تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 897
مشاہدے: 144281
ڈاؤنلوڈ: 3224


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144281 / ڈاؤنلوڈ: 3224
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 4

مؤلف:
اردو

جار و مجرور( على اللہ) كو مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے_

۲۴_ حضرت موسيعليه‌السلام كے خوف خدا ركھنے والے ساتھيوں (يوشع اور كالب )نے بنى اسرائيل كو مقدس سرزمين پر حملہ آور اور جابروں سے نبرد آزماہونے كيلئے آمادہ كرنے كى خاطر بہت زيادہ تبليغ كيا_قال رجلان ان كنتم مؤمنين

۲۵_( حضرت موسيعليه‌السلام كے چچازاد بھائيوں ) يوشع بن نون اور كالب بن يافنا نے بنى اسرائيل كو مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كى دعوت دي_قال رجلان ادخلوا عليهم الباب مذكورہ آيہ شريفہ كى وضاحت ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے:احدهما يوشع بن نون والآخر كالب بن يافنا، قال: و هما ابنا عمه (۱) ايك يوشع بن نون اور دوسرے كالب بن يافنا تھے اوريہ دونوں حضرت موسيعليه‌السلام كے چچازاد بھائي تھے_

اطاعت:اطاعت كے اسباب ۸

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى نعمتيں ۶ ،۷

انبياء:انبياء كى اطاعت ۸

ايمان:ايمان كے اثرات ۲۳

باطل:باطل پر فتح ۱۷

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى تاريخ ۱، ۱۰، ۱۲، ۲۴، ۲۵;بنى اسرائيل كى دعوت ۲۴;بنى اسرائيل كى صفات ۱۰، ۱۱;بنى اسرائيل كى كاميابى ۱۶;بنى اسرائيل كى گستاخى ۱۰;بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱۰، ۱۱;بنى اسرائيل كى ھٹ دھرمى ۱۱;بنى اسرائيل كے مؤمنين ۲

تحريك :تحريك كے علل و اسباب ۵

توكل:توكل كا پيش خيمہ۲۳;توكل كى اہميت ۲۱، ۲۲;خدا پر توكل ۱۹، ۲۰، ۲۱

جنگ:جنگ كى دعوت ۱۲;جنگ ميں منصوبہ بندى ا ۱، ۱۴، ۱۶، ۱۸

جہاد:

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۳۰۳ ح ۶۸; نورالثقلين ج۱ ص ۶۰۶ ح ۱۱۳_

۳۶۱

جہاد كى اہميت ۲۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام كى داستان ۱;حضرت موسيعليه‌السلام كى نافرمانى ۱۱;حضرت موسيعليه‌السلام كے اوامر ۵;حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھى ۱، ۲، ۳، ۴، ۲۴

حق:حق كى فتح۱۷

خوف:خدا كا خوف ۴،۵، ۸، ۹،۲۴; خوف كے اثرات ۵، ۸، ۹ ; خوف كے موانع ۹;دشمنوں كا خوف ۱۲، ۱۳

دشمن:دشمن پر فتح ۲۰; دشمن سے مقابلہ كرنا ۱۳;دشمن كى طاقت ۱۳

دليري:دليرى كا پيش خيمہ۹

ذمہ داري:ذمہ دارى كا پيش خيمہ ۵، ۷

روايت: ۲۵

طرز عمل:طرز عمل كى اساس و بنياد ۹، ۲۳

ظالمين:ظالمين پر فتح۱۶; ظالمين سے جنگ ۳; ظالمين سے مقابلہ ۱۱، ۱۴، ۲۴

كالب بن يافنا: ۴، ۵، ۱۴، ۱۵، ۲۵كالب بن يافنا كى تبليغ ۲۴;كالب بن يافنا كى دعوت ۱۲، ۱۹;كالب بن يافنا كے فضائل ۶

كام:كام كے آداب ۲۲

كاميابي:كاميابى كى شرائط ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۲۰

مبارزت:مبارزت كا طريقہ ۱۸

مقدس سرزمين: ۱، ۳، ۱۲، ۲۴، ۲۵مقدس سرزمين كا فتح كرنا ۱۴، ۱۵

مومنين:مومنين كى ذمہ دارى ۱۸نافرماني:نافرمانى كا پيش خيمہ ۱۱

نعمت سے بہرہ مند لوگ: ۶، ۲۱

يوشع بن نون: ۴، ۵، ۱۴، ۱۵، ۲۵يوشع بن نون اور بنى اسرائيل ۱۹;يوشع بن نون كى تبليغ ۲۴;يوشع بن نون كى دعوت ۱۲، ۱۹ ; يوشع بن نون كے فضائل۶

۳۶۲

آیت ۲۴

( قَالُواْ يَا مُوسَى إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَداً مَّا دَامُواْ فِيهَا فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ موسي ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے جب تك وہ لوگ وہاں ہيں _ آپ اپنے پروردگار كے ساتھ جاكر جنگ كيجئے ہم يہاں بيٹھے ہوئے ہيں _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كے حكم كے باوجود بنى اسرائيل اس بات پر مصر اور بضد تھے كہ مقدس سرزمين كے جابروں سے نبرد آزمائي سے اجتناب كيا جائے_قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابداً

۲_ قوم موسي( بنى اسرائيل )مقدس سرزمين پر قابض طاقتور حكمرانوں كا آمنا سامنا كرنے اور ان كے ساتھ نبرد آزما ہونے سے ڈرتى تھي_قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابداً

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم نے يوشع اور كالب كى طرف سے جابروں كا مقابلہ كرنے كيلئے حضرت موسي كا ساتھ دينے اور ان كى مدد كى اپيل سے بے اعتبائي كي_ادخلوا عليهم الباب قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابداً

يوشع اور كالب كى باتيں سننے كے بعد بنى اسرائيل حضرت موسيعليه‌السلام سے مخاطب ہوئے تا كہ ان دو كى باتوں سے بے اعتنائي اور بے توجہى كا اظہار كريں _

۴_ بنى اسرائيل نے مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كيلئے يہ شرط عائد كى كہ پہلے وہاں سے جابروں كا انخلاء ہوجائے_

انا لن ندخلها ابداً ما داموا فيها

۵_ بنى اسرائيل مقابلہ كيے بغير مقدس سرزمين كو فتح كرنے كى بے جا توقع ركھتے تھے_انا لن ندخلها ابداً ما داموا فيها

۶_ سعى و كوشش كے بغير كاميابى كى توقع ركھنا ايك بيجا اور غير معقول توقع ہے_انا لن ندخلها ابدا ما داموا فيها

۷_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كے لوگ ہٹ دھرم، ضدي،

۳۶۳

نصيحت قبول نہ كرنے والے اور خدا كى نعمتوں كے بدلے ميں ناشكرے تھے_اذكروا نعمة الله عليكم قالوا يا موسي انا لن ندخلها ابدا ماداموا فيها

۸_ بنى اسرائيل گستاخانہ انداز ميں حضرت موسيعليه‌السلام اور ان كے خدا سے مطالبہ كرتے تھے كہ خدا وند اور حضرت موسي جاكرمقدس سرزمين كے جابروں كے ساتھ لڑائي اور نبرد آزمائي كريں _قالوا فاذهب انت و ربك فقاتلا

۹_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم خدا كى شان ميں گستاخى كرتى تھي_فاذهب انت و ربك''ربنا'' كى بجائے ''ربك'' كہنا قوم حضرت موسيعليه‌السلام كى جسارت كى حكايت كرتا ہے_

۱۰_ قوم موسيعليه‌السلام كے غلط نظريہ كے مطابق خداوند متعال جسم و جسمانيات ركھتا ہے_فاذهب انت و ربك فقاتلاً

حضرت موسيعليه‌السلام اور خداوند متعال كو ايك ہى طرح سے جانے اور لڑنے كا كہنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ وہ خدا كو حضرت موسيعليه‌السلام جيسا ايك موجود خيال كرتے تھے_

۱۱_ بنى اسرائيل نبرد آزمائي سے عليحدگى كا اعلان كركے حضرت موسيعليه‌السلام كے معجزے اور مقدس سرزمين كو فتح كرنے كيلئے خدا كى خالص امداد كے خواہاں تھے_اذهب انت و ربك فقاتلاً بنى اسرائيل كى آنكھوں كے سامنے فرعونيوں كى نابودى كيلئے خدا كا مدد كرنا اور حضرت موسي كا معجزے دكھانا ہوسكتا ہے اس احتمال كى تائيد كرے ''اذھب ...'' سے ان كى مراد يہ توقع تھى كہ جابروں كى نابودى كيلئے خدا اس طرح مدد كرے اور حضرت موسيعليه‌السلام معجزہ دكھائيں كہ ان سے جنگ و جہاد كى ضرورت ہى نہ پڑے_

۱۲_ حضرت موسي كى قوم نے خدا كى مدد، اس كى شرائط اور اس كى علل و اسباب سے غلط مطلب اخذ كيا_

فاذهب انت و ربك فقاتلاً

۱۳_ بنى اسرائيل جابر و ظالموں كے خلاف نبرد آزما ہونے كى بجائے عليحدگى اختيار كركے گھر ميں آرام اور مزے سے بيٹھنے پر بضد تھے_انا هنا قاعدون

۱۴_ خدا پر توكل; اس كى راہ ميں جہاد سے كنارہ كشي، سعى و كوشش سے اجتناب اور شرعى ذمہ داريوں سے لاپروائي برتنے كے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار نہيں ہے_و علي الله فتوكلوا فاذهب انت و ربك فقاتلا انا ههنا قاعدون

حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا گھر ميں بيٹھے رہنا اور ميدان جنگ خداوند متعال وحضرت موسيعليه‌السلام كے حوالے كردينا اس نصيحت كے بالكل برعكس ہے جو

۳۶۴

يوشع اور كالب نے خدا پر توكل كرنے كے بارے ميں كى تھى اور اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فرائض الہى سے كنارہ كشى توكل كے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار نہيں ہے_

آرزو:ناپسنديدہ آرزو ۶

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى توہين ۹;اللہ تعالى كى مدد كى درخواست ۱۱;اللہ تعالى كى مدد كى شرائط ۱۲;اللہ تعالى كى نافرمانى ۱۴;اللہ تعالى كى نعمتيں ۷

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كا توہين كرنا ۹;بنى اسرائيل كا خوف ۲;بنى اسرائيل كا عقيدہ ۱۰، ۱۲;بنى اسرائيل كا كفران نعمت ۷;بنى اسرائيل كى تاريخ ۲، ۴، ۸، ۱۳;بنى اسرائيل كى صفات ۷; بنى اسرائيل كى گستاخى ۸;بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱، ۳، ۱۱; بنى اسرائيل كى نظر ميں خدا۱۰;بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ۷; بنى اسرائيل كے تقاضے ۴، ۵، ۸، ۱۱

توقعات:ناپسنديدہ توقعات ۵

توكل:خدا پر توكل۱۴

جنگ:جنگ سے فرار ۱۳

جہاد:جہاد ميں حصہ نہ لينا ۱۴

خوف:جنگ كا خوف ۲

ظالمين:ظالمين سے مقابلہ ۱، ۳، ۱۳

عقيدہ:باطل عقيدہ ۱۲

كالب بن يافنا:كالب بن يافنا كى دعوت ۳

كاميابي:كاميابى كى شرائط ۵، ۶

معجزہ:معجزہ كى درخواست ۱۱مقدس سرزمين: ۲، ۴

مقدس سرزمين كى فتح ۵، ۱۱; مقدس سرزمين كے ظالمين ۴، ۸

يوشع بن نون:يوشع بن نون كى دعوت ۳

۳۶۵

آیت ۲۵

( قَالَ رَبِّ إِنِّي لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ )

موسي نے كہا پروردگار ميں صرف اپنى ذات اور اپنے بھائي كااختيار ركھتا ہوں لہذا ہمارے اور اس فاسق قوم كے درميان جدائي پيداكردے _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام نے بنى اسرائيل كو جابر و ظالم افراد كا مقابلہ كرنے كيلئے آمادہ نہ كر سكنے پر خدا كى بارگاہ ميں معذرت طلب كي_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كو بنى اسرائيل كى جانب سے مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كى غرض سے تيار ہوكر ظالموں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے سلسلے ميں مايوسى اور نااميدى _قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام نے خدا كى بارگاہ ميں بنى اسرائيل كى طرف سے ظالموں كا مقابلہ كرنے سے سركشى كرنے پر شكايت كي_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۴_ تمام بنى اسرائيل ميں سے حضرت موسيعليه‌السلام كے مطيع ومددگار اور قابل اعتماد ساتھى صرف انكے بھائي (ہارون) تھے_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے جب كہ ''اخي'' كا عطف ''نفسي'' پر ہو_

۵_ حضرت موسيعليه‌السلام كى طرح حضرت ہارونعليه‌السلام كو بھى مقدس سرزمين فتح كرنے كيلئے بنى اسرائيل كو آمادہ كرنے كا حكم ديا گيا تھا_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي آيت نمبر ۲۳'' و قال رجلان ...'' اس بات كى علامت ہے كہ وہ دو مرد بھى حضرت ہارون كى مانند حضرت موسي كے مطيع اور فرمانبردار تھے اور يہ حقيقت اس جملہ ''لا املك الا نفسى و اخي'' كى اس تفسير كے ساتھ ہم آہنگ نہيں ہے

۳۶۶

كہ مجھے صرف اپنا اور اپنے بھائي كا اختيار حاصل ہے اور بنى اسرائيل ميں سے صرف ہارون ميرا مطيع و فرمانبردار ہے، پس''اخي'' ايسا مبتداء ہے جس كى خبر محذوف ہے، يعنى (و اخى لا يملك الا نفسہ) كہ ميرا بھائي صرف اپنا اختيار ركھتا ہے، اور اپنا اور اپنے بھائي كا نام لينے كى وجہ يہ ہے كہ بنى اسرائيل كو آمادہ كرنے كى ذمہ دارى حضرت ہارونعليه‌السلام كے كاندھوں پر بھى ڈالى گئي تھي_

۶_ تمام انسانوں حتى انبيائے خدا كو بھى دوسروں پر نہيں ، بلكہ صرف اپنى ذات پر اختيار حاصل ہے_قال رب انى لا املك الا نفسى و اخي

۷_ حضرت موسيعليه‌السلام نے پروردگار كى بارگاہ ميں اپنے اور اپنے بھائي ہارونعليه‌السلام كيلئے بنى اسرائيل سے جدائي كى درخواست اور دعا كي_فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۸_ خداوند متعال كے نيك بندوں كيلئے فاسقوں كے ساتھ زندگى گذارنا بہت كٹھن اور ناپسنديدہ ہے_فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۹_ حضرت موسيعليه‌السلام نے يہ دعا كركے اپنى قوم پر نفرين كى كہ وہ ميرے اور ميرے بھائي ہارونعليه‌السلام كے وجود سے فيض ياب ہونے سے محروم رہيں _فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۱۰_ بنى اسرائيل اپنى ہٹ دھرمى اور حضرت موسيعليه‌السلام كے فرامين سے منہ موڑنے كى وجہ سے ايك فاسق قوم تھي_

و بين القوم الفاسقين

۱۱_ حكم جہاد كے مقابلے ميں سركشى كرنا گناہ ہے_و بين القوم الفاسقين

۱۲_ بنى اسرائيل كى سركشى اور گناہ حضرت موسيعليه‌السلام كى جانب سے ان پر نفرين كرنے كا سبب بنا_

فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

۱۳_ خدا كى ربوبيت اس سے دعا اور التجاء كا پيش خيمہ ہے_قال رب فافرق بيننا و بين القوم الفاسقين

اقدار:منفى اقدار ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۳

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى ذمہ دارى كى حدود ۶

۳۶۷

انسان:انسان كى ذمہ دارى كا دائرہ ۶

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل اور موسيعليه‌السلام ۱۰; بنى اسرائيل پر نفرين۹، ۱۲; بنى اسرائيل كا فسق ۱۰;بنى اسرائيل كا گناہ ۱۲;بنى اسرائيل كى تاريخ ۳، ۵; بنى اسرائيل كى فوجى تيارى ۱ ، ۵; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۳، ۱۰، ۱۲;بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ۱۰

جہاد:جہاد ترك كرنا ۱۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۲، ۷، ۹، ۱۲; حضرت موسيعليه‌السلام اور حضرت ہارونعليه‌السلام ۴;حضرت موسيعليه‌السلام كاقصہ ۱، ۳، ۷، ۹;حضرت موسيعليه‌السلام كى دعا ۷; حضرت موسيعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵ ;حضرت موسيعليه‌السلام كى شكايت ۳;حضرت موسيعليه‌السلام كى طرف سے نفرين ۹، ۱۲; حضرت موسيعليه‌السلام كى مايوسى ۲; حضرت موسيعليه‌السلام كى معذرت خواہى ۱;حضرت موسيعليه‌السلام كے حكم كى نافرمانى ۱۰; حضرت موسيعليه‌السلام كے ساتھى ۴

حضرت ہارونعليه‌السلام :حضرت ہارونعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۷، ۹; حضرت ہارونعليه‌السلام كا مطيع ہونا۴; حضرت ہارونعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵

دعا:دعا كا پيش خيمہ ۱۳

صالحين: ۸

ظالمين:ظالمين كے ساتھ مبارزت۱، ۲، ۳

فاسقين: ۱۰فاسقين كے ساتھ زندگى گذارنا ۸

گناہ:گناہ كے اثرات ۱۲;گناہ كے موارد ۱۱

معاشرت:ناپسنديدہ معاشرت ۸

مقدس سرزمين:مقدس سرزمين كى فتح ۲، ۵مقدس مقامات: ۵

نافرماني:نافرمانى كے اثرات ۱۲

نفرين:نفرين كے اسباب ۱۲

۳۶۸

آیت ۱۹

( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَاءنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )

اے اہل كتاب تمہارے پاس رسولوں كے ايك وقفہ كے بعد ہمارا يہ رسول آيا ہے كہ تم يہ نہ كہو كہ ہمارے پاس كوئي بشير و نذير نہيں آيا تھا تو لو يہ بشيرو نذير آگيا ہے اور خدا ہرشے پر قادر ہے _

۱_ خداوند متعال نے تمام اہل كتاب كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے اور اسلام قبول كرنے كى دعوت دى ہے_

يا اهل الكتاب قد جاء كم رسولنا

۲_ اہل كتاب (يہود و نصاري )بعثت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منتظر تھے_يا اهل الكتاب قد جاء كم رسولنا

كلمہ ''قد'' ہوسكتا ہے اس فعل كے حصول كےانتظار پر دلالت كررہاہو جس پر يہ داخل ہوتا ہے جيسے ''قد قامت الصلاة''

۳_ اہل كتاب رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دائرہ كار ميں آتے ہيں اور اسے قبول كرنے كے پابند ہيں _

يا اهل الكتاب قدجاء كم فقد جاء كم بشير و نذير

۴_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اہم فريضہ احكام و معارف الہى كى توضيح

۳۶۹

و تشريح ہے_قد جائكم رسولنا يبين لكم مذكورہ بالا مطلب ميں احكام اور معارف دين كو ''يبين'' كيلئے مفعول مقدرفرض كيا گيا ہے_

۵_ احكام و معارف الہى توضيح و تشريح كے محتاج ہيں _يبين لكم فعل ''يبين'' اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ دينى احكام اور معارف كو جہاں لوگوں تك پہنچانے اورابلاغ كى ضرورت ہے، وہاں ان كى توضيح و تشريح كى بھى ضرورت ہے، لہذا يہ نہيں فرمايا: ''يبلغ'' يعنى وہ تم تك پہنچائے گا_

۶_ سعادت و شقاوت اور خوشبختى و بدبختى كى راہوں كى توضيح و تشريح رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ميں سے ايك ہے_قد جاء كم رسولنا يبين لكم ممكن ہے ''يبين'' كا مفعول وہ مفہوم ہو جو ''بشير و نذير'' سے حاصل ہوتا ہے، يعنى سعادت و شقاوت_

۷_ يہود و نصاري كے ہاتھوں مخفى ركھے گئے حقائق و معارف كو روشن و واضح كرنا رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ميں سے ايك ہے_قد جاء كم رسولنا يبين يہ اس بناپر ہے كہ''يبين'' كا محذوف مفعول وہ حقائق ہوں جنہيں علمائے اہل كتاب نے چھپائے ركھا اور آيت نمبر ۱۵ اس مطلب كا قرينہ ہے_

۸_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور گذشتہ انبياء و رسل كى بعثت ميں طولانى فاصلہ ہے_على فترة من الرسل

''فترة'' سكون و انقطاع كے معنى ميں ہے، لھذا ''فترة من الرسل'' كا معنى انقطاع پيغمبرى ہے اور ''فترة'' كو نكرہ ذكر كرنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ يہ انقطاع كافى لمبا عرصہ جارى رہا_

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت خدا كى طرف سے اہل كتاب پر اتمام حجت تھي_ان تقولوا ما جاء نا من بشير و لا نذير فقد جاء كم بشير و نذير ''ان تقولوا'' سے پہلے ''لام'' تعليل اور ''لا'' نافيہ محذوف ہے، يعنى لئلا تقولوا_

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت خدا كى جانب سے لوگوں پر اتمام حجت ہے_ان تقولوا ما جاء نا من بشير و لا نذير

اگر چہ آيہ شريفہ ميں مخاطب اہل كتاب ہيں ، ليكن يقيناً رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے سے اتمام حجت كے سلسلے ميں اہل كتاب اور ديگر لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_

۳۷۰

۱۱_ بشارت( فرمانبردار لوگوں كو خوشخبرى دينا )اور انذار (گناہگاروں كو ڈرانا )انبيائے خدا كى رسالت كى روح اور ان كى تبليغ كا طريقہ كار ہے_فقد جاء كم بشير و نذير

۱۲_ جاہل قاصر كا عذر قابل قبول ہے_ان تقولوا ما جاء نا من بشير و لا نذير چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بھيجا جانا عذر پيش كرنے كى راہ ميں ركاوٹ شمار كيا گيا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر يہ انجام نہ ديا جاتا تو عذر باقى رہتا_

۱۳_ خداوند متعال قادر مطلق ہے اور ہر كام انجام دينے كى قدرت ركھتا ہے_و الله على كل شيء قدير

۱۴_ انبيائے خدا كى بعثت خدا كى قدرت مطلقہ كا ايك جلوہ ہے_قد جاء كم والله على كل شيء قدير

۱۵_ خداوند متعال اپنے وعدہ و وعيد كى انجام دہى پر قادر ہے_فقد جاء كم بشير و نذير والله على كل شيء قدير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت ۲، ۹;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا دائرہ كار ۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا فلسفہ ۶;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ۷

اتمام حجت: ۱۰

احكام:احكام كى توضيح و تشريح ۴، ۵

اللہ تعالى:اللہ تعالى كا انذار ۱۵ ;اللہ تعالى كى بشارت ۱۵;اللہ تعالى كى دعوت ۱; اللہ تعالى كى قدرت ۱۳، ۱۴، ۱۵

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۱۰، ۱۴ ;انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۱;انبياءعليه‌السلام كى رسالت ۱۱

اہل كتاب:اہل كتاب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲;اہل كتاب اور اسلام ۱;اہل كتاب پر اتمام حجت ۹;اہل كتاب كو دعوت ۱;اہل كتاب كى توقعات ۲;اہل كتاب كى ذمہ دارى ۳

ايمان:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانا ۱;ايمان كا متعلق ۱

تبليغ:تبليغ كا طريقہ ۱۱

۳۷۱

جاہل:جاہل قاصر ۱۲;عذر والاجاہل ۱۲

دين:دينى تعليمات كى توضيح و تشريح ۴، ۵، ۷

سعادت:سعادت كى توضيح و تشريح ۶

شقاوت:شقاوت كى توضيح و تشريح ۶

عيسائي:عيسائي اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲;عيسائي اورحق كا كتمان۷;

عيسائيوں كى توقعات ۲

فرمانبردار:فرمانبرداروں كو بشارت۱۱

گناہگار:گناہگاروں كو ڈرانا۱۱

نبوت:نبوت كا فلسفہ ۱۰;نبوت ميں فترت۸

يہود:يہود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲;يہود اور حق كا كتمان ۷; يہود كى توقعات ۲

آیت ۲۰

( وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكاً وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِينَ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب موسي نے اپنى قوم سے كہاكہ اے قوم اپنے اوپر الله كى نعمت كو ياد كرو جب اس نے تم ميں انبيا ئقرار دئے اور تمھيں بادشاہ بنايا او رتمھيں وہ سب كچھ دے ديا جو عالمين ميں كسى كو نہيں ديا تھا _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام اور ان كى قوم كى آپ بيتى ياد ركھنے كے قابل اور سبق آموز ہے_و اذ قال موسي لقومه يا قوم ''اذ قال ...'' ميں ''اذ'' ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے محذوف فعل كا مفعول ہے_

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى طرف سے بنى اسرائيل كو وہ نعمتيں

۳۷۲

ياد كرنے كى دعوت جو خداوند متعال نے ان پر نازل كى تھيں _واذ قال موسي لقومه يا قوم اذكروا نعمة الله عليكم

۳_ خدا كى نعمتوں كى طرف توجہ دينا اور انہيں ياد كرنا لازمى ہے_اذكروا نعمة الله عليكم

۴_ بنى اسرائيل حضرت موسيعليه‌السلام سے پہلے بھى كئي ايك انبياءعليه‌السلام كى نعمت سے بہرہ مند ہوئے تھے_اذ جعل فيكم انبياء

۵_ خدا كى جانب سے بنى اسرائيل كو عطا كى جانے والى عظيم نعمتوں ميں سے ايك يہ تھى كہ ان كے درميان كئي انبياءعليه‌السلام مبعوث كيے گئے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعل فيكم انبياء

۶_ اُمتوں كے درميان انبياءعليه‌السلام كا بھيجا جانا ان كيلئے عظيم نعمت ہے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعل فيكم انبياء

۷_ بنى اسرائيل اپنى زندگى كى تاريخ كے ايك حصے ميں حاكم و فرمانروا ر ہے ہيں _و جعلكم ملوكاً

۸_ بنى اسرائيل كى حكومت اور فرمانروائي خدا كى طرف سے ان كيلئے نعمت تھي_اذكروا نعمة الله عليكم و جعلكم ملوكاً

۹_ حضرت موسي كى قوم اپنى تاريخ كے ايك حصے ميں دوسرى اقوام پر سردارى كرتى رہى ہے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعلكم ملوكاً مذكورہ بالا مطلب ميں ''ملوك'' كو سيادت و سردارى سے كنايہ كے طور پر اخذ كيا گيا ہے_

۱۰_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كى آزادى اور فرعونيوں كى غلامى سے چھٹكارا ان پر خدا كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_و جعلكم ملوكاً چونكہ حضرت موسيعليه‌السلام كى تمام قوم كا بادشاہ ہونا ناممكن ہے، لہذا ان كى سابقہ غلامى كى زندگى كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ ملك سے مراد يہ ہے كہ انہيں فرعونيوں كے چنگل سے چھٹكارا مل گيا اور اس كے بعد ان كى تقدير فرعونيوں كے ہاتھوں رقم نہيں ہوتى تھي_

۱۱_ امتوں كى فرمانروائي، سردارى اور آزادى خدا كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_اذكروا نعمة الله عليكم اذ جعلكم ملوكاً

۱۲_ بنى اسرائيل ميں انبياء كے مبعوث كيے جانے سے ان كى حاكميت اور آزادى كى راہ ہموار ہوئي_

اذ جعل فيكم انبياء و جعلكم ملوكاً ممكن ہے كہ ''جعلكم ملوكا'' پر '' جعل

۳۷۳

فيكم انبيائ'' كا مقدم كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ بنى اسرائيل ميں انبياء كى موجودگى ان كى آزادى اور فرمانروائي كا سبب بني_

۱۳_ خدا كى بعض خاص نعمات سے صرف بنى اسرائيل بہرہ مند ہوئے_و اتيكُم ما لم يوت احداً من العالمين

۱۴_ دنيا ميں كوئي بھي، قوم موسيعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى خاص نعمتوں سے بہرہ مند نہيں ہوا_

و اتيكم ما لم يؤت احداً من العالمين

۱۵_ بيوي، نوكر چاكر اور گھربار ان نعمتوں ميں سے ہيں جوبنى اسرائيل كو خدا كى جانب سے عطا ہوئيں _

و جعلكم ملوكاً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' جعلكم ملوكا'' كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں : زوجة و مسكن و خادم(۱) يعنى اس سے مراد بيوي، گھربار اور نوكر چاكر ہيں _ مذكورہ حديث ''ملك'' كا تنزيلى معنى بيان كررہى ہے، چنانچہ عرف عام ميں بھى يہ بات رائج ہے كہ جو كوئي بيوي، نوكر اور گھر كا مالك ہوكہتے ہيں يہ بادشاہ ہے_

آزادي:آزادى كا پيش خيمہ ۱۲;آزادى كى اہميت ۱۱

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى نعمتيں ۲، ۳، ۵، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۵

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا نقش ۱۲;انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۵، ۶;انبياءعليه‌السلام كى نعمت ۴، ۶

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل سے مختص اشياء ۱۴;بنى اسرائيل كى آزادى ۱۰، ۱۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۷،۹;بنى اسرائيل كى حكومت ۷، ۸، ۹، ۱۲;بنى اسرائيل كى نعمتيں ۴، ۵، ۸، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۵;بنى اسرائيل كے انبيائ۴، ۱۲;بنى اسرائيل كے فضائل ۹

تاريخ:تاريخ سے عبرت ۱;تاريخ كے ذكر كرنے كى اہميت ۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۲;حضرت موسيعليه‌السلام كى داستان ۱; حضرت موسيعليه‌السلام كى دعوت ۲حكومت:حكومت والى نعمت ۱۱

روايت: ۱۵

شريك حيات:شريك حيات والى نعمت ۱۵

غلام:غلام كو آزاد كرنا ۱۰

____________________

۱) الدر المنثور ج۳، ص۴۷، سطر ۵_

۳۷۴

گھر:گھر والى نعمت ۱۵

نوكر:نوكر والى نعمت ۱۵

ياد آوري:نعمت كى يادآورى كى اہميت ۲، ۳

آیت ۲۱

( يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ )

اور اے قوم اس ارض مقدس ميں داخل ہو جاؤ جسے الله نے تمہارے لئے لكھ ديا ہے اور ميدان سے الٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ كہ الٹے خسارہ والوں ميں سے ہوجاؤگے _

۱_ مقدس سرزمين ميں داخل ہونے اور اس پر قبضہ كرنے كيلئے حضرت موسيعليه‌السلام كا اپنى قوم كو حكم_

يا قوم ادخلوا الارض المقدسة

۲_ خدا كى يہ تقديرتھى كہ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرے_الارض المقدسة التى كتب الله لكم

۳_ خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كو حق ديا تھا كہ وہ مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرے_التى كتب الله لكم

۴_ خدا كى عطا كردہ نعمتوں اور وسائل كى يادآورى انسان ميں خدا كى اطاعت و فرمانبردارى كا محرك پيدا كرنے كا پيش خيمہ ہے_اذ جعل فيكم انبياء و جعلكم ملوكا ادخلوا الارض المقدسة بظاہر دكھائي ديتا ہے كہ حضرت موسيعليه‌السلام اپنى قوم ميں خدا كى اطاعت كا محرك پيدا كرنے كيلئے انہيں خدا كى نعمتيں ياد دلاتے تھے_

۵_ مقدس سرزمين پر قبضہ كرنے كيلئے بنى اسرائيل كا راہ خدا ميں جہاد كرنا ان نعمتوں كى شكر گذارى تھى جو انہيں خدا كى جانب سے عطا كى گئي تھيں _اذكروا نعمة الله يا قوم ادخلوا الارض المقدسة خدا كى نعمتيں بيان كرنے كے بعد حضرت موسيعليه‌السلام كا بنى اسرائيل كو مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كا حكم دينا اس بات كى علامت ہے كہ اس حكم پر عمل

۳۷۵

پيرا ہونا خدا كى نعمتوں كا شكر ادا كرنے كے مترادف ہے_

۶_ خدا اور اس كے انبياء كى اطاعت خدا كى نعمتوں كا شكر ہے_اذكروا نعمة الله عليكم ادخلوا الارض المقدسه

۷_ خدا كى نعمتوں كے مقابلے ميں انسان پر بھى كچھ ذمہ دارياں عائد ہوتى ہيں _اذكروا نعمة الله عليكم ادخلوا الارض المقدسة

۸_ حضرت موسيعليه‌السلام نے اپنى قوم كو مقدس سرزمين كے باسيوں سے آمنا سامنا كرتے وقت بھاگ جانے يا پيچھے ہٹنے سے منع كيا تھا_و لا ترتدوا على ادباركم

۹_ مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كى صورت ميں حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم اور وہاں كے باسيوں ميں لڑائي چھڑجانے اور جنگ بھڑك اٹھنے كا خطرہ تھا_ادخلوا و لا ترتدوا علي ادباركم

۱۰_ حضرت موسي نے اپنى قوم كو خبردار كيا تھا كہ مقدس سرزمين كے ظالم باسيوں سے لڑائي كے وقت بھاگ جانے يا پيچھے ہٹنے كى صورت ميں نقصان اٹھاؤگے_و لا ترتدوا على ادباركم فتنقلبوا خاسرين

۱۱_ جنگ اور جہاد سے بھاگ جانا ممنوع اور نقصان دہ ہے_و لا ترتدوا علي ادباركم فتنقلبوا خاسرين

۱۲_ خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كے مقدر ميں مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرنا لكھ ديا تھا، بشرطيكہ وہ جہاد اور مبارزت ميں حصہ ليں _التى كتب الله لكم و لا ترتدوا علي ادباركم فتنقلبوا خاسرين خسران (فتنقلبوا خاسرين )كا ايك مصداق قوم موسيعليه‌السلام كا مقدس سرزمين ميں داخلے سے محروم ہونا ہے، بنابريں ان كا مقدس سرزمين ميں سكونت اختيار كرنا اس صورت ميں ان كى تقدير بنے گى جب وہ دشمن كے مقابلے ميں ڈٹ جائيں گے _

۱۳_ بنى اسرائيل كو شام كى مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كا حكم ديا گيا_ادخلوا الارض المقدسة

مذكورہ آيہ شريفہ كى وضاحت ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے:يعنى الشام (۱)

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱، ص۳۰۵، ح۷۵، نورالثقلين ج۱، ص ۶۰۷، ح ۱۱۴_

۳۷۶

۱۴_ بنى اسرائيل چاليس سال دربدر كى ٹھوكريں كھاكر توبہ كرنے اورخدا كے ان سے راضى ہوجانے كے بعد شام ميں داخل ہوئے_يا قوم ادخلوا الارض المقدسة امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے مذكورہ آيہ شريفہ كى تلاوت كے بعد فرمايا :... ثم دخلوها بعد اربعين سنة و ما كان خروجهم من مصر و دخولهم الشام الا من بعد توبتهم و رضاء الله عنهم (۱) يعنى پھر وہ چاليس سال بعد اس ميں داخل ہوئے اور ان كا اپنے وطن سے نكل كر شام ميں داخلہ اس وقت ممكن ہوسكا جب انہوں نے توبہ كى اور خدا ان سے راضى ہوا_

اللہ تعالى:اللہ تعالى كى اطاعت ۶; اللہ تعالى كى اطاعت كا پيش خيمہ ۴; اللہ تعالى كى تقديرات۲، ۱۲;اللہ تعالى كى رضايت ۱۴;اللہ تعالى كى نعمتوں كو بيان كرنا ۴;اللہ تعالى كى نعمتيں ۳، ۷

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى اطاعت ۶

انسان:انسان كى ذمہ دارى ۷

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كا جہاد ۵، ۱۲;بنى اسرائيل كا دربدرہونا ۱۴;بنى اسرائيل كى تاريخ ۲، ۸، ۹، ۱۲، ۱۳، ۱۴;بنى اسرائيل كى توبہ ۱۴;بنى اسرائيل كى شرعى ذمہ دارى ۱۳;بنى اسرائيل كے حقوق ۳; بنى اسرائيل مقدس سرزمين ميں ۲، ۳

تحريك :تحريك كا پيش خيمہ ۴

جنگ:جنگ سے فرار۸، ۱۰;جنگ سے فرار كى ممنوعيت ۱۱; جنگ ميں استقامت ۸

جہاد:جہاد سے فرار كى ممنوعيت ۱۱;راہ خدا ميں جہاد ۵

چاليس كا عدد: ۱۴

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۱، ۸;حضرت موسيعليه‌السلام كا خبردار كرنا ۱۰;حضرت موسيعليه‌السلام كا قصہ ۸;حضرت موسيعليه‌السلام كے فرامين ۱، ۸;عہد حضرت موسيعليه‌السلام كى تاريخ ۱، ۲، ۹

روايت: ۱۳، ۱۴

سرزمين شام: ۱۳، ۱۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱، ص۳۰۶، ح۷۵، نورالثقلين ج۱، ص ۶۰۷، ح۱۱۴_

۳۷۷

شكر:نعمت كا شكر ۵، ۶، ۷

ظالمين:ظالمين سے جنگ كرنا ۱۰

مقدس سرزمين: ۱، ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳

مقدس مقامات: ۱، ۲، ۳، ۵، ۸، ۹

نقصان:نقصان كے اسباب ۱۱;نقصان كے موارد ۱۰

آیت ۲۲

( قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْماً جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىَ يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ موسي و ہاں تو جابروں كى قوم آباد ہے اور ہم اس وقت تك داخل نہ ہوں گے جب تك وہ وہاں سے نكل نہ جائيں پھر اگروہ نكل گئے تو ہم يقينا داخل ہوجا ئيں گے _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان كے باوجود بنى اسرائيل اس بات پر مصر تھے كہ مقدس سرزمين كے جابروں كے ساتھ نبرد آزما ہونے سے كنارہ كشى اختيار كى جائے_قالوا يا موسى ان فيها قوما جبارين و انا لن ندخلها

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم (بنى اسرائيل )مقدس سرزمين پر حاكم طاقتور جابروں سے آمنا سامنا كرنے سے ڈررہى تھي_قالوا يا موسي ان فيها قوما جبارين و انا لن ندخلها

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم نے مقدس سرزمين ميں داخل ہونے كيلئے يہ شرط عائد كى تھى كہ پہلے وہاں سے جابر باسيوں كو نكالا جائے_و انا لن ندخلها حتى يخرجوا منها

۴_ حضرت موسيعليه‌السلام كے زمانے ميں مقدس سرزمين پر طاقتور اور جابر لوگ آباد تھے

_

۳۷۸

ان فيها قوما جبارين

۵_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم جنگ و جہاد اور جابروں سے الجھے بغير مقدس سرزمين كو فتح كرنے كى بيجا توقع ركھتى تھي_

انا لن ندخلها حتى يخرجوا منها فان يخرجوا منها فانا داخلون آيہ شريفہ اور اس كا سياق و سباق حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كى اس فكر كو سراسر غلط قرار دے ر ہے ہيں كہ قدس كى سرزمين كسى جنگ اور جہاد كے بغير فتح ہوجائے_

۶_ جنگ اور جہاد كے بغير فتح و كامرانى كى توقع ايك بيجا اور نامعقول توقع ہے_فان يخرجوا منها فانا داخلون

بنى اسرائيل:

بنى اسرائيل كا ڈر ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱، ۲، ۳;بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱; بنى اسرائيل كے مطالبات ۳، ۵

توقعات:ناپسنديدہ توقعات۶

جنگ:جنگ سے فرار ۱

حضرت موسيعليه‌السلام :حضرت موسيعليه‌السلام كے اوامر ۱;عہد حضرت موسيعليه‌السلام كى تاريخ ۴

ظالمين:ظالمين سے جنگ ۱، ۲

كاميابي:كاميابى كى شرائط ۶

مقدس سرزمين: ۱، ۴، ۵مقدس سرزمين كے ظالم لوگ ۲، ۳

۳۷۹

آیت ۲۶

( قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ )

ارشاد ہواكہ اب ان پر چاليس سال حرام كردئے گئے كہ يہ زمين ميں چكر لگا تے رہيں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ كرو _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم چاليس سال تك مقدس سرزمين پر قبضہ كرنے سے محروم رہي_

قال فانها محرمة عليهم اربعين سنة ''محرمة'' سے مراد حرمت تشريعى نہيں بلكہ حرمت تكوينى ہے_

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا مقدس سرزمين پر قبضے اور وہاں سكونت اختيار كرنے سے محروم رہنا ان كے فسق اور حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان سے منہ موڑنے كا نتيجہ اور سزا تھي_انا لن ندخلها ابدا فانها محرمة عليهم

جملہ ''فانھا محرمة ...'' حضرت موسيعليه‌السلام كى نفرين (فافرق بيننا ...)پر نہيں ، بلكہ ان كے حكم سے منہ موڑنے پر متفرع ہے_

۳ _ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم چاليس سال تك بيابان ميں سرگردان رہي_اربعين سنة يتيهون فى الارض

چونكہ جملہ ''يتيھون'' ''عليھم'' كى ضمير كيلئے حال ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كى سرگردانى كى مدت بھى چاليس برس تھي_

۴_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا بيابان ميں سرگردان رہنا ان كے فسق اور حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان سے منہ موڑنے كا نتيجہ اور سزا تھي_انا لن ندخلها يتيهون فى الارض

۵_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كا ان كے فرمان سے منہ موڑنے كے زمانے سے ان كے چاليس سال تك ٹھوكريں كھانے اور قدس پر قبضے سے محروميت كا آغاز ہوا_انا لن ندخلها اربعين سنة يتيهون فى الارض

۳۸۰