تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 897
مشاہدے: 144529
ڈاؤنلوڈ: 3234


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144529 / ڈاؤنلوڈ: 3234
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 4

مؤلف:
اردو

عزوجل ''فكلوا مما امسكن عليكم ...''(۱) يعنى اس كے كھانے ميں كوئي حرج نہيں چنانچہ ارشادبارى تعالى ہے كہ: ''وہ چيز كھاسكتے ہو جو شكارى كتے كے ذريعے شكار كرنے سے ہلاك ہو جائے _

۱۴_ جنگلى جانوروں ميں حلال گوشت حيوان بھى پائے جاتے ہيں _و ما علمتم من الجوارح مكلبين تعلمونهن مما علمكم الله فكلوا مما امسكن چونكہ كتے اور دوسرے درندوں كو جنگلى جانوروں كے شكار كيلئے استعمال كيا جاتا ہے لہذا اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۱۵_ ايسے شكار كا كھانا حلال ہے جو سكھائے ہوئے درندہ (كتے، شير، اور شكارى بازو غيرہ )كے ذريعے شكار كيا گيا ہو_

و ما علمتم من الجوارح مكلبين فكلوا كلمہ ''جوارح'' ''جارحہ'' كى جمع ہے اور يہ ہر درندہ حيوان كو كہا جاتا ہے _واضح ر ہے كہ اگر ''مكلبين'' ايسا حال ہو جو تشبيہ كا فائدہ دے رہا ہو تو پھر ''جوارح'' كو صرف شكارى كتوں كے ساتھ مقيد نہيں كيا جا سكتا، علاوہ ازيں كلى كو ايك خاص مصداق سے مقيد كرنا بھى فصاحت سے دور ہے_

۱۶_ وحشى حيوانات كو تربيت دى جا سكتى ہے اور اپنا فرمانبردار بنايا جا سكتا ہے_و ما علمتم من الجوارح مكلبين

۱۷_ وحشى شكارى جانوروں كے ذريعے شكار اس صورت ميں حلال ہے جب وہ سكھائے گئے شكارى كتے كى طرح عمل كريں _و ما علمتم من الجوارح مكلبين فكلوا مما امسكن ''مكلبين'' ''مكلب'' كى جمع ہے اور اس كا معنى كتوں كو تربيت دينے والا ہے اور يہ ''علمتم'' كے فاعل كيلئے حال اور تشبيہ كا فائدہ دے رہا ہے_ لہذا آيہ شريفہ كا معنى يہ ہوگا كہ ان وحشى جانوروں كا كيا ہوا شكار حلال ہے جنہيں تم نے شكارى كتوں كى مانند تربيت دى ہے_

۱۸_ سكھائے گئے شكارى كتے كا كيا ہوا شكار طيبات كے زمرے ميں آتا ہے_احل لكم الطيبات و ما علمتم من الجوارح ''ما علمتم'' كا عطف، عطف خاص بر عام ہے_

۱۹_ شكار كيلئے مخصوص كتوں اور دوسرے وحشى حيوانات كو ذبح كے بعض طريقے سكھانا ضروري ہے_

____________________

۱) كافى ج ۶ ص ۲۰۴ ح ۸; نور الثقلين ج ۱ ص ۵۹۲ ح ۴۳_

۲۸۱

تعلمونهن مما علمكم الله موضوع كى مناسبت سے ''علمكم اللہ'' سے مراد حيوان كے ذبح كيے جانے كے احكام ہيں اور''مما علمكم'' ميں ''من'' تبعيض كيلئے ہے يعنى ذبح كے بعض طريقے شكارى وحشى جانوروں كو سكھاؤ_

۲۰_ انسان كى جانب سے سدھايا جانا در اصل خدا كى جانب سے ہے_تعلمونهن مما علمكم الله

۲۱_ شكارى اور وحشى حيوانات كے ذريعے كئے گئے شكار كا كچھ حصہ خود ان كيلئے الگ كرنا ضرورى ہے_

فكلوا مما امسكن عليكم ''مما امسكن'' ميں ''من'' تبعيض كيلئے ہے يعنى اس شكار كا كچھ حصہ تمہارے لئے حلال ہے_ بنابريں بظاہر معلوم ہوتا ہے كہ موضوع كى مناسبت سے اس كا كچھ حصہ اس شكار كرنے والے حيوان كيلئے الگ كردينا چاہيئے_

۲۲_ شكارى درندوں كا شكار حلال ہے اگر چہ وہ شكار كے دوران اس ميں سے كچھ كھا ليں _

فكلوا مما امسكن عليكم اس احتمال كى بناپر كہ جب ''مما امسكن عليكم'' سے مراد وہ مقدار نہ ہو جو صياد كے پہنچنے سے پہلے حيوان خود نگل لے بلكہ وہ مقدار ہو جو حيوان اس صياد كيلئے باقى چھوڑ دے_

۲۳_ شكارى كتے اور سدھائے ہوئے دوسرے درندوں كے ذريعے كيا گيا شكار اس صورت ميں حلال ہے جب وہ صياد كے كہنے پر شكار كى طرف جھپٹے نہ كہ از خود اور بغير فرمان كے_فكلو مما امسكن عليكم

كلمہ ''عليكم'' استفادہ كے جواز كواس سے مشروط كررہا ہے كہ شكارى حيوان اپنے لئے نہيں بلكہ صياد كيلئے شكار كرے_ يہ اس صورت ميں ہوسكتا ہے جب شكارى حيوان از خود اور بغير فرمان كے نہيں بلكہ صياد كے كہنے پر شكار كى طرف لپكے_

۲۴_ سدھائے ہوئے شكارى كتے كو شكار كى طرف بھيجتے وقت تسميہ( اللہ كا نام لينا )واجب ہے_

فكلوا مما امسكن عليكم و اذكروا اسم الله عليه مذكورہ مطلب اس بناپر استوار ہے جب ''عليہ'' كى ضمير ''ما علمتم من الجوارح'' كى طرف لوٹ رہى ہو، اس صورت ميں آيہ شريفہ كا معنى يہ ہوگا كہ: سدھائے ہوئے شكارى حيوان پر اللہ كا نام لو اوراس سے مراد يہ ہے كہ جب اسے شكار كى

۲۸۲

طرف روانہ كرو تو اللہ كا نام لو_

۲۵_ شكارى كتے كو شكار پر روانہ كرتے وقت اللہ كا نام نہ لينے سے اس كا كيا ہوا شكار حرام ہوجائيگا_

و اذكروا اسم الله عليه يہ اس بناپر كہ جب تسميہ( اللہ كا نام لينے )كا حكم حليت كى شرط بيان كررہا ہو نہ كہ حكم تكليفي_ مذكورہ بالا مطلب كى حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول يہ روايت بھى تائيد كرتى ہے كہ:اذا صاد و قد سمى فلياكل و ان صاد و لم يسم فلا ياكل و هذا ''مما علمتم من الجوارح مكلبين ''(۱) يعنى جب وہ شكار كرے اور اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہو تو اسے كھاسكتے ہو ليكن اگر اس پر اللہ كا نام نہ ليا گيا ہو تو پھر اسے نہيں كھانا چاہيئے

۲۶_ شكار اور كھانے كى اشياء ميں تقوي كى پابندى لازمى ہے_احل لكم الطيبات فكلوا مما امسكن عليكم و اذكروا اسم الله عليه و اتقوا الله

۲۷_ غذائي اور دوسرى مادى ضروريات پورا كرنے كے علاوہ كسى اور مقصد كے تحت شكار كرنے سے اجتناب ضرورى ہے_فكلوا مما امسكن عليكم و اتقوا الله شكار سے غذائي استفادہ'' فكلوا ...'' كہہ كر جائز قرار دينے كے بعد ''اتقوا اللہ'' تقوي خداوندى كا حكم دينا، اس مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ دوسرے مقاصد مثلاً سير و تفريح كى خاطر شكار كرنا تقوي سے منافات ركھتا ہے_

۲۸_ خداوند سريع الحساب ہے_ان الله سريع الحساب

۲۹_ خداوند متعال نے ان لوگوں كو خبردار اورمتنبہ كيا ہے جو تقوي كى رعايت نہيں كرتے اور پرہيزگارى كا راستہ اختيار نہيں كرتے_و اتقوا الله ان الله سريع الحساب جملہ ''ان اللہ ...'' بے تقوي لوگوں كيلئے دھمكى ہے_

۳۰_ خدا كے سريع الحساب ہونے كى طرف توجہ سے انسان ميں تقوي اختيار كرنے كى راہ ہموار ہوتى ہے_

واتقوا الله ان الله سريع الحساب

____________________

۱) كافى ج ۶ ص ۲۰۶ ح ۱۶; نورالثقلين ج ۱ص ۵۹۲ ح ۴۴; تھذيب ج ۹ص ۲۵ ح ۱۰۰_

۲۸۳

۳۱_ غذائي اشياء اور حيوانات كے شكار ميں قوانين خداوندى كى مراعات كرنا تقوي اور پرہيزگارى كى علامت ہے_

احل لكم الطيبات و اذكروا اسم الله عليه و اتقوا الله

۳۲_ شكار كى طرف بھيجتے وقت كتے كو تربيت دينا اس كے شكار ى ہونے اور شكاركى حليت كيلئے كافى ہے_

و ما علمتم من الجوارح مكلبين تعلمونهن مما علمكم الله حضرت امام صادقعليه‌السلام سے شكارى كتے كے بارے ميں روايت منقول ہے كہ:و ان كان غير معلم يعلمه فى ساعته حين يرسله فياكل منه فانه معلم ...(۱) اگر كتے كو شكار كيلئے بھيجتے وقت تربيت دى جائے تو كافى ہے اور اس شكار ميں سے كھايا جاسكتا ہے كيونكہ وہ كتا تربيت شدہ ہے_

۳۳_ سدھائے ہوئے كتے كے علاوہ كسى اور حيوان كے ذريعے شكار حرام ہے_

و ما علمتم من الجوارح مكلبين فكلوا مما امسكن عليكم حضرت امام صادقعليه‌السلام شكارى پرندوں ، كتے اور چيتے كے ذريعے كيے گئے شكار كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :

لا تاكل صيد شيء من ھذہ الا ما ذكيتموہ الا الكلب المكلب(۲) يعنى اس طرح كے شكار ميں سے كچھ مت كھاؤ مگر يہ كہ اسے ذبح كرلو يا يہ كہ اسے سدھائے ہوئے شكارى كتے نے شكار كيا ہو_

۳۴_ سدھائے ہوئے چيتے كے ذريعے شكار كرنا حلال ہے_احل و ما علمتم من الجوارح مكلبين

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ:الفهد مما قال الله ''مكلبين'' (۳) يعنى چيتا انہى سدھائے ہوئے جانوروں ميں شامل ہے جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا ہے ''مكلبين'' _

۳۵_ كتے كى طرف سے كيا گياوہ شكار حرام ہے جسے وہ از خود شكار كرے_و ما علمتم من الجوارح مكلبين فكلوا مما امسكن عليكم حضرت امام صادقعليه‌السلام سے ايسے شكار كے بارے ميں جو كتا از خود شكار كرے، كے بارے ميں كئے

___________________

۱) كافى ج۶ ص ۲۰۵ ح ۱۴; نور الثقلين ج۱ ص ۵۹۰ ح ۳۶_

۲) كافى ج۶ ص ۲۰۴ ح ۹; نور اثقلين ج۱ ص ۵۹۲ ح ۴۷_

۳) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۹۵ ح ۳۴; تفسير برہان ج۱ ص ۴۴۸ ح ۱۶_

۲۸۴

گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں ، لا(۱) يعنى ايسے شكار سے استفادہ صحيح نہيں ہے_

۳۶_ سدھائے ہوئے كتے كا اپنے شكار ميں سے كچھ كھالينا اس كى حليت كو كوئي نقصان نہيں پہنچاتا_

و ما علمتم من الجوارح مكلبين فكلوا مما امسكن عليكم حضرت امام باقرعليه‌السلام اور امام صادقعليه‌السلام شكارى كتے كى طرف سے كيے گئے حيوان كے بارے ميں فرماتے ہيں : و ان ادركتہ و قد قتلہ و اكل منہ فكل ما بقى(۲) يعنى اگر تم

اس وقت شكار كے پاس پہنچو جب شكارى كتا اسے مار كر كچھ حصہ خود كھا چكا ہو تو باقى بچا ہوا حصہ تم كھاسكتے ہو_

۳۷_ سدھائے ہوئے كتے كا اپنے شكار ميں سے كچھ بھى نہ كھانا اس كے شكار كے حلال ہونے كى شرط ہے_

فكلوا مما امسكن عليكم امام صادقعليه‌السلام مذكورہ آي ہ شريفہ كے معنى كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :لا باس ان تاكلوا مما امسك الكلب مما لم ياكل الكلب منه فاذا اكل الكلب منه قبل ان تدركه فلا تاكل منه (۳) يعنى ايسے شكار كے كھانے ميں كوئي حرج نہيں جس ميں سے كتے نے شكار كرتے وقت كچھ نہ كھايا ہو اور اگر تمہارے پہنچنے سے پہلے وہ اس ميں سے كچھ نگل لے تو پھر اسے كھانے سے اجتناب كرو_

۳۸_ شكارى كتے كے ذريعے شكار كرتے وقت اللہ كا نام لينا اس كے شكار كى حليت كى شرط ہے_

فكلوا مما امسكن عليكم و اذكروا اسم الله عليه امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ:اذا صاد و قد سمى فلياكل و ان صاد و لم يسم فلا ياكل و هذا ''مما علمتم من الجوارح مكلبين'' (۴) يعنى جب شكار كے وقت اللہ كا نام ليا گيا ہو تو اسے كھايا جا سكتا ہے، ليكن اگر اللہ كا نام نہ ليا گيا ہو تو اسے كھانے سے اجتناب كرنا چاہيئے اور يہ اسى فرمان خداوندى كے زمرے ميں آتا ہے كہ وہ شكار كھانا جائز ہے جسے سدھائے ہوئے حيوان شكار كريں _

____________________

۱) كافي، ج۶ ص ۲۰۵ ح ۱۶; نور الثقلين ج۱ ص ۵۹۲، ح ۴۴_

۲) كافى ج۶ ص ۲۰۲ ح ۲; استبصار ج۴ ص ۶۷ ح ۱ سے ۱۰ تك_

۳) تھذيب الاحكام ج۹ ص ۲۷ ح ۱۱۰; نور الثقلين ج۱ ص ۵۹۱ ح ۳۹_

۴) كافى ج۶ ص ۲۰۶ ح ۱۶; نورالثقلين ج۱ ص ۵۹۲ ح ۴۴_

۲۸۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ۱، ۹;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نقش۱، ۷

احكام: ۳، ۵، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۵، ۱۹، ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۸

احكام كى تشريع ۴;احكام كى تشريع كا پيش خيمہ ۹

اسلام: اسلام كى تدريجى تشريع۹

اسماء و صفات: سريع الحساب ۲۸، ۳۰

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حساب كتاب ۳۰;اللہ تعالى كا خبردار كرنا۲۹;اللہ تعالى كى تعليمات۲۰ ; اللہ تعالى كے افعال ۸

انسان: انسان كا علم ۲۰

بے تقوي افراد: بے تقوي افراد كو خبردار كرنا ۲۹

تقوي : تقوي كا پيش خيمہ ۳۰;تقوي كى اہميت ۲۶; تقوي كى نشانياں ۳۱

تكوين: تكوين اور تشريع ۶

جنگلى جانور: جنگلى جانوروں كو سدھانا ۱۶;حلال جنگلى حيوانات ۱۴

حليت: حليت كا معيار ۴

حيوانات: حلال حيوانات ۱۴;حيوانات كو سدھانا ۱۹; حيوانات كى صلاحتيں ۱۰،۱۶،۳۲;حيوانات كے احكام ۲۲; شكارى حيوانات ۱۹، ۲۲

خبائث : خبائث كى حرمت ۵

دينى تعليمات كا نظام: ۶

۲۸۶

ذكر: ذكر كے اثرات ۳۰

روايت: ۱۲، ۱۳، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۸

شكار: جائز شكار ۱۲، ۳۰;حرام شكار ۲۵، ۳۳، ۳۵ ;حلال شكار ۲۲، ۳۴;شكار ترك كرنے كى اہميت ۲۷ ; شكار كا محرك۲۷;شكار كى تقسيم ۲۱; شكار كى حليت كى شرائط ۱۷، ۲۳;شكار كى شرائط ۲۴، ۲۵، ۳۲، ۳۷، ۳۸;شكار كے احكام ۱۳، ۱۵، ۱۷، ۱۹، ۲۲، ۲۴، ۲۵، ۳۱، ۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۸;شكار كے وقت بسملہ كہنا ۲۴، ۲۵، ۳۸;شكار ميں تقوي كى مراعات ۲۶;شكارى باز كا شكار ۱۵ ;شكارى چيتے كا شكار ۳۴;شكارى حيوانات كا شكار ۱۵، ۲۱، ۲۳; شكارى شير كا شكار ۱۵;شكارى كتے كا شكار ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۳۵، ۳۶، ۳۷، ۳۸;ممنوع شكار ۲۷

طيبات: طيبات كى حليت ۳;طيبات كے موارد ۱۸

غذا: غذا كے استعمال ميں تقوي ۲۶

كتا: شكارى كتا ۱۱، ۳۲;كتے كو سدھانا ۱۰، ۱۱، ۱۹، ۳۲; كتے كے احكام۱۱

كھانے كى اشياء: كھانے كى اشياء كے احكام ۳، ۵، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۲۳، ۳۱;كھانے كى پاكيزگى ۴;كھانے كى حلال اشياء ۱

مباح اشياء: ۳، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۸، ۲۲، ۲۳، ۳۴

محرمات : ۵، ۲۵، ۳۳، ۳۵

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان ۲;مسلمانوں كى ذمہ دارى ۲

واجبات: ۲۴

۲۸۷

آیت ۵

( الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلُّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ )

آج تمہارے لئے تمام پاكيزہ چيزيں حلال كردى گئي ہيں او راہل كتاب كا طعام بھى تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا طعام ان كے لئے حلال ہے او راہل ايمان كى آزاد او رپاك دامن عورتيں يا ان كى آزاد عورتيں جن كو تم سے پہلے كتاب دى گئي ہے تمھارے لئے حلال ہيں بشرطيكہ تم ان كى اجرت دے دو پاكيزگى كے ساتھ _ نہ كھلم كھلا زناكى اجرت كے طور پر او رنہ پوشيدہ طور پردوستى كے اندازسے اور جوبھى ايمان سے انكار كرے گا اس كے اعمال يقينابرباد ہو جائيں گے او روہ آخرت ميں گھاٹا اٹھانے والوں ميں ہو گا_

۱_ طيبات (دل پسند اور خوشگوار اشياء )سے استفادہ حلال ہے_اليوم احل لكم الطيبات

۲_ اشياء كى حليت كا معيار پاكيزگى اور طبيعت كے ساتھ ان كا موافق ہونا ہے_اليوم احل لكم الطيبات

۲۸۸

۳_ مسلمانوں كيلئے اہل كتاب كى غذا سے استفادہ كرنا جائز ہے_و طعام الذين اوتوا الكتب حل لكم

۴_ مسلمانوں كيلئے اہل كتاب كے ذبيحہ سے استفادہ كرنا جائز ہے_و طعام الذين اوتوا الكتاب حل لكم

حيوانات كے ذبح كيے جانے كے بارے ميں گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''طعام الذين'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق اہل كتاب كا ذبيحہ ہوسكتا ہے_

۵_ اہل كتاب طاہر اور پاك ہيں _و طعام الذين اوتوا الكتاب حل لكم اہل كتاب كى غذا كى حليت ان كے طاہر و پاك ہونے پر متفرع ہے كيونكہ عام طور پر كھانے كى اشياء ميں ترى ہوتى ہے جس سے نجاست سرايت كرسكتى ہے_ بنابريں اگر اہل كتاب نجس ہوتے تو مسلمانوں كيلئے ان كى غذا سے استفادہ جائز نہ ہوتا_

۶_ اہل كتاب كيلئے مسلمانوں كى غذا حلال ہے_و طعامكم حل لهم

۷_ اہل كتاب كے قوانين ميں مسلمانوں كى غذا ان كيلئے حلال قرار دى گئي ہے_

و طعامكم حل لهم يہ اس بناپر كہ جب جملہ ''طعامكم حل لھم'' ان كى شريعت كے حكم كے بارے ميں خبر دے رہا ہو يعنى ان كے پاس اپنى كتاب ميں مسلمانوں كى غذا كے حرام ہونے پر كوئي دليل موجود نہيں ہے_

۸_ اہل كتاب كو كھانا كھلانا اور انہيں غذائي اشياء بيچنا جائز اور مباح عمل ہے_و طعامكم حل لهم

چونكہ اہل كتاب قرآن كريم كے قوانين اور اس كے بتائے ہوئے حلال و حرام كى اعتنا نہيں كرتے لہذا ان كے لئے مسلمانوں كى غذا كے حلال ہونے كا مطلب يہ ہے كہ مسلمانوں كيلئے اپنا كھانا انہيں دينا جائز ہے_

۹_ اہل كتاب كے ساتھ ميل جول اور لين دين جائز ہے_و طعام الذين اوتو الكتاب حل لكم و طعامكم حل لهم يہ اس احتمال كى بناپر كہ جب جملہ ''طعام الذين ...'' سے مراد يہ ہو كہ اہل كتاب كے ساتھ كھانے كى اشياء اور غذا كا لين دين جائز ہے_ اگر چہ اس مفہوم لين دين كا واضح مصداق طعام كا تبادلہ ہے ليكن بظاہر غذا كو كوئي خصوصيت حاصل نہيں _

۱۰_ دين اسلام نے غذا اور اس كے احكام پر خاص توجہ

۲۸۹

اور اہميت دى ہے_اليوم احل لكم الطيبات و طعامكم حل لهم

۱۱_ پاكدامن مومن عورتوں كے ساتھ شادى كرنا جائز ہے_اليوم احل لكم والمحصنات من المؤمنات

''محصنہ'' كا مصدر احصان ہے اور اس كا معنى پاكدامن، آزاد، شادى شدہ اور مسلمان ہونا ہے مورد بحث آيہ شريفہ ميں صرف پہلا اور دوسرا معنى مراد ہوسكتا ہے جبكہ مذكورہ بالا مطلب پہلے معنى كى اساس پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۲_ پاكدامن اہل كتاب عورتوں سے شادى كرنا جائز ہے_اليوم احل لكم والمحصنات من الذين اوتوا الكتاب من قبلكم يہ اس بناپر كہ جب ''محصنات'' سے مراد پاكدامن عورتيں ہوں _ مذكورہ بالا مطلب كى حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول اس روايت سے بھى تائيد ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام نے مذكورہ آيہ شريفہ كے بارے ميں فرمايا:ھن العفائف(۱) يعنى اس سے مراد پاكدامن عورتيں ہيں _

۱۳_غيرعفيف اور بدكردار عورتوں (زناكارو ...) سے خواہ وہ مسلمان ہوں يا اہل كتاب شادى كرنا حرام ہے_

والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذين اوتوا الكتاب

۱۴_ مسلمان اور اہل كتاب لونڈيوں سے شادى كرنا حرام ہے_احل والمحصنات من المؤمنات و المحصنات من الذين اوتو الكتاب يہ اس بناپر كہ جب مورد بحث آيہ شريفہ ميں ''المحصنات'' سے مراد آزاد عورتيں ہوں واضح ر ہے كہ سورہ نساء آيت ۲۵ ميں خاص شرائط كے تحت مسلمان كنيزوں كے ساتھ شادى كو جائز قرار ديا گيا ہے_

۱۵_ طيبات اور اہل كتاب كى غذاؤں كى حليت اور ان كى پاكدامن عورتوں سے شادى كو جائز قرار دينا خداوند متعال كا مسلمانوں پر احسان ہے_اليوم احل لكم آيہ شريفہ كے سياق و سباق اور لب و لہجہ كے علاوہ ''لكم'' كى ''لام انتفاع'' سے احسان كا مفہوم اخذ ہوتا ہے_

۱۶_ مسلمان عورتوں كا اہل كتاب كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں ہے_احل لكم والمحصنات من الذين اوتوا الكتاب

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۹۶ ح ۳۹ ; تفسير برہان ج ۱ ص ۴۴۹ ح ۱۳_

۲۹۰

خداوند متعال نے كھانے اور غذا كے بارے ميں صراحت كے ساتھ دو طرفہ لين دين كا ذكر كيا ہے ليكن شادى كے مسئلہ پر اہل كتاب كى صرف عورتيں لينے كو جائز قرار ديا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مسلمان خواتين كو اہل كتاب سے شادى كرنے كا حق حاصل نہيں ہے_

۱۷_ بيوى كے انتخاب اور گھرانے كى تشكيل كے وقت اللہ تعالى پر ايمان ، وحى و رسالت پر اعتقاد اور عفت و پاكدامنى جيسى اعلي اقدار كو ملحوظ ركھنا چاہيئے_والمحصنات والمحصنات

۱۸_ اسلام نے گھرانے اور اس كے اعتقادى و نفسياتى طور پر سالم ہونے كو اہميت دى ہے_

و المحصنات من المؤمنات و المحصنات من الذين اوتوا الكتاب

۱۹_ اہل كتاب كى غذا اور ان كى عورتوں كے ساتھ شادى كى حليت كا معيار يہ ہے كہ وہ خداوند متعال اور انبياءعليه‌السلام كى رسالت پر اعتقاد ركھتے ہوں _احل لكم الطيبات و طعام الذين اوتوا الكتاب والمحصنات من الذين اوتوا الكتاب ''الذين اوتوا الكتاب'' سے مراد يہود و نصاري ہيں ليكن انہيں ''اوتوا الكتاب'' سے تعبير كيا گيا ہے تا كہ حكم كى علت كے بارے ميں اشارہ ہوسكے_ ديگر كفار كے درميان اہل كتاب كا تشخص يہ ہے كہ وہ خدا وند متعال اور انبياءعليه‌السلام كى رسالت پر عقيدہ ركھتے ہيں _

۲۰_ عورتوں كے ساتھ شادى اس صورت ميں جائز ہے جب ان كا حق مہر ادا كيا جائے_

اليوم احل والمحصنات من الذين اوتوا الكتاب من قبلكم اذا اتيتموهن اجورهن

۲۱_ عورتوں كا حق مہر خود انہى كو ادا كرنا واجب ہے_والمحصنات من المؤمنات اذا اتيتموهن اجورهن

''اتيتموھن'' ميں ضمير ''ھن'' اس بات كى دليل ہے كہ عورتوں كا حق مہر ان كے باپ يا بھائي و غيرہ كو نہيں بلكہ خود انہى كو ادا كرنا چاہيئے اور اگر يہ معنى مرا د نہ ہوتا تو يوں فرماتا كہ :'' اذا اتيتم اجورهن'' _

۲۲_ حق مہر كى مالك خود عورت ہے اور يہ وہ اجرت ہے جو اسے شادى كے بدلے ميں ملتى ہے_اتيتموهن اجورهن

۲۳_ اہل كتاب خواتين كے حقوق كا خيال ركھنا ضرورى ہے_

والمحصنات من الذين اوتوا الكتاب من قبلكم اذا اتيتموهن اجورهن

۲۹۱

۲۴_ اسلام نے عورتوں كے اقتصادى حقوق كو اہميت دى ہے_اذا اتيتموهن اجورهن

۲۵_ عفيف اور پاكدامن عورتوں كے ساتھ شادى كى حليت كى شرائط ميں سے يہ ہے كہ مرد بھى عفيف و پاكدامن ہوں _محصنين غير مسافحين و لا متخذى اخدان ''اخدان''جمع ''خدن'' ہے اور اس كا معنى دوست و رفيق ہے اور يہاں پر موضوع كى مناسبت سے مراد ناجائز جنسى رفاقت ہے اور ''مسفحين'' كا مصدر ''سفاح'' اور اس كا معنى زنا ہے_ واضح ر ہے كہ مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''محصنين'' ''لكم'' كى ضمير ''كم'' كيلئے حال اور اس كا عامل ''احل'' ہو_

۲۶_ مردوں كيلئے عفت اور پاكدامنى كى مراعات كرنا ضرورى ہے_محصنين غير مسافحين و لا متخذى اخدان

۲۷_ مردوں اور عورتوں كا آشكارا يا مخفى طور پر جنسى تعلقات استوار كرنا حرام ہے_

محصنين غير مسافحين ولا متخذى اخدان كہا گيا ہے كہ ''سفاح'' سے مراد آشكارا زنا اور ''اتخاذ اخدان''سے مراد پنہاں طور پر زنا كرنا ہے_ مذكورہ بالا مطلب ميں ''محصنين'' كو ''اتيتموهن '' كے فاعل كيلئے حال كے طور پر اخذ كيا گيا ہے يعنى عورتوں كو ان كى اجرت زنا يا ناجائز تعلقات كيلئے نہيں بلكہ ان كے ساتھ شادى كى نيت سے ادا كرنى چاہيئے_

۲۸_ اسلام نے معاشرے كى عفت و پاكدامنى كو اہميت دى ہے_والمحصنات من المؤمنات و المحصنات محصنين غير مسافحين و لا متخذى اخدان

۲۹_ منحر ف راہوں سے روكنے كے ساتھ ساتھ صحيح راہ حل پيش كرنا قرآن كريم كى تربيتى روشوں ميں سے ايك ہے_

محصنين غير مسافحين

۳۰_ احكام الہى كا انكار عمل كے ضائع ہو جانے اور اخروى نقصان كا باعث بنتا ہے_

و من يكفر بالايمان فقد حبط عمله و هو فى الآخرة من الخاسرين ہوسكتا ہے كہ ''ايمان'' سے اس كا مصدرى معنى (عقائد ، يقين) مراد ہو اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس سے مراد وہ معارف اور مسائل ہوں جن پرايمان لانا ضرورى ہے اور آيہ شريفہ كے گذشتہ حصوں كى روشنى ميں ان معارف سے مراد دينى احكام ہيں _

۲۹۲

۳۱_ ارتداد;عمل كے ضائع ہو جانے اور آخرت ميں گھاٹے كا سبب بنتا ہے_

و من يكفر بالايمان فقد حبط عمله و هو فى الآخرة من الخاسرين جملہ ''من يكفر بالايمان'' كا ظہور يہ ہے كہ پہلے ايمان لايا جائے اور پھر كفر اختيار كيا جائے اورانكار كيا جائے، اس كفر كو ارتداد كہا جاتا ہے_

۳۲_ خداوند متعال نے مومنين كو متنبہ كيا ہے كہ كہيں اہل كتاب كے ساتھ لين دين اور شادى رچانا تمہارے ايمان كو كمزور نہ كردے_طعامكم حل لهم والمحصنات و من يكفر بالايمان اہل كتاب كے ساتھ ميل جول كو جائز قرار دينے كے بعد جملہ ''و من يكفر ...'' ذكر كرنا اس بات كى دليل ہے كہ خداوند عالم نے مسلمانوں كو خبردار كيا ہے كہ كہيں ان كے ساتھ ميل جول تمہارے عقيدے كو متزلزل نہ كردے_

۳۳_ خداوند متعال نے راہ ايمان سے منحرف ہونے والوں كو دھمكى دى ہے _و من يكفر بالايمان فقد حبط عمله

۳۴_ احكام الہى پركار بند رہنا ايمان جبكہ ان كى خلاف ورزى كفر ہے_و من يكفر بالايمان

۳۵_ اعمال كا ضائع ہو جانا آخرت ميں نقصان اور گھاٹے كا باعث بنے گا_فقد حبط عمله و هو فى الآخرة من الخاسرين

۳۶_ اہل كتاب كے ذبيحہ كے علاوہ ان كى ديگر غذاؤں سے استفادہ جائز ہے_و طعام الذين اوتوا الكتاب حل لكم

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے اس شخص كے رد ميں جو اہل كتاب كے ذبيحہ كى حليت كيلئے مذكورہ بالا آيہ شريفہ سے استدلال كرتا تھا فرمايا:كان ابى يقول: انما هو الحبوب و اشباهها (۱) يعنى ميرے والد گرامى فرمايا كرتے تھے كہ اس سے مراد صرف غلہ اور اس طرح كى دوسرى چيزيں ہيں _

۳۷_ احكام الہى كى حقانيت كا اقرار كرنے كے باوجود جان بوجھ كر ان پر عمل نہ كرنا انسان كے عمل كے نابود اور ضائع ہوجانے كا باعث بنتا ہے_و من يكفر بالايمان فقد حبط عمله حضرت امام صادقعليه‌السلام مذكورہ بالا آيت شريفہ كے بارے ميں فرماتے ہيں :من ترك العمل الذى اقر به (۲) اس سے مراد وہ شخص ہے جو اقرار كے باوجود كوئي عمل ترك كرے_

____________________

۱) كافى ج۶ ص ۲۴۰ ح ۱۰; نور الثقلين ج۱ ص ۵۹۳ ح ۴۸_

۲) كافى ج ۲ ص ۳۸۷ ح ۱۲; نور الثقلين ج۱ ص ۵۹۵ ح ۶۷_

۲۹۳

احكام:۱، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۲۰، ۲۱، ۲۷، ۳۶ احكام كا فلسفہ ۲،۱۹ ; احكام كى حقانيت ۳۷

ارتداد: ارتداد كے اثرات ۳۱

اسلام: اسلام اور ماديات ۱۰، ۲۴;اسلام اور معنويات ۱۸

اقدار: ۱۷

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا احسان ۱۵; اللہ تعالى كا خبردار كرنا ۳۲ اللہ تعالى كى تہديد ۳۳

انحراف: انحراف كے اصلاح كى روش ۲۹

انسان: انسان كى طبع ۲

اہل كتاب: اہل كتاب سے شادى ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۹، ۳۲، ; اہل كتاب سے لين دين ۸، ۹، ۳۲; اہل كتاب سے ميل جول ۹; اہل كتاب كا ذبيحہ ۳۶;اہل كتاب كو كھانا كھلانا ۸;اہل كتاب كى طہارت ۵;اہل كتاب كى غذا ۷; اہل كتاب كے ذبيحہ كى حليت ۴;اہل كتاب كے احكام ۶، ۷، ۹;اہل كتاب خواتين ۲۳;اہل كتاب كے كھانے سے استفادہ ۳۶

ايمان: اللہ تعالى پر ايمان ۱۷، ۱۹; انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۱۹; ايمان سے انحراف ۳۳;ايمان كا متعلق ۱۷ ،۱۹; ايمان كى قدر و منزلت ۱۷;ايمان كى كمزورى ۳۲ ; ايمان كے موارد ۳۴ ; نبوت پر ايمان ۱۷، ۱۹;وحى پر ايمان ۱۷

پاكيزگي: پاكيزگى كى اہميت ۲

تربيت: تربيت كى روش ۲۹

جنسى تعلقات: حرام جنسى تعلقات ۲۷

حق مہر: حق مہر كى ادائيگى كا وجوب ۲۱;حق مہر كى حقيقت ۲۲; حق مہر كے احكام ۲۱

حليت: حليت كا معيار ۲

روايت: ۱۲، ۳۶، ۳۷

۲۹۴

زناكار: زناكار سے شادى كرنا ۱۳

شادى : حرام شادى ۱۳، ۱۴، ۱۶;شادى كى شرائط ۲۵; شادى كے احكام ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵،۱۶، ۱۹، ۲۰، ۲۵

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ ترك كرنے كے اثرات ۳۷ ; شرعى فريضہ پر عمل ۳۴

شريك حيات : شريك حيات كے انتخاب كا معيار ۱۷

طہارت: طہارت كے احكام ۵

طيبات: طيبات سے استفادہ ۱

عصيان: عصيان كے اثرات ۳۴

عفت : عفت كى اہميت ۲۵، ۲۶، ۲۸; عفت كى قدر و قيمت ۱۷

عفيف: عفيف شخص سے شادى كرنا ۱۱، ۱۲، ۱۵

علم: علم اور عمل ۳۷

عمل: عمل كے ضائع ہو جانے كے اثرات ۳۵;عمل كے ضائع ہو جانے كے اسباب ۳۰، ۳۱،۳۷

عورت: پاكدامن عورتيں ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۲۵ ;عورت كاحق مہر ۲۰، ۲۲; عورت كے اقتصادى حقوق ۲۴;عورت كے حقوق ۲۰، ۲۲، ۲۳

غذا: حلال غذا ۷

كفر: احكام سے كفر ۳۰;كفر كے اثرات ۳۰;كفر كے موارد ۳۴

كنيز: كنيز سے شادى كرنا ۱۴

كھانے كى اشياء:

۲۹۵

كھانے كى اشياء كے احكام ۳، ۴، ۶، ۷، ۱۰، ۱۵، ۱۹، ۳۶

گھرانہ: گھرانے كى اہميت ۱۸;گھرانے كى تشكيل ۱۷; گھرانے كى نفسياتى سلامتى ۱۸

لين دين: لين دين كے احكام ۸

مباحات : ۱، ۳، ۴، ۸، ۳۶

محرمات : ۱۳، ۱۴، ۱۶، ۲۷، ۳۶

مرد: مرد كى پاكدامنى ۲۵، ۲۶

مسلمان: مسلمانوں كى غذا ۶

معاشرہ: معاشرہ كى پاكدامنى ۲۸

مؤمنين: مؤمنين كو خبردار كرنا ۳۲

نقصان: اخروى نقصان كے اسباب ۳۰، ۳۱، ۳۵

واجبات: ۲۱

۲۹۶

آیت ۶

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مَّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـكِن يُرِيدُ لِيُطَهَّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ )

ايمان والو جب بھى نماز كے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں كو اور كہنيوں تك اپنے ہاتھوں كو دھوؤ او راپنے سر او رگٹے تك پيروں كا مسح كرو اور اگر جنابت كى حالت ميں ہوتو غسل كرو او راگر مريض ہو يا سفر كے عالم ميں ہو يا پينحانہ وغيرہ نكل آيا ہے يا عورتوں كو باہم لمس كيا ہے اور پانى نہ ملے تو پاك مٹى سے تيمم كرلو _ اس طرح كہ اپنے چہرے اور ہاتھوں كا مسح كرلو كہ خدا تمہارے لئے كسى طرح كى زحمت نہيں چاہتا بلكہ يہ چاہتا ہے كہ تمہيں پاك و پاكيزہ بنادے اور تم پر اپنى نعمت كو تمام كردے شايد تم ا س طرح اس كے شكر گذار بند ے بن جاؤ_

۱_ نماز كيلئے چہرے اور ہاتھوں كا دھونا اور سر اور پاؤں كا مسح كرنا (وضو) واجب ہے_

۲۹۷

اذا قمتم الى الصلوة فاغسلوا وجوهكم و ايديكم و امسحوا برء وسكم و ارجلكم

۲_ وضو ميں كہنى اور انگليوں كے سروں كے درميان ہاتھ كے تمام اجزاء دھونے چاہئيں _

فاغسلوا وجوهكم و ايديكم الى المرافق ''الى المرافق'' ''فاغسلوا'' كيلئے قيد نہيں بلكہ ''ايديكم'' كى توضيح و توصيف بيان كررہا ہے، يعنى ہاتھوں كو دھوؤ اور ہاتھوں سے مراد كلائي يا پھر كاندھے تك نہيں بلكہ كہنى تك مراد ہے_ مذكورہ بالا مطلب كى امام باقرعليه‌السلام سے منقول اس روايت سے بھى تائيد ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام نے مذكورہ آيہ شريفہ كى وضاحت كرتے ہوئے فرمايا: و ليس لہ ان يدع شيئا من يديہ الى المرفقين الاغسلہ لان اللہ يقول: ''اغسلوا وجوھكم و ايديكم الى المرافق(۱) يعنى اسے حق نہيں پہنچتا كہ ہاتھوں اور كہنيوں كے درميان كا حصہ دھوئے بغير چھوڑ دے كيونكہ ارشاد بارى تعالى ہے كہ: اپنے چہروں اور ہاتھوں كو كہنيوں تك دھوؤ_

۳_ سركے كچھ حصے كا مسح وضو كے واجبات ميں سے ہے_و امسحوا برء وسكم

مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''برؤسكم'' كى ''بائ'' تبعيض كيلئے ہو_

۴_ پاؤں كا اس كى ابھرى جگہ تك مسح كرنا وضو كے واجبات ميں سے ہے_وامسحوا برء وسكم و ارجلكم الي الكعبين

۵_ وضو ميں پاؤں كا اس كے دونوں طرف موجود ٹخنوں تك مسح كرنا واجب ہے_وامسحوا برء وسكم و ارجلكم الى الكعبين مذكورہ بالا مطلب ميں ''كعب'' كو پاؤں كے ٹخنے كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''كعبين'' كا تثنيہ آنا اس مطلب كى تائيد كرتا ہے كيونكہ ہر پاؤں كے دو ٹخنے ہوتے ہيں _

۶_ تمام كے تمام پاؤں كا مسح ہونا چاہيئے_و امسحوا برئوسكم و ارجلكم ''ارجلكم'' كا منصوب ہونا اس بات كى دليل ہے كہ اس پر باء تبعيض داخل نہيں ہوئي بلكہ ''ارجلكم'' ''برء وسكم'' كے محل پر عطف ہوا ہے اور در اصل ''امسحوا'' كيلئے مفعول بلاواسطہ ہے_

۷_ وضو كے افعال ميں ترتيب كو ملحوظ ركھنا لازمى ہے_فاغسلوا وجوهكم و ايديكم الى المرافق وامسحوا برء وسكم و ارجلكم ہاتھوں پر چہرے كو اور پاؤں كے مسح پر سركے مسح كو

____________________

۱) كافى ج۳ ص ۲۶ ح ۵; تفسير برھان ج۱ ص ۴۵۱ ح ۷_

۲۹۸

مقدم كرنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ اعضاء وضو كے دھونے اور مسح كرنے ميں ترتيب كو ملحوظ ركھنا ضرورى ہے_ مذكورہ بالا مطلب كى حضرت امام باقرعليه‌السلام كے اس فرمان سے بھى تائيد ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام نے مذكورہ آيہ شريفہ ميں افعال وضو كے بارے ميں فرمايا: ابدأ الوجہ ثم باليدين ثم امسح الراس و الرجلين ابدأ بما بدأ اللہ بہ(۱) چہرے سے شروع كرے اور پھر ہاتھ دھوئے اور اس كے بعد سر اور پھر پاؤں كا مسح كرے يعنى اسى عضو سے شروع كرے جسے اللہ تعالى نے پہلے ذكر كيا ہے_

۸_ نماز پڑھنے كيلئے مجنب شخص پر تحصيل طہارت (غسل) واجب ہے_و ان كنتم جنبا فاطهروا جملہ ''ان كنتم ...'' ايك مقدر جملہ پر عطف ہے اور اس جملے كے ساتھ عبارت يوں بنے گى كہ:''اذا قمتم الى الصلاة فتوضوا ان لم تكونوا جنبا و ان كنتم جنبا فاطهروا '' يعنى جب تم نماز كيلئے كھڑے ہو اور مجنب نہ ہو تو وضو كرو اور اگر مجنب ہو تو طہارت (غسل) كرو_ بنابريں غسل كا وجوب اس چيز كے ساتھ مشروط ہوجائيگا كہ جب ايك مجنب شخص نماز پڑھنے كا ارادہ كرے_

۹_ غسل ميں تمام بدن كا دھونا واجب ہے_و ان كنتم جنبا فاطهروا ''فاطہروا''سے مراد تمام بدن دھوكر طہارت حاصل كرنا ہے_ كيونكہ اگر كوئي خاص عضو مد نظر ہوتا تو اس كى وضاحت كى جاتي_ جيسا كہ وضو اور تيمم ميں خاص اعضاء كى وضاحت كى گئي ہے_

۱۰_ غسل جنابت كرنے كى صورت ميں وضو كے بغير بھى نماز پڑھى جاسكتى ہے_اذا قمتم الي الصلاة و ان كنتم جنبا فاطهروا آيت شريفہ كى مقدر عبارت ''فاغسلوا ان لم تكونوا جنبا و ان كنتم جنبا فاطھروا '' سے معلوم ہوتا ہے كہ وضو كى ضرورت اور تشريع اس صورت ميں ہے جب وہ شخص مجنب نہ ہو_

۱۱_ غسل جنابت ميں بدن دھوتے وقت كسى خاص ترتيب كى مراعات لازمى نہيں _و ان كنتم جنبا فاطهروا

چونكہ خداوند متعال نے وضو اور تيمم ميں اعضاء كى خاص ترتيب كى طرف اشارہ فرمايا ہے جبكہ غسل جنابت ميں كسى تربيت كا تذكرہ نہيں كيا: اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اعضاء بدن كے دھونے ميں كوئي ترتيب مد نظر نہيں _

____________________

۱) كافى ج۳ ص ۳۴ ح ۵نورالثقلين ج۱ ص ۵۹۹ ح ۷۹_

۲۹۹

۱۲_ اس مريض كا فريضہ تيمم ہے جس كيلئے پانى نقصاندہ ہو_و ان كنتم مرضي فلم تجدوا مائً فتيمموا

مريض كى نسبت جملہ ''فلم تجدوا مائً '' كا معنى يہ ہے كہ پانى اس كيلئے نقصان دہ ہے_

۱۳_ وہ مسافر جسے وضو يا غسل كيلئے پانى نہ ملے اس كا فريضہ يہ ہے كہ تيمم كرے_او علي سفر فلم تجدوا مائً فتيمموا صعيداً طيباً

۱۴_ اگر محدث (جس سے حدث سرزد ہو) اور مجنب كو غسل يا وضو كيلئے پانى نہ ملے تو ان كا فريضہ يہ ہے كہ تيمم كريں _

او جاء احد منكم من الغائط او لمستم النساء فلم تجدوا مائً فتيمموا

۱۵_ وضو اور غسل كيلئے پانى تلاش كرنا لازمى ہے_ كلمہ ''نہ ملنا'' اس جگہ استعمال كيا جاتا ہے جہاں ايك شخص كسى چيز كى تلاش كرے ليكن اس تك دسترسى حاصل نہ كر سكے_

۱۶_ پيشاب و پيخانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نئے وضو كى ضرورت پڑتى ہے_او جاء احد منكم من الغائط فلم تجدوا ماء فتيمموا لغت عرب ميں ''غائط'' رفع حاجت كيلئے كھودے جانے والے گڑھے كو كہا جاتا ہے اور وہاں سے آنا پيشاب و پيخانہ كرنے كيلئے كنايہ ہے_

۱۷_ جماع; غسل كے ٹوٹ جانے اور نئے غسل كا باعث بنتا ہے_اولمستم النساء فلم تجدوا ماء افتيمموا

''لمستم'' باب مفاعلہ سے ہے اور اس كا معنى يہ ہے كہ مرد اور عورت دونوں ايك دوسرے كو چھوئيں اور يہ ہم بسترى كيلئے كنايہ ہے_ مذكورہ مطلب كى حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول اس روايت سے بھى تائيد ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام نے''لمستم النسائ'' كے بارے ميں فرمايا:هو الجماع (۱) يعنى اس سے مراد جماع كرنا ہے_

۱۸_ ہر اس چيز پر تيمم جائز ہے جسے زمين كہا جاتاہو_فتيمموا صعيداً طيباً مذكورہ بالا مطلب ميں ''صعيد'' كو زمين كے معنى ميں ليا گيا ہے_ خواہ وہ مٹى يا پتھر يا كوئي اور چيز ہو جيسا كہ بعض اہل لغت نے يہى كہا ہے_

۱۹_ تيمم صرف خاك پر جائز اور كافى ہے_

____________________

۱) كافى ج۵ ص ۵۵۵ ح ۵; تفسير برہان ج۱ ص ۴۵۲ ح ۹_

۳۰۰