفتگو كو كہ ”انقلابي تھيوري كے بغير كسي انقلابى تحريك كا وجود نا ممكن ہے ۔“ آج كے دستور ميں شامل كر ليا جائے، تو انقلابى نظريے كي تخليق اور اشاعت بنياد ي اور فيصلہ كن كردار حاصل كر لے گي۔ اگر عمارت(سياست اور كلچر وغيرہ) اقتصادي بنياد كي رشد و تكامل ميں ركاوٹ بن جائے تو اس منزل پر سياسى اور ثقافتي تحولات اصلي اور فيصلہ كن كردار كے حامل ہوجائيں گے، كيا ہم نے اس اصول كے تحت ميٹريالزم كي تنقيض و نفي كر دي ہے؟ ہرگز نہيں، اس لئے كہ ہم اس بات كو مانتے ہيں كہ تاريخ كي پىش رفت كے عمومي راستے ميں مادہ، روح كے لئے فيصلہ كن كردار ادا كرتا ہے اور وجود اجتماعى، اجتماعى شعور كو معين كرتا ہے، ليكن ساتھ ہي ہم اس بات كو بھي مانتے ہيں اور ماننا بھي چاہيے كہ روح، مادہ پر، اجتماعى شعور، اجتماعى وجود پر، اقتصادي بنياد، عمارت پر متقابل اثرات كے حامل ہيں، اس طرح نہ صرف يہ كہ ہم ميٹريالزم كي تنقيض و نفي نہيں كرتے، بلكہ ميكانياتي ماديت كو رد كر كے جدلياتي ماديت كي حمايت كرتے ہيں ۔“۵۲

جناب مائو نے اپني گفتگو ميں تاريخي ميٹريالزم كي مكمل تنقيض كي ہے۔ جناب مائو كہتے ہيں:

”اگر پىداواري تعلقات پىداواري قوتوں كے رشد و كمال كے آڑے آتے ہيں ۔“ يا پھر ان كي يہ بات: ”جس دم انقلابى تحريك انقلابى نظريے كي محتاج ہو“، يا يہ گفتگو كہ”اگر عمارت بنياد كي ترقي و تكامل كي راہ ميں حائل ہو“ يہ تمام باتيں وہ ہيں جو ہميشہ سے ہوتي چلي آئي ہيں اور انہيں ہونا بھي چاہيے ليكن تاريخي ميٹريالزم كے مطابق پىداواري قوتوں كا ارتقاء لازمي طور پر پىداواري تعلقات ميں تبديلي پىدا كرتا ہے۔ انقلابى تبديلي جبراً از خود پىدا ہو جاتي ہے اور عمارت جبراً بنياد كي پىروي ميں دگر گوں ہوجاتي ہے ۔“

كيا ماركس نے كمال صراحت كے ساتھ ”انتقاد بر اقتصاد“ كے مقدمہ ميں يہ نہيں كہا:

”معاشرے كي پىداواري طاقتيں، ترقي و تكامل كے ايك خاص مرحلے ميں موجود پىداواري روابط يا روابط مالكيت جو پىداواري قانوني اصطلاح ہے اور پىداواري قوتيں اب تك جن تعلقات ميں اپنا عمل جاري ركھے ہوئے تھيں، سے ٹكرا جاتے ہيں۔ يہ تعلقات جو ماضي ميں توليدي طاقتوں كي ترقي كا ذريعہ تھے، اب ان كي راہ ميں حائل ہو جاتے ہيں اور پھر معاشرتي انقلاب كا دور شروع ہوجاتا ہے اور معاشي يا اقتصادي اساس ميں تبديلي ساري عمارت كو كسي قدر سرعت كے ساتھ تباہ كر ديتي ہے ۔“(۵۳)

پيداواري طاقتوں كي ترقي كي راہ كھولنے كے لئے پىداواري روابط كي تبديلي كا پىداواري قوتوں ميں رشد كا تقدم، انقلابى فكر كو انقلابى عمل ميں بدلنے كے لئے انقلابى تھيورى كي تدوين كا تقدم، بنياد ميں تبديلي لانے كے لئے عمارت ميں تبديلى، كام پر فكر اور مادہ پر روح كے تقدم كے معني سے واضح ہوتا ہے كہ اقتصادي شعبے كے مقابلے ميں سياسى اور فكرى شعبے كو اصالت اور استقلال حاصل ہے اور اس سے ماديت كي نفي ہوتي ہے ۔

مائو كا يہ كہنا كہ ”تاثير كو يك طرف جاننے كا مطلب جدلياتي ماديت كي تنقيض ہے ۔“

درست ہے ليكن اس كا كيا كيا جائے كہ سوشلزم كي اساس اسي كي ضد پر قائم ہے، لہٰذا مجبوراً يا تو علمي سوشلزم كو ماننا اور جدلياتي منطق كي ترديد كرنا ہوگي يا پھر جدلياتي منطق كو ماننا اور علمي سوشلزم كو رد كرنا ہوگا ۔

علاوہ بر يں جناب مائو كہتے ہيں:

”ہم جانتے ہيں كہ تاريخ كي پىش رفت كے عمومي عمل ميں مادہ روح كے لئے معاشرتي وجود، معاشرتي شعور كے لئے فيصلہ كن كردار ادا كرتے ہيں، اس سے وہ كيا كہنا چاہتے ہيں! جب يہ بات تسليم كر لي گئي كہ اصلي تضادات كي سمتيں آپس ميں بدلتي رہتي ہيں، تو پھر كبھي پىداواري طاقتيں پىداواري تعلقات كو معين كرتي ہيں اور كبھي اس كے برعكس، كبھي سياست، كلچر، طاقت، مذہب اور ان جيسي چيزيں معاشرے كي اقتصادي بنياد كو تبديل كرتي ہيں اور كبھي اس كے برعكس، پس كبھي مادہ، روح كو معين كرتا ہے اور كبھي اس كے برعكس، كبھي سماجي وجود، سماجي شعور كا خلق ہے اور كبھي برعكس ۔“

حقيقت تو يہ ہے كہ جناب مائو نے جو كچھ تضادات كي بنيادي سمتوں كے تبديل ہونے كے بارے ميں كہا ہے، وہ دراصل مائوازم كي توجيہ ہے كہ جو ماركسزم كے تاريخي ميٹريالزم كي توجيہ كے بجائے عملاً اس كي ضد بن گئي ہے۔ ہر چند كہ وہ اسے بظاہر توجيہ ہي كي صورت ديتے ہيں، مائو نے عملاً يہ ثابت كيا ہے كہ وہ بھي ماركس كي طرح اس سے زيادہ سمجھ دار ہے كہ ہميشہ ماركسٹ رہے، مائو كي قيادت ميں آنے والے انقلاب چين نے عملي طور پر سائنٹفك سوشلزم اور تاريخي ميٹريالزم اور بالآخر ماركسزم كي نفي كر دي ہے ۔

چين نے مائو كي قيادت ميں كسانوں كے ذريعے چين كے قديم جاگيردارانہ نظام كو الٹ ديا اور اس كي جگہ سوشلزم كو رائج كيا، حالانكہ سائنٹفك سوشلزم اور تاريخي ميٹريالزم كي رو سے اس ملك كو جو جاگير دارانہ نظام كے مرحلے سے گذر رہا ہو، بااعتبار ترتيب كيپٹل ازم اور صنعتي مرحلے ميں داخل ہونا چاہيے اور اس مرحلے ميں ترقي كي معراج پر پہنچنے كے بعد سوشلزم كي طرف بڑھنا چاہيے۔ تاريخي ميٹريالزم كي رو سے جس طرح نطفہ ماں كے رحم ميں دو مرحلے ايك ساتھ طے نہيں كر سكتا، معاشرہ بھي منظم اور سلسلہ وار مراحل سے گذرے بغيرآخري مرحلے تك نہيں پہنچ سكتا، ليكن مائو نے عملاً دكھا ديا كہ وہ ايسي دايہ ہے، جو چار مہينے كے جين كو صحيح وسالم مكمل اور بے عيب دنيا ميں لا سكتي ہے۔ اس نے دكھا ديا كہ ماركس كے دعوے كے برخلاف، قيادت، جماعتي ترتيب، سياسى سرگرمياں، انقلابى تھيورى، معاشرتي معلومات گويا وہ تمام چيزيں جنہيں ماركس شعوري نوعيت ديتا ہے، وجودي نہيں، عمارت سمجھتا ہے، بنياد نہيں اور جن كے لئے وہ اصالت كا قائل نہيں پىداواري تعلقات كو بدل سكتي ہيں اور ملك كو صنعتي بنا سكتي ہيں اور اس طرح عملاً سائنٹفك سوشلزم كو نظر انداز كر سكتي ہيں ۔

مائو نے ايك اور طرح سے بھي تاريخ كے ماركسي نظريے كي تنقيض كي ہے:

”ماركسي نظريے يا كم از كم خود ماركس كے اعتبار سے، كسان طبقے كے پاس اگرچہ انقلابى ہونے كي پہلي اور دوسري شرط جو استحصال يافتہ ہونے اور مالكيت نہ ركھنے سے عبارت ہے، موجود ہے ليكن اس ميں تمركز، تعاون، تفاہم اور اپني طاقت سے آگاہي پر مبني تيسري شرط موجود نہيں، لہٰذا كسان طبقہ كبھي بھي كسي انقلابى جدوجہد كو اپنے ذمہ نہيں لے سكتا، زيادہ سے زيادہ يہ ہو سكتا ہے كہ كسي نيم زرعي اور نيم صنعتي معاشرے ميں كسان طبقہ پرولتاريا كے انقلابى طبقے كا پىروكار بن جائے، بلكہ ماركس كي نظر ميں كسان طبقہ ذاتاً پست، رجعت پسند اور ہر طرح كي انقلابى تخليق سے خالي ہے۔(۵۴)

ماركس اينجلز كے نام اپنے ايك خط ميں پولينڈ كے انقلاب سے متعلق موضوع ميں ديہاتيوں كے بارے ميں لكھتا ہے:

”ديہاتيوں، ذاتاً رجعت پسند، ان پست لوگوں كو۔۔كبھي جنگ ميں نہيں بلانا چاہيے ۔“(۵۵)

ليكن مائو نے اسي بالذات رجعت پسند طبقے اور انہيں پست فطرتوں كو جنہيں جنگ اور پىكار ميں نہيں بلانا چاہيے، ايك انقلابى طبقہ بنايا اور ايك قديم حكومت كا تختہ الٹ ديا۔ ماركس كي نگاہ ميں كسان صرف يہي نہيں كہ كسي ملك كو سوشلزم كي طرف نہيں لے جا سكتے بلكہ جاگيردارانہ نظام كي كيپٹل ازم ميں منتقلي ميں بھي ان كا كوئي حصہ نہيں، وہ طبقہ جو معاشرے كو فيوڈالزم سے كيپٹل ازم ميں منتقل كرتا ہے اور اس تاريخي لمحے ميں انقلابى خصلت كا حامل ہوتا ہے، بورژوائي طبقہ ہے نہ كہ كسان، ليكن مائو نے اسي پست اور بذاتہ رجعت پسند طبقے كے ذريعے دو منزلوں كو ايك ساتھ طے كر ليا اور فيوڈالزم سے ايك دم سوشلزم ميں آپہنچا۔

پس مائو كو يہ حق پہنچتا ہے كہ وہ ماركسزم سے اتني دوري اختيار كرنے كے ساتھ مائوازم كي توجيہ كے لئے تضادات كي اصلي سمتوں كے تبديل ہونے كي بات كرے اور زبان پر لائے بغير اس طرح ظاہر كرے كہ گويا وہ ماركسزم، تاريخي ميٹريالزم اور سائنٹفك سوشلزم كي عالمانہ تفسير كر رہا ہے ۔

مائو نے اس درس كو كہ”ايك ماركسٹ كے لئے ضروري ہے وہ بوقت ضرورت عملاً ماركسزم سے عليحدہ ہوجائے، اپنے معتبر پىش رو ”لينن“ سے سيكھا۔لينن نے مائو سے پہلے روس ميں انقلاب بپا كيا اور يہ وہ وقت تھا جب روس ايك نيم صنعتي اور نيم زرعي ملك تھا، اس نے پہلي بار ايك سوشلسٹ ملك كي بنياد ڈالي۔ لينن نے ديكھا كہ اس كي عمر اس بات كے لئے كافي نہيں ہے كہ وہ اتنا صبر كرے كہ روس ايك مكمل صنعتي ملك بن جائے اور كيپٹل ازم اور محنت كشوں كا استحصال آخري مرحلہ تك پہنچ جائے اور شعور كو بيدار كرنے والي تحريك بطور خود ايك انقلاب برپا كر دے اور ايك مكمل تبديلي سامنے آئے، اس نے ديكھا كہ اگر وہ اس انتظار ميں بيٹھا رہے كہ اس حاملہ عورت كي حاملگي كا دور ختم ہو، اسے درد زہ رونما ہوا اور پھر وہ دايہ كے فرائض انجام دے تو اسے دير ہوجائے گي لہٰذا اس نے عمارت سے اپنا كام شروع كيا، اس نے پارٹى، سياست، انقلابى نظريے، جنگ اور طاقت سے كام لے كر روس كے نيم صنعتي ملك كو آج كا ايك سوشلسٹ ملك بنا ديا ۔

لينن نے عملي طور پر اس ضرب المثل كو سچ كر دكھايا كہ ”ايك گرہ سينگ ايك گز لمبي دم سے بدر جہا بہتر ہے“ وہ ماركس كي ايك گز لمبي دم كے انتظار ميں نہيں بيٹھا كہ روسي معاشرے كي اقتصادي بنياد اپنے آپ ڈائنامك تحريك سے كبھي كوئي شورش بپا كرے اور انقلاب رونما ہو، اس نے اپني زرد سياست، جماعتي تعليمات اور سياسى آگاہي پر مبني ايك گرہ والي ”سينگ“ سے استفادہ كيا اور كامياب رہا۔

۳۔ بنياد اور عمارت كے جبري تطابق كا بطلان

تاريخ ماديت كے نظريے كي رو سے معاشروں ميں ہميشہ يہ ضروري ہے كہ عمارت اور بنياد كے درميان ايك طرح كي مطابقت پائي جائے اور وہ اس طرح ہو كہ عمارت سے بنياد اور بنياد سے عمارت كي شناخت ہو سكے۔ (جيسے علم منطق ميں برہان اني ہوتي ہے، جس سے حاصل ہونيوالي معرفت نيم كامل ہوتي ہے اور برہان لمي سے حاصل ہونيوالي معرفت كامل ہوتي ہے) اگر بنياد دگرگوں ہو اور عمارت و بنياد كا تطابق بگڑ جائے تو لازماً معاشرے كا توازن بھي بگڑ جائے گا اور ايك بحران رونما ہوگا جس كے نتيجے ميں بہرحال عمارت كم و بيش تيزي كے ساتھ تباہي سے دوچار ہوگى، مگر جب تك بنياد اپني پہلي حالت پر باقي رہے گي۔ عمارت بھي لازمي طور پر اپني جگہ پر مستحكم رہے گى، دور حاضر كے تاريخي واقعات نے عملاً اس كے اُلٹ ثابت كيا ہے، ماركس اور اينجلز نے اقتصادي بحرانات جو ۱۸۲۷ء سے ۱۸۴۷ء كے دوران رہے، كے بعد سياسى اور اجتماعى انقلابات ديكھے اور يہ سمجھے كہ معاشرتي انقلابات اقتصادي بحرانوں كا ضروري اور لاينفك نتيجہ ہوتے ہيں ۔

ليكن مولف ”تجديد نظر طلبي“ كہتا ہے كہ:

”تاريخ كا مذاق ديكھئے كہ ۱۸۴۷ء سے آج تك صنعتي ممالك ميں ہميں كوئي ايسا اقتصادي بحران نظر نہيں آيا، جو انقلاب ساتھ لايا ہو، اسي ماركس كے زمانے ميں اور اس كي موت سے پہلے چار مرتبہ پىداواري طاقتيں پىداواري تعلقات سے ٹكرائيں اور كوئي انقلاب نہيں آيا اور بعد ميں جے شويسٹر جيسے بعض ماہرين معاشيات اس نتيجے پر پہنچے كہ انہوں نے ان بحرانات كو ”تعميري تباہي“ كہا اور معاشي توازن اور ترقي كو واپس پلٹانے كے لئے انہيں ايك قابل اطمينان دريچہ قرار ديا ۔“

انگلينڈ، جرمنى، فرانس اور امريكہ جيسے ملكوں نے عظيم صنعتي ترقياں حاصل كيں اور سرمايہ داري كو اپني انتہائي بلندي تك پہنچايا۔

ماركس كا خيال تھا كہ يہ وہ ممالك ہوں گے، جن ميں سب سے پہلے مزدور رہنما انقلاب رونما ہوگا اور يہ سب سوشلسٹ بن جائيں گے، مگر اس كے برعكس ان كے سياسى، قانوني اور مذہبى نظام اور وہ كچھ كہ جسے وہ عمارت كہتا تھا، ميں كوئي تبديلي نہيں آئى، جس بچے كي پىدائش كا ماركس كو انتظار تھا اس نے اپنے نو ماہ پورے كر لئے اور نو سال بھي گذار ديئے بلكہ ۹۰ سال بھي بيت گئے، مگر ابھي تك پىدا نہيں ہوا اور اب آئندہ بھي اس كے پيدا ہونے كي اميد نہيں ہے۔

البتہ يہ حكومتيں جلد يا بدير ختم ہونے والي ہيں، ليكن ان ملكوں ميں جس انقلاب كي اميد كي جارہي ہے، وہ قطعاً مزدور انقلاب نہيں ہوگا اور تاريخ كا ماركسي نظريہ كسي طرح بھي درست ثابت نہيں ہوگا اور يہي حال سوشلسٹ ممالك اور ان پر حكومت كرنے والوں كا بھي ہوگا، يہ بھي اپنے اس حال ميںباقي نہيں رہيں گے، ليكن آئندہ آنے والي حكومت ہرگز سرمايہ دارانہ حكومت نہيں ہوگي ۔

ان كے مقابلے ميں ہم ديكھتے ہيں كہ مشرقي يورپ، ايشياء اور جنوبي امريكہ ميں بعض ممالك سوشلزم تك آپہنچے ہيں، جب كہ ابھي ان كے جننے كا موقع نہيں آيا تھا، آج ايسے ممالك بھي ہمارے سامنے ہيں، جو بنياد، كے اعتبار سے ايك دوسرے كے مشابہ اور برابر ہيں، ليكن عمارت كے لحاظ سے ايك دوسرے سے مختلف ہيں، اس كي بہترين مثال امريكہ اور روس ہيں، امريكہ اور جاپان بھي ايك جيسي حكومت (سرمايہ دارانہ نطام) كے حامل ہيں، ليكن سياست، مذہب، اخلاق، آداب اور فنون ميں يہ دونوں ايك دوسرے سے مختلف ہيں، ليكن ان كے مقابل ايسے ممالك بھي ہيں جو مكمل طور پر معاشي حالات كے ساتھ مذہبى اور سياسى نظام كے اعتبار سے يكساں اور مشابہ عمارت كے حامل ہيں۔ يہ باتيں ہميں بتاتي ہيں كہ بنياد اور اس پر قائم عمارت كے درميان وہ ضروري تطابق جو تاريخي ميٹريالزم كا لازمہ ہے، سوائے توہم كے اور كچھ نہيں ۔

۴۔ آئيڈيالوجى كي اپنے دور سے عدم مطابقت

جيسا كہ ہم پہلے بيان كر چكے ہيں، تاريخي ماديت كي رو سے تاريخ كے كسي بھي دور ميں عمارت، بنيادپر سبقت نہيں لي جا سكتي۔ لہٰذا ہر دور كي معلومات لازماً اسي دور سے وابستہ ہوتي ہيں اور جب وہ دور ختم ہوجاتا ہے، تو وہ معلومات بھي كہنہ اور منسوخ ہوجاتي ہيں اور تاريخ كے ريكارڈ ميں محفوظ كر لي جاتي ہيں۔ معلومات، فلسفے، منصوبے، پىش گوئياں اور مذاہب سب اسي دور كے تقاضوں كي جبري پىداوار ہيں، جس ميں وہ ظہور پذير ہوئي ہيں اور دوسرے دور كے تقاضوں كے ساتھ ميل نہيں كھاتيں، ليكن عملاً اس كے برعكس ثابت ہوا ہے، اديان و مذاہب كا ذكر كيا! بہت سے فلسفے، بہت سے شخصيتيں، بہت سے افكار اور كتنے ہي ايسے افكار ہيں، جنہوں نے وقت كے مادي تقاضوں كو وجود بخشا، ليكن وہ آج بھي تاريخ بشريت كے افق پر تابندہ ہيں، عجيب بات يہ ہے كہ ماركس يہاں بھي اپني بعض باتوں ميں ماركسزم سے عليحدہ ہو گيا ہے، وہ اپني معروف كتاب ”جرمن آئيڈيالوجى“ ميں لكھا ہے:

”كبھي كبھار يوں لگتا ہے كہ آگاہي اپنے ہم عصر تجربي تعلقات پر مقدم ہوگئي ہے۔ اس طرح ايك زمانہ بعد كي كشمكشوں ميں دور ماقبل كے مفكرين كي باتوں سے حجت كي حيثيت سے استفادہ كيا جا سكتا ہے ۔“(۵۶)

۵۔ ثقافتي ترقي كا استقلال

تاريخي ماديت كي رو سے معاشرے كي علمي و ثقافتي بنياد، سياست، قضاوت اور مذہب كي طرح اقتصادي بنياد سے وابستہ ہے اور اس سے ہٹ كر بطور جداگانہ اور مستقل حيثيت سے اس كي ترقي كا امكان نہيں۔ معاشرے كے پىداواري آلات اور اقتصادي بنياد كي ترقي ہي علم كو آگے بڑھاتي ہے۔ اولاً ہميں معلوم ہے كہ پىداواري آلات انساني وجود كے بغير ہرگز از خود ترقي نہيں كرتے۔ انساني عالم طبيعت اور انسان كي محنت طلب، جستجو مل جل كر پىداواري آلات كو ترقي اور تكامل سے ہمكنار كرتے ہيں۔ پىداواري آلات اور انسان كي ترقي و تكامل باہم مربوط ہيں، ليكن يہاں موضوع گفتگو يہ ہے كہ ان ميں كون كس پر مقدم ہے؟ كيا انسان پہلے كچھ دريافت كرتا ہے اور پھر اسے عمل كي منزل ميں لاكر صنعت كو وجود عطا كرتا ہے يا پہلے صنعت وجود ميں آتي ہے اور پھر انسان كچھ دريافت كرتا ہے؟ بلاشبہ دوسري بات درست ہے ۔

ظاہر ہے كہ فني اصولوں اور سائنسي قوانين كي دريافت انسان كے تجربہ اور تجسس سے ہوتي ہے، اگر انسان عالم طبيعت كو سمجھنے كي كوشش نہ كرے، تجسس اور تجربے سے كام نہ لے تو وہ فطرت كے قوانين ميں سے كسي سائنسي قانون كو دريافت نہيں كر سكتا اور كوئي فني اصول اس كے ہاتھ نہيں لگ سكتا، بات يہ نہيں ہے، گفتگو اس امر ميں ہے كہ كيا تجسس اور تجربے كے بعد انسان كے اپنے اندر عملي نشوونما ہوتي ہے اور پھر وہ اپنے وجود كے باہر فني آلات كي تخليق كرتا ہے يا معاملہ اس كے برعكس ہے؟ بلاشبہ پہلي صورت درست ہے۔ علاوہ بريں ”رشد“ يا ”تكامل“ كي تعبير انسان كے لئے ”حقيقي“ ہے اور فني اور پيداواري آلات كے لئے ايك ”مجازي“ تعبير ہے۔ حقيقي رشد و تكامل وہ ہے، جس ميں ايك عيني حقيقت ادنيٰ سے اعليٰ مرحلے ميں آئے اور مجازي رشد وہ ہوتا ہے، جہاں ايك عيني حقيقت اپنے آپ كو تبديل نہ كرے، ايك مرحلے سے دوسرے مرحلے ميں نہ جائے بلكہ معدوم و منسوخ ہوجائے اور اس سے مختلف حقيقت اس كي جگہ لے لے۔

مثلاً بچے كا بڑا ہونا درحقيقت ايك حقيقي رشد و تكامل ہے، ليكن جب كوئي استاد كسي كلاس كو پڑھا رہا ہو اور بعد ميں اس سے زيادہ فاضل اور زيادہ تجربہ كار استاد اس كي جگہ لے لے، تو كلاس كي تدريسي حالت ميں ترقي ہوگي اور جماعت تكامل پائے گى، ليكن يہ تكامل ايك مجازي تكامل ہوگا، اوزار سازي كے دوران انساني تكامل ايك حقيقي تكامل ہے۔ واقعاً انسان روحاني طور پر نشوونما پاتا ہے اور تكامل سے ہمكنار ہوتا ہے، ليكن صنعتي تكامل موٹر كاروں كے تكامل كي طرح جس ميں ہر سال ايك نيا كامل ماڈل نئي ٹيكنيك كے ساتھ بازار ميں آجاتا ہے۔ ايك مجازي تكامل ہے يعني اس ميں ايك عيني حقيقت ادنيٰ سے اعليٰ مرحلے ميں نہيں پہنچتى، گذشتہ سال كي موٹر موجودہ سال ميں زيادہ آسائشات كي حامل نہيں ہوتى، بلكہ معدوم و منسوخ ہو جاتي ہے اور ميدان سے نكل جاتي ہے اور اس كي جگہ دوسري گاڑياں لے ليتي ہيں ۔

بعبارت ديگر ايك ”ناقص“ چيز كا خاتمہ ہوتا ہے اور دوسري ”كامل“ چيز اس كي جگہ لے ليتي ہے۔ ايسا نہيں ہوتا كہ ايك چيز دو ادوار ميں نقص سے كمال كي طرف آئے، وہاں جہاں حقيقي اور مجازي تكامل ايك دوسرے كے دوش بدوش ہوں، ظاہر ہے كہ حقيقي تكامل اور مجازي فروغ ہوگا۔ مزيد يہ كہ يہ امر صرف فني علوم كے سلسلے ميں ہے۔ طب، نفسيات، عمرانيات، منطق، فلسفہ، رياضي اور ان جيسے علوم ميں ہرگز اس طرح كي يك طرفہ وابستگي كي تائيد نہيں ہو سكتى، علوم كي پيش رفت كي اقتصادي اور مادي حالات سے وابستگي ايسي ہي ہے، جيسي اقتصادي اور مالي حالات كي علوم كي پيش رفت سے وابستگي جيسا كہ كشملر، ماركسزم كے خلاف لكھتے ہوئے كہتا ہے:

”يقينا مادي اور معاشي حالت كلچر كے عالى شان مظاہر كي لازمي شرط ہے، ليكن اتني ہي يہ بات بھي مسلم ہے كہ روحاني اور اخلاقى زندگي بذات خود بھي ايك پىش رفت كي حامل ہے ۔“(۵۷)

فرانس كا اگسٹ كانٹ انسان اور انسانيت كا خلاصہ ”ذہن“ كو قرار ديتا ہے جو انسان كي انساني صلاحيتوں كا ايك حصہ ہے اور انسان كي روحانيت كا نصف ہے۔ اگر اس كے اس بيان كا نقص دور كر ديا جائے تو اجتماعى تكامل ميں اس كا نظريہ ماركس كے نظريے سے بدرجہا بہتر اور برتر ہے۔ اگسٹ كانٹ كہتا ہے:

”تاريخ كي اجتماعى اور معاشرتيں صورتيں ايك ايسے دقيق علمي جبر كے تابع ہيں جو انسان معاشروں كے ناقابل اجتناب انقلاب كي صورت ميں انساني ذہن كے ترقياتي فرمان كے تحت ظاہر ہوتے ہيں ۔“(۵۸)

۶۔ تاريخي ميٹريالزم خود اپني تنسيخ كرتا ہے

تاريخي ماديت كي رو سے ہرفكر، ہر سوچ، ہر علمي يا فلسفي نظريہ اور ہر اخلاقى نظام چونكہ ايك خاص مادي اور معاشي شرائط كا نتيجہ ہے اور اپني مخصوص عيني شرائط سے وابستہ ہے، لہٰذا اس كي اپني كوئي مطلق حيثيت اور ساكھ نہيں ہو سكتي بلكہ اس كا تعلق اس كے اپنے خاص زمانے سے ہے اور جب وہ زمانہ بيت جاتا ہے اور مادي اور معاشي شرائط ميں تبديلي آجاتي ہے، جو جبري اور ناگزير ہوتي ہے، تو وہ فكر، وہ سوچ، وہ فلسفي يا علمي نظريہ اور وہ اخلاقى نظام بھي اپني صحت اور اپني افاديت كھو ديتا ہے اور اس كي جگہ دوسري فكر اور دوسرا نظريہ لے ليتا ہے ۔

اس بناء پر تاريخي ميٹريالزم بھي جو فلسفيوں اور بعض ماہرين عمرانيات كي طرف سے پىش كياگيا ہے، اسي كلي قانون كے دائرے ميں آتا ہے، كيونكہ يہ قانون اگر اس كے شامل حال نہ ہو تو پھر استثناء واقع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ايسا سائنسي اور فلسفي قانون يا قوانين موجود ہيں، جو اصالت ركھتے ہيں اور كسي معاشي بنياد كے تابع نہيں ہيں اور اگر خود اس قانون كے تابع ہے، تو پھر تاريخي ميٹريالزم قدر و قيمت، صحت اور افاديت كي رو سے فقط اس خاص اور محدود دور ميں صادق آتا ہے، جس ميں اس نے جنم ليا ہے، نہ اس سے پہلے كا دور اس كا ہوتا ہے اور نہ بعد كا۔ يہ تاريخي ميٹريالزم بہرحال نقص شدہ ہے، يعني تاريخي ميٹريالزم ايك تھيورى، ايك فلسفي نظريے اور بنياد كي بالائي تعمير كے عنوان سے يا تو اپنے غير ميں شامل ہے اور اپنے آپ ميں شامل نہيں كہ جس كي رو سے وہ خود اپني تنقيض كرنے والا ہے يا پھر خود اپنے ساتھ اپنے غير ميں بھي شامل ہے، ليكن ايك محدود دور كي قيد كے ساتھ، دوسرے ادوار ميں وہ نہ تو خود اپنے ميں شامل ہے اور نہ غير ميں۔عين يہي اعتراض جدلياتي پر بھي وارد ہے، جو اصول حركت اور اصول پىوستگي متقابل ہر چيز ميں حتيٰ كہ علمي اور فلسفي اصولوں ميں بھي شامل جانتا ہے اور ہم نے ”اصول فلسفہ اور روش ريالزم“ كي پہلي اور دوسري جلد ميں اس پر اچھي خاصي گفتگو كي ہے۔

يہاں سے يہ بات واضح ہوجاتي ہے كہ يہ جو كہا جاتا ہے كہ دنيا جدلياتي ماديت اور معاشرہ تاريخي ماديت كي نمائشگاہ ہے، كس قدر بے بنياد ہے، تاريخي ماديت پر دوسرے اعتراضات بھي عائد ہوتے ہيں۔ ہم في الحال اس سے صرف نظر كرتے ہيں، ميں حقيقتاً اظہار تعجب كئے بغير نہيں رہ سكتا كہ كوئي نظريہ اس حد تك بے اساس، بے بنياد اور غير سائنسي ہو اور اسي قدر اس كے سائنسي ہونے كا چرچا ہو، يہ سب پبلسٹي كے آرٹ كي كارفرمائي ہے ۔

____________________

۴.تفسير الميزان، جلد۴، ص۱۰۶.

۵.تفسير الميزان، جلد۴، ص۱۳۲ ۔۱۳۳.

۶.تفسير الميزان، جلد۴، ص۱۴.

۷.فلسفہ تاريخ ميں معروف صاحب نظر اور ماہر عمرانيات اسپنگلر كا قول جسے ”مراحل اساسي در جامعہ شناسي“ ميں ”ريمون آرون“ نے نقل كيا ہے، ملاحظہ ہو، ص۱۰۷.

۸. ڈارون كا مشہور نظريہ ”مترجم“.

۹.” تاريخ چيست؟“ ترجمہ فارسى: حسن كامشاد، مطبوعہ خوارزمى ، ص۸.

۱۰.ماركس اور ماركسزم، تاليف اينڈريو پىٹر، ترجمہ فارسى: شجاع الدين ضيائيان، ص۲۷ ، ۳۸، پانچواں ضميمہ.

۱۱.” تاريخ چيست؟“ ترجمہ فارسى: حسن كامشاد، مطبوعہ خوارزمى، ص۱۱۴، ۱۴۵.

۱۲.” تاريخ چيست؟“ ترجمہ فارسى: حسن كامشاد، مطبوعہ خوارزمى، ص۱۴۶.

۱۳.مراحل اساسي انديشہ در جامعه شناسي .فارسى.، ص۲۷.

۱۴.ماركس اور ماركسزم، تاليف اينڈريو پىٹر، ترجمہ فارسى: شجاع الدين ضيائيان، ص۳۹.

۱۵.ديكھئے: اصول فلسفہ وروش ريلزم، تقرير: علامه طباطبايى، تدوين: استاد شهيد مطہرى، جلد اول و دوم.

۱۶.ميٹريالزم تاريخى، تاليف: پى. رويان، ص۳۷.

۱۷.ديكھئے: قيام اور انقلاب مہدي از ديدگاہ فلسفہ تاريخ، تاليف استاد شهيد مطہرى.

۱۸.ماركس اور ماركسزم، تاليف اينڈريو پىٹر، ترجمہ فارسى: شجاع الدين ضيائيان، ص۴۰، ۴۱.

۱۹.مصدر سابق، ص۴۰، ۴۱.

۲۰.مصدر سابق، ص۳۹.

۲۱.فطرت كے بارے ميں مزيد تفصيل كے لئے ديكھئے اصول فلسفہ و روش رياليسم خصوصاً پانچواں مقالہ .پيدائش كثرت در ادراكات. نيز تفسير الميزان .ترجمہ فارسى. ج۱۶، ص۱۹۰ ”اخذ ميثاق“ كے بارے ميں بحث نيز استاد مطہري رحمۃ اللہ عليہ كي كتاب ”فطرت“ ديكھئے.

۲۲.ماركس و ماركسزم، ص ۲۴۶ .ضميمہ سوم. نيز ديكھئے، مراحل اساسي انديشہ در جامعہ شناسى، ص۱۶۳ اور تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ص۲۴۶.

۲۳.ماركس و ماركسزم، ۲۴۷۱، ضميمہ سوم.

۲۴.ماركس و ماركسزم، ص۳۳.

۲۵.ماركس و ماركسزم، ص۴۰.

۲۶.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ص۱۵۳.

۲۷.تجديد نظرطلبي از ماركس تا مائو، ۱:۲۲۳، بحوالہ كتاب ”آثار برگزيدہ ماركس و انگلس“ ، ماركس اور اينجلز كے منتخب افكار.

۲۸.تجديد نظرطلبي از ماركس تا مائو، ص ۱۶۷.

۲۹.مصدر سابق، ص۱۵۵.

۳۰.مصدر سابق، ۱:۱۸۱.

۳۱.مصدر سابق، ص۱۹۸.

۳۲.مصدر سابق، ص۱۸۳.

۳۳.يعني صنعتي ممالك كي صنعت اور ٹيكنالوجي اور نتيجتاً ان كي سماجي عمارت ايك معين اور ناقبل انحراف راہ ميں آگے بڑھتي ہے، معاشروں كي راہ حركت ايك معين اور مخصوص راہ ہے، موجودہ ترقي يافتہ ممالك ہر اعتبار سے ان ممالك كے لئے نمونہ ہيں، جو ابھي اس مرحلے تك نہيں پہنچے، يہ بات ناممكن ہے كہ يہ ممالك صنعتي ممالك كے موجودہ مرحلے سے گزرے بغير كسي دوسرے راستے سے تكامل كي راہ طے كريں۔

۳۴.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ۱:۲۲۵

۳۵.حقيقي طبيہ سے مراد گروہ ہے كہ جو مشترك معاشي زندگي اور مشترك مسائل كا حامل ہے، ليكن مزاجي طبقہ اس گروہ سے عبارت ہے جس كي زندگي ميں ہم آہنگي نہيں پائي جاتي اس كے باوجود وہ سب ايك آئيڈيالوجى كي پىروي كرتے ہيں۔

۳۶.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ص ۳۴۵.

۳۷.ايدئولوژي آلمانى، ترجمہ فارسى، ۱:۶۱.

۳۸.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو ، ص۳۴۷.

۳۹.مصدر سابق، ص۳۵۶.

۴۰.ديكھئے كتاب ”تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو“ صفحہ ۳۰۸ ، ۳۰۹، يہاں مذہب كے بارے ميں ماركس اور اينجلز كے مختلف نظريات نقل كئے گئے ہيں.

۴۱.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ۳۱۹:۳۲۰

۴۲.مصدر سابق، ص۳۱۹، ۳۲۰.

۴۳.مصدر سابق، ص۳۴۰.

۴۴. ڈاكٹر انور رضامہ اي نے اس كتاب كو فرانسيسي زبان ميں لكھا اور پھر فارسى زبان ميں خود اس كا ترجمہ بھي كيا۔ ڈاكٹر صاحب نے اس سليبس ميں بڑي قابل تعريف كاوش كي ہے اور مسائل كے تحليل و تجزيہ ميں بڑي شائستگي سے كام ليا ہے، وہ برسوں اسي مكتب كے معتقد اور مبلغ رہے ہيں۔

۴۵. يہاں پر استاد شہيد مطہري رحمۃ اللہ عليہ كے ہاتھ كے لكھے ہوئے نسخے ميں غالباً اس كتاب سے نقل قول كئے لئے جو باحتمال قوي ”تاريخ جہاں باستان“ سے ہے، سات سطريں چھوڑ دي گئي ہيں، ہم نے مذكورہ كتاب كو ان كے كتاب خانہ ميں تلاش كرنے كي كوششيں كي تاكہ مخصوص علامات اور سياق موضوع سے نقل قول كو ان چھوڑي ہوئي سطروں ميں جگہ دي جائے، ليكن ہميں افسوس ہے كہ اس كتاب كي چوتھي جلد جو استاد شہيد مطہري رحمۃ اللہ عليہ كے استفادہ ميں رہي ہے، كتاب خانہ ميں موجود نہ تھى، اسي لئے ہميں ان خالي سطروں كو اسي طرح خالي چھوڑنا پڑا۔ہماري درخواست ہے كہ جن صاحب نے استاد مطہري رحمۃ اللہ عليہ كي لائبريري سے اس كتاب كو بطور امانت حاصل كيا ہے، اسے لوٹا ديں تاكہ بعد كي طباعت ميں ان اسناد كو پىش كيا جا سكے ۔.ناشر.

۴۶.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ۱:۲۲۲.

۴۷.جيسا كہ مولف نے ياد دلايا ہے كہ يہاں اينجلز نے پىداوار اور زندگي كي حقيقي تجديد كے الفاظ استعمال كئے ہيں اور مادي و اقتصادي پىداوار كے نہيں كہے، جيسا كہ اينجلز نے كتاب”منشا خانوادہ، دولت، ماليت خصوصي“ميں وضاحت كي ہے كہ پىداوار فقط وسائل معيشت كي پىداوار نہيں بلكہ انسانوں كي پىداوار بھي اس ميں شامل ہے اس طرح اس نے گويا اشارتاً معاشيات كے فيصلہ كن عامل ہونے كي نفي كي ہے اور جنسي عامل كو بھي ساتھ شامل كيا ہے، يہ بھي تاريخي ماديت سے ايك طرح كا عدل ہے۔

۴۸.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ص۲۸۱۔۲۸۲.

۴۹.ماركس و ماركسزم، ص ۲۴۵، يہ عذر گناہ بدتر از گناہ كے مصداق پر ايك طرح كي ڈھٹائي ہے يا كم از كم مصلحت پر حقيقت كو قربان كرنا ہے.

۵۰.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ص۲۱۸، ۲۱۹.

۵۱.چہار رسالہ فلسفى، ص۵۴ - ۵۵.

۵۲.مصدر سابق، ص۵۴، ۵۵.

۵۳.ماركس و ماركسزم، ۲۴۳.

۵۴.تجديد نظر طلبي از ماركس تا مائو، ص۲۶۸.

۵۵.مصدر سابق، ص۳۴۸.

۵۶.مصدر سابق، ۱۷۲

۵۷.مصدر سابق، ص۲۳۹.

۵۸.عمرانيات ميں فكر كے اساسي مراحل، ص۱۰۲.