حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)0%

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 140

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 140
مشاہدے: 57836
ڈاؤنلوڈ: 2877

تبصرے:

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 140 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57836 / ڈاؤنلوڈ: 2877
سائز سائز سائز
حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

مؤلف:
اردو

( یَاأُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّی عَبْدُ اﷲِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنتُ 'وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ) (١)

(ترجمہ )اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں بد کارہ تھی (لہٰذا یہ کیاکیا ہے )تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا (کہ کچھ پو چھنا ہے اس سے پوچھ لو ) وہ کہنے لگے کہ ہم پنگوڑے میں موجود بچے سے کیسے گفتگو کریں (اس وقت وہ بچہ ) بولنے لگا کہ بیشک میں خدا کابندہ ہوں مجھ کو اللہ نے کتاب (انجیل ) عطاکی ہے اور مجھ کو نبی قرار دیا ہے ۔اور جہاں کہیں رہوں خدا نے مجھ کو مبارک قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز انجام دینے اور زکواۃ دینے کی نصیحت کی ہے اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور (الحمدللہ) نافرمان اور سرکش قرار نہیں دیا ہے ۔

____________________

( ١)سورہ مریم آیت ٢٨ تا٣٢.

۲۱

تفسیرآیت :

آیہئ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ باپ کے بغیر وجود میں آئے جو عادت اور طبیعت کے خلاف تھا اس لئے حضرت مریم کے خاندان والوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی سرزنش کی یہاں تک کہ حضرت مریم (ع) کو ہارون نامی بدکار شخض کی بہن کہہ کے پکارا لیکن خدا نے اس تہمت کو اپنی قدرت سے یوں دورکیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی ان سے ہم کلام ہو کر انہیں لاجواب کردیا .دوسرا مطلب یہ ہے کہ دونوں آتیوںمیں حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت یحيٰ (ع) کی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا تذکرہ ہوا ہے تا کہ یاد دہانی ہوجائے کہ والدین سے خیر وبھلائی کا حکم تمام آسمانی ادیان میں بیان ہوا ہے اور دین اسلام تمام ادیان الٰہی کا نچوڑہونے کی حیثیت سے اس کا ترجمانی کرتا ہے اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔

جناب مرحوم کلینی نے اپنی گراں بہاکتاب اصول کافی میں مفصل ایک باب اسی عنوان کے ساتھ مخصوص کیا ہے،جس میں معصومین علیہم السلام سے مروی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سے چند روایات بطور نمونہ ذکر کیا جا تا ہے ،ابن محبوب خالدبن نافع سے وہ محمد بن مروان سے روایت کرتا ہے:

۲۲

قال : سمعت ابا عبد اللّٰه علیه السلام یقول ان رجلا اتی النیی صلی اللّٰه علیه واله وسلم فقال یا رسول اللّٰه اوصنی فقال لا تشرک باللّٰه شیأاً وان حرقّت بالنار، وعذبت الا وقلبک مطمئن بالا یمان ووالدیک فاطعمهما وبرّهما حیین کا نا او میتین وان امراک ان تخرج من اهلک ومالک فافعل، فان ذالک من الایمان ۔(١)

(ترجمہ )محمد بن مروان نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن ایک شخض پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے ۔تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کبھی بھی خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھر ائے اگر چہ تجھے آگ میں جلادیا جائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچا دے پھر بھی اطمینان قلبی سے رہو، اپنے والدین کو کھانا کھلاتے رہو اور ان کے ساتھ نیکی کر وںچا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر چہ وہ تجھے اپنے اہل وعیاں اور مال ودولت سے علیحد گی اختیار کرنے کا حکم دیں توپھر بھی اطاعت کریں کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے ۔

تفسیر وتحلیل:

اس حدیث شریف میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٦.

۲۳

حوالے سے دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ ایک یہ کہ شرک بہت بڑا جرم ہے۔ کہ اس جرم کا کبھی بھی مرتکب نہ ہو دوسرا والدین کے ساتھ نیکی کرنا کہ ان دو چیزوں کی رعایت سے سعادت دنیوی واخروی سے بہر مند ہو سکتا ہے ۔

دوسری روایت :

دوسری روایت کو حسین بن محمد نے معلی بن محمد سے انہوں نے جناب وشاسے انھوں نے منصور بن حازم سے اور انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :

''قال قلت ای الا عمال افضل قال الصلواة بوقتها وبِرُّ الوالدین والجهاد فی سبیل اللّٰه عز وجل ''(١)

(ترجمہ ) ابن حازم نے کہا کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اعمال میں سب سے بہترین کو ن سا عمل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:

''نماز کو مقررہ وقت پر پڑھنا اوور والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔''

اس حدیث میں تین ایسے کاموں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو باقی سارے اعمال سے افضل ہیں نماز کو اس کے مقرر ہ وقت پر انجام دینا کہ ہمارے معاشرے

____________________

(١)کافی ج ١ص١٢٧

۲۴

میں نماز تو انجام دیتے ہیں لیکن وقت کی رعایت نہیں کرتے ایسے افراد کو اگر چہ تارک الصلوۃنہیں کہا جاتا مگر نماز کو عذر شرعی کے بغیر اسکے مقررہ وقت پر انجا م نہ دینے کی خاطر ثواب میں کمی ہو جاتی ہے ۔

دوسرا والدین کی خدمت ہے .والدین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جتنے ضعیف ہوں ،بڑھاپے کی وجہ سے ظاہری حلیے میں تبدیلی آگئی ہو اورمزاج کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہوں پھر بھی انکی خدمت خدا کی نظر میں بہتر ین کا موں میں سے ہے۔

تیسرا راہ خدا میں جہاد ہے جواس مادی دور میں انسان کے لئے بہت مشکل کا م ہے لیکن نتیجہ اور عاقبت کے لحاظ سے بہترین اعمال میں سے شمار ہوتاہے۔

تیسری روایت :

علی ابن ابراہیم نے محمد بن عیسی سے وہ یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے درست بن ابی منصور سے اور وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

قال سئل رجل رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ماحق الوالد علی ولده قال لا یسمیه بأ سمه ولا یمشی بین یدیه ولا یجلس قبله ولاسب له ۔(١)

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٧

۲۵

ترجمہ: امام ہفتم (ع)نے فرمایا کہ ایک دن کسی شخص نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ باپ کا حق فرزند پر کیا ہے ؟

تو آپ نے فرمایا کبھی نام سے ان کو نہ پکارے پیش قدم نہ ہو ۔چلتے ہوئے ان کے آگے نہ ہو ان کو پشت کرکے نہ بیٹھیں اور گالی گلوچ نہ دے ۔

چوتھی روایت:

علی ابن ابراہیم نے محمد بن علی سے انہوں نے حکم بن مسکین سے اور انھوں نے محمد بن مروان سے اور وہ امام ششم سے نقل کرتے ہیں :

''قال ابوعبداللّٰه علیه السلام ما یمنع الرجل منکم ببر والدیه حیین او متیین یصلی عنهما ویتصدق عنهما ویحج عنهما ویصوم عنهما فیکون الذی صنع لهما وله مثل ذالک فیزیده اللّٰه عز وجل ببرّه وصلته خیراً کثراً'' (١)

محمد بن مروان نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کون سی چیز تمہارے والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں رکاوٹ ہے؟ چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ نیکی کرنا چاہئے ان کی طرف سے نماز پڑھے ان کے نام سے صدقہ دے اور ان کی طرف سے حج بجالائے اور ان کے حق میں روزہ رکھیں تاکہ خداوندعالم اس

____________________

(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

۲۶

نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی خاطر اسے خیر کثیر سے مالامال فرمائے۔

پانچویں روایت:

محمد بن یحيٰ نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے معمر بن خلاد سے نقل کیا ہے:

''قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ادعو لوالدی اذا کانا لا یعرفان الحق قال ادع لهما وتصدق عنهما وان کانا حیین لایعرفان الحق فدارهما فان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم قال ان اللّٰه بعثنی بالرحمة لا بالعقوق''

معمر بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا میں اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرسکتا ہوں جب کہ وہ دونوں حق سے بے خبر ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی طرف سے صدقہ دیں اگر وہ زندہ ہیں اور حق سے بے خبر ہیں تو ان کے ساتھ مداراکریں، کیونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے نہ جدائی ڈالنے اور آپس میں دوری کے لئے۔(۱)

____________________

(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

۲۷

چھٹی روایت:

علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے انھوں نے ابن ابی عمَیر سے انہوں نے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:

''قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فقال یا رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من ابرُّ قال امّک قال ثم من، قال امّک، قال ثم من؟ قال امّک قال ثم من؟ قال اباک'' (١)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر پوچھا پھر کس کے ساتھ فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا:اس کے بعدفرمایا: اپنی ماں چوتھی دفعہ پوچھا کس کے ساتھ فرمایااپنے باپ کے ساتھ نیکی کر۔

اس روایت میں سائل نے تین دفعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا:آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تینوں دفعہ ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے ،انشاء اللہ اس سلسلے میںماں کی عظمت کے عنوان سے مفصل بحث ہو گی ۔

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٨.

۲۸

ساتویں روایت:

امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے:

'' قال جاء رجل وسأل النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن برالوالدین فقال اَبرّر امک ابررامکّ ابرر اباک ابرر اباک وبداء بالامّ قبل الأب'' (١)

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (ع) نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر(پھر فرمایا ) اپنے باپ کے ساتھ نیکی کراپنے باپ کے ساتھ نیکی کر اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باپ کی خدمت سے پہلے ماں کی خدمت کو ذکر فرمایا اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت باپ سے زیادہ ہے۔

د ۔ سیرت انبیاء کی روشنی میں

اگر کو ئی شخص انبیا ء علیہم السلام کی سیرت کا مطا لعہ کرے تو بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی خدمت انبیاء ،اورآئمہ معصومین کی سیرت ہے لہٰذا ہر نبی نے اپنے دور نبوّت میں اپنی امت سے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی ہے چنانچہ حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے سولہ نیک خصلتوں کی تاکید کی ہے ان

____________________

(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠

۲۹

میں سے چوتھی خصلت والدین کی خدمت سے متعلق ہے نیز حضرت نوح علیہ السلام (جو دنیا سے گذرے ہوئے انبیا ء میں سے سب زیادہ دنیا میں زندگی کرنے والی ہستی ہے جیسا کہ روایت ہے :

''روی ان جبرئیل علیه السلام قال لنوح علیه السلام یا اطول الا نبیاء عمر ا کیف وجدت الدنیا قال کدارٍ لها بابان دخلت من احد هما وخرجت من الاخر'' (١)

یعنی روایت کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا اے سارے پیغمبر وں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے بنی دنیا کو کیسے پایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا دنیا کو ایک ایسے گھر کی مانند پایا کہ جس کے دو در وازے ہو کہ ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے خارج ہوا ) کی سیرت بھی برالوالدین ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی والدین کے احتر ام اور ان کی خدمت گزاری کے لحاظ سے ہمارے لئے مشعل ہدایت ہے چنانچہ ماں باپ کے حق میں آپ کی دعا ء کو قرآن کریم میں یوں حکایت کی ہے:

( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدْ الظَّالِمِینَ إِلاَّ تَبَارًا ) (٢)

____________________

(١)ارزش پدر ومادر.

(٢)سورہ نوح آیت٢٨ )

۳۰

خدا یا مجھ کواورمیرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں کی صرف تباہی زیادہ کر ۔

اسی طرح حضرت یحیی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں یوں حکایت کرتا ہے (وکان تقیا وبرا بوالدیہ ) یعنی آنحضرت پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے نیز حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت'' وبرا بوالدتی'' تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصر کی سلطنت سنبھالی تو حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے ملنے کے لئے وارد مصرہوئے حضرت یوسف علیہ السلام استقبال کے موقع پر مرکب پر سوار رہے اس وقت جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے او رکہا اے یوسف ہاتھ کھولو جب یوسف نے ہاتھ کھولا تو ان کے ہاتھ سے ایک نورآسمان کی طرف گیا تو حضرت یوسف (ع) نے سوال کیا اے جبرئیل یہ نور کیا ہے ؟ جو آسمان کی طرف جارہا ہے تو جبرئیل نے فرمایا: یہ نور نبوت تھا جو تمہارے باپ کے استقبال کے موقع پر مرکب سے نہ اترنے کی وجہ سے آپ سے جدا ہوگیا ہے اب تمہارے صلب سے کوئی نبی نہیں ہوگا۔(١)

____________________

(١) ارزش پدر ومادر.

۳۱

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سیرت بھی یہی تھی چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل (ع)اپنے والدگرامی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قدمگاہ کی جب بھی زیارت کرتے توفر ط محبت میں گریہ فرماتے اور بوسہ دیتے تھے اسی طرح حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے اگر چہ آپ (ع)کے والد گرامی آپ کی تولد سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور والدہ گرامی بھی کم سنی میں آپ سے جدا ہو گئی لیکن والدین کے احترام کا اندازہ یہیں سے لگاسکتے ہیں کہ آپ اپنی خواہر رضاعی کے احترام میںکھڑے ہوجاتے تھے اور ہمیشہ اپنی مادر رضاعی کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کی سعی فرماتے اور ہمیشہ والدین کے احترام اور ان کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید فرماتے تھے۔

۳۲

دوسری فصل

حقوق والدین

الف: مالی تعاون :

والدین کے حقوق میں سے اہم ترین حق ان کی مالی امداد اور تعاون ہے لہٰذا شریعت اسلام میں واجب النفقہ افراد میں سے سب سے پہلے والدین کو ذکر کیا ہے اگرچہ یہ بات مسلم ہے کہ والدین کا احترام ہر جہات سے اولاد پر لازم ہے لیکن کچھ حقوق ہیں جن کے بارے میں روایات اور آیات میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ وَالْیَتَامیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل ) (١)

ترجمہ: آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ راہ خدا میں کیا خرچ کرے تو

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت ٢١٥.

۳۳

( ان کے جواب میں ) کہد و کہ تم اپنی نیک کمائی میں سے جو کچھ خرچ کریں تو وہ (تمھارے ) ماں باپ رشتہ دارں یتیموں حاجت مندوں اور مسا فروں کا حق ہے۔

تشریح :

آیت شریفہ میں دستور دیا ہے کہ بہترین مصرف والدین یتیم اورمسافر ہےں اگر کوئی شخص ماں باپ کی مالی مجبوری کے وقت ان سے تعاون کریں تو گویا اس نے راہ خدا میں تعاون اور خرچ کیا ہے کیو نکہ جس طرح بیوی بچوں کے اخراجات واجب ہے اسی طرح والدین کے اخراجات اولاد پر واجب ہے نیز دو سری آیت میں مالی تعاون کے دستور کو یوں بیان فرمایا ہے :

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ ) (١)

تم کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی پر موت آکھڑی ہو اور اگر وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کیلئے دینے کی

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت١٨٠.

۳۴

وصیت کرے (کیونکہ ) جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے ۔

تفسیر:

اس آیت میںخدا نے ماں باپ اور رشتہ داروں کی مدد اور تعاون کرنے کا حکم دیا ہے لیکن پہلی آیت اور اس میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں ہر حالت میں والدین کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا حکم دیاہے لیکن اس آیت میں فرمایا کہ موت کے وقت بھی مالی تعاون سے دریغ نہ کریں لہٰذا دونوں آیات کو سامنے رکھیں تو یہ نتیجہ نکاتا ہے کہ اولاد پر والدین کی ذمہ داری بہت ہی سنگین ہے کیونکہ مرض الموت کے موقع پر بھی ان کو فراموش نہ کر نے کی تاکید کی گئی ہے ،اور تر کہ میں سے کچھ ان کو دینے کی وصیت کرنے کا حکم ہوا ہے نیزمتعدد روایات میں والدین کے مالی تعاون کرنے کا حکم یوں ذکر ہوا ہے :

١۔وان لاتکلفهما ان یسألاک شیأا مما یحتا جان الیه ۔(١)

یعنی والدین کے حقوق میںسے ایک یہ ہے کہ کسی چیز کی ضرورت کے موقع پر ان کو ما نگنے کی تکلیف تک نہ دینا ۔

٢۔ اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :

''ووالدیک فاطعمهما وبرهما ''(٢)

____________________

(١)کافی،ج٢ص١٢٦.

(٢)اصول کافی جلد ٢

۳۵

جب پیغمبر سے کسی نے کچھ نصیحت کرنے کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا اپنے والدین کو کھانا کھلائیں اور ان سے نیکی کریں یعنی ان کے لباس اور اشیاء خورد ونوش کو اپنے احتیاجات پر مقدم کرنا اپنے کھانے کی مانند یا اس سے بہتر کھانا کھلانا ان کے سفر کے مخارج چاہے واجب ہویا مستحب فراہم کرنا اور ان کیلئے گھر وغیرہ کا بندوبست کرنا ،ان کی طرف سے فوت شدہ حج ونماز اور روزہ وغیرہ کو انجام دینا یا ان کاخرچہ دینا نیکی کے کا مل ترین مصادیق میں سے ہیں ۔

لیکن ہمارے معاشرے پر غیر اسلامی تھذیب وتمدن حاکم ہونے کے نتیجہ میں اولاد اپنی ذمہ دار یوں کو انجام دینے میں کو تا ہی کرتے ہیں جب کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن سے عاری ایسے ہے کہ کر وڑوں درہم ودینار کے مالک ہونے کے باوجود والدین کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کی سعادت سے محروم ہیں کیو نکہ والدین اور اولاد کے مابین ہونے والا فطری رابطہ غیراسلامی تھذیب تمدن کا شکارہو چکا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے نزدیک والدین اور دوسروں کے درمیان کو ئی تفاوت نظر نہیں آتا حالانکہ والدین واجب الا طاعہ بھی ہیں اور واجب النفقہ بھی لہٰذا عبدالرحمن بن الحجاج امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:''قال خمسة لا زمون له لا یعطون فی الزکاة شئیاالاب و الام والولدوالمملوک والمرأة و ذالک انّهم عیاله لازمون له'' (١)

____________________

( وسائل ج ١٥ ،ص٢٢٧)

۳۶

امام علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ میں سے کوئی چیز پانچ قسم کے افراد کو نہیں دی جاسکتی ہے ماں باپ فرزند غلام اور بیوی کیو نکہ یہ سب اس کے واجب النفقہ عیال میں سے ہیں نیز دوسری روایت جمیل بن دراج سے منقول ہے :

''لا یجبر الرجل الاعلی نفقة الابوین والولد ''(١)

امام نے فرمایا سوائے ماں باپ اور بچے کے کسی آدمی کو خرچہ دینے پر جبری نہیں کیا جاسکتا ہے اسی طرح تیسری روایت جناب محمد بن مسلم امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں :

''قال قلت له من یلزم الرجل من قرابته ممن ینفق علیه قال الوالدان والولد والزوجه ''(٢)

محمد بن مسلم نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا رشتہ داروں میں سے کن کو خرچہ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ماں باپ، بچے اور بیوں کیلئے خرچہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

مذکورہ روایات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین ہمارے بچے اور بیوی کی مانند واجب النفقہ ہیں اسی لئے کتب فقہی میں واجب النفقہ افراد

____________________

(١)وسائل ج١٥.

(٢)وسائل ١٥.

۳۷

میں سرفہرست والدین کا نام ہے پس والدین کے سا تھ مالی تعاون ہر صورت میں انسان پر واجب ہے جس سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں کو تا ہی کی صورت میں مقروض اور قیامت کے دن اس کا عقاب یقینا بہت سنگین ہوگا

ب۔ ماں باپ کے قرضے کو ادا کرنا

والدین کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے قرضوں کو ادا کرے اگرچہ اسلام میں ہر مقروض کا قرض ادا کرنے کی تا کید ہوئی ہے اور اس عمل کیلئے بہتر ین پاداش اور جزا معین کیا ہے لیکن واجب نہیں ہے مگر والدین کے ذمہ قرض کو ادا کر نا لازم قرار دیا ہے پس اگر کو ئی دنیا اور آخرت کی خوش بختی چاہتا ہے تو والدین کی اقتصادی مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون کرے شاید ان کا کچھ حق بھی ادا ہو اس طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:

'' قلت لابی جعفر علیه السلام هل یجزی الولد والده فقال لیس له جزء الا فی خصلتین یکون الوالد مملوکا فیشتر یه ابنه فیعتقه او یکون علیه دین فیقضیه عنه'' (١)

(ترجمہ )سدیر نے کہا کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا ۔کیا فرزند باپ کے حق کو ادا کرسکتا ہے؟امام (ع)نے فرمایا دو صورتوں میں فرزند باپ کے

____________________

(١)کا فی ٢ ص ١٤٣.

۳۸

حق کو ادا کر سکتا ہے۔

١۔اگر کسی کا باپ کسی کا غلام ہو اور فرزند اس کو خرید کر آزاد کرے ۔

٢۔ اگر کوئی فرزند باپ کے ذمہ قرضے کو ادا کرے تو ان کا حق ادا ہو سکتا ہے۔

اسی طرح محمد بن مسلم سے وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

'' قال ان العبد لیکون بارا بوالدیه فی حیا تهما ثم یموتان فلا یقضی عنهما دیو نهماولا یستفغر لهما فیکتبه اللّٰه عاقا وانه لیکون عاقا لهما فی حیا تهما غیر بار بهما فاذا ماتا فرض دینهما واستغفر لهما فیکتبه اللّٰه عزوجل بار'' (١)

(ترجمہ ) امام علیہ السلام نے فرمایا بیشک انسان والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہے لیکن جب وہ دونوں دنیا سے چل بسے تو ان کے ذمے موجود قرضوں کو ادا نہیں کرتا اور ان کے حق میں طلب مغفرت نہیں کرتا تو ایسا شخص اللہ کی نظر میں عاق والدین محسوب ہو گا لیکن اگر والدین دنیا سے چل بسے ہوں اور انکے حق میں دعا کرے اور ان کے قرضوں کو ادا کرتا ہے تو اس کو خدا، والدین کے

____________________

(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠١٣٠

۳۹

ساتھ نیکی کرنے والوں میں سے شمار کرتا ہے اگر چہ ان کی زندگی میں ان سے نیکی نہ کی ہو اور عاق ہوچکا ہو۔

تحلیل وتفسیر :

ان دونوں رواتیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ما ںباپ کے قرضوں کو اپنا قرضہ سمجھ کر ادا کرنا لازم ہے کیونکہ اس کا تعلق حق الناس سے ہے نیز حق اللہ کو بھی ادا کرنا چائیے۔

اگر چہ والدین کی فوت شدہ عبادات کو ادا کرنا اولاد پر واجب ہے یا سنت اس مسئلے میں علماء کے مابین دو نظریے پائے جاتے ہیں:

١۔ماں باپ دونوں کی فوت شدہ عبادتوں کا انجام دینا اولاد پر واجب ہے یہ نظر یہ سید مرتضی علم الہدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو چوتھی صدی کے نامور شیعہ علما میں سے تھے۔

٢۔ باپ کی قضا ء شدہ عبادتوں کا انجام دینا واجب ہے لیکن ماں کی قضا شدہ عبادتوں کا ادا کرنا مستحب ہے۔

اکثر علما شیعہ کے درمیان مشہور یہی ہے۔

لہٰذا پہلے نظر یے کی بناء پر ماں باپ کے ذمہ موجود ہر قسم کے حقوق اولاد کے ذمہ ہے، جن کی ادا ئیگی شریعت میں لازم قراردی گئی ہے ۔

۴۰