حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)0%

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 140

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 140
مشاہدے: 57825
ڈاؤنلوڈ: 2876

تبصرے:

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 140 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57825 / ڈاؤنلوڈ: 2876
سائز سائز سائز
حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

حقوق والدین کا اسلامی تصور

( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

تالیف: محمد باقر مقدسی

۳

انتساب

اپنے شفیق اور مہربان والدین کے نام۔

۴

مقدمہ

بسم اللّٰه الرحمن الرحیم

الحمد للّٰه رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآله الطاهرین.

اس مختصر کتابچہ میں والدین کی عظمت انکے احتر ام اور حقوق کو قرآن وسنت کی روشنی میں نہایت مختصر اورسادہ الفاظ میں پیش کرنے کی کو شش کی گئی ہے ۔

تاکہ معاشرے کے تمام افراد والدین کی قدرومنزلت سے صحیح معنوں میں آگاہ ہو سکیں، چنانچہ عصرحاضر میں انسان جس برق رفتاری سے ظا ہری ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کر رہا ہے وہاں اتنی ہی تیزی سے انسانی معاشرے سے معنوی اور اخلاقی قدریں بھی ختم ہوتی دیکھائی دیتی ہیں ترقی کے نام پر اسلامی معاشرے پر مغربی تہذیب وتمدن کی بالا دستی کے نتیجے میں اب ہمارے درمیان بھی ماں باپ کی عزت واحترام کا تصور گویا دفن ہو چکا ہے اب جوان بیٹے، بوڑھے ماں باپ کو تنھا چھوڑکر اپنی خوبصورت بیوی کو لے کر اپنے لئے پرعیش زندگی فراہم کرتے ہیں لیکن اس سے آگے وہ ماں باپ کی خدمت کو اپنی ڈیوٹی نہیں سمجھتے۔

جب کہ اسلامی تعلیما ت اسکے بر عکس ہیں اسلام نہ صرف زندگی میں والدین کے احترام اور خدمت کو واجب قرار دیتا ہے بلکہ انکے مرنے کے بعد بھی ان کے نام پر صد قہ، خیرات اور فاتحہ خوانی کی شکل میں انکے حقوق ادا کر نے پر زور دیتا ہے لہٰذا ان کے مرنے کے بعد ان کے نام کار خیر انجام نہ دینا حقیقت میں اسلامی تعلیمات سے واقف نہ ہونے کے مترادف ہے وگرنہ خداوندعالم نے ماں باپ کی عظمت کو اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ماں باپ کی برکت سے زندگی کے تمام مراحل میں کا میابی ،دولت وثروت میں ترقی، معاشرے میں نیک نامی ،مشکلات میں کمی عمر میں اضافہ اور روز قیامت کے عقاب سے نجات مل سکتی ہے لہٰذا خدا نے قرآن مجید میں متعدد آیا ت کریمہ میں اپنی اطاعت اور پرستش کے حکم کے ساتھ والدین سے نیک رفتار ی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے کہ یہ حقیقت میں اس بات کی دلیل ہے کہ والدین کی عظمت خدا کی نظر میں بہت زیادہ ہے۔

۵

لہٰذا والدین کے حقوق ہمارے کاندھوں پر اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا ادا کرنا ہر انسان کی بس سے خارج ہے کیونکہ قرآن اور روایات میں والدین کا حق اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ تم ما ں باپ سے اف تک نہ کہو، نیز روایت میں فرمایا کہ ماں باپ کی طرف ناراضگی او ر غم وغصہ کی نگاہ سے دیکھنا عاق والدین اور جنت سے محروم ہونے کا باعث بنتا ہے لہٰذا آئمہ معصومین کے زرین اقوال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ والدین کے حقوق کتنے باریک اور سنگین ہیں جبھی تو مرحوم علامہ مجلسی نے اپنی گراں بہا کتاب (بحار) میں والدین کے حقوق سے مربوط روایات کو جمع کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ والدین کے حقوق کا ادا ہونا ہم جسیے عاصی افراد سے بہت مشکل ہے۔

لہٰذا اگر ہم اس قضیہ کی تحلیل کر یں کہ حقوق والدین کی رعایت لازم ہے تو یہ نتجہ نکلتاہے کہ حقوق والدین کی رعایت کرنا انسا نیت اور فطرت کا تقاضا ہے کیونکہ ماں باپ اولاد کے وجود میں علت کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذااپنی تمام تر توانائی اور جوانی اولاد کی فلاح وبہود اور پرورش میں صرف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تا کہ اولاد جوان اور صحت مند نظر آئے لہٰذا ان کے حقوق کو ادا کرنا حقیقت میں ایک قرضہ ادا کرنے کی مانند ہے جو ہمارے ذمہ پر تھا اور اس کو ادا کرنے کے نتیجہ میں کل ہمارے بچے بھی ہمارے حقوق کی رعایت کریںگے ۔

۶

لہٰذا معصوم علیہ السلام نے فرمایا تم لوگ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہارے بچے تم سے نیکی کریںلہٰذا اس طرح خیال کرنا کہ ہم معاشرے میں اپنی کو شش اور زحمت کے نتیجے میں کا میاب ہوئے ہیں ماں باپ کا کوئی دخل نہیں ہے ایسے خیال کا اسلام نے شدت سے منع کیا ہے لہٰذا مرحوم شیخ انصاری ؒ جن کی شخصیت علم وتقوی کے حوالے سے کسی سے مخفی نہیں ہے ، اور تاریخ فقہاء تشیع میں شیخ انصاری کو مرکز یت حاصل ہے ، جب ان کی ماںدنیا سے گذرگئی تو آپ نے ان کے جنازہ پر دونوں زانووںکو زمین پر رکھ کر بہت زیادہ گریہ فرمایا تو یہ حالت دیکھ کر آپ کے شاگردوں میں سے ایک آپ کو تسلی دینے کے لئے قریب گیا اور کہنے لگا:

''اے استاد محترم! ایک عمر رسیدہ ماں کے جنازہ پر اس طرح رونا آپ کے علمی مقام ومنزلت کے ساتھ سازگار نہیں ہے لہٰذا تحمل کریں''

جب آپ نے یہ بات سنی تو کہا:

''اے آقا میرا علم اور مقام ومنزلت اسی ماں کی تربیت اور زحمت کا نتیجہ ہے اس سے ہٹ کر دیکھیں تو مجھ میں کوئی کامیابی اور صلاحیت نہیں پائی جاتی ''

لہٰذا ایسی بات کرنا حقیقت میں والدین کی معرفت سے دوری کی علامت ہے۔

لیکن دور حاضر میںاسلامی افکار اور تصورات پر مغربی افکار وتصورات غالب آنے کی وجہ سے بہت سارے باایمان اور مسلمان حضرات بھی اسلامی افکار اور تعلیمات دینی سے دور نظر آتے ہیں لہٰذا ہم نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا کہ ''حقوق والدین کا اسلامی تصور'' کے عنوان سے کچھ مطالب اپنے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کروں، تاکہ ہم سب حقوق والدین سے بھرپور آگاہی کے بعد ان کو عملی جامہ پہناسکیں۔

خداوندکریم ہم سب کو اسلامی تعلیمات اور افکار سے آگاہ ہونے کی توفیق کے ساتھ والدین کا احترام اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، اور اس ناچیز زحمت پر حضرت فاطمہ زہرا =کے صدقہ میں ذات باری تعالیٰ کی رضایت کا خواہاں ہوں۔

الاحقر باقر مقدسی ہلال آبادی

حوزہ علمیہ قم المقدسہ

٢٢/ ذیقعدۃ الحرام ١٤٢٣ق ھ

۷

پہلی فصل

احترام والدین

الف۔قرآن کی روشنی میں

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اﷲَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا ) (١)

ترجمہ: اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

تحلیل آیت:

اس آیت شریفہ میں اللہ تعا لی دو مطلب کی طرف پوری بشریت کی توجہ کو مبذول فرماتا ہے .توحید عبادی ،یعنی عبادت اور پر ستش کا مستحق صرف خدا ہے، عبادت اور پرستش میں کسی کو شریک قرار دنیااس آیت کے مطابق شرک ہے کیونکہ

____________________

(١)بقرۃ آیت ٨٣.

۸

خدانے نفی اور اثبات کی شکل میں فرمایا: لاتعبدون الااﷲ یعنی سوائے خدا کے کسی کی عبادت نہ کرنا کہ یہ جملہ حقیقت میں تو حیدعبادی کو بیان کرناچاہتا ہے اور علم کلام میں تو حید کوچار قسموں میں تقسیم کیا ہے:

١۔ تو حید ذاتی کہ اس مطلب کو متعدد عقلی اور فلسفی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔

٢۔ توحید صفاتی ۔

٣۔ تو حید افعالی۔

٤۔تو حید عبادی۔ توحیدعبادی سے مراد یہ ہے کہ صرف خدا کی عبادت کریں ۔کسی قسم کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھر ائیں ۔

لہٰذا ریا جیسی روحی بیماری کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے اور شرک کو بد ترین گنا ہوں میں سے قراردیا گیا ہے ۔

جیسا کہ خدانے صریحاآیت شریفہ میں بیان کیا ہے کہ تما م گناہ تو بہ کے ذریعہ معاف ہو سکتے ہیں الاالشرک مگر شرک کے کہ اس گناہ کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا ۔

٢۔ دوسرا مطلب جو خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ ذکر فرما یا ہے''وباالوالدین احسانا ''کا جملہ ہے یعنی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

۹

دنیا میں ہر انسان فطری طور پر اس چیز کا معتر ف ہے کہ وہ خود بخود وجود میں نہیں آیاہے بلکہ کسی اور انسان کے ذریعہ عدم کی تاریکی سے نکل کروجود کی نعمت سے مالا مال ہوا ۔ لہٰذاانبیاء الٰہی کی تعلیمات اور تاریخی حقائق کے مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدا ئش کے اعتبار سے پوری بشریت تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے :

١۔ یا تو انسان کو والدین کے بغیر خدا نے خلق کیا ہے یہ سنت کائنات میں صرف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء کے ساتھ مخصوص ہے لیکن حضرت آدم کے بعد خدا نے بشر کی خلقت میں والدین کے وجود کو جزعلت قراردیاہے، یعنی والدین کے بغیر حضرت آدم(ع) اور حضرت حوا کے بعد کسی کو وجود نہیں بخشا ہے ۔

٢۔بشریت کی دوسری قسم کو صرف ماں کے ذریعے لباس وجود پہنایا ہے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کہ اس قصہ کو خدانے قرآن مجید میں مفصل بیان کیا ہے ، پیدائش کا یہ طریقہ بھی محدود ہے اورصرف حضرت عیسیٰ سے مخصوص ہے۔

٣۔ تیسری قسم وہ انسان ہے جسے اللہ نے والدین کے ذریعہ وجودمیں لایا ہے۔

لہٰذا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ باقی سارے انسان ماں باپ کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنا اورحسن سلوک کے ساتھ پیش آنا ہر انسان کی فطری خواہش ہے، اگر چہ معاشرہ اور دیگر عوامل کی تاثیرات اس فطری چاہت کو زندہ اور مردہ رکھنے میں حتمی کردار ادا کرتی ہیں۔

پس اگر معاشرہ اسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار ہو تو یہ فطری خواہشات روز بروز زندہ اور مستحکم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر کسی معاشرہ پر غیر اسلامی تہذیب وتمدن کی حکمرانی ہو تو فطری خواہشات مردہ ہو جاتی ہیں اور والدین کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو حیوانات کے ساتھ رکھتے ہیں۔

لہٰذا دو ر حاضر میں بہت ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ اکثر اولاد والدین کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک نہیں رکھتے بلکہ بڑھاپے اورضعیف العمری میں بیمار ماں باپ کی احوال پرسی اور عیادت تک نہیں کرتے، حالانکہ اولاد اپنے وجود میں والدین کی مرہون منت ہیں اور ان کی کا میابی پرورش اور تربیت میں والدین کی زحمتوں اور جانفشانیوں کا عمل دخل ہے۔

۱۰

لہٰذا روایت میں والدین سے طرز معاشرت کا سلیقہ اور ان کی عظمت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان یہ ہے کہ تم والدین کو کو ئی بھی تکلیف نہ پہنچنے دیں ،اگر تم سے کوئی چیز مانگے تو انکار نہ کریں، ان کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کرے ان کے پیش قدم نہ ہو ان کی طرف تیز نگاہ سے نہ دیکھو اگر وہ تمھیں مارے تو جواب میں کہو:

''خدا یا ان کے گناہوں کو بخش دے اور اگر وہ تمھیں اذیت دے تو انہیں اف تک نہ کہو''۔(١)

دوسری آیت :

( وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلاَتُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا ) (٢)

اور خدا ہی کی عبادت کر ے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھر اؤاور ماں باپ کے سا تھ اچھا سلوک کرو۔

تفسیرآیت :

خداوند کریم اس آیت شریفہ میں تین نکات کی طرف اشارہ فرماتا ہے:

١۔ اللہ کی عبادت کریں۔

٢۔ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرائیں ۔

٣۔ ماں باپ کے ساتھ اچھے رفتار سے پیش آئے ۔

تفسیر عیاشی میں''وبالوالدین احسانا'' کے ذیل میں سلام جعفی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اور آبان بن تغلب نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

____________________

(١) ترجمہ حافظ فرمان علی ص ١٦ حاشیہ

(٢) سورہ نساء آیت ٣٦.

۱۱

''نزلتْ فی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم وفی علی علیه السلام'' یعنی یہ آیت( وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ اسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں ۔نیز ابن جلبہ سے منقول روایت اس کی تائید کرتی ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

'' اناوعلی ابوا هذه الامة''

یعنی میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں پس ان دو رواتیوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ وبالوالدین احسانا سے حضرت پیغمبر اور حضرت علی مراد ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیوں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی کے بارے میں وبالوالدین کا جملہ استعمال ہوا جب کہ عربی زبان میں والدین سے مراد ماں باپ ہیں ۔

جواب یہ ہے جیسا کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت اور ترقی وتکامل کے لئے ہر قسم کی زحمتیں اور مشکلات برداشت کرتے ہیں، حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام پوری زندگی امت اسلامی کی تربیت اور روحی وفکری نشوو نما کی خاطر ہر قسم کی سختیوں اور رکا وٹوں کو تحمل کرتے رہے۔

۱۲

لہٰذا قرآن کی نظر میں جہاں والدین سے حسن سلوک ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے اسی طرح اولیاء خدا کی اطاعت وفرما نبرداری بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے، اس لئے وبالوالدین احساناً حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا ہماری بات کے ساتھ نہیں ٹکرارہا ہے۔

تیسری آیت:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا ) (١)

اے رسول کہدو کہ تم آؤ جو چیزیں تمہارے پروردگار نے حرام قراردیا ہے کہ وہ تمھیں پڑھ کر سناؤں وہ یہ ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک نہ ٹھراؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔

تفسیر آیت :

اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر٨٣/اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٥٢/اور سورہ نساء کی آیت ٣٦/ میں ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، صرف خدا کی عبادت کریں۔ اور کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائیں کیونکہ شرک (جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ) اسلام میں سب

____________________

(١)سورہ انعام ١٥٢.

۱۳

سے بڑا گنا ہ محسوب ہوتا ہے۔

چوتھی آیت :

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا ) (١)

اور تمہا رے پروردگارنے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی اور اچھا سلوک کرنا۔

تفسیر آیت:

چنانچہ اس آیت شریفہ میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آیات گذشتہ میں خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ احترام والدین کا تذکرہ فرمایا ہے اسی طرح اس آیت میں بھی توحید عبادی کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی نظر میں تو حید کے اقرار کے بعد اہم ترین ذمہ داری احترام والدین ہے کیوںکہ ان چاروں آیات میں خدا نے صریحا فرمایا کہ صرف میری عبادت کر ے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تعجب آور بات ہے کہ بحیثیت مسلمان قرآن مجید کی شب

____________________

(١)سورہ اسرائیل آیت٢٣.

۱۴

وروز تلاوت کے باوجود بعض افراد ایسی عظیم ذمہ داری سے شانہ خالی کئے بیٹھے ہیں لہٰذا ہر معاشر ے میں بہت سے والدین مشاہدہ میں آتے ہیں جو اپنی اولاد سے ناراض اور ناامید دنیا سے رخت سفر باندھ لیتے ہیں ۔

ب۔ فطرت کی روشنی میں

جب انسان عقل وشعور اور رشد فکری کا مرحلہ طے کرتا ہے تو اپنے اور کائینات کی دوسری مخلوقات کے بارے میں غورو فکر کرتا ہے اور یہ درک کر لیتا ہے کہ اس میں اور باقی مخلوقات میں فرق ہے، لہٰذا وہ اپنی زندگی کو ایک منظم اورباارادہ زندگی قرار دیتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں ما ں باپ ہی کو اپنا ہمدر داور مددگار تصور کرتا ہے، قدرتی طور پر اس کا دل والدین کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے ان کے چہرے کی زیارت تسکین قلب کا وسیلہ ہے جب کہ ان سے دوری انسان پر شاق گزرتی ہے ۔اور سب سے بڑھ کریہ کہ والدین کا احترام اور ان سے محبت کرنا زمان ومکان سے بالاتر فطری امر ہے۔

۱۵

اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ معاشرتی او ربیرونی عوامل اس فطری اور طبیعی چاہت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اس کی شدت وضعف یا کمی بیشی کا باعث ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں والدین کااحترام کرنا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا ہے ارشاد خداوندی ہے :

( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَتُطِعْهُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) (١)

اور ہم نے انسانو ں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتا ؤ ں کرنے کی نصیحت کی ہے اور اگر وہ تمھیں میرے ساتھ کسی چیز کے شریک ٹھہرانے پر مجبور کر یں کہ جس کا تمھیں علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا (کیو نکہ ) تمھیں میری طرف ہی لوٹ کرآنا ہے پس جو کچھ تم نے(دنیامیں) انجام دیئے ہیں تمھیں خبر دوںکا۔

شان نزول آیت :

اس آیت شریفہ کا شان نزول یوںذکر ہوا ہے کہ سعد بن وقاص کہتا ہے کہ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا جب میں مسلمان ہوا تو ما ں نے کہا کہ تو نے یہ کو ن سا دین اختیا ر کیا ہے اس کو چھوڑ دے ورنہ میں کھا نا پینا ترک کروں گی یہا ں تک کہ مرجاؤں اور لوگ تجھے ملامت کریں گے کہ ما ں کا قاتل ہے میں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں آخر اس نے کھا نا پینا چھو ڑ دیا جب دو وقت گزر گئے تو میں نے کہا اے اماں اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک مجھ سے جدا ہو اور میں دیکھتا رہوں تو بھی

____________________

(١)سور ہ عنکبوت آیت ٨.

۱۶

میں اپنا دین تر ک نہیں کر سکتا لہٰذا کھائیں اور پیئںورنہ تجھے اختیار ہے ۔

تفسیر آیہ شریفہ :

خدا نے مذکورہ آیت میں انسانوں سے خطاب کرکے یہ بتلایا ہے کہ والدین کا احترام رکھنے کاجذبہ اور شعور اللہ تعالی نے پہلے سے ہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کررکھاہے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین اپنے کسی فرزند کو اسلامی اصول وضوابط اور احکام خداوندی پر عمل پیرا ہونے سے منع کرے تو واجب الا طاعت نہیں ہیں کہ حقیقت میں یہ جملہ والدین کے احترام کی حدبندی کی تو ضیح دینا چاہتا ہے۔

دوسری آیت:

( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَی وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِی عَامَیْنِ أَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ ) (١)

اور ہم نے پورے انسانوں کو اپنے والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا ہے (کیونکہ ) اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں سختی پر سختی

____________________

(١)سورہ لقمان آیت١٤.

۱۷

کے ساتھ برداشت کیا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ۔

لہٰذا میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو کہ تمھاری باز گشت میر ی طرف ہی ہے۔

تفسیر آیت :

اس آیت شریفہ میں دو مطلب کی طرف اشارہ ہے:

١۔احترام والدین کا حکم فطرت انسان سے مربوط ہے لہٰذاحترام والدین مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔

٢۔ماں کے احترام او راس کے ساتھ نیکی کرنے کی علت بھی ذکر کی گئی ہے یعنی ماں کا احترام لازم ہے کیونکہ ماں نے نو ٩/ ماہ تک سختی کے ساتھ پیٹ میں تمھاری حفاظت کی ہے پھر دوسال تک دودھ پلانے کی خاطر زحمتیںاٹھائی ہیں، لہٰذا حقیقت میں دیکھا جائے تو ماں باپ فرزندان کے منعم او رمحسن ہیں اور ہر منعم فطری طورشکر گزاری کا مستحق ہے گویا اللہ تعالی یہ فرمارہا ہے کہ جس طرح میں تمھارا منعم ہوں، اسی طرح والدین بھی تمھارے منعم ہیں ، جس طرح اللہ پر اعتقاد رکھنا ، ان سے محبت کرنا فطری امر ہے اسی طرح والدین سے محبت کرنا اور انکا احترام رکھنا بھی فطرت کا تقاضاہے لہٰذا دونوں آیتوں میں وو صینا الانسان کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا ہے ،جوتمام انسانوںکے اس امر میں مساوی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

۱۸

تیسری آیت:

( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ کُرْهًا وَوَضَعَتْهُ کُرْهًا ) (١)

اور ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی نصیحت کی ہے (کیونکہ) اس کی ماں نے بہت رنج اور مشقت کے ساتھ شکم میں اس کو برداشت کیا ہے اور بہت ہی رنج کے ساتھ جنا ہے۔

تفسیر آیت :

ان تینوں آیات کا مدلول ایک چیزہے کہ خدا نے فرمایا ہے .کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے احترام اور اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے دوسرا مطلب والدین کی اطاعت اور احترام کی حد بندی بھی کی گئی ہے یعنی خالق کی اطاعت کے بعد اولین واجب الاطاعت والدین ہیں لیکن والدین کی اطاعت اور احترام یہاں تک واجب ہے کہ وہ خالق کے مخالفت اور شریک ٹھرانے کا حکم نہ دیں اگر والدین

____________________

(١)سورہ احقاف آیت ١٥.

۱۹

سے ایسا حکم صادر ہو جائے تو ماننا ضروری نہیں ہے،تیسر امطلب یہ ہے کہ باپ سے بھی زیادہ ماں کا احترا م لازم ہے۔

لہٰذا ان آیات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ والدین کا احترام رکھنا کسی خاص مذہب اور فرد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لئے تو ریت میں احترام والدین کے بارے میں مستقل ایک فصل ہے یہا ں تک کہ والدین کے ساتھ بدگوئی کرنے یا نا سزا کہنے کی صورت میں پھانسی کا حکم مذ کورہے ۔

ج۔ سنت کی روشنی میں

چنا نچہ گذشتہ بحث سے بخوبی روشن ہوا کہ والدین کے ساتھ احترام اور ان سے نیک برتا ؤں کا حکم ادیان الٰہی میں سے صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم تمام کتب آسمانی کا خلاصہ اور تر جمان کی حیثیت سے حضرت یحيٰ علیہ السلام کی یوں تو صیف کررہا ہے :

( وَکَانَ تَقِیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ ) (١)

اور وہ پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے۔

. نیز حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے :

____________________

(١)سورہ مریم آیت ١٣، ١٤

۲۰