تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت0%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

تاریخ وہابیت

مؤلف: علي اصغرفقیهى
زمرہ جات:

مشاہدے: 29125
ڈاؤنلوڈ: 4022

تبصرے:

تاریخ وہابیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29125 / ڈاؤنلوڈ: 4022
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

خاتمہ

وہابیت نجد وحجاز کے باہر

وہابیت کے آغاز سے وہابیوں کی یھی کوشش رہی ہے کہ اس مذہب کوپوری دنیا میں پھیلا دیا جائے، اور اسی مقصد کے تحت نجد وحجاز پر غلبہ پانے کے لئے قرب وجوار کے علاقوں پر بھی دست درازی کی، لیکن یہ لوگ اپنی تمام تر کوششوں کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ کرسکے،اور لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔

لیکن حجاز پر غلبہ پانے کے بعد چاہے پہلی مرتبہ میں ہو کہ محمد علی پاشا کے حملے کے ذریعہ وہابیوں کے قبضہ سے نکالا گیا، یا دوسری مرتبہ ہو جو جاری رہا، جیسا کہ ہم نے اس کی تفصیل بھی بیان کی، اس بہترین موقع سے انھوں نے فائدہ اٹھایا وہ اس طرح کہ جو لوگ مختلف مقامات سے حج کے زمانہ میں حج وزیارات کے لئے مکہ ومدینہ جاتے تھے اور ان میں اس دعوت کو قبول کرنے کی ذہنیت بھی پائی جاتی تھی ان پر وہابیوں نے کام کرنا شروع کردیا، اور ان کو اپنے عقائد اورنظریات کی تعلیم دینا شروع کی، تاکہ ان کے ذریعہ یہ مذہب دنیا کے تمام گوشوں میں پھیل جائے، اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا کے مختلف گوشہ وکنار میں ایسے افراد کے ذریعہ ہی یہ مذہب پھیلا ہے جو حج کے لئے مکہ ومدینہ جاتے تھے اور وہابیوں کے تحت تاثیر واقع ہوجاتے تھے۔

قارئین کرام! ہم یہاں دنیا کے مختلف ممالک میں وہابیت پھیلنے کی کیفیت اور طور طریقہ کو بیان کرتے ہیں، توجہ رہے کہ وہابیت کے پھیلانے کی جس قدر کوششیں کی گئیں ہیں اتنی زیادہ وہابیت نہیں پھیلی ہے جو خود وہابیوں کے تصور کے خلاف ہے کیونکہ یہ لوگ تو پوری دنیا میں وہابیت کو پورے آن بان سے پھیلانا چاہتے تھے اور اس کی وجہ بھی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔

وہابیت ہندوستان میں

سر زمین ہندوستان قدیم زمانہ سے مختلف ادیان اور مذاہب کا مرکز رہا ہے، ہندوستان میں ہر نئے نظریہ کو قبول کرلیا جاتا تھا بشرطیکہ وہ نظریہ جواب دہندہ بھی ہو یعنی لوگوں کی نظر میں کامل ہو ناقص نہ ہو، اسی وجہ سے ہندوستان میں بھی وہابیت کا نفوذ ہونے لگا اور لوگوں میں بہت سی بحث وگفتگو ہوئی۔

چنانچہ مولوی اصغر علی ہندی فیضی صاحب، شیخ حسین حلمی استامبولی کو ایک خط لکھتے ہیں، (اس کی فوٹو کاپی کتاب الصواعق الالہٰیہ مولف شیخ سلیمان نجدی (برادر محمد بن عبد الوہاب) اور کتاب فتنة الوہابیة سید احمد زینی دحلان میں چھپ چکی ہے۔

اس خط میں تحریر تھا کہ ”چند ریک“ نامی یومیہ اخبار کی ایک کاپی آپ کو بھیجی جارہی ہے، جس میں ایک مناظرہ کا خلاصہ موجود ہے جو(۱۴)۷۶ سے ۱۲(۴)۷۶تک شھر ”کالی کاٹ“ میں اہل سنت اور مجاہدین (وہابیوں) کے درمیان ہوا، اس کے بعد اس خط میں تحریر ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ بدعت گذار پیدا ہوگئے ہیں مثلاً وہابی ،(جن کا نام مجاہدین ہے) اور ”مردودی“ جن کا نیا نام جماعت اسلامی ہے، اور قادیانی اور اہل قرآن جن کا عقیدہ فقط حفظ قرآن ہے اور احادیث رسول کو نہیں مانتے، اس کے بعد اس خط میں تحریر ہے کہ وہابیوں نے ہمارے ملک میں مدرسے کھولے ہیں مثلاً ”اریکوٹ“ میں مدرسہ ”سُلَّمُ السَّلاٰم“ اور شھر ”بولکل“ میں مدرسہ ”مدینة العلم“اور شھر ”ولانور“ میں مدرسہ” انصاریہ“ ۔

قارئین کرام !اس خط کے ذریعہ یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کے دوسرے اسلامی فرقے شدت کے ساتھ وہابیت سے بر سرِ پیکار تھے، ہم نے پہلے بھی وہابیت کی ردّ میں ہندوستانی علماء کی طرف سے لکھی جانی والی کتابوں کی طرف اشارہ کیا اس وقت ہندوستان میں وہابیت کی ترویج کرنے والے دو علماء کے بارے میں مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:

سید احمد هندی

سید احمد بن محمد عرفان (حضرت امام حسن مجتبیٰ ں کی نسل سے) محرم۱۲۰۱ھ کے شروع میں شھر بریلی میں پیدا ہوئے، موصوف نے اپنی تعلیم لکھنو شھر میں شروع کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی پہونچے اور وہاں۱۲۲۲ھ تک شاہ عبد العزیز صوفی، شاہ ولی اللہ کے بڑے فرزند کے سامنے زانوئے ادب تہ کئے، کہا یہ جاتا ہے کہ سید احمد نے اپنے نظریات کو شاہ عبد العزیز سے حاصل کئے ہیں جن کی وجہ سے بعد میں بہت شھرت ہوئی۔

چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد سید احمد نے لوگوں کو وعظ ونصیحت کی خاطر چند دینی سفر کئے (جس میں اپنے نظریات اور افکار کی تبلیغ کی) سید احمد کے بعض نظریات عربی وہابیوں کے نظریات سے ملتے تھے کیونکہ یہ بھی انبیاء اورمرسلین کی یاد میں جلسہ ومجالس کو عبادتِ خداوندی کے خلاف مانتے تھے۔

سید احمد کے ساتھ سفر میں ان کے شاگردوں میں سب سے قریب دو افراد مانے جاتے تھے ان میں سے ایک ان کے بھتیجے مولوی محمد اسماعیل صاحب جنھوںنے کتاب ”صراط المستقیم“ (اردو) لکھی، چنانچہ یہ کتاب سید احمد کے پیروکاروں کے نزدیک بہت اہم کتاب ہے، ان میں سے دوسرے جناب مولوی عبد الحی ہیں جو عبد العزیز کے داماد تھے۔

سید احمد کی تبلیغ کا اثر تمام جگہوں پر ہونے لگا، اور ہزاروں مسلمان ان کی باتوں کے عاشق ہوگئے، اور خلیفہ حق اور مہدی منتظر کے عنوان سے ان کی بیعت ہونے لگی، مولوی عبد الاحد جنھوںنےسید احمد کی سیرت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے، اس طرح کہتے ہیں : سید احمد کی تبلیغ کا یہ اثر تھا کہ تقریباً چالیس ہزار ہندو مسلمان ہوگئے ۔

سید احمد۱۲۳۲ھ میں حج کے لئے اپنے وطن سے نکلے اور راستہ میں چند مھینہ کلکتہ میں قیام کیا ان کا یہ سفر دو سال تک جاری رہا، واپسی پر انھوں نے یہ منصوبہ بنا لیا کہ پنجاب میں سکھوں اورہندووں کی حکومت کے خلاف اعلان جھاد کریں ،اور جس وقت کابل اور قندہار کے مسلمانوں نے ان کی مدد کا وعدہ کیا اور وہ مطمئن ہوگئے، تو انھوں نے۱۲۴۱ھ میں اپنے حملے کا آغاز کردیا، ان کے ساتھیوں کی تعداد دس یا گیارہ ہزار تھی جو ان کے ساتھ بھادرانہ طور پر جنگ کرتے تھے۔

سید احمد نے پشاور کے حدود پر بھی حملہ کیا، اور یہ حملے کئی سال تک جاری رہے، آخر کار۱۲۴۶ھ میں بالکوٹ کے علاقہ میں ایک سخت جنگ ہوئی اور سید احمد قتل کردئے گئے، اور ان کے اکثر سپاہی بھاگ نکلے۔(۷۵۲)

اس سلسلہ میں احمد امین صاحب کہتے ہیں کہ جب سید احمد حج کرنے کے لئے گئے تو وہاں پر انھوں نے محمد بن عبد الوہاب کے مذہب کو اختیار کرلیا، اور جب ہندوستان واپس لوٹے تو وہاں انھوں نے وہابیت کی تبلیغ شروع کردی، قبور کی زیارت، کسی کو شفیع قرار دینا وغیرہ کو حرام قرار دیا اور یہ اعلان کیا کہ ہندوستان دار الحرب ہے نہ کہ دار الاسلام، اور یہاں مسلمانوں پر جھاد واجب ہے۔

چنانچہ موصوف اور ان کے پیرو کار انگلینڈ کی حکومت (چونکہ اس وقت ہندوستان انگریزوں کے قبضہ میں تھا) سے مقابلہ کر بیٹھے، طرفین میں مزید دشمنی بڑھتی گئی، اور بہت سے مسلمان مارے گئے جس کا کوئی خاص نتیجہ بھی نہ نکلا۔(۷۵۳)

سید احمد کے بعد ان کے شاگرد کرامت علی ان کے جانشین ہوئے، اور کرامت علی صاحب نے نماز جمعہ کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا، لیکن دیار مسلمین کو دار الحرب کا نام نہیں دیا۔(۷۵۴)

قارئین کرام!توجہ رہے کہ یہ سید احمد، مشہور ومعروف سر سید احمد خان کے علاوہ ہیں، یہ دونوں ہم عصر تھے اور دونوں ہندوستان کی آزادی کے لئے انگریزوں سے مقابلہ کررہے تھے، لیکن سر سید احمد خان کا نظریہ تھاکہ جنگ اور خونریزی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، بلکہ وھی حربہ استعمال کیا جائے جو انگریزوں نے اپنا کر ہندوستان اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کیا ہے، یعنی علم وصنعت اور ثقافتی ترقی کی جائے اور مدارس کھولے جائیں تاکہ تمام لوگ پڑھ لکھ کر ان کا مقابلہ کرسکےں، یھی سر سید احمد خان تھے جنھوںنے ہندوستان کی مشہور ومعروف” علی گڈھ مسلم یونیورسٹی “ کی بنیاد ڈالی ۔

مولوی اسماعیل دہلوی

خواجہ محمد حسن ہندی مولف کتاب الاصول الاربعة فی تردید الوہابیة (یہ کتاب فارسی میں ہے) کہتے ہیں کہ ہندوستان میں اس فرقہ (وہابیت ) کا سب سے پہلا استاد مولوی اسماعیل دہلوی تھے جو تقریباً ۱۲۵۰ھ میں رونما ہوئے، اور انھوں نے محمد بن عبد الوہاب کی کتاب توحید کو فارسی میں ترجمہ کیا جو ”تقویة الایمان“کے نام سے ہندوستان میں چھپ چکی ہے، اور اس کے بعد مسلمانوں کو بھڑکانے کے لئے کتاب صراط المستقیم اور دوسرے رسالے لکھے، ان کے شاگردوں کی فھرست میں عبد اللہ غزنوی، نذیر حسین دہلوی، صدیق حسن خان بھوپالی، رشید احمد گنگوھی اور مدرسہ دیوبند کے کچھ طلباء بھی ہیں جنھوںنے بہت سے مسلمانوں کو اس جال میں پھنسانے کے لئے بہت سی کتابیں اور رسالے لکھے۔

اس فرقہ نے دو طریقے اپنائے کچھ نے خود کو اہل سنت کہا اور کسی کی تقلید کرنے سے انکار کیا اور گذشتہ علماء، صالحین اور اولیاء کو مشرک اور بدعت گذار کہا۔

اورکچھ نے نفاق کے راستہ کو اپنایا اور اپنے کو پردہ حنفیت (ابو حنیفہ کے تابع) میں اپنے کو چھپا لیا، جو ظاہراً حنفی مذہب ہیں لیکن اعتقاد کے لحاظ سے پہلے والے فرقہ کے ہم آہنگ ہیں، کیونکہ اگر وہ بھی وہابیت کو قبول کرلیتے تو لوگوں کی نفرت کا شکار ہوجاتے، گویا انھوں نے اس مکر وحیلہ سے اپنے مقصود کو حاصل کرنے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا، اور واقعاً یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے، لیکن اس فرقہ کا ضرر رساں ہونا مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے اور مسلمانوں کو اسیر کرنے میں پہلے فرقے سے کہیں زیادہ رہا، اس بناپر ہماری اس کتاب کے مخاطب بھی اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔(۷۵۵)

نذیر حسین

نذیر حسین صاحب اسماعیل دہلوی کے شاگرد تھے کہ جنھوں نے بھی دہلی میں وہابیت کی علمبرداری کی، اور وہابیت کے عقائد کے سلسلہ میں فتوے دئے، محمد عبد الرحمن حنفی نے ”سیف الابرار“ نامی کتاب انھیں کے عقائد کی ردّ میں لکھی، جس کے بارے میں ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، یہ کتاب نذیر حسین کے تقلید نہ کرنے کے فتوے کی ردّ میں لگھی گئی ہے۔

سید محمد سنوسی (شمالی آفریقہ میں )

سید محمد تقریباً ۱۸۰۰ء شھر” مستغانم“ (الجزائر) میں پیدا ہوئے، موصوف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ایک اصیل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

موصوف کو بچپن ہی سے تعلیم کا بہت شوق تھا اور بڑے متقی اور پرہیزگار تھے، انھوں نے دینی علوم ” فاسی یونیورسٹی“(۷۵۶) میں حاصل کئے،اور اس کے بعد شمالی افریقہ واپس گئے اور بہت سے شھروں کا سفر کیا، اور وہ دینی امور کی اصلاح کے لئے تبلیغ کیاکرتے تھے، اس کے بعد حج کرنے کے لئے مکہ معظمہ گئے، اور اس سفر میں کافی عرصہ تک مکہ معظمہ میں رہے، اور وہابی اساتیذ سے اس مذہب کی تعلیمات حاصل کی اور ۱۸۴۳ء میں شمالی افریقہ واپس چلے گئے، اور ”طرابلس“ (لیبی) میں سکونت اختیار کی، اور وہاں وہابیت کی تبلیغ میں مشغول ہوگئے چنانچہ وہاں کے لوگ بھی دستہ دستہ ان کے پاس آتے تھے، اس وقت طرابلس عثمانیوں کے ماتحت تھا اسی لئے عثمانی حکام، سید محمد کے نفوذ سے خوف ز دہ تھے، رفتہ رفتہ ان دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہونے لگے، جس کی بنا پر سید محمد لیبی کے جنوبی صحرائی علاقہ ”واحہ جغبوب“ پہونچ گئے۔

اور آخر کار موصوف ۱۸۵۹ء میں اس دنیا سے چل بسے،جبکہ ان کا یہ مذہب شمالی افریقہ کے بعض اہم علاقوںمیں پھیل چکا تھا، اس کے بعد ان کا بیٹا سید مہدی اپنے باپ کا جانشین ہوا اور باپ کی سیرت پر چلتے ہوئے وہابیت کی تبلیغ میں مشغول ہوگیا۔(۷۵۷)

یہ تھا امریکن رائٹر ”لوتروپ ستوادارد“ کی تحریر کا خلاصہ، اس کے بعد شکیب ارسلان صاحب اس کتاب کے حاشیہ میں کہتے ہیں کہ ”سنوسیوں“ کی یورپیوں سے دشمنی ”اویش“(۷۵۸) کے دوسرے فرقوں سے زیادہ سخت ہے، ان کا نعرہ کفار سے جھاد اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کو جمع کرنا ہے، سیدی(۷۵۹) محمد علی جو طریقہ سنوسی کے مذہبی رہبر ہیں اپنے فقھی نظریات میں مستقل ہیں اور کسی بھی مذاہب اربعہ کے مقید نہیں ہیں، (لیکن حاشیہ میں یہ وضاحت کی گئی کہ مولف (یعنی شکیب ارسلان) نے سیدی احمد شریف (سیدی محمدبن علی کے پوتے اور خلیفہ)سے اس مسئلہ کی واقعیت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دادا سلف صالح (جس طرح سے وہابی لوگ کہتے ہیں) کے تابع تھے بھر حال سید محمد ۱۸۳۹ء میں جب جامع الازھر گئے تو وہاں کے ایک استاد نے ان کو استقلال فکر سے روکا، اور فتویٰ دیا کہ یہ بات شریعت کے خلاف ہے، اسی طرح یہ شبہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ وہ مکہ میں وہابیوں کی صحبت میں رہ کر ان کے اصول کی طرف مائل ہوگئے تھے، (اگرچہ حاشیہ میں کہا گیا ہے کہ سنوسی اس بات کو نہیں مانتے)۔

سید محمد نے پہلے سید احمد بن ادریس فاسی (شیخ قادریہ) سے اتفاق کیا لیکن ان کے انتقال کے بعد اپنا ایک نیا مذہب بنالیا، اور ۱۸۵۵ء میں اپنے مرکز کو ”جغبوب“ میں قرار دیا، آہستہ آہستہ یہ شھر مبشرین اسلام کا سب بڑا مدرسہ بن گیا، اور سنوسیوں کی تعداد (ساٹھ ستر سال پہلے) تقریباً چالیس لاکھ بتائی جاتی تھی، افریقی قبیلوں میں سنوسیوں کے اسلام پھیلانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ چھوٹے سیاہ فام غلاموں کو خریدکر اپنے مدرسہ میں لے جاتے تھے اور وہاں پر ان کی تعلیم وتربیت ہوتی تھی، اور جب وہ کافی بڑے ہوجاتے تھے اور تعلیم و تربیت حاصل کرلیا کرتے تھے تو ان کو آزاد کردیا کرتے تھے تاکہ اپنے قبیلوں میں جاکر لوگوں کی ہدایت کریں، چنانچہ اس مدرسہ سے ہر سال سیکڑوں کی تعداد میں مبلغ نکلتے تھے اور پورے افریقہ میں سومالی سواحل سے لے کر سنگالی سواحل تک یعنی شمال سے غرب افریقہ تک یہ لوگ پھیل جایا کرتے تھے، اور وہاں پر تبلیغی مشن کو آگے بڑھاتے تھے۔

سید محمد اور اس کے جانشین افراد کا اصلی ہدف اور مقصد یہ تھا کہ اگر ہم نے افریقہ میں اسلام پھیلادیا تو پھر انگریزوں کے نفوذ کو ختم کرسکتے ہیں۔(۷۶۰)

قارئین کرام!یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سید محمد سنوسی صاحب وہابی مذہب پھیلارہے تھے یا ایک مستقل مذہب کی تبلیغ کیا کرتے تھے، شواہد اور بہت سے قرائن موجود ہیں کہ وہ اپنے مخصوص مذہب کی تبلیغ کیا کرتے تھے، وہابی مذہب کی تبلیغ نہیں کیا کرتے تھے۔

وہابیت سوڈان میں

سب سے پہلے جو شخص وہابیت کے تحث تاثیر واقع ہوا، اور نجد وحجاز سے باہر اس کی تبلیغ میں قدم اٹھایا ہے وہ ”شیخ عثمان دان فودیو“ مغربی سوڈان کے ”فولا“ (یا فلالی) قبیلہ سے ہیں، چونکہ جب وہ حج کے لئے مکہ معظمہ پہونچے تو وہابیوں کے مذہب سے متاثر ہوئے اور پھر ان سے تعلیم حاصل کرکے اپنے وطن واپس لوٹے اور وہابیت کی تبلیغ شروع کردی، چنانچہ سوڈان میں موجود رسم ورواج جو ان کی نظر میں بدعت دکھادئے ان سب سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔

شیخ عثمان نے اپنے دینی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے قبیلے کے متفرق افراد کو ایک فلیٹ فارم پر جمع کرلیا اور ان کی مدد سے وہاں کے بت پرست قبیلوں سے جنگ کرنا شروع کردی، ۱۸۰۴ء سے ان کے درمیان جنگوں کاسلسلہ شروع ہوگیااور ۱۸۰۶ء سے پہلے پہلے انھوں نے سوڈان میں ”سوکوتورا“ نامی علاقہ پر اپنی مستقل حکومت تشکیل دی جو وہابی بنیادوں پر قائم تھی اور اس حکومت کا دائرہ ”تمبکتو“ اور دریائے ”چاد“ تک پھیلا ہوا تھا، یہ حکومت ایک صدی تک قائم رہی، لیکن اس کے بعد انگریزوں نے اس پر حملے کرکے اپنے قبضے میں لے لیا۔(۷۶۱)

شیخ عثمان کا ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ میت پر دردو اور سلام بھیجنا یا ان اولیاء کی یادگار منانا جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں جائز نہیں ہے، اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی زبان سے کی ہوئی تمجید وتعریف کے منکر تھے۔(۷۶۲)

وہابیت ، سوماترا میں

سوماترا سے ۱۸۰۳ء میں تین افراد حج کے لئے گئے اور مدینہ میں قیام کیا اور وہابیوں کے بہت زیادہ تحت تاثیر واقع ہوگئے،اور جب اپنے وطن واپس ہوئے تو وہاں وہابیت کی تبلیغ کرنے لگے،اوران کے نظریہ توحید کوپھیلانا شروع کیا،اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ شدت عمل سے کام لیا۔

ان لوگوں نے اولیاء اللہ سے توسل کو حرام قرار دیدیا، نیز شراب خوری، قمار بازی اورقرآن مجید کے دیگر مخالف کاموں سے روکا۔(۷۶۳)

اس زمانہ میں مذہب وہابیت کے ماننے والوں اور غیر مسلموں میں کافی جنگ وجدال ہوئی،۱۸۲۱ء میں ھالینڈ نے (جو انگریزوں کے قبضہ میں تھا) وہاں کے وہابی مسلمانوں سے جنگ کرنا شروع کردی، چنانچہ یہ سلسلہ تقریباً سولہ سال تک جاری رہا، آخر کار ھالینڈ وہابیوں پر غالب آگیا۔(۷۶۴)

وہابیت ،مصر میں

مصر کے شیخ محمد عبدہ وہابیوں کی دو چیزوں پر عقیدہ رکھتے تھے :

ایک بدعتوں سے مقابلہ کرنا دوسرے جھاد کا دروازہ کھلا رہنے کا عقیدہ رکھنا، وہ رواق عباسی جامع الازھر(۷۶۵) میں تفسیر کا درس کہتے تھے، اس موقع سے انھوں نے فائدہ اٹھایا اور پرستش صالحین (یعنی اولیاء اللہ کی یاد گار منانے)، زیارت قبور، شفاعت اورتوسل وغیرہ کے بارے میں کافی کچھ کہا،اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یوم ولادت کے موقع پر جشن منانے کو ممنوع قرار دیا، اور کہا کہ اس جشن کے خرچ کو فقراء کی تعلیم پر خرچ کیا جائے۔

موصوف نے سورہ ”عمّ یتسائلون“ کی تفسیر میں ان تمام ممنوعہ چیزوں کو بیان کیا ہے۔

شیخ محمد عبدہ اور وہابیوں کے دوسرے طرفداروں میں ایک اہم فرق یہ تھا کہ موصوف دین اور دنیا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے،دنیا بھر کے حالات اور اس کے نشیب وفراز سے آگاہ تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ موصوف فرانس کے کلچر سے کافی اطلاع رکھتے تھے اور یورپ کے متعدد سفر بھی کئے تھے، نیز علمائے فلاسفہ اور مغربی سیاستمداروں کے ساتھ ملاقات رکھتے تھے، اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ طے کیا کہ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کو نفسیاتی اور معاشرہ شناسی کے تحت پیش کیا جائے۔ اس سلسلہ میں شیخ محمد عبدہ کی ان کے شاگرد سید محمد رشید رضا نے مدد کی اور ان کے عقائد اور نظریات ”المنار“ نامی مجلہ میں نشر کئے اور عالم اسلام تک پہونچائے۔(۷۶۶)

وہابیت مراکش میں

مراکش میں شیخ ابو العباس تیجانی نے بھی محمد بن عبد الوہاب کی طرح لوگوں کو اس طرح کی بدعتوں اور قبروں کی زیارت سے روکا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس کی پیروی کی، لیکن وہ اپنی اس دعوت میں کامیاب نہ ہوسکے۔(۷۶۷)