تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت25%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

تاریخ وہابیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30044 / ڈاؤنلوڈ: 4578
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

1

پانچواں باب:

قدیم ایرانی کتابوں میں وہابیت کا ذکر

وہابیت کے آغاز سے آج تک، ایرانی لوگوں نے وہابیوں کے عقائد اور ان کی تاریخ کی شناخت کے بارے میں تین وجوہات کی بنا پر توجہ کی ہے:

اول) ۱۲۱۶ھ میں جب وہابیوں نے نجف اور کربلا پر حملہ کیا (جس کی تفصیل وہابیوں کی تاریخ کے عنوان میں پیش کی جائے گی)جس سے صرف خاص حضرات ہی مطلع ہوپائے عوام کو اس کی خبر تک نہ ہوئی، کیونکہ اس زمانہ میں اخبار، ٹیلی فون، ٹیلیگراف یا اس طرح کے ذرائع ابلاغ نہیں تھے اور اس وقت کے لوگ بڑی بے خبری کے عالم میں زندگی گذاررہے تھے۔

دوم) ۱۳۴۴ھ میں قبرستان بقیع کی قبروں کا مسمار کرنا، اور مرقد مطھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مسمار کر دئے جانے کی بے بنیاد خبر مشہور ہوگئی تھی، چونکہ اس زمانہ میں اخبار وغیرہ موجود تھے جس کی وجہ سے بہت جلد ہی عوام کو اطلاع ہوگئی، اورعوام نے مختلف صورتوں میں اعتراضات اور مظاہرے کئے، (جس کی تفصیل وہابیوں کی تاریخ کے عنوان میں بیان ہوگی)

سوم) ۱۳۶۲ھ میں ابو طالب یزدی کے قتل کاواقعہ، اس واقعہ کی تفصیل بھی بعد میں بیان کی جائے گی۔

لیکن وہابیوں کے عقائد کا سب سے قدیم تذکرہ ایرانی کتابوں (فارسی زبان میں ) مولف کی اطلاع کے مطابق عبد اللطیف شوشتری صاحب کی کتاب تحفة العالم میں ہے، کیونکہ موصوف نے تحفة العالم کو ۱۲۱۶ھ میں (یعنی محمد بن عبد الوہاب کے مرنے کے تقریباً دس سال کے بعد) جس سال وہابیوں نے نجف پر حملہ کیا ہے، لکھی ہے، اور اس کے بعد موصوف نے اس کتاب پر تتمہ ”ذیل التحفہ“ کے نام سے اضافہ کیا ہے، اس تتمہ میں وہابیوں کے بارے میں تفصیل دی گئی ہیں جسے ہم اس کو لفظ بلفظ نقل کرتے ہیں:(۴۶۳)

”مجھے عبد العزیز خان(۴۶۴) کے کٹّرپن کی اطلاع ملی تو اس وقت میں بمبئی میں تھا کہ اس نے ۱۸ذی الحجہ کو عرب لشکر کے ساتھ کربلائے معلیٰ پر حملہ کردیا، (ہم وہابیوں کی تاریخ میں اس بات کو تفصیل سے بیان کریں گے کہ خود عبد العزیز نے کربلا پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ اس نے اپنے بیٹے سعود کو حملہ کے لئے بھیجا تھا) اور تقریباً چار پانچ ہزار شیعہ مومنین کو قتل کردیا، اور وہاں پر ایسے ایسے کارنامے انجام دئے جن کو لکھنے سے قلم کو شرم آتی ہے، شھر کو بالکل غارت کردیا اور مال ودولت کو غنیمت کے طور پر لوٹ لیا، اور اپنی ریاست شھر ”درعیہ“ واپس لوٹ گئے، جب بات یہاں تک پہونچ گئی تو کیا وہابیوں کے بارے میں قلم اٹھایا جانا اور وہابیوں کے بارے میں لکھا جانا مناسب نہیں ہے تاکہ قارئین کرام ان کے مذہب اور ان کے عقائد سے مکمل طور پر آگاہ ہوجائیں:

اپنے وطن میں کچھ عربی علوم حاصل کرنے اور ایک حد تک حنفی فقہ (حنبلی فقہ صحیح ہے) حاصل کرنے کے بعد اصفھان آیا اور وہاں فلسفہ اور حکمت کے نامور علماء سے ”یونانکدہ“ میں حکمت کی تعلیم حاصل کی، اور بعض مسائل میں جہاں عوام الناس کے قدم بھر حال لڑکھڑا جاتے ہیں کچھ بصیرت حاصل کرلی۱۱۷۱ھ (۱۱۵۳ھ صحیح ہے) میں اپنے وطن واپس چلا گیایا اس تاریخ سے ایک دوسال پہلے یا بعد میں کیونکہ اس کی واپسی کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے،وہاں پہنچنے کے بعد اپنی ہی طرف دعوت دینی شروع کردی، اس کا طریقہ حنفی (حنبلی صحیح ہے) تھا اصول میں امام اعظم ابوحنیفہ کا مقلد تھا (صحیح احمد بن حنبل ہے) اور فروع میں خود اپنی رائے پر عمل کرتا تھا۔

آخر کار بعض اصول میں بھی امام اعظم کی تقلید کرنا چھوڑ دی اور جو کچھ اس کی نظر میں صحیح نظر آتا وھی کرتا اور کہتا تھا اسی بناپر عوام کو عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا، اور اس وقت کے تمام اسلامی فرقوں اور یہود ونصاریٰ کو مشرک، کافر اور بت پرست کہتا تھا، اس کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ مسلمان قبر پیغمبر اکرمکی تعظیم کرتے ہیں اور آنحضرت کی طرح دیگر ائمہ ہدیٰ کی قبروں کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں، ان کے روضوں پر (جو کہ پتھر اورمٹی سے بنے ہیں) جاکر ان سے دنیاوی اور اخروی حاجتیں طلب کرتے ہیں،صاحب قبر سے توسل کرتے ہیں ان کی قبروں کے سامنے سجدے کرتے ہیں، ان کے روضوں میں جاکر اپنا سر نیاز خم کرتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت بتوں کی پوجا اور بت پرستی کرتے ہیں، گرچہ وہ اس کام کو بت پرستی نہیں کہتے بلکہ ان حضرات کو اپنا قبلہ کہتے ہیں جو خدا اوران کے درمیان ایک واسطہ اور وسیلہ ہیں جس طرح یہود ونصاریٰ بھی اپنے معابد اور کلیسا میں جناب موسیٰںاور جناب عیسیٰ ں کی تصویریں لگاتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں اور ان کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں، لیکن خدا پرستی (مسلمان ہونا) یہ ہے کہ فقط ذات واجب (خداوندعالم) کو سجدہ کیا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ بعض قبیلوں کے جاہل افراد نے اس کی اطاعت کی اور نجد میں یہ شخص مشہور ہوگیا، اور اس کا ہمیشہ یہ نعرہ ہوتا تھا کہ رسول کے روضہ کو، اسی طرح ائمہ کرام کے روضوں کو مسمار کردیا جائے، اور جب بھی موقع مل جائے ان سب کو گراکر زمین کے برابر کردیا جائے یہاں تک کہ ان کے نام ونشاں بھی باقی نہ رہیں، لیکن اجل نے اس کو فرصت نہ دی اور وہ اس دنیا سے چل بسا۔

اس کا وصی عبد العزیز(۴۶۵) یا اس کا بیٹا مسعود (سعود صحیح ہے)جو اس وقت (تحفة العالم کی تالیف کے وقت) خلیفہ اور اس کا جانشین ہوا، اور اس کو امیر المسلمین کہا جانے لگا، اس نے صرف نجد کے علاقہ پر اکتفاء نہیں کی بلکہ دور دراز کے علاقوں میں اپنی اس دعوت کو پیش کیا اور اس کو پھیلانے کی بھر پور کوشش کی، اور اپنی اتباع کرنے والوں کو حکم د ے دیا کہ دوسرے تمام فرقوں کی جان ومال حلال ہے اور جہاںجہاں سے بھی ان کا گذر ہو وہاں کے لوگوں کو قتل کرکے ان کے مال ودولت کو غنیمت سمجھ کر لوٹ لو، لیکن ان کی عورتوں کو ھاتھ نہ لگاؤ بلکہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھو، اور جنگ کے وقت اپنے مجاہدوں کے لئے ایک رقعہ خازن جنت کے نام لکھ کر مجاہدوں کی گردن میں ڈال دیا جاتا تھا ،کہ اس کی روح نکلتے ہی فوراً اس کو جنت میں بھیج دیا جائے اور مرنے کے بعد وھی اس کے اہل خانہ کا کفیل ہوتا تھا ،چنانچہ مجاہدین پروانہ جنت کو دیکھ کر بہشت کے لالچ میں میدان جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا کرتے تھے کیونکہ اگر ان کو فتح حاصل ہوگی تو مال غنیمت ھاتھ آئے گا اوراگر قتل ہوجائیں گے تو اس رقعہ کے ذریعہ فوراً داخل بہشت ہوجائیں گے۔

اس سے قبل نجد،ا لحسا، قطیف اور بصرہ کے چار فرسخ تک عُمان کے نزدیک اور بنی عُتبہ تک غلبہ اس نے حاصل کیا اور لوگوں کا قتل عام کیا ،پھرکیاتھا لوگوں نے (مجبوراً) اس کے عقیدہ کو مان لیا، یہاں تک کہ اس کی شان وشوکت اور شھرت دنیا بھر میں پھیل گئی، اس کی فتح کو سلطان روم (عثمانی بادشاہ) اور بادشاہ عجم (فتح علی شاہ) کے گوش زدکیا گیا لیکن کسی نے توجہ نہ کی اور اس کے فتنہ وفساد کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی۔(۴۶۶) اس کے فتووں کے ایک رسالے کو ہم نے اس کے ایک مرید کے پاس دیکھا ہے“ پھر صاحب تحفة العالم نے مذکورہ عربی رسالے کی عبارت کو تحریر کیا ہے۔(۴۶۷)

قارئین کرام کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ سید عبد اللطیف شوشتری صاحب کتاب تحفة العالم مدتوں تک ہندوستان میں رہے اور محمد بن عبد الوہاب بانی وہابیت کے ہم عصر تھے۔

وہابیت کے موضوع پر گفتگو کرنے والوں میں مرحوم میرزا ابو القاسم قمی معروف بہ میرزائے قمی (متولد۱۱۵۰ھ متوفی۱۲۳۱ھ) ایران کے عظیم الشان عالم ہیں آپ بھی محمد بن عبد الوہاب کے ہم عصر تھے اور جس وقت وہابیوں نے کربلا پر حملہ کیا اس وقت آپ بڑھاپے کی منزلیں طے کر رہےتھے ۔

مرحوم میرزائے قمی نے ایک خط کے ضمن میں لکھا ہے (جو آج بھی باقی ہے) جس میں وہابیوں کے بارے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

یہ لوگ اہل سنت اورحنبلی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں میں نے (وہابیت ) کے بارے میں اس وقت سنا جب کہ میری عمر(۲۲) سال کی تھی،اور میں نجف اشرف میں تھا مجھے یہ خبر دی گئی کہ عیینہ شھر کے نزدیک شھر درعیہ میں ایک شخص جس کا نام محمد بن عبد الوہاب ہے اور اس نے عراق عرب کا (اور عراق عجم کا بھی) سفر کیا اور وہاں پر موجود عتبات عالیہ میں شیعوں کو دیکھا اور ان کو وہاں روضوں میں ضریحوں کو بوسہ لیتے ہوئے ان کی تعظیم وتکریم کرتے ہوئے ہیں اور وہاں نماز بھی پڑھتے ہوئے دیکھا، اس (محمد بن عبد الوہاب) نے ان کو مشرک کہااورکھاکہ شیعہ لوگ اپنے اماموں کی پرستش کرتے ہیں ان کے سامنے رکوع اور سجدے کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، اس نے اس ڈر سے کہ کہیں اس پر اہل بیت علیهم السلامکی عداوت کی تہم ت نہ لگ جائے اور یہ کہ اس کی باتیں شیعوں سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس نے ایک قاعدہ کلی قرار دیتے ہوئے کہا

”کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی غیر خدا کو خدا کا شریک قرار دے، عبادت ہو یا استعانت طلب حاجت ہو یا قربانی کرنا، جو شخص بھی غیر خدا سے حاجت طلب کرے یا غیر خدا کے لئے قربانی کرے وغیرہ تو ایسا شخص مشرک ہے، سعود پدر عبد العزیز (سعود پسر عبد العزیز صحیح ہے) اس کا ناصر ومدد گار بن گیا اور عبد العزیز کے بعد سعود کی باری آئی اس نے بر سر حکومت آتے ہی اعلان کردیا کہ جس کا مذہب بھی ہمارے مذہب کے علاوہ ہوگا اس کا قتل واجب ہے، چنانچہ اس نے ہزاروں شیعہ علماء اور عوام الناس کو حضرت امام حسین ں (روحی فداہ) کے جوار میں قتل کر ڈالا، اس وقت میری عمر تقریباً اسّی سال کو پہونچ رہی ہے۔ الخ۔(۴۶۸) اس آخری جملے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم میرزای قمی نے یہ خط اپنی عمر کے آخری حصے میں لکھا ہے۔

میرزا عبد الرزاق دُنبُلی (۱۱۶۷- ۔ ۱۱۴۲ھ) بھی ان حضرات میں سے ہیں جن کی پیدائش بھی اسی وقت کی ہے کہ جب فرقہ وہابیت وجود میں آیا، اورجس وقت وہابیوں نے کربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملہ کیا تو ان کی کافی عمر گذر چکی تھی موصوف نے اپنی کتاب ”مآثر سلطانیہ میں ص(۸۲)پر)۱۲۱۶ھ کے واقعات کے ضمن میں وہابیوں کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے اور کربلا ئے معلی پر ان کے حملے کا بھی ذکر کیا ہے، ہم یہاں پر ان کی باتوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

عبد العزیز کے مختصر حالات زندگی

عبد العزیز اپنے قبیلہ کا سردار تھا اس کے مختصر حالات اس طرح ہیں کہ وہ اپنے قبیلہ کا رئیس تھا اور اس کا استاد عبد الوہاب (محمد بن عبد الوہاب صحیح ہے) اسی قبیلہ سے تھا جس نے شیخ محمد بصری(مراد شیخ محمد مجموعی ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے بیان کیا ہے) سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مزیدتعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اصفھان گیا وہاں رہ کر اس نے فقہ واصول، نحو وصرف میں چند سال اپنی عمر گذاری اور اپنے خیال خام میں یہ سوچ لیا کہ میں تمام مذاہب کے عقائد سے آگاہ ہوگیا ہوں۔

اس کا اعتقاد یہ تھا کہ واجب تعالیٰ (خدا وندعالم کی ذات گرامی) ایک ہے، ان نے انبیاءعلیهم السلام کو بھیجا کتابیں نازل کیں، اور ان میں کوئی شک نہیں ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد صرف قرآن مجید کافی ہے اور ہر زمانہ میں مذہب وملت کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے مجتہدین موجود تھے، مثلاً حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان اور ان کے بعد امیر المومنین حیدر کرار ں، اور جب شافعی، ابوحنیفہ اور حضرت امام صادق ںجیسی شخصیات مجتہد ہوں تو یہ حضرات کتاب خدا سے مسائل کو استنباط کرتے ہیں تاکہ عوام الناس ان پر عمل کرسکے۔

اسی طرح اس کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ قبور پر گنبد بنانا اور ان کے لئے ہدیہ لانا اور نذر کرنا اوران کی ضریحوں کو سونے چاندی سے زینت کرنا اور اسی طرح ان کی زیارت کرنا ان کو بوسہ دینا، یا ان کی تربت سے سجدہ گاہ بنانا اور ان پر نماز پڑھنا، یہ سب شریعت اسلام میں بدعت اور شرک ہے اور ان کاموں کا کرنے والا شخص کفار کی طرح ہے، اور ایسے لوگ اس گروہ کی طرح ہیں جن کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں مشرک کہا ہے جو کہ اپنے ہی ھاتھوں سے بت بناتے تھے اور ان کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ مانتے تھے اور ان کی عبادت و پرستش کیا کرتے تھے، اگرچہ وہ لوگ خدا کی وحدانیت کو قبول کرتے تھے، لیکن ان بتوں کواللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع اوروسیلہ قرار دیتے تھے، ان بتوں کو مستقل طور پر خدا تصور نہیں کرتے تھے،اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں اپنا اجتھاد دکھانا شروع کیا، اصفھان سے وہ اپنے قبیلہ میں چلا گیا، اور اپنے شیخ سے اسی طرح کی باتیں کہہ ڈالیں۔

اُدہرعبد العزیز چونکہ اس کے ذہن میں ریاست بسی ہوئی تھی اوریہ طے ہے کہ جس کے ذہن میں ریاست اور برتری سما جائے تو اس کے لئے یہ چیز نئے دین اورنئے مذہب کے ذریعہ جلد سے جلد حاصل ہوسکتی ہے، چنانچہ اس کی باتیں قبول ہونے لگی اور اس نے مذہب اور سنت کو ترک کردیا اور عربوں کو اپنے اس نئے دین کی طرف دعوت دینا شروع کردیا۔(۴۶۹)

اوروہ چونکہ ائمہ علیهم السلامکے روضوں کی زیارت کو بد ترین بدعت شمار کرتا تھا اس وجہ سے اس نے تمام روضوں کو مسمار کرادیا اور چونکہ زائرین کو مشرک اوربت پرست سمجھتا تھااس لئے ان کو قتل کرادیتا تھا، اس نے کئی مرتبہ نجف اشرف پر بھی حملہ کا ارادہ کیا اور خیال کیا کہ نور حق (حضرت علی ں) کو خاموش کردیگا لیکن خدا کی قدرت اور قبیلہ خزاعہ (خزاعل) کے لوگوں کو اطلاع ملنے نیز قلعہ کے سنگین ہونے کی بنا پر وہ ناکام رہ گیا، کیونکہ نادر شاہ افشار کے دورسے اس شہنشاہ ذی وقار (مراد فتح علی شاہ ہے) کے زمانہ تک ایرانیوں کو راحت ملی اور جن لوگوں کو شھر بدر کردیا گیا تھا وہ واپس لوٹ آئے اور انھوں نے بھی شھر کا دفاع کیا۔

تقریباً(۶۰)سال کے عرصے سے سرمایہ دار اور مالدار افراد نے ایران اور ہندوستان سے (فتنہ وفساد کی خاطر) اپنے وطن کو چھوڑ کر ائمہ معصومینعلیهم السلامکے روضوں کو اپنے لئے پناہ گاہ بنالیا تھا، تاکہ ان روضوں کی برکت سے ان کی جان ومال محفوظ رہے، ایسے لوگوں کی اکثریت نجف، کاظمین اور کربلا ئے معلی میں رہنے لگی، اور انھوں نے ان مقامات کو اپنا وطن قرار دید یا جو عبادت اورزہد وتقویٰ کی جگہ تھی اور عالم آخرت پر توجہ کرنے کا مقام تھا نہ کہ مال دنیا جمع کرنے کی جگہ، اور نہ ہی وہ عیش وآرام کی جگہ جس کی فطرت انسان تقاضا کرتی ہے، اس طرح رباخوری کا لالچ اور بری بری بدعتوں کا ایجاد کرنا اور اس طرح کے برے برے اعمال وافعال کا انجام دینا کہ اگر کسی دوسرے اسلامی ملک میں انجام دئے جاتے تو ان پر بہت ملامتیں پڑتیں بلکہ ان کو سزا دی جاتی، آہستہ آہستہ تمام عتبات عالیہ خصوصاً کربلائے معلی میں لاپرواہی اس حد تک پہونچ گئی کہ شریعت کی حرام کردہ چیزیں، حلال اور وہ گناہ جو چوری چپے روا نہ تھے ان کو برملا اور کھلے عام انجام دیا جانے لگا، نہ ہی خدا سے شرم اور نہ ہی حجت اللہ(ائمہ (ع))سے حیا جو مخفی چیزوںاور دلوں کے اسرار سے بھی آگاہ ہیں، کتنی عظیم خطا اور غلطی اور کیاکیا فحشا ومنکر،مال دنیا کو جمع کرنے میں مشغول افراد نے جوار ائمہ (ع)میں نہیں انجام دی ،یہ لوگ سال میں ایک دفعہ بھی روضہ مبارک کی زیارت کے لئے نہیں جاتے تھے۔

عبد العزیز نجف اشرف پر حملہ کرنے سے ناکام رہا اس نے کربلائے معلی میں قتل وغارت کا پروگرام بنالیا، اور چونکہ کربلا میں کوئی قلعہ نہیں تھا چنانچہ اس نے سعود کو بارہ ہزار کا لشکر دیکر کربلا کے لئے روانہ کیا، سعود نے۱۲۱۶ھ میں عید غدیر کی صبح کربلا پر حملہ کردیا، اور تمام پیرو جوان کو تہہ تیغ کردیا کثیر تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے اور تمام عورتوں کو بہت ستایاالبتہ ان کی آبرو ریزی نہیں کی، حضرت امام حسینںکی ضریح مطھر اور صندوق منور کو توڑ ڈالا، اور وہاں کی ساری قیمتی قندیلوں، اور گرانبھا فرش نیز دیگر تمام اسباب کو غارت کرادیا، روضوںکے آئینوں کو توڑ ڈالا، یہاں تک کہ در ودیوار کو بھی ویران کردیا، زر وجواہرات جوخزانہ خانہ میں موجودتھے سب کو لوٹ لیا، گلی کوچوں سے خون کی ندی بہہ رہی تھی، اور ایک بار پھر وہاں روز عاشور کاسا واقعہ رونما ہوگیا،اس حادثے میں قتل ہونے والوں کی تعداد معتبر ذرایع کے مطابق پانچ ہزار اور کس قدر مال واسباب غارت کیا گیا خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

قتل وغارت کے سات آٹھ گھنٹے بعد تمام لوٹا ہواسامان اونٹوں پر لادکر درعیہ شھر کی طرف لوٹ گئے۔(۴۷۰)

میرزا ابو طالب خان اصفھانی صاحب بھی اسی زمانہ میں موجود تھے اور کربلاپر حملے کے گیارہ مھینے بعد وہ کربلائے معلی پہونچے انھوں نے اس حادثہ کی روداد ان لوگوں سے سنی ہے جو اس حادثہ کے عینی شاہد تھے، چنانچہ موصوف نے اس واقعہ کی تفصیل اپنے سفر نامہ میں لکھی ہے نیز مختصر طور پر وہابیوں کی تاریخ بھی ذکر کی ہے، موصوف فرماتے ہیں :(۴۷۱)

”اس فرقہ کا بانی عبد الوہاب (محمد بن عبد الوہاب) جو دجلہ (نجد صحیح ہے) کا رہنے والا تھا، ابراہیم نامی شخص کے پاس جو کہ درعیہ کے ایک دیھات میں بنی حرب سے تھا ،منھ بولے بیٹے کی طرح پرورش پائی، اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں ذھین اور عقلمندی میں معروف تھا، اور بہت زیادہ سخی تھا اس کے ھاتھ میں جو کچھ بھی آتا تھا اس کو اپنے ساتھیوں کو دیدیتا تھا،اس نے اپنے وطن میں عربی اور فقہ حنفی (حنبلی صحیح ہے) کو پڑھا، اور اس کے بعد اصفھان کا سفر کیا اور وہاں کے مشہور ومعروف حکمت کے اساتید سے کچھ تعلیم حاصل کی، اس کے بعد عراق، خراسان اورغزنین کی سرحد تک سیر کی اور اپنے وطن واپس چلا گیا۔

۱۱۷۱ھ (۱۱۵۳ھ صحیح ہے) سے اس نے اپنے عقائد لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کیا، شروع شروع وہ اصول میں امام اعظم ابوحنیفہ (احمد ابن حنبل صحیح ہے) کا مقلد تھا اور فروع میں اپنے نظریہ کے مطابق عمل کرتا تھا لیکن بعد میں اس نے اصول میں بھی تقلید کرنا چھوڑ دی اوراپنی من پسند چیز پر عمل کرتا تھا اور اسی کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتا تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں کو مشرک اور بت پرستوں کے دائرے میں مانتا تھا، بلکہ انھیں وہ عزّیٰ اور هبل کی عبادت کرنے والے کفار سے بھی بدتر کہتا تھا، کیونکہ کفار پر جب مصیبت اور بلا نازل ہوتی ہے تو وہ بے اختیار خالق کی طرف رجو ع کرتے ہیں، اور مسلمان مشکلات کے وقت صرف حضرت محمدمصطفی اور حضرت علیںاور دیگر ائمہ (ع)اور صحابہ کو پکارتے ہیں،اور عام مسلمان جوتعظیم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ کی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں ان حضرات سے توسل کو بت پرستی کا نام دیتا ہے اور کہتا ہے:۔

ان کا یہ کام بتوں کی عبادت سے کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ بت پرست بھی مثلاً چین اور ہندوستان میں بتوں کے مجسمہ کو خالق نہیں کہتے بلکہ ان کو اپنا قبلہ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے نزدیک ہمارے شفیع ہیں۔

ھی حال یہود ونصاریٰ کا بھی ہے جو حضرت موسیٰںاور حضرت عیسیٰںکی تصویروں کی پرستش کرتے ہیں، خدا پرستی تو یہ ہے کہ کسی کی شرکت کے بغیر خدا وندعالم کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ نجد کے بعض قبیلے اس کے مرید ہوگئے اور آہستہ آہستہ اس کا مذہب دوسرے علاقوں میں شھرت پانے لگا۔

اس کا نظریہ تھا کہ روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیهم السلام کی قبروں کو گرادیا جائے اور جب بھی موقع ملے اس کام کو ضرور انجام دیا جائے لیکن موت نے اس کو فرصت نہ دی اوروہ یہ حسرت لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوا۔

اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا محمد اس کے دین کا امام اور مفتی قرار پایا محمد دونوں آنکھوں سے اندہا ابھی تک زندہ ہے اوراپنے گھر میں گوشہ نشین ہے۔(۴۷۲)

عبد العزیز سلسلہ وہابیت کا پہلا خلیفہ اور اس کا بیٹا سعود (ابو طالب خان اصفھانی کی نقل کے مطابق)

عبد العزیز بن سعود بھی مذکورہ ابراہیم کا پرورش کردہ تھا جب وہ مسند خلافت پر بیٹھااور اسے امیر المسلمین کہا جانے لگا نیز وھی صاحب لشکر اور صاحب حکم بن گیا، عبد العزیز لمبے قد اور بھاری جسم کا انسان تھا،(۷۰)سال کی عمر ہوچکی تھی لیکن کمزوری نہیں آئی تھی، بلکہ چالیس سال سے اس کے خاندان میں سے کوئی نہیں مرا تھا اور یہ کہتے تھے کہ جب تک یہ دین مستحکم نہیں ہوگا ہم میں سے کوئی نہیں مرے گا، اور اس بات پر لوگوں کا عقیدہ راسخ ہوگیا تھا، اس کا ایک بیٹا ہے جو بہت بھادر اور عقلمند ہے اس کا نام سعود بن عبد العزیز ہے جو بڑا جنگجو اور اس کا قائم مقام ہے۔

خلاصہ یہ کہ عبد العزیز ہفتہ میں دو دفعہ محمد بن عبد الوہاب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور اس سے دینی مسائل معلوم کرتا تھا اور اس کے فتووں کی بدولت اس نے دیگر ملکوں پر چڑھائی کی اور نماز اور دوسرے احکام میں اس کی اقتدا کرتا تھا، اور اس طریقہ میں وہ (ابن) عبد الوہاب سے بھی زیادہ سخت ثابت ہواہے لہٰذا اس نے بھی نجد پر اکتفاء نہ کی بلکہ دور دراز کے علاقوں میں بھی اس فرقہ کو پھیلانے کی کوشش کی اور اس راستہ میں اپنے پیروکاروں کے لئے دوسرے فرقوں کی جان ومال اور ناموس کو بھی حلال اور مباح کردیا، اور ان سے یہ قول وقرار کیا کہ اگر وہ اس راستہ میں قتل ہوجائیں تو وہ خود ان کی بیوی بچوں کا کفیل ہوگا اور جنت میں جانے کی ضمانت بھی لیتاتھا اسی لئے جب مجاہدین کو رخصت کرتا تھا تو خازن جنت کے نام ایک رقعہ لکھ کر دیتا تھا جو اس مجاہد کے گلے میں ڈال دیا جاتا تھا، تاکہ مرنے کے فوراً بعدبغیر سوال وجواب کے سیدہے جنت الفردوس میں بھیج دیا جائے، اس کے احکام اس طرح سے نافذ ہوتے تھے کہ واقعاً تعجب ہوتا ہے، وہ زمین پر بیٹھ کر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا تھا، تمام ملک کی درآمد کو صرف فوجی ضروریات پر خرچ کرتا تھا اس کے پاس صدر اسلام کی طرح عرب کے مختلف قبیلوں پر مشتمل ایک عظیم لشکر تھا جب بھی وہ فرمان جاری کرتاتھا سارا لشکر ثواب اور مال غنیمتحاصل کرنے کے لئے فوراً تیار ہوجاتا تھا۔

خمس اس کا حصہ ہوتا تھا اور باقی تمام مال،مال غنیمت شمار کیا جاتا تھا، سبھی کم کہانے والے اور ھلکے جسم والے زحمت کش لوگ ہیں، صرف چند خرموں پر اپنا پورا دن گذار دیتے ہیں اور ایک عبامیں سالوں گذار دیتے ہیں،ان کے سب کے سب گھوڑے نجدی اور معروف ومشہور نسل کے ہوتے ہیں بلکہ نجدی گھوڑوں کو کہیں باہر نہیں جانے دیتے، وہ اب تک مکہ ومدینہ اور مسقط کے علاوہ جزیرة العرب کے تمام شھروں کو فتح کرچکا ہے، حرمین (مکہ ومدینہ) کو چھوڑنے کا سبب یہ ہے کہ چونکہ وہ خانہ کعبہ کا بہت زیادہ احترام کرتا ہے اور کسی بھی قبیلہ کے حجاج ہوں سب کو کہانا کھلاتا ہے اوران کی رخصتی کے وقت بدرقہ(۴۷۳) کرتا ہے۔

حجاج کے قافلوں کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کی ولایت سے گذریں ورنہ جو لوگ جاچکے ہیں ان کو واپس لوٹا لیا جائے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ شریف ِمکہ بھی اسی کے افراد میں سے ہے، اور اس نے استانبول کے امراء کے دباو میں موجودیت کا اظھار کر دیا ہے ۔

اسی وجہ سے ان علاقوں پر بھی عبد العزیز نے فتح حاصل کرنے کی ٹھا ن لی اور اپنے بیٹے سعود کو بے شما رلشکر کے ساتھ وہاں بھیجا اس نے پہلے تو طائف کے لوگوں کا قتل عام کیا اور ان کے گھروں میں آگ لگادی اور ایک کثیر تعداد کو اسیر کرلیا، اورچونکہ اس وقت حج کا زمانہ تھا وہاں رکا، لیکن ایک ناگھانی بلا کی طرح مکہ کو بھی فتح کرلیا، اور وہاں کے بعض متبرکہ چیزوں کو نابود کرڈالا، اور اس کے بعد ”جدّہ“ پہونچا، وہاں پہونچتے ہی اس کا محاصرہ کرلیا،لیکن شریف ِ مکہ مخفی طریقہ سے ایک جھاز پر سوار ہو کر ”بحرقلزم“(۴۷۴) بھاگ گیا۔

چنانچہ وہاں کے لوگوں نے کچھ مال دیکراس سے صلح کرلی ،اور چونکہ سعود عُمّان کا ارادہ رکھتا تھا اسی وجہ سے اس نے اسی کو غنیمت جانا اورپھر وہاں سے عمان کی طرف چلا گیا، اسی دوران شریف دوبارہ جدّہ اور مكّہ واپس چلاآیا، تھوڑے لوگ جو اس کی ولایت میں تھے انھوں نے اس کو قتل کردیا اور بھاگ نکلے، اس وقت سعود مسقط کی طرف بڑھا، اوروہاں کے بادشاہ سے جنگ کی، چنانچہ وہاں کی عوام الناس نے بھی اس کے مذہب کو قبول کرلیا اور اپنے بادشاہ سے بغاوت کی اور وہاں کے سلطان کا بھائی بھی وہابی ہوگیا اور اس کو امام المسلمین کا لقب دیا گیا، اور جب بادشاہ کے پاس اپنے قلعہ اور شھر کے اطراف کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا، یہ دیکھ کر سعود نے یقین کرلیا کہ یہ بادشاہ اب خود بخود تسلیم ہوجائے گا لہٰذا مزید کوئی حملہ نہ کیا، اسی طرح بصرہ اور حلّہ کے لوگوں میں وہابیوں کے خوف ووحشت کی وجہ سے رات کی نیند حرام ہوگئی اسی طرح کربلا اورنجف میں راتوں کو لوگ پھرہ دینے لگے، اورنجف کے روضہ کی قیمتی چیزوں کو کاظمین میں لے جاکر محفوظ کر دیا گیا ۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عنقریب بصرہ بھی فتح ہوجائے گا کیونکہ بصرہ سے تین فرسخ پہلے تک اس کا قبضہ ہوچکا تھا اور ”عتوب“ نامی قبیلہ پر دوسال پہلے ہی سے قبضہ تھا یہ لوگ پانی کے جھاز چلانے والے تھے اور ان کی زمینی طاقت، دریائی طاقت کی وجہ سے بڑھ گئی تھی، چنانچہ بصرہ کو فتح کرنے کے بعد بغدا د اوراس کے بعد استانبول کا علاقہ فتح ہونا آسان تھا۔(۴۷۵)

ایک اور قدیم ایرانی آثار جس میں وہابیوں کے عقائد کے بارے میں گفتگو ہوئی ہےکتاب ”بستان السیاحہ“ تالیف حاج زین العابدین شیروانی (متولد۱۱۹۴ھ، متوفی۱۲۵۳ھ)ھے جو فتح علی شاہ کے زمانہ کے مشہور ومعروف صوفی تھے، موصوف نے امیر سعود ابن عبد العزیز سے نجد میں ملاقات بھی کی ہے، (سعود بن عبد العزیز کے حالات زندگی آل سعود کی تاریخ میں بیان ہوں گے، انشاء اللہ) موصوف نے اپنی ملاقات میں اس سے وہابی مذہب کے بارے میں سوالات کئے اورسعود نے اس کے سوالوں کا جواب دیا، ہم یہاں پر بستان السیاحہ کی اصل عبارت نقل کرتے ہیں:

”راقم (زین العابدین شیروانی) نے امیر سے سوال کیا کہ وہابی مذہب کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس فرقہ کا مُحدِّث (ایجاد کرنے والا) کون ہے؟

امیر نے جواب میں کہا کہ وہابی مذہب کوئی نئی ایجاد نہیں ہے لیکن چونکہ محمد بن عبد الوہاب نے اس مذہب کو رائج کیا ہے اس وجہ سے لوگوں کی زبان پر یہ بات ہے (کہ اس مذہب کا بانی محمد بن عبد الوہاب ہے) ورنہ یہ کوئی نیامذہب نہیں ہے بلکہ وھی سلف کا مذہب ہے، اس کا اعتقاد یہ ہے کہ خداوندعالم کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ہے،اور انبیاءعلیهم السلاماوراولیاء اللہ کی شفاعت کا عقیدہ بے معنی ہے اور اسی طرح انبیاءعلیهم السلام اور اولیاء اللہ کی قبروں پر گنبد بنانا بدعت ہے اور وہ چیزیں جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھیں وہ بدعت اورگمراہی ہیں۔

اسی طرح انبیاء، ملائکہ اور اولیاء اللہ سے شفاعت طلب کرنا شرک ہے اور جو چیز حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھی وہ بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے مثلاً حقّہ پینا یا مردوں کو عورتوں کا لباس پہننا اور مساجد اورمعابد کی زینت کرنا اسی طرح قرآن اور دوسری کتابوں کو (سونے کے پانی سے) تذھیب کرنا، انبیاء اور اولیاء اللہعلیهم السلام کی قبروں کو مزین کرنا، لمبی داڑھی رکھنااور کپڑوں میں عورتوں کی شبیہ بنانا، اور کسی کے سامنے اپنے سر کو جھکانا یا روضوں کو بوسہ دینا، اسی طرح ٹیکس وغیرہ لینا، بہت زیادہ لمبے یا چھوٹے کپڑے پہننا اور اسی طرح عورتوں کو زیندار گھوڑے پر سوار کرنا، یہ تمام کی تمام چیزیں بدعت ہیں۔

حقیر (زین العابدین شیروانی) نے ایک کتاب دیکھی ہے جس میں وہابیوں نے اپنے مذہب کو قرآن اور احادیث کے ذریعہ ثابت کیا ہے۔(۴۷۶)

وہابیوں کا تذکرہ دوسری قدیم ایرانی کتابوںمثلاً ناسخ التواریخ، روضة الصفا، ناصری اور منتظم ناصری میں بھی موجود ہے جس کو ہم وہابیوں کے کربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملہ کی بحث میں بیان کریں گے۔

قارئین کرام !جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ وہابیوں کے بارے میں اس وقت کے ایرانی علماء کی معلومات بہت کم تھی اور ایک حد تک نادرست تھی، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس زمانہ میں وہابیوں کا دور دراز کے علاقوں سے اتنا زیادہ واسطہ نہیں تھا، اور دوسری بات جو میرزا ابوطالب صاحب نے بھی لکھا ہے کہ عثمانی حكّام کے بہکانے کی وجہ سے لوگ وہابیوں کے امور کو قابل حفظ و ضبط نہیں جانتے تھے۴۷۷ درحالیکہ وہابیوں کی خبریں عثمانی سر زمین (ترکی) سے گذر کر ایران پہونچتی تھیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت مواصلاتی نظام (اخبار وغیرہ) کے وسائل بہت محدود اور کم تھے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اور خبروں کو ایک طرف سے دوسری طرف صرف مسافروں کے ذریعہ پہونچایا جاتا تھا، اور مسافرین بھی جو چیزیں مشہور ہوتی تھیں اسی پر اکتفاء کرتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ خود بعض چیزوں کا اپنی طرف سے اضافہ کردیا کرتے تھے، ان تمام چیزوں کے باوجود ابو طالب کی تحریر کے مطابق بعض نئی چیزیں واضح ہوتی ہیں جو وہابیوں کی تاریخ کی تحقیق میں موثر ثابت ہوسکتی ہیںخاص طور سے اس لئے بھی کہ یہ چیزیں ان لوگوں کے قلم سے ہیں جو وہابیت کی پیدائش کے زمانہ میں زندگی بسرکرتے تھے، اور مذکورہ واقعات انھیں کے زمانہ میں رونما ہوئے لہٰذا تاریخی اعتبار سے ان کی ایک خاص اہمیت ہے۔

____________________

۴۶۳. مذکورہ عبارت قدیم فارسی کا ترجمہ ہے لہٰذا جسے ذرا سا دخل وتصرف کے ساتھ انجام دیا گیا ہے، مترجم۔

۴۶۴ .عبد العزیز کو خان کا لقب دینے کی وجہ یہ ہے کہ مولف کتاب تحفة العالم اس علاقہ کے تحت تاثیر واقع ہوگئے تھے کیونکہ خان کا لقب اس زمانہ میں ہندوستان اور ایران میں رائج تھا جبکہ نجد میں اس کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔

۴۶۶. وہابیوں کی تاریخ کی تفصیل کے دوران،ان کے مقابل سلطان عثمانی کے اقدامات اور فتح علی شاہ کی کوششوں کے بارے میں بیان کیا جائے گا۔

۴۶۷. ذیل التحفة ص ۸ سے ۔

۴۶۸. ہم یہ ضروی سمجھتے ہیں کہ جناب آقای مدرسی طباطبائی کا شکریہ ادا کریں جنھوں نے مذکورہ خط سے آگاہ کیا اور مجھے وہ کتاب دکھائی جس میں اصلی خط کا عکس موجود ہے۔

۴۶۹. ہم نے پہلے یہ بات عرض کی ہے کہ سب سے پہلے محمد بن عبد الوہاب اور محمد بن سعود (جو کہ عبد العزیز کا باپ تھا) میں بہت زیادہ رابطہ پیدا ہوا، نہ کہ عبد العزیز اور محمد بن عبد الوہاب میں ۔

۴۷۰. مآثر سلطانیہ، ص ۸۲ سے ۸۵تک۔ کربلا و نجف پروہابیوںکے حملہ کے بارے میں بیان کیا جائے گاکہ پہلے کربلاپر حملہ کیا اور ان کا سردار امیر سعود ابن عبد العزیز تھا۔

۴۷۱. کربلا پر وہابیوں کے حملہ کی شرح جس طرح کے میرزا ابو طالب نے لکھی ہے بعد میں بیان ہوگی.

۴۷۲. موصوف کی یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ مسلّم یہ ہے کہ اس مذہب کا بانی محمد بن عبد الوہاب ہے نہ کہ عبد الوہاب، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ خود عبد الوہاب اپنے بیٹے کا شدید مخالف تھا، اسی طرح محمد کا نابینا ہونا اور اس کی اور عبد العزیز کی پرورش ابراہیم نامی شخص (قبیلہ بنی حرب) کے گھر میں یہ بھی ایسی بات ہے کہ مولف کی نظر میں اس کا کوئی دوسرا ثبوت نہیں ملتا، اور جیسا کہ معلوم ہوتا ہے کہ میرزا ابوطالب کی بعض باتیں وھی ہیں جن کو سید عبد اللطیف شوشتری نے بیان کیا ہے اور چونکہ یہ دونوں مولف ہم عصر تھے ظاہراً یہ مطالب ابو طالب صاحب نے شوشتری صاحب کی کتاب سے لئے ہیں۔

۴۷۳. بدرقہ سے یہاں مراد یہ ہے کہ ان کے ساتھ کچھ سپاہی بھیجا وہ راستہ میں رہزنوں کے شر سے محفوظ رہیں۔

۴۷۴. بحر قلزم دریائے سرخ کو کہا جاتا ہے۔

۴۷۵. سفر نامہ میرزا ابو طالب (مسیر طالبی) ص ۴۰۹

۴۷۶. بستان السیاحہ ص ۶۰۲، لفظ نجد کے ذیل میں ، شیروانی حدائق السیاحہ (۵۴۵)میں انھیں چیزوں کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ لکھتے ہیں مثلاً سعود بن عبد العزیز سے ملاقات کرنے کے بجائے شیخ عبد اللہ بن سعود سے ملاقات کو ذکر کیا ہے۔

۴۷۷. سفر نامہ میرزا ابو طالب ص ۴۰۹۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات اقدس کو موضوع سخن قرار دینا اور آپ کی سیرت طیبہ پر قلم اٹھانا نہایت ہی دشوار امر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم امام کی معرفت و آشنائی سے متعلق مآخذ و مصادر بہت ہی ناقص اور نا مساعد ہیں ۔

اکثر محققوں اور سیرت نگاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ عظیم ہستی محض ایک گوشہ نشین عابد و زاہد جیسی زندگی گزارتی رہی جس کو سیاست میں ذرہ برابر دلچسپی اور دخل نہ تھا ۔ بعض تاریخ نویسوں او ر سیرت نگاروں نے تو اس چیز کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور وہ حضرات جنھوں نے صاف صاف وضاحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی انھوں نے بھی امام علیہ السلام کی زندگی سے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس سے مختلف نہیں ہیں چنانچہ حضرت (ع) کو دیئے جانے والے القاب اور حضرت (ع) کے سلسلہ میں استعمال کی جانے والی تعبیرات سے یہ بات بہ آسانی درک کی جا سکتی ہے ۔

بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو ”بیمار “کے لقب سے یاد کیا ہے جب کہ آپ کی بیماری واقعہ عاشورہ کے ان ہی چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد اس کا سلسلہ باقی نہ رہا ،تقریبا سب ہی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار پڑجاتے ہیں ،اگر چہ امام زین العابدین علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت بھی کارفرما تھی در اصل پروردگارعالم کو ان دنوں خدا کی راہ میں جہاد و دفاع کی ذمہ داری ،آپ پر سے اٹھالینا مقصود تھا تا کہ آئندہ (شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد )امانت و امامت کا عظیم بار اپنے کاندھوں پر لے سکیں اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت ہی سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

اگر آپ امام زین العابدین (ع) کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو ہمارے دیگر ائمہ کی طرح یہاں بھی ایک سے ایک نئے نئے قابل توجہ حادثات کا ایک سلسلہ نظر آئے گا لیکن ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ان تمام واقعات کو اگر یکجا کر بھی لیں تب بھی امام علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا سمجھ لینا آپ کے لئے آسان نہ ہوگا ۔

کسی کی سیرت کو صحیح معنوں میں سمجھنا یا سمجھانا اسی وقت ممکن ہے جب اس شخصیت کے اصول اور بنیادی موقف کو اچھی طرح درک کرلیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں اس کی جزئیات زندگی سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔اصل میں جب بنیادی موقف کی وضاحت ہوجاتی ہے جزئیات بھی بے زبان نہیں رہتے ،خود بخود معنی پیدا کرلیتے ہیں ۔اس کے برخلاف اگر اصولی موقف ہم پر واضح نہیں ہوسکے ہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں تو جزئی واقعات بھی یا تو بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر ان کو غلط معنی پہنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور یہ صرف امام زین العابدین (ع) یا ہمارے دیگر ائمہ طاہرین (ع) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اصول ہر شخص کی زندگی کے تجزیہ کے وقت پیش آسکتا ہے ۔

امام سجاد (ع) کے سلسلہ میں نمونہ کے طور پر ،محمد بن شہاب زہری کے نام حضرت (ع) کا خط پیش کیا جاسکتا ہے جو آپ کی زندگی کا ایک حادثہ ہے یہ وہ خط ہے جو خاندان نبوت و رسالت کی ایک عظیم فرد کی طرف سے اس دور کے مشہور و معروف دانشور کو لکھا گیا ہے اب اس سلسلہ میں مختلف انداز سے اظہار رائے کی گنجائش ہے ممکن ہے یہ خط کسی اساسی نوعیت کے حامل وسیع سیاسی مبارز کا ایک حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے برے کاموں سے روکنے کی ایک سیدھی سادی نصیحت یا محض ایک شخصیت کا دوسری شخصیت پر کیا جانے والا اسی قسم کا ایک اعتراض ہو جس قسم کے اعتراضات دو شخصیتوں یا کئی شخصیتوں کے مابین تاریخ میں کثرت سے نظر آتے ہیں ۔ظاہر ہے دیگر حادثات وواقعات سے چشم پوشی کرکے صرف اس واقعہ سے کسی صحیح نتیجہ تک کبھی بھی نہیں پہنچا جاسکتا ۔میں اس نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ان جزئی واقعات کو امام علیہ السلام کے اصولی وبنیادی موقف سے علیحدہ کرکے مطالعہ کرنا چاہیں تو امام سجا علیہ السلام کی سوانح زندگی ہم پر روشن نہیں ہوسکتی ۔لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم امام علیہ السلام کے اصولی اور اساسی موقف سے آگاہی حاصل کریں ۔

چنانچہ ہماری سب سے پہلی بحث امام زین العابدین علیہ السلام کے بنیادی موقف سے متعلق ہے اور اس کے لئے خود امام علیہ السلام کی زندگی ،آپ کے کلمات نیز دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت وزندگی سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بڑی ہی باریک بینی کے ساتھ نکات درک کرکے بحث کرنا ہوگی۔

حادثات زندگی میں ائمہ علیہم السلام کا بنیادی موقف

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ۴۰ ء ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سے کبھی پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت علیہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر میں بیٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الٰہیہ کی تشریح وتفسیر کرتے رہیں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بنیادی موقف اور منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہیں ہموار کریں چنانچہ یہ فکر خود امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی اور کلام میں بطور احسن ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔

امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرلی تو بہت سے ناعاقبت اندیش کم فہم افراد نے حضرت علیہ السلام کو مختلف عنوان سے ہدف بنالیا اور اس سلسلہ میں آپ کو مورد الزام قرار دینے کی کوشش کی گئی کبھی تو آپ (ع) کو مومنین کی ذلت ورسوائی کا باعث گردانا گیا اور کبھی یہ کہا گیا: ”آپ نے معاویہ کے مقابلہ پر آمادہ جوش وخروش سے معمور مومنین کی جماعت کوذلیل وخوار کردیا معاویہ کے سامنے ان کا سر جھک گیا “۔بعض اوقات احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ذرا نرم وشائستہ انداز میں بھی یہی بات دہرائی گئی ۔

امام علیہ السلام ان تمام اعتراضوں اور زبان درازیوںکے جواب میں انھیں مخاطب کرکے ایک ایسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شاید حضرت کے کلام میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور بہتر ہو ۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ : ما تدری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الیٰ حین“ تمھیں کیا خبر شائد یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور معاویہ کے لئے ایک عارضی سرمایہ ہو ۔ اصل میں یہ جملہ قرآن کریم سے اقتباس کیا گیا ہے۔

اس جملہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت کو مستقبل کا انتظار ہے اور وہ مستقبل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ امام علیہ السلام کے نظر یہ کے مطابق حق سے منحرف موجودہ ناقابل قبول حکومت برطرف کی جائے اور اس جگہ آپ کی پسندیدہ حکومت قائم کی جائے جبھی تو آپ ان لوگوں سے فرماتے ہیں کہ تم فلسفہ صلح سے واقفیت نہیں رکھتے تمھیں کیا معلوم کہ اسی میں مصلحت مضمر ہے ۔

آغاز صلح میں ہی عمائدین شیعہ میں سے دو شخصیتیں ،مسیب بن نجیہ اور سلیمان بن صردخزاعی چند مسلمانوں کے ہمراہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کیا:ہمارے پاس خراسان وعراق وغیرہ کی خاصی طاقت موجود ہے اور ہم اسے آپ کی اختیار میں دینے کے لئے تیار ہیں اور معاویہ کا شام تک تعاقب کرنے کے لئے حاضر ہیں ۔حضرت علیہ السلام نے ان کو تنہائی میں گفتگو کے لئے طلب کیا اور کچھ بات چیت کی ،جب وہ وہاں سے باہر نکلے تو ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار ہویدا تھے ۔انھوں نے اپنے فوجی دستوں کو رخصت کردیا حتی کہ ساتھ آنے والوں کو بھی کوئی واضح جواب نہ دیا۔

طہٰ حسین کا خیال ہے” در اصل اسی ملاقات میں شیعوں کی تحریک جہاد کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا تھا۔“یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ،ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھے ،مشورے ہوئے اور اسی وقت شیعوں کی ایک عظیم تنظیم کی بنا رکھ دی گئی۔

چنانچہ خود امام (ع) کے حالات زندگی اور مقدس ارشادات سے بھی واضح طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے ۔اگر چہ یہ زمانہ اس قسم کی تحریک اور سیاسی جدوجہد کے لئے سازگار نہ تھا ۔لوگوں میں سیاسی شعور بے حد کم اور دشمن کے پروپیگنڈوں نیز مالی دادووہش کا بازار گرم تھا ۔دشمن جن طریقوں سے فائدہ اٹھا رہاتھا ،امام علیہ السلام اختیار نہیں کرسکتے تھے۔مثال کے طور پر بے حساب پیسہ خرچ کرنا اور معاشرہ کے چھٹے ہوئے بد قماش افراد کو اپنے گرد اکٹھا کرلینا امام علیہ السلام کے لئے ممکن نہ تھا۔ظاہر ہے دشمن کا ہاتھ کھلا ہوا تھا اور امام کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔آپ اخلاق وشریعت کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکے تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ امام حسن علیہ الصلوٰۃ و السلام کا کام نہایت ہی عمیق ،دیر پا اور بنیادی قسم کا تھا ۔دس برس تک حضرت (ع) اسی ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ لوگوں کو اپنے قرب کیا اور انھیں تربیت دی ۔کچھ لوگوں نے مختلف گوشہ و کنار میں جام شہادت نوش کرکے معاویہ کی حکومت سے کھل کر مقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر اس کی مشینری کو کافی کمزور بنایا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ (ع) نے بھی اسی روش پر کام کرتے ہوئے مدینہ ،مکہ نیز دیگر مقامات پر اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ معاویہ دنیا سے چلا گیا ،اور کربلا کا حادثہ رو نما ہو ا ۔اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کربلا کا حادثہ اسلام کے مستقبل کے لئے نہایت ہی مفید اور ثمر آور ثابت ہوا لیکن وقتی طور پر وہ مقصد جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو شاں تھے کچھ دنوں کے لئے اس میں تاخیر ہو گئی کیوں کہ اس حادثہ نے دنیائے اسلام کو رعب و حشت میں مبتلا کر دیا تھا ۔امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے قریبی رفقاء کو تہ تیغ کر دیا گیا او ر دشمن کو تسلط و غلبہ حاصل ہو گیا ۔ اگر اقدام امام حسین علیہ السلام اس شکل میں نہ ہوتا اور یہ تحریک طبیعی طور پر جاری رہتی تو یہ بات بعید از امکان نہیں کہ مستقبل قریب میں جد و جہد کچھ ایسا رخ اختیار کر لیتی کہ حکومت کی باگ ڈور شیعوں کے ہاتھ میں آجاتی ۔البتہ یہاں اس گفتگو کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ معاذ اللہ ،امام حسین علیہ السلام کو انقلاب برپا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔بلکہ اس وقت حالات نے کروٹ ہی کچھ ایسی بدلی تھی کہ حسینی(ع) انقلاب ناگزیر ہو گیا تھا ،اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اسلام کی بقا کے لئے حسینی(ع) انقلاب بے حد ضروری تھا ، لیکن اگر یکا یک حالات یہ رخ اختیار نہ کر لئے ہوتے اور امام حسین علیہ السلام اس حادثہ میں شہید نہ ہوئے ہوتے تو شاید جلد ہی مستقبل سے متعلق امام حسن علیہ السلام کا منصوبہ بار آور ہو جاتا ۔

چنانچہ یہاں میں ایک روایت نقل کر رہا ہوں جس سے اس بیان کی واضح تائید ہو تی ہے ۔اصول کافی میں ابو حمزہ ثمالی کی ایک روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کی گئی ہے :

سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : یا ثابت ،ان اللّٰه تبارک و تعالیٰ قد کان وقت هٰذا الامر فی السبعین

”ھٰذاالامر “سے مراد حکومت و ولایت اہلیت علیہم السلام ہے کیوں کہ روایت میںہے ، اگر تمام مقامات پر نہ کہا جائے تو اکثر و بیشتر مقامات پر جہاں جہاں بھی ھٰذا الامر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اس سے مقصود اہلبیت علیہم السلام کی حکومت و ولایت ہی ہے اگر چہ بعض موارد میں یہ کلمہ ،تحریک اور اقدام کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور وہاں حکومت مراد نہیں ہے ۔ بہر حال ھٰذ الامر ، یہ موضوع ۔ کو ن سا موضوع ؟وہی جو شیعیان آل محمد (ص) کے درمیان رائج و مرسوم رہا ہے اور جس کے بارہ میں برسوں گفتگو ہوتی رہی ہے جس کی تکمیل کی آرزو اور منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم اس امر ( یعنی حکومت اہلبیت(ع) ) کے لئے ۷۰ ئہجری معین کر چکا تھا ،اور یہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے دس سال بعد کی تاریخ ہے ۔

امام اس کے بعد فرماتے ہیں :

فلما ان قتل الحسین صلوات اللّٰه علیه اشتد غضب اللّٰه تعالیٰ علیٰ اهل الارض فاخره الیٰ اربعین ومائة

جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا ، اہل زمین پر خدا وند عالم کے غضب میں شدت پیدا ہو گئی اور وہ ( تاسیس حکومت کا ) وقت ۴۰ ۱ ئہجری تک کے لئے آگے بڑھادیا گیا ۔

یہ تاریخ ( ۱۴۰ ئہجری ) امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت سے آٹھ سال قبل کی ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کی ذیل میں ہم ۱۴۰ ئہجری کی اہمیت کے بارہ میں تفصیلی بحث کریں گے ،اس سلسلہ میں میرا خیال یہی ہے کہ وہ ولی امر جس کے ذریعہ ایک انقلابی اقدام کے تحت اہلبیت (ع) کا حق واپس ملنا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہی ذات مبارک ہونی چاہئے تھی مگر اس وقت بنو عباس نے خود خواہی عجلت پسندی ،دنیا پرستی اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا اور فرصت بھی اہلبیت (ع) کے ہاتھ سے چھین لی گئی اور وعدہ الٰہی پھر کسی اور وقت کے لئے ٹل گیا۔

روایت کے آخری فقرے یہ ہیں :

فحدثناکم فاضعتم الحدیث و کشفتم حجاب الستر ( ایک دوسرے نسخہ میں قناع الستر ہے) ولم یجعل اللّٰه له بعد ذالک وقتا عندنا ، و یمحوا اللّٰه مایشاء و یثبت و عنده ام الکتاب

یعنی ہم نے تم لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور تم نے اس کو نشر کر دیا بات پردہ راز میں نہ رکھ سکے ،عوام میں نہ کہا جانے والاراز افشا کر دیا ۔ لہٰذا اب خدا وند عالم نے اس امر کے لئے کوئی دوسرا وقت معین طور پر قرار نہیں دیا ہے خدا وند عالم اوقات کو محو کر دیا کرتا ہے جس چیز کی چاہتا ہے نفی کر دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت کر دکھاتا ہے ۔ اور یہ بات نا قابل تردید مسلمات اسلام میں سے ہے کہ مستقبل کے سلسلہ میں جو بات خدا کی جانب سے حتمی قرار دی جا چکی ہے وہ نظر و قدرت الٰہی میں تغیر پذیر نہیں ہے ۔

ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں :

حدثت بذالک ابا عبدالله (ع) فقال کان کذالک(۱)

میں نے روایت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیان کی جس کو سن کر امام (ع) نے فرمایا: ہاں واقعا اسی طرح ہے ۔

اس قسم کی روایتیں بہت ہیں لیکن مذکورہ روایت ان سب میں واضح اور روشن ہے ۔

حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے

اسلامی حکومت کی تشکیل تمام ائمہ کا مقصد و ہدف رہا ہے ، وہ ہمیشہ اسی راہ پر گامزن رہے ہر ایک نے وقت اور حالات کے تحت اس راہ میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔چنانچہ جب کربلا کا حادثہ رونما ہو ااور سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوٰة و السلام شہید کر دیئے گئے نیز بیماری کی حالت میں ہی امام سجاد علیہ السلام کو اسیر بنا لیا گیا تو حقیقتا اسی وقت سے امام سجاد علیہ السلام کی ذمہ داریوں کا آغاز ہو گیا ۔ اب تک مستقبل ( حکومت اسلامی کی تشکیل ) کی جو ذمہ داری امام حسن علیہ السلام اورپھر امام حسین علیہ السلام کے کاندھوں پر تھی وہ امر امام زین العابدین علیہ السلام کے سپرد کر دیا گیا اب آپ (ع) کی ذمہ داری تھی کہ اس مہم کو آگے بڑھائیں اور پھر آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے اپنے دور میں اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی پوری زندگی کا اسی روشنی میں جائز ہ لیں ۔ اس بنیادی مقصد اور اصل موقف کو تلاش کریں ہمیں بلا کسی شک و شبہ کے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام بھی اسی الٰہی مقصد کی تکمیل میں کوشاں تھے جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سعی و کوشش فرما رہے تھے ۔

امام زین العابدین (ع) کی زندگی کا ایک مجموعی خاکہ

امام زین العابدین علیہ السلام نے ۶۱ ئھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں اور ۹۴ ء ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا ۔اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے اب آپ مذکورہ نقطہ نگاہ کی روشنی میں حضرت(ع) کی جزئیات زندگی کا جائزہ لیجئے کہ آپ (ع) اس ذیل میں کن مراحل سے گزرتے رہے کیا طریقہ کار اپنائے اور پھر کس حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔

وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہےں ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہئے چنانچہ اس پور دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہئے مثال کے طور پر ------------ :

۱ ۔ اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا ۔

۲ ۔ مسرف بن عقبہ کے مقابلہ میں -- جس کو یزید نے اپنی حکومت کے تیسرے سال مدینہ رسول (ص) کی تباہی اور اموال مسلمین کی غارت گری پر مامور کیا تھا -- امام (ع) کا موقف نہایت ہی نرم تھا ۔

۳ ۔ عبد الملک بن مروان جس کو خلفائے بنو امیہ میں طاقتور ترین اور چالاک ترین خلیفہ شمار کیا جاتا ہے ، اس کے مقابلہ میں امام (ع) کا موقف کبھی تو بہت ہی سخت اور کبھی بہت ہی نرم نظر آتا ہے -------

اسی طرح --------

۴ ۔ عمر بن عبد العزیز کے ساتھ آپ کا برتاؤ

۵ ۔ اپنے اصحاب اور رفقاء کے ساتھ آپ (ع) کا سلوک اور دوستانہ نصیحتیں اور

۶ ۔ ظالم و جابر حکومت اور اس کے عملے سے وابستہ درباری علماء کے ساتھ امام علیہ السلام کا رویہ؟

ان تمام موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے میں تو اسی نتیجہ پر بہنچا ہوں کہ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے ۔چنانچہ اگر اسی زاویہ سے امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی جو اس روئے زمین پر خدا وند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام ترکوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کا رگردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پر اگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے جو واقعہ عاشور کے بعد دنیا ئے اسلام پر مسلط ہو چکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے ۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے ( ہم ابھی ان کی طرف اشارہ کریں گے ) ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے ۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے یہاں تک کہ تقریبا ۳۵ سال کی انتھک جد و جہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سر بلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزندو جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرمادیئے۔

چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کو منصب امامت اور حکومت اسلامی کی تشکیل کی ذمہ داریوں کا سونپا جانا روایات میں بڑے ہی واضح الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔ ایک روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور محمد بن علی (ع) یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

” یہ صندوق اور یہ اسلحہ سنبھالو یہ تمھارے ہاتھوں میں امانت ہے “

اور جب صندوق کھولا گیا تو اس میں قرآن اور کتاب تھی۔

میرے خیال میں اسلحہ سے ، انقلابی قیادت و رہبری کی طرف اشارہ ،اور قرآن و کتاب ، اسلامی افکار و نظریات کی علامت ہے اور یہ چیزیں امام (ع) نے اپنے بعد آنے والے امام کی تحویل میں دے کر نہایت ہی اطمینان و سکون کے ساتھ آگاہ و بیدار انسانوں اور خدا وند عالم کی نظر میں سر فراز وسرخ رواس دنیا کو خیر باد کہا ہے ۔

یہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک مجموعی خاکہ ہے اب اگر ہم تمام جزئیات زندگی کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو صورت حال کو پہلے سے مشخص کر لینا چاہئے ۔

حضرت (ع) کی حیات مبارکہ میں ایک مختصر سا دور وہ بھی ہے جس کو منارہ زندگی سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا ۔ میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے اسی کا ذکر کروں اور پھر امام کی معمول کے تحت عادی زندگی ، اس زمانہ کے حالات و کو ائف اور ان کے تقاضوں کی تشریح کروں گا۔

در اصل امام علیہ السلام کی زندگی کاوہ مختصر اور تاریخ ساز دور ، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کازمانہ ہے جومدت کے اعتبار سے مختصرلیکن واقعات وحالات کے اعتبارنہایت ہی ہیجان اور وسبق آموز ہے جہاںاسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتاہے ۔بیما راورقید ہونے کے باوجودکسی عظیم مردمجاہد کے ماننداپنے قول وفعل کے ذریعہ شجاعت و دلیری کے بہترین نمونہ پیش کئے ہیں ۔اس دوران امام کا طرز عمل حضرت (ع) کی بقیہ عام زندگی سے -- جیسا کہ آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے -- بالکل مختلف نظر آتا ہے ۔ امام علیہ السلام کی زندگی کے اصلی دور میں آپ (ع) کی حکمت عملی مستحکم بنیاد پرپڑے ہی جچے تلے انداز میں نرم روی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھنا ہے حتی کہ بعض وقت عبد الملک بن مروان کے ساتھ نہ صرف ایک محفل میں بیٹھے ہوئے نظر آئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ آپ (ع) کا رویہ بھی نرم نظر آتا ہے جب کہ اس مختصر مدت ( ایام اسیری ) میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پر جوش انقلابی کے مانند نظر آتے ہیں جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے ۔

کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم ، عبد اللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کے مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔

بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینت (ع)اوراپنی بہن جناب سکینہ کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں ۔

اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم ، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوںسے پردہ اٹھاکر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع)کی حقانیت ، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

یہاں ان خطبوں کو نقل کرکے امام (ع) کے فقروں کی گہرائی پیش کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی کیوں کہ یہ خود ایک مستقل کام ہے اور اگر کوئی شخص ان خطبوں کی تشریح و تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان بنیادی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایک لفظ کی تحقیق اور چھان بین کرے ۔ یہ ہے امام (ع) کی اسارت اور قید و بند کی زندگی جو جرات و ہمت اورشجاعت و دلاوری سے معمور نظر آتی ہے ۔

رہائی کے بعد

ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کے پیش نظر امام علیہ السلام کے موقف میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ اب قید سے چھوٹ کر آپ نہایت ہی نرم روی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں تقیہ سے کام لیتے ہیں ۔ اپنے تیز و تند انقلابی اقدامات پر دعا اور نرم روی کا پردہ ڈال دیتے ہیں تمام امور بڑی خاموشی کے ساتھ انجام دیتے ہیں جب کہ قید و بند کے عالم میں آپ نے ایسے دلیرانہ عزائم کا اظہار اور مخاصمت آمیز اقدام فرمایا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک استثنا ئی دور تھا یہاں جناب امام سجاد علیہ السلام کو فرائض امامت کی ادائیگی اور حکومت الٰہی و اسلامی کی تشکیل کے لئے مواقع فراہمی کے ساتھ ہی ساتھ عاشور کو بہنے والے بے گناہوں کے خون کی ترجمانی بھی کرنی تھی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں حضرت سجاد علیہ السلام کے دہن میں ان کی اپنی زبان نہ تھی بلکہ شمشیر سے خاموش کر دی جانے والی حسین (ع) کی زبان اس وقت کوفہ و شام کی منزلوں سے گزر نے والے اس انقلابی جوان کو ودیعت کر دی گئی تھی ۔

چنانچہ اگر اس منزل میں امام زین العابدین علیہ السلام خاموش رہ جاتے اور اس جرات و ہمت اور جواں مردی و بیباکی کے ساتھ حقائق کی وضاحت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کر دیئے ہوتے تو آئندہ آپ (ع) کے مقاصد کی تکمیل کی تمام راہیں مسدود ہو کر رہ جاتیں کیوں کہ یہ امام حسین علیہ السلام کا جوش مارتا ہوا خون ہی تھا جس نے نہ صرف آپ (ع) کے لئے میدان ہموار کر دیا بلکہ تاریخ تشیع میں جتنی بھی انقلابی تحریکیں برپا ہوئی ہیں ان سب میں خون حسین علیہ السلام کی گرمی شامل نظر آتی ہے چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام سب سے پہلے لوگوں کو موجودہ صورت حال سے خبر دار کر دینا ضروری سمجھتے ہیںتاکہ آئندہ اپنے اسی عمل کے پر تو میں بنیادی و اصولی ،عمیق و متین طولانی مخالفتوں کا سلسلہ شروع کر سکیں اور ظاہر ہے تیز و تند زبان استعمال کئے بغیر لوگوں کو متنبہ اور ہوشیار کرنا ممکن نہ ہوتا ۔

اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینت سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے ،کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔

لہٰذ ا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کا ر لاکر جہاں تک ممکن ہو سکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا ۔ چنانچہ حضرت سید سجاد علیہ السلام کا وجود بھی جناب سکینہ (ع) ،جناب فاطمہ صغریٰ (ع) ، خود جناب زینب سلام اللہ علیہا بلکہ ایک ایک قیدی کے مانند ( اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے) اپنے اندر ایک پیغام لئے ہوئے ہے ۔ ضروری تھا کہ یہ تمام انقلابی قوتیں مجتمع ہو کر غربت و بیکسی میں بہا دیئے جانے والے حسینی (ع) خون کی سرخی کربلا سے لے کر مدینہ تک تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز میں پھیلادیں ۔

جس وقت امام سجاد علیہ السلام مدینہ میں وارد ہوں لوگوں کی بے چین و متجسس سوالی نگاہوں ، چہروں اور زبانوں کے جواب میں آپ (ع) ان کے سامنے حقائق بیان کریں اور یہ امام کی آئندہ مہم کا نقشہ اول ہے ۔اسی لئے ہم نے امام زین العابدین علیہ السلام کے اس مختصر دور حیات کو ایک استثنائی دور سے تعبیر کیا ہے ۔

اس مہم کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کا م پیغمبر اسلام (ص)کے گھر اور آپ (ع) کے حرم ( مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں ۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے چنانچہ اس موضوع پر آگے روشنی ڈالیں گے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی تحریک کس طرح شروع کی ، آپ (ع) کا مقصد اور طریقہ کار کیا تھا ان تمام باتوں کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کی حکمراں سیاسی مشینری سے بیزار و متنفر مخالفین کے مجموعی حالات اور بنی امیہ کے بارہ میں ان کے خیالات ساتھ ہی ساتھ اہلبیت کی کلی صورت حال پر ایک نظر ڈال لی جائے اور یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے چنانچہ اگر تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو ممکن ہوئی تو امام علیہ السلام کی زندگی سے متعلق بہت سی مشکلات اور الجھنےں حل ہو جائیں گی ۔ اوربعد اس کے حضرت (ع) کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کی خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے گی (البتہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس حد تک تفصیل میں جانا ہمارے لئے ممکن ہوگا)

ماحول

جب عاشور کا المناک حادثہ رو نما ہوا ،پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی خصوصا عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و دحشت کی فضا پیدا ہو گئی کیوں کہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم ،مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول(ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیںہے ۔اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کو فہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے ، جو کچھ کمی رہ گئی تھی وہ بھی اس وقت پوری ہو گئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رو نما ہوئے جن میں سر فہرست حادثہ ” حرہ“ ہے ۔

اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز (خصوصا مدینہ) اور عراق ( خصوصا کوفہ) میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہو گیا تھا تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہو چکے تھے ۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کے خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے بڑی ہی کس مپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت (ع) گزشتہ ائمہ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ارتدالناس بعد الحسین (ع)الا ثلاثة

یعنی امام حسین علیہ السلام کے بعد تین افراد کے علاوہ سارے لوگ مرتد ہو گئے ، ایک روایت میں پانچ افراد اور بعض دوسری روایتوں میں سات افراد تک کا ذکر ملتا ہے ۔

ایک روایت جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے اور جس کے راوی ابو عمر مہدی ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما بمکة والمدینة عشرین رجلا یحبنا(۲)

پورے مکہ و مدینہ میں بیس افراد بھی ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں ۔

ہم نے یہ دونوں حدیثیں اس لئے نقل کی ہیں کہ اہلبیت طاہرین علیہم السلام اوران کے طرفداروں کے بارہ میں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کااندازہ لگایاجاسکے ۔دراصل اس وقت ایسی خوف وہراس کی فضاپیداہوگی تھی کہ ائمہ (ع)کے طرفدارمتفرق وپراگندہ مایوس ومرعوب زندگی گزاررہے تھے اور کسی طرح کی اجتماعی تحریک ممکن نہ تھی ۔ البتہ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مذکورہ بالا روایات میں ارشاد فرماتے ہیں :

ثم ان الناس لحقوا و کثروا

پھر آہستہ آہستہ لوگ اہل بیت علیہم السلام سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

خفیہ تنظیمیں

اگر یہی مسئلہ جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ذرا تفصیل کی ساتھ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ : کربلا کا عظیم سانحہ رو نما ہونے کے بعد اگر چہ لوگوں کی خاصی تعداد رعب و وحشت میں گرفتار ہو گئی تھی پھر بھی خوف و ہراس اتنا غالب نہ تھا کہ شیعیان اہلبیت علیہم السلام کی پوری تنظیم یکسر درہم برہم ہو کر رہ گئی ہو جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسیران کربلا کا لٹا ہو ا قافلہ کوفہ میں وارد ہوتا ہے کچھ ایسے واقعات رو نما ہوتے ہیں جو شیعہ تنظیموں کے وجود کا پتہ دیتے ہیں ۔

البتہ یہاں ہم نے جو شیعوں کی خفیہ تنظیم، کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ یہاں ہماری مراد موجودہ زمانہ کی طرح سیاسی تنظیموں کی کوئی باقاعدہ منظم شکل ہے بلکہ ہمارا مقصد وہ اعتقادی روابط ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک مضبوط شکل دھاگے میں پرو دیتے ہیں اور پھر لوگوں میں جذبہ فدا کاری پیدا کرکے خفیہ سر گرمی پر اکساتی ہے اور نتیجہ کے طور پر انسانی ذہن میں ایک ہم فکر جماعت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ۔

ان ہی دنوں جب کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت کو فہ میں اسیر تھی ایک رات اسی جگہ جہاں ان کو قید رکھا گیا تھا ، ایک پتھر آکر گرا ، اہلبیت (ع) اس پتھر کی طرف متوجہ ہوئے دیکھا تو ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ساتھ منسلک تھا جس پر کچھ اس طرح کی عبارت تحریر تھی ، کوفہ کے حاکم نے ایک شخص کو یزید کے پاس( شام ) روانہ کیا ہے تاکہ آپ کے حالات سے اس کو باخبر کرے نیز آئندہ کے بارہ میں اس کا فیصلہ معلوم کرے اب اگر کل رات تک (مثلا ) آپ کو تکبیر کی آواز سنائی دے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کویہیں قتل کر دینے کا فیصلہ ہوا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھئے گا کہ حالات کچھ بہتر ہیں ۔(۳)

جس وقت ہم یہ واقعہ سنتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے دوستوں یا ممبروں میں سے کوئی شخص ابن زیاد کے دربار میں موجود رہا ہوگا جس کو تمام حالات کی خبر تھی اور قید خانہ تک رسائی بھی رکھتا تھا حتی کہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ قیدیوں کے سلسلہ میں کیا فیصلہ اور منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور صدائے تکبیر کے ذریعہ اہلبیت علیہم السلام کو حالات سے باخبر کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اس شدت عمل کے ساتھ ساتھ جو وجود میں آچکی تھی اس طرح کی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں ۔

اس طرح کی ایک مثال عبداللہ بن عفیف ازدی کی ہے جو ایک مرد نابینا ہیں اور اسیران کربلا کے کوفہ میں ورود کے موقع پر ہی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انھیں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس قسم کے افراد کیا کوفہ اور کیا شام ہر جگہ مل جاتے ہیں جو قیدیوں کی حالت دیکھ کر ان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور صرف آنسو بہانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی نسبت ملامت کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں ( حتی کہ اس قسم کے واقعات دربار یزید اور ابن زیاد کی بزم میں پیش آتے رہے ہیں )

لہٰذا اگرچہ حادثہ کربلا کے بعد نہایت ہی شدید قسم کا خوف عوام و خواص پر طاری ہو چکا تھا پھر بھی ابھی اس نے وہ نوعیت اختیار نہیں کی تھی کہ شیعیان آل محمد (ص) کی تمام سر گرمیاں بالکل ہی مفلوج ہو گئی ہوں اور وہ ضعف و پراگندگی کا شکار ہو گئے ہوں لیکن کچھ ہی دنوں بعد ایک دوسرا حادثہ کچھ اس قسم کا رو نما ہوا جس نے ماحول میں کچھ اور گھٹن کا اضافہ کر دیا ۔ اور یہیں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ”ارتدالناس بعد الحسین (ع)“ کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے امام علیہ السلام نے غالبا اسی حادثہ کے دوران یا اس کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ فرمایا ہے یا ممکن ہے یہ بات اس درمیانی وقفہ سے متعلق ارشاد فرمائی ہو جو ان کے ما بین گزرا ہے۔

ان چند برسوں کے دوران -- اس عظیم حادثہ کے رو نما ہونے کے پہلے -- شیعہ اپنے امور کو منظم کرنے اور اپنے درمیان پہلی سی ہم آہنگی دوبارہ واپس لانے میں لگے ہوئے تھے ۔ اس مقام پر طبری اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتا ہے :”فلم یزل القوم فی جمع آلة الحرب والاستعداد للقتال

یعنی وہ لوگ ( مراد گروہ شیعہ ) جنگی سازو سامان اکٹھا کرنے نیز خود کو جنگ کے لئے آمادہ کرنے میں لگے ہوئے تھے چپکے چپکے شیعوں اور غیر شیعوں کو حسین ابن علی علیہما السلام کے خون کا انتقام لینے پر تیار کر رہے تھے اور لوگ گروہ در گروہ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا یہاں تک کہ یزید ابن معاویہ واصل جہنم ہو گیا ۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں با وجود اس کے کہ ماحول میں گھٹن اور سراسیمگی بہت زیادہ پائی جاتی تھی پھر بھی اس طرح کی سر گرمیاں اپنی جگہ پر جاری تھیں ( جیسا کہ طبری کی عبارت سے پتہ چلتا ہے ) اور شاید یہی وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر ” جہاد الشیعہ“ کا مولف اگر چہ شیعہ نہیں ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلہ میں صحیح اور مطابق واقع نظریات نہیں رکھتا پھر بھی وہ اس حقیقت کو درک کر لیتا ہے اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ :

” گروہ شیعہ نے حسین (ع) کی شہادت کے بعد خود کو باقاعدہ تنظیم کی صورت میں منظم کر لیا ،ان کے اعتقادات اور سیاسی روابط انھیں آپس میں مربوط کرتے تھے ۔ ان کی جماعتیں اور قائد تھے ۔ اسی طرح وہ فوجی طاقت کے بھی مالک تھے چنانچہ توابین کی جماعت اس تنظیم کی سب سے پہلی مظہر ہے“

ان حقائق کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عاشور کے عظیم حادثہ کے زیر اثر اگر چہ بڑی حد تک شیعہ تنظیمیں ضعف و کمزور ی کا شکار ہو گئی تھیں پھر بھی اس دوران شیعہ تحریکیں اپنی ناتوانی کے باوجود مصروف عمل رہیں جس کے نتیجہ میں پہلے کی طرح دوبارہ خود کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔یہاں تک کہ واقعہ حرہ پیش آیا ۔ اور میں سمجھتا ہوں واقعہ حرہ تاریخ تشیع میں نہایت اہم موڑ ہے ۔در اصل یہی وہ واقعہ ہے جس نے شیعہ تحریک پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے ۔

واقعہ حرہ

حرہ کا حادثہ تقریبا ۶۳ ھئمیں پیش آیا ۔ مختصر طور پر اس حادثہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہےں کہ ۶۳ ئہجری میں بنو امیہ کا کم تجربہ نوجوان مدینہ کا حَکم مقرر ہوا اس نے خیال کیا کہ شیعیان مدینہ کا دل جیتنے کے لئے بہتر ہوگا کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو شام جاکر یزید سے ملاقات کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا مدینہ کے چند سربرآوردہ افراد ، اصحاب نیز دیگر معزز ین سے منتخب کئے جس میں اکثریت امام زین العابدین علیہ السلام کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتی تھیں ان لوگوں کو شام جانے کی دعوت دی گئی کہ وہ جائیں اور یزید کے لطف و کرم دیکھ کر اس سے مانوس ہو جائیں اور اس طرح اختلافات میں کمی واقع ہو جائے ۔یہ لوگ شام گئے اور یزید سے ملاقات کی چند دن اس کے مہمان رہے ان لوگوں کی خوب پذیرائی کی گئی اور رخصت ہوتے وقت یزید نے ہر ایک کو کافی بڑی رقم ( تقریبا پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ درہم تک )سے نوازا لیکن ۔

جیسے ہی یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے ، چوں کہ یزیدی در بار میں پیش آنے والے المیئے انھوں نے اپنی نظروں سے خود دیکھ لئے تھے لہٰذا خوب کھل کر یزید کو مورد تنقید قرار دیا اور نتیجہ بالکل ہی بر عکس ظاہر ہوا ان لوگوں نے یزید کی تعریف و توصیف کرنے کے بجائے ہر خاص و عام کو اس کے جرائم سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ۔ لوگوں سے کہا: یزید کو کس بنیاد پر خلیفہ تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ شراب و کباب میں غرق رہنا اور کتوں سے کھیلنا اس کا بہترین مشغلہ ہے ۔ کوئی فسق و فجور ایسا نہیں ہے جو اس کے یہاں نہ پایا جاتا ہو ۔ لہٰذا ہم اس کو خلافت سے معزول کرتے ہیں ۔

عبداللہ بن حنظلہ(۴) جو مدینہ کی نمایاں اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے یزید کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے ان لوگوں نے یزید کو معزول کرکے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینی شروع کر دی۔

اس اقدام کا نتیجہ یزید کی طرف سے براہ راست رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوا اس نے اپنے ایک تجربہ کار پیر فرتوت سردار ، مسلم بن عقبہ کو چند مخصوص لشکر یوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا کہ وہ اس فتنہ کو خاموش کر دے ۔ مسلم بن عقبہ مدینہ آیا اور چند روز تک اہل مدینہ کی قوت مقابلہ کو پست کرنے کے لئے شہر کا محاصرہ کئے رہا یہاں تک کہ ایک دن شہر میں داخل ہوا اور اس قدر قتل و غارت گری مچائی اور اس قدر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ اسلام میں وہ آپ اپنی مثال ہے ۔

اس نے مدینہ میں کچھ ایسا ہی قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیاتھا کہ اس حادثہ کے بعد اس کا لقب ہی مسرف پڑگیا اور لوگ اس کو ” مسرف بن عقبہ “ کے نام سے پکارنے لگے ۔ حادثہ حرہ سے متعلق واقعات کی فہرست کا فی طویل ہے اور میں زیادہ تشریح میں جانا نہیں چاہتا صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ یہ واقعہ تمام مسلمانوں خصوصا اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں اور ہمنواؤں میں بے پناہ خوف و ہراس پیدا کرنے کا سبب بنا ، خاص طور پر مدینہ تقریبا خالی ہو گیا کچھ لوگ بھاگ گئے کچھ لوگ مار ڈالے گئے اہلبیت (ع) کے کچھ مخلص و ہمدرد مثال کے طور پر عبداللہ ابن حنظلہ جیسے لوگ شہید کر دیئے گئے اور ان کی جگہ خالی ہو گئی ۔ اس حادثہ کی خبر پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی اور سب سمجھ گئے کہ اس قسم کی ہر تحریک کا سد باب کرنے کے لئے حکومت پوری طرح آمادہ ہے اور کسی طرح کے اقدام کی اجازت دینے کو ہرگز تیار نہیںہے ۔

اس کے بعد ایک اور حادثہ -- جو مزید شیعوں کی سر کوبی اور ضعف کا سبب بنا -- جناب مختار ثقفی کی کوفہ میں شہادت اور پورے عالم اسلام پر عبد الملک بن مروان کے تسلط کی صورت میں ظاہر ہوا ۔

یزید کی موت کے بعد جو خلفاء آئے ہیں ان میں اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید ہے جو تین ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا ۔ اس کے بعد مروان بن حکم کے ہاتھ میں اقتدار آیا اور تقریبا دو سال یا اس سے کچھ کم اس نے حکومت کی اور پھر خلافت کی باگ ڈور عبد الملک بن مروان کے ہاتھ میں آگئی جس کے لئے مورخین کا خیال ہے کہ وہ خلفا ئے بنو امیہ میںزیرک ترین خلیفہ رہا ہے ۔ چنانچہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ :

کان عبد الملک اشد هم شکیبه و اقساهم عزیمه

عبد الملک پورے عالم اسلام کو اپنی مٹھی میں جکڑ لینے میں کامیاب ہو گیا اور خوف و دہشت سے معمور عامرانہ حکومت قائم کر دی۔

حکومت پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لئے عبد الملک کے سامنے صرف ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ اپنے تمام رقیبوں کا صفایا کر دے مختار جو شیعیت کی علامت تھے ، مصعب بن زبیر کے ہاتھوں پہلے ہی جام شہادت نوش فرما چکے تھے لیکن عبد الملک شیعہ تحریک کا نام و نشان مٹا ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے یہی کیا بھی ۔اس کے دور میں عراق خصوصا کوفہ جو اس وقت شیعوں کا ایک گڑھ شمار کیا جاتا تھا ،مکمل جمود اور خاموشی کی نذر ہو گیا۔

بہر حال یہ حوادث کربلا کے عظیم سانحہ سے شروع ہوئے اور پھر یکے بعد دیگرے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ کے قتل و غارت ، عراق میں تو ابین(۵) کی بیخ کنی ،جناب مختار ثقفی اور ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نیز دیگر اکابرین شیعہ کی شہادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے حصول کی غرض سے ہر تحریک چاہے وہ مدنیہ ہو یا کوفہ( کیوں کہ اس وقت یہ دونوں شیعوں کے اہم ترین مراکز تھے ) کچل کر رکھ دی گئی ، شیعیت سے متعلق پورے عالم اسلام میں ایک عجیب خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ائمہ طاہرین علیہم السلام سے وابستہ رہ گئے تھے اپنی زندگی نہایت ہی غربت و کس مپرسی میں بسر کر رہے تھے ۔

___________________

(۱)۔ اصول کافی کتاب الحجہ باب کراہیۃ التوقیت ۔روایت اول ج/۳ص/۱۹۰طبع بنیاد رسالت ،تہران

(۲)۔ بحار الانوار ج/۴۶ ص/۱۴۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/۴ص/۱۰۴

(۳)۔ یہ واقعہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں نقل کیا ہے ۔

(۴)۔ حنظلہ ہی وہ نو جوان ہیں جو قبل اس کے کہ ان کی شب عروسی تمام ہو پیغمبر اسلام (ص) کی فوج میں آکر شامل ہو گئے اور میدان احد میں شہادت کا جام نوش فرمایا اور ملائکہ نے ان کو غسل دیا اسی لئے یہ حنظلہ غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے ۔

(۵)۔ توبین کی تحریک واقعہ کربلا کا سب سے پہلا رد عمل ہے جو کوفہ میں ظاہر ہوا ۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض شیعوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مواخذہ و عتاب کا مستحق قرار دیا کہ انھوں نے امام کی دعوت پر لبیک کیوں نہ کہی اور مدد کے لئے میدان میں نکلنے سے کیوں گریز کیا چنانچہ انھوں نے محسوس کیا اس گناہ سے اپنے دامن کو پاک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امام کے دشمنوں او ر قاتلوں سے حضرت کے خون کا انتقام لیا جائے ، لہٰذا وہ لوگ کوفہ آئے اور اکابرین شیعہ میں سے پانچ افراد کو جمع کرکے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور نتیجہ کے طور پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں کھلے طور پر مسلحانہ تحریک کا آغاز کر دیا ۔ شب جمعہ ۲۵/ ربیع الثانی ۶۵ء ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر زیارت کے لئے جمع ہوئے اس طرح فریاد و گریہ کرنا شروع کیا کہ آج تک اس گریہ و زاری کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے بعد قبر امام کو وداع کہہ کر شامی حکومت سے نبرد آزما ئی کے لئے شام کا رخ کیا اور پھر لشکر بنو امیہ سے جم کر جنگ ہوئی اور سب کے سب مارے گئے ۔ توابین کی تحریک کاایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ با وجود اس کے کہ کوفہ میں تھے پھر بھی شام گئے اور بر سراقتدار حکومت سے جنگ کی تاکہ یہ ثابت کر دیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل کوئی ایک شخص یا چند اشخاص نہیں ہیں بلکہ یہ حکومت ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات اقدس کو موضوع سخن قرار دینا اور آپ کی سیرت طیبہ پر قلم اٹھانا نہایت ہی دشوار امر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم امام کی معرفت و آشنائی سے متعلق مآخذ و مصادر بہت ہی ناقص اور نا مساعد ہیں ۔

اکثر محققوں اور سیرت نگاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ عظیم ہستی محض ایک گوشہ نشین عابد و زاہد جیسی زندگی گزارتی رہی جس کو سیاست میں ذرہ برابر دلچسپی اور دخل نہ تھا ۔ بعض تاریخ نویسوں او ر سیرت نگاروں نے تو اس چیز کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور وہ حضرات جنھوں نے صاف صاف وضاحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی انھوں نے بھی امام علیہ السلام کی زندگی سے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس سے مختلف نہیں ہیں چنانچہ حضرت (ع) کو دیئے جانے والے القاب اور حضرت (ع) کے سلسلہ میں استعمال کی جانے والی تعبیرات سے یہ بات بہ آسانی درک کی جا سکتی ہے ۔

بعض لوگوں نے اس عظیم ہستی کو ”بیمار “کے لقب سے یاد کیا ہے جب کہ آپ کی بیماری واقعہ عاشورہ کے ان ہی چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد اس کا سلسلہ باقی نہ رہا ،تقریبا سب ہی لوگ اپنی عمر کے ایک حصہ میں بیمار پڑجاتے ہیں ،اگر چہ امام زین العابدین علیہ السلام کی اس بیماری میں الٰہی حکمت و مصلحت بھی کارفرما تھی در اصل پروردگارعالم کو ان دنوں خدا کی راہ میں جہاد و دفاع کی ذمہ داری ،آپ پر سے اٹھالینا مقصود تھا تا کہ آئندہ (شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد )امانت و امامت کا عظیم بار اپنے کاندھوں پر لے سکیں اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد چونتیس یا پینتیس برس تک زندہ رہ کر نہایت ہی سخت اور پر آشوب دور طے کرسکیں ۔

اگر آپ امام زین العابدین (ع) کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو ہمارے دیگر ائمہ کی طرح یہاں بھی ایک سے ایک نئے نئے قابل توجہ حادثات کا ایک سلسلہ نظر آئے گا لیکن ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ان تمام واقعات کو اگر یکجا کر بھی لیں تب بھی امام علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا سمجھ لینا آپ کے لئے آسان نہ ہوگا ۔

کسی کی سیرت کو صحیح معنوں میں سمجھنا یا سمجھانا اسی وقت ممکن ہے جب اس شخصیت کے اصول اور بنیادی موقف کو اچھی طرح درک کرلیا جائے اور پھر اس کی روشنی میں اس کی جزئیات زندگی سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔اصل میں جب بنیادی موقف کی وضاحت ہوجاتی ہے جزئیات بھی بے زبان نہیں رہتے ،خود بخود معنی پیدا کرلیتے ہیں ۔اس کے برخلاف اگر اصولی موقف ہم پر واضح نہیں ہوسکے ہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں تو جزئی واقعات بھی یا تو بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر ان کو غلط معنی پہنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور یہ صرف امام زین العابدین (ع) یا ہمارے دیگر ائمہ طاہرین (ع) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اصول ہر شخص کی زندگی کے تجزیہ کے وقت پیش آسکتا ہے ۔

امام سجاد (ع) کے سلسلہ میں نمونہ کے طور پر ،محمد بن شہاب زہری کے نام حضرت (ع) کا خط پیش کیا جاسکتا ہے جو آپ کی زندگی کا ایک حادثہ ہے یہ وہ خط ہے جو خاندان نبوت و رسالت کی ایک عظیم فرد کی طرف سے اس دور کے مشہور و معروف دانشور کو لکھا گیا ہے اب اس سلسلہ میں مختلف انداز سے اظہار رائے کی گنجائش ہے ممکن ہے یہ خط کسی اساسی نوعیت کے حامل وسیع سیاسی مبارز کا ایک حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے برے کاموں سے روکنے کی ایک سیدھی سادی نصیحت یا محض ایک شخصیت کا دوسری شخصیت پر کیا جانے والا اسی قسم کا ایک اعتراض ہو جس قسم کے اعتراضات دو شخصیتوں یا کئی شخصیتوں کے مابین تاریخ میں کثرت سے نظر آتے ہیں ۔ظاہر ہے دیگر حادثات وواقعات سے چشم پوشی کرکے صرف اس واقعہ سے کسی صحیح نتیجہ تک کبھی بھی نہیں پہنچا جاسکتا ۔میں اس نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ان جزئی واقعات کو امام علیہ السلام کے اصولی وبنیادی موقف سے علیحدہ کرکے مطالعہ کرنا چاہیں تو امام سجا علیہ السلام کی سوانح زندگی ہم پر روشن نہیں ہوسکتی ۔لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم امام علیہ السلام کے اصولی اور اساسی موقف سے آگاہی حاصل کریں ۔

چنانچہ ہماری سب سے پہلی بحث امام زین العابدین علیہ السلام کے بنیادی موقف سے متعلق ہے اور اس کے لئے خود امام علیہ السلام کی زندگی ،آپ کے کلمات نیز دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت وزندگی سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بڑی ہی باریک بینی کے ساتھ نکات درک کرکے بحث کرنا ہوگی۔

حادثات زندگی میں ائمہ علیہم السلام کا بنیادی موقف

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ۴۰ ء ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سے کبھی پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت علیہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر میں بیٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الٰہیہ کی تشریح وتفسیر کرتے رہیں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بنیادی موقف اور منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہیں ہموار کریں چنانچہ یہ فکر خود امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی اور کلام میں بطور احسن ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔

امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرلی تو بہت سے ناعاقبت اندیش کم فہم افراد نے حضرت علیہ السلام کو مختلف عنوان سے ہدف بنالیا اور اس سلسلہ میں آپ کو مورد الزام قرار دینے کی کوشش کی گئی کبھی تو آپ (ع) کو مومنین کی ذلت ورسوائی کا باعث گردانا گیا اور کبھی یہ کہا گیا: ”آپ نے معاویہ کے مقابلہ پر آمادہ جوش وخروش سے معمور مومنین کی جماعت کوذلیل وخوار کردیا معاویہ کے سامنے ان کا سر جھک گیا “۔بعض اوقات احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ذرا نرم وشائستہ انداز میں بھی یہی بات دہرائی گئی ۔

امام علیہ السلام ان تمام اعتراضوں اور زبان درازیوںکے جواب میں انھیں مخاطب کرکے ایک ایسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شاید حضرت کے کلام میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور بہتر ہو ۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ : ما تدری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الیٰ حین“ تمھیں کیا خبر شائد یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور معاویہ کے لئے ایک عارضی سرمایہ ہو ۔ اصل میں یہ جملہ قرآن کریم سے اقتباس کیا گیا ہے۔

اس جملہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت کو مستقبل کا انتظار ہے اور وہ مستقبل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ امام علیہ السلام کے نظر یہ کے مطابق حق سے منحرف موجودہ ناقابل قبول حکومت برطرف کی جائے اور اس جگہ آپ کی پسندیدہ حکومت قائم کی جائے جبھی تو آپ ان لوگوں سے فرماتے ہیں کہ تم فلسفہ صلح سے واقفیت نہیں رکھتے تمھیں کیا معلوم کہ اسی میں مصلحت مضمر ہے ۔

آغاز صلح میں ہی عمائدین شیعہ میں سے دو شخصیتیں ،مسیب بن نجیہ اور سلیمان بن صردخزاعی چند مسلمانوں کے ہمراہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کیا:ہمارے پاس خراسان وعراق وغیرہ کی خاصی طاقت موجود ہے اور ہم اسے آپ کی اختیار میں دینے کے لئے تیار ہیں اور معاویہ کا شام تک تعاقب کرنے کے لئے حاضر ہیں ۔حضرت علیہ السلام نے ان کو تنہائی میں گفتگو کے لئے طلب کیا اور کچھ بات چیت کی ،جب وہ وہاں سے باہر نکلے تو ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار ہویدا تھے ۔انھوں نے اپنے فوجی دستوں کو رخصت کردیا حتی کہ ساتھ آنے والوں کو بھی کوئی واضح جواب نہ دیا۔

طہٰ حسین کا خیال ہے” در اصل اسی ملاقات میں شیعوں کی تحریک جہاد کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا تھا۔“یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ،ان کے ساتھ تنہائی میں بیٹھے ،مشورے ہوئے اور اسی وقت شیعوں کی ایک عظیم تنظیم کی بنا رکھ دی گئی۔

چنانچہ خود امام (ع) کے حالات زندگی اور مقدس ارشادات سے بھی واضح طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے ۔اگر چہ یہ زمانہ اس قسم کی تحریک اور سیاسی جدوجہد کے لئے سازگار نہ تھا ۔لوگوں میں سیاسی شعور بے حد کم اور دشمن کے پروپیگنڈوں نیز مالی دادووہش کا بازار گرم تھا ۔دشمن جن طریقوں سے فائدہ اٹھا رہاتھا ،امام علیہ السلام اختیار نہیں کرسکتے تھے۔مثال کے طور پر بے حساب پیسہ خرچ کرنا اور معاشرہ کے چھٹے ہوئے بد قماش افراد کو اپنے گرد اکٹھا کرلینا امام علیہ السلام کے لئے ممکن نہ تھا۔ظاہر ہے دشمن کا ہاتھ کھلا ہوا تھا اور امام کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔آپ اخلاق وشریعت کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکے تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ امام حسن علیہ الصلوٰۃ و السلام کا کام نہایت ہی عمیق ،دیر پا اور بنیادی قسم کا تھا ۔دس برس تک حضرت (ع) اسی ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ لوگوں کو اپنے قرب کیا اور انھیں تربیت دی ۔کچھ لوگوں نے مختلف گوشہ و کنار میں جام شہادت نوش کرکے معاویہ کی حکومت سے کھل کر مقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر اس کی مشینری کو کافی کمزور بنایا ۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ (ع) نے بھی اسی روش پر کام کرتے ہوئے مدینہ ،مکہ نیز دیگر مقامات پر اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ معاویہ دنیا سے چلا گیا ،اور کربلا کا حادثہ رو نما ہو ا ۔اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کربلا کا حادثہ اسلام کے مستقبل کے لئے نہایت ہی مفید اور ثمر آور ثابت ہوا لیکن وقتی طور پر وہ مقصد جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو شاں تھے کچھ دنوں کے لئے اس میں تاخیر ہو گئی کیوں کہ اس حادثہ نے دنیائے اسلام کو رعب و حشت میں مبتلا کر دیا تھا ۔امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے قریبی رفقاء کو تہ تیغ کر دیا گیا او ر دشمن کو تسلط و غلبہ حاصل ہو گیا ۔ اگر اقدام امام حسین علیہ السلام اس شکل میں نہ ہوتا اور یہ تحریک طبیعی طور پر جاری رہتی تو یہ بات بعید از امکان نہیں کہ مستقبل قریب میں جد و جہد کچھ ایسا رخ اختیار کر لیتی کہ حکومت کی باگ ڈور شیعوں کے ہاتھ میں آجاتی ۔البتہ یہاں اس گفتگو کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ معاذ اللہ ،امام حسین علیہ السلام کو انقلاب برپا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔بلکہ اس وقت حالات نے کروٹ ہی کچھ ایسی بدلی تھی کہ حسینی(ع) انقلاب ناگزیر ہو گیا تھا ،اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اسلام کی بقا کے لئے حسینی(ع) انقلاب بے حد ضروری تھا ، لیکن اگر یکا یک حالات یہ رخ اختیار نہ کر لئے ہوتے اور امام حسین علیہ السلام اس حادثہ میں شہید نہ ہوئے ہوتے تو شاید جلد ہی مستقبل سے متعلق امام حسن علیہ السلام کا منصوبہ بار آور ہو جاتا ۔

چنانچہ یہاں میں ایک روایت نقل کر رہا ہوں جس سے اس بیان کی واضح تائید ہو تی ہے ۔اصول کافی میں ابو حمزہ ثمالی کی ایک روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کی گئی ہے :

سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : یا ثابت ،ان اللّٰه تبارک و تعالیٰ قد کان وقت هٰذا الامر فی السبعین

”ھٰذاالامر “سے مراد حکومت و ولایت اہلیت علیہم السلام ہے کیوں کہ روایت میںہے ، اگر تمام مقامات پر نہ کہا جائے تو اکثر و بیشتر مقامات پر جہاں جہاں بھی ھٰذا الامر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اس سے مقصود اہلبیت علیہم السلام کی حکومت و ولایت ہی ہے اگر چہ بعض موارد میں یہ کلمہ ،تحریک اور اقدام کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور وہاں حکومت مراد نہیں ہے ۔ بہر حال ھٰذ الامر ، یہ موضوع ۔ کو ن سا موضوع ؟وہی جو شیعیان آل محمد (ص) کے درمیان رائج و مرسوم رہا ہے اور جس کے بارہ میں برسوں گفتگو ہوتی رہی ہے جس کی تکمیل کی آرزو اور منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم اس امر ( یعنی حکومت اہلبیت(ع) ) کے لئے ۷۰ ئہجری معین کر چکا تھا ،اور یہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے دس سال بعد کی تاریخ ہے ۔

امام اس کے بعد فرماتے ہیں :

فلما ان قتل الحسین صلوات اللّٰه علیه اشتد غضب اللّٰه تعالیٰ علیٰ اهل الارض فاخره الیٰ اربعین ومائة

جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا ، اہل زمین پر خدا وند عالم کے غضب میں شدت پیدا ہو گئی اور وہ ( تاسیس حکومت کا ) وقت ۴۰ ۱ ئہجری تک کے لئے آگے بڑھادیا گیا ۔

یہ تاریخ ( ۱۴۰ ئہجری ) امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت سے آٹھ سال قبل کی ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کی ذیل میں ہم ۱۴۰ ئہجری کی اہمیت کے بارہ میں تفصیلی بحث کریں گے ،اس سلسلہ میں میرا خیال یہی ہے کہ وہ ولی امر جس کے ذریعہ ایک انقلابی اقدام کے تحت اہلبیت (ع) کا حق واپس ملنا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہی ذات مبارک ہونی چاہئے تھی مگر اس وقت بنو عباس نے خود خواہی عجلت پسندی ،دنیا پرستی اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا اور فرصت بھی اہلبیت (ع) کے ہاتھ سے چھین لی گئی اور وعدہ الٰہی پھر کسی اور وقت کے لئے ٹل گیا۔

روایت کے آخری فقرے یہ ہیں :

فحدثناکم فاضعتم الحدیث و کشفتم حجاب الستر ( ایک دوسرے نسخہ میں قناع الستر ہے) ولم یجعل اللّٰه له بعد ذالک وقتا عندنا ، و یمحوا اللّٰه مایشاء و یثبت و عنده ام الکتاب

یعنی ہم نے تم لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور تم نے اس کو نشر کر دیا بات پردہ راز میں نہ رکھ سکے ،عوام میں نہ کہا جانے والاراز افشا کر دیا ۔ لہٰذا اب خدا وند عالم نے اس امر کے لئے کوئی دوسرا وقت معین طور پر قرار نہیں دیا ہے خدا وند عالم اوقات کو محو کر دیا کرتا ہے جس چیز کی چاہتا ہے نفی کر دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت کر دکھاتا ہے ۔ اور یہ بات نا قابل تردید مسلمات اسلام میں سے ہے کہ مستقبل کے سلسلہ میں جو بات خدا کی جانب سے حتمی قرار دی جا چکی ہے وہ نظر و قدرت الٰہی میں تغیر پذیر نہیں ہے ۔

ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں :

حدثت بذالک ابا عبدالله (ع) فقال کان کذالک(۱)

میں نے روایت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیان کی جس کو سن کر امام (ع) نے فرمایا: ہاں واقعا اسی طرح ہے ۔

اس قسم کی روایتیں بہت ہیں لیکن مذکورہ روایت ان سب میں واضح اور روشن ہے ۔

حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے

اسلامی حکومت کی تشکیل تمام ائمہ کا مقصد و ہدف رہا ہے ، وہ ہمیشہ اسی راہ پر گامزن رہے ہر ایک نے وقت اور حالات کے تحت اس راہ میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔چنانچہ جب کربلا کا حادثہ رونما ہو ااور سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوٰة و السلام شہید کر دیئے گئے نیز بیماری کی حالت میں ہی امام سجاد علیہ السلام کو اسیر بنا لیا گیا تو حقیقتا اسی وقت سے امام سجاد علیہ السلام کی ذمہ داریوں کا آغاز ہو گیا ۔ اب تک مستقبل ( حکومت اسلامی کی تشکیل ) کی جو ذمہ داری امام حسن علیہ السلام اورپھر امام حسین علیہ السلام کے کاندھوں پر تھی وہ امر امام زین العابدین علیہ السلام کے سپرد کر دیا گیا اب آپ (ع) کی ذمہ داری تھی کہ اس مہم کو آگے بڑھائیں اور پھر آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے اپنے دور میں اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی پوری زندگی کا اسی روشنی میں جائز ہ لیں ۔ اس بنیادی مقصد اور اصل موقف کو تلاش کریں ہمیں بلا کسی شک و شبہ کے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام بھی اسی الٰہی مقصد کی تکمیل میں کوشاں تھے جس کے لئے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سعی و کوشش فرما رہے تھے ۔

امام زین العابدین (ع) کی زندگی کا ایک مجموعی خاکہ

امام زین العابدین علیہ السلام نے ۶۱ ئھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں اور ۹۴ ء ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا ۔اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے اب آپ مذکورہ نقطہ نگاہ کی روشنی میں حضرت(ع) کی جزئیات زندگی کا جائزہ لیجئے کہ آپ (ع) اس ذیل میں کن مراحل سے گزرتے رہے کیا طریقہ کار اپنائے اور پھر کس حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔

وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہےں ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہئے چنانچہ اس پور دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہئے مثال کے طور پر ------------ :

۱ ۔ اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا ۔

۲ ۔ مسرف بن عقبہ کے مقابلہ میں -- جس کو یزید نے اپنی حکومت کے تیسرے سال مدینہ رسول (ص) کی تباہی اور اموال مسلمین کی غارت گری پر مامور کیا تھا -- امام (ع) کا موقف نہایت ہی نرم تھا ۔

۳ ۔ عبد الملک بن مروان جس کو خلفائے بنو امیہ میں طاقتور ترین اور چالاک ترین خلیفہ شمار کیا جاتا ہے ، اس کے مقابلہ میں امام (ع) کا موقف کبھی تو بہت ہی سخت اور کبھی بہت ہی نرم نظر آتا ہے -------

اسی طرح --------

۴ ۔ عمر بن عبد العزیز کے ساتھ آپ کا برتاؤ

۵ ۔ اپنے اصحاب اور رفقاء کے ساتھ آپ (ع) کا سلوک اور دوستانہ نصیحتیں اور

۶ ۔ ظالم و جابر حکومت اور اس کے عملے سے وابستہ درباری علماء کے ساتھ امام علیہ السلام کا رویہ؟

ان تمام موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے میں تو اسی نتیجہ پر بہنچا ہوں کہ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے ۔چنانچہ اگر اسی زاویہ سے امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی جو اس روئے زمین پر خدا وند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام ترکوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کا رگردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پر اگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے جو واقعہ عاشور کے بعد دنیا ئے اسلام پر مسلط ہو چکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے ۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے ( ہم ابھی ان کی طرف اشارہ کریں گے ) ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے ۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے یہاں تک کہ تقریبا ۳۵ سال کی انتھک جد و جہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سر بلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزندو جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرمادیئے۔

چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کو منصب امامت اور حکومت اسلامی کی تشکیل کی ذمہ داریوں کا سونپا جانا روایات میں بڑے ہی واضح الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔ ایک روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور محمد بن علی (ع) یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

” یہ صندوق اور یہ اسلحہ سنبھالو یہ تمھارے ہاتھوں میں امانت ہے “

اور جب صندوق کھولا گیا تو اس میں قرآن اور کتاب تھی۔

میرے خیال میں اسلحہ سے ، انقلابی قیادت و رہبری کی طرف اشارہ ،اور قرآن و کتاب ، اسلامی افکار و نظریات کی علامت ہے اور یہ چیزیں امام (ع) نے اپنے بعد آنے والے امام کی تحویل میں دے کر نہایت ہی اطمینان و سکون کے ساتھ آگاہ و بیدار انسانوں اور خدا وند عالم کی نظر میں سر فراز وسرخ رواس دنیا کو خیر باد کہا ہے ۔

یہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک مجموعی خاکہ ہے اب اگر ہم تمام جزئیات زندگی کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو صورت حال کو پہلے سے مشخص کر لینا چاہئے ۔

حضرت (ع) کی حیات مبارکہ میں ایک مختصر سا دور وہ بھی ہے جس کو منارہ زندگی سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا ۔ میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے اسی کا ذکر کروں اور پھر امام کی معمول کے تحت عادی زندگی ، اس زمانہ کے حالات و کو ائف اور ان کے تقاضوں کی تشریح کروں گا۔

در اصل امام علیہ السلام کی زندگی کاوہ مختصر اور تاریخ ساز دور ، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کازمانہ ہے جومدت کے اعتبار سے مختصرلیکن واقعات وحالات کے اعتبارنہایت ہی ہیجان اور وسبق آموز ہے جہاںاسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتاہے ۔بیما راورقید ہونے کے باوجودکسی عظیم مردمجاہد کے ماننداپنے قول وفعل کے ذریعہ شجاعت و دلیری کے بہترین نمونہ پیش کئے ہیں ۔اس دوران امام کا طرز عمل حضرت (ع) کی بقیہ عام زندگی سے -- جیسا کہ آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے -- بالکل مختلف نظر آتا ہے ۔ امام علیہ السلام کی زندگی کے اصلی دور میں آپ (ع) کی حکمت عملی مستحکم بنیاد پرپڑے ہی جچے تلے انداز میں نرم روی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھنا ہے حتی کہ بعض وقت عبد الملک بن مروان کے ساتھ نہ صرف ایک محفل میں بیٹھے ہوئے نظر آئے ہیں بلکہ اس کے ساتھ آپ (ع) کا رویہ بھی نرم نظر آتا ہے جب کہ اس مختصر مدت ( ایام اسیری ) میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پر جوش انقلابی کے مانند نظر آتے ہیں جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے ۔

کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم ، عبد اللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کے مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔

بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینت (ع)اوراپنی بہن جناب سکینہ کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں ۔

اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم ، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوںسے پردہ اٹھاکر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع)کی حقانیت ، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

یہاں ان خطبوں کو نقل کرکے امام (ع) کے فقروں کی گہرائی پیش کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی کیوں کہ یہ خود ایک مستقل کام ہے اور اگر کوئی شخص ان خطبوں کی تشریح و تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان بنیادی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایک لفظ کی تحقیق اور چھان بین کرے ۔ یہ ہے امام (ع) کی اسارت اور قید و بند کی زندگی جو جرات و ہمت اورشجاعت و دلاوری سے معمور نظر آتی ہے ۔

رہائی کے بعد

ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کے پیش نظر امام علیہ السلام کے موقف میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ اب قید سے چھوٹ کر آپ نہایت ہی نرم روی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں تقیہ سے کام لیتے ہیں ۔ اپنے تیز و تند انقلابی اقدامات پر دعا اور نرم روی کا پردہ ڈال دیتے ہیں تمام امور بڑی خاموشی کے ساتھ انجام دیتے ہیں جب کہ قید و بند کے عالم میں آپ نے ایسے دلیرانہ عزائم کا اظہار اور مخاصمت آمیز اقدام فرمایا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک استثنا ئی دور تھا یہاں جناب امام سجاد علیہ السلام کو فرائض امامت کی ادائیگی اور حکومت الٰہی و اسلامی کی تشکیل کے لئے مواقع فراہمی کے ساتھ ہی ساتھ عاشور کو بہنے والے بے گناہوں کے خون کی ترجمانی بھی کرنی تھی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں حضرت سجاد علیہ السلام کے دہن میں ان کی اپنی زبان نہ تھی بلکہ شمشیر سے خاموش کر دی جانے والی حسین (ع) کی زبان اس وقت کوفہ و شام کی منزلوں سے گزر نے والے اس انقلابی جوان کو ودیعت کر دی گئی تھی ۔

چنانچہ اگر اس منزل میں امام زین العابدین علیہ السلام خاموش رہ جاتے اور اس جرات و ہمت اور جواں مردی و بیباکی کے ساتھ حقائق کی وضاحت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کر دیئے ہوتے تو آئندہ آپ (ع) کے مقاصد کی تکمیل کی تمام راہیں مسدود ہو کر رہ جاتیں کیوں کہ یہ امام حسین علیہ السلام کا جوش مارتا ہوا خون ہی تھا جس نے نہ صرف آپ (ع) کے لئے میدان ہموار کر دیا بلکہ تاریخ تشیع میں جتنی بھی انقلابی تحریکیں برپا ہوئی ہیں ان سب میں خون حسین علیہ السلام کی گرمی شامل نظر آتی ہے چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام سب سے پہلے لوگوں کو موجودہ صورت حال سے خبر دار کر دینا ضروری سمجھتے ہیںتاکہ آئندہ اپنے اسی عمل کے پر تو میں بنیادی و اصولی ،عمیق و متین طولانی مخالفتوں کا سلسلہ شروع کر سکیں اور ظاہر ہے تیز و تند زبان استعمال کئے بغیر لوگوں کو متنبہ اور ہوشیار کرنا ممکن نہ ہوتا ۔

اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینت سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے ،کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔

لہٰذ ا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کا ر لاکر جہاں تک ممکن ہو سکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا ۔ چنانچہ حضرت سید سجاد علیہ السلام کا وجود بھی جناب سکینہ (ع) ،جناب فاطمہ صغریٰ (ع) ، خود جناب زینب سلام اللہ علیہا بلکہ ایک ایک قیدی کے مانند ( اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے) اپنے اندر ایک پیغام لئے ہوئے ہے ۔ ضروری تھا کہ یہ تمام انقلابی قوتیں مجتمع ہو کر غربت و بیکسی میں بہا دیئے جانے والے حسینی (ع) خون کی سرخی کربلا سے لے کر مدینہ تک تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز میں پھیلادیں ۔

جس وقت امام سجاد علیہ السلام مدینہ میں وارد ہوں لوگوں کی بے چین و متجسس سوالی نگاہوں ، چہروں اور زبانوں کے جواب میں آپ (ع) ان کے سامنے حقائق بیان کریں اور یہ امام کی آئندہ مہم کا نقشہ اول ہے ۔اسی لئے ہم نے امام زین العابدین علیہ السلام کے اس مختصر دور حیات کو ایک استثنائی دور سے تعبیر کیا ہے ۔

اس مہم کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کا م پیغمبر اسلام (ص)کے گھر اور آپ (ع) کے حرم ( مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں ۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے چنانچہ اس موضوع پر آگے روشنی ڈالیں گے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی تحریک کس طرح شروع کی ، آپ (ع) کا مقصد اور طریقہ کار کیا تھا ان تمام باتوں کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کی حکمراں سیاسی مشینری سے بیزار و متنفر مخالفین کے مجموعی حالات اور بنی امیہ کے بارہ میں ان کے خیالات ساتھ ہی ساتھ اہلبیت کی کلی صورت حال پر ایک نظر ڈال لی جائے اور یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے چنانچہ اگر تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو ممکن ہوئی تو امام علیہ السلام کی زندگی سے متعلق بہت سی مشکلات اور الجھنےں حل ہو جائیں گی ۔ اوربعد اس کے حضرت (ع) کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کی خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے گی (البتہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس حد تک تفصیل میں جانا ہمارے لئے ممکن ہوگا)

ماحول

جب عاشور کا المناک حادثہ رو نما ہوا ،پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی خصوصا عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و دحشت کی فضا پیدا ہو گئی کیوں کہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم ،مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول(ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیںہے ۔اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کو فہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے ، جو کچھ کمی رہ گئی تھی وہ بھی اس وقت پوری ہو گئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رو نما ہوئے جن میں سر فہرست حادثہ ” حرہ“ ہے ۔

اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز (خصوصا مدینہ) اور عراق ( خصوصا کوفہ) میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہو گیا تھا تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہو چکے تھے ۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کے خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے بڑی ہی کس مپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت (ع) گزشتہ ائمہ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ارتدالناس بعد الحسین (ع)الا ثلاثة

یعنی امام حسین علیہ السلام کے بعد تین افراد کے علاوہ سارے لوگ مرتد ہو گئے ، ایک روایت میں پانچ افراد اور بعض دوسری روایتوں میں سات افراد تک کا ذکر ملتا ہے ۔

ایک روایت جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے اور جس کے راوی ابو عمر مہدی ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما بمکة والمدینة عشرین رجلا یحبنا(۲)

پورے مکہ و مدینہ میں بیس افراد بھی ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں ۔

ہم نے یہ دونوں حدیثیں اس لئے نقل کی ہیں کہ اہلبیت طاہرین علیہم السلام اوران کے طرفداروں کے بارہ میں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کااندازہ لگایاجاسکے ۔دراصل اس وقت ایسی خوف وہراس کی فضاپیداہوگی تھی کہ ائمہ (ع)کے طرفدارمتفرق وپراگندہ مایوس ومرعوب زندگی گزاررہے تھے اور کسی طرح کی اجتماعی تحریک ممکن نہ تھی ۔ البتہ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مذکورہ بالا روایات میں ارشاد فرماتے ہیں :

ثم ان الناس لحقوا و کثروا

پھر آہستہ آہستہ لوگ اہل بیت علیہم السلام سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

خفیہ تنظیمیں

اگر یہی مسئلہ جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ذرا تفصیل کی ساتھ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ : کربلا کا عظیم سانحہ رو نما ہونے کے بعد اگر چہ لوگوں کی خاصی تعداد رعب و وحشت میں گرفتار ہو گئی تھی پھر بھی خوف و ہراس اتنا غالب نہ تھا کہ شیعیان اہلبیت علیہم السلام کی پوری تنظیم یکسر درہم برہم ہو کر رہ گئی ہو جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسیران کربلا کا لٹا ہو ا قافلہ کوفہ میں وارد ہوتا ہے کچھ ایسے واقعات رو نما ہوتے ہیں جو شیعہ تنظیموں کے وجود کا پتہ دیتے ہیں ۔

البتہ یہاں ہم نے جو شیعوں کی خفیہ تنظیم، کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ یہاں ہماری مراد موجودہ زمانہ کی طرح سیاسی تنظیموں کی کوئی باقاعدہ منظم شکل ہے بلکہ ہمارا مقصد وہ اعتقادی روابط ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک مضبوط شکل دھاگے میں پرو دیتے ہیں اور پھر لوگوں میں جذبہ فدا کاری پیدا کرکے خفیہ سر گرمی پر اکساتی ہے اور نتیجہ کے طور پر انسانی ذہن میں ایک ہم فکر جماعت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے ۔

ان ہی دنوں جب کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت کو فہ میں اسیر تھی ایک رات اسی جگہ جہاں ان کو قید رکھا گیا تھا ، ایک پتھر آکر گرا ، اہلبیت (ع) اس پتھر کی طرف متوجہ ہوئے دیکھا تو ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ساتھ منسلک تھا جس پر کچھ اس طرح کی عبارت تحریر تھی ، کوفہ کے حاکم نے ایک شخص کو یزید کے پاس( شام ) روانہ کیا ہے تاکہ آپ کے حالات سے اس کو باخبر کرے نیز آئندہ کے بارہ میں اس کا فیصلہ معلوم کرے اب اگر کل رات تک (مثلا ) آپ کو تکبیر کی آواز سنائی دے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کویہیں قتل کر دینے کا فیصلہ ہوا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھئے گا کہ حالات کچھ بہتر ہیں ۔(۳)

جس وقت ہم یہ واقعہ سنتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے دوستوں یا ممبروں میں سے کوئی شخص ابن زیاد کے دربار میں موجود رہا ہوگا جس کو تمام حالات کی خبر تھی اور قید خانہ تک رسائی بھی رکھتا تھا حتی کہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ قیدیوں کے سلسلہ میں کیا فیصلہ اور منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں اور صدائے تکبیر کے ذریعہ اہلبیت علیہم السلام کو حالات سے باخبر کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اس شدت عمل کے ساتھ ساتھ جو وجود میں آچکی تھی اس طرح کی چیزیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں ۔

اس طرح کی ایک مثال عبداللہ بن عفیف ازدی کی ہے جو ایک مرد نابینا ہیں اور اسیران کربلا کے کوفہ میں ورود کے موقع پر ہی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر انھیں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس قسم کے افراد کیا کوفہ اور کیا شام ہر جگہ مل جاتے ہیں جو قیدیوں کی حالت دیکھ کر ان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور صرف آنسو بہانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی نسبت ملامت کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں ( حتی کہ اس قسم کے واقعات دربار یزید اور ابن زیاد کی بزم میں پیش آتے رہے ہیں )

لہٰذا اگرچہ حادثہ کربلا کے بعد نہایت ہی شدید قسم کا خوف عوام و خواص پر طاری ہو چکا تھا پھر بھی ابھی اس نے وہ نوعیت اختیار نہیں کی تھی کہ شیعیان آل محمد (ص) کی تمام سر گرمیاں بالکل ہی مفلوج ہو گئی ہوں اور وہ ضعف و پراگندگی کا شکار ہو گئے ہوں لیکن کچھ ہی دنوں بعد ایک دوسرا حادثہ کچھ اس قسم کا رو نما ہوا جس نے ماحول میں کچھ اور گھٹن کا اضافہ کر دیا ۔ اور یہیں سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ”ارتدالناس بعد الحسین (ع)“ کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے امام علیہ السلام نے غالبا اسی حادثہ کے دوران یا اس کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ فرمایا ہے یا ممکن ہے یہ بات اس درمیانی وقفہ سے متعلق ارشاد فرمائی ہو جو ان کے ما بین گزرا ہے۔

ان چند برسوں کے دوران -- اس عظیم حادثہ کے رو نما ہونے کے پہلے -- شیعہ اپنے امور کو منظم کرنے اور اپنے درمیان پہلی سی ہم آہنگی دوبارہ واپس لانے میں لگے ہوئے تھے ۔ اس مقام پر طبری اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتا ہے :”فلم یزل القوم فی جمع آلة الحرب والاستعداد للقتال

یعنی وہ لوگ ( مراد گروہ شیعہ ) جنگی سازو سامان اکٹھا کرنے نیز خود کو جنگ کے لئے آمادہ کرنے میں لگے ہوئے تھے چپکے چپکے شیعوں اور غیر شیعوں کو حسین ابن علی علیہما السلام کے خون کا انتقام لینے پر تیار کر رہے تھے اور لوگ گروہ در گروہ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا یہاں تک کہ یزید ابن معاویہ واصل جہنم ہو گیا ۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں با وجود اس کے کہ ماحول میں گھٹن اور سراسیمگی بہت زیادہ پائی جاتی تھی پھر بھی اس طرح کی سر گرمیاں اپنی جگہ پر جاری تھیں ( جیسا کہ طبری کی عبارت سے پتہ چلتا ہے ) اور شاید یہی وہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر ” جہاد الشیعہ“ کا مولف اگر چہ شیعہ نہیں ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلہ میں صحیح اور مطابق واقع نظریات نہیں رکھتا پھر بھی وہ اس حقیقت کو درک کر لیتا ہے اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ :

” گروہ شیعہ نے حسین (ع) کی شہادت کے بعد خود کو باقاعدہ تنظیم کی صورت میں منظم کر لیا ،ان کے اعتقادات اور سیاسی روابط انھیں آپس میں مربوط کرتے تھے ۔ ان کی جماعتیں اور قائد تھے ۔ اسی طرح وہ فوجی طاقت کے بھی مالک تھے چنانچہ توابین کی جماعت اس تنظیم کی سب سے پہلی مظہر ہے“

ان حقائق کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عاشور کے عظیم حادثہ کے زیر اثر اگر چہ بڑی حد تک شیعہ تنظیمیں ضعف و کمزور ی کا شکار ہو گئی تھیں پھر بھی اس دوران شیعہ تحریکیں اپنی ناتوانی کے باوجود مصروف عمل رہیں جس کے نتیجہ میں پہلے کی طرح دوبارہ خود کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔یہاں تک کہ واقعہ حرہ پیش آیا ۔ اور میں سمجھتا ہوں واقعہ حرہ تاریخ تشیع میں نہایت اہم موڑ ہے ۔در اصل یہی وہ واقعہ ہے جس نے شیعہ تحریک پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے ۔

واقعہ حرہ

حرہ کا حادثہ تقریبا ۶۳ ھئمیں پیش آیا ۔ مختصر طور پر اس حادثہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہےں کہ ۶۳ ئہجری میں بنو امیہ کا کم تجربہ نوجوان مدینہ کا حَکم مقرر ہوا اس نے خیال کیا کہ شیعیان مدینہ کا دل جیتنے کے لئے بہتر ہوگا کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو شام جاکر یزید سے ملاقات کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا مدینہ کے چند سربرآوردہ افراد ، اصحاب نیز دیگر معزز ین سے منتخب کئے جس میں اکثریت امام زین العابدین علیہ السلام کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتی تھیں ان لوگوں کو شام جانے کی دعوت دی گئی کہ وہ جائیں اور یزید کے لطف و کرم دیکھ کر اس سے مانوس ہو جائیں اور اس طرح اختلافات میں کمی واقع ہو جائے ۔یہ لوگ شام گئے اور یزید سے ملاقات کی چند دن اس کے مہمان رہے ان لوگوں کی خوب پذیرائی کی گئی اور رخصت ہوتے وقت یزید نے ہر ایک کو کافی بڑی رقم ( تقریبا پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ درہم تک )سے نوازا لیکن ۔

جیسے ہی یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے ، چوں کہ یزیدی در بار میں پیش آنے والے المیئے انھوں نے اپنی نظروں سے خود دیکھ لئے تھے لہٰذا خوب کھل کر یزید کو مورد تنقید قرار دیا اور نتیجہ بالکل ہی بر عکس ظاہر ہوا ان لوگوں نے یزید کی تعریف و توصیف کرنے کے بجائے ہر خاص و عام کو اس کے جرائم سے آگاہ کرنا شروع کر دیا ۔ لوگوں سے کہا: یزید کو کس بنیاد پر خلیفہ تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ شراب و کباب میں غرق رہنا اور کتوں سے کھیلنا اس کا بہترین مشغلہ ہے ۔ کوئی فسق و فجور ایسا نہیں ہے جو اس کے یہاں نہ پایا جاتا ہو ۔ لہٰذا ہم اس کو خلافت سے معزول کرتے ہیں ۔

عبداللہ بن حنظلہ(۴) جو مدینہ کی نمایاں اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے یزید کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے ان لوگوں نے یزید کو معزول کرکے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینی شروع کر دی۔

اس اقدام کا نتیجہ یزید کی طرف سے براہ راست رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوا اس نے اپنے ایک تجربہ کار پیر فرتوت سردار ، مسلم بن عقبہ کو چند مخصوص لشکر یوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا کہ وہ اس فتنہ کو خاموش کر دے ۔ مسلم بن عقبہ مدینہ آیا اور چند روز تک اہل مدینہ کی قوت مقابلہ کو پست کرنے کے لئے شہر کا محاصرہ کئے رہا یہاں تک کہ ایک دن شہر میں داخل ہوا اور اس قدر قتل و غارت گری مچائی اور اس قدر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ اسلام میں وہ آپ اپنی مثال ہے ۔

اس نے مدینہ میں کچھ ایسا ہی قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیاتھا کہ اس حادثہ کے بعد اس کا لقب ہی مسرف پڑگیا اور لوگ اس کو ” مسرف بن عقبہ “ کے نام سے پکارنے لگے ۔ حادثہ حرہ سے متعلق واقعات کی فہرست کا فی طویل ہے اور میں زیادہ تشریح میں جانا نہیں چاہتا صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ یہ واقعہ تمام مسلمانوں خصوصا اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں اور ہمنواؤں میں بے پناہ خوف و ہراس پیدا کرنے کا سبب بنا ، خاص طور پر مدینہ تقریبا خالی ہو گیا کچھ لوگ بھاگ گئے کچھ لوگ مار ڈالے گئے اہلبیت (ع) کے کچھ مخلص و ہمدرد مثال کے طور پر عبداللہ ابن حنظلہ جیسے لوگ شہید کر دیئے گئے اور ان کی جگہ خالی ہو گئی ۔ اس حادثہ کی خبر پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی اور سب سمجھ گئے کہ اس قسم کی ہر تحریک کا سد باب کرنے کے لئے حکومت پوری طرح آمادہ ہے اور کسی طرح کے اقدام کی اجازت دینے کو ہرگز تیار نہیںہے ۔

اس کے بعد ایک اور حادثہ -- جو مزید شیعوں کی سر کوبی اور ضعف کا سبب بنا -- جناب مختار ثقفی کی کوفہ میں شہادت اور پورے عالم اسلام پر عبد الملک بن مروان کے تسلط کی صورت میں ظاہر ہوا ۔

یزید کی موت کے بعد جو خلفاء آئے ہیں ان میں اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید ہے جو تین ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا ۔ اس کے بعد مروان بن حکم کے ہاتھ میں اقتدار آیا اور تقریبا دو سال یا اس سے کچھ کم اس نے حکومت کی اور پھر خلافت کی باگ ڈور عبد الملک بن مروان کے ہاتھ میں آگئی جس کے لئے مورخین کا خیال ہے کہ وہ خلفا ئے بنو امیہ میںزیرک ترین خلیفہ رہا ہے ۔ چنانچہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ :

کان عبد الملک اشد هم شکیبه و اقساهم عزیمه

عبد الملک پورے عالم اسلام کو اپنی مٹھی میں جکڑ لینے میں کامیاب ہو گیا اور خوف و دہشت سے معمور عامرانہ حکومت قائم کر دی۔

حکومت پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لئے عبد الملک کے سامنے صرف ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ اپنے تمام رقیبوں کا صفایا کر دے مختار جو شیعیت کی علامت تھے ، مصعب بن زبیر کے ہاتھوں پہلے ہی جام شہادت نوش فرما چکے تھے لیکن عبد الملک شیعہ تحریک کا نام و نشان مٹا ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے یہی کیا بھی ۔اس کے دور میں عراق خصوصا کوفہ جو اس وقت شیعوں کا ایک گڑھ شمار کیا جاتا تھا ،مکمل جمود اور خاموشی کی نذر ہو گیا۔

بہر حال یہ حوادث کربلا کے عظیم سانحہ سے شروع ہوئے اور پھر یکے بعد دیگرے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ کے قتل و غارت ، عراق میں تو ابین(۵) کی بیخ کنی ،جناب مختار ثقفی اور ابراہیم بن مالک اشتر نخعی نیز دیگر اکابرین شیعہ کی شہادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے حصول کی غرض سے ہر تحریک چاہے وہ مدنیہ ہو یا کوفہ( کیوں کہ اس وقت یہ دونوں شیعوں کے اہم ترین مراکز تھے ) کچل کر رکھ دی گئی ، شیعیت سے متعلق پورے عالم اسلام میں ایک عجیب خوف و ہراس پیدا ہوگیا ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ائمہ طاہرین علیہم السلام سے وابستہ رہ گئے تھے اپنی زندگی نہایت ہی غربت و کس مپرسی میں بسر کر رہے تھے ۔

___________________

(۱)۔ اصول کافی کتاب الحجہ باب کراہیۃ التوقیت ۔روایت اول ج/۳ص/۱۹۰طبع بنیاد رسالت ،تہران

(۲)۔ بحار الانوار ج/۴۶ ص/۱۴۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/۴ص/۱۰۴

(۳)۔ یہ واقعہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں نقل کیا ہے ۔

(۴)۔ حنظلہ ہی وہ نو جوان ہیں جو قبل اس کے کہ ان کی شب عروسی تمام ہو پیغمبر اسلام (ص) کی فوج میں آکر شامل ہو گئے اور میدان احد میں شہادت کا جام نوش فرمایا اور ملائکہ نے ان کو غسل دیا اسی لئے یہ حنظلہ غسیل الملائکہ کے نام سے معروف ہوئے ۔

(۵)۔ توبین کی تحریک واقعہ کربلا کا سب سے پہلا رد عمل ہے جو کوفہ میں ظاہر ہوا ۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بعض شیعوں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مواخذہ و عتاب کا مستحق قرار دیا کہ انھوں نے امام کی دعوت پر لبیک کیوں نہ کہی اور مدد کے لئے میدان میں نکلنے سے کیوں گریز کیا چنانچہ انھوں نے محسوس کیا اس گناہ سے اپنے دامن کو پاک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امام کے دشمنوں او ر قاتلوں سے حضرت کے خون کا انتقام لیا جائے ، لہٰذا وہ لوگ کوفہ آئے اور اکابرین شیعہ میں سے پانچ افراد کو جمع کرکے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی اور نتیجہ کے طور پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں کھلے طور پر مسلحانہ تحریک کا آغاز کر دیا ۔ شب جمعہ ۲۵/ ربیع الثانی ۶۵ء ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر زیارت کے لئے جمع ہوئے اس طرح فریاد و گریہ کرنا شروع کیا کہ آج تک اس گریہ و زاری کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے بعد قبر امام کو وداع کہہ کر شامی حکومت سے نبرد آزما ئی کے لئے شام کا رخ کیا اور پھر لشکر بنو امیہ سے جم کر جنگ ہوئی اور سب کے سب مارے گئے ۔ توابین کی تحریک کاایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ با وجود اس کے کہ کوفہ میں تھے پھر بھی شام گئے اور بر سراقتدار حکومت سے جنگ کی تاکہ یہ ثابت کر دیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قاتل کوئی ایک شخص یا چند اشخاص نہیں ہیں بلکہ یہ حکومت ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے ۔


5

6

7

8

9

10

11

12