حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)0%

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 140

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

مؤلف: حجت الاسلام شیخ باقر مقدسی
زمرہ جات:

صفحے: 140
مشاہدے: 57815
ڈاؤنلوڈ: 2872

تبصرے:

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 140 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57815 / ڈاؤنلوڈ: 2872
سائز سائز سائز
حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

حقوق والدین کا اسلامی تصور( قرآن وحدیث کی روشنی میں)

مؤلف:
اردو

ج۔ والدین کے حق میں دعا

مقدمہ کے طور پر بہتر ہے کہ دعا کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ ہو کیونکہ روایات اور آیات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کے حق میں دعا کرنا شریعت اسلام میں مستحب ہے لہٰذا قرآن کی متعدد آیا ت میں صریحا دعا کرنے کا حکم ہے اور خدا نے ساتھ ہی دعاوں کی استجابت کا وعدہ فرمایا ہے چنانچہ فرمایا :

( وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی إِذَا دَعَانِی فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُونَ. ) (١)

(ترجمہ)اور اگر میرے بند ے میرے بارے میں تجھ سے پوچھے تو (کہدو) کہ میں ان کے پاس ہی ہوں او راگر کوئی مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی (دعاسن لیتا ہوں اور جو مناسب ہوں تو) قبول کرتا ہوں ، پس انھیں چاہئے کہ میرا کہنا ہی مانیں او رمجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آجائے۔

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت ١٨٦.

۴۱

تفسیر آیت:

قرآن مجید میں بہت اصرار کے ساتھ دعا کرنے کا حکم ہوا ہے انھیں میں سے ایک یہ آیہ شریفہ ہے اگر انسان غورکرے تو دعا کی حقیقت کا پس منظر سامنے آجاتا ہے کہ انسان فطری طور پر خدا کے محتاج ہونے کا اعتراف کرتا ہے لیکن بسا اوقات انسان جہالت اور خودپسندی کے نتیجہ میں خیال کرتا ہے کہ خالق ہم سے بہت دور ہے کیونکہ ہم دعا کرتے ہیں مگر مستجاب نہیں ہوتی اس تصور کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بندوں کے قریب ہی ہوںبشرطیکہ میرے کہنے پر چلیں، لہٰذا دوسری آیت میں فرمایا:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْکُمْ وَلَکِنْ لاَتُبْصِرُونَ ) (١)

اور ہم اس کے ساتھ تمہاری نسبت زیادہ نزدیک ہے لیکن تمھیں دکھائی نہیں دیتا۔

ایک اور آیہئ شریفہ میں فرمایا:

( نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْکُمْ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) (۲)

ہم تم سے تمہارے (بدن کے) رگوں سے زیادہ قریب ہیں۔

____________________

(١)سورہ واقعہ آیت ٨٥.

(٢) سورہ ق آیت ١٦.

۴۲

لہٰذا دوری اور بُعد کا تصور حقیقت میں ناانصافی ہونے کے علاوہ بلادلیل بھی ہے، بلکہ دعا مستجاب ہونے کے لئے کچھ شرائط درکار ہیں لہٰذا خدا نے فرمایا:

( فَادْعُوا اﷲَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ ) (١)

(ترجمہ) پس تم لوگ خدا سے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کہ وہی عبادت کا مستحق ہے اگرچہ کفار بُرا مانےں۔

اللہ تبارک تعالیٰ نے اس آیہئ شریفہ میں دعا مستجاب ہونے کے لئے اخلاص کو شرط قرار دیا ہے ، اور اس شرط کے ساتھ دعا کرنے کا حکم ہے ، اسی طرح ایک اور آیت میں خدا نے فرمایا:

( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ) (٢)

(ترجمہ)اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا بے شک وہ لوگ جو ہماری

____________________

(١)سورہ غافر آیت ١٤.

(٢)سورہ غافر /مومن آیت ٦٠.

۴۳

عبادت کرنے سے گریز کرتے ہیں وہ عنقریب ہی ذلیل وخوار ہوکر جہنم میںداخل ہوں گے۔

اس آیہ شریفہ میں اللہ نے دعا کے مستجاب ہونے کے لئے یہ شرط قرار دی ہے کہ تکبر نہ کرے، لہٰذا فرمایا کہ اکڑنے والے افراد کی دعائیں سُنی نہیں جائیں گی کیونکہ وہ قابل سماعت اور استجابت نہیں ہیں چونکہ تکبرّ شیطانی خصلت ہے۔

اسی طرح ایک دوسری آیت میں اس طرح دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

( وَادْعُوْهُ خَوْفاً وَطمعاً اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (١)

ترجمہ: اور خدا سے دعا مانگو عذاب کے خوف اور رحمت کی لالچ میں بے شک خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے یقینا قریب ہے۔

اس آیہ شریفہ میں خدا نے تذکرّ دیا ہے کہ عام عادی حالت میں دعا نہیں سنی جاتی بلکہ خوف اور دل شکستگی اور رحمت الٰہی شامل حال ہونے کی امید اور لالچ کے ساتھ دعا کرے تو مستجاب ہے۔

پس ان تمام آیات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرنے کی تاکید اور

____________________

(١)سورہ اعراف آیت ٥٦.

۴۴

قبول کرنے کا وعدہ خدا نے ہی دیا ہے ساتھ ہی قبول ہونے کے شرائط کو بھی بیان فرمایا تاکہ انسان ان شرائط کو حاصل کرکے اپنی دعاؤں کو اس لائق بنادے کہ بارگاہ احدیت شرف قبولیت بخشے یہ سارے انسان کو دعا کرنے کا حکم ہے لیکن قرآن مجید میںکچھ افراد کے حق میں مخصوص دعا کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ ان افراد میں سے والدین متعدد آیات میں سرفہرست نظر آتے ہیں، چنانچہ اللہ نے حضرت ابراہیم (ع) کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا:

( رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ ) (١)

ہمارے پالنے والے جس دن (اعمال کا) حساب ہونے لگے (تو اس وقت) مجھ کو میرے ماں باپ کو اور سارے ایمان والوں کو بخش دے۔

تفسیر آیت:

اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین ہستیوں کے حق میں دعا فرمائی:

____________________

(١)سورہ ابراہیم آیت ٤١.

۴۵

١۔ روز قیامت حساب وکتاب کے وقت مجھے معاف کرے۔

٢۔میرے والدین کو بخش دے۔

٣۔او رتمام ایمانداروں کے گناہوں کو معاف فرمائے۔

یہ ساری انبیاء کی سیرت تھی۔

لہٰذادنیا میں انسان جس منصب اور مقام پر فا ئز ہو دعا سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔

حضرت ابراہیم (ع)جیسا پیغمبر جو مقام نبوّت مقام رسالت پھر مقام خلّت پھر مقام امامت پر فائز ہونے کے باوجود روز قیامت کے مشکلات سے اپنے حق میں اور والدین کے حق میں طلب مغفرت کرنااس بات کی دلیل ہے کہ روز قیامت بہت ہی سخت اور مشکل دن ہے اور ہم سب دعا سے بے نیاز نہیںہیں لہٰذا والدین کے حق میں دعا کرنا لازم ہے نیز ایک دوسری آیت شریفہ میں حضرت نوح کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ کہتے تھے:

( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ) (١)

پالنے والے روز قیامت کے حساب وکتاب کی سختی اور مشکلات

____________________

(١)سورہ نوح آیت ٢٨.

۴۶

سے مجھے اور میرے والدین اور ہر وہ شخص جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ داخل ہو ان کو معاف کر ۔

اس جملے سے بھی بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ماں باپ کے حق میں دعا کرنا ہماری ذمہ داریوں میں سے اہم ترین ذمہ داری ہے لہٰذا حضرت امام سجاد علیہ السلام سے صحیفہ سجادیہ میں ایک مکمل دعا(١) والدین کے حق میں نقل کی گئی ہے اور انہی حضرت(ع) کے نورانی جملات میں سے ایک جملہ یہ ہے:

''واخصص اللهم والدی بالکرامه لدیک والصلوةمنک یا ارحم الراحمین ''(١)

اے میرے معبود میرے ماں باپ کو وہ کرامت اور خیرو بھلائی پنچادے جو تیری درگاہ میں ہے ائے مہربان بخش نے والا۔ دوسرا جملہ یو ں ذکر فرمایا:

''اللهم لا تنسنی ذکر هما فی ادبار صلواتی وفی أوان من آناء اللیل وفی کل ساعة من ساعات نهاری ''

اے میرے معبود ! میری نماز وں کے وقت اور شب وروز کے کسی لمحے میں بھی والدین کی یا دسے مجھے غافل قرارنہ دینا ۔

''اللهم واغفر لی بدعایی لهما واغفرلهما ببرّ هما بی مغفرة

____________________

(١)صحیفہ سجادیہ دعا نمبر ٢٤.

۴۷

حتما ارض عنهما بشفاعتی لهما رضی عزما بلغهما بالکر امة مواطن السلامته''

اے میرے معبود محمد اور ان کے آل پر درود بیجھے اور ماں باپ کے حق میں میری دعا کے ذریعے مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو ان کے میرے ساتھ نیکی کے بدلے معاف فرما اور تو ان سے میری شفاعت کے واسطے مکمل راضی ہو اور اپنی بزر گی سے انہیں مقام امن میں جگہ عطا فرما :

''اللهم وان سبقت مغفرتک لهما فشفعهما فِيَّ وان سبقت مغفرتک لی فشفعنی فیهما حتی نجمع برئافتک فی دار کرامتک ومحل مغفرتک ورحمتک انک ذوالفضل العظیم والمن القدیم وانت ارحم الراحمین ''

اے میرے معبود اگرتو میرے ماں باپ کو مجھ سے پہلے معاف کرے تو ان دونوں کو میرا شفیع قراردے اور اگر میری مغفرت ان سے پہلے ہو تو مجھے ان کا شفیع قراردے یہاں تک کہ تیری رحمت کے وسیلے سے ہمیں کرامت وبخشش اور رحمت کے گھر میں جمع ہونے کی تو فیق دے بے شک تو ہی بڑافضل والا دائمی نعمت اور احسان کا مالک اور تو ہی مہربانوں میں سے مہربان ترہے ۔

''اللهم اخفض لهما صوتی واطب لهما کلامی والن لهما عرکتی واعطف علیهما قلبی وصیرنی بهما رفیقاً وعلیهما شفیقاً ۔''

اے میرے معبود ان کے لئے میری آواز کو متکبرانہ آواز قرار نہ دے میری گفتگو ان کے ساتھ باعث خوشی قراردے اور میری طبیعت اور اخلاق ان کے ساتھ نیک قرار دے اور میرا دل والدین کے ساتھ نرم قراردے اور مجھے ان کے ساتھ ہم طبیعت اور ہم مزاج بنا دے اور مجھے ان پر مہربانی کرنے اور شفقت کی تو فیق دے ۔

''اللهم اشکر لهما تربیتی واثبهما علی تکرمتی واحفظ لهما ما حفظاه منّی فی صغری''

میرے معبود میری تربیت کے عوض میں ان کو جزای خیر عطا کر اور میرے ساتھ کی ہوی نیکی پر ان کو ثواب دے اور میرے بچپن میں انہوں نے جس طرح میری حفاظت کی ہے اسی طرح انکی حفاظت فرما پس ان جملات اور آیات سے واضح ہو جاتاہے کہ والدین کے حق میں دعا کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے اس طرح معصومین (ع) کے فرامین سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے حق میں دعا کرنے کی بہت زیاد ہ تاکید کئی گئی ہے چنانچہ معمرّ بن خلادسے منقول ہے :

۴۸

''قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ادعو لوالدی اذا کان لا یعرفان الحق قال ادع لهما ۔''

معمرّ بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا میں اپنے والدین کے حق میں دعا کر سکتا ہوں جب کہ وہ حق کو نہیں پہچانتے ؟ اما م نے فرمایا تو ان کے حق میں دعا کر ے

امام سجاد علیہ السلام کے جملات میں سے ایک یہ ہے کہ:

''واستکثر بر همابی وان قل واستقل بری بهما وان کَثُرَ''

(پالنے والے ) ماں باپ نے جو نیکی میرے ساتھ کی ہیں اس کو اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہو زیادہ سمجھتا ہوں اور میری نیکی جو والدین کے ساتھ ہوئی ہے جتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو اس کو کم قرار دےتا ہوں ۔

قارئین محترم ! امام سجادعلیہ السلام کے جملوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ والدین کے حق میں دعا کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہو۔

د۔ماں باپ کے سامنے انکساری

ماں باپ کے حقوق میں سے جس کے اسلام میں زیادہ تاکید کی گئی ہے وہ ان کے سامنے انکساری ا ور تو اضع ہے کہ اس کی اھمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اس مسئلہ کے ثبوت و اثبات پرعقلی اورنقلی دلیل دونوں موجود ہیں۔

پہلی آیت:

اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا :

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ ) (١)

____________________

(١)سورہ اسرء آیت٢٤.

۴۹

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کا پہلو جھکا ئے رکھو۔''

اس جملے کی تفسیر میں معصوم (ع) سے ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ تم ماں باپ کی طرف تیز نظر سے آنکھ پھیر کرنہ دیکھو۔اور ان کی آواز پر اپنی آواز ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ بلند نہ کرواور ان کے آگے نہ چلو .ان کا نام لے کر نہ پکارو ان کے آگے نہ بیٹھو، اور ایسا کام بھی انجام نہ دو جس کی وجہ سے ان کو برا بھلا کہا جاتا ہے، لہٰذا اگر وہ مؤمن ہیں تو مغفرت مانگیں لیکن اگر مومن نہیں ہیں تو ان کی ہدایت اور ایمان کے بارے میں دعا کرے ۔(١)

دوسری آیت:

قرآن کریم میں تو اضع اور انکساری کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا ہے :

( وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) (٢)

اور مومنین میں سے جو تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ یعنی تو اضع کرو۔

اس آیت شریفہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تواضع سے پیش آنے کا حکم ہوا ہے جب

____________________

(١)تفسیر حافظ فرمان علی ص ٣٩٢.

(٢)شعراء آیت٢١٥.

۵۰

کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (اولی ٰ باالمؤ منین من انفسهم ) تھے لہٰذا تواضع کرنے کا حکم تعلیمات اسلامی تاکید کے ساتھ بیان کرتی ہے حضرت لقمان حکم نے اپنے فرزندسے کہا:

''تو اضع للناس تکن اعقل الناس'' (١)

لوگوں کے ساتھ خاکساری اور فروتنی کے ساتھ پیش آنا عاقل ترین افراد میں سے محسوب ہو نگے ۔

امام المسلمین حضرت علی علیہ السلام نے تو اضع اور فروتنی کے نتائج کو یوں ذکر فرمایا ہے :

''التواضع سلم الشرف والتکبر راس التلف ''(٢)

لوگوں کے ساتھ تواضع کرنا ترقی اور شرافت انسانی کی علامت ہے تکبر اور غرور نابودی اور ضائع ہونے کا سبب ہے ایک اور حدیث میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''العاقل یضع نفسه فیر فع الجاهل یر فع نفسه فیو ضع ''(٣)

.یعنی عقلمند انسان فروتنی اختیار کرتا ہے کہ اس کا نتیجہ اس کی بزرگی اور

____________________

( ١)بحارج ٧٥ص ٢٩٩.

(٢) اخلاق زن وشوہر

(٣)اخلاق زن وشوہر.

۵۱

بلندمقام ہے جب کہ جاہل انسان اپنی بزرگی دکھاتا ہے کہ اس کا نتیجہ ذلت خواری اور نابودی ہے ۔

تحلیل وتفسیر :

ان آیات اور روایات میںدقت کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تواضع اور انکساری کے ساتھ والدین اور دیگر لوگوں کے ہمراہ زندگی گزارنا عقل مندی ترقی اور انسانی شخصیت کی علامت ہے لہٰذا اگر کوئی شخص شرافت اور مقام کا خواہاں ہے تو ہمیشہ تکبر اور غرور کو خاکساری اور فروتنی میں تبدیل کرے۔

مخصوصا والدین کے ساتھ انکساری اور فروتنی کے ساتھ پیش آنا مکتب اسلام کی خصوصیات میں سے ایک ہے لہٰذا والدین کے سامنے اولاد کا تکبر اور غرور کے ساتھ پیش آنا اور اپنی بزرگی دکھانا شرعا ممنوع ہے چاہے فرزند کسی بھی پوسٹ ومقام کا مالک ہو،چونکہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسکی بزرگی اسکا پوسٹ اور مقام والدین کی زحمت اورتربیت کی مرہون منت ہے تب ہی تو شیخ انصاری رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت تا ریخ تشیع میں عیاں ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ان کی عمر رسیدہ ماں وفات پائی تو آپ شدت کے ساتھ زانو زمین پر رکھ کر ان کے جنازے پر رونے لگے آپ کے شاگردوں میں سے کسی ایک نے جب یہ منظر دیکھا تو شیخ انصاری کو تسلی دینے کی خاطر قریب گئے اور کہا :

آپ کی علمی منزلت اور مقام کے ساتھ ای طرح رونا شائستہ نہیں ہے جب یہ جملہ شیخ انصاری نے سنا تو فرمایا:

۵۲

ایسی باتیں کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اب تک ماں کی عظمت اور شرافت کو درک نہیں کیا ہے میں آج جس مقام اور منزلت پر پہنچاہوں،وہ ماں کی تربیت اور زحمت کا ہی نتیجہ ہے کہ شیخ انصاری علم فقہ اورعلم اصول کے باپ ہو نے کے با وجود ماں کی عظمت اور ان کے حقوق کو اس طرح عملی جامہ پہنا نا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے حقوق کی ادا ئیگی بہت سنگین ہے ،شہید مطہری کے فرزند ارجمند سے نقل کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ شہید مطہری کبھی اپنے والدین کے حق ادا کرنے میں کو تا ہی نہیں کر تے تھے ہمارے ایک بزرگ استادنے اپنے لکچر کے موقع پر بیان کیا ایک دن ایرانی گورمنٹ کاایک وزیر اپنے والد کو ساتھ لے کر امام خمینی ؒ کی خدمت میں انکے دیدار کو پہنچے امام خمینی ؒ وزیر کو جانتے تھے لیکن ان کے باپ کو نہیں جانتے تھے وزیر اپنے والد سے آگے بیٹھا ہوا تھا امام خمینی ؒ نے پو چھا کہ یہ عمر رسیدہ آدمی کون ہے وزیر نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، امام خمینیؒ نے فوراً فرمایا: '' اگر تیرا باپ ہے تو کیوں ان کے آگے بیٹھے ہو کیا تجھے ادب اور تواضع نہیں ہے۔''

پس تمام علماء اور مجتہدین کی سیرت کا مطا لعہ کرنے سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ ماں باپ کے حقوق کا ادا ہونا بہت مشکل ہے ان کے حق ادا نہ کرنے کا نیتجہ انشاء اللہ عنقریب تفصیلی طور پر بیان کرین گے۔

ذ ۔ والدین کی طرف سے صدقہ دینا

والدین کے حقوق میں سے ایک ان کے نام پر صدقہ دینا ہے چاہے والدین زندہ ہوں یا مردہ ۔ دین اسلام میں صدقہ اور خیرات کے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں ، چنانچہ روایت ہے :

''الصدقة تردالبلاء ''

یعنی صدقہ دینے سے بلا و مصیبتیں دور ہو جاتی ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ صدقہ دینے سے انسان کی زندگی اور عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہاں ہمارا ہدف صدقہ کی اہمیت اور عظمت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ ماں باپ کے نام پر صدقہ دینا ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک ہے تا کہ والدین صدقہ کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔

۵۳

اگر ماں باپ فوت ہو چکے ہوں توزیادہ تاکید کی گئی ہے چنانچہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد عالم برزخ میں اولاد صالح کے ذریعہ اور اپنی زندگی میں انجام دیے ہوئے کا ر خیر کے وسیلے سے مستفیض ہو جاتا ہے، اور اسلام میں ماں باپ کو کسی وقت بھی فراموش نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے خصوصا جمعۃ المبارک کے دن کہ اس کو روایت میںسید الایام کہا گیا ہے اس دن ہمارے سارے اعمال امام زمانہ (ع) کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور سارے اموات اپنے خاندان کے پاس برزخ کی مشکلات لے کر صدقات لینے کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ان ارواح المؤمنین یا تون فی کل لیلة الجمعة فیقومون ببیو تهم ینادی کل واحد منهم بصوت حزین یا اهلی واولادی واقربائی اعطوا علینا با لصدقة واذکرونا وارحموا علینا ''(١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ مو منین کے ارواح ہر شب جمعہ اپنے گھروں میں لوٹ کر آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک حزین آواز کے ساتھ یوں پکارا کرتے ہیں اے میرے گھروالے اولاد اور میر ے احباب ہمارے نام پر کچھ صدقہ دو اور ہمیں یاد کر اور ہماری تنہائی اور بے کسی پر رحم کر۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شب جمعہ اموات کے ارواح اپنے خاندان کے پا س آکر ان کو صد قہ دینے کی رغبت دلاتے ہیں لہٰذا ان کے نام پر صدقہ دینا اسلام میں مستحب قرار دیا ہے چونکہ مرنے کے بعد انسان کی پوری توجہ اور نگاہ ان کی اولاد اور خاندان کی نیکیوں پر مر کوز ہوتی ہے اگر ان کے نا م پر صد قہ دے یا دعا کرے، یا ان کے نا م پر قرآن خوانی کرے یا کوئی اور کار خیر انجام دے تو ارواح ہمارے حق میں دعا کرتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں لیکن اگر ان کے

____________________

(١)حقوق والدین ، ص ٧٤.

۵۴

حقوق ادا نہ کرے تو ہماری نابودی ھلاکت اور فقرو فاقہ میں مبتلا ہونے کی دعا کرتے ہیں کیونکہ جب ہماری طرف سے ان کے حقوق ادا کرنے میں کو تاہی یا سستی ہو تو ان کی طرف سے ہما ری نا کامی اور نابودی کی دعا کرنااس کا لازمہ ہے۔

لہٰذا مرنے کے بعد خیال نہ کرے کہ اموات ہمارے صدقہ دعا اور دیگر کار خیر کی محتا ج نہیں ہیں کیونکہ عالم برزخ میں اگر چہ حیات مادی نہیں ہوتی لیکن مثالی زندگی یقینی ہے لہٰذا کچھ حضرات نے عالم برزخ کو عالم مثال سے تعبیر کیا ہے۔

اربعین سلیمانی سے منقول ہے کہ والدین کے حقوق اولا د پر اسی (٨٠) کے قریب ہیں ان میں سے چالیس حقوق ان کی دنیوی زندگی سے اور چالیس اخروی زندگی سے مربوط ہیں دنیوی زندگی سے مربوط چالیس حقوق میں سے دس حقوق اولاد کے بدن پر دس حقوق ان کی زبان پر دس حقوق ان کے قلب پر دس حقوق ان کے مال پر ہیں جو حقوق انسان کے بدن سے مربوط ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔

١۔ والدین کے سامنے انکساری اور ان کی خدمت کرنا اس مطلب کو قرآن میں صریحا ذکر کیا ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ ) (١)

اورمحمد بن مکدر سے روایت کی گئی ہے کہ میرا ایک بھائی تھا جورات نماز اور

____________________

(١)سورۃ اسراء آیت٢٤.

۵۵

عبادت میں بسر کرتا تھا جبکہ میں اپنی والدہ کی خدمت کرتا تھا اور اس خدمت کا ثواب ان کی عبادت کے ثواب سے تبدیل کرنے میںراضی نہیں ہوتا تھا۔

٢۔ حدسے زیادہ ان کا احترام کرنا چنا نچہ اس کی تفصیل گذرگئی ۔

٣۔ والدین کے آگے اور ان کو پشت کرکے نہ بیٹھنا۔

٤۔ ان کے فرمان اور دستورات پر عمل کرنا جب کہ وہ خلاف شرع نہ ہو۔

٥۔اگر مستحب روزہ یا مستحب عبادت انجام دینا چاہیں تو ان کی اجازت سے انجام دینا ۔

٦۔ ان کی رضایت کے بغیر مستحبی سفر نہ کرنا ۔

٧۔والدین کے احترام کے لئے کھڑ ا ہوجانا اور جب تک وہ نہ بیٹھیں نہ بیٹھنا ۔

٨۔راستہ چلتے وقت اگر کوئی ضرر یا عذر شرعی نہ ہو تو ان سے پہلے نہ چلنا ۔

٩۔ہمیشہ ان کے ساتھ نیکی کرنے کی فکر کرنا ۔

١٠ ہمیشہ ان کی خدمت کے لئے تیار رہنا ۔

۵۶

اولاد کی زبان پر لازم حقوق :

١۔ نرم لہجے سے گفتگو کر نا ۔

٢۔ اپنی آواز کو ان کی آواز پر بلند نہ کرنا ۔

٣۔ زبان کے ذریعہ ناشایستہ گستاخی نہ کرنا ۔

٤۔ ان کو نام سے نہ پکارنا ۔

٥۔ جب وہ گفتگو کررہے ہوں تو قطع کلامی نہ کرنا ۔

٦۔ اگر ان کی بات خلاف شرع نہیں تو رد نہ کرنا ۔

٧۔ا ن کو امرونہی کی شکل میں خطاب نہ کرنا ۔

٨۔ بیجا اف تک نہ کہنا کہ جس سے ان کو اذیت ہوتی ہو ۔

٩۔ان کے خلاف شکایت نہ کرنا ۔

١٠۔ہمیشہ ان کے ساتھ ادب اور اخلاق حسنہ کے ساتھ گفتگو کرنے کی کوشش کرنا۔

۵۷

اولاد کے قلب پر لازم حقوق :

١۔ والدین کے لئے نرم دل ہو ۔

٢۔ ہمیشہ ان کی محبت دل میں ہو یعنی ایسا خیال نہ کرے کہ والدین نے میرے ساتھ یہ کیا یا میری کامیابی اور ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔

٣۔ ان کی خوشی میں شریک ہو ۔

٤ ۔ ان کے دکھ اور غم میں شریک ہو ۔

٥۔ ان کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھے یعنی ان کے دشمنوں سے دوستی نہ کرے۔

٦۔ ان کی بد گوی اور دیگر اذیتوں پر مغموم نہ ہو ۔

٧۔اگر والدین ظلم وستم یا مار پٹائی کرے تو ناراض نہ ہو بلکہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ کرے۔

٨۔ جتنا ان کے حقوق ادا کر ے پھر بھی کم سمجھے ۔

٩۔ ہمیشہ دل میں ان کی رضایت کو جلب کرنے کی کوشش ہو ۔

١٠۔ ان کا وجود اگر باعث زحمت اور مشقت ہو پھر بھی ان کی طول عمر کے لئے دعا کرنا۔

مذکورہ تمام حقوق کے بارے میں آئمہ معصومین (ع)سے منقول روایتیں بھی ہیں تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں تو بحار االانوار کی بحث حقوق والدین وسائل الشیعہ یا اصول کا فی وغیرہ کا مطالعہ کیجئے۔

۵۸

والدین سے مربوط مالی حقوق:

١۔ ان کو لباس اپنے لباس سے پہلے فراہم کرنا ۔

٢۔ ان کے کھا نے کو اپنے کھانے کی مانند یااس سے بہتر مھیا کرنا ۔

٣۔ان کے قرض کو ادا کرنا ۔

٤۔ ان کے سفر کے مخارج (چاہے واجب ہوں یا مستحب )دینا ۔

٥۔ ان کے فوت شدہ حج اور روزہ غیرہ انجادینا۔

٦۔ ان کو مسکن اور مکان مہیا کرنا ۔

٧۔ اپنی دولت اور ثروت ان کے حوالہ کرنا تا کہ وہ احتیا ج کے مو قع پر اپنی مرضی سے تصرف کرسکیں ۔

٨۔ ان کی زندگی کے تمام لوازمات برداشت کرنا ۔

٩۔ دولت اور ثروت کو ان کی عزت کا ذریعہ قرار دینا ۔

١٠۔ اپنے مال کو ان کا مال سمجھنا ۔

۵۹

مرنے کے بعد اولاد پر لازم حقوق:

روایات میں بیان شدہ ایسے چالیس حقوق ہیں جو والدین کے مرنے کے بعد اولاد پر لازم ہوتے ہیں :

١۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی تجہیز وتکفین کو سرعت سے انجام دینا۔

٢۔ ان کی تجہیز وتکفین وغیرہ میں ہو نے والے اخراجات پر ناراض نہ ہونا ۔

٣۔مرنے کے بعد ان کے نا م پر مو ازین شرع کے مطابق مراسم انجام دینا۔

٤۔ ان کی وصیت پر عمل کرنا ۔

٥۔ دفن کی رات ان کے نا م پر نماز وحشت پڑھنا اور دوسروں سے پڑھوانا۔

٦۔ جو مراسم شرعی ان کے نام پر انجام دیتے ہیں جیسے قرآن خوانی اور مجالس عزا وغیرہ ان کو قصد قربت کے ساتھ انجام دینا ،نہ این کہ ریا کاری اور اپنی بزرگی دکھانے کی نیت ہو ۔

٧۔ اگر تا جر یا کا روباری انسان ہے تو فورا حساب کتاب کرکے ان کے ذمہ کو ہر قسم کی دین اور قرض سے بر ی کرنا ۔

٨۔اگر ثلث مال کی وصیت کی ہے تو فورا اس کو جدا کرکے بقیہ ترکہ کو وارثین کے مابین تقسیم کرنا ۔

٩۔ ہمیشہ ان کے نام قرآن کی تلاوت کرنا ۔

١٠۔ ہر نماز کے بعد ان کے حق میں دعا کر نا خصوصا نماز شب کے موقع پر ا ن کو فراموش نہ کرنا ۔

١١۔ ہر روز ان کے نام پر صدقہ دینا ۔

١٢۔ اگر کوئی عذریا مشکل نہیں ہے تو ہر روز نماز والدین انجام دینا ۔

١٣.۔ان کے مصائب پر صبر و استقامت سے کام لینا ۔

۶۰