تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت0%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

تاریخ وہابیت

مؤلف: علي اصغرفقیهى
زمرہ جات:

مشاہدے: 27520
ڈاؤنلوڈ: 2825

تبصرے:

تاریخ وہابیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27520 / ڈاؤنلوڈ: 2825
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

دوسرا باب: ابن تیمیہ کے عقائد

ہم اس حصہ میں ابن تیمیہ کے ان عقائد کو مختصر طور پر بیان کریں گے جن کی وجہ سے مختلف فرقوں کے علماء اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے ۔

۱۔ توحید ابن تیمیہ کی نظر میں

ابن تیمیہ کہتا ہے :جس توحید کو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ صرف خداوندعالم کے لئے الوھیت کو ثابت کرتی ہے اور بس، اس طریقہ سے کہ انسان شھادت اور گواہی دے کہ اس خدا کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، صرف اسی کی عبادت کرے اور اسی پر توکل اور بھروسہ کرے اور صرف اسی کی وجہ سے کسی کو دوست رکھے یا کسی کو دشمن قرار دے، خلاصہ یہ کہ انسان اپنے ہر کام کو خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دے، یہ وہ توحید ہے جس کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے لئے ثابت کیا ہے۔

لیکن خدا کو مجرد یگانہ جاننا یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اس عالم کو خدائے واحد نے خلق فرمایا ہے یہ توحید نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی خدا کے صفات کا اقرار کرے اور اس کو تمام عیوب سے پاک ومنزہ مانے یا اقرار کرے کہ خداوندعالم تمام مخلوقات کا خالق ہے، ایسا شخص موحد (مسلمان بمعنی عام) نہیں ہے مگر یہ کہ شھادت دے کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اقرار کرے کہ صرف وھی عبادت کا مستحق ہے اور بس(۵۷)

توحید الوھیت اور توحید ربوبیت

ابن تیمیہ نے توحید کی دوقسم کی ہیں :

۱۔ توحید الوھیت ،

۲۔ توحید ربوبیت ،

اور ان کے بارے میں کہا ہے : چونکہ تمام اسلامی فرقے توحید الوھیت سے جاہل ہیں، اسی وجہ سے غیر خدا کی عبادت کرتے ہیں، اور توحید سے صرف توحید ربوبیت کو پہچانتے ہیں، اور توحید ربوبیت سے اس کی مراد خدا کی ربوبیت کا اقرار کرنا ہے یعنی یہ اقرار کرنا کہ تمام چیزوں کا خالق خداوندعالم ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ مشرکین بھی اسی معنی کو اعتراف کرتے ہیں۔

عنی تو حید سے اس کی خالقیت کے قائل ہیں (بلکہ ہمیں چاہئے کہ توحید الوھیت یعنی اس کی خالقیت کا اعتراف کئے بغیر خدا کی خدائی کو قبول کریں)

یہ قول ابو حامد بن مرزوق سے نقل ہوا ہے کہ اولاد آدم جب تک اپنی سالم فطرت پر باقی ہیں ان کی عقل میں یہ بات مسلم ہے کہ جس کی ربوبیت ثابت ہے وھی مستحق عبادت بھی ہے، لہٰذا کسی کے ربوبیت ثابت ہوجانے کا ملازمہ یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔(۵۸)

ہم اسی کتاب میں یہ بات بیان کریں گے کہ ابن تیمیہ غیر خدا سے ہر قسم کا توسل اور استغاثہ، یا انبیاء واولیاء کو شفیع قرار دینا، اسی طرح قبور کی زیارت اور وہاں پر دعا کرنا، مثلاً یہ کہنا ”یا محمد“

اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صالحین کی قبور کے نزدیک نماز پڑھنا نیز ان کی قبور پر قربانی کرنا، یہ سب کچھ توحید کے مخالف و منافی اور باعث شرک جانتا ہے۔

لہٰذا اس بناپرابن تیمیہ کی نظر میں موحّد وہ شخص ہے جو اگر کوئی چیز طلب کرے توبراہ راست خدا سے طلب کرے اور کسی کو بھی واسطہ یا شفیع قرار نہ دے، اور کسی بھی عنوان سے غیر خدا کی طرف توجہ نہ کرے۔

۲۔ کفر وشرک کے معنی میں وسعت دینا

بعض وہ اعمال جو تمام مسلمانوں کے درمیان جائز بلکہ مستحب بھی ہیں،ابن تیمیہ کی نظر میں شرک اوربے دینی کا سبب ہیں، مثلاً اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لئے سفر کرے اور اس کے سفر کا اصل مقصد مسجد النبی میں جانا نہ ہو، تو ایسا شخص سید مرسلینکی شریعت سے خارج ہے۔(۵۹)

اور اگر کوئی شخص طلب حاجت کی غرض سے پیغمبریا کسی دوسرے کی قبر کی زیارت کرے ،اس کوخدا کاشریک قرار دے اور اس سے کوئی چیز طلب کرے تو اس کا یہ عمل حرام اور شرک ہے۔(۶۰)

اسی طرح اگر کوئی قبور سے نفع کا امیدوار ہو اور ان کو بلا ومصیت دفع کرنے والا تصور کرے، تو اس کا حکم بت پرستوں کی طرح ہے جس طرح بت پرست،بتوں سے حصول نفع ونقصان کے قائل ہیں۔(۶۱)

اسی طرح جو لوگ قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو اس کا مقصد بھی مشرکین کے قصد کی طرح ہوتا ہے ،کہ وہ لوگ بتوں سے وھی چیز طلب کرتے ہیں جو ایک مسلمان خدا سے طلب کرتا ہے۔(۶۲)

اسی طرح سے ابن تیمیہ کا کہنا ہے:

اگر کوئی انسان غیر خدا کو پکارے اور غیر خدا کی طرف جائے (یعنی ان کی قبور کی زیارت کے لئے سفر کرے) اور مردوں کو پکارے چاہے وہ پیغمبر ہوں یا غیر پیغمبر، تو گویا اس نے خدا کے ساتھ شرک کیا۔(۶۳)

ابن تیمیہ کی نظر میں کفر اور شرک کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے جس کو ہم نے ذکر کیا، کیونکہ وہ جناب تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسجد کا پڑوسی ہو ،اور اپنے کام وغیرہ کی وجہ سے نماز جماعت میں شریک نہ ہوسکے، تو اس کو توبہ کرائی جائے گی اگر توبہ نہ کرے تو اس کا قتل واجب ہے۔(۶۴)

گذشتہ مطلب کی وضاحت

شوکانی صاحب جو ابن تیمیہ کے طرفداروں اور وہابیوںکے موافقین میں سے ہیں، کہتے ہیں:صاحب نجد کے ذریعہ ہم تک پہونچنے والی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ ”جو کوئی شخص نماز جماعت میں شریک نہ ہو اس کا خون حلال ہے“جبکہ یہ بات قانون شریعت کے برخلاف ہے۔(۶۵)

اہل سنت کے سلف صالح اور ائمہ اربعہ اور عام اسلامی مذاہب کے پیشوا نماز کو گھر یا مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھتے تھے، مثلاً امام مالک ،شروع میں نماز کے لئے مسجد میں جایا کرتے تھے لیکن بعض وجوہات کی بناپر مسجد میں جانا ترک کردیا، اور گھر ہی میں نماز پڑھنے لگے، لیکن جب اس بارے میں لوگوں نے ان پر اعتراضات کرنے شروع کردئے تو کہتے تھے: میں اس کی وجہ اوردلیل نہیں بتاسکتا۔(۶۶)

احمد ابن حنبل پر بھی جب خلیفہ وقت کا غضب اور قھر پڑنے لگا تو انھوں نے بھی مسجد جانا ترک کردیا، یہاں تک کہ نماز یا دوسرے کام کے لئے بھی مسجد میں نہیں جاتے تھے۔(۶۷)

مصر کے سابق مفتی اور الازھر یونیورسٹی کے سابق صدر شیخ محمود شلتوت صاحب کہتے ہیں: مسلمانوں کو اختیار ہے کہ جہاں بھی نماز پڑھنا چاہیں پڑھیں،چاہے مسجد ہو یا گھر جنگل ہو یا کارخانہ یا کتابخانہ، خلاصہ یہ کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے، وھیں پر نماز ادا کرلےں، نیز انھیں اختیار ہے کہ چاہے نماز کو فرادیٰ پڑھیں، البتہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا نماز کا بہترین طریقہ ہے۔ اس کے بعد جناب شلتوت صاحب نماز جماعت کے فوائد بیان کرتے ہیں۔(۶۸)

ابن تیمیہ کی باقی گفتگو

ابن تیمیہ اس شخص کے بارے میں کہتا ہے کہ جو نماز ظھر کو مغرب تک اور نماز مغرب کو آدہی رات تک تاخیر سے پڑھے گویا وہ کافر ہے، اور اگر کوئی اس کام کو کفر نہ مانے، تو اس کی بھی گردن اڑادی جائے۔(۶۹)

نیزاسی طرح کہتا ہے: اگر کوئی شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت نماز نہ پڑھے تو اس کو نماز پڑھنے کے لئے کہا جائے اور اگر قبول نہ کرے تو اکثر علماء اس بات کو واجب جانتے ہیں کہ اس سے توبہ کرائی جائے اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے چاہے وہ شخص نماز کے وجوب کا اقرار کرتا ہو۔(۷۰)

اسی طرح وہ بالغ جو نماز پنجگانہ میں سے کسی ایک نماز کو ادا کرنے سے پرہیز کرے یا نماز کے کسی ایک مسلّم واجب کو ترک کرے تو ایسے شخص سے توبہ کرائی جائے اوراگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۷۱)

ابن تیمیہ مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم کہانے یا غیرخدا کے لئے نذر کرنے کو بھی شرک(۷۲) جانتا تھا،جس کی تفصیل انشاء اللہ بعد میں ذکر ہوگی۔

۳۔ خدا کے دیدار اور اس کے لئے جھت کا ثابت کرنا

ابن تیمیہ کی معروفترین کتاب منھاج السنہ ہے، ابن تیمیہ نے اس کتاب کو منھاج الکرامة فی اثبات الامامة(۷۳) تالیف مرحوم علامہ حلّی(متوفی ۷۲۶) کی ردّ میں لکھا ہے، اس نے پہلے علامہ حلی کے اعتقادات کو ایک ایک کرکے نقل کیا ہے اوراس کے بعد ان کو ردّ کرنے کی کوشش کی ہے، منجملہ علامہ حلی کے اس نظریہ کو نقل کیا کہ خدا کو دیکھا نہیں جاسکتا اورحواس خمسہ کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ خود فرماتا ہے:

( لاٰتُدْرِكُهُ الاَبْصَاْرُ وَهو یُدْرِكُ الاَبْصَاْرَ ) (۷۴)

”نگاہیں اس کودرک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک رکھتا ہے“۔

وہ علامہ حلّی مرحوم کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہ خداوندعالم جھت و مکان نہیں رکھتا، اس طرح کہتا ہے: اہل سنت سے منسوب تمام افراد خدا کے دیدار کے اثبات پر اتفاق رکھتے ہیں، اور سلف(علمائے قدیم) کا اس بات پر اجماع ہے کہ روز قیامت خدا کو ان ہی سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن دنیا میں اس کو نہیں دیکھا جاسکتا، ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دنیا میں خدا کا دیدار کیا ہے یا نھیں، اورمذکورہ آیہ شریفہ کے بارے میں کہتا ہے کہ ادراک کے بغیر خدا کا دیدار ہونا ممکن ہے۔

ابن تیمیہ نے خداوندعالم کے دیدار اور جھت وسمت کو ثابت کرنے کے لئے تفصیلی بحث کی ہے اور ظاہر آیات واحادیث سے استدلال کیا ہے۔(۷۵)

چنانچہ ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے رسالہ حمویہ لکھا ہے، ابن تیمیہ اس مسئلہ کے بارے میں مذکورہ رسالہ میں کہتا ہے: تمام نصوص (قرآنی آیات واحادیث) اس مسئلہ پر دلالت کرتی ہیں کہ خداوندعالم عرش اور آسمان کے اوپر رہتا ہے، اور اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جاسکتا ہے، روز قیامت خداوندعالم کو دیکھا جاسکتا ہے، اور یہ کہ خداوندعالم مسکراتا ہے، اور اگر کوئی شخص خدا کے آسمان میں ہونے کا اعتقاد نہ رکھے، تو اس سے توبہ کرانی چاہئے اگر توبہ قبول کرلی تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن اڑادینی چاہئے۔

اسی طرح وہ کہتا ہے: قرآن مجید کی ظاہری آیات کے مطابق خداوندعالم اعضاء وجوارح رکھتا ہے، لیکن خدا وندعالم کی فوقیت اور اس کے اعضاء وجوارح کو مخلوق (انسان) کے اعضاء وجوارح سے مقایسہ نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اسی مسئلہ کے ضمن میں کہتا ہے:

بعض لوگوں نے آیہ ذیل( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ ) (۷۶) (وہ رحمن عرش پر اختیار واقتدار رکھنے والا ہے) میں استویٰ کے معنی ”استویٰ” (بلندی) کے کئے ہیں جو باطل اور بے بنیاد ہیں، اور اس طرح کی تاویلات دوسری زبانوں کی کتب ضلال (گمراہ کن کتابوں) سے ترجمہ ہوکر علماء علم کلام کے ذریعہ عربی زبان میں داخل ہوگئی ہیں۔(۷۷)

رویت خدا کے بارے میں ابن قیّم کا نظریہ

ابن تیمیہ کے شاگرد اور ہم فکرابن قیّم نے اس سلسلہ میں ایک طویل قصیدہ کہا ہے، جس کا نام کافیة الشافیہ ہے جس کی شرح حنبلی علماء میں سے احمد بن ابراہیم نے دوجلدوں میں توضیح المقاصد کے نام سے لکھی ہے، ابن قیّم لکھتا ہے کہ اہل بہشت خداوندعالم کا دیدار کریں گے اور اس کے چھرہ مبارک پر نظر کریں گے، اس نے اسی موضوع کو اپنے اشعار میں بیان کیا:

”وَیَرَوْنَهُ سُبْحَانَهُ مِنْ فوَقِهم

رُوْیَا الْعِبَادِ كَمَاْ یُریَ الْقَمَرَانِ

هٰذَا تَوَاتَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ لَمْ

ُنْكِرهُ اِلاّٰ فَاْسِدُ الاِیْمَانِ“

”اہل بہشت خداوندعالم کو اپنے سر کے اوپر سے دیکھیں گے، جس طرح چاندوسورج کو دیکھتے ہیں،یہ بات حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بطور تواتر نقل ہوئی ہے، اور اس بات کا انکار وھی کرتا ہے جن کا ایمان فاسد ہے“

شارح (صاحب توضیح المقاصد) کہتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین،صحابہ وتابعین اور ائمہ اسلام کااس بات(کہ اہل بہشت خدا کا دیدار کریں گے) پر اتفاق ہے، لیکن بعض اہل بدعت فرقے مثلاً جُہم یہ، معتزلہ، باطنیہ اور رافضیہ خدا کے دیدار کے منکر ہیں۔

خدا کے دیدا ر کا مسئلہ قرآن مجید میں بطور واضح اور بطور اشارہ دونوں طریقوں سے بیان ہوا ہے مثال کے طور پر درج ذیل آیات:

( وُجُوْهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلیٰ رَبِّها نَاظِرَةٌ ) (۷۸)

( واتَّقُوْا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْا اَنَّكُمْ مُلاٰقُوْهُ ) (۷۹)

( تَحِیَّتهم یَوْمَ یَلْقَوْنَهُ سَلاٰمٌ ) (۸۰)

( فَمَنْ كَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّه ) (۸۱)

”لہٰذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے“۔

ابن قیّم اپنے مذکورہ قصیدہ میں کہتا ہے:

بَیْنَاهم فِیْ عَیْشِهم وَسُرُوْرِهم ْ

وَنَعِیْمِهم فِی لَذَّةٍ وَتَهٰانٍ

وَاِذَا بنُوْرٍ سَاطِعٍ قَدْ اُشْرِقَتْ

مِنْهُ الْجِنَانُ قَصِیُّها وَالدَّان. ی

رَفَعُوْا اِلَیْهِ رُوسَهم فَرَاوْهُ نُوْ

رَالرَّبِّ لاٰیَخْفٰی عَلَی اِنْسَانٍ

وَاِذَا بِرَبِّهم تَعَالیٰ فَوْقَهم

قَدْ جَاءَ لِلتَّسْلِیْمِ بِالاِحْسٰانِ

قَالَ اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ فَیَرَوْنَهُ

جَهْراً تَعٰالَی الرَّبُ ذُوْالسُّلْطَانِ(۸۲)

ترجمہ اشعار:

”جس وقت اہل بہشت جنت میں عیش وآرام اور بہشتی نعمتوں میں غرق ہوں گے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہوں گے،اچانک ایک نور چمکے گا جو تمام جنت کو روشن ومنو ر کردے گا، اس وقت تمام لوگ اوپر کی طرف اپنا سر اٹھائیں گے، تو پتہ چلے گا کہ یہ تو خدا کا نور ہے جو کسی پر بھی مخفی وپوشیدہ نہیں ہے، اسی حالت میں وہ خدا کو اپنے سروں کے اوپر دیکھیں گے،جو اہل بہشت کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہوا ہے، اس وقت خداوندعالم ان سے خطاب کرے گا: السلام علیکم، اس موقع پر اہل بہشت خدا کو واضح طور پر دیکھیں گے“۔

ابن قیم نے اس سلسلہ میں ابن ماجہ سے ایک روایت کو سند کے طور پر نقل کیا ہے،اس کے بعد ابن قیم کہتا ہے:

وکذاک یسمعهم لذیذ خطابه

سبحانه بتلاوة الفرقان

فکانّهم لم یسمعوه قبل ذا

هذا رواه الحافظ الطبرانی

هذا سماع مطلق وسماعنا

القرآن فی الدنیا قنوع ثانی(۸۳)

”خداوندعالم اہل بہشت کے لئے مترنم اور دلکش آواز میں ایک طریقہ سے قرآن پڑھے گاکہ ایسی تلاوت کو اہل بہشت نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا ہوگا، اور اس کی روایت طبرانی نے بھی کی ہے، قرآن کو بطور مطلق اور بطور حقیقی سننا یھی ہے اور جو کچھ ہم نے دنیا میں سنا ہے وہ کوئی دوسری قسم تھی“۔

شارح نے طبرانی کی روایت کو نقل کیا ہے، جس کے مطابق اہل بہشت ہر روز دوبار خدا کی بارگاہ میں پہونچےں گے، اور خداوندعالم ان کے لئے قرآن پڑھے گا، درحالیکہ کہ اہل بہشت اپنی مخصوص جگہ (یاقوت وزبرجد اور زمرّد جیسے قیمتی پتھروں کے منبروں پر)تشریف فرماہوں گے،ان کی آنکھوں نے اس سے بھتر کوئی چیز نہیں دیکھی ہوگی اور نہ ہی اس سے زیادہ دلنشین آواز سنی ہوگی، چنانچہ اس واقعہ کے بعد اپنے اپنے حجروں میں چلے جائیں گے اور دوسری صبح ہونے کا انتظار کریں گے تاکہ پھر اسی طرح کا واقعہ پیش آئے اوردوبارہ خدا کی اسی طرح آواز سنیں ۔

شیخ عبد العزیز محمد السلمان

مدرّس مدرسہ پیشواے دعوت وہابیت ریاض (مراد محمد بن عبد الوہاب کا مدرسہ ہے جو اسی کے نام سے ہے) سے ابن تیمیہ کے رسالہ عقیدہ واسطیہ کے بارے میں سوال ہوا توشیخ عبد العزیز محمد السلمان نے جواب دیا: اس بات پر ہمارا پورا یقین ہے کہ روز قیامت اہل بہشت خدا کو واضح طور پر اپنی انھی آنکھوں کے ذریعہ دیکھیں گے، اور اس کی زیارت کریں گے، خداوندعالم ان سے گفتگو کرے گا اور اہل بہشت بھی اس سے گفتگو کریں گے، جس کی طرف قرآن مجید میں یہ آیت اشارہ کرتی ہے:

( وُجُوْهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلیٰ رَبِّها نَاظِرَةٌ )

(”اس دن بعض چھرے شاداب ہوں گے، اپنے پرور دگار کودیکھ رہے ہوں گے“۔)

حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے: جلد ہی تم اپنے پروردگار کا دیدار کروگے جس طرح چودہویں کے چاند کو دیکھتے ہو۔

شیخ عبد العزیز اس کے بعد کہتے ہیں: آیہ مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روز قیامت مخلص مومنین درحالیکہ ان کے چھرے نورانی اور نعمت خدا کی وجہ سے خوش وخرم ہونگے اوراپنے خدا کا واضح اور آشکار طورسے دیدار کریں گے۔(۸۴)

یاد دہانی

ابن تیمیہ اور ابن قیّم جوزی کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ خداوندعالم صاحب جسم ومکان ہے اور اعضاء وجوارح رکھتا ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ معتقد ہے کہ خداوندعالم آسمان کے اوپر اور عرش پر تشریف فرما ہے، اور اپنی مخلوق سے جدا ہے، اوریہ معنی حق ہیں کہ چاہے اس کو مکان (جگہ) کا نام دیا جائے یامکان کا نام نہ دیا جائے۔(۸۵)

اور جیسا کہ یہ بھی معلوم ہے کہ ان باتوں کانتیجہ خداوندعالم کے لئے مکان اورجگہ ثابت ہونا ہے، کیونکہ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی طرف انگلی سے بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے، اور یہ بات مسلّم ہے کہ جس کے لئے ایک معین مکان اورجگہ ہو اور اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جاسکتاہو،اس کے لئے ھاتھ پیر آنکھ اور چھرہ اور دوسرے اعضاء بھی ہونا چاہئے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خداوندعالم کو جسم وجسمانیت والا فرض کریں۔(۸۶)

اس سلسلہ میں مرحوم علامہ حلی کا بیان اس طرح ہے: شیعوں کا اعتقاد یہ ہے کہ صرف خداوندعالم کی ذات گرامی ہے جو صفت ازلی اور قدیم سے مخصوص ہے، اور اس کے علاوہ ہر چیز حادث ہے (یعنی پہلے وجود نہیں تھی بعد میں پیدا ہوئی ہے)، اسی طرح شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوندعالم جسم وجوھر نہیں ہے، کیونکہ ہر مرکب اپنے جزء کا محتاج ہوتا ہے اور چونکہ مرکب کا جزء خود اس کے علاوہ ہے، نیز خداوندعالم عَرَض بھی نہیں ہے اور اس کے لئے کوئی خاص مکان اور جگہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر اس کے لئے مکان ہوگا تو پھر خداوندعالم حادث ہوجائے گا، اس کے علاوہ یہ کہ خداوندعالم اپنی مخلوق میں کسی کی شبیہ یا کوئی مخلوق خدا کی شبیہ نہیں ہے اورخدا ہر طرح کی شباہت سے پاک ومنزہ ہے۔

خداوندعالم کے بارے میں شیعوں کا اعتقاد یہ بھی ہے کہ خداوندعالم کو دیکھانھیںجاسکتا، اور یھی نہیں بلکہ اس کو کسی بھی حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ خود خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

( لاٰتُدْرِكُهُ الاَبْصَاْرُ وَهو یُدْرِكُ الاَبْصَاْرَ ) (۸۷)

”نگاہیں اس کو پانھیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے“۔

مرحوم علامہ حلّی خواجہ نصیر الدین طوسی کی کتاب” تجرید الاعتقاد“ کی شرح میں اس طرح فرماتے ہیں: خداوندعالم کا واجب الوجود ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کی ذات گرامی کو دیکھا نہیں جاسکتا، چنانچہ اکثر عقلاء نے اسی بات کو قبول کیا ہے کہ خدا وندعالم کو دیکھنا ناممکن ہے، لیکن وہ لوگ جو خداوندعالم کو جسم وجسمانیت والا مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم کو دیکھنا ممکن ہے، جبکہ اگر خداوندعالم کو مجرد مانا جائے تو اس کو دیکھنا محال ہے.

فرقہ اشاعرہ نے تمام عقلاء کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خداوندعالم کا دکھائی دینا اس کے مجرد الوجود ہونے سے کوئی منافات اور مخالفت نہیں رکھتا، البتہ خدا کے نہ دکھائی دینے پر ان کی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم کے واجب الوجود ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات گرامی مجرد ہو، اور اس سے جھت وسمت اور مکان کی نفی کی جائے، جس کی بناپر ضروری ہے کہ اس کے دیکھنے کی نفی کی جائے، کیونکہ جس چیز کو دیکھنا ممکن ہے اس کے لئے جھت اور سمت کا ہونا ضروری ہو اور اس کی طرف اشارہ کیا جائے کہ وہ وہاں ہے یا یہاں ہے، اور ایسی چیز انسان کے مقابلہ میں ہو، یا انسان کے مقابلہ کی مثل ہو، جبکہ ایسا نہیں ہے لہٰذا خداوندعالم کو نہیں دیکھا جاسکتا۔(۸۸)

رویت خدا کے سلسلہ میں شیعوں کے اعتقادات اور ان کے دلائل اور برہان نیز مخالفین کے اعتراضات کے جوابوں کے لئے علامہ حلّی کی مذکورہ دو کتابوں اور شیعوں کی دوسری کلامی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے، اور اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ وہ چیزیں جو بہت سی ملل ونحل کی کتابوں مثلاً کتاب الفِصَل ابن حزم،اور ملل ونحل شھرستانی میں شیعوں کی طرف بہت سی باتوں کی نسبت دی گئی ہے، وہ کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہیں، اور لکھنے والوں کے تعصب اور خود غرضی کا نتیجہ ہے ۔

امام الحرمین جُوَینی کا نظریہ

امام الحرمین عبد الملک جوینی پانچویں صدی کے مشہور اور بہت بڑے شافعی علماء میں سے تھے، وہ خداوندعالم کی صفات سلبیہ کو بیان کرتے وقت کہتے ہیں: خداوندعالم کسی بھی جھت وسمت سے مخصوص ہونے، یا کسی محاذات (یعنی کسی چیز کے مقابلہ میں واقع ہونا) کی صفت سے متصف ہونے سے پاک ومنزہ ہے، کیونکہ ہر وہ چیز جو جھت رکھتی ہے وہ کسی ایک جگہ اور مکان میں ہوتی ہے اور جوچیز کسی مکان یا جگہ میں ہو تو وہ اس کی قابلیت رکھتی ہے کہ کوئی جوھر اس سے ملاقات کرے یا کوئی چیز اس سے جدا ہوجائے اور جو چیزیں اس طرح سے ہوتی ہیںوہ ان دونوں(اجتماع وافتراق) سے خالی نہیں ہوسکتیں، اور جو چیز اجتماع اور افتراق سے خالی نہ ہو (یعنی کسی جوھر کے ساتھ جمع ہویا اس سے جدا ہوجائے) تو وہ بھی اس جوھر کی مانند حادث ہے، لہٰذا ثابت یہ ہوتا ہے کہ خداوندعالم ہر طرح کے مکان وجھت سے پاک ومنزہ ہے اور کسی جسم سے ملاقات نہیں کرسکتا۔

اگر کوئی سوال کرے کہ آیہ مبارکہ ”اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ“ سے کیا مراد ہے؟

توہم ارا جواب یہ ہوگا کہ استویٰ سے مراد خداوندعالم کا قھر وغلبہ اور اس کی عظیم عظمت ہے، اور جس وقت عرب کہتے ہیں: استوی فلان علی المملکة یعنی فلاں شخص تمام مملکت پر غلبہ پاگیا، یہ بھی اسی طرح ہے چنانچہ عربی شاعر کہتا ہے:

قَدْاِسْتَویٰ بِشْرٌ عَلَی الْعِراقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَدَمٍ مُهْرَاقِ (۸۹)

(بشر(بشر ابن مروان)بغیر خوں ریزی کے عراق پر غلبہ پاگیا۔)

یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ پہلے آخرت میں خدا کے دیدار کا نظریہ موجود تھا، چنانچہ ”مرجئہ“نامی فرقہ کے بعض افراد اس طرح کا اعتقاد رکھتے تھے، اسی طرح بعض لوگ خدا کو صاحب جسم یہاں تک کہ اعضاء وجوارح والا تصور کرتے تھے(۹۰) ( تعالی اللّٰه عما یقولون علواً کبیراً ) ۔

۴۔ خدا کا آسمانِ دنیا سے زمین پر اترنے کا عقیدہ

ابن بَطُوطہ (مشہور تاریخ نویس) دمشق کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

دمشق کے حنبلی عظیم فقھاء میں سے ایک تقی الدین ابن تیمیہ تھا جو مختلف فنون میں مھارت رکھتا تھا، اور اہل دمشق کو منبر سے وعظ ونصیحت کرتا تھا، ایک مرتبہ اس نے ایک بات ایسی کھی، جس کو اس وقت کے علماء نے قبول نہیں کیا، اور اس کو برا سمجھا، اور اس وقت کے مصری بادشاہ ملک ناصرکو خبر دی کہ ابن تیمیہ ایسی ایسی باتیں کہہ رہاہے، ملک ناصر نے حکم دیا کہ اس کو قاہرہ روانہ کردیا جائے، اور جب ابن تیمیہ قاہرہ لایا گیا تو اس وقت ملک ناصر نے قضات وفقھاء کو بلایا، جس میں سب سے پہلے شرف الدین زاوی مالکی نے آغاز سخن کیا، اور ابن تیمیہ کے عقائد کو شمار کرنا شروع کیا، (بحث وگفتگو کے بعد) ملک ناصر نے حکم سنایا کہ ابن تیمیہ کو زندان میں ڈال دیا جائے، چنانچہ چند سال ابن تیمیہ کو زندان میں رہنا پڑا، لیکن اس نے وہاں رہکر تفسیر میں ایک کتاب بنام”البحر المحیط“ لکھی جو تقریباً چالیس جلدوں پر مشتمل تھی،اور جب زندان سے آزاد ہوا تو پھر وھی اپنا پرانا عقیدہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا جس کی پھر علماء نے مخالفت کی، میں (ابن بطوطہ) اس وقت شام میں تھا جب ابن تیمیہ نے جمعہ کے دن جامع مسجد کے منبر پر تقریر کی اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کی ،تو میں بھی اس وقت مسجد میں تھا، اس نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ خداوندعالم آسمان دنیا(پہلے آسمان) پر اسی طرح نا زل ہوتا ہے جس طرح میں نیچے آتا ہوں، یہ کہہ کر ابن تیمیہ منبر کے ایک زینے سے نیچےاتر آیا۔(۹۱)

جب اس نے یہ کلمات زبان پر جاری کئے تو ایک مالکی عالم بنام ابن الزہراء اس کی مخالفت کے لئے کھڑا ہوگیا اور اس کی باتوں سے انکار کرنے لگا، یہ دیکھکر لوگوں نے ابن تیمیہ پر حملہ شروع کردیا اور اس پر جوتوں کی بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ اس کا عمامہ بھی گرپڑا، جب عمامہ گرا تو اس کے نیچے سے حریر کی ایک ٹوپی نکلی، جس کو دیکھ کر لوگ مزید برہم ہوگئے کہ ایک فقیہ اور حریر کی ٹوپی پہنے ہوئے ہے، اس کے بعد اس کو عزالدین ابن مسلم (حنبلی قاضی) کے پاس لے گئے، مذکورہ قاضی نے اس کی باتوں کو سن کر اس کوتعزیر (شرعی تنبیہ)کرنے کے بعد اس کو زندان کے لئے روانہ کردیا، مالکی اور شافعی قاضیوں کو اس حنبلی قاضی کا یہ حکم ناگوار گذرا انھوں نے اس بات کی خبر ملک الامراء سیف الدین تنکیز تک پہونچائی، سیف الدین نے اس موضوع اور ابن تیمیہ کی دوسری باتوں کو تحریر کر کے اس پر چند گواہوں اور قاضیوں کے دستخط لے کر ملک ناصر کو بھیج دیا، ملک ناصر نے حکم دیا کہ ابن تیمیہ کو زندان میں بھیج دیا جائے ،چنانچہ وہ قید میں رہا یہاں تک کہ اس دنیا سے چل بسا۔(۹۲)

ابن تیمیہ نے رسالہ عقیدہ واسطیہ میں ایک حدیث ذکر کی ہے جس میں تحریر ہے کہ خداوندعالم ہر شب آسمان دنیا (آسمان اول) پر نازل ہوتا ہے۔(۹۳)

۵۔ انبیاء علیهم السلام کا بعثت سے قبل معصوم ہونا ضروری نہیں

ابن تیمیہ، علامہ حلّی کے اس نظریہ کو کہ انبیاء کا اول عمر سے آخر عمر تک گناہ کبیرہ وصغیرہ سے معصوم ہونا ضروری ہے اور اگر معصوم نہ ہوںتو ان پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے : انبیاء علیهم السلامکا بعثت سے قبل گناہوں سے معصوم ہونا ضروری نہیں ہے، اور اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیلیں بھی لاتا ہے۔(۹۴)

ابن تیمیہ کا اعتقاد یہ تھا کہ انبیاء علیهم السلامکی عصمت فقط امور تبلیغ میں ہوتی ہے، اوراس نے اس سلسلہ میں ایک رسالہ بھی لکھاہے۔(۹۵)

۶۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد

ابن تیمیہ اپنے عقائد اورنظریات کے مخالف احادیث کو ضعیف اور غیر صحیح بتاتاہے، مثلاً اس نے اس حدیث شریف ”مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِی بَعْدَ مَوْتِی كَاْنَ كَمَنْ زَاْرَنِی فِی حَیَاتِي “ (جس نے میری رحلت کے بعد حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی) کو ضعیف بتاتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ اس حدیث کا راوی حَفص بن سلیمان موثق نہیں ہے، لہٰذا اس حدیث کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح یہ حدیث شریف:

مَنْ حَجَّ وَلَمْ یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانی “ (جو شخصحج بجالائے اور میری قبر کی زیارت نہ کرے گویا اس نے مجھ پر جفا کی) اور یہ حدیث شریف ”مَنْ زَارَ قَبْری. وَجَبَتْ لَہُ شفَاعَتی. “ (جو شخص میری زیارت کرے، مجھ پر اس کی شفاعت کرنا واجب ہے)اس نے ان دونوں احادیث کے راویوں کو بھی قبول نہیں کیا ہے۔(۹۶)

ابن تیمیہ اس طرح کی احادیث کے مضامین کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے: جو کوئی شخص حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کرے وہ (آنحضرت (ص)کی طرف) ہجرت کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے،اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زیارت کرے اور تمام واجبات کو انجام بھی دے تو بھی اصحاب پیغمبر کے مانند نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ ان کاموں کو انجام دے جونافلہ ہیں یا سرے سے قربت اوراستحباب بھی نہیں رکھتیں۔(۹۷)

(اس کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبرِ مطھر کی زیارت کرنا ہے)

اسی طرح ابن تیمیہ کہتا ہے کہ بعض لوگ رسول اکرمکی وفات کے بعد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی ہے اور ان سے احادیث اور فتووںکے بارے میں سوال کیا اور ہمیں جواب بھی ملا ہے، اور بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کھلی اور حضرت رسول خداظاہر ہوئے یا ایسے ہی دوسرے واقعات، میں (ابن تیمیہ)نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے لئے ایسے واقعات رونما ہوئے یا انھوں نے راستگو افراد سے ایسے واقعات سنے، بعض لوگ ان واقعات کو صحیح سمجھتے ہیں اور ان کو آیات الٰھی جانتے ہیںاور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ایسے واقعات دیندار اورصالح افراد کے لئے رونما ہوتے ہیں، جبکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ سب شیطانی

کام ہیں، اور جب کسی کے پاس کافی علم نہیں ہوتا تو اس کو شیطان گمراہ کردیتا ہے۔(۹۸)

ابن تیمیہ ایک دوسرے مقام پر اس طرح کہتا ہے: جو کوئی شخص حضرت رسول اکرمکے مرنے کے بعد ان کے وجود کو ان کی زندگی کے جیسا مانے، تو اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے،(۹۹)

۷۔ روضہ رسول دعا اور نماز کی حرمت کے بارے میں ابن تیمیہ کا نظریہ

ابن تیمیہ صاحب کہتے ہیں: ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کی زیارت کے مستحب ہونے پر دلالت کرے۔(۱۰۰) اسی وجہ سے خلفاء (ظاہراً خلفائے راشدین مراد ہیں) کے زمانہ میں کوئی شخص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے نزدیک نہیں جاتا تھا، بلکہ مسجد النبیمیں داخل ہوتے وقت اور وہاں سے نکلتے وقت فقط آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا کرتے تھے، اس کے بعد ابن تیمیہ کہتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کے نزدیک ہوجانا بدعت ہے(۱۰۱) نیز آنحضرت کی قبر منور کی طرف رخ کر کے بلند آواز میں سلام کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

ابن تیمیہ، ان باتوں کو نقل کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جسد حضرت عائشہ کے حجرہ میں دفن ہوا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کے حجرے مسجد کے مشرق میں قبلہ کی طرف تھے اور حضرت عائشہ کے مرنے کے بعد ولید بن عبد الملک بن مروان کی خلافت کے زمانہ تک ان کے حجرے میں تالا لگا ہوا تھا، ولید نے عمر بن عبد العزیز (مدینہ میں ولید کا نائب)کو خط لکھا کہ پیغمبر (ص)کی ازواج کے تمام حجرے ان کے وارثوں سے خرید لئے جائےں اور ان کو گراکر مسجد النبی کا حصہ قرار دیدیا جائے۔

اس کے بعد ابن تیمیہ کہتے ہیں: جب تک عائشہ زندہ تھیں لوگ ان کے پاس احادیث سننے کے لئےجاتے تھے لیکن کوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے نزدیک نہیں جاتا تھا، نہ نماز کے لئے اور نہ دعا کے لئے، اس وقت قبر پر کوئی پتھر وغیرہ نہیں تھا بلکہ موٹی ریت کا فرش تھا۔(۱۰۲)

اور آپ (حضرت عائشہ) کسی کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر والے حجرے میں نہیں جانے دیتی تھیں،اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پاس جاکر دعا کرے یا نماز پڑھے،(۱۰۳)

لیکن بعض جاہل اورنادان افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اور نالہ وفریاد کرتے تھے اور ایسی باتیں کہتے تھے جن کے بارے میں منع کیا گیاہے، البتہ یہ تمام چیزیں حجرے کے باہر ہوتی تھیں، اورکسی کوبھی اتنی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نزدیک ہو، اوروہاں نماز پڑھے یا دعا کرے، کیونکہ جناب عائشہ کسی کو بھی اتنی اجازت نہیں دیتی تھیں کہ کوئی قبر کے نزدیک جاکر نماز پڑھے یا دعا کرے، جناب عائشہ کے بعد تک اس حجرے کے دروازہ پر تالا تھا یہاں تک کہ ولید بن عبد الملک نے اس حجرہ کو مسجد النبیمیں شامل کروادیا، اور اس کے دروازے کو بند رکھا اور اس کے چاروں طرف ایک دیوار بنادی گئی۔(۱۰۴)

حجرے کے اندر قبر مطھر پر نہ تو کوئی پتھر ہے اور نہ ہی کوئی تختی اور نہ ہی کوئی گل اندود(ایسا مادّہ جس کو درودیوار پر ملا جاتا ہے تاکہ خراب نہ ہوں)تھا بلکہ قبر مطھرموٹی ریت سے چھپی ہوئی تھی۔(۱۰۵)

ان مطالب کے ذکر کرنے سے ابن تیمیہ کا مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کے پاس نماز پڑھنا اور دعا کرنا بت پرستی کی مانند اور شرک کے حکم میں تھا، ابن تیمیہ نے ان باتوں کو ثابت کرنے کے لئے چند احادیث کا سھار ا بھی لیا ہے۔

روضہ رسول اکرم کے بارے میں وضاحت

طبری، قاسم ابن محمد سے روایت کرتے ہیں کہ میں جناب عائشہ کے پاس گیا، اور عرض کی اے اماں جان! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے پاس جو دو لوگ دفن ہیں، مجھے ان کی زیارت کرائےے، جناب عائشہ نے مجھے ان تینوں قبروںکو دکھایا، جو نہ زمین سے اونچی تھیں اور نہ ہی زمین کے برابر(یعنی تھوڑی سی بلند تھیں) اور ان پر لال رنگ کے سنگریزے یا لال رنگ کا ریت (بالو) بچھا ہوا تھا، اور میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک سب سے آگے تھی اور ابوبکر کی قبر ان کے پیچھےتھی اورعمر کی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیروں کی طرف تھی۔(۱۰۶)

فاسی کہتے ہیں کہ جس وقت عمر بن عبد العزیز نے مسجد کی وسعت کے لئے حجرہ کو گرایا، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک زمین سے چار انگشت بلند تھی اور اس کے اوپر ھلکے لال رنگ کے سنگریزوں کا فرش تھا۔(۱۰۷)

اسی طرح فاسی نے عبد اللہ بن محمد عقیل سے روایت کی ہے کہ وہ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گیا اور کچھ دیر تک وہاں رہا،اور اس نے دیکھا کہ ابوبکر کی قبر رسول اکرم کے قدموں کے پاس ہے اور عمر کی قبر ابوبکر کے پیروں کی طرف ہے۔(۱۰۸)

اس بحث کے دوران یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سمہودی کی نقل کے مطابق جناب فاطمہ بنت امام حسن مجتبیٰں اور ان کے شوھر حسن (حسن مثنیٰ)، حضرت فاطمہ دختر پیغمبر (ص)کے حجرے میں رہتے تھے، (جس وقت ولید نے حکم دیا کہ مسجد میں توسیع کی جائے) اس وقت ان دونوں کو مذکورہ حجرے سے نکالا گیا، اور اس حجرے کو گرادیا گیا۔ حسن بن حسن (یعنی حسن مثنیٰ) نے اپنے بڑے بیٹے جعفر کو حکم دیا کہ مسجدمیں جاکر بیٹھ جاؤ اور وہاں سے نہ اٹھنایہاں تک کہ یہ دیکھ لو کہ وہ پتھر جس کے اوصاف انھوں نے بتائے تھے قبرپر رکھتے ہیں یا نھیں؟جناب جعفر نے اپنے باپ کے کہنے پر عمل کیا توکیا دیکھاکہ ستون کو اونچاکردیا گیا اور پتھر کو باہر لایا گیا،انھوں نے جب یہ خبر جب اپنے والد محترم کو پہونچائی، تو وہ فوراً سجدے میں گئے اور کہا کہ یہ وہ پتھر تھا جس پر رسول اکرمنماز پڑھتے تھے، حضرت امام رضاںفرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا = کے دونوں بچوں حضرت امام حسن وامام حسین +کی ولادت اسی پتھر پر ہوئی، اور حسین بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن الحسین جو آل علی (ع) میں بھتبلند علمی مقام رکھتے تھے، جب ان کے بدن کے کسی حصّے میں درد ہوتا تھا تو اس پتھر سے سنگریزوں کو ہٹا کر اپنے بدن کو مس کرتے تھے، (اور ان کے اعضاء بدن کا درد ختم ہوجاتا تھا) یہ پتھر حضرت رسول اکرمکی قبر کی دیوار سے متصل تھا۔(۱۰۹)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے صندوق کے بارے میں

اسی طرح سمہودی تحریر کرتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کے صندوق کی ابتداء کے بارے میں صرف یہ جانتا ہوں کہ مسجد میں پہلی بار آگ لگنے(۱۱۰) سے پہلے(یعنی۶۵۴ھ) صندوق موجود تھا، کیونکہ جس وقت تعمیر مسجد کے متولی نے اس کو اس کی جگہ سے نکالا، اس کے نیچے صندوق عتیق کے ستون ظاہر ہوئے تھے جس پر آگ کے نشان موجود تھے، گویا مسجد کی تجدید کے وقت اس عتیق کے صندوق کو نئے صندوق کے اندر رکھا گیا تھا، ابن سمہودی کی بات تائید چھٹی صدی کے مشہور ومعروف سیاّح ابن جبیر کے بیان سے ہوتی ہے جیساکہ لکھتا ہے:

”وہ آبنوس کا صندوق ( Apnus ) جس پر صندل کی لکڑی کا کام تھااور چاندی کے ورق سے سجایا گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرہانے موجود ہے، جس کی لمبائی پانچ بالشت، عرض تین بالشت اور اونچائی چار بالشت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے سامنے چاندی کی ایک میخ (کیل) ہے، جس کے سامنے کھڑے ہوکر لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا کرتے ہیں۔

دروازے کے نزدیک تقریباً بیس عدد قندیل چھت میں لگی ہوئی تھیں، جس میں سے دوعدد سونے کی اور باقی چاندی کی ہیں۔ روضہ مقدس کے اندر کا ایک حصہ پرسنگ مرمرکا فرش ہے، اور قبلہ کی طرف ایک محراب نما جگہ ہے جس کو بعض لوگ حضرت فاطمہ زھر ا = کا گھر اور بعض لوگ اس کوحضرت فاطمہ زہرا= کی قبر مطھر کہتے ہیں، اسی طرح روضہ رسولکے سامنے ایک بڑا صندوق شمع اور چراغ جلانے کے لئے ہے اورہر شب میں اس میں چراغ جلائے جاتے ہیں۔(۱۱۱)

ابن بطوطہ، جس نے تقریباً ابن جبیر سے دوصدی بعد اورسمہودی سے دوصدی قبل مدینہ منورہ اورمسجد رسول کودیکھا ہے، وہ بھی تقریباً ابن جبیر ہی کی طرح روضہ رسول اسلام کی توصیف کرتا ہے ۔

قبر مطھر کی چادر کو معطر کرنا

قبر کے اطراف قندیلیں لٹکانا اور قیمتی اشیاء ہدیہ کرنا

سمہودی حضرت رسول خداکے روضہ مطھر اور قبر منور چادراور اس کو معطّر کرنے کی بحث کے دوران چند روایت ذکرکرنے کے بعد اس طرح رقمطراز ہیں کہ ھارون الرشید کے زمانہ میں خیزران (ھارون کی ماں) نے حکم دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کو زعفران اور دوسرے بہترین عطریات سے معطّر کیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر پر حریر کے جالی دارکپڑوں کی چادرڈا لی جائے ۔(۱۱۲)

سمہودی ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:پہلے رسول اکرمکی دو سوم قبر کو زعفران اور عطر لگایا جاتا تھا لیکن۱۷۰ھ میں خیزران کے حکم سے پوری قبر کو معطّر کیا جانے لگا۔

سمہودی کی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کو ڈھکنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف تھا، لیکن اس پر چادرڈالنے کا معمول تھا۔

۷۶۰ھ میں یعنی سلطان اسماعیل بن ملک ناصر قَلاوُون کے زمانہ میں مصر میں بیت المال کے ذریعہ ایک دیھات خریدا گیا تاکہ اس کی آمدنی سے ہر پچاس سال کے بعد خانہ کعبہ کا غلاف اور حضرت رسول خدا کی قبر مطھر اور منبر کی چادر بدلی جاسکے۔

اس کے بعد سمہودی کہتے ہیں:

” آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کو سونے چاندی کی قندیلوں اور فانوسوں اور شیشہ کی بہت قیمتی اشیاء سے زینت کی گئی تھی، جن کا حکم خانہ کعبہ کی قیمتی اشیاء کی طرح ہے۔(۱۱۳)

سُبْکی نے آنحضرت (ص)کی قبر مطھر اور روضہ اقدس کی قیمتی قندیلوں کے بارے میں ایک کتاب بنام ”تَنْزِلُ الْسَكِیْنَة عَلیٰ قَنَادِیْلِ الْمَدِیْنَة لکھی ہے۔(۱۱۴)

سمہودی حرم مطھر اور روضہ رسولپرلگی قندیلوں کے ذکر کے بعد کہتے ہیں کہ آنحضرت کے حجرہ شریف پر قندیلوں کا لگایا جانا ایک معمول کام تھا، اور یہاں پر اس طرح زینت کرنا دوسرے مقامات پر مقدم اوربھتر ہے۔

ہم یشہ بہت سے علمائے کرام اور زاہد حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لئے آئے ہیں لیکن ہم نے نہیں سنا کہ کسی نے اس کام سے منع کیا ہو، اور علماء کا منع نہ کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام جائز ہے۔(۱۱۵)

حرم مطھر اور روضہ رسول کی قندیلیں کبھی کبھی اتنی زیادہ ہوجاتی تھیں کہ جو قدیم ہوجاتی تھیں ان کو فروخت کردیا جاتا تھا اور ان کی قیمت کو حرم کی تعمیرات میں صرف کردیا جاتا تھا، چنانچہ۷۰۵ھ میں روضہ رسول (ص)کے خادمین کے رئیس نے بادشاہ سے اجازت مانگی کہ بعض قندیلوں کو بیچ دیا جائے اور ان کی درآمد سے باب السلام میں کچھ تعمیر کرا دی جائے، اور جب اس وقت کے بادشاہ نے اجازت دی تو ان قندیلوں کو فروخت کردیاگیا،ان میں سے دو عدد سونے کی قندیلیں تھیں وہ ایک ہزار درہم کی فروخت ہوئیں۔(۱۱۶)

حجرے کے اوپر گنبد کے بارے میں

سمہودی جس کی کتاب تاریخ مدینہ اور مسجد النبی میں بہترین اور معتبر ترین کتاب مانی جاتی ہے گنبد روضہ نبوی کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہے: مسجد النبی میں لگنے والی پہلی آگ سے پہلے یعنی۶۵۴ھ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجرے پر کوئی گنبد یا قبّہ نہیں تھا بلکہ چھت کے اوپر قبر کے سیدہ میں نصف قد آدم اینٹوں کی دیوار تھی تاکہ اس حجرے کی چھت مسجد النبی کی دوسری عمارت سے الگ دکھائی دے، لیکن۶۷۸ھ میں ملک منصور قلاوون صالحی نے اس حجرے کے اوپر ایک قبّہ بنوایاجس کا نیچے والا حصہ مربع اور اوپر آٹھ گوشے تھے۔(۱۱۷)

حرم مطھر کے دروازے کس زمانہ میں بند کئے گئے؟

جس وقت۸۲۲ھ میں نجم الدین حجی شام کے قاضی نے اپنے کاروان کے ساتھ فریضہ حج انجام دیا اور روضہ رسول اکرم (ص)کی زیارت کی، اس وقت روضہ رسولکے اندر لوگوں کی بھیڑ دیکھی تو فتویٰ صادر کردیا کہ روضہ رسول کے دروازے بند کردئے جائیں،۸۲۸ھ میں مذکورہ قاضی نے اپنے فتوے کے بارے میں اس وقت کے سلطان سے حمایت چاہی چنانچہ اس نے بھی اس کی حمایت میں حکم صادر کردیا ،جس کی وجہ سے حرم کے دروازے بند ہوگئے۔

میں (سمہودی)نے قول مجد پرحافظ جمال الدین بن الخیاط یمنی کے ھاتھ کا حاشیہ دیکھا، جس میں اس طرح لکھا تھا کہ ملک اشرف بَر سْبای،جوکہ مصر وشام کا حاکم تھا اس کے زمانہ میں حرم اور روضہ مطھرکے اطراف میں جالیوں والے درلگائے گئے، اور۸۳۰ھ کے بعد سے لوگ ان جالیوں کے پیچھے سے کھڑے ہوکر زیارت رسول اکرمکیا کرتے تھے، اور کوئی بھی اندر داخل نہیں ہوتا تھا۔

اس موقع پر سمہودی اپنی رائے کا اظھار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھتر تو یہ تھا کہ حرم مطھر کے بعض دروازوں کو کھلا رکھتے اور بعض جاہل اور بے ادب لوگوں کے لئے دروازوں پر نگھبان کھڑا کردیتے، تاکہ وہ بے ادب اور جاہل لوگوں کو حرم مطھر میں داخل نہ ہونے دیں، نہ یہ کہ بالکل ہی دروازے بند کردئے جائیں،اور دوسرے لوگوں کو بھی زیارت سے محروم کردیا جائے، جبکہ آنحضرتکی زیارت سے لوگوں کو روکنا یعنی تمام مسجد کی تعطیل کرنا ہے۔(۱۱۸)

لیکن شوکانی قبر رسولکے اطراف کے دروازہ بند ہونے کے سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں کہ اصحاب اور تابعین نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو مسجد النبی میں توسیع کی ضرورت کو محسوس کیا اور مسجد میں توسیع کی گئی، ا ور اس توسیع میں امھات المومنین (ازواج رسول (ص))کے حجرے یہاں تک کہ جناب عائشہ کا وہ حجرہ جس میں رسول اللہدفن تھے، وہ بھی شامل ہوگیا، قبر مطھر کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں ہیں تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر منور دکھائی نہ دے، اس وجہ سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام الناس آپ کی قبر کی طرف نماز پڑھنے لگیں، اور ممنوعہ کام (غیر خدا کی عبادت) نہ ہوجائے۔(۱۱۹)

مسجد النبی کے فرش کے سنگریزوں کے بارے میں

اس بحث کے اختتام پر بھتر ہے کہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جائے کہ مسجد النبیکا لال رنگ کے سنگریزوں سے فرش حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ سے ہے اور اب بھی اسی رنگ کا ہے، ابوداود نے اپنی سنن میں ابو ولید سے روایت کی ہے کہ ابن ولید نے ابن عمر سے سوال کیا کہ مسجد النبی کے فرش کی جگہ سنگریزے ڈالنے کی وجہ کیا ہے؟ تو ابن عمر نے اس طرح جواب دیا کہ ایک رات جب بارش آئی تو دوسرے روز صبح کو زمین گیلی تھی، چنانچہ جو شخص بھی مسجد میں آتا تھا اپنے ساتھ ایک مقدار سنگریزے لاتا تھا اور ان کو مسجد میں ڈال کر پھیلادیا کرتا تھا اور انھیں کے ا وپر نماز پڑھا کرتا تھا، نماز کے تمام ہونے کے بعد حضرت رسول اکر م (ص)نے فرمایا کہ یہ کام کتنا اچھا ہے، اور اب کسی کو اپنے لائے ہوئے سنگریزوں کو مسجد سے باہر لے جانے کا کوئی حق نہیں ہے۔(۱۲۰)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کی زیارت اور بوسہ لینے کے سلسلے میں ایک اور وضاحت

جناب سمہودی جن پر تمام اہل سنت اور وہابی حضرات بھی اعتماد کرتے ہیں، انھوں نے بہت سے ایسے موارد ذکر کئے ہیں کہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے نزدیک جاتے تھے اور قبر مطھر کے اوپر ھاتھ رکھتے تھے، یہاں تک کہ لوگ (تبرک کے لئے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی مٹی اٹھالیتے تھے اور جب سے جناب عائشہ کے حکم سے دیوار بنادی گئی اس کے بعد بھی لوگ دیوار میں موجود سوراخوں کے ذریعہ قبر مطھر کی مٹی اٹھالیا کرتے تھے۔(۱۲۱)

سمہودی انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھاتھ رکھے ہوئے تھا میں نے اس کو منع کیا، اس کے بعد بعض علماء کا قول نقل کرتے ہیں کہ اگر صاحب قبر سے مصافحہ کرنے کے قصد سے قبر پر ھاتھ رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

اسی طرح سمہودی ”تحفہ ابن عساکر“ سے نقل کرتے ہیں کہ مقدس قبور کو مس کرنا یا ان کو بوسہ دینا اور ان کاطواف کرنا جیسے جاہل ونابلد لوگ ان کا طواف کرتے ہیں، ان سب کا سنت نبوی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ مکروہات میں سے ہے۔

اس کے بعد وہ ابی نُعیم سے روایت کرتے ہیںکہ ابن عمر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ھاتھ رکھنے کو مکروہ جانتے تھے، اس کے بعد کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے باپ سے سوال کیا کہ لوگ رسول اسلام کے منبر پر ھاتھ پھیر تے ہیں، اس کو چومتے ہیں اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کو مس کرتے ہیں اور بوسہ دیتے ہیں، اس سوال کے جواب میں احمد نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح جناب سُبکی نے ابن تیمیہ کی ردّ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اکرم کی قبر مطھر کو مس نہ کرنے کا مسئلہ اجماعی نہیں ہے کیونکہ مطلّب بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ مروان بن الحکم نے جب ایک شخص کو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر سے چمٹا ہواہے، تو مروان نے اس شخص کی گردن کو پکڑکر کہا کہ معلوم ہے توکیا کر رہا ہے؟ اس شخص نے اس کی طرف اپنا رخ کرکے کہا: میں لکڑی اور پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں بلکہ پیغمبر اکرم (ص)کے پاس آیا ہوں، اس وقت دین پر ماتم کیا جانا چایئے جب دین کی باگ ڈور نااہلوں کے ھاتھ میں ہو، یہ مذکورہ شخص ابوایوب انصاری تھے، اس موقع پر سُبکی کہتے ہیں کہ اگر اس روایت کی سند کو صحیح مان لیا جائے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کو مس کرنا مکروہ بھی نہیں ہے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جناب بلال جب شام سے آنحضرت (ص)کی زیارت کے لئے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر منور کے نزدیک روتے ہوئے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر پر اپنے رخساروں کو مَل رہے تھے، اور ایک دوسری روایت کے مطابق جب حضرت علیںنے رسول اکرم (ص)کو دفن کیا توجناب فاطمہ زہرا = تشریف لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کے سامنے کھڑی ہوئیں اور قبر سے ایک مٹھی خاک اٹھائی اور اپنی آنکھوں سے مس کرکے رونا شروع کیا، اور ایک دوسری روایت کے مطابق ابن عمر اپناداہنے ھاتھ قبر منور پر رکھتے تھے اور اسی طرح جناب بلال اپنے رخساروں کو قبر مطھر پر رکھتے تھے، عبد اللہ ابن احمد حنبل نے کہا کہ یہ سب چیزیں بھر پور محبت کا ثبوت ہیں اور یہ تمام چیزیں ایک طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام اور تعظیم ہیں۔(۱۲۲)

قبر اورروضہ مقدسہ کے بارے میں ابن تیمیہ کی باقی گفتگو

ابن تیمیہ کے دلیلوں میں سے سَلَف صالح (اصحاب پیغمبر) اور تابعین کا عمل بھی ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یھی ابن تیمیہ زیارت کے بارے میں سلف صالح کے عمل کو قبول نہیں کرتے، اور کہتے ہیں کہ سلف صالح کا عمل کافی نہیں ہے بلکہ کسی دوسری دلیل کا ہونا بھی ضروری ہے۔(۱۲۳) یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کو دیکھنا بھی ممنوع قرار دیا۔(۱۲۴)

وہ قبر مطھر اور روضہ مبارک کے بارے میں اس طرح کہتا ہے کہ کوئی بھی زائر کسی بھی طریقہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت نہیں کرسکتا، اور قبر کے چاروں طرف بھی اتنی گنجائش نہیں ہے کہ تمام زائرین وہاں جمع ہوسکیں، اور جس حجرے میں حضرت رسول اللہ کی قبر مبارک ہے اس میں کوئی جالی وغیرہ نہیں ہے کہ اس سے آپ کی قبر کو دیکھا جاسکے، اور لوگوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کو دیکھنے سے ممانعت کی گئی ہے،خداوندعالم نے جن چیزوں کے ذریعہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر منّت رکھی ہے ان میں سے سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آپ کو آپ کے حجرے میں دفن کیا گیا جو مسجد النبیکے قریب ہے اور جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ مسجد میں نماز ادا کرے جہاں نماز پڑھناجائز ہے۔(۱۲۵)

اس کے بعد ابن تیمیہ صاحب کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے نزدیک نہ کوئی قندیل لٹکی ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی پردہ ہے، اور نہ ہی کسی شخص کے لئے یہ ممکن ہے کہ آپ کی قبر کو زعفران یا عطر کے ذریعہ معطر کرے یا کوئی شخص نذر کے لئے شمع یا چادر وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک پر چڑھائے،(۱۲۶) یھی ابن تیمیہ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر اوردوسری قبروں میں کوئی فرق نہیں ہے، صرف آپ کی مسجد دوسری مسجدوں سے افضل ہے۔(۱۲۷)

۸۔ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا حرام ہے

ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ اس حدیث شریف کے پیش نظر”لاٰ تُشدُّ الرِّحَالُ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاٰثَةِ مَسٰاجِدَ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدی هٰذَا وَالْمَسْجِدُ الاَقْصیٰ “(تین مسجدوں کی زیارت کے لئے سفرکرنا جائز ہے : ۱۔ مسجد الحرام (خانہ کعبہ)،۲۔ میری یہ مسجد ،اور ۳۔ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)اور دوسری مساجد یا انبیاء یا اولیاء اللہ اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا بدعت اور ناجائز ہے)۔

اسی طرح ابن تیمیہ کاکہنا ہے کہ قبور کی زیارت کی غرض سے سفر کرنا اور عبادت کے قصد سے زیارت کرنا، چونکہ عبادت یا واجب ہوتی ہے یا مستحب اور سبھی علماء کا اتفاق ہے کہ قبور کی زیارت کے لئے سفر کرنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب، تو زیارت کے لئے سفر کرنا بدعت ہوگا۔

اس کے بعد کہتے ہیں: خلفائے اربعہ کے زمانہ تک بلکہ جب تک ایک بھی صحابی رسول زندہ رہا کوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء، اولیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لئے نہیں جاتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی بیت المقدس کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے لیکن وھیں پر موجود جناب ابراہیم خلیل اللہ کی قبر کی زیارت نہیں کرتے تھے اور کوئی بھی اپنی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لئے نہیں جاتا تھا، ابن تیمیہ اس بحث کے ذریعہ شیعوں پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رافضی لوگوں نے صالحین کی قبور کو مسجد بنالیا ہے اور وہاں نمازیں پڑھا کرتے ہیں، اور قبروں کے لئے نذر کرتے ہیں اور بعنوان حج ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، اورخانہ مخلوق کے سفر کو بیت الحرام (خانہ کعبہ) کے حج سے افضل سمجھتے ہیں اور اس (زیارت)کو حج اکبر کہتے ہیں اور ان کے علماء نے اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں بھی لکھیں ہیں،ان میں ایک شیخ مفید (چوتھی اورپانچویں صدی کے مشہور ومعروف عالم) ہیں جنھوں نے ”مناسک حج المشاہد“ نامیکتاب لکھی ہے۔(۱۲۸)

چنانچہ ابن تیمیہ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں:

”اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ انبیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا، خداوندعالم کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہے، تو اس کا یہ اعتقاد اجماع کے بر خلاف ہے۔(۱۲۹) اور حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام میں قبور کی زیارتکے مسئلہ کا کوئی وجود نھیں۔(۱۳۰) یہاں تک کہ اس مسئلہ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زیارتوں کے لئے سفر کرنے(ابن تیمیہ کے بقول حج قبور) کا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنے سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ کبھی کبھی یہ عمل اور یہ زیارت باعث شرک اور ملت اسلامی سے خارج ہونے کا سبب بنتی ہے۔(۱۳۱) اور اگر کوئی شخص یہ نذر کرے کہ مثلاً میں خلیل الرحمن یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی یا کوہ طوریا غارِ حراء یا اس طرح کی دوسری جگہوں کی زیارت کے لئے جاؤں گا، تو ایسی نذر پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔(۱۳۲)

زیارت قبور کے سلسلے میں اجماع اور اتفاق کی وضاحت

خود ابن تیمیہ کے زمانہ سے اور اس کے بعد مختلف فرقوں کے علماء نے ابن تیمیہ کے عقائد بالخصوص زیارت قبور کے سلسلہ میں سفر کی حرمت کے بارے میں ابن تیمیہ کے نظریات کے جوابات اور اس کی ردّ تفصیل کے ساتھ لکھی ہیں مثلاً مالکی فرقہ کے قاضی اِخنائی (جوکہ ابن تیمیہ کے معاصرین میں سے تھے) نے ابن تیمیہ کے عقائد کی ردّ لکھی ہے جس کا نام ”المقالة المرضیّہ“ جو حرمت سفر زیارت قبور کے سلسلہ میں ابن تیمیہ کے عقائد کی ردّ ہے، یہ کتاب جس وقت ابن تیمیہ کے ھاتھوں میں پہونچی تو اس نے اس کاجواب لکھا جس کا نام ”کتاب الردّ علی الاخنائی“ رکھا جو اس وقت بھیموجود ہے۔

قاضی اخنائی نے جیسا کہ ابن تیمیہ نے ان سے نقل کیا کہ ابن تیمیہ کا نظریہ مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے اور انبیاء اولیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا مستحب سفر ہے، اس لحاظ سے یہ سفر مسجد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح ہے اور اگر کوئی یہ کھے کہ مذکورہ تین مسجدوں کے علاوہ سفر کرنا صحیح نہیں ہے تو اس کی یہ بات اجماع کے خلاف ہے، اور گویا اس شخص نے کھلے عام خدا اور پیغمبروں سے دشمنی کے لئے قیام کیا ہے۔

ایک دوسری جگہ پر اخنائی کہتے ہیں کہ بعض علمائے کرام نے پیغمبر اکرم(ص) کی قبر کی زیارت کو واجب قرار دیا ہے، خلاصہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے مستحب ہونے میں کسی کو بھی شک وشبہ نہیں ہے، چنانچہ مسند ابی شَیبہ میں یہ حدیث شریف وارد ہوئی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمْ: ”مَنْ صَلّٰی عَلَیّٰ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُهُ وَمَنْ صَلّٰی نَاِئیاً سَمِعْتُهُ(۱۳۳)

حضرت رسول اکرمنے ارشاد فرمایا: جو شخص میری قبر کے نزدیک مجھ پر صلوات بھیجے تو میں اس کو سنتا ہوں اور اگر کوئی دور سے بھی مجھ پر صلوات بھیجے تو میں اس کی صلوات بھی سنتا ہوں۔

قارئین کرام!یہاں پر دو باتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

پہلی بات یہ ہے کہ یہ دونوں (ابن تیمیہ اور اخنائی) ایک دوسرے کے عقیدے کو مسلمین کے اجماع کے بر خلاف جانتے ہیں ۔(۱۳۴) اور دوسری بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ کی بہت سی چیزوں کا مدرک اور سند امام مالک اور اس کے پیروکار حضرات کی تحریریں ہیں، لیکن اس کے باجود اکثر وہ لوگ جو ابن تیمیہ کی مخالفت کے لئے اٹھے، وھی علماء ہیں جن کا تعلق مالکی مذہب سے تھا اورجنھوں نے دمشق اور قاہرہ میں ابن تیمیہ سے بحث وگفتگو اور مناظرے کئے اور ابن تیمیہ کو زندان میں بھجواءے ۔

آئےے اپنی بحث کی طرف پلٹتے ہیں:ابن شاکر کہتے ہیں کہ شدِّ رِحال (مذکورہ مساجد کے علاوہ سفر کرنے کی حرمت) کا موضوع ان اہم مسائل میں سے ہے جن کی وجہ سے اس زمانہ کے علمائے کرام کو مخالفت کے لئے کھڑا ہونا پڑا۔(۱۳۵)

مرحوم علامہ عبد الحسین امینی رحمة اللہ علیہ زیارت قبور کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اہل سنت کی کتابوں سے بہت سی ا حادیث کو نقل کرتے ہیں اور انھوں نے ایسی باون(۵۲) قبروں کا شمار کرایا ہے جو گذشتہ زمانہ سے آج تک اہل سنت کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہیں، اور اس بات پر خود ان کی کتابوں سے حوالے بھی بیان کئے ہیں۔(۱۳۶)

شیعوں کی طرف دی گئی نسبتوں کی وضاحت

قدیم زمانہ سے شیعوں کی طرف ایک جھوٹی نسبت یہ دی گئی ہے کہ شیعہ حضرات اپنے اماموں اور رہبروں کی قبروں کی زیارت کو حج بیت اللہ کی طرح مانتے ہیں، یہ تہم ت اور دوسری تہم تیں جو مختلف بھانوں سے شیعوں پرلگائی گئی ہیں، یہ سب ”سلجوقیوں“کے زمانہ میں زیادہ رائج ہوئی ہیں، اس طرح کہ جب” نظام الملک“ اسماعیلہ فدائیوں کے ھاتھوں قتل ہوا، اس دور میں حسن صباح اور اس کے ساتھیوں نے قدرت حاصل کرلی، اس وقت سلجوقی بادشاہوں کو بہت زیادہ نگرانی وپریشانی تھی اور خوف ووحشت کی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند یں حرام ہوچکی تھیں، اس موقع پر شیعوں کے دشمنوں نے موقع پایااور سلجوقی بادشاہ کے کانوں میں یہ بات بھر دی کہ شیعہ (یا ان کے بقول رافضی) تمھارے سخت دشمن ہیں، چنانچہ سلجوقی بادشاہوں کو شیعوں کے قتل عام اور ان کے شھروں کو تباہ وبرباد نیز شھروں میں آگ لگانے پر اُکسایا گیا، (اور اس نے ایسا ہی کیا) جس کے نمونے نظم اور نثر کی کتابوں میں کثرت سے دیکھے جاسکتے ھی، چنانچہ کتاب تاریخ مذہبی قم میں اس طرح کے بعض واقعات موجود ہیں یہاں تک کہ اس وقت کے مشہور ومعروف شیعہ علماء کو بھی قتل کیا گیا۔

خلاصہ یہ کہ شیعوں کے دشمنوں نے ان پر باطنی (یعنی اسماعیلی اور حسن صباح کے تابع ہونے) جیسی تہم ت لگاکر سلجوقی بادشاہوں کو شیعوں کے قتل وغارت پر مجبور کردیا تاکہ وہ شیعوں کے قتل وغارت میں ذرہ برابر بھی کوئی کمی نہ چھوڑےں، نیز شیعوں سے مزید دشمنی پیدا کرنے کے لئے شیعوں کے خلاف بہت سی دوسری تہم تیں بھی لگائیںجن میں سے ایک زیارت قبور بھی ہے، جس کے بارے میں یہ کہا کہ شیعہ زیارت قبور (ائمہ) کو حج کی طرح سمجھتے ہیں، سلجوقی زمانہ میں جس شخص نے آشکارا طور پر شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے اس کا نام ابوبکر محمد راوندی (چھٹی صدی کا مورخ) ہے جو شیعوں سے اپنی دشمنی کو ثابت کرتے ہوئے ان پر بہت سی ناجائز تہم تیں لگاتے ہوئے اس طرح کہتا ہے کہ بہت سے کاشی (یعنی کاشان کے) لوگوں کو حاجی کہا جاتا ہے جنھوں نے نہ تو خانہ کعبہ کو دیکھا ہے اور نہ ہی بغداد، کو صرف ان لوگوں نے طوس کی طرف سفر کیا ہے۔(۱۳۷) طوس کی طرف سفر کرنے سے اس کا مقصد حضرت امام علی رضاںکی زیارت ہے۔

اس کے بعد سے یہ عظیم تہم تیں ان لوگوں کی کتابوں میں کم وزیاد پائی جانے لگیں جو تعصب یاشیعوں کے عقائد سے ناآشنائی کی وجہ سے دشمنی کرتے تھے، منجملہ ان کے عرب کا ایک مورخ اور سیّاح بنام محمد ثابت جس نے تقریباً چالیس سال پہلے ایران کا سفر کیا اور خصوصاً مشہد مقدس گیا،اس طرح لکھتا ہے کہ شاہ عباس کبیر (مشہور صفوی بادشاہ) چونکہ اس کو عرب اچھے نہیں لگتے تھے اسی وجہ سے اس نے ایرانیوں کو حج سے روکا اور لوگوں کو امام رضاںکی زیارت کی ترغیب دلائی اور کہا کہ وہ اسی کو اپنا کعبہ قرار دیں، اور وہ خود بھی پاپیادہ حضرت امام رضاںکی زیارت کے لئے گیا، اسی وجہ سے یہ لوگ آج کل بہت کم حج کے لئے جاتے ہیں، اور مشہدی (امام رضاںکی زیارت کرنے والے) کو حاجی پر ترجیح دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔(۱۳۸)

قارئین کرام!جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ سیّاح مورخ، ایران آنے سے پہلے بعض کتابوں کے پڑھنے کے بعد اپنے ذہن میں شیعوں کے خلاف بعض تہم تیں لئے بیٹھا تھا، اسی وجہ سے اپنے مشاہدات کو تعصب کی نظر سے دیکھتا تھااوربغیر کسی غور وفکر کے ان کو انھیں تہم توں پر حمل کرتا تھا، چنانچہ بغیر غور وفکر کے اپنے سفر نامے میں لکھتا تھا، اسی وجہ سے اس کے سفر نامے میں بہت سی چیزیں حقیقت کے خلاف موجود ہیں۔

اگر وہ ذرا بھی انصاف سے کام لیتا تو اس کو معلوم ہوجاتا کہ عربوں سے شاہ عباس کی دشمنی کی کوئی دلیل نہیں ہے اور شاہ عباس عربوں کا دشمن کیوںہوتا؟! کیونکہ بہت سے تاریخی مدارک اس کے خلاف موجود تھے، اسی طرح شاہ عباس کی ایرانیوں کو حج سے روکنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے، اور اس کے مشہد مقدس کا پاپیادہ سفر کرنے کی وجہ اس کی نذر تھی، اس کے علاوہ کسی بھی تاریخی سند میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی، اور یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ ایک دیندار بادشاہ شاہ عباس جس نے بہت سے کار خیر انجام دئے پانی کے لئے کنویں کھدوائے بہت سی مسجدیں بنوائیں، ایسا شخص حج جیسے اہم واحب سے اور اگر محمد ثابت صاحب تھوڑی سی بھی تحقیق کرتے اور لوگوں کے ساتھ کچھ دن زندگی بسر کرتے تو انھیں ایرانیوںکے بارے میں معلوم ہوجاتا کہ ایرانی اس شخص کا جو مكّہ معظمہ کی زیارت اور حج سے مشرف ہوتا ہے کس قدر احترام کرتے ہیں اور صرف حاجی ایک ایسا لقب ہے جو تمام ایرانیوں میں احترام کے لئے کہا جاتا ہے، بڑے بڑے اور جید علماء کرام کے لئے بھی شروع میں حاجی لگایا جاتا ہے اور عام لوگوں کو بھی احترام کی وجہ سے حاجی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح اس کو معلوم ہوجاتا کہ ہر ایرانی کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ مکہ ومدینہ کی زیارت سے مشرف ہو، اور اس بات کو سبھی حضرات جانتے ہیں کہ کسی بھی زمانہ میں ایرانی حاجیوں کی تعداد کسی بھی اسلامی ملک سے کم نہیں رہی، اور حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ایران میں امیر الحاج معین کیا جاتا ہے، اور سعودی عرب کی رپورٹ کے مطابق ایرانی حجاج کی تعداد پہلے نمبر پر ہوتی ہے، اور امکانات اور دیگر وسائل سفر وغیرہ کے لحاظ سے بھی پہلا درجہ ہوتا ہے۔

مذکورہ مورخ کی بے توجھی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے کہ موصوف روضہ امام رضاںمیں صحن عتیق کے ایوان میں لگے فیروزوں کی باتیں کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں کہ فیروزوں کی کان فارس کے علاقہ فیروزآباد میں ہے وہاں ایک پھاڑ ہے جس کے ایک اہم حصہ میں فیروزے پائے جاتے ہیں۔

جب کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ایران میں فیروزہ کی کان نیشاپور میں ہے اور فارس کے علاقہ فیروز آباد میں کبھی کوئی فیروزہ کی کان نہیں تھی، ظاہراً اس مورخ کو فیروزآباد کے پہلے جز فیروز نے اس غلطی میں پھنسادیا ہے۔

اس سلسلہ میں ابن تیمیہ کی بات کتنی تعجب خیز ہے جبکہ وہ شیعوں کی فقہ سے کافی معلومات رکھتا ہے اور اپنے بعض مسائل میں شیعوں کے نظریہ کو اختیار کرتا تھا، اس کے باوجود کس طرح دوسروں سے متاثر ہوگیا اور وہ تہم تیں جو لوگوں نے چند صدی قبل شیعوں پر لگائی گئی تھیں،اور ائمہ اور بزرگا ن دین کی زیارتوں کو جنھیںشیعہ متفق علیہ (سنی شیعہ) روایتوں کے مطابق مستحب مانتے اور ان پر تاکید کرتے ہیں ابن تیمیہ نے یہ کیسے گمان کر لیا کہ شیعہ ان کو خانہ کعبہ کے حج کے برابرقرار دیتے ہیں۔(۱۳۹)

عجیب بات تو یہ ہے کہ اس نے اس عقیدہ کو شیخ مفید (جو خود سنی مولفوں کے مطابق شیعوں کے عظیم فقھاء اور متکلمین میں سے ہیں)کی طرف نسبت دی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ شیخ مفید زیارت کو جو کہ ایک مستحب کام ہے حج بیت اللہ کے برابر قرار دے دیںجو ہر مستطیع پر واجب ہے، یا اس سے بڑی بات کہیں کہ زیارت حج اکبر ہے۔ ؟!

شیخ مفید اور دوسرے عظیم علماء کی تو اور بات ہے یہ بات تو عوام الناس اور جاہل شیعہ بھی نہیں کہہ سکتا،اور نہ صرف یہ کہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں رکھتا بلکہ یہ بات تو ان کے کانوں میں بھی نہیں پڑی ہے۔

اس بحث کے آخر میں یہ بات عرض کرنا ضروری ہے کہ کسی بھی کتاب میں چاہے وہ رجالی ہو یا تاریخی یا بیو گرافی مذکورہ کتاب ”مناسک حج المشاہد“کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے جوطرف منسوب ہوئی ہے، نہ معلوم ابن تیمیہ نے اس کتاب کو کس خواب میں دیکھا ہے جس کی نسبت شیخ مفید کی طرف دیدی۔(۱۴۰)

ایک یاد دہانی

ہم نے بار بار اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ابن تیمیہ چونکہ شیعوں سے بہت زیادہ دشمنی اور عناد رکھتا تھا اسی وجہ سے اس نے ان باطل عقیدوں کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے جبکہ وہ خود اچھی طرح جانتا تھا کہ شیعہ جو کچھ بھی کہتے ہیںیا جس چیزپر اعتقاد رکھتے ہیں ان سب کو انھوں نے اپنے ائمہ علیهم السلام کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل کیا ہے ،ابن تیمیہ تقریباً اکثر مقامات پر شیعوں کو رافضی کہتا ہے اور جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ نام شیعوں کے دشمن بدنام کرنے اور طعنہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ہم یہاں پر رافضی کے بارے میں کتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے کچھ چیزیں خلاصہ کے طور پر بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں:

رافضی کون لوگ ہیں؟

بھت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ رافضی فرقہ، شیعوں اور اہل سنت سے الگ ایک فرقہ ہے، یہاں تک کہ بعض مولفین نے اس مسئلہ میں غلط فہم ی کی ہے اور وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ فرقہ سنیوں کا ہے یا شیعوں کا،بعض شیعہ عوام اس کو اہل سنت کا فرقہ تصور کرتے ہیں (جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رافضی نہ سنی فرقہ ہے نہ شیعہ)، لہٰذا ہم یہاں پر اس بارے میں علمی اور تاریخی گفتگو کرتے ہیں:

”رفض“کے معنی ہر اس چیز کو چھوڑنے کے ہیں جو وحی کے ذریعہ نازل ہوئی ہو، یا بت پرستی اور قدیم افسانوں کی طرف پلٹنے کو بھی رفض کہا جاتا ہے اور یہ بھی وحی کو ترک کرنے کے معنی میں سے ہے۔(۱۴۱)

اور یہ بات مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام الٰھی ادیان میں ایسی بیماریاں تھی جن کی وجہ سے وہ انحراف اور تباہی میں مبتلا ہوئے ۔ (اس جگہ بعض مولفین نے مثالیں پیش کی ہیں مثال کے طور پر جناب موسیٰ ں، جناب عیسیٰں کے دین کے ماننے والوں نے وحی کی تعلیمات کو چھوڑکر انحراف اور شرک اختیار کیا)

اسلام میں اس طرح کا انحراف سب سے پہلے عبد اللہ ابن سبا جو کہ حِیری یمانی یہودی تھا، اس کے ذریعہ ایجاد ہوا یہ شخص صدر اول میں اسلام لایا تھا.(۱۴۲)

یہ شخص (عبد اللہ ابن سبا) خود اسرائیلی فکر رکھتا تھا چنانچہ اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس طرح کے کارنامے شروع کئے،اور حضرت علی ںکے بارے میں اس طرح غلو کیا کہ پہلے تو آپ کو پیغمبر کہا اور اس کے بعد آپ کو خدا کہنے لگا۔

عبد اللہ ابن سبا اور اس کے مرید اسلام اور اس کی تعلیمات اور خود امام ںسے بہت دور تھے ان کا کہنا تھا کہ حضرت علیںپیغمبر تھے لیکن جبرئیل نے غلطی کی کہ حضرت علیں کو پیغمبری دینے کے بجائے حضرت محمد (ص)کو دیدی۔

ھی لوگ وہ ہیں جو جناب جبرئیل کے دشمن ہیں، اور یھی کام یعنی جبرئیل کے ساتھ دشمنی اور جبرئیل پر غلطی کی تہم ت لگانا وغیرہ،اس طرح کے عقائد گذشتہ مذہبوں مثلاً یونانی ستارہ پرست اور برہمنی عقائد ہیں یہ وہ مذاہب ہیں جو وحی کا انکار کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ خدا اور بندوں کے درمیان کوئی وحی نہیں ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اس خطرناک بیماری کی طرف اشارہ کیا ہے:

( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوّاً لِجِبْرِیْلَ فَاِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلٰی قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقاً لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَهُدیً وَبُشْریٰ لِلْمُومِنِیْنَ ) (۱۴۳)

”اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبرئیل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرئیل نے خدا کے حکم سے آپ کے دل پر قرآن اتارا ہے جو سابق کتابوں کی تصدیق کرنے والا، ہدایت اور صاحبان ایمان کے لئے بشارت ہے“۔

حضرت علی علیه السلام کے بارے میں عبد اللہ ابن سبا کی باتیں اور اس کے غلونے حضرت کو ناراض کردیا، چنانچہ آپ کو بہت تکلیف پہونچی جس کی بناپرحضرت نے ارشاد فرمایا جس کو سید رضی نے نہج البلاغہ میں بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: دو گروہ میری دوستی اور دشمنی کی وجہ سے ھلاک ہوئے، پہلا گروہ وہ جس نے میری محبت میں غلو کیا اور دوسرا وہ جس نے میرے ساتھ سخت دشمنی کی (مراد ناصبی ہیں جنھوں نے حضرت علی ںپر کفر کی نسبت لگائی)۔(۱۴۴)

اور الحمد اللہ ان دونوں فرقوں میں سے آج کوئی بھی باقی نہیں ہے جیسا کہ علامہ سید محسن امین نے اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے۔

عبد اللہ ابن سبا اور اس کے تابعین کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ حضرت علیں نہیں مرے، ور آپ کی شان اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ آپ کو موت آئے، آپ بادلوں کے اوپر رہتے ہیں اور بجلی کی چمک کے وقت جو آواز نکلتی ہے وہ آپ ہی کی آواز ہوتی ہے، اور یھی نہیں بلکہ عبد اللہ ابن سبا اور اس کے مطیع حضرت علی کو خدا بھی کہتے ہیں۔

عبد اللہ ابن سبا مسلمانوں کے درمیان وہ پہلا شخص ہے جس نے انسانی الوھیت کا حکم کیا ہے اور اس کے بعد اس کے مریدوں نے اس کام کو آگے بڑھایا، یہ لوگ در حقیقت ان عظیم ہستیوں کو خدا کی طرح نہیں کہتے تھے بلکہ ان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ یہ حضرات قدرت الہٰی کے مظھر ہیں۔(۱۴۵)

شیعہ روایات کے مطابق حضرت علی ںنے عبد اللہ ابن سبا اور اس کے مریدوں کو توبہ کرائی اور چونکہ اس نے توبہ نہیں کی لہٰذا اس کے قتل کا حکم صادر کردیا۔

واقعاً ان تمام باتوں کے پیش نظر بھی ابن تیمیہ سے تعجب ہے کہ اس نے ان فاسد اور کفر آمیز عقائدکی (جو بغدادی اور شھرستانی وغیرہ نے نقل کئے ہیں) شیعوں کی طرف نسبت دیدی، اور بعض عقائد تو ایسے ہیں کہ شاید ان کے پیرو بھی نہ ہوں اوراگر ہوں بھی تو شیعہ اثنا عشری ان سے ہمیشہ بیزار رہے ہیں، لیکن پھر بھی ابن تیمیہ نے ان تمام کو شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہوئے ان پر حملہ کیا ہے۔(۱۴۶)

ابن تیمیہ نے شیعوں پر تہم تیں لگانے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے وہ سب سے پہلے کتاب العثمانیہ جاحظ اور اس کے بعد الفرق بین الفِرق تالیف بغدادی ہے، کیونکہ اس نے اپنی کتاب منھاج السنة میں جو باتیں بیان کیں ہیں وہ بالکل وھی ہیں جو کتاب العثمانیہ میں بیان کی گئی ہیں۔

۹۔ ابن تیمیہ کی نظر میں حضرت رسول اکرم (ص) اور دوسروں کی زیارت کرنا

ابن تیمیہ نے اپنے فتووں میں کہا ہے کہ اگر قبور پر نماز اور دعا کی جائے تو یہ کام ائمہ مسلمین کے اجماع اور دین اسلام کے خلاف ہے اور اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ مشاہد اور قبور پر نمازپڑھنا اور دعاکرنا مسجدوں سے افضل ہے توایسا شخص کافر ہے۔(۱۴۷)

ابن تیمیہ مسجد النبی اور آنحضرت (ص)کی قبر کے بارے میں کہتا ہے کہ مسجد النبی اور آنحضرت کی قبر کی زیارت بذات خود ایک نیک اور مستحب عمل ہے اور اس طرح کے سفر میں نمازیں قصر پڑھی جائیں گی(یعنی اس کا یہ سفر، سفر معصیت نہیں ہے کہ اگر سفر معصیت ہوتو نماز پوری پڑھنا ضروری ہے) اور اس طرح کی زیارت (جو مسجد النبی کی زیارت کے ضمن میں ہو) بہترین اعمال میں سے ہے اور اسی طرح قبور کی زیارت کرنا مستحب ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع اور شہدائے اُحد کی زیارتوں کے لئے جایا کرتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی اس عمل کی ترغیب دلاتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاکہ جس وقت زیارت کے لئے جایا کرو تو اس طرح کہا کرو:

اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِكُمْ لاٰحِقُوْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰهُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَمِنْكُمْ وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَنَسْئَلُ اللّٰهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةَ، اَللّٰهم لاٰتَحْرِمْنَا اَجْرَهم وَلاٰ تَفِتْنَا بَعْدَهم وَاغْفِرْ لَنَاوَلَهم

”سلام ہو تم پر اے مسلمین ومومنین، اور انشاء اللہ ہم بھی تم سے ملحق ہونے والے ہیں، خدا رحمت کرے ان لوگوں پر جو اس دیار میں ہم سے پہلے آئے یا بعد میں آئیں گے ،میں اپنے لئے اور تمھارے لئے خداوندعالم سے عافیت کا طلبگار ہو ں، بارالہٰا! ہم پر اجر ثواب کو حرام نہ کر، اور ہمیں اور ان لوگوں کو بخش دے“۔

قارئین کرام! جب عام مومنین کی قبروں کی زیارت جائز ہو تو پھر انبیاء، پیغمبروں اور صالحین کی قبور کی زیارت کا ثواب تو اور بھی زیادہ ہوگا، لیکن اس سلسلہ میں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی کا دوسرے انبیاء سے یہ فرق ہے کہ آپ کے اوپر ہر نماز میں صلوات اورسلام بھیجنا ضروری ہے، اسی طرح اذان اور مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا یہاں تک کہ کسی بھی مسجد میں داخل ہونے کی دعا اور مسجد سے باہر نکلتے وقت آپ پر سلام بھیجا جاتا ہے، اسی وجہ سے امام مالک نے کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کھے کہ میں نے حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کی ہے تو اس کا یہ کہنا مکروہ ہے، اور قبور کی زیارت سے مراد صاحب قبر پر سلام ودعا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ سلام و دعا ،کامل ترین انداز میں ،نمازاذان اوردعا کے وقت درود وسلام بھیجنا ہے،۱۴۸ اور اسی لئے کبھی یہ اتفاق نہیں ہوا کہ اصحاب پیغمبرآنحضرت (ص)کی قبر مطھر کے نزدیک نہیں گئے ،اور کبھی انھوں نے حجرے کے اندر سے یا حجرے کے باہر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت نہیں کی، لہٰذا اگر کوئی شخص فقط آنحضرت کی قبر کی زیارت کی وجہ سے سفر کرے اور اس کا قصد مسجد النبیمیں نماز پڑھنا نہ ہو، تو ایسا شخص بدعتی اورگمراہ ہے۔(۱۴۹)

ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لئے سفر کرنے والوں کے لئے، چند قول نقل کئے ہیںکہ چونکہ یہ سفر، سفر معصیت ہے لہٰذا کیا نماز پوری ہوگی یا قصر۔(۱۵۰)

ابن بطوطہ کے قول کے مطابق ابن تیمیہ قائل تھا کہ چونکہ یہ سفر، سفر معصیت ہے لہٰذاکیا نماز پوری پڑھنا ضروری ہے؟(۱۵۱)

اسی طرح ابن تیمیہ کہتا ہے: مسلمانوں کے ائمہ اربعہ نے خلیل خدا جناب ابراہیم کی قبراور دیگر انبیاء کی قبروں کی صرف زیارتوں کے لئے سفر کرنے کو مستحب نہیں جانا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص ایسے سفر کے لئے نذر کرے تو اس نذر پر عمل کرنا واجب نہیں ہے۔(۱۵۲)

اس کے بعد زیارت کے طریقہ کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر زیارت سے کسی کا مقصد صاحب قبر کے لئے دعا کرنا ہو تو اس کی یہ زیارت صحیح ہے لیکن اگر کوئی کام حرام ہو جیسے (صاحب قبر کو) خدا کا شریک قرار دینا، (گویا ابن تیمیہ کی نظر میں صاحب قبر سے استغاثہ کرنا اور اس کو شفیع قرار دینا شرک کا باعث ہے) یا اگر کوئی کسی کی قبر پر جاکر روئے، نوحہ خوانی کرے یا بے ہودہ باتیں کھے تو اس کی یہ زیارت باتفاق علماء حرام ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی رشتہ دار اور دوستوں کی قبر پر جاکر ازروئے غم آنسو بھائے تو اس کا یہ کام مباح ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اس گریہ کے ساتھ ندبہ اورنوحہ خوانی نہ ہو۔(۱۵۳) اسی طرح مَردوں کے لئے زیارت کرنا مباح ہے، البتہ عورتو ںکے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ قبور کی زیارت کرسکتی ہیں یا نھیں؟(۱۵۴)

البتہ ابن تیمیہ صاحب کفار کی قبور کی زیارت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی زیارت کرنا جائز ہے تاکہ انسان کو آخرت کی یاد آئے، لیکن جب کفار کی قبور کو دیکھنے کے لئے جائے تو ان کے لئے خدا سے استغفار کرنا جائز نہیں ہے۔(۱۵۵)

اسی طرح ابن تیمیہ صاحب کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ قبور کے نزدیک نماز پڑھنا یا قبروں پر بیٹھنا (یا ان کے برابر بیٹھنا) اور قبروں کی زیارت کو عید قرار دینا یعنی کئی لوگوں کا ایک ساتھ مل کر زیارت کے لئے جانا جائز نہیں ہے،(۱۵۶) چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پاس آنحضرت پر صلوات اور سلام بھیجنا ناجائز ہے کیونکہ یہ کام گویا آنحضرت کی قبر پر عید منانا ہے۔(۱۵۷)

ھی نہیں بلکہ جناب کا عقیدہ تو یہ بھی ہے کہ وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ تمام علمائے حدیث کی نظر میں ضعیف بلکہ جعلی ہیں، اسی طرح موصوف فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک پر ھاتھ رکھنا یا قبر کو بوسہ دینا جائز نہیں ہے اور مخالف توحید ہے،(۱۵۸) اور اسلامی نظریہ کے مطابق کوئی ایسی قبر یا روضہ نہیں ہے جس کی زیارت کے لئے جایا جائے، اور قبور کی زیارت کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد پیدا ہوا ہے یعنی اس سے قبل زیارت قبور کا مسئلہ موجود نہیں تھا۔(۱۵۹)

سب سے پہلے جن لوگوں نے زیارت کے مسئلہ کو پیش کیا اور اس سلسلہ میں حدیثیں گڑھیں، وہ اہل بدعت اور رافضی لوگ ہیں جنھوں نے مسجدوں کو بند کرکے روضوں کی تعظیم کرنا شروع کردی، چنانچہ روضوں پر شرک، جھوٹ اور بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔(۱۶۰)

جب ابن تیمیہ سے زیارت کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس کے جواب کو شام کے قاضی شافعی نے دیکھا تو اس نے اسی جواب کے نیچے لکھا کہ میں نے ابن تیمیہ کے جواب اور سوال میں مقابلہ کیا اور وہ چیز جو ابن تیمیہ اور ہمارے درمیان اختلاف کا باعث بنتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے انبیاء کرام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبور کی زیارت کو معصیت اورگناہ کہا ہے۔

لیکن ابن کثیر نے اس مطلب کو ذکر کرنے کے بعد کہا کہ ابن تیمیہ کی طرف اس مذکورہ بات کی نسبت دینا صحیح نہیں ہے (یعنی اس نے زیارت کو معصیت قرار نہیں دیا)، ابن کثیر صاحب جو ابن تیمیہ کے مشہور ومعروف طرفدار مانے جاتے ہیں مسئلہ زیارت میں ابن تیمیہ کے نظریہ کی توجیہ اور تصحیح کرتے ہیں۔(۱۶۱)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیهم السلام کی قبروں کی زیارت کے بارے میں وضاحت

ابن تیمیہ اپنے نظریات میں عام طور پر تمام قبور اورخاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے مسئلہ میں بہت زیادہ ہٹ دہرمی سے کام لیتا ہے، اسی وجہ سے اپنی دو کتابوں”الجواب الباہر“ اور ”الرد علی الاخنائی“ میں جب بھی اس طرح کے مسئلہ کو بیان کرتا ہے اور کسی مدرک اور سند کو ذکر کرتا ہے تو اس کو کئی کئی بار اور مختلف انداز سے تکرار کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کو مستحب قرار دیتی ہیں ان کو ضعیف اور جعلی بتاتا ہے، ان احادیث میں سے جن کو اہل سنت نے مختلف طریقوں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے منجملہ وہ حدیث جس میں آنحضرت نے فرمایا: ”مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِی“ (جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کی شفاعت مجھ پر واجب ہے)، اس حدیث کو صحیح نہیں مانتا، جبکہ زیارت سے متعلق احادیث صحاح ستہ اور اہل سنت کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں اورمختلف طریقوںسے نقل کی گئی ہیں اور بہت سے علماء نے ان کو صحیح شمار کیا ہے اور ان احادیث کے مضامین پر عمل بھی کیا ہے(۱۶۲)

ہم یہاں پر ان احادیث کے چند نمونے بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں:

امام مالک (مالکی مذہب کے امام) اپنی کتاب ”موطاء“ میں عبد اللہ ابن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر جب بھی کسی سفر پر جاتے تھے یا سفر سے واپس آتے تھے تو آنحضرت (ص)کی قبر پر حاضر ہوتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے اور آپ پر درود وسلام بھیجتے تھے اور دعا کرتے تھے، اسی طرح محمد (ابن عمر) نے کہا:اگر کوئی مدینہ میں آتا ہے تو اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوناضروری ہے۔(۱۶۳)

ابو ھریرہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے،(۱۶۴)

اسی طرح ابوبکر نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے جو شخص جمعہ کے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کی زیارت کرے اور ان کی قبر کے پاس سورہ یٰس پڑھے تو خدا اس کو بخش دیتا ہے۔(۱۶۵)

اسی طرح عبد اللہ بن ابی ملیکہ کی روایت ہے کہ اس نے کہا:میں نے دیکھا کہ ایک روز جناب عائشہ قبرستان سے واپس آرہی ہیں تو میں نے ان سے عرض کیا اے ام المومنین ! کیا پیغمبر اکرم نے قبور کی زیارت سے منع نہیں فرمایا تھا؟! تو انھوں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے پہلے ایسا ہی حکم کیا تھا لیکن بعد میں خود انھوں نے حکم فرمایا کہ قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرو۔(۱۶۶)

اسی طرح پیغمبر اکرم (ص)کی ایک دوسری حدیث جس میں آپ نے فرمایا : جو شخص میری زیارت کے لئے آئے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا قصد نہ رکھتا ہو، تو مجھ پر لازم ہے کہ میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں۔(۱۶۷)

جناب سمہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے بارے میں (۱۷)حدیثیں سند کے ساتھ ذکر کی ہیں، جن میں سے بعض کوہم زیارت کے بارے میں وہابیوں کےعقیدہ کے بیان کریں گے۔

اسی طرح سمہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے آداب کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:

ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن الحسین السامری حنبلی نے، اپنی کتاب ”المُستَوعِب“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے سلسلہ میں آداب زیارت کے باب میں لکھا ہے کہ جب زائر قبر کی دیوار کی طرف آئے تو گوشہ میں کھڑا ہوجائے اور قبر کی طرف رخ یعنی پشت بقبلہ اس طرح کھڑا ہو کہ منبر اس کی بائیں طرف ہو، اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سلام ودعا کی کیفیت بیان کی ہے، اور اس دعا کو ذکر کیا ہے:

”اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ فِی كِتَابِكَ لِنَبِیِّكَ عَلَیْهِ السَّلاٰمُ: ( وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْوكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰهَ تَوَّاباً رَحِیْماً ) وَاِنِّی قَدْ اَتَیْتُ نَبِیّكَ مُسْتَغْفِراً وَاَسْالُكَ اَنْ تُوْجِبَ لِیَ الْمَغْفِرَةَ كَمَا اَوْجَبْتَها لِمَنْ اَتَاهُ فِی حَیَاتِهِ، اَللّٰهم اِنِّي اَتَوَجَّهَ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ “۔

”خداوندا !تو نے اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر (ص)کے لئے فرمایاہے: اے کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے، تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مھربان پاتے،

میں اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے تیرے نبی کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ہوں، اور تجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں اور امید ہے کہ تو مجھے معاف کردے گا ،جس طرح لوگ تیرے نبی کی حیات میں ان کے پاس آتے تھے اور تو ان کو معاف کردیتا تھا، اے خدائے مھربان میں تیرے نبی کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں ملتمس ہوتا ہوں“۔

حنفی عالم دین ابومنصور کرمانی کہتے ہیں کہ اگر کوئی تم سے آکر یہ کھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک میرا سلام پہونچادینا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس طرح کہنا کہ آپ پر سلام ہو فلاں فلاں شخص کا، اور انھوںنے آپ کو خدا کی بارگاہ میں شفیع قرار دیا ہے تاکہ آپ کے ذریعہ خداوندعالم کی مغفرت اور رحمت ان کے شامل حال ہو، اور آپ ان کی شفاعت فرمائیں۔

سمہودی مذاہب اسلامی کے معتبر اور قابل اعتماد علماء میں سے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب کے تقریباً(۵۰)صفحے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کی زیارت اور اس کے آداب اور قبر مطھر سے توسل سے مخصوص کئے ہیں، اور متعدد ایسے واقعات بیان کئے ہیں کہ لوگ مشکلات اور بلا میں گرفتارہوئے اور آپ کی قبر مطھر پر جاکر نجات مل گئی ۔(۱۶۸)

مرحوم علامہ امینی نے زیارت قبر پیغمبر (ص)کی فضیلت اور استحباب کے بارے میں جہاں اہل سنت سے بہت سی روایات نقل کی ہیں وھیں تقریباً چالیس سے زیادہ مذاہب اربعہ کے بزرگوں کے قول بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے بارے میں نقل کئے ہیں۔(۱۶۹)

قارئین کرام!یہاں پر مناسب ہے کہ محمد ابوزَھرَہ عصر جدید کے مصری مولف کا قول نقل کیا جائے، وہ کہتے ہیں: ابن تیمیہ نے اس سلسلہ (زیارت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں تمام مسلمانوں سے مخالفت کی ہے بلکہ جنگ کی ہے۔

روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت،دراصل پیغمبر کی عظمت، آپ کے جھاد، مقام توحید کی عظمت کو بلند کرنے میں کوشش اور شرک اور بت پرستی کی نابودی کی کوششوں کی یاد دلاتی ہے، خود ابن تیمیہ روایت کرتے ہیں کہ سَلفِ صالح جب آپ کے روضہ کے قریب سے گذرتے تھے تو آپ کو سلام کرتے

نافع، غلام اور راوی عبد اللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ عبد اللہ ابن عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر پر سلام کرتے تھے اور میں نے سیکڑوں بار ان کو قبر منور پر آتے دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ اپنے ھاتھ کو منبر رسول سے مس کرتے ہیں، وہ منبر جس پر آنحضرت (ص)بیٹھا کرتے تھے ،پھر وہ اپنے ھاتھ کو اپنے منھ پر پھیرلیا کرتے تھے ،اسی طرح ائمہ اربعہ جب بھی مدینہ آتے تھے تو آنحضرت کی قبر کی زیارت کیا کرتے تھے۔(۱۷۰)

عمومی طور پر دوسری قبروں کی زیارت کے بارے میں ابن ماجہ نے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّها تُذَكِّرُكُمُ الآخِرَةَ “۔

”قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرو کیونکہ قبروں کی زیارت تمھیں آخرت کی یاددلائے گی“۔

اسی طرح جناب عائشہ کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت عطا فرمائی ہے۔(۱۷۱)

ابن مسعود سے منقول ایک اورروایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

كُنْتُ نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُوْرِ، فَزُوْرُوْها فَاِنَّها تُزَهِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَكِّرُ الٓاخِرَةَ “۔

”پہلے میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن (اب اجازت دیتا ہوں کہ) قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ قبروں کی زیارت دنیا میں زہد پیدا کرے گی اور آخرت کی یاد دلائے گی“۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک اور روایت ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ قبروں کی زیارت تمھیں موت کی یاد دلاتی ہے۔(۱۷۲)

سخاوی کہتے ہیں کہ آنحضرت خود بھی زیارت قبور کے لئے جاتے تھے اور اپنی امت کے لئے بھی اجازت دی کہ وہ بھی زیارت کے لئے جایا کریں، جبکہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبور کی زیارت سے منع فرمایا تھا۔

قبروں کی زیارت کرنا ایک سنت ہے اور جو شخص بھی زیارت کرتا ہے اس کو ثواب ملتا ہے البتہ زائر کو حق بات کے علاوہ کوئی بات زبان پر جاری نہیں کرنا چاہئے، اور قبروں کے اوپر نہیں بیٹھنا چاہئے، اور ان کو بے اہمیت قرار نہیں دینا چاہئے اور ان کو اپنا قبلہ بھی قرار نہیں دینا چائے ۔

چنانچہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ گرامی اور عثمان بن مظعون کی قبروں کی زیارت کی اور عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک نشانی بنائی تاکہ دوسری قبروں سے مل نہ جائے۔

اس کے بعد سخاوی کہتے ہیں کہ َمردوں کے لئے قبور کی زیارت کے مستحب ہونے پر دلیل اجماع ہے جس کو عَبدرَی نے نقل کیا ہے اور نُوو ی شارح صحیح مسلم نے کہا ہے کہ یہ قول تمام علمائے کرام کا ہے۔

ابن عبد البِرّ اپنی کتاب ”استذکار“ میں ابوھریرہ کی حدیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس وقت قبرستان میں جاتے تھے ،تو اس طرح فرماتے تھے:

اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ دَارَ قومٍ مُومِنِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰه بِكُم لاحقُونَ، نَسْالُ اللّٰهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةِ “۔

اس حدیث کے مضمون کے مطابق قبروں پر جانے اوران کی زیارت کرنے کے سلسلہ میں علما کا اجماع واتفاق ہے کہ مَردوں کے لئے جائز ہے اوراس سلسلہ میں متعدد احادیث موجود ہیں۔

لیکن عورتوں کے سلسلہ میں خصوصی طور پر صحیح بخاری میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا کہ ایک قبر کے پاس بیٹھی گریہ کر رہی ہے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اے کنیز خداپرہیزگار رہواور صبر کرو، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عورت کو منع نہیں کیا کیونکہ اگر عورتوں کا قبور کی زیارت کرنا اور وہاں پرگریہ کرنا حرام ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو منع فرماتے۔(۱۷۳)

اسی طرح زیارت کے بارے میں ایک حدیث جلال الدین سیوطی نے بیہقی سے نقل کی اور انھوں نے ابوھریرہ سے نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے احد کے بارے میں خاص طور پر فرمایا :

اَشْهَدُاَنَّ هٰولاٰءِ شُهْدَاٌ عِنْدَ اللّٰهِ فَاتُوهم وَزُوْرُوْهم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه. لاٰیُسَلِّمُ عَلَیْهم اَحَدٌ اِلٰی یَومَ القِیَامَةِ اِلاّٰ رَدُّوْا عَلَیْهِ

”میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حضرات خدا کی بارگاہ میں شھید ہیں ،ان کی قبروں پر جاؤ اور ان کی زیارت کرو، قسم اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تا روز قیامت اگر کوئی شخص ان کو سلام کرے گا تو یہ ضرور اس کا جواب دیں گے“

اسی طرح وہ روایت جس کو حاکم نے صحیح مانا ہے اور اس کو بیہقی نے بھی نقل کیاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدائے احد کی قبور کی زیارت کے لئے جاتے تھے تو کہتے تھے:

اَللّٰهم اِنَّ عَبْدَكَ وَنَبِیَّكَ یَشْهَدُ اَنَّ هٰولاٰءِ شُهَدَاءٌ وَاِنَّهُ مَنْ زَارَهم اَوْ سَلِّمْ عَلَیْهم اِلٰی یَومَ الْقَیَامَةِ رَدُّوْا عَلَیْهِ

”خداوندا !تیرا بندہ اور تیرا نبی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہداء راہ حق ہیں ،اوراگر کوئی ان کی زیارت کرے یا (آج سے) قیامت تک ان پر سلام بھیجے تویہ حضرات اس کے سلام کا جواب دیں گے۔(۱۷۴)

واقدی کہتے ہیں: پیغمبر اکرم:صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور جب اس وادی میں پہونچتے تھے تو بلند آواز میں فرماتے تھے:

اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ “۔

”سلام ہو تم پر اس چیز کے بدلے جس پر تم نے صبر کیا اورتمھاری کیا بہترین آخرت ہے“۔

ابوبکر، عمر اورعثمان بھی سال میں ایک مرتبہ شہداء احد کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے، اورجناب فاطمہ دختر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوتین دن میں ایک دفعہ احد جایا کرتی تھیںاور وہاں جاکر گریہ وزاری اور دعا کرتی تھیں۔

اسی طرح سعد بن ابی وقّاص بھی قبرستان میں پیچھے کی طرف سے دا خل ہوتے اور تین بار سلام کرتے تھے۔

واقدی کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مُصْعَب بن عُمَیر جو کہ شہداء احد میں سے ہیں، کے پاس سے گذرے تو ٹھھرگئے ان کے لئے دعا کی اور یہ آیہ شریفہ پڑھی:

( رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاهَدُوْا اللّٰهَ عَلَیْهِ فَمِنْهم مَنْ قَضٰی نَحْبَهُ وَمِنْهم مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلاً ) ۔(۱۷۵)

”مومنین میں سے ایسے بھی مرد میدان ہیں جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کردکھایا، ان میں سے بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں، اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے“۔

اس کے بعد فرمایا: میں خدا کے حضور میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں شھید ہیں،ان کی قبور کی زیارت کے لئے جایا کرو اور ان پر درود وسلام بھیجا کرو، کیونکہ وہ

(بھی) سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اس کے بعد واقدی نے ان اصحاب کے نام شمار کئے ہیں جو شہداء احد کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے نیزان کی زیارت کی کیفیت اور طریقہ بھی بیان کیا ہے۔(۱۷۶)

اب رہا شیعوں کے یہاں مسجدوں کو تعطیل کرنے کا مسئلہ تو ہم اس سلسلہ میں یہ کہیں گے کہ یہ بھی ان تہم توں میں سے ہے جو قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہے اور اس کی اصل وجہ بھی شیعوں سے دشمنی اور بغض وعناد ہے، چنانچہ بعض مولفین نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے بغیر کسی تحقیق کے بیان کردیا، اور شیعوں سے بد ظنی کی بناپر اس نظریہ کو اپنی کتابوں میں بھی داخل کردیا ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شروع ہی سے شیعوں کی مساجد سب سے زیادہ آباد اور پررونق رہی ہیں جیسا کہ کتاب تاریخ مذہبی قم کے مولف نے بھی بیان کیا ہے، آج بھی دنیا کی سب سے بہترین ،خوبصورت اور قدیمی ترین مساجد کو ایران میں دیکھا جاسکتا ہے،جو گذشتہ صدیوں سے اسی طرح باعظمت باقی ہیں۔

اور یہ مسجدیںجونماز جماعت کے وقت بھر جاتی ہیں اس کی داستانیں زبان زد خاص وعام ہیں، اس وقت شھروں ،قصبوں اور دیھاتوں میں ایسی ہزاروں مسجدیں ہیں جن میں بہترین فرش وغیرہ موجود ہیں ۔

جب بھی کوئی مسافرایران آتا ہے تو وہ ایران کے پایہ تخت” تھران“ میں ضرور جاتا ہوگا تھران میں سیکڑوں مسجد یں ہیں جن میں بہترین وسائل اور کتابخانے ہیں ۔ یہ مسجدیںکسی بھی وقت نمازیوں سے خالی نہیں ہوتیں اور ان سب میں وقت پر نماز جماعت قائم ہوتی ہے، اور تھران کے علاوہ بھی دوسرے شھروں مثلاً مشہد، قم، اصفھان، شیراز وغیرہ میں کسی بھی جگہ دیکھ لیں کہیں پر بھی مسجدیںمعطّل نہیں ہوئی ہیں بلکہ اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ بھری ہوئی ہیں،اور تمام مساجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ چاہے ایران میں جو شیعت کا مرکز ہے یا دوسرے علاقوں میں کوئی بھی زمانہ ایسا نہیں گذرا جہاں پر مسجد غیر آباد ہو، اور شیعہ مسجدوں کی رونق دوسر ے فرقوں سے کم رہی ہو۔

قبور کے نزدیک نماز پڑھنا

صحیح مسلم میں قبور کے نزدیک آنحضرت (ص)کے نماز پڑھنے کے بارے میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں۔(۱۷۷)

ابن اثیراس حدیث ”نَهٰی عَنِ الصَّلاٰةِ فِیْ الْمَقْبَرَةِ “کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ مقبروں میں نماز کو ممنوع قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مقبروں کی مٹی، خون اور مردوں کی نجاست سے مخلوط ہوتی ہے لیکن اگر کسی پاک قبرستان میں نماز پڑھی جائے تو صحیح ہے، اس کے بعد ابن اثیرکھتے ہیں کہ ”لاتجعلوا بیوتکم مقابر“(یعنی اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ)گذشتہ حدیث کی ہی طرح ہے یعنی تمھارے گھر نماز نہ پڑھے جانے میں قبرستان کی طرح نہ ہوجائیں، کیونکہ جو مرجاتا ہے وہ پھر نماز نہیں پڑھتا، چنانچہ مذکورہ معنی پر درج ذیل حدیث دلالت کرتی ہے: ”اِجْعَلُوا مِنْ صَلاٰتِكُمْ فِی بُیُوْتِكُمْ وَلاٰ تَتَّخِذُوْا قُبُوْراً “ (اپنے گھروں کو قبرستان کی طرح قرار نہ دو کہ کبھی اس میں نماز نہ پڑھو بلکہ کچھ نمازیں گھروں میں بھی پڑھا کرو)بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اپنے گھروں کو قبرستان قرار نہ دو کہ اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ،لیکن پہلے والے معنی بھتر ہیں ۔(۱۷۸)

شوکانی نے خطابی کی کتاب ”معالم السنن “ کے حوالہ سے مقبروں میں نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے اسی طرح اس نے حسن (حسن بصری) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے مقبرہ میں نماز پڑھی، اوریہ بھی کہا کہ رافعی وثوری (سفیان ثوری) اور اوزاعی اور ابوحنیفہ قبرستان میں نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے لیکن امام مالک نے قبرستان میں نماز پڑھنے کو جائز قرار دیاہے۔

امام مالک کے بعض اصحاب نے یہ دلیل پیش کی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک سیاہ اور فقیر عورت کی قبر کے نزدیک نما ز پڑھی ہے،(۱۷۹) مالک کی روایت کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک غریب عورت بیمار ہوئی، اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب یہ مرجائے تو مجھے خبر کرنا، لیکن چونکہ اس کو رات میں موت آئی توآپ کو خبر نہیں کی گئی اور اس عورت کو رات ہی میں دفن کردیا گیا، جب دوسرا روز ہوا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی قبر پر گئے اوراس پر نماز پڑھی اور چار تکبیریں کہیں ۔(۱۸۰)

ندبہ اور نوحہ خوانی کے بارے میں وضاحت

ابن تیمیہ نے میت پر ،نوحہ خوانی اورگریہ کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے، اور وہابی حضرات بھی اس طرح کے کاموں کو گناہان کبیرہ میں شمار کرتے ہیں۔(۱۸۱)

جبکہ احمد ابن حنبل اور بخاری کی روایت کے مطابق جب عمر کو ضربت لگی تو صُھیب (غلام عمر) نے چلانا شروع کیا: ” وااخاہ، وا صاحباہ“اس وقت جناب عمر نے کہا کہ کیا تم نے نھیںسنا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر میت پر گریہ کیا جائے تو اس گریہ کی وجہ سے اس پر عذاب ہوتا ہے؟!

جناب ابن عباس کہتے ہیں کہ جب عمر کا انتقال ہوا، تو میں نے اس بات کو جناب عائشہ کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے فرمایا: بخدا جناب رسول خدا نے کبھی اس طرح کی کوئی بات نہیں کھی ہے بلکہ انھوں نے تو یہ فرمایا ہے کہ اگر کفار پر اس کے اہل خانہ گریہ کریں تو اس کے عذاب میں اضافہ ہوتا ہے۔(۱۸۲)

اسی طرح میت پر رونے اور گریہ کرنے کے جائز ہونے پر صاحب ”منتقی الاخبار“ نے انس بن مالک سے یہ ورایت نقل کی ہے کہ جب رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت فاطمہ زہرا(ع)نے فرمایا:

یَا اَبَتَاهُ، اَجَابَ رَبّاً دَعَاهُ، یَا اَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدُوْسِ مَاوَاهُ، یَا اَبَتَاهُ اِلٰی جِبْرِیْلَ نَنْعَاهُ “۔

”اے میرے پدر محترم آپ نے دعوت حق پر لبیک کھی اور جنت الفردوس کو اپنا مقام بنالیا،اور جناب جبرئیل نے آپ کی وفات کی خبر سنائی“۔

اسی طرح انس سے ایک دوسری روایت کے مطابق جب جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح جسم سے پرواز کر گئی تو جناب ابوبکر حجرے میں تشریف لائے اور اپنے منھ کو آنحضرت کی دونوں آنکھوں کے پیچ رکھا اور آنحضرت کے دونوں رخساروں پر اپنے دونوں ھاتھوں کو رکھا اور کہا: ”وانبیاہ وا خلیلاہ وا صفیاہ“ اس روایت کو احمد ابن حنبل نے بھی نقل کیا ہے۔(۱۸۳)

ھی نہیں بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی متعدد بار اپنے رشتہ داروں اور اصحاب کے انتقال پر گریہ فرمایا ہے، جیسا کہ انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ جب آپ کی ایک بیٹی اس دنیا سے چلی گئی تو آپ اس کی قبر پر بیٹھ گئے درحالیکہ آپ کی چشم مبارک سے آنسوںبہہ رہے تھے، اور ایک مقام پر جب آپ کی بیٹی کا ایک بیٹامرنے کے نزدیک تھا تو آپ نے گریہ شروع کیا۔(۱۸۴)

اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے چچا حمزہ کو شھید پایا تو گریہ کیا اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ جناب حمزہ کو مُثلہ کردیاگیا (یعنی آپ کے ناک وکان اور دوسرے اعضاء کاٹ لئے گئے) تو آپ چیخیں مار مار کر روئے۔(۱۸۵)

اور جب جناب حمزہ کی شھادت واقع ہوئی اور جناب صفیہ دخترعبد المطلب نے جناب حمزہ کے لاشہ کو تلاش کرنا شروع کیا تو انصار نے آپ کو روکا، اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان کو آزاد چھوڑدو، جب جناب صفیہ نے اپنے بھائی کی لاش پائی تو رونا شروع کیا، جس وقت آپ گریہ کرتی تھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ کرتے تھے اور جب آپ چیخیں مارتی تھیں تو رسول گرامی بھی چیخیں مارتے تھے ۔(۱۸۶)

جب جناب فاطمہ زہرا = جناب حمزہ کے اوپر گریہ کرتی تھیں توپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ کرتے تھے، اسی طرح جب جناب جعفر بن ابی طالب جنگ موتہ میں شھید ہوئے تو رسول گرامیجناب جعفر کی زوجہ اسماء بنت عمیس کے پاس گئے اور ان کو تعزیت پیش کی، اس موقع پر جناب فاطمہ زہرا= تشریف لائیں درحالیکہ آپ گریہ کررہی تھیں اور کہتی جاتی تھیں: ”واعماہ“ (ھائے میرے چچا) اس موقع پر حضرت پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جعفر جیسے مَرد پر گریہ کرنا چاہئے،(۱۸۷)

مزید یہ کہ نافع نے ابن عمرسے روایت کی ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے واپس ہوئے تو انصار کی عورتیں اپنے شھید شوھروں پر گریہ کر رہی تھیں اس وقت پیغمبر نے فرمایا حمزہ پر کوئی گریہ کرنے والا نہیں ہے ،یہ کہہ کر آپ سوگئے،جب بیدار ہوئے تو دیکھا کہ عورتیں یوں ہی گریہ کر رہی ہیں آپ نے فرمایا: ورتیں آج جو گریہ کریں تو حمزہ پر کریں۔(۱۸۸)

ابن ہشام اورطبری نے اس سلسلہ میں کہا ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی عبد الاشھل وظفر کے گھروں میں سے ایک گھر کی طرف گذرے تو وہاں سے جنگ احد میں ہوئے شھیدوں پر رونے کی آوازیں سنائی دیں تو اس پر آنحضرت کی آنکھیں بھی آنسووں سے بھرآئیں اور آپ گریہ کرتے ہوئے فرماتے تھے: جناب حمزہ پر کوئی رونے والا نھیں،یہ سن کر سعد بن مُعاذ واُسید بن حُضَیر بنی عبد الاشھل کے گھروں میں گئے اور اپنی اپنی عورتوں کو حکم دیا کہ جناب حمزہ پر بھی گریہ کریں۔

اسی طرح ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے مدینہ واپس پہونچے، تو”حَمنَہ دختر جَحش“ راستہ میں ملی اور جب لوگوں نے اس کو اس کے بھائی عبد اللہ ابن جحش کی شھادت کی خبر سنائی تو اس نے کہا:( انا للّٰه وانا الیه راجعون ) اور اس کے لئے خداوندکریم کی بارگاہ میں طلب مغفرت کی، اس بعد کے اس نے اپنے ماموں حمزہ ابن عبد المطلب کی شھادت کی خبر سنی، اس نے پھر وھی آیت پڑھی اور ان کے لئے بھی استغفار کیا، لیکن جب اس کو اس کے شوھر مصعب بن عمیر کی شھادت کی خبر سنائی گئی تو اس نے چیخیں ماریں ،اور جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حمنہ کو اپنے بھائی اور ماموں کی شھادت پر صبر اور اپنے شوھر کی شھادت پر نالہ وشیون کرتے دیکھا تو فرمایا: بیوی کی نظر میں شوھر کی اہمیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔(۱۸۹)

اور جب جناب ابوبکر اس دنیا سے گئے تو جناب عائشہ نے ابوبکر کے لئے نوحہ وگریہ کی مجلس رکھی جب جناب عمر نے عائشہ کو اس کام سے روکا، تو جناب عائشہ اوردیگر عورتوں نے اس بات کو نہ مانا،چنانچہ جناب عمر نے ابوبکر کی بہن ام فروہ کو چند تازیانے بھی مارے، اس کے بعد گریہ کرنے والیعورتیں وہاں سے مجبوراً اٹھ کر چلی گئیں۔(۱۹۰)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گفتگو اور عورتوں کا گریہ کرنا

واقدی کہتے ہیں کہ جنگ احد میں سعد بن ربیع شھید ہوگئے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وہاں سے ” حمراء الاسد“ گئے، جابر ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ ایک روز صبح کا وقت تھا میں آنحضرت کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، چنانچہ جنگ احد میں مسلمانوں کے قتل وشھادت کی باتیں ہونے لگیں، منجملہ سعد بن ربیع کا ذکر آیا تو اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو ! سعد کے گھر چلتے ہیں، جابر کہتے ہیں کہ ہم بیس افراد ہونگے جو آنحضرت کے ساتھ سعد کے گھر گئے وہاں پر بیٹھنے کے لئے کوئی فرش وغیرہ بھی نہ تھا چنانچہ سب لوگ زمین پر بیٹھ گئے اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن ربیع کا ذکر کیا اور ان کے لئے خدا سے طلب رحمت کی اور فرمایا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس روز سعد کے بدن کو نیزوں نے زخمی کررکھا تھا، یہاں تک کہ ان کو شھادت مل گئی، جیسے ہی عورتوں نے یہ کلام سنا تو رونا شروع کردیا، اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے بھی آنسوجاری ہوگئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان عورتوں کو رونے سے منع نہیں فرمایا۔(۱۹۱)

اس سلسلہ میں شافعی کا نظریہ

کتاب ”الاُم“ تالیف شافعی میں ”بکاء الحیّ علی المیت“ (زندہ کا میت پر گریہ کرنا)کے تحت اس طرح بیان ہوا ہے کہ جناب عبد اللہ ابن عمر کی طرف سے جناب عائشہ سے کہا گیا کہ کسی میت پر زندہ کا گریہ کرنا اس پر عذاب کا باعث ہوتا ہے، تو جناب عائشہ نے کہا کہ ابن عمر نے جھوٹ نہیں کہا لیکن اس سے غلطی، یا بھول چوک ہوئی ہے، (یعنی اصل حدیث یہ ہے کہ)پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے جب ایک یہودی عورت کا جنازہ آیا در حالیکہ اس کے رشتہ دار اس پر روتے جارہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں جبکہ ان کے رونے کی وجہ سے یہ قبر میں عذاب میں مبتلا ہے۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ جب جناب عمر کو ضربت لگی اور ان کا غلام صُھیب رونے لگا اور کہنے لگا:”وا اخیاہ وا صاحباہ“ تو عمر نے اس سے کہا تو روتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے میت پر اہل خانہ کا گریہ کرنا اس کے لئے عذاب کا باعث ہوتا ہے، جناب ابن عباس کہتے ہیں کہ جب عمر اس دنیا سے چلے گئے تو میں نے اس بات کو جناب عائشہ سے دریافت کیا۔ عائشہ نے کہا خدا کی قسم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس طرح نہیں فرمایا بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ کفار کی میت پر اس کے اہل خانہ کا گریہ اس کے عذاب کو زیادہ کردیتا ہے، اس کے بعد جناب عائشہ نے فرمایا کہ تمھارے لئے قرآن کافی ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:( ولا تزر وازةوزر اخریٰ ) (۱۹۲) (اور کوئی نفس دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) س کے بعد جناب ابن عباس نے بھی کہا:( واللّٰه اضحک وابکی ) (۱۹۳)

شافعی نے مذکورہ مطالب کو ذکر کرنے کے بعد آیات وروایات کے ذریعہ مذکورہ روایت”ان المیت لیعذب“۔ کے صحیح نہ ہونے کو ثابت کیا ہے۔(۱۹۴)

۱۰۔ غیر خدا کی قسم کہانا

ابن تیمیہ کا کہنا یہ ہے کہ اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ باعظمت مخلوق جیسے عرش وکرسی، کعبہ یا ملائکہ کی قسم کہانا جائز نہیں ہے، تمام علماء مثلاً امام مالک، ابوحنیفہ اور احمد ابن حنبل (اپنے دوقولوں میں سے ایک قول میں ) اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم کہانا بھی جائز نہیں ہے اور مخلوقات میں سے کسی کی قسم کہانا چاہے وہ پیغمبر کی ہو یا کسی دوسرے کی جائز نہیں ہے اور منعقد بھی نہیں ہوگی، (یعنی وہ قسم شرعی نہیں ہے اور اس کی مخالفت پر کفارہ بھی واجب نہیں ہے) کیونکہ صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم نہ کہاؤ، ایک دوسری روایت کے مطابق اگر کسی کو قسم کہانا ہے تو اس کو چاہئے کہ یا تو وہ خدا کی قسم کہائے یا پھر خاموش رہے یعنی کسی غیر کی قسم نہ کہائے، اور ایک روایت کے مطابق خدا کی جھوٹی قسم، غیر خدا کی سچی قسم سے بھتر ہے، چنانچہ ابن تیمیہ کہتا ہے کہ غیر خدا کی قسم کہانا شرک ہے۔(۱۹۵)

البتہ بعض علماء نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم کو استثناء کیا ہے اور آپ کی قسم کو جائز جانا ہے، احمد ابن حنبل کے دو قولوں میں سے ایک قول یھی ہے، اسی طرح احمد ابن حنبل کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

بعض دیگر علماء نے تمام انبیاء کرام کی قسم کو جائز جانا ہے، لیکن تمام علماء کا یہ قول کہ انھوں نے بلا استثنیٰ مخلوقات کی قسم کہانے سے منع کیا ہے صحیح ترین قول ہے۔(۱۹۶)

ابن تیمیہ کا خاص شاگرد اور معاون ابن قیّم جوزی کہتا ہے : غیر خدا کی قسم کہانا گناہان کبیرہ میں سے ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی غیر خدا کی قسم کہاتا ہے وہ خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے، لہٰذا غیر خدا کی قسم کہانا گناہ کبیرہ میں سر فھرست ہے۔(۱۹۷)

غیر خدا کی قسم کے بارے میں وضاحت

مرحوم علامہ امین فرماتے ہیں کہ صاحب رسالہ (ابن تیمیہ) کا یہ قول کہ غیر خدا کی قسم کہانا ممنوع ہے، یہ ایک بکواس کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے صرف ابوحنیفہ، ابو یوسف، ابن عبد السلام اور قدوری کے اقوال کو نقل کئے ہیں، گویا تمام ممالک اور ہر زمانہ کے تمام علماء صرف انھیں چار لوگوں میں منحصر ہیں، اس نے شافعی، مالک اور احمد ابن حنبل کے اقوال کو کیوںبیان نہیں کیا اور اس نے عالم اسلام کے مشہور ومعروف بے شمار علماء جن کی تعداد خدا ہی جانتا ہے کے فتوے نقل کیوں نہیں کئے۔

حق بات تو یہ ہے کہ غیر خدا کی قسم کہانا نہ مکروہ ہے اور نہ حرام، بلکہ ایک مستحب کام ہے اور اس بارے میں بہت سی روایات بھی موجود ہیں، اس کے بعد مرحوم علامہ امین نے صحاح ستہ سے چند روایات نقل کی ہیں۔(۱۹۸)

موصوف اس کے بعد فرماتے ہیں کہ غیر خدا کی قسم کہانا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب وتابعین کے زمانہ سے آج تک تمام مسلمانوں میں رائج ہے، خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں کی قسم کہائی ہے، خود پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب رسول وتابعین میں ایسے بہت سے مواقع موجود ہیں جن میں انھوں نے اپنی جان یادوسری چیزوں کی قسم کہائی ہے، اور اس کے بعد مرحوم علامہ امین نے ان بہت سے واقعات کو باقاعدہ سند کے ساتھ بیان کیا ہے جن میں مخلوق کی قسم کہائی گئی ہے۔(۱۹۹)

ایک دوسری جگہ پر کہتے ہیں کہ وہ احادیث جو غیر خدا کی قسم سے منع کرتی ہیں یاتو ان کو کراہت پر حمل کیا جائے یا وہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غیر خدا کی قسم منعقد نہیں ہوتی اور اس میں نھی، نھی ارشادی ہے، اور اس طرح کی قسمیں مکروہ ہیں حرام نھیں، جبکہ وہابیوں کے امام احمد ابن حنبل نےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم کے جواز پر فتویٰ دیا ہے۔

شعرانی احمد بن حنبل کے قول کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کسی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم کہائی تو اس کی وہ قسم منعقد ہے بلکہ پیغمبر کے علاوہ بھی دوسروںکی قسم کہانا اس قسم کے منعقد ہونے کا سبب بنتا ہے۔(۲۰۰)

۱۱۔ مقدس مقامات کی طرف سفر کرنا

ابن تیمیہ کاکہناہے: مقدس مقامات کی طرف سفر کرنا حج کے مانند ہے، ہر وہ امت جن کے یہاں حج کا تصور پایا جاتا ہے جیسے عرب کے مشرکین لات وعزّیٰ ومنات اور دوسرے بتوں کی طرف حج کے لئے جایا کرتے تھے، لہٰذا اس طرح کے روضوں کی طرف سفر کرنا گویا حج کرنے کی طرح ہے جس طرح مشرکین اپنے خداؤں کے پاس حج کے لئے جاتے تھے۔(۲۰۱)

بدعتی لوگ انبیاء اور صالحین کی قبور کی طرف بعنوان حج جاتے ہیں، ان کی زیارت کرنا شرعی جواز نہیں رکھتا، جس سے ان کا مقصد صاحب قبر کے لئے دعا کرنا ہو، بلکہ اس زیارت سے ان کا مقصد صاحب قبر کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتاہے کہ وہ حضرات خدا کے نزدیک عظیم مرتبہ اور بلند مقام رکھتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صاحب قبر کو نصرت اور مدد کے لئے پکارےں، یا ان کی قبروں کے پاس خدا کو پکاریں، یا صاحب قبر سے اپنی حاجتیں طلب کریں۔(۲۰۲)

جو لوگ قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں (یا ابن تیمیہ کے بقول :قبروں پر حج کے لئے جاتے ہیں) تو ان کا قصد بھی مشرکین کے قصد کی طرح (عبادت مخلوق، یعنی بتوں کی پوجا) ہوتا ہے، اور وہ بتوں سے وھی طلب کرتے ہیں جو اہل توحید (مسلمان) خدا سے طلب کرتے ہیں۔

۱۲۔ شیعوں کے بارے میں

ابن تیمیہ کا کہنا ہے: کفار ومشرکین جو اپنے مقدس مقامات پر جانے کے لئے سفر کرتے ہیں، اور یھی ان کا حج ہے اور قبر کے نزدیک اسی طرح خضوع وتضرع کرتے ہیں جس طرح سے مسلمان خدا کے لئے کرتے ہیں، اہل بدعت اور مسلمانوں کے گمراہ لوگ بھی اسی طرح کرتے ہیں، چنانچہ ان گمراہ لوگوں میں رافضی بھی اسی طرح کرتے ہیںکہ اپنے اماموں اوربزرگوں کی قبور پر حج کے لئے جاتے ہیں، بعض لوگ ان سفروں کے لئے اعلان کرتے ہیںاور کہتے ہیں آئیے حج اکبر کے لئے چلتے ہیں، اور اس سفر کے لئے علمِ حج ساتھ لیتے ہیں اور ایک منادی کرنے والا حج کے لئے دعوت دیتا ہے اور اسی طرح کا علم اٹھاتے ہیں جس طرح مسلمان حج کے لئے ایک خاص علم اٹھاتے ہیں، یہ فرقہ مخلوق خدا کی قبور کو حج اکبر اور حج خانہ خدا کو حج اصغر کہتا ہے۔(۲۰۳)

ابن تیمیہ ایک دوسری جگہ پر ان موارد کا ذکر کرتا ہے جن میں بعض افراد کچھ مقدس مقامات کے سفر کو سفر حج کی طرح مانتے ہیں، لیکن وہاں یہ ذکر نہیں کرتا کہ یہ لوگ کس مذہب کے پیرو ہیں اور کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ وہ لوگ اس مقام پر جاتے ہیں جہاں پر کوئی ولی اللہ اس زمین پر نازل ہوا ہے وہاں پر حج کے لئے جاتے ہیں اور حج کی طرح احرام باندہتے ہیں اور لبیک کہتے ہیں ،جیسا کہ مصر کے بعض شیوخ مسجد یوسف میں حج کے لئے جاتے ہیں، اور احرام کا لباس پہنتے ہیں، اوریھی شیخ زیارت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بعنوان حج جاتا ہے اور وہاں سے مکہ معظمہ بھی نہیں جاتا کہ اعمال حج بجالائے اور مصر واپس پلٹ جاتا ہے۔(۲۰۴)

مذکورہ مطلب کے بارے میں وضاحت

بارہا یہ بات کھی جاچکی ہے کہ شیعوں کی نظر میں حج صرف خانہ خدا بیت اللہ الحرام کا حج ہے جو مکہ معظمہ میں ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو حج کے برابر اور حج کی جگہ نہیں مانتے، اور یہ ان مسلم چیزوں میں سے ہے کہ اگر کوئی شخص ذرہ برابر بھی فقہ شیعہ سے باخبر ہو، تو اس پریہ بات مخفی نہیں ہوگی، اور دوسرے مقامات کو خانہ کعبہ کی جگہ قرار دینا اور وہاں حج کی طرح اعمال بجالانا ان لوگوں کے ذریعہ ایجاد ہوا ہے جو شیعوں کے مخالف اور شیعوں کے دشمن شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تیسری صدی کے مشہور ومعروف مورخ یعقوبی کے مطابق عبد الملک بن مروان ہے کہ،جب عبد اللہ ابن زبیر کے ساتھ اس کی جنگ ہوتی ہے تو وہ شام کے لوگوں کو حج سے منع کردیتا ہے کیونکہ عبد اللہ ابن زبیر شامی حجاج سے اپنے لئے بیعت لے رہے تھے، یہ سن کر لوگوں نے چلانا شروع کیا اور عبد الملک سے کہا کہ ہم لوگوں پر حج واجب ہے اور تو ہمیں حج سے روکتا ہے، ؟ تو اس وقت عبد الملک نے جواب دیا کہ یہ ابن شھاب زھری ہے جو آپ حضرات کے سامنے رسول اللہ کی حدیث سناتے ہیں:

لاٰ تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلاّٰ اِلیٰ ثَلاٰثَةِ مََسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ وَمَسْجِدُ بیت الْمُقَدَّسْ (مسجد اقصیٰ)“

”ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لئے رخت سفر نہیں باندھا جاسکتا: مسجد الحرام، مسجد النبی، مسجد اقصیٰ، لہٰذا مسجد اقصیٰ مسجد الحرام کی جگہ واقع ہوگی، اور یہ صخرہ (بڑا اور سخت پتھر) جس پر پیغمبر اکرم (ص)نے معراج کے وقت اپنے پیر رکھے تھے خانہ کعبہ کی جگہ ہے۔

اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ اس پتھر پر ریشمی پردہ لگایا جائے (خانہ کعبہ کے پردہ کی طرح) اور وہاں کے لئے خادم اور نگھبان (محافظ) معین کردئے گئے اور جس طرح خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے اسی طرح اس پتھر کا بھی طواف ہونے لگا، اور جب تک بنی امیہ کا دور رہا یہ رسم برقرار رہی۔(۲۰۵)

اور جیسا کہ معلوم ہے کہ عبد الملک بن مروان کی یہ یادگار بنی امیہ کے ختم ہونے کے بعد بھی صدیوں رائج رہی، چنانچہ ناصر خسرو پانچوی صدی کا مشہور ومعروف سیّاح شھر بیت المقدس کی اس طرح توصیف کرتا ہے: بیت المقدس کو اہل شام اور اس کے اطراف والے قدس کہتے ہیں اور اس علاقہ کے لوگ اگر حج کے لئے نہیں جاسکتے تو اُسی موقع پر قدس میں حاضر ہوتے ہیںاور وہاں توقف کرتے ہیں اور عید کے روز قربانی کرتے ہیں، یھی ان کا وطیرہ ہے، ہر سال ماہ ذی الحجہ میں وہاں تقریباً بیس ہزار لوگ جمع ہوتے ہیںاپنے بچوں کو لے جاتے ہیں اور ان کے ختنے کرتے ہیں۔(۲۰۶)

ان ہی لوگوں میں متوکل عباسی بھی ہے (یہ وھی متوکل ہے جس نے روضہ امام حسین ں پر پانی چھوڑا تاکہ قبر کے تمام آثار ختم ہوجائیں) اس نے شھر سامرہ (عراق) میں خانہ کعبہ بنوایا، اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کا طواف کریں اور وھیں دو مقامات کا ” منیٰ“ و”عرفات“ نام رکھا اس کا مقصد یہ تھا کہ فوج کے بڑے بڑے افسر حجپر جانے کے لئے اس سے جدانہ ہوں۔(۲۰۷)

یہ تھے دو نمو نے، اگر ان کے علاوہ کوئی ایسا مورد پایا جائے تو وہ بھی انھیں کی طرح ہے، اور کبھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جس میں کسی شیعہ مذہب کے ماننے والے نے اس طرح کا کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔

شیعوں کی نظر میں زیارت قبور، ایک اور وضاحت

پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے، یہ سب ناروا تہم تیں اور نادرست نسبتیں جو شیعوں کی طرف دی گئیں ہیں یہ اسی زمانہ کی ہیں جب گذشتہ صدیوں میں شیعوں سے دشمنی اور تعصب برتا جاتا تھا خصوصاً چوتھی، پانچوی اور چھٹی صدی میں کہ جب شیعہ اور سنی حكّام کے درمیان بہت زیادہ دشمنی اور تعصب پایا جاتا تھا، اسی وجہ سے بعض غرضی، کینہ پرور اور موقع پرست لوگوں نے موقع غنیمت جان کر شیعوں کے خلاف مزید تعصب اور دشمنی ایجاد کی اور متعصب حكّام کو مزیدبھڑکایا تاکہ شیعوں کے خلاف ان کی دشمنی اور زیادہ ہوجائے۔

اگر کوئی شخص شیعوں کی فقہ اور اسی طرح زیارت مشاہد مقدسہ کے اعمال کے بارے میں جو قدیم زمانہ سے معمول اور رائج ہیں باخبر ہو تو اس کو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ کسی بھی زمانہ میں شیعوں کے نزدیک بزرگان دین کی قبور کی زیارت حج نہیں سمجھی گئی اور ان کا عقیدہ صرف یہ ہے کہ زیارت ایک مستحب عمل ہے، اس کے علاوہ اور کوئی تصور نہیں پایا جاتا، وہ قبور کے پاس دعا اور سلام کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں کہتے، اور اس طرح کی زیارت کو اہل سنت بھی جائز جانتے ہیں۔

شیعوں کی فقھی اور حدیثی کتابیں بہت زیادہ ہیں اور ہر انسان ان کا مطالعہ کرسکتا ہے، اور یہ محال اور ناممکن ہے کہ کسی شیعہ عالم نے زیارت کے سفر کو حج کے برابر جانا ہو، اگر کوئی شخص شیعہ فقھی کتابوں کا بغور مطالعہ کرے تو اس کو معلوم ہوجائے گاکہ شیعوں کی نظر میں حج بیت اللہ کی کتنی عظمت اور اہمیت ہے، اور حج کے صحیح ہونے کے لئے کہ حج سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق انجام پائے کتنی دقت اور احتیاط کی جاتی ہے، اور یہ بات حج کے زمانہ میں اچھی طرح سے واضح و روشن ہوجاتی ہے جب ایران اور دوسرے ممالک سے لاکھوں شیعہ حاجی حج کے لئے جاتے ہیں۔

ہاں پر ایک اہم نکتہ جس پر شیعہ مخالفین نے قدیم زمانہ سے توجہ نہیں کی وہ یہ ہے کہ شیعہ کون ہیں؟

ظاہراً ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروہابیوں نے غُلات (غلو کرنے والے) اور دوسرے فرقوں جن کو شیعہ بھی کافر سمجھتے ہیں ان سب کو شیعہ سمجھ لیا ہے اور افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بعض مذاہب اربعہ کے ماننے والے بھی اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں اور شیعوں کی حقیقت سے باخبر ہوئے بغیر اپنے ذہن میں موجود نا درست افکار و خیالات کی بنا پر انھوں نے شیعوں پر مزید تہم تیں لگائیں، جبکہ حق وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان جیسے افراد کو اس مسئلہ پر توجہ کرنا چاہئے تھی کہ شیعوں نے اپنے تمام عقائد، احادیث اور وسیع فقہ کو ائمہعلیهم السلام کے ذریعہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہل سنت کے چاروں فرقوں کے امام، شیعوں کے ائمہ کے علم وکمال اور صدق وتقویٰ اور دوسرے بلند مراتب پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو اپنے سے زیادہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسب علم میں نزدیک سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ خود ابن تیمیہ نے بعض اوقات اپنے نظریات کو شیعوں کے ائمہ کے قول سے مستند کیا ہے اور شیعہ فقہ سے مدد لی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اس چیز کا ذکر کیا ہے ،ان تمام چیزوں کے پیش نظر ایک حق پسند اور بے غرض انسان پر حقیقت واضح اور روشن ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ ایسے مذہب کے تابع لوگ جن کے ائمہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب ہوںاور دینی حقائق کو اچھی طرح جانتے ہوں، کوئی ایسا عقیدہ رکھتے ہوں جو اسلام کے مسلمات کے برخلاف اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہو؟اور وہ بھی حج بیت اللہ الحرام کا ترک کرنا کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق اگر کوئی حج بیت اللہ الحرام کے واجب ہونے پر اعتقاد نہ رکھے تو وہ کافر ہے!!

بھر حال جیسا کہ معلوم ہوتا ہے اسی زمانہ سے کہ جب شیعہ اور سنی حاکموں کے درمیان سخت عناد اور دشمنی اپنے اوج پر تھی، اس بحرانی دور میں اگر کوئی شخص دین کے خلاف کوئی کام کرتا تھا تو اہل غرض افراد اس کو شیعہ کہنے لگتے تھے، اس طرح لوگوں کے ذہن شیعوں کی طرف سے بھر دئے گئے، چنانچہ شیعوں کے معمولی کاموں کو بھی الٹا کرکے پیش کرنے لگے مثلاً اسی موضوع کولے لیں جسے ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ رافضی زیارت کے سفر کے لئے حج کی طرح علم بلند کرتے ہیں اور لوگوں کو حج کی طرف دعوت دیتے ہیں، اس بات کو تقریباً یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ شاید وھی رسم تھی جو زمانہ قدیم میں رائج تھی کہ جب کوئی کاروان زیارت کے لئے جاتا تھاتوایک منادی کے ذریعہ اعلان کرایا جاتا تھاکہ جو سفر کا ارادہ رکھتا ہو چاہے تجارت کے لئے ہو یا زیارت کے لئے یا کسی اور کسی کام کے لئے وہ تیار ہوجائے، اور یہ رسم موٹر گاڑیاں وغیرہ چلنے سے پہلے شاید تمام ہی دنیا میں رائج تھی، اور اس کی وجہ بھی معلوم ہے کہ اس زمانہ میں اکیلے سفر کرنا بہت خطرناک ہوتا تھا۔

اسی معمولی اور سادہ کام کو شیعہ دشمنوں نے اس طریقہ سے بیان کیا کہ جو لوگ شیعہ علاقوں سے دور زندگی بسر کرتے ہیں اور شیعوں سے اختلاف نظر رکھتے ہیں اس کو حقیقت اور صحیح سمجھ لیں۔

حق بات یہ ہے کہ اگر کسی مذہب کو پہچاننا ہے تو اس مذہب کی صحیح اور مستند کتابوں سے یا ان کے ساتھ زندگی کرنے یا اس فرقہ کے علماء اور بابصیرت لوگوں سے سوال وجواب کے ذریعہ پہچانے، نہ کہ ان تہم توں اور ذہنی تصورات کے ذریعہ جو خود غرض یا بے اطلاع لوگوں کے ذریعہ لگائی گئی ہیں۔

یہ بات مسلم ہے کہ شیعوں کے نزدیک بزرگان دین کی قبور کی زیارت ایک مستحب عمل ہے اور ان زیارتوں میں دعائیں ہوتی ہیں جن کا مضمون توحید خداوندعالم اور صاحب قبر پر سلام اور اس کے فضائل ہوتے ہیں، ہم یہاں پر زیارت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں پر حقیقت واضح ہوجائے جو شیعوں کے بارے میں زیارت سے متعلق بدگمانیاں رکھتے ہیں،ہم یہاں پر زیارت کے موقع پرجو دعا یا ذکر زبان پر جاری کرتے ہیں بیان کرتے ہیں، جب زائرین کرام امام علی ابن موسی الرضاںکی زیارت کے لئے مشہد مقدس جاتے ہیں اور روضہ مبارک میں وارد ہوتے ہیں تو یہ دعا پڑھنا مستحب ہے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰهِ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَعَلٰی مِلَّةِرَسُوْلِ اللّٰهِ (ص) اَشْهَدُ اَنْ لاٰ اِلٰهَ اِلاّٰاللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰ شَرِیْكَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ اَللّٰهم صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمّدٍ ۔ “

”شروع کرتا ہوں اللہ کے نام اور اسی کی مددسے نیزاسی کے راستہ اور ملت رسول اللہ میں قدم بڑھاتا ہوں، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نھیں، وہ وحدہ لا شریک ہے، اورشھادت دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے بندے اور رسول ہیں، بار الہٰا ! محمد وآل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما“۔

اور وہاں پڑھی جانے والی دعاؤں میں سے زیارت اہل قبور بھی اس طرح سے ہے:

اَلسَّلاٰمُ عَلٰی اهلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُومِنِیْنَ مِنْ اَهْلِ لاٰ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ رَحِمَ اللّٰهُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَاِنَّا اِنْشَاءَ اللّٰهُ بَكُمْ لاٰحِقُوْنَ اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ “۔

”سلام ہو مسلمانوں اور لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے والوں کے شھر (خموشاں) پر، خدا رحمت کرے اس دیار میں ہم سے پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں پر، انشاء اللہ ہم بھی اسی دیار سے ملحق ہونے والے ہیں، تم پر سلام اور خدا کی رحمت وبرکات ہو“۔

اسی طرح وہاں پڑھی جانی والی دعائے استغفار اس طرح ہے:

اَسَتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِیْ لاٰ اِلٰهَ اِلاَّ هو الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْم ذُوْالْجَلاَلِ وَالاِكْرَام وَاَتُوْبُ اِلَیْهِ وَاَسْئَلُهُ اَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاَنْ یَتُوْبَ عَلَیَّ تَوْبَةَ عَبْدٍ ذَلِیْلٍ خَاضِعٍ خَاشِعٍ فَقِیْرٍ مِسْكِیْنٍ مُسْتَكِیْنٍ، لاٰیَمْلِكُ لِنَفْسِهِ نَفْعاً وَلاٰ ضَراً وَلاٰ مَوْتاً وَلاٰ حَیٰوةً وَلاٰنُشُوْراً ۔ “

”میں توبہ اوراستغفار کرتا ہوں اس اللہ سے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو حیّ وقیّوم، رحمن و رحیم اور صاحب عظمت و جلالت ہے، اور میں اسی کی بارگاہ میں تو بہ کرتا ہوں، اور اسی سے سوال کرتا ہوں کہ محمد و آل محمد پر درود وسلام بھیج، اوراپنے اس خاضع، خاشع، فقیر، مسکین بندے کی توبہ قبول کر، جو خود اپنے نفس کے لئے کسی نفع ونقصان اور موت وحیات نیز حشر ونشر کا مالک نہیں ہے“۔

قارئین کرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیعہ حضرات قبور کی زیارت کے موقع پر اس طرح کی دعائیں پڑھتے ہیں، شیعہ حضرات کی دعاؤں اور اذکار کی کتابوں میں سب سے اہم کتاب صحیفہ سجادیہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کتاب میں موجود ہ دعاؤں میں صحیح غور وفکر کرے تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت توحید کیا ہے ؟

خدا کے سامنے حقیقی خضوع وخشوع کیسے کیا جاتا ہے اس کتاب میں ایسے مطالب موجود ہیں جو دوسری کتابوں میں بمشکل تمام پائے جاتے ہیں، شیعہ حضرات خصوصاً علمائے کرام مقدس روضوں پر صحیفہ سجادیہ سے اس طرح کی دعائیں پڑھتے ہیں:

اِلٰهِیْ مَنْ حَاوَلَ سَدَّ حَاجَتِه. مِنْ عِنْدَكَ فَقَدْ طَلَبَ حَاجَتَهُ فِیْ مَظَانِّها وَاِنِّیْ طَلَبْتُهُ مِنْ جِهَتِها وَمَنْ تَوَجَّهَ بِحَاجَتِه. اَلیٰ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ اَوْ جَعَلَ سَبَبَ نَجْحِها دُوْنَكَ فَقَدْ تَعَرَّضَ لِلْحِرْمَانِ وَاسْتَحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَوَاتَ الإحْسَاْنِ “۔

” بار الٰھا ! جس نے تجھ سے اپنی حاجت طلب کرنے کا ارادہ کیا اس نے اپنی حاجت کو صحیح جگہ سے طلب کیا لہٰذا میں تیرے در کا سوالی ہوں اور جس نے اپنی حاجت کو کسی غیر سے طلب کیا یا کامیابی کو تیرے علاوہ کسی غیر کے در پر تلاش کیا وہ محروم رہا اور تیرے احسان کے فوت ہونے کا سبب بنا“۔

اسی طرح صحیفہ سجادیہ کی ایک دوسری دعا:

اِلٰهِیْ خَابَ الوَافِدُوْنَ عَلٰی غَیْرِكَ وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ اِلاَّ لَكَ وَضَاعَ الْمُلِمُّوْنَ اِلاَّ بِكَ وَاَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُوْنَ اِلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ “۔

”پالنے والے تیرے علاوہ دوسرے سے رغبت رکھنے والا انسان ذلیل ہے اور تیرے علاوہ دوسروں کی طرف توجہ کرنے والا خسارہ میں ہے، نیز تیرے علاوہ کسی دوسرے سے لَو لگانے والا نقصان میں ہے، اور تیرے علاوہ کسی کی ذات سے امید رکھنے والادہوکے میں ہے“

صحیفہ سجادیہ کی ایک اور دعا: ”تَبَارَكْتَ وَتَعَالَیْتَ لاٰ اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ، صَدَّقْتُ رُسُلَكَ وَآمَنْتُ بِكِتَابِكَ وَكَفَرْتُ لِكُلِّ مَعْبُوْدٍ سِوَاكَ وَبَرِئْتُ مِمَّنْ عَبَدَ غَیْرَكَ“

”خداوندا!تیری ذات، گرامی اور بابرکت ہے، اور ہر برائی سے پاک و پاکیزہ ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں میں تیرے انبیاء کی تصدیق کرتا ہوں، ان پر ایمان رکھتا ہوں نیز تیری کتاب (قرآن) پر بھی ایمان رکھتا ہوں، اور تیرے علاوہ دوسرے تمام معبودوں کا انکار کرتا ہوں، نیز تیرے علاوہ کسی غیر کی عبادت کرنے والوں سے برائت اور دوری کا اعلان کرتا ہوں“۔

شیعوں کے نزدیک مقدس روضوں پر قرآن پڑھنا مستحب ہے کہاور اس کا ثواب صاحب قبر کو ہدیہ کرنا مستحب ہے اور اگر زیارت کرتے وقت نماز کا وقت ہوجائے اور قریب کی مسجد میں نماز جماعت ہورہی ہے تو اس زیارت کو روک کر نماز جماعت میں حاضر ہونا مستحب ہے، اور اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ روضوں کے اندر بے ہودہ الفاظ اور ناشائستہ کلمات زبان پر جاری نہ کرے اور دنیاوی امور کے بارے میں باتیں نہ ہوں، اور زائر کو چاہئے کہ فقیروں کو صدقہ دے اور محتاجوں کی مدد اور نصرت کرے، اور وہاں پر زیادہ نہ ٹھھرے۔

روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی کیفیت، شیعوں کی نظر میں

مستحب ہے جب انسان مسجد النبی میں وارد ہو تو دورکعت نماز تحیت مسجد بجالائے اور داہنی طرف کے ستون کے نزدیک اس طرح روبقبلہ کھڑا ہوکہ بایاں شانہ قبر مطھر کی طرف ہو اور داہنا شانہ منبر کی طرف کرکےاس طرح کھے:

”اَشْهَدُ اَنْ لاٰ اِلٓهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُلاٰ شَرِیْكَ لَهْ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَُحَمّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَاَشهَدُ اَنّكَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وانَّكَ مُحَمّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰهِ وَاَ شْهَدُ اَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالاٰ تِ رَبِّكَ وَنَصَحْتَ لِامَّتِكَ وَجَاهَدْتَ فِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَعَبَدْتَ اللّٰهَ حَتّٰی اَتیٰكَ الْیَقِیْنُ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَادَّیْتَ الَّذِیْ عَلَیْكَ مِنَ الْحَقِّ وَاَنَّكَ قَدْ رَوفْتَ بِالْمُومِنِیْنَ وَغِظْتَ عَلٰی الْكٰافِرِیْنَفَبَلَّغَ اللّٰهُ بِكَ اَفْضَلَ شَرَفِ مَحَلِّ الْمُكّرَ مِیْنَ،اَ لْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ اِسْتَنْقَذْ نَا بِكَ مِنَ الشِّرْ كِ وَالضَّلاٰ لَةِ

اَللّٰهم فَاجْعَلْ صَلَوَاتكَ وَصَلَوَاتِ مَلاٰئِكَتِكَ الْمُقَرَّ بِیْنَ وَاَنْبِیَائِكَ الْمُرْسَلِیْنَ وَعِبَادِكَ الصَّا لِحِیْنَ وَاهلَ السَّمٰوٰتِ وَالارْضِیْنَ وَمَنْ سَبَّحَ لَكَ یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ مِنَ الاوَّلِیْنَ وَالآٰخِرِیْنَ عَلیّٰ مُحَمَّدٍعَبْدِكَ وَرَسُوْلِكَ وَنَبِیْكَ وَاَمِیْنِكَ وَنَجِیِّكَ وَحَبِیْبِكَ وَصَفِیِّكَ وَخَاصَّتِكَوَصَفْوَتِكَ وَخَیْرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ

اَللّٰهم اَعْطِهِ الدَّرَجَةَ الرَّفِیْعَةَ،وَآتِهِ الْوَسِیْلَةَ مِنَ الْجَنَّةِ وَابْعَثْهُ مُقَاماً مَحْمُوْداً یَغْبِطُهُ بِهِ الاوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ:

( وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْءُ وكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰهَ تَوَّاباً رَحِیْماً ) (سورہ نساء ۶۴)

وَاِنِّیْ اَتَیْتُكَ مُسْتَغْفِراً تٰائِباً مِنْ ذُنُوْبِیْ، وَاِنِّیْْ اَتَوَجَّهُ بِكَ اِلٰی اللّٰهِ رَبِّی وَ رَبِّكَ لِیَغْفِرلی ذُنُوْبی “۔

ترجمہ زیارت:

”میں گواہی دیتا ہوں کہ اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نھیں، وہ وحدہ لا شریک ہے، اور شھادت دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول اور جناب عبد اللہ کے فرزند ہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنے پرور دگار کے تمام احکام کو کما حقہ پہونچایا، اپنی امت کی اصلاح فرمائی، خدا کی راہ میں جھاد کیااور خدا کی عبادت کی یہاں تک کہ حکمت وموعظہ حسنہ کے ذریعہ یقین کے بلند درجات تک پہونچ گئے، آپ نے اپنے تمام حقوق ادا کردئے، آپ مومنین پر بڑے مھربان اور رحم دل ہیں جس طرح کفار اور مشرکین پر غضب ناک اور سخت دل ہیں، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے آپ کی بدولت ہمیں شرک وگمراہی سے نجات دی۔

بار الہٰا!ان پر درود و رحمت نازل فرما، نیز تمام ملائکہ مقربین، انبیاء مرسلین، بندگان صالحین، اہل سماوات وزمین، اور تیری تسبیح کرنے والی تمام مخلوق کا دردو وسلام ہو تیرے بندہ اور تیرے رسول پر، تیرے ہم راز اور امین پر، تیرے حبیب وصفی پر، تیرے خاص اور منتخب پراور مخلوقات میں سب سے بلندوبھتر پر۔

بار الہٰا!اپنے رسول کو بلند وبالا درجات عنایت فرما، اور آپ کوہم ارے لئے جنت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دے، نیز آپ کو اس مقام محمود پر فائز فرماجس پر تمام مخلوقات رشک اور ناز کریں، خداوندا! تو نے فرمایا ہے :

( وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْءُ وكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰهَ تَوَّاباً رَحِیْماً )

”اے کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے، تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مھربان پاتے“۔

بتحقیق میں آپ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کے لئے آیا ہوں، اور آپ کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میرا اور آپ کاپرور دگار میرے گناہوں کو بخش دے“۔

شیعوں کی دوسری زیارتیں بھی اسی طرح کی ہیں، جو دعاؤں اوراذکار کی کتابوں میں تفصیلی طور پر بیان کی گئی ہیں ،اور جن میں سے چند جملے ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں۔

۱۳۔ صالحین کی قبور کے بارے میں

ابن تیمیہ کاکہنا ہے: بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ جن شھروں میں انبیاء وصالحین کی قبور ہیں وہ اس زمین سے بلاء اور خطرات کو دور کرتے ہیں مثلاً اہل بغداد قبر احمد ابن حنبل، بشر حافی اور منصور بن عمارکی وجہ سے، اہل شام قبور انبیاء (منجملہ خلیل خداجناب ابراہیم ں)(۲۰۸) ، اسی طرح اہل مصر قبر نفیسہ اور دیگر چند قبر وں کے ذریعہ، نیز اہل حجاز مرقد پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اور اہل بقیع کی وجہ سے بلاء اور مصیبتوں سے محفوظ ہیں، جبکہ یہ تمام غلط اور اسلام وقرآن، سنت اور اجماع کے خلاف ہے، کسی جگہ کسی کی قبر ہوناکسی حادثہ سے امان میں رہنے کے لئے کوئی تاثیر نہیں رکھتا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود مقدس آپ کی زندگی میں امان کا سبب تھا، آپ کی وفات کے بعدنہیں ہے۔(۲۰۹)

جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیں قبور سے فائدہ پہنچتا ہے اور شھر میں قبور کا ہونا دفع بلا کا سبب بنتا ہے، ایسے لوگ گویا قبور کو بتوں کی جگہ مانتے ہیں، ان کا قبور کی طرف سے نفع ونقصان کا عقیدہ بالکل کفار کے عقیدہ کی طرح ہے جو بتوں کو نفع ونقصان پہنچانے والا مانتے ہیں۔(۲۱۰)

۱۴۔ قبروں پراوران کے اطراف عمارت بنانا، اور ان کو مسمار کرنے کی ضرورت

ابن تیمیہ کا کہنا ہے:مسجد، صرف خدا کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے، اور مخلوق کی قبروں کے اطراف میں مسجد بنانا صحیح نہیں ہے، اسی طرح ان مخلوقین کے لئے مسجد بنانا یا مخلوق کے گھروں (یعنی ان کی قبروں) کی طرف سفر کرنا جائز نہیں ہے۔(۲۱۱)

چنانچہ بقیع اور دیگر قبور کے بارے میں ابن تیمیہ کہتا ہے کہ اگر وہاں دعا، تضرع، طلب حاجت، استغاثہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں انجام دی جائیں تو ان کاموں سے روکنا ضروری ہے، اور جو عمارتیں ان قبور کے اطراف میں بنائی گئی ہیں ان کو ویران اورمسمار کرنا ضروری ہے، اور اگر پھر بھی وہاں مذکورہ کام انجام دئے جائیں تو قبروں کو اس طرح سے مسمار کردیا جائے کہ نام ونشان تک باقی نہ رہے۔(۲۱۲)

۱۵۔ نماز کے لئے مصلّیٰ بچھانا

ابن تیمیہ کا کہنا ہے:اگر نماز پڑھنے والے کا قصد یہ ہو کہ مصلّے کے اوپر نماز پڑھی جائے تو یہ سَلَف مھاجرین، انصاراور تابعین کی سنت کے خلاف ہے کیونکہ وہ سب لوگ زمین پر نماز پڑھتے تھے اور کسی کے پاس بھی نماز کے لئے مخصوص مصلّیٰ نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ امام مالک نے بھی کہا ہے کہ نماز کے لئے مصلّیٰ بچھانا بدعت ہے۔(۲۱۳)

اسی طرح موصوف کاکہنا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی نماز پڑھنے کے لئے مصلّیٰ نہیں بچھاتے تھے اور صحابہ بھی یا ننگے پیر یا جوتے پہن کرنماز پڑھتے تھے اور ان کی نماز زمین پر یا چٹائی یا اسی طرح کی چیزوں پر ہوتی تھی۔(۲۱۴)

۱۶۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنا، ان سے حاجت طلب کرنا اور ان کو شفیع قرار دینا

ابن تیمیہ کامذکورہ امور کے بارے میں کہنا ہے کہ اگر کوئی زیارت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے جاتا ہے لیکن اگر اس کا قصد دعا اور سلام نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاجت طلب کرنا ہے اور ا س کے لئے وہاں پر اپنی آواز بلند کرناہے تو ایسے شخص نے گویا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت دی ہے اور خود اپنے اوپر ظلم وستم کیا ہے۔

اس بحث کے ضمن میں ابن تیمیہ نے ان احادیث پیغمبر کو بھی بیان کیا ہے جن کا مضمون یہ ہے کہ جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کیاور انھوں نے ان تمام احادیث کو باطل، جعلی اور ضعیف شمار کیا ہے۔(۲۱۵)

کسی اہل قبر سے توسل (اس کے وسیلہ سے دعا) کرنے کے بارے میں ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ بعض زائرین قبور ایسے ہوتے ہیں جن کا قصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی حاجت پوری ہو، کیونکہ وہ صاحب قبر کو خدا کی بارگاہ میں صاحب عظمت سمجھتے ہیں اور اس کو بارگاہ خداوندی میں واسطہ قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے نذر اور قربانی کرتے ہیں اور ان کو صاحب قبر کے لئے ہدیہ کرتے ہیں اور بعض زائرین اپنے مال کا ایک حصہ صاحب قبر کے لئے معین کرتے ہیں، اسی طرح بعض گروہ صاحب قبر سے محبت اور اس کے دیدار کے شوق میں اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اس کی قبر کی طرف سفر کوایسا سمجھتے ہیں جیسے صاحب قبرکی زندگی میں اس کی طرف سفر کیا ہو، اور جب اس صاحب قبر کی زیارت کرلیتے ہیں جس سے وہ محبت رکھتے ہیں تو اپنے دل میں سکون وآرام اور اطمینان محسوس کرتے ہیں، اس طرح کے لوگ ایسے بت پرست ہیں جو بتوں کو خدا کی طرح مانتے ہیں۔(۲۱۶)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کے بارے میں وضاحت

سمہودی سُبکی کے قول کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبوب کا ذکر کرنا دعا کی قبولی کا سبب بنتا ہے، چنانچہ اسی کام کو توسل کہا جاتا ہے، اوراستغاثہ، شفیع قرار دینا اور توجہ کرنا بھی۔

توسل کا یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں متعدد بار رونما ہوا ہے چنانچہ نسائی اور ترمذی نے عثمان بن حُنیف سے روایت نقل کی ہے کہ جب ایک نابینا شخص رسول اسلام (ص)کی خدمت میں اپنی شفا کے لئے حاضر ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس نابینا کو حکم دیا کہ یہ دعا پڑھو:

اَللّٰهم اِنِّیْ اَسْئَلُكَ وَ اَتَوَجَّهُ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرِّحْمَةِ،یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّهْتُ بِكَ اِلٰی رَبِّیْ فِی حَاجَتِیْ لِتَقْضِیَ لِیْ، اَللّٰهم شَفِّعْهُ لِیْ

”خدا وندا!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے واسطہ سے جو نبی رحمت ہیں، اورمیں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اپنی حاجت کی قبولی میں آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو، اے خدائے مھربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میرا شفیع قرار دے“۔

طبرانی نے بھی اسی طرح کی حدیث ایسے مرد کے بارے میں نقل کی ہے جو وفات پیغمبراکرمکے بعد عثمان بن عفان کے زمانہ میں ایک حاجت رکھتا تھا اورعثمان بن حنیف نے اس کو مذکورہ دعا پڑھنے کے لئے کہا، (اور جب اس نے بھی مذکورہ دعا کو پڑھا تو اس کی حاجت پوری ہوگئی)

اسی طرح بیہقی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب جناب عمر کے زمانہ میں قحط پڑاتوسب لوگوں نے مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر سے توسل کیا اور ان میں سے ایک شخص نے پیغمبر اکرم کی قبر کے سامنے کھڑے ہوکر کہا:

یَاْ رَسُوْلَ اللّٰهِ اِسْتَسْقِ لِامَّتِكَ فَاِنَّهم قَدْ هَلَكُوْا

”اے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی امت کے لئے خدا سے بارش طلب کریں کیونکہ آپ کی امت پانی نہ ہونے کی وجہ سے ھلاک ہوئی جاتی ہے“

اسی طرح امام مالک کا مسجد النبی میں ابوجعفر کے ساتھ ایک مناظرہ ہوا، اس میں انھوں کہا) کہ قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو اور ان کو اپنا شفیع قرار دو۔(۲۱۷)

اسی طرح جناب عمر خشک سالی اور قحط کے زمانہ میں حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس سے توسل کرتے ہیں اور اس طرح بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں:

اَللّٰهم كُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا فَتُسْقِیْنَا، وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا(۲۱۸)

”خدا وندا! ہم قحط کے زمانہ میں تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کردیتا تھا ،اور اب پیغمبر کے چچا سے توسل کرتے ہیں، بارِ الہٰا تو ہمیں سیراب فرما“

ایک دوسری روایت کے مطابق، عمر نے لوگوں سے کہا کہ جناب عباس کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دو، خود ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اصحاب پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں آپ سے توسل کرتے تھے اور آپ کی وفات کے بعد جس طرح آپ سے متوسل ہوتے تھے اسی طرح آپ کے چچاجناب عباس سے بھی توسل کرتے تھے،ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ امام احمد ابن حنبل اپنی دعاؤں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متوسل ہوتے تھے، اور امام احمد ابن حنبل کا بھی (ان کے دو نظریوں میں ایک) یھی نظریہ تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم کہانا اور ان سے توسل کرنا، جائز ہے۔(۲۱۹) یہ اور اس طرح کی بہت سی مثالیں جو اہل سنت کے چار مذاہب کی صحاح ستہ اور دوسری معتبر کتابوں میں موجودہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)سے توسل کرنا ان سے شفاعت کرنا اورپیغمبر کے علاوہ دوسروں مثلاً آنحضرتکے چچا سے توسل کرنا بھی سلف کی سیرت رہی ہے۔

توسل اور استغاثہ کے بارے میں نَبھانی کا نظریہ

شیخ یوسف نبھانی، سُبکی کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمسے توسل اور استغاثہ کرنا اور آپ کو شفیع قرار دینا جائز بلکہ بھتر ہے اور یہ چیز ہر دیندار کو معلوم ہے، اور انبیاء ومرسلین بھی اس پر عمل کیا کرتے تھے، اور اسی طرح سَلف صالح، علمائے کرام اور عوام الناس کی بھی یھی سیرت رہی ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنا ہر حال میں جائز ہے، چاہے آپ کی خلقت سے پہلے ہو، یا آپ کی خلقت کے بعد چاہے آپ کی زندگی میں ہو یا آپ کی وفات کے بعد، عالم برزخ میں ہو یا قیامت کے روز۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل یہ ہے کہ انسان خداوندعالم سے اپنی حاجت روائی کے لئے اس کی بارگاہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یا ان کی عظمت اور بزرگی کو وسیلہ قرار دے، یہ تینوں قسم کا توسل جائز ہے اور ان کے بارے میں صحیح احادیث بیان ہوئی ہیں، اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے کہ لفظ توسل استعمال ہو یا لفظ شفاعت یا استغاثہ۔

اس کے بعد نبھانی خود اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ وہ تمام مسلمان جو قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، اور خدا کے صالح بندوں مخصوصاً انبیائے الٰھی، بالخصوص سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی سے استغاثہ کرتے ہیں اگر چہ زیارت اور استغاثہ کرتے وقت ان کی عظمت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے باوجود یہ جانتے ہیں کہ وہ خدا کے بندے ہیںجو خود اپنے لئے یا دوسروں کے لئے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں، لیکن خدا کے سب سے محبوب اور مقرب بندے ہیں جن کو خداوندعالم نے اپنے دین اور شریعت کی تبلیغ کے لئے اپنے اوراپنے بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا ہے، اورخدا کے بندے بھی ان کی نبوت اور ان کی عظمت پر ایمان و عقیدہ رکھتے ہیں اور ان حضرات کوتمام مخلوق میں خدا کا مقرب ترین بندہ تصور کرتے ہوئے ان کو اپنے گناہوں کی بخشش، حاجت کی برآوری کے لئے بارگاہ خداوندی میں وسیلہ اور واسطہ قرار دیتے ہیں۔

زیارت قبر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے سفر کرنا یا آنحضرت سے استغاثہ کرنا تمام علمائے اسلام اور عوام الناس کے نزدیک ضروریات دین میں سے ہے، یہاں تک کہ بعض مالکی علماء کے نزدیک جیسا کہ ابن حجر اور سُبکی سے نقل ہوا ہے کہ جو لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنے میں مانع ہوتے تھے ان کو کافر جانتے تھے۔

اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ امت محمدی کے تمام علماء (فقھاء، محدثین، متکلمین اور صوفی حضرات)، تمام مذاہب کے خاص وعام قول وفعل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل، استغاثہ، شفاعت اور طلب حاجت کرنے پر اتفاق رکھتے ہیں، چاہے دنیاوی امور میں ہوں یا اخروی امور میں ، اسی طرح آپ کی زیارت کے سفر کو چاہے نزدیک سے ہو یا دور ترین علاقہ سے ایک مستحب کام سمجھنے پر اتفاق رکھتے ہیں، اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی نظر میں زیارت کا مسئلہ ایک ایسی چیز ہے جس کی دین میں ضرورت کو سبھی جانتے ہیں اور کسی پر بھی یہ بات مخفی نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف ہونے کو تصور تک بھی نہیں کرتے، اورانھوں نے ان سب چیزوں کو قدیم علماء اوربزرگوں سے حاصل کیا ہے اور اس کو افضل ترین عبادتوں میں سے شمار کرتے ہیں، اور اگر کچھ لوگ اس مسئلہ میں مخالفت کرتے ہیں تو ان میں سب سے پہلے ابن تیمیہ اور اس کے چند شاگرد ہیں ،جبکہ ان میں ہر ایک کے مقابلہ میں علماء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جنھوں نے ان کے نظریہ کو باطل اور ردّ کیا ہے، اور صرف یھی کہنا کافی ہے کہ حق اکثر علماء کے ساتھ ہے جس کی پیروی کرنا واجب ہے۔

اگر توسل (جس طرح کہ ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد کہتے ہیں) شرک ہوتا تو پھر سَلف صالح اور خَلف امت سے یہ کام صادر نہ ہوتا، جبکہ تمام اصحاب اور سلف صالح آنحضرت سے توسل کرتے تھے، ان میں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعائیں اس طرح ہیں:

اَللّٰهم اِنِّی اَسْالُكَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ

اور یہ دعا آشکار اور واضح طور پر توسل کا ایک نمونہ ہے، اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دعا اپنے اصحاب کو تعلیم دی، اوراس کے پڑھنے کا حکم صادر فرمایا۔

ابن ماجَہ نے صحیح سند کے ساتھ ابو سعید خُدْری سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص گھر سے نماز کے لئے نکلے تو اس دعا کو پڑھے:

اَللّٰهم اِنِّی اَسْالُكَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ، وَاَسْالُكَ بِحَقِّ مَمْشَایَ هٰذَا اِلَیْكَ فَاِنِّی لَمْ اَخْرُجْ اَشِراً وَلاٰ بَطَراً وَلاٰ رِیَاءً وَلاٰسُمْعَةً، خَرَجْتُ اِتَّقَاءَ سَخَطِكَ وَابْتِغَاءَ رِضَائِكَ فَاسْالُكَ اَنْ تُعِیْذَنی مِنَ النَّارِ، وَاَنْ تَغْفِرَ لی ذُنُوْبی فَاِنَّهُ لاٰ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاّٰ اَنْتَ“

ترجمہ دعا ”بار الہٰا!میں تجھ سے سوال کرنے والوں کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری راہ میں اٹھنے والے قدموں کو وسیلہ قرارد دیتا ہوں، میں کسی فتنہ وفساد کے لئے نہیں نکلا ہوں بلکہ تیرے غضب سے بچنے کے لئے اور تیری رضا کو حاصل کرنے کے لئے نکلا ہوں، بار الہٰا!تو مجھے آتش جہنم سے محفوظ رکھ اور میرے گناہوں کو بخش دے، کیونکہ تیرے علاوہ میرے گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا“۔

خداوندعالم اس دعا کے پڑھنے والے پر توجہ کرتا ہے اور اس کے لئے ستر ہزار فرشتے طلب بخشش کرتے ہیں۔

جلال الدین سیوطی نے جامع کبیر میں اور بعض دوسرے علماء کرام نے نقل کیا ہے کہ تمام سَلف صالح جس وقت مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے تو مذکورہ حدیث کو پڑھا کرتے تھے، اوراس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ جملہ” بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْكَ“ ہر سوال کرنے والے بندہ مومن سے توسل کیا ہے، اس حدیث کو ابن السنّی نے بھی صحیح سند کے ساتھ جناب بلال، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موذن سے نقل کیا ہے اور حافظ ابو نعیم اور بیہقی نے اپنی کتاب ” دَعَوات“ میں (تھوڑے اختلاف کے ساتھ) بیان کیا ہے۔

توسل کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث کو طبرانی نے (جامع)کبیر واوسط میں اور ابن حنّان اورحاکم نے بھی نقل کیاہے، جس کابعض حصہ اس طرح ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد (حضرت علی ں)کی مادر گرامی کی وفات ہوئی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لئے اس طرح دعا فرمائی:

اِغْفِرْ لِامِّی فَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَدٍ وَ وَسِّعَ عَلَیْها مَدْخَلَها بِحَقِّ نَبِیِّكَ وَالانْبِیَاءِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِی(۲۲۰)

”خداوندا!، میری ماں فاطمہ بنت اسد سے در گذر فرما، اور ان کے لئے قبر کو وسیع فرما،تجھے تیرے پیغمبر کا واسطہ اور ان انبیاء کا واسطہ جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں۔(۲۲۱)

جب ابن تیمیہ سے یہ سوال کیا گیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات ودرود آہستہ بھیجنا بھتر ہے یا بلند آواز میں ؟ اور یہ جو جناب ابن عباس سے مروی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بلند آواز میں صلوات بھیجی جائے، تو کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ تو اس کے جواب میں ابن تیمیہ نے کہا: مذکورہ حدیث علماء کے نزدیک جھوٹی اور جعلی ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی حدیث ہو جھوٹی ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات بھیجنا دعا اور ذکر کی منزل میں ہے اور دعا و ذکر آہستہ اور خفی آواز میں ہونا چاہئے۔(۲۲۲)

۱۸۔ قبور کے پاس مسجد بنانا اور قرآن مجید رکھنا

ابن تیمیہ کے فتووں میں سے ایک فتویٰ یہ بھی ہے کہ جہاں قبر ہو وہاں پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے، اسی طرح مسجد میں کسی میت کو دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے، اور اگر پہلے سے کسی مسجد میں میت دفن ہوئی ہو تو اس قبر کو توڑ کر زمین کے برابر کردینا چاہئے (تاکہ اس کا نام ونشان باقی نہ رہے) اور اگر مسجد میں کوئی تازہ میت دفن ہو تو اس قبر کو کھول کر اس میت کو نکال لیا جائے، نیز اگر کوئی مسجد میت دفن ہونے کے بعد بنائی جائے تو یا تو مسجد کو گراکر ختم کردیا جائے یا قبر کی شکل کو ختم کردیا جائے، اسی طرح اگر قبر کے نزدیک کوئی مسجد بنائی جائے تو نہ اس میں واجب نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نہ ہی مستحب نماز(۲۲۳)

قبور کے نزدیک تلاوت کی غرض سے قرآن رکھنا ایک بری بدعت ہے، کیونکہ سلف صالح کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ملتی، اور یہ بھی قبور کے نزدیک مسجد بنانے کے حکم میں ہے ۔(۲۲۴)

۱۹۔ ہر نئی چیز بدعت ہے

ابن تیمیہ اس حدیث سے تمسک کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر نئی چیز سے پرہیز کرو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے، اورہر بدعت گمراہی ہے، چنانچہ اس حدیث کے ضمن میں کہتا ہے کہ سلف صالح دینی امور میں کہ یہ عمل واجب ہے یا مستحب یا مباح، اس وقت تک کچھ نہیں کہتے تھے جب تک قرآن وسنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی دلیل شرعی نہ مل جائے۔(۲۲۵)

خلاصہ یہ کہ ابن تیمیہ کے فتووں میں کسی چیز کے بدعت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ کام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھا یا اس پر سلف صالح نے عمل نہیں کیا ہے مثلاً نماز کے لئے مصلّیٰ بچھانا، یا نماز کے بعد امام اورماموم کا باہم دعا کرنا،(۲۲۶) اور اسی طرح کی دوسری بہت سی چیزیں ہیںجن سے اس کی کتاب الفتاوی الکبری کی پانچ جلد یںبھری پڑی ہیں۔

ابن تیمیہ کی نظر میں ھر اس چیزکہ جس پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں عمل نہیں ہوابدعت ہونے کی ایک دوسری دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دنیا سے نہیں گئے مگر یہ اپنی امت کے لئے اپنے دین کو مکمل طور پر بیان کردیا اور سب کام کو عملی کرکے دکھادیا،(۲۲۷)

۲۰۔ ابن تیمیہ کے عقائد پر ایک کلی نظر

وہابیوں کے مشہور ومعروف مولف حافظ وَھبہ نے ابن تیمیہ کے عقائد کا چارا مور میں خلاصہ کیا ہے:

۱۔ کتاب خدا اور سنت نبوی کی طرف رجوع، اورصفات خدا سے متعلق آیات اور احادیث کو سمجھنے کے لئے سلف صالح (صحابہ پیغمبر اور تابعین)کی پیروی، اور فلاسفہ، متکلمین اور صوفیوں کے راستہ پر نہ چلنا، کیونکہ ان کا راستہ سلف صالح کے موافق نہیں ہے۔

۲۔ منکرات اور بدعتوں سے مقابلہ اور جنگ، خصوصاً ان چیزوں سے جو موجب شرک بنتی ہیں، مثلاً قبر پر ھاتھ رکھنا، یا قبور کے نزدیک نماز پڑھنا، اسی طرح مردوں سے حاحت طلب کرنا اور غیر خدا سے مدد طلب کرنا ،یا بعض درختوں اورپتھروں کو متبرک سمجھنا جن سے بعض لوگ خیر وشر کی امید رکھتے ہیں۔

۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں مبالغہ اورغلو نہ کرنا، اور صرف آنحضرت کی راہنمائیوں کی پیروی کرنا۔

۴۔ اس کااعتقاد رکھناکہ اجتھاد کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اور متعصب مقلدوں سے اعلان جنگ کرنا۔

یہ چند چیزیں ابن تیمیہ کے عقائد کو تشکیل دیتی ہیں، جن کے تحقق کے لئے وہ زندگی بھر کوشش میں رہا، یہ ابن تیمیہ کے وھی عقائد ہیں جن کی طرف محمد بن عبد الوہاب نے نجد میں دعوت دینا شروع کی۔(۲۲۸)

جن لوگوں نے ابن تیمیہ کے راستہ کو اپنایا ہے

خود ابن تیمیہ کے زمانہ میں بعض لوگ اس کی طرفداری کیاکرتے تھے، جن میں سے چند علماء (خصوصاً حنبلی علماء) اس کے ہم عقیدہ تھے اور ابن تیمیہ کی مدح وستائش کیا کرتے تھے ان میں سے بعض اس کے شاگرد بھی تھے جنھوں نے اس کی زندگی اور اس کی موت کے بعد اس کے عقائد کو نشر کرنے کی کوشش کی، اور اپنے استاد کے نظریات اور افکار کو اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا، جن میں سب سے مشہور ومعروف شمس الدین محمد ابن ابوبکر حنبلی، مشہور بہ ابن قیّم جوزی (متوفی۷۵۱ھ) تھا،کہ اس کتاب میں ابن تیمیہ کے عقائد کے نقل کے ضمن میں مکرر ان کی کتابوںکی طرف استناد کیا گیا ہے،ان ہی شاگردوں میں سے ایک دوسرے شمس الدین محمد معروف بہ عماد (متوفی۷۴۴ھ)بھی ہے۔

متاخرین میں دو لوگوں نے سب سے زیادہ اس کے عقائد اور افکار کو پھیلانے کی کوشش کی ہے، جن میں سے پہلے محمد بن عبد الوہاب، فرقہ وہابی کا بانی ہے جس کے بارے میں ہم اسی کتاب کے آئندہ صفحات میں گفتگو کریں گے۔

دوسرے محمد بن علی شَوکانی ہے ،اس کے حالات ونظریات کو اسی جگہ مختصر طور پر بیان کردینا مناسب ہے:

محمد بن علی شوکانی صَنعانی

شوکانی نے اپنی اور اپنے باپ کی سوانح حیات ”البدر الطالع“(۲۲۹) نامی کتاب میں لکھی ہے کتاب ”نیل الاوطار“ میں بھی ان کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں، ہم یہاں پر دونوں کتابوں سے اقتباس کرتے ہوئے ان کی زندگی کے حالات مختصر طور پربیان کرتے ہیں، اور نیل الاوطار ،اورارشاد الفُحول کتابوں سے اس کے عقائد کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

شوکانی، شوکان نامی دیھات کی طرف منسوب ہے جو یمن کے پایہ تخت ”صنعاء “کے نزدیک ہے، اس کی پیدائش ذیقعدہ۱۱۷۳ھ میں ہوئی، صنعا شھر میں چند اساتید کے پاس قرآن کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد چند کتابوں منجملہ کافیہ وشافیہ ابن حاجب، اور تہذیب وتلخیص تفتازانی وغیرہ حفظ کرنے میں مشغول ہوا۔(۲۳۰)

شوکانی جس وقت سے مکتب میں تھا اسی وقت سے تاریخی و ادبی کتابیںپڑھنے کا بہت شوقین تھا،چنانچہ اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید علم حاصل کرنے کی ٹھان لی، اور یمن کے چند مشہور اساتید منجملہ اپنے باپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا اوران سے اصول وفقہ، نحو اور دوسرے علوم حاصل کرنے میں مشغول ہوا، (چنانچہ اس نے اپنے استادوں کے نام اور جن سے جو جو کتابیں پڑھی ہیں کاایک ایک کرکے ذکر کیا ہے)

وہ جس وقت مختلف علوم کو حاصل کرنے میں مشغول تھا انھیں کتابوں کو دوسرے طلباء کو پڑھاتا بھی تھا، جس کی بناپربھت جلد ہی فتوی دینا شروع کردیا، اور صنعاء اور دوسرے شھروں سے جو استفتاء ات ہوتے تھے ان کے جوابات دیتا تھا، اس وقت اس کی عمر بیس سال تھی۔ اورجب تیس سال کی عمر ہوگئی تو دوسروں کی تقلید کرنا بالکل چھوڑ دی کیونکہ وہ مکمل طور پر مجتہد ہوگیا تھا۔ چند سال تک شھر صنعاء کے قاضی شھر بھی رہا اور بہت سے کتابیں بھی لکھی ہیںجن کو خود موصوف نے البد ر الطالع میں ذکر کیا ہے، آخر کار اس نے ایک قول کے مطابق۱۲۵۰ھ اور ایک قول کے مطابق۱۲۵۵ھ میں انتقال کیا۔(۲۳۱)

شوکانی کا مذہب اور اس کا عقیدہ

شوکانی نے سب سے پہلے فقہ کی تعلیم زیدیہ مذہب کے مطابق حاصل کی اور اسی کے مطابق کتاب بھی تالیف کی، اور فتوے بھی دئےے، یہاں تک رہبری کی منزل تک پہونچ گئے، اور حدیث میں اپنے زمانہ کے علماء پر برتری اور افضلیت حاصل کی، یہاں تک کہ تقلید کی قید سے رہائی حاصل کی، یعنی درجہ اجتھاد تک پہنچے، لیکن ان کے جو فتوے ہوتے تھے اس زمانہ کے علماء ان کی مخالفت کرتے تھے، ان کا عقیدہ سلف صالح کا عقیدہ تھا، یعنی خدا وندعالم کے قرآن اوراحادیث میں وارد ہونے والے صفات کوظاہر پر حمل کرتے تھے، اور (ان کی) تاویل کی مخالفت کرتے تھے، انھوں نے سلف صالح کے سلسلہ میں ایک رسالہ ”اَلتُّحْف بِمذہبِ السَّلَفَ“ نام سے بھی لکھا، جو چھپ بھی چکا ہے۔(۲۳۲)

شوکانی کے تفصیلی فتوے اس کی مشہور ومعروف کتاب نیل الاوطار میں بیان ہوئے ہیں، ان میں سے ایک فتویٰ یہ ہے کہ تارک الصلوٰة ،چاہے ترک صلوٰة کو مباح جانے یا نہ جانے، کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔(۲۳۳)

شوکانی کے عقائد کے چند نمونے

۱۔ قرآن واحادیث میں مجاز:

جمہور کا یہ نظریہ ہے کہ عربی زبان میں مجاز(یعنی وہ لفظ جس کا استعمال غیرحقیقی معنی میں ہوتا ہے اور قرینہ کے بغیر اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے) کا استعمال ہوتا ہےاسی طرح یہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے، اور جس طرح قرآن مجید میں مجاز کا استعمال بہت زیادہ ہواہے اسی طرح احادیث میں بھی مجاز کافی استعمال ہوا ہے۔(۲۳۴)

۲۔ تاویل :

اکثر فروع میں تاویل کا وجود پایا جاتا ہے، لیکن اصول عقائد اور صفات خدا میں تاویل کے سلسلہ میں تین قول ہیں:

پہلا قول: یہ ہے کہ ان چیزوں میں تاویل ممکن نہیں ہے اور بغیر کسی تاویل کے ظاہر پر حمل کیا جائے، یہ قول ”مُشَبِّہَہ“ کا ہے(۲۳۵)

دوسرا قول :یہ ہے کہ یہ چیزیں تاویل رکھتی ہیں لیکن ہمیں چاہئے کہ ان تاویلوں سے پرہیز کریں، تشبیہ یا تعطیل کا عقیدہ رکھے بغیر، کیونکہ خداوندعالم نے فرمایا ہے :( وَمَا یَعْلَمُ تَاوِیْلَهُ اِلاّٰ اللّٰهُ ) (۲۳۵) یعنی خدا کے علاوہ کوئی دوسرا تاویل نہیں جانتا۔

ابن برہان نے کہا کہ یھی قول سلف صالح کا بھی ہے، چنانچہ شوکانی نے اپنا نظریہ ذکر کیا اور سلف صالح کے راستہ کو اپنایا، یعنی تاویل کا وجود ہے لیکن ہم اس سے پرہیز کرتے ہیں۔(۲۳۷)

شوکانی کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر آیات کی بناپر خدا کو دیکھا جاسکتا ہے، یا چند دوسری آیات کے پیش نظر خدا کو آنکھ، کان،ھاتھ اورچھرے والا مانا جاسکتاہے۔

تیسرا قول:یہ ہے کہ مذکورہ امور میں تاویل ہوسکتی ہے، ابن برہان کے قول کے مطابق ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول باطل ہے اور دوسرے دو قول اصحاب سے نقل ہوئے ہیں، اور تیسرا قول (تاویل کو قبول کرنا) حضرت علی، ابن عباس اور ابن مسعود اور ام سلمیٰ سے نقل ہوا ہے۔

۳۔ اباحت کی اصل:

(۲۳۸) شوکانی صاحب نے بعض شافعی علماء اورمحمد ابن عبد اللہ بن عبد حکم نیزبعض متاخرین سے اصل اباحت کو نقل کیا ہے، اور علمائے جمہور سے اصل منع کو نقل کیا ہے، لیکن خوداپنے استدلال کے ذریعہ اصل اباحت کو قبول کیا ہے۔

۴۔ قبور کے بارے میں :شوکانی نے ابن تیمیہ کے دادا مَجْد الدین عبد السلام بن عبد اللہ حرانی معروف بہ ابن تیمیہ کی ”منتقی الاخبار “ نامی کتاب کی شرح ”نیل الاوطار“ میں قبور کے بارے میں وھی سب کچھ کہا ہے جو ابن تیمیہ نے اس سے پہلے کہا تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ، اور اپنے زمانہ کے علماء پر اعتراض کرتے ہوئے کہ یہ لوگ زیارت قبور سے منع کیوں نہیں کرتے اور بے توجھی کا شکار ہیں؟!

موصوف کا زیارت قبور کے سلسلہ میں کہنا ہے کہ جاہل عوام قبور کے بارے میں وھی عقیدہ رکھتے ہیں جو بت پرست لوگ بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں، اور ان کو بتوں کی طرح نفع ونقصان پہنچانے والا مانتے ہیں، ان لوگوں نے قبور کو اپنا مقصد اور اپنی حاجات روائی کا مرکز بنارکھا ہے۔ یہ لوگ قبور سے وھی طلب کرتے ہیں جو خدا کے بندے خدا سے طلب کرتے ہیں، یہ لوگ قبور کی زیارت کے لئے سفر کرتے ہیں اور قبور کی مٹی تبرک کے طور پر لے جاتے ہیں اور ان سے استغاثہ کرتے ہیں۔

اس موقع پر شوکانی صاحب افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ کوئی نہیں جو خدا کے لئے ان لوگوںکوڈرائے اور دینی غیرت کو کام میں لائے کہ ان کو ان برے اور کفر آمیز اعمال سے روکے، نہ کوئی عالم ہے نہ کوئی استاد، نہ کوئی شاگردہے، نہ کوئی حاکم اور امیر، نہ کوئی سلطان ہے اورنہ کوئی وزیر!

بعض مطمئن لوگوں نے ہم کو خبر دی ہے کہ بعض قبور کی زیارت کرنے والے افراد اگر ان کو کسی جگہ قسم کہانی پڑے تو خدا کی جھوٹی قسم کہالیتے ہیں لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ تم اپنے پیر اورمرشد یا جس پر اعتقاد رکھتے ہو ان کی قسم کہاؤ تو ان کی قسم کہانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اور مجبوراً حق بات کا اعتراف کرلیتے ہیں ۔

اوریہ اس بات کی واضح و روشن دلیل ہے کہ ان کا شرک ان مشرکین سے بھی زیادہ ہے جو خدا کو”ثانی اثنین یا ثالث ثلاثه(۲۳۹) (دو میں سے دوسرا یا تین میں سے تیسرا)مانتے ہیں۔

اس کے بعد شوکانی جی! علماء اورمسلم بادشاہوں سے خطاب فرماتے ہیں: دین کے لئے کفر سے زیادہ بڑی مصیبت اور کیا ہوگی اور غیر خدا کی پوجا سے بڑھ کر آفت کیا ہوگی،؟ ممکن ہے بعض مسلمان ان مصیبتوں میں پھنس جائیں تو پھریہ عالم اسلام پر سب سے بڑی مصیبت کا وقت ہوگا، اس موقع پر شوکانی صاحب اپنے آپ سے خطاب کرتے ہوئے ان اشعار کو پڑھتے ہیں:

”لَقَدْ اَسْمَعْتَ لَوْ نَادَیْتَ حَیًّا وَلٰكِنْ لاٰحَیَاةَ لِمَنْ تُنَادِی.

وَلَوْ نَاراً نَفَخْتَ بِها اَضَاتْ وَلٰكِنْ اَنْتَ تَنْفَخُ فِی رَمَادٍ“(۲۴۰)

”اگر تم اپنی آواز زندہ تک پہونچانے کی کوشش کرتے تو وہ آواز سن لیتے، لیکن تم جن کو پکار رہے ہو، وہ زندہ نہیں ہیں“

”جس وقت آگ کو پھونکتے ہیںتووہ نور اورروشنی دیتی ہے، لیکن تم تو مٹی اور خاکستر میں پھونک مار رہے ہو، (تو نور اور روشنی کیسے ملے گی؟!) “

قارئین کرام! یہ تھے شوکانی صاحب کے نظریات جن کو آپ نے ملاحظہ فرمایا،لیکن افسوس کہ شوکانی صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جو لوگ خدا کی جھوٹی قسم کہاتے ہیں اور جس پر وہ اعتقاد رکھتے ہیں ان کی جھوٹی قسم نہیں کہاتے، یا وہ جو بتوں کی طرح قبور کی پوجا کرتے ہیں اور خدا کی طرف توجہ کرنے کے بجائے قبور سے طلب حاجت کرتے ہیںاور ان کو نفع ونقصان پہونچانے میں مستقل تصور کرتے ہیں، یہ لوگ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟۔

____________________

۵۷. فتح المجید ص ۱۵،۱۶۔

۵۸. التوسل بالنبی ص ۲۰ ۔

۵۹. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص ۱۸،۲۱۔

۶۰. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص ۵۲۔

۶۱. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص ۵۶۔

۶۲. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص ۵۹۔

۶۳. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص ۶۱،۶۷۔

۶۴. فتاویٰ الکبریٰ جلد اول ص ۳۶۶، سعود بن عبد العزیز نجد کے مشہور بادشاہ (متوفی۱۲۲۹) نے ہر علاوہ میں امام جماعت مقرر کئے تھے، البتہ یہ امام جماعت دوم تھے یعنی اگر کوئی کسی عذر کی وجہ سے پہلی جماعت میں شریک نہ ہوسکے تو اس دوسرے امام کی اقتداء کرے، یعنی ہر حال میں نماز جماعت میں شرکت کرے، (ابن بشر جلد اول ص ۱۶۹) اسی طرح آل سعودمیں سے ترکی نامی حاکم نے بھی ہر مسجد میں دو امام جماعت مقرر کئے تھے جن میں سے پہلا عام نماز جماعت کے لئے ہوتا تھا اور دوسرا ان لوگوں کے لئے جو کام وغیرہ کی وجہ سے اول وقت نماز جماعت میں شریک نہ ہوسکیں، اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی انسان بھی نماز کو فرادیٰ نہ پڑھے اور سب کے سب نماز با جماعت پڑھیں۔

۶۵. البد رالطالع ج۲ ص ۶۔

۶۶. ابن الندیم ص ۲۸۰،ابن خلکان ج۳ ص۲۵۸۔

۶۷. صفدی ج ۶ ص ۳۶۸۔

۶۸. الاسلام عقیدة وشریعة ص ۹۴۔

۶۹. کتاب الایمان ص ۲۹۳۔

۷۰. السیاسة الشرعیہ ص ۱۲۹۔

۷۱. مجموعة الرسائل (الوصیة الکبریٰ) جلد اول ص ۳۲۱۔

۷۲. فتح المجید ص ۱۶۳۔

۷۳. حاج خلیفہ نے کتاب کا نام ”منھاج الاستقامہ“ لکھا ہے، (کشف الظنون ج۲ ص۱۸۷۰) لیکن حقیقت یہ ہے کہ منھاج الکرامہ صحیح ہے، اورخود علامہ حلی نے مقدمہ میں فرمایا ہے : ”سمیتھا منھاجالکرامة فی معرفة الامامة“ حاج خلیفہ نے ابن تیمیہ کی کتاب منھاج السنة کی گفتگو کرتے ہوئے اس کتاب کا نام ”منھاج الکرامة“ بیان کیا ہے۔

۷۴. سورہ انعام آیت ۱۰۳۔

۷۵. منھاج السنہ ج۲ ص ۲۴۰تا۲۷۸،اورالفتاوی الکبری ج۵ ص ۵۴۔

۷۶. سورہ طٰہ آیت۵۔

۷۷. رسالة العقیدة الحمویہ، مجموعة الرسائل کے ضمن میں جلد اول ص ۴۲۹ اوراس کے بعد۔

۷۸. سورہ قیامة آیت ۲۲،۲۳۔

۷۹. سورہ بقرہ آیت ۲۲۳۔

۸۰. سورہ احزاب آیت ۴۴۔

۸۱. سورہ کہف آیت ۱۱۰۔

۸۲. توضیح المقاصد ج۲ ص ۵۷۳۔

۸۳. توضیح المقاصد ج۲ ص ۵۸۲۔

۸۴. الاسئلة والاجوبة الاصولیة علی العقیدة الواسطیہ، ص ۱۹۸۔

۸۵. منھاج السنة ج۲ ص ۱۰۶۔

۸۶. جس سے اس کا مرکب ہونا لازم آتا ہے اور مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے، لہٰذا خداوندعالم جسم رکھنے میں اپنے دوسرے اعضاء کا محتاج ہوا، اور جو محتاج ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ محتاج ہونا بندہ کی صفت ہے خدا کی نھیں، اس کی صفت تو بے نیاز ی ہے،مترجم)

۸۷. سورہ انعام آیت ۱۰۳۔ منھاج الکرامہ ص ۸۲(درمقدمہ جلد اول منھاج السنہ)

۸۸. شرح تجریدالا عتقاد ص ۲۸۱

۸۹. لمع الادلہ فی عقائد اہل السنة والجماعة، تالیف امام الحرمین ص ۹۴، ۹۵، امام الحرمین کی بات تمام علماء کے لئے حجت ہے۔

۹۰. مقالات الاسلامین ابو الحسن اشعری ص۲۳۳،۲۷۱،۲۹۰،۳۴۰۔ ابن تیمیہ نے خدا کے دیدار کے بارے میں چند رسالے بھی لکھے ہیں،(ابن شاکر جلد اول ص ۷۹

۹۱. ابن تیمیہ کا بیان ہے کہ خداوندعالم آسمانوں کے اوپر رہتا ہے ،(العقیدة الحمویة الکبریٰ درضمن مجموعة الرسائل جلد اول ص ۴۲۹)اور آسمان دنیا (آسمان اول پر) نیچے آتا ہے ۔ وہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ خداوند عالم آسمانوں پر رہتا ہے اور عرش پر مستقر ہے (بطور حقیقی اوربغیر کسی تاویل وتفسیر کے) اور اس چیز کا جواب دیتے ہوئے کہ خدا کے صفات کو کس طرح ظاہر پر حمل کیا جاسکتا ہے، جبکہ وہ تشبیہ کا بھی منکر ہے اور اس کا بھی قائل ہے کہ عورتیں بھی بہشت میں خداوندعالم کا دیدار کریں گی، اس نے اسی طرح کے مسائل پر چند رسالے تحریر کئے ہیں۔ (صفدی ج۷ص۲۵)

۹۲. رحلہ ابن بطوطہ جلد اول ص ۵۷،یہ تھی ابن بطوطہ کی باتیں، لیکن شیخ محمد بہجت البیطار ابن بطوطہ کی ان باتوں کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس وقت ابن بطوطہ دمشق میں تھا ابن تیمیہ زندان میں تھا(حیاة ابن تیمیہ ص ۳۶)لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ابن بطوطہ ۷۲۶ھ میں دمشق میں وارد ہوا ہے اور ابن تیمیہ اسی سال قید ہواہے اور ممکن ہے کہ ابن بطوطہ نے جو باتیں نقل کی ہیں ابن تیمیہ کے قید ہونے کے بعد کی ہوں۔

۹۳. العقیدة الواسطیہ، مجموعہ الرسائل الکبریٰ جلد اول ص ۳۹۸۔

۹۴. منھاج السنہ ج۲ ص ۳۰۸،۳۱۱۔

۹۵. ابن شاکر جلد اول ص ۷۹، اس موقع پر ابن تیمیہ کی اس بات کو نقل کر ضروری ہے کہ، موصوف فرماتے ہیں کہ وہ جناب خضر جن کو حضرت موسیٰ ںکی مصاحبت ملی وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے قبل وفات پاچکے تھے،کیونکہ اگر زندہ ہوتے تو ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا ضروری تھا، (مجموعہ الرسائل ج۲ص۶۶)،جبکہ صفدی کے مطابق جناب خضر نے احمد ابن حنبل (تیسری صدی کا درمیانی زمانہ) کے پاس ایک شخص کے ذریعہ پیغام پہونچایاتھا۔ (الوافی بالوفیات ج۶ص ۳۶۴)

۹۶. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۲۷،۲۸۔

۹۷. الجواب الباہر، تالیف ابن تیمیہ ،ص۵۰۔

۹۸. الجواب الباہر ص ۵۴،۵۵۔

۹۹. الرد علی الاخنائی ص ۵۴۔ یہاں پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ وہابیوں کے عقائد کی شرح کرتے ہوئے ان احادیث کا ذکر آئے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر منور کی زیارت اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی حیات طیبہ اور آپ کے علم سے متعلق ہیں ۔

۱۰۰. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۷۷۔

۱۰۱. درحالیکہ اہل سنت کے نزدیک احادیث کی صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مولف نے خود فرمایا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کے پاس بیٹھ کر تاریخ لکھی ہے۔ (ابو الفداء جلد ۲ص ۶۱)

۱۰۲. فاسی، شفاء الغرام(ج۲ ص ۳۹۱) میں تحریر ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبرکا فرش لال سنگریزوں سے تھا۔ شوکانی کہتے ہیں: علماء کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وجہ سے کہ کہیں ان کی یا کسی دوسرے کی قبر کو مسجد کانہ قرار نہ دیں لوگوں کو منع فرمایا ہے کہ کہیں لوگ آپ کی تعظیم میں مبالغہ کی وجہ سے کفر میں مبتلا نہ ہوجائیں، اور کہیں یہ تعظیم گذشتہ امتوں کی طرح باعث گمراہی و ضلالت نہ ہوجائے۔ (نیل الاوطار ج۲ ص ۱۳۹)

۱۰۳. فاسی، اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے زمانہ میں لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی مٹی تبرک کے طور پر اٹھالیتے تھے، (شفاء الغرام ج۲ص ۳۹۱)

۱۰۴. دروازے کے بند ہونے کی علت کے بارے میں سمہودی کہتے ہیں: امام حسن ابن علی ں نے چونکہ وصیت کی تھی کہ ان کے جنازے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پاس دفن کریںاور جب امام حسنں کا انتقال ہوا، اور امام حسینں نےاپنے بھائی کی وصیت کے مطابق عمل کرنا چاہا تو ایک گروہ اس کام میں مانع ہوا، اور امام حسینں سے جنگ کی، اسی وجہ سے عبد الملک بن مروان (یا کسی دوسرے خلیفہ) کے حکم سے اس حجرہ کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا، (وفاء الوفاء جلد اول ص ۳۸۸) لیکن امام حسنں کی شھادت اور خلافت عبد الملک کے درمیان جو فاصلہ ہے اس کے پیش نظر دروازہ کے بند ہونے کی یہ وجہ معلوم نہیں کہ صحیح بھی ہو، مگر یہ کہ دروازہ کو معاویہ کے حکم سے بند کیا گیا ہو۔

۱۰۵. الجواب الباہر فی زوّار المقابر تالیف ابن تیمیہ ص ۱۰- ۱۳.

۱۰۶. تاریخ طبری ج۴ ص ۲۱۳۱(حلقہ اول)

۱۰۷. شفاء الغرام ج۲ ص۳۹۱۔

۱۰۸. شفاء الغرام ج۲ ص۳۹۳۔

۱۰۹. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج۱ص ۴۰۸۔

۱۱۰. آگ لگنے کی تفصیل وفاء الوفا جلد اول ص ۴۲۷ میں موجود ہے۔

۱۱۱. رحلہ ابن جبیر ص ۱۴۸ اوراس کے بعد۔

۱۱۲. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۱۵۔

۱۱۳. وفاء الوفا ء بہ اخبار دار المصطفیٰ جلد اول ص ۴۱۶۔

۱۱۴. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۲۲۔

۱۱۵. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۲۴، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطھر کی پوشش کے بارے میں یہ کہا قابل ذکرہے کہ اس وقت بھی آپ کی قبر مطھر پر ایک ضخیم (بھاری)کپڑا پڑا ہوا ہے، جس کو ضریح مبارک کی جالیوں سے دیکھا جاسکتا ہے ،گویا ملک سعود کے زمانہ سے دس پندرہ سال پہلے سے ہی یہ چادرپڑی ہوئی تھی

۱۱۶. ابن کثیر البدایة والنھایہ ۳۸۔ ج۱۴ ص

۱۱۷. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۳۵۔

۱۱۸. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۴۱، اس وقت بھی روضہ مطھر کے دروازے بند ہیں اور صرف روضہ مبارک کی جالی نما چاروں طرف کی دیواروں کے ذریعہ اندر دیکھا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اندر اندہیرا ہے لہٰذا بہت ہی کم دکھائی پڑتا ہے۔

۱۱۹. نیل الاوطار ج۲ص۱۴۰۔

۱۲۰. وفاء الوفاء جلد اول ص ۴۷۲، فتاوی الکبریٰ ج۲ ص ۳۳۔

۱۲۱. وفاء الوفاء جلد اول ص ۳۸۵۔

۱۲۲. وفاء الوفاء ج۲ ص ۱۴۰۲ سے۔

۱۲۴. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۹۹۔

۱۲۵. ابن قیم جوزی ،(ابن تیمیہ کا مشہور ومعروف شاگرد) کہتا ہے:قبور کے پاس نماز میت کے علاوہ دوسری نمازیں پڑھنا ممنوع ہے اور جائز نہیں ہے۔ (اعلام الموقعین ج۲ص ۳۴۷)

۱۲۷. الرد علی الاخنائی ص ۱۴۵

۱۲۸. کتاب الجواب الباہر ابن تیمیہ کا ص ۱۴ سے ۱۹ تک کا خلاصہ۔

۱۲۹. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۳۔

۱۳۱. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۵۵۔ بعد میں زیارت کے سلسلہ میں مسند احمد حنبل میں ذکر شدہ روایات کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

۱۳۲. مجموعة الرسائل الکبریٰ ج۲ ص۵۹۔

۱۳۳. کتاب الردّ علی الاخنائی، ص ۸، ۳۴، ۱۳۱۔

۱۳۴. ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اجماع سے میری مراد مخالف پر علم نہ ہونا ہے نہ یہ کہ مخالف کی بالکل نفی کرنا۔ (الرد علی الاخنائی ص ۱۹۵)

۱۳۵. فوات الوفیات جلد اول ص ۷۴۔

۱۳۶. الغدیر، ج۵ ص ۱۸۴

۱۳۷. راحة الصدور ص ۳۹۴، غزنویوں اور سلجوقیوں کے زمانہ میں شیعوں کو دشمنی کی وجہ سے عدالتی محکمہ میں نہیں رکھا جاتا تھا اور ان کو آل بویہ کی حکومت میں کسی عہدہ پر رکھنا گناہ سمجھا جاتا تھا، اس سلسلے میں کتاب آل بویہ اور تاریخ مذہبی قم میں تفصیل کے ساتھ واقعات موجود ہیں۔

۱۳۸. جولة فی ربوع شرق الادنی (مذکورہ مورخ کے سفر ناموں میں سے ایک سفر نامہ) ص ۱۶۱۔

۱۳۹. ممکن ہے کہ ابن تیمیہ کی شیعوں سے شدید دشمنی کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ابن تیمیہ چونکہ ”دروزیوں“ (اسماعیلیوں کا ایک غلو کرنے والا فرقہ)کا سخت دشمن تھا، اور اس فرقہ کو شیعہ فرقوں میں شمار کرتا تھا، اور ”قلقشندی“(صبح الاعشی ج۱۳ ص۲۴۸) کے کہنے کے مطابق دروزیوں اور نصیروں سے جنگ کرنا ”اَرْمنیوں“ سے جنگ کرنے سے بھی زیادہ واجب ہے،ابن تیمیہ اور اس کے مریدوں کا گمان یہ تھا کہ دروزیوں نے شام ومصر پر مغلوں کے حملوں میں ان کا ساتھ دیا ہے لہٰذا وہ مغلوں کے ہمراہ و ہمراز ہیں۔ ابن تیمیہ نے نصیروں سے جنگ کے بارے میں تفصیلی فتویٰ صادر کیا ہے(الفتاوی الکبریٰ جلد اول ص۳۵۸)، اور جیسا کہ معلوم ہے کہ ابن تیمیہ کے زمانہ میں نصیریوں نے قدرت حاصل کرلی تھی اور اپنے عقائد ونظریات کو کھلے عام لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے، چنانچہ مشہور مورخ ذھبی نے۷۱۷ھ کے واقعات میں اس طرح لکھا کہ ایک جبلی شخص (حلب کے علاقہ جَبَلہ کی طرف منسوب) ظاہر ہوا جو کبھی یہ کہتا تھا کہ میں محمد مصطفی ہوں، اور کبھی یہ کہتا تھا کہ میں علی ہوں، یہاں تک کہ کبھی یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں امام منتظرہوں، اور وہ تمام لوگوں کو کافر سمجھتا تھا، اور اس کے مرید کہتے تھے ”لا الہ الا علی“ اور لوگوں کا خون بھانا حلال سمجھتے تھے،نیز اسی طرح کی دوسری چیزیں اس سے صادر ہوتی تھیں، (ذیل العبر ص ۹۱) چنانچہابن تیمیہ نے ان تمام کاموں کو شیعوں کے کہاتے میں شمار کیاہے۔

۱۴۰. یہاں پر یہ کہناچاہئے کہ ابن تیمیہ چونکہ شیعوں سے بہت دشمنی اور عناد رکھتا تھااسی وجہ اس نے اپنی کتابوں میں شیعوں کے اصولی عقائد(حقیقی معنی میں ) کو بیان کرنے کے بجائے ہر ان باطل عقائد اور کفر آور باتوں کو ان ملل ونحل کی کتابوں سے نقل کرکے جو مختلف فرقوں کی طرف سے لکھی گئی تھیں، اور شاید جن کا اس وقت کوئی نام ونشان بھی باقی نہ ہو، (البتہ مذکورہ کتابوں کے بارے میں بھی اختلاف موجود ہے) ان کو شیعوں کے عقائد کا حصہ بنا کر ذکر کیا ہے، اور اگر کسی نے اپنے شیخ یا پیر کے بارے میں چاہے وہ زندہ ہویا مردہ کسی بھی طرح کی غلوکی بات کھی تو اس کو شیعوں کے عقائد میں شمار کرلیا، (اس سلسلہ میں منھاج السنة جلد اول کا پہلا حصہ اور جلد دوم کے آخری حصہ کی طرف رجوع فرمائیں)، جبکہ حق وانصاف کا تقاضا یہ تھا کہ شیعوں کے عقائد کو ان کی کلامی کتابوں منجملہ شرح تجرید عقائد ومنھاج الکرامة علامہ حلّی سے نقل کیا جاتا، (جبکہ ابن تیمیہ نے منھاج الکرامة کی رد کرتے ہوئے شیعو ں پر حملوں میں کوئی کسر باقی نہ رکھی) چنانچہ اگر ان کتابوں میں اس طرح کی کوئی بات یا غلو ہوتا توپھر اس کو یہ حق تھا کہ ان کو شیعہ کے حساب میں رکھتا۔

۱۴۱. جیسا کہ مشہور ہے کہ کلمہ رافضی جناب زید بن علی کے قیام کے وقت سے شیعوں پر اطلاق ہوا ہے، معلوم نہیں کہ صحیح ہے بھی یانھیں،کیونکہ اس سے پہلے بھی یہ کلمہ شیعہ مخالفوں کی طرف سے شیعوں کے لئے کہا جاتا تھا۔

۱۴۲. بعض شیعہ محققین نے داستان عبد اللہ ابن سبا کو صرف ایک افسانہ اورمن گھڑت کہانی بتایا ہے اور خود اس کے وجود کو بھی جعلی کہاہے یعنی اس طرح کا کوئی آدمی تھا ہی نھیں، اس سلسلہ میں علامہ سید مرتضیٰ عسکری صاحب نے ایک تفصیلی کتاب تالیف کی ہے مزید آگاہی کے لئے مذکورہ کتاب کی طرف رجوع فرمائیں۔

۱۴۳. سورہ بقرہ آیت ۹۷۔

۱۴۴. ”ہَلَكَ فِیَّ رَجُلانِ: مُحِبٌّ غَالْ، وَمُبْغِضٌ قَالْ“ (نہج البلاغہ کلمات قصار حضرت امیر المومنین(ع)

۱۴۵. کتاب ”الاسلام بین السنة والشیعہ جلد اول ص ۹۸سے ۱۱۲تک کاخلاصہ ،مذکورہ کتاب میں رفض اور رافضی کے بارے میں ایک تازہ بیان ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کافی دقت اور تحقیق ہونا چاہئے۔

۱۴۶. عبد اللہ ابن سبا اور اس کے مریدوں سے مزید آگاہی کے لئے اور دوسرے غلو کرنے والے فرقوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے ”الفَرقُ بین الفِرق“ ص ۳۳۳، تالیف بغدادی کی طرف رجوع فرمائیں، اور عبد اللہ ابن سبا کا وجود ہی خیالی ہے اس بات کی تحقیق کے لئے علامہ عسکری دامت برکاتہ کی کتاب عبد اللہ ابن سبا نامی کتاب کی طرف رجوع کریں۔

۱۴۷. الفتاوی الکبری ج۲ص ۴۳۱۔

۱۴۸. الجواب الباہر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔

۱۴۹. الجواب الباہر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔

۱۵۰. الجواب الباہر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔

۱۵۱. رحلہ ابن بطوطہ جلد اول ص ۵۸۔

۱۵۲. الفتاوی الکبریٰ ج ۲ ص ۲۱۹۔

۱۵۳. الجواب الباہر، ص ۴۵۔

۱۵۴. الرد علی الاخنائی ص ۲۳، شاید یھی وجہ رہی ہو کہ آج کل بقیع اور دوسرے قبرستانوں میں عورتوں کو جانے سے روکا جاتا ہے، صاحب فتح المجید کہتے ہیں (ص۲۲۵) کہ عورتوں کے لئے قبور کی زیارت مستحب نہیں ہے محمد بن عبد الوہاب نے اپنی توحید نامی کتاب میں جناب ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے جو عورتیں قبور کی زیارت کے لئے جاتی ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر لعنت کی ہے۔

۱۵۵. الجواب الباہر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔

۱۵۶. الجواب الباہر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔

۱۵۷. الجواب الباہر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔

۱۵۸. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۳۰،۳۱۔

۱۵۹. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۶۶۔

۱۶۰. کتاب الرد علی الاخنائی ص۳۲۔

۱۶۱. البدایہ والنھایہ ج ۱۴ ص ۱۲۴۔

۱۶۲. ان میں سے احمد ابن حنبل کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ”نھیتکم عن زیارة القبور فزوروہا فان فی زیارتھا عظة وعبرة“(میں پہلے تم کو زیارت سے منع کرتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرو کیونکہ قبور کی زیارت سے انسان کو پند اورنصیحت حاصل ہوتی ہے) احمد ابن حنبل نے اس حدیث کو چند طریقوں سے نقل کیا، (مسند احمد ابن حنبل ج۵ ص۳۵۶، ۳۵۷،۳۵۹، اور ددوسرے چند مقامات پریہ حدیث نقل ہے)

۱۶۳. موطاء ص ۳۳۴، طبع دوم، مصر۔

۱۶۴. صحیح مسلم ج۳ ص ۶۵، سنن ابی داود ج۳ ص ۲۱۲۔

۱۶۵. شرح جامع صغیر، سیوطی ص ۲۹۸۔

۱۶۶. فتح المجید ص ۲۵۵۔

۱۶۷. شفاء الغرام ج ۲ ص ۳۹۷۔

۱۶۸. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج۴ ص۱۳۷۱ سے ۱۴۲۲تک۔

۱۶۹. الغدیر ج ۵ ص۱۰۹ ۔ اوراس کے بعد ۔

۱۷۰. المذاہب الاسلامیہ ص ۳۴۳۔

۱۷۱. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۰۔

۱۷۲. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۱۔

۱۷۳. سخاوی حنفی ،کتاب ”تحفة الاحباب“ ص ۴،۵۔

۱۷۴. الخصائص الکبریٰ جلد اول ص ۵۴۶،۵۴۷۔

۱۷۵. سورہ احزاب آیت ۲۴۔

۱۷۶. کتاب المغازی جلد اول ص ۳۱۳،۳۱

۱۷۷. صحیح مسلم ج ۳ ص ۵۵، منجملہ یہ حدیث کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک میت کی قبر پر دفن ہونے کے بعد نماز پڑھی اور چار تکبیریں کہیں اور دوسری روایت کے مطابق: آنحضرت (ص)ایک تازہ قبر کے پاس پہونچے اور اس پر نماز پڑھی اور اصحاب نے بھی آپ کے پیچھے صف باندہ لی ۔

۱۷۸. النھایہ ج ۴ ص۴ ۔

۱۷۹. نیل الاوطار جلد اول ص ۱۳۶۔

۱۸۰. موطاء ابن مالک ص ۱۱۲،۱۱۳۔ اس حدیث کو بخاری نے بھی نقل کیا ہے ۔

۱۸۱. فتح المجید ص ۳۷۳۔

۱۸۲. مسند احمد، جلد اول ص۴۱،۴۲، مسند عمر، وصحیح بخاری ج۲ ص ۷۹۔

۱۸۳. منتقی الاخبار، تالیف ابن تیمیہ حنبلی (ابن تیمیہ کے دادا) ہمراہ نیل الاوطار، شوکانی ج۴ ص ۱۶۱۔

۱۸۴. صحیح بخاری ج۲ ص ۹۶۔

۱۸۵. ابن عبد البر، کتاب استیعاب جلد اول ص ۲۷۴۔

۱۸۶. مغازی واقدی جلد اول ص ۲۹۰،” اِذَا بَكَتْ صَفِیِّةُ یَبْكٰی، وَاِذَا نَشَجَتْ یَنْشَجْ“

۱۸۷. استیعاب جلد اول ص۲۱۲۔

۱۸۸. مسند احمد ابن حنبل ج۲ ص ۴۰، نُویری کہتے ہیں کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار کو اپنے شھیدوں پر روتے دیکھا تو آپ نے بھی گریہ کیا اور کہا کہ جناب حمزہ پر کوئی رونے والی نہیں ہے (نھایة الارب ج ۱۷ ص ۱۱۰)

۱۸۹. سیرة النبی ج ۳ ص ۵۰، تاریخ طبری جلد ۳ ص ۱۴۲۵، حدیث ۱۔

۱۹۰. تاریخ طبری ج۴ ص ۲۱۳۱، ۲۱۳۲،(حلقہ اول)

۱۹۱. المغازی جلد اول ص ۳۲۹،۳۳۰،دیار بکری کابیان ہے کہ جناب حمزہ پر نوحہ وگریہ کے بعد سے پیغمبر اکرمنے رونے سے منع کردیا، دوسرے روز انصار کی عورتیں آپ کی خدمت میں آئیں اور کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے رونے سے منع فرمایا ہے جبکہ ہمیں اپنے مردوں پر رونے سے سکون وآرام کا احساس ہوتا ہے، تب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب تم نوحہ وگریہ کرو تو اپنے چھروں پر طمانچہ نہ مارو اور اپنے چھروں کو نہ نوچو اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ اوراپنے گریبان چاک نہ کرو، (تاریخ الخمیس جلد اول ص ۴۴۴)

۱۹۲. سورہ انعام آیت ۱۶۴۔

۱۹۳. جملہ سورہ والنجم آیت ۴۴ سے اقتباس ہے۔<وانّه هُوَاضحک وابٰکی>، اور یہ کہ اس نے ہنسایا بھی ہے اور رلایا بھی ہے)

۱۹۴. کتاب الاُمّ شافعی ج۸ ص ۵۳۷۔

۱۹۵. الجواب الباہر ص ۲۲۔

۱۹۶. الرد علی الاخنائی ص ۱۶۴، والفتاویٰ الکبریٰ جلد اول ص ۳۵۱۔

۱۹۷. اعلام الموقعین ج۴ ص ۴۰۳۔

۱۹۸. کشف الارتیاب ص ۳۳۰۔

۱۹۹. کشف الارتیاب ص ۳۳۶۔

۲۰۰. کشف الارتیاب ص ۳۴۲۔

۲۰۱. الرد علی الاخنائی ص ۵۷۔

۲۰۲. الرد علی الاخنائی ۵۹۔

۲۰۳. الجواب الباہر فی زوار المقابر ص ۳۷، ۳۸۔

۲۰۴. کتاب الرد علی الاخنائی ص ۱۵۹، صاحب فتح المجید کہتے ہیں (ص ۴۹۹) بعض لوگ جو قبور کا حج کرتے ہیں اپنے حج کو کامل کرنے کے لئے تقصیر کرتے ہیں اور اپنا سر منڈواتے ہیں، لیکن موصوف نے بھی یہ نہیں بیان کیا کہ یہ کون لوگ ہیں کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کہاں کے رہنے والے ہیں۔

۲۰۵. تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۶۱۔

۲۰۶. سفر نامہ ناصرخسرو، ص ۲۴۔

۲۰۷. احسن التقاسیم ص ۱۲۲۔

۲۰۸. ھلی جنگ عظیم تک شام کا علاقہ میں سوریہ لبنان اور فلسطین بھی شامل تھے، یہ تینوں ملک پہلی جنگ عظیم کے بعد الگ الگ ہوئے ہیں۔

۲۰۹. الجواب الباہر ص ۸۳۔

۲۱۰. الرد علی الاخنائی ص ۵۶۔

۲۱۱. الجواب الباہر ص ۳۸، ۳۹۔

۲۱۲.الرد علی الاخنائی ص ۹۹۔

۲۱۳. الفتاویٰ الکبریٰ ج ۲ ص ۳۳۔

۲۱۴. الفتاویٰ الکبریٰ جلد اول ص ۱۳۱۔

۲۱۵. الجواب الباہر ص ۵۰۔

۲۱۶. الرد علی الاخنائی ص ۵۹، ابن تیمیہ نے ایک دوسری جگہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مُردے کو پکارے تو پہلے اس کو توبہ کرائی جائے اوراگر توبہ قبول نہ کرے تو اس کی گردن اڑادی جائے، (مجموعة الرسائل جلد اول ص ۳۱۵)

۲۱۷. وفاء الوفاء ج۴ ص ۱۳۷۱۔

۲۱۸. صحیح بخاری ج۲ ص ۳۳۔

۲۲۰. چونکہ جناب فاطمہ بنت اسد نے بچپن میں پیغمبر اکرمکوپالا تھا اور ان کی دیکھ بھال کی تھی لہٰذا آنحضرت آپ کو ماں کہہ کر پکارتے تھے۔

۲۲۱. اقتباس از کتاب شواہد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق، تالیف شیخ یوسف نبھانی،بیروت میں حقوق کے محکمہ عالی کے سابق رئیس، ص ۱۳۹تا ۱۵۴۔

۲۲۲. الفتاوی الکبریٰ جلد اول ص ۱۹۷۔

۲۲۳. الفتاوی الکبریٰ جلد ۲ ص ۲۲۷۔

۲۲۴. لفتاوی الکبریٰ جلد اول ص ۲۰۸۔

۲۲۵. الجواب الباہر ص ۴۱۔

۲۲۶. الفتاوی الکبریٰ جلد اول ص ۲۱۹،اس سلسلہ میں مزید وضاحت ”وہابیوں کے عقائد“ کے بارے میں بیان ہوگی، انشاء اللہ۔

۲۲۷. الفتاوی الکبریٰ جلد اول ص ۲۱۹،اس سلسلہ میں مزید وضاحت ”وہابیوں کے عقائد“ کے بارے میں بیان ہوگی، انشاء اللہ۔

۲۲۸. جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص ۲۳۱، ۲۳۲۔

۲۲۹. البدرالطالع جلد اول ص ۴۷۹و ج۲ ص ۲۱۴۔

۲۳۰. اس زمانہ کا دستور یہ تھا کہ بچوں کے لئے اس طرح کی کتابوں کو حفظ کرنا ضروری تھا ،چاہے اس کے معنی سمجھیں یا نہ سمجھیں۔

۲۳۱. شوکانی کا اپنے باپ کے بارے میں کہناہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام حالات میں سلف صالح کے راستہ پر چلے ہیں۔

۲۳۲. شوکانی کی سوانح حیات نیل الاوطار کی نویں جلد کے آخر میں موجود ہے۔

۲۳۳. نیل الاوطار جلد اول ص ۳۷۰۔

۲۳۴. ارشاد الفحول ص ۲۲،۲۳۔ ۲۳۴

۲۳۵. مُشَبِّہَہ“اس گروہ کو کہتے ہیں کہ جنھوں نے خدا کو انسان کی مانند اور شبیہ مانا ہے، صاحب ”بیان الادیان“ نے اس فرقہ کی دس قسمیں بیان کی ہیں.

۲۳۷. ارشاد الفحول ص ۱۷۶، ابن تیمیہ اور وہابیوں کا نظریہ بھی یھی ہے۔

۲۳۸. ارشاد الفحول ص ۲۸۴، وہابیوں اورایک دوسرے گروہ کے علاوہ تمام ہی فرقے اصل اباحت کو قبول کرتے ہیں، اصل اباحت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے منع کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث نہ ہو تو وہ کام مباح اور جائز ہے، اور اصل منع یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں جواز ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک وہ ممنوع ہے۔

۲۳۹. یہاں سورہ نحل کی آیت ۵۱،اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۷۳ کی طرف اشارہ ہے۔

۲۴۰. نیل الاوطار ج۴ ص ۱۳۱،۱۳۲۔