تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت25%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

تاریخ وہابیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30045 / ڈاؤنلوڈ: 4579
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

1

2

چھٹا باب:

وہابی مذہب کے نشر واشاعت کامرکز

قارئین کرام! جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا جن عقائد اور تعلیمات کو محمد بن عبد الوہاب نے ظاہر کیا ان سب کا اظھار ابن تیمیہ کرچکا تھا، لیکن ابن تیمیہ نے ان عقائد کا اظھار اس علاقہ میں کیا تھاجہاں پر ان عقائد اور نظریات کے قبول کرنے کا ماحول نھیںتھا، لیکن جس ماحول میں محمد بن عبد الوہاب نے انھیں عقائد کو بیان کیا وہ ماحول ان عقائد کو قبول کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے آمادگی رکھتا تھا یعنی ان عقائد کو قبول کرنے کے لئے راستہ ہموار تھا اور اتفاقاً وہاں کے حکمراں افراد نے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کردیا، اگرچہ شروع شروع میں بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن حالات کے مناسب ہونے کی وجہ سے بہت جلد مشکلات پر کامیاب ہوا اور اسے اپنے کام میں کامیابی حاصل ہوگئی۔

نجد کی سر زمین شیخ محمد بن عبد الوہاب کے لئے اتنی ہموار تھی کہ اس نے ان عقائد اور تعلیمات کو پھیلانا شروع کردیا اور اس میں کامیاب ہوگیا لیکن اس کے بعد جو واقعات پیش آئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے علاقے اس کی باتوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے، اسی وجہ سے دوسرے علاقوں میں وہابیت کی تبلیغ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی، جس کی بناپر اس کا دائرہ صرف حجاز تک محدود ہوکر رہ گیا، اور اس کی تعلیمات دوسرے علاقوں میں زیادہ نہیں پھیلی، لیکن وہابیت کی طرفداری میں دوسرے لوگوں نے مختلف علاقوں میں وہابیت کو پھیلانے کا کام شروع کیا ۔

ان تمام چیزوں کے پیش نظر مناسب ہے کہ پہلے نجد کی سرزمین پر محمد بن عبد الوہاب کے نظریات پیش کرنے سے پہلے اور پیش کرنے کے بعد کے ماحول کی بررسی اور تحقیق کی جائے اور اس کے بعد ان دو طاقتوں کابھی ذکر کیا جائے جن کی وجہ سے نجد اورحجاز میں یہ نظریات پھیلائے گئے، یعنی خاندان آل سعود اور جمعیة الاخوان، اور اس کے بعد نجد وحجاز کے دوسرے علاقوں میں ان عقائد کا پھیلنا اور اس سلسلہ میں ہونے والی کوششوںکو بیان کیا جائے، ہماری اس کتاب کے آئندہ صفحات انھیں چیزوں سے مخصوص ہیں۔

سرزمین نجد

”نجد“ جزیرہ نما عربستان کا وہ بڑا علاقہ ہے جوآج سعودی عرب کے علاقہ میں شمار کیا جاتا ہے، لفظ نجد کے معنی ”اونچی زمین“کے ہیں کیونکہ سر زمین نجد قرب وجوار کے علاقوں سے بلندی پر واقع ہے اس وجہ سے اس کو نجد کہا جاتا ہے، نجد کا مرکز، شھر ریاض ہے جو عارض کے علاقہ میں ہے اور اس وقت سعودی عرب کا پائے تخت ہے، نجد کے دو ا ور مشہور شھر ”عنیزہ“ اور ”بریدہ“ قصیم علاقہ میں ھیں، اسی طرح شھر” زلفیٰ“ ”سدیر“علاقہ میں ، شھر ”شقراء“”وشم“ علاقہ میں اور شھر ”درعیہ“ عارض کے علاقہ میں نجد کے دوسرے شھر ہیں۔

نجد کی سرحد جنوب کی طرف سے یمامہ اور احقاف سے اور مشرق کی طرف سے عراق، احساء اور قطیف سے، شمال کی طرف سے صحرائے شام سے اور مغرب کی طرف سے حجاز کے علاقوں سے ملی ہوئی ہے۔

علامہ آلوسی کہتے ہیں کہ نجد کا علاقہ عرب کے علاقوں میں سے بہترین علاقہ ہے اس کی آب وہوا معتدل اور سر سبز ہے، محصول (اناج) کی فراوانی، بہترین پانی اور صاف ہوا اس سر زمین کی خصوصیات میں سے ہیں،نجد کے دَرّے (دو پھاڑوں کے درمیانی راستہ) پہلوں کے باغوں کی طرح ہیں اور یہاں کے گودال پانی سے بھرے حوض کی طرح ہیں.(۴۷۸)

قدیم اور جدید شعراء نے شھر نجد کی ہمیشہ توصیف کی ہے،(۴۷۹) اور اس کے بعد جناب آلوسی نے نجد کی مدح میں کھے گئے اشعاربھی بیان کئے ہیں۔

”یاقوت حموی“ کہتے ہیں کہ جس قدر نجد کی توصیف اور اس کے شوق دیدار میں اشعار کھے گئے ہیں کسی علاقہ کے لئے اتنے شعر نہیں کھے گئے،(۴۸۰) یاقوت حموی نے بھی ان اشعار میں سے چند نمونے پیش کئے ہیں، اور شایداس کی وجہ یہ ہو کہ اکثر شعراء نجد کے رہنے والے نہیں تھے اور زمانہ جاہلیت کے اشعار میں شھر نجد کی توصیف سے متاثر ہو کر اشعار کہہ ڈالے، سر زمین نجد کی یاد، در حقیقت اس زمانہ کی یاد ہے کہ جب وہاں کی زندگی خوش وخرم اورعیش وآرام اور وہاں کے علاقے سر سبز تھے، یھی نہیں بلکہ بعض فارسی شعراء نے بھی اس توصیف سے متاثر ہوکر، نجد اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں اشعار کھے ہیں۔

نجد کے عوام

جناب آلوسی صاحب نجد کے لوگوں کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں :نجد کے لوگ دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں ”شھر نشین“(۴۸۱) ور ”بادیہ نشین“ (دیھاتی)، جبکہ اس علاقے میں شھر نشینکم ہیں اور دیھاتی علاقوں میں زیادہ لوگ رہتے ہیں، اسی طرح اکثر دوسرے عرب علاقے بھی ہیںجو دیھاتی زندگی کو شھری زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، شھری افراد تجارت، کھیتی، خرمے کے باغات، اونٹ، گائیں اور بھیڑ بکریوں کو پالنے سے اپنی زندگی گذارتے ہیں، اور ان کی خوراک گھی، گوسفند گائے کا دودہ، گندم جَو، چاول، مکئی،تِل وغیرہ ہیں، اس طرف دیھاتیوں کا معاش زندگی بھیڑ بکریاں، گائے اور اونٹ پالنا تھاوہ اونٹ کا گوشت کہاتے اور اس کا دودہ پیتے تھے، اسی طرح جنگلی چوھے اورخرگوش کا بھی استعمال کرتے تھے۔

نجد کے اکثر لوگ ” ملخ“ (ٹڈّی) کہاتے ہیں اور ٹڈّی ہی ان کی وہ بہترین خوراک ہے جو اپنے لئے ذخیرہ کرتے ہیںاور یھی ان کے نزدیک بہترین، لذیذ ترین اورمنتخب غذا ہے، اسی طرح قہوہ کے بہت زیادہ شوقین ہیں، اور خوب بناتے بھی ہیں، نجدی لوگ دور دراز کے علاقوں مثلاً یورپ کے علاقوں میں سیر وسفر کو پسند نہیں کرتے، اسی وجہ سے ان کے یہاں تجارت کرنے والے کم پائے جاتے ہیں۔

اسی طرح آلوسی صاحب کہتے ہیں کہ نجدی لوگوں نے آثار تاریخی اور پرانے زمانہ کی تختیاں، وہ لکھے ہوئے پتھر جن کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ یہ ”حِمیری“ (یمن کے قدیم باشاہوں کا سلسلہ) کے زمانہ کے ہیں، اور ”سدوس“ میں عارض کے علاقہ میں موجود ہیںان کو نابود کرکے زمین کے برابر کردیا تاکہ کوئی یورپی سیّاح ان کو دیکھنے کے لئے ان کے ملک کا سفر نہ کرے۔(۴۸۲)

خلاصہ یہ کہ اہل نجد کی (آلوسی کے زمانہ میں )یہ خصوصیت تھی کہ نہ تو جلدی سے کسی دوسری جگہ جانے کے لئے تیار ہوتے تھے اور نہ ہی کسی غیر ملکی خصوصاً یورپین افراد کا اپنے ملک میں آنا پسند کرتے تھے۔

نجدی شھریوں کا لباس معمولی کپڑے اورعباوقبا ہوتی ہے اہل علم حضرات عمامہ (جس کا تحت الحنک ظاہر رہتا ہے) باندہتے ہیں اور عوام الناس عقال (سر پر باندہی جانے والی ڈوری) سر پر باندہتے ہیں اور جوتے بھی پہنتے ہیں اور ایک عصا ھاتھ میں رکھتے ہیں اور بہترین عطریات خصوصاً مشک وعنبر استعمال کرتے ہیں۔

آلوسی صاحب نجدیوں کے اخلاق کے بارے میں کہتے ہیں:

ان لوگوں کا اخلاق قدیم عربوں کی طرح ہے یعنی اپنے وعدہ کو وفا کرتے ہیں اور غیرت اور حفظ ناموس کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں، شریف بھی ہوتے ہیں اور مہم انوں کی حمایت کرتے ہیں سچائی اور شجاعت نیز حسن خلق میں بھی مشہور ہیں۔

نجدی لوگوں کی شکل وصورت بھی خوبصورت ہوتی ہے اور عام طور پر ان کا رنگ گندمی ہوتا ہے۔(۴۸۳)

وہابیت کی دعوت کے وقت نجدی شھریوں اور خانہ بدوشوں کی حالت

حافظ وھبہ، وہابیت کی دعوت کے وقت نجدیوں کی حالت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

”خانہ بدوشوں کا کام غارت گری، رہزنی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا اور ان کاموں کو اپنے لئے فخر ومباحات کاباعث سمجھتے تھے اگر کوئی خانہ بدوش کمزور ہوتا تھا تواس کی زبان حال یہ ہوتی تھی کہ مال خدا کا مال ہے ایک دن میرا ہے، تو دوسرے دن کسی دوسرے کا، صبح کے وقت غریب و فقیر ہے تو شام کے وقت مالدار اور صاحب ثروت۔

تجارتی لوگ ان کو ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں ان کے علاقے سے صحیح وسالم گذر سکتے تھے، یا اس کاروان کا خانہ بدوشوں میں کوئی آشنا اور دوست ہو، خانہ بدوشوں کا یہ وطیرہ تھا کہ اپنے کو خطرہ میں نہیں ڈالتے تھے اور جب انھیں یہ احساس ہوجاتا تھا کہ سامنے خطرہ ہے یا ان کے مقابلہ میں دفاع کرنے والے طاقتور ہیں تو اس کو لوٹنے سے باز رہتے تھے، ان کو سچائی اوردوستی سے کوئی واسطہ نہیں تھا ریا کاری اور نفاق ان کی فطرت کا ایک حصہ تھا، کبھی کبھی بدو عرب ان لوگوں کے لئے بھی مصیبت بن جاتے تھے جن سے دوستی کا دم بھرتے تھے، یعنی جب ان کو اپنے امیر یا حاکم کی شکست دکھائی دینے لگتی تھی توسب سے پہلے یھی لوگ اس کے مال ودولت کو غارت کردیتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر اس کے مال ودولت کا غارت ہونا یا اس کا گرفتار ہونا معلوم ہے تو خود ہم ہی اس کام کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔(۴۸۴)

نجد کا علاقہ عرب کے دوسرے علاقوں کی طرح خرافات اور غلط عقائد کا مرکز تھا جو صحیح اصول دین کے مخالف تھے اس علاقہ میں بعض اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبریں تھیں وہاں کے لوگ ان کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے، ان سے حاجت طلب کیا کرتے تھے، اپنی مشکلات کے دور ہونے کے لئے ان کو وسیلہ بناتے تھے، مثلاً ”جُبَیْلَہ“ نامی علاقہ میں زید بن الخطاب کی قبر تھی وہاں لوگ جایا کرتے تھے تاکہ ان کے حالات اچھے ہوجائےں اور ان کی حاجتیں پوری ہوجائیں۔

اس کے علاوہ ”منفوحہ“ شھر میں ایسا ہوتا تھا کہ جن لڑکیوں کی اس وقت تک شادی نہیں ہوئی ہوتی تھی وہ ایک خرمے کی نر درخت سے اس عقیدہ کے ساتھ متوسل ہوتی تھیں کہ اسی سال ان کی شادی ہوجائے اور اسی عقیدہ کے تحت لڑکیاں اس درخت کے سامنے کھڑی ہوکر کہا کرتی تھیں:

یَا فَحْلَ الْفَحُوْلِ اُرِیْدُ زَوْجاً قَبْلَ الْحُلُوْلِ“

(اے سب نروں سے بھتر وبرترنر !میں سال تمام ہونے سے پہلے پہلے اپنے لئے شوھر چاہتی ہوں)

”درعیہ“ شھر میں ایک غار تھاجس کو مقدس مانا جاتا تھا، اس کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہاس پھاڑ پر ایک لڑکی کو پناہ ملی ہے جو ایک ستمگر حاکم کے شکنجہ میں گرفتار ہوگئی تھی اور اس پھاڑ نے پھٹ کر اپنے دامن میں اس لڑکی کو پناہ دی تھی۔

نجد کے علاقہ میں کسی قسم کاقاعدہ اور قانون نھیںتھا، حكّام اور ان کے کارندے جو کچھ بھی چاہتے تھے کر گذرتے تھے، کسی کے پاس اگر کوئی حکومت ہوتی تھی تو اس کو دوسری حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا تھا۔

ادہر شھری افراد، خانہ بدوشوں سے ہمیشہ جنگ وجدال کرتے رہتے تھے مالدار لوگ جب یہ احساس کرلیتے تھے کہ ان کے مقابلہ میں ضعیف لوگ ہیں تو ان پر ظلم وستم کر نا شروع کردیتے تھے۔(۴۸۵)

نجدیوں کے اخلاقی و معاشرتی حالات کا خلاصہ

حافظ وھبہ صاحب نے (تقریباً چالس سال پہلے) نجدیوں کے اخلاق کو مورد بحث قرار دیا ہے، یہاں پر اس کا بیان کرنا مناسب ہے ۔

”جزیرة العرب کے اکثر لوگ خصوصاً خانہ بدوش قبیلوں کو دوسرے علاقوں میں رائج القاب اور آداب کا علم نہیں ہوتا تھا اسی وجہ سے دوسروں سے ہم کلام ہوتے وقت یہاں تک کہ بادشاہوں اور حكّام سے گفتگو کے دوران بھی ان کا نام لے کر پکارتے تھے یا ان کے معمولی لقب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔

آقا اپنے نوکر یا خادم کو ” لونڈے“ کہہ کر خطاب کرتے تھے اور جس وقت کسی گھر کے بزرگ کو قہوہ کی طلب ہوتی تھی تو وہ چلا کر کہا کرتا تھا: قہوہ لاؤ، ان کا خادم جب اس جملے کو سنتا تھا تو وہ بھی اس جملے کو بلند آواز سے کہا کرتا تھا اور اسی طرح دوسرے لوگ بھی بعینہ اسی جملے کی تکرار کیا کرتے تھے یہاں تک کہ جو قہوہ اور چائے بنانے اور لانے والا ہوتا تھا اس تک یہ آواز پہونچ جاتی تھی، وہ چائے لیکر حاضر ہوجاتا تھا، البتہ ابن سعود بادشاہ مذکورہ آواز لگانے کے بجائے بجلی کی گھنٹی استعمال کیا کرتا تھا لیکن یھی جناب جب شکار کے وقت ان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو اپنے خادموں کو بلند آوازسے پکارتے تھے اور جب دوسرے لوگ اس آواز کو سنتے تھے تو وہ بھی اسی نام کو پکارتے تھے یہاں تک کہ یہ آواز خادم کے کانوں تک پہونچ جاتی تھی۔

غلام اورنوکر اپنے آقا کو عمّو اورآقا کی بیوی کو عمہ (چچی) کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے، اور جب دسترخوان لگایا جاتا تھا تو سب کے سب چاروں طرف بیٹھ جاتے تھے اورخادم اونچی آواز میں کہتا تھا کہ ”سَمِّ“یعنی بسم اللہ کریں، اور اگر کوئی مہم ان آتا تھا تو حسب مراتب اس کو قہوہ پیش کیا جاتا تھااگر کوئی عظیم ہستی ہوتی تھی تو اس کو کئی کئی مرتبہ قہوہ پیش کیا جاتا تھا، عجیب بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی قہوہ پینے سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔

بیس سال پہلے (اس بات کو حافظ وھبہ نے تقریباً چالیس سال پہلے لکھا ہے لہٰذا تقریباً ساٹھ سال پہلے)شھریوں اور خانہ بدوشوں کے درمیان چائے کا رواج ہوچکا تھا اور خانہ بدوش چائے کو بہت زیادہ کھولاتے تھے تاکہ اس کا رنگ تیز اورمزہ کڑوا ہوجائے۔

نجد اورصحرائے عربستان میں رسم ہے کہ جب کوئی سفر سے واپس پلٹتا ہے تو چھوٹے اپنے بڑے کی ناک اور پیشانی یا شانوں کو بوسہ دیتے ہیں، اسی طرح حجاز میں ایک دوسرے کے ھاتھوں کو بوسہ دینے کی رسم تھی لیکن جس وقت سے ”اخوان اور نجد کے علماء“ (بعد میں تفصیل بیان ہوگی) حجاز میں وارد ہوئے ،تو انھوں نے ھاتھ چومنے پر پابندی لگادی لیکن چند سال بعد اسی کام کو جائز قرار دیدیا، اور اس وقت (کتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین کی تالیف کا زمانہ) سے حجاز کے لوگ بادشاہوں اورقضات کے ھاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں اوراس کام کو عیب شمار نہیں کرتے۔(۴۸۶)

مکہ کے اشراف اپنے کو اس سے کہیں بلند سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کی طرف اپنے ھاتھوں کوچومنے کے لئے بڑھائیں بلکہ اکثر لوگ ان کے کپڑوں کے کسی ایک حصہ کو چوم لینے پر ہی اکتفاء کیا کرتے تھے ۔(۴۸۷)

ان کے درمیان مہم ان کے احترام کا ایک طریقہ یہ تھا کہ اس کے سامنے قہوہ پیش کیا جاتا تھا اور نجد کے علاقہ میں مہم ان کے لئے چار پانچ قطرے کپ میں ڈالے جاتے تھے یہ عمل کئی مرتبہ انجام دیتے یہاں تک کہ خود مہم ان منع کردے، قہوہ کو بہت کڑوا بنایا جاتا تھا اور مہم ان کے لئے سادہ قہوہ لایا جاتا تھا اور سب سے پہلے میزبان یا اس کا خادم اسے خود پی کر دیکھتا تھا تاکہ اس بات کا اندازہ لگالیا جائے کہ قہوہ ٹھیک بنا ہے یا نھیں۔

مہم انداری میں گلاب یا” عُود“(ایک خوشبو دار لکڑی جس کے جلانے پر بہترین خوشبو ہوتی ہے) کا دہواں اس بات کی نشانی سمجھی جاتی تھی کہ اب مہم ان کے لئے یہاں ٹھھرناجائز نہیں ہے بلکہ رخصت ہونا بھتر ہے۔

ان کے درمیان کہانا کہانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بڑا ظرف دسترخوان پر لاکر رکھا جاتا ہے اور اگر مہم ان زیادہ ہوں تو چند برتن لائے جاتے ہیں اور سب لوگ اپنے اپنے ظرف کو اٹھاکر چمچہ کے بغیر ھاتھوں سے ہی کہانا شروع کردیتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی ظرف میں بادشاہ، شیخ، وزیر اور خادم ایک ساتھ کہانا کہالیں، اور اگر کوئی دوسروں سے پہلے ہی سیر ہوجاتا ہے تو وہ دسترخوان سے اس وقت تک نہیں اٹھتا جب تک دوسرے سبھی لوگ کہانے سے فارغ نہ ہوجائیں، اور جب سب لوگ کہانا کہالیتے ہیں تو سب ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اوراگرکوئی نادانی یا غلطی کی وجہ سے اچانک پہلے ہی اٹھ جاتا ہے تو دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں چاہے وہ سیر ہوئے ہوںیا نہ، لیکن عبد العزیز نے اس عادت کو ختم کردیا اور انھیں اس بات کی اجازت دی کہ جو شخص بھی سیر ہوجائے وہ دسترخوان سے اٹھ سکتا ہے، لیکن یہ عادت نجد میں اب بھی جاری ہے۔

نجد میں عام طور پر عورتیں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک دسترخوان پر کہانا نہیں کہاتیں اور اگر کوئی عورت اپنے شوھر کے ساتھ یا بڑے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانا کہالے تو اس کو بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے، البتہ چھوٹے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ کہانا کہاسکتے ہیں لیکن لڑکیا ں اگر بڑی ہوجاتی ہیں تو وہ اپنی ماں کے ساتھ کہانا کہائیں گی، یہ عادت نجد میں اب بھی جاری ہے اور حجاز میں صرف ان گھرانوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے جن کی نجد میں رشتہ داریاں ہیں۔

عرب کے شیخ اپنے بچوں کو تیر اندازی، گھوڑسواری اور شکار کے علاوہ کچھ سکھاتے ہی نھیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا نظریہ تو یہ ہے کہ بچوں کو پڑھانا معیوب ہے۔(۴۸۸)

چنانچہ جب ایک امیر نے دیکھا کہ اس کا لڑکا پڑھنے جانے لگا تو اس نے کہا کہ یہ لڑکا دیوانہ ہوگیا ہے کیونکہ حکومت اورتعلیم ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(۴۸۹)

عربوں میں صنعت کچھ اس طرح ہے: زرگری، نجاری، آہنگری (لوہارکا کام) بُنائی، بندوقوں کی مرمت کرنااور حیوانوں کی ڈاکٹری اور بعض وہ چیزیں جو طبّ کا حصہ ہیں مثلاً حجامت (بدن کا خراب خون نکالنا) اور زخموں کی مرہم پٹّی کرنا وغیرہ، لیکن صنعت گری عربوں میں اچھے کام نہیں سمجھے جاتے تھے اسی وجہ سے یہ کام کرنے والے یا تو عرب نہیں ہوتے تھے یا پھر عرب کے غیر مشہور قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے، اور وہ جب کسی کو برا بھلا کہتے تھے تو اس کو ”ابن الصانع“(صنعت گر زادہ) کہتے تھے اوراس لفظ کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ ان تمام معنی کو شامل ہو۔

اس کے بعد حافظ وھبہ صاحب کہتے ہیں کہ عجیب بات تو یہ ہے کہ عرب اب بھی اونٹ، گوسفند چَرانے اور گدہوں کی پرورش کو، خرید وفروخت اور دیگر صنعت گری اور تجارت پر ترجیح دیتے ہیں۔(۴۹۰) یہ تھی عرب کے امیر طبقہ کی زندگی، جس کے ضمن میں معمولی افراداور خانہ بدوشوں کی زندگی کے حالات بھی معلوم ہوگئے۔

نجد کے عربوں کی عادات و اطوار کے پیش نظر وہابیت کی ترقی اور پیشرفت کا کافی تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے، نجدی اپنے حاکم کے تابع ہوتے تھے اور ان کے حكّام ہمیشہ دوسروں پر غلبہ پانے کی فکر میں رہتے تھے، اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کو شروع میں بہت سی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جس وقت محمد ابن سعود (نجد ی حاکم) اس کی مدد کے لئے تیار ہوگیا تو اس کی ترقی کے راستے ہموار ہونے لگے اور اس کے بہت سے لوگ مرید بن گئے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اپنے مخالفین سے جنگ کو جھاد کا نام دیتا تھا اسے اپنا بنیادی مقصد قرار دے رکھا تھاکہ جب وہ دوسرے علاقوں اور قبیلوں پر غلبہ کرلیتے تھے تو ان کے مال کو لوٹ لیا کرتے تھے اوران کی زمینوں پر قبضہ کرلیا کرتے تھے، اور چونکہ بادنشین (خانہ بدوشوں) کی عادت ہی یھی تھی اسی وجہ سے فوراً اس کے پیچھے پیچھے ہوجایا کرتے تھے خصوصاً ان میں سے اکثر ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتےتھے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔(۴۹۱)

ایک دوسری بات یہ کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے اسلام اور سلف صالح کی سیرت پر عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اور اس طرح کی باتیں کرتا تھا کہ سننے والوں کا عقیدہ یہ ہوجاتا تھا کہ اگر ہم لوگ اس کی اطاعت کریں تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اورتابعین کی طرح ہوجائیں گے اور عربوں کے درمیان اس طرح کی تقریروں کے ذریعہ یہ بات ان کے ذہن نشین کرادی کہ صرف وھی حقیقی مسلمان اور اہل بہشت ہیں، اور اگر اس کے ساتھ رہکر قتل ہوجائیں یا کسی کو قتل کردیں تو دونوں صورتوں میں ان کی ہی کامیابی ہے۔

اس زمانہ میں نجد کا علاقہ ایک بیک ورڈ علاقہ تھا اوربمشکل کوئی وہاں جاتا تھا یانجدیوں میں سے کوئی باہر سفر کے لئے نکلتا تھا، نجد کے لوگ سادہ تھے اور تمام دوسری جگہوں سے بے خبر، دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا تھا ان کو اس کی خبر نہیں ہوتی تھی، ان کو بہت ہی کم اعتقادی مسائل کی تعلیم دی گئی تھی، ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے لوگوں میں محمد بن عبد الوہاب کی باتیں بہت جلدی موثر ہوگئیں، اور بہت ہی کٹّر پن سے اس کا دفاع کرنے لگے، یہاں تک کہ اس کے اس راستہ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

قارئین کرام!اگر یہ فرض کرلیں کہ وہابیت کی داغ بیل نجدیوں کے ماحول کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر ڈالی جاتی تو کیا پھر بھی اتنی ترقی حاصل ہوسکتی تھی؟! ظاہراً اس کا جواب” نھیں“ ہے، کیونکہ جس طرح سے ہم کتاب کے آخر میں بیان کریں گے کہ وہابیوں کی یہ دعوت نجد کے علاوہ صرف چند علاقوں میں محدود رہی، اور گھٹیا قسم کے لوگوں نے اس کو پھیلانے کی کوشش کی،یہاں تک کہ پنجاب (ہندوستان) میں بھی وھی طریقہ کار اپنایا گیا جونجد میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے مریدوں کا تھا، لیکن ان میں سے کسی کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔(۴۹۲)

____________________

۴۷۸. گویا نجد کے علاقہ کی توصیف دوسرے خشک علاقوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

۴۷۹. تاریخ نجد ص ۹۔

۴۸۱. شھر نشین سے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی ایک معین جگہ گذار تے ہیں اوران کے مقابلہ میں وہ لوگ ہیں جو خانہ بدوش ہیں۔

۴۸۲. تاریخ نجد ص ۲۸، اس کے باوجود بھی تقریباً اسّی سال پہلے چند یورپی سیّاح ”ڈوٹی“ اور ”بارُننلدہ“ ،” شَمّر“نامی پھاڑ پر گئے جو کہ آل رشید (نجد کا حاکم) کی قیام گاہ تھی (جو بعد میں آل سعود کے ھاتھوں میں چلی گئی) اور اس سر زمین کا مشاہدہ کیا، اسی طرح۱۸۷۹ء میں ”لیڈی آن بلینٹ“ نے اپنے شوھر ”ولفر“ کے ساتھ جو انگریزی کا مشہور شاعر تھا مذکورہ پھاڑ، اور نجد وحجاز کے بعض دوسرے علاقوں کا سفر کیا اور اپنے مشاہدات کو اپنے سفر نامے میں لکھا جس کی کئی جلدیں ہیں،انھوں نے اپنے سفر نامے میں بہت سے آثار قدیمہ کا ذکر کیا ہے، مذکورہ سفر نامہ کی بہترین تو صیف وہ ہےجس کو مولف نے ایرانی کاروان کے ایک حاجی سے بیان کی ہے (ص۲۴۹، اور اس کے بعد جس کا عربی میں بھی ترجمہ ہے) ضمیمہ نمبر ۴۰ ،مجلہ کا گیارہواں سال،صفحہ ۷۵ کا حاشیہ، جس میں ایران اورنجد کی مستقل حکومت کے رابطے کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے (البتہ یہ اقتباس ”احمد جائسی عرب کا مشہور ومعروف مولف“ کی کتاب سے ہے، وہ اپنی کتاب میں اس طرح لکھتا ہے کہ ”شارل ھویر“ فرانس کا مشہور ومعروف سیّاح جب انیسویں صدی میں آثار قدیمہ کی اپنی ریسرچ کے لئے دوسری مرتبہ نجد میں آتا ہے ”توحائل شھر میں محمد رشید سے ملاقات کے لئے جاتا ہے محمد رشید نے ایک شخص کو اس کے ساتھ بھیجا، لیکن جب وہ امارت کی سرحد سے باہر نکلا تو اس کو قتل کردیا گیا، اور اس کی ساری لکھی ہوئی چیزوں کو آگ لگادی گئی اور اس کا سامان لوٹ لیا گیا۔

۴۸۳. تاریخ نجد ص ۴۱، آلوسی صاحب نے جس طرح نجدیوں کی توصیف کی ہے وہ ان کے زمانہ تک کی ہے ورنہاس وقت نجدیوں کے طریقہ زندگی اور مال ودولت میں بہت زیادہ فرق آگیا ہے، صرف خانہ بدوش افراد میں تقریباً وھی صفات باقی ہیں چنانچہ حج کے زمانہ میں ان میں سے بعض لوگ اسی حالت میں آتے ہیں اوران کو بدُو کہا جاتا ہے۔

۴۸۴. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۱۳، چنانچہ وہابیوں کی حکومت آنے کے بعد بھی یہ لوگ عہد شکنی کرتے رہتے تھے اور وہابیوں کے دشمنوں کے ساتھ مل جاتے تھے، اور ایک دوسرے کے سامنے برائیاں اور فتنہ وفسادبرپا کرتے رہتے تھے، (تاریخ نجد ابن بشر جلد اول ص ۱۹، ۲۱۲ پر رجوع فرمائیں)

۴۸۵. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۶، ۳۳۷۔

۴۸۶. بہت سی وہ چیزیں جن کو اخوان اور علمائے نجد نے حرام قرار دیا تھا مثلاً تمباکو نوشی یا نئی نئی اختراعات سے استفادہ کرنا، چنانچہ زمانہ کے ساتھ ساتھ جائز ہوگئیں۔

۴۸۷. شرفائے مکہ نے اس خصلت کو عباسی خلفاء سے سیکھا ہے جن کا کہنا یہ تھا کہ ایک معمولی انسان ہمارے ھاتھوں کو چومنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ان کے وزیروں کو اتنا تکبر ہوتا تھا کہ کہتے تھے کہ ایک معمولی انسان یہاں تک کہ کتابوں کے مولفین اس لائق نہیں کہ ہمارے احترام کے لئے ہمارے پیروں کے سامنے کھڑے ہوں، ان تمام تفصیلات کے لئے مولف کی کتاب ”تاریخ عضد الدولہ دیلمی“ میں چوتھی صدی کے حالات ملاحظہ فرمائیں۔

۴۸۸. بنی امیہ کے خلیفہ کہتے تھے کہ علم حاصل کرنا غلاموں اورنوکروں کا وظیفہ ہے اوروہ اس سے کہیں بلند وبالا ہیں کہ علم حاصل کرنے جائیں، ہمارے لئے تو حکومت اور فرمان صادر کرنا مخصوص ہے، ہم نے ظاہراً آقای ذبیح اللہ کی کتاب میں پڑھا ہے کہ قرون وسطیٰ میں یورپ کے ا شراف بھی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم جاہل ہیں۔

۴۸۹. حافظ وھبہ صاحب اس جگہ کہتے ہیں کہ ہم بہت خوش ہیں کہ اس زمانہ میں بعض شیخ اپنے لڑکوں کو تعلیم کے لئے بیروت اور اسکندریہ بھیجنے لگے ہیں۔

۴۹۱. نجدیوں کا اپنے مخالفوں منجملہ عثمانیوں سے جنگ کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ ایمان اور عقیدے کے تحت جنگ نہیں کرتے تھے کیونکہ بارہا ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب لشکر والوں نے دیکھا کہ ان کا سردار کمزور پڑگیا تو دشمن کے لشکر سے جاملتے تھے، چنانچہ کتاب ”تاریخ مکہ“ اور ”تاریخ المملکة العربیة السعودیہ“ میں ایسے بہت سے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔

۴۹۲. اس موضوع کو سمجھنے کے لئے شیخ محمد بن عبد الوہاب اورابن تیمیہ کی حالات زندگی کی آخری بحث کی طرف رجوع فرمائیں۔

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دولڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔(٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

____________________

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

نتیجہ:

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔(١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢) چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

_____________________

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال '' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

راویوں کے اسمائ:

١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

علمائے اہل سنت کے نام:

١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین:

حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم ، القرآن وعترته ،وهی الاهل والنسل والرهط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وهٰذان کذلک، اذ کل منهما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حثصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الاقتداء والتمسک بهم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

حدیث سفینہ:

اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

___________________

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی

هذه ستون حدیثا اسمیتها :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَهْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دولڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔(٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

____________________

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

نتیجہ:

اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔(١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢) چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

_____________________

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال '' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

راویوں کے اسمائ:

١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

علمائے اہل سنت کے نام:

١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین:

حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وآله وسلم ، القرآن وعترته ،وهی الاهل والنسل والرهط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وهٰذان کذلک، اذ کل منهما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حثصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی الاقتداء والتمسک بهم

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

حدیث سفینہ:

اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

___________________

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی

هذه ستون حدیثا اسمیتها :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَهْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔


6

7

8

9

10

11

12