تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 897
مشاہدے: 144526
ڈاؤنلوڈ: 3234


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144526 / ڈاؤنلوڈ: 3234
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 4

مؤلف:
اردو

اسلام كا عالمگير ہونا ۱

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى ربوبيت ۲، ۵;اللہ تعالى كے افعال ۱۰;

امور: امور كى تدبير ۵

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۶

برہان: برہان كا كردار ۴

تربيت: تربيت كے عوامل ۴، ۶

توحيد: توحيد كے دلائل ۱

رشد : رشد كے عوامل۴

روايت: ۶

قرآن كريم: قرآن كريم كا عالمگير ہونا ۸; قرآن كريم كا فہم ۹; قرآن كريم كا كردار ۱۱;قرآن كريم كا منور ہونا ۷، ۱۱;قرآن كريم كا نزول ۱۰; قرآن كريم كا ہدايت كرنا۷، ۱۱

نبوت: نبوت كے دلائل۳

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۷

آیت ۱۷۵

( فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ بِاللّهِ وَاعْتَصَمُواْ بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطاً مُّسْتَقِيماً )

پس جو لوگ الله پر ايمان لائے او راس سے وابستہ ہوئے انہيں وہ اپنى رحمت او راپنے فضل ميں داخل كرلے گا او رسيد ھے راستہ كى ہدايت كردے گا _

۱_ خداوند متعال اپنے ساتھ متمسك ہونے والے مؤمنين كو اپنى خاص رحمت، فضل اور ہدايت سے

بہرہ مند كرے گا_فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا به و

۲۴۱

يهديهم اليه صراطاً مستقيماً خداوند عالم كى ہدايت، فضل اور رحمت تمام بندوں كے شامل حال ہوتى ہے لہذا انہيں پاداش اور اجر كے طور پر بيان كرنا اس بات كى علامت ہے كہ اس سے مراد خاص رحمت اور خاص فضل و ہدايت ہوگي_ واضح ر ہے كہ مذكورہ بالا مطلب ميں ''بہ'' كى ضمير ''اللہ'' كى طرف لوٹائي گئي ہے_

۲_ خداوند متعال پر ايمان اور قرآن كريم و پيغمبر اكرمعليه‌السلام سے تمسك كرنا خدا وند عالم كے فضل و رحمت سے بہرہ مند ہونے كا باعث بنتا ہے_فاما الذين ا منوا بالله و اعتصموا به فسيدخلهم فى رحمة منه و فضل اس احتمال كى بناپر كہ جب ''بہ'' كى ضمير گذشتہ آيت شريفہ ميں موجود ''برھان'' ( پيغمبر اكرمعليه‌السلام ) اور ''نور'' ( قرآن كريم )كى طرف لوٹ رہى ہو_

۳_ خداوند متعال سے متمسك ہونے والے مؤمنين كى پاداش يہ ہے كہ وہ مقام قرب الہى پر فائز، بہشت اور اس كى نعمتوں اور فضل خداوندى سے مكمل طور پر بہرہ مند ہوں گے_فاما الذين ا منوا فسيدخلهم فى رحمة منه و فضل و يهديهم اليه

۴_ بہشت; رحمت خداوندى كا مظہر ہے_فسيدخلهم فى رحمة منه اس بناپر جب مذكورہ پاداشوں سے مراد اخروى پاداشيں ہوں _اس مبنا كے مطابق كلمہ''دخول'' اور ''في''كے قرينہ كى بناپر ''رحمت'' سے مراد جنت ہوگي_

۵_ خدا وند متعال پر ايمان اس وقت ثمر بخش اور مفيد ثابت ہوگا جب قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسك كيا جائے_فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا به فسيدخلهم فى رحمة منه و فضل

۶_ خداوند متعال اپنے ساتھ متمسك ہونے والے مؤمنين كو راہ مستقيم كى ہدايت كرتا ہے_فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا به و يهديهم اليه صراطاً مستقيماً

۷_ صراط مستقيم ايسى راہ و روش ہے كہ جو انسان كو خدا وند متعال تك لے جاتى ہے اور اس كى طرف راہنمائي كرتى ہے_و يهديهم اليه صراطاً مستقيما مذكورہ بالا مطلب ميں ''صراطاً مستقيماً'' كو ''اليہ'' كيلئے عطف بيان كے طور پر لياگيا ہے يعنى وہ راستے جو ''اللہ تعالى'' تك منتہى ہوں صراط مستقيم ہيں _

۲۴۲

۸_ جنت ميں داخل ہونا، فضل خداوندى سے بہرہ مند ہونا اور مقام قرب الہى تك پہنچنا ; خدا پر ايمان لانے والوں اور پيغمبر اكرمعليه‌السلام و قرآن كريم كى پيروى كرنے والوں كى پاداش ہے_فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا يهديهم اليه صراطاً مستقيماً

۹_ ہدايت اور خدا تك رسائي; جنت اور اس كى نعمتوں سے كئي درجہ افضل پاداش ہے_فاما الذين امنوا بالله و يهديهم اليه صراطاً مستقيماً خداوند متعال پاداش كا تذكرہ كرتے وقت اكثر و بيشتر پہلے ادني اور پھر اعلي كا ذكر كرتا ہے لہذا خدا تك پہنچنا اور اس كا قرب حاصل كرنا ''يھديھم اليہ'' مومنين كيلئے بہترين پاداش ہوسكتى ہے_

۱۰_ راہ راست كى ہدايت اور خدا تك پہنچنا، خداوند متعال پر ايمان اور اس سے متمسك ہونے پر موقوف ہے_

فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا به يهديهم اليه صراطاً مستقيماً

۱۱_ راہ راست كى ہدايت اور خداوند عالم تك رسائي ; اس پر ايمان اور قرآن و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متمسك ہونے پر موقوف ہے_فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا به يهديهم اليه صراطا مستقيماً

۱۲_ ايمان كے ثمر بخش ہونے كى شرط يہ ہے كہ زندگى كے تمام شعبوں ميں خداوند عالم سے تمسك كيا جائے_

فاما الذين امنوا بالله و يهديهم اليه صراطاً مستقيماً متعلق اعتصام كو حذف كرنا بظاہر اس كے اطلاق كو بيان كررہا ہے يعنى ہر زمانے اور ہر چيز ميں خداوند متعال سے تمسك كيا جائے_

۱۳_ خداوند متعال، قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرنے والے كفار ;خدا كى خاص رحمت اور خاص فضل و ہدايت سے محروم ہيں _فاما الذين امنوا بالله و اعتصموا به صراطاً مستقيماً ''اما'' تفصيليہ كا معادل حذف كرديا گيا ہے اور موجودہ جملہ''فاما الذين آمنوا ...'' اس كو بيان كررہا ہے_

۱۴_ مومنين آخرت ميں معنوى رشد و تكامل سے بہرہ مند ہوں گے_و يهديهم اليه صراطاًمستقيماً جملہ''فسيدخلهم ...'' كي''سين'' كو سامنے ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ جملہ اخروى رحمت اور فضل پر دلالت كرتا ہے_ پس ہدايت جسے رحمت و فضل كے بعد ذكر كيا گيا ہے، سے مراد ہدايت اخروى ہے اور خدا وند متعال كى طرف ہدايت وہى معنوى كمال ہے_

۲۴۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكار: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكاروں كى پاداش ۸

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا اجر ۱;اللہ تعالى كا فضل ۱، ۲، ۳، ۸، ۱۳ ; اللہ تعالى كى خاص ہدايت ۱;اللہ تعالى كى رحمت ۲، ۴ ، ۱۳; اللہ تعالى كى ہدايت ۶، ۱۳

ايمان: ايمان كا متعلق ۲، ۱۰۵، ۱۱; ايمان كى شرائط ۵; ايمان كے اثرات ۱۰، ۱۲ ;خدا وند متعال پر ايمان ۲، ۵، ۱۰، ۱۱

بہشت: بہشت كى قدر و منزلت ۴;بہشت كى نعمتيں ۳، ۹; بہشت كے موجبات ۳; بہشت ميں داخل ہونا ۸

تقرب: تقرب كى روش ۷; مقام تقرب ۳، ۸; مقام تقرب كى قدر و منزلت ۹

تمسك: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسك ۲، ۵، ۱۱;خداوند متعال سے تمسك ۶، ۱۰، ۱۲;خدا وند متعال سے تمسك كى پاداش ۳ ; قرآن كريم سے تمسك۲، ۵، ۱۱

رحمت: رحمت سے محروم ہونا ۱۳;رحمت كے اسباب ۲

رحمت خداوندى سے بہرہ مند لوگ: ۱

رشدو تكامل: رشدو تكامل كے عوامل ۱۲

صراط مستقيم: ۶، ۷، ۱۰، ۱۱

قرآن كريم كے پيروكار: قرآن كريم كے پيروكاروں كى پاداش ۸

قيامت: قيامت ميں تكامل ۱۴

كفار: كفار كى محروميت ۱۳

كفر: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں كفر ۱۳;خدا وند عالم كے بارے ميں كفر۱۳ ;قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۱۳

مؤمنين: مؤمنين كا اخروى تكامل ۱۴;مؤمنين كا بہشت ميں داخل ہونا ۸;مؤمنين كا تكامل ۱۴; مؤمنين كى پاداش ۲، ۳، ۸;مؤمنين كى فضيلتيں ۱، ۱۴; مؤمنين كى ہدايت ۱، ۶

نعمت: نعمت كے موجبات ۳

ہدايت: ہدايت سے محروميت ۱۳;ہدايت كا پيش خيمہ ۷;ہدايت كى قدر و قيمت ۹;ہدايت كے عوامل۱۰، ۱۱

۲۴۴

آیت ۱۷۶

( يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ )

پيغمبر يہ لوگ آپ سے فتوي دريافت كرتے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ كلالہ (بھائي بہن ) كے بارے ميں خداخود يہ حكم بيان كرتا ہے كہ اگر كوئي شخص مرجائے او راس كى اولاد نہ ہواو رصرف بہن وارث ہوتو اسے تركہ كانصف ملے گا او راسى طرح اگر بہن مرجائے او راس كى اولاد نہ ہو توبھائي اس كاوارث ہوگا_ پھر اگر وارث دو بہنيں ہيں تو انھيں تركہ كا دوتہائي ملے گا او راگر بھائي بہن دونوں ہيں تو مرد كے لئے عورت كا دہر احصہ ہو گا خدايہ سب واضح كر رہا ہے تاكہ تم بہكنے نہ پا ؤ او رخدا ہرشے كاخوب جاننے والا ہے _

۱_ لوگ بار بار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كلالہ كى وراثت كے بارے ميں سوال اور استفتاء كرتے تھے_

يستفتونك قل الله يفتيكم فى الكلالة ''كلالہ'' يا اس ميت كو كہا جاتا ہے كہ مرتے وقت جس كى اولاد اور باپ نہ ہو يا ان ورثاء كو كہا جاتا ہے جو ميت كے ماں ، باپ يا اولاد نہ ہوں _

۲۴۵

فعل مضارع اور جمع كا صيغہ ''يستفتونك '' اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ وہ بار بار سوال كرتے اور سوال كرنے والوں كى تعداد بھى زيادہ تھي_

۲_ احكام كو خداوندمتعال نے وضع كيا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كى تبليغ كرنے والے ہيں _

قل الله يفتيكم فى الكلالة لوگوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استفتاء كيا اور خداوند متعال نے ان كے جواب ميں فرمايا: خداوند عالم عنقريب تمہارے استفتاء كا جواب دے گا_ اس كا مطلب يہ ہے كہ احكام كو خداوند متعال وضع كرتا ہے نہ كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور كلمہ ''قل'' اس پر دلالت كرتا ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ان احكام كى تبليغ ہے_

۳_ ميت كے بہن اور بھائي اس كے ورثاء ميں شامل ہيں _قل الله يفتيكم فى الكلالة و ان كانوا اخوة رجالاً و نساء تمام مفسرين كے بقول اس آيت شريفہ ميں بہن اور بھائيوں سے مراد وہ بہن بھائي ہيں جو ماں اور باپ دونوں كى طرف سے يا صرف باپ كى جانب سے ہوں _ صرف ماں كى طرف سے بہن بھائيوں كا حصہ اسى سورہ كى آيت ۱۲ ميں بيان كيا جا چكا ہے_

۴_ ميت كے بہن بھائي اس وقت اس سے ميراث پائيں گے جب اس ميت كا باپ يا اولاد( بيٹا يا ببٹي) موجود نہ ہوں _قل الله يفتيكم فى الكلالة ان امرؤا هلك ليس له ولد و له اخت و هو جملہ ''ليس لہ ولد'' بہن كے بھائي سے ارث لينے كيمقدار (نصف) كى شرط نہيں بلكہ خود ميراث پانے كى شرط بيان كررہا ہے كيونكہ پہلى صورت ميں ميت كے بيٹے كى موجودگى ميں بھى بہن كا حصہ بيان كرنا چاہيئے تھا _ آيت شريفہ كے موضوع يعنى كلالہ كو سامنے ركھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے، باپ كا نہ ہونا بھى شرط ہے كيونكہ لغت ميں كلالہ اسے كہا جاتا ہے جس كا باپ ہو نہ اولاد_

۵_ اگر ميت مرد ہو اور اس كى وارث صرف ايك بہن ہو تو اس كا حصہ آدھا تركہ ہوگا_ان امرؤا هلك ليس له ولد و له اخت فلها نصف ما ترك

۶_ اگر ميت عورت ہو اور اس كى وارث صرف ايك بہن ہو تو اس كا حصہ آدھا تركہ ہوگا_

ان امرؤا هلك ليس له ولد و له اخت فلها نصف ما ترك اس چيز كو سامنے ركھتے ہوئے كہ آيت شريفہ ميں كلالہ كو ملنے والى ميراث كى وضاحت كى جارہى ہے اور يہ عنوان قطعاً بہن سے بہن اور بھائي سے

۲۴۶

بھائي كے ميراث پانے اور اسى طرح كے ديگر موارد كو بھى شامل ہوگا، معلوم ہوتا ہے كہ اگر بہن سے بہن اوربھائي سے بہن كے ارث پانے ميں فرق يا تفاوت ہوتا تو خداوندعالم اسے بيان كرتا اس مطلب كى اس سے بھى تائيد ہوتى ہے كہ وہ مسائل جن كى تصريح كى گئي ہے ان ميں سے كسى بھى مورد ميں ميت كے مرد يا عورت ہونے كى صورت ميں ارث كى مقدار ميں فرق نہيں پايا جاتا_

۷_ اگر ميت عورت اور اس كا وارث صرف ايك بھائي ہو تواسے تمام تركہ ارث كے طور پر ملے گا_

و هو يرثها ان لم يكن لها ولد جملہ ''ھو يرثھا'' كا ظہور يہ ہے كہ بھائي اپنى بہن كے تمام مال و اسباب كا وارث ہے اور اگر تركہ كا صرف كچھ حصہ وراثت كے طور پر اسے ملتا تو خداوند متعال اس كا حصہ معين و مشخص كرديتا_

۸_ اگر ميت كے ورثاء دو يا اس سے زيادہ بھائي ہوں تو انہيں چاہيئے كہ تركہ كو مساوى طور پر تقسيم كريں _

و هو يرثها ان لم يكن لها ولد

۹_ اگر ميت مرد ہو اور اس كا وارث ايك يا اس سے زيادہ بھائي ہوں تو تمام تركہ ارث كے طور پر انہيں ملے گا_

و هو يرثها ان لم يكن لها ولد مذكورہ بالا مطلب اس توضيح سے اخذ ہوتا ہے جو مطلب نمبر ۶كے بارے ميں دى گئي ہے_

۱۰_ اگر ميت عورت ہو اور اس كے وارث دو يا اس سے زيادہ بھائي ہوں تو تمام تركہ انہيں وراثت كے طور پر ملے گا_و هو يرثها ان لم يكن لها ولد مطلب نمبر ۶كے بارے ميں دى گئي توضيح سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۱۱_ ميت خواہ عورت ہو يا مرد اگر اس كے ورثاء ميں صرف دو بہنيں ہوں تو كل تركے كا دو تہائي انہيں ملے گا_

فان كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك بہن سے بھائي اور بھائي سے بہن كے ارث پانے كى وضاحت كے بعد ''فان كانتا ...'' كا جملہ ذكر كرنا اس بات پر دليل ہے كہ دو بہنوں كے مسئلہ ارث كا موضوع ان كے بھائي يا بہن كى موت ہے يعنى بھائي يا بہن كے مرنے كى صورت ميں ان كى بہنوں كو وراثت ملے گى لہذا ''مما ترك'' كى ضمير ''احدھما'' كى طرف لوٹ رہى ہے جو جملہ ''ان امرؤا ھلك'' اور ''ھو يرثھا'' سے استفادہ ہوتا ہے_

۱۲_ اگر ميت كے ورثاء ميں صرف دو بہنيں ہوں تو انہيں چاہيئے كہ اپنا حصہ (دوتہائي) آپس ميں برابر تقسيم

۲۴۷

كريں _فان كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك اگر دو بہنوں كى وراثت كى مقدار ميں فرق ہوتا تو خداوند عالم اسے بيان فرماتا_

۱۳_ ميت خواہ عورت ہو خواہ مرد اگر اس كے ورثاء ميں صرف اس كے بہن بھائي ہوں ، تو تمام تركہ انہيں ميراث كے طور پر ملے گا_و ان كانوا اخوة رجالا و نساء فللذكر مثل حظ الانثيين بہن بھائيوں كے مجموعہ كيلئے ارث كى مقدار معين نہ كرنا اس بات پر دليل ہے كہ انہيں تمام تركہ ملے گا_

۱۴_ اگر ميت كے ورثاء اس كے بہن بھائي ہوں تو ميراث ميں سے بھائي كو بہن سے دوگنا حصہ ملے گا_

و ان كانوا اخوة رجالا و نساء فللذكر مثل حظ الانثيين ''اخوة'' سے مراد ايك بہن اور ايك بھائي يا ايك بہن اور چند بھائي يا چند بھائي اور چند بہنيں يا ايك بھائي اور چند بہنيں ہوسكتا ہے_

۱۵_ اسلام كے حقوقى نظام ميں عورت كيلئے مالكيت اور ميراث كا حق ثابت ہے_فلها نصف ما ترك و هو يرثها فلهما الثلثان مما ترك

۱۶_ ميراث مالكيت كے اسباب ميں سے ايك ہے_فلها نصف ما ترك فلهما الثلثان مما ترك

۱۷_ خداوند متعال لوگوں كو گمراہى سے بچانے كى خاطر اپنے احكام كو بيان كرتا ہے_يبين الله لكم ان تضلوا

جملہ ''ان تضلوا'' ميں حرف''لا''چھپا ہوا ہے: يعني''لان لا تضلوا'' _

۱۸_ قرآن كريم نے حقوقى اور معاشى مسائل كو اہميت دى ہے_قل الله يفتيكم فى الكلالة يبين الله لكم ان تضلوا

۱۹_ دين كے حقوقى اور اقتصادى مسائل (ميراث و ...) كو ديكھا ان ديكھا كرنا گمراہى و ضلالت كا موجب بنتا ہے_

يستفتونك قل الله يفتيكم يبين الله لكم ان تضلوا

۲۰_ خداوند متعال عليم ہے_و الله بكل شيء عليم

۲۱_ خداوند متعال كاہر چيز پر احاطہ ہے اور وہ اس كا علم ركھتا ہے_والله بكل شيء عليم

۲۴۸

۲۲_ خداوند متعال كى جانب سے احكام وراثت بيان كرنے كا سرچشمہ، تمام پہلوؤں سے اس كاعلم ہے_

قل الله يفتيكم فى الكلالة والله بكل شيء عليم

۲۳_ كلالہ اس وقت وراثت ميں حصہ دار بن سكتے ہيں جب ميت كے ماں باپ اور اولاد نہ ہو_

قل الله يفتيكم فى الكلالة حضرت امام صادقعليه‌السلام كلالہ كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں : مالم يكن لہ والد و لا ولد(۱) يعنى كلالہ اسے كہتے ہيں جس كا نہ باپ ہواور نہ اولاد ہو_

۲۴_ اگر ميت كے ماں باپ اور اولاد نہ ہو بلكہ صرف ايك بہن ہو تو اگر يہ بہن ماں باپ دونوں يا صرف باپ كى طرف سے ہو تو وراثت كا آدھا حصہ اسے ملے گا_ان امرؤا هلك ليس له ولد و له اخت فلها نصف ما ترك

حضرت امام صادقعليه‌السلام اس آيت شريفہ ميں مذكور''اخت'' كے بارے ميں فرماتے ہيں : انما عنى اللہ الاخت من الاب و الام او اخت لاب فلھا النصف مما ترك و ھو يرثھا ان لم يكن لھا ولد و(۲) اس سے خدا كى مراد ماں اور باپ يا صرف باپ كى طرف سے بہن ہے اور اسے تمام تركہكا نصف حصہ ملے گا_ البتہ وہ بھى اس سے وراثت پائے گا جب اس بہن كى كوئي اولاد نہ ہو_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نقش ۱، ۲

احكام: ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۴ احكام كى تشريع ۲;احكام كے بيان كا فلسفہ ۱۷

اسماء و صفات: عليم۲۰

اقتصادى نظام: ۱۸، ۱۹

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا احاطہ ۲۱;اللہ تعالى كا علم ۲۱، ۲۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى ذمہ دارى كا دائرہ ۲

حقوقى نظام: ۱۵، ۱۸، ۱۹

روايت: ۲۳، ۲۴

____________________

۱) تفسير عياشي، ج۱، ص۲۸۶، ح۳۱۰، تفسير برھان، ج۱، ص ۴۲۹، ح۳_

۲) كافي، ج۷، ص۱۰۱، ح۳، تفسير برھان، ج۱، ص۴۲۹، ح۵_

۲۴۹

عورت: عورت كى مالكيت ۱۵;عورت كے حقوق ۱۵;

قرآن كريم: قرآن كريم كى تعليمات ۱۸، ۱۹

گمراہي: گمراہى كے عوامل ۱۹;گمراہى كے موانع۱۷

مالكيت: مالكيت كے اسباب ۱۶

ميت: م يت كا بھائي ۳، ۴;ميت كى بہن ۳، ۴

ميراث: احكام ارث كا بيان۲۲;بھائي كى ميراث ۴;بھائي كے ارث كى مقدار ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۳، ۱۴ ;بہن كى ميراث ۴;بہن كے ارث كى مقدار ۵، ۶، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۴ ;عورت كى ميراث ۱۵;كلالہ كى ميراث ۱، ۴، ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱،۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۴ ;ميراث كا نقش ۱۶ ;ميراث كے احكام ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۴ ; ميراث كے طبقات ۳، ۴

ورثاء: ۳

۲۵۰

سوره مائده

آيت ۱ تا ۱۲۰

۲۵۱

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِِ )

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ )

ايمان والواپنے عہدوپيمان اور معاملات كى پابندى كرو _ تمہارے لئے تمام چوپائے حلال كرديئے گئے ہيں علاوہ ان كے جو تمہيں پڑھ كر سنا ئے جار ہے ہيں _مگر حالت احرام ميں شكار كو حلال مت سمجھ لينا بيشك الله جو چاہتا حكم ديتا ہے _

۱_ تمام انفرادي، اجتماعي، بين الاقوامى اور الہى معاہدوں كو پورا كرنا واجب ہے_يا ايها الذين ا منوا اوفوا بالعقود

۲_ انسان اپنے عہد و پيمان كا ذمہ دار ہے_يا ايها الذين ا منوا اوفوا بالعقود

۳_ تمام عقود كى اصل اور ان كا بنيادى قاعدہ يہ ہے كہ عقد كے مضمون پر عمل كرنا اور پابند رہنا لازمى اور واجب ہے_

يا ايها الذين ا منوا اوفوا بالعقود صيغہ امر''اوفوا'' عقد كے مفاد و مضمون كى پابندي

كوواجب قرار ديتا ہے جسے لزوم عقد سے تعبير كيا جاتا ہے اور چونكہ ''عقود'' پر الف ولام داخل ہوا ہےلہذا اس سے عموم كا استفادہ ہوتا ہے_

۴_ عہد و پيمان اور انہيں پورا كرنے كى قدر و قيمت اور اہميت _يا ايها الذين ا منوا اوفوا بالعقود

خداوند عالم كا براہ راست مؤمنين كو خطاب كرنا اور پھر عہد و پيمان اور قرار دادوں پر پورا اترنے كا حكم دينا ان كى اہميت اور قدر و قيمت پر دلالت كرتا ہے_

۲۵۲

۵_ بعض جانوروں كا گوشت كھانا اور ان سے دوسرے فوائد حاصل كرنا جائز اور حلال ہے_

احلت لكم بهيمة الانعام الا ما يتلى عليكم ''بھيمة'' ہر چار ٹانگوں والے صحرائي يا دريائي جانور كو كہا جاتا ہے( مجمع البيان) جبكہ ''انعام'' گائے، اونٹ اور بھيڑ كو كہا جاتا ہے( مفردات راغب) اور ''بھيمة'' كى ''انعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے_ قابل ذكر بات يہ ہے كہ چونكہ حليت كا حكم ''بھيمة'' كے گوشت كھانے كے بارے ميں نہيں بلكہ خود ''بہيمة'' كے بارے ميں آيا ہے لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كے گوشت كے علاوہ ان سے ديگر فوائد حاصل كرنا بھى مورد نظر ہے_

۶_ بعض جانوروں كا گوشت كھانا اور ان سے دوسرے فوائد حاصل كرنا حرام ہے_

احلت لكم بهيمة الانعام الا ما يتلي عليكم

۷_ حلال گوشت جانوروں كے بعض اعضاء كاكھانا حرام ہے_احلت لكم بهيمة الانعام الا ما يتلي عليكم

اس بناپر جب ''الا ما يتلي'' كا استثناء افراد حيوانات سے نہيں بلكہ ان كے اجزاء واعضا كى نسبت سے ہو_

۸_ حالت احرام ميں شكار كرنا حرام ہے_غير محلى الصيد و انتم حرم كلمہ ''صيد'' مصدر اور اس كا معنى شكار كرنا ہے_ جب كہ كلمہ ''حرُ مُ''( حرام كى جمع ہے) ہوسكتا ہے احرام سے اخذ كيا گيا ہو_ اس صورت ميں اس كا معنى وہ لوگ ہونگے جوحج يا عمرہ كيلئے احرام باندھتے ہيں اور ہوسكتا ہے كہ ''حصرصم ص'' سے ليا گيا ہو_ اس صورت ميں اس كا معنى وہ لوگ ہونگے جو حرم كى حدود ميں داخل ہوں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_

۹_ اس حيوان كا گوشت كھانا اور اس سے دوسرے فوائد حاصل كرنا حرام ہے جسے احرام كى حالت ميں شكار كيا گيا ہو_غير محلى الصيد اس بناپر جب ''صيد'' بمعنى اسم مفعول ہو يعنى شكار شدہ حيوان_

۱۰_ حرم مكہ ميں شكار حرام ہے_غير محلى الصيد و انتم حرم مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''حُرُم'' سے مراد ''داخلون فى الحرم'' ہو يعنى حرم ميں داخل ہونے والے_ واضح ر ہے كہ اس احتمال كى بناپر ''حرم'' سے مراد حرم مكہ ہے_

۲۵۳

۱۱_ اس حيوان كا گوشت كھانا اور اس سے دوسرے فوائد حاصل كرنا حرام ہے جسے حرم مكہ ميں شكار كيا گيا ہو_

غير محلى الصيد و انتم حرم

۱۲_ چوپايوں سے استفادہ كى حليت اس بات سے مشروط ہے كہ حالت احرام ميں ان كے شكار سے اجتناب اور انہيں حرام شمار كيا جائے_احلت غير محلى الصيد اس بناپر جب ''غير محلي'' ''لكم'' كى ضمير كيلئے حال ہو اور چونكہ حال اپنے عامل كو مقيد كرديتا ہے_ بنابريں حلال گوشت جانوروں كى حليت اس سے مشروط ہے كہ حالت احرام ميں ان كے شكار سے اجتناب اور انہيں حرام شمار كيا جائے_

۱۳_ اسلام نے معاشرے كے اجتماعى اور اقتصادى مسائل كى طرف توجہ دى ہے_

يا يها الذين ا منوا اوفوا بالعقود احلت لكم بهيمة الانعام قراردادوں اورمعاہدوں كو پورا كرنا اجتماعى امور ميں سے ہے جبكہ حيوانات سے استفادہ كرنا اقتصادى امور كے زمرے ميں آتا ہے_

۱۴_ بعض جانوروں (اونٹ، گائے اور بھيڑ)كے گوشت كھانے كى حليت اور بعض دوسروں كى حرمت، اسى طرح حالت احرام ميں ان كے شكار كى حرمت خداوند عالم كى طرف سے مومنين كے ساتھ باندھے گئے عہد و پيمان كے زمرے ميں آتے ہيں _اوفوا بالعقود احلت لكم بهيمة الانعام الا ما يتلي عليكم غير محلى الصيد

۱۵_ اسلام نے غذا كے مسئلہ كو اہميت دى ہے_احلت لكم بهيمة الانعام الا ما يتلي عليكم كھانے كى چيزوں اونٹ، گائے، بھيڑ، اور ...كے گوشت) كے احكام سے مربوط آيات كا نزول اور ان كى حدود و شرائط كى وضاحت اس بات كى دليل ہے كہ اسلام نے انسان كى غذا كے مسئلہ كو كس قدر اہميت دى ہے_

۱۶_ خداوند متعال جس حكم كا ارادہ كرے اسے صادر كرتا ہے_ان الله يحكم ما يريد اس بناپر كہ ''ما'' سے مراد شرعى احكام (وجوب، حرمت، حليت و ...) ہوں _

۱۷_ خداوند متعال مطلق حاكميت ركھتا ہے_ان الله يحكم ما يريد چونكہ ''يحكم'' متعدى استعمال ہوا ہے، لہذا اس ميں ''يفعل'' كا معنى مضمر ہے_ بنابريں ''ما'' سے مراد حكم شرعى سے زيادہ وسيع تر معنى ہوگا

۲۵۴

يعنى خداوند عالم جو چا ہے انجام ديتا ہے _ منجملہ اشياء كى حليت اور حرمت كا حكم ہے_

۱۸_ شرعى احكام كا سرچشمہ ارادہ الہى ہے_اوفوا بالعقود احلت ان الله يحكم ما يريد

۱۹_ احكام الہى كے سامنے سر تسليم خم كرنا لازمى ہے_ان الله يحكم ما يريد مذكورہ احكام كى وضاحت كے بعد حاكميت الہى كى ياد دہانى كا مقصد يہ ہے كہ مؤمنين اس حاكميت الہى كو مد نظر ركھتے ہوئے مذكورہ احكام كے سامنے سر تسليم خم كريں _

۲۰_ شرعى طريقے سے ذبح كيے گئے حيوان كے پيٹ ميں موجود جنين حلال ہے بشرطيكہ اس پر بال اور اون موجود ہوں _احلت لكم بهيمة الانعام حضرت امام باقرعليه‌السلام يا امام صادقعليه‌السلام اس آيت شريفہ كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :الجنين فى بطن امه اذا اشعر و اوبر فذكاته ذكاة امه (۱) يعنى اگر كسى مادہ حيوان كے پيٹ ميں موجود جنين پر بال اُگ آئے ہوں اور اون موجود ہو تو اس كا تذكيہ كرنا يہى ہے كہ اس مادہ حيوان كو ذبح كرديا جائے_

اجتماعى نظام: اجتماعى نظام كى اہميت ۱۳

احرام: احرام كى حالت ميں شكار كرنا ۱۴ ;احرام كے محرمات ۸، ۹، ۱۲، ۱۴

احكام: ۱، ۳، ۵، ۶،۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۲۰ احكام پر عمل كرنا ۱۹

اقتصادى نظام: اقتصادى نظام كى اہميت ۱۳

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا ارادہ ۱۶، ۱۸ ;اللہ تعالى كا حكم ۱۶ ، اللہ تعالى كا عہد ۱;اللہ تعالى كا مؤمنين كے ساتھ عہد ۱۴;اللہ تعالى كى حاكميت ۱۷

انسان: انسان كى ذمہ دارى ۲

اونٹ: اونٹ كے گوشت كى حليت ۱۴

بھيڑ: بھيڑ كے گوشت كى حليت ۱۴

____________________

۱) كافى ج۶ ص ۲۳۴ ح ۱; نورالثقلين ج۱ ص ۵۸۳ ح ۱۰_

۲۵۵

تغذيہ: تغذيہ كى اہميت ۵

جنين: جنين كى شرائط ۲۰

چوپائے: چوپايوں سے استفادہ ۵، ۶، ۱۲ ;چوپايوں كے گوشت كى حرمت ۶، ۱۴ ;چوپايوں كے گوشت كى حليت ۵، ۱۴

حكم شرعي: حكم شرعى كا سرچشمہ ۱۸

ذبح: ذبح كے احكام ۲۰

روايت: ۲۰

سرتسليم خم كرنا: خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا۱۹

شكار: حرام شكار ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴;شكار كے احكام ۸، ۹

عقد : عقد كى وفا۱، ۳;عقد كے احكام ۱، ۳

عہد: ايفائے عہد ۱;ايفائے عہد كى اہميت ۴;ايفائے عہد كى قدر و قيمت ۴; عہد كى اہميت ۲;عہد كے احكام ۱

فقہى قواعد: ۲۰

كھانے كى اشياء: كھانے كى اشيائكے احكام ۵، ۶، ۷، ۹، ۱۴; كھانے كى حرام اشياء ۶، ۷، ۹

گائے: گائے كے گوشت كى حليت ۱۴

گوشت: حرام گوشت ۷، ۹، ۱۱

محرمات: ۷، ۱۱

معاہدے: اجتماعى معاہدے ۱;بين الاقوامى معاہدے ۱

مكہ: حرم مكہ كے احكام ۱۰، ۱۱;حرم مكہ ميں شكار كرنا ۱۰، ۱۱

واجبات: ۱

۲۵۶

آیت ۲

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَاناً وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ) .

ايمان والوخبردار خدا كى نشانيوں كى حرمت كوضايع نہ كرنا او رنہ محترم مہينے _قربانى كے جانور او رجن جانوروں كے گلے ميں پٹے باندھ ديئے گئے ہيں او رجو لوگ خانہ خدا كاارادہ كرنے والے ہيں او رفرض پروردگار او ررضائے الہى كے طلبگار ہيں ان كى حرمت كى خلاف ورزى كرنااو رجب احرام ختم ہو جائے تو شكار كرو اور خبردار كسى قوم كى عداوت فقط اس بات پر كہ اس نے تمہيں مسجدالحرام سے روك ديا ہے تمہيں ظلم پر آمادہ نہ كردے _ نيكى اور تقوي پر ايك دوسرے كى مدد كرو او رگناہ اور تعدى پر آپس ميں تعاون نہ كرنااور الله سے ڈرتے رہنا كہ اس كاعذاب بہت سخت ہے_

۱_ مؤمنين كى ذمہ داريوں ميں سے ايك يہ ہے كہ شعائر الہى كا احترام ملحوظ خاطر ركھيں _

يا يها الذين ا منوا لا تحلوا شعائر الله ''لا تحلوا'' كا مصدر ''احلال'' ہے جس كا

۲۵۷

معنى مباح قرار دينا ہے اور شعائر الہى كو مباح قرار دينے كا مطلب يہ ہے كہ ان كى حرمت اور احترام كا لحاظ نہ ركھا جائے_

۲_ شعائر الہى كى ہتك حرمت حرام اور گناہ ہے_يا يها الذين ا منوا لا تحلوا شعائر الله

۳_ مناسك حج كا شعائر الہى ميں شمار ہوتا ہے_لا تحلوا شعائر الله ''شعائر'' ''شعيرہ'' كى جمع ہے جس كا معنى علامت ہے اور احتمالاً اس سے مراد حج كے علائم اور مناسك ہيں _

۴_ خد تعالى كى طرف سے بيان ہونے والے حرام اور حلال (مثلا چوپايوں كى حليت اور حالت احرام ميں ان كے شكار كى حرمت ) شعائر الہى ميں سے ہيں _احلت لكم بهيمة الانعام لا تحلوا شعائر الله گذشتہ آيت كى روشنى ميں خدا كے حلال و حرام بھى شعائر الہى كے مصاديق ميں سے ايك ہيں _

۵_ حرام مہينوں ، ھدى (حج كى بغير علامت كے قرباني) اور قلائد (حج كى باعلامت قربانى )كى ہتك حرمت حرام اور گناہ ہے_لا تحلوا و لا الشهر الحرام و لا الهدى و لا القلائد ''قلائد'' ،''قلادة'' كى جمع ہے اور اس كا معنى گردن بند ہے اور اس سے مراد حج ميں قربانى كى نيت سے علامت كے طور پر بھيڑ، اونٹ اور گائے كے گلے ميں كوئي چيز آويزاں كرنا ہے _ اگر چہ لفظ ''الشھر الحرام'' مفرد ہے ليكن اس سے مراد جنس ہے بنابريں تمام حرام مہينوں كو شامل كئے ہوئے ہے _

۶_ حج كى قربانى كى خاص علامتوں كى ہتك حرمت اور توہين حرام و گناہ ہے_و لا تحلوا و لا القلائد

اس بناپر جب قلائد سے مراد علامت كے حامل حيوان نہيں بلكہ خود علامت ہو_

۷_ خانہ خدا كے راہيوں كى ہتك حرمت و توہين اور ان كا آرام و سكون چھين لينا حرام اور گناہ ہے_

و لا تحلوا و لا آمين البيت الحرام ''آمين'' جمع ''آم'' ہے جس كا معنى قصد كرنے والا ہے اور يہاں پر بيت الحرام كا قصد كرنيوالوں سے مراد حج كے راہى ہيں _

۸_ مراسم حج ميں قربانى كو خاص اہميت حاصل ہے_و لا الهدى و لا القلائد

دوسرے مناسك حج كى نسبت قربانى كا تفصيل (بانشان اور بے نشان )كے ساتھ ذكر كرنا اس كى

۲۵۸

خاص اہميت پر دلالت كرتا ہے_

۹_ كعبہ ايك مقدس اور خاص احترام كے قابل گھر اور مقام ہے_لا تحلوا و لا آمين البيت الحرام

۱۰_ حرام مہينوں ، حج كى بے نشان اور بانشان قربانيوں ، نيز خود قربانى كى علامتوں كا شمار شعائر الہى ميں ہوتا ہے_

لا تحلوا شعائر الله و لا الشهر الحرام و لا الهدى و لا القلائد اس بناپر جب مذكورہ امور از باب ذكر خاص بعد از عام (شعائر اللہ )ہوں _

۱۱_ خانہ خدا كے راہى شعائر الہى كے زمرے ميں آتے ہيں _لا تحلوا شعائر الله و لا آمين البيت الحرام

اس بناپر جب مذكورہ امور از باب ذكر خاص بعد از عام( شعائر اللہ )ہوں اور خانہ خدا كے راہى من جملہ شعائر اللہ ميں سے ہيں _

۱۲_ خانہ خدا كے راہيوں كى علامات شعائر الہى كے زمرے ميں ہيں _لا تحلوا شعائر الله و لا القلائد

۱۳_ مسجد الحرام، حج اور اس كے مناسك كو خاص اہميت حاصل ہے_يا يها الذين ا منوا لا تحلوا و لا آمين البيت الحرام

۱۴_ حج اور عمرہ كى تشريع كا مقصد يہ ہے كہ حجاج ، خدا كى پاداش تك رسائي اور اس كى رضايت حاصل كرسكيں _

و لا آمين البيت الحرام يبتغون فضلاًً من ربهم و رضواناً ''فضلا''سے مراد ثواب اور پاداش بھى ہوسكتا ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس سے مراد مالى آمدنى ہو_ مذكورہ بالا مطلب ميں پہلے احتمال كو ملحوظ ركھا گيا ہے_ واضح ر ہے كہ ''آمين البيت الحرام خانہ خدا كے راہى '' حاجيوں اور عمرہ كرنے والوں كو شامل ہے _

۱۵_ خانہ خدا كى طرف سفر كے دوران مال كمانا اور تجارت كرنا حاجيوں اور عمرہ كرنے والوں كيلئے جائز اور مشروع فعل ہے_آمين البيت الحرام يبتغون فضلا من ربهم اگر ''فضلاً'' سے مراد رزق و روزى اور مادى آمدنى ہو تو'' ابتغاء فضل'' كا معنى تجارت، لين دين اور اسطرح كے ديگر كاروبار كے ذريعے آمدنى حاصل كرنا ہوگا_

۲۵۹

۱۶_ رزق اور مادى فوائد لوگوں پر خدا كے فضل كا نمونہ ہيں _يبتغون فضلاً من ربهم

۱۷_ لوگوں كى روزى اور مادى آمدني، ان پر خدا كى ربوبيت كا جلوہ ہے_يبتغون فضلا من ربهم

۱۸_ حج رضائے خداوندعالم حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_يبتغون فضلا من ربهم و رضواناً

حج كے راہيوں كو رضائے خداوند حاصل كرنے والے كہہ كر توصيف كرنے كا مطلب يہ ہے كہ حج اور اس كى جانب حركت كرنا رضائے خداوند متعال كے حصول كے عوامل ميں سے ايك ہے_

۱۹_ اسلام نے لوگوں كے مادى اور معنوى امور كو اہميت دى ہے_يبتغون فضلاً من ربهم رضواناً

۲۰_ روزى اور تجارت ميں منافع خداوند عالم كے ہاتھ ميں ہے_يبتغون فضلاً من ربهم

''من ربھم'' ميں ''من'' نشويہ ہے اور اس كا مطلب يہ ہے كہ روزى اور رزق خدا كى جانب سے عطا ہوتا ہے_

۲۱_ تجارت اور معاشكيلئے كوشش كرنا خدا كو بہت پسند ہے اور اس نے اس كى ترغيب دلائي ہے_

يبتغون فضلاً من ربهم چونكہ تجارت اور معاشى كوششكو حصول رضائے الہى كے ساتھ لايا گيا ہے لہذا اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۲۲_ بندوں پر خداوند عالم كے فضل و كرم كا سرچشمہ اس كى ربوبيت ہے_يبتغون فضلا من ربهم

۲۳_ حج كے دنوں ميں حاجيوں كيلئے اقتصادى آسائشيں اور امنيت مہيا كرنا لازمى ہے_

لا تحلوا شعائر الله و لا آمين البيت الحرام يبتغون فضلاً من ربهم ''يبتغون فضلا من ربھم'' كے قرينہ كى بناپر حاجيوں كا احترام محفوظ ركھنے كے مصاديق ميں سے ايك يہ ہے كہ ان كيلئے اقتصادى آسائشوں اور امنيت كو فراہم كيا جائے_

۲۴_ حالت احرام ميں شكار كرنا حرام اور احرام كھولنے كے بعد جائز ہے_و اذا حللتم فاصطادوا

۲۵_ صدر اسلام ميں مشركين مسلمانوں كے ساتھ سخت دشمنى اور عداوت ركھتے تھے_و لا يجرمنكم شنئان قوم

۲۶۰