معاشرہ اور تاريخ

معاشرہ اور تاريخ0%

معاشرہ اور تاريخ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 9522
ڈاؤنلوڈ: 2547

تبصرے:

معاشرہ اور تاريخ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9522 / ڈاؤنلوڈ: 2547
سائز سائز سائز
معاشرہ اور تاريخ

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف:
اردو

اسلام اور تاريخي ماديت

كيا اسلام تاريخي ماديت كا حامي ہے؟ كيا ان تاريخي واقعات كي توجيہ و تحليل ميں جو قرآن ميں آئے ہيں، قرآن كي منطق تاريخي ماديت پر مبني ہے؟بعض لوگوں كا خيال يہي ہے۔ ان كا دعويٰ ہے كہ ماركس سے كم از كم ہزار سال پہلے قرآن محمدي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں تاريخ كي توجيہ و تحليل اسي بنياد پر ہوئي ہے۔ عراق كے شيعہ اساتيد ميں ڈاكٹر علي الوردي جنہوں نے كئي ہنگامہ خيز كتابيں لكھي ہيں، جن ميں مشہور كتاب ”منزل العقل البشري“ بھي شامل ہے، انہي لوگوں ميں سے ہيں اور شايد يہ وہ پہلے شخص ہيں، جنہوں نے اس مسئلے كو چھيڑا ہے، آج كل بعض مسلمان صاحبان قلم كے نزديك زبان اسلام سے اس طرح كا تاريخي جائزہ ايك طرح كي روشن فكرى سمجھي جاتي ہے اور يہ اس دور كا ايك مشن ہوگيا ہے ۔

ہماري نگاہ ميں جو لوگ اس طرح سوچتے ہيں، وہ اسلام كو صحيح طرح سے سمجھ نہيں پائے يا تاريخي ماديت صحيح طور پر ان كے مطالعے سے نہيں گذري يا پھر دونوں كو سمجھنے سے قاصر ہيں ۔

تاريخي ميٹريالزم كے جن ”پانچ مباني“ اور ”چھ نتائج“ كي ہم پہلے تشريح كر چكے ہيں، وہ اسلامي منطق سے واقف افراد كو يہ بتانے كے لئے كافي ہے كہ اسلامي منطق اور تاريخي ماديت دو بالكل مختلف اور متضاد چيزيں ہيں ۔

معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں يہ طرز فكر، خاص طور پر اس وقت جب اس پر جھوٹا اسلامي رنگ چڑھ جائے اور اسلام كي مہر تائيد اس پر ثبت ہوجائے، اسلامي كلچر، معارف اور نظريے كے لئے انتہائي خطرناك ہے۔ ہم يہ ضروري سمجھتے ہيں كہ جن مسائل نے اس توہم كو پيدا كيا ہے يا ممكن ہے، جن كي وجہ سے لوگ اس توہم كا شكار ہو كر يہ سمجھ بيٹھيں كہ اسلام اقتصاد كو معاشرے كي بنياد سمجھتا ہے اور تاريخ كي ہويت كو مادي گردانتا ہے، انہيں سامنے لائيں اور ان كا جائزہ ليں ۔

يہاں اس بات كي وضاحت بھي ضروري ہے كہ جن مسائل كو ابھي ہم پيش كريں گے، وہ ان سے كہيں زيادہ ہمہ گير ہيں، جنہيں خود انہوں نے پيش كيا ہے۔ ان افراد نے دو تين آيتوں اور دو تين حديثوں كا سہارا ليا ہے، ليكن ہم ان مسائل كو بھي پيش كريں گے، جنہيں ان لوگوں نے پيش نہيں كيا اور ممكن ہے بعد ميں كبھي انہيں دليل بنايا جائے ۔اس طرح ہم اپني بحث ايك جامع اور كامل صورت ميں آپ كے سامنے پيش كريں گے:

۱۔ قرآن نے بہت سے معاشرتي يا اجتماعي مسائل پيش كئے ہيں۔ معاشرتي بحثوں ميں ہم نے قرآن كے وہ الفاظ جو اجتماعي مفہوم ركھتے ہيں، تقريباً پچاس ذكر كئے تھے۔ قرآن كي ان آيات كے مطالعے سے جن ميں يہ الفاظ استعمال ہوئے ہيں، معاشرہ كچھ دو طبقاتي نوعيت كا دكھائي ديتا ہے۔ قرآن ايك طرف سے معاشرے ميں دو طبقاتي كيفيت كو مادي اساس پر يعني مادي استفادہ اور مادي محروميوں كي بنياد پر پيش كرتا ہے اور ان ميں سے ايك طبقے كو ” مََلَأ “ (صاحب جاہ و جلال و تمكنت) ”مستكبر“، ”مسرف“ اور ”مُترف“ اور دوسرے طبقے كو”مستضعف“ (ضعيف و كمزور قرار ديئے جانے والا، ”ناس“، عوام، ”ذريہ“ (چھوٹے، ناقابل وجہ اور ”ملا“ كے مقابل قرار پانے والے)، ”اراذل“ اور ”ارذلون“ (پست اور بے سروپا لوگ) (بہ تعبير قرآن اپني زبان سے نہيں بلكہ مخالفين كي زبان سے نقل كرتا ہے) كے عناوين سے ياد كرتا ہے اور ان دو طبقوں كو ايك دوسرے كے مقابل قرار ديتا ہے اور دوسري طرف معاشرے كي دو طبقاتي كيفيت كو معنوي مفاہيم كي بنياد پر پيش كرتا ہے، ان ميں سے ايك طبقہ كافروں، مشركوں، منافقوں، فاسقوں اور مفسدوں كا ہے اور دوسرے طبقے ميں مومنين، موحدين، متقين، صالحين، مجاہدين اور شہداء شامل ہيں۔ اگر ہم قرآن مجيد كي آيتوں پر غور كريں، جن ميں دو مادي اور دو معنوي طبقات كو پيش كيا گيا ہے، تو ہم ديكھيں گے كہ پہلے مادي طبقے، پہلے معنوي طبقے اور اسي طرح دوسرے مادي طبقے، دوسرے معنوي طبقے كے درميان ايك طرح كا تطابق پايا جاتا ہے، يعني كافروں، مشركوں، منافقوں كا گروہ مستكبروں، مسرفوں، مترفوں، طاغوتوں اور ملاء كے مفہوم ميں آنے والے لوگوں كا گروہ ہے، كوئي اور نہيں اور نہ يہ ہے كہ كوئي الگ گروہ ہو، ان سے اور ان كے علاوہ دوسرے لوگوں سے مركب ہو اور مومنين، موحدين، صالحين اور مجاہدين كا گروہ فقراء، مساكين، خدمت گار، مظلوم، اور محروم اور مستضعف لوگوں كا گروہ ہي ہے، كوئي اور نہيں اور نہ ان سے اور ان كے علاوہ دوسرے لوگوں سے تشكيل پانے والا كوئي گروہ ہے۔

پس مجموعي طور پر معاشرہ سے زيادہ طبقات كا حامل نہيں، ايك بہرہ مند، ظالم اور استعمار گر طبقہ، جس ميں تمام كافرين آتے ہيں اور دوسرا مستضعف گروہ جو مومنين سے مركب ہے اور اس سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ معاشرہ اس استضعاف گر اور استضعاف شدہ طبقوں ميں منقسم ہے اور اسي سے كافر اور مومنين گروہوں كي تشكيل ہوئي ہے۔ مستضعف بنانے كا عمل شرك، كفر، نفاق اور فسخ و فجور سے ابھرتا ہے اور استضعاف شدگي ايمان، توحيد، صلاح، اصلاح اور تقويٰ سے ظہور پذير ہوتي ہے، اس تطابق كي وضاحت كے لئے كافي ہے كہ ہم سورہ اعراف كي ان چاليس آيتوں كا مطالعہ كريں، جو انسٹھويں آيت ”لقد ارسلنا نو حا الي قومہ“ سے شروع ہو كر۱۳۷ويں آيت، ”ودمرنا ماكان يصنع فرعون وقومہ وما كانوا يعرشون“ پر ختم ہوتي ہيں، ان چاليس آيتوں ميں حضرات نوح، ہود، صالح، لوط، شعيب اور موسيٰ عليہ السلام كے واقعات كا تذكرہ ہے۔ ان تمام واقعات ميں (سوائے لوط عليہ السلام كے واقعہ كے) يہ بات ديكھنے ميں آتي ہے كہ ان تمام پيغمبروں پر ايمان لانے والے لوگ مستضعف طبقے سے تعلق ركھنے والے ہيں، جب كہ جنہوں نے ان كي مخالفت كي ہے اور كفر اختيار كيا ہے۔ ان كا تعلق ملاء و مستكبر طبقہ سے ہے۔(۵۹) اس تطابق كي سوائے طبقاتي وجدان كے جو تاريخي ماديت كا لازمہ اور اس كا مستلزم ہے، دوسري كوئي دليل و توجيح نہيں، پس درحقيقت قرآن كي روح سے ايمان اور كفر كي ايك دوسرے كے مقابل محاظ آرائي دراصل اس محاظ آرائي كا پرتو ہے، جو استضعاف شدگي اور استضعاف گري كے درميان واقع ہے۔

قرآن اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ مالكيت جيسے وہ لفظ ”غنا“ سے تعبير كرتا ہے، طغيان اور سركشي كا باعث ہے، يعني يہ چيز تواضح، فروتني اور ”سلم“ كي ضد ہے، جسے قرآن يوں بيان كرتا ہے:

( ان الانسان ليطغي ان رآه استغنى ) . (سورہ علق، آيت ۔۷)

”اور جب انسان اپنے آپ كو بے نياز اور دولت مند محسوس كرنے لگتا ہے، تو باغي ہو جاتا ہے ۔“

پھر ہم كہتے ہيں كہ قرآن ”مالكيت“ كے بارے اثرات كو واضح كرنے كے لئے قانون كي داستان ذكر كرتا ہے:

”قارون قبطي نہيں سبطي تھا، يعني اس كا تعلق موسيٰ كي قوم سے تھا اور انہيں ميں سے تھا، جنہيں فرعون نے مستضعف بنايا ہوا تھا، ليكن يہي استضعاف شدہ شخص جب كسي نہ كسي طرح بہت زيادہ دولت كا مالك بن گيا، تو اسي مستضعف قوم كے خلاف كام كرنے لگا، جس ميں كل تك وہ خود تھا۔“

قرآن كہتا ہے:

( ان قارون كان من قوم موسيٰ فبغي عليهم ) .

”قارون، موسيٰ كي قوم كا ايك فرد تھا، جس سے بني اسرائيل كي اپني مستضعف قوم كے خلاف ظلم كيا ۔“

كيا يہ بات خود وضاحت نہيں كرتي كہ ظلم كے خلاف پيغمبروں كا قيام خود مالكيت، سرمايہ داري اور سرمايہ داري كے خلاف قيام تھا ۔

قرآن اپني بعض آيتوں ميں اس بات كي تصريح كرتا ہے كہ پيغمبروں كے مخالف ليڈروں كا تعلق ”مترفين“ كے طبقے سے تھا، يعني اس طبقے سے جو ناز و نعمت ميں غرق تھا ۔۴۳ ويں آيت ميں اس مفہوم كو ايك كلي اور بنيادي قانون كي صورت ميں پيش كيا گيا ہے:

وما ارسلنا في قريۃ من نذير الا قال مترفوھا انا بما ارسلتم بہ كافرون

”ہم نے كسي گروہ ميں كوئي ايسا ڈرانے والا نہيں بھيجا كہ وہاں كے مترفين نے جس كي مخالفت نہ كي ہو اور يہ نہ كہا ہو كہ ہم تمہاري رسالت اور تمہارے پيغام كے سرے سے مخالف اور انكاري ہيں ۔“

يہ تمام باتيں اس چيز كو ظاہر كرتي ہيں كہ انبياء اور ان كے مخالفين كي آپس ميں محاذ آرائي اور كفر و ايمان كي ايك دوسرے كے خلاف صف آرائي تھى، جو دراصل دو سماجي طبقوں استضعاف شدہ اور اشتضعاف گر كي جنگ تھي ۔

۲۔ قرآن نے اپنے مخاطبين كو ”ناس“ قرار ديا ہے اور ”ناس“ سے مراد عام اور محروم لوگ ہيں۔ قرآن كا يہ طريقہ اس بات كي دليل ہے كہ قرآن طبقاتي فكر كا قائل ہے اور دعوت اسلام كي قبوليت كا حامل، فقط محروم طبقے كو جانتا ہے اور اسلامي آئيڈيالوجي صرف اور صرف محروم طبقے كو مخاطب كرتي ہے۔ يہ ايك اور دليل ہے كہ اسلام كي نظر ميں اقتصاد معاشرے كي بنياد ہے اور تاريخ، مادي ہويت كي حامل ہے۔

۳۔ قرآن نے اس كي تصريح كي ہے كہ تمام مصلحين، تمام مجاہدين، تمام شہداء حتيٰ كہ تمام انبياء عليہم السلام عوام الناس كے درميان سے ابھرے ہيں، نہ كہ نعمتوں ميں غرق اور خوشحال طبقے سے۔ قرآن مجيد جناب رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بارے ميں ارشاد فرماتا ہے:

( هوالذي بعث في الاميين رسولا ) (سورہ جمعہ، آيت۲)

”اسي نے لوگوں كے درميان جنہيں امت سے منسوب كيا گيا ہے، ايك رسول بھيجا۔ امت بجز محروم طبقے كے اور كوئي نہيں ۔“

اور اسي طرح شہداء راہ حق كے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے:

( و نزعنا من كل امة شهيداً فقلنا هاتوا برهانكم ) . (سورہ القصص، آيت۷۵)

”يعني ہر امت ميں سے جو عوام الناس كا محروم طبقہ ہي ہے، ہم ايك شہيد كو اٹھائيں گے اور ان سے كہيں گے كہ اپني دليل اور اپنے گواہ ساتھ لاؤ ۔“

اقتصادي اور طبقاتي مقام كے ساتھ اعتقادي اور اجتماعي مقام كے تطابق كي ضرورت دراصل تحريكات اور انقلابات كے قائدين كو محروم طبقے ميں سے ابھارتي ہے اور يہ ضرورت صرف ہويت تاريخ كو ماديت اور اقتصاد كو بنياد قرار دينے كي صورت ميں ہي قابل توجيہ ہے۔

۴۔ قرآن كے مطابق انبياء عليھم السلام كے قيام كي ماہيت اور معاشرے كے لئے ان كي راہ متعين كرنا عمارت نہيں بلكہ خود بنياد ہے ۔

قرآن سے استنباط ہوتا ہے كہ انبياء عليہم السلام كي رسالت اور بعثت كا مقصد معاشرے ميں عدل، قسط، برابرى اور مساوات قائم كرنا اور طبقاتي فاصلوں اور ان كے درميان حائل ديواروں كو توڑنا ہے۔ تمام انبياء عليہم السلام ہميشہ بنياد سے چل كر، جو ان كي بعثت كا مقصد رہا ہے۔ عمارت تك پہنچے ہيں، عمارت يعني عقائد، ايمان، اخلاقي اصطلاحات اور راہ و روش، انبياء عليہم السلام كا دوسرا مقصد رہے ہيں، جس كے لئے وہ بنياد كي اصلاح كے بعد جستجو كرتے ہيں۔ جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

من لا معاش له لا معادله

”جس كے پاس معاش اور مادي زندگي نہيں ہے، اس كے پاس معنوي زندگي كا سرمايہ معاد بھي نہيں ۔“

يہ جملہ معاد و آخرت پر معاش اور معنوي زندگي پر مادي زندگي كے تقدم كو ظاہر كرتا ہے اور معنوي زندگي كو عمارت اور مادي زندگي كو بنياد كے عنوان سے پيش كرتا ہے۔ جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ايك اور حديث يہ بھي ہے:

اللهم بارك لنا في الخبز، لو لا الخبز ما تصدقنا ولا اصلينا

”خداوندا! ہماري روٹي ميں بركت دے كہ اگر روٹي نہيں، تو زكوٰۃ ہے، نہ نماز ۔“

يہ جملہ بھي معنويت كي ماديت سے وابستگي اور اس كي ثانويت كو ظاہر كرتا ہے ۔

آج اكثر لوگوں كا خيال ہے كہ انبياء عليہم السلام كي كوششيں صرف عمارت كي حد تك رہي ہيں۔ وہ لوگوں كے عقيدہ، اخلاق اور رفتار و كردار كو سنوارنا چاہتے تھے اور انہيں مومن بنانا چاہتے تھے۔ بنياد سے انہيں كوئي غرض نہ تھي اور يا بنيادي امور كي حيثيت ان كے نزديك ثانوي تھي يا پھر وہ يہ چاہتے تھے كہ لوگ مومن اور معتقد بنيں۔ ان كا خيال تھا كہ جب لوگ ايمان اور اعتقاد ميں پختہ ہو جائيں گے تو پھر تمام كام خود بخود سنورنے لگيں گے۔ عدالت اور مساوات كا بول بالا ہوگا، استحصال پسند لوگ درست ہوجائيں گے اور محروموں اور مستضعفوں كے حقوق خود اپنے ہاتھ سے انہيں ديں گے۔ غرض يہ كہ انبياء عليہم السلام نے اپنے ايمان اور عقيدے كے زور سے تمام مقاصد ميں كاميابي حاصل كي ہے اور ان كے پيروكاروں كے لئے بھي ضروري ہے كہ وہ ان كي راہ اختيار كريں۔ يہ خيال اور سوچ ايك فريب اور دھوكا ہے، جسے استحصال پسند افراد اور ان سے وابستہ علماء نے انبياء عليھم السلام كي تعليمات كو بے اثر كرنے كے لئے گھڑ كر اس معاشرے پر ٹھونسا ہے كہ اب لوگوں كي اكثريت ان باتوں پر يقين كرنے لگي ہے۔ بقول ماركس:

”جو لوگ مادي مصنوعات برآمد كرتے ہيں، وہ معاشرے كے لئے فكرى مصنوعات برآمد كرنے كي صلاحيت بھي ركھتے ہيں، جن كے ہاتھ ميں معاشرے كي باگ دوڑ ہوتي ہے، وہ معاشرے كي سوچ پر بھي حكومت كرتے ہيں اور معنوي فرمانروائي بھي ان كے ہاتھ ميں ہوتي ہے ۔“ (جرمن آئيڈيالوجي)انبياء عليھم السلام كا طريقہ كار اور ان كا ميتھڈ ( Method ) اكثريت كي موجودہ سوچ كے بالكل برعكس رہا ہے۔ انبياء عليھم السلام نے پہلے معاشرے كو اجتماعي شرك، بے جا امتيازات، استحصال اور استضعاف شدگي جيسے اخلاقى، عملي اور اعتقادي شرك سے نجات دلائي اور اس كے بعد اعتقادي توحيد اور اخلاقي اور عملي تقويٰ تك پہنچے۔

۵۔ قرآن انبياء عليھم السلام كے مخالفين كي منطق كو پوري تاريخ ميں انبياء عليھم السلام اور ان كے پيروكاروں كي منطق كے مقابل قرار ديتا ہے۔وہ بڑي وضاحت سے اس بات كي نشاندہي كرتا ہے كہ مخالفين كي منطق ہميشہ سے قدامت پرستانہ، روايت پسندانہ اور رجعت پسندانہ رہي ہے، جب كہ انبياء عليھم السلام اور ان كے پيروكار مخالفين كے برعكس ہميشہ تجدد پسند، روايت شكن اور مستقبل پر نظر ركھنے والے رہے ہيں۔

قرآن واضح كرتا ہے كہ پہلے گروہ نے ہميشہ وہي منطق استعمال كي ہے جسے عمرانيات كي رو سے استحصال گر اور استحصال شدہ طبقوں ميں بٹے ہوئے معاشرے ميں استحصال گر طبقہ اپنے مفاد كے پيش نظر استعمال كرتا ہے، ليكن انبياء عليھم السلام اور ان كے ماننے والوں كي منطق وہي رہي ہے، جو تاريخ كے محروم اور مظلوم لوگوں كي منطق ہے ۔

قرآن كا گويا يہ التفات ہے كہ اس نے گذشتہ سے متعلق مخالفين اور موافقين كي منطق كو ہمارے لئے پيش كيا ہے اور بتايا ہے كہ ان دونوں گروہوں كي منطق كيا تھي۔ صرف اس لئے كہ يہ دونوں نقطہ ہائے نظر خود ان دو گروہوں كي طرح پوري تاريخ ميں آج تك ايك دوسرے كے سامنے كھڑے رہے ہيں اور قرآن مخالفين اور موافقين كي منطق كو آشكار كر كے آج كے لئے ہمارے سامنے ايك معيار پيش كرنا چاہتا ہے۔

قرآن ميں ايسے بہت سے مقامات كا ذكر ہے، جہاں يہ دونقطہ ہائے نظر ايك دوسرے كے آمنے سامنے آتے رہتے ہيں۔ اہل تحقيق سورہ زخرف كي چاليسويں سے پچاسويں آيت تك سورہ مومن كي۲۳ويں سے ۴۴ويں آيت تك، سورہ طہٰ كي ۴۹ويں سے ۷۱ ويں آيت تك، سورہ شعراء كي ۱۶ويں سے ۴۹آيت تك اور سورہ قصص كي ۳۶ويں سے ۳۹ويں آيت تك كي طرف اس موضوع كے سلسلے ميں رجوع فرما سكتے ہيں۔ يہاں ہم سورہ زخرف كي ۲۰سے ۲۴ تك كي آيتوں كو بطور نمونہ ذكر كر كے ان كے بارے ميں كچھ وضاحت پيش كرنا چاہتے ہيں:

( وقالوا لوشاء الرحمن ماعبدناهم، ما لهم بذالك من علم ان هم الا يخرصون؛ ام آتيناهم كتاباً من قبله فهم به مستمسكون؛ بل قالوا انا وجدنا آبائنا علي امة وانا علي آثارهم مهتدون؛ وكذلك ما ارسلنا من قبلك في قريه من نذير الا قال مترفوها انا وجدنا ابائنا علي امة وانا علي اثارهم مهتدون قال اولو جئتكم باهدي مما وجدتم عليه آبائكم قالوا انا بما ارسلتم به كافرون. )

”اور انہوں نے كہا، اگر خدا چاہتا ہے كہ ہم فرشتوں كي عبادت نہ كريں تو ہم نہيں كرتے (ليكن اب جو كر رہے ہيں، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خدا كي مرضي يہي ہے، يعني مطلق جبر)يہ لوگ اس قسم كي (جبر پسندانہ) گفتگو از روئے دانائي و ادراك يا علمي و منطقي بنياد پر نہيں كرتے، يہ تو صرف فرض و تخمين سے كام ليتے ہيں۔ كيا ہم نے اس سے پہلے ان كے لئے كوئي ايسي آسماني كتاب نازل كي ہے، جس ميں كسي قسم كي جبريت پر مبني بات ہو اور انہوں نے اسے اختيار كيا ہو (ايسا كچھ بھي نہيں، اس ميں نہ كسي سنجيدہ جبري اعتقاد كا دخل ہے اور نہ كوئي ايسي آسماني كتاب ہے، جسے اس سلسلے ميں دليل بنايا جا سكے) بلكہ ان كا اصلي قول يہ ہے كہ ہم نے اپنے باپ دادا كو جس راہ پر چلتے ديكھا ہے، بس وہي ہماري راہ ہے ۔“

(پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے) ان سے فرمايا:

”اب اگر ميں تمہارے لئے كوئي ايسي راہ اور كوئي ايسا طريقہ پيش كروں، جو تمہارے باپ دادا كي راہ سے بہتر اور برتر ہو، تو (كيا يہ جانتے ہوئے كہ منطقي اعتبار سے ميرا راستہ زيادہ صحيح اور زيادہ اصولي ہے) پھر بھي تم اپنے باپ، دادا كي روش پر قائم رہو گے؟انہوں نے كہا: ہم بہرحال تمہارے پيغام اور تمہارے رسالت كے منكر ہيں۔“

ہم ديكھ رہے ہيں كہ انبياء عليھم السلام كے مخالفين بعض اوقات اس جبري منطق اور جبري قضاء و قدر كے نظريے سے كام ليتے ہيں، جس كے مطابق ہمارا كوئي اختيار نہيں، جيسا كہ عمراني حوالے سے پتہ چلتا ہے كہ يہ منطق موجود حالت سے ان فائدہ اٹھانے والوں كي منطق ہے، جو نہيں چاہتے كہ حالات ميں كسي قسم كي تبديلي واقعہ ہو اور اسي لئے وہ قضاء و قدر كو بہانہ بناتے ہيں اور كبھي يہ باپ دادا كي سنت كا سہارا ليتے ہيں اور گذشتہ دور كو مقدس اور قابل پيروي گردانتے ہيں اور گذشتہ سے كسي چيز كے تعلق كو ہدايت يافتہ اور صحيح ہونے كے لئے كافي سمجھتے ہيں۔ ہميشہ سے قدامت پسند اور حالات سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں كي يہي منطق رہي ہے ۔

ان كے مقابلے پر انبياء عليھم السلام روايت پرستي اور جبر پسندي كي بجائے زيادہ منطقى، زيادہ علمي اور زيادہ نجات بخش بات كرتے رہے ہيں، موجودہ حالات سے بيزار اور انقلابي لوگوں كي منطق ہے۔ انبياء عليھم السلام كي پيش كردہ حجت و دليل كے مقابل مخالفين كي بن نہيں پڑتى، تو پھر وہ آخري بات كرتے ہيں اور كہتے ہيں، بہرحال جبر ہو يا نہ ہو، روايتوں كا احترام كريں يا نہ كريں، تمہارا پيغام، تمہاري رسالت اور تمہاري آئيڈيالوجي ہمارے لئے ناقابل قبول ہے آخر كيوں؟ اس لئے كہ تمہارا پيغام ہماري طبقاتي اور اجتماعي موجوديت كي ضد ہے ۔

۶۔ مستضعفين اور مستكبرين كے جھگڑے ميں قرآن كا سب سے روشن اور سب سے واضح فيصلہ يہ ہے كہ كاميابي (جيسا كہ تاريخي ماديت، جدلياتي نظريے كي بنياد پر خوشخبري ديتي ہے) مستضعفين كے لئے ہے۔ قرآن اپنے اس فيصلے ميں تاريخ كے جبري اور لازمي راستے كو پيش كرتا ہے اور بتاتا ہے كہ وہ طبقہ جو بالذات انقلابي خصلت كا حامل ہے، اس طبقے كے ساتھ اپنے جھگڑے ميں كہ جو بالذات اور اپنے طبقاتي موقف كي بناء پر قدامت پسند واقع ہوا ہے، كاميابي سے ہمكنار ہوگا اور زمين كا وارث بنے گا۔

( ونريد ان نمن علي الذين استضعفوا في الارض و نجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين ) . (سورہ قصص، آيت۵)

”ہم نے يہ ارادہ كر ليا ہے كہ مستضعفين پر احسان سے كام ليں اور انہيں پيشوا اور زمين كا وارث قرار ديں ۔“

سورہ اعراف كي ۱۳۷ويں آيت ميں بھي يہي بات ہے:

( واورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشارق الارض و مغاربها التي باركنا فيها و تمت كلمة ربك الحسني علي بني اسرائيل بما صبروا و دمّرنا ماكان يصنع فرعون و قومه وما كانوا يعرشون ) .

”ہم نے موعودہ بركت والي سرزمين كو ايك كنارے سے دوسرے كنارے تك ان لوگوں كے حوالے كيا، جنہيں زمين پر كمزور بنا ديا گيا تھا ۔

بني اسرائيل كے بارے ميں اللہ كا وعدہ ان كے صبر كے مظاہرے كي بناء پر بحسن خوبي پورا ہوا اور جو كچھ فرعون اور اس كي قوم نے انجام ديا تھا، ان كي تمام بنائي اور پيش كي ہوئي چيزوں كو ہم نے نيست و نابود كر ديا ۔“

قرآن كا يہ نظريہ كہ تاريخ كا دھارا محروم، مصيبت زدہ اور استحصال شدہ لوگوں كي كاميابي كي راہ ميں آگے بڑھتا ہے، مكمل طور پر اس اصول پر منطبق، جسے ہم نے پہلے ماديت تاريخ سے اخذ كيا تھا كہ رجعت پسندي اور فرسودہ خيالي استحصال پسندي كي ذاتي خصلتيں ہيں اور چونكہ يہ خصلتيں عالم خلقت كي تكاملي روايات كے خلاف ہيں، لہٰذا مٹنے والي ہيں، ليكن استحصال شدگي كي ذاتي خصلت، روشن فكرى، حركت اور انقلاب ہے اور چونكہ يہ خصلت خلقت كي تكاملي روايات سے ہم آہنگ ہے، اس لئے كامياب ہ ے۔

يہاں ايك مقالے كے ايك حصے اور اس سے حاصل شدہ نتائج كا تذكرہ مناسب نہيں ہوگا جسے روشن فكر مسلمانوں نے مرتب كيا ہے اور ايك كتابچے كي شكل ميں حال ہي ميں شائع كيا ہے۔ يہ گروہ روشن فكرى سے بھي آگے بڑھ گيا ہے اور ماركس زدہ ہوگيا ہے۔ اس مقالہ ميں مذكورہ بالا آيت كو عنوان قرار دے كر نيچے لكھا ہے:

”۔۔۔ يہاں سب سے زيادہ جاذب توجہ چيز اللہ اور تمام مظاہر وجود كا مستضعفين كے حق ميں موقف اختيار كرنا ہے، اس ميں كوئي شك نہيں كہ زمين كے مستضعف يا كمزور لوگ قرآني نظريے كي بنياد پر ايك ايسا محروم و بے بس طبقہ ہے، جو اپني تقدير كے بارے ميں جبري اور قہري اعتبار سے كسي كردار كا حامل نہيں ۔۔۔ اس مفہوم كو سامنے ركھتے ہوئے، نيز اللہ اور اس كے تمام مظاہر وجود كے موقف كو ديكھتے ہوئے، يعني وجود پر اس كے مطلق ارادے كي حكمراني اور احسان كے پيش نظر سوال پيدا ہوتا ہے كہ آخر وہ كون لوگ ہيں، جو اس كے ارادے كو عملي جامہ پہنانے والے ہيں؟ اس سوال كا جواب بڑا واضح ہے۔ جب ہم معاشرے كو كمزور اور طاقت ور طبقوں ميں تقسيم كرتے ہيں اور پھر يہ بھي جانتے ہيں كہ خداوند عالم كا ارادہ ايك طرف تو زمين ميں كمزور افراد كي وراثت و امامت سے پورا ہوتا ہے اور دوسري طرف استحصالي يا طاقت ور نظام كي تباہي اس كے مقصد كو پورا كرتي ہے، تو پھر صاف ظاہر ہوتا ہے كہ ارادہ الٰہي كو نمود عيني بخشنے والے لوگ يہي مستضعفين، ان كے انبياء عليھم السلام اور وہ باعزم روشن فكر افراد ہيں، جو انہي ميں سے اٹھتے ہيں۔ ايك اور بيان كے مطابق مستضعفين كے درميان سے چنے گئے يہي وہ انبياء عليھم السلام(۶۰) اور شہداء(۶۱) ہيں، جو طاغوتي اور غارت گر نظام سے ٹكرانے كے لئے پہلا قدم اٹھاتے ہيں اور يہ وہ قدم ہوتا ہے، جو مستضعفين كو امامت اور وراثت تك پہنچانے كے لئے راہ ہموار كرتا ہے، يہ مفہوم درحقيقت توحيدي انقلابات اور تاريخي تبديليوں كے بارے ميں ہماري شناخت كا انعكاس ہے(۶۲) اور وہ يوں ہے كہ جس طرح توحيدي انقلابات اجتماعي اعتبار سے زمين پر مستضعفين كي امامت اور ان كي وراثت كے گرد گھومتے ہيں، اسي طرح اس تحريك كے رہبروں اور اس كام ميں سبقت لے جانے والوں كے لئے بھي ضروري ہے كہ وہ مستضعفين ميں سے ہوں اور معاشرے كا موقف اور اس كي آئيڈيالوجي بھي مستضعفين ہي كا موقف اور ان كي آئيڈيالوجي ہو ۔“

الف) قرآن كي رو سے معاشرہ دو طبقات پر مشتمل ہے اور ہميشہ استحصالي اور استحصال شدہ طبقوں ميں تقسيم ہوتا ہے۔

ب) ارادہ الٰہي (كہ جو اس مقالہ كي رو سے خدا اور تمام مظاہر وجود كي طرف سے موقف اختيار كرنے سے عبارت ہے) يہ ہے كہ مستضعفين اور تاريخ كے بے بس لوگوں كو بطور كلي امامت و وراثت عطا كرے ۔

اس ميں موحد، مشرك، بت پرست اور مومن وغيرمومن كي كوئي قيد و شرط نہيں، يعني آيت ميں لفظ ”والذين“ استغراق كے لئے ہے اور عموميت ركھتا ہے اور سنت الٰہي استحصال كرنے والے پر مستضعف كي مستضعف ہونے كے ناطے كاميابي سے عبارت ہے۔ باالفاظ ديگر وہ جھگڑا جو پوري تاريخ كا احاطہ كئے ہوئے ہے، اس كي اصلي ماہيت محرومين اور ستم گروں كا ايك دوسرے كے ساتھ مناقشہ ہے اور كائنات كا تكاملي قانون يہ ہے كہ محروم لوگ ستم گروں پر كاميابي حاصل كريں ۔

ج) ارادہ الٰہي خود معاشرے كے مستضعفين كے ذريعے پورا ہوتا ہے اور تمام رہبر، تمام پيشوا، تمام پيغمبر اور تمام شہداء لازمي طور پر مستضعف طبقے سے ابھرتے ہيں، كسي اور طبقہ سے نہيں ۔

د) ہميشہ فكرى مركزوں، اجتماعي بنيادوں اور طبقاتي موقفوں كے درميان تطابق اور ہم آہنگي پائي جاتي ہے ۔

پس ہم ديكھتے ہيں كہ اس آيت سے كس طرح تاريخ كے بارے ميں كئي ماركسي اصول نكلتے ہيں اور كس طر ح قرآن نے ماركس سے۱۲۰۰ پہلے اس فكر اور اس كے فلسفے كو قلم بند كيا ہے؟

اب جب كہ تاريخ كے بارے ميں اس طرح كا نام نہاد قرآني نظريہ برآمد ہوا ہے، تو ہم اپنے دور كي تاريخ كے تجربے ميں اس نظريے سے كيا نتيجہ اخذ كر سكتے ہيں؟ ان حضرات نے بطور نمونہ ايك فوري امر كي صورت ميں اس نام نہاد قرآني اصول كے سہارے نتيجہ حاصل كرنے كي كوشش كي ہے اور علماء كي موجودہ تحريك سے آزمائش كے طور پر استفادہ كيا ہے۔ وہ كہتے ہيں، قرآن نے ہميں تعليم دي ہے كہ انقلاب كے رہبروں اور پيشواؤں كو لازمي طور پر مستضعف طبقے سے ہونا چاہيے۔ ليكن آج ہم ديكھتے ہيں كہ وہ علماء جو تاريخ كو تباہي سے ہمكنار كرنے والي مثلث كا ايك كونہ تھے، آج اپني اجتماعي پوزيشن بدل كر انقلابي ہوگئے ہيں، تو پھر معاملے كو كس طرح حل كيا جائے؟ آسان سي بات ہے، ہميں سختي كے ساتھ بغير ہچكچاہٹ كے اعلان كرنا ہوگا كہ دال ميں كچھ كالا ہے۔ حكمران طبقے نے اپنے آپ كو معرض خطر ميں ديكھ كر اپنے سے وابستہ علماء كو يہ حكم ديا ہے كہ وہ انقلابي كردار ادا كريں تاكہ اس طرح ان كي كرسي بچ جائے۔ يہ ہے وہ نتيجہ جو ماركسي نظريہ (معاف كيجئے گا بقول ان كے قرآني نظريہ) سے حاصل ہوا ہے اور يہ بات واضح ہے كہ اس كا فائدہ كسے پہنچ رہا ہے؟

اعتراض

ماديت تاريخ كي توجيہ ميں قرآن كي نسبت جو كچھ بھي كہا گيا ہے، وہ غلط ہے۔گذشتہ دلائل كا ہم ايك دفعہ پھر جائزہ لينا چاہتے ہيں:

اولاً: يہ بات خالص جھوٹ ہے كہ قرآن نے معاشرے كو دو مادي اور دو معنوي طبقات ميں تقسيم كيا ہے۔ يہ دو طبقے ايك دوسرے كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں، يعني قرآن كي رو سے كافرين، مشركين، منافقين، فاسقين اور مفسدين ہي ملاء، مستكبر اور جابر افراد ہيں اور اس كے برعكس مومن، موحد، صالح اور شہداء ہي مستضعف اور محروم طبقے ميں آتے ہيں۔ كافروں اور مومنوں كي آويزش ميں بنيادي طور پر ظالموں اور مطلوموں كے اختلاف كا انعكاس ہے۔ ہرگز ايسي كوئي مطابقت قرآن سے سمجھ ميں نہيں آتي بلكہ عدم مطابقت ظاہر كرتي ہے ۔

قرآن اپنے تذكرہ تاريخ ميں ايسے مومنوں كو پيش كرتا ہے، جنہوں نے ملاء و مستكبر طبقے سے ابھر كر اسي طبقے كے خلاف اور اس كي اقدار كے خلاف قيام كيا۔ مومن آل فرعون جس كا واقعہ اسي نام سے منسوب ايك سورہ، يعني سورہ ”مومن“ ميں آيا ہے، انہي مثالوں ميں سے ايك ہے، اس كے علاوہ فرعون كي بيوي جو فرعون كي شريك حيات تھي اور كوئي ايسي نعمت نہيں تھى، جس سے فرعون بہرہ مند نہ ہو اور يہ واقعہ بھي انہي واقعات ميں سے ہے، جس كي قرآن نے نشان دہي كي ہے۔ (سورہ تحريم، آيت۱۱)

قرآن نے فرعون كے جادوگروں كے بارے ميں كئي مقامات پر بڑے ولولہ خيز انداز ميں تذكرہ كيا ہے اور يہ بتايا ہے كہ كس طرح انسان كي فطرى حق جوئي اور حقيقت خواہى، حق و حقيقت كے ساتھ جھوٹ، زور، زبردستي اور گمراہي كے خلاف شورش كرتي ہے، اپنے مفادات كو ٹھوكر لگا ديتي ہے اور فرعون كي اس دھمكي سے نہيں ڈرتي كہ وہ ان كے ايك طرف كا ہاتھ اور دوسري طرف كي ٹانگ كاٹ كر سولي پر چڑھا دے گا۔

بنيادي طور پر حضرت موسيٰ عليہ السلام كا قيام از روئے قرآن ايك ايسا قدم ہے، جو ماديت تاريخ كي تنسيخ كرتا ہے، يہ ٹھيك ہے كہ حضرت موسيٰ عليہ السلام قبطي نہيں سبطي تھے ، مثلاً بني اسرائيل ميں سے تھے۔ آل فرعون سے ان كا تعلق نہيں تھا، ليكن وہ بچپن ہي سے فرعون كے گھر پروان چڑھے اور شہزادوں كي طرح ان كي پرورش ہوئى، اس كے باوجود انہوں نے اس فرعوني نظام كے خلاف بغاوت كي جس ميں وہ خود زندگي گذار رہے تھے۔ اس كي دي ہوئي آسائشوں سے بہرہ مند تھے، انہوں نے ان تمام آسائشات كو ترك كر ديا اور مدين كے ايك بزرگ كي گلہ باني كو اپني شاہزادگي پر ترجيح دي۔ يہاں تك كہ مبعوث برسالت ہوئے اور باضابطہ طور پر فرعون كے مقابل آكھڑے ہوئے۔

جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بچپن ميں يتيم اور آغاز جواني تك غريب تھے۔ جناب خديجہ الكبريٰ سے شادي كے بعد آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي مالي حالت سنبھلي اور آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم خوشحال ہوئے۔ قرآن مجيد اسي نكتے كي طرف اشارہ كرتا ہے اور كہتا ہے:( الم يجدك يتيما فاوي و وجدك ضالا فهدي و وجدك عائلا فاغني )

يہي خوشحالي كا زمانہ تھا، جب آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے عبادت و خلوت اختيار كي۔ تاريخي ماديت كے اصول كے مطابق جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اس زمانے ميں ايك قد امت پسند فرد بن جانا چاہيے تھا، جو موجودہ حالت ہي پر راضي رہتا، ليكن يہي وہ دور تھا، جس ميں آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني تحريك كا آغاز كيااور مكہ كے سرمايہ داروں، سود خوروں، بردہ داروں اور اس بت پرستانہ نظام كے خلاف علم بلند كيا، جو اس زمانے كي زندگي كي علامت تھے۔ اسي طرح مومنين، موحدين اور توحيد پرست انقلابي سب كے سب مستضعفين ميں سے نہيں تھے، انبياء عليھم السلام استحصالي طبقوں ميں سے ان بيدار فطرت افراد كو بھي نكال لائے تھے، جو كھوٹ سے عاري تھے يا پھر نسبتاً ان ميں كم كھوٹ پايا جاتا تھا اور انہيں اپنے خلاف (عمل توبہ ميں) يا اپنے طبقے كے خلاف (انقلابي عمل ميں) ابھارتے تھے۔ مستضعفين كا طبقہ بھي تمام كا تمام مومنين اور توحيد پرست انقلابيوں كے زمرے ميں نہيں رہا ہے ۔

قرآن ميں ايسے مختلف مقامات ہيں، جہاں اس نے مستضعفين كے بعض گروہوں كي مذمت كي ہے اور انہيں كافروں كے زمرے ميں قرار دے كر مشمول عذاب گردانا ہے۔(۶۳)

پس نہ تمام مومنين كا تعلق مستضعف طبقے سے ہے اور نہ ہي تمام مستضعف مومنين كے طبقے ميں سے ہيں اور يہ مطابقت محض خالي اور بے معني دعويٰ ہے۔ البتہ يہ بات اپني جگہ درست ہے كہ بلاشبہ انبياء عليھم السلام پر ايمان لانے والے طبقے كي اكثريت كا تعلق ہميشہ مستضعف طبقے سے يا كم از كم اس طبقے سے رہا ہے، جو استحصال كرنے سے دور رہا ہے اور ان كے مخالفين كي اكثريت ان لوگوں كي رہي ہے، جو استحصال كرنے والے تھے، كيونكہ انسان فطرت ميں قبوليت كي جو صلاحيت ركھي گئي ہے۔ اگرچہ وہ سب ميں مشترك ہے اور ہر ايك ميں پائي جاتي ہے، ليكن كھوٹ اور موجودہ حالت كا عادي ہوجانے نے استحصالي سرمايہ دار اور خوشحال طبقے كے سامنے ايك ركاوٹ كھڑي كر دي ہے۔ ضرورت اس بات كي ہے كہ وہ اپنے آپ كو ان آلودگيوں كے انبار سے باہر نكاليں اور يہ ايك مشكل كام ہے اور بہت كم لوگوں كو اس ميں كاميابي نصيب ہوتي ہے، ليكن مستضعف طبقے كے سامنے ايسي كوئي چيز حائل نہيں، بلكہ وہ فطرت كي آواز پر لبيك كہنے كے علاوہ اپنے ان حقوق كو بھي حاصل كر ليتا ہے، جو اس سے چھن گئے تھے۔ان كا اہل ايمان كے گروہ سے ملحق ہونا ہم خرما، ہم ثواب كے مصداق ہے، يہي وجہ ہے كہ انبياء عليھم السلام پر ايمان لانے والوں كي اكثريت مستضعفين سے ہے جو غير اقليت ميں ہيں، ليكن مذكورہ صورت ميں تطابق اور مطابقت محض لغو اور بے معني ہے ۔

تاريخي ميٹريالزم كي بنيادوں اور ہويت تاريخ كے بارے ميں ميں قرآني نقطہ نظر كے درميان بڑا فرق ہے۔ بااعتبار قرآن روح ايك اصالت كي حامل ہے اور مادہ روح پر كسي طرح كا تقدم نہيں ركھتا۔ معنوي ضرورتيں اور معنوي ميلانات انساني وجود ميں اصالت كي حامل ہيں اور مادي ضرورتوں سے ان كي كوئي وابستگي نہيں، اسي طرح فكر بھي كام كے مقابل اصالت ركھتي ہے ۔

انسان كي روحاني و فطرى حيثيت اس كي اجتماعي حيثيت پر فوقيت ركھتي ہے۔ چونكہ قرآن فطرى اصالت كا قائل ہے اور ہر انسان كے اندر حتيٰ فرعون جيسے مسخ شدہ انسانوں ميں بھي ايك بالفطرت مقيد انسان كو ديكھتا ہے اور مسخ ترين انسانوں ميں بھي حق و حقيقت كي طرف ميلان كو ممكن جانتا ہے، اگرچہ يہ ميلان خفيف سا كيوں نہ ہو، اسي لئے پيغمبران الٰہي كا كام پہلے درجے ميں يہ تھا كہ وہ ظالموں اور ستم گروں كو نصيحت كرتے رہيں كہ شايد اس عمل سے ان كے اندر كا مقيد انسان اپني بندشوں كو توڑ كر باہر نكل آئے اور پليد اجتماعي حيثيت كے خلاف ان كي فطرى حيثيت كو بيدار كر لے اور ہم ديكھ چكے ہيں كہ بہت سے موارد ميں يہ كاميابي حاصل ہوئي ہے اور ”توبہ“ اسي كا نام ہے ۔

جناب موسيٰ عليہ السلام كو اپني رسالت كے پہلے مرحلے ميں يہ حكم ملا كہ فرعون كے پاس جائيں اور پہلے پند و نصيحت سے اس كي سوئي ہوئي فطرت كو بيدار كريں اور اگر اس ميں كاميابي نہ ہو، تو پھر مقابلے پر اتر آئيں۔ جناب موسيٰ عليہ السلام كي نظر ميں فرعون نے ايك انسان كو اپنے اندر اور بہت سے انسانوں كو باہر كي دنيا ميں قيد كر ركھا تھا۔ حضرت موسيٰ عليہ السلام نے پہلا كام يہ كيا، انہوں نے فرعون كے اندر چھپے ہوئے مقيد انسان كو اس كے خلاف ابھارا۔ دراصل جناب موسيٰ عليہ السلام اس فطرى فرعون كو كہ جو ايك انسان يا كم از كم اس كا بچا كھچا حصہ تھا، اسے اس اجتماعي حيثيت كے حامل فرعون كے خلاف ابھارنے پر مامور ہوئے تھے ۔

( اذهب الي فرعون انه طغي فقل هل لك الي ان تزكي و اهديك الي ربك فتخشيٰ )

قرآن ہدايت، ارشاد، تذكر، موعظہ، برہان اور منطقي استدلال (قرآن كي اصطلاح ميں حكمت) كے لئے اہميت اور قوت كا قائل ہے۔ قرآن كي رو سے يہ امور انسان كو متغير كر سكتے ہيں۔ اس كي زندگي اور شخصيت كو بدل سكتے ہيں اور اس ميں ايك معنوي انقلاب پيدا كر سكتے ہيں۔ قرآن فكر اور آئيڈيالوجي كے كردار كو محدود نہيں جانتا۔ اس كے برعكس ماركسزم اور ماديت قيادت اور ہدايت كے كردار كو في نفسہ طبقہ كے لنفسہ طبقہ ميں تبديل ہونے تك محدود جانتا ہے، يعني طبقاتي تضادات كو خود آگاہي كي منزل تك پہنچا كر اس كا كام ختم ہو جاتا ہے ۔

ثانياً: يہ جو كہا گيا ہے كہ قرآن كا مخاطب ”ناس“ ہيں اور ”ناس“ اور ”محروم طبقہ“ دونوں برابر ہيں اور اس رو سے مخاطب اسلام محروم طبقہ ہے اور اسلامي آئيڈيالوجى، محروم طبقہ كي آئيڈيالوجي ہے اور اسلام اپنے پيروكار اور جانثار صرف محروم طبقے سے چنتا ہے، بالكل غلط ہے۔ اس ميں كوئي شك نہيں كہ مخاطب اسلام ”ناس“ ہيں، ليكن ”ناس“ كا مطلب انسان ہيں۔ يہ ايك عمومي گفتگو ہے، جو تمام انسانوں كے لئے ہے، كسي لغت اور كسي مروجہ عربي زبان ميں ”ناس“ محروم طبقے كو نہيں كہا گيا بلكہ طبقے كا مفہوم اس ميں آتا ہي نہيں، قرآن كہتا ہے:

( لله علي الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا. )

”يعني صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے كہ وہ حج بجا لائيں ۔“

كيا يہاں يہ مفہوم نكلتا ہے كہ اس سے مراد محروم طبقہ ہے؟ اسي طرح قرآن ميں اكثريت كے ساتھ ”يا ايھا الناس“ كے الفاظ آئے ہيں اور كہيں بھي اس سے مراد محروم طبقہ نہيں بلكہ عوام الناس ہيں، قرآن كے تمام عمومي خطابات اس نظريہ فطرت سے ہم آہنگ ہيں، جسے قرآن نے خود پيش كيا ہے ۔

ثالثاً: قرآن كے بارے ميں يہ بات بھي درست نہيں كہ وہ اس بات كا مدعي ہے كہ تمام انبياء عليھم السلام تمام قائدين اور تمام شہداء صرف مستضعف طبقے سے ابھرتے ہيں۔ قرآن نے ہرگز ايسي كوئي بات نہيں كي ہے ۔

( هو الذي بعث في الاميين ) ۔۔۔“

كي آيت كو استدلال بنا كر جو كہا گيا ہے كہ پيغمبر ”امت“ سے ابھرتا ہے اور ”امت“ عام لوگوں كے مساعي ہے، بڑي مضحكہ خيز بات ہے، ”اميين“، ”اُمّي“ كي جمع ہے اور يہ لفظ ناخواندہ كے مفہوم ميں آتا ہے۔ ”اُمّي“ امت سے نہيں ”ام“ سے منسوب ہے اور پھر ”امت“ اس معاشرے كا نام ہے، جس ميں بہت سے گروہ مختلف طبقات كے امكان كے ساتھ باہم جي رہے ہوں۔ امت ہرگز عام لوگوں كے طبقے سے عبارت نہيں ہے۔ اس سے زيادہ مضحكہ خيز استدلال وہ ہے، جو سورہ قصص كي پچھترويں آيت سے شہيدوں كے بارے ميں كہا گيا ہے۔ آيت يہ ہے:

( ونزعنا من كل امة شهيداً فقلنا هاتوا برهانكم ) .

اس آيت كي تفسير (جو دراصل مسخ ہے) اس طرح كي گئي ہے:

”ہم ہر امت (ہر طبقے) سے ايك شہيد كو (اللہ كي راہ ميں قتل ہونے والے كو) اٹھاتے ہيں، يعني ان سے ايك انقلابي شخص كو ابھارتے ہيں اور پھر تمام امتوں سے كہتے ہيں كہ وہ اپنے اپنے برہانوں كو جو شہيد اور اللہ كي راہ ميں قتل ہونے والي انقلابي شخصيتيں ہي ہيں، كو اپنے ساتھ لائيں ۔“

اولاً: يہ آيت ايك دوسري آيت كا حصہ ہے اور ان دونوں كا تعلق قيامت سے ہے:

( ويوم يناديهم فيقول اين شركائي الذين كنتم تزعمون ) .

”قيامت كا دن وہ ہوگا، جس ميں خدا مشركوں كو آواز سے گا كہ كہاں ہيں وہ شركاء جن كا تم مجھ پر گمان كيا كرتے تھے ۔“

ثانياً: ”نزعنا“ كا مطلب جدا كرنا ہے، ابھارنا اور اكسانا نہيں ہے ۔

ثالثاً: شہيد كے معني اس آيت ميں خدا كي راہ ميں قتل ہونے والا نہيں بلكہ اعمال پر ناظر اور گواہ ہے اور قرآن مجيد ہر پيغمبر كو امت كے اعمال پر گواہ گردانتا ہے۔ قرآن ميں كہيں بھي لفظ ”شہيد“ اللہ كي راہ ميں قتل ہونے والوں كے لئے نہيں آيا، لہٰذا جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرين عليہم السلام نے اسے آج ہي كے رائج مفہوم ميں استعمال كيا ہے، ليكن قرآن ميں يہ لفظ اس مفہوم ميں نہيں آيا، پس يہ بات ہماري نظر سے گذر رہي ہے كہ كس طرح نامربوط ماركسي نظريہ كي توجيہ كے لئے قرآن كي آيتوں كو مسخ كيا جارہا ہے ۔

رابعاً: انبياء عليھم السلام كے ہدف كے بارے ميں وہ كيا ہے؟ كيا ان كا پہلا اور اصلي ہدف عدل و قسط قائم كرنا ہے يا بندے اور خدا كے درميان ايمان اور معرفت كے تعلق كي برقراري ہے يا پھر دونوں ہي باتيں ہيں، يعني انبياء عليھم السلام بااعتبار ہدف ”ثنوي“ ہيں يا كوئي اور بات بروئے كار ہے۔ ہم نے ”نبوت“ كي بحث ميں اس پر گفتگو كي تھى، جسے اب دہرانا نہيں چاہتے۔ (”وحي و نبوت“ اسي سلسلے كي تيسري كتاب) اس منزل پر ہم موضوع كو پيغمبروں كے كام كي ”روش“ اور Method كے اعتبار سے پركھنا چاہتے ہيں۔ جيسا كہ ہم عملي توحيد كے مباحث ميں بھي عرض كر چكے ہيں (”توحيدي تصور كائنات“ اسي سلسلے كي دوسري كتاب) انبياء عليھم السلام تو بعض متصوفين كے انداز فكر كے مطابق انسان كي اصلاح كے لئے اپني تمام كوششوں كو اس پر صرف كرتے تھے كہ اسے باطني طور پر آزاد بنائيں تاكہ وہ اشياء سے اپنا رشتہ توڑ لے اور نہ ہي بعض مادي مكاتب كي طرح باطني روابط كي اصلاح و تعديل كے لئے ظاہري يا بيروني اصلاح و تعديل كو كافي سمجھتے تھے۔ قرآن نے ايك جملے ميں اس مسئلے كو حل كر ديا ہے:

( تعالوا الي كلمة سوآء بيننا و بينكم ان لا نعبد الا الله ولا نشرك به شياء ولا يتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون الله ) (سورہ آل عمران، ۶۴)

”اے اہل كتاب ايك ايسي بات كي طرف آجاؤ، جو ہمارے اور تمہارے درميان يكساں ہے كہ ہم سوائے خدا كے كسي كي پرستش نہ كريں اور اس كا كسي كو شريك نہ بنائيں اور حقيقي خدا كو چھوڑ كر ہم ميں كوئي كسي كو پروردگار نہ بنائے ۔“

ليكن گفتگو اس باب ميں ہے كہ كيا انبياء عليہم السلام اپنے كام كا آغاز اندر سے كرتے ہيں يا باہر سے؟ كيا پہلے وہ عقيدے، ايمان اور معنوي جذبے كے ذريعے سے اندروني يا باطني انقلاب برپا كرتے ہيں اور ان لوگوں كو جو توحيدى، فكرى، احساسي اور عاطفي انقلاب سے بہرہ مند ہوجاتے ہيں، انہيں اجتماعي توحيد، اجتماعي اصلاح اور عدل و انصاف كي برقراري كے لئے ابھارتے ہيں؟ يا پہلے مادي پلڑے ميں اپنا وزن ڈال كر يعني محروميوں، دھوكہ بازيوں اور زيادتيوں پر لوگوں كي توجہ مركوز كر كے انہيں حركت ميں لاتے ہيں اور اجتماعي شرك اور بے جا امتيازات كا قلع قمع كرنے كے بعد وہ ايمان، عقيدے اور اخلاق كي جستجو ميں نكلتے ہيں؟

انبياء عليھم السلام اور اولياء الٰہي كي روش كا تھوڑا سا مطالعہ اور اس پر تھوڑي سي توجہ بھي ہميں يہ بتاتي ہے كہ وہ اپنا كام مصلحتوں اور انساني اصلاح كے مدعيوں كے برعكس فكر، عقيدے، ايمان، معنوي اضطرار، عشق الٰہى، مبداء اور معاد كے تذكرے سے شروع كرتے ہيں۔ سوروں كي ترتيب، قرآن مجيد كي نازل شدہ آيتوں كا مطالعہ كہ وہ كن مسائل سے شروع ہوئي ہيں اور اسي طرح جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي سيرت كہ انہوں نے اپني تيرہ سالہ مكي زندگي اور دس سالہ مدني زندگي ميں كن مسائل پر توجہ دى، اس موضوع پر كافي روشني ڈالتي ہيں۔

خامساً: يہ ايك فطرى بات ہے كہ پيغمبر كے مخالفين رجعت پسندانہ منطق كے حامل تھے۔ ليكن اگر اس بات كو قرآن سے استنباط كيا جاتا اور وہاں ديكھا جاتا كہ انبياء عليھم السلام كے تمام مخالفين بلا استثناء اس منطق كے حامل تھے، تو يہ بات بھي سامنے آتي ہے كہ ان تمام مخالفين كا تعلق با حيثيت، خوشحال اور استحصال پسند طبقے سے تھا۔ قرآن سے جو بات سامنے آتي ہے، وہ يہ ہے كہ يہ منطق ان وڈيروں اور مخالفوں كي رہي ہے، جنہيں ملاء و مستكبر كہا جاتا ہے اور وہ لوگ جن كے ہاتھوں ميں بقول ماركس معاشرے كي مادي اجناس كي كنجي تھى، ان كي فكرى اجناس كو دوسروں تك پہنچاتے تھے اور يہ بات بھي فطرى ہے كہ پيغمبروں كي منطق، فكرى، تعقلي اور تقاليد و روايات سے پاك رہي ہے اور ايسا ہونا بھي چاہيے، ليكن اس كي وجہ ہرگز يہ نہيں ہے كہ طبقاتي محروميوں، مظلوميتوں اور استضعاف شدگيوں نے ان كے ضمير اور وجدان كو ايسا بنا ديا ہو اور يہ منطق ان كي محروميوں كا لازمي اور فطرى انعكاس ہو، بلكہ يہ اس لئے تھے كہ انہوں نے منطق، تعقل، عواطف اور انساني احساسات كي آغوش ميں پرورش پائي اور انسانيت نے انہيں رشد و كمال تك پہنچاديا۔ يہ بات ہم بعدميں بتائيں گے كہ انسان جس قدر انسانيت ميں رشد و كمال كي منزليں طے كرے گا اتنا ہي طبيعي اور اجتماعي ماحول سے اس كي وابستگي كم ہو جائے گي اور وہ وارستگي اور استقلال كي منزل كر لے گا۔ پيغمبروں كي مستقل منطق اسي بات كي متقاضي رہي ہے كہ وہ عادات و روايات و تقاليد كے پاپند نہ ہوں اور لوگوں كو بھي ان روايات اور اندھي تقاليد سے باز ركھيں ۔

سادساً: استضعاف كے بارے ميں بھي جو كچھ كہا گيا، وہ بھي قابل قبول نہيں، ليكن كيوں؟

اس لئے كہ اولاً قرآن نے اپني دوسري آيتوں ميں بڑي صراحت كے ساتھ تاريخ كي سرنوشت اور اس كے انجام كو كسي اور صورت ميں بيان كيا ہے، جب كہ ضمناً تاريخ كے تكامل كي جگہ كو بھي بيان كيا ہے اور وہ آيتيں اس آيت كے معني كي بالفرض كہ اس كا معني وہ ہو، جو بيان كيا جاتا ہے، شارح اور مفسر ہيں اور اسے مشروط بناتي ہيں۔

ثانياً: رائج و عام باتوں كے خلاف بنيادي طور پر استضعاف كي آيت نے كسي كلي اصول كو پيش نہيں كيا تاكہ اس ضمن ميں آنے والي آيتوں كے ساتھ موازنے كي منزل ميں كسي تفسير و توضيح كي يا آيت كو مشروط بنانے كي ضرورت ہو، يہ آيت اپني پہلي اور بعد كي آيت سے متصل ہے اور ان مربوط آيتوں پر توجہ سے يہ بات واضح ہوتي ہے كہ يہ آيت جس طرح كہ اس سے استدلال كياگيا ہے، كلي اصول كو بيان نہيں كر رہي۔ پس اس آيت كے بارے ميں ہماري بحث دو حصوں ميں منقسم ہوتي ہے۔ پہلے حصے ميں فرض كيا گيا ہے كہ ہم نے اس آيت كو اس كي پہلي اور بعد كي دس آيتوں سے جدا كر ديا ہے اور اسي سے ايك كلي تاريخي اصول اخذ كر ليا ہے، اس كے بعد اس كا دوسري آيتوں كے ساتھ موازنہ كرتے ہيں، جو اس آيت سے ماخوذ اصول كے برخلاف تاريخ كے ديگر اصولوں كي حامل ہيں، پھر ہم يہ ديكھتے ہيں كہ مجموعي طور پر ہميں اس سے كيا حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے حصے ميں گفتگو كا موضوع يہ ہوگا كہ يہ آيت بنيادي طور پر جس طرح كہ اس سے استدلال كيا گيا ہے، كلي تاريخ اصول بيان ہي نہيں كر رہي اور اور اب پہلے حصہ پر گفتگو ہوتي ہے۔ قرآن مجيد كي بعض آيتوں ميں تاريخ كي سرنوشت، اس كے سرانجام اور نيز تكامل تاريخ كے راستے اور مقام كے بارے ميں ضمناً گفتگو ہے اور يہ اسي وقت ميسر ہوگا، جب بے ايماني پر ايمان، فجور پر تقويٰ، بدعنواني پر اصلاح اور ناشائستہ عمل پر شائستہ عمل كي كاميابي ہوگي۔ سورہ نور كي ۵۵ويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:

( وعدا لله الذين امنوا منكم و عملوا الصلحت ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضي لهم وليبد لنهم من بعد خوفهم امنا يعبد و نني لا يشركون بي شيئا )

اس آيت ميں جن لوگوں سے خلافت اور وراثت ارض كا وعدہ كيا گيا ہے اور انہيں حتمي كاميابي كي خوشخبري دي گئي ہے، شائستہ كار مومن ہيں۔ اس آيت ميں استضعاف كي آيت كے برخلاف جس ميں استضعاف شدگي اور محروميت و مظلوميت كا ذكر ہے، آئيڈيالوجيكل اور اخلاق و كردار جيسي صفات كا ذكر كيا گيا ہے اور درحقيقت ايك طرح كے عقيدے، ايك طرح كے ايمان اور ايك طرح كے كردار كي كاميابي اور آخري غلبے كا وعدہ كيا گيا ہے۔ بعبارت ديگر اس آيت ميں ايماندار، حقيقت پسندانہ اور راست كردار انسان كي كاميابي كا اعلان ہوا ہے۔ اس كاميابي ميں جس چيز كي نويد دي گئي ہے ۔

وہ ايك استخلاف يعني حصول حكومت اور پچھلي طاقتوں كا خاتمہ ہے اور دوسرے استقرار دين يعني عدل، عفاف، تقويٰ، شجاعت، ايثار، محبت، عبادت، اخلاص اور تزكيہ نفس وغيرہ پر مشتمل اسلام كي اجتماعي اور اخلاقي اقدار كي وجود پذيري ہے اور تيسرے عبادت يا اطاعت سے ہر طرح كے شرك كي نفي ہے۔ سورہ اعراف كي ايك سو اٹھائيسويں (۱۲۸) آيت ميں بھي يہي تذكرہ ہے:

( قال موسيٰ لقومه استعينوا بالله واصبروا ان الارض لله يورثها من يشاء من عباده و العاقبة للمتقين )

”جناب موسيٰ نے اپني قوم سے كہا: وہ خدا سے استعانت طلب كرے اور صابر رہے، بيشك زمين، ملك الٰہي ہے اور وہ اپنے بندوں ميں سے جسے چاہتاہے، اس كا وارث بناتا ہے (ليكن) عاقبت و انجام متقين كے لئے ہے، يعني سنت الٰہي يہ ہے كہ متقين ہي زمين كے وارث بنيں ۔“

سورہ انبياء عليھم السلام كي ايك سو پانچويں (۱۰۵) آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:

( ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر ان الارض يرثها عبادي الصلحون )

”ہم نے زبور ميں بعد اس كے كہ (كسي اور كتاب ميں) ايك دفعہ پہلے بھي ياد دہاني كرائي تھى، يہ لكھ ديا ہے كہ كہ زمين كي وراثت ميرے شائستہ كار بندوں كو ملے گي ۔“

اس ضمن ميں اور بھي آيتيں ہيں اب ہم كيا كريں؟ استضعاف كي آيت كو ليں يا استخلاف اور ان چند دوسري آيتوں كو؟ كيا ہم يہ بات كہہ سكتے ہيں كہ يہ دو طرح كي آيتيں اگرچہ ظاہراً دو مفہوم كي حامل ہيں، ليكن ايك حقيقت كو پيش كرتي ہيں اور وہ يہ كہ مستضعفين درحقيقت مومنين، صالحين اور متقين ہي ہيں، جن كا ذكر دوسري آيتوں ميں آيا ہے، كيا استضعاف ان كي طبقاتي اور اجتماعي عنوان ہے اور ايمان، عمل صالح اور تقويٰ مكتبي عنوان؟ ہرگز نہيں ۔

كيونكہ اولاً: ہم نے پہلے يہ بات ثابت كر دي ہے كہ عناوين كي مطابقت كا نظريہ اس معني ميں كہ بنياد استضعاف شدگى، استحصال زدہ ہونا محرومي ہے جبكہ ايمان، صالح اور تقويٰ ان بنيادوں پر كھڑي عمارت ہے، با اعتبار قرآن صحيح نہيں ہے۔ قرآن كي رو سے ممكن ہے، بعض گروہ مومن ہوں، مگر مستضعف نہ ہوں اور اسي طرح مستضعف ہوں، مگر مومن نہ ہوں اور قرآن نے دونوں گروہوں كي شناخت كروائي ہے، البتہ جيسا كہ ہم پہلے عرض كر چكے ہيں، ايك طبقاتي معاشرے ميں جب عدل، ايثار اور احسان وغيرہ سے متعلق الٰہي قدروں پر مبني توحيدي آئيڈيالوجي كا اعلان ہوتا ہے، تو روشن ہے كہ ا س پر ايمان لانے والوں كي اكثريت مستضعفين ميں سے ہوتي ہے كيونكہ ان كي راہ ان ركاوٹوں سے پاك ہوتي ہے، جو مخالف طبقے ميں پائي جاتي ہيں، ليكن كبھي بھي مومن طبقہ فقط مستضعف طبقے ميں سے نہيں ہوا ۔

ثانياً: ان دونوں آيتوں ميں سے ہر ايك آيت تاريخ سے متعلق دو مختلف ميكانزم پيش كرتي ہے۔ استضعاف كي آيت تاريخ كي راہ كو طبقاتي كشمكش سے عبارت جانتي ہے اور حركت سے متعلق ميكانزم كو استحصال كرنے والوں كي طرف سے پڑنے والا دباؤ اس طبقے كي بالذات رجعت پسندي اور استحصال كے سبب استحصال كے شكار افراد كا انقلابي جذبہ قرار ديتي ہے ۔

جس ميں كاميابي بالآخر استضعاف شدہ طبقے ہي كو حاصل ہوتي ہے، خواہ وہ ايمان اور عمل صالح سے بہرہ مندہ ہو يا نہ ہو اور اس ميں في المثل ويت نام اور كمبوڈيا وغيرہ كے استحصال شدہ عوام بھي آجاتے ہيں اور اگر ہم الٰہي رخ سے اس آيت كے معني كي توضيح كرنا چاہيں گے تو ہميں كہنا پڑے گا كہ يہ آيت چاہتي ہے كہ مظلوم كے لئے حق تعاليٰ كي حمايت جو كہ قرآن كي آيت:

( ولا تحسبن الله غافلا عما يعمل الظالمون ) “. (سورہ ابراہيم، آيت۴۲)

ميں آئي ہے، يعني عدل الٰہي كو بيان كرے۔ استضعاف كي آيت سے رونما ہونے والي وراثت و امامت ”عدل الٰہي“ كا مظہر ہے۔

ليكن استخلاف اور اس سے مشابہ آيتيں تاريخ سے كسي اور طرح كا ميكانزم پيش كرتي ہيں اور ايك ايسے اصول كا تذكرہ كرتي ہيں، جو عدل الٰہي سے زيادہ جامع اور مكمل ہے اور اس ميں عدل الٰہي بھي آجاتا ہے۔

وہ ميكانزم جو يہ آيت اور اس سے مشابہ آيتيں پيش كرتي ہيں، يہ ہے كہ دنيا ميں ہونے والي تمام جنگوں ميں مادي اور مفاداتي ماہيت ركھنے والي جدوجہد كے علاوہ اگر كوئي للہى، في اللہى، مقدس اور مادي مفادات سے پاك جدوجہد ہے، تو يہ وہ تحريك ہے، جس كي قيادت انبياء عليھم السلام اور پھر ان كي پيروي ميں اہل ايمان نے كي اور اس قسم كي جنگوں نے انساني تمدن اور بشريت كو آگے بڑھانے ميں مدد دي ہے۔ صرف يہي وہ تحريكيں ہيں، جن كو حق و باطل كا معركہ كہا جا سكتا ہے اور انہي معركوں نے تاريخ كو باعتبار انسانيت اور باعتبار معنويت آگے بڑھايا ہے، ان معركوں كا اصلي محرك كسي طبقے كا دباؤ نہيں ہے بلكہ حقيقت كي طرف فطرى ميلان، نظام وجود كي حقيقي شناخت اور عدالت خواہي يعني معاشرے كي حقيقي تعمير اس كے اصلي عامل ہيں۔

مظلوميتوں اور محروميوں كے احساس نے انسان كو آگے نہيں بڑھايا بلكہ حصول كمال كے فطرى احساس نے اسے يہ راستہ دكھايا ہے ۔

انسان كي حيواني صلاحيتيں انجام تاريخ ميں وہي ہيں، جو آغاز ميں تھيں اور تاريخ كے پورے سلسلے ميں كوئي نيا رشد و نمو اسے حاصل نہيں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا، ليكن انسان كي انساني صلاحيتيں بتدريج آگے بڑھ رہي ہيں اور آگے چل كر وہ اور بھي اپنے آپ كو مادي اور اقتصادي قيود سے چھڑا كر عقيدے اور ايمان سے منسلك ہوگا۔ وہ سطح جس پر تاريخ نے ترقي كي اور كمال تك پہنچي مادى، مفاداتي اور طبقاتي جدوجہد نہيں ہے، بلكہ وہ نظرياتى، الٰہي اور ايماني جدوجہد ہے اور يہي وہ طبقاتي ميكانزم ہے جس ميں انسان نے ترقي كي اور نيك، پاكيزہ لوگوں اور راہ حق كے مجاہدوں نے كاميابي حاصل كي ۔

اب رہي بات اس كاميابي كے الٰہي پہلو كي تو الٰہي پہلو سے جو چيز سلسلہ تاريخ ميں ظہور پذير ہو كر تكامل كي منزلوں سے گزرتي ہے اور بالآخر تاريخ اپني انتہاء كو پہنچتي ہے، وہ ربوبيت اور رحمت الٰہي كا ظہور اور اس كي تجلي ہے، جو تكامل موجودات كا تقاضا كرتي ہے۔ صرف عدل الٰہي نہيں جو ”صلہ“ كي متقاضي ہے۔بعبارت ديگر جس بات كي خوشخبري دي گئي ہے، وہ خدا كي ربوبيت، رحيميت اور اس كي اكرميت كا ظہور ہے، صرف جباريت و منتقميت نہيں ۔

پس ہم ديكھتے ہيں كہ استضعاف كى، استخلاف كي اور اس سے مشابہ آيتوں ميں ہر آيت ايك خالص طريقہ كار كو پيش كرتي ہے۔ كامياب طبقے كے اعتبار سے، اس راہ كے اعتبار سے جسے تاريخ طے كر كے كاميابي تك پہنچتي ہے، ميكانزم يعني تاريخ كو حركت ميں لانے والے عوامل كے اعتبار سے ايك خاص طريقہ كار سامنے آتا ہے۔ ضمناً يہ بات بھي واضح ہوگئي كہ استخلاف كي آيت كے مقابل استضعاف كي آيت سے حاصل ہونے والي چيز جزوي بلكہ ايك معمولي جزو ہے، استضعاف كي آيت سے حاصل ہونے والے مطلب كا، يعني استضعاف كي آيت دفع ظلم يا مظلوم سے اللہ كي حمايت كے جس مفہوم كو پيش كرتي ہے، وہ استخلاف كي آيت كے مفاہيم كا ايك حصہ ہے ۔

اب ہم آيہ استضعاف كے بارے ميں بحث كے دوسرے حصے كي طرف آتے ہيں: حقيقت تو يہ ہے كہ استضعاف كي آيت نے ہرگز كسي كلي اصول كو پيش نہيں كيا، يہي وجہ ہے كہ اس نے نہ تو تاريخ كي راہ ميں كي وضاحت كي ہے اور نہ تاريخي ميكانزم كے بارے ميں كوئي اشارہ كيا ہے اور نہ ہي تاريخ كي كاميابي كو مستضعفوں كے حصے ميں اس اعتبار سے كہ وہ مستضعف ہيں، ديا ہے۔ يہ غلطي ہے كہ يہ آيت ايك كلي اصول كو پيش كرتي ہے، اس لئے ہوئي كہ اس آيت كو اپني پہلي اور بعد كي مرتبط آيت سے جدا كر كے ”الذين“ كو ”الذين استضعفوا“ كے مفہوم ميں مفيد عموم اور سب كے شامل حال بنا ديا گيا ہے اور پھر اس سے ايك ايسے اصول كا استنباط كيا گيا ہے، جو آيہ استخلاف كے حقيقي مفہوم كي ضد ہے، اب ہم ان تينوں آيتوں كو پيش كرتے ہيں:

( ان فرعون علا في الارض و جعل اهلها شيعاً يستضعف طائفة منهم يذبح ابنائهم و يستحيي نسائهم انه كان من المفسدين و نريد ان نمن علي الذين استضعفوا في الارض ونجعلهم آئمة و نجعلهم الوارثين ونمكن لهم في الارض و نري فرعون وهامان و جنودهما منهم ما كانوا يحذرون ) . (سورہ قصص، آيات۴ تا ۶)

يہ تينوں آيتيں ايك دوسرے سے مرتبط ہيں اور مجموعاً ايك ہي مفہوم كو پيش كرتي ہيں، ان تينوں مرتبط آيتوں كا مفہوم يہ ہے:

”فرعون نے زمين پر برتري حاصل كي اور زمين كے باسيوں كو گروہوں ميں بانٹ ديا۔ ان گروہوں ميں سے ايك گروہ كو وہ كمزور ركھتا تھا، ان كے بيٹوں كو ذبح كيا كرتا تھا اور (صرف) ان كي بيٹيوں كو باقي ركھتا تھا۔ وہ مفسدوں ميں سے تھا حالانكہ ہمارے ارادے ميں يہ بات تھي كہ ہم فرعون كي طرف سے كمزور بنائے جانے والے انہي لوگوں پر احسان كريں۔ ان كو پيشوا بنائيں، انہيں وارث قرار ديں اور اس سرزمين ميں ان كو تسلط عطا كريں اور فرعون، (اس كے وزير) ہامان اور ان دونوں كے لشكر كو وہ كچھ دكھا ديں، جس كا وہ خوف كيا كرتے تھے ۔“

ہم ديكھتے ہيں كہ ”( ونمكن لهم في الارض ) “ كا جملہ اور تيسري آيت كے ”( ونري فرعون و هامان ) ۔۔۔“ كا جملہ دونوں دوسري آيت كے ”ان نمن“ كے جملے پر عطف ہيں اور اس كے مفہوم كو مكمل كرتے ہيں، يہي وجہ ہے كہ ان دونوں آيتوں كو ايك دوسرے سے جدا نہيں كيا جا سكتا۔ دوسري طرف ہم ديكھتے ہيں كہ تيسري آيت كا دوسرا جملہ ”ونري فرعون و ہامان“ پہلي آيت كے مفہوم سے متصل ہے اور فرعون جس كي جباريت پہلي آيت ميں بيان ہو چكي ہے، كا انجام پيش كرتي ہے۔ پس تيسري آيت كو پہلي آيت سے جدا نہيں كيا جا سكتا اور چونكہ تيسري آيت پر عطف ہے اور اسے مكمل كرنے والي ہے، لہٰذا دوسري آيت بھي پہلي آيت سے جدا نہيں ہو سكتي ۔

اگر تيسري آيت نہ ہوتي يا اس ميں فرعون يا ہامان كے انجام كا تذكرہ نہ ہوتا، تو ممكن تھا كہ دوسري آيت كو پہلي آيت سے جدا كر ديا جاتا اور اس سے ايك كلي اصول كے طور پر استفادہ كيا جاتا، ليكن ان تينوں آيتوں كا ناقابل تفكيك جوڑ اسے كلي اصول بنانے ميں ركاوٹ ہے۔ جو بات سامنے آتي ہے، وہ يہ ہے كہ فرعون بڑائى، تفرقہ بازى، استحصال اور فرزند كشي كرتا تھا، حالانكہ اسي وقت ہمارا يہ ارادہ تھا كہ ہم انہي محقر، مظلوم اور محروم لوگوں پر احسان كريں اور انہيں پيشوا اور وارث قرار ديں۔ پس آيت ميں لفظ ”الذين“ كا موعود يعني مذكورہ لوگوں كي طرف اشارہ ہے، عمومي اور سب لوگوں پر محيط نہيں۔ علاوہ ازيں اس آيت ميں ايك نكتہ اور بھي ہے اور وہ يہ ہے كہ ”( ونجعلهم آئمه ) ۔۔۔“ كا جملہ ”ان نمن“ كے جملے پر عطف ہے، جس كا مطلب يہ ہے كہ ہم ان پر احسان كريں اور انہيں فلاں، فلاں بنا ديں يہ نہيں كہا: ”( بان نجعلهم ) ۔۔۔“ يعني جو احسان ہم نے ان پر كيا ہے، وہ امامت و وراثت ہي كا دينا تھا، جيسا كہ عام طور پر اسي طرح وضاحت كي جاتي ہے۔ آيت كا مطلب يہ ہے كہ ہمارا ارادہ يہ تھا كہ ہم ان مستضعفين پر ديني تعليم و تربيت، آسماني كتاب، ارسال رسول اور توحيدي اعتقادات كے ذريعے احسان كريں، انہيں اہل ايمان اور اہل صلاح و فلاح بنائيں اور آخر كار انہيں زمين (انسان كي اپني زمين) كا وارث اور امام قرار ديں۔ پس يہ آيت كہنا چاہتي ہے:

( ونريد ان نمن علي الذين استضعفوا) بموسي والكتاب الذي ننزله علي موسي ( و نجعلهم آئمه ) ۔۔۔ “

لہٰذا استضعاف كي آيت كا مفہوم ہرچند كے خاص ہے، ليكن استخلاف كي آيت كے مفہوم كے عين مطابق ہے، يعني اس آيت كے مصاديق ميں سے ايك مصداق كو بيان كرتي ہے۔ قطع نظر اس كے كہ ”ان نمن“ كے جملے پر ”( ونجعلهم آئمه ) ۔۔۔“ كے جملے كا عطف اس طرح كا حكم ديتا ہے، بنيادي طور پر يہ نہيں كہا جا سكتا كہ آيت يہ كہنا چاہتي ہے كہ بني اسرائيل مستضعف ہونے كے سبب وراثت اور امامت تك پہنچتے تھے۔ خواہ جناب موسيٰ عليہ السلام پيغمبر كي حيثيت سے ظہور كرتے يا نہ كرتے، خواہ موسيٰ عليہ السلام كي آسماني تعليمات آتيں يا نہ آتيں، خواہ وہ ان كي تعليمات كو مانتے يا نہ مانتے۔ ممكن ہے اسلام كے نقطہ نگاہ سے نظريہ ماديت تاريخ كے حامي افراد كسي اور بات كو پيش كريں اور كہيں كہ اسلامي كلچر باعتبار روح و معاني يا كمزور اور مستضعف طبقے كي ثقافت ہے يا پھر اس كا تعلق استحصالي طبقے سے ہے يا ايك جامع كلچر ہے، اگر اسلامي كلچر مستضعف طبقے كا كلچر ہے، تو پھر اس ميں بہرحال اپنے طبقے كا رنگ ہونا چاہيے۔ اس كے مخاطب اس كي ذمہ دارى، اس كي سمت كا تعين، سبھي كچھ استضعاف كے محور پر ہونا چاہيے اور اگر اسلامي كلچر كو ظالم يا استحصالي طبقے سے نسبت دي جائے، جيسا كہ مخالفين اسلام كا دعويٰ ہے، تو علاوہ بريں كہ اس ميں طبقاتي رنگ ہوگا ايك طبقہ كے محور پر اس كي گردش ہوگي۔ اس كا كلچر رجعت پسندانہ اور خلاف انسانيت ہوگا اور نتيجتاً الٰہيت سے اس كا واسطہ نہ ہوگا ۔

كوئي مسلمان اس نظريے كو ماننے كے لئے تيار نہ ہوگا۔ اس كے علاوہ اس كے كلچر كا سراپا خود اس كے خلاف گواہي دے گا۔ اب صرف يہ بات رہ جاتي ہے كہ كہا جائے كہ اسلامي ثقافت ايك جامع ثقافت ہے، جامع ثقافت يعني غير جانبدار ثقافت، بے پرواہ ثقافت، غير ذمہ دار ثقافت، بے مقصد، لا يعني ثقافت اور اعتزالي ثقافت، جو چاہتي ہے كہ اللہ كے كام كو اللہ اور قيصر كے كام كو قيصر كے حوالے كرے۔ ايك ايسي ثقافت جو آگ اور پانى، ظالم اور مظلوم اور استحصال گر اور استحصال كے شكارلوگوں كے درميان دوستي چاہتي ہے اور سب كو ايك مركز پر جمع كرنا چاہتي ہے۔ وہ ثقافت جس كا نعرہ يہ ہے كہ ”نہ سيخ جلے اور نہ كباب“ اس قسم كي ثقافت ايك قدامت پرستانہ ثقافت ہے، جو ظالم استضعاف گر اور استحصال پسند افراد كے حق ميں مفيد ثابت ہوتي ہے۔ جس طرح اگر ايك گروہ غير جانبدارنہ، بے توجہانہ، غير ذمہ دار اور ذلت پسندانہ روش اختيار كرے اور غارت گر اور غارت كے شكار افراد كے درميان اجتماعي يا معاشرتي جھگڑوں ميں حصہ نہ لے، تو گويا اس نے غارت گر كا ساتھ ديا ہے اور اس كے ہاتھ مضبوط كئے ہيں، اسي طرح اگر ايك ثقافت بے توجہ اور غير جانبدار بن جائے تو ہميں چاہيے كہ ہم اسے ظالم يا استحصالي طبقے كي ثقافت سمجھيں، پس چونكہ اسلامي ثقافت ايك بے پروہ، غير جانبدار يا استحصالي طبقے كي حامي نہيں ہے، لہٰذا ہميں چاہيے كہ ہم اسے مستضعف يا مظلوم طبقے كي ثقافت جانيں اور اس كے پيام، اس كے مخاطب اور اس كي معين راہ كو اسي طبقے كے محور اور دائرہ عمل ميں شمار كريں۔

يہ گفتگو انتہائي غلط گفتگو ہے۔ غالباً ماديت تاريخ سے بعض مسلمان روشن فكروں كے لگاؤ كا اصلي سبب دو باتيں ہيں، جن ميں سے ايك يہي سوچ ہے كہ اگر اسلامي ثقافت كو انقلابي ثقافت كہنا چاہتے ہيں يا اگر اسلام كو كسي انقلابي ثقافت سے جوڑنا چاہتے ہيں، تو ماديت تاريخ سے رشتہ جوڑے بغير يہ كام نہيں ہو سكتا۔ باقي يہ تمام باتيں كہ ہماري قرآني معرفت ہميں يہ سوچ ديتي ہے يا قرآن كے ہمارے مطالعات ہميں يہ بتاتے ہيں يا استضعاف كي آيت يہ كہتي ہے، سب ايك بہانہ اور پہلے سے سوچتي ہوئي بات كي توجيہ ہے اور اس بناء پر يہ لوگ اسلامي فكر و سوچ سے بہت دور نكل جاتے ہيں اور اسلام كي الٰہى، فطرى، انساني اور پاكيزہ منطق كو ختم كر كے مادي منطق تك لے آتے ہيں ۔

اس قسم كے روشن فكر حضرات سوچتے ہيں كہ كسي ثقافت كے انقلابي ہونے كي تنہا راہ يہ ہے كہ اس كا تعلق صرف محروم اور استحصال زدہ سے ہو، وہ اسي طبقے سے اٹھي ہو، اس كا رخ اسي طبقے كي طرف ہو، اسي طبقے كے مفادات كي طرف اس كي نگاہ ہو، اس كا مخاطب صرف يہي طبقہ، اس كے قائدين، اس كے رہنما اور اس كے تمام اجتماعي اور طبقاتي مراكز سب سے سب اسي طبقے سے ہوں اور باقي تمام گروہوں اور مراكز سے اس كا رابطہ صرف جھگڑے، دشمني اور جنگ كا ہو، اس كے علاوہ نہيں، ان روشن فكر حضرات كا خيال ہے كہ انقلابي ثقافت كي راہ لازماً ”پيٹ“ كے مسئلے پر آكر ختم ہوتي ہے اور تاريخ كے تمام عظيم انقلابات يہاں تك كہ انبياء الٰہي كي قيادت ميں برپا ہونے والے انقلابات كا تعلق بھي پيٹ كے مسئلے ہي سے تھا، لہٰذا انہوں نے عظيم المرتبت ابوذر، حكيم امت ابوذر اور پھر خداپرست ابوذر، مخلص ابوذر، امر بالمعروف كرنے والے اور نہي عن المنكر كرنے والے ابوذر اور مجاہد في سبيل اللہ ابوذر كو ايك بندہ شكم ابوذر اور نفسياتي الجھنوں كا شكار ابوذر بنا ديا اور كہا كہ وہ بھوك كو اچھي طرح محسوس كرتا ہے اور اسي بھوك كي خاطر وہ تلوار اٹھانے اور لوگوں كے قتل كرنے كو جائز بلكہ واجب و لازم سمجھتا ہے۔ اس كي سب سے بڑي صفت يہ تھي كہ چونكہ وہ خود بھوك كا مزہ چكھ چكا تھا، اس لئے جانتا تھا كہ اس كے طبقے سے وابستہ بھوكوں پر كيا گزر رہي ہے، مخلوق كي بھوك كا بھي اسے اچھي طرح احساس تھا اور اس لئے اس بھوك كے سبب فراہم كرنےوالے گروہ كے خلاف اس كے دل ميں نفرت بيٹھ گئي اور وہ اس گروہ كے خلاف مسلسل اپني جدوجہد ميں لگا رہا اور بس! اس لقمان امت، موحد، عارف اور اسلام كے پاك باز مجاہد مومن كي شخصيت بس اسي منزل پر تمام ہوتي ہے۔ يہ روشن فكر حضرات سمجھتے ہيں كہ ماركس كے نظريے كے مطابق:

”انقلاب، صرف ايك قہر آلودقيام اور عوامي تحريك ہي سے وجود ميں آسكتا ہے ۔“

ان كي سوچ ميں يہ بات نہيں آتي كہ ايك ثقافت، ايك مكتب، ايك آئيڈيالوجي الٰہي غرض يا غايت كي حامل ہو اور اس كا مخاطب انسان بلكہ درحقيقت فطرت انساني ہو اور اس كا پيغام آفاقي اور ہمہ گير ہو اور مقصد عدالت، مساوات، برابرى، پاكيزگى، معنويت، احسان، محبت اور ظلم كے خلاف جنگ ہو، تو وہ بھي ايك عظيم تحريك اور ايك عميق انقلاب برپا كر سكتي ہے۔ ليكن ايك الٰہي انساني انقلاب كہ جس ميں الٰہي ولولہ، معنوي مسرت، خدائي جذبہ اور انساني اقدار موجزن ہوں، اس كي ہميں تاريخ ميں بہت سي مثاليں ملتي ہيں، ايران كا اسلامي انقلاب اس كا ايك روشن نمونہ ہے۔ روشن فكر حضرات يہ بات نہيں سوچ سكتے كہ كسي ثقافت كے ٹھوس اور با مقصد ہونے اور غير جانبدار اور بے تعلق نہ ہونے كے لئے يہ ضروري نہيں كہ وہ محروم اور پسے ہوئے طبقے سے تعلق ركھتي ہو۔ ان كا خيال ہے كہ جامع ثقافت لازمي طور پر غير جانبدار اور لاتعلق ہوتي ہے۔ يہ سوچنے ميں ان كي فكر ان كا ساتھ نہيں ديتي كہ ايك جامع مكتب اور ايك جامع ثقافت اگر الٰہي جذبہ كي حامل ہو اور اس كا مخاطب انسان يعني انسان كي انسانيت فطرت ہو، تو محال ہے كہ وہ غير جانبدار، لا تعلق، بے مقصد اور غير ذمہ دار ہو، جو چيز مقصديت اور مسئوليت پيدا كر ليتي ہے، وہ محروم طبقہ سے نہيں، وہ محروم طبقہ سے نہيں، اللہ اور انساني وجدان سے وابستگي ہے ۔

يہ ان حضرات كي غلط فہمي كي ايك بنيادي وجہ ہے۔ اسلام اور انقلاب كے درميان رابطے كے تصور كے بارے ميں يہ لوگ اس غلط فہمي ميں مبتلا رہے ہيں، اس غلط فہمي كي دوسري بنيادي وجہ اسلام اور اس كے اجتماعي راہ عمل كے غلط تصور سے متعلق ہے۔ ان روشن فكروں نے انبياء عليھم السلام كي تحريكوں كے بارے ميں قرآن كي تاريخي تفسير ميں بڑي وضاحت سے مشاہدہ كيا ہے كہ ان كي طرف سے مستضعفين كے مفاد ميں ايك مضبوط راہ عمل متعين كي گئي ہے، دوسري طرف ”محور“ اور راہ عمل كے درميان مطابقت كے قانون يعني ”اجتماعي بنياد اور اعتقادي عملي بنياد كے درميان تطابق“ جو ايك ماركسي قانون ہے، كو يہ روشن فكر حضرات ناقابل تفكيك سمجھتے تھے اور اس كے علاوہ كچھ اور سوچ بھي نہيں سكتے، لہٰذا انہوں نے مجموعاً يہ نتيجہ اخذ كيا كہ چونكہ واضح طور پر قرآن پيش رفت كرنے والي اور مقدس تحريكوں كے راہ عمل كو مستضعفوں كے حقوق، ان كي آزادي ميں مفاد ميں جانتا ہے، لہٰذا قرآن كي رو سے تمام مقدس اور پيش رفت كرنے والي تحريكوں كا محور محروم، مستضعف اور تباہ حال طبقہ ہے۔ پس باعتبار قرآن تاريخ كي ہويت مادي اور اقتصادي ہے اور اقتصاد ہي اصل ۔۔۔۔ ہے۔

اب تك جو كچھ ہمارے معروضات رہے، ان سے يہ ثابت ہوا كہ چونكہ قرآن اصول فطرت كا قائل ہے اور انساني زندگي پر حاكم ايك ايسي منطق ركھتا ہے، جسے فطرى منطق كہنا چاہيے اور اس كے مد مقابل حصول منفعت كي منطق ہے، جسے حيوان صفت پست انساني منطق كہنا چاہيے، لہٰذا اسلام ”محور اور رائے عمل كے درميان مطابقت“ يا ”اجماعي بنياد اور اعتقادي بنياد كے تطابق“ كے قانون كو نہيں مانتا، اسے ايك غير انساني اصول قرار ديتا ہے، يعني اس تطابق كے مصداق وہ لوگ نہيں، جو تربيت يافتہ اور انسانيت كے درجے پر فائز ہيں اور جن كي منطق، منطق فطرت ہے، بلكہ وہ لوگ ہيں، جنہوں نے ابھي انسانيت تك رسائي حاصل نہيں كي اور جو انساني تربيت سے بے بہرہ ہيں اور جن كي منطق اصول مفاد پر مبني ہے ۔

ان باتوں سے ہٹ كر يہ جو ہم كہتے ہيں كہ اسلام كا عملي راستہ مستضعفين كے مفاد ميں ہے، ايك طرح كے مجاز اور سہل انديشي سے خالي نہيں ہے۔ اسلام عدالت، مساوات اور برابرى كي سمت اپنا راستہ معين كرتا ہے ظاہر ہے يہ راہ محروموں اور مستضعفوں كے لئے مفيد اور استحصال كرنے والے غارت گروں كے لئے مضر ثابت ہوتي ہے ۔

اسلام وہاں بھي جہاں كسي طبقے كے حقوق و منافع كا تحفظ چاہتا ہے، اس كا اصلي ہدف ايك انساني اصول كا قيام اور اس كي عظمت كا اظہار ہوتا ہے۔ يہ وہ منزل ہے، جہاں ايك بار پھر اس ”اصول فطرت“ كے غير معمولي منزل كا اندازہ ہوتا ہے جسے قرآن واضح طور پر بيان كرتا ہے اور جسے اسلامي ثقافت اور اسلامي تعليمات ميں ”ام المعارف“ كے عنوان سے پہچانا جانا چاہيے ۔

فطرت كے بارے ميں بہت كچھ كہا جاتا ہے، ليكن اس كي گہرائي اور اس كي مختلف جہتوں كي وسعت كي طرف بہت كم توجہ دي گئي ہے۔ ايسے لوگوں كي كمي نہيں، جو فطرت كے بارے ميں بہت دم مارتے ہيں، ليكن اس كي وسيع جہات پر پوري توجہ نہ ہونے كے سبب آخر كار جو نظريات اخذ كرتے ہيں، وہ اس اصول كے مخالف ہوتے ہيں ۔

اسي طرح كا اشتباہ بلكہ اس سے بھي زيادہ وحشت ناك اشتباہ خود مذاہب كے محور و مقصد كے بارے ميں رونما ہوا ہے۔ اب تك ہم نے جو گفتگو كي وہ مذہب (البتہ مذہب اسلام) كے نقطہ نظر سے تاريخي واقعات كي ہويت اور اس كے مراكز طلوع كے بارے ميں تھي۔ اب ہم تاريخ كے ايك معاشرتي مظہر كے عنوان سے خود مذہب پر گفتگو كريں گے، جو آغاز تاريخ سے اب تك موجود رہي ہے۔ پہلے اس معاشرتي حقيقت كي متعين راہ اور اس كے محور و مركز كو واضح كرنا چاہيے۔

ہم مكرر عرض كر چكے ہيں كہ ماركسي تاريخي ماديت اس اصول كو پيش كرتي ہے كہ جس كے مطابق وہ ہر ثقافتي حقيقت كے محور و مقصد اور اس كے متعين راہ كے درميان قانون تطابق كي قائل ہوتي ہے۔

درحقيقت عارفہ اور حكماء الٰہي نظام ہستي كے حالات و واقعات ميں جس اصولوں كے قائل ہيں، وہ ”النھايات ھي الرجوع الي البدايات“ ہے، يعني انجام دراصل آغاز كي سمت بازگشت ہے ۔

مولانا روم نے كہا:

جزئہا را رويہا سوي كل است

بلبلان را عشق با روي گل است

”اجزاء كا رخ كل كي طرف ہے، بلبلوں كو روئے گل سے عشق ہوتا ہے ۔“

آنچہ از دريا بہ دريا مي رود

از ہمانجا كامد آنجا مي رود

”جو كچھ سمندر سے آتا ہے، سمندر كي طرف چلا جاتا ہے، جہاں سے آتا ہے، وہيں چلا جاتا ہے ۔“

از سركہ سيلہائي تيز رو

و زتن ما جان عشق آميز رو

”كوہسار كي چوٹيوں سے تيز رفتار ندياں نكلتي ہيں اور ہمارے جسم سے عشق سے معمور روح نماياں ہوتي ہے ۔“

ماركسزم بھي فطرى، ذوقى، فلسفى، مذہبي اور حتمي ثقافت، اجتماعي امور ميں ايسي ہي بات كرتا ہے۔ يہ مكتب اس بات كا مدعي ہے كہ ہر فكر كي سمت اس طرف ہوتي ہے، جہاں سے وہ اٹھتي ہے، يعني ”النھايات ھي الرجوع الي البدايات“ نہ غير جانبدار اور بے طرف سوچ، فكر، مذہب اور ثقافت ايك ايسا وجود ہے اور نہ ايسي جانبدار سوچ، فكر، مذہب اور ثقافت موجود ہے، جو ايك ايسے اجتماعي نظريے كو آگے بڑھانے كي خواہش مند ہو، جس سے اس كا كوئي رشتہ اور تعلق نہ ہو، اس مكتب كي روح سے ہر طبقہ اپنے سے متعلق ايك خاص فكر وذُق كا حامل ہے۔

اس اعتبار سے طبقاتي اور منقسم معاشروں ميں حيات اقتصادي كي روح سے دو طرح كے احساسات، دو فلسفى طرز تفكر، دو اخلاقي نظام، دو طريقے كے آرٹ، دو نوعيت كے شعر و ادب، ہستي كے بارے ميں دو طرح كا ذوق اور احساس و نظر اور كبھي دو طرح كا علم پايا جاتا ہے اور جب اصل بنياد اور روابط مالكيت كي دو صورتيں ہو جاتيں ہيں، تو باقي تمام چيزيں بھي دو شكلوں اور دو سسٹمز ميں بٹ جاتي ہيں ۔

ماركس ذاتي طور پر ان دو نظاموں كے عمل ميں مذہب اور حكومت كے استثناء كا قائل ہے۔ ماركس كي نگاہ ميں يہ دونوں چيزيں استحصالي طبقے كي خاص ايجاد اور اس طبقے كي منفعت جوئي كا ايك خاص ذريعہ ہيں اور طبيعي طور پر ان دونوں كي پاليسي كي سمت اور جدوجہد كا رخ اسي طبقے كے فائدے ميں ہے۔ استحصال كا شكار طبقہ اپنے اجتماعي حالات كي بنياد پر نہ مذہب كو جنم ديتا ہے اور نہ حكومت كو۔مذہب اور حكومت دونوں مخالف طبقے سے اس كے سر تھوپے جاتے ہيں۔ پس نہ مذہب ميں دو سسٹمز ہيں اور نہ حكومت ميں۔بعض مسلمان روشن فكروں كا كہنا ہے كہ ماركس كے نظريے كے برخلاف مذہب پر بھي دو سسٹمز كا عمل حكم فرما ہے ۔

ان كے خيال ميں:

”جس طرح طبقاتي معاشروں ميں اخلاقى، فنى، ادبياتي اور تمام ثقافتي امور دو سسٹمز پر مشتمل ہيں اور ہر سسٹم كا محور اور مقصد اس كا مخصوص طبقہ ہے، ايك سسٹم كا تعلق حاكم اور دوسرے كا محكوم طبقہ سے ہے، اسي طرح مذہب بھي دو سسٹمز كے نظام پر مشتمل ہے اور ہميشہ ہر معاشرے ميں دو مذہبوں كا وجود رہا ہے، ايك حاكم طبقے كا مذہب اور دوسرے محكوم طبقے كا ۔“

”مذہب حاكم مذہب شرك اور مذہب محكوم مذہب توحيد ہے، مذہب حاكم بے جا امتيازات كا مذہب اور مذہب محكوم مساوات اور برابرى كا مذہب ہے، مذہب حاكم موجود صورتحال كي حمايت اور مذہب محكوم انقلاب اور موجود صورتحال كي مذمت كا مذہب ہے۔ مذہب حاكم جمود، سكون، سكوت اور مذہب محكوم قيام، حركت اور آواز بلند كرنے كا مذہب ہے۔ مذہب حاكم معاشرے كے لئے افيون اور مذہب محكوم معاشرے كي قوت ہے ۔“

”پس ماركس كا يہ نظريہ كہ ہميشہ مذہب كا رخ حاكم طبقے كے مفاد ميں اور محكوم طبقے كے خلاف ہوتا ہے اور مذہب معاشرے كے لئے افيون ہے، اس مذہب پر صادق آتا ہے، جس كا محور حاكم طبقہ ہے اور اس وقت صرف وہي مذہب تھا كہ جس كا عملاً وجود تھا اور جس كي حكمراني تھي۔ محكوم طبقہ كے مذہب يعني انبياء اكرامعليہ السلام كا مذہب كہ جس نے حاكم نظاموں كو ہرگز اپنے اوپر چھانے كي اجازت نہيں دى، سے متعلق نہيں ہے، ان روشن فكروں نے اس طرح حاكم طبقے كے فائدے ميں مذہب كي كاروائي سے متعلق ماركس كے نظريے كو رد كر كے يہ سمجھ ليا كہ انہوں نے ماركسزم كي ترديد كي ہے۔انہوں نے نہيں سوچا كہ خود ان كي گفتگو اگرچہ ماركس، اينجلز، مائو اور ماركسزم كے تمام قائدين كے نظريہ كے خلاف ہے، ليكن مذہب كے بارے ميں عيناً ايك ماركسي اور مادي توجيہ ہے، جو انتہائي خطرناك ہے اور ہرگز اس پر ان كي توجہ نہيں گئي كيونكہ انہوں نے بہرحال محكوم مذہب كے لئے طبقاتي عنصر كو فرض كر كے محور اور راہ عمل كے درميان مطابقت كے قانون كي تصديق كي ہے۔ دوسرے لفظوں ميں انہوں نے ماہيت مذہب اور ہر ثقافت سے وجود پذير ہونے والي حقيقت كے مادي ہونے اور ايك ثقافتي تخليق كے محور اور اس كے راہ عمل كے درميان مطابقت يقيني ہونے كے قانون كو غير شعوري طور پر تسليم كيا ہے اور اہم بات يہ ہے كہ وہ ماركس اور ماركسٹوں كے نظريے كے برخلاف ايسے مذہب كے وجود كے بھي قائل ہوئے ہيں، جس كا محور و مقصد محروم اور تباہ حال طبقہ ہے، انہوں نے محكوم مذہب كي راہ عمل كے اعتبار سے حقيقتاً ايك دلچسپ توجيہ كي ہے، ليكن محور و مقصد كي ماہيت كے اعتبار سے ايسي توجيہ نہيں كر سكے، جسے بہرحال مادي اور طبقاتي قبول كرنا پڑا ۔“

اس سے حاصل ہونے والا نتيجہ كيا ہے؟ يہ ہے كہ صرف حكمران طبقے سے تعلق ركھنے والا مذہب شرك اور مذہب حاكم ہي وہ عيني تاريخي مذہب ہے، جو زندگي پر اپنا اثر قائم كئے ہوئے ہے، اس لئے كہ ان كے پس پشت جبر تاريخ كا ہاتھ ہے۔ ان كے اختيار ميں اقتصادي اور سياسي طاقت رہي ہے اور اسي لئے ان كا مذہب بھي جو ان كے مفادات كا آئينہ دار تھا، چھپا رہتا تھا، ليكن مذہب توحيد ايك بيروني اور عيني وجود كي صورت ميں معاشرے ميں نہ اتر سكا۔ اس نے معاشرے ميں كوئي تاريخي كردار ادا نہيں كيا اور نہ كر سكتا تھا كيونكہ عمارت بنياد پر سبقت نہيں لے جا سكتي۔

”اس اعتبار سے انبياء كي توحيدي تحريكيں تاريخ كي محكوم اور شكست خوردہ تحريكيں ہيں اور اس كے علاوہ ہو بھي نہيں سكتي تھيں۔ توحيدي مذہب كے انبياء عليھم السلام نے برابرى كے مذہب كو پيش كيا ہے، ليكن اس كے بعد زيادہ عرصہ نہيں گزرا كہ شرك كے مذہب نے انبياء عليہم السلام كي تعليمات كے پس پردہ، نقاب توحيد تلے اپنا كام جاري ركھا اور ان تعليمات كي تحريف كے بعد اسي كو اپني غذاء بنا كر پہلے سے زيادہ طاقت ور ہوگيا اور محروم طبقے كي ايذا رساني ميں مزيد قوت حاصل كي ۔“

”درحقيقت سچے نبيوں نے اپني تمام تر كوششوں كے بعد لوگوں كے لئے كچھ سرو سامان كا انتظام كيا، ليكن وہي چيز لوگوں كے لئے بلائے جان بن گئي اور مخالف طبقے نے اسے اپنا آلہ كار بنا كر محروم اور بيكس و برباد لوگوں كے گلے كي رسي كو تنگ كر ديا۔انبياء عليھم السلام اپني تعليمات كے ذريعے جس چيز كو پائے تكميل تك پہنچانا چاہتے تھے، وہ نہ پہنچ سكي اور جو كچھ ہوا، وہ ان كا مقصد نہ تھا ۔“يہ تعبير فقہا:

ماقصد لم يقع وما وقع لم يقصد

”يعني جو قصد كيا گيا، واقع نہ ہوا اور جو واقع ہوا، مقصود نہ تھا ۔“

”يہ جو مادہ پرست اور مذہب دشمن عناصر كہتے ہيں، دين معاشرے كي منشيات كي طرح ہے، جمود اور ركاوٹ كا عمل ہے، مظالم اور بے جا امتيازات كي توجيہ كرنے والا ہے، جہل كا محافظ ہے اور عوام الناس كے لئے افيون ہے، بالكل درست ہے، ليكن اس مذہب كے لئے جو مسلط، مشرك اور بے جا امتيازات كا حامل ہے اور جو تاريخ پر چھايا رہا ہے ليكن يہ بات سچے مذہب كے لئے جھوٹ ہے، جو توحيدي اور محكوم اور مستضعف لوگوں كا مذہب ہے اور جسے ہميشہ اوراق حيات اور تاريخ كے صفحات سے دور ركھا گيا ہے ۔“

”وہ تنہا كردار جسے محكوم مذہب نے ادا كيا ہے، اعتراض اور عمل تنقيد ہے اور يہ بات ايسي ہے، جيسے كوئي پارٹي قانون ساز ادارے ميں اكثريت سے كامياب ہو اور حكومت بنائے اور اپنے پروگرام اور اپنے فيصلوں كو روبہ عمل لائے اور دوسرا گروہ ہرچند زيادہ قابل اور زيادہ ترقي يافتہ ہو، مگر ہميشہ اقليت ميں پڑا رہے، تو اس سے بجز اس كے اور كچھ نہ ہوگا كہ وہ اكثريت كے كاموں پر تنقيد اور اعتراض كرتا رہے ۔“

”اكثريت كي حامل پارٹي تنقيدوں پر كان نہيں دھرتي اور معاشرے كو جس نہج پر چلانا چاہتي ہے، چلاتي ہے اور كبھي كبھي اقليت كے اعتراضات اور انتقادات سے اپنے كام كو استحكام بخشنے كے لئے استفادہ كرتي ہے۔ اگر ان انتقادات كو وجود نہ ہوتا، تو ممكن تھا، وہ خود ايك دباؤ كے زير اثر ايك دن ختم ہوجاتى، ليكن اقليت كي تنقيديں اسے متنبہ كرتي رہتي ہيں اور وہ اپنے آپ كو سنبھالتي رہتي ہے اور اسي كے ذريعے اس كي پوزيشن مستحكم تر ہوتي چلي جاتي ہے ۔“

مذكورہ بيان كسي اعتبار سے درست نہيں ، نہ مذہب شرك كي ماہيت سے متعلق تجزيہ كے اعتبار سے اور نہ مذہب توحيد كي ماہيت سے متعلق تجزيہ كے اعتبار سے اور نہ ہي اس كردار كے اعتبار سے جسے تاريخ نے ان دونوں مذاہب كے بارے ميں پيش كيا ہے، بلاشبہ مذہب كا وجود دنيا ميں ہميشہ رہا ہے۔ اس سے صرف نظر كرتے ہوئے كہ وہ مذہب توحيد ہو يا مذہب شرك يا پھر دونوں طرح كے، ماہرين عمرانيات كي رائے اس بارے ميں مختلف ہے كہ كيا مذہب شرك كو مذہب توحيد پر زمانے كے اعتبار سے تقدم حاصل ہے يا اس كے برعكس مذہب توحيد مذہب شرك پر تقدم ہے، بيشتر افراد كي رائے يہ ہے كہ پہلے مذہب شرك وجود ميں آيا اور پھر اس نے بتدريج ترقي كي اور توحيد تك پہنچا اور بعض اس كے برعكس كہتے ہيں ۔

ديني روايات بلكہ بعض ديني اصول دوسرے نظريے كي تائيد كرتے ہيں، كيا واقعاً مذہب شرك بے جا امتيازات اور مظالم كي توجيہ كے لئے ظالم اور ستم گر افراد نے ايجاد كيا يا اس كا كوئي اور سبب ہے؟ محققين نے اس كے لئے دوسرے اسباب كا تذكرہ كيا ہے، يہ بات اتني آساني سے قابل قبول نہيں كہ شرك اجتماعي امتيازات كي پيداوار ہے اور مذہب توحيد كي يہ تحليل كہ يہ امتيازات كے مخالفين، يگانگت و بھائي چارے كے موافقين اور محروم طبقے كے مطالبات كے لئے ايك توجيہ ہے، يہ پہلي بات سے زيادہ غير عالمانہ بات ہے ۔

علاوہ ازيں يہ بات مباني اسلام سے بھي ہرگز ہم آہنگ نہيں، مذكورہ بيان، اللہ كے سچے پيغمبروں كو ”ناكام كامياب“ كے عنوان سے پيش كرتا ہے۔ ناكام اس اعتبار سے كہ انہوں نے باطل سے شكست كھائي اور تاريخ كے پورے سلسلے ميں مغلوب رہے۔ ان كا مذہب معاشرے پر اثر انداز نہ ہو سكا اور نہ ہي كم از كم حاكم اور باطل مذہب جيسا كوئي قابل توجہ كردار اپنے لئے متعين كر سكا۔ مذہب حاكم پر تنقيد و اعتراض كے علاوہ اس نے اور كوئي كردار ادا نہيں كيا اور كامياب اس اعتبار سے كہ ماديت كے حاميوں كے دعوے كے برخلاف ان كا تعلق استعماري اور استحصال پسند طبقے سے نہيں تھا اور يہ لوگ جمود اور ركاوٹوں كے عامل نہيں تھے۔ ان كي متعين راہ اس طبقے كے حق ميں نہيں تھي بلكہ اس كے برعكس مستضعف اور استحصال كاشكار ان كے پيش نظر تھے۔ ان لوگوں نے ان كے درد كو سہا تھا، انہي ميں سے اٹھے تھے اور انہي كے مفاد اور انہي كے كھوئے ہوئے حقوق كو واپس دلانے كے لئے كوشاں تھے ۔

سچے انبياء عليہم السلام اپني رسالت اور روح دعوت كے اعتبار سے كہ جو ان كے محور و مقصد اور طرزعمل سے عبارت ہے، كامياب ہيں، اپني ناكامي كے پہلو كے اعتبار سے بھي مكمل طور پر كامياب ہيں، يعني وہ خود اپني ناكامي كے ذمہ دار نہيں ہيں كيونكہ اختصاصي مالكيت كے نتيجے ميں ابھرنے والے ”جبر تاريخ“ كا ہاتھ حريف كو تھامے ہوئے ہے۔ اختصاصي مالكيت كے وجود نے جبراً اور قہراً معاشرے كو دو حصوں ميں بانٹ ديا ہے، ايك حصہ استحصال پسندوں كا تھا اور دوسرا استحصال كے شكار لوگوں كا۔ استحصال پسند جن كے ہاتھ ميں مادي پيداوار تھى، قہراً معنوي پيداوار كے مالك بھي تھے اور پھر اس جبر تاريخ سے كون پنجہ لڑا سكتا ہے، جو قضاء و قدر سے عبارت ہے، يہ وہ قضاء و قدر ہے، جس كا خدا مادي تعبير كے اعتبار سے آسمانوں ميں نہيں، زمين ميں ہے اور مجرد نہيں مادي ہے، گويا يہ وہي حاكميت كي طاقت ہے جسے معاشرے كي اقتصادي اساس كا نام ديا جاتا ہے اور جو پيداواري آلات كے گرد گھومتي ہے۔ پس انبيائے الٰہي اپني ناكامي كے ذمہ دار نہيں ہيں ۔

مذكورہ بيان جس كے مطابق انبياء عليھم السلام اپني ناكامي كے بارے ميں بري الذمہ ہيں، ہستي كا وہ حقيقي نظام جس كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ وہ ايك نظام خير اور نظام حق ہے اور خير، شر پر غلبہ پاتا ہے، كے مطابق غلط ثابت ہوتا ہے۔ توحيد كے پرستار جو نظام ہستي كو اچھي نگاہ سے ديكھتے ہيں، كہتے ہيں كہ نظام ہستي نظام حق ہے، نظام خير ہے، اس ميں سچائي ہي سچائي ہے۔ شر، باطل، نادرستى، ايك عرضى، طفيلي اور ناپائيدار وجود كي حامل ہے۔ انسان كے نظام ہستي يا نظام اجتماعي كا محور و مدار ”حق“ ہے۔ قرآن حكيم ميں ہے:

( فاما الزبد فيذهب جفاءاً و امّا ما ينفع الناس فيمكث في الارض ) . (سورہ رعد، آيت ۱۷)

”پس جو جھاگ ہے وہ كھڑي ہوجاتي ہے اور جو چيزلوگوں كے لئے كار آمد ہے وہ باقي رہتي ہے ۔“

اور كہا جاتا ہے كہ حق و باطل كي جنگ ميں حق كو كاميابي نصيب ہوتي ہے ۔

( بل نقذف بالحق علي الباطل فيدمغه فاذا هو زاهق. ) (سورہ انبياء، آيت ۱۸)

”بلكہ ہم حق كو باطل پر پھينك مارتے ہيں، پھر وہ اس باطل كا بھيجہ نكال ديتا ہے، (يعني اس كو مغلوب كر ديتا ہے) سو وہ مغلوب ہو كر دفعتہ جاتا رہتا ہے ۔“

يہ بھي اللہ كي تائيد سچے نبيوں كے ساتھ ہوتي ہے ۔

( انا لننصر رسلنا والذين آمنوا في الحيوة الدنيا ويوم يقوم الاشهاد ) . (سورہ مومن، آيت ۵۱)

”ہم اپنے پيغمبروں كي اور ايمان والوں كي دنيوي زندگي ميں مدد ضرور كريں گے اور جس دن گواہ اٹھ كھڑے ہوں گے ۔“

( ولقد سبقت كلمتنا لعبادنا المرسلين انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون. ) (سورہ صافات، آيت۱۷۱ ۔۱۷۳)

”اور اپنے خاص بندوں پيغمبروں سے ہماري بات پكي ہو چكي ہے كہ ان لوگوں كي يقيني مدد كي جائے گي اور ہمارا لشكر تو يقينا غالب رہے گا ۔“

ليكن گذشتہ بيان سے اس اصول كي ترديد ہوتي ہے۔گذشتہ بيان كے اعتبار سے ہر چند كہ تاريخ ميں تمام انبياء، تمام رسول اور تمام مصلحين بري الذمہ ثابت ہوتے ہيں، ليكن ان پيغمبروں كے خدا پر الزام عائد ہوتا ہے ۔

سچ تو يہ ہے كہ مسئلہ بڑا ٹيڑھا ہے ۔ ايك طرف تو قرآن عالم كے كلي امور كے بارے ميں ايك اچھي نگاہ ركھتا ہے اور اس بات پر اصرار كرتا ہے كہ ”حق“ ہستي اور انسان كي اجتماعي زندگي كا محور ہے، پھر حكمت الٰہي بھي اپنے مخصوص اصول كي بنياد پر اس بات كي مدعي ہے كہ ہميشہ شر اور باطل پر خير اور حق كا غلبہ ہوتا ہے اور شر اور باطل كو وجود عرضى، غير اساسي اور طفيلي ہوا كرتا ہے ۔

دوسري طرف گذشتہ اور حال كي تاريخ كا مطالعہ اور مشاہدي موجودہ نظام كے بارے ميں ايك طرح كي بد بيني پيدا كرتا ہے اور اس تصور كو ابھارتا ہے كہ لوگوں كا يہ كہنا بے جا نہيں كہ پوري تاريخ درد ناك واقعات، مظالم، حق كشي اورا ستحصال كا مرقع ہے ۔

كيا كہا جائے؟ كيا ہم نظام ہستي اور انسان كے اجتماعي نظام كو سمجھنے ميں غلطي كر رہے ہيں؟ يا يہ كہ اس ميں غلطي نہيں كر رہے بلكہ قرآن فہمي ميں ہميں اشتباہ ہو رہا ہے اور ہم سوچ رہے ہيں كہ ہستي اور تاريخ كے بارے ميں قرآن كا نظريہ خوش فہمي پر مبني ہے؟ يا پھر كسي ميں كوئي اشتباہ نہيں ہو رہا اور يہ تناقص حقيقت اور قرآن كے درميان پايا جاتا ہے اور اس كا كوئي حل نہيں ۔

ہم اس شبہ كو نظام ہستي تك اپني كتاب ”عدل الٰہي“ ميں خدا كے لطف و كرم سے حل كر چكے ہيں اور باقي جو تاريخ كے واقعات اور انسان كي اجتماعي زندگي سے متعلق ہے، آئندہ كي كسي بحث ميں”حق و باطل“ كا معركہ كے عنوان سے پيش كريں گے اور عنايت الٰہي سے اس شبہ كو دور كرنے كي كوشش كريں گے۔ہميں خوشي ہوگى، اگر اہل نظر اس مسئلے ميں اپنے مستدل نظريات پيش كرنے كي زحمت فرمائيں ۔

____________________

۵۹. مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ فرمائيں: جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايمان لانے افراد كے بارے ميں سورہ كہف آيت ۔۲۸، جناب نوح عليہ السلام كي امت كے بارے ميں سورہ ہود آيت ۔۱۱۱، جناب موسيٰ عليہ السلام كے پيروكاروں كے بارے ميں سورہ يونس آيت ۔۸۳، جناب شعيب عليہ السلام پر ايمان لانے والوں كے بارے ميں سورہ اعراف آيت ۔۸۸ ۔۹۰، جناب صالح عليہ السلام كا ساتھ دينے والوں كے بارے ميں سورہ اعراف آيت ۔۷۵۔۷۶ ، طوالت سے بچنے كے لئے انہي آيتوں كا اشارہ كافي ہے۔

۶۰. فٹ نوٹ ميں سورہ جمعہ كي دوسري آيت: ”هو الذي بعث في الاميين رسولا “ اور سورہ بقرہ كي ۱۲۹ويں آيت كا ذكر ہے، جو اس بات كو ظاہر كرتي ہے كہ انبياء عليھم السلام كا تعلق ”امتوں“ سے ہے اور امتوں سے مراد محروم طبقے ہيں، ہم بعد ميں اس استدلال كا جائزہ ليں گے۔

۶۱. فٹ نوٹ ميں سورہ قصص كي آيت: ”ونزعنا من كل امة شهيدا “ كي طرف اشارہ كيا گيا ہے اور يہ فرض كيا گيا ہے كہ آيت اس مفہوم كو پيش كرتي ہے كہ اللہ كي راہ ميں شہيد ہونے والے ہميشہ ”امتوں“ اور چھوٹے طبقوں ميں سے ابھرتے ہيں، اس آيت كے بارے ميں بھي ہم اپنے مقام پر گفتگو كريں گے۔

۶۲. يہ لوگ اس بات كے اظہار كے بغير كہ ماركس كي تاريخي ماديت كا سانچہ بنا رہے ہيں، اپنے اول خول كو ”معرفت قرآني“ كے انعكاس كا غلاف چڑھا كر پيش كر رہے ہيں ۔

۶۳. سورہ نساء آيت۹۷، سورہ ابراہيم آيت۲۱، سورہ نساء آيات۱۳ تا ۳۷، سورہ مومن آيات۴۷ تا۵۰.