تفسير راہنما جلد ۴

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 897

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 897
مشاہدے: 146869
ڈاؤنلوڈ: 3396


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 897 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146869 / ڈاؤنلوڈ: 3396
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 4

مؤلف:
اردو

آیت ۱۰۶

( يِا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَناً وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّهِ إِنَّا إِذاً لَّمِنَ الآثِمِينَ )

ايمان والو جب تم ميں سے كسى كى موت سامنے آجائے تو گواہى كا خيال ركھنا كہ وصيت كے وقت دو عادل گواہ تم ميں سے ہوں يا پھر تمہارے غير ميں سے ہوں اگر تم سفر كى حالت ميں ہواو روہيں موت كى مصيبت نازل ہو جائے _ ان دونوں كونماز كے بعد روك كر ركھو پھر اگر تمہيں شك ہو تو يہ خدا كى قسم كھائيں كہ ہم اس گواہى سے كسى طرح كا فائدہ نہيں چاہتے ہيں چا ہے قرابتدارى كامعاملہ كيوں نہ ہو اور نہ خدا ئي شہادت كو چھپاتے ہيں كہ اس طرح ہم يقينا گناہگاروں ميں شمار ہو جائيں گے _

۱_ وصيت( موت كے بعد مال و غيرہ ميں تصرف كا تقاضا )ايك شرعى حكم، لازم الاجراء اور قانونى لحاظ سے معتبر امر ہے_شهادة بينكم حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم

۲_ خداوند متعال نے ہر مسلمان كو تاكيد كى ہے كہ وہ دومسلمان اور عادل مردوں كى موجودگى ميں وصيت كرے_

يا ايها الذين آمنوا شهادة بينكم حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم

۳_ موت كے آثار كا مشاہدہ كرنے كے باوجود وصيت كرنے ميں سہل انگارى اور سستى سے كام لينا اہل

۷۲۱

ايمان كيلئے ايك ناروا اور ناپسنديدہ فعل ہے اگر چہ وہ حالت سفر اور ديار كفر ميں ہى ہو_

اذا حضر احدكم الموت حين الوصية ''حين الوصية'' ،'' اذا ''كيلئے بدل ہے، يعنى موت كے آثار كا مشاہدہ كرتے ہى كوئي اور كام انجام دينے كى بجائے وصيت كرنى چاہيئے، اور يہ اس بات كى ٹھوس دليل ہے كہ خداوند متعال نے وصيت كرنے كى بہت زيادہ تاكيد كى ہے_

۴_ وصيت اور اس كى حدود ثابت كرنے كيلئے دو مسلمان اور عادل مردوں كى گواہى ضرورى ہے_

شهادة بينكم حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم

۵_ وصيت اور اس كى حدود ثابت كرنے كيلئے دو غير مسلم مردوں كى گواہى كافى ہے، بشرطيكہ وصيت كرنے والے كو سفر ميں موت آجائے اور وہ مرتے مرتے وصيت كرے_او آخران من غيركم ان انتم ضربتم فى الارض فاصابتكم مصيبة الموت

۶_ وصيت كے مسئلے ميں غير مسلم كى گواہى قبول كيے جانے كى ايك شرط يہ ہے كہ وہ خداوند متعال پر اعتقاد ركھتاہو_

فيقسمان بالله ان ا رتبتم لانكتم شهادة الله گواہوں كى شہادت اور گواہى قبول كرنے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اللہ كى قسم كھائيں ، اور اس سے معلوم ہوتا ہے كہ'' آخران من غيركم ''سے مراد وہ غير مسلم ہيں جو خداوند متعال پر ايمان ركھتے ہوں _

۷_ موت ايك سخت اور ناگوار سانحہ اور مصيبت ہے_مصيبة الموت

۸_ وصيت كے گواہوں كو قانونى اور معتبر شہادت دينے تك روكے ركھنا جائز ہے_تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله ممكن ہے جملہ ''تحبسونھما'' سے آيہ شريفہ كے آخر تك گواہى كى ادائيگى كى طرف اشارہ ہو، يعنى آيت كے اس حصے ميں بيان كى گئي شرائط، اثبات وصيت ميں دخيل ہيں ، اور يہ بھى ممكن ہے كہ شہادت كے بوجھ كى جانب اشارہ ہو، يعنى خداوند متعال نے وصيت كرنے والے كو ہدايت كى ہے كہ اگر اسے شك و ترديد ہو كہ گواہ اس كى وصيت صحيح طور پر بيان كريں گے يا نہيں ، تو اسے ان سے مطالبہ كرنا چاہيئے كہ نماز پڑھ كر قسم كھائيں كہ صحيح اور برحق گواہى ديں گے، مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے_

۹_ اگر شك ہوجائے كہ غير مسلم نے صحيح گواہى دى ہے يا نہيں ؟ تو صرف اس كے قسم كھانے كى صورت ميں اس كى گواہى قابل قبول اور قانونى لحاظ سے معتبر سمجھى جائيگي_او آخران من غيركم تحبسونهما من بعد

۷۲۲

الصلاة فيقسمان بالله ان ارتبتم ممكن ہے جملہ'' تحبسونھما ...'' گواہوں كے ہر دو گروہوں ''ذوا عدل منكم'' اور ''آخران من غيركم'' كى جانب اشارہ ہو، اور يہ بھى ممكن ہے كہ صرف دوسرے گروہ يعنى ''آخران من غيركم'' كى جانب اشارہ ہو، مذكورہ بالا مطلب اسى دوسرے احتمال كى بناء پر ليا گيا ہے_

۱۰_ جب وصيت كے گواہوں ( خواہ وہ مسلم ہوں يا غير مسلم )كى گواہى كے بارے ميں شك ہو جائے كہ صحيح ہے يا نہيں ؟ تو اس وقت ان كى گواہى كا معتبر اور قابل قبو ل ہونا قسم كے ساتھ مشروط ہے_

ذوا عدل منكم او آخران من غيركم تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے، جب جملہ'' تحبسونھما'' وصيت كى گواہى دينے والے ہر دو گروہوں كى جانب اشارہ كررہاہو، اور ہر شاہد( خواہ وہ مسلم ہو يا غير مسلم) كى شہادت و گواہى كے معتبرہونے كو قسم سے مقيد و مشروط كرے_

۱۱_ وصيت كى گواہى دينے والے گواہوں كى قسم اس وقت معتبر ہوگى جب وہ نماز پڑھنے كے بعد قسم كھائيں _

تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله ان ارتبتم

۱۲_ نماز انسانى نفس كو پاك و منزہ كرنے ميں بہت مؤثر كردار ادا كرتى ہے، جس سے وہ جھوٹى قسميں كھانے اور شہادت و گواہى ميں خيانت كرنے سے اجتناب كرتا ہے_تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله

۱۳_ وصيت كى گواہى ديتے وقت صرف اللہ كے نام كى قسم ہى قابل قبول اور قانونى لحاظ سے معتبر سمجھى جائے گي_

فيقسمان بالله

۱۴_ وصيت كے گواہوں كيلئے قسم كھاتے وقت اس بات كا تذكرہ كرنا ضرورى ہے كہ وہ گواہى كو اپنے مالى مفادات كے حصول يا رشتہ داروں كو فائدہ پہنچانے كا وسيلہ قرار نہيں ديں گے_فيقسمان بالله ان ارتبتم لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربي ''بہ ''كى ضمير سياق آيت سے حاصل ہونے والے كلمہ شہادت كى جانب اور'' كان'' كى ضمير مشہود لہ يعنى جس كے حق ميں گواہى دى جارہى ہے كى جانب لوٹ رہى ہے _

۱۵_ وصيت كے گواہوں كو اپنى قسم ميں اس بات كى وضاحت كرنا چاہيئے كہ انہوں نے وصيت ميں موجود كسى چيز كو نہيں چھپايا، بلكہ تمام كى تمام وصيت بيان كردى ہے_

۷۲۳

فيقسمان بالله و لا نكتم شهادة الله

۱۶_ وصيت كے گواہوں كو اپنى قسم كے اختتام پر اس بات كى تاكيد كرنا چاہيئے كہ اگر وہ شہادت كى ادائيگى ميں خيانت كے مرتكب ہوئے ہوں تو ان كا شمار گناہگاروں ميں ہو_فيقسمان بالله انا اذا لمن الآثمين

۱۷_ گواہوں كو اپنے ذاتى يا رشتہ داروں كے مفادات كى خاطر گواہى ميں خيانت نہيں كرنا چاہيئے_

لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربى انا اذا لمن الآثمين اگر چہ آيہ شريفہ وصيت كى گواہى كے بارے ميں آئي ہے ليكن پھر بھى وصيت كى شہادت ہو يا كسى اور كي، ان ميں خيانت سے اجتناب كرنا ضرورى ہے اور اس لحاظ سے ان ميں كوئي فرق نہيں ، لہذا يہ كہا جاسكتا ہے كہ شہادت ميں خيانت كرنے والا ہر شخص گناہگار ہے_

۱۸_ شہادت و گواہى ميں لغزش اور خيانت كے اسباب ميں سے ايك دولت پرستى اور رشتہ دارى ہے_

لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربي

۱۹_ وصيت كى شہادت ايك عظيم كام ہے_و لا نكتم شهادة الله

''شہادة اللہ'' سے مراد وصيت كى شہادت و گواہى ہے، يعنى وصيت كى شہادت دينے والے در اصل شہادت خداوندى كا بوجھ اٹھائے ہوئے ہيں اور يہ وصيت كى شہادت كى عظمت پر دلالت كرتا ہے_

۲۰_ صحيح اور سچى گواہى دينا در حقيقت گواہوں اور شاہدين كے كاندھوں پر خداوند متعال كى طرف سے ڈالى گئي شرعى ذمہ دارى ہے_و لا نكتم شهادة الله شہادت كو اللہ كى جانب مضاف كرنے كا مقصد يہ حقيقت بيان كرنا ہے كہ شہادت اور گواہى حقوق اللہ ميں سے ہے اور خداوند متعال كے بندے اسے ادا كرنے كے پابند ہيں _

۲۱_ گواہوں كو يہ بات ملحوظ ركھنا ضرورى ہے كہ وہ جو بھى گواہى ديں گے خداوند متعال اس سے بخوبى آگاہ اور اس كا مشاہدہ كررہا ہے_و لا نكتم شهادة الله

۲۲_ مادى مفادات كى خاطر ميت كى وصيت چھپانے يا اس ميں تبديلى ايجاد كرنے والے گواہ گناہگاروں كے زمرے ميں آتے ہيں _لا نشترى و لا نكتم شهادة الله انا اذا لمن الآثمين

۲۳_ گواہى ميں خيانت كے ذريعے اپنے ذاتى مفادات كا حصول يا رشتہ داروں كو فائدہ پہنچانا گناہ ہے_

لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربي انا اذا

۷۲۴

لمن الآثمين

۲۴_ گواہى چھپانے كى صورت ميں گواہ باقاعدہ گناہگاروں كے زمرے ميں آتے ہيں _

و لا نكتم شهادة الله انا اذا لمن الآثمين

۲۵_ لوگوں كے حقوق ضائع كرنا بلا شك و شبہ گناہ ہے_لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربى انا اذا لمن الآثمين

۲۶_ مادى مفادات كا حصول يا رشتہ داروں كو فائدہ پہنچانا دوسروں كے حقوق پامال كرنے كا جواز فراہم نہيں كرتا_

لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربي

۲۷_ شہادت و گواہى ميں خيانت كرنا گناہ ہے_لا نشترى به ثمنا انا اذا لمن الاثمين

۲۸_ تمام اديان الہى ميں گواہى كو چھپانا يا اس ميں رد و بدل كرنا حرام اور ناروا فعل ہے_

لا نشترى به ثمنا و لو كان ذا قربى و لا نكتم شهادة الله انا اذا لمن الآثمين جملہ'' انا اذا ''وہ كلمات ہيں جو غير مسلم گواہوں كو بھى اپنى قسم كے اختتام پر ادا كرنے چاہئيں ، اور در حقيقت وہ يہ اعتراف كريں كہ شہادت و گواہى چھپانے كى صورت ميں وہ گناہگار ہيں ، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ دوسرے اديان الہى كے پيروكار بھى جھوٹى گواہى كو حرام اور ناروا سمجھتے ہيں _

اديان:اديان ميں حرام چيزيں ۲۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى ۲۱;الله تعالى كى نصيحتيں ۲

ايمان:خدا پر ايمان ۶

تزكيہ:تزكيہ كے اسباب ۱۲

حادثہ:سخت حادثہ ۷

عمل:ناپسنديدہ عمل ۳، ۲۸

قسم:جھوٹى قسم كھانے سے اجتناب ۱۲; خدا كى قسم كھانا ۱۳;قسم كا معتبر ہونا ۱۱، ۱۳;قسم كے اثرات ۹;قسم كے احكام ۱۱، ۱۳; وصيت ميں قسم كھانے كا طريقہ ۱۱

گناہ:گناہ كے موارد ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۷

۷۲۵

گناہگار افراد :۱۶، ۲۲، ۲۴

گواہ:گواہوں كو خبردار كرنا ۲۱;گواہوں كو محبوس كرنا ۸، ۲۰;گواہوں كى ذمہ دارى ۱۷; وصيت كے گواہ ۸، ۱۰، ۱۴، ۱۵، ۲۲;وصيت كے گواہوں كا قسم كھانا ۹، ۱۱، ۱۶

گواہي:غير مسلموں كى گواہى ۵، ۶، ۹، ۱۰;گواہى چھپانے كا گناہ ۲۴; گواہى چھپانے كى حرمت۲۸;گواہى دينا ۸، ۱۶، ۲۰;گواہى كا اعتبار ۹، ۱۰; گواہى كے آداب ۲; گواہى كے احكام ۸، ۹، ۱۰، ۱۷، ۲۰; گواہى كيلئے اسلام كى شرط ۱۲، ۴; گواہى كيلئے ايمان كى شرط ۶; گواہى كے معتبر ہونے كى شرائط ۶; گواہى ميں انصاف سے كام لينا۲، ۴; گواہى ميں خيانت كا گناہ ۲۷;گواہى ميں خيانت كرنا۱۲، ۱۶، ۱۷; گواہى ميں رد و بدل كى حرمت ۲۸; وصيت كى گواہى دينے كا طريقہ كار ۱۴، ۱۵، ۱۶

گھرانہ:گھريلو تعلقات ۱۸

لغزش:لغزش كے اسباب ۱۸

لوگ:لوگوں كے حقوق ضائع كرنا ۲۵، ۲۶

مال و دولت:مال و دولت سے محبت ۱۸

محبوس كرنا :محبوس كرنے كا جواز ۸

محرك :مادى محرك ۲۲

مفادات:مادى مفادات ۱۴، ۲۶

منفعت طلبي:منفعت طلبى كے اثرات ۲۶

موت:موت كى مصيبت ۷

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ دارى ۳

نماز:نماز كے اثرات ۱۲

وصيت:اثبات وصيت كا طريقہ كار ۴، ۵;حالت احتضار ميں وصيت ۵;سفر كے دوران وصيت ۳، ۵; وصيت كا اعتبار ۱;وصيت كو چھپانا ۲۲; وصيت كى اہميت ۳;وصيت كى گواہى دينا ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۰، ۱۳، ۱۹;وصيت كى مشروعيت ۱;وصيت كے احكام ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۹، ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۹; وصيت كے مطابق عمل كرنا ۱;وصيت ميں رد و بدل كا گناہ ۲۲;وصيت ميں قسم كھانا ۱۰، ۱۴، ۱۵، ۱۶

۷۲۶

آیت ۱۰۷

( فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْماً فَآخَرَانِ يِقُومَانُ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ )

پھر اگر معلوم ہو جائے كہ وہ دونوں گناہ كے حقدار ہو گئے ہيں توان كى جگہ دو دوسرے آدمى كھڑے ہوں گے ان افراد ميں سے جو ميت سے قريب تر ہيں اور وہ قسم كھائيں گے كہ ہمارى شہادت ان كى شہادت سے زيادہ صحيح ہے او رہم نے كسى طرح كى زيادتى نہيں كى ہے كہ اس طرح ظالمين ميں شمار ہوجائيں گے _

۱_ ناحق گواہياں ناقابل اعتبار اور ان پرقائم ہوئے احكام لغو اور ناقابل قبول ہوتے ہيں _فان عثر علي انهما استحقا اثما فاخران يقومان مقامهما ''عُثرص'' كا مصدرعثر اور عُثور ہے اور اس كا معنى آگاہ اور مطلع ہونا ہے اور ''استحقا'' باب استفعال سے ہے اور اس كى اصل ''حق '' ہے اور باب استفعال كے من جملہ معانى ميں سے، ايك چيز كو كچھ اور بناكر مثلا ناحق كو حق بناكر پيش كرنا ہے اور كہا جاسكتا ہے كہ استحقا سے يہى معنى مراد ليا گيا ہے، بنابريں جملہ''فان عثر ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ اگر معلوم ہوجائے كہ گواہوں نے ايك گناہ (ناحق شہادت و گواہي) كو حق بناكر پيش كيا ہے

۲_ ناحق گواہى دينا اور جھوٹى قسم كھانا گناہ ہے_فان عثر علي انهما استحقا اثماً

''انا اذا لمن الآثمين'' كے قرينے كى بناپر ''اثما ''سے مراد جھوٹى شہادت و گواہى ہے_

۳_ شاہدين وصيت كى گواہى غلط اور نادرست ثابت كرنے كيلئے چھان بين نہ كرنا ايك اچھا اور پسنديدہ اقدام ہے_

فان عثر علي انهما استحقا اثما اگر چہ عثار وعثور كا معنى ساقط ہونا ہے، ليكن مجازاً اس شخص كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جو تحقيق و جستجو كے بغير كسى چيز سے آگاہ ہوجائے (ماخوذ از

۷۲۷

مفردات راغب) فعل'' عثر'' كا مجہول ہونا بھى مذكورہ بالا مطلب كى جانب اشارہ ہوسكتا ہے_

۴_ جھوٹے شاہدين وصيت كى شہادت جن لوگوں كے نقصان ميں ہو ان ميں سے دو شخص ان شاہدين اور گواہوں كى جگہ شہادت دے سكتے ہيں _فاخران يقومان مقامهما من الذين استحق عليهم الاولين ''استحق'' كا مفعول كلمہ'' اثما '' ہے جو گذشتہ حصے كے قرينے كى بناپر حذف ہوگيا ہے، جبكہ ''اوليان''اس كا فاعل ہے، لہذا جو كچھ ''استحقا اثما'' كے بارے ميں كہا گيا ہے اسے مدنظر ركھنے سے ''من الذين استحق ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ گواہى دينے والے نئے دو مرد ان افراد ميں سے ہونے چاہئيں جنہيں سابقہ شاہدين اور گواہوں نے اپنى جھوٹى اور غلط گواہى سے نقصان پہنچايا ہو_

۵_ اگر گواہوں كے علاوہ كچھ اور لوگ اثبات وصيت كيلئے بعض ثبوت پيش كريں توگواہوں كو ان پر اولويت اور ترجيح دينے كا معيار وصيت كے وقت گواہوں كا بنفس نفيس موجود ہونا ہے _من الذين استحق عليهم الاوليان

''اوليان'' تفضيل كا صيغہ اور اس كا معنى ''زيادہ موزوں افراد '' ہے، جبكہ يہاں پر اس سے مراد وہى پہلے گواہ ہيں ، اور ان كے اولى اور دوسروں سے زيادہ موزوں ہونے كى وجہ يہ ہے كہ خود وصيت كرنے والے نے ان سے گواہى دينے كا تقاضا كيا ہے اور انہيں اس كام كيلئے چنا ہے، اگر چہ دوسروں نے بھى يہ وصيت سنى ہو، اور يا پھر انہيں ترجيح دينے كى وجہ يہ بھى ہوسكتى ہے كہ يہ وصيت كے وقت بنفس نفيس موجود تھے، جبكہ دوسرے اس وقت موجود نہ تھے، بلكہ انہيں كسى اور طريقے سے وصيت ميں درج مطالب كا علم ہوگيا تھا، مذكورہ بالا مطلب اسى دوسرے احتمال كى جانب اشارہ كررہا ہے_

۶_ شاہدين وصيت كى جگہ كچھ اور لوگوں كى گواہى اس وقت معتبر اور قانونى سمجھى جائيگي، جب وہ اللہ كى قسم كھائيں _

فيقسمان بالله

۷_ شاہدين وصيت كى جگہ گواہى دينے والوں كو قسم كھاتے وقت اس بات كى تصريح كرنا چاہيئے كہ سابقہ شاہدين كى نہيں بلكہ ان كى گواہى صحيح و برحق ہے_فيقسمان بالله لشهادتنا احق من شهادتهما

''احق'' افعل تفضيل كا صيغہ ہے اس كا مقصد شاہدين وصيت كى حقانيت كى نفى اور ان كى جگہ گواہى دينے والے دوسروں لوگوں كى حقانيت ثابت كرنا ہے، نہ كہ ان كے درميان موازنہ كرنا كہ ان ميں سے كون صحيح اور كون زيادہ صحيح ہے جملہ ''فان عثر ...'' اس تفسير پر دلالت كرتا ہے_

۸_ شاہدين وصيت كى جگہ گواہى دينے والوں كو قسم

۷۲۸

كھاتے وقت اس بات كى تصريح كرنا چاہيئے كہ انہوں نے اپنى گواہى ميں كسى پر ظلم نہيں كيا_

فيقسمان بالله مااعتدينا

۹_ شاہدين وصيت كى جگہ گواہى دينے والوں كو اپنى قسم كے اختتام پر اس بات كى تاكيد كرنا چاہيئے كہ اگر وہ شہادت اور گواہى ميں خيانت كے مرتكب ہوئے ہوں ، تو ستم كاروں ميں شمارہوں _فيقسمان بالله ...انا اذا لمن الظالمين

۱۰_ ناحق گواہى دينا اور جھوٹى قسم كھانا دوسروں كے حقوق پر تجاوز اور ان كے حق ميں ظلم ہے_

و ما اعتدينا انا اذا لمن الظالمين

جزا و سزا كا نظام: ۱

حقوق:حقوق كا اثبات ۴

ظالمين: ۹ظلم:ظلم كے موارد ۱۰

عمل:پسنديدہ عمل ۳

قسم:جھوٹى قسم ۱۰; جھوٹى قسم كا گناہ ۲;خدا كى قسم ۶;قسم كا اعتبار ۶;وصيت پرقسم كا طريقہ كار ۹

گناہ:گناہ كے موارد ۲

گواہ:وصيت كے گواہ ۴، ۵، ۶، ۷;وصيت كے گواہوں كى گواہى ۳

گواہي:جھوٹى گواہي۴;گواہى كے احكام ۱، ۴;گواہى ميں انصاف ۸; گواہى ميں ترجيح يا اولويت ۵;گواہى ميں خيانت ۹;لغو گواہى ۱;ناحق گواہى ۱، ۱۰;ناحق گواہى كا گناہ ۲;وصيت كى گواہى كا صحيح ہونا ۳; وصيت كى گواہى كا طريقہ كار ۶، ۷، ۸، ۹

لوگ:لوگوں كے حقوق پر تجاوز۱۰

وصيت:وصيت كا اثبات ۵;وصيت كے احكام ۳، ۴، ۵، ۶، ۷،۸، ۹;وصيت كے بارے ميں قسم كھانا ۷، ۸

۷۲۹

آیت ۱۰۸

( ذَلِكَ أَدْنَى أَن يَأْتُواْ بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُواْ أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللّهَ وَاسْمَعُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ )

يہ بہترين طريقہ ہے كہ شہادت كو صحيح طريقہ سے پيش كريں يااس بات سے ڈريں كہ كہيں ہمارى گواہى كے بعدگواہى رد نہ كردى جائے اور الله سے ڈرتے رہو او راس كى سنو كہ وہ فاسق قوم كى ہدايت نہيں كرتا ہے_

۱_ وصيت كى گواہى كيلئے معين كى گئي شرائط اور قوانين مثلاً گواہوں كا عادل ہونا اور شك كے موارد ميں قسم كھانا و غيرہ صحيح اور سچى گواہى كے تحقق اور حصول كيلئے بہترين اور موزوں ترين قوانين اور شرائط ہيں _

ذلك ادني ان يا توا بالشهادة علي وجهها

۲_ وصيت كى گواہى كے بارے ميں وضع كيے گئے احكام اور قوانين (مثلاً جھوٹى گواہيوں كى نفى اور قسم كا حق دوسروں كى طرف پلٹانا و غيرہ) كو ملحوظ ركھنا، جھوٹى گواہى دينے سے گريز كرنے كا سبب اور سچى و صحيح گواہى دينے كى راہ ہموار كرتا ہے_او يخافوا ان ترد ايمان بعد ايمانهم'' يخافوا'' اور'' ايمانھم'' كى ضمير پہلے شاہدين

اور گواہوں كى جانب لوٹ رہى ہے، اور رد يمين (ترد ايمان ) سے مراد قسم كا حق دوسروں كو لوٹا دينا ہے، بنابريں '' او يخافوا ان ترد ...''كا معنى يہ ہوگا كہ _تا كہ پہلے گواہوں كو يہ ڈر ر ہے كہ ان كى قسم كو پس پشت ڈال كر يہ حق دوسروں كے حوالے كرديا جائيگا_

۳_ شاہدين وصيت پر خدا كى جانب سے شرعى ذمہ دارى عائد كى گئي ہے كہ وہ گواہى ميں خيانت كرنے اور دوسروں كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنے سے گريز كريں اور يہ ان كے تقوي كى علامت ہے_ذلك ادنى ان يأتوا بالشهادة علي وجهها و اتقوا الله و اسمعوا

۴_ تقوي كى پابندى اور خوف خدا ،صحيح اور سچى گواہى

۷۳۰

دينے كى ضمانت فراہم كرتے ہيں _ان يأتوا بالشهادة علي وجهها و اتقوا الله

۵_ خداوند متعال كى جانب سے اہل ايمان پر يہ شرعى ذمہ دارى عائد كى گئي ہے كہ وہ فرامين خدا كو غور سے سنيں اور ان كے سامنے سرتسليم خم كريں _واسمعوا

۶_ فرامين خداوندى كے سامنے سر تسليم خم كرنا تقوي اور خوف خدا كى علامت ہے_و اتقوا الله واسمعوا

۷_ اگر شہادات (گواہيوں ) كے احكام جارى كرنے والے، احكام خداوندى كے سامنے سر تسليم خم كريں اور تقوي اختيار كريں تو يہ چيز ان كيلئے لوگوں كے حقوق كے اثبات اور ان كى صحيح طور پر ادائيگى ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہے_

و اتقوا الله واسمعوا گذشتہ مطالب ميں '' اتقوا'' اور ''اسمعوا'' كا مخاطب گواہوں كو قرار ديا گيا ہے ليكن ايك اور احتمال بھى پايا جاتا ہے كہ ان دو جملوں ميں ان حكام اور قُضات كو مخاطب قرار ديا گيا ہو، جو احكام كے نفاذ پر مامور ہوتے ہيں _

۸_ احكام خداوندى كى پابندى سے ہميشہ اجتماعى حقوق كے صحيح اثبات اور درست ادائيگى كى راہ ہموار ہوتى ہے_

و اتقوا الله و اسمعوا

۹_ فاسق لوگ خدا كى خاص ہدايت سے محروم ہوتے ہيں _والله لا يهدى القوم الفاسقين

۱۰_ شہادت اور گواہى ميں خيانت كرنا اور جھوٹى قسم كھانا فسق ہے اور خداوند عالم كى خاص ہدايت سے محروميت كا باعث بنتا ہے_فان عثر علي انهما اسحقا والله لا يهدى القوم الفاسقين

۱۱_ تقوي كى پابندى نہ كرنا اور احكام خداوندى سے بے اعتنائي برتنا فسق كا موجب اور خداوند متعال كى خاص ہدايت سے محروميت كا باعث بنتا ہے_و اسمعوا والله لا يهدى القوم الفاسقين

۱۲_ انسان ارادہ خداوندى سے ہى ہدايت پاتے ہيں ، اور ان كى ہدايت اسى كے اختيار ميں ہے_والله لا يهدى القوم الفاسقين

۱۳_ تقوي اختيار كرنا اور فرامين خداوندى كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كا باعث بنتا ہے_و اتقوا الله و اسمعوا والله لا يهدى القوم الفاسقين

۷۳۱

۱۴_ گمراہ اور خدا وند متعال كى خاص ہدايت سے محروم لوگ خود ہى ہدايت خداوندى تك رسائي كى لياقت ختم كرنے كا باعث بنتے ہيں _والله لا يهدى القوم الفاسقين

اللہ تعالى:اللہ تعالى كا ارادہ ۱۲; اللہ تعالى كى خاص ہدايت ۱۰، ۱۱، ۱۴ ;اللہ تعالى كى ہدايت ۱۳;اللہ تعالى كے اوامر پرعمل كرنا ۸;اللہ تعالى كے اوامر سے روگردانى ۱۱;االلہ تعالى كے اوامركى اطاعت ۵

تحريك:تحريك كے اسباب ۲

تقوي:تقوي كى علامات ۳، ۶; تقوي كے اثرات ۴، ۷، ۱۳

خوف:خوف خداوندى ۶;خوف خداوندى كے اثرات ۴

خيانت: ۲خيانت سے اجتناب ۳

سرتسليم خم كرنا:اوامر خداوندى كے سامنے سر تسليم خم كرنا ۵، ۶، ۷، ۱۳; سر تسليم خم كرنے كے اثرات ۱۳

شرعى فريضہ:شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ۲ ، ۴

عدم تقوي:عدم تقوي كے اثرات ۱۱

علم:علم كے اثرات ۲

فاسقين:فاسقين كى محروميت ۹

فسق:فسق كے موارد ۱۰، ۱۱

قسم :جھوٹى قسم ۱۰

گمراہ:گمراہوں كى محروميت ۱۴

گواہ:وصيت كے گواہوں كى ذمہ دارى ۳

گواہي:برحق گواہى كا پيش خيمہ۱، ۲، ۴; جھوٹى گواہى كے موانع ۲;گواہى پر عمل درآمد كرانے والے ۷;گواہى كے احكام ۷;گواہى كيلئے عادل ہونے كى شرط۱;گواہى ميں خيانت۳، ۱۰; وصيت كى گواہى كى شرائط ۱

گواہى جارى كرنے والے : ۷

۷۳۲

لوگ:لوگوں كے حقوق ادا كرنا ۷، ۸;لوگوں كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنا ۳

محروم لوگ:خدا كى ہدايت سے محروم لوگ ۹،۱۴

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ دارى ۵;مؤمنين كے شرعى فرائض ۵

وصيت:وصيت كى گواہى ۲;وصيت كے احكام ۱، ۲;وصيت كے بارے ميں قسم كھانا ۱، ۲

ہدايت:ہدايت كا پيش خيمہ ۱۳ ; ہدايت كى استعداد اور لياقت كا زائل ہونا ۱۴;ہدايت كے اسباب ۱۲;ہدايت كے موانع ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۴

آیت ۱۰۹

( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ )

جس دن خدا تمام مرسلين كو جمع كركے سوال كرے گا كہ تمہيں قوم كى طرف سے تبليغ كا كيا جواب ملا تو وہ كہيں گے كہ ہم كيا بتائيں تو خود ہى غيب كا جاننے والا ہے _

۱_ خداوند متعال قيامت كے دن تمام انبياءعليه‌السلام كو اكٹھا كريگا_يوم يجمع الله الرسل

۲_ قيامت كے دن انبياءعليه‌السلام كو اكٹھا كيے جانے كا مقصد يہ ہے كہ امتوں كے دعوت انبياءعليه‌السلام كے حوالے سے سلوك كے بارے ميں سوال كيا جائے_يوم يجمع الله الرسل فيقول ماذا اجبتم

۳_ قيامت، امتوں سے حساب كتاب لينے اور دعوت انبياءعليه‌السلام كے مقابلے ميں ان كے رد عمل كے متعلق سوال جواب كرنے كا دن ہے_يوم يجمع الله الرسل فيقول ماذا اجبتم

۴_ قيامت ،انسانوں كے اعمال كے متعلق سوال و جواب كا دن ہے_يوم يجمع الله الرسل فيقول ماذا اجبتم

۵_ اہل ايمان كيلئے قيامت اور اس دن ہونے والے حساب وكتاب كے مناظر كو ياد كرنا لازمى اور ضرورى ہے_

۷۳۳

يوم يجمع الله الرسل فيقول ماذا اجبتم اس احتمال كى بناپر كہ ''يوم ''،''اذكروا '' جيسے محذوف فعل كيلئے مفعول بہ ہو_

۶_ قيامت اور اس دن ہونے والے اعمال كى چھان بين كو ياد ركھنے سے تقوي كى پابندى اور خوف خداوندى كى راہ ہموار ہوتى ہے_واتقوا الله يوم يجمع الله الرسل اگر ''يوم''،'' اذكروا ''كيلئے مفعول ہو تو پھر'' اتقوا اللہ'' كے بعد جملہ'' اذكروا يوم ...'' لانا تقوي اور خوف خداوندى كے لازمى ہونے كى علل و اسباب ميں سے ايك علت كى جانب اشارہ ہوسكتا ہے_

۷_ قيامت اور اس دن ہونے والے حساب و كتاب سے ڈرنا ضرورى ہے_يوم يجمع الله الرسل

مذكورہ بالا مطلب اس بناپر اخذ كيا گيا ہے جب ''يوم'' گذشتہ آيت ''اتقوا اللہ'' ميں موجود كلمہ'' اللہ'' كيلئے بدل اشتمال ہو، يا پھر'' اتقوا'' يا ''احذروا'' و غيرہ جيسے فعل كيلئے مفعول ہو، كہ جو ''اتقوا اللہ'' كے قرينہ كى بناپر حذف كرديا گيا ہو_

۸_ قيامت كے دن فاسقين گمراہ و سرگردان ہوں گے_والله لا يهدى القوم الفاسقين _ يوم يجمع الله الرسل

مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''يوم''، گذشتہ آيت ميں موجود'' لا يھدي ...'' كيلئے ظرف ہو_

۹_ رسالت انبياءعليه‌السلام كے سرفہرست اہداف اور اہم فرائض ميں سے ايك امتوں كو فرامين خداوند ى كى اطاعت و پيروى كى دعوت دينا ہے_يوم يجمع الله الرسل فيقول ما ذا اجبتم

۱۰_ امتيں انبيائے خدا كى دعوت قبول كرنے كى ذمہ دار ہيں _ماذا اجبتم

۱۱_ قيامت كے دن انبياءعليه‌السلام اس چيز سے لاعلمى كا اظہار كريں گے كہ ان كى امتوں نے ان كى دعوت كا كيا كيا؟

فيقول ماذا اجبتم قالوا لا علم لنا حضرت امام باقرعليه‌السلام مذكورہ آيہ شريفہ كے بارے ميں فرماتے ہيں : ان لھذا تاويلا يقول: (ماذا اجبتم فى اوصيائكم الذين خلفتموهم علي اممكم؟ فيقولون لا علم لنا بما فعلوا بعدنا )(۱) يعنى اس آيہ شريفہ كى ايك تاويل ہے اور وہ يہ كہ جب ان سے پوچھا جائے گا كہ تمہارے پاس ان لوگوں كے بارے ميں كيا جواب ہے، جنہيں تم اپنى امتوں ميں اپنا وصى بناكر آئے ہو؟ تو وہ جواب ديں گے كہ ہميں كوئي علم نہيں كہ لوگوں نے ہمارے بعد كيا كيا؟

۱۲_ دعوت انبياءعليه‌السلام كے متعلق امتوں كے حقيقى رد عمل سے آگاہي، علم غيب كے زمرے ميں آتى ہے_

____________________

۱) كافى ج۸ص ۳۳۸ ح ۵۳۵; نورالثقلين ج۱ ص ۶۸۸ ح ۴۲۷_

۷۳۴

فيقول ما ذا اجبتم قالوا لا علم لنا انك انت علام الغيوب

۱۳_ خداوند متعال انبياءعليه‌السلام كى دعوت اور رسالت كے مقابلے ميں امتوں كے رد عمل سے مكمل طور پر آگاہ ہے_

فيقول ماذا اجبتم انك انت علام الغيوب

۱۴_ صرف خداوند متعال غيبى اور پنہاں امور سے مكمل اور مطلق طور پر آگاہ ہے_انك انت علام الغيوب

''الغيوب'' كى الف لام استغراق كيلئے ہے، جبكہ ''علام'' صيغہ مبالغہ ہے جو خداوند متعال كے كامل اور وسيع علم پر دلالت كرتا ہے_

۱۵_ غيب كے متعلق انبياءعليه‌السلام كا علم اور آگاہى خداوند متعال كے وسيع علم كے مقابلے ميں بہت ہى كم اور ناچيز ہے_قالوا لا علم لنا انك انت علام الغيوب

''لا علم لنا'' كے بعد جملہ'' انك '' اس بات كيلئے قرينہ ہوسكتا ہے كہ علم خداوندى كے مقابلے ميں انبياءعليه‌السلام كا علم كچھ بھى نہيں _

اللہ تعالى:اللہ تعالى سے مختص امور ۱۴;اللہ تعالى كا علم غيب ۱۳، ۱۴، ۱۵;اللہ تعالى كى اطاعت ۹; اللہ تعالى كے افعال ۱

امت:امتوں كا حساب كتاب ۳;امتوں كى دعوت ۹;امتوں كى ذمہ دارى ۱۰;امتيں اور دعوت انبياءعليه‌السلام ۲، ۳، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳

انبياء:انبياءعليه‌السلام قيامت ميں ۱، ۲، ۱۱;ابنياءعليه‌السلام كا علم غيب ۱۵ انبياءعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۹;انبياءعليه‌السلام كى رسالت ۹

تقوي:تقوي كا پيش خيمہ ۶

خوف:خوف خدا كا پيش خيمہ ۷;قيامت سے خوف ۶

ذكر :قيامت كا ذكر ۶;قيامت كے ذكر كى اہميت ۵

روايت: ۱۱

علم غيب:علم غيب كے موارد ۱۲

عمل:عمل كا اخروى حساب وكتاب ۶;عمل كا حساب كتاب ۴

فاسق:فاسق قيامت ميں ۸;فاسقوں كى اخروى سرگردانى ۸;فاسقوں كى اخروى گمراہى ۸

۷۳۵

قيامت:قيامت كے دن سرگردان ہونا ۸; قيامت كے دن ہونے والا حساب كتاب ۳، ۶، ۷;قيامت كے دن ہونے والے سوال ۲، ۴ ;قيامت ميں ہونےوالے حساب و كتاب كى اہميت ۵

مومنين:مومنين اور قيامت ۵

آیت ۱۱۰

( إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ )

اس وقت كو ياد كرو جب خدا نے كہا كہ اے عيسي بن مريم ہمارى نعمتوں كو ياد كرو جو ہم نے تم پر اور تمہارى والدہ پر نازل كى ہيں كہ روح القدس كے ذريعہ تمہارى تائيد كى ہے كہ تم لوگوں سے گہوارہ ميں او رادھيڑ عمر ميں ايك انداز سے بات كرتے تھے اور ہم نے تم كو كتاب ، حكمت ، او رتوريت و انجيل كى تعليم دى ہے اور جب تم ہمارى اجازت سے مٹى سے پرندہ كى شكل بناتے تھے او راس ميں پھونك ديتے تھے تو وہ ہمارى اجازت سے پرندہ بن جاتا تھا اور تم مادر زاد اندھوں اور كوڑھيوں كو ہمارى اجازت سے صحت ياب كرديتے تھے اور ہمارى اجازت سے مردوں كو زندہ كرليا كرتے تھے_ اور ہم نے تم سے بنى اسرائيل كے شركوروك ديا اس وقت جب تم معجزات لے كرآئے او رانكے كافروں نے كہہ ديا كہ يہ سب كھلا ہوا جادو ہے _

۱_ حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام خداوند متعال كى خاص نعمتوں سے بہرہ مند تھے_

۷۳۶

اذ قال الله يا عيسي ابن مريم اذكر نعمتى عليك و علي والدتك

۲_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا فريضہ تھا كہ اپنے اور اپنى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام پر نازل ہونے والى نعمتوں كو ياد كريں _

اذ قال الله يا عيسي ابن مريم اذكر نعمتى عليك و علي والدتك

۳_ انسان كا فريضہ ہے كہ اپنے اوپر اور اپنے اقرباء پر نازل ہونے والى نعمتوں كو ياد كرے_

اذ قال الله يا عيسي ابن مريم اذكر نعمتى عليك و علي والدتك

۴_ خداوند متعال قيامت كے دن انبياءعليه‌السلام كے مجمع ميں حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى نعمتوں كى ياد دہانى كرائے گا_يوم يجمع الله الرسل فيقول يا عيسي ابن مريم اذكر نعمتى عليك و علي والدتك''اذقال الله '' ميں كلمہ ''اذ '' ''يوم ...''كيلئے بدل اشتمال ہے_

۵_ حضرت عيسيعليه‌السلام كو نعمتيں عطا كيا جانا ايسے ہى ہے جيسے ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كو يہ نعمات خداوندى عطا كى گئي ہوں _اذكر نعمتى عليك و علي والدتك آيات قرآنى كے اس حصہ ميں صرف حضرت عيسيعليه‌السلام كو عطا كى گئي نعمتوں كا ذكرآيا ہے، جبكہ حضرت مريمعليه‌السلام كو خاص نعمات خداوندى عطا كيے جانے كے بارے ميں كچھ نہيں كہا گيا، لہذا يہ كہا جاسكتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام كو نعمتيں عطا كرنا ايسے ہى ہے جيسے ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كو عطا كى گئي ہوں _

۶_ حضرت عيسيعليه‌السلام خداوند متعال كے نہيں ، بلكہ حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _اذ قال الله يا عيسي ابن مريم

بظاہر معلوم ہوتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام كو صراحت كے ساتھ حضرت مريمعليه‌السلام كا بيٹا قرار دينے كا مقصد عيسائيوں كے اس دعوي كو رد كرنا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام خداوند عالم كے بيٹے ہيں _

۷_ حضرت عيسيعليه‌السلام كو اپنى زندگى كے دوران خداوند عالم كى پشت پناہى اور تائيد حاصل رہي_

اذكر نعمتى عليك اذ ايدتك بروح القدس جملہ'' تكلم الناس ...'' اور'' ايدتك ...'' كو حرف عطف كے بغير آپس ميں متصل كرنا اس بات كا منہ بولتاثبوت ہے كہ جملہ'' تكلم الناس ...'' در اصل جملہ'' ايدتك ...''كيلئے تفسير ہے، اور اس بات كو واضح كرتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام كو بچپن سے بڑھاپے تك خداوند متعال كى تائيد حاصل رہي_

۸_ خداوند متعال كى جانب سے جبرئيلعليه‌السلام نے حضرت

۷۳۷

عيسيعليه‌السلام كى پشت پناہى اور مدد كي_اذ ايدتك بروح القدس تكلم الناس فى المهد و كهلاً

جملہ'' تكلم ...'' سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام نے اپنى زندگى كے دوران جو باتيں اور تعليمات بيان كيں وہ روح القدس كى مدد اور وساطت سے بيان كيں اور چونكہ تمام انبياءعليه‌السلام پر حضرت جبرئيلعليه‌السلام كے ذريعے وحى خدا نازل ہوتى تھي، لہذا يہ كہا جاسكتا ہے كہ روح القدس سے مراد حضرت جبرئيلعليه‌السلام ہى ہيں _

۹_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا خداوند متعال كى تائيد اور حمايت سے بہرہ مند ہوناان خاص نعمات ميں سے ايك ہے جو انہيں عطا كى گئيں _اذكر نعمتى عليك اذ ايدتك بروح القدس

۱۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام پيدائش كے وقت اوربچپنے كى ابتداہى سے بولنے اور باتيں كرنے كى قدرت ركھتے تھے_

تكلم الناس فى المهد

۱۱_ حضرت عيسيعليه‌السلام نے بچپن ميں جو باتيں كيں وہ بہت حكيمانہ اور ان كى ادھيڑ عمر اور مكمل رشد و تكامل كے زمانے ميں كى جانے والى باتوں كى ہم پلہ تھيں _اذ ايدتك بروح القدس تكلم الناس فى المهد و كهلا

يہ بات واضح و بديہى ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام كا ادھيڑ عمرى ميں كلام كرنا ان كے ليے خاص نعمت شمار نہيں ہوتا، لہذا ''كھلا'' كو ''فى المھد'' پر عطف كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ پيدائش كے وقت ان كى باتيں مكمل رشد و تكامل كے زمانے ميں كى جانے والى باتوں كے ہم پلہ تھيں _

۱۲_ حضرت عيسي كو يہ قدرت روح القدس نے عطا كى جس سے وہ جھولے ميں اور جوانى اور ادھيڑ عمرى كے زمانے ميں لوگوں كے ساتھ كلام كرسكے_اذ ايدتك بروح القدس تكلم الناس فى المهد و كهلا

''كھل'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو جوانى كازمانہ گذار كر بڑھاپے ميں قدم ركھ رہا ہو، اور جملہ ''تكلم الناس ...'' جملہ'' ايدتك بروح القدس'' كا ايك مصداق بيان كررہا ہے_

۱۳_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا بچپن سے لے كر ادھيڑ عمرى تك اپنى زندگى كے تمام مراحل ميں لوگوں كے ساتھ كلام كرنے پر قادر ہونا ان خاص نعمات ميں سے ايك ہے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خدا كى جانب سے عطا كى گئيں _اذكر نعمتى عليك تكلم الناس فى المهد و كهلا

۱۴_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا جھولے ميں لوگوں سے كلام كرنا ان خاص نعمتوں كے زمرے ميں آتا ہے جو ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام كو خدا كى جانب سے عطا ہوئيں _

۷۳۸

اذكر نعمتى عليك و على والدتك ...تكلم الناس فى المهد

۱۵_ حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى واضح و و نماياں خصوصيات حضرت مر يمعليه‌السلام كيلئے خدا كى نعمت تھيں _

اذكر نعمتى عليك و على والدتك اذ ايدتك بروح القدس اذ جئتهم بالبينات بظاہر معلوم ہوتا ہے كہ اگرچہ''نعمتى عليك و على والدتك ''كا تقاضا يہ تھا كہ حضرت مريمعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى نعمتوں كا بھى ذكر ہوتا ليكن ايسا نہ كرنا اس حقيقت كى جانب اشارہ ہے كہ خود حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى مذكورہ خصوصيات ہى وہ نعمتيں ہيں جو خدا نے حضرت مريمعليه‌السلام كو عطا كيں _

۱۶_ حضرت عيسيعليه‌السلام كتاب، حكمت، تورات اور انجيل كا علم ركھتے تھے_و اذ علمتك الكتاب و الحكمة و التوراة والانجيل

۱۷_ خداوندمتعال حضرت عيسي كو علوم اور دينى تعليمات اور آسمانى كتابوں كا سكھانے والا ہے_

و اذ علمتك الكتاب و الحكمة و التورات و الانجيل

۱۸_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى كتاب، حكمت، تورات اور انجيل سے آگاہي، انہيں عطا ہونے والى خدا كى خاص نعمتوں ميں سے ايك ہے_و اذ علمتك الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل

۱۹_ تورات اور انجيل وہ عظيم الشان اور گرانبہا كتب ہيں جن كى حضرت عيسي كو تعليم دى گئي_و اذ علمتك الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل ممكن ہے كہ'' الكتاب'' كے بعد تورات اور انجيل كو ذكر كرنے كے قرينہ كى بناپراس سے مراد تورات اور انجيل كے علاوہ دوسرى آسمانى كتب ہوں ، اس صورت ميں اگر چہ لفظ ''الكتاب'' تورات اور انجيل كو بھى شامل ہوسكتا تھا، ليكن اس كے باوجود انہيں صراحت كے ساتھ بيان كرنا ان كى خاص اور زيادہ اہميت پر دلالت كرتا ہے_

۲۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام مٹى سے پرندے كى شكل كا ايسا مجسمہ بنانے پر قادر تھے جو ان كے پھونك مارنے سے اڑنے لگتا تھا_و اذ تخلق من الطين كهيئة الطير باذنى فتنفخ فيها فتكون طيرا باذني

۲۱_ بے جان موجودات كو زندگى عطا كرنا حضرت عيسيعليه‌السلام كے معجزات ميں سے ايك ہے_

و اذ تخلق من الطين كهيئة الطير باذنى فتنفخ فيها فتكون طيراً باذني

۷۳۹

۲۲_بے جان مادى عناصر سے ذى روح اجسام كى خلقت كا جواز و امكان _و اذ تخلق من الطين كهيئة الطير باذني

۲۳_ حيوانات كا مجسمہ بنانا جائز اور مباح فعل ہے_و اذ تخلق من الطين كهيئة الطير

۲۴_ حضرت عيسيعليه‌السلام پيدائشى اندھوں كى بينائي واپس لوٹانے اور جذام اور كوڑھ ميں مبتلا افراد كو صحت ياب كرنے پر قادر تھے_و تبرى الاكمه والابرص باذني

۲۵_ حضرت عيسيعليه‌السلام منوں مٹى تلے دفن مردوں كو زندہ كرنے پر قادر تھے_و اذ تخرج الموتي باذني

مردوں كے اخراج،'' تخرج الموتي ''سے مراد انہيں زندہ كرنا ہے اور كلمہ اخراج استعمال كرنے كا مقصد يہ حقيقت بيان كرنا ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام زمين ميں مدفون مردوں كو بھى زندہ كرنے اور انہيں زمين سے نكالنے پر قادر تھے_

۲۶_ حضرت عيسيعليه‌السلام ولايت تكوينى سے بہرہ مند تھے_و اذ تخلق من الطين و تبرى الاكمه والابرص باذنى و اذ تخرج الموتي

۲۷_ حضرت عيسيعليه‌السلام نے بہت سارے موقعوں پر بے جان اجسام كو زندگى عطا كرنے، اندھوں كو بينائي دينے، جزام اور كوڑھ ميں مبتلا افراد كو صحت ياب اور مردوں كو زندہ كرنے جيسے معجزات پيش كيے_اذ تخلق ...و تبرى الاكمه و الابرص باذنى و اذ تخرج مذكورہ بالا مطلب فعل مضارع ''تخلق''، ''تبري'' اور ''تخرج'' كو جو استمرار پر دلالت كرتے ہيں سے اخذ كيا گيا ہے_

۲۸_ انبياءعليه‌السلام صرف اذن خداوندى سے ہى معجزات دكھا سكتے ہيں _فتكون طيرا باذنى و اذ تخرج الموتي باذني

۲۹_ نظام ہستى (كائنات) پر اذن خدا حاكم ہے_و اذ تخلق من الطين كهيئة الطير باذنى و اذ كففت بنى اسرائيل عنك كلمہ '' اذني'' كو بار بار ذكر كرنا نيز بنى اسرائيل كى سازشوں كى ناكامى كو خدا وند عالم كى جانب نسبت دينا مذكورہ بالا مطلب پر دلالت كرتا ہے_

۳۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام كے معجزات كے اذن خدا سے مربوط ہونے پر توجہ سے، ان كى الوہيت كے گمان كى بنياد باطل ہوجاتى ہے_اذ تخلق فتكون طيرا باذنى و تبرى الاكمه والابرص باذني

بے جان اجسام كو زندگى بخشنا اور مردوں كو زندہ كرنا ايسے معجزات ہيں جن سے معجزات دكھانے

۷۴۰